گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 105621
ڈاؤنلوڈ: 5724

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105621 / ڈاؤنلوڈ: 5724
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

حضرت زکریااور ان کے فرزند حضرت یحیٰی

حضرت زکریا کی عمر شریف ننانوے سال اور ان کی بیوی کی اٹھانوے سال تھی۔ اس قدر ضعیفی کے باوجود آپ رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہوئے اور پروردگار عالم سے راز و نیاز کرتے رہے:

( قَالَ رَبِّ اِنِیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْباً وَّلَمْ اَکُنْم بِدُعَائِکَ رَبِّ شَقِیّاً وَاِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَائِیْ وَکَانَتْ اِمْرَاَتِیْ عَاقِراً فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیّاً یَّرْثُنِیْ وَیَرثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًا یَازَکَرِیَّا اِنَّا نُبشَرِکَ بِغُلٰمٍنِ اسْمُهُ یَحْییٰ لَمْ نَجْعَله لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِیّاً قَالَ رَبِّ اَنّیٰ یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّکَانَتِ امْرَاَتی عَاقِراً وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَر عِتِیّاً قَالَ کذٰلِکَ قَالَ رَبُّکَ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَّقَدْ خَلَقْتُکَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَکُ شَیْئاً )

"عرض کی:اے میرے پالنے والے! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں۔ بڑھاپے سے سر کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ اے پالنے والے تیری بارگاہ میں دعا کر کے نا امید نہیں رہا ہوں اور میں (اپنے مرنے کے بعد) اپنے وارثوں سے ڈرتا ہوں(مبادا بنی اسرائیل کے میرے چچا زاد بھائی میرا ترکہ حاصل کر کے آپ کی مرضی کے خلاف خرچ کریں) اور میری بیوی (ام کلثوم بنت عمران) بانجھ ہے۔ پس تو مجھ کو اپنی بارگاہ سے ایک جانشین (فرزند)عطا فرما جو میری اور یعقوب کی نسل کی میراث کا مالک ہو اور اس کو شائستہ بندہ بنا۔ فرمایا : (اے زکریا) ہم تم کو ایک لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں ، جس کا نام یحییٰ ہو گا اور ہم نے اس سے پہلے کسی کو اس کا ہم نام نہیں پیدا کیا۔ زکریا نے عرض کی: اے میرے پروردگار! بھلا مجھے لڑکا کیونکر پیدا ہو گا اور حالت یہ ہے کہ میری بیوی تو بانجھ ہے اور خود حد سے زیادہ بڑھاپے کو پہنچ چکا ہوں۔

(خدا نے فرمایا) سچ ہے۔ حالت یہی ہے(مگر) تمہارا پروردگار فرماتا ہے: یہ بات ہم پر (کچھ دشوارنہیں) آسان ہے۔ اور (تم اپنے کو تو یاد کرو) اس سے پہلے تم کو پیدا کیا حالانکہ تم کچھ بھی نہ تھے۔"

آخر کار اللہ تعالیٰ نے زکریا (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی اور حضرت یحییٰ متولد ہوئے۔

اگر کوئی شخص لمبی مدت والی کسی بیماری میں مبتلا ہے اور اس علاج نہیں ہو رہا ہے اور بظاہر نا امید ہے تو یہ بھی دو باتوں سے خالی نہیں۔ پہلی یہ کہ مطابق احادیث بیماری اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گی۔ دوسری یہ کہ مرض طولانی ہونے کے بعد مایوسی کے عالم میں دعا و مناجات اور صدقہ سے شفا حاصل ہوتی ہے۔اس طرح نجات حاصل کرنے کی سعی ہو جاتی ہے۔

حضرت ایوب (علیہ السلام) اور بلا ئیں

انسان کو ندامت اور بصیرت حاصل کرنے کے لیے حضرت ایوب (علیہ السلام) کے حالات کا مطالعہ کرنا چاہیئے۔ سات سال یا بنا بر روایت ِ دیگر اٹھارہ سال شدید مرض وتکلیف میں مبتلا ہونے کے بعد عرض کیا:

( رَبِّ اِنِّیْ مَسَّنِیَ الُضّرُّوَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ) ۔

"اے میرے پروردگار! بے شک میں ضرر (جانی و مالی) سے دوچار ہوں ۔ اب تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے (اور تیری ہی امید ہے)۔"

اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی، بیماری سے شفا عطا فرمائی اور مال و دولت واپس دے دیا۔

فقر و تنگ دستی میں حکمت پوشیدہ ہے

اگر کوئی عرصہ دراز پریشانی کی حالت میں رہا ہو اور چاروں طرف سے راہ ِ نجات مسدود ہو گئی ہو تو یہ دو حالتوں سے باہر نہیں۔ اول یہ کہ اس کی تنگ دستی و پریشانی میں ایسی حکمت و مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے کہ اگر ابتدا سے وہ خود آگاہ ہوتا تو اسی فقیری کو اختیار کرتا اور اس پریشانی کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیتا اور خوش حال رہتا۔ دوئم یہ کہ جو لوگ صبح کا وقت نہایت فقیری اور بے توانی میں گذار لیتے ہیں وہ شام کے وقت انتہائی آرام و آسائش سے بے نیا ز ہو جاتے ہیں۔

خالی ہاتھ میں دولت

نمونے کے طور پر ایک عجیب و غریب کہانی کتاب "فرج بعد الشدہ" سے یہاں نقل کی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ: ایک بڑا تاجر کہتا ہے کہ میں حج کے سفر میں تھا ۔ میرے ساتھ تین ہزار دینار سونے اور جواہرات کی تھیلی تھی جسے میں اپنے کمر بند میں باندھے ہوئے تھا۔ ایک مقام پر رفع حاجت کے لیے کمر بند کھول کر بیٹھا تو وہیں تھیلی گر گئی۔ وہاں سے آگے کئی میل دور جانے کے بعد مجھے یاد آیا۔ لیکن واپسی ممکن نہ تھی۔ چونکہ میرے پاس مال و دولت بکثرت تھی اس لیے میں چنداں متاثر نہیں ہو ۔ اتفاقاً جب وطن واپس پہنچا تو گرفتاریوں اور پریشانیوں کے دروازے میرے سامنے یکے بعد دیگرے کھلنے لگے اور بتدریج سارے اموال میرے ہاتھ سے نکل گئے۔ میری عزت ، ذلت میں تبدیل ہو گئی۔ دوست احباب سے شرمندگی ، دشمن کی چہ می گوئی اور مال و اقبال کی بربادی سے تنگ آکر وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ مسافرت کے دوران رات کسی دیہات میں بسر کی۔ میرے ساتھ مال دنیا میں چاندی کے سکے کا چھٹا حصہ تھا۔ اندھیری رات کے علاوہ بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں اپنی بیوی کے ساتھ ایک معمولی مسافر خانے میں رات گذارنے چلا گیا۔ اتفاقاً وہیں بیوی کے وضع حمل کے آثار نمودار ہونے لگے اور بچہ کی ولادت بھی ہو گئی۔ بیوی مجھ سے کہنے لگی کہ مجھے جلد از جلد کچھ کھانے کے لیے دو ورنہ میں بھوک سے مر جاؤں گی۔ چنانچہ نہایت پریشانی کے عالم میں ایک سبزی فروش کے مکان پر گیا۔ مجبوری ظاہر کی تو بڑی مشکل سے دروازہ کھولا۔ میں نے چاندی کا سکہ اسے دے دیا۔ اس نے تھوڑا سا دہی اور گھی ٹھیکرے کے برتن میں لا کر مجھے دیا۔ یہ لے کر جب مسافر خانہ کے نزدیک پہنچا تو میرے پاؤں پھسل گئے اور میں گِر پڑا۔ ٹھیکرے کا برتن ٹوٹ گیا اور جو کچھ اس میں تھا وہ گر گیا۔ اس وقت میرے صبر کا پیمانہ چھلک گیا، زندگی سے جی بھر گیا، دونوں ہاتھوں سے اپنے رخساروں پر طمانچے مارنے لگا اور بے اختیار بلند آواز سے رونا شروع کر دیا۔ سامنے ہی بلند و بالا شان دار مکان تھا۔ ایک آدمی نے اس کھڑکی سے سر نکال کر مجھے آواز دی کہ اس آدھی رات کو تم کیا شورو غل کر رہے ہو اور ہمارے آرام کو کیوں خراب کر رہے ہو؟ تم کون ہو؟

جواباً میں نے اپنا تمام ماجرا مختصراً اُسے سنایا تو وہ کہنے لگا یہ سارا شور و فریاد کیا صرف چاندی کا سکہ ضائع ہونے پر کر رہے ہو؟ شرم کرو۔

ا س کی باتوں سے میرا دل مزید جل گیا۔ میں نے کہا : بھائی خدا بہتر جانتا ہے میں اس قدر کم ظرف و نادار نہیں تھا۔ لیکن اس وقت میں اور میری بیوی و بچہ بھوک کی شدت سے جان بلب ہیں۔ میں بیوی اور بچہ کی حالت سے پریشان ہوں۔ خدا کی قسم فلاں سال میں نے حج کیا تھا اور بہت ثروت مند تھا۔ فلاں منزل پر تین ہزار دینار اور سونا جواہر سے بھری ہوئی تھیلی گم ہو گئی جس سے میں متاثر نہیں ہو۔ چونکہ اور بھی دھن دولت محفوظ تھا۔ آپ اللہ سے ڈریں اور مجھے بُرا بھلا نہ کہیں۔جب یہ باتیں اس نے سنیں تو کہنے لگا کہ تیری تھیلی کی کیا نشانی ہے؟ مجھے رونا آیا اور کہا کہ آپ مجھے اس موقع پر یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ وہ گھر سے باہر آیا اور کہنے لگا جب تک اپنی تھیلی کی نشانی نہ بتاؤ گے میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔

پس میں نے اس کو نشانیاں بتائیں تو میرا ہاتھ پکڑ کر وہ اپنے گھر لے گیا اور کہا تیرے بیوی اور بچے کہا ں ہیں۔ میں نے ان کا پتہ بتایا۔ اس نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ جا کر اُنہیں لے آئے۔ چنانچہ غلام گیا اور لے آیا اور اپنے حرم سرا میں جگہ دے دی اور دیگر ضروریات فراہم کر دیں۔ جب صبح نمودار ہوئی تو کہنے لگا کہ اپنی بیوی کے صحت یاب ہونے تک تم یہیں رہو۔ دس دن تک مہمان کی طرح پذیرائی کرتا رہا اور روزانہ دس بیس دینار بھی دیتا رہا۔ میں ان سب باتوں سے متعجب ہو ا کہ آخر اس قدر نوازش کیوں؟ پھر اس نے سوال کیا تمہارا کیا کاروبار ہے؟

میں نے کہا تجارت پیشہ ہوں اور اس فن میں مہارت رکھتا ہوں۔

میزبان نے کہا میں تم کو سرمایہ فراہم کرتا ہوں ۔ تم شراکت پر خرید و فروخت شروع کرو ۔ پھر دو سو دینار مجھے دئیے اور میں نے کاروبار شروع کر دیا۔ کچھ مدت بعد جتنا فائدہ حاصل ہوا تھا اس کے سامنے پیش کیا۔وہ دوسرے کمرے میں گیا اور ایک تھیلی لے آیا۔ یہ وہی تھیلی تھی جو سفر حج میں کھو گئی تھی۔ اسے دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی، حیرانی ہوئی۔ یہاں تک کہ میں بے ہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو میں نے کہا: اللہ ،اللہ ،اللہ یہ وہی تھیلی ہے جو سفر حج میں گم ہو گئی تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اجازت لے کر اپنے وطن لوٹا۔ اس سے دوبارہ رحمت کے دروازے کھلنے لگے اور عیش و عشرت سے زندگی بسر ہونے لگی۔

( عَسَیٰ اَنْ تَکْرَهُواشَیْئاً وَّهُوَ خَیْرٌ لکُمْ وَعَسَیٰ اَنْ تُحِبُّوا شَیْئاً وَّهُوَ شَرُّ لَکُمْ ) ط

"عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بُری ہو۔"

( سَیَجْعَلُ اللّٰهُ یَعْهَ عُسْرٍ یپسْراً ) ط

"خدا عن قریب ہی تنگی کے بعد فراخ عطا کرے گا۔"

مشکلا ت میں نا امیدی کا علاج

اگرکوئی زمانے کے حادثات میں مبتلاہوجائے تودوچیزوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنا چاہئیے۔

اوّل یہ کہ اس دنیاکی زندگی ہروقت آزمائش اورحادثات سے ٹکراؤ کرتی رہتی ہے اورکوئی ان سے بچ نہیں سکتا۔

دوسرے یہ کہ دوسرے لوگوں کی پریشانیوں اوربرے حالات پرنظررکھناچاہئیے جواس کی حالت سے بدترہے اسطرح کے تقابل سے غمزدہ دل کو سکون حاصل ہوتا ہے۔انسان جتنے بھی مصائب وآلام سے دوچار ہوجائے پھربھی رحمتِ الٰہی سے ہرگزناامیدنہیں ہونا چاہیئے۔چونکہ ماضی میں بے شمارلوگ زمانے کے عجیب وغریب حادثات اورمصائب سے دوچار ہوئے اورچھٹکارے کاتصوّربھی نہیں تھامگرخدائے رحیم نے ان کونجات بخشی۔چنانچہ کتاب’فرج بعدالشّدة‘ میں محترم مولَف جناب حسین بن سعیددہستانی نے پانچ سو سے زیادہ ان لوگوں کی روایتیں نقل کی ہیں جن کوسختی وپریشانی کے بعدآسانی وراحت ملی۔اس کے علاوہ ہمارے تجربات شاہدہیں کہ بزرگانِ دین کے توسّل کی برکت اورصدقہ ودعاء کے اثرسے بہت سی سختیوں میں گرفتاراشخاص آزاد ہوئے۔

مذکورہ کتاب میں مدینہ کے کسی بزرگ سے یہ روایت منقول ہے؛وہ کہتاہے کہ میں نعمت ودولت سے مالا مال تھا ۔اچانک فقروناداری میں مبتلا ہوگیا۔چنانچہ جناب حضرت جعفرصادق کی خدمت میں باریاب ہو کر اپنی پریشانی عرض کی۔آپ نے میری حالت دیکھ کر بہت ترس کھایااوراظہارِ ہمدردی کیانیزیہ اشعار میری تسلّی کیلئے ارشادفرمائے

فَلَا تَجْزَعْ وَاِنْ اَعْسَرْتَ یَوْماً

فَقَدْ اَیْسَرْتَ فِی الدَّهْرِ الطَّوِیْلِ

اگرکچھ دن سختی میں رہو تو بے صبری نہ کرنا ۔چونکہ تم نے طویل مدّت آرام و آسائش میں بسر کی ہے۔

فَاِنَّ الْعُسْرَ یَتْبَعُهُ الْیَسَارا

وَقَوْلُ اللّٰهِ اَصْدَقَ کُلَّ قِیْلٍ

پس بے شک ہر سختی کے بعد آسانی ہے ۔اوراللہ کاقول ہرقول سے سچا ہے۔

فَلَایتَأ سَ فَاِنَّ الْیَاْسَ کُفْرٌ

لَعَلَّ اللّٰهَ یُغْنِیْ عن قَلیْلٍ

تومایوس نہ ہونابیشک ناامیدی کفر ہے۔شاید اللہ قلیل مدّت میں تجھے بے نیاز کردے ۔

فَلَا تَظْنُنْ بِرَبِّکَ ظَنَّ سَوْءٍ

فِاِنَّ اللّٰهَ اَوْ فیٰ بِالْجَمِیْلِ

پھراسکے بعد اپنے رب سے بدگمان نہ ہو جانا۔یقینااللہ اچھے پیرائے میں اپنا وعدہ پوراکریگا۔

فَلَوْ اَنَّ الْعُقُوْلَ یَسُوْقُ رزقاً

لَکَانَ الْمَالُ عِنْدَ زَوِیْ الْعُقُوْلِ

اگرلوگوں کی عقلیں رزق پیدا کرنے کاسبب ہوتیں تودنیا کامال ودولت صرف عقلاء کے ہاتھوں میں ہوتا۔

فَلَا تَی سْ اِذا مَانابَ خَطْبٌ

فَکَمْ فِیْ الْغَیْبِ مِنْ عَجَبٍ عَجِیْبٍ

خبردار! اگرتم سختی کے جال میں پھنس جاؤ توناامیّد نہ ہونا۔چونکہ پس پردہ قدرت کے عجیب وغریب کرشمے پوشیدہ ہیں۔

راوی کہتاہے جب میں نے امام (علیہ السلام)سے یہ اشعارسنے تواسقدرخوشی اور اطمینان خاطر ہوگیا کہ ناامیدیاں امید میں تبدیل ہوگئیں رحمت کے دروازے میرے سامنے کھلنے لگے اور بہت جلد اللہ تعالیٰ نے غم وفکر سے آزاد کردیا۔

قَابِلِ توجّہ

اس کتاب میں حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ سارے ہموم وغموم اور سختیاں دور ہونے کیلئے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی جائے

( لَااِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمیْنْ اَللّٰهُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکَ بِهِ شَیْئًا )

یاد رکھےئے مایوسی تمام گزشتہ گناہوں سے بدتر ہے چونکہ مایوسی اس بات کی دلیل ہے کہ عبدو معبود کارشتہ منقطع ہوگیا اور فطرت اولیہ سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔ ورنہ جب تک ذرہ برابر ایمان کسی کے دل میں موجود رہتا ہے تو اس کا پالنے والے سے لاتعلق ہونامحال ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ناامیدی کے عالم میں عقلت سے لاشعوری طور پر ساری امیدیں منقطع ہو جائیں پھر رحمت واسطہ الہٰی کی طرف متوجہ ہو جائے اور ناامیدی کے گناہ سے توبہ کرے۔

بغیراستثناء سارے گناہ قابلِ بخشش ہیں

قرآن مجید اورمتواتر احادیث اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ بغیر استثناء و تخصیص کے عمومی طور پر تمام گناہ جو انسان سے سر زد ہوتے ہیں ندامت و توبہ کے بعد قابل بخشش ہیں۔ اور یہ کہنا غلط ہے کہ فلاں گناہ توبہ و انابہ کے بعد بھی بخشنے کے قابل نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

( هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوبَةَ وَیَغفُوْ عَنِ السَّیِئَاتِ وَیَعْلَمُ مَاتَفْعَلُوْنَ )

(سورہ ۴۲ ۔آیت ۲۵)

"اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف کرتا ہے اور تم جو بھی کرتے ہو اُسے جانتا ہے۔"

اللہ نے اپنا نام تَوَّابٌ توبہ قبول کرنے والا غَفَّارٌ بخشش کرنے والا غَفُوْرٌ زیادہ مغفرت کرنے والا( غَافِرُ الذَّنْبِ ) گناہوں سے در گزر کرنے والا( قَابِلُ التَّوْبِ ) توبہ قبول کرنے والا، رکھا ہے۔

خدا وند عالم نے بغیر استثناء گناہ گاروں کو اپنی طرف پلٹنے کی عمومی دعوت دی ہے اور ان کو توبہ کا حکم دیا ہے۔ اس بارے میں سورہ مبارکہ الزمر کی ۵۴ ویں آیت کے مفہوم پر اگر غور کیا جائے تو اس صورت میں گناہ گاروں کی نا امیدی دور ہو جاتی ہے۔ اِسے آیت رحمت بھی کہتے ہیں۔

( قُلْ یَاعِبَادیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِهمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰه یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّه هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمْ ) ۔

"اے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) تم کہہ دو اے میرے بندو جنہوں نے (گناہ کبیرہ کر کے) اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں (یعنی افراط کر کے حد سے گزر گئے ہیں) تم لوگ خدا سے نا امید نہ ہونا بے شک خدا (تمہارے) سارے گناہوں کو بخش دے گا۔ بے شک خدا بڑا بخشنے والا ہے اور (بندوں پر) مہربان ہے۔"

لطیف نکات

اس آیہ شریفہ میں چند نکات قابل ملاحظہ ہیں: اول یہ کہ فرمایا "یَاعِبَادِیْ" اے میرے بندو، یہ نہیں فرمایا "یَا اَیُّھَاالْعُصَاةُ" اے گناہ گارو۔ اگر چہ گناہوں میں ملّوث ہیں۔ پھر بھی عبد کو اپنی طرف نسبت دیتا ہے تا کہ کمال لطف و مرحمت کے اظہار سے بندے کی ناامیدی ، امید میں بدل جائے۔ دوئم یہ کہ "اَسْرَفُوْا" فرمایا ۔ اس خطاب میں نرمی اور عنایت کا پہلو ملتا ہے اور نہیں فرمایا "اَخْطَئُوْا" یعنی (اے خطا کارو) تاکہ بندہ گناہ گار کی دل شکنی نہ ہو اور نہ وہ مایوس ہو جائے۔

نا امیدی حرام ہے

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہوں میں مرتکب افراد سے فرمایا "( لا تَقْنَطُوا ) " تم لوگ رحمت خدا سے نا امید نہ ہونا۔ یہاں صیغہ نہی استعمال ہوا ہے۔ یہ بات واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ رحمت خدا سے مایوس ہونا ممنوع اور مغفرت سے نا امید ہونا حرام ہے۔

چوتھا نکتہ یہ کہ "( لا تَقْنَطُوا ) " کی تسلّی کافی تھی۔ اس کے باوجود تاکید کے طور پر ایک جملہ اور اضافہ فرمایا اِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ اللہ تعالیٰ بلا استثناء تمام گناہوں کی مغفرت کے لیے عمومی اعلان کرتا ہے۔

پانچواں نکتہ کلمہ "جَمِیْعاً" سے یہ مطلب روشن ہوتا ہے کہ مغفرتِ خداوندی کسی خاص گناہ کے لیے مخصوص نہیں بلکہ تمام گناہوں کی مغفرت کی بشارت ہے۔

چھٹا نکتہ دوسری مرتبہ "اِنَّهُ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمِ " کہہ کر تاکید میں شدت کا اظہار فرمایا۔ یعنی اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخشنے والا مہربان ہے۔

پیغمبر کے قاتل کی بھی توبہ قبول ہوتی ہے

عَنْ جَابِر اَنَّهُ قَالَ جَائَت اِمْرَاةٌ النَّبِیّ (ص)فَقَالَتْ یَانَبِیَّ اللّٰهِ اِنِ امرَاَةٌ قَتَلَتْ وَلَدَهَا بِیَدِهَا هَلْ لَهَا مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ لَهَا وَالَّذِیْ نَفْسَ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ لَوْ اَنَّهَا قَتَلَتْ سَبْعِیْنَ نَبِیّاً ثُمَّ تابَتْ وَنَدِمَتْ وَیَعْرِفُ اللّٰهُ مِنْ قِبْلِهَا اَنَّهَا لَا تَرْجِعُ اِلٰی الْمعْصِیةِ اَبَداً لَقَبَّلَ اللّٰهُ تَوْبَتَهَا وَعَفیٰ عَنْهَا فَاِنَّ بَابِ التَّوْبَةِ مَفْتُوْحٌ مَّا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَاَنَّ التَّائِبَ من الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَه (الی الاخبار۔ باب ۳ ۔ص ۲۳)

"جابربن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ انھوں نے کہاایک عورت حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی اگر کوئی عورت اپنے ہاتھ سے اپنے بچے کو قتل کرے تو کیا اس کے لیے توبہ ہے ؟ آپ نے فرمایا اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جان ہے اگر اس عورت نے سترپیمغبروں کو بھی قتل کیا ہو اور وہ نادم ہو کر توبہ کرے اور خدا ئے تعالیٰ اس کی سچائی اور خلوص کو جانتا ہو ، بایں معنی کہ دوبارہ معصیت نہیں کرے گی اس صورت میں ضرور اس توبہ قبول کر لی جائے گی اور اس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے بے شک توبہ کا دروازہ مشرق سے مغرب تک کھلا ہے اور یقینا گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جسے اس نے سرے سے گناہ کیا ہی نہ ہو ۔

قبولیت دعاء میں بھی ناامیدی غلط ہے

اگر کوئی شخص شرعی حاجت یا اخروی مطالب کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے لیکن وہ دعا قبولیت حاصل نہ کر سکے اور سائل مایوس ہو جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ اَوَّلاً جاننا چاہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور اس سے وعدہ خلافی ہر گز نہیں ہوتی کیونکہ وہ عمومی طور پر دعا کا حکم فرماتا ہے اور قبولیت کا وعدہ بھی کیا ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَاِذا سَالَکَ عِبَادِیْ عِنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوا لِی ) ط (سورہ ۲ آیت ۱۸۶)

(اے رسول ) جب میرے بندے میرا حال تم سے پوچھیں تو (کہہ دو کہ)میں ان کے پاس ہی ہوں ۔اور جب کوئی مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں ہر دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں اور (جب بھی مناسب ہو ) اجابت کرتا ہوں۔ اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے :

( قَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )

اورتمہارا پروردگار ارشاد فرماتا ہے کہ تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ خداوند ِ علیم و حکیم کسی حکمت و مصلحت کی بنا پر دعا کی قبولیت میں تاخیر بھی کر سکتا ہے۔ اس لئے جلد نا امید نہ ہونا چاہیئے۔

گناہوں کے باعث دعا قبول نہیں ہوتی

کبھی گناہوں کی وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی در حقیقت دعا کی قبول ِ درگاہ ہونے میں تاخیر اس لئے ہوتی ہے کہ خدا وند ِ عالم اپنا لطف و کرم اس کے شامل کرنا چاہتا ہے اور بار بار توفیق ِ دعا دے کر اسے اپنے مطالب میں کامیاب کرنا چاہتا ہے اور تاخیر کی مدت میں مسلسل توفیق ِ دعا ء دینا اپنی جگہ ایک بزرگ نعمت ِ الٰہی ہے ۔

دوسرا قابل ِ توجہ نقطہ یہ ہے کہ تسلسل ِ دعا ء کے نتیجے آخر کار اس کی دعا ء کو وہ مستجاب کرنا چاہتا ہے اور بندے کی آواز بار بار سننا چاہتا ہے ۔

قبولیت ِدعاء میں تاخیر باعث قربت ہے

کبھی دعاء قبول ِ درگاہ ہونے میں اس لئے تاخیر ہوتی ہے کہ دعاء بزرگ ترین عبادت ہے ۔اور اس کو ہمیشہ برقرار رکھنا رحمت ِ خدا وندی سے قریب تر ہونے کا سبب بنتا ہے اس لئے جسے وہ چاہتا ہے کہ خیرو خوبی کی توفیق دے اور لطف و عنایت سے نوازے تو اس کی دعاء قبول کرنے میں تاخیر کرتا ہے ۔

علامہ مجلسی حیات القلوب میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقر سے یہ صحیح و مستند حدیث روایت ہے کہ حضرت ابراہیم آبادیوں اور صحراوں میں اس لئے پھرتے تھے کہ مخلوقات ِ پروردگار سے عبرت حاصل کریں ۔انھوں نے ایک دن کسی میدان میں ایک شخص کونمازپڑھتے ہوئے دیکھا اس کے کپڑے بالوں سے بنائے ہوئے ہیں اورفضا اس کی آواز سے گونج رہی ہے۔حضرت ابراہیم کواس حالت سے تعجب ہوا اور اس کے نزدیک جاکربیٹھ گئے یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوگیا۔

حضرت ابراہیم نے فرمایاکہ مجھے تمھاری یہ روش پسند آئی۔چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ دوستی کروں بتاؤ تمھارا گھر کہاں ہے تاکہ جب چاہوں تم سے ملاقات کر سکوں ۔

اس نے عرض کی جہاں سے میں گزرتا ہوں وہاں سے تو عبور نہیں کر سکتا۔

فرمایا کیوں ؟

اس نے کہا میں پانی کہ اوپر چلتا ہوں۔

آپ نے فرمایا وہ خدا جس نے تم کو پانی کے اوپر چلنے کی قدرت دی ہے وہی خدا میرے لئے پانی کو مسخّر بھی کر سکتا ہے ۔اٹھو!ہم دونوں ایک ساتھ چلیں گے اورآج رات میں تمھارے گھر ٹھہروں گا۔

جب دریا کہ نزدیک پہنچے تواس شخص نے بسم اللہ کہہ کر دریا کوپار کر لیاحضرت ابراہیم نے بھی بسم اللہ پڑھ کر دریاعبورکرلیا۔اس شخص کو حیرت ہوئی ۔اس کے بعددونوں گھرمیں داخل ہوگئے حضرت ابراہیم نے اس شخص سے دریافت کیاکہ کونسا دن تمام دنوں سے زیادہ سخت ہے۔

عابد نے کہا وہ دن سخت ترین ہوگا جب اللہ اپنے بندوں کو اعمال کی جزاء دے گا۔

حضرت ابراہیم نے کہا آؤ ہم دونوں مل کر دعاء کریں کہ خدا ہم کو اس دن کے شر سے محفوظ رکھے۔

دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خلیل اللہ نے فرمایا آؤ ہم دونوں ملکر گنہگارمومنین کیلئے دعاء کریں۔

عابد نے کہا میں دعاء نہیں کروں گاکیونکہ میں اللہ تعالیٰ سے ایک حاجت کیلئے تیس سال سے مسلسل دعاء کررہا ہوں ، مگر وہ اب تک پوری نہیں ہوئی تو دوسری حاجت کی گنجائش کہاں،لہٰذا میں اس سے مطالبہ ہی نہیں کروں گا ۔

حضرت ابراہیم نے فرمایا :اے عابد جب بھی اللہ کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو اس کی دعاء روک لیتا ہے تاکہ وہ بندہ اپنے معبود سے بار بار ازونیازکرے اور طلب کرے ۔اور جب اللہ کسی بندہ سے دشمنی رکھتا ہے تو اسکی دعاء فوراً مستجاب ہو جاتی ہے یا اس کے دل میں مایو سی ڈ ال دیتا ہے تاکہ وہ دعاء نہ کرے۔

آپ نے عابد سے پوچھا بتاؤ تمھاری کیا حاجت تھی جو قبول نہیں ہوئی

عرض کیا: ایک دن اسی جگہ جہاں میں نماز پڑھ رہا تھا ایک ایسے بچے کو دیکھا جس کے حسن و جمال سے نورانی چہرہ چمک رہا تھا۔ وہ گائے بھیڑ اور بکریاں چرا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا یہ سب کس کے جانور ہیں؟ جواب دیا کہ یہ سب میری ملکیت ہے۔ میں نے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے کہا میں خلیل خدا ابراہیم (علیہ السلام) کا بیٹا ہوں اسماعیل۔ اس وقت سے میں دعا کر رہا ہوں کہ : اپنے دوست ابراہیم (علیہ السلام) کی زیارت کروا دے اور اسے پہنچوا دے۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: اب تیری دعا قبول ہوئی۔ وہ ابراہیم (علیہ السلام) میں ہی ہوں۔ پس عابد خوش ہو گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے گلے سے لگایا۔ سر ،آنکھوں اور ہاتھوں کو چومنے لگا اور شکر خدا بجا لایا۔ اس کے بعد دونوں نے مل کر مومنین و مومنات کے حق میں دعا کی