• ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5877 / ڈاؤنلوڈ: 2412
سائز سائز سائز
انسانی رفعت

انسانی رفعت

مؤلف:
اردو

معراجِ انسانیت سیرتِ حضرت خاتم الانبیاء کی روشنی میں

آپ چالیس برس کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے۔ ۱۳ سال ہجرت کے قبل مکہ کی زندگی ہے اور دس سال بعد ہجرت مدینہ کی زندگی۔

یہ تینوں دور بالکل الگ الگ کیفیت رکھتے ہیں جن میں سے ہر دور بالکل یک رنگ ہے۔ کسی تلون اور غیرمستقل مزاجی کا مظھر نھیں ہے مگر وہ سب دور آپس میں بھت مختلف ہیں۔

پھلے چالیس برس کی مدت میں زبان بالکل خاموش اور صرف کردار کے جوھر نمایاں یھی آپ کی سچائی کا ایک نفسیاتی ثبوت ہے۔ کیونکہ جو غلط دعویدار ہوتے ہیں ان کے بیانات و اظہارات کی رفتار کو دیکھاجائے تو محسوس ہو گا کہ وہاں پھلے ان کے دل و دماغ میں تصور آتا ہے کہ ہمیں کوئی دعویٰ کرنا چاھئے مگر انھیں ہمت نھیں ہوتی اس لئے وہ کچھ مشتبہ الفاظ کھتے ہیں جن سے کبھی سننے والوں کو وحشت ہوتی ہے اور کبھی اطمینان پھر وہ رفتہ رفتہ قدم آگے بڑھاتے ہیں پھلے کوئی ایسا دعویٰ کرتے ہیں جس کو تاویلات کا لباس پھنا کر رائے عامہ کے مطابق بنایا جا سکے یا جس کی حقیقت کو صرف خاص خاص لوگ سمجھ سکیں۔ اور عام افراد محسوس نہ کریں۔ جب جھجھک نکل جاتی ہے تو پھر جی کڑا کرکے کھل کر دعویٰ کر دیتے ہیں۔ اس کی قریبی مثالیں علی محمد باب اور غلام احمد قادیانی میں بھت آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔

حضرت پیغمبر اسلام کی زبان سے چالیس برس تک کوئی لفظ ایسی نھیں نکلی جس سے لوگ ادعائے رسالت کا توھم بھی کر سکتے یا کوئی بے چینی اس حلقہ میں پیدا ہوتی۔ غلط سے غلط روایت بھی ایسی نھیں جو بتائے کہ کفار نے کسی آپ کی لفظ سے ایسے دعویٰ کا احساس کیا ہو جس پر ان میں کوئی برھمی پیدا ہوئی ہو اور پھر آپ کو اس کے متعلق صفائی پیش کرنے کی ضرورت ہوئی ہو۔ بلکہ اس دور میں آپ کا کام صرف اپنی سیرتِ بلند کی عملی تصویر دکھانا تھی جس نے ایک مقناطیسی جذب کے ساتہ دلوں کو تسیخر کر لیا تھا اور آپ کی ہردلعزیزی ہمہ گیر حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے بعد چالیس برس کی عمر میں جب دعوائے رسالت کیا تو وہ بالکل وھی تھا جو آخر تک آپ کا دعویٰ رھا۔ یہ نھیں ہوا کہ پھلے اس دعویٰ میں خفت ہو، پھر شدت پیدا ہو۔ یا پھلے دعویٰ کچھ ہو اور پھر رفتہ رفتہ اس میں ترقی ہوئی ہو۔

اب اس دعویٰ رسالت کے بعد آپ کو کتنے مصائب و تکالیف برداشت کرنا پڑے وہ سب کو معلوم ہیں۔ یہ پرآشوب دور وہ تھا کہ جب سر مبارک پر خس و خاشاک پھینکا جاتا تھا، جسم اقدس پر پتھروں کی بارش ہوتی تھی۔ تیرہ برس اس طرح گزرتے ہیں مگر ایک دفعہ بھی ایسا نھیں ہوتا کہ ان کا ہاتہ تلوار کی طرف چلا جائے اور ارادہ جھاد کا کیا جائے۔

اگر کوئی رسول کی زندگی کے صرف اس دور ہی کو دیکھے تو یقین کرے گا کہ جیسے آپ مطلق عدم تشدد کے حامی ہیں یہ مسلک اتنا مستقل ہے کہ کوئی ایذارسائی، کوئی دل آزاری اور کوئی طعن و تشنیع آپ کو اس راستے سے نھیں ہٹا سکتی۔ پھلے چالیس برس ہی کی طرح اب یہ رنگ اتنا گھرا اور یہ مسلک اتنا راسخ ہے کہ اس کے درمیان کوئی ایک واقعہ بھی اس کے خلاف نمودار نھیں ہوتا۔ کوئی بے بس اور بے کس بھی ہو تو کسی وقت تو اسے جوش آھی جاتا ہے اور وہ جان دینے اور جان لینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے پھر چاھے اسے اور زیادہ ہی مصائب کیوں نہ برداشت کرنا پڑیں مگر ایک دو برس نھیں تیرہ سال مسلسل اس غیرمتزلزل صبر و سکون کے ساتہ وھی گزار سکتا ہے جس کے سینہ میں وہ دل اور دل میں وہ جذبات ہی نہ ہوں جو جنگ پر آمادہ کر سکتے ہیں۔

اسی درمیان میں وہ وقت آتا ہے کہ مشرکین آپ کے چراغ زندگی کے خاموش کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور ایک رات طے ہو جاتی ہے کہ اس رات سب مل کر آپ کو شھید کر ڈالیں۔ اس وقت بھی رسول تلوار نیام سے باہر نھیں لاتے۔ کسی مقاومت کے لئے کھڑے نھیں ہوتے بلکہ بحکمِ خدا شھر چھوڑ دیتے ہیں۔ جو معرفت محمد نہ رکھتا ہو وہ اس ہٹنے کو کیا سمجھے گا؟ یھی تو کہ جان کے خوف سے شھر چھوڑ دیا۔ اور پھر حقیقت بھی یہ ہے کہ جان کے تحفظ کے لئے یہ انتظام تھا مگر فقط جان نھیں بلکہ جان کے ساتہ ان مقاصد کا تحفظ جو جان کے ساتہ وابستہ تھے بھرحال اس اقدام یعنی ترک وطن کو کوئی کسی لفظ سے تعبیر کرے مگر اسے دنیا مظھر شجاعت تو نھیں سمجھے گی اور صرف اس عمل کو دیکہ کر اگر اس ذات کے بارے میں کوئی رائے قائم کرے گا تو وہ حقیقت کے مطابق نھیں ہو سکتی بلکہ گمراھی کا ثبوت ہو گی۔

اب ترپن برس کی عمر ہے اور آگے بڑھاپے کے بڑھتے ہوئے قدم ہیں بچپنا اور جوانی کا اکثر حصہ خاموشی میں گزرا ہے پھر جوانی سے لے کر ادھیڑ عمر کی منزلیں پتھر کھاتے اور برداشت کرتے گزر رھی ہیں اور آخر میں اب جان کے تحفظ کے لئے شھر چھوڑ دیا ہے بھلا کسے تصور ہو سکتا ہے کہ جو ایک وقت میں عافیت پسندی سے کام لیتے ہوئے شھر چھوڑ دے وہ عنقریب فوجوں کی قیادت کرتا ہوا نظرآئے گا حالانکہ مکہ ہی نھیں بلکہ مدینہ میں آنے کے بعد بھی آپ نے جنگ کی کوئی تیاری نھیں کی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک سال کی مدت کے بعد جب دشمنوں کے مقابلہ کی نوبت آئی تو آپ کی جماعت میں جو کل جمع ۳۱۳ آدمیوں پر مشتمل تھی صرف ۱۳ عد تلواریں تھیں اور دو گھوڑے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک سال کی تیاری کا نتیجہ یہ نھیں ہو سکتا تھا۔ جبکہ اس ایک سال میں تعمیری خدمات بھت سے انجام پا گئے۔ مدینہ میں کئی مسجدیں بن گئیں مھاجرین کے قیام کے لئے مکانات تیار ہو گئے۔ بھت سے دیوانی و فوجداری کے قوانین نافذ ہوگئے اور اس طرح جماعت کی مملکتی تنظیم ہو گئی مگر جنگ کا کوئی سامان فراھم نھیں ہوا۔ اس سے بھی پتا چل رھا ہے کہ آپ کی طرف سے جنگ کا کوئی سوال نھیں ہے مگر جب مشرکین کی طرف سے جارحانہ اقدام ہو گیا تو اس کے بعد بدر ہے، احد ہے، خندق ہے، خیبر ہے اور حنین ہے۔ پھر یہ نھیں کہ اپنے گھر میں بیٹہ کر فوجیں بھیجی جائیں اور فتوحات کا سھرا اپنے سر باندھا جائے بلکہ رسول خدا کا کردار یہ ہے کہ چھوٹے اور غیراھم معرکوں میں تو کسی کو سردار بنا کر بھیج دیا ہے مگر ہر اھم اور خطرناک موقع پر فوج کے سردار خود ہوتے ہیں اور یہ نھیں کہ اصحاب کو سپر بنائے ہوئے ان کے حصار میں ہوں۔ بلکہ اسلام کے سب سے بڑے سپاھی حضرت علیع بن ابی طالبع کی گواھی ہے کہ جب جنگ کا ہنگامہ انتھائی شدت پر ہوتا تھا تو ہمیشہ رسول اللہ ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب ہوتے تھے پھر یہ بھی نھیں کہ یہ قیام فوج کے سھارے پر ہو بلکہ احد میں یہ موقع بھی آ گیا کہ سوا دو ایک کے باقی سب مسلمانوں سے میدان جنگ خالی ہو گیا۔ مگر اس وقت وہ جو کچھ پھلے ظاہر جان کے تحفظ کے لئے شھر چھوڑ چکا تھا وہ اس وقت خطرہ کی اتنی شدت کے ہنگا م میں جب آس پاس کوئی بھی سھارا دینے والا نظر نھیں آتا اپنے موقف سے ایک گام بھی پیچھے نھیں ہٹتا۔ زخی ہو جاتے ہیں، چھرہ خون سے تر ہو جاتا ہے خود کی کڑیاں ٹوٹ کر سر کے اندر پیوست ہو جاتی ہیں۔ دندان مبارک مجروح ہو جاتے ہیں۔ مگر اپنی جگہ سے قدم نھیں ہٹاتے۔

اب کیا عقل و انصاف کی رو سے مکہ سے ہجرت کو خوف جان سے اس معنی میں سمجھا جا سکتا ہے جس سے شجاعت پر دھبہ آ ٓئے؟ ہرگز نھیں۔ یھی ہم نے پھلے کھا تھا کہ صرف اس عمل کو دیکہ کر جو رائے قائم کی جائے گی وہ گمراھی کا ثبوت ہو گی اس گمراھی کا پردہ اب اس وقت تو یقیناً چاک ہو جانا چاھئے۔

شجاعت رسول کی حقیقی معرفت شیرِ خدا حضرت علی مرتضیع کو تھی۔ جنگِ احد میں قتل محمد کی آواز تھی جس نے کل فوجِ اسلام کے قدم اکھاڑ دیئے۔ اور اس تصور نے علیع پر کیا اثر کیا۔ اسے خود آپ نے بعد میں بیان کیا ہے کہ میں نے نظر ڈالی تو رسول اللہ نظر نہ آئے۔ میں نے دل میں کھا کہ دو ہی صورتیں ہیں۔ یا وہ شھید ہو گئے اور یااللہ نے عیسیٰ (ع) کی طرح انھیں آسمان پر اٹھا لیا۔ دونوں صورتوں میں میں اب زندہ رہ کر کیا کروں گا۔ بس یہ سوچنا تھا کہ نیام توڑکر پھینک دیا اور تلوار لے کر فوج میں ڈوب گئے۔ جب فوج ہٹی تو رسول نظر آئے۔ دیکھنے کی یہ چیز ہے کہ حضرت علیع بن ابی طالبع کو صرف یھی دو تصور ہوئے۔ رسول شھید ہو گئے یا خدا نے آسمان پر اٹھا لیا۔ یہ توھم بھی نھیں ہوا کہ شاید رسول بھی میدان سے کسی گوشہ عافیت کی طرف چلے گئے ہوں۔ یہ علیع کا ایمان ہے رسول کی شجاعت پر۔

عیسائیوں نے رسول کی تصویر صرف اسی دور جنگ آزمائی کی یوں کھینچی کہ ایک ہاتہ میں قرآن ہے اور ایک ہاتہ میں تلوار۔ مگر جس طرح رسول کی صرف اس زندگی کو سامنے رکہ کر وہ رائے قائم کرنا غلط تھا کہ آپ مطلق عدم تشدد کے حامی ہیں یا سینہ میں وہ دل ہی نھیں رکھتے جو معرکہ آرائی کر سکے اسی طرح صرف اس دوسرے دور کو سامنے رکہ کر یہ تصویر کھینچنا بھی ظلم ہے کہ بس قرآن ہے اور تلوار۔

آخر یہ کس کی تصویر ہے؟ محمد مصطفی کی نا؟ تو محمد نام تو اس پوری سیرت کی مالک ذات کا ہے جس میں وہ چالیس برس بھی ہیں وہ تیرہ برس بھی ہیں اور اب یہ دس برس بھی ہیں۔ پھر اس ذا ت کی صحیح تصویر تو وہ ہو گی جو زندگی کے ان تمام پھلوؤں کو دکھا سکے۔ یہ صرف ایک پھلو کو نمایاں کرنے والی تصویر تو حضرت محمد مصطفیﷺ کی نھیں سمجھی جا سکتی۔

پھر اس دس برس میں بھی بدر واحد، خندق و خیبر سے آگے بڑھ کر ذرا حدیبیہ تک بھی تو آئیے۔ یھاں پیغمبر کسی جنگ کے ارادہ سے نھیں بلکہ حج کی نیت سے مکہ معظمہ کی جانب آ رہے ہیں۔ ساتہ میں وھی بلند حوصلہ فتوحات حاصل کئے ہوئے سپاھی ہیں جو ہر میدان سر کرتے رہے ہیں اور سامنے مکہ میں وھی شکست خوردہ جماعت ہے جو ہر میدان میں ہارتی رھی ہے اور اس وقت وہ بالکل غیرمنظم اور غیرمرتب بھی ہے پھر بھی ان کی حرکت مذبوجی ہے کہ وہ سد راہ ہوتے ہیں کہ ہم حج کرنے نہ دیں گے۔ عرب کے بین القبائلی قانون کی رو سے حج کا حق کعبہ میں ہر ایک کو تھا۔ ان کا رسول کے سدراہ ہونا اصولی طور پر بنائے جنگ بننے کے لئے بالکل کافی تھا مگر پیغمبر نے اس موقع پر اپنے دامن کو چڑھائی کرکے جنگ کرنے کے الزام سے بری رکھتے ہوئے صلح کرکے واپسی اختیا رکی اور صلح بھی کیسے شرائط پر؟ ایسے شرائط پر جنھیں بھت سے ساتہ والے اپنی جماعت کے لئے باعث ذلت سمجھ رہے تھے اور جماعت اسلام میں عام طور سے بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی شرطیں تھیں جیسی ایک فاتح کسی مفتوح سے منواتا ہے اس وقت واپس جائیے اس سال حج نہ کیجئے آئندہ سال آئیے گا صرف تین دن تک مکہ میں رھئے گا۔ چوتھے دن آپ میں سے کوئی نظر نہ آئے گا دوران سال میں ہم میں سے کوئی بھاگ کر آپ کے پاس جائے تو آپ کو واپس کرنا پڑے گا اور آپ میں سے کوئی بھاگ کر ہمارے پاس آئے تو ہم واپس نھیں کریں گے۔ انھیں یہ شرائط پیش کرنے کی ہمت کیوں ہوئی؟ یقیناً صرف اس لئے کہ وہ مزاج نبوت سے یہ سمجھ لئے تھے کہ آپ اس وقت جنگ نھیں کریں گے۔ بس کم ظرف جب یہ سمجھ لیتا ہے کہ مقابل تلوار نھیں اٹھائے گا تو وہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ آپ نے سب شرائط منظور کر لئے اور واپس تشریف لے گئے۔

اس کے بعد جب مشرکین کی طرف سے عھدشکنی ہوئی اور حضرت فاتحانہ حیثیت سے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو اس وقت گزشتہ واقعات کی بناء پر ایک انسان کے کیا جذبات ہو سکتے ہیں؟ جنھوں نے تیرہ برس جسم مبارک پر پتھرے مارے جنھوں نے توھین و ایذارسانی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ ان کے ہاتھوں وطن چھوڑنا پڑا۔ اور اس کے بعد بھی انھوں نے چین لینے نہ دیا۔ بلکہ جب تک دم میں دم رھا بار بار خونریز حملے کرتے رہے جس میں کتنے ہی عزیز اور دوست خاک و خون میں تڑپتے نظر آئے۔ خصوصیت کے ساتہ اپنے ہمدرد چچا جناب حمزہ کا بعدِ قتل سینہ چاک ہوتے دیکھنا۔ آج وھی جماعت سامنے تھی اور بالکل بے بس، اپنے قبضے میں یہ وقت تھا کہ ان کے گزشتہ تمام بھیمانہ حرکات کی آج سزا دی جاتی، مگر اس مجسم رحمت الٰھی نے جب انھیں بے بس پایا تو عام اعلان معافی کر دیا۔ اور ایک قطرہ خون زمین پر گرنے نہ دیا۔

اب دنیا بتائے کہ پیغمبر جنگ پسند تھے یا امن پسند؟ حقیقتہ ان کی جنگ یا صلح کوئی بھی جذبات کی بناء پر نہ تھی بلکہ فرائض کے ماتحت کام ہوتاتھا جس وقت فرض کا تقاضا خاموشی تھی خاموش رہے اور جب حالات کے بدلنے سے ضرورت جنگ کی پڑ گئی جنگ کرنے لگے۔ پھر جب امکانِ صلح پیدا ہو گیا اور بلندی اخلاق کا تقاضا صلح کرنا ہوا تو صلح کر لی۔ اور جب دشمن بالکل بے بس ہو گیا تو عفو و کرم سے کام لے کر اسے معاف کر دیا۔

یہ سب باختلافِ حالات فرائض کی تبدیلیاں ہیں جو آپ کے کردار میں نمایاں ہوتی رھی ہیں۔ فرائض کی یھی پابندی طبیعت کے دباؤ سے جتنی آزاد ہو، وھی معراج انسانیت ہے۔

معراجِ انسانیت سِیرت حضرت سّید الا وصیٰاء کی روشنی میں

رسول (ص)کے بعد دوسری معیاری شخصیت جو ہمارے سامنے ہے وہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی ہے۔

آپ کی دس سال کی عمر ہے جب پیغمبر مبعوث برسالت ہوتے ہیں اور علی بن ابی طالب (ع) ان کی رسالت کے گواہ ہوتے ہیں۔ یہ پھلے ہی سے رسول (ص) کی آغوشِ تربیت میں تھے اور آغوش میں دعوتِ اسلام کی پرورش شروع ہوئی۔ یوں کھنا چاھئے کہ اسلام نے آنکہ کھول کر انھیں دیکھا اور ان کی نگاہ وہ تھی کہ اعلانِ رسالت کے پھلے رسول (ص)کی رسالت کو دیکہ رہے تھے۔ خود اپنے بچپن کی کیفیت نھج البلاغہ کے ایک خطبے میں بتائی ہے کہ:

کُنتْ اَتبِعه اِتَبّاعَ الفَصیل اثرَامُّه اشّم رِیح النّبوةِ واری نورالرسالة

میں رسول (ص)کے پیچھے یوں رھتا تھا جیسے ناقہ کا بچہ ناقہ کے پیچھے رھتا ہے۔ میں نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا اور رسالت کی روشنی دیکھتا تھا۔

اب ظاہر ہے کہ ان کو رسول (ص) سے کتنا انس ہونا چاھئے۔ پھر وہ قرابت کی محبت الگ جو بھائی ہونے کے اعتبار سے ہوناچاھئے اور وہ الگ جو بحیثیت ایک گھر میں رھنے کے ہونا چاھئے اور وہ اس کے علاوہ جو اپنے مربی سے ہونا چاھئے اور وہ اس کے ماوراء جو ان سے بحیثیت رسول (ص) اور ان کے پیغام سے بحیثیتِ حقانیت ہونا چاھئے۔

ابھی اگرچہ دس برس کی عمر ہے مگر عرب اور بنی ہاشم کے اور وہ بھی اس وقت کے دس برس کے بچے کو اپنے ہندوستان کا اس زمانہ کا دس برس کا بچہ نہ سمجھنا چاھئے اور پھر وہ بھی علی(ع) ایسا بچھ۔ پھر اس وقت تو دس ہی برس کی عمر ہے مگر اس کے بعد ۱۳ برس رسول کے مکہ میں گزرنا ہیں، اور یھی انتھائی پرآشوب اور تکلیف و شدائد سے بھرا ہوا دور ہے۔ ہجرت کے وقت علی بن ابی طالب (ع) کی عمر ۲۳ برس ہوئی، دس برس سے ۲۳ برس کا درمیانی وقفہ وہ ہے جس میں بچپنا قدم بڑھاتا ہوا مکمل شباب کی منزل تک پھنچتا ہے۔ یہ زمانہ جوش و خروش کا ہوتا ہے یہ زمانہ ولولہ و امنگ کا ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی حرارت، شباب کی منزلیں اس دور میں گزر رھی ہیں۔ عام انسانوں کے لئے یہ دور وہ ہوتا ہے جس میں نتائج و عواقب پر نظر کم پڑتی ہے انسان ہر دشوار منزل کو سھل اور ہر ناممکن کو ممکن تصور کرتا ہے اور مضرتوں کا اندیشہ دماغ میں کم لاتا ہے۔ یھاں یہ دور اس عالم میں گزر رھا ہے کہ اپنے مربی کے جسم پر پتھر مارے جا رہے ہیں۔ سر پر خس و خاشاک پھینکا جاتا ہے۔ طعن و شماتت کا کوئی وقیقہ اٹھا نھیں رکھا جاتا۔ پھر فطری طور پر یھی سب طعن و تشنیع و شماتت ہر اس شخص کو جو رسول (ص) سے وابستہ ہے اپنی ذات کے لئے بھی سننا پڑتی ہے۔ خصوصاً اس لحاظ سے کہ رسول (ص)کے ہم یا مقابل پھر بھی سن رسیدہ ہو سکتے ہیں لیکن علی بن ابی طالب (ع) کے ہم عمر جو مخالف جماعت میں تصور کئے جا سکتے ہیں وہ غیرمھذب اور غیرتعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ اپنے سن و سال کے لحاظ سے بھی ہر خفیف الحرکاتی پر ہر وقت آمادہ سمجھے جا سکتے ہیں۔ کون سمجھ سکتا ہے کہ وہ علی ابن ابی طالب (ع) کی جو رسول (ص) سے اتنی شدید وابستگی رکھتے تھے کیسی کیسی دل آزاری کرتے تھے کیا کیا طعنے اور کیا کیا زخم زبان پھنچاتے تھے۔ اسے کوئی راوی نہ بھی بیان کرے تو بھی ہر صاحبِ عقل کچھ نہ کچھ سمجھ سکتا ہے۔

اب ممکن ہے کہ اس وقت ابھی دنیاعلی بن ابی طالب (ع) کو بالکل نہ سمجھتی ہو کہ وہ کیا ہیں؟ مگر اب اس وقت تو تاریخ کے خزانہ میں علی بن ابی طالبع کی وہ تصویر بھی موجود ہے جو ہجرت کے ایک سال بعد بدر میں اور پھر دو سال بعد احد میں اور پھر خیبر اور خندق اور ہر معرکہ میں نظر آتی ہے۔

جذبات کے لحاظ سے، قوت دل کے اعتبار سے، جرات و ہمت کی حیثیت سے ۲۲ سال اور ۲۳ سال اور پھر ۲۴ ۔ ۲۵ سال میں کوئی خاص فرق نھیں ہوتا۔ یقیناً علیع جیسے ہجرت کے ایک دو اور تین سال بعد بدر واحد اور خندق و خیبر میں تھے۔ ایسے ہی ہجرت کے وقت اور ہجرت کے دو چار سال پھلے بھی تھے۔ یھی بازو، یھی بازوؤں کی طاقت، یھی دل اور یھی دل کی ہمت، یھی جوش، یھی عزم، غرض کہ سب کچھ اب بعد میں نظر آ رھا ہے۔ اب اس کے بعد قدر کرنا پڑے گی کہ اس ہستی میں وہ ۱۳ برس اس عالم میں کیونکر گزارے۔

اور کوئی غلط روایت بھی یہ نھیں بتاتی کہ کسی وقت علیع نے جوش میں آ کر کوئی ایسا اقدام کر دیا ہو جس پر رسول کو کھنا پڑا ہو کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ یا کسی وقت پیغمبر کو یہ اندازہ ہوا ہو کہ یہ ایسا کرنے والے ہیں تو بلا کر روکا ہو کہ ایسا نہ کرنا۔ مجھے اس سے نقصان پھنچ جائے گا۔

کسی تاریخ اور کسی حدیث میں غلط سے غلط روایت ایسی نھیں حالانکہ حالات ایسے ناگوار تھے کہ کبھی کبھی سن رسیدہ افراد کو جوش آ گیا اور انھوں نے رسول کے مسلک کے خلاف کوئی اقدام کر دیا اور اس کی وجہ سے انھیں جسمانی تکلیف سے دوچار ہونا پڑا۔ مگر حضرت علی بن ابی طالبع سے کسی سے تصادم ہو گیا ہو اس کے متعلق کمزور سے کمزور روایت پیش نھیں کی جا سکتی۔

یہ وہ غیرمعمولی کردار ہے جو عام افراد انسانی کے لحاظ سے یقیناً خارق عادت ہے یہ کسی جذبات انسانی کا کردار نھیں ہو سکتا۔ یہ ۱۳ برس کی طولانی مدت اس عمر میں جو ولولوں کی عمر ہے حوصلوں کی عمر ہے۔ بھلا ممکن ہے اس سکون کے ساتھ گزاری جا سکے۔

اس کے بعد ہجرت ہوتی ہے۔ ہجرت کے وقت وہ فداکاری۔ پیغمبر کا فرمانا کہ آج رات کو میرے بستر پر لیٹو۔ میں مکہ سے روانہ ہو جاؤں گا۔ پوچھا حضور کی زندگی تو اس صورت میں محفوظ ہو جائے گا۔ فرمایا ہاں مجھ سے وعدہ ہوا ہے میری حفاظت ہو گی یہ سن کر حضرت علی بن ابی طالبع نے سر سجدہ میں رکہ دیا کھا شکر ہے کہ اس نے مجھے اپنے رسول کا فدیہ قرار دیا۔

چنانچہ رسول تشریف لے گئے اور آپ پیغمبر کے بستر پر آرام کرتے رہے اس کے بعد چند روز مکہ معظمہ میں مقیم رہے مکہ میں مشرکین کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کیں اور پیغمبر کی امانتیں ساتھ لیں یعنی مخدراتِ کاشانہ رسالت جن میں فواطم یعنی فاطمہ بنت محمد۔ فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب تھیں ان کو لے کر روانہ ہوئے۔ خود مھارِ شتر ہاتہ میں لی۔ اور حفاظت کرتے ہوئے پا پیادہ مدینہ پھنچے یھاں آنے کے ایک سال بعد اب جھاد کی منزل آئی اور پھلی ہی جنگ یعنی بدر میں علیع ایسے نظر آئے جیسے برسوں کے نبرآزما، معرکے سر کئے ہوئے اور کڑیاں میدان کی جھیلے ہوئے۔

ادھر کے سب سے بڑے سورما عتبہ شیبہ اور ولید دونوں کا حضرت علی بن ابی طالبع کی تلوار سے خاتمہ ہوا۔ یہ کارنامہ خود جنگ کی فتح کا ضامن تھا۔ وہ تو صرف نفسیاتی طور پر عامہ مسلمین میں قوت دل پیدا کرنے کے لئے اس جھاد میں فرشتوں کی فوج بھی آ گئی یہ ثابت کرنے کے لئے کہ گھبرانا نھیں وقت پڑے گا تو فرشتے آ جائیں گے۔ حالانکہ اس کے بعد پھر کسی غزوہ میں ان کا آنا ثابت نھیں۔ اس کے باوجود احد میں علی بن ابی طالبع نے تن تنھا بگڑی ہوئی لڑائی کو بنا کر اور فتح حاصل کرکے دکھلا دیا کہ بدر میں بھی اگر فوج ملائکہ نہ آتی تو یہ دست و بازو اس جنگ کو بھی سر کر ہی لیتے۔ اس کے بعد خندق ہے خیبر ہے۔ حنین ہے یھاں تک کہ ان تمام کارناموں سے علیع کا نام دشمنوں کے لئے مرادفِ موت بن گیا۔

خیبر و خندق۔ ذوالفقار اور علیع میں دلالت التزامی کا رشتہ قائم ہو گیا کہ ایک کے تصور سے ممکن ہی نھیں دوسرے کا تصور نہ ہو۔ یہ وھی ۱۳ برس تک خاموش رھنے والے علیع ہیں۔ ان دس برس کے اندر جن کا عالم یہ ہے مگر اسی دوران میں حدیبیہ کی منزل آتی ہے اور وھی ہاتہ جس میں جنگ کا علم ہوتا تھا یھاں اسی میں صلح کا قلم ہے جو صاحب سیف تھا وھی صاحب قلم نظر آتا ہے اور ان شرائط صلح کو جن فر فوج اسلام کے اکثر افراد میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور اسے کمزوری سمجھا جا رھا ہے بلا کسی بے چینی اور بغیر کسی تردد و تذبذب کے حضرت علی بن ابی طالبع تحریر فرما رہے ہیں جس طرح میدان جنگ میں قدم میں تزلزل اور ہاتہ میں ارتعاش نظر نھیں آیا اسی طرح آج عھدنامہ صلح کی تحریر میں ان کے قلم میں کوئی تزلزل اور انگلیوں میں کوئی ارتعاش نھیں ہے۔ ان کا جھاد تو وھی ہے جس میں مرضی پروردگار ہو۔ جس کی راہ میں تلوار چلتی تھی اسی کی راہ میں آج قلم چل رھا ہے اور صلح نامہ کی کتابت ہو رھی ہے۔

اسی زمانہ میں ایک ملک بھی فتح کرنے بھیجے گئے تھے اور وہ یمن ہے مگر وہ شمشیرزن اور صاحب ذوالفقار ہوتے ہوئے یھاں تلوار سے کام نھیں لیتے۔ انھوں نے اسلامی فتح کا مثلہ پیش کر دیا۔ پورے یمن کو صرف زبانی تبلیغ سے ایک دن میں مسلمان بنا لیا۔ ایک قطرہ خون نھیں بھا۔ دکھا دیا کہ فتح ممالک اس طرح کرو۔ ملک پر قبضہ کے معنی یہ ہیں کہ اھل ملک کو اپنابنا لو۔ بس ملک تمھارا ہو گیا۔

بھرحال ان دو مثالوں کو چھوڑ کر حضرت علی بن ابی طالبع کی زندگی کے اس دور میں بھت سے مواقع پر تلوار نمایاں نظر آئے گی اور لافتی الاعلی لا سیف الا ذوالفقار میں آپ کی شان مضمر معلوم ہو گی مگر اب پیغمبر خد اکی وفات ہو جاتی ہے اس وقت حضرت علی بن ابی طالبع کی عمر ۳۳ برس کی ہے اسے اواخرِ شباب بلکہ بھرپور جوانی کا زمانہ سمجھنا چاھئے مگر اس کے بعد پچیس سال کی طولانی مدت حضرت علی بن ابی طالبع یوں گزارتے ہیں کہ تلوار نیام میں ہے اور آپ کا مشغلہ عبادتِ الٰھی اور آزوقہ کی فراھمی کے لئے محنت و مزدوری کے سوا بظاہر اور کچھ نھیں۔

یہ ایسی وادی پرخار ہے جس میں ذرا بھی کھل کر کچھ کھنا تحریر کو مناظرانہ آویزشوں کا آماجگاہ بنا دینا ہے۔ پھر بھی یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات لازماً ہے کہ باوجودیکہ یہ مسلمانوں کی جنگ آزمائیوں کا زمانہ اور فتوحاتِ عظیمہ کا دور ہے جس میں اسلام قبول کرنے کے بعد گمنام ہو جانے والے افراد سیف اللہ اور فاتح ممالک اور غازی بن رہے ہیں پھر بھی جو تلوار ہر مقام پر عھد رسول میں کارنمایاں کرتی نظر آتی تھی وہ اس دور میں کلیتہ نیام کے اندر ہے۔ آخر کیا بات ہے کہ وہ جوھر میدان کا مرد تھا اب گوشہ عافیت میں گھر کے اندر ہے۔ اگر اس کو بلایا نھیں جاتا تو کیوں؟ اور اگر بلایا جاتا ہے اور وہ نھیں آتا تو کیوں؟ دونوں باتیں تاریخ کے ایک طالب علم کے لئے عجیب ہی ہیں ایسا بھی نھیں کہ وہ بالکل غیرمتعلق ہے۔ نھیں اگر کبھی کوئی مشورہ لیا جاتا ہے تو وہ مشورہ دے دیتا ہے کوئی علمی مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور اس کے حل کرنے کی خواھش کی جاتی ہے تو وہ حل کر دیتا ہے مگر ان لڑائیوں میں جو جھاد کے نام سے ہو رھی ہیں اسے شریک نھیں کیا جاتا۔ نہ وہ شریک ہوتا ہے۔ ۲۵ سال کی طولانی مدت گزری اور اب حضرت علی بن ابی طالبع کی عمر ۵۸ سال کی ہو گئی یہ پیری کی عمر ہے جس طرح مکہ کی ۱۳ برس کی خاموشی کے درمیان بچپنا گیا تھا اور جوانی آئی تھی اسی طرح اس پچیس برس کی خاموشی کے دوران میں جوانی گئی اور بڑھاپا آیا۔ گویا ان کی عمر کا ہر دوراھہ صبر و تحمل اورضبط و سکون کے عالم میں آتا رھا۔ بھلا اب کسے تصور ہو سکتا ہے کہ جس کو جوانی گزر کر بڑھاپا آ گیا اور اس نے تلوار سے نیام نہ نکالی وہ اب کبھی تلوار کھینچے گا اور میدان جنگ میں حرب و ضرب کرتا نظر آئے گا۔ عالم اسباب کے عام تقاضوں کے لحاظ سے تو اس پچیس برس کے عرصہ میں ولولہ و امنگ کی چنگاریاں تک سینہ میں باقی نھیں رھیں۔ ہمت کے سوتے خشک ہو گئے اور اب دل میں ان کی نمی تک نھیں رہ گئی۔ اب نہ دل میں وہ جوش ہو سکتا ہے نہ بازوؤں میں وہ طاقت۔ نہ ہاتھوں میں وہ صفائی اور نہ تلوار میں وہ کاٹ مگر ۵۸ سال کی عمر میں وہ وقت آ گیا کہ مسلمانوں نے باصرار زمام خلافت آپ کے ہاتہ میں دے دی۔ آپ نے بھت انکار کیا مگر مسلمانوں نے تضرع و زاری کی حد کر دی اور حجت ہر طرح تمام ہو گئی۔ لیکن جب آپ سریز خلافت پر متمکن ہوئے اور اس ذمہ داری کو قبول کر چکے تو کئی جماعتوں نے بغاوت کر دی۔ آپ نے ہر ایک کو پھلے تو فھمائش کی کوشش کی اور جب حجت ہر طرح تمام ہو گئی تو دنیا نے دیکھا کہ وھی تلوار جو بدر و احد اور خندق و خیبر میں چمک چکی تھی اب جمل، صفین اور نھروان میں چمک رھی ہے۔ اور پھر یہ نھیں کہ فوجیں بھیج رہے ہوں اور خود گھر میں بیٹھیں بلکہ خود میدان جنگ میں موجود اور بنفس نفیس جھاد میں مصروف۔ اب ایسا محسوس ہو رھا ہے جیسے کوئی نوجوان طبیعت جو مقابل سے دو دو ہاتہ کرنے کے لئے بے چین ہو۔ چونکہ حضرت کی ہیبت فوج دشمن کے ہر سپاھی کے دل پر تھی اس لئے صفین میں جب آپ میدان میں نکل آتے تھے تو پھر مقابل جماعت کا پرا بند ہو جاتا تھا اور کوئی مقابلہ کو باہر نہ آتا تھا۔ اسے دیکہ کر آپ نے یہ صورت اختیار فرمائی تھی کہ دوسرے اپنے ہمراھیوں کا لباس پھن کر تشریف لے جاتے تھے۔ چونکہ جنگ کا لباس خود و مغضر اور زرہ و بکتر وغیرہ پھننے کے بعد چھرہ نظر نھیں آتا تھا۔ اس لئے لباس بدلنے کے بعد پتا نہ چلتا تھا کہ یہ کون ہے اور آپ کبھی عباس بن ربیعہ اور کبھی فضل بن عباس اور کبھی کسی اور کا لباس پھن کر تشریف لے جاتے تھے اور اس طرح بھت سے نذرِ تیغ ہو جاتے تھے۔

لیلة الحریر میں طے کر لیا کہ فتح کے بغیر جنگ نہ رکے گی۔ پورے دن لڑائی ہو چکی تھی سورج ڈوب گیا تب بھی لڑائی نہ رکی۔ پوری رات جنگ ہوتی رھی یھاں تک کہ نقشہ جنگ بدل گیا اور صبح ہوتے ہوتے فوج شام سے قرآن نیزوں پر بلند ہوگئے جن سے التوائے جنگ کی درخواست مطلوب تھی اور یہ جنگ میں شکست کا کھلا ہوا اعلان تھا۔

یہ ۶۰ برس کی عمر میں جھاد ہے اور یھی وہ ہیں جو ۳۳ برس کی عمر سے ۵۷ برس تک کی مدت یوں گزار چکے ہیں جیسے کہ سینہ میں دل ہی نھیں اور دل میں ولولہ اور جنگ کا حوصلہ ہی نھیں۔

اب ایسے انسان کو کیا کھا جائے؟ جنگ پسند یا عافیت پسند؟ ماننا پڑے گا کہ یہ کچھ بھی نھیں ہیں یہ تو فرائض کے پابند ہیں جب فرض ہو گا خاموشی کا تو خاموش رھیں گے۔ چاھے شباب کی حرارت اور اس کا جوش و ولولہ کچھ بھی تقاضا رکھتا ہو۔

اس وقت کتنے ہی صبرآزما مشکلات پیش آتی رھیں وہ صبر کریں گے اور گھبرائیں گے نھیں۔

اور جب فرض محسوس ہو گا کہ تلوار اٹھائیں تو تلوار اٹھائیں گے، چاھے بڑھاپے کا انحطاط جو عام افراد میں اس عمر میں ہوا کرتا ہے کچھ بھی تقاضا رکھتا ہو۔ اب حرب و ضرب کی سختیوں کا مقابلہ کرنے میں وہ جوانوں سے آگے نظر آئیں گے۔ یھی وہ ”معراج انسانیت“ ہے، جھاں تک طبیعت، عادت اور جذبات کے تقاضوں میں گرفتار انسان پھنچا نھیں کرتے۔

معراجِ انسانیت سیرتِ حَسْنَیْن کی روشنی میں

جبکہ حضرت پیغمبر خدا کی واحد زندگی میں مختلف نمونے سامنے آ گئے جو بظاہر متضاد ہیں۔ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی واحد زندگی میں ایسی ہی مثالیں سامنے آ گئیں تو اب اگر دو شخصیتوں میں باقتضائے حالات اس طرح کی د و رنگی نظر آئے تو اس کو اختلاف طبیعت یا اختلاف رائے کا نتیجہ سمجھنا کیونکر درست ہو سکتا ہے اور یہ کیوں کھا جائے کہ حسن مجتبیٰ (ع) طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین (ع)طبعاً جنگ پسند تھے بلکہ یھی سمجھنا چاھئے کہ اس وقت کے حالات کا تقاضا وہ تھا اور اس وقت کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت حسن مجتبیٰ (ع) امام تھے ان کو فریضہ الٰھی وہ محسوس ہوا اور اس وقت حضرت حسین بن علی(ع) امام تھے، ان کو فریضہ ربانی اس وقت کے حالات میں یہ محسوس ہوا۔ اس میں جذبات کا کوئی دخل نہ تھا۔

یھی وہ حقیقت ہے جس کا حضرت پیغمبر خدا نے مختلف الفاظ میں پھلے سے اظہار فرما دیا تھا۔ کبھی ان الفاظ میں کھ: ابنای ہٰذان امامان قاما اوقعدا۔ ”یہ میرے دونوں فرزند امام (ع) ہیں چاھے کھڑے ہوں اور چاھے بیٹھے ہوں۔“

اس وقت کی دنیا اس کو نھیں سمجھ سکتی تھی کہ امام (ع) کھنے کے ساتھ قاما اوقعدا۔ کس لئے کھا جا رھا ہے؟ امامت میں اٹھنے اور بیٹھنے کا کیا دخل۔ مگر جب مستقبل نے واقعات پر سے پردہ ہٹایا تو اب معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر ماضی کے آئینہ میں مستقبل کا نقشہ دیکہ رہے تھے کہ ایک صلح کرکے بیٹہ جائے گا اور ایک تلوار لے کر کھڑا ہو جائے گا۔ کچھ لوگ حسن(ع) کی صلح پر اعتراض کریں گے اور کچھ لوگ حسین(ع) کی جنگ پر۔ آپ نے اسی لئے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں امام(ع) ہیں چاھے کھڑے ہوں اور چاھے بیٹھے ہوں۔ یعنی حسن(ع) صلح کرکے بیٹہ جائے تو اعتراض نہ کرنا اور حسین(ع) تلوار لے کر کھڑا ہو جائے تو اعتراض نہ کرنا وہ بیٹھنا بھی حکم خدا سے ہے اور یہ کھڑا ہونا بھی حکم خدا سے ہے وہ اس وقت کے حالات کا تقاضا ہے اور یہ اس وقت کے حالات کا۔

اور کبھی اس طرح جسے علامہ ابن حجر نے لکھا ہے کہ سیدھ(ع) عالم اپنے والد بزرگوار حضرت رسول کے پاس دونوں شاھزادوں کو لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا۔ یَا آبَتِ ہٰذَانِ ابْنَاک انحَلْھُمَا ابا جان یہ دونوں بچے آئے ہیں انھیں کچھ عطا فرمائیے۔“ حضرت نے فرمایا: اَمَّاالْحُسْنُ فَلَہ حِلمِی وَ سوُدَدِی واَمّالْحُسَیْنُ فَلَد‘ جُراتِی وَجُودِی مطلب یہ ہوا کہ انھیں اور کسی عطیہ کی کیا ضرورت ہے ان میں تو میری صفتیں تقسیم ہو گئی ہیں حسن(ع) میں میرا حلم ہے اور میری شان سرداری اور حسین(ع) میں میری جرات و ہمت ہے اور میری فیاضی اب تقسیم پر غور کیجئے۔ معلوم ہوتا ہے۔ کہ ظرف زمانہ کے لحاظ سے جس کو جس صفت کا مظھر بننا تھا اسی صفت کو رسول نے اپنا قرار دیا۔ تاکہ اس صفت سے جو کارنامہ ظھور میں آئے وہ کسی مسلما ن کے نزدیک قابل اعتراض نہ ہو سکے۔

اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ حسن(ع) کی صلح کو حسن(ع) کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میرے حلم کا نتیجہ ہے اس کا مطلب صاف یہ ہے کہ اس موقع پر میں ہوتا تو وھی کرتا جو حسن(ع) کرے گا اور حسین(ع) کی جنگ کو حسین(ع) کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میری جرات کا نتیجہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس موقع پر میں ہوتا تو وھی کرتا جو حسین(ع) کرے گا۔

اب حسن(ع) کی صلح پر اعتراض رسول(ع) کے حلم پر اعتراض ہے اور حسین(ع) کی جنگ پر اعتراض رسول(ع) کی جرات پر اعتراض ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حسن(ع) نے صلح کرکے جھاد حسین(ع) کے لئے زمین ہموار کر دی۔ وہ صلح اس وقت نہ ہوتی تو اس کے بعد جھاد کا یہ ہنگام نہ آ سکتا۔ کیونکہ اسلام میں جنگ بہ مجبوری ہوتی ہے عدم امکانِ صلح کی بنا پر جب تک اصول کے تحفظ کے ساتھ صلح کا امکان ہو اس وقت تک جنگ کرنا غلط ہے جب کہ آئین اسلام میں صلح کا درجہ جنگ پر مقدم ہے تو اگر امام حسن(ع) صلح نہ کر چکے ہوتے تو اتمام حجت نہ ہوتی اور حضرت امام حسین(ع) کے لئے جنگ کا موقع پیدا نہ ہوتا۔

امام حسن(ع) کے شرائط صلح پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس صلح کے شرائط میں ان مقاصد کا پورا پورا تحفظ کیا گیا تھا جن کے لئے پھر کربلا کی جنگ ہوئی۔ یہ نہ دیکھئے کہ بعد میں شرائط پر عمل نھیںھوا۔ بعد میں عمل تو حدیبیہ کی صلح کے شرائط پر بھی نہ ہوا تھا مگر یہ تو ایک معاھدہ صلح کا وقوع میں آیا جب ہی فریق مخالف پر الزام عائد ہو سکا کہ اس نے ان شرائط پر عمل نھیں کیا اور اگر کوئی ایسا معاھدہ ہوا ہی نہ ہوتا تو یہ خلاف ورزی کا الزام فریق مخالف پر کھاں عائد ہو سکتا تھا۔ جب حدیبیہ کے شرائط پر عمل نہ ہوا تو فتح مکہ ہوئی اسی طرح اس صلح پر عمل نہ ہوا۔ تو معرکہ - کربلا ہوا۔

معلوم ہوا کہ یہ تاریخی واقعات کی رفتار کا لازمی اقتضاء تھا کہ اس وقت صلح ہو اور اس وقت جنگ ہو۔ اور وہ حصہ وقت کا امام حسن(ع) کے حصہ میں آیا اور یہ ہنگام امام حسین(ع) کے حصہ میں آیا۔ اگر معاملہ بالعکس ہوتا یعنی ۴۱ ہ میں امام وقت امام حسین(ع) ہوتے تو وہ صلح امام حسین(ع) کرتے اور اگر ۶۱ ہ میں امام حسن(ع) موجود ہوتے تو یہ جھاد امام حسن(ع) فرماتے۔

حضرت امام حسن جانتے تھے کہ میرا جھاد ہی صلح کرنا۔ ان کی صلح مقتضائے شجاعت تھی اور امام حسین(ع) کا جھاد تھا یزید کے مقابلہ میں تلوار کھینچنا۔ یہ ان کی شجاعت کا مظاہر ہ تھا۔ کیونکہ جس طرح علمائے اخلاق نے بیان کیا ہے شجاعت ہر موقع پر تلوار لے کر بڑھ جانے کا نام نھیں ہے۔ بلکہ شجاعت قوت غضب کے تابع حکم عقل ہونےکا نام ہے اور یہ قوت غضبیہ کے اعتدال کا درجہ ہے اگر انسان نے بے موقع غصہ سے کام لیا اور قدم آگے بڑھا دیا تو یہ ”تھوُّ“ ہو گا اور اگر موقع آنے پر بھی اس سے کام نہ لیا اور بے محل کمزوری دکھائی تو اس کا نام ”جُبن“ ہو گا یہ دونوں چیزیں شجاعت کے خلاف ہیں۔ شجاعت یہ ہے کہ بے محل قدم آگے نہ بڑھے اور محل آنے پر خاموشی نہ ہو۔ ان دونوں رخوں کو حسن(ع) و حسین نے پیش کیا اور اس طرح دونوں نے مل کر شجاعت کی مکمل تصویر کھینچ دی۔

آئندہ آئے گا کہ حضرت امام حسین(ع) نے بھی صلح کی کوشش میں کوئی کمی نھیں کی یہ تو فریق مخالف کا طرز عمل تھا کہ اس نے وہ تمام شرائط مسترد کر دیئے۔ اگر دشمن ِشرائط کو منظور کر لیتا تو کارنامہ کربلا بھی صلح پر ختم ہوتا۔ اس کے بعد کسی کو یہ کھنے کا کیا حق ہے کہ امام حسن(ع) طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین(ع) نسبتاً جنگ پسند تھے۔

اس کا بھی بیان ابھی آئے گا کہ وہاں حاکم شام نے سادہ کاغذ بھیج دیا تھا کہ حسن مجتبیٰ جو چاھیں وہ شرائط لکہ دیں۔ امام نے شرائط لکھے اور حاکم شام نے ان کو منظور کیا دنیا غلط کھتی ہے کہ امام حسن(ع) نے حاکم شام کی بیعت کر لی۔ بیعت تو حقیقتاً اس نے کی جس نے شرائط مانے۔ انھوں نے تو بیعت لے لی۔ بیعت کی نھیں۔ اور امام حسین(ع) کے سامنے تھا یزید ایسے شخص سے بیعت کا سوال جسے آلِ محمد میں سے کوئی بھی منظور نھیں کر سکتا تھا۔

امام حسین(ع) زندگی کے اس ایک دن یعنی عاشور کو ہی حسین(ع) نہ تھے وہ اپنی زندگی کے ۵۷ برس میں ہر دن حسین(ع) تھے۔ پھر آخر صرف ایک دن کے کردار کو سامنے رکہ کر کیوں رائے قائم کی جاتی ہے۔ آخر اس ایک دن کو نکال کر جو ۵۷ برس ہیں وہ ان کی فھرست حیات سے کیونکر خارج ہو سکتے ہیں اسی طرح حضرت امام حسن(ع) صرف اس دن جب صلح نامہ پر دستخط کئے ہیں اسی وقت امام حسن(ع) نہ تھے۔ حسن(ع) نام تو اس پوری زندگی کا تھا لھٰذا آپ کی پوری زندگی کو سامنے رکہ کر رائے قائم کرنا درست ہو گا اور اگر صرف ایک حصہ حیات سامنے رکہ کر مخالفین اسلام نے آپ کی یہ تصویر کھینچی کہ آپ کے ایک ہاتہ میں تلوار ہے اور ایک ہاتہ میں قرآن جس طرح یہ تصویر نامکمل اور غلط ہے اسی طرح امام حسن(ع) کے متعلق جو تصویر کھینچی جاتی ہے یا امام حسین کی جو تصویر کھینچی جاتی ہے وہ بھی غلط ہے اور یہ غلطی اتنی عام ہے کہ ان کے نام لیوا تک اور سیرت و کردار کی پیروی پر زور دینے والے بھی ان کا وھی صرف ایک دن کا کردار جانتے اور اسی کو پیش کرتے ہیں اس لئے تقریروں میں گرمی پیدا کرنے کے لئے اور کسی بڑے معرکہ میں قدم بڑھانے کے واسطے خون میں جوش پیدا کرنے کے لئے حضرت امام حسین(ع) کا نام لیتے اور ان کے کارنامہ کو یاد دلاتے ہیں چاھے مقصد صحیح ہو یا غلط اور وہ جو اپنی تمام عمر شھادت سے ایک دن پھلے تک معرکہ آرائی کو ٹالتے رہے وہ حسین(ع) کا کردار گویا نھیں ہے کسی اور کا ہے پوری تصویر تو اسی وقت ہو گی جب پوری سیرت سامنے رکہ کر تصویر کھینچی جائے گی۔