تفسير راہنما جلد ۵

 تفسير راہنما 0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 744

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 744
مشاہدے: 131887
ڈاؤنلوڈ: 3111


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 744 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131887 / ڈاؤنلوڈ: 3111
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 5

مؤلف:
اردو

رجعت پسندى :رجعت پسندانہ حركات ۱۱

رشد :اسباب رشد ۲۵; منشائے رشد ۲۴; موانع رشد ۱۱

زيان (خسارہ) :منشائے زيان و ضرر ۵

سرگردانى :بيابان ميں سرگردانى ۱۹

سكون و قرار :سكون و قرار سے فاقد افراد ۱۵

شرك :بعث كے دوران شرك كا رواج ۹; شرك كى تبليغ ۱۰; شرك كى طرف دعوت ۱۸;شرك كے آثار ۱۶

شياطين :شياطين كا كردار ۱۳، ۱۹;شياطين كا گمراہ كرنا ۱۹

ضمير :ضمير كا فيصلہ ۷

عبادت :بے نتيجہ عبادت ۱

عقل :عقل زائل ہونے كے علل و اسباب ۱۳

قرآن :تشبيہات قرآن ۱۳، ۱۴، ۱۹; خصوصيت قرآن ۶

كفار :كفار كے خلاف جنگ ۲۲

مرتد :مرتدكا جن زدہ ہونا ۱۴; مرتد كا حيران و پريشان ہونا ۱۴، ۱۵، ۱۸; مرتد كا ديوانہ پن ۱۳; مرتد كو دعوت دينا ۱۹; مرتد كى پريشانى ۱۵; مرتد كى سرگردانى ۱۳، ۱۹

مشركين :صدر اسلام كے مشركين اور مسلمان ۱۰ ;صدر اسلام كے مشركين كا پروپيگنڈا ۱۰ ;مشركين كى دعوت ۱۸; مشركين كے افكار ۱۸

منفعت :منفعت كا منشا۵

موجودات :موجودات كا پالنے والا ۲۴

موحدين :موحدين كى ہدايت ۱۲

ہدايت :سچى و حقيقى ہدايت ۲۰;ہدايت كى دعوت ۱۹

۲۲۱

آیت ۷۲

( وَأَنْ أَقِيمُواْ الصَّلاةَ وَاتَّقُوهُ وَهُوَ الَّذِيَ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ )

اور ديكھو نماز قائم كرو اور اللہ سے ڈرو كہ وہى وہ ہے جس كى بارگاہ ميں حاضر كئے جاؤ گے

۱_ نماز قائم كرنے كے فرمان كے سامنے بنى آدم كو سر جھكانا چاہيئے_

و امرنا نسلم لرب العلمين_ و ان اقيموا الصلوة

۲_ نماز كو عبادات ميں ايك خاص مقام اور اہميت حاصل ہے_و امرنا نسلم و ان اقيموا الصلوة و اتقوه

آيات كے اس سلسلے ميں عبادات سے فقط نماز كى ياد دہانى كرانا اس كے خصوصى مقام كو ظاہر كرتاہے_

۳_ نماز قائم كرنا اور تقوى اختيار كرنا، پروردگار كے سامنے تسليم ہونے كى علامت ہے_

و امرنا نسلم لرب العالمين و ان اقيموا الصلوة واتقوه

چونكہ گذشتہ آيت ميں مذكور ''تسليم'' ا يك اندرونى حالت اور نفسانى تمكين ہے اس كے بعد اقامہ نماز اور تقوى كا حكم ہو سكتاہے اس اندرونى كيفيت كے عملى جلوے كى جانب اشارہ ہو_

۴_ پروردگار كے سامنے تسليم ہونا اور نماز قائم كرنا اور اس كى طرف توجہ كرنا، ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كى علامت ہے_

ان هدى الله هو الهدى و امرنا لنسلم و ان اقيموا الصلوة واتقوه

۵_ تاريخ كى وسعتوں ميں قيامت تك آنے والے انسان فقط خدا كى بارگاہ ميں جائيں گے_

و هو الذى اليه تحشرون

۶_ فقط خداوند متعال كى جانب انسان كے محشور ہونے پر ايمان و يقين اسے خدا كے سامنے تسليم ہونے اور اس كى جانب توجہ كرنے پر وادار كرتاہے_

و امرنا لنسلم لرب و اتقوه و هو الذى اليه تحشرون

۲۲۲

۷_ قيامت، تمام بنى آدم كے خداوند كى بارگاہ ميں اكٹھا ہونے كا دن ہے_و هو الذى اليه تحشرون

۸_ انسان كے ليے، سوائے خداوندمتعال كے اور كوئي پناہ گاہ نہيں _وهو الذى اليه تحشرون

ابھارنا :ابھارنے كے عوامل ۶

انسان :انسان كا انجام ۵;انسان كى پناہ گاہ ۸; انسان كى ذمہ دارى ۱گانسانوں كا اخروى حشر ۶،۷; انسانوں كا دنيوى حشر ۵

ايمان :ايمان كے آثار ۶

تسليم :خدا كے آگے تسليم ہونے كى علائم ۳;خدا كے آگے تسليم ہونے كے آثار ۴; خدا كے آگے تسليم ہونے كے عوامل ۶

تقوى :آثار تقوى ۳، ۴; عوامل تقوى ۶

خدا تعالى :مختصات خدا ۸

خدا كى جانب پلٹنا: ۵، ۶

قيامت :قيامت كے دن اجتماع ۷; قيامت كى خصوصيت ۷

نماز :نماز كے آثار۳; فضيلت نماز ۲; نماز قائم كرنے كى اہميت ۱;نماز قائم كرنے كے آثار ۴; نماز كى اہميت ۲; وجوب نماز ۱

واجبات : ۱

ہدايت :ہدايت كى نشانياں ۴

۲۲۳

آیت ۷۳

( وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِالْحَقِّ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُ قَوْلُهُ الْحَقُّ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّوَرِ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ )

وہى وہ ہے جس نے آسمان و زمين كو حق كے ساتھ پيدا كيا ہے اور وہ جب بھى كہتا ہے كہ ہو جا تو وہ چيز ہو جاتى ہے اس كا قول برحق ہے اور جس دن صور پھونكا جائے گا اس دن سارا اختيار اسى كے ہاتھ ميں ہوگا وہ غائب اور حاضر سب كا جاننے والا صاحب حكمت اور ہر شے سے باخبر ہے

۱_ آسمانوں اور زمين كا خالق فقط خالق يكتا ہے_و هو الذى خلق السموات والارض

۲_ آسمان اور زمين كى خلقت ايك ہدف كے تحت اور انتہائي پائيدارى كے ساتھ كى گئي ہے_

و هو الذى خلق السموت وا لارض بالحق

''حق'' كا استعمال بہت سے معانى ميں ہوتاہے ان ميں سے ايك يہ كہ جملہ ''خلق السموات'' كے ساتھ ہونے سے، (حق كا) معنى ، خلقت و آفرينش كا حكيمانہ و با مقصد ہونا ہے_ راغب نے بھى ''مفردات'' ميں ''حق'' كے لئے اسى معنى كى تصريح كى ہے_

۳_ خداوندمتعال نے اس عالم ميں متعدد آسمان خلق كيے ہيں _خلق السموات والارض

۴_ بنى آدم كا خداوند كى جانب محشور ہونا، خلقت و آفرينش كى حقانيت اور اس كے لغو و فضول نہ ہونے كى ايك علامت ہے_و هو الذى اليه تحشرون_ و هو الذى خلق السموات والارض بالحق

۵_ خداوند عالم جس چيز كے پيدا كرنے كا ارادہ كرے، اس كا وجود ميں آنا قطعى اور ناقابل تخلف ہے_

و يوم يقول كن فيكون

۶_ ارادہ خدا اور چيز كے ظاہر ہونے اور وجود ميں آنے كے درميان كوئي فاصلہ نہيں ہوتا_و يوم يقول كن فيكون

''فائ'' اس جگہ استعمال ہوتاہے كہ جب معطوف اور معطوف عليہ كے درميان ترتيب بغير فاصلے كے ہو_ بنابرايں ''كن'' اور ''يكون'' كے درميان كہ جو ''فائ'' كے ذريعے ايك دوسرے پر عطف ہيں كسى قسم كا فاصلہ نہيں _

۲۲۴

۷_ ہر چيز كو وجود ميں لانے كے ليے خدا كا فرمان حق كى بنيادوں پر استوار اور فضوليات سے پاك ہوتاہے_

و يوم يقول كن فيكون قوله الحق

ہوسكتاہے، جملہ ''قولہ الحق'' مبتدا اور خبر اور ''يوم'' جملہ ''قولہ الحق'' كے ليے ظرف مقدم ہو_ اس طرح جملے كا مطلب يہ ہوگا : جس وقت وہ كسى چيز كے ايجاد ہونے كا فرمان جارى كرتاہے تو اس كا كلام حق پر مبنى ہوتاہے_

۸_ خداوند (اپنے) ايك فرمان كے ذريعے قيامت كو برپا كردے گا_و هو الذى خلق السموات و يوم يقول كن فيكون

ہوسكتا ''يوم'' ''السماوات'' پر عطف ہو_ لہذا جملہ اس طرح ہوجائے گا ''خلق السماوات و خلق يوم'' البتہ ''يوم'' سے مراد (بعد كے جملات كے قرينے سے) قيامت كا دن ہے_

۹_ قيامت كو ايجاد كرنے كے بارے ميں خداوند كا فرمان، فضوليات سے پاك اور حق پر مبنى ہے_

و يوم يقول كن فيكون قوله الحق

۱۰_ جس دن صور پھونكا جائے گا اس دن، خداوند متعال كى على الاطلاق مالكيت اور حاكميت ظاہر ہوجائے گي_

و له الملك يوم ينفخ فى الصور

''لہ الملك'' سے صور پھونكنے جانے كے دن خداوندعالم كى مطلق مالكيت ظاہر ہوتى ہے_ چونكہ يہ مالكيت اب بھى موجود ہے_ بنابرايں حصر كا مطلب يہ ہے كہ اس دن اس مالكيت كا ظہور اس طرح ہوگا كہ كسى كے ليے انكار كرنے كى گنجائش باقى نہيں رہے گي_

۱۱_ جس دن پھونكا جائے گا اس دن ہر قسم كى اعتبارى مالكيت و حاكميت ختم ہوجائے گي_

و له الملك يوم ينفخ فى الصور

۱۲_ صور پھونكا جانا، عالم خلقت كا ايك اہم موڑ اور اس ميں ايك بنيادى تحول كى حيثيت ركھتاہے

و له الملك يوم ينفخ فى الصور

جس دن صور پھونكا جائے گا اس دن خدا كى مطلق مالكيت كا بيان اس كے باوجود كہ خدا كى مالكيت ہميشہ سے ہے اور ہميشہ رہے گى ايك اہم تحول و تبديلى كى نشاندہى كرتاہے_ كہ جو ''نفخ صور'' كے وقت وقوع پذير ہوگي_

۲۲۵

۱۳_ خداوند عالم غيب و شھود سے آگاہ ہے_عالم الغيب و شهادة

۱۴_ قيامت كے دن خداوند كى حاكميت مطلقہ كا ظہور اور انسانوں كے محشور ہونے كى اساس عالم غيب و شھود سے خداوند عالم كى آگاہى ہے_اليه تحشرون يوم ينفخ فى الصور علم الغيب والشهدة

گذشتہ آيت كے آخرى جملے ميں بنى آدم كے محشور ہونے كى بات ہورہى تھى اور اس آيت ميں نفخ صور اور قيامت كے ظہور كا ذكر ہورہا ہے_ اس كے بعد جملہ ''عالم الغيب والشھادة'' لايا گيا ہے گويا يہ جملہ ان لوگوں كيلئے جواب ہے كہ جو انسانى اجساد كے فرسودہ اور ختم ہوجانے كے بعد دوسرى دفعہ محشور ہونے كو ايك ناممكن بات سمجھتے ہيں _

۱۵_ فقط خدا حكيم و خبير ہے_و هو الحكيم الخبير

۱۶_ فقط خداوندمتعال ہى ہے كہ جس كے افعال ميں مكمل استحكام ہونے كے علاوہ اشياء كے بارے ميں مكمل دقيق اطلاعات بھى پائي جاتى ہيں _و هؤ الحكيم الخبير

ہوسكتاہے ''حكيم'' ''مفعل'' كے معنى ميں ''فعيل'' كا ہم وزن ہو اس صورت ميں اس كا مطلب : ''امور اور اشياء كو استحكام و پائيدارى عطا كرنے والا ہے (لسان العرب)

۱۷_ خداوندعالم حوادث اور اعمال سے مكمل آگاہى ركھنے والا حاكم ہے_علم الغيب وا لشهدة و هو الحكيم الخبير

''حكيم'' كے معانى ميں سے ايك حاكم و قاضى ہے (لسان العرب بنقل از ا بن اثير)_

۱۸_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله عزوجل : ''عالم الغيب و الشهادة'' فقال : الغيب ما لم يكن و الشهادة ما قد كا ن (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے ''عالم الغيب و الشھادة'' كے بارے ميں منقول ہے كہ :''غيب'' وہ ہے كہ جو ابھى وجود ميں نہيں آيا : اور ''شھادة'' سے مراد وہ ہے كہ جو وجود ميں آچكاہے_

آسمان :آسمان كا خالق ۱;آسمانوں كا متعدد ہونا ۳; آسمانوں كى خلقت ۳ ;آسمانوں كى خلقت كا با مقصد ہونا ۲;آسمانوں كى خلقت ميں استحكام ۲

آفرينش (خلقت) :آفرينش كے تحولات ۱۲; حقانيت آفرينش كى علائم ۴

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۱۴۶ ح ۱ تفسير برہان ج ۱ ص ۵۳۰ ح ۱_

۲۲۶

اسما و صفات :حكيم ۱۵; خبير ۱۵

انسان :انسانوں كا اخروى حشر ۴، ۱۴

خدا تعالى :خدا كا ارادہ پورا ہونا ۶; خدا كا ارادہ حتمى پورا ہونا ۵; خدا كا علم ۱۳، ۱۴، ۱۷ ;خدا كا علم غيب ۱۳،۱۴;خدا كى اخروى حاكميت ۱۴; خدا كى اخروى مالكيت ۱۰، ۱۴ ; خدا كى حاكميت ۱۰ ،۱۷; خدا كى خالقيت ۳; خدا كى قضاوت ۱۷; خداكے افعال ۶;

خدا كے افعال ميں استحكام ۱۶; خدا كے اوامر ۸ ; خدا كے اوامر كى حقانيت ۷،۹; خدا كے ساتھ مختص ۱،۱۰،۱۵،۱۶

خدا كى جانب بازگشت : ۴

روايت : ۱۸

زمين :خالق زمين ۱; خلقت زمين كا با مقصد ہونا ۲; خلقت زمين ميں استحكام ۲

شھود :شھود سے مراد ۱۸

غيبت :غيب سے مراد ۱۸

قيامت :قيامت برپا ہونے كے آثار ۱۰، ۱۱; قيامت كا برپا ہونا ۸;قيامت كے برپا ہونے كى حقانيت ۹; قيامت كے دن حقائق كا ظہور ۱۰، ۱۱; قيامت كے دن كى حاكميت ۱۱; قيامت كے دن كى مالكيت ۱۱; قيامت كے دن نفخ صور ۱۰، ۱۱

موجودات :پيدائش موجودات كى حقانيت ۷; موجودات كى پيدائش كى كيفيت ۵

نفخ صور :نفخ صور كے آثار ۱۲

۲۲۷

آیت ۷۴

( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأَبِيهِ آزر أَتَتَّخِذُ أَصْنَاماً آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ )

اور اس وقت كو ياد كر و جب ابراہيم نے اپنے مربى باپ آزر سے كہا كہ كيا تو ان بتوں كو خدا بنائے ہو ئے ہے _ ميں تو تجے اور تيرى قوم كو كھلى ہوئي گمراہى ميں ديكھ رہا ہوں

۱_ ابراہيمعليه‌السلام كے باپ آزر اور اسكى قوم كے لوگ بت پرست اور گمراہ تھے_

و اذ قال ابراهيم لابيه آزر اتتخذ اصناما

۲_ ابراہيمعليه‌السلام مكہ كے لوگوں ميں قابل احترام اور ايك جانى پہچانى شخصيت تھے_و اذقال ابراهيم لابيه آزر

جيسا كہ فخر رازى اور آلوسى جيسے مفسرين نے كہا ہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام مشركين مكہ كے نزدك قابل احترام اور جانے پہچانے شخص تھے لہذا خداوندعالم نے آپعليه‌السلام كى زبان سے مشركين كے توہمات كو باطل قرار ديا ہے_

۳_ آزر، ابراہيمعليه‌السلام كے صلبى باپ نہيں تھے_اذ قال ابراهيم لابيه آزر

اس آيت كى مانند دوسرى آيت ميں (بھي)قرآن كى روش يہ نہيں تھى كہ وہ افراد و اشخاص كا نام ذكر كرے_ لہذا عطف بيان كى صورت ميں آزر كے نام كى تصريح اس ليے (بھي) ہوسكتى ہے كہ ''اب'' كى وضاحت كى جائے كہ ابراہيمعليه‌السلام كے حقيقى باپ نہيں تھے_ بلكہ ان كے چچا يا منہ بولے باپ تھے_

۴_ آزر، اپنى قوم كا ايك جانا، پہچانا شخص تھا_و اذ قال ابراهيم لابيه آزر انى ارى ك و قومك

''قوم'' كو آزر سے منسوب كرنا بتاتاہے كہ لوگوں كے درميان اسے اہم مقام حاصل تھا_

۵_ آرزو اور اسكى قوم متعدد بتوں كى پرستش كرتے تھے_اتتخذ اصناما الهة انى اراك و قومك

۶_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دليل اور اعتراض كے ذريعے

۲۲۸

آزر كو بت پرستى سے روكنے كى كوشش كرنا_و اذا قال ابراهيم لابيه آزر اتتخذ اصناما الهة

۷_ پيغمبر(ص) كے مشرك رشتہ داروں كى توقع تھى كہ شايد پيغمبر(ص) رشتہ دارى كى وجہ سے انھيں توحيد كى دعوت نہ ديںو اذ قال ابراهيم لابيه آزر

پيغبر(ص) كوابراہيمعليه‌السلام كى آزر كے ساتھ گفتگو كى ياد دہانى كرانے كا حكم ديا جانا جانا شايد اس وجہ سے ہوكہ ہوسكتاہے كہ پيغمبر(ص) كے عزيز و ا قارب ميں يہ اميد پائي جاتى ہو كہ پيغمبر(ص) انھيں توحيد كى دعوت دينے سے رك جائيں _

۸_ رشتہ دارى اور اجتماعى تعلقات كو الحاد كى مخالفت كرنے اور تبليغ دين كرنے ميں مانع نہيں ہونا چاہيئے_

و اذ قال ابراهيم لابيه آزر و قومك

حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اپنے رشتہ داروں سے گفتگو كى ياد دلانے كا مقصد شايد اس بات كى طرف متوجہ كرانے كے ليے ہو كہ عقائد سے متعلق بنيادى مسائل ميں رشتہ دارى كے تعلقات كا لحاظ نہ ركھنا ايك ضرورى امر ہے

(۹) اپنے رشتہ داروں ، بزرگوں اور سربراہ افراد كے درميان (دين كي) تبليغ كو اوليّت حاصل ہے_

و اذ قال ابراهيم لابيه آزر ''ازر'' ابراہيمعليه‌السلام كے رشتہ داروں ميں سے ہونے كے علاوہ ''قومك'' كى تصريح كے مطابق اپنى قوم كے بزرگوں اور رؤسا ميں بھى شمار ہوتا تھا_ چونكہ ابراہيم كى دعوت كا آغاز اسى نقطے سے ہوتاہے لہذا اسے تبليغ كا معيار اور نمونہ بنا سكتے ہيں _

۱۰_ انبياعليه‌السلام كے طور طريقے اوردليل و برہان پيش كرنا روش و سبق سيكھنے كا بہترين منبع ہيں _

و اذ قال ابراهيم لابيه آزر

''اذ'' ظرف زمان اور فعل ''اذكر'' سے متعلق ہے_ يعنى ''اذكراذ قال'' ياد دلانے كا حكم اور روش اور طريقے كا بيان اس ليے ہے كہ مخاطب ان واقعا ت سے لازمى سبق حاصل كر سكے_

۱۱_ توحيد كى تبليغ كرنے اور شرك آلود عقائد كے خلاف جنگ كرنے ميں انسان كو قاطع اور واضح ہونا چاہيئے_

اتتخذ اصناما الهة انّى ارى ك و قومك

۱۲_ بت پرستى ايك واضح گمراہى ہے_انى ارى ك و قومك فى ضلل مبين

آزر :آذر كى اجتماعى حيثيت ۴; آزر كى بت پرستى ۱، ۵، ۶; آذر كى شخصيت ۴; آذر كى گمراہى ۱

۲۲۹

ابراہيمعليه‌السلام :

ابراہيمعليه‌السلام اور آزر ۶; ابراہيمعليه‌السلام كا دليل لانا ۶; ابراہيم كا سوتيلا باپ ۳; ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ۲، ۳، ۶;ابراہيم كى اجتماعى حيثيت ۲;ابراہيم كى شہرت ۲; ابراہيمعليه‌السلام كے باپ۱، ۳، ۱۳

انبيائعليه‌السلام :اجتجاج انبيا ۱۰; انبيا كو نمونہ عمل بنانا۱۰; سيرت انبيا سے درس حاصل كرنا ۱۰

بابل :اہل بابل كى بت پرستى ۵

بت پرستى :بت پرستى كا گمراہى ہونا ۱۲;بت پرستى كے خلاف جنگ ۶

تبليغ :تبليغ ميں اولويت ۹; تبليغ ميں صراحت ۱۱; تبليغ ميں

قاطعيت ۱۱

توحيد :توحيد كى تبليغ ۱۱

رشتہ دار :رشتہ داروں ميں تبليغ ۹

رشتہ دارى :

رشتہ دارى ميں روابط كى حدود ۸

شرك :

شرك كے خلاف جنگ ۱۱

قوم ابراہيمعليه‌السلام :

قوم ابراہيمعليه‌السلام كى بت پرستى ۱; قوم ابراہيمعليه‌السلام كى گمراہى ۱

كفر :

كفر كے خلاف جنگ ۸

گمراہى :

گمراہى كے مواقع ۱۲

۲۳۰

آیت ۷۵

( وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ )

اور اسى طرح ہم ابراہيم كو آسمان و زميں كے اختيارات دكھلا تے ہيں اور اس لئے كہ وہ يقين كرنے والوں ميں شامل ہو جائيں (۷۵)

۱_ خداوند تعالى نے ابراہيمعليه‌السلام كو آسمانوں اور زمين پر اپنى سلطنت (ملكوت) دكھائي_

و كذلك نرى ابراهيم ملكوت السموات والارض

''ملكوت'' كا معنى ''ملك'' ہے اگر چہ اس معنى ميں زيادہ تاكيد ہے_ آيت شريفہ ميں ملكوت سے مراد، خداوندعالم كى جانب انتساب كے لحاظ سے اشياء كا وجود ہے اور ملكوت كے مشاہدہ سے مراد، اس حالت (انتساب) ميں موجودات كو ديكھنا ہے_ مزيد وضاحت كے ليے تفسير الميزان كى جانب رجوع كيجيئے_

۲_ ملكوت كا مشاہدہ (يعني) شرك كے بطلان اورگمراہى كو كھلى آنكھوں سے ديكھنا اور عالم ہستى ميں توحيد كو محسوس كرنا

انى ارك و قومك فى ضلل مبين و كذلك نرى ابراہيم ملكوت السموات

۳_ ابراہيمعليه‌السلام آسمانوں اور زمين كے ملكوت كو ديكھنے كى وجہ

سے بت پرستى كى گمراہى كو عياں اور واضح طور پر ديكھ رہے تھے_

انى ارى ك و قومك فى ضلل مبين و كذلك نرى ابراهيم

جملہ ''و كذلك نري'' احتمالا گذشتہ آية ميں ابراہيم كے فرامين كا سبب بيان كرنے كے ليے ہے_

۴_ ابراہيم(ص) كو آسمانوں اور زمين كے ملكوت (يعنى خداوند عالم كى سلطنت و مالكيت) دكھانے كا سب سے بڑا مقصد، ان كا اہل يقين كے زمرے ميں داخل ہونا تھا_و كذل نرى ابراهيم ملكوت السموات والارض و ليكون من الموقنين

جملہ ''و ليكون ...'' محذوف پر عطف ہے يعنى ابراہيمعليه‌السلام كو ملكوت دكھانے كے كچھ مقاصد تھے ان ميں سے ايك يہ تھا كہ وہ اہل يقين ميں سے ہوجائيں دوسرے مقاصد ميں سے فقط اس مقصد

۲۳۱

و ہدف كو بيان كرنا، اس كى اہميت دليل ہے_

۵_ يقين پر فائز ہونا، انسان كے ليے ايك عظيم مرتبہ اور معرفت و شناخت كى بلندترين چوٹى ہے_

و كذلك نري و ليكون من الموقنين

''يقين'' كو ''ملكوت كے مشاہدے'' كا اصلى ترين مقصد بتانے سے ہدف، يقين اور اہل يقين كى عظمت كو ظاہر كرنا ہے اور اسى طرح يہ معرفت و شناخت كا انتہائي درجہ ہے_

۶_ يقين تك پہنچنا فقط توفيقات اور امداد الہى كے ذريعے امكان پذير ہے_

و كذلك نرى ابراهيم ملكوت و ليكون من الموقنين

۷_ انبياعليه‌السلام خداوند عالم كى خصوصى ہدايت سے بہرہ مند ہيں _و كذلك نرى ابراهيم ملكوت و ليكون من الموقنين

۸_عن ابى جعفر عليه‌السلام : ''و كذلك نرى ابراهيم ملكوت السموات والارض'' قال :اعطى بصره من القوة ما نفذ السموات فراى ما فيها و راى العرش و ما فوقه و راى ما فى الارض و ما تحتها (۱)

امام باقرعليه‌السلام ''و كذلك نري ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں : خداوندعالم نے ابراہيمعليه‌السلام كى بينائي و بصيرت كو ايسى قوت عطا فرمائي ہوئي تھى كہ وہ آسمانوں اور جو كچھ ان ميں موجود تھا، انھيں ديكھتے تھے اور عرش اور اس كے اوپر اور زمين اور اس كے نيچے (ہر چيز كا) مشاہدہ كرتے تھے_

۹_عن ابى عبدالله عليه‌السلام : نظر (ابراهيم)الى الزهرة فى السماء فقال: ''هذا ربيّ'' فلما افلت قال: لا احب آلافلين'' فلما نظر الى المشرق راى و قد طلع القمر قال : هذا ربي'' فلما تحرك و زال قال : لئن لم يهدنى ربى لاكونن من القوم الظالين'' فلما اصبح و طلعت الشمس قال : ''هذا ربي'' فلما تحركت و زالت كشف الله له عن السموات حتى راى العرش و من عليه و اراه الله ملكوت السماوات و الارض (۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے : ابراھيمعليه‌السلام نے آسمان پر ستارہ زھرہ كى جانب نظر كى اور فرمايا : يہ ''ميرا پروردگار ہے'' جب وہ غروب ہوگيا تو كہنے لگے ''ميں غروب ہوجانے والوں كو دوست نہيں ركھتا'' اور جب انھوں نے مشرق كى جانب نظر كى تو چاند كو نكلتے ہوئے ديكھا اور فرمايا : ''يہ ميرا رب ہے'' جب وہ بھى حركت كرنے لگا اور غائب

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۳۶۴ ج ۳۶_ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۳۴ ح ۱۳۸

۲) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۲۰۷_ نور الثقلين ج/۱ ص ۷۳۶ ج ۱۴۹_

۲۳۲

ہوگيا تو فرمايا ''اگر ميرے رب نے مجھے ہدايت نہ دى ہوتى تو ميں ضرور گمراہوں ميں سے ہوجاتا'' اور جب صبح ہوئي اور سورج نكل آيا تو (ابراہيمعليه‌السلام نے) فرمايا : ''يہ ميرا ربّ ہے'' جب وہ بھى حركت كرنے لگا اور غروب ہوگيا تو خداوند نے ان كے ليے آسمانوں كو نماياں كرديا تا كہ وہ عرش اور اسكے ساكنين كو ديكھيں _ اور خداوند عالم نے آسمانوں اور زمين كے ملكوت انھيں دكھائے ...''

آسمان :ملكوت آسمان ۳، ۴

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام كو ملكوت دكھائے جانا ۱، ۳، ۴، ۸، ۹; بصيرت ابراہيمعليه‌السلام ۸; قصہ ابراہيمعليه‌السلام ۹; مقامات ابراھيم ۴

انبيا :ہدايت انبيا ۷

بت پرستى :بت پرستى كا گمراہى ہونا ۳

توحيد :توحيد افعالى ۲

توفيق :منشائے توفيق ۶

خدا تعالى :افعال خدا ۱; امداد خدا ۶; توفيقات خدا ۶; خدا كى خاص ہدايت ۷; مالكيت خدا ۱

رشد :عوامل رشد ۵

روايت :۸، ۹

زمين :ملكوت زمين ۳، ۴

شرك :بطلان شرك ۲

شناخت :مراتب شناخت ۵

گمراہى :گمراہى كا بطلان ۲

ملكوت :رؤيت ملكوت ۲;رؤيت ملكوت كا فلسفہ ۴;رؤيت ملكوت كے آثار ۳

ہدايت يافتہ لوگ ۷

يقين :اہل يقين ۴; يقين پر فائز ہونے كے عوامل ۶; مقام يقين ۵

۲۳۳

آیت ۷۶

( فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَباً قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِينَ )

پس جب ان پر رات كى تاركى چھائي اور انھوں نے ستارہ كو ديكھا تو كہا كہ كيا يہ ميرا رب ہے _ پھر جب وہ غروب ہو گيا تو انھوں نےكہا كہ ميں ڈوب جانے والوں كو دوست نہيں ركھتا

۱_ زمانہ ابراہيمعليه‌السلام كے لوگوں كے درميان رائج مذاھب ميں سے ايك ''ستارہ پرستي'' تھا_رأى كوكبا قال هذا ربّي

۲_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے ستارہ پرستى كا اظہاركرتے ہوئے اور جدلى استدلال كے ذريعے، اپنى قوم كے عقيدہ شرك كو باطل ثابت كيا_فلما جن عليه الليل رأى كوكبا قال هذا ربّي

جملہ''فلما جن'' ''كذلك نري '' پر تصريح ہے_

يعنى ابراہيمعليه‌السلام كو ملكوت كا مشاھدہ كرانے كا نتيجہ يہ ہوا كہ انھوں نے اس كے ذريعے شرك كے خلاف جنگ شروع كردي_ بنابرايں ابراہيمعليه‌السلام كا يہ كلام، فقط مجادلے كے ليے اور باطل كو باطل ثابت كرنے كے ليے تھا_

۳_ ابراہيمعليه‌السلام كى قوم ستاروں كو ''ربّ'' اور انھيں كائنات كى تدبير ميں مؤثر سمجھتى تھي_رأى كوكبا قال هذا ربّي

۴_ باطل عقيدے كے بطلان كو ثابت كرنے كے ليے اس كا اظہار كرنا جائز ہے_رأى كوكبا قال هذا ربي

۵_ ايك باطل عقيدے پر ايمان كا اظہار كرنے كے بعد اسے باطل ثابت كرنا، تبليغ و تربيت كا ايك طريقہ ہے_

رأى كوكبا قال هذا ربّي

اسى سورہ كى تمام آيات كے مطابق واضح ہے كہ ابراہيمعليه‌السلام نے اپنى قوم كے عقائد كو باطل ثابت كرنے اور ان كے سامنے احتجاج (دليل و برھان پيش) كرنے كے ليے ستارہ پرستى كا اظہار كيا تھا_ اسى سے پتہ چلتاہے كہ (ابطال باطل كے ليے) يہ كام جائز تھا اور اسے تبليغ كا ايك طريقہ قرار ديا جا سكتاہے_

۲۳۴

۶_ ابراہيمعليه‌السلام نے ستارہ پرستوں كو، ستاروں كے غائب ہوجانے كى طرف متوجہ كراتے ہوئے، انكى ربوبيت كے عقيدہ كو نامعقول قرار ديا_قال هذا ربى فلما افل، قال لا احب الافلين

''افول'' كا مطلب پنہان اور غائب ہوجانا ہے_

۷_ جو چيز پنہان اور غائب ہوجائے وہ ربوبيت كے لائق نہيں _قال هذا ربّى فلما قال لا احب الافلين

۸_ عالم كى ربوبيت كے لائق وہ ہستى ہے كہ جو ثبات و دوام ركھتى ہو اور دوسرى موجودات سے اثر قبول نہ كرے_

هذا ربى فلما افل قال لا احب الافلين

۹_ انسان كى فطرى محبت اور ميلان اس خدا كى جانب ہے جو زوال ناپذيراور ہميشہ رہنے والاہے_

فلما افل قال لا احب الافلين

جملہء ''لا احب ...'' كہ جو استدلالى پہلو كى نسبت، احساساتي، و نفسياتى پہلو كا حامل ہے_ ہوسكتاہے، ناقابل زوال موجود كى جانب فطرى ميلان ركھنے يا زوال پذير چيز كو بعنوان ''رب'' قبول نہ كرنے كى طرف ايك اشارہ ہو_

۱۰_ پروردگار كى معرفت و شناخت اور انسان كے اس سے تعلق كے ليے، ايك اہم ترين دريچہ، محبت ہے_

قال لا احب الافلين

ابراہيمعليه‌السلام ، محبت كو خداشناسى كا پہلا قدم سمجھتے ہيں لہذا ''لا اقبل'' كے بجائے ''لا احب'' كى تعبير استعمال كرتے ہيں _ يہ تعبير اس ارتباط كو پيدا كرنے ميں محبت كى نشاندہى كرتى ہے_

۱۱_عن الرضا عليه‌السلام : ان ابراهيم عليه‌السلام وقع الى ثلاثة اصناف، صنف يعبد الزهرة ''فلما جن عليه الليل'' فراى الزهرة، قال : ''هذا ربي'' على الانكار والاستخبار ''فلما افل'' الكوكب ''قال لا احب الآفلين'' لان الافول من صفات المحدث لا من صفات القدم (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے منقول ہے كہ : ابراہيمعليه‌السلام كو تين گروہوں كا سامنا تھا، ايك گروہ زھرہ ستارے كى پرستش كرتا تھا ''جب رات نے ابراہيمعليه‌السلام كو آليا'' اور انھوں نے زھرہ ستارے كو ديكھا تو استفھام انكارى كے عنوان سے كہا : (آيا) يہ ميرا(۱) پروردگار ہے اور جب ستارہ غروب ہوگيا تو (ابراہيمعليه‌السلام ) نے كہا ''ميں غروب ہوجانے والوں كو دوست نہيں ركھتا'' چونكہ غروب ہوجانا، حادث موجودات كى صفات ميں سے ہے نہ قديم كي

___________________

۱) عيون اخبار الرضا ج ۱، ص ۱۹۷، ج ۱_ ب ۱۵ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۳۵ ح۱۴۶_

۲۳۵

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور ستارہ پرست قوم ۶; ابراہيمعليه‌السلام كا استدلال ۲، ۶; ابراہيمعليه‌السلام كا ستارہ پرستى كا اظہار كرنا ۲; ابراہيمعليه‌السلام كى شرك و دشمنى ۲; عصر ابراہيمعليه‌السلام كى تاريخ ۱; قصہ ابراہيمعليه‌السلام ۲، ۶، ۱۱; مجادلہ ابراہيمعليه‌السلام ۲

احتجاج (دليل و برھان لانا) :جدلى احتجاج ۲

انسان :انسان كے رجحانات ۹;فطرت انسان ۹

تبليغ :روش تبليغ ۵

حادث موجودات:حادث موجودات كى صفات۱۱

خدا تعالى :معرفت خدا كى راہ ۱۰

ربوبيت :شرائط ربوبيت ۷، ۸;قوم ابراھيمعليه‌السلام كى ربوبيت ۳; معيار ربوبيت ۱۱

روايت : ۱۱

ستارے :ستاروں كا غروب ہونا ۶;ستاروں كى ربوبيت كا ردّ ۶

ستارہ پرستى :زمانہء ابراہيمعليه‌السلام ميں ستارہ پرستى ۱;ستارہ پرستى كى تاريخ ۱

شرك :موارد شرك ۱

عقيدہ :باطل كو باطل ثابت كرنے كا طريقہ ۴، ۵; عقيدہ باطل كااظہار كرنا ۴، ۵

قوم ابراہيمعليه‌السلام :قوم ابراہيمعليه‌السلام كا شرك ۲; قوم ابراہيمعليه‌السلام كى ستارہ پرستى ۲، ۳;قوم ابراہيمعليه‌السلام كے افكار ۳

محبت :محبت كے آثار ۱۰; محبت خدا۹

مشركين : ۲

۲۳۶

آیت ۷۷

( فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغاً قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لأكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ )

پر جب چاند كو چمكتا ديكھا تو كہا كہ وہ پھر يہ رب ہوگا پھر جب و بھى ڈوب گيا تو كہا كہ اگر پروردگار ہى ہدايت نہ دے گا تو ميں گمراہوں ميں ہو جاؤں گا

۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے زمانے ميں رائج مذاہب ميں سے ايك مذہب ''چاند كى پرستش كرنا تھا''

فلما رأى القمر بازغا قال هذا ربي

۲_ ابراہيمعليه‌السلام نے مجادلہ كرتے وقت قمر پرستى كا اظہار كرتے ہوئے اسے باطل قرار ديا_

فلما رأى لقمر بازغا قال هذا ربى فلما افل

۳_ چاند كے چمكتے وقت، حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے چاند پرستى كا اظہار كرتے ہوئے قمر پرستوں سے مناظرہ كيا تھا_

فلما رأى القمر بازغا قال هذا ربّي

''بزوغ'' كا معنى طلوع اور چمكنا ہے (لسان العرب) راغب مادہ ''بزغ'' اور مذكورہ آيت كى شرح ميں كہتے ہيں ''اى طالعا منتشر الضوئ'' بنابراين ماہ پرستوں سے ابراہيم كى گفتگو ماہ كے ا ول يا آخر ميں نہيں ہو ئي تھى بلكہ

چاند كے چمكتے وقت (انھوں نے چاند پرستوں سے) بحث كى تھي_

۴_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے ہم عصر لوگ چاند كو ربّ جانتے تھے اور اسے اپنے امور ميں مؤثر خيال كرتے تھے_

فلما رأى القمر بازغا قال هذا ربي

جملہ ''ھذا ربي'' كہ جو حضرت ابراہيم نے اپنى قوم سے ''بحث و مناظرے'' كے وقت كہا تھا، انكى قوم كے اعتقادات ميں سے ايك باطل عقيدے كى جانب اشارہ ہے يہ وہى باطل عقيدہ چاند كى ربوبيت (اور پرستش كا عقيدہ) ہے_

۵_ باطل عقيدے كو ردّ كرنے كى خاطر اس كا اظہار كرنا جائز ہے_

فلما رأى القمر بازغا قال هذا ربّي

۲۳۷

۶_ چاند كا غروب اور غائب ہونا اس بات كى دليل ہے كہ كائنات كى ربوبيت ميں چاند كى كوئي دخالت نہيں _

فلما رأى القمر بازغا قال هذا ربّى فلما افل قال لئن لم يهدنى ربي

۷_ وہ ہستى ربوبيت كى حقدار ہے كہ جو غروب نہ ہو اور قابل تغيير بھى نہ ہو_

فلما افل قال لئن لم يهدنى ربّي

۸_ ہدايت كرنا، ''رب'' كى لازمى خصوصيات ميں سے ايك ہے_قال لئن لم يهدنى ربّى لاكونن من القوم الضالين

۹_ كائنات كى ربوبيت كا حق دار وہ ہے جو ہدايت كرنے والا ہو_

قال لئن لم يهدنى ربّى لاكونن من القوم الضالين

ہوسكتاہے جملہ ''لئن لم يھدنى ربّي'' ستارہ پرستوں پر ايك اعتراض ہو_ يعنى آپ لوگ ستارے كو اپنا ربّ سمجھتے ہيں تو اس كے ہدايت كرنے كى كيا علامت ہے ؟ اور اگر رب ہدايت نہ كرسكے اور ہادى نہ ہو تو وہ كيسا ربّ ہے ؟

۱۰_ انسان پروردگار كى ہدايت كے بغير، گمراہى ميں پڑا رہے گا_لئن لم يهدنى ربى لاكونن من القوم الضالين

۱۱_ غير خدا كى ربوبيت كا قائل ہونا، گمراہى ہے_لئن لم يهدنى ربّى لاكونن من القوم الضالين

۱۲_ اہل بابل اجرام فلكى كى ربوبيت كے قائل ہونے اور بتوں كى پرستش كرنے كے سبب، گمراہ تھے_

اتتخذ اصناما كوكبا القمر القوم الضالين

بہت سے مفسرين كے بقول حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے سرزمين بابل پر مشركين كے خلاف احتجاج (دليل و برھان پيش) كيا تھا_

۱۳_عن الرضا عليه‌السلام : ان ابراهيم عليه‌السلام وقع الى ثلاثة اضاف صنف يعبد القمر ''فلما راى القمر بازغا قال هذا ربّي'' على الانكار و الاستخبار (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے منقول ہے كہ ابراہيمعليه‌السلام كو تين گروہوں كا سامنا تھا ايك گروہ وہ تھا جو چاند كى پرستش كرتا تھا ''جب انھوں نے چاند كو چمكتا ہوا ديكھا، تو بعنوان استفہام انكارى كہا ''يہ ميرا پروردگار ہے''_

____________________

۱) عيون اخبار الرضا، ج ۱، ص ۱۹۷_ ح ۱ ب ۱۵_ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۳۵ ح/ ۱۴۶_

۲۳۸

۱۴_ عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قول ابراهيم صلوات الله عليه ''لئن لم يهدنى ربّى لاكونن من القوم الضالين'' : اى ناس للميثاق (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے''لئن لم يهدني من القوم الضالين'' كے بارے ميں روايت منقول ہے كہ : (مذكورہ آيت ميں ''القوم الضالين'' سے مراد ميثاق الہى كو فراموش كرنے والے لوگ ہيں _

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور چاند كى پرستش كرنے والى قوم ۱۳; ابراہيمعليه‌السلام كا احتجاج (دليل لانا) ۲، ۳;ابراہيمعليه‌السلام كى شرك دشمنى ۲; عصر ابراہيمعليه‌السلام كى تاريخ ۱; قصہ ابراہيمعليه‌السلام ، ۲، ۳، ۱۳;قمر پرستى كا اظہار ۲، ۳

اجرام فلكى :اجرام فلكى كى ربوبيت ۱۲

بابل :اہل بابل كى بت پرستى ۱۲; اہل بابل كى گمراہى ۱۲

چاند :چاند كا غروب ۶;چاند كى ربوبيت كا ردّ ۶

چاند پرستى :چاند پرستى كى تاريخ ۱; عصر ابراہيمعليه‌السلام ميں چاند پرستى ۱

خدا تعالى :خدا كى طرف سے ہدايت ۱۰

ربّ :ربّ كا ہدايت كرنا ۸، ۹

ربوبيت :ابراہيم كى قوم ميں ربوبيت ۴; ۱۱; ربوبيت كے شان شايان۸; شرائط ربوبيت ۶، ۷، ۹;غير خدا كى ربوبيت

روايت : ۱۳، ۱۴

شرك :موارد شرك ۱

ضرورت :ہدايت كى ضرورت ۱۰

عقيدہ :باطل عقيدہ ۱۱; باطل عقيدے كا اظہار ۵; باطل عقيدے كو ابطال كرنے كا طريقہ ۲، ۵

فراموشى :ميثاق و عہد خدا كى فراموشى ۱۴

قوم ابراہيم :قوم ابراہيمعليه‌السلام كا عقيدہ ۴; قوم ابراہيم كى قمر پرستى ۴

گمراہ لوگ :گمراہ لوگوں سے مراد ۱۴

____________________

۱) تفسير عياشي، ح/ ۱ ص ۳۶۴ ج ۳۹ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۳۶ ح/ ۱۴۷_

۲۳۹

گمراہى :گمراہى كے عوامل ۱۰; موارد گمراہى ۱۱

ہدايت :عوامل ہدايت ۱۰

آیت ۷۸

( فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّي هَـذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ )

پھر جب چمكتے ہوئے سورج كو ديكھا تو كہا كہ پھر يہ خدا ہو گا كہ يہ ز يادع بڑا ہے لكن جب وہ بھى غروب ہو گيا تو كہا كہ اے قوم ميں تمھارے شرك سے بر ى اور بيزار ہوں

۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے زمانے ميں رائج مذاھب ميں سے ايك ميں سورج كى پرستش كى جاتى تھي_

فلما رأى الشمس بازغة قال هذا ربّي

۲_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے مناظرہ كرتے وقت، اپنى قوم كے مشركانہ عقائد كو باطل ثابت كرنے كے ليے خورشيد كى پرستش كا اظہار كيا_فلما رأى الشمس بازغة قال هذا ربّي

۳_ سورج كا چاند سے بڑا ہونا، حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے ليے، چاند پرستى سے عدول كرنے اور خورشيد پرستى كا اظہار كرنے كا ايك بہانہ تھا_فلما رأى الشمس بازغة قال هذا ربّى هذا اكبر

۴_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى سرزمين (بابل) كے لوگ سورج كو اپنے امور كى تدبير ميں مؤثر سمجھتے تھے_

فلما رأى الشمس بازغة قال هذا ربّى هذا اكبر

۵_ مجادلے (بحث و مناظرے) كے وقت باطل عقيدے كے ابطال كے ليے، اس عقيدے كا اظہار كرنا جائز ہے_

قال هذا ربّى هذا اكبر

۶_ سورج كا غروب اور مخفى ہونا، اس بات كى دليل ہے كہ كائنات كى ربوبيت ميں اس كا كوئي دخل نہيں _

قال هذاربّى هذا اكبر فلما افلت

۷_ وہ ہستى مقام ربوبيت كے لائق ہے جو قابل غروب

۲۴۰