صحیفہ امام حسین علیہ السلام

صحیفہ امام حسین علیہ السلام0%

صحیفہ امام حسین علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

صحیفہ امام حسین علیہ السلام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مشاہدے: 8028
ڈاؤنلوڈ: 2958

تبصرے:

صحیفہ امام حسین علیہ السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8028 / ڈاؤنلوڈ: 2958
سائز سائز سائز
صحیفہ امام حسین علیہ السلام

صحیفہ امام حسین علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چوتھا باب

لوگوں کی مذمت اور تعریف میں

حضرت علی بن حسین علیہ السلام کیلئے

جناب زہیر بن قین کیلئے

جناب قیس بن مسہر صیداوی کی تعریف میں

ابو ثمامہ صائدی کیلئے

جنابِ جون ،غلام ابوذر کیلئے

یزید بن زیاد ابو شعثاء کیلئے

یزید بن مسعود نہشلی کیلئے

ضحاک بن عبداللہ مشرقی کیلئے

اپنے شیعوں کیلئے ایک خطبہ میں

اپنے شیعوں کیلئے ایک خط میں

اپنے شیعوں کیلئے ایک خط میں

روزِ قیامت اپنے دشمنوں کیلئے

عمر بن سعد پر

عمر بن سعد پر

شمر پر

قبیلہ کندہ کے ایک فرد پر

اپنے قاتلوں پر

زرعہ دارمی پر

عبداللہ ابن حصین ازدی پر

محمد ابن اشعث پر

ابن ابی جویریہ پر

ابن جوزہ تمیمی پر

تمیم ابن حصین پر

محمد بن اشعث پر

جبیرہ کلبی پر

مالک بن حوزہ پر

ابی سفیان پر

اپنے فرزند امام علی زین العابدین علیہ السلام کیلئے آپ کی دعا

خداوندمجھے بیٹے کی طرف سے جزاو خیر دے جو بہترین جزا ہر باپ سے بیٹے کو عطا کرتا ہے۔(لہوف: ۳۰)

حضرت زہیر بن قین کیلئے آپ کی دعا

اے بارِ الٰہا!اسے اپنی رحمت سے دور نہ کرنااور اس کے قاتلوں پر اسی طرح لعنت فرماجس طرح گذشتہ پر لعنت کی تو وہ بندر اور خنزیر کی صورتوں میں بدل گئے۔(ابصارالعین: ۹۹)

جناب قیس بن مسہر صیداوی کیلئے آنحضرت کی دعا

پروردگارا! ہمارے اور ان کیلئے جنت مقدر فرما۔ ہمیں اور ان کو اپنی رحمت اور ذخیرہ شدہ ثواب اور اپنی پسندیدہ جگہ پر جمع فرما۔(طبری در تاریخش ۷:۳۰۴)

ابوثمامہ صائدی کیلئے آپ کی دعا

بارِالٰہا!اسے ان نماز گزاروں سے قرار دے جو ہر وقت اُس کی یاد میں رہتے ہیں۔ (بحار ۴۵:۲۱)

حضرت جون غلام ابوذر کیلئے آنحضرت کی دعا

پروردگارا! اس کے چہرے کو سفیدی عطا فرما، اس کی روح کو پاکیزہ فرما، اس کو نیکوں کے ہمراہ محشور فرما، اس کے اور محمد وآلِ محمد کے درمیان شناخت قرار دے(بحار ۴۵:۲۳)

۴۶ ۔ یزید بن زیاد ابوشعثاء کے لئے آپ کی دعا

پروردگارا! اس کی تیر اندازی کودقیق قرار دے اور اس کیلئے بہشت کو ثواب کے طور پر قرار دے۔(بحار ۴۵:۳۰)

یزید بن مسعود النہشلی کیلئے امام کی دعا

امام علیہ السلام نے بعض اشرافِ بصرہ کو خط لکھا اور انہیں اپنی مدد کرنے کی دعوت اور

اپنی اطاعت کی دعوت دی۔ ان لوگوں میں سے یزید بن مسعود نہشلی بھی تھا۔ اس نے اس حوالہ سے امام علیہ السلام کی خدمت میں خط تحریر کیا۔ جب امام حسین علیہ السلام نے اس کا خط پڑھا تو فرمایا:

"قیامت کے دن خدا تجھے اپنی امان میں رکھے اور تجھے عزت بخشے۔ تجھے پیاس والے دن سیراب کرے"۔

ابھی وہ خود کو تیار کرکے امام علیہ السلام کی طرف نکلنے ہی والا تھا کہ امام علیہ السلام کی شہادت کی خبر اُس کو مل گئی۔(لہوف: ۳۸ ،بحار ۴۴:۳۳۹ ،عوالم ۱۷:۱۸۸)

ضحاک بن عبداللہ مشرقی کیلئے آپ کی دعا

تیرے ہاتھ شل نہ ہوں۔ خداوند تجھ کو قطع نہ کرے اور تیرے نبی کے اہلِ بیتؑؑ کی طرف سے اللہ تعالیٰ تجھے جزائے خیر عطا فرمائے۔(ابن اثیر در کامل ۲:۵۶۹)

اپنے خطبوں میں سے ایک میں اپنے شیعوں کیلئے آپ کی دعا

اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کے مقابل میں ہماری اور آپ کی مدد فرمائے۔ اس کے عتاب سے ہمیں اور آپ کو نجات عطافرمائے بلکہ ہمارے اور آپ کیلئے بہت زیادہ اجروثواب لازم قرار دے۔(تحف العقول: ۱۷۰ ،بحار ۷۸:۱۲۰)

اپنے خطبوں میں سے ایک میں اپنے شیعوں کیلئے آپ کی دعا

اللہ ہمیں اورآپ کو ہدایت پر جمع فرمائے اور ہمیں اور آپ کو خود سے ڈرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔(فتوح ۵:۳۵ ،مقتل الحسین ۱:۱۹۵)

اپنے خطوط میں سے ایک خط میں اپنے شیعوں کیلئے آپ کی دعا

ہمارے لئے اور آپ کیلئے خدا بہترین چیز مقدر فرمائے اور اس پر بہترین انداز میں اجر عطا فرمائے۔(اخبار الطوال: ۲۴۵)

روزِ قیامت اپنے دشمنوں کیلئے

روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام قیامت کے دن اپنی مادرِ گرامی سلام اللہ علیہا کے پاس کچھ اس انداز میں آئیں گے کہ ان کی رگوں سے خون جاری ہوگا۔ آکر فرمائیں گے:

"پروردگارا! آج کے دن مجھ پر ظلم کرنے والوں سے انتقام لے"۔ (فرات بن ابراہیم: ۱۷۲)

عمر بن سعد کی مذمت میں

اللہ تعالیٰ بہت جلد تیرے بستر پر ہی تیرے بدن سے سر کو جدا کرنے والے کو مسلط کرے اور قیامت میں تجھے اپنی بخشش سے محروم رکھے اور روزِ قیامت تو ہرگز نہ بخشا جائے۔(بحار ۴۴:۳۸۹)

عمر بن سعد کی مذمت میں

خدائے بزرگ و برتر تیری نسل کو، تیرے سلسلہ رحم کو ایسے ہی منقطع کرے جس طرح تو نے میری نسل منقطع کی ہے اور پیغمبر اسلامﷺ سے میری قرابت اور رشتہ داری کی بھی پروا نہیں کی۔خدا تجھ پر کسی ایسے کو مسلط کرے جو سوتے میں ہی تیرے بدن سے سر جدا کردے۔(بحار ۴۵:۴۳ ،کامل ابن اثیر ۳:۲۹۳)

شمر کی مذمت میں

روایت ہے کہ شمر بن ذی الجوشن نے نیزے کے ساتھ خیامِ حسینی پر حملہ کیا۔پھر بولا کہ آگ لے آؤ تاکہ حسین علیہ السلام سمیت سب کو ان خیام میں ہی جلا دیں۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:"اے ذی الجوشن کے بیٹے! تو میرے خاندان والوں کو جلانے کیلئے آگ چاہتا ہے، خداوند تجھے (جیتے جی) آگ میں جلائے"۔ (لہوف: ۵۳)

قبیلہ کندہ کے ایک آدمی کی مذمت میں

روایت ہے کہ جب خولی بن یزید کا چلایا ہوا تیر امام علیہ السلام کے بدن میں پیوست ہوا تو امام حسین علیہ السلام زمین پر گر گئے۔ پھر وہیں زمین پر بیٹھ گئے اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے تیر کو اپنے بدن سے نکالتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی داڑھی اور سرخون سے رنگین ہوگئے۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: "میں خدا اور اُس کے پیغمبر کے ساتھ اسی حالت میں ملاقات کروں گا"۔ پھر بیہوش ہوکرزمین پرگر گئے۔پھر جب ذرا طبیعت سنبھلی تو اٹھنا چاہتے تھے لیکن نہ اٹھ سکے۔ اتنے میں قبیلہ کندہ کے ایک ملعون شخص نے امام علیہ السلام کے سرِ اقدس پر کسی چیز سے وار کیاجس سے آپ کا عمامہ زمین پر گر گیا۔ امام علیہ السلام نے اس کے بارے میں یوں بدعا کی:

"تو اپنے دائیں ہاتھ سے نہ کھا سکے اور نہ پی سکے ۔ اللہ تعالیٰ تجھے ظالموں کے ساتھ محشور کرے"۔

ابو مخنف کہتے ہیں کہ جب قبیلہ کندہ کا یہ ملعون سید الشہداء علیہ السلام کا عمامہ اٹھا کر گھر لے گیا تو اس کی بیوی نے کہا:"وائے ہو تجھ پر! امام حسین علیہ السلام کو قتل کرکے ان کا عمامہ لے آیا ہے۔ خدا کی قسم! اس کے بعد میں تیرے ساتھ زندگی نہیں گزاروں گی"۔

اُس ملعون نے اپنی بیوی کو مارنے کے ارادے سے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ کسی میخ نما چیز سے ہاتھ ٹکرا کر کٹ گیا اور وہ ہمیشہ کیلئے فقیر اور محتاج ہوگیا۔(ینابیع المودة: ۳۴۸)

اپنے قاتلوں میں سے کسی کی مذمت میں

ابی عینیہ سے روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں میں سے دو آدمیوں کو دیکھا، یہاں تک کہ ان دو آدمیوں میں سے ایک مسلسل پانی کے پیچھے ہے۔ تمام پانی پینے کے باوجود بھی سیر نہیں ہوتا تھا کیونکہ عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام کو دیکھا تھا جو اپنامنہ پانی کے نزدیک کرکے اس سے پینا چاہتے ہیں۔ اس ظالم نے امام علیہ السلام کی طرف تیر پھینکا ۔ امام علیہ السلام نے اس کے بارے میں یوں فرمایا:

"اللہ تعالیٰ تجھے دنیا اور آخرت میں سیراب نہ فرمائے"۔

وہ آدمی پیاس بجھانے کیلئے دریائے فرات میں کود گیا۔ اتنا پانی پیا کہ اسی تشنگی کی حالت میں موت واقع ہوگئی۔(پانی پی پی کر مر گیا)۔(کفایة الطالب: ۴۳۵)

زرعہ دارمی کی مذمت میں

روایت ہے کہ بنی ابان بن دارم کا زرعہ نامی شخص بھی سید الشہداء علیہ السلام کے قاتلوں میں سے تھا۔ اس نے تیر چلایا جو ابی عبداللہ کے منہ کے نیچے پیوست ہوگیا۔ پھر امام علیہ السلام نے جاری خون کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور آسمان کی طرف پھینک دیا۔ اس ملعون کو پتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام پینے کیلئے پانی مانگ رہے ہیں۔ لہٰذا اُس نے اسی وقت تیر پھینک کر امام حسین علیہ السلام اور پانی کے درمیان فاصلہ ڈال دیا۔امام علیہ السلام نے فرمایا:

"بارِالٰہا! اس کو پیاسا رکھ۔ بارِ الٰہا! اس کو پیاسا رکھ"۔

کہتے ہیں کہ کسی عینی شاہد نے نقل کیا ہے کہ مرتے وقت وہ پیٹ کی گرمی اور پشت میں ٹھنڈک کی وجہ سے چیخیں مار رہا تھا۔ اس کی پشت کی طرف آگ اور اس کے سامنے برف اور ٹھنڈک قرار دی گئی تھی۔ پھر بھی کہہ رہا تھا کہ مجھے پانی پلاؤ، مجھے پیاس نے ہلاک کر دیا ہے۔(کفایة الطالب: ۴۳۴ ،ذخائر العقبی: ۱۴۴)

عبداللہ بن حصین ازدی کی مذمت میں

روایت ہے کہ عبداللہ بن حصین ازدی نے عاشور کے دن بآوازِ بلند کہا تھا:

"اے حسین ! دیکھتے نہیں ہو کہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی آسمان سے باتیں کر رہا ہے لیکن خدا کی قسم! آپ مرتے دم تک اس سے ایک قطرہ بھی نہیں پی سکیں گے"۔

امام علیہ السلام نے یوں جواب میں فرمایا:"پروردگار! اس کو پیاسا ہی موت آئے اور ہرگز اس کے گناہوں سے درگزر نہ فرما"۔

اس کے بارے میں بھی معروف ہے کہ پانی پیتے پیتے اس کا پیٹ نہیں بھرتا تھا، یہاں تکہ کہ سیر ہوتے ہوتے ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔(روضۃ الواعظین: ۱۸۲)

محمد بن اشعث کی مذمت میں

روایت ہے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ اے حسین ! تھوڑی دیر بعد آتش جہنم میں اترنے کی مبارکباد ہو، خوشخبری ہو۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :"میں خود کو پروردگارِ رحیم، شفاعت کرنے والے اور اطاعت کئے جانے والے کی بشارت دیتا ہوں۔ تو کون ہے؟"اُس شخص نے کہا کہ میں محمد بن اشعث ہوں۔

پھر امام حسین علیہ السلام نے یوں فرمایا:" اے پروردگار! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے تو اس کو جہنم کی آگ میں ڈال۔ آج اس کو اپنے دوستوں کیلئے نشانِ عبرت قرار دے"۔

کچھ ہی دیربعد اس کے ہاتھوں سے گھوڑے کی لگام چھوٹی تو وہ زمین پر گر گیا۔(مثیر الاحزان: ۶۴)

ابن ابی جویریہ مزنی کی مذمت میں

روایت ہے کہ عاشور کے دن سید الشہداء علیہ السلام نے خیامِ حسینی کے اطراف میں خندق کھودنے کا حکم دیا۔ لہٰذا لشکر کے اطراف میں خندق نما گڑھا کھودا گیا۔ پھر حکمِ امام کے تحت اسے لکڑیوں سے بھر دیا گیا۔ پھر آپ کی فرمائش کے مطابق آگ لگا دی گئی تاکہ امام حسین علیہ السلام قومِ اشقیاء سے ایک جانب سے جنگ کریں۔

روایت ہے کہ محمد بن سعد کے لشکر سے ایک آدمی بنام ابن ابی جویریہ مزنی آگے بڑھا اور جیسے شعلے اگلتی آگ پر نظر پڑی تو ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہنے لگا:"اے حسین اور اصحابِ حسین ! آگ کی بشارت دیتا ہوں۔ دنیا میں آگ کی طرف کس قدر جلدی کی ہے!"

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:"بارِ الٰہا! دنیا میں ہی اس کو عذابِ جہنم کا مزہ چکھا"۔اسی وقت اس کا گھوڑا کودا اور اس کو اسی آگ میں پھینک دیا جس سے وہ جل گیا۔(امالی: ۱۳۴)

ابن جوزہ تمیمی کے بارے میں

روایت ہے کہ جب آگ پورے گڑھے میں پھیل گئی تو ابن جوزہ نے امام علیہ السلام کو یوں مخاطب کیا:"اے حسین ! آخرت سے پہلے ہی دنیا میں آگ کی بشارت ہو"۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:"پروردگار! اگر تیرا یہ بندہ کافر ہے تو اسے آگ میں ڈال"۔

ایک اور روایت میں یوں ذکر ہے:

"خداوندا! اس کو آتش جہنم میں ڈال اور مرنے سے پہلے دنیا میں ہی اس کو آگ میں جلا"۔

تھوڑی دیر بعد وہ گھوڑے سے آگ میں گرا اور جل گیا۔(بحار ۴۵:۱۳)

تمیم بن حصین فزاری کی مذمت میں

روایت ہے کہ عمر بن سعد کے لشکر سے ایک آدمی جسے تمیم بن فزاری کہاجاتا تھا، آگے آیا اور کہنے لگا:"اے حسین اور اصحابِ حسین ! کیا فرات کے پانی کی طرف نہیں دیکھتے گویا مچھلیوں کے پیٹوں سے بھی نظر آرہا ہے ۔ خدا کی قسم! مرتے دم تک اس سے ایک قطرہ بھی نہیں پی سکو گے"۔امام نے فرمایا:"یہ اور اس کا باپ جہنمی ہیں۔

بارِ الٰہا! آج ہی اس کو شدتِ پیاس سے موت دے"۔

اسی وقت شدتِ پیاس سے گھوڑے پر نہ سنبھل سکا اور زمین پر گر گیا۔(امالی: ۱۳۴)

محمد بن اشعث کی مذمت میں

روایت ہے کہ سید الشہداء علیہ السلام دعا کرتے ہوئے فرما رہے تھے:

اے اللہ! ہم تیرے نبی کے اہلِ بیتؑ اور ان کی اولاد اور قرابت دار (رشتہ دار) ہیں۔ ہم پر ظلم کرنے والوں اور ہمارا حق غصب کرنے والوں سے ہمارا انتقام لے۔ بے شک تو سننے والا سب سے قریب ہے"۔

محمد بن اشعث بولا: "آپ کے اور حضرت محمد کے درمیان کیا رشتہ داری ہے؟"امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:

"پروردگار!آج ہی اس کی ذلت و خواری مجھے دکھا"۔

ایک اور روایت میں آیا ہے:

"پروردگار!آج محمد بن اشعث کو اس طرح ذلیل و رسوا کر کہ کبھی عزت دار نہ بن سکے"۔

محمد بن اشعث رفع حاجت کیلئے گیا کہ ایک بچھو نے آلہ تناسل پر ڈس لیا۔ وہ اس قدر چیخا اور اپنے ہی فضلہ پر لوٹنے لگا۔(بحار ۴۵:۳۰۲)

جبیرہ کلبی کی مذمت میں

روایت ہے کہ جب امام علیہ السلام نے خندق تیار کروالی اور اُسے آگ سے بھر دیا تو ایک ملعون جس کا نام جبیرہ کلبی تھا، نے امام سے کہا:

"اے حسین ! روزِ قیامت کی آگ سے قبل دنیا ہی کی آگ میں مبتلا ہوگئے ہیں"۔

امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ آگ سے میرا مذاق اڑاتا ہے حالانکہ میرے والد آتش جہنم کے تقسیم کنندہ ہیں اور میرا پروردگار بخشنے والا اور مہربان ہے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

"بارِ الٰہا: اسے آتش جہنم سے قبل دنیا کی آگ میں فنا فرما"۔

ابھی امام کی دعاختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اس کے گھوڑے نے حرکت کی اور اسے اس آگ کے درمیان پٹخ دیا اور جل کر خاکستر ہوگیا۔ امام نے تکبیر بلند کی اور ایک منادی نے آسمان سے آواز دی کہ فرزند پیغمبر آپ کی دعا بارگاہِ احدیت میں فوراً قبول ہوتی ہے۔ (ینابیع المودة: ۴۱۰)

مالک بن جوزہ کی مذمت میں

روایت ہے کہ عمر بن سعد کے لشکر میں سے ایک شخص جس کا نام مالک بن جوزہ تھا،

اس حال میں کہ گھوڑے پر سوار تھا، امام کے لشکر کی طرف آیا اور خندق کے کنارے کھڑے ہوکر کہنے لگا:"اے حسین ! آپ کو بشارت ہو کہ آپ آتش جہنم سے قبل ہی آتش دنیا میں جلائے جائیں گے"۔

امام نے فرمایا:"اے دشمنِ خدا! میں اپنے پروردگار ،مہربان اور اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کی جانب جارہا ہوں جو سب کیلئے شفاعت کرنے والے ہیں"۔ اور فرمایا:

"بارِ الٰہا:اسے آگ میں داخل فرما اور آتش جہنم سے قبل اسے آگ میں جلا"۔

راوی کہتا ہے کہ اچانک اس کے گھوڑے نے حرکت کی اور اسے آگ میں گرادیا جس میں وہ جل کر خاکستر ہوگیا۔

راوی کہتا ہے کہ امام نے اپنے چہرے کو سجدہ کی حالت میں زمین پر رکھا اور فرمایا کہ میری دعا کتنی جلد قبول ہوگئی۔

راوی کہتا ہے کہ اسی حالت میں امام نے آواز بلند کی اور فرمایا:

"بارِالٰہا! میں تیرے نبی کی اہلِ بیتؑ ، ذریت اور قرابت دار ہوں۔ جو ہم پر ظلم روا رکھے اور ہمارا حق غصب کرے، بے شک تو سننے والا اور قبول کرنے والا ہے"۔ (فتوح ۵:۱۰۸)

ابی سفیان کی مذمت میں

روایت ہے کہ جب عثمان کی بیعت ہوچکی تو ابوسفیان نے امام حسین علیہ السلام کاہاتھ پکڑا اور کہا:اے میرے بھائی کے بیٹے! میرے ساتھ قبرستان جنت البقیع تک چلو۔ وہ چلے، یہاں تک کہ جب وہ جنت البقیع کے درمیان پہنچے تو سید الشہداء علیہ السلام کے سامنے جرات کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا:"اے اہل قبور! جس چیز کے متعلق(خلافت) ہم سے جنگ کرتے تھے، آج وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے جبکہ تم بوسیدہ ہوچکے ہو"۔

یہاں پر سید الشہداء علیہ السلام نے فرمایا: "خداوندتیرے بالوں کو سفید اور تباہ کرے اور تیرے چہرے کو قبیح کرے"۔

پھر سید الشہداء علیہ السلام نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور اس سے علیحدہ ہوگئے۔(احتجاج طبرسی ۱:۲۷۵)

پانچواں باب

مصائب سے نجات اور حاجت روائی کیلئے آپ کی دعائیں

دشواریوں سے چھٹکارے کیلئے

غم و اندوہ کو دور کرنے کیلئے

نماز بجا لانے کے بعد اپنی حاجات کیلئے دعا

نمازِ حاجت میں آپ کی دعا

مصائب اور مشکلات سے چھٹکارا پانے کیلئے آپ کی دعا

اے سختی اور مشکل میں کام آنے والے ، اے مشکل وقت میں فریاد رسی کرنے والے! اپنی ہمیشہ بیدار نگاہوں سے میری حفاظت فرما اور مجھے حملوں سے محفوظ اپنی پناہ گاہ میں پناہ دے۔

ایک اور روایت میں یوں ہے:

اے سختی کے وقت میرے کام آنے والے اور سختی کے وقت فریاد رسی کرنے والے! اپنی ہمیشہ بیدار نگاہوں سے میری حفاظت فرما اور مجھے حملوں سے محفوظ اپنی پناہ گاہ عطا فرما۔ مجھ پر اپنی قدرتِ کاملہ سے رحمت برسا۔ میں کیسے ہلاک ہو سکتا ہوں جبکہ میری اُمیدیں تجھ سے وابستہ ہیں۔

پروردگار! تو سب سے بڑا ہے۔ عزت دار اور قدرت والا ہے۔ لہٰذا جس جس سے مجھے خوف ہے، ڈر ہے، اُنہیں نابود فرما اور مجھے اُن کے شر سے محفوظ فرما۔ تحقیق تو ہرچیز پر قادر ہے۔(بحار ۴۷:۱۷۵ ،اعلام الوری: ۲۷۸)

غموں اور پریشانیوں سے نجات کیلئے آپ کی دعا

اے پروردگار! میں سوال کرتا ہوں کہ اپنی آیات اور عرشِ بریں کے مکینوں کے صدقے، اپنی زمینوں اور آسمانوں کے مکینوں کے صدقے، اپنے نبیوں اور رسولوں کے صدقے میری دعا قبول فرما۔ ایک مشکل کام میرے دامن گیر ہے، لہٰذا تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد و آلِ محمد پر درود بھیج اور مجھے اس مشکل سے نجات عطا فرما اور میری مشکل کو آسانی میں بدل دے۔(کمال الدین ۱:۲۶۵)

نماز کے بعد اپنی حاجات کیلئے آپ کی دعا

پروردگار!تو نے حضرت آدم اور حضرت حوا کی دعا کو مستجاب کیا جب انہوں نے کہا کہ پروردگار ہم نے خود پر ظلم کیا، لہٰذا اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور اپنی رحمت سے نہ نوازا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔پھر حضرت نوح نے تجھے پکارا اور تو نے دعا کو قبول فرمایا۔ لہٰذا حضرت نوح اور ان کے اہلِ بیت کو بہت بڑی مصیبت سے نجات دی۔پھر آتش نمرود کو ابراہیم خلیل اللہ پر خاموش کیا اور اس کو متوازی قرار دیا۔

تو وہ ہستی ہے جس نے حضرت ایوب کی دعا کو قبول کیاجب انہوں نے ندا دی۔ اے میرے پروردگار! میں مشکل میں گھر چکا ہوں جبکہ تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔پھر تو نے اُن کی مشکل حل فرمائی، اُن کے اہلِ بیت اور اُن کی طرح کے لوگ انہیں عطا کئے، اپنی رحمت اور صاحبانِ دل لوگوں کی خاطر۔

جب حضرت یونس نے تاریکیوں سے تجھے پکارا تو تو نے اُن کی دعا قبول فرمائی۔

۱ ۔ سید بن طاؤس کہتے ہیں: نمازِ امام حسین علیہ السلام چار رکعت ہے۔ہر رکعت میں پچاس بار سورئہ حمد اور پچاس بار سورئہ توحیدپڑھی جائے۔ رکوع میں دس بار سورئہ حمد اور دس بار سورئہ توحید کی تلاوت کی جائے۔رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہر سجدہ میں اور دونوں سجدوں کے درمیان دس بار سورئہ حمد اور دس بار سورئہ توحید پڑھی جاتی ہے۔

بے شک تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے جبکہ میں ظلم کرنے والا ہوں، پس تو نے ان کوغم و اندوہ سے نجادت دی۔

تو ایسی باعظمت ذات والا ہے جس نے حضرات موسیٰ و ہارون کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا: میں نے آپ دونوں کی دعا کو مستجاب کیا ہے جبکہ فرعون اور آلِ فرعون کو غرق کیا ہے۔حضرت داؤد کے گناہ سے درگزر کرتے ہوئے ان کی توبہ قبول فرمائی، اپنی رحمت اور اور دوسروں کیلئے (تذکر) یاد آوری کیلئے۔حضرت اسماعیل پر بہت بڑی قربانی دی جبکہ وہ تسلیم ہوکر موت کیلئے جبین جھکا چکے تھے۔ تو نے ان کو آسانی، نجات اور سلامتی سے پکارا یا مشرف کیا۔

تو وہ ہستی ہے جس سے حضرت ذکریا نے بہت آہستہ سے یوں ندا دی:"پروردگار! میری ہڈیاں کمزور اور بال سفید ہوگئے ہیں"۔ تو نے فرمایا:"میں بھی تیری دعا کے سامنے شقی پروردگار نہیں ہوں"، اور پھر تو نے فرمایا: وہ مجھے اپنے ذوق و شوق سے پکارتے تھے اور میرے لئے خاضع اور خاشع تھے۔

تو وہ ذات ہے جس نے مومنین اور عملِ صالح بجالانے والوں کی دعائیں مستجاب کیں اور اپنے فضل و رحمت میں مزید اضافہ فرمایا۔

اے اللہ! تمام پکارنے والوں اور تیری طرف رغبت رکھنے والوں میں سب سے پست تر قرار نہ دے۔ جس طرح اُن کی دعائیں مستجاب فرمائی ہیں، میری دعا بھی قبول فرما۔ اُن کے صدقہ میں اپنی پاکیزگی سے مجھے پاکیزہ فرما اور اچھے انداز میں میری نماز اور دعا قبول فرما۔میری باقی زندگی اور موت کو بہترین قرار دے۔ مجھے خلف صالح قرار دے۔

میری دعا سے میری حفاظت فرما اور میری اولاد کو صالح بنا۔ تجھے اپنی رحمت کا واسطہ! جس طرح اپنے اولیاء اور اطاعت گزاروں کی اولادوں کی حفاظت فرمائی ہے، ان کی بھی حفاظت فرما۔

اے وہ ذات جو ہرچیز پر نگاہ رکھے ہوئے ہے او راپنی مخلوقات میں سے ہر ایک کی دعا قبول کرنے والے، ہر سائل کے قریب! تجھ سے ہی سوال کرتا ہوں۔ اے وہ ذات جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں! تو زندہ اور ہمیشہ رہنے والا یکتا اور بے نیاز ہے۔ تو وہ ذات ہے جو نہ کسی کا باپ ہے اور نہ ہی کسی کا بیٹا اور کوئی بھی اس کے ساتھ برابری کا سزاوار نہیں ہے۔پروردگار! تجھے اپنے ان اسماء کا واسطہ جن کے ذریعے سے آسمانوں کو بلند کیا ہے اور زمین کا فرش پھیلایا ہے، پہاڑوں کو کھڑا کیا ہے، پانی کو جاری کیا ہے، بادلوں اور شمس و قمر، ستارے، رات اور دن کو مسخر کیا ہے اور تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔

اے اللہ! تیرے اس جمال اور عظمت کے طفیل سے سوال کرتا ہوں جس سے آسمان و زمین روشن ہیں، جس سے تاریکیاں بھی جگمگا اٹھی ہیں۔

محمد وآلِ محمدپر درود بھیج اور اُن کو اپنے خزانوں اور وسیع و عریض اور ہمیشہ رہنے والے فضل سے نواز۔

پروردگار! میرے دل میں حکمت کے ایسے چشمے جاری فرما کہ جن سے میں اور وہ بندے جن سے تو راضی ہے، مستفید ہوسکیں۔ آخری زمانے میں متقین میں سے میرے لئے امام قرار دے، جس طرح حضرت ابراہیم کو امام بنایا۔

بے شک تیرے ہی توفیق سے صالح لوگ کامیاب ہوتے ہیں، عبادت گزار عبادت کرتے ہیں، اصلاح کی جستجو کرنے والے، احسان کرنے والے اور اچھے لوگ اصلاح پاتے ہیں۔جو تیری بارگاہ میں عبادت کرنے والے ، تجھ سے ڈرنے والے، تیری ہدایت کے سبب تیری جہنم سے نجات پانے والے ہیں، تیری مخلوقات میں سے ڈرنے والے ہی ڈرتے ہیں اور اہلِ باطل خسارہ پانے والے ہیں۔ ظالم ہلاک ہونے والے اور غفلت سے کام لینے والے غافل ہی رہیں گے۔

پروردگار ! میرے نفس کو متقی قرار دے کیونکہ تو اس کا مولا اور سرپرست ہے۔ تو بہترین انداز میں تزکیہ کرنے والا ہے۔ پروردگار! ان کیلئے راہِ ہدایت کو روشن فرما اور تقویٰ کا انہیں الہام فرما۔مرتے وقت اپنی رحمت کی بشارت سے نواز۔جنت کے بہترین طبقہ میں جگہ نصیب فرما۔ زندگی اور موت کو بہترین قرار دے ۔ دنیا اور آخرت اور محل استقرار اور پناہ گاہ کو باعزت بنا۔بے شک تو سرپرست اور مولا ہے۔(جمال الاسبوع: ۱۷۶ ،بحار ۹۱:۱۸۴)

نمازِ حاجت میں آنحضرت کی دعا

سید الشہداء علیہ السلام سے ہی روایت ہے کہ چار رکعت نماز بجا لائیں جس میں قنوت اور بقیہ ارکان کو بہترین انداز میں انجام دیں۔ پہلی رکعت میں ایک بار سورئہ الحمد پڑھیں اور سات مرتبہ اس آیہ کی تلاوت کریں :"خدا میرے لئے کافی ہے اور وہ بہترین وکیل ہے"۔

دوسری رکعت میں ایک بار الحمد پڑھیں اور سات مرتبہ یہ آیہ تلاوت کریں:

"جو خدا چاہے وہی انجام پاتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی قوت نہیں ہے ۔ اور تو خیال کرتا ہے کہ میں مال و اولاد کے اعتبار سے تجھ سے کم ہوں"۔

پھر تیسری رکعت میں ایک مرتبہ الحمد پڑھیں جبکہ سات مرتبہ پڑھیں:"تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تیری ذات پاکیزہ ہے ۔ بے شک میں ظلم کرنے والوں میں سے ہوں"۔

چوتھی رکعت میں ایک مرتبہ الحمد پڑھیں اور سات مرتبہ یہ آیہ پڑھیں:

"میں اپنے امور کو اسی کے حوالے کرتا ہوں کیونکہ وہ اپنے بندوں سے آگاہ ہے"۔

پھر اپنی حاجات بیان کرتے تھے۔

چھٹا باب

خطرات اور بیماریوں سے نجات کیلئے آپ کی دعائیں

دشمن سے مخفی رہنے کیلئے

خطرات کو دور کرنے کیلئے

جن و انس کے خطرات سے محفوظ رہنے کیلئے

دانتوں کے درد سے نجات کیلئے

پاؤں کے درد سے نجات کیلئے

پاؤں کے درد سے نجات کیلئے

دشمن سے مخفی رہنے کیلئے آپ کی دعا

اے وہ ذات جس کی تعریف ہی کفایت کرنا ہے، جس کی شان ہی کفیل ہونا ہے اور جس کی توجہ رعایت کرنا ہے۔ اے وہ ذات جو ہمارا مقصد اور ہماری غرض و غایت ہے۔ اے پلیدیوں اور نقصانات کے دور کرنے والے! مجھ سے تمام جہانوں کے دکھ درد(جن و انس) دور فرما۔البتہ نورانی وجوداتِ عالیہ ، سریانی اسماء ، یونانی قلموں اور عبرانی کلمات کے طفیل سے اور جو کچھ الواح میں بیان ہوچکا ہے۔

پروردگار!مجھے ہر نکالے گئے شیطان اور بغل میں چھپے ہوئے دشمن سے، کینہ رکھنے والے دشمن سے،مخالف، ضدی اور ہر حسد کرنے والے سے اپنی حفاظت میں رکھ۔ اپنے گروہ سے، اپنی امان اور پناہ میں رکھ۔

میں تیری بارگاہ سے شفا کا طلبگار ہوں۔اپنے کاموں کی انجام دہی کا تجھ سے ہی مطالبہ کرتا ہوں۔ تجھ ہی پر توکل کرتا ہوں۔ اُسی سے مدد کا خواستگار ہوں۔ ہر ظالم کے ظلم کے مقابلہ میں، ہر ستمگر کے ستم کے مقابلہ میں، ہر تجاوز کرنے والے کے تجاوز کے مقابلہ میں ، ہر اذیت دینے والے کی اذیت کے مقابلہ میں، تجھ ہی سے شکایت کرتا ہوں۔ پس اللہ بہترین حفاظت کرنے والا اور بہترین رحم کرنے والا ہے۔(مکارم الاخلاق ۲:۱۲۲)

دفعِ خطرات کیلئے آپ کی دعا

اللہ کے نام سے جو بخشنے والا مہربان ہے۔ اے زندہ، اے ہمیشہ رہنے والے، اے زندئہ جاوید، اے ہمیشہ پائندہ باد، اے غموں کی تاریکیوں کو دور کرنے والے، اے دکھوں سے نجات دینے والے، اے رسولوں کے بھیجنے والے، اے سچے وعدوں والے!

بارِ الٰہا! اگر تو مجھ سے راضی ہے اور مجھ سے محبت کرتا ہے تو میرے اور میری راہ پر چلنے والوں ، میرے بھائیوں، میرے شیعوں کے گناہوں سے درگزر فرما۔میری صلب میں آنے والوں کو پاکیزہ فرما۔ اے بہترین رحم کرنے والے! تجھے اپنی رحمت کا واسطہ، ہمارے آقا حضرت محمد اور اُن کی آل پر درود بھیج۔(مہج الدعوات: ۱۱ ،بحار ۹۴:۲۶۵)

جن و انس کے خطرات سے محفوظ رہنے کیلئے آپ کی دعا

امام حسین علیہ السلام سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ جب بھی میں یہ کلمات زبان پر جاری کرتا ہوں تو تمام جن و انس سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہوں:

اللہ کے نام سے، اُس کی مدد سے، خدا کی طرف سے، اُس کی راہ میں، پیغمبر اسلام کے طریقہ پر، بارِ الٰہا! اپنی قوت، طاقت اور قدرت سے مجھے ہر دھوکہ دینے والے ،ہر فاجر کے مکروفریب سے محفوظ فرما کیونکہ نیکو کاروں کو دوست اور اچھے لوگو ں کو پسند کرتا ہوں۔ پیغمبر حضرت محمد اور اُن کی آل پر درود بھیج۔(بحار ۹۵:۲۲۰)

دانتوں میں درد کی دعا

لکڑی یا لوہے کے ٹکڑے کو دانتوں پر رکھ کر سات مرتبہ یہ دعا پڑھیں:

"شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔نہایت تعجب ہے کہ ایک کیڑا جو منہ میں ہے، ہڈی کھاتا ہے، خون پیتا ہے۔ میں اس دعا کو پڑھتا ہوں۔ اللہ شفا دینے والا اور کفایت کرنے والا ہے۔اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔

جب تم نے ایک شخص کو قتل کرکے چھپایا۔ اللہ آشکار کرنے والا ہے جسے تم چھپاتے ہو۔ ہم نے کہا اس گائے کا ایک حصہ اس مردہ کو مارو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ مردہ کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم غور کرو۔(مکارم الاخلاق ۲:۲۷۲)

پاؤں کا درد دور کرنے کیلئے

امام سجاد علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایک شخص نے امام حسین علیہ السلام سے پاؤں میں درد کی شکایت کی اور کہا کہ میرے پاؤں میں شدید درد محسوس ہوتا ہے جس کی وجہ سے نماز ادا کرنے سے بھی قاصر ہوں۔ امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ دعا کیوں نہیں پڑھتے؟کہا کیا پڑھوں؟

آپ نے ارشاد فرمایا کہ جہاں درد محسوس ہوتا ہے، وہاں ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھو:

"اللہ کے نام سے اور اُس کی مدد سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام"۔

پھر یہ پڑھو:

"اور اُنہوں نے اللہ کی قدر نہ جانی جیسا کہ اُس کی قدر کرنے کا حق ہے اور قیامت کے دن تمام زمین اُس کے قبضہ میں ہوگی اور آسمان اُس کے دائیں جانب لپٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ ذات پاک اور بلند تر ہے اُس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں"۔(بحار ۹۵:۵۸)

پاؤں کا درد دور کرنے کیلئے

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:میں امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا۔ ایک شخص بنی اُمیہ سے جو ہمارے شیعوں میں سے تھا،نے آپ کی خدمت میں آکر عرض کیا:’فرزند رسول! پاؤں کے درد کی وجہ سے آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا‘۔آپ نے فرمایا: میری دعا کو کیوں نہیں پڑھتے؟ عرض کیا کہ فرزند رسول! میں کیا پڑھوں؟ فرمایا پڑھو:

"ہم نے آپ کو فتح مبین بخشا تاکہ گذشتہ و آئندہ خطاؤں کو بخشا جائے اور اپنی نعمت کو آپ پر کامل کرے اور سیدھی راہ کی ہدایت کرے اور اللہ آپ کو غالب نصرت عطا کرے۔ ابتداء وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکون نازل کیا تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔ زمین و آسمان کے لشکر خد اکیلئے ہیں اور خدا داناو حکمت والا ہے۔

تاکہ مومن اور مومنات بہشت میں، جس کے اندر نہریں جاری ہیں، داخل کئے جائیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کے گناہوں کو بخشا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے اور منافقوں اور مشرکوں کوجو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمان

ہیں، ان کی بدگمانی ثابت ہوچکی ہے۔ اللہ نے ان پر غضب کیا اور ان پر لعنت کی ہے اور ان کیلئے دوزخ تیار کی ہے اور وہ بدترین جگہ ہے۔ اللہ کیلئے زمین و آسمان کی فوج ہے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے"۔(طب الآئمہ : ۳۳)