صحیفہ امام حسین علیہ السلام

صحیفہ امام حسین علیہ السلام0%

صحیفہ امام حسین علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

صحیفہ امام حسین علیہ السلام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مشاہدے: 8033
ڈاؤنلوڈ: 2959

تبصرے:

صحیفہ امام حسین علیہ السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8033 / ڈاؤنلوڈ: 2959
سائز سائز سائز
صحیفہ امام حسین علیہ السلام

صحیفہ امام حسین علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فصل دوم

آنحضرت کے خطبات

توحید کے بارے میں

نصیحت کے بارے میں

بعض مواعظ حسنہ کے بارے میں

بعض مواعظ حسنہ کے بارے میں

لوگوں کو جہاد کی دعوت دینے کیلئے

اپنی توصیف میں

اہلِ بیت کے حق کو بتاتے ہوئے

ظلم کے خلاف لوگوں کو آمادہ کرتے ہوئے

عراق جاتے ہوئے

ایک منزل پر

نمازِ ظہر سے قبل حُر کے لشکر سے ملاقات کے وقت

نمازِ عصر سے قبل حُر کے لشکر سے خطاب

منزلِ بیضہ

کربلا میں داخل ہوتے وقت

شبِ عاشور

روزِ عاشور

صبح عاشور

روزِ عاشور جب آپ محاصرہ میں تھے

روزِ عاشور

صبح عاشور

روزِ عاشور اصحابِ باوفا سے

روزِ عاشورنمازِ ظہر کے بعد اصحابِ باوفا سے

توحید کے بارے میں آنحضرت کا خطبہ

اے لوگو!ایسے لوگوں سے دور ہی رہو جو دین سے نکل گئے اور اللہ جل شانہ کو اپنے جیسا سمجھنے لگے۔ ان کی باتیں ایسے ہیں جیسے اہل کتاب سے کفار باتیں کرتے ہیں، حالانکہ وہی سب کچھ ہے، کوئی شے اُس کی طرح نہیں۔ وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ آنکھیں اُس کو دیکھ نہیں سکتیں جبکہ وہ آنکھوں کو دیکھتا ہے۔ وہی مہربان اور تمام امور کاجاننے والا ہے۔

وہ ذات جس نے جبروت اور وحدانیت کو اپنے ساتھ خاص کر رکھا ہے جبکہ خواہش ، ارادہ، قوت اور دانش کو استعمال میں لایا ہے۔ کسی بھی چیز میں اس سے جھگڑنے والا ہے ہی نہیں۔ کوئی ایسا نہیں کہ اس سے برابری کرے۔ اس کی کوئی ضد نہیں جو اس سے مقابلہ کرے۔ کوئی اس کا ہمنام نہیں جو اس سے مشابہت پیدا کرے اور نہ ہی کوئی اس کی مثل ہے کہ اس سے ہم شکل قرار پائے۔

پے در پے اُمور اس میں کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ گردشِ ایام اس میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔حوادثِ زمانہ اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ اس کا وصف بیان کرنے والے اس کی عظمت کی گہرائیوں کو نہیں پاسکتے۔ اس کے جبروت کی بلندیوں کو دلوں سے محسوس نہیں کرسکتے کیونکہ اشیاء میں کوئی بھی اس کی طرح نہیں ہے۔ علماء بھی اپنی عقل کی بلند پروازوں کے باوجوداسے نہیں پاسکتے۔

مفکرین اپنی تمام تر سوچ وبچار کے باوجود اس کے وجود کی تصدیق کئے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ مخلوقات کی صفات میں سے کسی کے ساتھ بھی توصیف نہیں کرسکتے۔ وہ واحد اور بے نیاز ہے۔جو کچھ بھی انسانی تصور میں آتا ہے، وہ اس ذات کے علاوہ ہے۔

وہ بھی کوئی رب ہے جسے درک کیا جاسکے! وہ بھی کوئی رب ہے جسے ہوا یا غیر ہوا گھیر لیں! وہ ہرچیز میں ہے، نہ اس طرح کہ اس کے حصار میں ہے اور وہ تمام چیزوں سے جدا بھی ہے مگر نہ اس طرح کہ وہ اس سے مخفی ہیں۔ وہ بھی کوئی قادر ہے کہ کوئی اس کی ضد ہو اور اس سے مقابلہ کرے یا کوئی اُس کی برابری کرے۔ اس کی قیومیت گزرے ہوئے ایام کی طرح نہیں ہے اور اس کی توجہ کوئی خاص جہت نہیں رکھتی۔

جس طرح وہ آنکھوں سے مخفی ہے، عقل کی گہرائیوں سے بھی پوشیدہ ہے۔ جس طرح اہلِ زمین سے پوشیدہ ہے، اہلِ آسمان سے بھی ایسے ہی مخفی ہے۔ اس سے قرابت گویا اس کا گرامی قدر بنادینا ہے۔ اس سے دوری گویا گھٹیا قرار دینا ہے۔ اس کا کوئی مکان نہیں ہے اور نہ ہی زمانے اس کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔کوئی بھی اس کے اُمور میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ اس کی بلندی سے مراد یہ نہیں کہ وہ کسی ٹیلے پر ہے۔ اس کا آنا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا نہیں ہے۔ وہ عدم سے وجود بخشتا ہے اور وجود کو نیستی میں بدل دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کیلئے بھی دو متضاد صفات ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اس کے بارے میں غوروخوض اس وجود کے متعلق ایمان تک پہنچانا ہے۔اس کے بارے میں ایمان اور اعتقاد فقط اس کے وجود تک پہنچاتا ہے۔(یعنی اس کی ذات کے متعلق غوروخوض اس کے وجود کو ثابت کرتا ہے لیکن پھر بھی اس کی ذات سے پردہ نہیں اٹھاتا)۔

اس کی وجہ سے صفات متصف ہوتی ہیں، نہ یہ کہ اس کی توصیف صفات سے کی جائے۔ چیزوں کی پہچان اسی کے دم سے ہے نہ یہ کہ وہ چیزوں سے پہچانا جائے۔ یہ ہے اللہ جل جلالہ کہ کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ وہ پاک ہے۔ اس کی مانند کوئی چیز نہیں ہے۔ وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔(تحف العقول: ۲۴۴)

موعظہ میں آپ کا خطبہ

میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور قیامت کی ہولناکیوں سے بھی بچنے کی وصیت کرتا ہوں۔ میں اس دن کی علامات تجھے بتاتاہوں، جس طرح اس سے ڈرایا گیا ہے گویا اسی طرح اس کا آنا خوفناک ہے۔ اس کا آنا انتہائی اجنبی انداز میں ہے۔ وہ بے حد تلخ اور ناگوار لقمہ ہے۔ وہ ہمہ وقت تمہارے دلوں سے چسپاں ہے۔ وہ تمہارے اور تمہارے اعمال کے درمیان حائل ہے۔

ایسی صورتحال میں اپنے بدنوں کی صحت اور طولانی عمر کو غنیمت شمار کرتے ہوئے نیکیوں میں جلدی کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دم تم پر موت آن پڑے اور تم کو منوں مٹی تلے سلادے۔ بلندی سے پستی کی طرف دھکیل دے اور اُنس و راحت بھری دنیا سے وحشت زدہ گھروں میں لے جائے۔آرام اور روشنی سے تاریکی و ظلمت میں لے جائے او رکھلے مکان سے تنگ مکان میں منتقل کردے۔ ایسا مکان کہ جس سے نہ کسی رشتہ دار سے ملاقات ممکن ہوسکتی ہے اور نہ ہی کسی بیمار کی عیادت کی جاسکتی ہے، نہ ہی کسی بلانے والے کو جواب دیاجاسکے۔

خدا مجھے اور آپ کو قیامت کی ہولناکیوں میں مدد فراہم کرے اور ہمیں اس سے نجات عطا فرمائے۔ہمیں اور تمہیں اجر جزیل سے نوازے۔

اے اللہ کے بندو! اگر ایسے ہی ہے(تو جان لو) کہ دنیا کی زندگی بہت مختصر ہے جبکہ سفر طولانی ہے۔ پس ہمارے لئے بہتر ہے کہ ہمیں ایسے کاموں میں مصروف ہونا چاہئے جو غموں سے آزاد کردیں اور دنیا کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے خود کو مصیبتوں کے حوالے کردیں۔ ہاں! ایسا کیونکر نہ ہو، درآنحالیکہ انسان اس دارِ فانی کے بعد اپنے اعمال کا گروی ہے۔حساب و کتاب کیلئے اسکو کھڑا کیا جائے گا۔ اس دن اس کا کوئی دوست ہوگا جو اس کی مدد کرے اور نہ ہی کوئی مددگار ہوگا جو اس سے دفاع کرے۔ جو آدمی دنیا میں ایمان نہ لایا ہو یا ایمان لانے کے بعد نیکیاں نہ بجالایا ہوتو قیامت میں یہ ایمان اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔کہو! آپ انتظار میں رہئے، ہم بھی منتظر ہیں۔

میں تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ ہر تقویٰ اختیار کرنے والے شخص کاخود خدا ضامن ہے کہ ناپسندیدہ چیز کے بدلہ پسندیدہ چیز عطا کرتا ہے۔ ایسی جگہوں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے توقع نہیں ہوتی۔

ڈرو اور ایسے لوگوں میں سے بنو جو بندوں کو گناہوں سے ڈراتے ہیں اور خود گناہوں کے عتاب سے محفوظ ہیں۔پس اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی جنت کے متعلق دھوکہ نہیں کھا سکتا اور جو کچھ اس کے پاس ہے، اس کا حصول اطاعت و فرمانبرداری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔(تحف العقول: ۲۳۹)

بعض مواعظ حسنہ میں آپ کا خطبہ

اے لوگو! اچھے کاموں میں سبقت لو اور نیک کاموں میں جلدی کرو۔ اگر اچھے کاموں میں جلدی نہیں کروگے تو کسی قسم کے اجروثواب کو نہیں پا سکو گے۔ اپنے بارے میں اچھی شہرت اور اپنی تعریف کو اچھائی سے حاصل کرو، نہ کہ کسی مذمت گر کے احسان سے۔ جب بھی کسی ایسے شخص کے ساتھ نیکی کرو جو اس نیکی کا شکر ادا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس نیکی کا اجر خود اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔یاد رہے کہ اس کی عطا زیادہ اور اس کا اجر عظیم ہے۔

جان لو کہ لوگوں کا تم سے رجوع کرنا اللہ کی نعمت ہے۔ لہٰذا اس نعمت سے روگردانی کرنے کی صورت میں وہ پریشانی میں تبدیل ہوجائے گی ۔

جان لو کہ ہر نیکی کا کام تعریف اور اجر اپنے ساتھ لاتا ہے۔ہاں ! ہر اچھے کام کی پہچان یہ ہے کہ جب بھی اسے دیکھو گے، اسی طرح حسین پاؤ گے کہ دیکھنے والے کو مسرور کردیا ہے۔ اسی طرح برائی کی پہچان یہ ہے کہ دیکھنے میں پست ہے، دل متنفراور آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔

اے لوگو! جو بھی سخاوت کرتا ہے، وہ خوش رہتا ہے اور جس نے بخل سے کام لیا، وہ ذلیل ہوا۔ بہترین سخاوت کرنے والا وہ ہوتا ہے جو بغیر لالچ کے سخاوت کرے ۔

بہترین معاف کرنے والا وہ ہے جو طاقتور ہونے کے باوجود معاف کردے۔ صلہ رحمی تب ہوتی ہے جب دوسرے اس سے قطع رحمی کریں۔ پھل دار درخت تب ہی تو پھل دیتے ہیں کہ ان کی جڑیں زمین میں ہیں اور شاخیں بڑھتی رہتی ہیں۔ جو بھی اپنے مومن بھائی کیلئے نیکی میں جلدی کرے، وہ قیامت میں اس کو ضرور دیکھے گا اور اگر کوئی اپنے بھائی کیلئے توفیق الٰہی کے تحت تعاون کرے، وہ دنیا میں ہی اس کا صلہ دیکھتا ہے۔جوکوئی اپنے مومن بھائی کی مشکل گھڑی میں امداد کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے دنیا اور آخرت کی مصیبتیں دور کردیتا ہے۔جو دوسرے کے ساتھ نیکی کرے گا، خدا اس کے ساتھ نیکی کرتا ہے او روہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔(کشف الغمہ: ۲:۲۹)

بعض مواعظ حسنہ میں آپ کا خطبہ

بردباری اور حلم سے کام لینا زینت ہے اور وفاداری سے کام لینا جوانمردی ہے۔ صلہ رحمی نعمت ہے اور تکبر سے کام لینا گویا خود کو حدسے خارج کردینا ہے۔ جلد بازی نادانی ہے اور نادانی کمزوری ہے۔ خود پسندی لڑکھڑاجانے کا باعث بنتی ہے اور پست کی محفل بہت بڑا شر ہے۔ فاسق و فاجر لوگوں کی محفل شکوک و شبہات پیدا کردیتی ہے۔ (بحار: ۷۸:۱۲۴) ۔

جنگ صفین کیلئے لوگوں کو جہاد کی دعوت دینے کیلئے آنحضرت کا خطبہ

اے اہلِ کوفہ! آپ بافضیلت دوست ہیں۔ آپ ہمارے لئے اندرونی لباس ہیں نہ ظاہری لباس ۔ سنو! اس چیز کے احیاء کیلئے، اس چیز کے آسان بنانے کیلئے جس سے وحشت زدہ ہو، الفت اور محبت کے حصول کیلئے جس سے تم دور جاچکے ہو، آؤ مل کر اس کیلئے کوشش کریں۔

ہاں! یہ ضرور ہے کہ شر اور بدی جنگ عظیم ہے اور اس کا لقمہ بہت دردناک ہوتا ہے۔ جنگ کے گھونٹ موت کا پیغام ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو بھی خود کو جنگ کیلئے تیار کرے اور جنگ کیلئے زادِ راہ اکٹھاکرے، ہنگامِ جنگ میں زخم اس کو تکالیف نہیں پہنچا سکتے، حقیقت میں وہی شخص کامیاب ہے۔

جو لوگ قبل از وقت جنگ کا بازار گرم کردیتے ہیں اور بصیرت کے علاوہ جنگ شروع کردیں، وہ ایسے ہیں گویا اپنی قوم کو فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ خودکو ہلاکت کے حوالے کرتے ہیں۔میں بارگاہِ ایزدی سے سوال کرتا ہوں کہ آپ کی صفوں میں اتحاد قائم فرمائے۔(وقعہ صفین: ۱۱۴)

معاویہ کے سامنے اپنی توصیف میں آپ کا خطبہ

موسیٰ بن عقبہ روایت کرتے ہیں کہ معاویہ سے کہا گیاکہ لوگ امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ایک خاص احترام رکھتے ہیں، لہٰذا امام حسین علیہ السلام کو تقریر کی دعوت دو۔ یقینا دورانِ تقریر ان کی زبان میں لکنت آئے گی، لہٰذا وہ لوگوں کی نگاہوں سے گر جائیں گے۔معاویہ نے کہا کہ امام حسن علیہ السلام کے بارے میں بھی ہم اسی قسم کی رائے رکھتے تھے، ان کو بھی تقریر کی دعوت دی اور جب انہوں نے تقریر کی تو لوگوں کی نگاہوں میں باعزت ٹھہرے بلکہ ہم رسوا ہوئے۔لیکن لوگوں نے معاویہ کی ایک نہ مانی اور اصرار کیا، یہاں تک کہ معاویہ نے مجبوراً امام حسین علیہ السلام کو تقریر کی دعوت دی۔

امام حسین علیہ السلام منبر پر تشریف لے گئے۔ حمد باری تعالیٰ اور اُس کی تعریف بجالانے کے بعد پیغمبر اسلام پر درود بھیجا۔ اتنے میں سنا گیا کہ ایک آدمی نے کہا کہ یہ خطبہ پڑھنے والا آدمی کون ہے؟ امام نے فرمایا:

ہم اللہ تعالیٰ کا کامیاب گروہ ہیں۔ ہم پیغمبر اسلام(ص)کی وہ عترت ہیں جو مقربین درگاہِ الٰہی ہیں۔ اُس کے پاک و پاکیزہ اہلِ بیت ہیں۔ ہم ان دو گرانقدر چیزوں میں سے ایک ہیں جسے پیغمبر اسلامﷺﷺ نے قرآن کے ساتھ دوسرا قرار دیا ہے۔ وہ قرآن جس میں ہر چیز کی تفصیل ہے۔ اس کو باطل ثابت کرنے والا نہ آگے سے کوئی آسکتا ہے اور نہ ہی پیچھے سے۔ قرآن کی تفسیر کی ذمہ داری ہم پر چھوڑی گئی ہے۔ اس کی تاویل ہمارے لئے مشکل نہیں ہے۔ ہم قرآن کے حقائق کی پیروی کرتے ہیں۔

پس ایسی صورتحال میں آپ ہماری پیروی کریں کیونکہ ہماری اطاعت واجب قرار دی گئی ہے، اس لئے کہ ہماری اطاعت اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ارشادِ خداوندی ہے:

"اللہ کی ، رسول کی اور اپنے میں سے ولی امر کی پیروی کرو۔ اگر کسی چیز میں جھگڑا ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ"۔ دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:"اور اگر متنازعہ فیہ کو رسول اور اولی الامر کی طرف لوٹائیں تو حقائق کی جستجو رکھنے والے ضرور سمجھ جائیں گے، اور اگر اللہ کا فضل و کرم اور اُس کی رحمت آپ کے شامل حال نہ ہوتی تو چند ایک لوگوں کے علاوہ شیطان کی پیروی کررہے ہوتے"۔

اے لوگو! شیطان کی آواز پر کان دھرنے سے میں تم کو ڈراتا ہوں، اس لئے کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ تم جنگ بدر میں قریش کے اس گروہ کی طرح ہو جسے شیطان نے کہا تھا کہ آج کوئی بھی تم پر غالب نہ آئے، میں تمہارے ساتھ ہوں ۔لیکن جیسے ہی دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو شیطان الٹے پاؤں فرار ہوگیا اور بولا کہ میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اگر تم بھی شیطان کے ہم آواز بنے تو دیکھو گے کہ کس طرح تلواریں تم پر برستی ہیں ،کس طرح نیزے وارد ہوتے ہیں اور کس طرح تیروں کا نشانہ بنتے ہو۔ اس قسم کی شکست کے بعد اسلام لانے یا شکست سے پہلے نیکی نہ انجام دینے کو ہرگز قبول نہ کرنا۔یہاں پر معاویہ نے کہا:اے ابی عبداللہ! کافی ہے۔(احتجاج: ۲۹۹ ، بحار ۴۴:۲۰۵)

مقامِ منیٰ میں اہلِ بیت کے حق کو بتاتے ہوئے آپ کا خطبہ

سلیم بن قیس کہتے ہیں: امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد امت میں فتنہ و فساد بہت زیادہ پیدا ہوگیا تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ ہر اللہ کا دوست اپنی موت کے بارے خائف تھا یا شہر سے نکالے جانے کے ڈر میں مبتلا تھا جبکہ ہراللہ کا دشمن انتہائی آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کررہا تھا۔

بہرحال مرگِ معاویہ سے ایک سال پہلے امام حسین علیہ السلام، جنابِ عبداللہ بن عباس اور عبداللہ ابن جعفر کو ہمراہ لئے حج بیت اللہ کیلئے مشرف ہوئے تو امام علیہ السلام نے بنی ہاشم کے مردوں، عورتوں اور غلاموں کے علاوہ اپنے آپ کو پہچاننے والے لوگوں کواور اپنے اہلِ بیت کو اکٹھا کیا، یہاں تک کہ سات سو سے بھی زیادہ لوگ ، جن میں اکثر تابعین تھے اور تقریباً ۲۰۰ آدمی اصحابِ پیغمبر میں سے تھے، یوں خطبہ دیا۔ حمد الٰہی کے بعد فرمایا:

بہرحال اس سرکش اور تجاوز کرنے والے (معاویہ ) نے ہم اور ہمارے شیعوں پر ایسے ایسے ظلم روا رکھے ہیں کہ جن کے متعلق تم خود شاہد ہو۔ اس کے مظالم کے متعلق تم تک پوری خبریں پہنچ چکی ہیں۔ ایسی صورتحال میں تم سے پوچھتا ہوں۔

اگر میں سچ بولوں تو میری تصدیق کرو اور اگر خلافِ واقعہ بیان کروں تو میری تکذیب کرو۔ سب سے پہلے میں اللہ اور رسولِ خدا اور سے اپنی قرابت داری کے حق کے متعلق سوال کرتا ہوں۔میری باتوں کو غور سے سنو اور ضبطِ تحریر میں لاؤ۔ جب بھی تم اپنے اپنے شہروں میں ، اپنے قبیلے کے افراد کے پاس جاؤ تو ان میں سے جن لوگوں کے متعلق تم یقین اور وثوق رکھتے ہو، ہمارے ان حقوق کے متعلق پردہ اٹھاؤکیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حق کہنہ ہوکر ختم ہوجائے یا اہلِ باطل اس پر غالب آجائیں۔ہاں! یہ بات مسلّم ہے کہ خدا اپنے نو رکو مکمل کرکے ہی رہے گا ، چاہے کافروں کیلئے سخت ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔

سلیم بن قیس کہتے ہیں:جو کچھ قرآن میں ان کے والدین اور اہلِ بیت اطہار کے بارے نازل ہواہے، جو کچھ پیغمبر نے ان کے بارے ارشاد فرمایا، انہوں نے بیان کردیا۔

ہر بات پر صحابہ کرام اس طرح تائید کرتے رہے کہ ہاں! ہم نے یہ بات سنی تھی اور گواہی دیتے ہیں جبکہ تابعی یوں تائید کرتے کہ ہم نے اپنے موردوثوق صحابہ کرام سے سنی ہے۔ پھر امام علیہ السلام یوں گویا ہوئے: خدا کی قسم! یہ باتیں اپنے قابل اعتماد دوستوں کو بتاؤ۔

سلیم بن قیس کہتے ہیں کہ سب سے سخت اور رقت آمیز گفتگو یہ تھی:

فرمایا: خدا کی قسم! کیا تم جانتے ہوکہ جب پیغمبر اسلام(ص)نے صحابہ کرام کے درمیان برادری قائم کی تو اس وقت علی علیہ السلام کو اس طرح اپنا بھائی بنایا: فرمانے لگے کہ اے علی ! دنیا اور آخرت میں میں تمہارا اور تم میرے بھائی ہو۔ تمام حاضرین نے بیک زبان تائید کی۔

پھر فرمایا: خدا کی قسم!کیا تم جانتے ہو کہ جب پیغمبر اسلام(ص)نے اپنی مسجد تعمیر کرنے کیلئے زمین خریدی، پھر مسجد تعمیر کی، پھر مسجد کے اطراف میں دس گھر بنائے جن میں سے نو گھر اپنے لئے اور ایک گھر جو درمیان میں تھا، ہمارے والد گرامی کیلئے بنایا۔ پھر مسجد کی طرف تمام کھلنے والے دروازوں کو بند کردیا، سوائے میرے والد گرامی کے دروازے کے۔ جب لوگوں نے اس حوالہ سے باتیں کیں تو فرمایا کہ جس طرح نہ میں نے تمہارے دروازے اپنی مرضی سے بند کئے، اسی طرح علی علیہ السلام کا دروازہ بھی اپنی مرضی سے کھلا نہیں رکھا بلکہ یہ سب کچھ حکمِ خداوندی کے تحت ہوا ہے۔ پھر سوائے علی علیہ السلام کے تمام کو مسجد میں سونے سے منع فرما دیاجبکہ اُسی مسجد میں پیغمبر اسلام(ص)کیلئے اولادیں پیدا ہوئیں۔

اس بات پر بھی سب نے تائید کی۔

کیا تم جانتے ہو کہ جب حضرت عمر بن خطاب نے اپنے گھر سے مسجد کی طرف ایک چھوٹا سا سوراخ رکھنے پر اصرار کیا لیکن پیغمبر اسلام(ص)نے ایک نہ مانی بلکہ یوں خطبہ ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں ایسی پاک و پاکیزہ مسجد تیار کروں جس میں علی اور ان کے دو بیٹے فقط رہ سکتے ہیں۔

پھر بھی سب لوگوں نے تائید کی۔

میں تمہیں خد اکی قسم دیتا ہوں ، کیا تم نہیں جانتے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے غدیر خم میں میرے والد گرامی کو یوں منصوب کیا کہ بلند آواز میں ان کی ولایت کا اعلان کیا اور فرمایا کہ ضروری ہے کہ حاضرین وغائبین کو اطلاع کردیں۔

پھر سب لوگوں نے تائید کی۔پھر فرمایا:

خدا کی قسم! کیا تم نہیں جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام(ص)نے غزوئہ تبوک میں میرے والد گرامی سے یوں فرمایا تھا کہ آپ کی میرے ساتھ وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی حضرت موسیٰ سے تھی اور میرے بعد تمام مومنین کے ولی و سرپرست ہیں۔

پھر بھی سب نے تائید کی۔پھر فرمایا:

خدا کی قسم کھا کے بتاؤ کہ کیا اہلِ نجران کے ساتھ مباہلہ کرنے کیلئے پیغمبر اسلام(ص)سوائے ہم پنجتن کے کسی کو بھی ہمراہ لے کر گئے تھے؟

پھر بھی سب نے تائید کی۔ اس کے بعد فرمایا:

خدا کی قسم! کیا تم جانتے ہو کہ جنگ خیبر میں پیغمبر اسلام(ص)نے علمدار علی علیہ السلام کو بنایا اور فرمایا کہ آج پرچم ایسے شخص کو دے رہا ہوں کہ جسے اللہ اور اللہ کا رسول دوست رکھتے ہیں اور وہ خدا اور رسولِ خدا کو دوستے رکھتا ہے۔ مزید اس کی نشانی یہ ہے کہ پلٹ پلٹ کر حملے کرتا ہے اور میدانِ جنگ سے فرار کرنے والا بھی نہیں ہے۔ یقینا خدا اُس کے ہاتھوں ہی اسلام کو فتح دیتا ہے۔

پھر بھی سب نے تائید کی۔ پھر فرمایا:

کیا تم جانتے ہو کہ رسولِ خدا نے میرے والد کو سورة براءت مکہ پہنچانے کیلئے بھیجااور فرمایا کہ اس سورة کو خود میں یا کوئی میرے جیسا ہی مکہ میں لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔

اس پر بھی سب نے تائید کی۔پھر آپ نے فرمایا:

کیا تم جانتے ہو کہ ہر مشکل گھڑی میں پیغمبر نے میرے والد گرامی کو آگے کیا کیونکہ ان کے بارے میں وثوق رکھتے تھے۔ کبھی بھی پیغمبر نے ان کو نام سے نہیں پکارا بلکہ کہتے تھے:" اے بھائی علی "، یا کہتے تھے کہ میرے بھائی کو بلاؤ۔

اس پر پھر سب نے تائید کی۔ اس کے بعد آپ یوں مخاطب ہوئے:

کیا تم جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام(ص)نے ان کے اور حضرت جعفر، حضرت زید کے درمیان قضاوت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے علی ! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔تم میرے بعد تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہو۔

پھر سب نے تائید کی۔پھر فرمایا:

کیا تم نہیں جانتے کہ میرے والد گرامی ہر دن اور رات میں پیغمبر اسلام(ص)سے تنہائی میں ملاقات کرتے تھے۔ جب بھی انہوں نے سوال کیا، پیغمبر اسلام(ص)نے جواب دیا اور جب بھی وہ خاموش ہوئے،رسولِ خدا نے گفتگو کا آغاز فرمایا۔

اس کی بھی سب نے بھرپور تائید کی۔ پھر امام علیہ السلام نے فرمایا:

کیا تم نہیں جانتے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے علی علیہ السلام کو جنابِ جعفر اور حضرت حمزہ پر یوں کہہ کر برتری دی کہ اے فاطمہ ! تمہارا اپنے خاندان میں سب سے اچھے آدمی کے ساتھ عقد کیا ہے جو اسلام، حلم اور علم میں سب سے افضل ہے۔

اس پر بھی سب نے تائید کی۔ پھر فرمایا:

کیا تم نہیں جانتے کہ پیغمبر اسلام(ص)کا ارشاد ہے کہ میں پوری انسانیت کا سید و سردار ہوں جبکہ علی تمام عرب کے سردار ہیں۔ حضرت فاطمہ تمام اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں جبکہ حسن اور حسین میرے دو بیٹے جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔

اس پر پھر سب نے تائید کی۔ اس کے بعد فرمایا:

کیا تم نہیں جانتے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے اپنے آپ کو غسل دلوانے کیلئے علی علیہ السلام کو حکم دیا اور یہ بھی فرمایا کہ جبرائیل آپ کی مدد کریں گے۔

سب نے کہا:جی ہاں!یہ درست ہے۔پھر آپ نے فرمایا:

کیا تم نہیں جانتے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے اپنی زندگی کا آخری خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ایک کتاب اللہ اور دوسرے اپنے اہلِ بیت ۔ پس ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے۔

سلیم بن قیس کہتے ہیں : جو کچھ علی اور اہلِ بیت اطہار کے بارے میں قرآن اور روایات میں بیان ہوا تھا، امام علیہ السلام نے سب کچھ بیان کرتے ہوئے لوگوں سے ان پر اقرار لیا اور جواب میں صحابہ کرام یوں کہتے کہ ہاں! ہم نے خود پیغمبر اسلام(ص)سے سنا جبکہ تابعین کہتے تھے کہ ہم نے فلاں فلاں موثق آدمیوں سے سنا ہے۔

پھر امام حسین علیہ السلام نے صحابہ کرام کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا پیغمبر اسلام(ص)نے یہ فرمایا تھا کہ وہ آدمی جھوٹ بولتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ مجھے دوست رکھتا ہے جبکہ حضرت علی علیہ السلام کو دشمن رکھتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ علی علیہ السلام کو دشمن رکھتا ہو جبکہ مجھے دوست رکھتا ہو؟کسی نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ تو فرمانے لگے: چونکہ علی علیہ السلام مجھ سے ہیں اور میں علی علیہ السلام سے ہوں۔ جو علی علیہ السلام سے محبت رکھتا ہو، وہ مجھ سے بھی محبت رکھتا ہے اور مجھے دوست رکھنے والا گویا اللہ کو دوست رکھتا ہے۔ جو علی علیہ السلام سے بغض رکھتا ہو، وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے اور مجھ سے بغض رکھنے والا اللہ تعالیٰ سے بغض رکھتا ہے۔

یہاں پر بھی تمام حاضرین نے تائید کی اور کہاکہ ہاں! ہم نے سنا ہے اور پھرمنتشر ہوگئے۔(تحف العقول: ۲۳۷ ،احتجاج: ۲۹۶)

ظلم کے خلاف لوگوں کو آمادہ کرتے ہوئے آپ کا خطبہ

اے لوگو! جس چیز سے خدا نے اپنے اولیاء کو نصیحت کی، اس سے عبرت حاصل کرو۔ جس طرح مسیحی راہبوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ عیسائیوں کے علماء نے لوگوں کو گھٹیا اور برے کاموں سے نہیں روکا ۔ مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہوگئے، ان پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم نے لعنت کی کیونکہ وہ گناہگار اور حد سے تجاوز کرنے والے تھے۔ وہ ان کو برے کاموں سے روکتے نہیں تھے اور کس طرح وہ برے کام کرتے تھے۔

خدا کی انہیں سرزنش کرنے کی دلیل یہ ہے کہ وہ ظلم ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے لیکن اس کو روکنے کیلئے اقدام نہیں کرتے تھے۔ کیوں؟ اس لئے کہ لذاتِ دنیوی سے محظوظ ہوں اور دشمن کی دشمنی سے بھی محفوظ رہیں۔ جبکہ ارشادِ باری تعالیٰ یوں ہے:

"لوگوں سے نہ ڈرو، فقط مجھ سے ڈرو"۔ مزید فرماتے ہیں:"ایمان دار مومن مرد اور عورتوں میں سے بعض دوسروں پر فضیلت رکھتے ہیں اور دوسرے بعض نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم فریضے سے خدا نے ابتداء فرمائی ہے۔ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ جب امربالمعروف اور نہی عن المنکر جیسا وظیفہ انجام پاجائے تو واجبات پر عمل آسان اور تمام مشکلیں حل ہوجاتی ہیں کیونکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکراسلام کی دعوت دیتا ہے کہ ظلم کا جواب دو اور ظالم کی مخالفت کرو۔ یاد رکھو! صدقات اور بیت المال کو بعض جگہوں سے وصول کرنا اور پھر اس کو درست جگہوں پر خرچ کرنا بھی ہے۔

اے لوگو!تم علم، اچھائی اور نصیحت لینے میں معروف ہو(شہرت رکھتے ہو) اور دینی حوالہ سے لوگوں کے دلوں میں احترام اور اثر رکھتے ہو، شریف لوگ تمہاری قدر کرتے ہیں اور کمزور لوگ بھی تمہارا احترام کرتے ہیں۔ تمہارے برابر والے لوگ بھی تم کو مقدم رکھتے ہیں جبکہ تم ان پر کسی قسم کا حق نہیں رکھتے۔تم اس وقت حاجتوں کو پورا کرتے ہو جب طبلگار مایوس ہوچکے ہوتے ہیں۔ تم بادشاہوں اور بزرگوں کی طرح راہ چلتے ہو۔

یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ تم سے الٰہی مقاصد کیلئے قیام کرنے کی توقع کی جارہی ہے، اگرچہ تم بہت سے حقوقِ خداوندی سے کوتاہی برتتے ہواور حقوقِ آئمہ کو بہت

خفیف شمار کرتے ہو۔ بہت سے کمزوروں کے حقوق کو ضائع کرچکے ہو جبکہ اپنے حقوق کو اپنے گمانوں کے مطابق طلب کرتے ہو۔نہ ہی مال خرچ کرتے ہو اور نہ ہی جس مقصد کیلئے خلق کئے گئے ہو، اپنی جانوں کو خطرات میں ڈالتے ہو۔نہ ہی خدا کی خاطر رشتہ داروں سے مخالفت مول لیتے ہو۔

اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے جنت الفردوس میں ٹھہرائے جانے کی توقع رکھتے ہو اور رسولوں کے جوار(ہمسائیگی) کی توقع رکھتے ہو۔ اس کے عذاب سے محفوظ رہنے کا خیال دل میں رکھتے ہو۔اے خدا پر احسان کرنے والو!میں تمہارے عذاب میں مبتلا ہونے کے متعلق ڈرتا ہوں کیونکہ تم اس مقام و مرتبہ پر فائز ہوچکے ہو جس سے دوسرے محروم ہیں۔ معروف بزرگوں کا احترام نہیں کرتے ہو جبکہ تم خدا کی وجہ سے ہی لوگوں کے درمیان محترم ہو۔

تم خود دیکھ رہے ہو کہ خدا سے کئے وعدوں کو توڑا جارہا ہے۔ قوانین خدا کی مخالفت کی جارہی ہے جبکہ تم کسی قسم کی پریشانی ظاہر نہیں کر رہے ہو۔ اپنے آباء و اجداد کی ہتک پرتو فوراً احتجاج کرتے ہو، پیغمبر اسلام(ص)کے اصولوں کو انتہائی کم مایع سمجھ کر توڑا جارہا ہے جبکہ تم اس کو کسی قسم کی اہمیت نہیں دے رہے ہو۔ اندھے ، گونگے اور معذور لوگ مختلف شہروں میں بغیر کسی سرپرست کے پڑے ہیں، ان پر کسی قسم کا رحم نہیں کیا جارہا ہے اور نہ ہی تم لوگ اپنی حیثیت کے مطابق فعالیت کررہے ہو۔اپنے فرائض کی انجام دہی میں معروف لوگوں کی بھی مدد نہیں کرتے ہو۔ سازش کرتے ہوئے لوگوں کی لگامیں ڈھیلی کررہے ہو۔ اللہ تعالیٰ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دے چکا ہے۔ البتہ تم اس سے غافل ہو۔

سب سے بڑی مصیبت تم علمائے کرام کیلئے ہی ہے کیونکہ تمہاری موقعیت اور مقام

زیر بحث ہے۔ لیکن افسوس! تم اس صورتحال کودرک نہیں کررہے۔ حق تو یہ ہے کہ امورِ مملکت کی باگ ڈور ایسے علمائے ربانی کے پاس ہونی چاہئے جو اللہ تعالیٰ کے حلال و حرام کے امین ہیں۔ تم سے یہ حیثیت چھینی جاچکی ہے۔جیسے ہی یہ مقام تم سے چھینا گیا، حق کے اطراف سے بھاگ گئے ہویا حق سے متفرق ہوگئے ہو۔ دلائل واضح کے باوجود سنت پیغمبر میں اختلاف پر اتر آئے ہو۔

اگر مصیبت پر صبر سے کام لیتے اور خدا کی خاطر مشکلات تحمل سے حل کرتے تو آج امورِ مملکت کی باگ ڈور تمہارے پاس ہوتی۔ تمام امور کو گردش میں لانے والے تم ہی ہو لیکن تم نے ظالموں کو اپنے اوپر مسلط کرلیا اور امور کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھمادی ہے تاکہ وہ غلطیوں کا ارتکاب کرتے چلے جائیں اور شہوتوں میں اندھے ہوکر چلتے جائیں۔ تم لوگوں نے موت سے فرار کرتے ہوئے اور چند روزہ زندگی کی رعنائیوں کی خاطر ان کو مسلط کیا ہے۔

ان کوتاہیوں کی وجہ سے ہی تو تم نے کمزور لوگوں کو ان کے حوالے کردیا ہے تاکہ وہ بعض لوگوں کو غلام اور دوسرے بعض کو معاشی مسائل میں جکڑ کر ذلیل و رسوا کردیں۔ بارگاہِ خدائے جبار میں گستاخی کرتے ہوئے محض نفس کی خاطر حکومتی فیصلے کریں یا حکومت چلائیں!

انہوں نے ہر شہر میں نمائندے مقرر کرلئے ہیں جو ان کی مرضی کی تقریریں کرتے ہیں اور تمام مملکت اسلامیہ ان کے قدموں میں ہے جس میں وہ تمام سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ تمام لوگوں کو انہوں نے اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ ہر وہ ہاتھ جو ان کا راستہ روک سکتا ہے، فی الحال وہ خود سے دفاع نہیں کر سکتا۔ البتہ ایک ایسا طبقہ یا گروہ انہوں نے تیار کرلیا ہے جو سخت گیر اور خواہ مخواہ دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر ضعیف اور کمزور پر ظلم کرتا ہے۔یا ایسا گروہ جو موت و حیات کے مالک پر عقیدہ نہیں رکھتا۔ تعجب ہے اور کیوں متعجب نہ ہوں حالانکہ مملکت ایک ایسے ستمگر ، دھوکہ باز اور ظالم کے ہاتھوں میں ہے جو مومنین پر بغیر کسی رحم کے حکومت کررہا ہے۔پس اللہ تعالیٰ ہی ہمارے درمیان حاکم ہے اور خود اپنے حکم کے مطابق وہی ہمارے درمیان قاضی ہے۔

اے پروردگار! تو جانتا ہے کہ یہ ساری تحریک ، حکومت و قدرت کے حصول کیلئے بھی نہیں ہے اور نہ ہی مالِ دنیا اکٹھا کرنے کیلئے ، بلکہ یہ سب کچھ فقط اس لئے ہے کہ تیرے دین کے معارف لوگوں کودکھلائیں اور مملکت اسلامیہ میں جدید اصلاحات کو متعارف کروائیں تاکہ تیرے مظلوم بندے سکون کا سانس لیں اور واجبات، احکامات اور تیری سنتوں پر عمل ہو۔

ایسی صورتحال میں اگر تم میری مدد نہیں کرو گے تو گویا ظالم قدرت پیدا کرلیں گے اور یادرکھو وہ تمہارے نبیوں کے جلائے ہوئے چراغوں کو گل کرنے کے درپے ہیں۔خدا ہمارے لئے کافی ہے اور ہم اُسی پر توکل کرتے ہیں۔ اُسی کی طرف آہ و زاری کرتے ہیں اور وہ ہی ہماری پناہ گاہ اورہماری بازگشت اسی کی طرف ہے۔(تحف العقول: ۲۳۷)

عراق جاتے ہوئے آنحضرت کا خطبہ

تمام تعریفیں اُسی کیلئے ہیں ۔ وہ جو چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بغیر نہ قدرت ہے اور نہ طاقت ۔ محمد و آلِ محمدپر درودوسلام ہو۔ فرزند آدم کے ساتھ موت ایسے ہی لگی ہوئی ہے جیسے جوان عورت کے گلے ساتھ گلوبند لگا ہوتا ہے۔حضرت یعقوب کے حضرت یوسف سے ملنے کے اشتیاق سے کہیں بڑھ کر مجھے اپنے اسلاف سے ملنے کا اشتیاق ہے۔ ہاں! میرے لئے شہادت کی جگہ منتخب کرلی گئی ہے۔

گویا میں دیکھتا ہوں کہ میری ہڈیوں کو چبانے کیلئے کربلا کے درمیان بھیڑئیے دوڑے چلے آرہے ہیں۔ وہ اپنے خالی پیٹوں کو ان سے بھریں گے۔ لیکن تقدیر کے لکھے سے راہِ فرار ممکن نہیں ہے۔

اللہ کی خوشی ہی ہم اہلِ بیت کی خوشی ہے۔لہٰذا ہم اس کی ہر مصیبت پر صبر سے کام لیں گے۔ وہ یقینا صبر کرنے والوں کو اجر سے نوازتا ہے۔ پیغمبر اسلام(ص)کے بدن کا ٹکڑا ان سے دور نہیں رہ سکتا۔وہ بہشت میں سارے اکٹھے ہوں گے۔ پیغمبر اسلام(ص)یقینا خوش ہوں گے کیونکہ خدا سے کئے وعدے کو عملی شکل میں دیکھیں گے۔

کون ہے جو میرے اہداف سے متفق ہے اور کون ہے جو خود کو لقاءِ الٰہی کیلئے آمادہ کرچکا ہے؟آؤ ہمارے ساتھ چلو، انشاء اللہ کل صبح میں سفر کا آغاز کروں گا۔(لہوف: ۲۵)

راستے کی منازل میں سے ایک پر آپ کا خطبہ

اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ مجھے حضرت مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر کے قتل کی انتہائی دردناک خبر موصول ہوئی ہے اور ہمارے شیعوں ہی نے ہماری حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ لہٰذا تم میں سے بھی کوئی جانا چاہتا ہے تو وہ جاسکتا ہے۔ میری طرف سے اُس پر کوئی حق نہیں ہے۔(طبری ۷:۲۹۴ ،ارشاد: ۲۲۳)

نمازِ ظہر سے پہلے جنابِ حُر کے لشکر سے ملاقات کرتے وقت آنحضرت کا خطبہ

حمد اور ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا: اے لوگو! میں تمہارے خطوط موصول ہونے اور تمہارے قاصدوں کی دعوت پر تمہارے پاس آیا ہوں۔ تمہارے قاصدوں نے یوں پیغام پہنچائے ہیں کہ ہم فی الحال امام اور ہادی سے محروم ہیں، لہٰذا آپ ہمارے پاس تشریف لائیں۔ شاید آپ کی وجہ سے ہی خدا ہمیں حق اور ہدایت کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (بحار ۴۴:۳۷۶ ، خوارزمی در مقتل: ۲۳۱)

اب اگر تم اس قول و قرار پر باقی ہو تو مجھے بتاؤ، میں تمہارے وعدے اور وثوق سے مطمئن ہونا چاہتا ہوں۔لیکن اگر تم اپنے وعدوں پر کاربند نہیں ہو اور میرا آنا تمہارے لئے مشکلات کا باعث ہے تو میں ابھی جہاں سے آیا ہوں، وہاں لوٹ جانے کیلئے تیارہوں۔(بحار ۴۴:۲۷۶ ، طبری ۷:۲۹۷)

جنابِ حُر کے لشکر سے عصر کی نماز سے پہلے آپ کا خطبہ

اے لوگو! اگر تم اللہ سے ڈرتے ہو اور اہلِ حق کو پہچانتے ہو تو خدا تم سے راضی ہوگا۔ وہ اہلِ بیت محمدہم ہی ہیں۔ ہم امر ولایت میں زیادہ حق رکھتے ہیں ، اُن لوگوں کی نسبت جو بے جا حکومت کا دعویٰ کررہے ہیں۔ وہ کسی قسم کا حق نہیں رکھتے اورتم پر بھی ظلم و ستم روا رکھے ہیں۔

لیکن پھر بھی اگر میرے آنے کوناپسند کرتے ہو ، میرے حق سے چشم پوشی کرتے ہو اور اپنے ارسال شدہ خطوط میں درج آراء سے منحرف ہوگئے ہو تو میں واپس لوٹ جانے کو تیار ہوں۔(بحار ۴۴:۳۷۶)

منزلِ بیضہ پر آپ کا خطبہ

اے لوگو! بے شک رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی ایسے جابر بادشاہ کو دیکھے جو حرام خدا کوحلال اور اللہ سے کئے اپنے عہد کو توڑنے والا ہو اور سنت رسول کی مخالفت کرنے والا ہو ، لوگوں کے درمیان گناہ اور دشمنی سے حکومت کرتا ہو تو وہ اپنے قول یا فعل سے اس جابر حکمران کی مخالفت نہ کرے، خدا اُس کو جہنم میں ڈالنے کا مکمل حق رکھتا ہے۔

اے لوگو! خبردار رہنا،اس حکمران طبقے نے رحمان کی اطاعت کو چھوڑ کر شیطان کی اطاعت کو اپنے لئے لازم قرار دیا ہے۔ فسادکی ترویج سے حدودِ الٰہی کو معطل کررکھا ہے۔ غنائم کو اپنے ہی ساتھ مخصوص کرچکے ہیں۔ حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام کر چکے ہیں۔ لہٰذا اسلامی معاشرہ کی رہبری اور قیادت کیلئے ان سے کہیں زیادہ حقدار ہوں۔بہرحال تمہارے خطوط کی عبارات سے اور قاصدوں سے تو یہی مطلب نکلتا ہے کہ تم میری بیعت کرتے ہو اور تم مجھے دشمنوں کے سامنے تنہا چھوڑ کر میری حمایت اور مدد سے ہاتھ نہیں اٹھاؤ گے۔

اب اگر تم لوگ میری بیعت پر باقی ہو تو جان لو کہ بہت بڑی سعادت حاصل کرچکے ہو۔ ہاں! میں، حسین ابن علی اور ابن فاطمہ بنت رسول اللہ، میری جان تم لوگوں کے ساتھ ہے اور میرے اہلِ خانہ تمہارے اہلِ خانہ کے ہمراہ ہیں۔ تمہیں چاہئے کہ مجھے اپنے لئے اسوہ قرار دو۔

اگر تم ایسا نہ کرو بلکہ مجھ سے عہد شکنی کرکے اپنی بیعت سے بھی منحرف ہوگئے ہو تو سنوکہ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ تحقیق تم نے تو میرے والد، بھائی اور چچا زاد مسلم سے بھی ایسے ہی کیا ہے۔ دھوکے کے ساتھ ان سے عہد شکنی کرچکے ہو۔ اپنے حصہ اور حق کو حاصل کرنے میں خطا کرچکے ہو بلکہ اپنا نصیب ضائع کرچکے ہو۔جو بھی کسی سے عہد شکنی کرتا ہے گویا خود سے عہد شکنی کرتاہے۔ انشاء اللہ ، اللہ تعالیٰ مجھے تم سے بے نیاز کردے گا ۔تم پر سلام اور اللہ کی رحمتیں ہوں۔(ابن اثیردرکامل ۳:۲۸۰ ،انساب الاشراف ۳:۱۷۱)

کربلا میں داخل ہوتے وقت آپ کا خطبہ

روایت ہے کہ جب عبیداللہ ابن زیاد کی طرف سے جنابِ حر کو خط ملا جس میں لکھا تھا کہ امام حسین علیہ السلام سے سختی سے پیش آؤ۔ وہی خط جنابِ حر نے امام حسین علیہ السلام کو پڑھایا۔پھر امام حسین کو سفر جاری رکھنے سے روکنے کی کوشش کی۔ امام علیہ السلام اٹھے اور ایک خطبہ دیا۔

اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد یوں فرمایا: تحقیق جو کچھ ہم پر نازل ہوا ہے، اُسے دیکھ رہے ہو(یا جو مصیبت ہم پر آئی ہے، اُس کو دیکھ تو رہے ہو)۔ہاں!روزمرہ حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔ دنیا نے بُرے انداز میں کروٹ بدلی ہے۔ دنیا کی اچھائیاں پس پشت کر دی گئی ہیں۔

اخلاقِ حسنہ اور فضائل انسانی برتن میں لگے پانی سے بھی کم رہ گئے ہیں۔معاشرہ انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔

کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں کیاجارہا جبکہ باطل پر عمل کرنے سے روکا نہیں جارہا۔ایسی صورتحال میں مومن سزاوار ہے کہ اپنے رب سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کرے۔ ہاں! ایسی صورتحال میں موت کو بہت بڑی سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو بہت بڑی بدبختی اور ذلت سمجھتا ہوں۔

ایک اور روایت میں یوں ہے:

بے شک یہ دنیا انتہائی منفی انداز میں بدلی ہے جس میں اچھائیاں رخصت ہو گئی ہیں۔ دنیا میں اچھائیاں برتن میں لگے پانی کی مقدار کے برابر ہیں اور معاشرہ انتہائی ذلت و رسوائی کی زندگی گزار رہا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں کیا جارہا اور باطل پر عمل کرنے سے روکا نہیں جارہا۔ ایسی صورتحال میں مومن کو حق ہے کہ اپنے رب سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کرے۔ البتہ ایسی صورتحال میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں جبکہ ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو بہت بڑی ذلت سمجھتا ہوں۔

ہاں! لوگ دنیا کے غلام ہیں۔ دین کی حیثیت ان کے نزدیک لقلقہ زبان سے زیادہ نہیں ہے۔ وہاں وہاں وہ دین کے محافظ ہیں جہاں جہاں سے ان کو دنیا حاصل ہوتی ہے اور جب امتحان کی گھڑی آتی ہے تو بہت کم دین دار نظر آتے ہیں۔ (لہوف: ۳۴ ،کشف الغمہ ۲:۳۲ ،بحار ۴۴:۳۸۱)

شبِ عاشور میں اپنے اصحاب کے سامنے آپ کا خطبہ

میں اللہ سبحانہ کی بہترین انداز میں تعریف کرتا ہوں اور میں راحت اور رنج و الم میں بھی اُسی کی تعریف بجا لاتا ہوں۔ اے پروردگار!میں تیری اس بات پر حمد بجالاتا ہوں کہ تو نے ہمیں نبوت کے ساتھ عزت بخشی۔ علومِ قرآن کی ہمیں تعلیم دی۔ دین حنیف اسلام میں فقاہت بخشی اور ہمیں حق سننے والے کان، چشم بینا اور دل عطا کئے ہیں اور ہمیں مشرکوں میں سے قرار نہیں دیا۔

میں اپنے اصحاب سے بہتر کسی کے اصحاب نہیں جانتا جبکہ اپنے اہلِ بیت سے بہتر کسی کے اہلِ بیت نہیں جانتا۔ میری طرف سے اللہ تعالیٰ تم کو بہترین جزائے خیر سے نوازے۔

مجھے اپنے جد رسول اللہ نے خبر دی تھی کہ مجھے عراق آنے پر مجبور کیاجائے گا اور مجھے کربلا نامی جگہ پر اتارا جائے گااور وہیں پر ہی شہیدکردیاجاؤں گا۔ اب وقت شہادت آن پہنچا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ کل صبح ہی دشمن جنگ کا آغاز کردے گا۔ لہٰذا میں تم سب کو آزاد کرتا ہوں اور اپنی بیعت تمہاری گردنوں سے اٹھا لیتا ہوں۔ تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ رات کی تاریکی سے استفادہ کرو اور تم میں سے ہر ایک میرے خاندان سے کسی ایک آدمی کا ہاتھ تھام کر کسی شہر کی طرف چلا جائے۔اللہ تعالیٰ تم سب کو جزائے خیر سے نوازے۔

یہ لوگ صرف میرے خون کے پیاسے ہیں، اگر مجھے حاصل کرلیں گے تو دوسروں سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔اللہ تم سب کو جزائے خیر سے نوازے۔(لہوف: ۷۹)

عاشور کے دن اپنے اصحاب سے آپ کا خطاب

امامِ سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب حسین بن علی علیہما السلام پر عاشور کے دن جنگ تیز تر ہوگئی تو اصحابِ حسین علیہ السلام میں سے بعض متوجہ ہوئے کہ بعض لوگ جنگ میں شدت سے گھبرائے گھبرائے لگتے ہیں۔ البتہ خود امام حسین علیہ السلام اور ان کے بعض خاص ساتھی جیسے جیسے وقت شہادت قریب تر ہورہا ہے، وہ خوش و کرم اور پُرسکون دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض اصحاب نے دوسرے اصحاب کو کہا کہ فلاں کو دیکھیں کہ اُس کو موت کی پرواتک نہیں ہے۔اتنے میں امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

اے عظیم الشان لوگوں کے بیٹو! صبروتحمل سے کام لو۔ موت فقط ایک پل ہے جو تم کو سختیوں سے نجات دے کروسیع اور ہمیشہ رہنے والی جنتوں تک پہنچاتی ہے۔آخر تم میں سے وہ کون ہے جو زندان سے ایک عالیشان محل کی طرف منتقل نہیں ہونا چاہتا جبکہ تمہارے دشمن ایک محل سے زندان اور عذاب والی جگہ منتقل ہورہے ہیں۔

میرے والد گرامی پیغمبر اسلام(ص)سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ دنیا مومن کیلئے پنجرہ ہے، زندان ہے اور کافر کیلئے جنت ہے۔ہاں! موت ایک پل ہے جو مومنین کو جنت کی طرف منتقل کرے گا جبکہ کافروں کو جہنم میں منتقل کرتا ہے۔ میں نے جھوٹ سنا ہے اور نہ ہی جھوٹ بول رہا ہوں۔(معانی الاخبار: ۲۸۹)

صبح عاشور آنحضرت کا خطبہ

روایت ہے کہ صبح عاشور لشکر عمر بن سعد امام حسین علیہ السلام کے خیام کے اطراف میں گردش کررہا تھا کہ اتنے میں امام علیہ السلام نے اپنا گھوڑا طلب فرمایا اور اُس پر سوار ہوئے اور یوں بلند آواز میں پکارا:

"اے اہلِ عراق! "

لوگوں کی اکثریت سن رہی تھی۔ آپ نے فرمایا:

اے لوگو! میری بات کو سنو اور جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ میں تمہیں بہترین چیز کی نصیحت کروں تاکہ کل کسی قسم کا بہانہ نہ پیش کرسکو۔ اگر میرے ساتھ انصاف کروگے تو ہمیشہ کیلئے سعادت مند ٹھہروگے اور اگر میرے ساتھ انصاف نہ کرو گے تو ضرور آپس میں مشورہ کرویعنی اپنی آراء کو یکجا کرو، پھر میرے بارے میں کچھ فیصلہ کرنا تاکہ میرے قتل میں شریک ہونے سے بچ جاؤ۔ ہاں! پھر مجھے کسی قسم کی مہلت نہ دینا۔ جان لو کہ میری سرپرست وہ ذاتِ گرامی ہے جس نے قرآن نازل فرمایا ہے اور وہی صالحین کا سرپرست ہے۔

پھر حمد باری تعالیٰ میں جو کچھ مناسب تھا، بیان فرمایا۔ پھر ملائکہ اور حضرت محمد اور انبیاء پر اس طرح درود و سلام بھیجے گویا ان سے پہلے اور بعد میں یوں فصیح و بلیغ گفتگو کسی سے نہیں سنی گئی۔ پھر یوں گویا ہوئے:

اے لوگو! میرے نسب میں غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں۔ پھر اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو اور خود کو ملامت کرو۔ آیا میرا قتل تمہارے لئے جائز ہے؟ آیا میری ہتک حرمت کرنا تمہارے لئے درست ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا میں نبی کے وصی کا بیٹا نہیں ہوں اور اُن کے چچا کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا میرے والد گرامی پہلے مومن اور اپنے رب سے جو کچھ پیغمبر اسلام(ص)لائے ہیں، اُس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں؟

کیا سید الشہداء حضرت حمزہ میرے چچا نہیں ہیں؟ آیا جعفر طیار جو جنت میں محو پرواز ہیں، میرے چچا نہیں ہیں؟ آیا یہ حدیث تم نے نہیں سنی کہ پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا ہے کہ میں اور میرا بھائی جوانانِ جنت کے سردا رہیں؟

ہاں! اگر تم میری باتوں کی تصدیق کرتے ہو اور میں حق کہہ رہا ہوں تو خدا کی قسم! جب سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹوں کو ناپسند فرماتا ہے، ہرگز جھوٹ نہیں بولا ہے اور اگر مجھے جھٹلاتے ہو تو اس وقت بھی تم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر اُن سے پوچھا جائے تو یقینا جواب دیں گے یا تم کو اطلاع دیں گے۔ جابر بن عبداللہ انصاری، ابا سعید خدری، سہل بن سعد ساعدی، زید بن ارقم اور انس بن مالک جیسے لوگ ہیں جو تم کو اطلاع دیں گے کہ خود انہوں نے پیغمبر اسلام(ص)سے یہ حدیث میرے اور میرے بھائی حسن علیہ السلام کے بارے میں سنی ہے۔ آیا یہ سب کچھ تمہیں میرا خون بہانے سے نہیں روکتا؟

اگر اس قسم کے موارد میں شک اور تردد ہے تو کیا اس بات میں بھی شک میں ہو کہ میں تمہارے نبی کی بیٹی کا فرزند ہوں؟خدا کی قسم! مشرق و مغرب میں تم میں اور تمہارے غیر میں میرے علاوہ نبی کی بیٹی کا فرزند کوئی نہیں ہے۔ افسوس ہے تم پر۔ آیا مجھے کسی کے قتل کرنے کے جرم میں یا میں نے کسی کا مال ضائع کیا ہے یا مجھے کسی کو زخمی کرنے کے جرم میں قصاص کے طلبگار ہونے کے ناطے قتل کرنا چاہتے ہو؟

اتنے میں لشکر پر مکمل سکوت طاری ہوگیا۔ پھر یوں فرمایا:

اے شبث بن ربعی، اے حجار بن ابجر، اے قیس بن اشعث،اے یزید بن حارث، کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھاکہ پھل پک چکا ہے اور پتے سبزہوچکے ہیں۔البتہ آپ جب کوفہ آئیں گے تو گویالشکر کوآمادہ و تیار پائیں گے۔ گویا آپ آمادہ شدہ لشکر کی طرف آئیں گے۔

خدا کی قسم! میں ہرگز تم جیسے ذلیل لوگوں میں اپنا ہاتھ نہیں دوں گا اور غلاموں کی طرح تمہارے پرچم تلے بھی نہیں آؤں گا۔

پھر فرمایا:

اے اللہ کے بندو! میں اپنے اور تمہارے رب سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم مجھے قتل کرو اور اپنے اور تمہارے رب سے ہر اُس متکبر سے بھی پناہ مانگتا ہوں جو روزِ قیامت پر ایمان نہیں رکھتا۔(بحار ۶۵:۶)

عاشور کے دن آپ کا خطبہ جب ہر طرف سے محاصرہ میں تھے

روایت ہے کہ جب عمر بن سعد نے جنگ کیلئے اپنا لشکر تیار کرلیا اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے محاصرے میں لے لیا، گویا اطراف سے ایک حلقہ سا بنالیا تو اتنے میں امام حسین علیہ السلام نکلے اور لوگوں کے قریب آئے۔ امام علیہ السلام نے لوگوں سے چاہا کہ خاموشی اختیار کریں لیکن لوگ نہ مانے یا خاموش ہونے سے انکار کردیا۔ پھر امام علیہ السلام نے فرمایا:

افسوس ہے تم پر! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ میری باتیں سننے کیلئے خاموشی کیوں نہیں اختیار کرتے، حالانکہ میں نے راہِ ہدایت کی ہی دعوت دینی ہے۔ ہاں! جو بھی میری اطاعت کرے گا، وہ ہدایت یافتہ ہوگا اورجو مجھ سے دشمنی برتنے والاہے، وہ ہلاک ہونے والا ہے۔جو میری نافرمانی کرتا ہے، وہ ہلاک ہونے والوں میں ہے۔ میری بات پر کان نہ دھرکر گناہ گار ہو۔ تمہارے شکم حرام سے پُر ہیں اور تمہارے دلوں پر گمراہی کی مہر لگ چکی ہے۔ تمہارے لئے خرابی ہے۔ تم خاموش ہوکر میری بات نہیں سنتے۔

ا س وقت عمر سعد کی فوج آپس میں ملامت کرنے لگی۔ اُس نے سرزنش کی اور کہا کہ خامو ش ہوجاؤ۔امام حسین علیہ السلام کھڑے ہوگئے اور فرمایا:

"تمہارے ہاتھ کٹ جائیں اور کوتاہ ہوجائیں۔ جب تم حیران و پریشان تھے، مجھ سے نصرت کے خواہاں ہوئے اور میں تمہاری مدد کیلئے آیا۔ تم نے اپنی تلواریں ہمارے خلاف ننگی کیں۔ ہمارے اور تمہارے دشمنوں نے فتنہ کی آگ بھڑکائی اور نہ اُن سے تمہیں کوئی انصاف کی اُمید ہے۔صرف دنیا کی حرام خوراک تمہیں کھلاتے ہیں۔ پست ترین زندگی جس کی تم طمع رکھتے ہو، تمہیں مہیا کرتے ہیں۔وہ عمل جو ہمارے غیر کی طرف سے انجام دیا گیا ہو، وہ قبولیت کو نہیں پہنچے گا۔

کیا تمہارے لئے یہ روزِ سیاہ نہیں کہ تم ہمیں ناپسند کرتے ہو اور ہمیں ترک کرتے ہو، دشمن کی حمایت کیلئے اپنے آپ کو آمادہ کئے ہوئے ہو جبکہ تلواریں نیام کے اندر تھیں اور نہایت آرام و سکون سے رہ رہے تھے۔لیکن اب ہمارے خلاف سرعت و جلد بازی دکھا رہے ہو جیسے مکھیاں تیزی سے اُڑتی ہیں اور پروانوں کی طرح ہمیں گھیرے ہو، پس تمہارے چہرے مسخ ہوں۔

تم اس اُمت کے باغی ہو اور جمہور سے جدا ہونے والے ہو۔ کتاب کو پس پشت ڈالنے والے،شیطانی وسوسے میں مبتلا، گناہ پر کمر بستہ، کتابِ خدا میں تحریف کنندہ،سنت پیغمبر کو نابود کرنے والے،انبیاء کی اولاد کے قاتل، اوصیاء کی عشرت کو مارنے والے، زنا زادوں کو اپنے نسب میں شامل کرنے والے، مومنوں کو اذیت دینے والے، تمسخر اڑانے والوں کے سردار جنہوں نے قرآن مذاق میں پکڑا۔

تم حرب کی اولاد ہو۔ اس کے ماننے والے اس پر اعتماد کرتے رہے اور ہماری بے حرمتی کرتے ہو۔ ہاں! خدا کی قسم! تمہاری عہد شکنی مشہور ہے اور تم خیانت کار ہو۔تمہارے اصول و فروع کا مدار اسی پر ہے جو تمہیں وراثت میں ملی ہے۔

تمہارے دل اس پر قائم ہیں۔ تمہارے دلوں پر پردے پڑ چکے ہیں۔ تم نجس ترین چیز سے مشابہ ہو اور غاصب کا لقمہ ہو۔ آگاہ رہو ! خدا کی لعنت ہے پیمان شکنوں پر جنہوں نے قسم کھائی اور تاکید کے بعد توڑا۔جس پر خدا کو اپنا وکیل قرار دیا تھا، خدا کی قسم! تم وہی گروہ ہو۔

اس حرام زادے نے جو حرام زادے کا بیٹا ہے، مجھے دو باتوں پر مجبورکیا ہے کہ یا قلیل گروہ کی مدد سے جنگ کروں یا ذلت کے ساتھ بیعت کروں۔افسوس! میں ذلت کو ہرگزپسند نہیں کرتا۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے بھی پسند نہیں فرمایا۔ نیز پیغمبر اور اصلابِ پاک نے جس کے دامن پاکیزہ اور غیرت مند ، جنہوں نے کبھی ذلت پسند نہیں کی، ذلیلوں کی فرمانبرداری کو برگزیدہ لوگوں کی موت کے برابر نہیں سمجھا جاتا۔

آگاہ رہو! میں نے تمہارے لئے کوئی بہانہ اور کوئی عذر نہیں چھوڑا ہے اور تم کو نصیحت کی ہے۔ آگاہ رہو! میں اسی گروہ کے ساتھ، ان قلیل دوستوں اور تھوڑے سے اصحاب کی مدد سے جنگ کروں گا۔

اس کے بعد ان اشعار کی قراءت فرمائی:

اگر ہم کامیاب ہوئے تو کامیابی ہماری پرانی عادت ہے

اگر ہم پر تسلط حاصل کروگے تو بھی ہم شکست خوردہ نہ ہوں گےخوف و ہراس کا ہمارے اندر کوئی وجود نہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم جائیں تاکہ دوسروں کی دولت باقی رہے۔

آگاہ رہو! پھر تم زیادہ دیر سکون سے نہ رہ سکو گے۔ بس اتنا کہ گھڑ سوار گھوڑے پر سوار ہو اور تم کو مصائب کے گرداب ایسے چکر دیں گے کہ تم پریشانی کے بھنور میں پھنس جاؤ گے۔یہ وہ عہد ہے جو میرے والد بزرگوار نے میرے جد بزرگوار سے مجھ تک پہنچایا ہے۔تم اور تمہارے ساتھی مل کر اپنے معاملے درست کرلو اور اپنی آنکھیں کھولو اور میرے ساتھ جو تم چاہو کرلو۔ میں نے اپنے اور تمہارے پالنے والے اللہ پر بھروسہ کیا ہے۔ کوئی جاندار نہیں مگر اس کی زمامِ اختیار اُس کے دست قدرت میں ہے۔ بے شک میرا رب صراطِ مستقیم پر ہے۔

پھر دست مبارک کو آسمان کی جانب بلند کیا اور فرمایا:

پروردگار! ان پر بارانِ رحمت بند کردے۔ ان پر جنابِ یوسف کے زمانے کی طرح خشک سالی اور قحط مسلط فرما۔ان پر بنی ثقیف کے جوان مقرر فرما تاکہ تلخ ترین جام سے ان کو سیراب کرے۔ ان میں سے کسی کو قتل کئے بغیر نہ چھوڑے مگر یہ کہ قتل کے بدلے قتل کرے۔ ضرب کے بدلے ضرب لگائے۔ ان سے میرا ، میرے دوستوں کا، میرے اہلِ بیت کا، میرے شیعوں کا انتقام لے کیونکہ انہوں نے ہمیں دھوکہ دیا،ہمیں ذلیل کیا۔ تو ہمارا پروردگار ہے۔ تجھ پر بھروسہ ہے۔ تیری طرف متوجہ ہیں اور تیری طرف بازگشت ہے۔

پھر فرمایا: عمر سعد کہاں ہے؟ عمر کو میرے پاس بلاؤ۔ اُس کو بلایا گیا اور وہ بد بخت ملنا پسند نہیں کرتا تھا۔امام علیہ السلام نے فرمایا:

اے! تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے اور تیرا گمان ہے کہ یہ زنازادہ ابن زنا زادہ تجھے شہر رَے اور گرگان کا فرمانروا بنائے گا۔خدا کی قسم تو اس پر ہرگز کامیاب نہ ہوگا۔ یہ ایسا عہد ہے جو وفا نہ ہوگا۔ تو کر جو کرنا چاہتا ہے۔ میرے بعد تو کبھی دنیا وآخرت دونوں میں خوش نہ ہوگا اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تیرا سر نیزہ پر شہر کوفہ میں نصب ہے۔ بچے اس پر پتھر ماررہے ہیں اور اس کو اپنا نشانہ قرار دیا ہے۔(لہوف: ۴۲ ،تحف العقول: ۲۴۰)

آپ کا خطبہ عاشورا کے دن

روایت میں ہے کہ امام علیہ السلام تلوا رپر ٹیک لگائے بلند آواز سے فرمارہے ہیں:

تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں، کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟انہوں نے کہا:ہاں! پہچانتے ہیں۔آپ نے فرمایا:میں تمہیں قسم دیتا ہوں ، کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نانا ہیں؟ میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں،کیا تم نہیں جانتے ہو کہ میری والدہ جنابِ فاطمہ ،دختر پیغمبر اسلام ہیں۔انہوں نے کہا: ہاں! ہم جانتے ہیں۔میں تمہیں قسم دیتا ہوں،کیا تم یہ بھی نہیں جانتے ہو کہ میرے والد بزرگوار علی علیہ السلام ہیں۔ انہوں نے کہا:ہاں! یہ بھی سچ ہے۔

پھر فرمایا:میں قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہوکہ تمام خواتین میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خدیجہ بنت خویلد میری نانی ہیں؟انہوں نے کہا: یہ بھی سچ ہے۔پھر فرمایا: میں تمہیں قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو سید الشہداء حضرتِ حمزہ میرے چچا تھے۔ انہوں نے کہا: ہاں ! ہم جانتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: میں تمہیں قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ جنابِ جعفر طیار جو جنت میں فرشتوں کے ساتھ محو پرواز ہیں، میرے چچا ہیں؟ سب نے کہا: ہاں! ہم جانتے ہیں۔

پھر فرمایا: میں تمہیں قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو یہ تلوار جو میں کمر میں باندھے ہوئے ہوں، رسولِ خدا کی تلوار ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ بھی درست ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ عمامہ جو میں نے باندھ رکھا ہے، کیا رسولِ خدا کا عمامہ نہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔آپ نے فرمایا: میں تمہیں قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ علی اوّل الاسلام، سب سے زیادہ اعلم ، سب سے زیادہ حلیم ہیں، تمام مومنین و مومنات کے ولی ہیں؟کہا :جی ہاں۔

پھر میرا خون بہانا اپنے لئے حلال کیوں سمجھتے ہو؟ کل قیامت کے دن میرے والد حوضِ کوثر سے لوگوں کو ایسے ہٹائیں گے جس طرح بیگانہ اونٹوں کو پانی سے ہٹایا جاتا ہے۔قیامت کے دن لوائے حمد میرے والد کے دست مبارک میں ہوگا۔انہوں نے کہا: یہ سب ہم جانتے ہیں مگر آپ کو ہم نہیں چھوڑیں گے جب تک پیاسا نہ ماردیں۔

آپ نے اپنی ریش مبارک کو دست مبارک میں تھاما۔ اس وقت آپ کی عمر ستاون برس تھی۔پھر فرمایا:

غضب خدا نے یہود پر شدت اختیار کی جب انہوں نے کہا: عزیز اللہ کا بیٹا ہے۔شدید ہوا غضب خدا جب نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ سخت ہوا غضب خدا مجوس پر جب انہوں نے خدا کو چھوڑ کر آگ کو پوجنا شروع کیا۔ اللہ کے غضب نے جوش مارا جب ایک قوم نے اپنی نبی کو قتل کیا۔غضب الٰہی شدید ہوا جب اس قومِ نابکار نے اپنے نبی کے فرزند کو قتل کرنا چاہا۔(امالی: ۱۳۵)

عاشورا کی صبح کوامام علیہ السلام کا خطبہ

سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے دنیا کو پیدا کیا اور اس کو دارِ فانی و زوال قرار دیا۔اپنے بسنے والے کیلئے ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بدلنے والا بنایا۔ مغرور ہے وہ جسے دنیا دھوکہ دے۔ شقی وہ ہے جسے دنیا اپنا عاشق بنادے۔ پس ہوشیار ہو کہ دنیا تجھے مغرورنہ بنائے کیونکہ یہ ہراُمیدوار کو نااُمید کرتی ہے اور ہر طمع کرنے والے کی لالچ کو خاک میں ملاتی ہے۔تم ایسی بات پر جمع ہوئے جو خدا کی ناراضگی کا سبب ہے اورتمہاری طرف سے اُس نے رُخِ رحمت پھیر لیا ہے ۔ تم پر اُس کا عذاب ہے اور اپنی رحمت سے تمہیں برطرف کیا ہے۔ بہترین رب ہمارا رب ہے۔ بد ترین بندے تم ہو۔

تم نے اطاعت کا اقرار کیا۔ رسالت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے۔ پھر تم نے ان کے خاندان اور اولاد پر حملہ کیا۔ ان کے قتل کا ارادہ کرتے ہو۔ شیطان تم پر غالب ہے۔ ذکرِ خدا کو بھول چکے ہو۔ بربادی ہے تمہارے لئے اور تمہارے ارادوں کیلئے۔ ہم اللہ کیلئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جو ایمان کے بعد کافر ہوگئی ۔ ظالم قوم ہدایت سے دور ہے۔

عمر سعد نے کہا: خرابی ہو تمہارے لئے۔ یہ اُس باپ کا بیٹا ہے کہ اگر یہ تم میں ایک دن مزید گزارے تو بھی اس کا کلام ختم نہ ہوگا۔ ان سے تم بھی گفتگو کرو۔

شمر ملعون آگے بڑھا اور کہا: اے حسین ! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ ہمیں سمجھائیں تاکہ ہم سمجھیں۔ آپ نے فرمایا:

اللہ کا خوف کرو۔ مجھے قتل نہ کرو کیونکہ میرا قتل تمہارے لئے حلال نہیں، نہ میری ہتک حرمت جائز ہے۔ میں تمہارے نبی کا نواسہ ہوں اور میری نانی خدیجہ تمہارے نبی کی زوجہ ہیں۔ شاید تمہارے پاس اپنے نبی کی یہ حدیث پہنچی ہوگی:

"حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں"۔(بحار ۵:۴۵)

عاشورا کے دن اصحابِ باوفا سے آپ کا خطبہ

روایت ہے کہ عمر ابن سعد نے ایک تیر امام حسین علیہ السلام کی طرف چلایا اور کہا: تم گواہ رہناامیر کے پاس کہ میں سب سے پہلا تیر چلانے والا ہوں۔ پس اشقیاء کی طرف سے بارش کے قطروں کی طرح تیر آئے۔ پس امامِ عالی مقام علیہ السلام نے اصحابِ باوفا سے فرمایا:

اے نیک بختو! اٹھو، موت کیلئے ،جو ضروری ہے ہر زندہ کیلئے۔ تمہارے لئے یہ تیر پیغام ہے۔ خدا کی قسم! جنت اور دوزخ کے درمیان موت حائل ہے۔یہ موت تمہیں جنت میں پہنچائے گی اور تمہارے دشمنوں کو جہنم رسید کرے گی۔(لہوف: ۴۳)

اصحابِ باوفا سے عاشورا کی نماز کے بعد آپ کا خطبہ

اے نیک بختو! جنت کے دروازے کھلے ہیں، نہریں جاری ہیں۔ اس میں پھل درختوں پر تیا رہیں۔ یہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور شہداء جو راہِ خدا میں قتل ہوئے ہیں، آپ کو خوش آمدید کہنے کے منتظر ہیں ۔ ایک دوسرے کو آپ لوگوں کی آمد کی خوشخبری دے رہے ہیں۔ پس اللہ اور رسول کے دین کی حمایت کرو اور حرمِ رسول اللہ کا دفاع کرو۔(مقتل الحسین