خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس16%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122428 / ڈاؤنلوڈ: 5517
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

فضائل آیت دوم

شکر نعمت

خدا وند متعال کی بے پناہ نعمتوں پر شکر واجب ہے اور شکر الہی ادا کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں چونکہ کائنات کی وسعتوں میں موجود بے شمار نعمتوں کا وہ احصاء کرنے سے قاصر ہے تو پھر کیسے شکر ادا کرے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ماانعم اللہ علی عبد بنعمة صغرت و کبرت فقال الحمد للہ الا ادی شکرھا۔( البیان ص ۴۵۵ اصول باب الشکر ص ۳۵۶)

خدا وند متعال نے کوئی ایسی چھوٹی یا بڑی نعمت اپنے بندے کو عطا نہیں فرمائی

( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ)

وہ سب کو فیض پہنچانے والا بڑامہربان ہے۔

اس آیت کی تفسیر پہلے بیان ہوچکی ہے لیکن ایک نکتہ کا یہاں ذکر کرنا مناسب ہے کہ رحمن سے مراد دنیا میں اسکی رحمت ہے اور رحیم سے اسکی اخروی رحمت مراد ہے۔

اسکا واضح برہان یہ ہے کہ لفظرحمانالحمدالله رب العالمین کیساتھ متصل ہے اور یہ دنیا میں اسکے رحمن ہونے کو بتاتا ہے اور لفظرحیم مالک یوم الدین کیساتھ متصل ہے اور یہ اسکی اخروی رحمت پر دلالت کرتا ہے، یہ دونوں صفات منشاء الہی کے فیضوض و برکات پر مشتمل ہے۔

۲۱

خصوصیات۔

سب سے پہلا تکرار

یہ قرآن مجید کی سب سے پہلی آیت ہے جس کے تمام الفاظبسم الله میں ذکر ہو چکے ہیں۔ قرآن مجید میں کہیں بھی بے فائدہ تکرار نہیں ہوا بلکہ خاص معنی اور مفہوم کو بیان کرنے کیلئے تکراری الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور یہاں تکرار کی مندرجہ وجوہات ہیں۔

الف:استحقاق حمد

بسم اللہ میں رحمن اور رحیم کا تذکرہ امداد طلب کرنے کے ذیل میں تھا اور یہاں استحقاق حمد کے لیئے ہے کیونکہ وہ ذات سر چشمہ رحمت ہے اور اس نے ہمیں اپنی رحمت سے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں، لہذا وہ ذات حق رکھتی ہے کہ اس کی حمد کی جائے گرچہ رحمت کے علاوہ اس کی عالمی تربیت اور دیگر تمام اوصاف کمال بھی اسی ذات کو مستحق حق گردانتی ہیں۔

ب:۔ تربیت کی دلیل۔

یہاں رحمن اور رحیم میں خدائی تربیت کی دلیل موجود ہے کیونکہ وہی کائنات کا خالق اور رب ہے لیکن یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کی یہ تخلیق اور تربیت کس بنیاد پر ہے؟ یہ واضع حقیقت ہے کہ وہ ذات ہر چیز سے بے نیاز ہے اور عالمین کی تربیت اپنی ضرورت کے لیئے نہیں کرتا۔

اس کی وسیع اور دائمی رحمت کا تقاضہ ہے کہ سب کو فیض پہنچائے اور اپنے لطف وکرم اور رحم سے ان کی تربیت کرے اور انہیں رشد وکمال کے راستے پر چلائے اور آخرت میں بھی اپنے دامن عفو ورحمت میں جگہ عطاء فرمائے ہماری تربیت اور بخشش سے اس ذات کو ذاتا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنی رحمت سے ہمیں نعمتیں عطاء فرماتا ہے اوررحمت کی وجہ سے ہماری تربیت کرتا ہے۔

۲۲

(ج)حقیقی مالک اور مجازی مالک میں فرق

دینوی مالک کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں بلکہ حقیقی اور اصلی مالک ان کو وجود اور زندگی عطاکرنے والا پروردگار ہے لیکن یہ دنیاوی مالک اپنی اس جھوٹی مالکیت کو جتلانے کے لئے اور اپنی انا اور خواہشات نفسانی کے تحت پر قسم کے ظلم و ستم،قتل و غارت اور بے راہ روی کو اپناتے ہیں۔

لہذا رب العالمین کے بعد الرحمن الرحیم کو لانا اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ حقیقی مالک ہونے کے باوجود اپنے بندوں پر مہربانی ولطف و کرم کرتا ہے،اور اپنی رحمت کے سائے میں تو بہ کرنے والے تمام خطاکاروں کو بخشش دیتا ہے۔اسی لئے ارشاد الہی ہے۔

قل یا عبادی الذین اسر فو ا علی انفسہم لا تقنطوا من رحمتہ اللہ ان اللہ تغفرالذنوب جمیعا ھو والغفورالرحیم پیغمبر (ص) آپ پیغام پہنچا سیجیے کہ اے میر ے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی، رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔

( مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ )

وہ خدا روز جزا کا ما لک ہے۔

حاکمیت اعلی۔

الف :۔

دنیا میں اقتدار اعلی خداوند عالم زمان ومکان کی تمام حالتوں پر حاکم ہے۔اور اس کی حاکمیت تمام جہانوں پر محیط ہے۔ہر چیز پر اس کا تسلط اور احاطہ ہے اور جہاں ہستی کے لیئے وہی ذات ہی حقیقی حاکم ہے اور وہ اپنی حکومت میں کسی چیز کا محتاج نہیں ہے اور علی الاطلاق وہی حاکم اعلی ہے خداوندمتعال کی تربیت اور پرورش فقط اس دنیا تک محدود نہیں ہے۔

۲۳

ب :۔

آخرت میں اقتدار اعلی، یہاں خداوندمتعال مالک یوم الدین کہ کر روز جزا کی حاکمیت فقط اپنی ذات کے ساتھ ہی مخصوص کر رہا ہے اور آج تک کسی نے اس دن کی حاکمیت کا دعوی نہیں کیا۔ جیسا کہ اس دنیا میں بھی لوگوں کی تربیت اور تدبیر کرنا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح آخرت کی تدبیر اور حساب کتاب بھی اسی ذات کے ہاتھ میں ہوگا جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے۔

لمن الملک الیوم لله واحد القهار ۔

آج کس کی حکومت ہے (جواب دیا جائے ) صرف خدا یگانہ اور قہار کی حکمرانی ہے۔

معاد

الف:۔ آخرت پر ایمان

خلاق متعال کی ربوبیت اور رحمانیت کا تقاضہ یہ ہے کہ جزا اور سزا کا ایک مکمل نظام ہو،خدا نے انسان کو ترقی اور کمال کے مراحل طے کرنے کے لیئے راہ دکھلائے اس کی تربیت کا انتظام کیا اسے شعور اور اختیا رعطا فرمایا اب اگر انسان صحیح راہ کا انتخاب کرے جو کہ اطاعت اور ایمان ہے،تو وہ جزا پائے گا۔

لیکن اگر بری راہ یعنی کفر ومعصیت کو اختیار کرے تو وہ سزا کا مستحق ہے۔ اس آیت کے ذریعے خداوندمتعال انسان کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ تمام لوگوں کا پلٹنا اسی کیطرف ہے اور یہی معاد ہے۔

ان کے تمام اعمال وامور،قیامت کے دن خدا وند متعال کی حکومت اور سلطنت میں پیش کیے جائیں گے اور وہیں سزا وجزا کا تعین ہو گا،تو اسی بنا پر فقط اسی سے امید رکھنی چاہیے اور اسی سے ڈرنا چاہیے اور اس ذات کی مخالفت اور نافرمانی سے بچنا چاہیے۔معاد پر ایمان انسان کو غلط راستے سے بچاتا ہے اور اس کے کردار اور اخلاق کی اصلاح ہوتی ہے۔اس بنا پر دین کی ایک بنیادی اصل معاد اور قیامت ہے۔

۲۴

(ب)روز حساب

قرآن مجید میں عالم آخرت کو مختلف الفاظ کے ساتھ تعبیر کیا گیاہے،یوم الدین،یوم حساب اور دوسری تعبیریں استعمال ہوئی ہیں اور یوم دین سے مراد روز حساب ہے جیسا کہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ مالک یوم الدین سے کیا مراد ہے۔آپ نے ارشاد فرمایا اس سے مرادیوم الحساب ہے۔

یہ وہ دن ہے جس دن تمام پوشیدہ حقائق واضع ہو جائیں گے اور تمام الہی وعدے پورے ہو جائیں گے اور ہر چھوٹے بڑے عمل کو عدالت الہی کے ترازو میں پرکھا جائے گا ہر شخص کی نیکیوں اور اچھائیوں،اسی طرح گناہوں اور برائیوں کاحساب وکتاب ہو گا۔

حاکم مطلق کی بارگاہ میں ہر ظلم وذیادتی کے خلاف شکایت کی جائے اور حقدار کو اس کا حق ملے گا اور کسی کو مایوسی نہ ہو گی اور ہر عمل کا عدل وانصاف کے ساتھ حساب ہو گا جب نیک اور برے افراد علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گے تو ان کا اجر وسزا معین ہو گا اور جو اجر پانے والے ہو نگے انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا اور جو لوگ سزا اورعذاب کے مستحق ہونگے انہیں جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔

( إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ )

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں

( ۱) عبادت

الف:۔حق کی ادائیگی، گزشتہ آیات میں اوصاف خداوندی کا تذکرہ ہو ہے اس ذات(خدا وندی) کی شناخت اور معرفت کے مراحل سے گزرتے ہوئے یہ علم ہوا کہ وہ ذات ہماری خلقت کے بعد،ہماری تربیت اور ہدایت کے تمام اسباب مہیا کرتی ہے،اس دنیا میں اس کی رحمت اور لطف وکرم ہم پر سایہ فگن ہے اور آخرت میں اس کی حاکمیت مطلقہ کے باوجود اس کی رحمت مومنین کے شامل حال ہے۔

۲۵

اس وجہ سے برتروبالا ذات کے بہت سے حقوق ہماری گردن پر ہیں اور جن کی صحیح معنوں میں ادائیگی ہمارے بس میں نہیں ہے،ان میں سے ایک منعم کا شکر ادا کرنا ہے،شکر کو حمد خداوندی کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے اسی طرح ایک حق یہ کہ ہم اپنے رحیم وکریم مالک کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں اس کا واضع مظہر عبادت خداوندی ہے۔

مزید یہ کہ جب کسی سے کوئی حاجت طلب کی جائے تو اس کا لاذمہ یہ ہے کہ اس کے حقوق ادا کیے جائیں اور جو انسان اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا وہ اس کی عنایت کا حق دار نہیں ہوتا۔اس مقام پر بیان ہونے والی آیات بتاتی ہیں کہ ہم نے کس طرح بارگاہ خداوندی سے حاجات طلب کرنی ہیں ان آیات میں اس کے حق کی ادائیگی کا اقرار کیا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے حاجات طلب کرتے ہیں۔

(ب)وہی ذات لائق عبادت ہے

خداوندمتعال بے پناہ کمالات کا مالک ہے اور اس کی ذات کمال مطلق ہے اور اس کی ہر صفت بھی کمال ہی کمال ہے،وہی رب بھی ہے اور مالک بھی اسی لیئے وہ ذات بندگی اور پرستش کی حق دار ہے یعنی اس کی عبادت کا موجب صرف اور صرف اس کی ذات ہے کوئی اور شیء نہیں ہے۔

اسی لیئے مولا علی علیہ السلام کا فرمان ہے۔

،الهی وجدتک اهلا للعباده فعبدتک

بارالہا میں نے تجھے بندگی اور عبادت کے لائق پایا،اسی لیئے تیری عبادت کرتا ہوں۔

جب وہ ذات ہی بندگی کی لیاقت رکھتی ہے تو پھر عبادت بھی فقط اسی کی قربت کی نیت سے ہونی چاہیے۔

۲۶

(ج)انحصار بندگی

ان آیات سے جب اس ذات کا عبادت کے لائق ہونا واضع ہو گیا تو اب ایک اور موضع کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ عبادت فقط اسی ذات میں منحصر ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے۔

عقل وفطرت کا بھی یہی تقاضا ہے جب وہی ذات خالق کل اور مالک حقیقی ہے تو پھر صرف اسی کی اطاعت کی جائے اور جب ہم اس کے بندے ہیں تو معبود بھی اسی کو ہونا چاہیے۔لہذا خداوندمتعال کے علاوہ کسی کی عبادت سلب آزادی اور غلامی کے مترادف ہے لیکن اگر انسان دوسروں کی عبودیت اور نفس امارہ سے آزاد ہونا چاہے اور فقط اور فقط خدا کی عبادت پر انحصار کرے تو اس کا مستحق ہوگا کہ خود کو خدا کا بندہ کہے کیونکہ اس کی بندگی میں عزت ہے۔

دنیاوی طاقتوں اور طاغوتوں کے سامنے جھکنے میں ذلت ہے۔ بہرحال قرآن مجید کی یہ آیت صاحبان ایمان کے لیئے روحی لحاظ سے علو کو پیش کرتی ہے۔اس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرے اور اپنی احتیاج اسی کے سامنے پیش کرے اور اس کے علاوہ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے۔ اسی کے علاوہ کسی پر اعتماد اور توکل نہ کرے کسی کو خدا کا شریک قرار نہ دے اور خدا کی سلطنت کے مقابلہ میں کسی کی حاکمیت کو محبوب نہ جانے کیونکہ خداوندمتعال کا حتمی فیصلہ یہ ہے کہ

( وَ قَضي رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ )

اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا۔

دین کا حکم بھی یہی ہے کہ ہمیں شرک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ شرک در عبادت واطاعت بھی انسان کو دائرہ توحید سے خارج کر دیتا ہے۔ نیز اس مطلب کی طرف بھی متوجہ رہنا چاہیے کہ کائنات کی ہر چیز خداوندمتعال کی مطیع ہے اور اس کی عبادت کرتی ہے اس مقام پر خداارشاد فرماتا ہے۔

( إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آَتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا )

زمین و آسمان میں ہر چیز خدا کا بندا اور (اسکی) فرمانبردار ہے۔

۲۷

خداوندمتعال کی تمام مخلوقات میں صرف انسان اور جن ہی اس کی نافرمانی اور سرکشی کرتے ہیں حالانکہ انہیں عبادت کے لیئے خلق کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد خدا و ندی ہے۔

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )

جن و انس کو صرف عبادت کے لیئے پیدا کیا گیا ہے۔

المختصر یہاں پر جب یہ واضع ہو گیا کہ عبادت و پرستش صرف ذات الہی کے ساتھ مختص ہے اور غیر اللہ کی عبادت جس صورت اور جس طرز فکر سے ہو،شرک ہے کیونکہ جو شخص غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ اسے معبود سمجھ بیٹھتا ہے اور جو معبود حقیقی کے علاوہ کسی اور کو معبود سمجھے وہ کافر اور مشرک ہے۔خدا پرست اوراھل توحید اسی عقیدہ کی وجہ سے مشرک اور غیر موحد لوگوں سے ممتاز ہیں۔

خضوع و خشوع

اس بات میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مخلوق کو خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ خضوع و خشوع بھی کرنا چاہیے کیونکہ وہ ذات اس قدر عظیم ہے کہ اس کے مقابلے میں ہر چیز صحیح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اللہ اکبر کہہ کر اپنی ناچیزی کا اقرار کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی ذات اور بندگی کا اظہار ہمارے لئے ضروری ہے۔

یہ ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس پر عقل اور شریعت دونوں شاہد ہیں اس کے علاوہ کسی استدلال اور برہان کی ضرورت نہیں ہے۔عبادات میں خضوع وخشوع انسان کے مقام کی بلندی کاموجب بنتا ہے بندہ کی اسی میں عزت ہے کہ بندگی میں کمال پیدا کرے اور یہ کمال صرف خشوع وخضوع میں مضمر ہے۔

۲۸

اس سے بڑا فخر اور بڑی عزت کوئی نہیں ہے کہ انسان غنی مطلق کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجیسا کہ حضرت امیر علیہ ا لسلام ارشاد فرماتے ہیں۔

الهی کفانی فخراان تکون لی ربا وکفانی عزا ان کون لک عبدا

پروردگار امیرے لئے صرف یہ بہت بڑا فخر ہے کہ تو میرا رب ہے اور میرے لئے یہ بہت بڑی عزت ہے کہ میں تیرا عبد ہوں۔

ھ۔ خدا کی مر ضی کے مطابق عبادت

عبادت خدا وند متعال کی مرضی کے مطابق ہونی چاہیے،اور عبادت تقرب خدا وندی کے لئے،ہو تی ہے تو اسے اس کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے خواہ خاص حکم ہو یا عام،اسے اپنے وہم وگمان اور مرضی کے مطابق بجا لانا چاہیے، کیونکہ خدا وند متعال تمام مصالح اور نقصانات سے آگاہ ہے اور انسانی عقل اس کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتی ہے۔

لہذا عبادت اور اطاعت کا صحیح طریقہ وہی ذات معین کر سکتی ہے اور اس کے حکم اور اجازت کے بغیر کوئی عبادت خدا کی عبادت نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ھو وھوس اور تخیل کی عبادت ہوگی۔

اس سلسلے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے۔

قال ابلیس :رباعفنی من السجودلآدم وانا اعبدک عبادة لا یعبدکها ملک مقرب ولابنیمرس فقال جل جلاله لا حاجة لی فی عبادتک انه اعبادتی من حیث ارید لامن حیث ترید

جب شیطان نے کہا بارالہا اگر مجھے آدم کو سجدہ کرنے سے معا ف کر دو تو میں تمہاری ایسی عبادت کروں گا جو کسی مقرب فرشتے اور مرسل نبی نے نہ کی ہوگی۔ اس وقت اللہ جل جلالہ نے فرمایا مجھے تمہاری عبادت کی کوئی حاجت نہیں ہے بلکہ میری عبادت وہ ہے جو میری مرضی کے مطابق ہو نہ کہ تیری مر ضی کے مطابق ہو۔

۲۹

عبادات کی شرائط اور اقسام

خدا کی عبادت تبھی خالص ہو سکتی جب انسان اس کی ذات پر یقین کامل رکھتا ہو اور دوسرے تمام اسلامی اصولوں کا بھی معترف ہو کیونکہ عبادت ان اصولوں کی فرع ہے خدا وند متعال کی حمد وثنا،اس کی ذات کی عظمت اور یوم قیامت کے حساب کتاب جیسے مفاہیم جب انسان کی روح میں سرائیت کر جائیں تو یہ انسان کے عقیدے کے استحکام کا موجب ہیں۔

عبادت کی تکمیل بھی اس مشروط ہے کہ انسان معرفت پروردگار،عقیدہ کی دوستی۔اخلاص و ایمان سے عبادت کو بجالائے اور مقام بندگی میں خود کو اس کے حضورمیں سمجھے اور خدا کا خالص بندہ

کر اس کی بار گاہ میں جائے اور دنیا،لذات، خواہشات وشہوات اور دنیا داروں سے بریدہ ہو کر فقط اس کی عبادت کرے۔

عبادت مختلف طرح سے کی جاتی ہے

( ۱) کبھی انسا ن اس لئے عبادت کرتا ہے تاکہ اسے اجر اور ثوا ب ملے یعنی خداکے احسان اور وعدہ کے لالچ میں عبادت کرتا ہے۔

جیسا کہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

( وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ )

جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی

اور فرمایا۔

( وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ )

اللہ نے صاحبان ایمان، نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔

( ۲) کبھی انسان جہنم کے عقاب و عذاب کے خوف کی وجہ سے اللہ کی عبادت کرتا ہے جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا۔

( إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ )

اگر میں اپنے پروردگار کی نا فرمانی کروں،تو مجھے ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

۳۰

( ۳) کبھی انسان اللہ کی عبا ت اور پرستش اس لئے کرتا ہے کیونکہ وہی لائق عبادت اور یہ عبادت اولیاء خدا کے ساتھ مخصوص ہے جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ ا لسلا م ارشاد فرماتے ہیں

الهی ما عبداک خوفا من عقابک ولا طمعا فی ثوابک ولکن وحدئک اهلا لعبادة معبدئک

خدایا میری عبادت تیرے عذاب کے خوف،اور ثواب کے طمع و لالچ میں نہیں ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کہ تو اس کے لائق ہے۔

ہر شخص اپنی معرفت اور ظرف کے مطابق عبادت کرتا ہے جتنی معرفت ہو اتنی ہی عبادت کی تین قسمیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

قوم عبدوالله عزوجل خوفا فتلک عبادة العبید،وقوم عبده الله تبارک و تعالی طلب الثواب فتلک عبادة الاجراء و قوم عبد و الله عز وجل حتی له فتلک عبادة الاجراره هی افضل العبادة ۔

ایک قوم اللہ تبارک وتعالی کی عبادت جہنم کے خوف کی وجہ کرتی ہے یہ غلاموں کی سی عبادت ہے اور ایک گروہ اللہ کی عبادت ثواب حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے اور یہ اجیر کی عبادت کار وباری عبادت ہے۔ ایک قوم خدا کی محبت میں اس کی عبادت کرتے ہیں یہی احرار لوگوں کی عبادت ہے اور یہی افضل ترین عبادت بھی ہے۔

اور جو لوگ اللہ کی محبت میں عبادت بجا لاتے ہیں ان کے لئے خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

( قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبکُمُ اللهُ )

اے رسول کہہ دیجیے اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہوتو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔

۳۱

احتیاج عبد

انسان ایک محتاج موجود ہے اور بذات خود کسی طرح کی کوئی احتیاج نہیں رکھتا ہے۔انسان نے اپنا وجود بھی اسی ذات سے حاصل کیاہے اور اس ذات کے علاوہ کوئی بھی وجود دینے کی قدرت نہیں رکھتا ہے انسان اپنی تمام زندگی میں خدا کی مرضی کے بغیر کسی چیز کو حاصل نہیں کر سکتا۔

لہذا تمام عمر ہر امر میں اس ذات کا محتاج ہے مادیات میں بھی محتاج ہے اور معنویات میں بھی خدا کی مدد اور توفیق کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہو سکتا اور عبادت بھی انسان کی ایک ضرورت ہے

چونکہ دین انسان کی فلاح و سعادت کے لئے ہے اور اس کے احکام پر عمل کرنے سے ہی یہ مقصد حاصل ہو گا

لہذا عبادت کو انسان اپنی ہی بہتری کے لئے انجام دیتا ہے اور خدا کی ذات کو عبد کی عبادت کا کوئی فائدہ اور ضرورت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرمایاہے۔

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ )

اے لوگوتم سب خدا کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز ہے اور قابل حمد و ثنا ء ہے۔

اب اس مقام پر انسان محتاج اپنی ذات اور تشخص کو ختم کرتے ہوئے کہتا ہے ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں جمع کی ضمیر اس لیے استعمال کی ہے کہ مفرد ضمیر یعنی ”میں“ کہنے میں انائیت کا شائبہ ہوتا ہے اور مقام بندگی میں جب ”ہم“ کہا جاتا ہے تو اس کا یہ مقصد ہوتا ہے میں ناچیز اور محتاج ہوں اور اس قابل ہی نہیں کہ اپنی ذات کا اظہار کرسکوں اور مقام عبادت اور طلب میں ناداری اور نیاز مندی کا اظہار ضروری ہے۔

اللہ تعالی بے نیاز مطلق ہے اور کائنات کی کوئی چیز اس کی ضرورت نہیں بن سکتی ہے اور ضرورت اور احتیاج کمال کے منافی ہو تی ہے اور عبادت جن وانس کی خدا کو ذرہ بھر ضرورت نہیں ہے۔

۳۲

بلکہ اگر کائنات میں ایک فرد بھی خدا کو مانتا ہے اور اس کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہو تو پھر بھی خداکی خدائی میں فرق نہیں پڑتا اور اس کے کمال میں کوئی کمی پیدانہیں ہو سکتی۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے۔

انسان عبادت بھی خدا کی مددکے بغیر انجام نہیں دے سکتا بندگی اور اطاعت کے تمام مراحل میں اس کا محتاج ہے۔

اسی لئے عبادت اور بندگی میں توفیق الہی اور استعانت طلب کی جاتی ہے عبادت کے شروع کرنے میں بھی خدا وند متعال کی استعانت ضروری ہے چونکہ شیطان انسان کو بندگی اور اطاعت کرنے سے روکتا ہے اور مختلف حیلوں سے موانع ایجاد کرتا ہے۔

اس وقت انسان مصمم ارادہ کے ساتھ خدا کی مدد طلب کرتا ہے اور جب الہی توفیق شامل حال ہو جاتی ہے تو وہ عبادت کا آغاز کرتا ہے اس وقت شیطان ناکام ہونے کے بعد عبادت میں خلل ڈالنے اور بٹھکانے کی کوشش کرتا ہے۔

اس کے لیئے عبادت کو بجا لانے اور اس میں اخلاص اور حضور قلب رکھنے میں خدا کی طرف محتاج ہے اوراس کی مدد کی ضرورت ہے لہذا عبادت کے آغاز،اس کے مال اور اس کی تکمیل فقط خدا کے لطف و کرم سے ہو سکتی ہے۔

نتیجہ یہ کہ انسان ہر سانس میں اس غنی مطلق کا محتاج ہے اور دنیاوآخرت کے تمام امورخداوندمتعال کی مدد کے بغیر انجام نہیں پا سکتے۔اور خداوندمتعال کسی بھی امر میں کسی بھی چیز کا محتاج نہیں ہے۔

فاطرآیت ۱۵ نیز سورہ محمد کی آخری آیت میں بھی یہ مفہوم موجود ہے

۳۳

(ج) عبادت اختیاری

یہ آیت اس بات کی طرف متوجہ کررہی ہے کہ عبادت بندہ کا اختیاری فعل ہے اور خداوند متعال نے انسانوں کو اختیارعطافرمایاہے کہ اگر بندگی اور فرمانبرداری سے خدا وند متعال کی اطاعت اور عبادت میں زندگی گزارے تو اس کی آخرت سنور جائے گی اور اگر وہ نافرمانی کرتے ہوے کفر کی زندگی اختیار کرے تو عذاب شدید کا مستحق ہو گا۔

لہذا مسلمان اپنی عبادت اختیار سے انجام دیتا ہے لیکن اس عبادت کے کمال اور تکمیل پر اس کا اختیار نہیں ہے کیونکہ ثواب اور اجر اخروی،صحیح اور کامل عبادت پر ہی عطا ہوتا ہے اسی لیئے استعانت طلب کی جاتی ہے۔

اس آیت کریمہ میں عبادت کو عبد کا فعل کہا ہے اور استعانت اور مدد کرنا خدا کا فعل ہے لہذا خدا کے فعل پر انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ہاں اگر انسان اطاعت اور بندگی میں ایسے عالی اور بلند مرتبہ پر فائز ہو جائے کہ قرب الہی کے عظیم درجہ کا حامل ہو جائے تو پھر وہ خود خدا کی مرضی بن جاتا ہے یہ مقام نہایت ہی خاص ہستیوں کا نصیب ہے۔

اگر انسان خدا کی اطاعت اور بندگی کو اختیار نہیں کرتاتو وہ اپنہ ہوی اور ہوس کا بندہ ہے اور ہوس اور ہوی نفس کی غلامی اختیار کرتا ہے وہ غیر خدا کی پرستش کرتا ہے اور جیسا کہ فرمان رب العزت ہے۔

( أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ )

کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جو اپنی ہوا وہوس کو اپنا خدا بناتا ہے۔ اور اگر انسان خدا کی اطاعت اور بندگی کو اختیار کرے اور ” نعبد“ میں مخلص اور سچا ہو تو اس تکبر اور غرور کی نفی کرتا ہے۔ عبادت انسان کو اچھائی کی راہ دکھلاتی ہے اور تمام برائیوں سے دور کر دیتی ہے چونکہ جب انسان بندگی کو تسلیم کر لیتا ہے تو پھر سر اٹھانے اور نافرمانی کرنے کی نفی کرتا ہے اور راہ نجات پر گامزن ہوتے ہوئے سعادت اخروی کو پا لیتا ہے۔

۳۴

اصل خدا ہے

ذات خداوند چونکہ اصل ہے اس لیئے ایاک کو مقدم کیا ہے اور نعبد و نستعین کو بعد میں ذکر کیا ہے چونکہ عبادت و استعانت ذات خدا پر فرع ہے اور اللہ ہر چیز سے پہلے اور مقدم ہے جیسا کہ مولا کائنات فرماتے ہیں۔

ما رأیت شیئا الا و رأیت الله قبله

میں نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ مگر یہ کہ خدا کو اس سے پہلے پایا۔

یعنی خدامتعال کی ذات ہر چیز پر مقدم ہے، لہذا عبادت پر بھی مقدم ہے اسی طرح استعانت پر بھی مقدم ہے نیز ایاک کو مقدم کرنے میں حصر عبادت اور حصر استعانت کا مفہوم بھی بیان ہو رہا ہے صڑف تیری ذات کی عبادت کرتے ہیں اور صرف تیری ذات سے مدد مانگتے ہیں۔

عبادت کیوں مقدم ہے

عبادت کو استعانت پر اس لیئے مقدم کیا ہے کہ عبادت مطلوب خداوندی ہے اور استعانت عبد کی طلب ہے اور عبد کی طلب کا ذریعہ بھی عبادت ہے اور عبادت اور اطاعت واجب ہے اور اس کی تکمیل گرچہ استعانت ہی سے ہو گی لیکن اسے انجام دینا عبد کا اختیاری فعل ہے۔ لہذا عبد کہتا ہے کہ ” ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تم سے مدد چاہتے ہیں “ تاکہ ہماری عبادت تکمیل پائے اور عبادت کے ذریعہ تم سے مدد چاہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اور اس طرح سے تیرے قرب کے طلب گار ہیں اور تعلق اور تقرب عبادت ہی سے متحقق ہو سکتا ہے۔ نیز کلام کی ھماھنگی اور خوبصورتی بھی اسی میں ہے کہ ایاک نستعین بعد میں آئے تاکہ آیات کے اختتام میں یکسانیت پیدا ہو۔

۳۵

لطف حضور

ادب کا تقاضا ہے کہاس بلند وبالا ذات سے تدریجا قرب پیدا کیاجائے اس سورہ میں نام سے آغاز کیا پھر ذات کا ذکر کیا اس کے بعد مختلف اوصاف کا تذکرہ کیا اور معرف خداوندی کے مراحل طے کیے اسطرح درجہ بدرجہ تعلق پیدا کیا جا رہا ہے اللہ، رب،رحمن،الرحیم اور مالک کہنے کے بعد اب عبد اپنا انداز گفتگو تبدیل کر رہا ہے اور اپنے آپ کو خدا کے حضور اور اسکی بارگاہ میں محوس کر رہا ہے۔ اسی لیئے پہلے غیبت کے الفاظ استعمال کرتا رہا ہے اور اب مخاطب اور حاضر کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ صرف آپ کی عبادت کرتے ہیں اور پھر جب بارگاہ میں گفتگو کا شرف پالیا تو اب عبد مزید قرب حاصل کرنے کے لیئے اپنی گزارشات کو پیش کرتے ہوئے استعانت کا طلب گار ہوتا ہے اور بعد والی آیات میں اپنی بنیادی دعا کو طلب کرتا ہے چونکہ حضور میں پہنچ کر درخواست جلدی قبول ہوتی ہے۔

نماز میں جب انسان اس سورہ کو پڑھا جاتا ہے تو انسان روحانی پروازاور معراج کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچتا ہے تو اس وقت اس کے لئے یہ نقطہ عروج ہے۔

اور یہاں تعلق اور قرب الہی کا مقام ہے لہذا اس کے بعد دعا کرتا ہے،یعنی پرواز روحانی حمد،تعلق وقرب،اور درخواست کے مراحل پر مشتمل ہے۔

( ۲) وحدت کلمہ

اس آیت مبارکہ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو وحدت اور یگانگی سے اپنے امور بجا لانا چاہیں اور اتحاد کے ساتھ خدا کی اطاعت اور بندگی میں زندگی گزاریں،اپنی عبادات میں بھی وحدت کو ملحوظ رکھیں جیسے اجتماعی عبادات مانند حج،نماز جماعت،نماز جمعہ جہاد وغیرہ میں ضروری ہے۔

۳۶

سورہ حمد چونکہ نماز کا لازمی جز ہے اور جب بندہ نماز میں یہ جملہ کہتا ہے تو اپنے آپ کو جماعت اور اجتماع میں شمار کرتے ہوئے نعبد و نستعین کہتا ہے ہر قسم کی انفرادیت، علیحدگی،گوشہ نشینی اور ہر قسم کی دوسری چیزیں قرآن اور روح اسلام کے منافی ہیں اور عبادت تو خاص طور پر اجتماعی پہلو رکھتی ہے اور مخصوصا نماز کی بہترین حالت جماعت کی صورت میں ہے۔

اذان اور اقامت سے لے کر اختتام نماز یعنی السلام علیکم و رحمة و بر کاتہ تک جماعت اور اجتماع کی ضرورت کو بیان کیا جاتا ہے گرچہ انفرادی نماز بھی صحیح ہے لیکن یہ دوسرے درجے کی عبادت ہے اور اجتماعی عبادت اور دعا جلد قبول ہوتی ہے اور اس کا ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے۔

استعانت

الف ضرورت استعانت

انسان دنیا میں بہت سی قوتوں سے نبرد آزما ہے کچھ بیرونی قوتیں ہیں اور کچھ انسان کی اندرونی قوتیں ہیں جو اسے تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں اور بندگی اور اطاعت میں بھی بہت سی قوتیں انسان کو انحراف،خود پسندی،ریاکاری،سستی اور ایسے دیگر امور میں مبتلا کرسکتی ہیں جیسا کہ شیطان نے بھی انسانوں کو گمراہ کرنے کی کی قسم اٹھا رکھی ہے۔

نفس امارہ بھی برائیوں کی طرف رغبت دلاتا ہے تو اس مقام پر عبد کو ایک طاقتور اور قادر مدد گار کی ضرورت کا ہوتا ہے تو وہ خدا سے مدد مانگتا ہے اور خود کو پروردگار کے سایہ حمایت کے سپرد کرتا ہے اور جو انسان نماز میں بار بار اس کا تذکرہ کرتا ہو۔

اس کا ایمان بندگی کا اعتراف اور اسی سے مدد مانگتا ہو تو وہ پھر کسی طاقت سے نہیں گھبراتا، ثابت قدمی کے ساتھ اطاعت اور بندگی کے راستے پر گامزن رہتا ہے اور کسی دوسری قوت کے سامنے سر نہیں جھکاتا اور مادیات کی کشش سے دھوکا نہیں کھاتا ہے اور اپنی حیات و ممات کو خدا کے لئے قرار دیتا ہے۔

۳۷

انحصار استعانت

خدا وند متعال چونکہ قادر مطلق ہے اور کائنات کی ہر طاقت اور قوت پر حاوی ہے لہذا صرف وہی ذات ہے جو ہر معاملہ میں مددگار ہو سکتی ہے لہذ ا صرف اسی ذات سے مانگنی چاہیے اور اس ذات کے علاوہ کسی دیگر قوت کی مدد ناقص ہوگی مگر یہ کہ خداوند متعال خود کسی کو خصوصی طور مدد گار کامل بنادے۔

اب اگر انسان اس سے مدد لے تو یہ بھی خدا کی عطا کردہ قوت کی مدد ہو گی خدا کی ذات” کن فیکون“ بلکہ اس سے بالا تر طاقت لہذا جب وہ کسی چیز کا اردہ فرمائے تو دنیا وی کسی طاقت کو ہر مارنے کی مجال نہ ہوگی اور ہر طاقت کی قوت دم توڑ دے گی اسی لئے انسان اپنے تمام امور میں اسی ذات سے مدد مانگتا ہے تکمیل ایمان وعبادت میں بھی اس کی مدد کا محتا ج ہے۔

اگر کوئی انسان غفلت میں زندگی گذار رہا ہو اور خدا کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جائے گرچہ یہ بہت بڑی بد بختی ہے لیکن یہ انسان جب کسی بڑی مشکل اور مصیبت میں مبتلا ہو تا ہے اور دنیا کی ہر طاقت سے ما یوس ہو جا تا ہے تو پھر فقط اور فقط ایک ہی طاقت ہے کہ جس سے مدد مانگی جا سکتی ہے اور وہ خدا وند متعال کی ذات ہے۔

خصوصیات آیت پنجم

اولین تکرار لفظ

اس آیت میں ایک لفظ ”ایال“ دو مرتبہ آیا ہے اس طرح یہ قرآن مجید کا ایک ہی آیت میں ہونے والا پہلا تکرار ہے یہ معنوی مفاہیم کے علاوہ لفظی خوبصورتی کا باعث ہے اس مقام پر یہ تکرار کلام میں لطافت بھی پیدا کرتا ہے اور محبوب سے گفتگو چونکہ شیرین ہو تی ہے تو الفاظ کے تکرار سے طویل کیا جاتا ہے۔

۳۸

پہلا بلا واسطہ فعل

اس آیت مبارکہ کی یہ خصوصیت ہے کہ آسمانی کتاب میں عبد پہلی دفعہ اپنے مالک کو بلا واسطہ پکارا ہے اور اس کو خطاب کرنے کا شرف حاصل کرتا ہے گرچہ انسان گذشتہ آیات میں مختلف مرا حل میں یہ اعزاز حاصل کر رہا ہے کہ اپنے مالک اور خالق سے صرف ”تم“ کہہ کر گفتگو کا آغاز کرے جس میں اپنا ئیت پائی جا تی ہے۔

پہلی ضمیر

قرآن مجید میں استعمال ہو نے والی پہلی ضمیر ”ایاک “ ہے یہ اس آیت مبارکہ کی خصوصیت ہے کہ سب سے پہلی ضمیر اس آیت میںآ ئی ہے اور وہ بھی خدا کے لئے استعمال ہوئی ہے اور ضمیر بھی ضمیر مخاطب ہے اور یہ ضمیر ایک آیت میں دو مرتبہ آئی ہے۔

ضمیر کا استعمال عظمت مقام معبود کی وجہ سے ہے اور اس میں یہ مفہوم ہے معرفت اور شناخت کے مراحل طے ہو چکے ہیں لہذا اب اس ذات برتر کے لیئے ضمیر استعمال ہو رہی ہے اور ضمیر خطاب اس لیئے ہے کہ تعلق کا اظہار کیا جائے ہم تیرے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔

( ۴) پہلا مطلوب الہی

مطلوب الہی اور عبد کا پہلا تذکرہ اس آیت میں ہے۔ مقصد تخلیق بھی عبادت ہے اور خدا بھی چاہتا ہے کہ انسان عبادت کریاور اطاعت کی زندگی گزارے لہذا قرآن مجید میں پہلا مقام ہے کہ جہاں الہی طلب جو کہ عبادت ہے اس کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ ہم تیرے حکم کے مطابق صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔

پس مرضی الہی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔اور پھر عبد اپنی طلب کا اظہار بھی کرتا ہے کہ بار الہی ہم تمام معاملات میں تم سے ہی مدد طلب کرتے ہیں لہذا یہ عبد کی پہلی طلب اور دعا قرار پائی کہ جو قران مجید کی اس آیت کا خاصہ ہے۔

۳۹

( ۵) پہلا اظہار وجود

اس آیت مبارک میں عبد” نعبد “اور ” نستعین“ کے الفاظ سے اظار وجود کرتے ہوئے خدا کی بارگاہ میں حاضری دے رہا ہے اور کہ رہا ہے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور بندہ اپنے مالک سے اپنی ہی بھلائی کے دو کاموں کا تذکرہ کر رہا ہے کہ ہم اپنے کام اور ذمہ داری پوری کرتے ہیں اسی لیئے فعل مضارع کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور (یہ قرآن مجید میں آنے والا پہلا فعل بھی ہے)۔

البتہ یہاں جمع متکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے اس میں اس امر کا اظہار ہے کہ ہماری عبادت مجموعی طور پر ( یعنی اولیاء انبیاء اور آئمہ کی عبادت سے ملکر )ہی عبادت کہلا سکتی ہے وگرنہ ایک بندہ عبادت خدا انجام دینے کو اپنی طرف نسبت دینے میں کاذب بھی ہو سکتا ہے۔

فضائل

( ۱) نماز حضرت امام زمانہ میں تکرار

اس آیت مبارکہ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ ہمارے موجودہ زمانہ کے امام آخرالزمان علیہ السلام کی مخصوصہ نماز کی ہر رکعت میں یہ آیت ۱۰۰ مرتبہ تکرار ہوتی ہے۔

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ )

ہمیں سیدھے راستے کی ھدایت فرما تا رہ

ھدایت، پروردگار عالم کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار،اسکی وحدانیت کی گواہی،اسے اس کائنات اور عالم آخر ت کامربی اور مالک ماننے اور اس سے طلب و استعانت کے مرحلہ تک پہنچ جانے کے بعد ہم بارگاہ خداوندی میں درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں دنیاکے اس بیابان میں راہ مستقیم پر گامزن رکھ اور یہی راستہ جنت کے لیئے ہمارا ہادی ہو،اس ہدایت کی دوصو رتیں ہیں۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہ اپنے نفس کو فضائل اور اچھے کام بجا لانے پر مجبور کر کیونکہ بری صفات تیرے اندر رکھ دی گئی ہیں_(۱۸۵)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ'' اپنے نفس کو اچھے کام انجام دیے اور سختی کا بوجھ اٹھانے کی عادت ڈال تا کہ تیرا نفس شریف ہو جائے اور تیری آخرت آباد ہو جائے اور تیری تعریف کرنے والے زیادہ ہوجائیں_(۱۸۶)

نیز آن حضرت(ع) نے فرمایا ہے کہ '' نفسانی خواہشات قتل کردینے والی بیماریاں ہیں ان کا بہترین علاج اور دواء صبر اور خودداری ہے_(۱۸۷)

برے دستوں سے قطع تعلق_

انسان ایک موجود ہے جو دوسروں سے اثر قبول کرتا ہے اور دوسروں کی تقلید اور پیروی کرتا ہے_ بہت سی صفات اور اداب اور کردار اور رفتار کو دوسرے ان انسانوں سے لیتا ہے کہ جن کے ساتھ بود و باش اور ارتباط رکھتا ہے_ در حقیقت ان کے رنگ میں رنگا جاتا ہے بالخصوص دوستوں اور میل جول رکھنے والوں سے زیادہ اثر لیتا ہے جو اس کے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں_ بداخلاق اور فاسد لوگوں کے ساتھ دوستی انسان کو فساد اور بداخلاقی کی طرف لے جاتی ہے _ انسان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کی طرح بناتا ہے اگر کسی کے ہم نشین بداخلاق اور گناہگاروں تو وہ ان کے برے اخلاق اور گناہ سے انس پیدا کر لیتا ہے اور صرف ان کی برائی کو برائی نہیں سمجھتا بلکہ وہ اس کی نگاہ میں اچھائی بھی معلوم ہونے لگتی ہے اس کے برعکس اگر ہم نشین خوش اخلاق اور نیک ہوں تو انسان ان کے اچھے اخلاق اور کردار سے مانوس ہوجاتا ہے اور اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو انہیں کی طرح بنائے لہذا اچھا دوست اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور انسان کی ترقی اور کمال تک پہنچنے کا بہت اچھا کارآمد اور سعادت آور شمار ہوتا ہے_ اس کے برعکس برا دوست انسان کی بدبختی اور راستے سے ہٹنے اور مصائب کا موجب ہوتا ہے لہذا دوست کے

۱۰۱

انتخاب اور اختیار کرنے کو ایک معمولی کام اور بے اہمیت شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسے ایک اہم اور عاقبت ساز کام شمار کرنا چاہئے کیونکہ برا گناہگار دوست برے کاموں کو بھی اچھا بتلایا ہے اورچاہتا ہے کہ اس کے دوست بھی اسی کی طرح ہوجائیں برا دوست نہ دنیا میں کسی کی مدد کرتا ہے اور نہ آخرت کے امور میں مدد کرتا ہے اس کے پاس آنا جانا بے عزتی اور رسوائی کا موجب ہوتا ہے_(۱۸۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کسی مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ فاسق احمق دروغ گو سے دوستی کرے_(۱۸۹)

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان اپنے دوست اور ہم نشین کے دین پر ہوتا ہے_(۱۹۰)

حضرت علیہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' فاسق انسان سے دوستی کرنے میں حتمی طور سے اجتناب کرو اس واسطے کہ شر شر سے جا ملتا ہے_(۱۹۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' برے اور شریر لوگوں سے میل جول رکھنے سے حتمی طور سے پرہیز کر کیونکہ برا دوست آگ کی طرح ہوتاہے کہ جو بھی اس کی نزدیک جائیگا جل جائیگا_(۱۹۲)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' برے دوست کے ساتھ میل جول سے حتما پرہیز کر کیونکہ وہ اپنے ہم نشین کو ہلاک کردیتا اور اس کی آبرو کو ضرر پہنچاتا ہے_(۱۹۳)

لہذا جو انسان اپنے نفس کو پاک کرنا چاہتا ہے اگر اس کے برے دوست ہیں تو ان سے میل جول فورا ترک کردے کیونکہ برے دوست رکھتے ہوئے گناہوں کا چھوڑنا بہت مشکل ہے برے دوست انسان کے اپنے نفس کو پاک کرنے کے ارادے کو سست کردیتے ہیں اور اسے گناہ اور فساد کی طرف راغب کرتے ہیں گناہ کرنا بھی ایک عادت ہے اور یہ اس صورت میں چھوڑی جا سکتی ہے جب دوسرے عادت رکھنے والوں سے میل جول ترک کردے_

۱۰۲

۵_ لغزش کے مقامات سے دور رہنا_

نفس کو پاک کرنا اور گناہ کا چھوڑ دینا اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ بہت مشکل کام ہے_ انسان ہر وقت لغزش اور گناہ کے میدان میں رہتا ہے_ نفس امارہ برائیوں کی دعوت دیتا رہتا ہے اور نفس جو جسم کے حکم ماننے کا مرکز ہے وہ ہمیشہ بدلتا اور دگرگون ہوتا رہتا ہے_ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے متاثر ہوتا ہے اور اسی کے مطابق فرمان جاری کرتا اور پھر وہ اسے کیسے سنتا اور دیکھتا اور کن شرائط میں قرار پاتا ہے_ انسان مجالس اور محافل معنوی اور عبادات اور احسان نیک کاموں کے ماحول میں جانے سے اچھے کاموں کے بجالانے کی طرف مائل ہوتا ہے برعکس فسق و فجور اور گناہ کے مراکز اور محافل میں جانے سے انسان گناہ کی طرف لے جایا جاتا ہے_

معنوی ماحول دیکھنے سے انسان معنویات کی طرف رغبت کرتا ہے اور شہوت انگیزی ماحول دیکھنے سے انسان شہوت رانی کے لئے حاضر ہوجاتا ہے اگر کسی عیش و نوش کی مجلس میں جائے تو عیاشی کی طرف مائل ہوتا ہے اور اگر کسی دعا و نیائشے کی مجلس میں حاضر ہو تو خدا کی طرف توجہ پیدا کرتا ہے_ اگر دنیا داروں اورمتاع کے عاشقوں کے ساتھ بیٹھے تو حیوانی لذت کی طرف جایا جاتا ہے اور اگر خدا کے نیک اور صالح بندوں کے پاس بیٹھے نیکی اور خوبی کی طرف رغبت کرتا ہے_ لہذا جو لوگ اپنے نفس کو پاک کرنے اور گناہوں کے ترک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کانوں کوشہوت انگیز اور خرابی و فساد اور گناہوں کے محافل اور مراکز سے دور رکھیں اور اس طرح کی محافل اور اجتماع میں شریک نہ ہوں اور اس طرح کے لوگوں کے ساتھ میل جول اور دوستی نہ رکھیں اگر انسان نہیں کریں گے تو پھر ہمیشہ کے لئے گناہ اور خطا اور لغزش کے میدان میں واقع ہوتے رہیں گے اس لئے تو اسلام نے حرام کے اجتماع اور محافل جیسے جوئے بازی شراب و غیرہ میں شریک ہونے

۱۰۳

سے روکا ہے_ نامحرم کو دیکھنا اور غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا اور اس سے مصافحہ کرنا اور اس سے ہنسی اور مزاح کرنے سے منع کیا ہے_ اسلام میں پردے کے لئے سب بڑی حکمت اور مصلحت یہی چیز ہے_ اسلام چاہتا ہے کہ ماحول گناہوں کے ترک کردینے اور نفس کو پاک کرنے کے لئے سازگار ہو اس کے علاوہ کسی اور صورت میں نفس امارہ پر کنٹرول کرنا غیر ممکن ہے کیونکہ فاسد ماحول انسان کو فساد کی طرف لے جاتا ہے یہاں تک کہ صرف گناہ کی فکر اور سوچ بھی انسان کو گناہ کی طرف بلاتی ہے لہذا اسلام ہمیں کہتا ہے کہ گناہ کی فکر اور سوچ کو بھی اپنے دماغ میں راستہ نہ دو_

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب آنکھ کسی شہوت کو دیکھ لے تو پھر اس کی روح اس کے انجام کے سوچنے سے اندھی ہوجاتی _(۱۹۴) حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' گناہ کا سوچنا اور فکر کرنا تجھے گناہ کرنے کا شوق دلائے گا_(۱۹۵)

۱۰۴

خودپسندی اور خودخواہی تمام مفساد کی جڑ ہے

علماء اخلاق نے خودپسندی اور خودخواہی کی صفت کو ام الفساد یعنی فساد کی جڑی قرار دیا ہے اور تمام گناہوں اور تمام بری صفات کا سبب خودپسندی بتلایا ہے_ لہذا نفس کو اس سے پاک کرنے میں بہت ہی زیادہ کوشش کرنی چاہئے_ ہم کو پہلے خودپسندی اور خودخواہی کے معنی بیان کرنے چاہئیں اس کے بعد اس بری صفات کے برے اثرات اور اس سے مقابلہ کرنے کی تشریح کرنی چاہئے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ہر زندہ شے کو اپنی ذات اور صفات کمالات اور افعال اور آثار سے محبت اور علاقمندی ہوا کرتی ہے یعنی فطرت اور طبیعت میں خودپسند اور خودخواہ ہوا کرتے ہیں لہذا یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ خودپسند کو بطور کلی برا جانا جائے بلکہ یہ توضیح اور تشریح کا محتاج ہے_ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ انسان دو وجود اور دو خود اور دو میں رکھتا ہے ایک حیوانی وجود اور میں اور دوسرا انسانی وجود اور میں _ اس کا انسانی وجود اور میں اللہ تعالی کی ایک خاص عنایت ہے جو عالم ملکوت سے نازل ہوا ہے تا کہ وہ زمین میں اللہ کا خلیفہ ہو_ اس لحاظ سے وہ علم اور حیات قدرت اور رحمت احسان اور اچھائی اور کمال کے اظہار سے سنخیت رکھتا ہے اور انہیں کا چاہنے والا ہے لہذا اگر انسان اپنے آپ کو پہچانے اور اپنے وجود کی قیمت کو جانے اور اسے محترم رکھے تو وہ تمام خوبیوں اور کمالات کے سرچشمہ کے نزدیک ہو

۱۰۵

گا اور مکارم اخلاق اور فضائل اور اچھائیوں کواپنے آپ میں زندہ کرے گا لہذا اس طرح کی خودپسندی اور خودخواہی کو برا نہیں کہا جا سکتا بلکہ اس قسم کی خودپسندی اور خودخواہی قاتل مدح ہوا کرتی ہے کیونکہ در حقیقت یہ خودخواہی والی صفت نہیں ہے بلکہ در حقیقت یہ خدا خواہی اور خدا طلبی والی صفت ہے جیسے کہ پہلے بھی تجھے معلوم ہو چکا ہے اور آئندہ بھی تجھے زیادہ بحث کر کے بتلایا جائیگا_ انسان کا دوسرا وجود اور مرتبہ حیوانی ہے اس وجود کے لحاظ سے انسان ایک تھیک تھاک حیوان ہے اور تمام حیوانی خواہشات اور تمایلات اور غرائز رکھتا ہے اس واسطے کہ اس جہان میں زندہ رہے اور زندگی کرتے تو اسے حیوانی خواہشات کو ایک معقول حد تک پورا کرنا ہوگا_ اتنی حد تک ایسی خودخواہی اور خودپسندی بھی ممنوع اور قاتل مذمت نہیں ہے لیکن سب سے اہم اور سرنوشت ساز بات یہ ہے کہ جسم کی حکومت عقل اور ملکوتی روح کے اختیار میں رہے یا جسم نفس امارہ اور حیوانی میں کا تابع اور محکوم رہے_

اگر تو جسم پر عقل اور انسانی خود اور میں حاکم ہوئی تو وہ حیوانی خود اور خواہشات کو اعتدال میں رکھے گا اور تمام انسانی مکارم اور فضائل اور سیر و سلوک الی اللہ کو زندہ رکھے گا_ اس صورت میں انسانی خود جو اللہ تعالی کے وجود سے مربوط ہے اصالت پیدا کرلے گی اور اس کا ہدف اور غرض مکارم اخلاق اور فضائل اور قرب الہی اور تکامل کا زندہ اور باقی رکھنا ہوجائیگا اور حیوانی خواہشات کو پورا کرنا طفیلی اور ثانوی حیثیت بن جائیگا لہذا خود پسندی اور خودخواہی اور حب ذات کو محترم شمار کرنا قاتل مذہب نہیں رہے گا ہو گیا تو وہ عقل اور انسانی خود اور میں کو مغلوب کرکے _ اسے جدا کر دیگا اور سراسر جسم ہی منظور نظر ہوجائیگا اس صورت میں انسان آہستہ آہستہ خدا اور کمالات انسانی سے دور ہوتا جائیگا اور حیوانی تاریک وادی میں جاگرے گا اور اپنے انسانی خود اور میں کو فراموش کر بیٹھے گا اور حیوانیت کے وجود کو انسانی وجود کی جگہ قرار دے دیگا یہی وہ خودپسندی اور خودخواہی ہے جو اقابل مدمت ہے اور جو تمام برائیوں کی جڑ ہوتی ہے

۱۰۶

خود خواہ انسان صرف حیوانی خود کو چاہتا ہے اور بس _ اس کے تمام افعال اور حرکات کردار اور گفتار کا مرکز حیوانی خواہشات کا چاہنا اور حاصل کرنا ہوتا ہے_ مقام عمل میں وہ اپنے آپ کو حیوان سمجھتا ہے_ اور زندگی میں سوائے حیوانی خواہشات اور ہوس کے اور کسی ہدف اور غرض کو نہیں پہچانتا_ حیوانی پست خواہشات کے حاصل کرنے میں اپنے آپ کو آزاد جانتا ہے اور ہر کام کو جائز سمجھتا ہے اس کے نزدیک صرف ایک چیز مقدس اور اصلی ہے اور وہ ہے اس کا حیوانی نفس اور وجود_ تمام چیزوں کو یہاں تک کہ حق عدالت صرف اپنے لئے چاہتا ہے اور مخصوص قرار دیتا ہے اور بس _ وہ حق اور عدالت جو اسے فائدہ پہنچائے اور اس کی خواہشات کو پورا کرے اسے چاہتا ہے اور اگر عدالت اسے ضرر پہنچائے تو وہ ایسی عدالت کو نہیں چاہتا بلکہ وہ اپنے لئے صحیح سمجھتا ہے کہ اس کا مقابلہ کرے یہاں تک کہ قوانین اور احکام کی اپنی پسند کے مطابق تاویل کرتا ہے یعنی اس کے نزدیک اپنے افکار اور نظریات اصالت اور حقیقت رکھتے ہیں اور دین اور احکام اور قوانین کو ان پر منطبق کرتا ہے_

خودپسند اور خودخواہ انسان چونکہ فضائل اور کمالات اور اخلاق حقیقی سے محروم ہوتا ہے لہذا وہ اپنے آپ کو :جھوٹے کام اور مرہوم اور بے فائدہ اور شہوت طلبی مقام اور منصب حرص اور طمع تکبر اور حکومت کھانا پینا اور سنا اور لذات جنسی و غیرہ میں مشغول رکھتا ہے اور اسی میں خوشحال اور سرگرم رہتا ہے اور اللہ کی یاد اور اس کو کمالات تک پہنچانے کے لئے کوشش کرنے سے غافل رہتا ہے_

خودخواہ اور خودپسند انسان چونکہ نفس امارہ کا مطیع اور گروید ہوتاہ ے لہذا زندگی میں سوائے نفس کی خواہشات کی حاصل کرنے اور اسے جتنا ہو سکے خوش رکھنے کے علاوہ اس کی کوئی اور غرض نہیں ہوتی اور ان حیوانی خواہشات کے حاصل کرنے میں کسی بھی برے کام کے انجام دینے سے گریز نہیں کرتا اور ہر برے کام کی تاویل کرکے اسے جائز قرار دے دیتا ہے وہ صرف حیوانی خواہشات تک پہنچانا چاہتا ہے اور اس تک پہنچنے میں ظلم کرنے جھوٹ بولنے تہمت لگانے وعدہ خلافی کرنے دھوکا دینے خیانت

۱۰۷

کرنے اور اس طرح کے دوسرے گناہوں کے بجالانے کو جائز اور صحیح قرار دیتا ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر گناہ در حقیقت ایک قسم کی خودخواہ یا ور خودپسند ہے کہ جو اس طرح اس کے سامنے ظاہر ہوئی ہے مثال کے طور پر ظلم اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا خودخواہی اور خودپسندی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے_

اسی طرح جھوٹ غیبت بد زبانی عیب جوئی حسد انتقام لینا یہ سب پستیاں خود اور خودپسندی شمار ہوتی ہیں جو ان صورتوں میں نمایاں ہو کر سامنے اتی ہیں اسی لئے تمام برائیوں کی جڑ خودپسندی کو قرار دیا جاتا ہے_

خودخواہی اور خودپسندی کے کئی مراتب اور درجات ہیں کہ سب سے زیادہ مرتبہ خود پرستی اور اپنے آپ کی عبادت کرنا ہوجاتا ہے_ اگر اس بری صفت سے مقابلہ نہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ شدت پیدا کرلیتی ہے اور ایک ایسے درجہ تک پہنچ جاتی ہے کہ پھر اپنے نفس امارہ کو معبود اور واجب الاطاتمہ اور خدا قرا ردے دیتی ہے اور عبادت کرنے اور خواہشات کے بجالانے میں اطاعت گذار بنا دیتی ہے_ خداوند عالم ایسے افراد کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' وہ شخص کہ جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا قرار دے رکھا ہے اسے تو نے دیکھا ہے؟ _(۱۹۶)

کیا عبادت سوائے اس کے کوئی اور معنی رکھتی ہے کہ عبادت کرنے والا اپنے معبود کے سامنے تواضع اور فروتنی کرتا ہے اور بغیر چون و چرا کے اس کے احکام اور فرمایشات کو بجلاتا ہے؟ جو انسان خودپسند ار خود خواہ ہوتا ہے وہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے نفس کو واجب الاطائمہ قرار دیتا ہے اور اس کے سامنے تواضع اور فروتنی اور عبادت کرتا ہے بغیر چون و چرا کے اس کی فرمایشات کو بجالاتا ہے جو انسان خودخواہ اور خودپسند ہوتا ہے وہ کبھی موحد نہیں ہو سکتا_

تمام گناہوں کی جڑ دنیا طلبی ہے

آیات قرآنی اور روایات اہل بیت علیہم السلام میں دنیا کی بہت زیادہ مذمت وارد

۱۰۸

ہوئی ہے اور اسے لہو اور لعب یعنی کھیل اور کود غرور و تکبر کا سرمایہ قرار دیا گیا ہے کہ جس میں مشغول ہو جانا مومنین کی شان نہیں ہے اور اس سے بہت زیادہ پرہیز کیا جائے_ جیسے قرآن میں آیا ہے''تھوڑی دنیا بھی دھوکے دینے والے سرمایہ کے علاوہ کچھ نہیں_(۱۹۷)

نیز خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' دنیا سوائے کھیل اور ہوسرانی کے اور کچھ نہیں آخرت کا گھر نیکو کاروں کے لئے بہتر ہے کیا سوچ اور فکر نہیں رکھتے؟_(۱۹۸)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' جان لو کہ دنیا کی زندگی سوائے کھیل ہو سرانی زینت اور تفاخر اور اولاد کے زیا دہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس کی مثال اس بارش کی ہے جو وقت پر برسے اور سبزہ زمین سے نکلے کہ جو بڑوں کو تعجب میں ڈال دے اس کے بعد دیکھے گا کہ وہ زرد اور خشک اور خراب ہوجائے گی_ آخرت میں اس کے پیچھے سخت عذاب آ پہنچے گا_(۱۹۹)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ دنیا شیریں اور خوشمنا ہوا کرتی ہے شہوات اور ھوی اور ہوس سے مخلوط ہے وہ اپنے آپ کو دل پسند جلدی ختم ہو جانے والی چیزوں کے ذریعے محبوب بناتی ہے اور معمولی چیزوں سے تعجب میں ڈالتی ہے_ امیدوں اور دھوکے دہی سے زینت کرتی ہے اس کی خوشی کو دوام حاصل نہیں اور اس کی مصیبتوں اور گرفتاریوں سے امان نہیں ہوتی بہت فریب دینی والی اور نقصان وہ ہے متغیر اور زوال پذیر ہے فنا اور ہلاک ہوجانے والی ہے انسانوں کو کھا جانے اور ہلاکت کردینی والی ہوا کرتی ہے_(۲۰۰)

نیز آنحضرت نے فرمایا'' دنیا آرزو اور تمنا کا گھر ہے اور فنا ہوجائیگی اس کے رہنے والے وہاں سے چلے جائیں گے شیرین اور خوشمنا ظاہر ہوتی ہے بہت جلدی دنیا کے طلب کرنے والوں کے پاس جاتی ہے اور ان کے دلوں میں جو اس سے علاقمندی ظاہر کرتے ہیں گھر کر جاتی ہے_(۲۰۱)

اس طرح کی آیات اور روایات بہت زیادہ موجود ہیں جو دنیا کی مذمت بیان کرتی

۱۰۹

ہیں اور لوگوں کو اس سے ڈراتی ہیں بالخصوص نہج البلاغہ جیسے گران بہا کتاب میں دنیا اور اہل دنیا کی بہت زیادہ مذمت وارد ہوئی ہے_ حضرت علی علیہ السلام لوگوں سے چاہتے ہیں کہ دنیا کو ترک کریں اور آخرت کی فکر کریں آنحضرت لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک اہل دنیا اور دوسرا اہل آخرت اور ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک خاص پروگرام ہوا کرتا ہے_

قرآن میں آیا ہے کہ '' جو شخص دنیا مال و متاع کا خواہش مند ہو ہم اسے اس سے بہرہ مند کرتے ہیں اور جو آخرت کے ثواب کا طالب ہوگا ہم اسے وہ عنایت کرتے ہیں_(۲۰۲)

خدا فرماتا ہے کہ '' مال و متاع اور اولاد دنیا کی زینت ہیں لیکن نیک عمل باقی رہ جاتا اور وہی تیرے پروردگار کے نزدیک بہتر اور نیک آرزو اور تمنا ہے_(۲۰۳)

دنیا کیا ہے؟

بہر حال اسلام دنیا کو قاتل مذمت قرا ردیتا ہے اور اس سے زاہد رہنا طلب کرتا ہے لہذا ضروری ہے کہ واضح کریں کہ دنیا کیا ہے اور کس طرح اس سے پرہیز کیا جائے؟

کیا دنیا ہر وہ چیز جو اس جہان میں جیسے زمین سورج ستارے حیوانات ، نباتات، درخت، معاون اور انسان ہیں کا ناہم ہے؟ اس کے مقابلے میں آخرت یعنی ایک دوسرا جہان ہے؟ اگر دنیا سے یہ مراد ہو تو پھر دنیا کی زندگی کام کرنے خورد و نوش آرام اور حرکت و غیرہ جو دنیا کی زندگی سے مربوط ہیں کا نام ہوگا_ کیا اسلام میں کسب معاش اور کام کرنے اور روزی حاصل کرنے اور اولاد پیدا کرنے اور نسل کو بڑھانے کی مذمت کی گئی ہے؟ کیا زمین اور آسمان حیوانات اور نباتات بری چیزیں ہیں_ اور انسان کو ان سے پرہیز کرنا چاہئے؟ کیا اسلام کام اور کوشش کرنے روزی کو حاصل کرنے اور تولید نسل

۱۱۰

کی مذمت کرتا ہے؟ یہ تو قطعا ایسا نہیں ہے یہ تمام چیزوں اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ہیں اگر یہ چیزیں بری ہوتیں تو اللہ تعالی ا نہیں پیدا ہی نہ کرتا _ خداوند عالم ان تمام چیزوں کو اپنی بہت بڑی خوشمنا نعمتیں جو انسان کے مطیع قرار پائی ہیں جانتا ہے تا کہ انسان ان سے فائدے حاصل کرے_ تنہا مال اور دولت قابل مذمت نہیں ہے بلکہ اسے قرآن میں خیر اور اچھائی کے طور پر ظاہر کیا ہے_

قرآن میں آیا ہے _ ''ان ترک خیرا الوصیته للوالدین و الاقربین (۲۰۴) _ حلال روزی کمانے اور کام اور کوشش کی مذمت ہی نہیں کی گئی بلکہ بہت سی روایات میں اسے بہترین عبادت بھی شمار کیا گیا ہے جیسے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' عبادت کی سترجزو ہیں ان میں سب سے زیادہ افضل حلال روزی کا طلب کرنا ہے_(۲۰۵)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص دنیا میں اپنی روزی حاصل کرے تا کہ لوگوں سے بے پرواہ ہوجائے اور اپنے اہل و عیال کی روزی کو وسیع کرے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ احسان کرے وہ قیامت کے دن خدا سے ملاقات کرے گا جبکہ اس کی صورت چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہی ہوگی_(۲۰۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اپنے اہل و عیال کی روزی کی تلاش کرے وہ اس شخص کی طرح ہے جو خدا کے راستے سے جہاد کرتے ہیں_(۷ ۲۰)

روایات میں کام اور کوشش زراعت اور تجارت کرنے یہاں تک کہ نکاح کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور پیغمبر اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت بھی یوں ہی تھی کہ وہ کام کرتے تھے_ علی ابن ابیطالب جو تمام زاہدوں کے سردار ہیں کام کرتے تھے پس سوچنا چاہئے کہ جس دنیا کی مذمت کی گئی ہے وہ کونسی ہے؟ بعض علماء نے کہا کہ دنیا قاتل مذمت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ دل بستگی قابل مذمت ہے_ بعض آیات اور روایات میں دنیا سے وابستگی اور علاقمندی کی مذمت بھی وارد ہوئی ہے_

قرآن مجید میں آیا ہے ''خواہشات نفسانی سے وابستگی اور علاقمندی جیسے اولاد اور عورتیں زر و جواہر کی ہمیانوں اور اچھے گھوڑے چارپائوں اور زراعت نے لوگوں کے

۱۱۱

سامنے آرائشے اور خوشمنائی کر رکھی ہے یہ سب دنیا کا مال اور متاع ہے لیکن نیک کام خدا کے نزدیک موجود ہیں_(۲۰۸)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خبردار کہ دنیا کو دوست رکھو کیونکہ دنیا کی محبت ہر گناہ کر جڑ اور ہر مصیبت اور بلا کا سرچشمہ ہے_(۲۰۹)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا سے دلبستگی اور علاقمندی ہر خطاء اور گناہ کا سرہے یعنی سب کچھ ہے_(۲۱۰)

اس طرح کی آیات اور روایات سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے امور سے دلبستگی اور علاقمندی قابل مذمت ہے نہ یہ کہ خود دنیا قاتل مذمت ہے_ یہاں پر پھر سوال پیدا ہوگا کہ کیا دنیا سے بطور اطلاق محبت اور دلبستگی اور علاقمندی قابل مذمت ہے اورانسان کو اپنی بیوی اور اولاد مال اور دولت مکان اور متاع خورد اور خوراک سے بالکل دلبستگی اور علاقمندی نہیں کرنی چاہئے؟ آیا اس طرح کا مطلب کہا جا سکتا ہے؟ جب کہ ان امور سے محبت اور دلبستگی انسان کی فطری اور طبیعی چیز ہے خداوند عالم نے انسان کو اس فطرت پر خلق فرمایا ہے_ کیا انسان ایسا کر سکتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اولاد سے محبت نہ رکھے؟ کیا انسان خوراک پوشاک اور اس دنیا کی زیبائی سے محبت نہ رکھے ایسا کر سکتا ہے؟ اگر ان چیزوں سے محبت کرنا برا ہوتا تو خداوند عالم انسان کو اس طرح پیدا نہ کرتا_ انسان زندہ رہنے کے لئے ان چیزوں کا محتاج ہے اور اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ طبعا ان چیزوں کی طرف میلان رکھے_ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ لوگ دنیا کے فرزند ہیں اور کسی کو مال سے محبت رکھنے پر ملامت نہیں کی جاتی_(۲۱۱)

روایات میں اولاد اور عیال سے محبت کرنے کی سفارش کی گئی ہے_ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اپنے اہل و عیال اور اولاد سے محبت کا اظہار کیا کرتے تھے_ بعض خوراک کو پسند فرماتے تھے اور ان سے بھی علاقہ کا اظہار کیا کرتے تھے لہذا زمین، آسمان، نباتات، درخت، معاون حیوانات اور دوسری اللہ کی نعمتیں نہ قابل مذمت ہیں اور نہ بری اور نہ ہی اہل و اعیال اور اولاد اور مال و متاع برے ہیں اور نہ ہی ان سے

۱۱۲

محبت اور لگائو اور دنیاوی زندگی بری ہے بلکہ بعض روایات میں تو دنیا کی تعریف بھی کی گئی ہے_ امیرالمومنین علیہ السلام اس کی جواب میں جو دنیا کی مذمت کر رہا تھا فرمایا کہ دنیا سچائی اور صداقت کا گھر ہے اس کے لئے گھر ہے جو اس کی تصدیق کرے اور امن و امان اور عافیت کا اس کے لئے گھر ہے جو اس کی حقیقت کو پہچان لے اور اس کے لئے بے نیاز ہونے کا مکان ہے جو اس کے زادراہ حاصل کرے اور نصیحت لینے کا محل ہے اس کے لئے جو اس سے نصیحت حاصل کرے_ دنیا اللہ کے دوستوں کی مسجد اور اللہ کے فرشتوں کے لئے نماز کا مکان ہے_ دنیا اللہ تعالی کی وحی نازل ہونے کا مکان ہے اور خدا کے اولیاء کے لئے تجارت کی جگہ ہے انہوں نے دنیا میں اللہ کے فضل اور رحمت کو حاصل کیا ہے اور بہشت کو منفعت میں حاصل کیا ہیں_(۲۱۲)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا آخرت کے لئے بہت بہترین مددگار ہے_(۲۱۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص حلال مال کو حاصل کرنا پسند نہیں کرتا تا کہ وہ اس کے ذریعے اپنی آبرو اور عزت کی حفاظت کرے اور قرض اداد کرے اور صلہ رحم بجالائے تو اس میں کوئی اچھائی اور بھلائی موجود نہیں ہے_(۲۱۴)

لہذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کونسی دنیا قابل مذمت ہے اور دنیا سے محبت کرنے کو تمام گناہوں کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے وہ کونسی دنیا ہے؟

میں نے ان تمام آیات اور روایات سے یوں استفادہ کیا ہے کہ دنیا داری اور دنیا کا ہو جانا اور دل دنیا کو دے دینا قابل مذمت ہے نہ فقط دنیاوی امور سے لگائو اور دنیا کے موجودات اور اس دنیا میں زندگی کرنا قابل مذمت ہے_ اسلام لوگوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا کوویسے پہچانیں کے جیسے وہ ہے اور اتنی ہی مقدار اسے اہمیت دیں اور اس سے زیادہ اسے اہمیت نہ دیں_ جہاں کی خلقت کی غرض اور اپنی خلقت کی غرض کو پہچائیں اور صحیح راستے پر چلیں اگر انسان اس طرح ہوجائیں تو وہ اہل آخرت ہونگے اور اگر ان کی رفتار اور کردار اس غرض کے خلاف ہو تو پھر وہ اہل دنیا کہلائیں گے اور

۱۱۳

ہونگے_

دنیا کی حقیقت

اس مطلب کی وضاحت کے لئے پہلے دنیا کی اسلام کی رو سے حقیقت اور ماہیت کو بیان کرتے ہیں اس کے بعد جو اس سے نتیجہ ظاہر ہوگا اسے بیان کریں گے اسلام دو جہان کاعقیدہ رکھتا ہے ایک تو یہی مادی جہان کہ جس میں ہم زندگی کر رہے ہیں اور جسے دنیا کہا اور نام دیا جاتا ہے_ دوسرا اس کے بعد آنے والا جہان کہ جہاں مرنے کے بعد جائیں گے اسے آخرت اور عقبی کا جہان کہا اور نام دیا جاتا ہے_ اسلام عقیدہ رکھتا ہے کہ انسان کی زندگی اس جہان میں مرنے سے ختم نہیں ہوجاتی بلکہ مرنے کے بعد انسان آخرت کے جہاں کی طرف منتقل ہوجائیگا_ اسلام اس جہان کو گذر گاہ اور فانی مکان قرار دیتا ہے جو آخرت کے جہان جانے کے لئے ایک وقتی ٹھہرنے کی جگہ ہے_ اور آخرت کے جہان کو دائمی اور ابدی رہنے کی جگہ قرار دیتا ہے_ انسان اس دنیا میں اس طرح نہیں آیا کہ کئی دن زندگی کرے اور اس کے بعد مرجائے اور ختم اور نابود ہوجائے بلکہ انسان اس جہان میں اس لئے آیا ہے کہ یہاں علم او رعمل کے ذریعے اپنے نفس کی تربیت اور تکمیل کرے اور آخرت کے جہاں میں ہمیشہ کے لئے خوش اور آرام سے زندگی بسر کرے لہذا دنیا کا جہان آخرت کے جہاں کے لئے کھیتی اور تجارت کرنے اور زاد راہ کے حاصل کرنے کی جگہ ہے گرچہ انسان اس جہان میں زندہ رہنے اور زندگی کرنے کے لئے مجبور ہے کہ ان نعمتوں سے جون خدا نے اس جہان میں خلق کی ہیں استفادہ کرے لیکن ان نعمتوں سے فائدہ حاصل کرنا انسان کی زندگی کی غرض اور ہدف نہیں ہے بلکہ یہ مقدمہ اور تمہید ہے انسان اور اس جہاں کے خلق کرنے کی غرض اور ہدف یہ نہیں کہ انسان یہاں کی زندگی کو خوب مرتب اور مرفح الحال بنائے اور مختلف لذائز اور تحقیقات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرے بلکہ انسان کے خلق

۱۱۴

کرنے کی غرض ایک بہت بلند اور عالی تر غرض ہے یعنی انسان اپنے انسانی شریف جوہر کی یہاں پر پرورش اور تربیت کرے اور اس کی نگاہ اللہ تعالی کی طرف سیر و سلوک اور تقرب کو حاصل کرنا ہو_ جیسے امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا اس لئے خلق نہیں ہوئی کہ وہ تیرا ہمیشہ کے لئے گھر ہو بلکہ دنیا گذر نے کی جگہ ہے تا کہ نیک عمل کے ذریعے تو اپنی ہمیشہ رہنے والی جگہ کے لئے زاد راہ حاصل کرے لہذا تم دنیا سے چلے جانے کے لئے جلدی کرو اور یہاں سے جانے کے لئے اپنے لئے سواری کو آمادہ اور مہیا کرو_(۲۱۵)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اے دنیا کے لوگو دنیا گذر جانے کی جگہ ہے اور آخرت باقی رہنے کا محل ہے لہذا گزرنے والی جگہ سے ہمیشہ رہنے والے مکان کے لئے سامان اور زاد راہ حاصل کرو_ اور اپنے رازوں کے پردے کو اس کے سامنے جو تمہارے رازوں سے واقف ہے پارہ نہ کرو اپنے دلوں کو دنیا سے خالی کرو اس سے پہلے کہ تمہارے بدن اس دنیا سے خارج ہوجائیں_ تم اس دنیا میں امتحان میں واقع کئے جائو گے اور تم اس دنیا کے علاوہ کے لئے پیدا کئے گئے ہو جب انسان مرجاتا ہے لوگ کہتے ہیں کہ کیا چھوڑ کرگیا ہے اور فرشتوں کہتے ہیں کہ کیا لے کرایا ہے اور کیا اپنے لئے یہاں کے لئے بھیجا ہے؟ خدا تمہارے باپ پر رحمت نازل کرے کہ تم اپنے مال سے کچھ آئندہ کے لئے روانہ کرو تا کہ خدا کے نزدیک تمہارے لئے بطور قرض کے باقی ہو اور تمام مال دنیا میں چھوڑ کرنہ رو کہ اس مال کے حقوق تمہاری گردن پر باقی رہ جائیں_(۲۱۶)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خبردار رہو کہ یہ دنیا کہ جس کی تم امید رکھتے ہو اور اس سے محبت اور علاقہ مند ہو کبھی تمہیں غضب میں لاتی ہے اور کبھی تمہیں خوش کرتی ہے یہ نہ تمہارا گھر ہے اور نہ ہی تمہاری ٹھہرنے کی جگہ ہے کہ جس کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو اور نہ ہی یہ تمہارے لئے مکان ہے کہ جس کی طرف تم بلائے گئے ہو یہ جان لو کہ نہ ہی یہ دنیا تمہارے لئے ہمیشہ رہے گی اور نہ تم اس

۱۱۵

میں ہمیشہ کے لئے باقی رہو گے گرچہ دنیا تمہیں اپنی زینت اور خوبصورتی کی وجہ سے دھوکا دیتی ہے_ لیکن برائیوں اور شر کے ہونے سے بھی تمہیں ڈراتی ہے لہذا ان ڈرانے والی چیزوں کو جو یہ رکھتی ہے اس کے غرور اور دھوکے میں نہ آئو اور اس سے دست بردار ہوجائو اس کی ڈرائی جانے والی چیزوں کی وجہ سے اس کے طمع دلانے سے دست بردار ہو جائو اور اس گھر کی طرف جلدی کرو کہ جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے اور اپنے دلوں کو دنیا سے خالی اور منصرف کرو_(۲۱۷)

آپ نے دیکھ لیا کہ اس حدیث میں دنیا کی حقیقت کس طرح بتلائی گئی ہے کہ یہ فناء ہونے والی اور سفر کی جگہ ہے یہ گذرنے اور سفر کر جانے کے لئے ٹھہرنے کا ایک مقام ہے_ یہ دھوکے اور غرور اور چالبازی کا گھر ہے_ انسان اس کے لئے خلق نہیں ہوا بلکہ آخرت کے جہان کے لئے خلق کیا گیا ہے انسان اس جہاں میں آیا ہے تا کہ اپنے علم اور عمل اور انسانیت کی تربیت اور پرورش کرے اور آخرت کے جہان کے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل کرے_

اہل آخرت

اسلام لوگوں سے یہ چاہتا ہے کہ دنیا کو اس طرح پہچانیں کہ جیسے وہ ہے اور اپنے اعمال اور کردار کو اسی طرح بجالائیں جیسے کہ وہ دنیا ہے جن لوگوں نے دنیا کو جس طرح کہ وہ ہے پہچان لیا ہے تو پھر وہ اس دنیا کے عاشق اور دیوانے نہیں بنتے اور وہ زر و جواہر کے دھوکے میں نہیں آتے جب کہ وہ اسی دنیا میں زندگی کرتے ہیں اللہ تعالی کی شرعی لحاظ سے نعمتوں سے اور لذات سے استفادہ بھی کرتے ہیں_ لیکن وہ ان کے قیدی اور غلام نہیں بنتے وہ خدا اور آخرت کے جہان کو کبھی نہیں بھلاتے اور ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے نیک کاموں کے بجالانے سے آخرت کے جہان کے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل کریں_ اس جہان میں زندگی کرتے ہیں لیکن ان کے دل کی آنکھ برتر و بالا افق کو دیکھتی ہے_ ہر لمحہ اور ہر حالت اور ہر عمل میں خدا اور آخرت

۱۱۶

کے جہان پر نظر رکھتے ہیں اور آخرت کے جہان کے لئے اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں_ دنیا کو آخرت کی کھیتی اور تجارت کا محل جانتے ہیں_ کوشش کرتے ہیں کہ آخرت کے جہان کے لئے زاد راہ حاصل کریں _ دنیا کی تمام چیزوں سے آخرت کے جہان کے لئے فائدہ حاصل کرتے ہیں یہاں تک کہ کام اور کالج اور کھانے پینے ازدواج اور دوسرے دنیاوی کاموں سے بھی آخرت کے جہان کے لئے استفادہ حاصل کرتے ہیں اس طرح کے لوگ دنیا دار نہیں ہوتے بلکہ یہ اہل آخرت ہیں_ ابن ابی یعفور کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت عرض کیا کہ ہم دنیا کو دوست رکھتے ہیں_ آپ نے فرمایا ہے کہ '' دنیا کے مال سے کیا کرتے ہو؟ میں نے عرض کی اس کے ذریعے سے ازدواج کرتا ہوں اور اللہ کے راستے میں صدقہ دیتا ہوں_ آپ نے فرمایا کہ یہ تو دنیا نہیں ہے؟ بلکہ یہ تو آخرت ہے_(۲۱۸)

حضرت علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اے خدا کے بندو متوجہ رہو کہ پرہیزگار دنیا میں بھی فائدہ حاصل کرتے ہیں اور آخرت میں بھی فائدہ حاصل کرتے ہیں _ وہ دنیا داروں کے ساتھ دنیا سے فائدہ حاصل کرنے میں شریک ہیں لیکن دنیا دار ان کے ساتھ آخرت میں شریک نہیں ہیں_ انہوں نے دنیا میں عمدہ طریقے سے زندگی بسر کی ہے اور کھانے والی چیزوں سے عمدہ طریقے سے استفادہ کیا ہے انہوں نے دنیا سے وہی استفادہ کیا ہے جو عیاش لوگ اس سے استفادہ کیا کرتے تھے اور وہی استفادہ کیا ہے جو ظالم اور متکبر لوگ کیا کرتے تھے اس کے باوجود یہ لوگ آخرت کا زاد راہ اوردنیا کے تجارت کے محل سے پوری طرح کما کر آخرت کی طرف منتقل ہوگئے ہیں_ دنیا سے زہد کی لذت کو بھی حاصل کیا ہے اور انہیں یقین تھا کہ آخرت میں اللہ تعالی کے جوار رحمت میں اس طرح زندگی کریں گے کہ ان کی کوئی بھی خواہش رد نہیں کی جائیگی اور لذت اور خوشی سے انکا حصہ کم اور ناقص نہیں ہوگا_(۲۱۹)

لہذا کام اور کام میں مشغول ہونا اور صنعت اور تجارت اور زراعت اور اسی

۱۱۷

طرح مقام اور منصب اور اجتماعی ذمہ داری کا قبول کرنا زہد اور اہل آخرت ہونے کے منافی اور ناساز نہیں ہوا کرتا یہ تمام امور اللہ کی رضایت حاصل کرنے اور آخرت کے راستے میں گامزن ہونے میں سموئے جا سکتے ہیں_ امرالمومنین جو اپنی تمام کوشش کام اور کاج میں استعمال کرتے تھے رات کو محراب عبادت میں گریہ و زاری کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے'' اے دنیا_ اے دنیا مجھ سے دور ہٹ جا_ کیا مجھے دھوکہ دینے کے لئے میر ے سامنے آئی ہے اور مجھ سے محبت کا اظہار کرتی ہے؟ یہ تیرا وقت نہیں ہے جا کسی دوسرے کو دھوکہ دے مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں ہے_ میں نے تجھے تین طلاقیں دے دی ہیں کہ جن میں رجوع بھی نہیں کیا جا سکتا_ تیری زندگی کوتاہ سے اور تیری قیمت معمولی ہے_ اہ زاد راہ تھوڑا ہے اور راستہ اور سفر طویل ہے اور آگے کی منازل عظیم ہیں_(۲۲۰)

آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ''اے دنیا مجھ سے دور ہوجا کہ میں نے تیری مہار تیری گرد پر ڈال دی ہے اور تجھے آزاد کردیا ہے_ میں تیرے چنگل سے نکل چکا ہوں اور تیرے جال سے بھاگ گیا ہوں اور تیری لغزش گاہ سے دور ہو چکا ہوں_(۲۲۱)

حضرت علی علیہ السلام نے اس حالت میں جب کہ ایک لشکر جرار کے ساتھ جنگ کرنے جا رہے تھے اپنی پھٹی پرانی جوتی ابن عباس کو دکھلائی اور فرمایا کہ '' خدا کی قسم یہ پھٹی پرانی جوتی میرے نزدیک حکومت اور امیر ہونے سے زیادہ محبوب ہے مگر یہ کہ میں حق کو برقرار کروں اور باطل کو رد کروں_(۲۲۲)

اللہ تعالی کے خاص بندے ایسے ہی تھے اور ہیں_ اس دنیا میں زندگی کرتے ہیں لیکن وہ عالم بالا کو دیکھتے ہیں اور اہل آخرت ہیں_ عام لوگوں کی طرح کام اور کاج کرتے ہیں_ بلکہ حکومت اور فرماندھی اور زمام داری اور زندگی کے امور کو بھی چلاتے ہیں_ اور ان تمام کاموں کو اللہ تعالی کی رضا اور اپنا عملی وظیفہ قرار دیتے ہیں اور شرعی حدود میں رہ کر اللہ تعالی کی نعمتوں سے بھی استفادہ کرتے ہیں اس کے باوجود دنیا کو تین طلاقیں دے رکھی ہیں اور اس کی محبت کو دل سے نکالا ہوا ہے_ حکومت لینے کے لئے

۱۱۸

جنگ کرتے ہیں لیکن صرف حق کے دفاع اور عدالت کو برپا کرنے کے لئے نہ یہ کہ حکومت اور ریاست کریں_

اہل دنیا

اگر کسی انسان نے دنیا کو جیسے ہے اس طرح نہ پہچانا ہو دنیا میں ایسے زندگی کرنے میں مشغول ہوگیا ہو کہ گویا اس کے خلق ہونے کی غرض اور غایت یہی دنیا تھی اور آخرت میں کوئی حساب اور کتاب نہیں اور نہ ہی اس دنیا کے علاوہ کوئی اور دنیا ہے کہ جس کی طرف اس نے جانا ہے اور وہ مال اور دولت زن اور فرزند جاہ و جلال اور مقام و منصب کا قیدی اور فریفتہ ہوچکا ہو اور اسی دنیا کی زندگی کو خوب مضبوط پکڑ رکھا ہو اور اسی کے ساتھ ولی لگائو رکھا ہو اور آخرت کی زندگی اور خدا کو فراموش کردیا ہو اور معنوی بلندیوں سے چشم پوشی کر لی ہو اور صرف حیوانی خواہشات کے پورے کرنے اور لذائز دنیوی سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے میں کمر ہمت باندھ رکھی ہو_ اس طرح کا انسان اور افراد دنیا اور اہل دنیا شمار قسم ہوتے ہیں گرچہ وہ فقیر اور نادار اور گوشہ نشین ہی کیوں نہ ہوں اور ہر قسم کی اجتماعی زمہ داری کے قبول کرنے سے پرہیز ہی کیوں نہ کرتے ہوں_

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے '' وہ صرف دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں لیکن آخرت سے غافل ہیں_(۲۲۳)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے'' دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی کے مقابلے میں خریداہے_(۲۲۴)

نیز ارشاد ہوا ہے کہ ''کیا تم نے دنیا کی زندگی پر رضایت دے دی ہے؟ جب کہ یہ معمولی ثروت سے زیادہ نہیں ہے_(۲۲۵)

اللہ تعالی فرماتا ہے''جو لوگ ہماری ملاقات اور بقا کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی سے دل لگا رکھا ہے اور خوش ہیں اور وہ جو ہماری آیات سے غافل ہیں یہی وہ

۱۱۹

لوگ ہیں کہ جن کا ٹھکانہ جہنم کی اگ میں ہے یہ اس وجہ سے ہوگا کہ جو کچھ انہوں نے دنیا میں کسب کیا ہے_(۲۲۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان کی خدا سے دور ترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سوائے شکم پری اور عورت کے اور کسی چیز کو ہدف اور غرض قرار نہیں دیتا_(۲۲۷)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو دل دنیا کا فریفتہ اور عاشق ہوگا اس میں تقوی اور پرہیزگاری کا داخل ہونا حرام ہوا کرتا ہے_(۲۲۸)

نیز آنحضرت(ص) نے فرمایا ہے کہ '' وہ بہت ہی برا معاملہ اور تجارت ہے کہ جس کی قیمت اور عوض اپنے نفس کو قرار دے دیا جائے اور دنیا کو اس کے عوض جو خدا کے نزدیک ہے عوض بنا لیا جائے_(۲۲۹)

اگر دنیا کی مذمت کی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا غرور اور دھوکا دینے والی اور مشغول رکھ دینے کا مال اور متاع ہے_ دنیا اپنے آپ کو خوبصورت اور شیرین ظاہر کرتی ہے اور انسان کو اسی میں لگائے رکھتی ہے اور انسان کو خدا کی یاد آور آخرت کے لئے زاد راہ حاصل کرنے سے روکتی ہے_

اسی لئے دنیا کی مذمت وارد ہوئی ہے اور اسے بیان کیا گیا ہے تا کہ انسان ہوشیار رہیں اور اس کی چالوں کا دھوکانہ کھائیں اور اپنے آپ کو دنیا کے قیدی اور غلام نہ بنائیں اور اس پر فریفتہ نہ ہوجائیں_

قابل مذمت دنیا سے لگائو اور عشق ہے اور اپنے خلق ہونے کی غرض کو بھول جانا ہے اور آخرت کی ہمیشگی زندگی اور اللہ کی نعمتوں سے غافل ہو جانا ہے_

اہل دنیا اور اہل آخرت

جو دنیا میں رہ کر آخرت کے لئے کام کرے وہ اہل آخرت ہے اور جو صرف دنیا میں رہ کر دینا کے لئے کام کرے وہ اہل دنیا اور دنیا دار ہے_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346