خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس0%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات:

صفحے: 346
مشاہدے: 100603
ڈاؤنلوڈ: 3516

تبصرے:

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 100603 / ڈاؤنلوڈ: 3516
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہ اپنے نفس کو فضائل اور اچھے کام بجا لانے پر مجبور کر کیونکہ بری صفات تیرے اندر رکھ دی گئی ہیں_(۱۸۵)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ'' اپنے نفس کو اچھے کام انجام دیے اور سختی کا بوجھ اٹھانے کی عادت ڈال تا کہ تیرا نفس شریف ہو جائے اور تیری آخرت آباد ہو جائے اور تیری تعریف کرنے والے زیادہ ہوجائیں_(۱۸۶)

نیز آن حضرت(ع) نے فرمایا ہے کہ '' نفسانی خواہشات قتل کردینے والی بیماریاں ہیں ان کا بہترین علاج اور دواء صبر اور خودداری ہے_(۱۸۷)

برے دستوں سے قطع تعلق_

انسان ایک موجود ہے جو دوسروں سے اثر قبول کرتا ہے اور دوسروں کی تقلید اور پیروی کرتا ہے_ بہت سی صفات اور اداب اور کردار اور رفتار کو دوسرے ان انسانوں سے لیتا ہے کہ جن کے ساتھ بود و باش اور ارتباط رکھتا ہے_ در حقیقت ان کے رنگ میں رنگا جاتا ہے بالخصوص دوستوں اور میل جول رکھنے والوں سے زیادہ اثر لیتا ہے جو اس کے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں_ بداخلاق اور فاسد لوگوں کے ساتھ دوستی انسان کو فساد اور بداخلاقی کی طرف لے جاتی ہے _ انسان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کی طرح بناتا ہے اگر کسی کے ہم نشین بداخلاق اور گناہگاروں تو وہ ان کے برے اخلاق اور گناہ سے انس پیدا کر لیتا ہے اور صرف ان کی برائی کو برائی نہیں سمجھتا بلکہ وہ اس کی نگاہ میں اچھائی بھی معلوم ہونے لگتی ہے اس کے برعکس اگر ہم نشین خوش اخلاق اور نیک ہوں تو انسان ان کے اچھے اخلاق اور کردار سے مانوس ہوجاتا ہے اور اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو انہیں کی طرح بنائے لہذا اچھا دوست اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور انسان کی ترقی اور کمال تک پہنچنے کا بہت اچھا کارآمد اور سعادت آور شمار ہوتا ہے_ اس کے برعکس برا دوست انسان کی بدبختی اور راستے سے ہٹنے اور مصائب کا موجب ہوتا ہے لہذا دوست کے

۱۰۱

انتخاب اور اختیار کرنے کو ایک معمولی کام اور بے اہمیت شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسے ایک اہم اور عاقبت ساز کام شمار کرنا چاہئے کیونکہ برا گناہگار دوست برے کاموں کو بھی اچھا بتلایا ہے اورچاہتا ہے کہ اس کے دوست بھی اسی کی طرح ہوجائیں برا دوست نہ دنیا میں کسی کی مدد کرتا ہے اور نہ آخرت کے امور میں مدد کرتا ہے اس کے پاس آنا جانا بے عزتی اور رسوائی کا موجب ہوتا ہے_(۱۸۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کسی مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ فاسق احمق دروغ گو سے دوستی کرے_(۱۸۹)

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان اپنے دوست اور ہم نشین کے دین پر ہوتا ہے_(۱۹۰)

حضرت علیہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' فاسق انسان سے دوستی کرنے میں حتمی طور سے اجتناب کرو اس واسطے کہ شر شر سے جا ملتا ہے_(۱۹۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' برے اور شریر لوگوں سے میل جول رکھنے سے حتمی طور سے پرہیز کر کیونکہ برا دوست آگ کی طرح ہوتاہے کہ جو بھی اس کی نزدیک جائیگا جل جائیگا_(۱۹۲)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' برے دوست کے ساتھ میل جول سے حتما پرہیز کر کیونکہ وہ اپنے ہم نشین کو ہلاک کردیتا اور اس کی آبرو کو ضرر پہنچاتا ہے_(۱۹۳)

لہذا جو انسان اپنے نفس کو پاک کرنا چاہتا ہے اگر اس کے برے دوست ہیں تو ان سے میل جول فورا ترک کردے کیونکہ برے دوست رکھتے ہوئے گناہوں کا چھوڑنا بہت مشکل ہے برے دوست انسان کے اپنے نفس کو پاک کرنے کے ارادے کو سست کردیتے ہیں اور اسے گناہ اور فساد کی طرف راغب کرتے ہیں گناہ کرنا بھی ایک عادت ہے اور یہ اس صورت میں چھوڑی جا سکتی ہے جب دوسرے عادت رکھنے والوں سے میل جول ترک کردے_

۱۰۲

۵_ لغزش کے مقامات سے دور رہنا_

نفس کو پاک کرنا اور گناہ کا چھوڑ دینا اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ بہت مشکل کام ہے_ انسان ہر وقت لغزش اور گناہ کے میدان میں رہتا ہے_ نفس امارہ برائیوں کی دعوت دیتا رہتا ہے اور نفس جو جسم کے حکم ماننے کا مرکز ہے وہ ہمیشہ بدلتا اور دگرگون ہوتا رہتا ہے_ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے متاثر ہوتا ہے اور اسی کے مطابق فرمان جاری کرتا اور پھر وہ اسے کیسے سنتا اور دیکھتا اور کن شرائط میں قرار پاتا ہے_ انسان مجالس اور محافل معنوی اور عبادات اور احسان نیک کاموں کے ماحول میں جانے سے اچھے کاموں کے بجالانے کی طرف مائل ہوتا ہے برعکس فسق و فجور اور گناہ کے مراکز اور محافل میں جانے سے انسان گناہ کی طرف لے جایا جاتا ہے_

معنوی ماحول دیکھنے سے انسان معنویات کی طرف رغبت کرتا ہے اور شہوت انگیزی ماحول دیکھنے سے انسان شہوت رانی کے لئے حاضر ہوجاتا ہے اگر کسی عیش و نوش کی مجلس میں جائے تو عیاشی کی طرف مائل ہوتا ہے اور اگر کسی دعا و نیائشے کی مجلس میں حاضر ہو تو خدا کی طرف توجہ پیدا کرتا ہے_ اگر دنیا داروں اورمتاع کے عاشقوں کے ساتھ بیٹھے تو حیوانی لذت کی طرف جایا جاتا ہے اور اگر خدا کے نیک اور صالح بندوں کے پاس بیٹھے نیکی اور خوبی کی طرف رغبت کرتا ہے_ لہذا جو لوگ اپنے نفس کو پاک کرنے اور گناہوں کے ترک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کانوں کوشہوت انگیز اور خرابی و فساد اور گناہوں کے محافل اور مراکز سے دور رکھیں اور اس طرح کی محافل اور اجتماع میں شریک نہ ہوں اور اس طرح کے لوگوں کے ساتھ میل جول اور دوستی نہ رکھیں اگر انسان نہیں کریں گے تو پھر ہمیشہ کے لئے گناہ اور خطا اور لغزش کے میدان میں واقع ہوتے رہیں گے اس لئے تو اسلام نے حرام کے اجتماع اور محافل جیسے جوئے بازی شراب و غیرہ میں شریک ہونے

۱۰۳

سے روکا ہے_ نامحرم کو دیکھنا اور غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا اور اس سے مصافحہ کرنا اور اس سے ہنسی اور مزاح کرنے سے منع کیا ہے_ اسلام میں پردے کے لئے سب بڑی حکمت اور مصلحت یہی چیز ہے_ اسلام چاہتا ہے کہ ماحول گناہوں کے ترک کردینے اور نفس کو پاک کرنے کے لئے سازگار ہو اس کے علاوہ کسی اور صورت میں نفس امارہ پر کنٹرول کرنا غیر ممکن ہے کیونکہ فاسد ماحول انسان کو فساد کی طرف لے جاتا ہے یہاں تک کہ صرف گناہ کی فکر اور سوچ بھی انسان کو گناہ کی طرف بلاتی ہے لہذا اسلام ہمیں کہتا ہے کہ گناہ کی فکر اور سوچ کو بھی اپنے دماغ میں راستہ نہ دو_

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب آنکھ کسی شہوت کو دیکھ لے تو پھر اس کی روح اس کے انجام کے سوچنے سے اندھی ہوجاتی _(۱۹۴) حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' گناہ کا سوچنا اور فکر کرنا تجھے گناہ کرنے کا شوق دلائے گا_(۱۹۵)

۱۰۴

خودپسندی اور خودخواہی تمام مفساد کی جڑ ہے

علماء اخلاق نے خودپسندی اور خودخواہی کی صفت کو ام الفساد یعنی فساد کی جڑی قرار دیا ہے اور تمام گناہوں اور تمام بری صفات کا سبب خودپسندی بتلایا ہے_ لہذا نفس کو اس سے پاک کرنے میں بہت ہی زیادہ کوشش کرنی چاہئے_ ہم کو پہلے خودپسندی اور خودخواہی کے معنی بیان کرنے چاہئیں اس کے بعد اس بری صفات کے برے اثرات اور اس سے مقابلہ کرنے کی تشریح کرنی چاہئے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ہر زندہ شے کو اپنی ذات اور صفات کمالات اور افعال اور آثار سے محبت اور علاقمندی ہوا کرتی ہے یعنی فطرت اور طبیعت میں خودپسند اور خودخواہ ہوا کرتے ہیں لہذا یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ خودپسند کو بطور کلی برا جانا جائے بلکہ یہ توضیح اور تشریح کا محتاج ہے_ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ انسان دو وجود اور دو خود اور دو میں رکھتا ہے ایک حیوانی وجود اور میں اور دوسرا انسانی وجود اور میں _ اس کا انسانی وجود اور میں اللہ تعالی کی ایک خاص عنایت ہے جو عالم ملکوت سے نازل ہوا ہے تا کہ وہ زمین میں اللہ کا خلیفہ ہو_ اس لحاظ سے وہ علم اور حیات قدرت اور رحمت احسان اور اچھائی اور کمال کے اظہار سے سنخیت رکھتا ہے اور انہیں کا چاہنے والا ہے لہذا اگر انسان اپنے آپ کو پہچانے اور اپنے وجود کی قیمت کو جانے اور اسے محترم رکھے تو وہ تمام خوبیوں اور کمالات کے سرچشمہ کے نزدیک ہو

۱۰۵

گا اور مکارم اخلاق اور فضائل اور اچھائیوں کواپنے آپ میں زندہ کرے گا لہذا اس طرح کی خودپسندی اور خودخواہی کو برا نہیں کہا جا سکتا بلکہ اس قسم کی خودپسندی اور خودخواہی قاتل مدح ہوا کرتی ہے کیونکہ در حقیقت یہ خودخواہی والی صفت نہیں ہے بلکہ در حقیقت یہ خدا خواہی اور خدا طلبی والی صفت ہے جیسے کہ پہلے بھی تجھے معلوم ہو چکا ہے اور آئندہ بھی تجھے زیادہ بحث کر کے بتلایا جائیگا_ انسان کا دوسرا وجود اور مرتبہ حیوانی ہے اس وجود کے لحاظ سے انسان ایک تھیک تھاک حیوان ہے اور تمام حیوانی خواہشات اور تمایلات اور غرائز رکھتا ہے اس واسطے کہ اس جہان میں زندہ رہے اور زندگی کرتے تو اسے حیوانی خواہشات کو ایک معقول حد تک پورا کرنا ہوگا_ اتنی حد تک ایسی خودخواہی اور خودپسندی بھی ممنوع اور قاتل مذمت نہیں ہے لیکن سب سے اہم اور سرنوشت ساز بات یہ ہے کہ جسم کی حکومت عقل اور ملکوتی روح کے اختیار میں رہے یا جسم نفس امارہ اور حیوانی میں کا تابع اور محکوم رہے_

اگر تو جسم پر عقل اور انسانی خود اور میں حاکم ہوئی تو وہ حیوانی خود اور خواہشات کو اعتدال میں رکھے گا اور تمام انسانی مکارم اور فضائل اور سیر و سلوک الی اللہ کو زندہ رکھے گا_ اس صورت میں انسانی خود جو اللہ تعالی کے وجود سے مربوط ہے اصالت پیدا کرلے گی اور اس کا ہدف اور غرض مکارم اخلاق اور فضائل اور قرب الہی اور تکامل کا زندہ اور باقی رکھنا ہوجائیگا اور حیوانی خواہشات کو پورا کرنا طفیلی اور ثانوی حیثیت بن جائیگا لہذا خود پسندی اور خودخواہی اور حب ذات کو محترم شمار کرنا قاتل مذہب نہیں رہے گا ہو گیا تو وہ عقل اور انسانی خود اور میں کو مغلوب کرکے _ اسے جدا کر دیگا اور سراسر جسم ہی منظور نظر ہوجائیگا اس صورت میں انسان آہستہ آہستہ خدا اور کمالات انسانی سے دور ہوتا جائیگا اور حیوانی تاریک وادی میں جاگرے گا اور اپنے انسانی خود اور میں کو فراموش کر بیٹھے گا اور حیوانیت کے وجود کو انسانی وجود کی جگہ قرار دے دیگا یہی وہ خودپسندی اور خودخواہی ہے جو اقابل مدمت ہے اور جو تمام برائیوں کی جڑ ہوتی ہے

۱۰۶

خود خواہ انسان صرف حیوانی خود کو چاہتا ہے اور بس _ اس کے تمام افعال اور حرکات کردار اور گفتار کا مرکز حیوانی خواہشات کا چاہنا اور حاصل کرنا ہوتا ہے_ مقام عمل میں وہ اپنے آپ کو حیوان سمجھتا ہے_ اور زندگی میں سوائے حیوانی خواہشات اور ہوس کے اور کسی ہدف اور غرض کو نہیں پہچانتا_ حیوانی پست خواہشات کے حاصل کرنے میں اپنے آپ کو آزاد جانتا ہے اور ہر کام کو جائز سمجھتا ہے اس کے نزدیک صرف ایک چیز مقدس اور اصلی ہے اور وہ ہے اس کا حیوانی نفس اور وجود_ تمام چیزوں کو یہاں تک کہ حق عدالت صرف اپنے لئے چاہتا ہے اور مخصوص قرار دیتا ہے اور بس _ وہ حق اور عدالت جو اسے فائدہ پہنچائے اور اس کی خواہشات کو پورا کرے اسے چاہتا ہے اور اگر عدالت اسے ضرر پہنچائے تو وہ ایسی عدالت کو نہیں چاہتا بلکہ وہ اپنے لئے صحیح سمجھتا ہے کہ اس کا مقابلہ کرے یہاں تک کہ قوانین اور احکام کی اپنی پسند کے مطابق تاویل کرتا ہے یعنی اس کے نزدیک اپنے افکار اور نظریات اصالت اور حقیقت رکھتے ہیں اور دین اور احکام اور قوانین کو ان پر منطبق کرتا ہے_

خودپسند اور خودخواہ انسان چونکہ فضائل اور کمالات اور اخلاق حقیقی سے محروم ہوتا ہے لہذا وہ اپنے آپ کو :جھوٹے کام اور مرہوم اور بے فائدہ اور شہوت طلبی مقام اور منصب حرص اور طمع تکبر اور حکومت کھانا پینا اور سنا اور لذات جنسی و غیرہ میں مشغول رکھتا ہے اور اسی میں خوشحال اور سرگرم رہتا ہے اور اللہ کی یاد اور اس کو کمالات تک پہنچانے کے لئے کوشش کرنے سے غافل رہتا ہے_

خودخواہ اور خودپسند انسان چونکہ نفس امارہ کا مطیع اور گروید ہوتاہ ے لہذا زندگی میں سوائے نفس کی خواہشات کی حاصل کرنے اور اسے جتنا ہو سکے خوش رکھنے کے علاوہ اس کی کوئی اور غرض نہیں ہوتی اور ان حیوانی خواہشات کے حاصل کرنے میں کسی بھی برے کام کے انجام دینے سے گریز نہیں کرتا اور ہر برے کام کی تاویل کرکے اسے جائز قرار دے دیتا ہے وہ صرف حیوانی خواہشات تک پہنچانا چاہتا ہے اور اس تک پہنچنے میں ظلم کرنے جھوٹ بولنے تہمت لگانے وعدہ خلافی کرنے دھوکا دینے خیانت

۱۰۷

کرنے اور اس طرح کے دوسرے گناہوں کے بجالانے کو جائز اور صحیح قرار دیتا ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر گناہ در حقیقت ایک قسم کی خودخواہ یا ور خودپسند ہے کہ جو اس طرح اس کے سامنے ظاہر ہوئی ہے مثال کے طور پر ظلم اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا خودخواہی اور خودپسندی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے_

اسی طرح جھوٹ غیبت بد زبانی عیب جوئی حسد انتقام لینا یہ سب پستیاں خود اور خودپسندی شمار ہوتی ہیں جو ان صورتوں میں نمایاں ہو کر سامنے اتی ہیں اسی لئے تمام برائیوں کی جڑ خودپسندی کو قرار دیا جاتا ہے_

خودخواہی اور خودپسندی کے کئی مراتب اور درجات ہیں کہ سب سے زیادہ مرتبہ خود پرستی اور اپنے آپ کی عبادت کرنا ہوجاتا ہے_ اگر اس بری صفت سے مقابلہ نہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ شدت پیدا کرلیتی ہے اور ایک ایسے درجہ تک پہنچ جاتی ہے کہ پھر اپنے نفس امارہ کو معبود اور واجب الاطاتمہ اور خدا قرا ردے دیتی ہے اور عبادت کرنے اور خواہشات کے بجالانے میں اطاعت گذار بنا دیتی ہے_ خداوند عالم ایسے افراد کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' وہ شخص کہ جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا قرار دے رکھا ہے اسے تو نے دیکھا ہے؟ _(۱۹۶)

کیا عبادت سوائے اس کے کوئی اور معنی رکھتی ہے کہ عبادت کرنے والا اپنے معبود کے سامنے تواضع اور فروتنی کرتا ہے اور بغیر چون و چرا کے اس کے احکام اور فرمایشات کو بجلاتا ہے؟ جو انسان خودپسند ار خود خواہ ہوتا ہے وہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے نفس کو واجب الاطائمہ قرار دیتا ہے اور اس کے سامنے تواضع اور فروتنی اور عبادت کرتا ہے بغیر چون و چرا کے اس کی فرمایشات کو بجالاتا ہے جو انسان خودخواہ اور خودپسند ہوتا ہے وہ کبھی موحد نہیں ہو سکتا_

تمام گناہوں کی جڑ دنیا طلبی ہے

آیات قرآنی اور روایات اہل بیت علیہم السلام میں دنیا کی بہت زیادہ مذمت وارد

۱۰۸

ہوئی ہے اور اسے لہو اور لعب یعنی کھیل اور کود غرور و تکبر کا سرمایہ قرار دیا گیا ہے کہ جس میں مشغول ہو جانا مومنین کی شان نہیں ہے اور اس سے بہت زیادہ پرہیز کیا جائے_ جیسے قرآن میں آیا ہے''تھوڑی دنیا بھی دھوکے دینے والے سرمایہ کے علاوہ کچھ نہیں_(۱۹۷)

نیز خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' دنیا سوائے کھیل اور ہوسرانی کے اور کچھ نہیں آخرت کا گھر نیکو کاروں کے لئے بہتر ہے کیا سوچ اور فکر نہیں رکھتے؟_(۱۹۸)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' جان لو کہ دنیا کی زندگی سوائے کھیل ہو سرانی زینت اور تفاخر اور اولاد کے زیا دہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس کی مثال اس بارش کی ہے جو وقت پر برسے اور سبزہ زمین سے نکلے کہ جو بڑوں کو تعجب میں ڈال دے اس کے بعد دیکھے گا کہ وہ زرد اور خشک اور خراب ہوجائے گی_ آخرت میں اس کے پیچھے سخت عذاب آ پہنچے گا_(۱۹۹)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ دنیا شیریں اور خوشمنا ہوا کرتی ہے شہوات اور ھوی اور ہوس سے مخلوط ہے وہ اپنے آپ کو دل پسند جلدی ختم ہو جانے والی چیزوں کے ذریعے محبوب بناتی ہے اور معمولی چیزوں سے تعجب میں ڈالتی ہے_ امیدوں اور دھوکے دہی سے زینت کرتی ہے اس کی خوشی کو دوام حاصل نہیں اور اس کی مصیبتوں اور گرفتاریوں سے امان نہیں ہوتی بہت فریب دینی والی اور نقصان وہ ہے متغیر اور زوال پذیر ہے فنا اور ہلاک ہوجانے والی ہے انسانوں کو کھا جانے اور ہلاکت کردینی والی ہوا کرتی ہے_(۲۰۰)

نیز آنحضرت نے فرمایا'' دنیا آرزو اور تمنا کا گھر ہے اور فنا ہوجائیگی اس کے رہنے والے وہاں سے چلے جائیں گے شیرین اور خوشمنا ظاہر ہوتی ہے بہت جلدی دنیا کے طلب کرنے والوں کے پاس جاتی ہے اور ان کے دلوں میں جو اس سے علاقمندی ظاہر کرتے ہیں گھر کر جاتی ہے_(۲۰۱)

اس طرح کی آیات اور روایات بہت زیادہ موجود ہیں جو دنیا کی مذمت بیان کرتی

۱۰۹

ہیں اور لوگوں کو اس سے ڈراتی ہیں بالخصوص نہج البلاغہ جیسے گران بہا کتاب میں دنیا اور اہل دنیا کی بہت زیادہ مذمت وارد ہوئی ہے_ حضرت علی علیہ السلام لوگوں سے چاہتے ہیں کہ دنیا کو ترک کریں اور آخرت کی فکر کریں آنحضرت لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک اہل دنیا اور دوسرا اہل آخرت اور ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک خاص پروگرام ہوا کرتا ہے_

قرآن میں آیا ہے کہ '' جو شخص دنیا مال و متاع کا خواہش مند ہو ہم اسے اس سے بہرہ مند کرتے ہیں اور جو آخرت کے ثواب کا طالب ہوگا ہم اسے وہ عنایت کرتے ہیں_(۲۰۲)

خدا فرماتا ہے کہ '' مال و متاع اور اولاد دنیا کی زینت ہیں لیکن نیک عمل باقی رہ جاتا اور وہی تیرے پروردگار کے نزدیک بہتر اور نیک آرزو اور تمنا ہے_(۲۰۳)

دنیا کیا ہے؟

بہر حال اسلام دنیا کو قاتل مذمت قرا ردیتا ہے اور اس سے زاہد رہنا طلب کرتا ہے لہذا ضروری ہے کہ واضح کریں کہ دنیا کیا ہے اور کس طرح اس سے پرہیز کیا جائے؟

کیا دنیا ہر وہ چیز جو اس جہان میں جیسے زمین سورج ستارے حیوانات ، نباتات، درخت، معاون اور انسان ہیں کا ناہم ہے؟ اس کے مقابلے میں آخرت یعنی ایک دوسرا جہان ہے؟ اگر دنیا سے یہ مراد ہو تو پھر دنیا کی زندگی کام کرنے خورد و نوش آرام اور حرکت و غیرہ جو دنیا کی زندگی سے مربوط ہیں کا نام ہوگا_ کیا اسلام میں کسب معاش اور کام کرنے اور روزی حاصل کرنے اور اولاد پیدا کرنے اور نسل کو بڑھانے کی مذمت کی گئی ہے؟ کیا زمین اور آسمان حیوانات اور نباتات بری چیزیں ہیں_ اور انسان کو ان سے پرہیز کرنا چاہئے؟ کیا اسلام کام اور کوشش کرنے روزی کو حاصل کرنے اور تولید نسل

۱۱۰

کی مذمت کرتا ہے؟ یہ تو قطعا ایسا نہیں ہے یہ تمام چیزوں اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ہیں اگر یہ چیزیں بری ہوتیں تو اللہ تعالی ا نہیں پیدا ہی نہ کرتا _ خداوند عالم ان تمام چیزوں کو اپنی بہت بڑی خوشمنا نعمتیں جو انسان کے مطیع قرار پائی ہیں جانتا ہے تا کہ انسان ان سے فائدے حاصل کرے_ تنہا مال اور دولت قابل مذمت نہیں ہے بلکہ اسے قرآن میں خیر اور اچھائی کے طور پر ظاہر کیا ہے_

قرآن میں آیا ہے _ ''ان ترک خیرا الوصیته للوالدین و الاقربین (۲۰۴) _ حلال روزی کمانے اور کام اور کوشش کی مذمت ہی نہیں کی گئی بلکہ بہت سی روایات میں اسے بہترین عبادت بھی شمار کیا گیا ہے جیسے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' عبادت کی سترجزو ہیں ان میں سب سے زیادہ افضل حلال روزی کا طلب کرنا ہے_(۲۰۵)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص دنیا میں اپنی روزی حاصل کرے تا کہ لوگوں سے بے پرواہ ہوجائے اور اپنے اہل و عیال کی روزی کو وسیع کرے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ احسان کرے وہ قیامت کے دن خدا سے ملاقات کرے گا جبکہ اس کی صورت چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہی ہوگی_(۲۰۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اپنے اہل و عیال کی روزی کی تلاش کرے وہ اس شخص کی طرح ہے جو خدا کے راستے سے جہاد کرتے ہیں_(۷ ۲۰)

روایات میں کام اور کوشش زراعت اور تجارت کرنے یہاں تک کہ نکاح کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور پیغمبر اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت بھی یوں ہی تھی کہ وہ کام کرتے تھے_ علی ابن ابیطالب جو تمام زاہدوں کے سردار ہیں کام کرتے تھے پس سوچنا چاہئے کہ جس دنیا کی مذمت کی گئی ہے وہ کونسی ہے؟ بعض علماء نے کہا کہ دنیا قاتل مذمت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ دل بستگی قابل مذمت ہے_ بعض آیات اور روایات میں دنیا سے وابستگی اور علاقمندی کی مذمت بھی وارد ہوئی ہے_

قرآن مجید میں آیا ہے ''خواہشات نفسانی سے وابستگی اور علاقمندی جیسے اولاد اور عورتیں زر و جواہر کی ہمیانوں اور اچھے گھوڑے چارپائوں اور زراعت نے لوگوں کے

۱۱۱

سامنے آرائشے اور خوشمنائی کر رکھی ہے یہ سب دنیا کا مال اور متاع ہے لیکن نیک کام خدا کے نزدیک موجود ہیں_(۲۰۸)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خبردار کہ دنیا کو دوست رکھو کیونکہ دنیا کی محبت ہر گناہ کر جڑ اور ہر مصیبت اور بلا کا سرچشمہ ہے_(۲۰۹)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا سے دلبستگی اور علاقمندی ہر خطاء اور گناہ کا سرہے یعنی سب کچھ ہے_(۲۱۰)

اس طرح کی آیات اور روایات سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے امور سے دلبستگی اور علاقمندی قابل مذمت ہے نہ یہ کہ خود دنیا قاتل مذمت ہے_ یہاں پر پھر سوال پیدا ہوگا کہ کیا دنیا سے بطور اطلاق محبت اور دلبستگی اور علاقمندی قابل مذمت ہے اورانسان کو اپنی بیوی اور اولاد مال اور دولت مکان اور متاع خورد اور خوراک سے بالکل دلبستگی اور علاقمندی نہیں کرنی چاہئے؟ آیا اس طرح کا مطلب کہا جا سکتا ہے؟ جب کہ ان امور سے محبت اور دلبستگی انسان کی فطری اور طبیعی چیز ہے خداوند عالم نے انسان کو اس فطرت پر خلق فرمایا ہے_ کیا انسان ایسا کر سکتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اولاد سے محبت نہ رکھے؟ کیا انسان خوراک پوشاک اور اس دنیا کی زیبائی سے محبت نہ رکھے ایسا کر سکتا ہے؟ اگر ان چیزوں سے محبت کرنا برا ہوتا تو خداوند عالم انسان کو اس طرح پیدا نہ کرتا_ انسان زندہ رہنے کے لئے ان چیزوں کا محتاج ہے اور اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ طبعا ان چیزوں کی طرف میلان رکھے_ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ لوگ دنیا کے فرزند ہیں اور کسی کو مال سے محبت رکھنے پر ملامت نہیں کی جاتی_(۲۱۱)

روایات میں اولاد اور عیال سے محبت کرنے کی سفارش کی گئی ہے_ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اپنے اہل و عیال اور اولاد سے محبت کا اظہار کیا کرتے تھے_ بعض خوراک کو پسند فرماتے تھے اور ان سے بھی علاقہ کا اظہار کیا کرتے تھے لہذا زمین، آسمان، نباتات، درخت، معاون حیوانات اور دوسری اللہ کی نعمتیں نہ قابل مذمت ہیں اور نہ بری اور نہ ہی اہل و اعیال اور اولاد اور مال و متاع برے ہیں اور نہ ہی ان سے

۱۱۲

محبت اور لگائو اور دنیاوی زندگی بری ہے بلکہ بعض روایات میں تو دنیا کی تعریف بھی کی گئی ہے_ امیرالمومنین علیہ السلام اس کی جواب میں جو دنیا کی مذمت کر رہا تھا فرمایا کہ دنیا سچائی اور صداقت کا گھر ہے اس کے لئے گھر ہے جو اس کی تصدیق کرے اور امن و امان اور عافیت کا اس کے لئے گھر ہے جو اس کی حقیقت کو پہچان لے اور اس کے لئے بے نیاز ہونے کا مکان ہے جو اس کے زادراہ حاصل کرے اور نصیحت لینے کا محل ہے اس کے لئے جو اس سے نصیحت حاصل کرے_ دنیا اللہ کے دوستوں کی مسجد اور اللہ کے فرشتوں کے لئے نماز کا مکان ہے_ دنیا اللہ تعالی کی وحی نازل ہونے کا مکان ہے اور خدا کے اولیاء کے لئے تجارت کی جگہ ہے انہوں نے دنیا میں اللہ کے فضل اور رحمت کو حاصل کیا ہے اور بہشت کو منفعت میں حاصل کیا ہیں_(۲۱۲)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا آخرت کے لئے بہت بہترین مددگار ہے_(۲۱۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص حلال مال کو حاصل کرنا پسند نہیں کرتا تا کہ وہ اس کے ذریعے اپنی آبرو اور عزت کی حفاظت کرے اور قرض اداد کرے اور صلہ رحم بجالائے تو اس میں کوئی اچھائی اور بھلائی موجود نہیں ہے_(۲۱۴)

لہذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کونسی دنیا قابل مذمت ہے اور دنیا سے محبت کرنے کو تمام گناہوں کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے وہ کونسی دنیا ہے؟

میں نے ان تمام آیات اور روایات سے یوں استفادہ کیا ہے کہ دنیا داری اور دنیا کا ہو جانا اور دل دنیا کو دے دینا قابل مذمت ہے نہ فقط دنیاوی امور سے لگائو اور دنیا کے موجودات اور اس دنیا میں زندگی کرنا قابل مذمت ہے_ اسلام لوگوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا کوویسے پہچانیں کے جیسے وہ ہے اور اتنی ہی مقدار اسے اہمیت دیں اور اس سے زیادہ اسے اہمیت نہ دیں_ جہاں کی خلقت کی غرض اور اپنی خلقت کی غرض کو پہچائیں اور صحیح راستے پر چلیں اگر انسان اس طرح ہوجائیں تو وہ اہل آخرت ہونگے اور اگر ان کی رفتار اور کردار اس غرض کے خلاف ہو تو پھر وہ اہل دنیا کہلائیں گے اور

۱۱۳

ہونگے_

دنیا کی حقیقت

اس مطلب کی وضاحت کے لئے پہلے دنیا کی اسلام کی رو سے حقیقت اور ماہیت کو بیان کرتے ہیں اس کے بعد جو اس سے نتیجہ ظاہر ہوگا اسے بیان کریں گے اسلام دو جہان کاعقیدہ رکھتا ہے ایک تو یہی مادی جہان کہ جس میں ہم زندگی کر رہے ہیں اور جسے دنیا کہا اور نام دیا جاتا ہے_ دوسرا اس کے بعد آنے والا جہان کہ جہاں مرنے کے بعد جائیں گے اسے آخرت اور عقبی کا جہان کہا اور نام دیا جاتا ہے_ اسلام عقیدہ رکھتا ہے کہ انسان کی زندگی اس جہان میں مرنے سے ختم نہیں ہوجاتی بلکہ مرنے کے بعد انسان آخرت کے جہاں کی طرف منتقل ہوجائیگا_ اسلام اس جہان کو گذر گاہ اور فانی مکان قرار دیتا ہے جو آخرت کے جہان جانے کے لئے ایک وقتی ٹھہرنے کی جگہ ہے_ اور آخرت کے جہان کو دائمی اور ابدی رہنے کی جگہ قرار دیتا ہے_ انسان اس دنیا میں اس طرح نہیں آیا کہ کئی دن زندگی کرے اور اس کے بعد مرجائے اور ختم اور نابود ہوجائے بلکہ انسان اس جہان میں اس لئے آیا ہے کہ یہاں علم او رعمل کے ذریعے اپنے نفس کی تربیت اور تکمیل کرے اور آخرت کے جہاں میں ہمیشہ کے لئے خوش اور آرام سے زندگی بسر کرے لہذا دنیا کا جہان آخرت کے جہاں کے لئے کھیتی اور تجارت کرنے اور زاد راہ کے حاصل کرنے کی جگہ ہے گرچہ انسان اس جہان میں زندہ رہنے اور زندگی کرنے کے لئے مجبور ہے کہ ان نعمتوں سے جون خدا نے اس جہان میں خلق کی ہیں استفادہ کرے لیکن ان نعمتوں سے فائدہ حاصل کرنا انسان کی زندگی کی غرض اور ہدف نہیں ہے بلکہ یہ مقدمہ اور تمہید ہے انسان اور اس جہاں کے خلق کرنے کی غرض اور ہدف یہ نہیں کہ انسان یہاں کی زندگی کو خوب مرتب اور مرفح الحال بنائے اور مختلف لذائز اور تحقیقات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرے بلکہ انسان کے خلق

۱۱۴

کرنے کی غرض ایک بہت بلند اور عالی تر غرض ہے یعنی انسان اپنے انسانی شریف جوہر کی یہاں پر پرورش اور تربیت کرے اور اس کی نگاہ اللہ تعالی کی طرف سیر و سلوک اور تقرب کو حاصل کرنا ہو_ جیسے امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا اس لئے خلق نہیں ہوئی کہ وہ تیرا ہمیشہ کے لئے گھر ہو بلکہ دنیا گذر نے کی جگہ ہے تا کہ نیک عمل کے ذریعے تو اپنی ہمیشہ رہنے والی جگہ کے لئے زاد راہ حاصل کرے لہذا تم دنیا سے چلے جانے کے لئے جلدی کرو اور یہاں سے جانے کے لئے اپنے لئے سواری کو آمادہ اور مہیا کرو_(۲۱۵)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اے دنیا کے لوگو دنیا گذر جانے کی جگہ ہے اور آخرت باقی رہنے کا محل ہے لہذا گزرنے والی جگہ سے ہمیشہ رہنے والے مکان کے لئے سامان اور زاد راہ حاصل کرو_ اور اپنے رازوں کے پردے کو اس کے سامنے جو تمہارے رازوں سے واقف ہے پارہ نہ کرو اپنے دلوں کو دنیا سے خالی کرو اس سے پہلے کہ تمہارے بدن اس دنیا سے خارج ہوجائیں_ تم اس دنیا میں امتحان میں واقع کئے جائو گے اور تم اس دنیا کے علاوہ کے لئے پیدا کئے گئے ہو جب انسان مرجاتا ہے لوگ کہتے ہیں کہ کیا چھوڑ کرگیا ہے اور فرشتوں کہتے ہیں کہ کیا لے کرایا ہے اور کیا اپنے لئے یہاں کے لئے بھیجا ہے؟ خدا تمہارے باپ پر رحمت نازل کرے کہ تم اپنے مال سے کچھ آئندہ کے لئے روانہ کرو تا کہ خدا کے نزدیک تمہارے لئے بطور قرض کے باقی ہو اور تمام مال دنیا میں چھوڑ کرنہ رو کہ اس مال کے حقوق تمہاری گردن پر باقی رہ جائیں_(۲۱۶)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خبردار رہو کہ یہ دنیا کہ جس کی تم امید رکھتے ہو اور اس سے محبت اور علاقہ مند ہو کبھی تمہیں غضب میں لاتی ہے اور کبھی تمہیں خوش کرتی ہے یہ نہ تمہارا گھر ہے اور نہ ہی تمہاری ٹھہرنے کی جگہ ہے کہ جس کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو اور نہ ہی یہ تمہارے لئے مکان ہے کہ جس کی طرف تم بلائے گئے ہو یہ جان لو کہ نہ ہی یہ دنیا تمہارے لئے ہمیشہ رہے گی اور نہ تم اس

۱۱۵

میں ہمیشہ کے لئے باقی رہو گے گرچہ دنیا تمہیں اپنی زینت اور خوبصورتی کی وجہ سے دھوکا دیتی ہے_ لیکن برائیوں اور شر کے ہونے سے بھی تمہیں ڈراتی ہے لہذا ان ڈرانے والی چیزوں کو جو یہ رکھتی ہے اس کے غرور اور دھوکے میں نہ آئو اور اس سے دست بردار ہوجائو اس کی ڈرائی جانے والی چیزوں کی وجہ سے اس کے طمع دلانے سے دست بردار ہو جائو اور اس گھر کی طرف جلدی کرو کہ جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے اور اپنے دلوں کو دنیا سے خالی اور منصرف کرو_(۲۱۷)

آپ نے دیکھ لیا کہ اس حدیث میں دنیا کی حقیقت کس طرح بتلائی گئی ہے کہ یہ فناء ہونے والی اور سفر کی جگہ ہے یہ گذرنے اور سفر کر جانے کے لئے ٹھہرنے کا ایک مقام ہے_ یہ دھوکے اور غرور اور چالبازی کا گھر ہے_ انسان اس کے لئے خلق نہیں ہوا بلکہ آخرت کے جہان کے لئے خلق کیا گیا ہے انسان اس جہاں میں آیا ہے تا کہ اپنے علم اور عمل اور انسانیت کی تربیت اور پرورش کرے اور آخرت کے جہان کے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل کرے_

اہل آخرت

اسلام لوگوں سے یہ چاہتا ہے کہ دنیا کو اس طرح پہچانیں کہ جیسے وہ ہے اور اپنے اعمال اور کردار کو اسی طرح بجالائیں جیسے کہ وہ دنیا ہے جن لوگوں نے دنیا کو جس طرح کہ وہ ہے پہچان لیا ہے تو پھر وہ اس دنیا کے عاشق اور دیوانے نہیں بنتے اور وہ زر و جواہر کے دھوکے میں نہیں آتے جب کہ وہ اسی دنیا میں زندگی کرتے ہیں اللہ تعالی کی شرعی لحاظ سے نعمتوں سے اور لذات سے استفادہ بھی کرتے ہیں_ لیکن وہ ان کے قیدی اور غلام نہیں بنتے وہ خدا اور آخرت کے جہان کو کبھی نہیں بھلاتے اور ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے نیک کاموں کے بجالانے سے آخرت کے جہان کے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل کریں_ اس جہان میں زندگی کرتے ہیں لیکن ان کے دل کی آنکھ برتر و بالا افق کو دیکھتی ہے_ ہر لمحہ اور ہر حالت اور ہر عمل میں خدا اور آخرت

۱۱۶

کے جہان پر نظر رکھتے ہیں اور آخرت کے جہان کے لئے اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں_ دنیا کو آخرت کی کھیتی اور تجارت کا محل جانتے ہیں_ کوشش کرتے ہیں کہ آخرت کے جہان کے لئے زاد راہ حاصل کریں _ دنیا کی تمام چیزوں سے آخرت کے جہان کے لئے فائدہ حاصل کرتے ہیں یہاں تک کہ کام اور کالج اور کھانے پینے ازدواج اور دوسرے دنیاوی کاموں سے بھی آخرت کے جہان کے لئے استفادہ حاصل کرتے ہیں اس طرح کے لوگ دنیا دار نہیں ہوتے بلکہ یہ اہل آخرت ہیں_ ابن ابی یعفور کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت عرض کیا کہ ہم دنیا کو دوست رکھتے ہیں_ آپ نے فرمایا ہے کہ '' دنیا کے مال سے کیا کرتے ہو؟ میں نے عرض کی اس کے ذریعے سے ازدواج کرتا ہوں اور اللہ کے راستے میں صدقہ دیتا ہوں_ آپ نے فرمایا کہ یہ تو دنیا نہیں ہے؟ بلکہ یہ تو آخرت ہے_(۲۱۸)

حضرت علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اے خدا کے بندو متوجہ رہو کہ پرہیزگار دنیا میں بھی فائدہ حاصل کرتے ہیں اور آخرت میں بھی فائدہ حاصل کرتے ہیں _ وہ دنیا داروں کے ساتھ دنیا سے فائدہ حاصل کرنے میں شریک ہیں لیکن دنیا دار ان کے ساتھ آخرت میں شریک نہیں ہیں_ انہوں نے دنیا میں عمدہ طریقے سے زندگی بسر کی ہے اور کھانے والی چیزوں سے عمدہ طریقے سے استفادہ کیا ہے انہوں نے دنیا سے وہی استفادہ کیا ہے جو عیاش لوگ اس سے استفادہ کیا کرتے تھے اور وہی استفادہ کیا ہے جو ظالم اور متکبر لوگ کیا کرتے تھے اس کے باوجود یہ لوگ آخرت کا زاد راہ اوردنیا کے تجارت کے محل سے پوری طرح کما کر آخرت کی طرف منتقل ہوگئے ہیں_ دنیا سے زہد کی لذت کو بھی حاصل کیا ہے اور انہیں یقین تھا کہ آخرت میں اللہ تعالی کے جوار رحمت میں اس طرح زندگی کریں گے کہ ان کی کوئی بھی خواہش رد نہیں کی جائیگی اور لذت اور خوشی سے انکا حصہ کم اور ناقص نہیں ہوگا_(۲۱۹)

لہذا کام اور کام میں مشغول ہونا اور صنعت اور تجارت اور زراعت اور اسی

۱۱۷

طرح مقام اور منصب اور اجتماعی ذمہ داری کا قبول کرنا زہد اور اہل آخرت ہونے کے منافی اور ناساز نہیں ہوا کرتا یہ تمام امور اللہ کی رضایت حاصل کرنے اور آخرت کے راستے میں گامزن ہونے میں سموئے جا سکتے ہیں_ امرالمومنین جو اپنی تمام کوشش کام اور کاج میں استعمال کرتے تھے رات کو محراب عبادت میں گریہ و زاری کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے'' اے دنیا_ اے دنیا مجھ سے دور ہٹ جا_ کیا مجھے دھوکہ دینے کے لئے میر ے سامنے آئی ہے اور مجھ سے محبت کا اظہار کرتی ہے؟ یہ تیرا وقت نہیں ہے جا کسی دوسرے کو دھوکہ دے مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں ہے_ میں نے تجھے تین طلاقیں دے دی ہیں کہ جن میں رجوع بھی نہیں کیا جا سکتا_ تیری زندگی کوتاہ سے اور تیری قیمت معمولی ہے_ اہ زاد راہ تھوڑا ہے اور راستہ اور سفر طویل ہے اور آگے کی منازل عظیم ہیں_(۲۲۰)

آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ''اے دنیا مجھ سے دور ہوجا کہ میں نے تیری مہار تیری گرد پر ڈال دی ہے اور تجھے آزاد کردیا ہے_ میں تیرے چنگل سے نکل چکا ہوں اور تیرے جال سے بھاگ گیا ہوں اور تیری لغزش گاہ سے دور ہو چکا ہوں_(۲۲۱)

حضرت علی علیہ السلام نے اس حالت میں جب کہ ایک لشکر جرار کے ساتھ جنگ کرنے جا رہے تھے اپنی پھٹی پرانی جوتی ابن عباس کو دکھلائی اور فرمایا کہ '' خدا کی قسم یہ پھٹی پرانی جوتی میرے نزدیک حکومت اور امیر ہونے سے زیادہ محبوب ہے مگر یہ کہ میں حق کو برقرار کروں اور باطل کو رد کروں_(۲۲۲)

اللہ تعالی کے خاص بندے ایسے ہی تھے اور ہیں_ اس دنیا میں زندگی کرتے ہیں لیکن وہ عالم بالا کو دیکھتے ہیں اور اہل آخرت ہیں_ عام لوگوں کی طرح کام اور کاج کرتے ہیں_ بلکہ حکومت اور فرماندھی اور زمام داری اور زندگی کے امور کو بھی چلاتے ہیں_ اور ان تمام کاموں کو اللہ تعالی کی رضا اور اپنا عملی وظیفہ قرار دیتے ہیں اور شرعی حدود میں رہ کر اللہ تعالی کی نعمتوں سے بھی استفادہ کرتے ہیں اس کے باوجود دنیا کو تین طلاقیں دے رکھی ہیں اور اس کی محبت کو دل سے نکالا ہوا ہے_ حکومت لینے کے لئے

۱۱۸

جنگ کرتے ہیں لیکن صرف حق کے دفاع اور عدالت کو برپا کرنے کے لئے نہ یہ کہ حکومت اور ریاست کریں_

اہل دنیا

اگر کسی انسان نے دنیا کو جیسے ہے اس طرح نہ پہچانا ہو دنیا میں ایسے زندگی کرنے میں مشغول ہوگیا ہو کہ گویا اس کے خلق ہونے کی غرض اور غایت یہی دنیا تھی اور آخرت میں کوئی حساب اور کتاب نہیں اور نہ ہی اس دنیا کے علاوہ کوئی اور دنیا ہے کہ جس کی طرف اس نے جانا ہے اور وہ مال اور دولت زن اور فرزند جاہ و جلال اور مقام و منصب کا قیدی اور فریفتہ ہوچکا ہو اور اسی دنیا کی زندگی کو خوب مضبوط پکڑ رکھا ہو اور اسی کے ساتھ ولی لگائو رکھا ہو اور آخرت کی زندگی اور خدا کو فراموش کردیا ہو اور معنوی بلندیوں سے چشم پوشی کر لی ہو اور صرف حیوانی خواہشات کے پورے کرنے اور لذائز دنیوی سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے میں کمر ہمت باندھ رکھی ہو_ اس طرح کا انسان اور افراد دنیا اور اہل دنیا شمار قسم ہوتے ہیں گرچہ وہ فقیر اور نادار اور گوشہ نشین ہی کیوں نہ ہوں اور ہر قسم کی اجتماعی زمہ داری کے قبول کرنے سے پرہیز ہی کیوں نہ کرتے ہوں_

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے '' وہ صرف دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں لیکن آخرت سے غافل ہیں_(۲۲۳)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے'' دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی کے مقابلے میں خریداہے_(۲۲۴)

نیز ارشاد ہوا ہے کہ ''کیا تم نے دنیا کی زندگی پر رضایت دے دی ہے؟ جب کہ یہ معمولی ثروت سے زیادہ نہیں ہے_(۲۲۵)

اللہ تعالی فرماتا ہے''جو لوگ ہماری ملاقات اور بقا کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی سے دل لگا رکھا ہے اور خوش ہیں اور وہ جو ہماری آیات سے غافل ہیں یہی وہ

۱۱۹

لوگ ہیں کہ جن کا ٹھکانہ جہنم کی اگ میں ہے یہ اس وجہ سے ہوگا کہ جو کچھ انہوں نے دنیا میں کسب کیا ہے_(۲۲۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان کی خدا سے دور ترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سوائے شکم پری اور عورت کے اور کسی چیز کو ہدف اور غرض قرار نہیں دیتا_(۲۲۷)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو دل دنیا کا فریفتہ اور عاشق ہوگا اس میں تقوی اور پرہیزگاری کا داخل ہونا حرام ہوا کرتا ہے_(۲۲۸)

نیز آنحضرت(ص) نے فرمایا ہے کہ '' وہ بہت ہی برا معاملہ اور تجارت ہے کہ جس کی قیمت اور عوض اپنے نفس کو قرار دے دیا جائے اور دنیا کو اس کے عوض جو خدا کے نزدیک ہے عوض بنا لیا جائے_(۲۲۹)

اگر دنیا کی مذمت کی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا غرور اور دھوکا دینے والی اور مشغول رکھ دینے کا مال اور متاع ہے_ دنیا اپنے آپ کو خوبصورت اور شیرین ظاہر کرتی ہے اور انسان کو اسی میں لگائے رکھتی ہے اور انسان کو خدا کی یاد آور آخرت کے لئے زاد راہ حاصل کرنے سے روکتی ہے_

اسی لئے دنیا کی مذمت وارد ہوئی ہے اور اسے بیان کیا گیا ہے تا کہ انسان ہوشیار رہیں اور اس کی چالوں کا دھوکانہ کھائیں اور اپنے آپ کو دنیا کے قیدی اور غلام نہ بنائیں اور اس پر فریفتہ نہ ہوجائیں_

قابل مذمت دنیا سے لگائو اور عشق ہے اور اپنے خلق ہونے کی غرض کو بھول جانا ہے اور آخرت کی ہمیشگی زندگی اور اللہ کی نعمتوں سے غافل ہو جانا ہے_

اہل دنیا اور اہل آخرت

جو دنیا میں رہ کر آخرت کے لئے کام کرے وہ اہل آخرت ہے اور جو صرف دنیا میں رہ کر دینا کے لئے کام کرے وہ اہل دنیا اور دنیا دار ہے_

۱۲۰