خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس0%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات:

صفحے: 346
مشاہدے: 100487
ڈاؤنلوڈ: 3514

تبصرے:

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 100487 / ڈاؤنلوڈ: 3514
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

خدا کے خوف نے ان کو اس تیر کی مانند کر دیا ہے کہ جسے چھیلا جائے اور لاغر اور کمزور کر دیا ہے_ انہیں دیکھنے والے گمان کرتے ہیں کہ وہ بیمار ہیں جب کہ وہ بیمار نہیں ہیں_ کہا جاتا ہے کہ دیوانے ہیں جب کہ وہ دیوانے نہیں ہیں بلکہ قیامت جیسی عظیم چیز میں فکر کرنے نے ان کو اپنے آپ سے بے خود کر دیا ہے_

اپنے تھوڑے عمل پر راضی نہیں ہوتے اور زیادہ عمل کو زیادہ نہیں سمجھتے_ اپنی روح اور نفس کو اس گمان میں کہ وہ اطاعت میں کوتاہی کر رہے ہیں متہم کرتے ہیں اور اپنے اعمال سے خوف اور ہراس میں ہوتے ہیں_ جب ان میں سے کسی کی تعریف کی جائے تو جو اس کے بارے میں کہا گیاہے اس سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو دو سروں سے بہتر پہچانتے ہیں اوراللہ تعالی ہم سے زیادہ آگاہ اور باخبر ہے_ خدایا جو کچھ ہمارے بارے میں کہا گیا ہے اس پر ہمارا مواخذہ نہ کرنا اور اس سے بالاتر قرار دے جو وہ گمان کرتے ہیں اور ان گناہوں کو جو دوسرے نہیں جانتے بخش دے_

اہل تقوی کی نشانی یہ ہے کہ تو اسے دینی معاملہ میں نرمی اور دور اندیشی کے ساتھ قوی دیکھے گا اوریقیین میں با ایمان اور مضبوط _ علم کے حصول میں حریص بردباری میں دانشمند مالدار ہوتے ہوئے_ میانہ روی، عبادت باخشوع اور فقر میں آبرو مند اور با وقار_ سختیوں میں صبر کرنے والے _ حلال روزی کے حاصل میں کوشش کرنے وال_ ہدایت کے طلب کرنے میں علاقمندی_ طمع سے دور اور سخت جان_ نیک کام کرنے کے باوجود خوف زدہ ہیں_ رات کے وقت شکرانہ ادا کرنے میں ہمت باندھتے ہیں اور دن میں ذکر اور خدا کی یاد کو اہمیت دینے والے_ رات کو اس ڈر سے کہ شاید غفلت برتی ہو خوف زدہ_ دن کو اللہ تعالی کے فضل و کرم و رحمت کیوجہ سے خوشحال_ اگر نفس نے کہ جسد وہ پسند نہیں کرتا سختی برتی تو وہ بھی س کے بدلے جسے نفس پسند کرتا ہے بجا نہیں لاتے _ اس کا رابط اور علاقمند نیک کاموں سے ہوتا ہے اور فنا ہوتے والی دنیاوی چیز کی طرف میلان نہیں رکھتے_ تحمل اور بردباری کو عقلمندی سے اور گفتار

۱۴۱

کو کردار کے ساتھ ملاتے ہے_ اسے دیکھے گا کہ اس کی خواہشات تھوڑی اور اس کی خطائیں بھی کم_ دل خشوع کرنے والا اور نفس قناعت رکھنے والا_ اس کی خوراک تھوڑی اور اسے کام آسان اس کا دین محفوظ اور اس کی نفسانی خواہشات ختم ہوچکی ہیں اور غصہ بیٹھ چکا ہے_ لوگ اس کے احسان اور نیکی کی امید رکھتے ہیں اور اس کے شر سے امن و امان میں ہیں اگر لوگوں میں غافل اور بے خبر نظر آ رہا ہو تو وہ اللہ تعالی کے ذکر کرنے والا شمار ہو رہا ہو گا اور اگر ذکر کرنے والوں میں موجود ہوا تو وہ غفلت کرنے والوں میں شمار نہیں ہوگا_

گالیاں دینے سے پرہیز کرتا ہے نرمی سے بات کرتا ہے_ برے کام اس سے نہیں دیکھے جاتے اور نیک کاموں میں ہر جگہ حاضر ہوتا ہے_ خیرات اور نیکی کی طرف قدم بڑھانے والا اور برائیوں سے بھاگ جانے والا ہوتا ہے_ سختیوں میں باوقار اور مصیبتوں میں صبر کرنے والا آرام اور آسائشے میں شکر گزار جو اس کے نزدیک مبغوض ہے اس پر ظلم نہیں کرتا _ جس کو دوست رکھتا ہے اس کے لئے گناہ نہیں کرتا گواہوں کی گواہی دینے سے پہلے حق کا اقرار کر لیتا ہے_ جسے حفظ کر لیا ہے اسے ضائع نہیں کرتا اور جو اسے بتلایا جائے اسے نہیں بھلاتا _ کسی کو برے لقب سے نہیں بلاتا_ ہمسایہ کو نقصان نہیں پہنچاتا_ لوگوں پر جب مصیبتیں ٹوٹ پڑیں تو اس سے خوشی نہیں کرتا_ باطل کے راستے میں قدم نہیں رکھتا اور حق سے خارج نہیں ہوتا_ اگر چپ رہے تو چپ رہنے سے غمگین نہیں ہوتا اگر ہنسے تو ہنسنے کی آواز بلند نہیں ہوتی اور اگر اس پر ظلم کیا جائے تو صبر کرتا ہے تا کہ اس کا انتقام اس کے لئے لے لے_ اس کا نفس اس کی طرف سے سختی میں ہوتا ہے لیکن لوگوں کے نفس اس کی طرف سے آرام اور آسائشے میں ہوتے ہیں آخروی کاموں کے لئے اپنے نفس کو سختیوں میں ڈالتا ہے اور لوگوں کو اپنی جانب سے آرام اور آسائشے پہنچاتا ہے_ اس کا کسی سے دور ہوجانا زہد اور عفت کی وجہ سے ہوتا ہے اور کسی سے نزدیک ہونا خوش خلقی اور مہربانی سے ہوتا ہے دور ہونا تکبر اور خودخواہی کیوجہ سے نہیں ہوتا اور نزدیک ہونا مکرر اور فریب

۱۴۲

سے نہیں ہوتا_

راوی کہتا ہے کہ جب امیر المومنین کی کلام اس جگہ پہنچی تو ہمام نے ایک چیخ ماری اور بیہوش ہوگیا_ اور اپنی روح خالق روح کے سپرد کردی_ آنحضرت(ع) نے فرمایا ہیں '' اس طرح کی پیش آمد کیوجہ سے اس کے بارے میں خوف زدہ تھا_آپ نے اس کے بعد فرمایا لائق افراد میں وعظ اس طرح کا اثر کرتے ہیں_(۲۷۳)

۱۴۳

نفس پر کنٹرول کرنے اور اسے پاک کرنے کا اہم سبب مراقبت ہوتا ہے

اپنے آپ کو بنانے او رسنوار نے اور نفس کو پاک کرنے کا ایک اہم سبب نفس پر مراقبت اور توجہ رکھنا ہوتا ہے_ جو انسان اپنی سعادت کے متعلق سوچنا اور فکر رکھتا ہو وہ برے اخلاق اور نفسانی بیماریوں سے غافل نہیں رہ سکتا بلکہ اسے ہر وقت اپنے نفس پر توجہہ رکھنی چاہئے اور تمام اخلاق اور کردار ملکات اور افکار کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہئے اور اس پر پوری نگاہ رکھے_ ہم اس مطلب کو کئی ایک مطالب کے ضمن میں بیان کرتے ہیں_

اعمال کا ضبط کرنا اور لکھنا

قرآن اور احادیث پیغمبر اور اہلبیت علیہم السلام سے معلوم ہوتا کہ انسان کے تمام اعمال حرکات گفتار سانس لینا افکار اور نظریات نیت تمام کے تمام نامہ اعمال میں ضبط اور ثبت کئے جاتے ہیں اور قیامت تک حساب دینے کے لئے باقی رہتے ہیں اور ہر ایک انسان قیامت کے دن اپنے اچھے برے اعمال کی جزا اور سزا دیا جائیگا جیسے خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' قیامت کے دن لوگ گروہ در گروہ خارج ہونگے تا کہ وہ اپنے اعمال کو دیکھ لیں جس نے ایک ذرا بھر نیکی انجام دی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور

۱۴۴

جس نے ذرا بھر برائی انجام دی ہوگی اسے دیکھے گا_(۲۷۴)

نیز فرماتا ہے کہ '' کتاب رکھی جائیگی مجرموں کو دیکھے گا کہ وہ اس سے جو ان کے نامہ اعمال میں ثبت ہے خوف زدہ ہیں اور کہتے ہونگے کہ یہ کیسی کتاب ہے کہ جس نے تمام چیزوں کو ثبت کر رکھا ہے اور کسی چھوٹے بڑے کام کو نہیں چھوڑااپنے تمام اعمال کو حاضر شدہ دیکھیں گے تیرا خدا کسی پر ظلم نہیں کرتا_(۲۷۵)

خدا فرماتا ہے ''قیامت کے دن جس نے جو عمل خیر انجام دیا ہوگا حاضر دیکھے گا اور جن برے عمل کا ارتکاب کیا ہوگا اسے بھی حاضر پائیگا اور آرزو کرے گا کہ اس کے اور اس کے عمل کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہوتا_(۲۷۶)

خدا فرماتا ہے '' کوئی بات زبان پر نہیں لاتا مگر اس کے لکھنے کے لئے فرشتے کو حاضر اور نگاہ کرنے والا پائے گا_(۲۷۷)

اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کے تمام اعمال اور کردار حرکات اور گفتار یہاں تک کہ افکار اور نظریات سوچ اور فکر لکھے جاتے ہیں تو پھر ہم کس طرح ان کے انجام دینے سے غافل رہ سکتے ہیں؟

قیامت میں حساب

بہت زیادہ آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن بہت زیادہ وقت سے بندوں کا حساب لیا جائیگا_ بندوں کے تمام اعمال چھوٹے بڑے کا حساب لیا جائیگا اور معمولی سے معمولی کام سے بھی غفلت نہیں کی جائیگی جیسے خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' عدالت کے ترازو کو قیامت کے دن نصب کیا جائیگا اور کسی طرح ظلم نہیں کیا جائیگا اگر خردل کے دانہ کے ایک مثقال برابر عقل کیا ہوگا تو اسے بھی حساب میں لایا جائیگا او رخود ہم حساب لینے کے لئے کافی ہیں_(۲۷۸)

نیز فرماتا ہے '' جو کچھ باطن اور اندر میں رکھتے ہو خواہ اسے ظارہ کرو یا چھپائے رکھو خدا تم سے اس کا بھی حساب لے گا_(۲۷۹)

۱۴۵

نیز خدا فرماتا ہے '' اعمال کا وزن کیا جانا قیامت کے دن حق کے مطابق ہوگا جن کے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ نجات پائیں گے اور جن کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہوگا تو انہوں نے اپنے نفس کو نقصان پہنچایا ہے اس لئے کہ انہوں نے ہماری آیات پر ظلم کیا ہے_(۲۸۰) قرآن مجید میں قیامت کو یوم الحساب کہا گیا ہے اور خدا کو سریع الحساب یعنی بہت جلدی حساب لینے والا کہا گیا ہے_

آیات اور بہت زیادہ روایات کی رو سے ایک سخت مرحلہ جو تمام بندوں کے لئے پیش لانے والا ہے وہ اعمال کا حساب و کتاب اور ان کا تولا جانا ہے_ انسانی اپنی تمام عمر میں تھوڑے تھوڑے اعمال بالاتا ہے اور کئی دن کے بعد انہیں فراموش کر دیتا ہے حالانکہ معمولی سے معمولی کام بھی اس صفحہ ہستی سے نہیں مٹتے بلکہ تمام اس دنیا میں ثبت اور ضبط ہوجاتے ہیں اور انسان کے ساتھ باقی رہ جاتے ہیں گرچہ انسان اس جہان میں بطور کلی ان سے غافل ہی کیوں نہ ہوچکا ہو_ مرنے کے بعد جب اس کی چشم بصیرت روشن ہوگی تو تمام اعمال ایک جگہ اکٹھے مشاہدہ کرے گا اس وقت اسے احساس ہوگا کہ تمام اعمال گفتار اور کردار عقائد اور افکار حاضر ہیں اور اس کے ساتھ موجود ہیں اور کسی وقت اس سے جدا نہیں ہوئے_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' ہر آدمی قیامت کے دن حساب کے لئے محشر میں اس حالت میں آئے گا کہ ایک فرشتہ اسے لے آرہا ہوگا اور وہ اس کے ہر نیک اور بد کا گواہ بھی ہوگا اسے کہا جائے گا تو اس واقعیت اور حقیقت سے غافل تھا لیکن آج تیری باطنی انکھ بینا او روشن ہوگئی ہے_(۲۸۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' قیامت کے دن خدا کا بندہ ایک قدم نہیں اٹھائیگا مگر اس سے چار چیزوں کا سوال کیا جائیگا_ اس کی عمر سے کہ کس راستے میں خرچ کی ہے_ اس کی جوانی سے کہ اسے کس راستے میں خرچ کیا ہے_ اس کے مال سے کہ کس طریقے سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ہے_ اور ہم اہلبیت کی دوستی کے بارے میں سوال کیا جائیگا_(۲۸۲)

۱۴۶

ایک اور حدیث میں پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ '' بندے کو قیامت کے دن حساب کے لئے حاضر کریں گے_ ہر ایک دن کے لئے کہ اس نے دنیا میں زندگی کی ہے_ ہر دن رات کے ہر ساعت کے لئے چوبیس خزانے لائیں گے ایک خزینہ کو کھولیں گے جو نور اور سرور سے پر ہوگا _ خدا کا بندہ اس کے دیکھنے سے اتنا خوشحال ہوگا کہ اگر اس کی خوشحالی کو جہنمیوں کے درمیان تقسیم کیا جائے تو وہ کسی درد اور تکلیف کو محسوس نہیں کریں گے یہ وہ ساعت ہوگی کہ جس میں وہ اللہ تعالی کی اطاعت میں مشغول ہوا تھا_ اس کے بعد ایک دوسرے خزینہ کو کھولیں گے کہ جو تاریک او ربدبو دار وحشت آور ہوگا خدا کا بندہ اس کے دیکھنے سے اس طرح جزع اور فزع کرے گا کہ اگر اسے بہشتیوں میں تقسیم کیا جائے تو بہشت کی تمام نعمتیں ان کے لئے ناگوار ہوجائیں گی یہ وہ ساعت تھی کہ جس میں وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کر رہا تھا_ اس کے بعد اس کے لئے تیسرے خزانہ کو کھولیں گے کہ جو بالکل خالی ہوگا نہ اس میں خوش کرنے والا عمل ہوگا اور نہ غم لانے والا عمل ہوگا یہ وہ ساعت ہے کہ جس میں خدا کا بندہ سویا ہوا تھا یا مباح کاموں میں مشغول ہوا تھا_ خدا کا بندہ اس کے دیکھنے سے بھی غمگین اور افسوس ناک ہوگا کیونکہ وہ اسے دنیا میں اچھے کاموں سے پر کر سکتا تھا اور کوتاہی اور سستی کی وجہ سے اس نے ایسا کیا تھا_ اسی لئے خداوند عالم قیامت کے بارے میں فرماتا ہے کہ یوم التاغبن یعنی خسارے اور نقصان کا دن_(۲۸۳)

قیامت کے دن بندوں کا بطور وقت حساب لیا جائیگا اور انکا انجام معین کیا جائیگا تمام گذرے ہوئے اعمال کا حساب لیا جائے گا_ انسان کے اعضاء اور جوارح پیغمبر اور فرشتے یہاں تک زمین گواہی دے گی بہت سخت حساب ہوگا اور اس پر انسان کا انجام معین کیا جائے گا دل حساب کے ہونے کی وجہ سے دھڑک رہے ہونگے اور بدن اس سے لرزہ باندام ہونگے ایسا خوف ہوگا کہ مائیں اپنے شیرخوار بچوں کو بھول جائیں گی اور حاملہ عورتیں بچے سقط کردیں گی تمام لوگ مضطرب ہونگے کہ ان کا انجام کیا ہوگا کیا ان کے حساب کا نتیجہ اللہ تعالی کی خوشنودی اور آزادی کا پروانہ ہوگا اور پیغمبروں

۱۴۷

اور اولیاء خدا کے سامنے سر خروی اور بہشت میں ہمیشہ کی زندگی ہوگی _ اللہ کے نیک بندوں کی ہمسایگی ہوگی یا اللہ تعالی کا غیظ اور غضب لوگوں کے درمیانی رسوائی اور دوزخ میں ہمیشہ کی زندگی ہوگی_

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بندوں کا حساب ایک جیسا نہیں ہوگا_ بعض انسانوں کا حساب بہت سخت اور مشکل اور طولانی ہوگا_ دوسری بعض کا حساب آسان اور سادہ ہوگا_ حساب مختلف مراحل میں لیا جائیگا_ اور ہر مرحلہ اور متوقف میں ایک چیز سے سوال کیا جائے گا سب سے زیادہ سخت مرحلہ اور موقف مظالم کا ہوگا اس مرحلہ میں حقوق الناس اور ان پر ظلم اور جور سے سوال کیا جائیگا اس مرحلہ میں پوری طرح حساب لیا جائیگا اور ہر ایک انسان اپنا قرض دوسرے قرض خواہ کو ادا کرے گا_ جائے تاسف ہے کہ وہاں انسان کے پاس مال نہیں ہوگا کہ وہ قرض خواہوں کا قرض ادا کر کرسکے ناچار اس کو اپنی نیکیوں سے ادا کرے گا اگر اس کے پاس نیکیاں ہوئیں تو ان کو لے کر مال کے عوض قرض خواہوں کو ادا کرے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو قرض خواہوں کی برائیوں کو اس کے نام اعمال میں ڈال دیا جائیگا بہرحال وہ بہت سخت د ن ہوگا_ خداوند عالم ہم تمام کی فریاد رسی فرمائے_ آمین_

البتہ حساب کی سختی اور طوالت تمام انسانوں کے لئے برابر نہ ہوگی بلکہ انسان کی اچھائیوں اور برائیوں کے حساب سے فرق کرے گی لیکن خدا کے نیک اور متقی اور لائق بندوں کے لئے حساب تھوڑی مدت میں اور آسان ہوگا_ پیغمبر اکرم نے اس شخص کے جواب میں کہ جس نے حساب کے طویل ہونے کے بارے میں سوال کیا تھا_ فرمایا_ ''خدا کی قسم کہ مومن پر اتنا آسان اور سہل ہوگا کہ واجب نماز کے پڑھنے سے بھی آسانتر ہوگا_( ۲۸۴)

قیامت سے پہلے اپنا حساب کریں

جو شخص قیامت حساب اور کتاب اور اعمال اور جزاء اور سزا کا عقیدہ اور ایمان

۱۴۸

رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ تمام اعمال ضبط اور ثبت ہو رہے ہیں اور قیامت کے دن بہت وقت سے انکا حساب لیا جائے گا اور ان کی اچھی یا بری جزاء اور سزا دی جائیگی وہ کس طرح اپنے اعمال اور کردار اور اخلاق سے لا پرواہ اور بے تغاوت نہیں ہوسکتا ہے؟ کیا وہ یہ نہ سوچے کہ دن اور رات ماہ اور سال اور اپنی عمر میں کیا کر رہا ہے؟ اور آخرت کے لے کونسا زاد راہ اور توشہ بھیج رہا ہے؟ ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ ہم اسی دنیا میں اپنے اعمال کا حساب کرلیں اور خوب غور اور فکر کریں کہ ہم نے ابھی تک کیا انجام دیا ہے اور کیا کر رہے ہیں؟ حساب کرلیں اورخوب غور اور فکر کریں کہ ہم نے ابھی تک کیا انجام دیا ہے اور کیا کر رہے ہیں؟ بعینہ اس عقلمند تاجر کی طرح جو ہر روز اور ہر مہینے اور سال اپنی آمدن خرچ کا حساب کرتا ہے کہ کہیں اسے نقصان نہ ہوجائے اور اس کا سرمایہ ضائع نہ ہوجائے_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اس سے پہلے کہ تمہارا قیامت کے دن حساب لیا جائے اسی د نیا میں اپنے اعمال کو ناپ تول لو_(۲۸۵) حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اسی دنیا میں اپنا حساب کرلے وہ فائدہ میں رہے گا_(۲۸۶)

امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہر روز اپنا حساب نہیں کرتا اگر اس نے نیک کام انجام دیئے ہوں تو اللہ تعالی سے اور زیادہ کی توفیق طلب کرے اور اگر برے کام انجام دیئے ہوں تو استغفار اور توبہ کرے_(۲۸۷)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو اپنے آپ کا جساب کرلے وہ فائدہ میں ہوگا اور جو اپنے حساب سے غافل ہوگا وہ نقصان اٹھائیگا_ جو اس دنیا میں ڈرے وہ قیامت کے دن امن میں ہوگا اور جو نصیحت حاصل کرے وہ آگاہ ہوجائیگا جو شخص دیکھے وہ سمجھے گا اور جو سمجھے گا وہ دانا اور عقلمند ہوجائیگا_(۲۸۸)

پیغمبر اکرم نے جناب ابوذر سے فرمایا '' اے ابوذر اس سے پہلے کہ تیرا حساب قیامت میں لیا جائے تو اپنا حساب اسی دنیا میں کرلے کیونکہ آج کا حساب آخرت کے حساب سے زیادہ آسان ہے اپنے نفس کو قیامت کے دن وزن کئے جانے سے پہلے اسی

۱۴۹

دنیا میں وزن کرلے اور اسی وسیلے سے اپنے آپ کو قیامت کے دن کے لئے کہ جس دن تو خدا کے سامنے جائے گا اور معمولی سے معمولی چیز اس ذات سے مخفی نہیں ہے آمادہ کرلے_ آپ نے فرمایا اے آباذر انسان متقی نہیں ہوتا مگر یہ کہ وہ اپنے نفس کا حساب اس سے بھی سخت جو ایک شریک دوسرے شریک سے کرتا ہے کرے انسان کو خوب سوچنا چاہئے کہ کھانے والی پینے والی پہننے والی چیزیں کس راستے سے حاصل کر رہا ہے_ کیا حلال سے ہے یا حرام سے؟ اے اباذر جو شخص اس کا پابند نہ ہو کہ مال کو کس طریقے سے حاصل کر رہا ہے خدا بھی پرواہ نہیں کرے گا کہ اسے کس راستے سے جہنم میں داخل کرے_(۲۸۹)

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' اے آدم کی اولاد تو ہمیشہ خیر و خوبی پر ہوگا جب تک اپنے نفس میں وعظ کرنے والا رکھے رہے گا اور اپنے نفس کے حساب کرتے رہنے کا پابند رہے گا اور اللہ کا خوف تیرا ظاہر ہوا اور محزون ہونا تیرا باطن ہو_ اے آدم کا فرزند تو مرجائیگا اور قیامت کے دن اٹھایا جائیگا اور اللہ تعالی اور اللہ کے عدل کے ترازو کے سامنے حساب کے لئے حاضر ہوگا لہذا قیامت کے دن حساب دینے کے لئے آمادہ ہوجاؤ_(۲۹۰)

انسان اس جہان میں تاجر کی طرح ہے کہ اس کا سرمایہ اس کی محدود عمر ہے یعنی یہی دن اور رات ہفتے اور مہینے اور سال_ یہ عمر کا سرمایہ ہو نہ ہو خرچ ہو کر رہے گا_ اور آہستہ آہستہ موت کے نزدیک ہوجائیگا جوانی بڑھاپے میں طاقت کمزوری میں اور صحت اور سلامتی بیماری میں تبدیل ہوجائیگی اگر انسان نے عمر کو نیک کاموں میں خرچ کیا اور آخرت کے لئے توشہ اور زاد راہ بھیجا تو اس نے نقصان اور ضرر نہیں کیا کیونکہ اس نے اپنے لئے مستقبل سعادتمند اور اچھا فراہم کرلیا لیکن اگر اس نے عمر کے گران قدر سرمایہ جوانی اور اپنی سلامتی کو ضائع کیا اور اس کے مقابلے میں آخرت کے لئے نیک عمل ذخیرہ نہ بنایا بلکہ برے اخلاق اور گناہ کے ارتکاب سے اپنے نفس کو کثیف اور آلودہ کیا تو اس نے اتنا بڑا نقصان اٹھایا ہے کہ جس کی تلافی نہیں کی جا

۱۵۰

سکتی_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے '' عصر کی قسم کہ انسان نقصان اور خسارہ میں ہے مگر وہ انسان جو ایمان لائیں اور نیک عمل بجالائیں اور حق اور بردباری کی ایک دوسرے کو سفارش کریں _(۲۹۱)

امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں_ کہ ''عاقل وہ ہے جو آج کے دن میں کل یعنی قیامت کی فکر کرے اور اپنے آپ کو آزاد کرنے کی کوشش کرے اور اس کہ لئے کہ جس سے بھاگ جانا یعنی موت سے ممکن نہیں ہے نیک اعمال انجام دے_(۲۹۲)

نیز آنحضرت فرمایا ہے کہ ''جو شخص اپنا حساب کرے تو وہ اپنے عیبوں کو سمجھ پاتا ہے اور گناہوں کو معلوم کرلیتا ہے اور پھر گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور اپنے عیبوں کی اصلاح کرتا ہے_(۲۹۳)

کس طرح حساب کریں

نفس پر کنٹرول کرنا سادہ اور آسان کام نہیں ہوتا بلکہ سوچ اور فکر اور سیاست بردباری اور حتمی ارادے کا محتاج ہوتا ہے_ کیا نفس امارہ اتنی آسانی سے رام اور مطیع ہوسکتا ہے؟ کیا اتنی سادگی سے فیصلے اور حساب کے لئے حاضر ہوجاتا ہے؟ کیا اتنی آسانی سے حساب دے دیتا ہے؟ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' جس نے اپنے نفس کو اپنی تدبیر اور سیاست کے کنٹرول میں نہ دیا تو اس نے اسے ضائع کردیا ہے_(۲۹۴)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہ جس شخص نے اپنے نفس کا فریب اور دھوکہ دینا مول لے لیا تو وہ اس کو ہلاک میں ڈال دے گا_(۲۹۵)

آنحضرت نے فرمایا ہے کہ ''جس شخص کے نفس میں بیداری اورآگاہی ہو تو خداوند عالم کی طرف سے اس کے لئے نگاہ بان معین کیا جائیگا_(۲۹۶)

نیز آنحضرت(ص) نے فرمایا ہے کہ ''پے در پے جہاد سے اپنے نفس کے مالک بنو

۱۵۱

اور اپنے کنٹرول میں رکھو_( ۲۹۷) نفس کے حساب کو تین مرحلوں میں انجام دیا جائے تا کہ تدریجاً وہ اس کی عادت کرے اور مطیع ہوجائے_

۱۵۲

۱_ مشارطہ اور عہد لینا

نفس کے حساب کو اس طرح شروع کریں دن کی پہلی گھڑی میں ہر روز کے کاموں کے انجام دینے سے پہلے ایک وقت مشارطہ کے لئے معین کرلیں مثال کے طور پر صبح کی نماز کے بعد ایک گوشہ میں بیٹھ جائیں اور اپنے آپ سے گفتگو کریں اور یوں کہیں_ ابھی میںزندہ ہوں لیکن یہ معلوم نہیں کہ کب تک زندہ رہوں گا_ شاید ایک گھنٹہ یا اس کم اور زیادہ زندہ رہونگا_ عمر کا گذرا ہوا وقت ضائع ہوگیا ہے لیکن عمر کا باقی وقت ابھی میرے پاس موجود ہے اور یہی میرا سرمایہ بن سکتا ہے بقیہ عمر کے ہر وقت میں آخرت کے لئے زاد راہ مہیا کرسکتا ہوں اور اگر ابھی میری موت آگئی اور حضرت عزرائیل علیہ السلام میری جان قبض کرنے کے لئے آگئے تو ان سے کتنی خواہش اور تمنا کرتا کہ ایک دن یاایک گھڑی اور میری عمر میں زیادہ کیا جائے؟

اے بیچارے نفس اگر تو اسی حالت میں ہو اور تیری یہ تمنا اور خواہش پوری کر دی جائے اور دوبارہ مجھے دنیا میں لٹا دیا گیا تو سوچ کہ تو کیا کرے گا؟ اے نفس اپنے آپ اور میرے اوپر رحم کر اور ان گھڑیوں کو بے فائدہ ضائع نہ کر سستی نہ کر کہ قیامت کے دن پشیمان ہوگا_

لیکن اس دن پشیمانی اور حسرت کوئی فائدہ نہیں دے گی_ اے نفس تیری عمر کی ہر گھڑی کے لئے خداوند عالم نے ایک خزانہ برقرار کر رکھا ہے کہ اس میں تیرے اچھے اور برے عمل محفوظ کئے جاتے ہیں اور تو ان کا نتیجہ اور انجام قیامت کو دیکھے گا اے نفس کوشش کر کہ ان خزانوں کو نیک اعمال سے پر کردے اور متوجہ رہ کر ان خزانوں کو گناہ اور نافرمانی سے پر نہ کرے_ اسی طرح اپنے جسم کے ہر ہر عضو کو مخاطب کر کے ان سے عہد اور پیمان لیں کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں مثلاً زبان سے کہیں

۱۵۳

جھوٹ، غیبت، چغلخوری، عیب جوئی، گالیاں، بیودہ گفتگو، توہین، ذلیل کرنا، اپنی تعریف کرنا، لڑائی، جھگڑا، جھوٹی گواہی یہ سب کے سب برے اخلاق اور اللہ کی طرف سے حرام کئے گئے ہیں اور انسان کی اخروی زندگی کو تباہ کردینے والے ہیں اے زبان میں تجھے اجازت نہیں دیتا کہ تو ان کو بجالائے_ اے زبان اپنے اور میرے اوپر رحم کر اور نافرمانی سے ہاتھ اٹھالے کیونکہ تیرے سب کہے ہوئے اعمال کو خزانہ اور دفتر میں لکھا جاتا ہے اور قیامت کے دن ان کا مجھے جواب دینا ہوگا_ اس ذریعے سے زبان سے وعدہ لیں کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے_ اس کے بعد اسے وہ نیک اعمال جو زبان بجالاسکتی ہے_ بتلائے جائیں اور اسے مجبور کریں کہ وہ ان کو سارے دن میں بجالائے مثلاً اس سے کہیں کہ تو فلان ذکر اور کام سے اپنے اعمال کے دفتر اور خزانے کو نور اور سرور سے پر کردے اور آخرت کے جہاں میں اس کا نتیجہ حاصل کر اور اس سے غفلت نہ کر کہ پیشمان ہوجائیگی_ اسی طرح سے یہ ہر ایک عضو سے گفتگو کرے اور وعدہ لے کہ گناہوں کا ارتکاب نہ کریں اور نیک اعمال انجام دیں_

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ '' جب رات ہوتی ہے تو رات اس طرح کی آواز دیتی ہے کہ جسے سوائے جن اور انسان کے تمام موجودات اس کی آواز کو سنتے ہیں وہ آواز یوں دیتی ہے_ اے آدم کے فرزند میں نئی مخلوق ہوں جو کام مجھ میں انجام دیئے جاتے ہیں_ میں اس کی گواہی دونگی مجھ سے فائدہ اٹھاؤ میں سورج نکلنے کے بعد پھر اس دنیا میں نہیں آؤنگی تو پھر مجھ سے اپنی نیکیوں میں اضافہ نہیں کرسکے گا اور نہ ہی اپنے گناہوں سے توبہ کرسکے گا اور جب رات چلی جاتی ہے اور دن نکل آتا ہے تو دن بھی اسی طرح کی آواز دیتا ہے_(۲۹۸)

ممکن ہے کہ نفس امارہ اور شیطان ہمیں یہ کہے کہ تو اس قسم کے پروگرام پرتو عمل نہیں کرسکتا مگر ان قیود اور حدود کے ہوتے ہوئے زندگی کی جاسکتی ہے؟ کیا ہر روز ایک گھڑی اس طرح کے حساب کے لئے معین کیا جاسکتی ہے؟ نفس امارہ اور شیطن

۱۵۴

اس طرح کے وسوسے سے ہمیں فریب دینا چاہتا ہے اور ہمیں حتمی ارادہ سے روکنا چاہتاہے_ ضروری ہے کہ اس کے مقابلے کے لئے ڈٹ جانا چاہئے اور اسے کہیں کہ اس طرح کا پروگرام پوری طرح سے قابل عمل ہے اور یہ روزمرہ کی زندگی سے کوئی منافات نہیں رکھتا اور چونکہ یہ میرے نفس کے پاک کرنے اور اخروی سعادت کے لئے ضروری ہے لہذا مجھے یہ انجام دینا ہوگا اور اتنا مشکل بھی نہیں ہے _ تو اے نفس ارادہ کر لے اور عزم کر لے یہ کام آسان ہوجائیگا اور اگر ابتداء میں کچھ مشکل ہو تو آہستہ آہستہ عمل کرنے سے آسان ہوجائیگا_

۲_ مراقبت

جب انسان اپنے نفس سے مشارطہ یعنی عہد لے چکے تو پھر اس کے بعد ان عہد پر عمل کرنے کا مرحلہ آتا ہے کہ جسے مراقبت کہا جاتا ہے لہذا تمام دن میں تمام حالات میں اپنے نفس کی مراقبت اور محافظت کرتے رہیں کہ وہ وعدہ اور عہد جو کر رکھا ہے اس پر عمل کریں_ انسان کو تمام حالات میں بیدار اور مواظب رہنا چاہئے اور خدا کو ہمیشہ حاضر اور ناظر جانے اور کئے ہوئے وعدے کو یاد رکھے کہ اگر اس نے ایک لحظہ بھی غفلت کی تو ممکن ہے کہ شیطن اور نفس امارہ اس کے ارادے میں رخنہ اندازی کرے اور کئے وعدہ پر عمل کرنے سے روک دے امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' عاقل وہ ہے جو ہمیشہ نفس کے ساتھ جہاد میں مشغول رہے اور اس کی اصلاح کی کوشش کرتارہے اور اس ذریعے اسے اپنے ملکیت میں قرار دے عقلمند انسان نفس کو دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے مشغول رکھنے سے پرہیز کرنے والا ہوتا ہے_(۲۹۹)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' نفس پر اعتماد کرنا اور نفس سے خوش بین ہونا شیطن کے لئے بہترین موقع فراہم کرتا ہے_(۳۰۰) نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص نفس کے اندر سے روکنے والا رکھتا ہو تو خداوند عالم کی طرف سے بھی اسکے لئے محافظت کرنے والا معین کیا جاتا ہے_(۳۰۱)

جو انسان اپنے نفس کا مراقب ہے وہ ہمیشہ بیدار اور خدا کی یاد میں ہوتا ہے وہ

۱۵۵

اپنے آپ کو ذات الہی کے سامنے حاضر دیکھتا ہے کسی کام کو بغیر سوچے سمجھے انجام نہیں دیتا اگر کوئی گناہ یا نافرمانی اس کے سامنے آئے تو فورا اسے اللہ اور قیامت کے حساب و کتاب کی یاد آجاتی ہے اور وہ اسے چھوڑ دیتا ہے اپنے کئے ہوئے عہد اور پیمان کو نہیں بھلاتا اسی ذریعے سے اپنے نفس کو ہمیشہ اپنی ملکیت اور کنٹرول میں رکھتا ہے اور اپنے نفس کو برائیوں اور ناپاکیوں سے روکے رکھتا ہے ایسا کرنا نفس کو پاک کرنے کا ایک بہترین وسیلہ ہے اس کے علاوہ جو انسان مراقبت رکھتا ہے وہ تمام دن واجبات اور مستحبات کی یاد میں رہتا ہے اور نیک کام اور خیرات کے بجالانے میں مشغول رہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ نماز کو فضیلت کے وقت میں خضوع اور خشوع اور حضور قلب سے اس طرح بجالائے کہ گویا اس کے عمر کی آخری نماز ہے_ ہر حالت اور ہر کام میں اللہ کی یاد میں ہوتا ہے فارغ وقت بیہودہ اور لغویات میں نہیں کاٹتا اور آخرت کے لئے ان اوقات سے فائدہ اٹھاتا ہے وقت کی قدر کو پہچانتا ہے اور ہر فرصت سے اپنے نفس کے کام کرنے میں سعی اور کوشش کرتا ہے اور جتنی طاقت رکھتا سے مستحبات کے بجا لانے میں بھی کوشش کرتا ہے کتنا ہی اچھا ہے کہ انسان بعض اہم مستحب کے بجالانے کی عادت ڈالے _ اللہ تعالی کا ذکر اور اس کی یاد تو انسان کے لئے ہر حالت میں ممکن ہوا کرتی ہے_ سب سے مہم یہ ہے کہ انسان اپنے روز مرہ کے تمام کاموں کو قصد قربت اور اخلاص سے عبادت اور سیر و سلوک الی اللہ کے لئے قرار دے دے یہاں تک کہ خورد و نوش اور کسب کار اور سونا اور جاگنا نکاح اور ازدواج اور باقی تمام مباح کاموں کو نیت اور اخلاص کے ساتھ عبادت کی جزو بنا سکتا ہے_ کار و بار اگر حلال روزی کمانے اور مخلوق خدا کی خدمت کی نیت سے ہو تو پھر یہ بھی عبادت ہے_ اسی طرح کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا سونا اور جاگنا اگر زندہ رہنے اور اللہ کی بندگی کے لئے قرا ردے تو یہ بھی عبادت ہیں_ اللہ کے مخصوص بندے اسی طرح تھے اور ہیں_

۳_ اعمال کا حساب

تیسرا مرحلہ اپنے ہر روز کے اعمال کا حساب کرنا ہے ضروری ہے انسان دن میں

۱۵۶

ایک وقت اپنے سارے دن کے اعمال کے حساب کرنے کے لئے معین کرلے اور کتنا ہی اچھا ہے کہ یہ وقت رات کے سونے کے وقت ہو جب کہ انسان تمام دن کے کاموں سے فارغ ہوجاتا ہے اس وقت تنہائی میں بیٹھ جائے اور خوب فکر کرے کہ آج سارا دن اس نے کیا کیا ہے ترتیب سے دن کی پہلی گھڑی سے شروع کرے اور آخر غروب تک ایک ایک چیز کا دقیق حساب کرے جس وقت میں اچھے کاموں اور عبادت میں مشغول رہا ہے تو خداوند عالم کا اس توفیق دینے پر شکریہ ادا کرے اور ارادہ کر لے کہ اسے بجالاتا رہے گا_ اور جس میں وقت گناہ اور معصیت کا ارتکاب کیا ہے تو اپنے نفس کو سرزنش کرے اور نفس سے کہے کہ اے بدبخت اور شقی تو نے کیا کیا ہے؟ کیوں تو نے اپنے نامہ اعمال کو گناہ سے سیاہ کیا ہے؟ قیامت کے دن خدا کا کیا جواب دے گا؟ خدا کے آخرت میں دردناک عذاب سے کیا کرے گا؟ خدا نے تجھے عمر اور صحت اور سلامتی اور موقع دیا تھا تا کہ آخرت کے لئے زاد راہ مہیا کرے تو اس نے اس کی عوض اپنے نامہ اعمال کوگناہ سے پر کر دیا ہے_ کیا یہ احتمال نہیں دیتا تھا کہ اس وقت تیری موت آپہنچے؟ تو اس صورت میں کیا کرتا؟ اے بے حیا نفس _ کیوں تو نے خدا سے شرم نہیں کی؟

اے جھوٹے اور منافق _ تو تو خدا اور قیامت پر ایمان رکھنے کا ادعا کرتا تھا کیوں تو کردار میں ایسا نہیں ہوتا_ پھر اس وقت توبہ کرے اور ارادہ کر لے کہ پھر اس طرح کے گناہ کا ارتکاب نہیں کرے گا اور کزرے ہوئے گناہوں کا تدارک کرے گا_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اپنے نفس کو گناہوں اور عیوب پر سرزنش کرے تو وہ گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کر لے گا_( ۳۰۲)

اگر انسان محسوس کرے کہ نفس سرکش اور نافرمانی کر رہا ہے اور گناہ کے ترک کرنے اور توبہ کرنے پر حاضر نہیں ہو رہا تو پھر انسان کو بھی نفس کا مقابلہ کرنا چاہئے اور اس پر سختی سے پیش آنا چاہئے اس صورت میں ایک مناسب کام کو وسیلہ بنائے مثلا

۱۵۷

اگر اس نے حرام مال کھایا ہے یا کسی دوسری نافرمانی کو بجالایا ہے تو اس کے عوض کچھ مال خدا کی راہ میں دے دے یا ایک دن یا کئی دن روزہ رکھ لے_ تھوڑے دنوں کے لئے لذیز غذا یا ٹھنڈا، پانی، پینا، چھوڑدے، یا دوسرے لذائذ کے جسے نفس چاہتا ہے اس کے بجالانے سے ایک جائے یا تھوڑے سے وقت کے لئے سورج کی گرمی میں کھڑا ہو جائے بہرحال نفس امارہ کے سامنے سستی اور کمزوری نہ دکھلائے ور نہ وہ مسلط ہوجائیگا اور انسان کو ہلاکت کی وادی میں جا پھینکے گا اور اگر تم اس کے سامنے سختی اور مقابلہ کے ساتھ پیش آئے تو وہ تیرا مطیع اور فرمانبردار ہوجائیگا اگر کسی وقت میں نہ کوئی اچھا کام انجام دیا ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہو تو پھر بھی نفس کو سرزنش اور ملامت کرے اور اسے کہے کہ کس طرح تم نے عمر کے سرمایہ کو ضایع کیا ہے؟ تو اس وقت نیک عمل بجالا سکتا تھا اور آخرت کے لئے زاد راہ حاصل کر سکتا تھا کیوں نہیں ایسا کیا اے بدبخت نقصان اٹھانے والے کیوں ایسی گران قدر فرصت کو ہاتھ سے جانے دیا ہے_ اس دن جس دن پشیمانی اور حسرت فائدہ مند نہ ہوگی پشیمان ہوگا_ اس طریقے سے پورے وقت جیسے ایک شریک دوسرے شریک سے کرتا ہے اپنے دن رات کے کاموں کو مورد دقت اور مواخذہ قرار دے اگر ہو سکے تو اپنے ان تمام کے نتائج کو کسی کاپی میں لکھ کے_ بہرحال نفس کے پاک و پاکیزہ بنانے کے لئے مراقبت اور حساب ایک بہت ضروری اور فائدہ مند کام شمار ہوتا ہے جو شخص بھی سعادت کا طالب ہے اسے اس کو اہمیت دینی چاہئے گرچہ یہ کام ابتداء میں مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر ارادہ اور پائیداری کر لے تو یہ جلدی آسان اور سہل ہوجائیگا اور نفس امارہ کنٹرول اور زیر نظر ہوجائیگا_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ میں تمہیں عقلمندوں کا عقلمند اور احمقوں کا حق نہ بتلاؤں؟ عرض کیا گیا یا رسول اللہ(ص) _ فرمایئے آپ نے فرمایا سب سے عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے نفس کا حساب کرے اور مرنے کے بعد کے لئے نیک عمل بجالائے اور سب سے احمق وہ ہے کہ جو خواہشات نفس کی پیروی کرے اور دور دراز خواہشوں میں سرگرم ہے_ اس آدمی نے عرض کی_ یا رسول اللہ(ص) _ کہ

۱۵۸

انسان کس طرح اپنے نفس کا حساب کرے؟ آپ (ص) نے فرمایا جب دن ختم ہوجائے اور رات ہوجائے تو اپنے نفس کی طرف رجوع کرے اور اسے کہے اے نفس آج کا دن بھی چلا گیا اور یہ پھر لوٹ کے نہیں آئیگا خداوند عالم تجھ سے اس دن کے بارے میں سوال کرے گا کہ اس دن کو کن چیزوں میں گذرا ہے اور کونسا عمل انجام دیا ہے؟ کیا اللہ کا ذکر اور اس کی یاد کی ہے؟ کیا کسی مومن بھائی کا حق ادا کیا ہے؟ کیا کسی مومن بھائی کا غم دور کیا ہے؟ کیا اس کی غیر حاضری میں اس کے اہل و عیال کی سرپرستی کی ہے؟ کیا کسی مومن بھائی کی غیبت سے دفاع کیا ہے؟ کیا کسی مسلمان کی مدد کی ہے؟ آج کے دن کیا کیا ہے_ اس دن جو کچھ انجام دیا ہوا ایک ایک کو یاد کرے اگر وہ دیکھے کہ اس نے نیک کام انجام دیئے ہیں تو خداوند عالم کا اس نعمت اور توفیق پر شکریہ ادا کرے اور اگر دیکھے کہ اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور نافرمانی بجالایا ہے تو توبہ کرے اور ارادہ کرلے کہ اس کے بعد گناہوں کا ارتکاب نہیں کرے گا_ اور پیغمبر اور اس کی آل پر درود بھیج کر اپنے نفس کی کثافتوں کو اس سے دور کرے اور امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت اور بیعت کو اپنے نفس کے سامنے پیش کرے اور آپ کے دشمنوں پر لعنت بھیجے اگر اس نے ایسا کرلیا تو خدا اس سے کہے گا کہ '' میں تم سے قیامت کے دن حساب لینے سے سختی نہیں کرونگا کیونکہ تو میرے اولیاء کیساتھ محبت رکھتا تھا اور ان کے د شمنوں سے دشمنی رکھتا تھا_(۳۰۳)

امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' وہ ہم میں سے نہیں ہے جو اپنے نفس کا ہر روز حساب نہیں کرتا اگر وہ اچھے کام انجام دے تو خداوند عالم سے زیادہ توفیق دینے کو طلب کرے اور اگر نافرمانی اور معصیت کا ارتکاب کیا ہو تو استعفا اور توبہ کرے_(۳۰۴)

پیغمبر علیہ السلام نے ابوذر سے فرمایا کہ '' غقلمند انسان کو اپنا وقت تقسیم کرنا چاہیئے ایک وقت خداوند عالم کے ساتھ مناجات کرنے کے لئے مخصوص کرے_ اور ایک

۱۵۹

وقت اپنے نفس کے حساب لینے کے لئے مختص کرلے اور ایک وقت ان چیزوں میں غور کرنے ے لئے جو خداوند عالم نے اسے عنایت کی ہیں مخصوص کردے_(۳۰۵)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنے نفس سے اس کے کردار اور اعمال کے بارے میں حساب لیا کرو اس سے واجبات کے ادا کرنے کا مطالبہ کرو اور اس سے چاہو کہ اس دنیا فانی سے استفادہ کرے اور آخرت کے لئے زاد راہ اور توشہ بھیجے اور اس سفر کے لئے قبل اس کے کہ اس کے لئے اٹھائے جاو امادہ ہوجاؤ_(۳۰۶)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایاکہ '' انسان کے لئے کتنا ضروری ہے کہ ایک وقت اپنے لئے معین کرلے جب کہ تمام کاموں سے فارغ ہوچکا ہو_ اس میں اپنے نفس کا حساب کرے اور سوچے کہ گذرے ہوئے دن اور رات میں کونسے اچھے اور فائدہ مند کام انجام دیئے ہیں اور کونسے برے نقصان دینے والوں کاموں کو بجالایا ہے_(۳۰۷)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنے نفس سے جہاد کر اور اس سے ایک شریک کے مانند حساب کتاب لے اور ایک قرض خواہ کی طرح اس سے حقوق الہی کے ادا کرنے کا مطالبہ کرے کیونکہ سب سے زیادہ سعادتمند انسان وہ ہے کہ جو اپنے نفس کے حساب کے لئے آمادہ ہو_(۳۰۸)

علی علیہ السلام نے فرمایا کہ '' کہ جو شخص اپنے نفس کا حساب کرے تو وہ اپنے عیبوں سے آگاہ ہوجاتا ہے اور اپنے گناہوں کو جان جاتا ہے اور ان سے توبہ کرتا ہے اور اپنے عیبوں کی اصلاح کرتا ہے_(۳۰۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اس سے پہلے کہ قیامت کے دن تمہارا حساب لیا جائے تم اس دنیا میں اپنا حساب خود کرلو کیونکہ قیامت کے دن پچاس مقامات پر بندوں کا حساب لیا جائیگا اور ہر ایک مقام میں ہزار سال تک اس کا حساب لیا جاتا رہیگا_ آپ نے اس کے بعد یہ آیت پڑھی وہ دن کہ جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی_(۳۱۰)

اس بات کی یاد دھانی بہت ضروری ہے کہ انسان نفس کے حساب کے وقت خود

۱۶۰