خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس11%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122442 / ڈاؤنلوڈ: 5520
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

خدا کے خوف نے ان کو اس تیر کی مانند کر دیا ہے کہ جسے چھیلا جائے اور لاغر اور کمزور کر دیا ہے_ انہیں دیکھنے والے گمان کرتے ہیں کہ وہ بیمار ہیں جب کہ وہ بیمار نہیں ہیں_ کہا جاتا ہے کہ دیوانے ہیں جب کہ وہ دیوانے نہیں ہیں بلکہ قیامت جیسی عظیم چیز میں فکر کرنے نے ان کو اپنے آپ سے بے خود کر دیا ہے_

اپنے تھوڑے عمل پر راضی نہیں ہوتے اور زیادہ عمل کو زیادہ نہیں سمجھتے_ اپنی روح اور نفس کو اس گمان میں کہ وہ اطاعت میں کوتاہی کر رہے ہیں متہم کرتے ہیں اور اپنے اعمال سے خوف اور ہراس میں ہوتے ہیں_ جب ان میں سے کسی کی تعریف کی جائے تو جو اس کے بارے میں کہا گیاہے اس سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو دو سروں سے بہتر پہچانتے ہیں اوراللہ تعالی ہم سے زیادہ آگاہ اور باخبر ہے_ خدایا جو کچھ ہمارے بارے میں کہا گیا ہے اس پر ہمارا مواخذہ نہ کرنا اور اس سے بالاتر قرار دے جو وہ گمان کرتے ہیں اور ان گناہوں کو جو دوسرے نہیں جانتے بخش دے_

اہل تقوی کی نشانی یہ ہے کہ تو اسے دینی معاملہ میں نرمی اور دور اندیشی کے ساتھ قوی دیکھے گا اوریقیین میں با ایمان اور مضبوط _ علم کے حصول میں حریص بردباری میں دانشمند مالدار ہوتے ہوئے_ میانہ روی، عبادت باخشوع اور فقر میں آبرو مند اور با وقار_ سختیوں میں صبر کرنے والے _ حلال روزی کے حاصل میں کوشش کرنے وال_ ہدایت کے طلب کرنے میں علاقمندی_ طمع سے دور اور سخت جان_ نیک کام کرنے کے باوجود خوف زدہ ہیں_ رات کے وقت شکرانہ ادا کرنے میں ہمت باندھتے ہیں اور دن میں ذکر اور خدا کی یاد کو اہمیت دینے والے_ رات کو اس ڈر سے کہ شاید غفلت برتی ہو خوف زدہ_ دن کو اللہ تعالی کے فضل و کرم و رحمت کیوجہ سے خوشحال_ اگر نفس نے کہ جسد وہ پسند نہیں کرتا سختی برتی تو وہ بھی س کے بدلے جسے نفس پسند کرتا ہے بجا نہیں لاتے _ اس کا رابط اور علاقمند نیک کاموں سے ہوتا ہے اور فنا ہوتے والی دنیاوی چیز کی طرف میلان نہیں رکھتے_ تحمل اور بردباری کو عقلمندی سے اور گفتار

۱۴۱

کو کردار کے ساتھ ملاتے ہے_ اسے دیکھے گا کہ اس کی خواہشات تھوڑی اور اس کی خطائیں بھی کم_ دل خشوع کرنے والا اور نفس قناعت رکھنے والا_ اس کی خوراک تھوڑی اور اسے کام آسان اس کا دین محفوظ اور اس کی نفسانی خواہشات ختم ہوچکی ہیں اور غصہ بیٹھ چکا ہے_ لوگ اس کے احسان اور نیکی کی امید رکھتے ہیں اور اس کے شر سے امن و امان میں ہیں اگر لوگوں میں غافل اور بے خبر نظر آ رہا ہو تو وہ اللہ تعالی کے ذکر کرنے والا شمار ہو رہا ہو گا اور اگر ذکر کرنے والوں میں موجود ہوا تو وہ غفلت کرنے والوں میں شمار نہیں ہوگا_

گالیاں دینے سے پرہیز کرتا ہے نرمی سے بات کرتا ہے_ برے کام اس سے نہیں دیکھے جاتے اور نیک کاموں میں ہر جگہ حاضر ہوتا ہے_ خیرات اور نیکی کی طرف قدم بڑھانے والا اور برائیوں سے بھاگ جانے والا ہوتا ہے_ سختیوں میں باوقار اور مصیبتوں میں صبر کرنے والا آرام اور آسائشے میں شکر گزار جو اس کے نزدیک مبغوض ہے اس پر ظلم نہیں کرتا _ جس کو دوست رکھتا ہے اس کے لئے گناہ نہیں کرتا گواہوں کی گواہی دینے سے پہلے حق کا اقرار کر لیتا ہے_ جسے حفظ کر لیا ہے اسے ضائع نہیں کرتا اور جو اسے بتلایا جائے اسے نہیں بھلاتا _ کسی کو برے لقب سے نہیں بلاتا_ ہمسایہ کو نقصان نہیں پہنچاتا_ لوگوں پر جب مصیبتیں ٹوٹ پڑیں تو اس سے خوشی نہیں کرتا_ باطل کے راستے میں قدم نہیں رکھتا اور حق سے خارج نہیں ہوتا_ اگر چپ رہے تو چپ رہنے سے غمگین نہیں ہوتا اگر ہنسے تو ہنسنے کی آواز بلند نہیں ہوتی اور اگر اس پر ظلم کیا جائے تو صبر کرتا ہے تا کہ اس کا انتقام اس کے لئے لے لے_ اس کا نفس اس کی طرف سے سختی میں ہوتا ہے لیکن لوگوں کے نفس اس کی طرف سے آرام اور آسائشے میں ہوتے ہیں آخروی کاموں کے لئے اپنے نفس کو سختیوں میں ڈالتا ہے اور لوگوں کو اپنی جانب سے آرام اور آسائشے پہنچاتا ہے_ اس کا کسی سے دور ہوجانا زہد اور عفت کی وجہ سے ہوتا ہے اور کسی سے نزدیک ہونا خوش خلقی اور مہربانی سے ہوتا ہے دور ہونا تکبر اور خودخواہی کیوجہ سے نہیں ہوتا اور نزدیک ہونا مکرر اور فریب

۱۴۲

سے نہیں ہوتا_

راوی کہتا ہے کہ جب امیر المومنین کی کلام اس جگہ پہنچی تو ہمام نے ایک چیخ ماری اور بیہوش ہوگیا_ اور اپنی روح خالق روح کے سپرد کردی_ آنحضرت(ع) نے فرمایا ہیں '' اس طرح کی پیش آمد کیوجہ سے اس کے بارے میں خوف زدہ تھا_آپ نے اس کے بعد فرمایا لائق افراد میں وعظ اس طرح کا اثر کرتے ہیں_(۲۷۳)

۱۴۳

نفس پر کنٹرول کرنے اور اسے پاک کرنے کا اہم سبب مراقبت ہوتا ہے

اپنے آپ کو بنانے او رسنوار نے اور نفس کو پاک کرنے کا ایک اہم سبب نفس پر مراقبت اور توجہ رکھنا ہوتا ہے_ جو انسان اپنی سعادت کے متعلق سوچنا اور فکر رکھتا ہو وہ برے اخلاق اور نفسانی بیماریوں سے غافل نہیں رہ سکتا بلکہ اسے ہر وقت اپنے نفس پر توجہہ رکھنی چاہئے اور تمام اخلاق اور کردار ملکات اور افکار کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہئے اور اس پر پوری نگاہ رکھے_ ہم اس مطلب کو کئی ایک مطالب کے ضمن میں بیان کرتے ہیں_

اعمال کا ضبط کرنا اور لکھنا

قرآن اور احادیث پیغمبر اور اہلبیت علیہم السلام سے معلوم ہوتا کہ انسان کے تمام اعمال حرکات گفتار سانس لینا افکار اور نظریات نیت تمام کے تمام نامہ اعمال میں ضبط اور ثبت کئے جاتے ہیں اور قیامت تک حساب دینے کے لئے باقی رہتے ہیں اور ہر ایک انسان قیامت کے دن اپنے اچھے برے اعمال کی جزا اور سزا دیا جائیگا جیسے خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' قیامت کے دن لوگ گروہ در گروہ خارج ہونگے تا کہ وہ اپنے اعمال کو دیکھ لیں جس نے ایک ذرا بھر نیکی انجام دی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور

۱۴۴

جس نے ذرا بھر برائی انجام دی ہوگی اسے دیکھے گا_(۲۷۴)

نیز فرماتا ہے کہ '' کتاب رکھی جائیگی مجرموں کو دیکھے گا کہ وہ اس سے جو ان کے نامہ اعمال میں ثبت ہے خوف زدہ ہیں اور کہتے ہونگے کہ یہ کیسی کتاب ہے کہ جس نے تمام چیزوں کو ثبت کر رکھا ہے اور کسی چھوٹے بڑے کام کو نہیں چھوڑااپنے تمام اعمال کو حاضر شدہ دیکھیں گے تیرا خدا کسی پر ظلم نہیں کرتا_(۲۷۵)

خدا فرماتا ہے ''قیامت کے دن جس نے جو عمل خیر انجام دیا ہوگا حاضر دیکھے گا اور جن برے عمل کا ارتکاب کیا ہوگا اسے بھی حاضر پائیگا اور آرزو کرے گا کہ اس کے اور اس کے عمل کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہوتا_(۲۷۶)

خدا فرماتا ہے '' کوئی بات زبان پر نہیں لاتا مگر اس کے لکھنے کے لئے فرشتے کو حاضر اور نگاہ کرنے والا پائے گا_(۲۷۷)

اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کے تمام اعمال اور کردار حرکات اور گفتار یہاں تک کہ افکار اور نظریات سوچ اور فکر لکھے جاتے ہیں تو پھر ہم کس طرح ان کے انجام دینے سے غافل رہ سکتے ہیں؟

قیامت میں حساب

بہت زیادہ آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن بہت زیادہ وقت سے بندوں کا حساب لیا جائیگا_ بندوں کے تمام اعمال چھوٹے بڑے کا حساب لیا جائیگا اور معمولی سے معمولی کام سے بھی غفلت نہیں کی جائیگی جیسے خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' عدالت کے ترازو کو قیامت کے دن نصب کیا جائیگا اور کسی طرح ظلم نہیں کیا جائیگا اگر خردل کے دانہ کے ایک مثقال برابر عقل کیا ہوگا تو اسے بھی حساب میں لایا جائیگا او رخود ہم حساب لینے کے لئے کافی ہیں_(۲۷۸)

نیز فرماتا ہے '' جو کچھ باطن اور اندر میں رکھتے ہو خواہ اسے ظارہ کرو یا چھپائے رکھو خدا تم سے اس کا بھی حساب لے گا_(۲۷۹)

۱۴۵

نیز خدا فرماتا ہے '' اعمال کا وزن کیا جانا قیامت کے دن حق کے مطابق ہوگا جن کے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ نجات پائیں گے اور جن کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہوگا تو انہوں نے اپنے نفس کو نقصان پہنچایا ہے اس لئے کہ انہوں نے ہماری آیات پر ظلم کیا ہے_(۲۸۰) قرآن مجید میں قیامت کو یوم الحساب کہا گیا ہے اور خدا کو سریع الحساب یعنی بہت جلدی حساب لینے والا کہا گیا ہے_

آیات اور بہت زیادہ روایات کی رو سے ایک سخت مرحلہ جو تمام بندوں کے لئے پیش لانے والا ہے وہ اعمال کا حساب و کتاب اور ان کا تولا جانا ہے_ انسانی اپنی تمام عمر میں تھوڑے تھوڑے اعمال بالاتا ہے اور کئی دن کے بعد انہیں فراموش کر دیتا ہے حالانکہ معمولی سے معمولی کام بھی اس صفحہ ہستی سے نہیں مٹتے بلکہ تمام اس دنیا میں ثبت اور ضبط ہوجاتے ہیں اور انسان کے ساتھ باقی رہ جاتے ہیں گرچہ انسان اس جہان میں بطور کلی ان سے غافل ہی کیوں نہ ہوچکا ہو_ مرنے کے بعد جب اس کی چشم بصیرت روشن ہوگی تو تمام اعمال ایک جگہ اکٹھے مشاہدہ کرے گا اس وقت اسے احساس ہوگا کہ تمام اعمال گفتار اور کردار عقائد اور افکار حاضر ہیں اور اس کے ساتھ موجود ہیں اور کسی وقت اس سے جدا نہیں ہوئے_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' ہر آدمی قیامت کے دن حساب کے لئے محشر میں اس حالت میں آئے گا کہ ایک فرشتہ اسے لے آرہا ہوگا اور وہ اس کے ہر نیک اور بد کا گواہ بھی ہوگا اسے کہا جائے گا تو اس واقعیت اور حقیقت سے غافل تھا لیکن آج تیری باطنی انکھ بینا او روشن ہوگئی ہے_(۲۸۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' قیامت کے دن خدا کا بندہ ایک قدم نہیں اٹھائیگا مگر اس سے چار چیزوں کا سوال کیا جائیگا_ اس کی عمر سے کہ کس راستے میں خرچ کی ہے_ اس کی جوانی سے کہ اسے کس راستے میں خرچ کیا ہے_ اس کے مال سے کہ کس طریقے سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ہے_ اور ہم اہلبیت کی دوستی کے بارے میں سوال کیا جائیگا_(۲۸۲)

۱۴۶

ایک اور حدیث میں پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ '' بندے کو قیامت کے دن حساب کے لئے حاضر کریں گے_ ہر ایک دن کے لئے کہ اس نے دنیا میں زندگی کی ہے_ ہر دن رات کے ہر ساعت کے لئے چوبیس خزانے لائیں گے ایک خزینہ کو کھولیں گے جو نور اور سرور سے پر ہوگا _ خدا کا بندہ اس کے دیکھنے سے اتنا خوشحال ہوگا کہ اگر اس کی خوشحالی کو جہنمیوں کے درمیان تقسیم کیا جائے تو وہ کسی درد اور تکلیف کو محسوس نہیں کریں گے یہ وہ ساعت ہوگی کہ جس میں وہ اللہ تعالی کی اطاعت میں مشغول ہوا تھا_ اس کے بعد ایک دوسرے خزینہ کو کھولیں گے کہ جو تاریک او ربدبو دار وحشت آور ہوگا خدا کا بندہ اس کے دیکھنے سے اس طرح جزع اور فزع کرے گا کہ اگر اسے بہشتیوں میں تقسیم کیا جائے تو بہشت کی تمام نعمتیں ان کے لئے ناگوار ہوجائیں گی یہ وہ ساعت تھی کہ جس میں وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کر رہا تھا_ اس کے بعد اس کے لئے تیسرے خزانہ کو کھولیں گے کہ جو بالکل خالی ہوگا نہ اس میں خوش کرنے والا عمل ہوگا اور نہ غم لانے والا عمل ہوگا یہ وہ ساعت ہے کہ جس میں خدا کا بندہ سویا ہوا تھا یا مباح کاموں میں مشغول ہوا تھا_ خدا کا بندہ اس کے دیکھنے سے بھی غمگین اور افسوس ناک ہوگا کیونکہ وہ اسے دنیا میں اچھے کاموں سے پر کر سکتا تھا اور کوتاہی اور سستی کی وجہ سے اس نے ایسا کیا تھا_ اسی لئے خداوند عالم قیامت کے بارے میں فرماتا ہے کہ یوم التاغبن یعنی خسارے اور نقصان کا دن_(۲۸۳)

قیامت کے دن بندوں کا بطور وقت حساب لیا جائیگا اور انکا انجام معین کیا جائیگا تمام گذرے ہوئے اعمال کا حساب لیا جائے گا_ انسان کے اعضاء اور جوارح پیغمبر اور فرشتے یہاں تک زمین گواہی دے گی بہت سخت حساب ہوگا اور اس پر انسان کا انجام معین کیا جائے گا دل حساب کے ہونے کی وجہ سے دھڑک رہے ہونگے اور بدن اس سے لرزہ باندام ہونگے ایسا خوف ہوگا کہ مائیں اپنے شیرخوار بچوں کو بھول جائیں گی اور حاملہ عورتیں بچے سقط کردیں گی تمام لوگ مضطرب ہونگے کہ ان کا انجام کیا ہوگا کیا ان کے حساب کا نتیجہ اللہ تعالی کی خوشنودی اور آزادی کا پروانہ ہوگا اور پیغمبروں

۱۴۷

اور اولیاء خدا کے سامنے سر خروی اور بہشت میں ہمیشہ کی زندگی ہوگی _ اللہ کے نیک بندوں کی ہمسایگی ہوگی یا اللہ تعالی کا غیظ اور غضب لوگوں کے درمیانی رسوائی اور دوزخ میں ہمیشہ کی زندگی ہوگی_

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بندوں کا حساب ایک جیسا نہیں ہوگا_ بعض انسانوں کا حساب بہت سخت اور مشکل اور طولانی ہوگا_ دوسری بعض کا حساب آسان اور سادہ ہوگا_ حساب مختلف مراحل میں لیا جائیگا_ اور ہر مرحلہ اور متوقف میں ایک چیز سے سوال کیا جائے گا سب سے زیادہ سخت مرحلہ اور موقف مظالم کا ہوگا اس مرحلہ میں حقوق الناس اور ان پر ظلم اور جور سے سوال کیا جائیگا اس مرحلہ میں پوری طرح حساب لیا جائیگا اور ہر ایک انسان اپنا قرض دوسرے قرض خواہ کو ادا کرے گا_ جائے تاسف ہے کہ وہاں انسان کے پاس مال نہیں ہوگا کہ وہ قرض خواہوں کا قرض ادا کر کرسکے ناچار اس کو اپنی نیکیوں سے ادا کرے گا اگر اس کے پاس نیکیاں ہوئیں تو ان کو لے کر مال کے عوض قرض خواہوں کو ادا کرے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو قرض خواہوں کی برائیوں کو اس کے نام اعمال میں ڈال دیا جائیگا بہرحال وہ بہت سخت د ن ہوگا_ خداوند عالم ہم تمام کی فریاد رسی فرمائے_ آمین_

البتہ حساب کی سختی اور طوالت تمام انسانوں کے لئے برابر نہ ہوگی بلکہ انسان کی اچھائیوں اور برائیوں کے حساب سے فرق کرے گی لیکن خدا کے نیک اور متقی اور لائق بندوں کے لئے حساب تھوڑی مدت میں اور آسان ہوگا_ پیغمبر اکرم نے اس شخص کے جواب میں کہ جس نے حساب کے طویل ہونے کے بارے میں سوال کیا تھا_ فرمایا_ ''خدا کی قسم کہ مومن پر اتنا آسان اور سہل ہوگا کہ واجب نماز کے پڑھنے سے بھی آسانتر ہوگا_( ۲۸۴)

قیامت سے پہلے اپنا حساب کریں

جو شخص قیامت حساب اور کتاب اور اعمال اور جزاء اور سزا کا عقیدہ اور ایمان

۱۴۸

رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ تمام اعمال ضبط اور ثبت ہو رہے ہیں اور قیامت کے دن بہت وقت سے انکا حساب لیا جائے گا اور ان کی اچھی یا بری جزاء اور سزا دی جائیگی وہ کس طرح اپنے اعمال اور کردار اور اخلاق سے لا پرواہ اور بے تغاوت نہیں ہوسکتا ہے؟ کیا وہ یہ نہ سوچے کہ دن اور رات ماہ اور سال اور اپنی عمر میں کیا کر رہا ہے؟ اور آخرت کے لے کونسا زاد راہ اور توشہ بھیج رہا ہے؟ ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ ہم اسی دنیا میں اپنے اعمال کا حساب کرلیں اور خوب غور اور فکر کریں کہ ہم نے ابھی تک کیا انجام دیا ہے اور کیا کر رہے ہیں؟ حساب کرلیں اورخوب غور اور فکر کریں کہ ہم نے ابھی تک کیا انجام دیا ہے اور کیا کر رہے ہیں؟ بعینہ اس عقلمند تاجر کی طرح جو ہر روز اور ہر مہینے اور سال اپنی آمدن خرچ کا حساب کرتا ہے کہ کہیں اسے نقصان نہ ہوجائے اور اس کا سرمایہ ضائع نہ ہوجائے_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اس سے پہلے کہ تمہارا قیامت کے دن حساب لیا جائے اسی د نیا میں اپنے اعمال کو ناپ تول لو_(۲۸۵) حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اسی دنیا میں اپنا حساب کرلے وہ فائدہ میں رہے گا_(۲۸۶)

امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہر روز اپنا حساب نہیں کرتا اگر اس نے نیک کام انجام دیئے ہوں تو اللہ تعالی سے اور زیادہ کی توفیق طلب کرے اور اگر برے کام انجام دیئے ہوں تو استغفار اور توبہ کرے_(۲۸۷)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو اپنے آپ کا جساب کرلے وہ فائدہ میں ہوگا اور جو اپنے حساب سے غافل ہوگا وہ نقصان اٹھائیگا_ جو اس دنیا میں ڈرے وہ قیامت کے دن امن میں ہوگا اور جو نصیحت حاصل کرے وہ آگاہ ہوجائیگا جو شخص دیکھے وہ سمجھے گا اور جو سمجھے گا وہ دانا اور عقلمند ہوجائیگا_(۲۸۸)

پیغمبر اکرم نے جناب ابوذر سے فرمایا '' اے ابوذر اس سے پہلے کہ تیرا حساب قیامت میں لیا جائے تو اپنا حساب اسی دنیا میں کرلے کیونکہ آج کا حساب آخرت کے حساب سے زیادہ آسان ہے اپنے نفس کو قیامت کے دن وزن کئے جانے سے پہلے اسی

۱۴۹

دنیا میں وزن کرلے اور اسی وسیلے سے اپنے آپ کو قیامت کے دن کے لئے کہ جس دن تو خدا کے سامنے جائے گا اور معمولی سے معمولی چیز اس ذات سے مخفی نہیں ہے آمادہ کرلے_ آپ نے فرمایا اے آباذر انسان متقی نہیں ہوتا مگر یہ کہ وہ اپنے نفس کا حساب اس سے بھی سخت جو ایک شریک دوسرے شریک سے کرتا ہے کرے انسان کو خوب سوچنا چاہئے کہ کھانے والی پینے والی پہننے والی چیزیں کس راستے سے حاصل کر رہا ہے_ کیا حلال سے ہے یا حرام سے؟ اے اباذر جو شخص اس کا پابند نہ ہو کہ مال کو کس طریقے سے حاصل کر رہا ہے خدا بھی پرواہ نہیں کرے گا کہ اسے کس راستے سے جہنم میں داخل کرے_(۲۸۹)

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' اے آدم کی اولاد تو ہمیشہ خیر و خوبی پر ہوگا جب تک اپنے نفس میں وعظ کرنے والا رکھے رہے گا اور اپنے نفس کے حساب کرتے رہنے کا پابند رہے گا اور اللہ کا خوف تیرا ظاہر ہوا اور محزون ہونا تیرا باطن ہو_ اے آدم کا فرزند تو مرجائیگا اور قیامت کے دن اٹھایا جائیگا اور اللہ تعالی اور اللہ کے عدل کے ترازو کے سامنے حساب کے لئے حاضر ہوگا لہذا قیامت کے دن حساب دینے کے لئے آمادہ ہوجاؤ_(۲۹۰)

انسان اس جہان میں تاجر کی طرح ہے کہ اس کا سرمایہ اس کی محدود عمر ہے یعنی یہی دن اور رات ہفتے اور مہینے اور سال_ یہ عمر کا سرمایہ ہو نہ ہو خرچ ہو کر رہے گا_ اور آہستہ آہستہ موت کے نزدیک ہوجائیگا جوانی بڑھاپے میں طاقت کمزوری میں اور صحت اور سلامتی بیماری میں تبدیل ہوجائیگی اگر انسان نے عمر کو نیک کاموں میں خرچ کیا اور آخرت کے لئے توشہ اور زاد راہ بھیجا تو اس نے نقصان اور ضرر نہیں کیا کیونکہ اس نے اپنے لئے مستقبل سعادتمند اور اچھا فراہم کرلیا لیکن اگر اس نے عمر کے گران قدر سرمایہ جوانی اور اپنی سلامتی کو ضائع کیا اور اس کے مقابلے میں آخرت کے لئے نیک عمل ذخیرہ نہ بنایا بلکہ برے اخلاق اور گناہ کے ارتکاب سے اپنے نفس کو کثیف اور آلودہ کیا تو اس نے اتنا بڑا نقصان اٹھایا ہے کہ جس کی تلافی نہیں کی جا

۱۵۰

سکتی_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے '' عصر کی قسم کہ انسان نقصان اور خسارہ میں ہے مگر وہ انسان جو ایمان لائیں اور نیک عمل بجالائیں اور حق اور بردباری کی ایک دوسرے کو سفارش کریں _(۲۹۱)

امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں_ کہ ''عاقل وہ ہے جو آج کے دن میں کل یعنی قیامت کی فکر کرے اور اپنے آپ کو آزاد کرنے کی کوشش کرے اور اس کہ لئے کہ جس سے بھاگ جانا یعنی موت سے ممکن نہیں ہے نیک اعمال انجام دے_(۲۹۲)

نیز آنحضرت فرمایا ہے کہ ''جو شخص اپنا حساب کرے تو وہ اپنے عیبوں کو سمجھ پاتا ہے اور گناہوں کو معلوم کرلیتا ہے اور پھر گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور اپنے عیبوں کی اصلاح کرتا ہے_(۲۹۳)

کس طرح حساب کریں

نفس پر کنٹرول کرنا سادہ اور آسان کام نہیں ہوتا بلکہ سوچ اور فکر اور سیاست بردباری اور حتمی ارادے کا محتاج ہوتا ہے_ کیا نفس امارہ اتنی آسانی سے رام اور مطیع ہوسکتا ہے؟ کیا اتنی سادگی سے فیصلے اور حساب کے لئے حاضر ہوجاتا ہے؟ کیا اتنی آسانی سے حساب دے دیتا ہے؟ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' جس نے اپنے نفس کو اپنی تدبیر اور سیاست کے کنٹرول میں نہ دیا تو اس نے اسے ضائع کردیا ہے_(۲۹۴)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہ جس شخص نے اپنے نفس کا فریب اور دھوکہ دینا مول لے لیا تو وہ اس کو ہلاک میں ڈال دے گا_(۲۹۵)

آنحضرت نے فرمایا ہے کہ ''جس شخص کے نفس میں بیداری اورآگاہی ہو تو خداوند عالم کی طرف سے اس کے لئے نگاہ بان معین کیا جائیگا_(۲۹۶)

نیز آنحضرت(ص) نے فرمایا ہے کہ ''پے در پے جہاد سے اپنے نفس کے مالک بنو

۱۵۱

اور اپنے کنٹرول میں رکھو_( ۲۹۷) نفس کے حساب کو تین مرحلوں میں انجام دیا جائے تا کہ تدریجاً وہ اس کی عادت کرے اور مطیع ہوجائے_

۱۵۲

۱_ مشارطہ اور عہد لینا

نفس کے حساب کو اس طرح شروع کریں دن کی پہلی گھڑی میں ہر روز کے کاموں کے انجام دینے سے پہلے ایک وقت مشارطہ کے لئے معین کرلیں مثال کے طور پر صبح کی نماز کے بعد ایک گوشہ میں بیٹھ جائیں اور اپنے آپ سے گفتگو کریں اور یوں کہیں_ ابھی میںزندہ ہوں لیکن یہ معلوم نہیں کہ کب تک زندہ رہوں گا_ شاید ایک گھنٹہ یا اس کم اور زیادہ زندہ رہونگا_ عمر کا گذرا ہوا وقت ضائع ہوگیا ہے لیکن عمر کا باقی وقت ابھی میرے پاس موجود ہے اور یہی میرا سرمایہ بن سکتا ہے بقیہ عمر کے ہر وقت میں آخرت کے لئے زاد راہ مہیا کرسکتا ہوں اور اگر ابھی میری موت آگئی اور حضرت عزرائیل علیہ السلام میری جان قبض کرنے کے لئے آگئے تو ان سے کتنی خواہش اور تمنا کرتا کہ ایک دن یاایک گھڑی اور میری عمر میں زیادہ کیا جائے؟

اے بیچارے نفس اگر تو اسی حالت میں ہو اور تیری یہ تمنا اور خواہش پوری کر دی جائے اور دوبارہ مجھے دنیا میں لٹا دیا گیا تو سوچ کہ تو کیا کرے گا؟ اے نفس اپنے آپ اور میرے اوپر رحم کر اور ان گھڑیوں کو بے فائدہ ضائع نہ کر سستی نہ کر کہ قیامت کے دن پشیمان ہوگا_

لیکن اس دن پشیمانی اور حسرت کوئی فائدہ نہیں دے گی_ اے نفس تیری عمر کی ہر گھڑی کے لئے خداوند عالم نے ایک خزانہ برقرار کر رکھا ہے کہ اس میں تیرے اچھے اور برے عمل محفوظ کئے جاتے ہیں اور تو ان کا نتیجہ اور انجام قیامت کو دیکھے گا اے نفس کوشش کر کہ ان خزانوں کو نیک اعمال سے پر کردے اور متوجہ رہ کر ان خزانوں کو گناہ اور نافرمانی سے پر نہ کرے_ اسی طرح اپنے جسم کے ہر ہر عضو کو مخاطب کر کے ان سے عہد اور پیمان لیں کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں مثلاً زبان سے کہیں

۱۵۳

جھوٹ، غیبت، چغلخوری، عیب جوئی، گالیاں، بیودہ گفتگو، توہین، ذلیل کرنا، اپنی تعریف کرنا، لڑائی، جھگڑا، جھوٹی گواہی یہ سب کے سب برے اخلاق اور اللہ کی طرف سے حرام کئے گئے ہیں اور انسان کی اخروی زندگی کو تباہ کردینے والے ہیں اے زبان میں تجھے اجازت نہیں دیتا کہ تو ان کو بجالائے_ اے زبان اپنے اور میرے اوپر رحم کر اور نافرمانی سے ہاتھ اٹھالے کیونکہ تیرے سب کہے ہوئے اعمال کو خزانہ اور دفتر میں لکھا جاتا ہے اور قیامت کے دن ان کا مجھے جواب دینا ہوگا_ اس ذریعے سے زبان سے وعدہ لیں کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے_ اس کے بعد اسے وہ نیک اعمال جو زبان بجالاسکتی ہے_ بتلائے جائیں اور اسے مجبور کریں کہ وہ ان کو سارے دن میں بجالائے مثلاً اس سے کہیں کہ تو فلان ذکر اور کام سے اپنے اعمال کے دفتر اور خزانے کو نور اور سرور سے پر کردے اور آخرت کے جہاں میں اس کا نتیجہ حاصل کر اور اس سے غفلت نہ کر کہ پیشمان ہوجائیگی_ اسی طرح سے یہ ہر ایک عضو سے گفتگو کرے اور وعدہ لے کہ گناہوں کا ارتکاب نہ کریں اور نیک اعمال انجام دیں_

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ '' جب رات ہوتی ہے تو رات اس طرح کی آواز دیتی ہے کہ جسے سوائے جن اور انسان کے تمام موجودات اس کی آواز کو سنتے ہیں وہ آواز یوں دیتی ہے_ اے آدم کے فرزند میں نئی مخلوق ہوں جو کام مجھ میں انجام دیئے جاتے ہیں_ میں اس کی گواہی دونگی مجھ سے فائدہ اٹھاؤ میں سورج نکلنے کے بعد پھر اس دنیا میں نہیں آؤنگی تو پھر مجھ سے اپنی نیکیوں میں اضافہ نہیں کرسکے گا اور نہ ہی اپنے گناہوں سے توبہ کرسکے گا اور جب رات چلی جاتی ہے اور دن نکل آتا ہے تو دن بھی اسی طرح کی آواز دیتا ہے_(۲۹۸)

ممکن ہے کہ نفس امارہ اور شیطان ہمیں یہ کہے کہ تو اس قسم کے پروگرام پرتو عمل نہیں کرسکتا مگر ان قیود اور حدود کے ہوتے ہوئے زندگی کی جاسکتی ہے؟ کیا ہر روز ایک گھڑی اس طرح کے حساب کے لئے معین کیا جاسکتی ہے؟ نفس امارہ اور شیطن

۱۵۴

اس طرح کے وسوسے سے ہمیں فریب دینا چاہتا ہے اور ہمیں حتمی ارادہ سے روکنا چاہتاہے_ ضروری ہے کہ اس کے مقابلے کے لئے ڈٹ جانا چاہئے اور اسے کہیں کہ اس طرح کا پروگرام پوری طرح سے قابل عمل ہے اور یہ روزمرہ کی زندگی سے کوئی منافات نہیں رکھتا اور چونکہ یہ میرے نفس کے پاک کرنے اور اخروی سعادت کے لئے ضروری ہے لہذا مجھے یہ انجام دینا ہوگا اور اتنا مشکل بھی نہیں ہے _ تو اے نفس ارادہ کر لے اور عزم کر لے یہ کام آسان ہوجائیگا اور اگر ابتداء میں کچھ مشکل ہو تو آہستہ آہستہ عمل کرنے سے آسان ہوجائیگا_

۲_ مراقبت

جب انسان اپنے نفس سے مشارطہ یعنی عہد لے چکے تو پھر اس کے بعد ان عہد پر عمل کرنے کا مرحلہ آتا ہے کہ جسے مراقبت کہا جاتا ہے لہذا تمام دن میں تمام حالات میں اپنے نفس کی مراقبت اور محافظت کرتے رہیں کہ وہ وعدہ اور عہد جو کر رکھا ہے اس پر عمل کریں_ انسان کو تمام حالات میں بیدار اور مواظب رہنا چاہئے اور خدا کو ہمیشہ حاضر اور ناظر جانے اور کئے ہوئے وعدے کو یاد رکھے کہ اگر اس نے ایک لحظہ بھی غفلت کی تو ممکن ہے کہ شیطن اور نفس امارہ اس کے ارادے میں رخنہ اندازی کرے اور کئے وعدہ پر عمل کرنے سے روک دے امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' عاقل وہ ہے جو ہمیشہ نفس کے ساتھ جہاد میں مشغول رہے اور اس کی اصلاح کی کوشش کرتارہے اور اس ذریعے اسے اپنے ملکیت میں قرار دے عقلمند انسان نفس کو دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے مشغول رکھنے سے پرہیز کرنے والا ہوتا ہے_(۲۹۹)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' نفس پر اعتماد کرنا اور نفس سے خوش بین ہونا شیطن کے لئے بہترین موقع فراہم کرتا ہے_(۳۰۰) نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص نفس کے اندر سے روکنے والا رکھتا ہو تو خداوند عالم کی طرف سے بھی اسکے لئے محافظت کرنے والا معین کیا جاتا ہے_(۳۰۱)

جو انسان اپنے نفس کا مراقب ہے وہ ہمیشہ بیدار اور خدا کی یاد میں ہوتا ہے وہ

۱۵۵

اپنے آپ کو ذات الہی کے سامنے حاضر دیکھتا ہے کسی کام کو بغیر سوچے سمجھے انجام نہیں دیتا اگر کوئی گناہ یا نافرمانی اس کے سامنے آئے تو فورا اسے اللہ اور قیامت کے حساب و کتاب کی یاد آجاتی ہے اور وہ اسے چھوڑ دیتا ہے اپنے کئے ہوئے عہد اور پیمان کو نہیں بھلاتا اسی ذریعے سے اپنے نفس کو ہمیشہ اپنی ملکیت اور کنٹرول میں رکھتا ہے اور اپنے نفس کو برائیوں اور ناپاکیوں سے روکے رکھتا ہے ایسا کرنا نفس کو پاک کرنے کا ایک بہترین وسیلہ ہے اس کے علاوہ جو انسان مراقبت رکھتا ہے وہ تمام دن واجبات اور مستحبات کی یاد میں رہتا ہے اور نیک کام اور خیرات کے بجالانے میں مشغول رہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ نماز کو فضیلت کے وقت میں خضوع اور خشوع اور حضور قلب سے اس طرح بجالائے کہ گویا اس کے عمر کی آخری نماز ہے_ ہر حالت اور ہر کام میں اللہ کی یاد میں ہوتا ہے فارغ وقت بیہودہ اور لغویات میں نہیں کاٹتا اور آخرت کے لئے ان اوقات سے فائدہ اٹھاتا ہے وقت کی قدر کو پہچانتا ہے اور ہر فرصت سے اپنے نفس کے کام کرنے میں سعی اور کوشش کرتا ہے اور جتنی طاقت رکھتا سے مستحبات کے بجا لانے میں بھی کوشش کرتا ہے کتنا ہی اچھا ہے کہ انسان بعض اہم مستحب کے بجالانے کی عادت ڈالے _ اللہ تعالی کا ذکر اور اس کی یاد تو انسان کے لئے ہر حالت میں ممکن ہوا کرتی ہے_ سب سے مہم یہ ہے کہ انسان اپنے روز مرہ کے تمام کاموں کو قصد قربت اور اخلاص سے عبادت اور سیر و سلوک الی اللہ کے لئے قرار دے دے یہاں تک کہ خورد و نوش اور کسب کار اور سونا اور جاگنا نکاح اور ازدواج اور باقی تمام مباح کاموں کو نیت اور اخلاص کے ساتھ عبادت کی جزو بنا سکتا ہے_ کار و بار اگر حلال روزی کمانے اور مخلوق خدا کی خدمت کی نیت سے ہو تو پھر یہ بھی عبادت ہے_ اسی طرح کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا سونا اور جاگنا اگر زندہ رہنے اور اللہ کی بندگی کے لئے قرا ردے تو یہ بھی عبادت ہیں_ اللہ کے مخصوص بندے اسی طرح تھے اور ہیں_

۳_ اعمال کا حساب

تیسرا مرحلہ اپنے ہر روز کے اعمال کا حساب کرنا ہے ضروری ہے انسان دن میں

۱۵۶

ایک وقت اپنے سارے دن کے اعمال کے حساب کرنے کے لئے معین کرلے اور کتنا ہی اچھا ہے کہ یہ وقت رات کے سونے کے وقت ہو جب کہ انسان تمام دن کے کاموں سے فارغ ہوجاتا ہے اس وقت تنہائی میں بیٹھ جائے اور خوب فکر کرے کہ آج سارا دن اس نے کیا کیا ہے ترتیب سے دن کی پہلی گھڑی سے شروع کرے اور آخر غروب تک ایک ایک چیز کا دقیق حساب کرے جس وقت میں اچھے کاموں اور عبادت میں مشغول رہا ہے تو خداوند عالم کا اس توفیق دینے پر شکریہ ادا کرے اور ارادہ کر لے کہ اسے بجالاتا رہے گا_ اور جس میں وقت گناہ اور معصیت کا ارتکاب کیا ہے تو اپنے نفس کو سرزنش کرے اور نفس سے کہے کہ اے بدبخت اور شقی تو نے کیا کیا ہے؟ کیوں تو نے اپنے نامہ اعمال کو گناہ سے سیاہ کیا ہے؟ قیامت کے دن خدا کا کیا جواب دے گا؟ خدا کے آخرت میں دردناک عذاب سے کیا کرے گا؟ خدا نے تجھے عمر اور صحت اور سلامتی اور موقع دیا تھا تا کہ آخرت کے لئے زاد راہ مہیا کرے تو اس نے اس کی عوض اپنے نامہ اعمال کوگناہ سے پر کر دیا ہے_ کیا یہ احتمال نہیں دیتا تھا کہ اس وقت تیری موت آپہنچے؟ تو اس صورت میں کیا کرتا؟ اے بے حیا نفس _ کیوں تو نے خدا سے شرم نہیں کی؟

اے جھوٹے اور منافق _ تو تو خدا اور قیامت پر ایمان رکھنے کا ادعا کرتا تھا کیوں تو کردار میں ایسا نہیں ہوتا_ پھر اس وقت توبہ کرے اور ارادہ کر لے کہ پھر اس طرح کے گناہ کا ارتکاب نہیں کرے گا اور کزرے ہوئے گناہوں کا تدارک کرے گا_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اپنے نفس کو گناہوں اور عیوب پر سرزنش کرے تو وہ گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کر لے گا_( ۳۰۲)

اگر انسان محسوس کرے کہ نفس سرکش اور نافرمانی کر رہا ہے اور گناہ کے ترک کرنے اور توبہ کرنے پر حاضر نہیں ہو رہا تو پھر انسان کو بھی نفس کا مقابلہ کرنا چاہئے اور اس پر سختی سے پیش آنا چاہئے اس صورت میں ایک مناسب کام کو وسیلہ بنائے مثلا

۱۵۷

اگر اس نے حرام مال کھایا ہے یا کسی دوسری نافرمانی کو بجالایا ہے تو اس کے عوض کچھ مال خدا کی راہ میں دے دے یا ایک دن یا کئی دن روزہ رکھ لے_ تھوڑے دنوں کے لئے لذیز غذا یا ٹھنڈا، پانی، پینا، چھوڑدے، یا دوسرے لذائذ کے جسے نفس چاہتا ہے اس کے بجالانے سے ایک جائے یا تھوڑے سے وقت کے لئے سورج کی گرمی میں کھڑا ہو جائے بہرحال نفس امارہ کے سامنے سستی اور کمزوری نہ دکھلائے ور نہ وہ مسلط ہوجائیگا اور انسان کو ہلاکت کی وادی میں جا پھینکے گا اور اگر تم اس کے سامنے سختی اور مقابلہ کے ساتھ پیش آئے تو وہ تیرا مطیع اور فرمانبردار ہوجائیگا اگر کسی وقت میں نہ کوئی اچھا کام انجام دیا ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہو تو پھر بھی نفس کو سرزنش اور ملامت کرے اور اسے کہے کہ کس طرح تم نے عمر کے سرمایہ کو ضایع کیا ہے؟ تو اس وقت نیک عمل بجالا سکتا تھا اور آخرت کے لئے زاد راہ حاصل کر سکتا تھا کیوں نہیں ایسا کیا اے بدبخت نقصان اٹھانے والے کیوں ایسی گران قدر فرصت کو ہاتھ سے جانے دیا ہے_ اس دن جس دن پشیمانی اور حسرت فائدہ مند نہ ہوگی پشیمان ہوگا_ اس طریقے سے پورے وقت جیسے ایک شریک دوسرے شریک سے کرتا ہے اپنے دن رات کے کاموں کو مورد دقت اور مواخذہ قرار دے اگر ہو سکے تو اپنے ان تمام کے نتائج کو کسی کاپی میں لکھ کے_ بہرحال نفس کے پاک و پاکیزہ بنانے کے لئے مراقبت اور حساب ایک بہت ضروری اور فائدہ مند کام شمار ہوتا ہے جو شخص بھی سعادت کا طالب ہے اسے اس کو اہمیت دینی چاہئے گرچہ یہ کام ابتداء میں مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر ارادہ اور پائیداری کر لے تو یہ جلدی آسان اور سہل ہوجائیگا اور نفس امارہ کنٹرول اور زیر نظر ہوجائیگا_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ میں تمہیں عقلمندوں کا عقلمند اور احمقوں کا حق نہ بتلاؤں؟ عرض کیا گیا یا رسول اللہ(ص) _ فرمایئے آپ نے فرمایا سب سے عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے نفس کا حساب کرے اور مرنے کے بعد کے لئے نیک عمل بجالائے اور سب سے احمق وہ ہے کہ جو خواہشات نفس کی پیروی کرے اور دور دراز خواہشوں میں سرگرم ہے_ اس آدمی نے عرض کی_ یا رسول اللہ(ص) _ کہ

۱۵۸

انسان کس طرح اپنے نفس کا حساب کرے؟ آپ (ص) نے فرمایا جب دن ختم ہوجائے اور رات ہوجائے تو اپنے نفس کی طرف رجوع کرے اور اسے کہے اے نفس آج کا دن بھی چلا گیا اور یہ پھر لوٹ کے نہیں آئیگا خداوند عالم تجھ سے اس دن کے بارے میں سوال کرے گا کہ اس دن کو کن چیزوں میں گذرا ہے اور کونسا عمل انجام دیا ہے؟ کیا اللہ کا ذکر اور اس کی یاد کی ہے؟ کیا کسی مومن بھائی کا حق ادا کیا ہے؟ کیا کسی مومن بھائی کا غم دور کیا ہے؟ کیا اس کی غیر حاضری میں اس کے اہل و عیال کی سرپرستی کی ہے؟ کیا کسی مومن بھائی کی غیبت سے دفاع کیا ہے؟ کیا کسی مسلمان کی مدد کی ہے؟ آج کے دن کیا کیا ہے_ اس دن جو کچھ انجام دیا ہوا ایک ایک کو یاد کرے اگر وہ دیکھے کہ اس نے نیک کام انجام دیئے ہیں تو خداوند عالم کا اس نعمت اور توفیق پر شکریہ ادا کرے اور اگر دیکھے کہ اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور نافرمانی بجالایا ہے تو توبہ کرے اور ارادہ کرلے کہ اس کے بعد گناہوں کا ارتکاب نہیں کرے گا_ اور پیغمبر اور اس کی آل پر درود بھیج کر اپنے نفس کی کثافتوں کو اس سے دور کرے اور امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت اور بیعت کو اپنے نفس کے سامنے پیش کرے اور آپ کے دشمنوں پر لعنت بھیجے اگر اس نے ایسا کرلیا تو خدا اس سے کہے گا کہ '' میں تم سے قیامت کے دن حساب لینے سے سختی نہیں کرونگا کیونکہ تو میرے اولیاء کیساتھ محبت رکھتا تھا اور ان کے د شمنوں سے دشمنی رکھتا تھا_(۳۰۳)

امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' وہ ہم میں سے نہیں ہے جو اپنے نفس کا ہر روز حساب نہیں کرتا اگر وہ اچھے کام انجام دے تو خداوند عالم سے زیادہ توفیق دینے کو طلب کرے اور اگر نافرمانی اور معصیت کا ارتکاب کیا ہو تو استعفا اور توبہ کرے_(۳۰۴)

پیغمبر علیہ السلام نے ابوذر سے فرمایا کہ '' غقلمند انسان کو اپنا وقت تقسیم کرنا چاہیئے ایک وقت خداوند عالم کے ساتھ مناجات کرنے کے لئے مخصوص کرے_ اور ایک

۱۵۹

وقت اپنے نفس کے حساب لینے کے لئے مختص کرلے اور ایک وقت ان چیزوں میں غور کرنے ے لئے جو خداوند عالم نے اسے عنایت کی ہیں مخصوص کردے_(۳۰۵)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنے نفس سے اس کے کردار اور اعمال کے بارے میں حساب لیا کرو اس سے واجبات کے ادا کرنے کا مطالبہ کرو اور اس سے چاہو کہ اس دنیا فانی سے استفادہ کرے اور آخرت کے لئے زاد راہ اور توشہ بھیجے اور اس سفر کے لئے قبل اس کے کہ اس کے لئے اٹھائے جاو امادہ ہوجاؤ_(۳۰۶)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایاکہ '' انسان کے لئے کتنا ضروری ہے کہ ایک وقت اپنے لئے معین کرلے جب کہ تمام کاموں سے فارغ ہوچکا ہو_ اس میں اپنے نفس کا حساب کرے اور سوچے کہ گذرے ہوئے دن اور رات میں کونسے اچھے اور فائدہ مند کام انجام دیئے ہیں اور کونسے برے نقصان دینے والوں کاموں کو بجالایا ہے_(۳۰۷)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنے نفس سے جہاد کر اور اس سے ایک شریک کے مانند حساب کتاب لے اور ایک قرض خواہ کی طرح اس سے حقوق الہی کے ادا کرنے کا مطالبہ کرے کیونکہ سب سے زیادہ سعادتمند انسان وہ ہے کہ جو اپنے نفس کے حساب کے لئے آمادہ ہو_(۳۰۸)

علی علیہ السلام نے فرمایا کہ '' کہ جو شخص اپنے نفس کا حساب کرے تو وہ اپنے عیبوں سے آگاہ ہوجاتا ہے اور اپنے گناہوں کو جان جاتا ہے اور ان سے توبہ کرتا ہے اور اپنے عیبوں کی اصلاح کرتا ہے_(۳۰۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اس سے پہلے کہ قیامت کے دن تمہارا حساب لیا جائے تم اس دنیا میں اپنا حساب خود کرلو کیونکہ قیامت کے دن پچاس مقامات پر بندوں کا حساب لیا جائیگا اور ہر ایک مقام میں ہزار سال تک اس کا حساب لیا جاتا رہیگا_ آپ نے اس کے بعد یہ آیت پڑھی وہ دن کہ جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی_(۳۱۰)

اس بات کی یاد دھانی بہت ضروری ہے کہ انسان نفس کے حساب کے وقت خود

۱۶۰

نفس پر اعتماد نہ کرے اور اس کی بابت خوش عقیدہ نہ ہو کیونکہ نفس بہت ہی مکار اور امارہ سو ہے_ سینکڑوں حیلے بہانے سے اچھے کام کو برا اور برے کو اچھا ظاہر کرتا ہے_ انسان کو اپنے بارے اپنی ذمہ داری کو نہیں سوچنے دیتا تا کہ انسان اس پر عمل پیرا ہو سکے_ گناہ کے ارتکاب اور عبادت کے ترک کرنے کی کوئی نہ کوئی توجیہ کرے گا_ گناہوں کو فراموشی میں ڈال دے گا اور معمولی بتلائے گا_ چھوٹی عبادت کو بہت بڑا ظاہر کرے گا اور انسان کو مغرور کردے گا_ موت اور قیامت کو بھلا دے گا اور دور دراز امیدوں کو قوی قرار دے گا_ حساب کرنے کو سخت اور عمل نہ کئے جانے والی چیز بلکہ غیر ضروری ظاہر کردے گا اسی لئے انسان کو اپنے نفس کی بارے میں بدگمانی رکھتے ہوئے اس کا حساب کرنا چائے_ حساب کرنے میں بہت وقت کرنی چاہئے اور نفس اور شیطن کے تاویلات اور ہیرا پھیری کی طرف کان نہیں دھرنے چائیں_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کی یاد کے لئے کچھ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اللہ تعالی کے ذکر کو دنیا کے عوض قرار دے رکھا ہے لہذا ان کو کار و بار اللہ تعالی کے ذکر سے نہیں روکتا_ اپنی زندگی کو اللہ تعالی کے ذکر کے ساتھ گزارتے ہیں_ گناہوں کے بارے قرآن کی آیات اور احادیث غافل انسانوں کو سناتے ہیں اور عدل اور انصاف کرنے کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں_ منکرات سے روکتے ہیں اور خودبھی ان سے رکتے ہیں گویا کہ انہوں نے دنیا کو طے کرلیا ہے اور آخرت میں پہنچ چکے ہیں_ انہوں نے اس دنیا کے علاوہ اور دنیا کو دیکھ لیا ہے اور گویا برزخ کے لوگوں کے حالات جو غائب ہیں ان سے آگاہ ہوچکے ہیں_ قیامت اور اس کے بارے میں جو وعدے دیئے گئے ہیں گویا ان کے سامنے صحیح موجود ہوچکے ہیں_ دنیا والوں کے لئے غیبی پردے اس طرح ہٹا دیتے ہیں کہ گویا وہ ایسی چیزوں کو دیکھ رہے ہوں کہ جن کو دنیا والے نہیں دیکھ رہے ہوتے اور ایسی چیزوں کو سن رہے ہیں کہ جنہیں دنیا والے نہیں سن رہے_ اگر تو ان کے مقامات عالیہ اور ان کی مجالس کو اپنی عقل کے سامنے مجسم کرے تو گویا وہ یوں نظر آئیں گے کہ انہوں نے اپنے روز

۱۶۱

کے اعمال نامہ کو کھولا ہوا ہے اور اپنے اعمال کے حساب کرلینے سے فارغ ہوچکے ہیں یہاں تک کہ ہر چھوٹے بڑے کاموں سے کہ جن کاانہیں حکم دیا گیا ہے اور ان کے بجالانے میں انہوں نے کوتاہی برتی ہے یا جن سے انہیں روکا گیا ہے اور انہوں نے اس کا ارتکاب کریا ہے ان تمام کی ذمہ داری اپنی گردن پر ڈال دیتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے بجالانے اور اطاعت کرنے میں کمزور دیکھتے ہیں اور زار زار گریہ و بکاء کرتے ہیں اور گریہ اور بکاء سے اللہ کی بارگاہ میں اپنی پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں_ ان کو تم ہدایت کرنے ولا اور اندھیروں کے چراغ پاؤگے کہ جن کے ارد گرد ملا مکہ نے گھیرا ہوا ہے اور اللہ تعالی کی مہربانی ان پر نازل ہوچکی ہے_ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھول دیئےئے ہیں اور ان کے لئے محترم اور مکرم جگہ حاضر کی جاچکی ہے_(۳۱۱)

۱۶۲

توبہ یا نفس کو پاک و صاف کرنا

نفس کو پاک اور صاف کرنے کا بہتریں راستہ گناہوں کا نہ کرنا اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھنا ہے اگر کوئی شخص گناہوں سے بالکل آلودہ نہ ہو اور نفس کی ذاتی پاکی اور صفا پر باقی رہے تو یہ اس شخص سے افضل ہے جو گناہ کرنے کے بعد توبہ کر لے_ جس شخص نے گناہ کا مزہ نہیں چکھا اور اس کی عادت نہیں ڈالی یہ اس شخص کی نسبت سے جو گناہوں میں آلودہ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ گناہوں کو ترک کردے بہت آسانی سے اور بہتر طریقے سے گناہوں سے چشم پوشی کر سکتا ہے امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''گناہ کا ترک کردینا توبہ کے طلب کرنے سے زیادہ آسان ہے_(۳۱۲)

لیکن جو انسان گناہوں سے آلودہ ہوجائیں انہیں بھی اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کا راستہ کسی وقت بھی بند نہیں ہوتا بلکہ مہربان اللہ تعالی نے گناہگاروں کے لئے توبہ کا راسنہ ہمیشہ لے لئے کھلا رکھا ہوا ہے اور ان سے چاہا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف پلٹ آئیں اور توبہ کے پانی سے نفس کو گناہوں کی گندگی اور پلیدی سے دھوڈالیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے '' میرے ان بندوں سے کہ جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے کہہ دو کہ وہ اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہوں کیونکہ خدا تمام گناہوں کو بخش دے گا اور وہ بخشنے والا مہربان ہے_(۳۱۳)

۱۶۳

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' جب مومن تیرے پاس آئیں تو ان سے کہہ دے کہ تم پر سلام ہو_ خدا نے اپنے اوپر رحمت اور مہربانی لازم قرار دے دی ہے_ تم میں سے جس نے جہالت کی وجہ سے برے کام انجام دیئے اور توبہ کرلیں اور خدا کی طرف پلٹ آئیں اور اصلاح کرلیں تو یقینا خدا بخشنے والا مہربان ہے_(۳۱۴)

توبہ کی ضرورت

گمان نہیں کیا جا سکتا کہ گناہگاروں کے لئے توبہ کرنے سے کوئی اور چیز لازمی اور ضروری ہو جو شخص خدا پیغمبر قیامت ثواب عقاب حساب کتاب بہشت دوزخ پر ایمان رکھتا ہو وہ توبہ کے ضروری اور فوری ہونے میں شک و تردید نہیں کرسکتا_

ہم جو اپنے نفس سے مطلع ہیں اور اپنے گناہوں کو جانتے ہیں تو پھر توبہ کرنے سے کیوں غفلت کریں؟ کیا ہم قیامت اور حساب اور کتاب اور دوزخ کے عذاب کا یقین نہیں رکھتے؟ کیا ہم اللہ کہ اس وعدے میں کہ گناہگاروں کو جہنم کی سزا دونگا شک اور تردید رکھتے ہیں؟ انسان کا نفس گناہ کے ذریعے تاریک اور سیاہ اور پلید ہوجاتا ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ انسان کی شکل حیوان کی شکل میں تبدیل ہوجائے پس کس طرح جرت رکھتے ہیں کہ اس طرح کے نفس کے ساتھ خدا کے حضور جائیں گے اور بہشت میں خدا کے اولیا' کے ساتھ بیٹھیں گے؟ ہم گناہوں کے ارتکاب کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کے صراط مستقیم کو چھوڑ چکے ہیں اور حیوانیت کی وادی میں گر چکے ہیں_ خدا سے دور ہوگئے ہیں اور شیطن کے نزدیک ہوچکے ہیں اور پھر بھی توقع رکھتے ہیں کہ آخرت میں سعادتمند اور نجات یافتہ ہونگے اور اللہ کی بہشت میں اللہ تعالی کی نعمتوں سے فائدہ حاصل کریں گے یہ کتنی لغو اور بے جا توقع ہے؟ لہذا وہ گناہگار جو اپنی سعادت کی فکر رکھتا ہے اس کے لئے سوائے توبہ اور خدا کی طرف پلٹ جانے کے اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے_

۱۶۴

یہ بھی اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی مہربانی اور لطف اور کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے توبہ کا راستہ کھلا رکھا ہوا ہے زہر کھلایا ہوا انسان جو اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہے کسی بھی وقت زہر کے نکالے جانے اور اس کے علاج میں تاخیر اور تردید کو جائز قرا ر نہیں دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے دیر کی تو وہ ہلاک ہوجائیگا جب کہ انسان کے لئے گناہ ہر زہر سے زیادہ ہلاک کرنے والا ہوتا ہے_ عام زہر انسان کی دنیاوی چند روزہ زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہے تو گناہ انسان کو ہمیشہ کی ہلاکت میں ڈال دیتا ہے اور انسان کی آخرت کی سعادت کو ختم کر دیتا ہے اگر زہر انسان کو دنیا سے جدائی دیتی ہے تو گناہ انسان کو خدا سے دور کردیتا ہے_ اور اللہ تعالی سے قرب اور لقاء کے فیض سے محروم کر دیتا ہے لہذا تمہارے لئے ہر ایک چیز سے توبہ اور انابہ زیادہ ضروری اور فوری ہے کیونکہ ہماری معنوی سعادت اور زندگی اس سے وابستہ ہے_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے '' مومنو تم سب اللہ تعالی کی طرف توبہ کرو_ شاید نجات حاصل کر لو_(۳۱۵)

خدا ایک اور مقام میں فرماتا ہے ''مومنو خدا کی طرف توبہ نصوح کرو شاید خدا تمہارے گناہوں کو مٹا دے اور تمہیں بہشت میں داخل کردے کہ جس کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں_(۳۱۶)

پیغمبر خدا نے فرمایا ہے کہ '' ہر درد کے لئے دوا ہوتی ہے_ گناہوں کے لئے استغفار اور توبہ دوا ہے_(۳۱۷)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر انسان کے دل یعنی روح میں ایک سفید نقطہ ہوتا ہے جب وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس سفید نقطہ میں سیاہی وجود میں آجاتی ہے اگر اس نے توبہ کر لی تو وہ سیاہی مٹ جاتی ہے اور اگر گناہ کو پھر بار بار بجلاتا رہا تو آہستہ آہستہ وہ سیاہ نقطہ زیادہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سارے سفید نقطہ پر چھا جاتا ہے اس وقت وہ انسان پھر نیکی کی طرف نہیں پلٹتا یہی مراد اللہ

۱۶۵

تعالی کے اس فرمان میں کلا بل ران عن قلوبہم بما کانوا یکسبون_(۳۱۸) یعنی ان کے دلوں پر اس کی وجہ سے کہ انہوں نے انجام دیا ہے زنگ چڑھ جاتا ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے _ '' توبہ کو دیر میں کرنا ایک قسم کا غرور اور دھوکہ ہے اور توبہ میں تاخیر کرنا ایک طرح کی پریشانی اور حیرت ہوتی ہے_ خدا کے سامنے عذر تراشنا موجب ہلاکت ہے_ گناہ پر اصرار کرنا اللہ تعالی کے عذاب اور سزا سے مامون ہونے کا احساس ہے جب کہ اللہ تعالی کے عذاب سے مامون ہونے کا احسان نقصان اٹھانے والے انسان ہی کرتے ہیں_(۳۱۹)

بہتر ہے کہ ہم ذرا اپنے آپ میں فکر کریں گذرے ہوئے گناہوں کو یاد کریں اور اپنی عاقبت کے بارے میں خوب سوچیں اور اپنے سامنے حساب و کتاب کے موقف میزان اعمال خدا قہار کے سامنے شرمندگی فرشتوں اور مخلوق کے سامنے رسوائی قیامت کی سختی دوزخ کے عذاب اللہ تعالی کی لقاء سے محرومیت کو مجسم کریں اور ایک اندرونی انقلاب کے ذریعے اللہ تعالی کی طرف لوٹ آئیں اور توبہ کے زندگی دینے والے پانی سے اپنے گذرے ہوئے گناہوں کو دھوئیں اور نفس کی پلیدی اور گندگی کو دور کریں اور حتمی ارادہ کر لیں کہ گناہوں سے کنارہ کشی کریں گے_ اور آخرت کے سفر اور ذات الہی کی ملاقات کے لئے مہیا ہوجائیں گے لیکن اتنی سادگی سے شیطن ہم سے دستبردار ہونے والا نہیں ہے؟ کیا وہ توبہ اور خدا کی طرف لوٹ جانے کی اجازت دے دیگا؟

وہی شیطن جو ہمیں گناہوں کے ارتکاب کرنے پر ابھارتا ہے وہ ہمیں توبہ کرنے سے بھی مانھ ہوگا گناہوں کو معمولی اور کمتر بتلائے گا وہ گناہوں کو ہمارے ذہن سے ایسے نکل دیتا ہے کہ ہم ان تمام کو فراموش کردیتے ہیں_ مرنے اور حساب اور کتاب اور سزای فکر کو ہمارے مغز سے نکال دیتا ہے اور اس طرح ہمیں دنیا میں مشغول کردیتا ہے کہ کبھی توبہ نور استغفار کی فکر ہی نہیں کرتے اور اچانک موت سرپر آجائے گی اور پلید اور کثیف نفس کے ساتھ اس دنیا سے چلے جائیں گے_

۱۶۶

توبہ کا قبول ہونا

اگر درست توبہ کی جائے تو وہ یقینا حق تعالی کے ہاں قبول واقع ہوتی ہے اور یہ بھی اللہ تعالی کے لطف و کرم میں سے ایک لطف اور مہربانی ہے_ خداوند عالم نے ہمیں دوزخ اور جہنم کے لئے پیدا نہیں کیا_ بلکہ بہشت اور سعادت کے لئے خلق فرمایا ہے پیغمبروں کو بھیجا ہے تا کہ لوگوں کو ہدایت اور سعادت کے راستے کی رہنمائی کریں اور گناہگار بندوں کو توبہ اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیں توبہ اور استغفار کا دروازہ تمام بندوں کے لئے کھلا رکھا ہوا ہ ے پیغمبر ہمیشہ ان کو اس کی طرف دعوت دیتے ہیں_ پیغمبر(ص) اور اولیاء خدا ہمیشہ لوگوں کو توبہ کی طرف بلاتے ہیں_ خداوند عالم نے بہت سی آیات میں گناہگار بندوں کو اپنی طرف بلایا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ ان کی توبہ کو قبول کرے گا اور اللہ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوا کرتا_ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اطہار نے سینکٹروں احادیث میں لوگوں کو خدا کی طرف پلٹ آنے اور توبہ کرنے کی طرف بلایا ہے اور انہیں امید دلائی ہے_ جیسے_

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس سے آگاہ ہے_(۳۲۰)

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' میں بہت زیادہ انہیں بخشنے والا ہوں جو توبہ کریں اور ایمان لے آئیں اور نیک اعمال بجالائیں اور ہدایت پالیں_(۳۲۱)

اگر خدا کو یاد کریں اور گناہوں سے توبہ کریں_ خدا کے سوا کون ہے جو ان کے گناہوں کو بخش دے گاہ اور وہ جو اپنے برے کاموں پر اصرار نہیں کرتے اور گناہوں کی برائی سے آگاہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے اعمال کی جزا بخشا جانا اور ایسے باغات ہیں کہ جن کے درمیان نہریں جاری ہیں اور ہمیشہ کے لئے وہاں زندگی کریں گے اور عمل کرنے والوں کے لئے ایسے جزا کتنی ہی اچھی ہے_(۳۲۲)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' گناہوں سے توبہ کرنے والا اس شخص کی

۱۶۷

طرح ہے کہ جسنے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو اور جو گناہوں کو بجالانے پر اصرار کرتا ہے اور زبان پر استغفار کے کلمات جاری کرتا ہے یہ مسخرہ کرنے والا ہوتا ہے_(۳۲۳) اس طرح کی آیات اور روایات بہت زیادہ موجود ہیں لہذا توبہ کے قبول کئے جائے میں کوئی شک اور تردید نہیں کرنا چاہئے بلکہ خداوند عالم توبہ کرنے والے کو دوست رکھتا ہے_ قرآن مجید میں فرماتا ہے '' یقینا خدا توبہ کرنے والے اور اپنے آپکو پاک کرنے والے کو دوست رکھتا ہے_(۳۲۴) امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کا اس بندہ سے جو توبہ کرتا ہے خوشنود ہونا اس شخص سے زیادہ ہوتا ہے کہ جو تاریک رات میں اپنے سواری کے حیوان اور زاد راہ اور توشہ کو گم کرنے کے بعد پیدا کر لے_(۳۲۵)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب کوئی بندہ خالص توبہ اور ہمیشہ کے لئے کرے تو خداوند عالم اسے دوست رکھتا ہے اور اللہ تعالی اس کے گناہوں کو چھپا دیتا ہے_ راوی نے عرض کی _ اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالی کس طرح گناہوں کو چھپا دیتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہے کہ وہ دو فرشتے جو اس کے اعمال کو لکھتے ہیں اس کے گناہ کو بھول جاتے ہیں اور اللہ تعالی اس کے اعضاء اور جوارح زمین کے نقاط کو حکم دیتا ہے کہ توبہ کرنے والے بندے کے گناہوں کو چھپا دیں ایسا شخص خدا کے سامنے جائیگا جب کہ کوئی شخص اور کوئی چیز اس کے گناہوں کی گواہ نہ ہوگی_(۳۲۶)

توبہ کیا ہے؟

گذرے ہوئے اعمال اور کردار پر ندامت اور پشیمانی کا نام توبہ ہے اور ایسے اس شخص کو توبہ کرنے والا کہا جا سکتا ہے جو واقعا اور تہہ دل سے اپنے گذرے ہوئے گناہوں پر پشیمان اور نادم ہو_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ پشیمان اور ندامت توبہ ہے_(۳۲۷)

یہ صحیح اور درست ہے کہ خداوند عالم توبہ کو قبول کرتا اور گناہوں کو بخش دیتا ہے لیکن صرف زبان سے استغفراللہ کا لفظ کہہ دینا یا صرف پشیمانی کا اظہار کر دینا یا گریہ

۱۶۸

کر لینا دلیل نہیں ہے کہ وہ واقعا تہ دل سے توبہ کر چکا ہے بلکہ تین علامتوں کے ہونے سے حقیقی اور واقعی توبہ جانی جاتی ہے_

پہلے تو تہہ دل سے دل میں گذرے گناہوں سے بیزار اور متنفر ہوا اور اپنے نفس میں غمگین اور پشیمان اور شرمندہ ہو دوسرے حتمی ارادہ رکھتا ہو کہ پھر آئندہ گناہوں کو بجا نہیں لائے گا_

تیسرے اگر گناہ کے نتیجے میں ایسے کام انجام دیئے ہوں کہ جن کا جبران اور تدارک کیا جا سکتا ہے تو یہ حتمی ارادہ کرے کہ اس کا تدارک اور جبران کرے گا اگر اس کی گردن پر لوگوں کا حق ہو اگر کسی کا مال غضب کیا ہے یا چوری کی ہے یا تلف کر دیا ہے تو پہلی فرصت میں اس کے ادا کرنے کا حتمی ارادہ کرے اور اگر اس کے ادا کرنے سے عاجز ہے تو جس طرح بھی ہو سکے صاحب حق کو راضی کرے اور اگر کسی کی غیبت اور بدگوئی کی ہے تو اس سے حلیت اور معافی طلب کرے اور اگر کسی پر تجاوز اور ظلم و ستم کیا ہے تو اس مظلوم کو راضی کرے اور اگر مال کے حق زکواة خمس و غیرہ کو نہ دیا و تو اسے ادا کرے اور اگر نماز اور روزے اس سے قضا ہوئے ہوں تو ان کی قضا بجالائے اس طرح کرنے والے شخص کو کہا جا سکتا ہے کہ واقعا وہ اپنے گناہوں پر پشیمان ہوگیا اور اس کی توبہ قبول ہوجائیگی_ لیکن جو لوگ توبہ اور استغفار کے کلمات اور الفاظ تو زبان پر جاری کرتے ہیں لیکن دل میں گناہ سے پشیمان اور شرمندہ نہیں ہوتے اور آئندہ گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ بھی نہیں رکھے یا ان گناہوں کو کہ جن کا تدارک اور تلافی کی جانی ہوتی ہے ان کی تلافی نہیں کرتے اس طرح کے انسانوں نے توبہ نہیں کی اور نہ ہی انہیں اپنی توبہ کے قبول ہوجانے کی امید رکھنی چاہئے گرچہ وہ دعا کی مجالس او رمحافل میں شریک ہوتے ہوں اور عاطفہ رقت کیوجہ سے متاثر ہو کر آہ و نالہ گریہ و بکاء بھی کر لیتے ہوں_

ایک شخص نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے سامنے استغفار کے کلمات زبان پر جاری کئے تو آنحضرت نے فرمایا '' تیری ماں تیری عزاء میں بیٹھے کیا جانتے ہو کہ

۱۶۹

استغفار او توبہ کیا ہے؟ توبہ کرنا بلند لوگوں کا مرتبہ ہے توبہ اور استغفار چھ چیزوں کا نام ہے_ ۱_ گذرے ہوئے گناہوں پر پشیمانی ہونا_ ۲_ ہمیشہ کے لئے گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ کرنا_۳_ لوگوں کے حقوق کو ادا کرنا کہ جب تو خدا کے سامنے جائے تو تیری گردن پر لوگوں کا کوئی حق نہ ہو_ ۴_ پوری طرح سے متوجہ ہو کہ جس واجب کو ترک کیا ہے اسے ادا کرے_ ۵_ اپنے گناہوں پر اتنا غمناک ہو کہ وہ گوشت جو حرام کے کھانے سے بنا ہے وہ ختم ہوجائے اور تیری چمڑی تیری ہڈیوں پر چمٹ جائے اور پھر دوسرا گوشت نکل آئے گا_ ۶_ اپنے نفس کو اطاعت کرنے کی سختی اور مشقت میں ڈالے جیسے پہلے اسے نافرمانی کی لذت اور شیرینی سے لطف اندوز کیا تھا ان کاموں کے بعد تو یہ کہے کہ استغفر اللہ) ۳۲۸) تو گویا یہ پھر توبہ حقیق ہے_ گناہ شیطن اتنا مکار اور فریبی ہے کہ کبھی انسان کو توبہ کے بارے میں بھی دھوکا دے دیتا ہے_ ممکن ہے کہ کسی گنہگار نے وعظ و نصیحت یا دعا کی مجلس میں شرکت کی اور مجلس یا دعا سے متاثر ہوا اور اس کے آنسو بہنے لگے یا بلند آواز سے رونے لگا اس وقت اسے شیطن کہتا ہے کہ سبحان اللہ کیا کہنا تم میں کیسی حالت پیدا ہوئی_ بس یہی تو نے توبہ کرلی اور تو گناہوں سے پاک ہوگیا حالانکہ نہ اس کا دل گناہوں پر پشیمان ہوا ہے اور نہ اس کا آئندہ کے لئے گناہوں کے ترک کردینے کا ارادہ ہے اور نہ ہی اس نے ارادہ کیا ہے کہ لوگوں اور خدا کے حقوق کو ادا کرے گا اس طرح کا تحت تاثیر ہوجانا توبہ نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی نفس کے پاک ہوجانے اور آخرت کی سعادت کا سبب بنتا ہے اس طرح کا کا شخص نہ گناہوں سے لوٹا ہے اور نہ ہی خدا کی طرف پلٹا ہے_

جن چیزوں سے توبہ کی جانی چاہئے

گناہ کیا ہے اور کس گناہ سے توبہ کرنی چاہئے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالی کی طرف جانے اور سیر و سلوک سے مانع ہو اور دنیا سے علاقمند کر دے اور توبہ کرنے سے روکے رکھے وہ گناہ ہے اور اس سے پرہیز کرنا چاہئے اور نفس

۱۷۰

کو اس سے پاک کرنا چاہئے گناہ دو قسم پر ہوتے ہیں_ ۱_ اخلاقی گناہ_ ۲_ عملی گناہ_

۱ _ اخلاقی گناہ

برے اخلاق اور صفات نفس کو پلید اور کثیف کر دیتے ہیں اور انسانیت کے صراط مستقیم کے راستے پر چلنے اور قرب الہی تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں_ بری صفات اگر نفس میں رسوخ کر لیں اور بطور عادت اور ملکہ کے بن جائیں تو ذات کے اندر کو تبدیل اور تغیر کر دیتے ہیں یہاں تک کہ انسانیت کے کس درج پر رہے اسے بھی متاثر کردیتے ہیں_ اخلاقی گناہوں کو اس لحاظ سے کہ اخلاقی گناہ ہیں معمولی اور چھوٹا اور غیر اہم شمار نہیں کرنا چاہئے اور ان سے توبہ کرنے سے غافل نہیں ہونا چاہئے بلکہ نفس کو ان سے پاک کرنا ایک ضروری اور زندگی ساز کام ہے_ برے اخلاق نام ہے_ ریائ، نفاق، غضب، تکبر، خودبینی، خودپسندی، ظلم، مکر و فریب و غیبت، تہمت نگانا، چغلخوری، عیب نکالنا، وعدہ خلافی، جھوٹ حب دنیا حرص اور لالچ، بخیل ہونا حقوق والدین ادا نہ کرنا، قطع رحمی_ کفر ان نعمت ناشکری، اسراف، حسد، بدزبانی گالیاں دینا اور اس طرح کی دوسری بری صفات اور عادات

سینکٹروں روایات اور آیات ان کی مذمت اور ان سے رکنے اور ان کے آثار سے علاج کرنے اور ان کی دنیاوی اور اخری سزا کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ اخلاقی کتابوں میں ان کی تشریح اور ان کے بارے میں بحث کی گئی ہے_ یہاں پر ان کے بارے میں بحث نہیں کی جا سکتی_ اخلاقی کتابوں اور احادیث میں ان کے بارے میں رجوع کیا جا سکتا ہے_

۲_ عملی گناہ

عملی گناہوں میں سے ایک چوری کرنا_ کسی کو قتل کرنا_ زناکاری، لواطت، لوگوں کا مال غصب کرنا، معاملات میں تقلب کرنا، واجب جہاد سے بھاگ جانا_

۱۷۱

امانت میں خیانت کرنا، شراب اور نشہ آور چیز کا پینا، مردار گوشت کھانا، خنزیر اور دوسرے حرام گوشت کھانا، قمار بازی، جھوٹی گواہی دینا، بے گناہوں لوگوں پر زنا کی تہمت لگانا، واجب نمازوں کو ترک کرنا، واجب روزے نہ رکھنا، حج نہ کرنا، امر بہ معروف اور نہی منکر کو ترک کرنا، نجس غذا کھانا، اور دوسرے حرام کام جو مفصل کتابوں میں موجود ہیں کہ جن کی تشریح اور وضاحت یہاں ممکن نہیں ہے_ یہ تو مشہور گناہ ہیں کہ جن سے انسان کو اجتناب کرنا چاہئے اور اگر بجالایا ہو تو ان سے توبہ کرے اور اللہ کی طرف رجوع کرے لیکن کچھ گناہ ایسے بھی ہیں جو مشہور نہیں ہیں اور انہیں گناہوں کے طور پر نہیں بتلایا گیا لیکن وہ اللہ کے برگزیدہ بندوں اور اولیاء خدا کے لئے گناہ شمار ہوتے ہیں جیسے مستحبات کا ترک کر دینا یا مکروہات کا بجالانا بلکہ گناہ کے تصور کو او رذات الہی سے کسی غیر کی طرف توجہہ کرنے کو اور شیطانی وسوسوں کو جو انسان کو خدا سے غافل کر دیتے ہیں_ یہ تمام اولیاء خدا اور اس کی صفات اور افعال کی پوری اور کامل معرفت نہ رکھنے کو جو ہر ایک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اللہ تعالی کے خاص منتخب بندوں کے لئے گناہ شمار ہوتے ہیں اور ان سے وہ توبہ کرتے رہتے تھے بلکہ اس سے بالا تر ذات الہی اور اس کی صفات اور افعال کی پوری اور کامل معرفت نہ رکھنے کو ج و ہر ایک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اللہ تعالی اور اس طرح کے نقص کے احساس سے ان کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا اور گریہ نالہ و زاری سے خدا کی طرف رجوع کرتے تھے اور توبہ اور استغفار کرتے تھے_ پیغمبروں اور ائمہ اطہار کے توبہ کرنے کو اسی معنی میں لیا جانا چاہئے_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر روز ستر دفعہ استغفار کرتے تھے جبکہ آپ پر کوئی گناہ بھی نہیں تھا_(۳۲۹) رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ '' کبھی میرے دل پر تاریکی عارض ہوتی تھی تو اس کے لئے میں ہر روز ستر دفعہ استغفار کیا کرتا تھا_(۳۳۰)

۱۷۲

دوسرا حصہ

نفس کی تکمیل اور تربیت

۱۷۳

نفس کی تکمیل اور تربیت

نفس کو پاک صاف کرنے کے بعد اس کی تکمیل اور تربیت کا مرحلہ آتا ہے کہ جسے اصطلاح اخلاقی میں تحلیہ_ کہا جاتا ہے_ علوم عقلیہ میں ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کا نفس ہمیشہ حرکت اور ہونے کی حالت میں ہوتا ہے_ اس کی فعلیت اس کی استعداد اور قوت سے ملی ہوئی ہے_ آہستہ آہستہ اندر کی قوت اور استعداد کو مقام فعلیت اور بروز و ظہور میں لاتا ہے اور اپنی ذات کی پرورش کرتا ہے اگر نفس نے صراط مستقیم پر حرکت کی اور چلا تو وہ آہستہ کامل کامل تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ آخر کمال تک پہنچ جاتا ہے اور اگر صراط مستقیم سے ہٹ گیا اور گمراہی کے راستے پر گامزن ہوا تو پھر بھی آہستہ آہستہ کمال انسانی سے دور ہوتا جاتا ہے اور حیوانیت کی ہولناک وادی میں جا گرتا ہے_

خدا سے قرب

یہ معلوم ہونا چاہئے کہ انسان کی حرکت ایک حقیقی اور واقعی حرکت ہے نہ کہ اعتباری محض اور یہ حرکت انسان کی روح اور نفس کی ہے نہ جسم اور تن کی اور روح کا حرکت کرنا اس کا ذاتی فعل ہے نہ کہ عارضی_ اس حرکت میں انسان کا جوہر اور گوہر حرکت کرتا ہے اور متغیر ہوتا رہتا ہے_ لہذا انسان کی حرکت کا سیر اور راستہ ایک واقعی

۱۷۴

راستہ ہے نہ اعتباری اور مجازی_ لیکن اس کا مسیر اس کی متحرک ذات سے جدا نہیں ہے بلکہ متحرک اور حرکت کرنے والا نفس اپنی ذات کے باطن میں حرکت کرتا ہے اور مسیر کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے_ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر حرکت کے لئے کوئی غایت غرض ہوتی ہے_ انسان کی ذات کی حرکت کی غرض اور غایت کیا ہے؟ انسان اس جہان میں کس غرض اور غایت کی طرف حرکت کرتا ہے اور اس حرکت میں اس کا انجام کیا ہوگا؟

روایات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی حرکت کی جو غرض معین کی گئی ہے وہ قرب الہی ہے لیکن تمام انسان صراط مستقیم پر نہیں چلتے اور قرب الہی تک نہیں پہنچتے _ قرآن انسانوں کو تین گروہ میں تقسیم کرتا ہے_ ۱_ اصحاب میمنہ_ ۲_ اصحاب مشئمہ_ ۳_ سابقو کے جنہیں مقربین کے نام سے موسوم کیا گیا ہے_ قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' تم انسان تین گروہ ہو_ اصحاب میمنہ آپ کیا جانتے ہیں کہ اصحاب میمنہ کون اشخاص ہیں؟ اصحاب مشئمہ اور آپ کیا جانتے ہیں کہ وہ کون اشخاص ہیں ؟ بہشت کی طرف سبقت کرنے والے اور اللہ تعالی کی رحمت کو حاصل کرنے کے لئے بھی سبقت کرتے ہیں یہ وہ اشخاص ہیں جو خدا کے مقرب بندے ہیں ور بہشت نعیم میں سکونت رکھیں گے_''(۳۳۱)

اصحاب میمنہ یعنی سعادت مند حضرات اور اصحاب مشئمہ یعنی اہل شقاوت اور بدبخت_ اور سابقین وہ حضرات ہیں کہ جو صراط مستقیم کو طے کرنے میں دوسروں پر سبقت کرتے ہیں اور قرب الہی کے مقام تک پہنچتے ہیں_ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حرکت نفس کی غرض اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے_ خدا ایک اور آیت میں فرماتا ہے _ '' اگر خدا کے مقربین سے ہوا تو قیامت کے دن آرام والی بہشت اور نعمت الہی سے جو خدا کا عطیہ ہے استفادہ کرے گا_ اور اگر اصحاب یمین سے ہوا تو ان کی طرف سے تم پر سلام ہے اور اگر منکر اور گمراہوں سے ہوا تو اس پر دوزخ کا گرم پانی ڈالا جائیگا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا_(۳۳۲)

۱۷۵

نیز ایک اور آیت میں ہے کہ '' اس طرح نہیں ہے کہ کافرون نے گمان کیا ہوا ہے یقینا ابرار اور نیک لوگوں کا دفتر اور کتاب (اور جو کچھ اس میں موجود ہے) علین یعنی اعلی درجات میں ہے آپ کیا جانتے ہیں کہ علین کیا چیز ہے وہ ایک کتاب ہے جو خدا کی طرف سے ہوا کرتی ہے اور اللہ کے مقرب اس مقام کا مشاہدہ کریںگے_(۳۳۳) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا انتہائی کمال اور اسکے سیر اور حرکت کی غرض اور غایت اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے تا کہ انسان حرکت کر کے اس مقام تک جا پہنچیں لہذا مقربین کا گروہ سعادتمندوں میں سے ایک ممتاز گروہ ہے قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جب ملائکہ نے کہا اے مریم خداوند عالم نے تجھے ایک کلمہ کی جو خداوند عالم کی طرف سے ہے یعنی عیسی بن مریم کی بشارت دی ہے کہ جو دنیا اور آخرت میں خدا کے نزدیک عزت والا اور اس کے مقرب بندوں میں سے ہے_(۳۳۴)

ان آیات اور روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے لائق اور ممتاز بندے کہ جنہوں نے ایمان اور نیک اعمال میں دوسروں پر سبقت حاصل کرلی ہے بہت ہی اعلی جگہ پر سکونت کریں گے کہ جسے قرب الہی کا مقام بتلایا گیا ہے اور شہداء بھی اسی مقام میں رہیں گے_ قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جو راہ خدا میں مارے گئے ہیں ان کے بارے میں یہ گمان نہ کر کہ وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں روزی پاتے ہیں_(۳۳۵)

لہذا انسان کا انتہائی اور آخری کمال خداوند عالم کا قرب حاصل کرنا ہوتاہے_

قرب خدا کا معنی

یہ معلوم کیا جائے کہ خدا کے قرب کا مطلب اور معنی کیا ہے؟ اور کس طرح تصور کیا جائے کہ انسان خدا کے نزدیک ہوجائے_ قرب کے معنی نزدیک ہونے کے ہیں اور کسی کے نزدیک ہونے کو تین معنی میں استعمال کیا جاتا ہے_

قرب مکان

دو موجود جب ایک دوسرے کے نزدیک ہوں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک

۱۷۶

دوسرے کے قریب ہیں_

قرب زمانی

جب دو چیزیں ایک زمانے میں ایک دوسرے کے نزدیک ہوں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب اور ہمعصر ہیں_ اور یہ واضح ہے کہ بندوں کا خدا کے نزدیک اور قریب ہونا ان دونوں معنی میں نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا کسی مکان اور زمانے میں موجود نہیں ہوا تھا تا کہ کوئی چیز اس مکان اور زمان کے لحاظ سے خدا کے قریب اور نزدیک کہی جائے بلکہ خدا تو زمانے اور مکان کا خالق ہے اور ان پر محیط ہے

قرب مجازی

کبھی کہا جاتا ہے کہ فلان شخص فلان شخص کے قریب اور نزدیک ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلان کا احترام او ربط اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کی خواہش کو وہ بجالاتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ اسے انجام دے دیتا ہے اس طرح کی نزدیکی اور قرب کو مجازی اور اعتباری اور تشریفاتی قرب اور نزدیکی کہا جاتا ہے یہ قرب حقیقی نہیں ہوا کرتا بلکہ مورد احترام قرا ردینے والے شخص کو اس کا نزدیک اور قریبی مجازی لحاظ سے کہا جاتا ہے_ کیا اللہ کے بندوں کو خدا سے اس معنی کے لحاظ سے قریبی اور نزدیکی قرار ددیا جا سکتا ہے؟ آیا خدا سے قرب اس معنی میں ہو سکتا ہے یا نہ؟

یہ مطلب ٹھیک ہے کہ خدا اپنے لائق بندوں سے محبت کرتا ہے اور ان سے علاقمند ہے اور ان کی خواہشات کو پورا بھی کرتا ہے لیکن پھر بھی بندے کا قرب خدا سے اس معنی میں مراد نہیں لیا جا سکتا_ کیونکہ پہلے اشارہ کیا گیا ہے کہ علوم عقلیہ اور آیات اور روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کی حرکت ذاتی اور اس کا صراط مستقیم پر چلنا اور مسیر ایک امر واقعی ہے نہ کہ امر اعتباری اور تشریفاتی خدا کی طرف رجوع کرنا کہ جس کے لئے اتنی آیات اور روایات وارد ہوئی ہیں ایک حقیقت فرماتا ہے_ ''اے نفس مطمئن تو اللہ تعالی کی طرف رجوع کر اس حالت میں کہ جب اللہ تعالی

۱۷۷

تجھ سے راضی ہے اور تو اللہ تعالی سے راضی ہے_(۳۳۶)

نیز فرماتا ہے ''جس نے نیک عمل انجام دیا اس کا فائدہ اسے پہنچے گا اور جس نے برا عمل انجام دیا اس کا نقصان اسے پہنچے گا اس وقت سب اللہ کی طرف پلٹ آؤ گے_(۳۳۷)

خدا فرماتا ہے '' جو مصیبت کے وقت کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کا ملک ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے_(۳۳۸)

بہرحال اللہ تعالی کی طرف رجوع اور صراط مستقیم اور سبیل اللہ اور نفس کا کامل ہونا یہ ایسے امور ہیں جو واقعی ہیں نہ اعتباری اور تشریفاتی_ انسان کا خدا کی طرف حرکت کرنا ایک اختیاری اور جانی ہوئی حرکت ہے کہ جس کا نتیجہ مرنے کے بعد جا معلوم ہوگا_ وجود میں آنے کے بعد یہ حرکت شروع ہوجاتی ہے اور موت تک چلی جاتی ہے لہذا خدا سے قرب ایک حقیقی چیز ہے_ اللہ تعالی کے لائق بندے واقعا اللہ تعالی کے نزدیک ہوجاتے ہیں اور گناہنگار اور نالائق اللہ تعالی سے دور ہوجاتے ہیں لہذا غور کرنا چاہئے کہ خدا سے قرب کے کیا معنی ہیں؟

خدا سے قرب وہ قرب نہیں کہ جو متعارف اور جانا پہچانا ہوا ہوتا ہے بلکہ ایک علیحدہ قسم ہے کہ جسے قرب کمالی اور وجودی درجے کا نام دیا جاتا ہے _ اس مطلب کے واضح ہونے کے لئے ایک تمہید کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے _ فلسفہ اسلام اور کتب فلسفہ میں یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ وجود اور ہستی ایک حقیقت مشکک ہے کہ جس کے کئی درجات اور مراتب ہیں_ وجود بجلی کی روشنی اور نور کی طرح ہے جیسے نور کے کئی درجے زیادہ اور کم ہوتے ہیں ایک درجہ مثلا کمتر ایک ولٹ بجلی کا ہے کہ جس میں روشنی تھوڑی ہوتی ہے اور اس کے اوپر چلے جایئےہ زیادہ سے زیادہ درجے پائے جاتے ہیں یہ تمام کے تمام نور اور روشنی کے وجود ہیں اور درجات ہیں کمتر اور اعلی درجے کے درمیاں کے درجات ہیں جو سب کے سب نور ہیں ان میں فرق صرف شدت اور ضعف کا ہوتا ہے بعینہ اس طرح وجود اور ہستی کے مختلف مراتب اور

۱۷۸

درجات ہیں کہ جن میں فرق صرف شدت اور ضعف کا ہوتا ہے _ وجود کا سب سے نیچا اور پشت درجہ اسی دنیا کے وجود کا درجہ ہے کہ جسے مادہ اور طبیعت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وجود کا اعلی ترین درجہ اور رتبہ ذات مقدس خدا کا وجود ہے کہ جو ذات مقدس کمال وجود کے لحاظ سے غیر متناہی ہے ان دو مرتبوں اور درجوں کے درمیان وجود کے درجات اور مراتب موجود ہیں کہ جن کا آپس میں فرق شدت اور ضعف کا ہے_ یہیں سے واضح اور روشن ہوجائیگا کہ جتنا وجود قوی تر اور اس کا درجہ بالاتر اور کاملتر ہوگا وہ اسی نسبت سے ذات مقدس غیر متناہی خدائے متعال سے نزدیک تر ہوتا جائیگا اس کے برعکس وجود جتنا ضعیف تر ہوتا جائیگا اتنا ہی ذات مقدس کے وجود سے دور تر ہو جائیگا اس تمہید کے بعد بندہ کا اللہ تعالی سے قرب اور دور ہونے کا معنی واضح ہوجاتا ہے_ انسان روح کے لحاظ سے ایک مجرد حقیقت ہے جو کام کرنے کے اعتبار سے اس کا تعلق مادہ اور طبیعت سے ہے کہ جس کے ذریعے حرکت کرتا ہے اور کامل سے کاملتر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے انتہائی درجے تک جا پہنچتا ہے_ حرکت کی ابتداء سے لے کر مقصد تک پہنچنے کے لئے وہ ایک شخص اور حقیقت ہی ہوا کرتا ہے_ لیکن جتنا زیادہ کمال حاصل کرتا جائیگا اور وجود کے مراتب پر سیر کرے گا وہ اسی نسبت سے ذات الہی کے وجود غیر متناہی کے نزدیک ہوتا جائیگا_ انسان ایمان اور نیک اعمال کے ذریعے اپنے وجود کو کامل کاملتر بنا سکتا ہے یہاں تک کہ وہ قرب الہی کے مقام تک پہنچ جائے اور منبع ہستی اور چشمہ کمال اور جمال کے فیوضات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر لے اور خود بھی بہت سے آثار کا منبع اور سرچشمہ بن جائے _ اس توضیح کے بعد واضح ہوگیا کہ انسان کی حرکت اور بلند پروازی ایک غیر متناہی مقصد کی طرف ہوتی ہے ہر آدمی اپنی کوشش اور تلاش کے ذریعے کسی نہ کسی قرب الہی کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے یعنی اللہ تعالی کے قرب کے مقام کی کوئی خاص حد اور انتہا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے مقام قرب کی حقیقت کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ قرب ایک اضافی امر ہے کہ انسان جتنی زیادہ محنت اور عمل کرے گا ایک اعلی مقام اور اس سے اعلی مقام تک پہنچتا جائیگا اور ذات اللہ کے فیوضات اور برکات سے زیادہ سے زیادہ بہرمند ہوتا جائیگا_

۱۷۹

کمالات انسان کی بنیاد ایمان ہے

نفس انسانی کے کمالات تک پہنچنے اور ذات الہی کے قرب کی طرف حرکت کرنے کی اساس اور بنیاد ایمان اور معرفت ہے ایک کمال تک پہنچنے والے انسان کو اپنے مقصد اور حرکت کی غرض و غایت کو اپنے سامنے واضح رکھنا چاہئے اور اسے معلوم ہو کہ وہ کدھر اور کہاں جانا چاہتا ہے اور کس طریقے اور راستے سے وہ حرکت کرے ورنہ وہ مقصد تک نہیں پہنچ سکے گا_ اللہ تعالی پر ایمان اس کی حرکت کی سمت کو بتلاتا ہے اور اس کے مقصد اور غرض کو واضح کرتا ہے_ جو لوگ خدا پر ایمان نہ رکھتے ہونگے وہ صراط مستقیم کے طے کرنے سے عاجز اور ناتواں ہونگے_ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ اللہ تعالی اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے وہ سیدھے راستے سے منحرف ہیں_(۳۳۹)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے بلکہ وہ لوگ کہ جو آخرت کے عالم پر ایمان نہیں رکھتے وہ کمال کے عالم سے دور ہوا کرتے اور صرف مادیات اور اپنے نفس کی حیوانی خواہشات کے پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں_(۳۴۰) اسی لئے اس کا مقصد اور غرض سوائے مادی جہان کے اور کچھ نہیں ہوتا وہ کمال کے راستے پر ہی نہیں ہے تا کہ قرب الہی تک پہنچنے کا اس کے لئے کوئی امکان باقی ہو اس کے حرکت کی سمت صرف دنیا ہے اور انسانیت کے صراط مستقیم کے مرتبے سے دور ہوچکا ہے اگر کافر کوئی اچھا کام بھی کرے تو وہ اس

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346