خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس22%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119333 / ڈاؤنلوڈ: 5160
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

نفس پر اعتماد نہ کرے اور اس کی بابت خوش عقیدہ نہ ہو کیونکہ نفس بہت ہی مکار اور امارہ سو ہے_ سینکڑوں حیلے بہانے سے اچھے کام کو برا اور برے کو اچھا ظاہر کرتا ہے_ انسان کو اپنے بارے اپنی ذمہ داری کو نہیں سوچنے دیتا تا کہ انسان اس پر عمل پیرا ہو سکے_ گناہ کے ارتکاب اور عبادت کے ترک کرنے کی کوئی نہ کوئی توجیہ کرے گا_ گناہوں کو فراموشی میں ڈال دے گا اور معمولی بتلائے گا_ چھوٹی عبادت کو بہت بڑا ظاہر کرے گا اور انسان کو مغرور کردے گا_ موت اور قیامت کو بھلا دے گا اور دور دراز امیدوں کو قوی قرار دے گا_ حساب کرنے کو سخت اور عمل نہ کئے جانے والی چیز بلکہ غیر ضروری ظاہر کردے گا اسی لئے انسان کو اپنے نفس کی بارے میں بدگمانی رکھتے ہوئے اس کا حساب کرنا چائے_ حساب کرنے میں بہت وقت کرنی چاہئے اور نفس اور شیطن کے تاویلات اور ہیرا پھیری کی طرف کان نہیں دھرنے چائیں_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کی یاد کے لئے کچھ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اللہ تعالی کے ذکر کو دنیا کے عوض قرار دے رکھا ہے لہذا ان کو کار و بار اللہ تعالی کے ذکر سے نہیں روکتا_ اپنی زندگی کو اللہ تعالی کے ذکر کے ساتھ گزارتے ہیں_ گناہوں کے بارے قرآن کی آیات اور احادیث غافل انسانوں کو سناتے ہیں اور عدل اور انصاف کرنے کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں_ منکرات سے روکتے ہیں اور خودبھی ان سے رکتے ہیں گویا کہ انہوں نے دنیا کو طے کرلیا ہے اور آخرت میں پہنچ چکے ہیں_ انہوں نے اس دنیا کے علاوہ اور دنیا کو دیکھ لیا ہے اور گویا برزخ کے لوگوں کے حالات جو غائب ہیں ان سے آگاہ ہوچکے ہیں_ قیامت اور اس کے بارے میں جو وعدے دیئے گئے ہیں گویا ان کے سامنے صحیح موجود ہوچکے ہیں_ دنیا والوں کے لئے غیبی پردے اس طرح ہٹا دیتے ہیں کہ گویا وہ ایسی چیزوں کو دیکھ رہے ہوں کہ جن کو دنیا والے نہیں دیکھ رہے ہوتے اور ایسی چیزوں کو سن رہے ہیں کہ جنہیں دنیا والے نہیں سن رہے_ اگر تو ان کے مقامات عالیہ اور ان کی مجالس کو اپنی عقل کے سامنے مجسم کرے تو گویا وہ یوں نظر آئیں گے کہ انہوں نے اپنے روز

۱۶۱

کے اعمال نامہ کو کھولا ہوا ہے اور اپنے اعمال کے حساب کرلینے سے فارغ ہوچکے ہیں یہاں تک کہ ہر چھوٹے بڑے کاموں سے کہ جن کاانہیں حکم دیا گیا ہے اور ان کے بجالانے میں انہوں نے کوتاہی برتی ہے یا جن سے انہیں روکا گیا ہے اور انہوں نے اس کا ارتکاب کریا ہے ان تمام کی ذمہ داری اپنی گردن پر ڈال دیتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے بجالانے اور اطاعت کرنے میں کمزور دیکھتے ہیں اور زار زار گریہ و بکاء کرتے ہیں اور گریہ اور بکاء سے اللہ کی بارگاہ میں اپنی پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں_ ان کو تم ہدایت کرنے ولا اور اندھیروں کے چراغ پاؤگے کہ جن کے ارد گرد ملا مکہ نے گھیرا ہوا ہے اور اللہ تعالی کی مہربانی ان پر نازل ہوچکی ہے_ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھول دیئےئے ہیں اور ان کے لئے محترم اور مکرم جگہ حاضر کی جاچکی ہے_(۳۱۱)

۱۶۲

توبہ یا نفس کو پاک و صاف کرنا

نفس کو پاک اور صاف کرنے کا بہتریں راستہ گناہوں کا نہ کرنا اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھنا ہے اگر کوئی شخص گناہوں سے بالکل آلودہ نہ ہو اور نفس کی ذاتی پاکی اور صفا پر باقی رہے تو یہ اس شخص سے افضل ہے جو گناہ کرنے کے بعد توبہ کر لے_ جس شخص نے گناہ کا مزہ نہیں چکھا اور اس کی عادت نہیں ڈالی یہ اس شخص کی نسبت سے جو گناہوں میں آلودہ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ گناہوں کو ترک کردے بہت آسانی سے اور بہتر طریقے سے گناہوں سے چشم پوشی کر سکتا ہے امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''گناہ کا ترک کردینا توبہ کے طلب کرنے سے زیادہ آسان ہے_(۳۱۲)

لیکن جو انسان گناہوں سے آلودہ ہوجائیں انہیں بھی اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کا راستہ کسی وقت بھی بند نہیں ہوتا بلکہ مہربان اللہ تعالی نے گناہگاروں کے لئے توبہ کا راسنہ ہمیشہ لے لئے کھلا رکھا ہوا ہے اور ان سے چاہا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف پلٹ آئیں اور توبہ کے پانی سے نفس کو گناہوں کی گندگی اور پلیدی سے دھوڈالیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے '' میرے ان بندوں سے کہ جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے کہہ دو کہ وہ اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہوں کیونکہ خدا تمام گناہوں کو بخش دے گا اور وہ بخشنے والا مہربان ہے_(۳۱۳)

۱۶۳

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' جب مومن تیرے پاس آئیں تو ان سے کہہ دے کہ تم پر سلام ہو_ خدا نے اپنے اوپر رحمت اور مہربانی لازم قرار دے دی ہے_ تم میں سے جس نے جہالت کی وجہ سے برے کام انجام دیئے اور توبہ کرلیں اور خدا کی طرف پلٹ آئیں اور اصلاح کرلیں تو یقینا خدا بخشنے والا مہربان ہے_(۳۱۴)

توبہ کی ضرورت

گمان نہیں کیا جا سکتا کہ گناہگاروں کے لئے توبہ کرنے سے کوئی اور چیز لازمی اور ضروری ہو جو شخص خدا پیغمبر قیامت ثواب عقاب حساب کتاب بہشت دوزخ پر ایمان رکھتا ہو وہ توبہ کے ضروری اور فوری ہونے میں شک و تردید نہیں کرسکتا_

ہم جو اپنے نفس سے مطلع ہیں اور اپنے گناہوں کو جانتے ہیں تو پھر توبہ کرنے سے کیوں غفلت کریں؟ کیا ہم قیامت اور حساب اور کتاب اور دوزخ کے عذاب کا یقین نہیں رکھتے؟ کیا ہم اللہ کہ اس وعدے میں کہ گناہگاروں کو جہنم کی سزا دونگا شک اور تردید رکھتے ہیں؟ انسان کا نفس گناہ کے ذریعے تاریک اور سیاہ اور پلید ہوجاتا ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ انسان کی شکل حیوان کی شکل میں تبدیل ہوجائے پس کس طرح جرت رکھتے ہیں کہ اس طرح کے نفس کے ساتھ خدا کے حضور جائیں گے اور بہشت میں خدا کے اولیا' کے ساتھ بیٹھیں گے؟ ہم گناہوں کے ارتکاب کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کے صراط مستقیم کو چھوڑ چکے ہیں اور حیوانیت کی وادی میں گر چکے ہیں_ خدا سے دور ہوگئے ہیں اور شیطن کے نزدیک ہوچکے ہیں اور پھر بھی توقع رکھتے ہیں کہ آخرت میں سعادتمند اور نجات یافتہ ہونگے اور اللہ کی بہشت میں اللہ تعالی کی نعمتوں سے فائدہ حاصل کریں گے یہ کتنی لغو اور بے جا توقع ہے؟ لہذا وہ گناہگار جو اپنی سعادت کی فکر رکھتا ہے اس کے لئے سوائے توبہ اور خدا کی طرف پلٹ جانے کے اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے_

۱۶۴

یہ بھی اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی مہربانی اور لطف اور کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے توبہ کا راستہ کھلا رکھا ہوا ہے زہر کھلایا ہوا انسان جو اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہے کسی بھی وقت زہر کے نکالے جانے اور اس کے علاج میں تاخیر اور تردید کو جائز قرا ر نہیں دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے دیر کی تو وہ ہلاک ہوجائیگا جب کہ انسان کے لئے گناہ ہر زہر سے زیادہ ہلاک کرنے والا ہوتا ہے_ عام زہر انسان کی دنیاوی چند روزہ زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہے تو گناہ انسان کو ہمیشہ کی ہلاکت میں ڈال دیتا ہے اور انسان کی آخرت کی سعادت کو ختم کر دیتا ہے اگر زہر انسان کو دنیا سے جدائی دیتی ہے تو گناہ انسان کو خدا سے دور کردیتا ہے_ اور اللہ تعالی سے قرب اور لقاء کے فیض سے محروم کر دیتا ہے لہذا تمہارے لئے ہر ایک چیز سے توبہ اور انابہ زیادہ ضروری اور فوری ہے کیونکہ ہماری معنوی سعادت اور زندگی اس سے وابستہ ہے_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے '' مومنو تم سب اللہ تعالی کی طرف توبہ کرو_ شاید نجات حاصل کر لو_(۳۱۵)

خدا ایک اور مقام میں فرماتا ہے ''مومنو خدا کی طرف توبہ نصوح کرو شاید خدا تمہارے گناہوں کو مٹا دے اور تمہیں بہشت میں داخل کردے کہ جس کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں_(۳۱۶)

پیغمبر خدا نے فرمایا ہے کہ '' ہر درد کے لئے دوا ہوتی ہے_ گناہوں کے لئے استغفار اور توبہ دوا ہے_(۳۱۷)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر انسان کے دل یعنی روح میں ایک سفید نقطہ ہوتا ہے جب وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس سفید نقطہ میں سیاہی وجود میں آجاتی ہے اگر اس نے توبہ کر لی تو وہ سیاہی مٹ جاتی ہے اور اگر گناہ کو پھر بار بار بجلاتا رہا تو آہستہ آہستہ وہ سیاہ نقطہ زیادہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سارے سفید نقطہ پر چھا جاتا ہے اس وقت وہ انسان پھر نیکی کی طرف نہیں پلٹتا یہی مراد اللہ

۱۶۵

تعالی کے اس فرمان میں کلا بل ران عن قلوبہم بما کانوا یکسبون_(۳۱۸) یعنی ان کے دلوں پر اس کی وجہ سے کہ انہوں نے انجام دیا ہے زنگ چڑھ جاتا ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے _ '' توبہ کو دیر میں کرنا ایک قسم کا غرور اور دھوکہ ہے اور توبہ میں تاخیر کرنا ایک طرح کی پریشانی اور حیرت ہوتی ہے_ خدا کے سامنے عذر تراشنا موجب ہلاکت ہے_ گناہ پر اصرار کرنا اللہ تعالی کے عذاب اور سزا سے مامون ہونے کا احساس ہے جب کہ اللہ تعالی کے عذاب سے مامون ہونے کا احسان نقصان اٹھانے والے انسان ہی کرتے ہیں_(۳۱۹)

بہتر ہے کہ ہم ذرا اپنے آپ میں فکر کریں گذرے ہوئے گناہوں کو یاد کریں اور اپنی عاقبت کے بارے میں خوب سوچیں اور اپنے سامنے حساب و کتاب کے موقف میزان اعمال خدا قہار کے سامنے شرمندگی فرشتوں اور مخلوق کے سامنے رسوائی قیامت کی سختی دوزخ کے عذاب اللہ تعالی کی لقاء سے محرومیت کو مجسم کریں اور ایک اندرونی انقلاب کے ذریعے اللہ تعالی کی طرف لوٹ آئیں اور توبہ کے زندگی دینے والے پانی سے اپنے گذرے ہوئے گناہوں کو دھوئیں اور نفس کی پلیدی اور گندگی کو دور کریں اور حتمی ارادہ کر لیں کہ گناہوں سے کنارہ کشی کریں گے_ اور آخرت کے سفر اور ذات الہی کی ملاقات کے لئے مہیا ہوجائیں گے لیکن اتنی سادگی سے شیطن ہم سے دستبردار ہونے والا نہیں ہے؟ کیا وہ توبہ اور خدا کی طرف لوٹ جانے کی اجازت دے دیگا؟

وہی شیطن جو ہمیں گناہوں کے ارتکاب کرنے پر ابھارتا ہے وہ ہمیں توبہ کرنے سے بھی مانھ ہوگا گناہوں کو معمولی اور کمتر بتلائے گا وہ گناہوں کو ہمارے ذہن سے ایسے نکل دیتا ہے کہ ہم ان تمام کو فراموش کردیتے ہیں_ مرنے اور حساب اور کتاب اور سزای فکر کو ہمارے مغز سے نکال دیتا ہے اور اس طرح ہمیں دنیا میں مشغول کردیتا ہے کہ کبھی توبہ نور استغفار کی فکر ہی نہیں کرتے اور اچانک موت سرپر آجائے گی اور پلید اور کثیف نفس کے ساتھ اس دنیا سے چلے جائیں گے_

۱۶۶

توبہ کا قبول ہونا

اگر درست توبہ کی جائے تو وہ یقینا حق تعالی کے ہاں قبول واقع ہوتی ہے اور یہ بھی اللہ تعالی کے لطف و کرم میں سے ایک لطف اور مہربانی ہے_ خداوند عالم نے ہمیں دوزخ اور جہنم کے لئے پیدا نہیں کیا_ بلکہ بہشت اور سعادت کے لئے خلق فرمایا ہے پیغمبروں کو بھیجا ہے تا کہ لوگوں کو ہدایت اور سعادت کے راستے کی رہنمائی کریں اور گناہگار بندوں کو توبہ اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیں توبہ اور استغفار کا دروازہ تمام بندوں کے لئے کھلا رکھا ہوا ہ ے پیغمبر ہمیشہ ان کو اس کی طرف دعوت دیتے ہیں_ پیغمبر(ص) اور اولیاء خدا ہمیشہ لوگوں کو توبہ کی طرف بلاتے ہیں_ خداوند عالم نے بہت سی آیات میں گناہگار بندوں کو اپنی طرف بلایا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ ان کی توبہ کو قبول کرے گا اور اللہ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوا کرتا_ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اطہار نے سینکٹروں احادیث میں لوگوں کو خدا کی طرف پلٹ آنے اور توبہ کرنے کی طرف بلایا ہے اور انہیں امید دلائی ہے_ جیسے_

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس سے آگاہ ہے_(۳۲۰)

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' میں بہت زیادہ انہیں بخشنے والا ہوں جو توبہ کریں اور ایمان لے آئیں اور نیک اعمال بجالائیں اور ہدایت پالیں_(۳۲۱)

اگر خدا کو یاد کریں اور گناہوں سے توبہ کریں_ خدا کے سوا کون ہے جو ان کے گناہوں کو بخش دے گاہ اور وہ جو اپنے برے کاموں پر اصرار نہیں کرتے اور گناہوں کی برائی سے آگاہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے اعمال کی جزا بخشا جانا اور ایسے باغات ہیں کہ جن کے درمیان نہریں جاری ہیں اور ہمیشہ کے لئے وہاں زندگی کریں گے اور عمل کرنے والوں کے لئے ایسے جزا کتنی ہی اچھی ہے_(۳۲۲)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' گناہوں سے توبہ کرنے والا اس شخص کی

۱۶۷

طرح ہے کہ جسنے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو اور جو گناہوں کو بجالانے پر اصرار کرتا ہے اور زبان پر استغفار کے کلمات جاری کرتا ہے یہ مسخرہ کرنے والا ہوتا ہے_(۳۲۳) اس طرح کی آیات اور روایات بہت زیادہ موجود ہیں لہذا توبہ کے قبول کئے جائے میں کوئی شک اور تردید نہیں کرنا چاہئے بلکہ خداوند عالم توبہ کرنے والے کو دوست رکھتا ہے_ قرآن مجید میں فرماتا ہے '' یقینا خدا توبہ کرنے والے اور اپنے آپکو پاک کرنے والے کو دوست رکھتا ہے_(۳۲۴) امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کا اس بندہ سے جو توبہ کرتا ہے خوشنود ہونا اس شخص سے زیادہ ہوتا ہے کہ جو تاریک رات میں اپنے سواری کے حیوان اور زاد راہ اور توشہ کو گم کرنے کے بعد پیدا کر لے_(۳۲۵)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب کوئی بندہ خالص توبہ اور ہمیشہ کے لئے کرے تو خداوند عالم اسے دوست رکھتا ہے اور اللہ تعالی اس کے گناہوں کو چھپا دیتا ہے_ راوی نے عرض کی _ اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالی کس طرح گناہوں کو چھپا دیتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہے کہ وہ دو فرشتے جو اس کے اعمال کو لکھتے ہیں اس کے گناہ کو بھول جاتے ہیں اور اللہ تعالی اس کے اعضاء اور جوارح زمین کے نقاط کو حکم دیتا ہے کہ توبہ کرنے والے بندے کے گناہوں کو چھپا دیں ایسا شخص خدا کے سامنے جائیگا جب کہ کوئی شخص اور کوئی چیز اس کے گناہوں کی گواہ نہ ہوگی_(۳۲۶)

توبہ کیا ہے؟

گذرے ہوئے اعمال اور کردار پر ندامت اور پشیمانی کا نام توبہ ہے اور ایسے اس شخص کو توبہ کرنے والا کہا جا سکتا ہے جو واقعا اور تہہ دل سے اپنے گذرے ہوئے گناہوں پر پشیمان اور نادم ہو_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ پشیمان اور ندامت توبہ ہے_(۳۲۷)

یہ صحیح اور درست ہے کہ خداوند عالم توبہ کو قبول کرتا اور گناہوں کو بخش دیتا ہے لیکن صرف زبان سے استغفراللہ کا لفظ کہہ دینا یا صرف پشیمانی کا اظہار کر دینا یا گریہ

۱۶۸

کر لینا دلیل نہیں ہے کہ وہ واقعا تہ دل سے توبہ کر چکا ہے بلکہ تین علامتوں کے ہونے سے حقیقی اور واقعی توبہ جانی جاتی ہے_

پہلے تو تہہ دل سے دل میں گذرے گناہوں سے بیزار اور متنفر ہوا اور اپنے نفس میں غمگین اور پشیمان اور شرمندہ ہو دوسرے حتمی ارادہ رکھتا ہو کہ پھر آئندہ گناہوں کو بجا نہیں لائے گا_

تیسرے اگر گناہ کے نتیجے میں ایسے کام انجام دیئے ہوں کہ جن کا جبران اور تدارک کیا جا سکتا ہے تو یہ حتمی ارادہ کرے کہ اس کا تدارک اور جبران کرے گا اگر اس کی گردن پر لوگوں کا حق ہو اگر کسی کا مال غضب کیا ہے یا چوری کی ہے یا تلف کر دیا ہے تو پہلی فرصت میں اس کے ادا کرنے کا حتمی ارادہ کرے اور اگر اس کے ادا کرنے سے عاجز ہے تو جس طرح بھی ہو سکے صاحب حق کو راضی کرے اور اگر کسی کی غیبت اور بدگوئی کی ہے تو اس سے حلیت اور معافی طلب کرے اور اگر کسی پر تجاوز اور ظلم و ستم کیا ہے تو اس مظلوم کو راضی کرے اور اگر مال کے حق زکواة خمس و غیرہ کو نہ دیا و تو اسے ادا کرے اور اگر نماز اور روزے اس سے قضا ہوئے ہوں تو ان کی قضا بجالائے اس طرح کرنے والے شخص کو کہا جا سکتا ہے کہ واقعا وہ اپنے گناہوں پر پشیمان ہوگیا اور اس کی توبہ قبول ہوجائیگی_ لیکن جو لوگ توبہ اور استغفار کے کلمات اور الفاظ تو زبان پر جاری کرتے ہیں لیکن دل میں گناہ سے پشیمان اور شرمندہ نہیں ہوتے اور آئندہ گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ بھی نہیں رکھے یا ان گناہوں کو کہ جن کا تدارک اور تلافی کی جانی ہوتی ہے ان کی تلافی نہیں کرتے اس طرح کے انسانوں نے توبہ نہیں کی اور نہ ہی انہیں اپنی توبہ کے قبول ہوجانے کی امید رکھنی چاہئے گرچہ وہ دعا کی مجالس او رمحافل میں شریک ہوتے ہوں اور عاطفہ رقت کیوجہ سے متاثر ہو کر آہ و نالہ گریہ و بکاء بھی کر لیتے ہوں_

ایک شخص نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے سامنے استغفار کے کلمات زبان پر جاری کئے تو آنحضرت نے فرمایا '' تیری ماں تیری عزاء میں بیٹھے کیا جانتے ہو کہ

۱۶۹

استغفار او توبہ کیا ہے؟ توبہ کرنا بلند لوگوں کا مرتبہ ہے توبہ اور استغفار چھ چیزوں کا نام ہے_ ۱_ گذرے ہوئے گناہوں پر پشیمانی ہونا_ ۲_ ہمیشہ کے لئے گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ کرنا_۳_ لوگوں کے حقوق کو ادا کرنا کہ جب تو خدا کے سامنے جائے تو تیری گردن پر لوگوں کا کوئی حق نہ ہو_ ۴_ پوری طرح سے متوجہ ہو کہ جس واجب کو ترک کیا ہے اسے ادا کرے_ ۵_ اپنے گناہوں پر اتنا غمناک ہو کہ وہ گوشت جو حرام کے کھانے سے بنا ہے وہ ختم ہوجائے اور تیری چمڑی تیری ہڈیوں پر چمٹ جائے اور پھر دوسرا گوشت نکل آئے گا_ ۶_ اپنے نفس کو اطاعت کرنے کی سختی اور مشقت میں ڈالے جیسے پہلے اسے نافرمانی کی لذت اور شیرینی سے لطف اندوز کیا تھا ان کاموں کے بعد تو یہ کہے کہ استغفر اللہ) ۳۲۸) تو گویا یہ پھر توبہ حقیق ہے_ گناہ شیطن اتنا مکار اور فریبی ہے کہ کبھی انسان کو توبہ کے بارے میں بھی دھوکا دے دیتا ہے_ ممکن ہے کہ کسی گنہگار نے وعظ و نصیحت یا دعا کی مجلس میں شرکت کی اور مجلس یا دعا سے متاثر ہوا اور اس کے آنسو بہنے لگے یا بلند آواز سے رونے لگا اس وقت اسے شیطن کہتا ہے کہ سبحان اللہ کیا کہنا تم میں کیسی حالت پیدا ہوئی_ بس یہی تو نے توبہ کرلی اور تو گناہوں سے پاک ہوگیا حالانکہ نہ اس کا دل گناہوں پر پشیمان ہوا ہے اور نہ اس کا آئندہ کے لئے گناہوں کے ترک کردینے کا ارادہ ہے اور نہ ہی اس نے ارادہ کیا ہے کہ لوگوں اور خدا کے حقوق کو ادا کرے گا اس طرح کا تحت تاثیر ہوجانا توبہ نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی نفس کے پاک ہوجانے اور آخرت کی سعادت کا سبب بنتا ہے اس طرح کا کا شخص نہ گناہوں سے لوٹا ہے اور نہ ہی خدا کی طرف پلٹا ہے_

جن چیزوں سے توبہ کی جانی چاہئے

گناہ کیا ہے اور کس گناہ سے توبہ کرنی چاہئے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالی کی طرف جانے اور سیر و سلوک سے مانع ہو اور دنیا سے علاقمند کر دے اور توبہ کرنے سے روکے رکھے وہ گناہ ہے اور اس سے پرہیز کرنا چاہئے اور نفس

۱۷۰

کو اس سے پاک کرنا چاہئے گناہ دو قسم پر ہوتے ہیں_ ۱_ اخلاقی گناہ_ ۲_ عملی گناہ_

۱ _ اخلاقی گناہ

برے اخلاق اور صفات نفس کو پلید اور کثیف کر دیتے ہیں اور انسانیت کے صراط مستقیم کے راستے پر چلنے اور قرب الہی تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں_ بری صفات اگر نفس میں رسوخ کر لیں اور بطور عادت اور ملکہ کے بن جائیں تو ذات کے اندر کو تبدیل اور تغیر کر دیتے ہیں یہاں تک کہ انسانیت کے کس درج پر رہے اسے بھی متاثر کردیتے ہیں_ اخلاقی گناہوں کو اس لحاظ سے کہ اخلاقی گناہ ہیں معمولی اور چھوٹا اور غیر اہم شمار نہیں کرنا چاہئے اور ان سے توبہ کرنے سے غافل نہیں ہونا چاہئے بلکہ نفس کو ان سے پاک کرنا ایک ضروری اور زندگی ساز کام ہے_ برے اخلاق نام ہے_ ریائ، نفاق، غضب، تکبر، خودبینی، خودپسندی، ظلم، مکر و فریب و غیبت، تہمت نگانا، چغلخوری، عیب نکالنا، وعدہ خلافی، جھوٹ حب دنیا حرص اور لالچ، بخیل ہونا حقوق والدین ادا نہ کرنا، قطع رحمی_ کفر ان نعمت ناشکری، اسراف، حسد، بدزبانی گالیاں دینا اور اس طرح کی دوسری بری صفات اور عادات

سینکٹروں روایات اور آیات ان کی مذمت اور ان سے رکنے اور ان کے آثار سے علاج کرنے اور ان کی دنیاوی اور اخری سزا کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ اخلاقی کتابوں میں ان کی تشریح اور ان کے بارے میں بحث کی گئی ہے_ یہاں پر ان کے بارے میں بحث نہیں کی جا سکتی_ اخلاقی کتابوں اور احادیث میں ان کے بارے میں رجوع کیا جا سکتا ہے_

۲_ عملی گناہ

عملی گناہوں میں سے ایک چوری کرنا_ کسی کو قتل کرنا_ زناکاری، لواطت، لوگوں کا مال غصب کرنا، معاملات میں تقلب کرنا، واجب جہاد سے بھاگ جانا_

۱۷۱

امانت میں خیانت کرنا، شراب اور نشہ آور چیز کا پینا، مردار گوشت کھانا، خنزیر اور دوسرے حرام گوشت کھانا، قمار بازی، جھوٹی گواہی دینا، بے گناہوں لوگوں پر زنا کی تہمت لگانا، واجب نمازوں کو ترک کرنا، واجب روزے نہ رکھنا، حج نہ کرنا، امر بہ معروف اور نہی منکر کو ترک کرنا، نجس غذا کھانا، اور دوسرے حرام کام جو مفصل کتابوں میں موجود ہیں کہ جن کی تشریح اور وضاحت یہاں ممکن نہیں ہے_ یہ تو مشہور گناہ ہیں کہ جن سے انسان کو اجتناب کرنا چاہئے اور اگر بجالایا ہو تو ان سے توبہ کرے اور اللہ کی طرف رجوع کرے لیکن کچھ گناہ ایسے بھی ہیں جو مشہور نہیں ہیں اور انہیں گناہوں کے طور پر نہیں بتلایا گیا لیکن وہ اللہ کے برگزیدہ بندوں اور اولیاء خدا کے لئے گناہ شمار ہوتے ہیں جیسے مستحبات کا ترک کر دینا یا مکروہات کا بجالانا بلکہ گناہ کے تصور کو او رذات الہی سے کسی غیر کی طرف توجہہ کرنے کو اور شیطانی وسوسوں کو جو انسان کو خدا سے غافل کر دیتے ہیں_ یہ تمام اولیاء خدا اور اس کی صفات اور افعال کی پوری اور کامل معرفت نہ رکھنے کو جو ہر ایک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اللہ تعالی کے خاص منتخب بندوں کے لئے گناہ شمار ہوتے ہیں اور ان سے وہ توبہ کرتے رہتے تھے بلکہ اس سے بالا تر ذات الہی اور اس کی صفات اور افعال کی پوری اور کامل معرفت نہ رکھنے کو ج و ہر ایک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اللہ تعالی اور اس طرح کے نقص کے احساس سے ان کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا اور گریہ نالہ و زاری سے خدا کی طرف رجوع کرتے تھے اور توبہ اور استغفار کرتے تھے_ پیغمبروں اور ائمہ اطہار کے توبہ کرنے کو اسی معنی میں لیا جانا چاہئے_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر روز ستر دفعہ استغفار کرتے تھے جبکہ آپ پر کوئی گناہ بھی نہیں تھا_(۳۲۹) رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ '' کبھی میرے دل پر تاریکی عارض ہوتی تھی تو اس کے لئے میں ہر روز ستر دفعہ استغفار کیا کرتا تھا_(۳۳۰)

۱۷۲

دوسرا حصہ

نفس کی تکمیل اور تربیت

۱۷۳

نفس کی تکمیل اور تربیت

نفس کو پاک صاف کرنے کے بعد اس کی تکمیل اور تربیت کا مرحلہ آتا ہے کہ جسے اصطلاح اخلاقی میں تحلیہ_ کہا جاتا ہے_ علوم عقلیہ میں ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کا نفس ہمیشہ حرکت اور ہونے کی حالت میں ہوتا ہے_ اس کی فعلیت اس کی استعداد اور قوت سے ملی ہوئی ہے_ آہستہ آہستہ اندر کی قوت اور استعداد کو مقام فعلیت اور بروز و ظہور میں لاتا ہے اور اپنی ذات کی پرورش کرتا ہے اگر نفس نے صراط مستقیم پر حرکت کی اور چلا تو وہ آہستہ کامل کامل تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ آخر کمال تک پہنچ جاتا ہے اور اگر صراط مستقیم سے ہٹ گیا اور گمراہی کے راستے پر گامزن ہوا تو پھر بھی آہستہ آہستہ کمال انسانی سے دور ہوتا جاتا ہے اور حیوانیت کی ہولناک وادی میں جا گرتا ہے_

خدا سے قرب

یہ معلوم ہونا چاہئے کہ انسان کی حرکت ایک حقیقی اور واقعی حرکت ہے نہ کہ اعتباری محض اور یہ حرکت انسان کی روح اور نفس کی ہے نہ جسم اور تن کی اور روح کا حرکت کرنا اس کا ذاتی فعل ہے نہ کہ عارضی_ اس حرکت میں انسان کا جوہر اور گوہر حرکت کرتا ہے اور متغیر ہوتا رہتا ہے_ لہذا انسان کی حرکت کا سیر اور راستہ ایک واقعی

۱۷۴

راستہ ہے نہ اعتباری اور مجازی_ لیکن اس کا مسیر اس کی متحرک ذات سے جدا نہیں ہے بلکہ متحرک اور حرکت کرنے والا نفس اپنی ذات کے باطن میں حرکت کرتا ہے اور مسیر کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے_ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر حرکت کے لئے کوئی غایت غرض ہوتی ہے_ انسان کی ذات کی حرکت کی غرض اور غایت کیا ہے؟ انسان اس جہان میں کس غرض اور غایت کی طرف حرکت کرتا ہے اور اس حرکت میں اس کا انجام کیا ہوگا؟

روایات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی حرکت کی جو غرض معین کی گئی ہے وہ قرب الہی ہے لیکن تمام انسان صراط مستقیم پر نہیں چلتے اور قرب الہی تک نہیں پہنچتے _ قرآن انسانوں کو تین گروہ میں تقسیم کرتا ہے_ ۱_ اصحاب میمنہ_ ۲_ اصحاب مشئمہ_ ۳_ سابقو کے جنہیں مقربین کے نام سے موسوم کیا گیا ہے_ قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' تم انسان تین گروہ ہو_ اصحاب میمنہ آپ کیا جانتے ہیں کہ اصحاب میمنہ کون اشخاص ہیں؟ اصحاب مشئمہ اور آپ کیا جانتے ہیں کہ وہ کون اشخاص ہیں ؟ بہشت کی طرف سبقت کرنے والے اور اللہ تعالی کی رحمت کو حاصل کرنے کے لئے بھی سبقت کرتے ہیں یہ وہ اشخاص ہیں جو خدا کے مقرب بندے ہیں ور بہشت نعیم میں سکونت رکھیں گے_''(۳۳۱)

اصحاب میمنہ یعنی سعادت مند حضرات اور اصحاب مشئمہ یعنی اہل شقاوت اور بدبخت_ اور سابقین وہ حضرات ہیں کہ جو صراط مستقیم کو طے کرنے میں دوسروں پر سبقت کرتے ہیں اور قرب الہی کے مقام تک پہنچتے ہیں_ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حرکت نفس کی غرض اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے_ خدا ایک اور آیت میں فرماتا ہے _ '' اگر خدا کے مقربین سے ہوا تو قیامت کے دن آرام والی بہشت اور نعمت الہی سے جو خدا کا عطیہ ہے استفادہ کرے گا_ اور اگر اصحاب یمین سے ہوا تو ان کی طرف سے تم پر سلام ہے اور اگر منکر اور گمراہوں سے ہوا تو اس پر دوزخ کا گرم پانی ڈالا جائیگا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا_(۳۳۲)

۱۷۵

نیز ایک اور آیت میں ہے کہ '' اس طرح نہیں ہے کہ کافرون نے گمان کیا ہوا ہے یقینا ابرار اور نیک لوگوں کا دفتر اور کتاب (اور جو کچھ اس میں موجود ہے) علین یعنی اعلی درجات میں ہے آپ کیا جانتے ہیں کہ علین کیا چیز ہے وہ ایک کتاب ہے جو خدا کی طرف سے ہوا کرتی ہے اور اللہ کے مقرب اس مقام کا مشاہدہ کریںگے_(۳۳۳) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا انتہائی کمال اور اسکے سیر اور حرکت کی غرض اور غایت اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے تا کہ انسان حرکت کر کے اس مقام تک جا پہنچیں لہذا مقربین کا گروہ سعادتمندوں میں سے ایک ممتاز گروہ ہے قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جب ملائکہ نے کہا اے مریم خداوند عالم نے تجھے ایک کلمہ کی جو خداوند عالم کی طرف سے ہے یعنی عیسی بن مریم کی بشارت دی ہے کہ جو دنیا اور آخرت میں خدا کے نزدیک عزت والا اور اس کے مقرب بندوں میں سے ہے_(۳۳۴)

ان آیات اور روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے لائق اور ممتاز بندے کہ جنہوں نے ایمان اور نیک اعمال میں دوسروں پر سبقت حاصل کرلی ہے بہت ہی اعلی جگہ پر سکونت کریں گے کہ جسے قرب الہی کا مقام بتلایا گیا ہے اور شہداء بھی اسی مقام میں رہیں گے_ قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جو راہ خدا میں مارے گئے ہیں ان کے بارے میں یہ گمان نہ کر کہ وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں روزی پاتے ہیں_(۳۳۵)

لہذا انسان کا انتہائی اور آخری کمال خداوند عالم کا قرب حاصل کرنا ہوتاہے_

قرب خدا کا معنی

یہ معلوم کیا جائے کہ خدا کے قرب کا مطلب اور معنی کیا ہے؟ اور کس طرح تصور کیا جائے کہ انسان خدا کے نزدیک ہوجائے_ قرب کے معنی نزدیک ہونے کے ہیں اور کسی کے نزدیک ہونے کو تین معنی میں استعمال کیا جاتا ہے_

قرب مکان

دو موجود جب ایک دوسرے کے نزدیک ہوں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک

۱۷۶

دوسرے کے قریب ہیں_

قرب زمانی

جب دو چیزیں ایک زمانے میں ایک دوسرے کے نزدیک ہوں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب اور ہمعصر ہیں_ اور یہ واضح ہے کہ بندوں کا خدا کے نزدیک اور قریب ہونا ان دونوں معنی میں نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا کسی مکان اور زمانے میں موجود نہیں ہوا تھا تا کہ کوئی چیز اس مکان اور زمان کے لحاظ سے خدا کے قریب اور نزدیک کہی جائے بلکہ خدا تو زمانے اور مکان کا خالق ہے اور ان پر محیط ہے

قرب مجازی

کبھی کہا جاتا ہے کہ فلان شخص فلان شخص کے قریب اور نزدیک ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلان کا احترام او ربط اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کی خواہش کو وہ بجالاتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ اسے انجام دے دیتا ہے اس طرح کی نزدیکی اور قرب کو مجازی اور اعتباری اور تشریفاتی قرب اور نزدیکی کہا جاتا ہے یہ قرب حقیقی نہیں ہوا کرتا بلکہ مورد احترام قرا ردینے والے شخص کو اس کا نزدیک اور قریبی مجازی لحاظ سے کہا جاتا ہے_ کیا اللہ کے بندوں کو خدا سے اس معنی کے لحاظ سے قریبی اور نزدیکی قرار ددیا جا سکتا ہے؟ آیا خدا سے قرب اس معنی میں ہو سکتا ہے یا نہ؟

یہ مطلب ٹھیک ہے کہ خدا اپنے لائق بندوں سے محبت کرتا ہے اور ان سے علاقمند ہے اور ان کی خواہشات کو پورا بھی کرتا ہے لیکن پھر بھی بندے کا قرب خدا سے اس معنی میں مراد نہیں لیا جا سکتا_ کیونکہ پہلے اشارہ کیا گیا ہے کہ علوم عقلیہ اور آیات اور روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کی حرکت ذاتی اور اس کا صراط مستقیم پر چلنا اور مسیر ایک امر واقعی ہے نہ کہ امر اعتباری اور تشریفاتی خدا کی طرف رجوع کرنا کہ جس کے لئے اتنی آیات اور روایات وارد ہوئی ہیں ایک حقیقت فرماتا ہے_ ''اے نفس مطمئن تو اللہ تعالی کی طرف رجوع کر اس حالت میں کہ جب اللہ تعالی

۱۷۷

تجھ سے راضی ہے اور تو اللہ تعالی سے راضی ہے_(۳۳۶)

نیز فرماتا ہے ''جس نے نیک عمل انجام دیا اس کا فائدہ اسے پہنچے گا اور جس نے برا عمل انجام دیا اس کا نقصان اسے پہنچے گا اس وقت سب اللہ کی طرف پلٹ آؤ گے_(۳۳۷)

خدا فرماتا ہے '' جو مصیبت کے وقت کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کا ملک ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے_(۳۳۸)

بہرحال اللہ تعالی کی طرف رجوع اور صراط مستقیم اور سبیل اللہ اور نفس کا کامل ہونا یہ ایسے امور ہیں جو واقعی ہیں نہ اعتباری اور تشریفاتی_ انسان کا خدا کی طرف حرکت کرنا ایک اختیاری اور جانی ہوئی حرکت ہے کہ جس کا نتیجہ مرنے کے بعد جا معلوم ہوگا_ وجود میں آنے کے بعد یہ حرکت شروع ہوجاتی ہے اور موت تک چلی جاتی ہے لہذا خدا سے قرب ایک حقیقی چیز ہے_ اللہ تعالی کے لائق بندے واقعا اللہ تعالی کے نزدیک ہوجاتے ہیں اور گناہنگار اور نالائق اللہ تعالی سے دور ہوجاتے ہیں لہذا غور کرنا چاہئے کہ خدا سے قرب کے کیا معنی ہیں؟

خدا سے قرب وہ قرب نہیں کہ جو متعارف اور جانا پہچانا ہوا ہوتا ہے بلکہ ایک علیحدہ قسم ہے کہ جسے قرب کمالی اور وجودی درجے کا نام دیا جاتا ہے _ اس مطلب کے واضح ہونے کے لئے ایک تمہید کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے _ فلسفہ اسلام اور کتب فلسفہ میں یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ وجود اور ہستی ایک حقیقت مشکک ہے کہ جس کے کئی درجات اور مراتب ہیں_ وجود بجلی کی روشنی اور نور کی طرح ہے جیسے نور کے کئی درجے زیادہ اور کم ہوتے ہیں ایک درجہ مثلا کمتر ایک ولٹ بجلی کا ہے کہ جس میں روشنی تھوڑی ہوتی ہے اور اس کے اوپر چلے جایئےہ زیادہ سے زیادہ درجے پائے جاتے ہیں یہ تمام کے تمام نور اور روشنی کے وجود ہیں اور درجات ہیں کمتر اور اعلی درجے کے درمیاں کے درجات ہیں جو سب کے سب نور ہیں ان میں فرق صرف شدت اور ضعف کا ہوتا ہے بعینہ اس طرح وجود اور ہستی کے مختلف مراتب اور

۱۷۸

درجات ہیں کہ جن میں فرق صرف شدت اور ضعف کا ہوتا ہے _ وجود کا سب سے نیچا اور پشت درجہ اسی دنیا کے وجود کا درجہ ہے کہ جسے مادہ اور طبیعت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وجود کا اعلی ترین درجہ اور رتبہ ذات مقدس خدا کا وجود ہے کہ جو ذات مقدس کمال وجود کے لحاظ سے غیر متناہی ہے ان دو مرتبوں اور درجوں کے درمیان وجود کے درجات اور مراتب موجود ہیں کہ جن کا آپس میں فرق شدت اور ضعف کا ہے_ یہیں سے واضح اور روشن ہوجائیگا کہ جتنا وجود قوی تر اور اس کا درجہ بالاتر اور کاملتر ہوگا وہ اسی نسبت سے ذات مقدس غیر متناہی خدائے متعال سے نزدیک تر ہوتا جائیگا اس کے برعکس وجود جتنا ضعیف تر ہوتا جائیگا اتنا ہی ذات مقدس کے وجود سے دور تر ہو جائیگا اس تمہید کے بعد بندہ کا اللہ تعالی سے قرب اور دور ہونے کا معنی واضح ہوجاتا ہے_ انسان روح کے لحاظ سے ایک مجرد حقیقت ہے جو کام کرنے کے اعتبار سے اس کا تعلق مادہ اور طبیعت سے ہے کہ جس کے ذریعے حرکت کرتا ہے اور کامل سے کاملتر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے انتہائی درجے تک جا پہنچتا ہے_ حرکت کی ابتداء سے لے کر مقصد تک پہنچنے کے لئے وہ ایک شخص اور حقیقت ہی ہوا کرتا ہے_ لیکن جتنا زیادہ کمال حاصل کرتا جائیگا اور وجود کے مراتب پر سیر کرے گا وہ اسی نسبت سے ذات الہی کے وجود غیر متناہی کے نزدیک ہوتا جائیگا_ انسان ایمان اور نیک اعمال کے ذریعے اپنے وجود کو کامل کاملتر بنا سکتا ہے یہاں تک کہ وہ قرب الہی کے مقام تک پہنچ جائے اور منبع ہستی اور چشمہ کمال اور جمال کے فیوضات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر لے اور خود بھی بہت سے آثار کا منبع اور سرچشمہ بن جائے _ اس توضیح کے بعد واضح ہوگیا کہ انسان کی حرکت اور بلند پروازی ایک غیر متناہی مقصد کی طرف ہوتی ہے ہر آدمی اپنی کوشش اور تلاش کے ذریعے کسی نہ کسی قرب الہی کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے یعنی اللہ تعالی کے قرب کے مقام کی کوئی خاص حد اور انتہا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے مقام قرب کی حقیقت کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ قرب ایک اضافی امر ہے کہ انسان جتنی زیادہ محنت اور عمل کرے گا ایک اعلی مقام اور اس سے اعلی مقام تک پہنچتا جائیگا اور ذات اللہ کے فیوضات اور برکات سے زیادہ سے زیادہ بہرمند ہوتا جائیگا_

۱۷۹

کمالات انسان کی بنیاد ایمان ہے

نفس انسانی کے کمالات تک پہنچنے اور ذات الہی کے قرب کی طرف حرکت کرنے کی اساس اور بنیاد ایمان اور معرفت ہے ایک کمال تک پہنچنے والے انسان کو اپنے مقصد اور حرکت کی غرض و غایت کو اپنے سامنے واضح رکھنا چاہئے اور اسے معلوم ہو کہ وہ کدھر اور کہاں جانا چاہتا ہے اور کس طریقے اور راستے سے وہ حرکت کرے ورنہ وہ مقصد تک نہیں پہنچ سکے گا_ اللہ تعالی پر ایمان اس کی حرکت کی سمت کو بتلاتا ہے اور اس کے مقصد اور غرض کو واضح کرتا ہے_ جو لوگ خدا پر ایمان نہ رکھتے ہونگے وہ صراط مستقیم کے طے کرنے سے عاجز اور ناتواں ہونگے_ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ اللہ تعالی اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے وہ سیدھے راستے سے منحرف ہیں_(۳۳۹)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے بلکہ وہ لوگ کہ جو آخرت کے عالم پر ایمان نہیں رکھتے وہ کمال کے عالم سے دور ہوا کرتے اور صرف مادیات اور اپنے نفس کی حیوانی خواہشات کے پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں_(۳۴۰) اسی لئے اس کا مقصد اور غرض سوائے مادی جہان کے اور کچھ نہیں ہوتا وہ کمال کے راستے پر ہی نہیں ہے تا کہ قرب الہی تک پہنچنے کا اس کے لئے کوئی امکان باقی ہو اس کے حرکت کی سمت صرف دنیا ہے اور انسانیت کے صراط مستقیم کے مرتبے سے دور ہوچکا ہے اگر کافر کوئی اچھا کام بھی کرے تو وہ اس

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

وجہ سے آپ کی سانس رکنے لگ جاتی تھی_(۴۷۳)

امام حسن علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ نماز کی حالت میں آپ کا بدن مبارک لرزنے لگتا تھا اور جب بہشت یا دوزخ کی یاد کرتے تو اس طرح لوٹتے پوٹتے کہ جیسے سانپ نے ڈس لیا ہو اللہ تعالی سے بہشت کی خواہش کرتے اور دوزخ سے پناہ مانگتے تھے_(۴۷۴)

حضرت عائشےہ رسول خدا(ص) کے بارے میں فرماتی ہیں کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو کر رہی ہوتی جب نماز کا وقت آیات تو آپ اس طرح منقلب ہوتے کہ گویا آپ مجھے نہیں پہچانتے اور میں انہیں نہیں پہچانتی_(۴۷۵)

امام زین العابدین علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ نماز کی حالت میں تھے کہ آپ کے کندھے سے عبا گر گئی لیکن آپ متوجہ نہیں ہوئے جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کے اصحاب میں سے ایک نے عرض کی اے فرزند رسول(ص) آپ کی عباء نماز کی حالت میں گر گئی اور آپ نے توجہ نہیں کی؟ آپ نے فرمایا کہ افسوس ہو تم پر جانتے ہو کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہوا تھا؟ اس ذات کی توجہ نے مجھے عباء کے گرنے کی توجہ سے روکا ہوا تھا_ کیا تم نہیں جانتے کہ بندہ کی نماز اتنی مقدار قبول ہوتی ہے کہ جتنا وہ خدا کی طرف حضور قلب رکھتا ہو_ اس نے عرض کی _ اے فرزند رسو ل(ص) پس ہم تو ہلاک ہوگئے؟ آپ نے فرمایا '' نہیں _ اگر تم نوافل پڑھو تو خدا ان کے وسیلے سے تمہاری نماز کو پورا کر دے گا_(۴۷۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ نماز کی حالت میں آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا تھا اور آپ کے سینے سے غلفے کی طرح آواز اٹھتی ہوئی سنی جاتی تھی اور جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اس لباس کی طرح جو زمین پر گرا ہوا ہو حرکت نہیں کیا کرتے تھے_

۲۶۱

حضور قلب کے مراتب

حضور قلب اول اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کے مختلف درجات ہیں کہ ان میں سے بعض کامل اور دوسرے بعض زیادہ کامل ہیں_ عارف انسان آہستہ آہستہ ان درجات کو طے کرے تا کہ قرب اور شہود کے اعلی درجے اور عالیتر مقام کو حاصل کر لے_ یہ ایک طویل راستہ ہے اور متعدد مقامات رکھتا ہے کہ جس کی وضاحت مجھ جیسے محروم انسان سے دور ہے دور سے دیکھتے والا جو حسرت کی آگ میں جل رہا ہے یہ اس کی قدرت اور طاقت سے خارج ہے لیکن اجمالی طور سے بعض مراتب کی طرف اشارہ کرتا ہوں شاید کہ عارف انسان کے لئے فائدہ مند ہو_

پہلا مرتبہ

یوں ہے کہ نماز پڑھنے والا تمام نماز یا نماز کے بعض حصے میں اجمالی طور سے توجہ کرے کہ خداوند عالم کے سامنے کھڑا ہوا ہے اور اس ذات کے ساتھ ہم کلام اور راز و نیاز کر رہا ہے گرچہ اسے الفاظ کے معانی کی طرف توجہ نہ بھی ہو اور تفضیلی طور سے نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے_

دوسرا مرتبہ

قلب کے حضور اور توجہ کا یوں ہونا کہ نمازی علاوہ اس کے کہ وہ نماز کی حالت میں اپنے آپ کو یوں جانے کہ خدا کے سامنے کھڑا اور آپ سے راز و نیاز کر رہا ہے ان کلمات کے معانی کی طرف بھی توجہ کرے جو پڑھ رہا ہے اور سمجھے کہ وہ خدا سے کیا کہہ رہا ہے اور کلمات اور الفاظ کو اس طرح ادا کرے کہ گویا ان کے معانی کو اپنے دل پر خطور دے رہا ہے مثل اس ماں کے جو الفاظ کے ذریعے اپنے فرزند کو معانی کو تعلیم دیتی ہے_

۲۶۲

تیسرا مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی تمام سابقہ مراتب بجا لاتے ہوئے تکبیر اور تسبیح تقدیس اور تحمید اور دیگر اذکار اور کلمات کی حقیقت کو خوب جانتا ہو اور ان کو علمی دلیلوں کے ذریعے پہچانتا ہو اور نماز کی حالت میں ان کی طرف متوجہ ہو اور خوف جانے کہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا چاہتا ہے اور کس ذات سے ہم کلام ہے_

چوتھے مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی ان سابقہ مرحلوں کے ساتھ کلمات اور اذکار کے معانی اور معارف کو اچھی طرح اپنی ذات کے اندر سموئے اور کامل یقین اور ایمان کے درجے پر جا پہنچے اس حالت میں زبان دل کی پروی کرے گی اور دل چونکہ ان حقائق کا ایمان رکھتا ہے زبان کو ذکر کرنے پر آمادہ اور مجبور کرے گا_

پانچواں مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی سابقہ تمام مراحل کے ساتھ کشف اور شہود اور حضور کامل تک جاپہنچے اللہ تعالی کے کمالات اور صفات کو اپنی باطنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے اور سوائے خدا کے اور کسی چیز کو نہ دیکھے یہاں تک کہ اپنے آپ اور اذکار اور افعال اور حرکات کی طرف بھی متوجہ نہ ہو خدا سے ہم کلام ہے یہاں تک کہ متکلم اور کلام سے بھی غافل ہے اپنے آپ کو بھی گم اور ختم کر چکا ہے_ اور اللہ تعالی کے جمال کے مشاہدے میں محو اور غرق ہے_ یہ مرتبہ پھر کئی مراتب اور درجات رکھتا ہے کہ عارف انسانوں کے لحاظ سے فرق کر جاتا ہے _ یہ مرتبہ ایک عمیق اور گہرا سمندر ہے بہتر یہی ہے کہ مجھ جیسا محروم انسان اس میں وارد نہ ہو اور اس کی وضاحت ان کے اہل اور مستحق لوگوں کی طرف منتقل کردے_اللهم ارزقنا حلاوة ذکرک و

۲۶۳

مشاهدة جمالک

حضور قلب اور توجہ کے اسباب

جتنی مقدار حضور قلب اور توجہ کی ارزش اور قیمت زیادہ ہے اتنی مقدار یہ کام مشکل اور سخت دشوار بھی ہے _ جب انسان نماز میں مشغول ہوتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالنا شروع کردیتا ہے او ردل کو دائما ادھر ادھر لے جاتا ہے اور مختلف خیالات اور افکارمیں مشغول کر دیتا ہے_ اسی حالت میں انسان حساب کرنا شروع کر دیتا ہے بقشے بناتا ہے اور گذرے ہوئے اور آئندہ کے مسائل میں فکر کرنا شروع کر دیتا ہے_ علمی مطالب کو حل کرتا ہے اور بسا اوقات ایسے مسائل اور موضوعات کو کہ جن کو بالکل فراموش کر چکا ہے نماز کی حالت میں یاد کرتا ہے اور اس وقت اپنے آپ میں متوجہ ہوتا ہے کہ جب نماز ختم کر چکا ہوتا ہے اور اگر اس کے درمیان تھوڑا سا نماز کی فکر میں چلا بھی جائے تو اس سے فورا منصرف ہوجاتا ہے_

بہت سی تعجب اور افسوس کا مقام ہے _ کیا کریں کہ اس سرکش اور بیہودہ سوچنے والے نفس پر قابو پائیں کس طرح نماز کی حالت میں مختلف خیالات اور افکار کو اپنے آپ سے دور کریں اور صرف خدا کی یاد میں رہیں_ جن لوگوں نے یہ راستہ طے کر لیا ہے اور انہیں اس کی توفیق حاصل ہوئی ہے وہ ہماری بہتر طریقے سے راہنمایی کر سکتے ہیں_ بہتر یہ تھا کہ یہ قلم اور لکھنا اس ہاتھ میں ہوتا لیکن یہ حقیر اور محروم بھی چند مطالب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو حضور قلب اور توجہہ کے فائدہ مند ہوں گے_

۱_ گوشہ نشینی

اگر مستحب نماز یا فرادی نماز پڑھے تو بہتر ہے کہ کسی تنہائی کے مکان کو منتخب کرے کہ ج ہاں شور و شین نہ ہو اور وہاں کوئی فوٹو و غیرہ یا کوئی ایسی چیز نہ ہو کہ جو نمازی کو اپنی طرف متوجہ کرے اور عمومی جگہ پر نماز پڑھے اور اگر گھر میں نماز پڑھے تو

۲۶۴

بہتر ہے کہ کسی خاص گوشے کو منتخب کر لے اور ہمیشہ وہاں نماز پڑھتا رہے نماز کی حالت میں صرف سجدہ گاہ پر ن گاہ رکھے یا اپنی آنکھوں کو بند رکھے اور ان میں سے جو حضور قلب اور توجہہ کے لئے بہتر ہو اسے اختیار کرے اور بہتر یہ ہے کہ چھوٹے کمرے یا دیوار کے نزدیک نماز پڑھے کہ دیکھنے کے لئے زیادہ جگہ نہ ہو اور اگر نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھے تو پھر صرف سجدہ گاہ پر نگاہ کرے اور اگر پیش نماز بلند آواز سے قرات پڑھے تو اس کی قرائت کی طرف خوب توجہ کرے_

۲_ رکاوٹ کا دور کرنا

نماز شروع کرنے سے پہلے جو حضور قلب اور توجہ کا مانع اور رکاوٹ ہے اسے دور کرے پھر نماز پڑھنے میں مشغول ہوجائے اور اگر پیشاب اور پاخانے کا زور ہو تو پہلے اس سے فارغ ہو جائے اس کے بعد وضو کرے اور نماز میں مشغول ہو اور اگر سخت بھوک اور پیاس لگی ہوئی ہو تو پہلے کھانا اور پانی پی لے اور اس کے بعد نماز پڑھے اور اگر پیٹ کھانے سے بھرا ہوا اور نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو تو پھر ٹھہر جائے اور صبر کرے یہاں تک کہ نماز پڑھنے کو دل چاہنے لگے_

اور اگر زیادہ تھکاوٹ یا نیند کے غلبے سے نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو_ تو پہلے اپنی تکاوٹ اور نیند کو دور کرے اس کے بعدنماز پڑھے_ اور اگر کسی مطلب کے واضح نہ ہونے یا کسی واقعہ کے رونما ہونے سے پریشان ہو اگر ممکن ہو تو پہلے اس پریشانی کے اسباب کو دور کرے اور پھر نماز میں مشغول ہو سب سے بڑی رکاوٹ دنیاوی امور سے محبت اور علاقہ اور دلبستگی ہوا کرتی ہے_ مال و متاع _ جاہ و جلال اور منصب و ریاست اہل و عیال یہ وہ چیزیں ہیں جو حضور قب کی رکاوٹ ہیں ان چیزوں سے محبت انسان کے افکار کو نماز کی حالت میں اپنی طرف مائل کر دیتے ہیں اور ذات الہی کی طرف متوجہ ہونے کو دور کر دیتے ہیں_ نماز کو ان امور سے قطع تعلق کرنا چاہئے تا کہ اس کی توجہ اور حضور قلب اللہ تعالی کی طرف آسان ہوجائے_

۲۶۵

۳_ قوت ایمان

انسان کی اللہ تعالی کی طرف توجہ اس کی معرفت اور شناخت کی مقدار کے برابر ہوتی ہے اگر کسی کا اللہ تعالی پر ایمان یقین کی حد تک پہنچا ہوا ہو اور اللہ تعالی کی قدرت اور عظمت اور علم اور حضور اور اس کے محیط ہونے کا پوری طرح یقین رکھتا ہو تو وہ قہر اللہ تعالی کے سامنے خضوع اور خشوع کرے گا_ اور اس غفلت اور فراموشی کی گنجائشے باقی نہیں رہے گی_ جو شخض خدا کو ہر جگہ حاضر اور ناظر جانتا ہو اور اپنے آپ کو اس ذات کے سامنے دیکھتا ہو تو نماز کی حالت میں جو ذات الہی سے ہم کلامی کی حالت ہوتی ہے کبھی بھی اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہیں ہوگا_ جیسے اگر کوئی طاقت ور بادشاہ کے سامنے بات کر رہا ہو تو اس کے حواس اسی طرف متوجہ ہونگے اور جانتا ہے کہ کیا کہہ رہاہے اور کیا کر رہا ہے اگر کوئی اللہ تعالی کو عظمت اور قدرت والا جانتا ہو تو پھر وہ نماز کی حالت میں اس سے غافل نہیں ہوگا لہذا انسان کو اپنے ایمان اور معرفت الہی کو کامل اور قوی کرنا چاہئے تا کہ نماز میں اسے زیادہ حضور قلب حاصل ہوسکے_

پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ '' خدا کی اس طرح عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے_(۴۷۸)

ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے امام زین العابدین علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ آپ کا نماز میں ایک رنگ آتا تھآ اور جاتا تھا؟ آپ نے فرمایا '' ہاں وہ اس مبعود کو کہ جس کے سامنے کھڑے تھے کامل طور سے پہچانتے تھے_(۴۷۹)

۴_ موت کی یاد

حضور قلب اور توجہ کے پیدا ہونے کی حالت کا ایک سبب موت کا یاد کرنا ہو

۲۶۶

سکتا ہے اگر انسان مرنے کی فکر ہیں اور متوجہ ہو کہ موت کا کوئی وقت نہیں ہوتا ہر وقت اور ہر شرائط میں موت کاواقع ہونا ممکن ہے یہاں تک کہ شاید یہی نماز اس کی آخری نماز ہو تو اس حالت میں وہ نماز کو غفلت سے نہیں پڑھے گا بہتر ہے کہ انسان نماز سے پہلے مرنے کی فکر میں جائے اور یوں تصور کرے کہ اس کے مرنے کا وقت آ پہنچا ہے اور حضرت عزرائیل علیہ السلام اس کی روح قبض کرنے کے لئے حاضر ہو چکے ہیں تھوڑا سا وقت زیادہ نہیں رہ گیا اور اس کے اعمال کا دفتر اس کے بعد بند ہو جائیگا اور ابدی جہاں کی طرف روانہ ہوجائے گا وہاں اس کے اعمال کا حساب و کتاب لیا جائے گا جس کا نتیجہ یا ہمیشہ کی سعادت اور اللہ تعالی کے مقرب بندوں کے ساتھ زندگی کرنا ہوگا اور یا بدبختی اور جہنم کے گڑھے میں گر کر عذاب میں مبتلا ہونا ہوگا_

اس طرح کی فرک اور مرنے کو سامنے لانے سے نماز میں حضور قلب اور توجہ کی حالت بہتر کر سکے گا اور اپنے آپ کو خالق کائنات کے سامنے دیکھ رہا ہوگا اور نماز کو خضوع اور خشوع کی حالت میں آخری نمازسمجھ کر بجا لائیگا نماز کے شروع کرنے سے پہلے اس طرح اپنے آپ میں حالت پیدا کرے اور نماز کے آخر تک یہی حالت باقی رکھے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' واجب نماز کو اس کے وقت میں اس طرح ادا کرو کہ وہ تمہاری وداعی اور آخری نماز ہے اور یہ خوف رہے کہ شاید اس کے بعد نماز پڑھنے کی توفیق حاصل نہ ہو_ نماز پڑھنے کی حالت میں سجدہ گاہ پر نگاہ رکھے اور اگر تجھے معلوم ہوجائے کہ تیرے نزدیک کوئی تجھے دیکھ رہا ہے اور پھر تو نماز کو اچھی طرح پڑھنے لگے تو جان لے کہ تو اس ذات کے سامنے ہے جو تجھے دیکھ رہا ہے لیکن تو اس کو نہیں دیکھ رہا_(۴۸۰)

۵_ آمادگی

جب نمازی نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر کسی خلوت اور تنہائی کی

۲۶۷

مناسب جگہ جا کر نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوجائے اور نماز شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی بے پناہ عظمت اور قدرت اور اپنی ناتوانی اور کمزوری کو یاد کرے اور یہ یاد کرے کہ وہ پروردگار اور تمام چیزوں کے مالک کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے ہمکلام ہے_ ایسی عظیم ذات کے سامنے کھڑا ہے کہ جو تمام افکار یہاں تک کہ مخفی سوچ اور فکر کو جانتا ہے_ موت اور اعمال کے حساب اور کتاب بہشت اور دوزخ کو سامنے رکھے اور احتمال دے کہ شاید یہ اس کی آخری نماز ہو اپنی اس سوچ اور فکر اتنا زیادہ کرے کہ اس کی روح اس کی تابع اور مطیع ہوجائے اس وقت توجہ اور حضور قلب سے اذان اور اقامہ کہتے اور اس کے بعد نماز کی طرف مہیا ہونے والی یہ دعا پڑھے _ اللہم الیک توجہت و مرضاتک طلبت و ثوابک ابتقیت و بک امنت و علیک توکلت اللہم صل علی محمد و آلہ محمد و افتح مسامع قلبی لذکرک و ثبتنی علی دینک و دین نبیک و لا تزغ قلبی بعد اذ ہدیتنی و ہب لی من لدنک رحمة انک انت الوہاب

اس دعا کے پڑھتے کے وقت ان کلمات کی معانی کی طرف توجہ کرے پھر یہ کہے _ یا محسن قد اتاک المسئی یا محسن احسن الی

اگر حضور قلب اور توجہہ پیدا ہوجائے تو پھر تکبیر الاحرام کہے اور نماز میں مشغول ہوجائے اور اگر احساس ہوجائے کہ ابھی وہ حالت پیدا نہیں ہوئی تو پھر استغفار کرے اور شیطانی خیالات سے خداوند عالم سے پناہ مانگے اور اتنا اس کو تکرار کرے کہ اس میں وہ حالت پیدا ہوجائے تو اس وقت حضور قلب پیدا کر کے تکبیرة الاحرام کے معنی کی طرف توجہہ کرے نماز میں مشغول ہوجائے لیکن متوجہ رہے کہ وہ کس ذات سے ہمکلام ہے اور کیا کہہ رہا ہے اور متوجہ رہے کہ زبان اور دل ایک دوسرے کے ہمراہوں اور جھوٹ نہ بولے کیا جانتا ہے کہ اللہ اکبر کے معنی کیا ہیں؟ یعنی اللہ تعالی اس سے بلند و بالا ہے کہ اس کی تعریف اور وصف کی جا سکے درست متوجہ رہے کہ کیا

۲۶۸

کہتا ہے آیا جو کہہ رہا ہے اس پر ایمان بھی رکھتا ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب تو نماز کے قصد سے قبلہ رخ کھڑا ہو تو دنیا اور جو کچھ اس میں ہے لوگوں اور ان کے حالات اور اعمال سب کو ایک دفعہ بھولا دے اور اپنے دل کو ہر قسم کے ایسے کام سے جو تجھے یاد خدا سے روکتے ہوں دل سے نکال دے اور اپنی باطنی آنکھ سے ذات الہی کی عظمت اور جلال کا مشاہدہ کر اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے اس دن کے لئے حاضر جان کہ جس دن کے لئے تو نے اپنے اعمال اگلی دنیا کے لئے بھیجے ہیں اور وہ ظاہر ہونگے اور خدا کی طرف رجوع کریں گے اور نماز کی حالت میں خوف اور امید کے درمیان رہ تکبرة الاحرام کہنے کے وقت جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے معمولی شمار کر کیونکہ جب نمازی تکبیرة الاحرام کہتا ہے خداوند عالم اسکے دل پر نگاہ کرتا ہے اگر تکبیر کی حقیقت کی طرف متوجہ نہ ہو تو اسے کہتا ہے اے جھوٹے_ مجھے دھوکا دینا چاہتا ہے؟ مجھے عزت اور جلال کی قسم میں تجھے اپنے ذکر کی لذت سے محروم کرونگا اور اپنے قرب اور اپنی مناجات کرنے کی لذت سے محروم کر دونگا_(۴۸۱)

درست ہے کہ نیت اور تکبرة الاحرام کے وقت اس طرح کی تیاری قلب کے حضور کے لئے بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے لیکن سب سے مہم تر یہ ہے کہ ایسی حالت استمرار پیدا کرے اگر معمولی سے غفلت طاری ہوگئی تو انسان کی روح ادھر ادھر پرواز کرنے لگے گی اور حضور اور توجہہ خداوند عالم کی طرف سے ہٹ جائیگی_ لہذا نمازی کو تمام نماز کی حالت میں اپنے نفس کی مراقبت اور حفاظت کرنی چاہئے اور مختلف خیالات اور افکار کو روکنا چاہئے ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے حاضر سمجھے اور اس طرح نماز پڑھے کہ خدا کے ساتھ کلام کر رہا ہے اور اس کے سامنے رکوع اور سجود کر رہا ہے اور کوشش کرے کہ قرائت کرتے وقت ان کے معانی کی طرف متوجہ رہے اور غور کرے کہ کیا کہہ رہا ہے اورکس عظیم ذات کے ساتھ گفتگو کر رہا ہے اس حالت کو

۲۶۹

نماز کے آخر تک باقی رکھے گرچہ یہ کام بہت مشکل اور دشوار ہے لیکن نفس کی مراقبت اور کوشش کرنے سے آسان ہو سکتا ہے و الذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا اگر اسے اس کی ابتداء میں توفیق حاصل نہ ہو تو ناامید نہ ہو بلکہ بطور حتمی اور کوشش کر کے عمل میں وارد ہوتا کہ تدریجاً نفس پر تسلط حاصل کرلے_ مختلف خیالات کو دل سے نکالے اور اپنے آپ کو خدا کی طرف توجہ دے اگر ایک دن یا کئی ہفتے اور مہینے یہ ممکن نہ ہوا ہو تو مایوس اور نا امید نہ ہو اور کوشش کرے کیونکہ یہ بہرحال ایک ممکن کام ہے_ انسانوں کے درمیان ایسے بزرگ انسان تھے اور ہیں کہ جو اول نماز سے آخر نماز تک پورا حضور قلب رکھے تھے اور نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے تھے_ ہم بھی اس بلند و بالا مقام تک پہنچنے سے نا امید نہ ہوں اگر کامل مرتبہ تک نہیں پہنچے پائے تو کم از کم جتنا ممکن ہے اس تک پہنچ جائیں تو اتنا ہی ہمارے لئے غنیمت ہے_(۴۸۲)

دوم _ نوافل

پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سیر اور سلوک اور اللہ تعالی سے تقرب کا بہترین راستہ نماز ہے_ اللہ تعالی انسان کی خلقت کی خصوصیت کے لحاظ سے اس کے تکامل اور کمال حاصل کرنے کے طریقوں کو دوسروں سے زیادہ بہتر جانتا ہے_ اللہ تعالی نے نماز کو بنایا ہے اور پیغمبر علیہ السلام کے ذریعے انسانوں کے اختیار میں دیا ہے تا کہ وہ اپنی سعادت اور کمال حاصل کرنے کے لئے اس سے فائدہ حاصل کریں _ نماز کسی خاص حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے ہر زمانے میں ہر مکان اور ہر شرائط میں فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے نماز کی دو قسمیں ہیں ایک واجب نمازیں اور دوسری مستحب نمازیں_

چھ نمازیں واجب ہیں پہلی پنجگانہ نمازیں یعنی دن اور رات میں پانچ نمازیں دوسری نماز آیات تیسری نماز میت چوتھی نماز اطراف پانچویں وہ نمازیں جو نذر یا قسم یا

۲۷۰

عہد سے انسان پر واجب ہوتی ہیں چھٹی باپ کی نمازیں جو بڑے لڑکے پر واجب ہیں_

پنجگانہ نمازیں تو تمام مکلفین مرد اور عورت پر واجب ہیں لیکن باقی نمازیں خاص زمانے اور خاص شرائط سے واجب ہوتی ہیں_ جو انسان اپنی سعادت اور کمال کا طالب ہے اس پر پہلے ضروری ہے کہ وہ واجب نمازوں کو اس طرح جس طرح بنائی گئی ہیں انجام دے_ اگر انہیں خلوص اور حضور قلب سے انجام دے تو یہ بہترین اللہ تعالی سے تقرب کا موجب ہوتی ہیں_ واجبات کو چھوڑ کر مستحبات کا بجا لانا تقرب کا سبب نہیں ہوتا_ اگر کوئی خیال کرے کہ فرائض اور واجبات کو چھوڑ کر مستحبات اور اذکار کے ذریعے تقرب یا مقامات عالیہ تک پہنچ سکتا ہے تو اس نے اشتباہ کیا ہے_ ہاں فرائض کے بعد نوافل اور مستحبات سے مقامات عالی اور تقرب الہی کو حاصل کر سکتا ہے_ دن اور رات کے نوافل پینتیں ہیں ظہر کی آٹھ ظہر سے پہلے اور عصر کی آٹھ عصر سے پہلے اور تہجد کی گیارہ رکعت ہیں_ احادیث کی کتابوں میںنوافل کے پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے اور انہیں واجب نمازوں کا متمم اور نقص کو پر کرنے والا بتلایا گیا ہے_ دن اور رات کی نوافل کے علاوہ بھی بعض نوافل خاص خاص زمانے اور مکان میں بجالانے کا کہا گیا ہے او ران کا ثواب بھی بیان کیا گیا ہے آپ مختلف مستحب نمازوں اور ان كّے ثواب اور ان کے فوائد اور اثرات کو حدیث اور دعا کی کتابوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نفس کے کمال تک پہنچنے میں ان سے استفادہ کرسکتے ہیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ ہمیشہ کے لئے کھالا ہوا ہے_ اس کے علاوہ بھی ہر وقت ہر جگہ اور ہر حالت میں نماز پڑھنا مستحب ہے_

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا '' مستحب نمازیں مومن کے لئے تقرب کا سبب ہوا کرتی ہیں_(۴۸۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھی آدھی اور کبھی تہائی اور چوتھائی نماز اوپر جاتی ہے_ یعنی قبول ہوتی ہے_ اتنی نماز اوپر جاتی ہے اور قبول ہوتی ہے کہ

۲۷۱

جتنی مقدار اس میں حضور قلب ہو اسی لئے مستحب نمازوں کے پڑھنے کا کہا گیا ہے تا کہ ان کے ذریعے جو نقصان واجب نماز میں رہ گیا ہے پورا کیا جائے_(۴۸۴)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' مومن بندہ میرے نزدیک محبوب ہے اور اس کے لئے واجبات پر عمل کرنے سے اور کوئی چیز بہتر نہیں ہے مستحبات کے بجالانے سے اتنا محبوب ہوجاتا ہے کہ گویا میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ دیکھتا ہے اور گویا میں اس کی زبان ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ بولتا ہے اور گویا میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ چیزوں کو پکڑتا ہے اور گویا میں اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں کہ جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھے پکارے تو میں قبول کرتا ہوں اور جواب دیتا ہوں اور اگر کوئی چیز مجھ سے مانگے تو اسے عطا کرتا ہوں میں نے کسی چیز میں تردید اور ٹھہراؤ پیدا نہیں کیا جتنا کہ مومن کی روح قبض کرنے میں کیا ہے وہ مرنے کو پسند نہیں کرتا اور میں بھی اس کا ناپسندی کو ناپسند کرتا ہوں_(۴۸۵)

سوّم_ تہجّد

مستحبات میں سے تہجد کی نماز کی بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے قرآن مجید اور احادیث میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے خداوند عالم کی ذ ات پیغمبر علیہ السلام کو فرماتا ہے کہ ''رات کو تھوڑے سے وقت میں تہجد کی نماز کے لئے کھڑا ہو یہ تیرے لئے مستحب ہے شاید خدا تجھے خاص مقام کے لئے مبعوث قرار دے دے_(۴۸۶)

اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' کچھ لوگ رات کو اپنے پروردگار کے لئے سجدے اور قیام کے لئے رات گذارتے ہیں_(۴۸۷)

اللہ تعالی مومنین کی صفات میں یوں ذکر کرتا ہے کہ '' رات کو بستر سے اپنے آپ کو جدا کرتے ہیں اور امید اور خوف میں خدا کو پکارتے ہیں اور جو کچھ انہیں دیا گیا ہے

۲۷۲

خرچ کرتے ہیں کوئی نہیں جان سکتا کہ کتنی نعمتیں ہیں جو ان کی آنکھ کے روشنی اور ٹھنڈک کا موجب بنیں گی جنہیں ان کے اعمال کی جزاء کے طور پر محفوظ کیا جاچکا ہے_(۴۸۸)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ خداوند عالم نے دنیا کو وحی کی ہے کہ اپنی خدمت کرنے والوں کو مصیبت اورمشقت میں ڈال اور جو ترک کر دے اس کی خدمت کر جب کوئی بندہ رات کی تاریکی میں اپنے خالق سے خلوت اور مناجات کرتا ہے تو خدا اس کے دل کو نورانی کردیتا ہے جب وہ کہتا ہے با رب یا رب تو خدا کی طرف سے کہا جاتا ہے_ لبیک یا عبدی_ تو جو چاہتا ہے طلب کرتا کہ میں تجھے عطا کروں مجھ پر توکل اور آسرا کرتا کہ میں تجھے کفایت کروں اس کے بعد اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے بندے کو دیکھو کس طرح تاریکی میں میرے ساتھ مناجات کر رہا ہے جب کہ بیہودہ لوگ لہو اور لعب میں مشغول ہیں اور غافل انسان سوئے ہوئے ہیں تم گواہ رہو کہ میں نے اسے بخش دیا ہے_(۴۸۹)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرماتے ہیں کہ '' جبرائیل مجھے تہجد کی نماز میں اتنی سفارش کر رہا تھا کہ میں نے گمان کیا کہ میری امت کے نیک بندے رات کو کبھی نہیں سوئیں گے_(۴۹۰)

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' آدھی رات میں دو رکعت نماز پڑھنا میرے نزدیک دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے_(۴۹۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تہجد کی نماز شکل کو خوبصورت اور اخلاق کو اچھا اور انسان کو خوشبودار بناتی ہے اور رزق کو زیادہ کرتی ہے اور قرض کو ادا کراتی ہے اور غم اور اندوہ کو دور کرتی ہے اور آنکھوں کو روشنائی اور جلادیتی ہے_(۴۹۲)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' تہجد کی نماز اللہ تعالی کی خوشنودی اورملائکہ سے دوستی کا وسیلہ ہے_ تہجد کی نماز پیغمبروں کاطریقہ اور سنت اور ایمان اور معرفت کے لئے نور اور وشنی ہے_ کیونکہ تہجد کی نماز کے ذریعے ایمان قوی ہوتا ہے) بدن کو آرام دیتی ہے اور شیطان کو غضبناک کرتی ہے_ دشمنوں

۲۷۳

کے خلاف ہتھیار ہے دعا اور اعمال کے قبول ہونے کا ذریعہ ہے انسان کی روزی کو وسیع کرتی ہے_ نمازی اور ملک الموت کے درمیان شفیع ہوتی ہے_ قبر کے لئے چراغ اور فرش ہے اور منکر اور نکیر کا جواب ہے_ قبر میں قیامت تک مونس اور نمازی کی زیارت کرتی رہے گی_ جب قیامت برپا ہوگی تو نمازی پر سایہ کرے گی اس کے سرکا تاج اور اس کے بدن کا لباس ہوگی_ اس کے سامنے نور اور روشنی ہوگی اور جہنم اور دوزخ کی آگ کے سامنے نور اور روشنی ہوگی اور جہنم اور دوزخ کی آگ کے سامنے رکاوٹ بنے گی_ مومن کے لئے اللہ تعالی کے نزدیک حجت ہے اور میران میں اعمال کو بھاری اور سنگین کردے گی پل پر عبور کرنے کا حکم ہے اور بہشت کی چابی ہے کیونکہ نماز تکبیر اور حمد تسبیح اور تمجید تقدیس اور تعظیم قرات اور دعا ہے_ یقینا جب نماز وقت میں پڑھی جائے تو تمام اعمال سے افضل ہے_(۴۹۳)

تہجد کی نماز میں بہت زیادہ آیات اوراحادیث وارد ہوئی ہیں_ تہجد کی نماز کو پڑھنا پیغمبروں اور اولیاء خدا کا طریقہ اور سنت ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ اطہار نماز تہجد کے بارے میں خاص اہمیت اور توجہ اور عنایت رکھتے تھے_ اللہ کے اولیاء اور عرفاء شب کو ہمیشہ بجالانے سے اور سحر کیوقت دعا اور ذکر سے عالی مراتب تک پہنچے ہیں_ کتنا ہی اچھا اور بہتر اور لذت بخش ہے کہ انسان سحری کے وقت نیند سے بیدار ہوجائے اور نرم اور آرام وہ بستر کو چھوڑ دے اور وضوء کرے اور رات کی تاریکی میں جب کہ تمام آنکھیں نیند میں گم اور سوئی ہوئی ہیں اللہ تعالی کے حضور راز و نیاز کرے اور اس کے وسیلے روحانی معراج کے ذریعے بلندی کی طرف سفر کرے اور آسمان کے فرشتوں سے ہم آواز بنے اور تسبیح اور تہلیل تقدیس اور تمجید الہی میں مشغول ہوجائے اس حالت میں اس کا دل اللہ تعالی کے انوار اور اشراقات مرکز قرار اپائیگا اورخدائی جذب سے مقام قرب تک ترقی کرے گا (مبارک ہو ان لوگوں کو جو اس کے اہل ہے)

۲۷۴

نماز شب کی کیفیت

تہجد کی نماز گیارہ رکعت ہے دو دو رکعت کر کے صبح کی نماز کی طرح پڑھی جائے باین معنی کہ اٹھ رکعت کو تہجد کی نیت سے اور دور رکعت نماز شفع کی نیت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے پڑھے_ کے لئے کچھ آداب اور شرائط بیان کئے گئے ہیں_ جنہیں دعاؤں اور احادیث کی کتابوں میں دیکھےا جا سکتا ہے_

۲۷۵

چوتھا وسیلہ

جہاد اور شہادت

اسلام کو وسعت دینے اور کلمہ توحید کے بلند و بالا کرنے اسلام کی شوکت اور عزت سے دفاع کرنے قرآن کے احکام اور قوانین کی علمداری اور حاکمیت کو برقرار کرنے ظلم اور تعدی سے مقابلہ کرنے محروم اور مستضعفین کی حمایت کرنے کے لئے جہاد کرنا ایک بہت بڑی عبادت ہے اور نفس کے تکامل اور ذات الہی سے تقرب اور رجوع الی اللہ کا سبب ہے_ جہاد کی فضیلت میں بہت زیادہ روایات اور آیات وارد ہوئی ہیں_

خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور اپنے وطن سے ہجرت کر لی ہے اور اپنے مال اور جان سے خدا کے راستے میں جہاد کرتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک ایک بلند و بالا مقام اور رتبہ رکھتے ہیں اور وہی نجات پانے والے لوگ ہیں خدا انہیں اپنی رحمت اور رضوان اور بہشت کی کہ جس میں دائمی نعمتیں موجود ہیں خوشخبری اور بشارت دیتا ہے_ وہ بہشت میں ہمیشہ رہیں گے اور یقینا اللہ تعالی کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی جزا اور ثواب ہے_(۴۹۴)

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' اللہ تعالی نے مجاہدوں کو جہاد نہ کرنے والوں پر بہت زیادہ ثواب دیئے جانے میں برتری اور بلندی دی ہوئی ہے_(۴۹۵)

۲۷۶

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کا نام باب المجاہدین ہے_ جب مجاہد بہشت کی طرف روانہ ہوں گے تووہ دروازہ کھل جائیگا جب کے جانے والوں نے اپنی تلواروں کو اپنے کندھوں پر ڈال رکھا ہو گا دوسرے لوگ قیامت کے مقام پر کھڑے ہونگے اور فرشتوں ان کا استقبال کریں گا_(۴۹۶)

پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر نیکی کے اوپر کوئی نہ کوئی اور نیک موجود ہے یہاں تک کہ انسان اللہ کے راستے میں مارا جائے کہ پھر اس سے بالاتر اور کوئی نیکی موجود نہیں ہے_(۴۹۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اللہ کے راستے میں شہادت پالے تو خداوند عالم سے اس کا کوئی یاد نہیں دلائے گا_(۴۹۸)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم شہید کو سات چیزیں عنایت فرمائیگا_ ۱_ جب اس کے خون کا پہلا قطرہ بہتا ہے تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے_ ۲_ شہادت کے بعد اس کا سر دو حوروں کے دامن میں قرار دیتا ہے اور وہ اس کے چہرے سے غبار کو ہٹاتی ہیں اور کہتی ہیں_ تم پر شاباش ہو وہ بھی ان کے جواب میں ایسا کہتا ہے_ ۳_ اسے بہشت کا لباس پہنایا جاتا ہے_ ۴_ بہشت کے خزانچی اس کے لئے بہترین عطر اور خوشبو پیش کرتے ہیں کہ ان میں سے جسے چاہے انتخاب کرلے_

۵_ شہادت پانے کے وقت وہ اپنی جگہ بہشت میں دیکھتا ہے_ ۶_ شہادت کے بعد اس کی روح کی خطاب ہوتا ہے کہ بہشت میں جس جگہ تیرا دل چاہتا ہے گردش کر_ ۷_ شہید اللہ تعالی کے جمال کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس میں ہر پیغمبر اور شہید کو آرام اور سکون ہے_(۴۹۹)

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' خداوند عالم مومنین کے جان اور مال کو خرید تا ہے تا کہ اس کے عوض انہیں بہشت عنایت فرمائے یہ وہ مومن ہیں جو اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ ان سے

۲۷۷

اللہ تعالی کا وعدہ ہے جو تو رات اور انجیل اور قرآن میں اللہ تعالی نے لکھ دیا ہے اور اللہ تعالی سے کون زیادہ وعدہ کو پورا کرنے والا ہے؟ تمہیں یہ معاملہ مبارک ہو کہ جو تم نے خدا سے کر لیا ہوا ہے اور یہ ایک بڑی سعادت ہے_(۵۰۰)

قرآن مجید کی یہ آیت ایک بڑی لطیف اور خوش کن آیت ہے کہ جو لوگوں کو عجیب اور لطیف ارو ظریف انداز سے جہاد کا شوق دلاتی ہے _ ابتداء میں کہتی ہے _ کہ اللہ تعالی نے مومنین کے مال اور جان کو خرید لیا ہے اور اس کے عوض ان کو بہشت دیتا ہے یہ کتنا بہترین معاملہ ہے؟ اللہ تعالی جو غنی مطلق اور جہان کا مالک ہے وہ خریدار ہے اور فروخت کرنے والے مومنین ہیں جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں_ اور جن چیزوں پر معاملہ کیا ہے وہ مومنین کے مال اور جان ہیں اور اس معاملہ کا عوض بہشت ہے اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ تورات اورانجیل اور قرآن یعنی تین آسمانی بڑی کتابیں ہیں جن میں اس طرح کا ان سے وعدہ درج کیا گیا ہے_ پھر خدا فرماتا ہے کہ کس کو پیدا کر سکتے ہو کہ اللہ تعالی سے وعدہ پر عمل کرے آخر میں خدا مومنین کو خوشخبری دیتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نیک بختی اورسعادت ہے_

قرآن مجید ان لوگوں کے لئے جو خدا کے راستے میں شہید ہوجاتے ہیں مقامات عالیہ کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ '' ان لوگوں کو مردہ گمان نہ کرو جو اللہ کے راستے میں شہید ہوجاتے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں روزی پاتے ہیں_(۵۰۱) لفظ عندہم جو اس آیت میں ہے وہ بلند و بالا مقام کی طرف اشارہ ہے مرنے کے بعد انسان کی روح کا زندہ رہنا شہیدکے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام انسان زندہ ہیں لیکن شہداء کی خصوصیت یہ ہے کہ شہید اللہ کے ہاں عالیترین مقامات اور درجات میں زندہ رہتا ہے اور انہیں مقامات عالیہ میں روزی دیا جاتا ہے اور یہ واضح ہے کہ ان مقامات میں روزی دیا جانا دوسروں کے ساتھ مساوی اور برابر نہیں ہے_ اللہ تعالی کے راستے میں شہادت بہت بڑی قیمت اور بڑی عبادت ہے_ عارف اس ممتاز راستے میں عالی مقامات تک جاپہنچتا ہے_ اس بزرگ عبادت کو دوسری عبادت سے دو چیزوں کی وجہ

۲۷۸

سے خصوصیت اورامتیاز حاصل ہے_ پہلی_ مجاہد انسان کی غرض اور غایت اپنے ذاتی مفاد اور لواحقین کے مفاد کو حاصل کرنا نہیں ہوتا وہ کوتاہ نظر اور خودخواہ نہیں ہوتا بلکہ وہ جہاں میں خدا خواہ ہوا کرتا ہے_ مجاہد انسان کلمہ توحید اور اسلام کی ترویج اور وسعت کو چاہتا ہے اور ظلم اور ستم اور استکبار کے ساتھ مبارزہ اور جہاد کرتا ہے اور محروم طبقے اور مستضعفین سے دفاع کرتا ہے اور اجتماعی عدالت کے جاری ہونے کا طلبکار ہوتا ہے اور چونکہ یہ غرض سب سے بلند اور بالا ترین غرض ہے لہذا وہ اعلی درجات اور مراتب کو پالیتا ہے_

دوسری _ ایثار کی مقدار

مجاہد انسان اللہ تعالی سے تقرب اور اس کی ذات کی طرف سیر اور سلوک کے لئے ارزشمند اور قیمتی چیز کا سرمایہ ادا کرتا ہے اگر کوئی انسان صدقہ دیتا ہے تو تھوڑے سے مال سے درگذر اور صرف نظر کرتا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو تھوڑا سا وقت اور طاقت اس میں خرچ کرتا ہے لیکن مجاہد انسان تمام چیزوں سے صرف نظر اور درگذر کرتا ہے اور سب سے بالاتر اپنی جان سے ہاتھ دھولیتا ہے اور اپنی تمام ہستی کو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کے سپرد کر دیتا ہے_ مال اور جاہ و جلال مقام اور منصب اور اہل اور عیال اور رشتہ داروں سے صرف نظر کرتا ہے اور اپنی جان اور روح کو اپنے پروردگار کے سپرد کر دیتا ہے_ جس کام کو متدین اور عارف لوگ پوری عمر کرتے ہیں مجاہد انسان ان سب سے زیادہ تھوڑے سے وقت میں انجام دے دیتا ہے_ مجاہد انسان کی عظیم او رنورانی روح کے لئے مادیات اور مادی جہان تنگ ہوتا ہے اسی واسطے وہ شیر کی طرح مادی جہان کے پنجرے کو توڑتا ہے اور تیز پرواز کبوتر کی طرح وسیع عالم اور رضایت الہی کی طرف پرواز کرتا ہے اور اعلی مقامات اور مراتب تک اللہ تعالی کی طرف جاپہنچتا ہے_ اگر دوسرے اولیاء خدا ساری عمر میں تدریجاً محبت اور عشق اور شہود کے مقام تک پہنچتے ہیں تو مجاہد شہید ایک رات میں سو سال کا راستہ طے کر لیتا ہے اور

۲۷۹

مقام لقاء اللہ تک پہنچتا ہے _ اگر دوسرے لوگ ذکر اور ورد قیام اور قعود کے وسیلے سے اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں_ تو اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے والا انسان زخم اور درد سختی اور تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دے کر اللہ تعالی کا تقرب ڈھونڈتا ہے_

ان دو میں بہت زیادہ فرق ہے_ جنگ اور جہاد کا میدان ایک خاص قسم کی نورانیت اور صفا اور معنویت رکھتا ہے_ شور و شفب اور عشق اور حرکت اور ایثار کا میدان ہے_ محبوب کے را ستے میں بازی لے جانے اور ہمیشگی زندگی کا میدان ہے_ مورچے میں بیٹھتے والوں کا زمزمہ ایک خاص نورانیت اور صفا اور جاذبیت رکھتا ہے کہ جس کی نظیر اور مثال مساجد اورمعابد میں بہت کم حاصل ہوتی ہے_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346