خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس22%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119365 / ڈاؤنلوڈ: 5163
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

جوں جوں انسان کی آگاہی کا درجہ بڑھتا جاتا ہے‘ اس کی حیات اور جانداری کا درجہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ زیربحث ”خود شناسی“، ”شناختی کارڈ“ والی خود شناسی نہیں ہے‘ جس میں لکھا ہوتا ہے کہ میرا نام کیا ہے؟ میرے ماں باپ کا نام کیا ہے؟ میری جائے پیدائش کون سی ہے؟ اور میری سکونت کہاں ہے؟ اور اسی طرح سے زیربحث ”خود شناسی“ حیاتیات کی شناخت بھی نہیں ہے جو حیوانات کی شناخت میں انسان کو ریچھ یا بندر سے بالاتر درجے کا ایک حیوان قرار دے۔

اس مقصد کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں ”حقیقی خود شناسی“ کی اقسام مختصراً بیان کرتے ہیں‘ مجازی خود آگاہی سے قطع نظر خود شناسی کی چند اقسام ہیں:

1 ۔ فطری خود شناسی

انسان ذاتاً خود شناس ہے‘ یعنی اس کی ذات کا جوہر ہی آگاہی ہے‘ لیکن ایسا نہیں ہے کہ پہلے انسان کا جوہر ذات وجود میں آئے اور اس کے بعد انسان اس سے آگاہ ہو‘ بلکہ اس کے جوہر ذات کی پیدائش ہی اس کی خود آگاہی کی پیدائش ہے اور اس مرحلے میں آگاہ ”آگاہی“ اور درجہ آگاہی میں آیا ہوا‘ تینوں ایک ہی چیز ہیں۔ جوہر ذات وہ حقیقت ہے جو عین خود آگاہی ہے۔

دوسری چیزوں سے کم و بیش آگاہی کے بعد والے مراحل میں اپنے بارے میں بھی اسے اسی طرح سے آگاہی حاصل ہوتی ہے یعنی اپنے بارے میں انسان ذہن میں ایک تصور قائم کر لیتا ہے اور اصطلاحی الفاظ میں علم حصولی کے ذریعے خود سے آگاہ ہوتا ہے‘ لیکن اس طرح کی آگاہی سے قبل بلکہ ہر طرح کی دوسری چیزوں کی شناخت سے قبل اپنے بارے میں وہ علم حضوری رکھتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔

۸۱

ماہرین نفسیات عموماً خود شناسی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں‘ ان کے پیش نظر دوسرا مرحلہ ہوتا ہے یعنی علم حصولی اور ذہنی کے ذریعے خود شناسی لیکن فلاسفہ کی نظر زیادہ تر علم حضوری کے مرحلے پر ہوتی ہے نہ علم ذہنی پر۔ شناخت کی یہ قسم وہی ہے جو فلسفہ میں تجردد نفس کی مضبوط ترین دلیل کے طور بیان کی جاتی ہے۔

اس قسم کی خود شناسی میں اس طرح کے شک و تردد کی گنجائش نہیں ہوتی کہ میں موجود ہوں یا نہیں؟ اور اگر موجود ہوں تو کون ہوں؟ شک و تردید کی گنجائش وہاں ہوتی ہے‘ جہاں شناخت علم حصولی کا نتیجہ ہو یعنی شناخت شدہ شے کا عینی وجود اور شناخت کا عینی وجود دو مختلف چیزیں ہوں۔

لیکن جہاں شناخت‘ شناخت کنندہ اور شناخت شدہ تینوں ایک ہی چیز ہوں تو یہ شناخت حضوری ہو گی جس میں شک و تردد کو فرض نہیں کیا جا سکتا یعنی شک کا واقع ہونا وہاں وہاں محال ہے۔

ڈیکارٹ کی بنیادی غلطی ہی یہی ہے کہ اس نے اس بات پر توجہ ہی نہیں کی کہ ”میں ہوں“ شک و تردد سے مبرا ہے جو ہم ”شک“ کو ”میں سوچتا ہوں“ سے دور کریں۔

فطری خود شناسی اگرچہ ایک واقعیت ہے لیکن اکتسابی اور حصولی نہیں ہے بلکہ وجود انسان کی ذات کا ایک پرتو اور عکس ہے۔ اسی لئے وہ خود شناسی جس کی دعوت دی گئی ہے‘ خود شناسی کا ایسا درجہ نہیں جو فطرت کی حرکت جوہری کے نتیجے میں تکوینی اور قہری طور پر وجود میں آتی ہے۔ جہاں پر قرآن حکیم نے رحم مادر میں بچے کی خلقت کے تین مراحل بیان کرتے ہوئے آخری مرحلے کے بارے میں فرمایا:

۸۲

ثم انشاء ناه خلقاً آخر (سورئہ مومنون‘ آیت 14)

”پھر ہم نے اسے ایک اور چیز سے اور ایک اور خلقت سے کر دیا۔“

اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ مادہ انجانے طور پر خود شناس روحی جوہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

2 ۔ فلسفی خود شناسی

فلسفی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ”ذات خود شناس“ کی حقیقت کو پہچانے کہ وہ کیا ہے؟ آیا وہ ”جوہر“ ہے یا ”عرض“؟ وہ مجرد ہے یا مادی؟ اس کا جسم سے کیا تعلق ہے؟ کیا وہ جسم سے پہلے موجود تھا‘ یا جسم کے ساتھ وجود میں آیا؟ یا خود جسم سے نکلا ہے؟ کیا وہ فنائے جسم کے بعد بھی باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اور اس طرح کے اور سوالات۔

خود شناسی کی اس سطح پر جو سوال پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ خود اور ذات کی ماہیت اور حقیقت کیا ہے؟ وہ کیا ہے اور کس جنگ سے ہے؟ اگر فلسفی ”خود شناسی“ کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات کی ماہیت‘ جوہر اور جنس کو پہچانتا ہے۔

۸۳

3 ۔ دنیوی خود شناسی

یعنی انسان کے دنیا سے تعلق کی شناخت کہ میں کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں ہوں؟ اور کہاں جا رہا ہوں؟ اس ”خود شناسی“ سے اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اس ”کل“ کا ایک ”جزو“ ہے جس کا نام ”دنیا“ ہے وہ جانتا ہے کہ وہ خود کسی مستقل حیثیت کا ملک نہیں بلکہ وہ کسی دوسری چیز سے ملحق ہے۔ وہ اپنی مرضی سے نہ خود وجود میں آیا ہے اور نہ ہی زندگی بسر کر رہا ہے البتہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اپنے اس ”جزو“ کو اس ”کل“ میں معین کر دے۔

حضرت علی 1  کے اس پرمغز کلام سے اس قسم کی خود شناسی کی عکاسی ہوتی ہے:

رحم الله امرء علم من این؟ وفی این؟ والی این؟

”خدا اس پر رحمت کرے جو یہ جان لے کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ وہ کہاں ہے؟ اور کہاں جا رہا ہے؟“

اس طرح کی ”خود شناسی“ انسان میں ایک لطیف ترین اور باعظمت ترین درد پیدا کرتی ہے‘ جو اس کائنات کی دوسری ذی روح چیزوں میں نہیں پایا جاتا اور وہ درد ہے ”حقیقت رکھنے“ کا درد اور یہی وہ خود شناسی ہے جو ان کو حقیقت کا پیاسا اور یقین کا متلاشی بناتی ہے‘ شک و تردد کی آگ اس کی روح میں روشن کرتی ہے‘ اس کو ادھر سے ادھر کھینچتی ہے اور یہ وہی آگ ہے جو امام غزالی(سچی کہانیاں) جیسے انسان کی روح میں روشن ہوتی ہے‘ جس سے ان کی بھوک اور نیند اڑ جاتی ہے‘ ان کو نظامیہ کی مسند سے نیچے کھینچ لاتی اور بیابانوں میں آوارہ کرتی ہے اور سالہا سال تک عالم غربت اور بے وطنی میں تدبر اور تفکر میں مصروف رکھتی ہے۔

یہ وہی آگ ہے جو ”عنوان بصری“(سچی کہانیاں) جیسے انسانوں کو حقیقت کی تلاش میں شہر شہر اور کوچہ کوچہ گھومنے پر مجبور کر دیتی ہے اس طرح کی خود شناسی انسان میں تقدیر کا خیال پیدا کرتی ہے۔

۸۴

4 ۔ طبقاتی خود شناسی

یہ خود شناسی ”اجتماعی خود شناسی“ کی مختلف صورتوں میں سے ایک ہے۔ طبقاتی خود شناسی یعنی معاشرے کے مختلف طبقات سے اپنے تعلق کی شناخت جن کے ساتھ وہ زندگی بسر کرتا ہے‘ طبقاتی معاشروں میں ہر فرد کی ایک خاص ٹولی ہے اور ایک خاص طبقہ میں کامیاب یا ناکام زندگی بسر کرتا ہے‘ طبقاتی مقام اور طبقاتی ذمہ داریوں کی پہچان طبقاتی ”خود شناسی“ ہے۔

بعض نظریات کی رو سے انسان کا اس طبقے سے باہر کوئی ”خود“ موجود نہیں جس میں وہ ہے‘ ہر شخص کی ذات‘ اس کا ضمیر ہے اور اس کے احساسات‘ افکار‘ آلام اور میلانات کا مجموعہ ہیں اور یہ سب طبقاتی زندگی میں پیدا ہوتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اس گروہ کے نزدیک نوع انسان کی کوئی ذات نہیں ہوتی وہ ایک انتزاع شدہ انسان ہے نہ عینی انسان‘ کیوں کہ عینی انسان تو طبقے میں معین ہو جاتا ہے‘ انسان موجود نہیں ہوتا بلکہ یا اشراف ہوتے ہیں یا عوام‘ لہٰذا ایک غیر طبقاتی معاشرے میں اجتماعی خود شناسی‘ طبقاتی خود شناسی پر منحصر ہے۔

اس نظریے کے مطابق ”طبقاتی خود شناسی“، ”نفع شناسی“ کے مساوی ہے‘ کیوں کہ اس کی بنیاد یہ فلسفہ ہے کہ ”فرد“ پر اصل حاکم اور فرد کی شخصیت کی بنیاد ”مادی منافع“ ہے جس طرح سے معاشرے کی عمارت میں اس کی بنیاد اقتصاد ہے اور جو چیز ایک طبقے کے افراد کو مشترک ضمیر‘ مشترک ذوق اور مشترک فیصلہ دیتی ہے وہ مشترک مادی زندگی اور مشترک منافع ہیں‘ طبقاتی زندگی انسان کو طبقاتی نقطہ نظر عطا کرتی ہے اور طبقاتی نقطہ نظر اس چیز کا باعث ہوتاہے کہ انسان دنیا اور معاشرے کو خاص زاویے اور خاص عینک سے دیکھے اور اسے طبقاتی نظر سے پیش کرے۔ اس کے اندر درد بھی طبقاتی ہوتا ہے اور اس کی کوششیں اور طرز تفکر بھی طبقاتی ہوتا ہے۔

مارکسزم اس طرح کی خود شناسی کا قائل ہے اس طرح کی خود شناسی کو مارکسزم کی خود شناسی کہا جا سکتا ہے۔

۸۵

5 ۔ قومی خود شناسی

قومی خود شناسی سے مراد اپنے بارے میں ایسی خود شناسی ہے جو انسان اور اس کی اپنی قوم کے دیگر افراد سے تعلق اور ربط کے سلسلے میں ہو‘ ایک طبقے کے افراد کے آداب‘ قوانین‘ تاریخ‘ تاریخی فتوحات اور شکستیں‘ زبان‘ ادبیات اور تہذیب مشترک ہو تو ان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں انسان میں ان لوگوں کے ساتھ ایک طرح کی یگانگت اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے‘ بلکہ جس طرح ایک فرد ایک شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ ایک قوم بھی ایک تہذیب کی حامل ہونے کی بناء پر ایک ملی شخصیت پیدا کر لیتی ہے۔ مشترک تہذیب سے افراد کے درمیان مشترک قومیت کی نسبت زیادہ شباہت اور وحدت پیدا ہوتی ہے‘ ایسی قومیت جس کی بنیاد تہذیب اور ثقافت پر ہو‘ افراد کو اجتماع اور وحدت میں بدل دیتی ہے اور اسی اجتماع اور وحدت کی خاطر قربانی دیتی ہے‘ اجتماع کی کامیابی سے اس میں فخر اور شکست سے شرمندگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

”ملی خود شناسی“ یعنی قومی ثقافت سے آگاہی‘ ملی شخصیت کی شناخت قومیت کے اجتماعی احساس کی شناخت ہے‘ بنیادی طور پر دنیا میں ”ایک ثقافت“ نہیں بلکہ ”ثقافتیں“ موجود ہیں اور ہر ثقافت کی ایک خاص ماہیت‘ خصوصیت اور پہچان ہوتی ہے لہٰذا صرف ایک ثقافت کا نعرہ کھوکھلا اور بے معنی ہے۔ نیشنلزم (قومیت) جس نے بالخصوص انیسویں صدی عیسوی میں بہت رواج پایا ہے اور اب بھی کم و بیش اس کی ترویج کا سلسلہ جاری ہے‘ اسی فلسفے پر مبنی ہے اس طرح کی ”خود شناسی“ میں ”طبقاتی خود شناسی“ کے برعکس‘ جس میں ہر قسم کے اندازے‘ جذبات‘ فیصلے اور طرف داریوں کا رجحان طبقاتی ہوتا ہے‘ قومی جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔

”ملی خود شناسی“ اگرچہ ”منافع خود شناسی“ نہیں ہے تاہم یہ ”خود خواہی“ کے جذبے سے خالی نہیں ہوتی‘ اس میں ”خود خواہی“ کے تمام عیب جیسے تعصب‘ جانبداری کا احساس‘ اپنے عیوب نہ دیکھنا‘ اپنے آپ پر اترانا اور خود پسندی وغیرہ پائے جاتے ہیں‘ اس لئے یہ بھی ”طبقاتی خود شناسی“ کی مانند اخلاقی صفات سے عاری ہوتی ہے۔

۸۶

6 ۔ انسانی خود شناسی

یعنی دوسرے انسانوں کے لحاظ سے انسان کی اپنے بارے میں شناخت‘ اس خود شناسی کا انحصار اس فلسفے پر ہے کہ تمام انسان مجموعی طور پر ایک اکائی ہیں اور ایک مشترک انسانی ضمیر رکھتے ہیں‘ اس لئے انسان دوستی اور اس کی طرف میلان کا احساس ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔

سعدی شیرازی کے بقول:

بنی آدم اعضای یک پیکر اند

کہ در آفرینش زیک گوہر اند

چو عضوی بدرد آورد روزگار

عضوھا را نماند قرار

تو کز محنت دیگران بی غمی

نشاید کہ نامت نھند آدمی

بنی آدم 1  ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں‘ اس لئے کہ وہ خلقت میں ایک ہی جوہر سے ہیں۔

جب زمانہ ایک حصے کو درد میں مبتلا کرتا ہے‘ تو دوسرے اعضاء بھی بے چین اور بے قرار ہو جاتے ہیں تو جو کہ دوسروں کی مصیبت سے بے غم ہے‘ تجھے انسان کہنا نامناسب ہے‘ وہ لوگ جو کانٹ کی مانند ”دین انسانیت“ کی تلاش میں تھے اور اب بھی ہیں‘ اسی طرز فکر کے حامل ہیں۔ ہیومانزم ( Humanism ) کا فلسفہ جو ہمارے زمانے میں بھی کم و بیش رائج ہے اور بہت سے روشن فکر اشخاص جس کے مدعی ہیں‘ یہی ہے۔ یہ فلسفہ انسان کو گروہوں‘ قومیتوں‘ تہذیبوں‘ مذہبوں‘ رنگوں اور نسلوں سے بالاتر ہو کر انسانوں کو ایک ”اکائی“ کی صورت میں دیکھتا ہے اور ان کے درمیان ہر قسم کی تفریق اور امتیازات کی نفی کرتا ہے‘ وہ منشور جو ”حقوق انسانی“ کے نام سے شائع ہوئے ہیں‘ اسی فلسفہ پر مبنی ہیں اور دنیا میں اسی طرح کی خود شناسی کی ترویج کرتے ہیں۔

۸۷

اگر اس طرح کی ”انسانی خود شناسی“ ایک فرد میں پیدا ہو جائے تو اس کا درد انسانیت کا درد اور اس کی آرزوئیں انسانیت کی آرزوئیں بن جاتی ہیں۔ اس کا میلان انسانی میلانات کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس کی دوستی اور دشمنی بھی انسانی رنگ اختیار کرتی ہے۔ وہ انسان کے دوستوں یعنی علم‘ تہذیب‘ رفاہ‘ آزادی‘ انصاف اور محبت کا دوست اور اس کے دشمنوں یعنی جہالت‘ افلاس‘ ظلم‘ بیماری‘ گھٹن اور تفریق کا دشمن بن جاتا ہے اور اس طرح کی خود شناسی ”ملی خود شناسی“ اور ”طبقاتی خود شناسی“ کے برعکس اخلاقی صفات کی حامل ہوتی ہے۔

لیکن ایسی خود شناسی باوجودیکہ سب سے زیادہ منطقی اور شہرت یافتہ ہے۔ دوسری خود شناسیوں کی نسبت کم پائی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

اس کا راز انسان کے وجود اور اس کی اصلیت میں پوشیدہ ہے۔ انسان اپنے وجود اور اپنی اصلیت کے اعتبار سے تمام دوسری موجودات سے‘ جمادات ہوں‘ نبادات ہوں یا حیوانات‘ مختلف ہے۔ اس لئے انسان کے علاوہ ہر دوسرا وجود جو اس دنیا میں آتا ہے‘ وہی ہوتا ہے جس حالت میں وہ پیدا کیا گیا ہے یعنی اس کی اصلیت اور کیفیت وہی ہوتی ہے جو پیدائش کے وقت اس کو دی گئی ہے‘ لیکن اس حالت کے برعکس انسان کو پیدائش کے بعد ایک نیا مرحلہ پیش آتا ہے کہ وہ کیا ہے؟ اور اسے کیسے ہونا چاہئے؟ انسان ویسا نہیں رہتا جیسا پیدائش کے وقت ہوتا ہے بلکہ وہ جیسا چاہتا ہے بنتا ہے‘ یعنی وہ تمام وسائل‘ جن میں اس کا ارادہ اور انتخاب بھی شامل ہوتا ہے‘ اس کی پرورش اور تربیت کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر انسان کے علاوہ ہر چیز اپنی ماہیت کے لحاظ سے کہ وہ کیا ہے؟ اور کیفیت کے اعتبار سے کہ اسے کیسے ہونا چاہئے؟

۸۸

حقیقی طور پر مکمل پیدا کی گئی ہے‘ لیکن اس لحاظ سے انسان ایک ممکنہ قوت اور استعداد کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے‘ یعنی انسانیت کا بیج اس کے اندر استعدادی قوت کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور اگر اس بیج پر کوئی آفت نہ پڑے تو وہ آہستہ آہستہ وجود انسان کی زمین سے باہر نکل آتا ہے اور یہی وہ انسانی فطریات ہیں جو بعد میں اس کے فطری اور انسانی ضمیر کی تعمیر کرتی ہیں۔ انسان جمادات‘ نباتات اور حیوانات کے برعکس ایک ظاہری بدن اور شخصیت کا حامل ہوتا ہے‘ اس کا بدن یعنی جسمانی اعضاء کا مجموعہ جو مکمل طور پر دنیا میں آتا ہے اس لحاظ سے پیدائش کے وقت حیوانات کی مانند ہوتا ہے‘ لیکن روحانی پہلوؤں سے وہ ایک استعدادی قوت رکھتا ہے جو اس کی انسانی شخصیت کو بناتی ہے‘ انسانی اقدار اس کے وجود میں استعدادی قوت کے ساتھ موجود ہوتی ہیں جو پیدا ہونے اور بڑھنے پر آمادہ ہوتی ہیں۔

انسان روحانی اور باطنی اعتبار سے جسم سے ایک مرحلہ پیچھے ہوتا ہے اس کے جسمانی اعضاء پہلے مرحلے میں رحم مادر میں دست قدرت کے وسائل سے تکمیل پاتے ہیں لیکن اس کی روحانی اور باطنی حیثیت اور اس کی شخصیت کے حصے اس کی پیدائش کے بعد والے مرحلے میں مکمل ہوتے ہیں‘ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہر شخص خود اپنی شخصیت کا معمار ہے۔ انسان کی تصویر بنانے والا قلم خود اس کے ہاتھ میں دیا گیا ہے اور (اپنی جسمانی ساخت کے برعکس) اپنی شخصیت کو بنانے والا نقاش وہ خود ہے۔

انسان کے علاوہ دوسرے تمام موجودات میں ان کی ذات اور ماہیت کے درمیان جدائی کا تصور ناممکن ہے مثلاً پتھر اور اس کی خصوصیات جیسے مختلف درخت اور اس کی خصوصیات‘ کتا اور اس کی خصوصیات‘ بلی اور اس کی خصوصیات کے مابین جدائی ناممکن ہے‘ اگر بلی‘ بلی ہے تو اپنی خصوصیات کی بنیاد پر ہے اگر اس کی خصوصیات اس سے چھین لی جائیں تو بلی‘ بلی نہیں رہتی۔

۸۹

لیکن انسان ایک ایسا وجود ہے جس کی ذات اور اس کی ماہیت کے درمیان جدائی اور دوری ممکن ہے یعنی انسان اور انسانیت کے درمیان جدائی ممکن ہے۔ بہت سے انسان ایسے ہوتے ہیں جو ابھی انسانیت کے مرحلے پر نہیں ہوتے اور ابھی تک حیوانیت ہی کے مرحلے پر باقی ہوتے ہیں‘ جیسے ابتدائی انسان تھے یا جنگلی انسان ہوتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ بہت سے انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو مسخ ہو جاتے ہیں اور انسان کے دشمن بن جاتے ہیں جیسے وجود اور اس کی ماہیت میں جدائی پیدا ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ ماہیت وجود کا لازمہ ہے اگر ایک وجود موجود ہو تو اس کی ماہیت بھی وجود کے ساتھ ساتھ موجود ہو گی۔ ہاں‘ استعدادی وجود کی ماہیت نہیں ہوتی۔

اگزیسٹینشالیزم ( Existentialism ) کے اصالت وجود کا نظریہ مدعی ہے کہ ”انسان بغیر ماہیت کے ایک وجود ہے اور اپنے ہی انتخاب سے راستہ طے کرتا ہے اور ماہیت پیدا کر لیتا ہے۔“

اس کی صحیح فلسفیانہ توجیہ یہی ہے۔ اسلامی فلاسفہ خصوصاً ملاصدرا کا انحصار اسی نظریے پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ

”انسان ایک نوع نہیں بلکہ انواع ہے‘ بلکہ ہر فرد ایک دن اس طرح ہوتا ہے جس طرح دوسرے دن نہیں ہوتا۔“

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علم حیاتیات ( Biology ) کا انسان انسانیت کا معیار نہیں ہے بلکہ وہ صرف انسان کا ڈھانچہ ہے اور فلاسفہ کی تفسیر کے مطابق ”استعداد انسانیت“ کا حامل ہے نہ کہ خود ”انسانیت“ کا اور یہ بھی واضح ہے کہ واقعیت روح کے بغیر ”انسانیت“ کا دعویٰ بے معنی ہے۔

مذکورہ مقدمہ کے جاننے کے بعد ہم ”انسانی خود شناسی“ کا مفہوم زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ”انسانی خود شناسی“ کی بنیاد یہ ہے کہ تمام انسان مجموعی طور پر ایک حقیقی اکائی کے طور پر شمار کئے جاتے ہیں اور ایک مشترک انسانی ضمیر سے بہرہ مند ہیں‘ جو طبقاتی‘ مذہبی اور قومی ضمیر سے بالاتر ہے۔

۹۰

البتہ یہ بیان توضیح طلب ہے کہ کون سے انسان مجموعی طور پر ایک ”شخصیت“ کے حامل ہیں اور واحد روح ان پر حاکم ہے؟ ”انسانی خود شناسی“ کون سے انسانوں کے درمیان بڑھتی ہے اور ان میں ہمدردی اور جسد واحد ہونے کا تصور پیدا کرتی ہے؟ آیا ”انسانی خود شناسی“ صرف انہی انسانوں کے درمیان بڑھتی ہے‘ جو انسانیت کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں اور جن میں انسانی اقدار اور انسان کی حقیقی ماہیت‘ حقیقت بن چکی ہوتی ہے؟ یا ان انسانوں کے درمیان جو انسانیت نہیں پا سکے لیکن استعداد رکھتے ہیں؟ یا ان انسانوں کے درمیان جو مسخ ہو کر بدترین جانور بن گئے ہیں؟ یا ان سب کے درمیان یہ خود شناسی پائی جاتی ہے؟ جہاں تک باہمی احساس درد کا تعلق ہے سب کو اس درد کا احساس ہونا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ بظاہر تو تمام انسان ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں اور ایک دوسرے کے درد سے بے چین ہو جاتے ہیں‘ لیکن یہ سب گروہ تو ایسے نہیں ہو سکتے‘ جنگلی اور ابتدائی انسان جو اپنے بچپن پر باقی رہے اور ان کی انسانی فطرت ابھی بیدار اور متحرک نہیں ہوئی‘ کب باہمی احساس درد کے حامل ہوتے ہیں؟ اور ایک مشترک روح ان پر کیسے حکومت کر سکتی ہے؟ البتہ جن انسانوں کی ہیئت ہی مسخ ہو چکی ہو‘ ان کا معاملہ تو بالکل واضح ہے پس صرف وہی انسان جو انسانیت کے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ جو انسانی ماہیت کے حامل ہیں اور جو انسانی فطرت کے لحاظ سے تکمیل پائے ہوئے ہیں‘ حقیقت میں ایک جسم کے اعضاء ہیں اور ایک واحد روح پر حکم فرما ہے اور بقول سعدی شیرازی 111#

چو عضوی بدرد آورد روزگار

دیگر عضوھارا نماند قرار

”جب زمانہ ایک حصے کو درد میں مبتلا کرتا ہے تو دوسرے اعضاء بھی بے چین ہو جاتے ہیں۔“

۹۱

ایسے انسان جن میں تمام فطری اقدار پیدا ہو چکی ہیں ”مومن انسان“ ہیں کیوں کہ ایمان انسان کی فطریات اور حقیقی انسانی اقدار میں سرفہرست ہے‘ چنانچہ جو چیز انسانوں کو حقیقی طور پر سماجی وحدت کی صورت دیتی ہے‘ ان میں واحد روح پھونکتی ہے اور اس طرح کے اخلاقی اور انسانی معجزے کو ظہور میں لاتی ہے‘ وہ صرف ”مشترک ایمان“ ہے‘ نہ کہ مشترک جوہر‘ نسب اور وطنیت جیسا کہ سعدی شیرازی کے کلام میں آیا ہے۔

جو کچھ سعدی نے کہا ہے وہ ایک ”آئیڈیل“ ہے نہ کہ حقیقت بلکہ ”آئیڈیل“ بھی نہیں ہے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موسیٰ 1  فرعون کے جسم کا حصہ ہوں‘ ابوذر معاویہ کے ہمدرد ہوں‘علیٰ هذا القیاس…؟

جو چیز حقیقت بھی ہے اور ”آئیڈیل“ بھی وہ ایسے انسانوں کی وحدت ہے‘ جو انسانیت کے درجے اور اقدار تک پہنچے ہوئے ہیں‘ یہ وہ حقیقی بیان ہے جو رسول اکرم نے فرمایا تھا اور شیخ سعدی نے اسے عمومیت دے کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا‘ پیغمبر اسلام نے بجائے اس کے کہ کہا جائے بنی آدم ایک ہی جسم کے حصے ہیں‘ فرمایا:

مثل المومنین فی توا ددهم و تراحمهم کمثل الجسد اذا شتکی بعضی تداعی له سائر اعضائه بالحمی والسهر

”مومنین ایک ہی جسم کے حصے ہیں‘ جب ایک حصے میں درد اٹھتا ہے تو دوسرے حصے بخار اور بے خوابی میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔“

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانیت کے درجے پر پہنچا ہوا انسان تمام انسانوں بلکہ تمام موجودات سے محبت کرتا ہے‘ حتیٰ کہ انسان انسانوں سے بھی‘ جن کی ہیئت مسخ ہو چکی ہے اور جنہوں نے اپنی اصل تبدیل کر لی ہے‘ اسی لئے خداوند تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم 1 کو رحمتہ للعالمین قرار دیا ہے۔

۹۲

ایسے انسان اپنے دشمنوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ حضرت علی 1  نے ابن ملجم کے بارے میں فرمایا تھا کہ

”میں اس کی زندگی چاہتا ہوں اور وہ میرا قتل۔“

لیکن معاملہ برابر کی محبت اور برابر کی دردمندی کا ہے اور برابری کی محبت صرف اور صرف معاشرے کے اہل ایمان افراد کے درمیان ہی وجود پا سکتی ہے۔

ظاہر ہے تمام انسانوں سے محبت یعنی ”صلح کلی“ کا تقاضا یہ نہیں کہ کوئی ذمہ داری قبول نہ کی جائے اور کسی گمراہی اور ظالم سے لاتعلق رہا جائے‘ بلکہ اس کے برعکس انسانوں سے حقیقی محبت کا تقاضا اس ضمن میں سخت ترین ذمہ داریاں قبول کرنا ہے۔

ہمارے زمانے میں مشہور انگریز فلسفی اور ریاضی دان برٹرینڈرسل اور فرانس کے ایگزیسٹینشل فلسفی ”جان پال سارتر“ انسانی مسلک کے دو مشہور انسان دوست چہرے ہیں‘ البتہ رسل کے فلسفہ اخلاق کی بنیاد اس کے نظریہ ”انسان دوستی“ کی دو طرح سے مخالف ہے‘ رسل کا فلسفہ اخلاق شخصی منافع کی سوچ پر مبنی ہے‘ یعنی اس کے اخلاق کی بنیاد اصول اخلاق کی روشنی میں زیادہ اور بہتر منافع کے تحفظ پر ہے اور وہ اخلاق کے کسی دوسرے فلسفہ کا قائل نہیں ہے‘ اس بناء پر رسل کی ”انسان دوستی“ ایک اہل قلم کے قول کے مطابق مغربی دنیا کے اس اضطراب کی مظہر ہے‘ جس کی بنیاد ختم ہو چکی ہے‘ یہ اہل قلم ”آج کے مغربی نیھیلزم کے دو چہرے“ کے عنوان سے لکھتا ہے:

”وہ جوشیلا برژوازی جس نے قومیت کا پرچم لہرایا تھا‘ آج اس کے پاس سوچنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ یورپی جوان نسل ایک کھوکھلے نقطے پر کھڑی ہے۔ آج مغرب اور برآمدات کو جو اجتماعی شورش‘ ناامیدی‘ پریشانی‘ احساس حقارت اور افکار مذہب و اخلاق کے جذبات پر مشتمل ہیں اور جو اس نے دوسری قوموں اور تہذیبوں پر مسلط کیا تھا‘ واپس لے رہا ہے۔ منکر مذہب و اخلاق تو یہ سوچتا ہے کہ جب میرے لئے کچھ نہیں تو دوسرے کے لئے بھی کچھ نہ ہو اور اس طرح وہ خود اپنی ہی خرابی کی طرف رواں دواں ہے۔

۹۳

لیکن ایک اور ردعمل ایک طرح کے روحانی انسان دوستی کے فلسفے کے ظہور میں آنے سے ہوا ہے‘ جو مختلف سطحوں پر مغربی روشن فکر افراد کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے ایک طرف رسل کا سادہ عملی نظریہ ہے اور دوسری جانب سارتر کا پیچیدہ اور شدید نظریہ اور درمیان میں ٹیبو رمنڈر جیسے سیاست دان کا اور اقتصادیات کے حامی روشن فکر افراد اپنی اور دوسروں کی مشکلات کے حل کے لئے عملی طریقے سوچ رہے ہیں۔

لیکن سارتر اپنے عارفانہ اور آزادانہ مشرب اور ذمہ داری کے اس پیچیدہ اور شدت آمیز نظریے کے باوجود مغربی روح کا ایک اور مظہر ہے‘ جو احساس گناہ کی بناء پر تلافی مکافات کرنا چاہتا ہے۔ وہ رواقی فلاسفہ کی مانند انسانوں میں برادری‘ برابری‘ آزادی‘ خود مختاری‘ پرہیزگاری اور پارسائی سے دنیا میں حکومت کرنے کا معتقد ہے۔ موجودہ دور میں وہ ایسی روشن خیالی کا مظہر ہے جو یہ چاہتا ہے کہ ”انسانیت کامل“ کا حامی بن کر اپنے آپ کو مغرب کے اس اضطراب سے نکال لے‘ جس کی بنیاد کھوکھلی ہو چکی ہے۔ وہ نظریہ ”انسان دوستی“ کو مذہب کا بدل بنا کر پرانے خدا کے بدلے پوری انسانیت کے لئے نئے خدا سے اپنے اور پورے مغرب کے لئے معافی کا خواستگار ہے۔“

سارتر کی واضح انسان دوستی کا نتیجہ یہی ہے کہ کبھی تو وہ اسرائیل کی مظلومیت پر مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہے اور کبھی عربوں اور بالخصوص فلسطینی مہاجرین کے مظالم پر فریاد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

دنیا نے مغرب کے تمام انسان دوستوں کو جنہوں نے ”حقوق انسانی“ کے منشور پر دستخط کئے ہیں۔ مسلسل دیکھا ہے اور دیکھ رہی ہے اور یہ امر کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔

”اجتماعی خود شناسی“ ملی ہو یا طبقاتی یا انسانی ہمارے دور میں ”روشن خیال خود شناسی“ کہلاتی ہے۔ روشن خیال شخص وہ ہے جسے ان اقسام خود شناسی میں سے کوئی ایک حاصل ہو جس کے دل میں قوم یا طبقے یا انسان کے درد کا احساس ہو‘ جو انہیں اس درد سے رہائی دلانے میں کوشاں ہو‘ وہ چاہتا ہو کہ اپنی ”خود شناسی“ کو ان میں منتقل کر دے اور اجتماع کی قیود سے رہائی کے لئے ان کو کوشش اور حرکت کی ترغیب دلائے۔

۹۴

7 ۔ عارفانہ خود شناسی

عارفانہ خود شناسی ذات حق سے اپنے رابطے کے سلسلے میں خود شناسی ہے‘ عرفا کے نقطہ نظر سے یہ رابطہ ایسا نہیں ہے جو دو انسانوں کا آپس میں یا معاشرے کے کسی دوسرے افراد سے ہوتا ہے‘ بلکہ یہ رابطہ ”شاخ کا جڑ“ سے ”مجاز کا حقیقت“ سے اور عرفا کی اصطلاح میں مقید کا مطلق سے رابطہ ہے۔

ایک روشن فکر کے درد کے برعکس عارف کا درد انسان کی ”خود شناسی“ میں کسی بیرونی درد کا انعکاس نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک ایسا باطنی درد ہے‘ جو فطری اور اجتماعی درد ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ پہلے اس سے آگاہ ہوتا ہے پھر یہ آگاہی اس کو درد مندبناتی ہے۔

لیکن ایک عارف کا درد چونکہ ایک باطنی درد ہوتا ہے‘ خود درد ہی اس کے لئے آگاہی ہے بالکل بیماریوں کے درد ہی کی طرح‘ جو طبیعت کی طرف سے کسی حاجت اور ضرورت کا اعلان ہے۔

حسرت و زاری کہ درد بیماری است

وقت بیماری ھمہ بیداری است

ہر کہ او بیدار تر پر درد تر

ہر کہ او آگاہ تر رخ زرد تر

پس بدان این اصل را ای اصلجو

ہر کہ را درد است او بردہ است بو

۹۵

”بیماری میں جو حسرت اور گریہ زاری ہے‘ بیماری کے وقت سب کی بیداری کی علامت ہے۔

جو جتنا زیادہ بیدار ہے وہ اتنا ہی زیادہ دردمند ہے اور جو جتنا زیادہ خود شناس ہے اس کا چہرہ اتنا ہی زیادہ زرد ہے‘ پس اے حقیقت کے متلاشی! اس حقیقت کو جان لے کہ جو شخص درد میں مبتلا ہے اسی نے حقیقت کا پتہ لگا لیا ہے۔“

عارف کا درد فلسفی کے درد جیسا بھی نہیں‘ دونوں ہی حقیقت کے درد مند ہیں لیکن فلسفی کا درد حقیقت کے جاننے اور شناخت کرنے کا درد ہے اور عارف کا درد پہنچنے‘ ایک ہو جانے اور محو ہو جانے کا درد۔ فلسفی کا درد اسے فطرت کے دیگر فرزندوں یعنی تمام جمادات‘ نباتات اور حیوانات سے ممتاز کر دیتا ہے۔ عالم طبیعت کے کسی وجود میں ماننے اور شناخت کرنے کا درد موجود نہیں‘ لیکن عارف کا درد عشق اور جذبے کا درد ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو نہ صرف حیوان میں نہیں بلکہ فرشتوں میں بھی موجود نہیں‘ جن کی ذات کا جوہر ہی خود شناسی اور جاننا ہے۔

فرشتہ عشق نداانست چیست قصہ مخوان

بخواہ جام و گلابی بہ خاک آدم ریز

”فرشتے نے عشق کو نہ جانا کہ وہ کیا چیز ہے قصہ نہ سنا‘ جام طلب کر اور گلاب کا پانی آدم کی خاک پر ڈال دے۔“

جلوہ ای کرد رخش دید ملک‘ عشق نداشت

خیمہ در مزرعہ آب و گل آدم زد

”جب اس کے رخ کا ایک جلوہ نظر آیا تو فرشتے نے دیکھا کہ اس میں عشق نہیں تو اس نے آدم کی خاک پر اپنے خیمے گاڑ دیئے۔“

۹۶

فلسفی کا درد فطرت کی حاجتوں کے جاننے کا اعلان ہے جسے فطری طور پر انسان جاننا چاہتا ہے اور عارف کا درد فطرت عشق کی حاجتوں کا اعلان ہے جو پرواز کرنا چاہتا ہے اور جب تک پوری طرح سے حقیقت کا ادراک نہیں کرتا‘ سکون نہیں پاتا۔ عارف کامل خود شناسی کو ”خداشناسی“ میں منحصر سمجھتا ہے۔ عارف کی نظر میں جسے فلسفی انسان کا حقیقی ”من“ سمجھتا ہے‘ حقیقی ”من“ نہیں ہے بلکہ روح ہے۔ ”جان“ ہے‘ ایک تعین ہے‘ حقیقی ”من“ خدا ہے اور اس تعین کے ٹوٹنے کے بعد انسان اپنے حقیقی ”من“ کو پا لیتا ہے۔

محی الدین ابن عربی فصول الحکم‘ فص شعیبی میں فرماتے ہیں‘ حکماء اور متکلمین نے خود شناسی کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ لیکن ان راہوں سے ”معرفت النفس“ حاصل نہیں ہو سکتی‘ جس کا خیال یہ ہو کہ ”خود شناسی“ کے بارے میں حکماء نے جو کچھ سمجھا ہے‘ وہ حقیقت ہے‘ تو اس نے پھولی ہوئی چیز کو موٹا سمجھ رکھا ہے۔

شیخ محمود شبستری سے عرفانی مسائل کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات ”جن کے جواب میں کم نظیر عرفانی کلام‘ ”گلشن راز“ وجود میں آیا ہے۔“ میں سے ایک ”خود“ ذات اور ”من“ کے بارے میں سوال تھا کہ یہ کیا ہے؟

۹۷

دگر کردی سوال ازمن کہ ”من“ چیست

مرا از من خبر کن تاکہ ”من“ کیست

چو ہست مطلق آمد در اسارت

بہ لفظ ”من“ کنند از وی عبارت

حقیقت کز تعین شد معین

تو او را در عبارت گفتہ ای من

من و تو عارض ذات وجودیم

مشبکہای مشکوة وجودیم

ھمہ یک نور دان اشباح و ارواح

گہ از آئینہ پیدا گہ ز مصباح

”تو نے پھر مجھ سے پوچھا کہ یہ ”من“ کیا ہے‘ ”من“ کے بارے میں پوچھنے سے پہلے مجھے میرے بارے میں خبر تو دو!

مطلق ہستی کو جب اسیر اور مقید کر دیا جاتا ہے تو اسے ”من“ سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ جب تعین اور حدود و قیود کی وجہ سے حقیقت کو متعین کیا جاتا ہے اسے سادہ عبارت میں ”من“ کہا جاتا ہے‘ میں اور تم دونوں ذات وجود کے عارض ہیں اور ہم وجود (روح) کے فانوس کے گرد لگی ہوئی جالیاں ہیں (جن سے روشنی چھن چھن کر باہر آتی ہے) ہیولا اور روح کو ایک نور ہی سمجھ لو‘ کیوں کہ نور کبھی تو آئینہ سے منعکس ہو کر تم تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی فانوس سے سیدھا تم تک پہنچ جاتا ہے۔“

پھر ”روح“ اور ”من“ کے بارے میں فلاسفہ کی خود شناسی پر اس طرح سے اعتراض کرتے ہیں۔

۹۸

تو گوی لفظ ”من“ در ہر عبارت

بسوی روح می باشد اشارت

چو کردی پیشوائے خود خرد را

نمی دانی ز جزء خویش خودرا

برو ای خواجہ خود را نیک بشناس

کہ نبود فربہی مانند آماس( 1)

من و تو بر تر از جان و تن آمد

کہ این ہر دو ز اجزای من آمد

بہ لفظ من نہ انسان است مخصوص

کہ تا گوی بدان جان است مخصوص

یکی راہ برتر از کون و مکان شو

جہاں بگذار و خود در خود جہان شو

”تم چاہے کسی بھی عبارت میں لفظ ”من استعمال کرو اشارہ تمہاری روح ہی کی طرف ہے‘ جب تم عقل کو اپنا رہبر اور رہنما بناؤ گے‘ تو اپنے آپ کو اپنے اعضاء سے نہیں سمجھو گے۔ اے خواجہ جا اور اپنے آپ کو اچھی طرح پہچان لے کیوں کہ پھول جانا موٹاپا نہیں ہوتا‘ ”من“ اور ”تو“ جگہ اور بدن سے برتر ہیں کیوں کہ یہ دونوں مرے اجزاء اور حصے ہیں لفظ ”من“ کسی خاص انسان سے مخصوص نہیں جو تم اس سے کسی خصوصی روح کو مراد لو‘ ایک راستے پر چلو اور کون و مکان سے برتر ہو جاؤ‘ دنیا کو چھوڑ دو اور اپنے اندر ایک دنیا بن جاؤ۔“

۹۹

مولانا کہتے ہیں:

ای کہ در پیکار ”خود“ را باختہ

دیگران را تو ز خود نشاختہ

تو بہ ہر صورت کہ آئی بیستی

کہ منم این واللہ آن تو نیستی

یک زمان تنہا بمانی تو زخلق

در غم و اندیشہ مانی تا بحلق

این تو کی باشی؟ کہ تو آن اوحدی

کہ خوش و زیبا و سرمست خودی

مرغ خویشی‘ صید خویشی‘ دام خویش

صدر خویشی‘ فرش خویشی‘ بام خویش

گر تو آدم زادہ ای چون اونشین

جملہ ذرات را در خود ببین

”اے وہ شخص جو جنگ میں اپنے آپ کو ہار چکا ہے اور اپنے اور دوسروں کے فرق کو نہ جان سکا‘ تم چاہے کسی بھی صورت میں آ جاؤ تم نہیں ہو‘ بلکہ اللہ کی قسم وہ میں ہوں‘ ایک وقت ایسا آئے گا جب تم مخلوقات سے الگ تھلگ اکیلے رہ جاؤ گے اور گردن تک غم و اندوہ میں مبتلا رہو گے۔ یہ تم کب ہو؟‘ تم تو وہ فرد ہو جو اپنا مرکز‘ اپنا فرش اور اپنا چھت ہے اور جو اپنے آپ میں سرمست‘ خوش اور مگن ہے‘ تم خود ہی پرندہ ہو‘ خود شکار ہو اور خود ہی جال بھی‘ بلندی بھی تم خود ہو‘ پستی بھی خود ہی اور چھت بھی تم ہی ہو‘ اگر تم آدم کی اولاد ہو تو اس کی طرح رہو اور تمام ذرات کا اپنے اندر مشاہدہ کرو۔“

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

نفس پر اعتماد نہ کرے اور اس کی بابت خوش عقیدہ نہ ہو کیونکہ نفس بہت ہی مکار اور امارہ سو ہے_ سینکڑوں حیلے بہانے سے اچھے کام کو برا اور برے کو اچھا ظاہر کرتا ہے_ انسان کو اپنے بارے اپنی ذمہ داری کو نہیں سوچنے دیتا تا کہ انسان اس پر عمل پیرا ہو سکے_ گناہ کے ارتکاب اور عبادت کے ترک کرنے کی کوئی نہ کوئی توجیہ کرے گا_ گناہوں کو فراموشی میں ڈال دے گا اور معمولی بتلائے گا_ چھوٹی عبادت کو بہت بڑا ظاہر کرے گا اور انسان کو مغرور کردے گا_ موت اور قیامت کو بھلا دے گا اور دور دراز امیدوں کو قوی قرار دے گا_ حساب کرنے کو سخت اور عمل نہ کئے جانے والی چیز بلکہ غیر ضروری ظاہر کردے گا اسی لئے انسان کو اپنے نفس کی بارے میں بدگمانی رکھتے ہوئے اس کا حساب کرنا چائے_ حساب کرنے میں بہت وقت کرنی چاہئے اور نفس اور شیطن کے تاویلات اور ہیرا پھیری کی طرف کان نہیں دھرنے چائیں_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کی یاد کے لئے کچھ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اللہ تعالی کے ذکر کو دنیا کے عوض قرار دے رکھا ہے لہذا ان کو کار و بار اللہ تعالی کے ذکر سے نہیں روکتا_ اپنی زندگی کو اللہ تعالی کے ذکر کے ساتھ گزارتے ہیں_ گناہوں کے بارے قرآن کی آیات اور احادیث غافل انسانوں کو سناتے ہیں اور عدل اور انصاف کرنے کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں_ منکرات سے روکتے ہیں اور خودبھی ان سے رکتے ہیں گویا کہ انہوں نے دنیا کو طے کرلیا ہے اور آخرت میں پہنچ چکے ہیں_ انہوں نے اس دنیا کے علاوہ اور دنیا کو دیکھ لیا ہے اور گویا برزخ کے لوگوں کے حالات جو غائب ہیں ان سے آگاہ ہوچکے ہیں_ قیامت اور اس کے بارے میں جو وعدے دیئے گئے ہیں گویا ان کے سامنے صحیح موجود ہوچکے ہیں_ دنیا والوں کے لئے غیبی پردے اس طرح ہٹا دیتے ہیں کہ گویا وہ ایسی چیزوں کو دیکھ رہے ہوں کہ جن کو دنیا والے نہیں دیکھ رہے ہوتے اور ایسی چیزوں کو سن رہے ہیں کہ جنہیں دنیا والے نہیں سن رہے_ اگر تو ان کے مقامات عالیہ اور ان کی مجالس کو اپنی عقل کے سامنے مجسم کرے تو گویا وہ یوں نظر آئیں گے کہ انہوں نے اپنے روز

۱۶۱

کے اعمال نامہ کو کھولا ہوا ہے اور اپنے اعمال کے حساب کرلینے سے فارغ ہوچکے ہیں یہاں تک کہ ہر چھوٹے بڑے کاموں سے کہ جن کاانہیں حکم دیا گیا ہے اور ان کے بجالانے میں انہوں نے کوتاہی برتی ہے یا جن سے انہیں روکا گیا ہے اور انہوں نے اس کا ارتکاب کریا ہے ان تمام کی ذمہ داری اپنی گردن پر ڈال دیتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے بجالانے اور اطاعت کرنے میں کمزور دیکھتے ہیں اور زار زار گریہ و بکاء کرتے ہیں اور گریہ اور بکاء سے اللہ کی بارگاہ میں اپنی پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں_ ان کو تم ہدایت کرنے ولا اور اندھیروں کے چراغ پاؤگے کہ جن کے ارد گرد ملا مکہ نے گھیرا ہوا ہے اور اللہ تعالی کی مہربانی ان پر نازل ہوچکی ہے_ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھول دیئےئے ہیں اور ان کے لئے محترم اور مکرم جگہ حاضر کی جاچکی ہے_(۳۱۱)

۱۶۲

توبہ یا نفس کو پاک و صاف کرنا

نفس کو پاک اور صاف کرنے کا بہتریں راستہ گناہوں کا نہ کرنا اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھنا ہے اگر کوئی شخص گناہوں سے بالکل آلودہ نہ ہو اور نفس کی ذاتی پاکی اور صفا پر باقی رہے تو یہ اس شخص سے افضل ہے جو گناہ کرنے کے بعد توبہ کر لے_ جس شخص نے گناہ کا مزہ نہیں چکھا اور اس کی عادت نہیں ڈالی یہ اس شخص کی نسبت سے جو گناہوں میں آلودہ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ گناہوں کو ترک کردے بہت آسانی سے اور بہتر طریقے سے گناہوں سے چشم پوشی کر سکتا ہے امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''گناہ کا ترک کردینا توبہ کے طلب کرنے سے زیادہ آسان ہے_(۳۱۲)

لیکن جو انسان گناہوں سے آلودہ ہوجائیں انہیں بھی اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کا راستہ کسی وقت بھی بند نہیں ہوتا بلکہ مہربان اللہ تعالی نے گناہگاروں کے لئے توبہ کا راسنہ ہمیشہ لے لئے کھلا رکھا ہوا ہے اور ان سے چاہا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف پلٹ آئیں اور توبہ کے پانی سے نفس کو گناہوں کی گندگی اور پلیدی سے دھوڈالیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے '' میرے ان بندوں سے کہ جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے کہہ دو کہ وہ اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہوں کیونکہ خدا تمام گناہوں کو بخش دے گا اور وہ بخشنے والا مہربان ہے_(۳۱۳)

۱۶۳

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' جب مومن تیرے پاس آئیں تو ان سے کہہ دے کہ تم پر سلام ہو_ خدا نے اپنے اوپر رحمت اور مہربانی لازم قرار دے دی ہے_ تم میں سے جس نے جہالت کی وجہ سے برے کام انجام دیئے اور توبہ کرلیں اور خدا کی طرف پلٹ آئیں اور اصلاح کرلیں تو یقینا خدا بخشنے والا مہربان ہے_(۳۱۴)

توبہ کی ضرورت

گمان نہیں کیا جا سکتا کہ گناہگاروں کے لئے توبہ کرنے سے کوئی اور چیز لازمی اور ضروری ہو جو شخص خدا پیغمبر قیامت ثواب عقاب حساب کتاب بہشت دوزخ پر ایمان رکھتا ہو وہ توبہ کے ضروری اور فوری ہونے میں شک و تردید نہیں کرسکتا_

ہم جو اپنے نفس سے مطلع ہیں اور اپنے گناہوں کو جانتے ہیں تو پھر توبہ کرنے سے کیوں غفلت کریں؟ کیا ہم قیامت اور حساب اور کتاب اور دوزخ کے عذاب کا یقین نہیں رکھتے؟ کیا ہم اللہ کہ اس وعدے میں کہ گناہگاروں کو جہنم کی سزا دونگا شک اور تردید رکھتے ہیں؟ انسان کا نفس گناہ کے ذریعے تاریک اور سیاہ اور پلید ہوجاتا ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ انسان کی شکل حیوان کی شکل میں تبدیل ہوجائے پس کس طرح جرت رکھتے ہیں کہ اس طرح کے نفس کے ساتھ خدا کے حضور جائیں گے اور بہشت میں خدا کے اولیا' کے ساتھ بیٹھیں گے؟ ہم گناہوں کے ارتکاب کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کے صراط مستقیم کو چھوڑ چکے ہیں اور حیوانیت کی وادی میں گر چکے ہیں_ خدا سے دور ہوگئے ہیں اور شیطن کے نزدیک ہوچکے ہیں اور پھر بھی توقع رکھتے ہیں کہ آخرت میں سعادتمند اور نجات یافتہ ہونگے اور اللہ کی بہشت میں اللہ تعالی کی نعمتوں سے فائدہ حاصل کریں گے یہ کتنی لغو اور بے جا توقع ہے؟ لہذا وہ گناہگار جو اپنی سعادت کی فکر رکھتا ہے اس کے لئے سوائے توبہ اور خدا کی طرف پلٹ جانے کے اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے_

۱۶۴

یہ بھی اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی مہربانی اور لطف اور کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے توبہ کا راستہ کھلا رکھا ہوا ہے زہر کھلایا ہوا انسان جو اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہے کسی بھی وقت زہر کے نکالے جانے اور اس کے علاج میں تاخیر اور تردید کو جائز قرا ر نہیں دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے دیر کی تو وہ ہلاک ہوجائیگا جب کہ انسان کے لئے گناہ ہر زہر سے زیادہ ہلاک کرنے والا ہوتا ہے_ عام زہر انسان کی دنیاوی چند روزہ زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہے تو گناہ انسان کو ہمیشہ کی ہلاکت میں ڈال دیتا ہے اور انسان کی آخرت کی سعادت کو ختم کر دیتا ہے اگر زہر انسان کو دنیا سے جدائی دیتی ہے تو گناہ انسان کو خدا سے دور کردیتا ہے_ اور اللہ تعالی سے قرب اور لقاء کے فیض سے محروم کر دیتا ہے لہذا تمہارے لئے ہر ایک چیز سے توبہ اور انابہ زیادہ ضروری اور فوری ہے کیونکہ ہماری معنوی سعادت اور زندگی اس سے وابستہ ہے_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے '' مومنو تم سب اللہ تعالی کی طرف توبہ کرو_ شاید نجات حاصل کر لو_(۳۱۵)

خدا ایک اور مقام میں فرماتا ہے ''مومنو خدا کی طرف توبہ نصوح کرو شاید خدا تمہارے گناہوں کو مٹا دے اور تمہیں بہشت میں داخل کردے کہ جس کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں_(۳۱۶)

پیغمبر خدا نے فرمایا ہے کہ '' ہر درد کے لئے دوا ہوتی ہے_ گناہوں کے لئے استغفار اور توبہ دوا ہے_(۳۱۷)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر انسان کے دل یعنی روح میں ایک سفید نقطہ ہوتا ہے جب وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس سفید نقطہ میں سیاہی وجود میں آجاتی ہے اگر اس نے توبہ کر لی تو وہ سیاہی مٹ جاتی ہے اور اگر گناہ کو پھر بار بار بجلاتا رہا تو آہستہ آہستہ وہ سیاہ نقطہ زیادہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سارے سفید نقطہ پر چھا جاتا ہے اس وقت وہ انسان پھر نیکی کی طرف نہیں پلٹتا یہی مراد اللہ

۱۶۵

تعالی کے اس فرمان میں کلا بل ران عن قلوبہم بما کانوا یکسبون_(۳۱۸) یعنی ان کے دلوں پر اس کی وجہ سے کہ انہوں نے انجام دیا ہے زنگ چڑھ جاتا ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے _ '' توبہ کو دیر میں کرنا ایک قسم کا غرور اور دھوکہ ہے اور توبہ میں تاخیر کرنا ایک طرح کی پریشانی اور حیرت ہوتی ہے_ خدا کے سامنے عذر تراشنا موجب ہلاکت ہے_ گناہ پر اصرار کرنا اللہ تعالی کے عذاب اور سزا سے مامون ہونے کا احساس ہے جب کہ اللہ تعالی کے عذاب سے مامون ہونے کا احسان نقصان اٹھانے والے انسان ہی کرتے ہیں_(۳۱۹)

بہتر ہے کہ ہم ذرا اپنے آپ میں فکر کریں گذرے ہوئے گناہوں کو یاد کریں اور اپنی عاقبت کے بارے میں خوب سوچیں اور اپنے سامنے حساب و کتاب کے موقف میزان اعمال خدا قہار کے سامنے شرمندگی فرشتوں اور مخلوق کے سامنے رسوائی قیامت کی سختی دوزخ کے عذاب اللہ تعالی کی لقاء سے محرومیت کو مجسم کریں اور ایک اندرونی انقلاب کے ذریعے اللہ تعالی کی طرف لوٹ آئیں اور توبہ کے زندگی دینے والے پانی سے اپنے گذرے ہوئے گناہوں کو دھوئیں اور نفس کی پلیدی اور گندگی کو دور کریں اور حتمی ارادہ کر لیں کہ گناہوں سے کنارہ کشی کریں گے_ اور آخرت کے سفر اور ذات الہی کی ملاقات کے لئے مہیا ہوجائیں گے لیکن اتنی سادگی سے شیطن ہم سے دستبردار ہونے والا نہیں ہے؟ کیا وہ توبہ اور خدا کی طرف لوٹ جانے کی اجازت دے دیگا؟

وہی شیطن جو ہمیں گناہوں کے ارتکاب کرنے پر ابھارتا ہے وہ ہمیں توبہ کرنے سے بھی مانھ ہوگا گناہوں کو معمولی اور کمتر بتلائے گا وہ گناہوں کو ہمارے ذہن سے ایسے نکل دیتا ہے کہ ہم ان تمام کو فراموش کردیتے ہیں_ مرنے اور حساب اور کتاب اور سزای فکر کو ہمارے مغز سے نکال دیتا ہے اور اس طرح ہمیں دنیا میں مشغول کردیتا ہے کہ کبھی توبہ نور استغفار کی فکر ہی نہیں کرتے اور اچانک موت سرپر آجائے گی اور پلید اور کثیف نفس کے ساتھ اس دنیا سے چلے جائیں گے_

۱۶۶

توبہ کا قبول ہونا

اگر درست توبہ کی جائے تو وہ یقینا حق تعالی کے ہاں قبول واقع ہوتی ہے اور یہ بھی اللہ تعالی کے لطف و کرم میں سے ایک لطف اور مہربانی ہے_ خداوند عالم نے ہمیں دوزخ اور جہنم کے لئے پیدا نہیں کیا_ بلکہ بہشت اور سعادت کے لئے خلق فرمایا ہے پیغمبروں کو بھیجا ہے تا کہ لوگوں کو ہدایت اور سعادت کے راستے کی رہنمائی کریں اور گناہگار بندوں کو توبہ اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیں توبہ اور استغفار کا دروازہ تمام بندوں کے لئے کھلا رکھا ہوا ہ ے پیغمبر ہمیشہ ان کو اس کی طرف دعوت دیتے ہیں_ پیغمبر(ص) اور اولیاء خدا ہمیشہ لوگوں کو توبہ کی طرف بلاتے ہیں_ خداوند عالم نے بہت سی آیات میں گناہگار بندوں کو اپنی طرف بلایا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ ان کی توبہ کو قبول کرے گا اور اللہ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوا کرتا_ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اطہار نے سینکٹروں احادیث میں لوگوں کو خدا کی طرف پلٹ آنے اور توبہ کرنے کی طرف بلایا ہے اور انہیں امید دلائی ہے_ جیسے_

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس سے آگاہ ہے_(۳۲۰)

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' میں بہت زیادہ انہیں بخشنے والا ہوں جو توبہ کریں اور ایمان لے آئیں اور نیک اعمال بجالائیں اور ہدایت پالیں_(۳۲۱)

اگر خدا کو یاد کریں اور گناہوں سے توبہ کریں_ خدا کے سوا کون ہے جو ان کے گناہوں کو بخش دے گاہ اور وہ جو اپنے برے کاموں پر اصرار نہیں کرتے اور گناہوں کی برائی سے آگاہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے اعمال کی جزا بخشا جانا اور ایسے باغات ہیں کہ جن کے درمیان نہریں جاری ہیں اور ہمیشہ کے لئے وہاں زندگی کریں گے اور عمل کرنے والوں کے لئے ایسے جزا کتنی ہی اچھی ہے_(۳۲۲)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' گناہوں سے توبہ کرنے والا اس شخص کی

۱۶۷

طرح ہے کہ جسنے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو اور جو گناہوں کو بجالانے پر اصرار کرتا ہے اور زبان پر استغفار کے کلمات جاری کرتا ہے یہ مسخرہ کرنے والا ہوتا ہے_(۳۲۳) اس طرح کی آیات اور روایات بہت زیادہ موجود ہیں لہذا توبہ کے قبول کئے جائے میں کوئی شک اور تردید نہیں کرنا چاہئے بلکہ خداوند عالم توبہ کرنے والے کو دوست رکھتا ہے_ قرآن مجید میں فرماتا ہے '' یقینا خدا توبہ کرنے والے اور اپنے آپکو پاک کرنے والے کو دوست رکھتا ہے_(۳۲۴) امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کا اس بندہ سے جو توبہ کرتا ہے خوشنود ہونا اس شخص سے زیادہ ہوتا ہے کہ جو تاریک رات میں اپنے سواری کے حیوان اور زاد راہ اور توشہ کو گم کرنے کے بعد پیدا کر لے_(۳۲۵)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب کوئی بندہ خالص توبہ اور ہمیشہ کے لئے کرے تو خداوند عالم اسے دوست رکھتا ہے اور اللہ تعالی اس کے گناہوں کو چھپا دیتا ہے_ راوی نے عرض کی _ اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالی کس طرح گناہوں کو چھپا دیتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہے کہ وہ دو فرشتے جو اس کے اعمال کو لکھتے ہیں اس کے گناہ کو بھول جاتے ہیں اور اللہ تعالی اس کے اعضاء اور جوارح زمین کے نقاط کو حکم دیتا ہے کہ توبہ کرنے والے بندے کے گناہوں کو چھپا دیں ایسا شخص خدا کے سامنے جائیگا جب کہ کوئی شخص اور کوئی چیز اس کے گناہوں کی گواہ نہ ہوگی_(۳۲۶)

توبہ کیا ہے؟

گذرے ہوئے اعمال اور کردار پر ندامت اور پشیمانی کا نام توبہ ہے اور ایسے اس شخص کو توبہ کرنے والا کہا جا سکتا ہے جو واقعا اور تہہ دل سے اپنے گذرے ہوئے گناہوں پر پشیمان اور نادم ہو_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ پشیمان اور ندامت توبہ ہے_(۳۲۷)

یہ صحیح اور درست ہے کہ خداوند عالم توبہ کو قبول کرتا اور گناہوں کو بخش دیتا ہے لیکن صرف زبان سے استغفراللہ کا لفظ کہہ دینا یا صرف پشیمانی کا اظہار کر دینا یا گریہ

۱۶۸

کر لینا دلیل نہیں ہے کہ وہ واقعا تہ دل سے توبہ کر چکا ہے بلکہ تین علامتوں کے ہونے سے حقیقی اور واقعی توبہ جانی جاتی ہے_

پہلے تو تہہ دل سے دل میں گذرے گناہوں سے بیزار اور متنفر ہوا اور اپنے نفس میں غمگین اور پشیمان اور شرمندہ ہو دوسرے حتمی ارادہ رکھتا ہو کہ پھر آئندہ گناہوں کو بجا نہیں لائے گا_

تیسرے اگر گناہ کے نتیجے میں ایسے کام انجام دیئے ہوں کہ جن کا جبران اور تدارک کیا جا سکتا ہے تو یہ حتمی ارادہ کرے کہ اس کا تدارک اور جبران کرے گا اگر اس کی گردن پر لوگوں کا حق ہو اگر کسی کا مال غضب کیا ہے یا چوری کی ہے یا تلف کر دیا ہے تو پہلی فرصت میں اس کے ادا کرنے کا حتمی ارادہ کرے اور اگر اس کے ادا کرنے سے عاجز ہے تو جس طرح بھی ہو سکے صاحب حق کو راضی کرے اور اگر کسی کی غیبت اور بدگوئی کی ہے تو اس سے حلیت اور معافی طلب کرے اور اگر کسی پر تجاوز اور ظلم و ستم کیا ہے تو اس مظلوم کو راضی کرے اور اگر مال کے حق زکواة خمس و غیرہ کو نہ دیا و تو اسے ادا کرے اور اگر نماز اور روزے اس سے قضا ہوئے ہوں تو ان کی قضا بجالائے اس طرح کرنے والے شخص کو کہا جا سکتا ہے کہ واقعا وہ اپنے گناہوں پر پشیمان ہوگیا اور اس کی توبہ قبول ہوجائیگی_ لیکن جو لوگ توبہ اور استغفار کے کلمات اور الفاظ تو زبان پر جاری کرتے ہیں لیکن دل میں گناہ سے پشیمان اور شرمندہ نہیں ہوتے اور آئندہ گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ بھی نہیں رکھے یا ان گناہوں کو کہ جن کا تدارک اور تلافی کی جانی ہوتی ہے ان کی تلافی نہیں کرتے اس طرح کے انسانوں نے توبہ نہیں کی اور نہ ہی انہیں اپنی توبہ کے قبول ہوجانے کی امید رکھنی چاہئے گرچہ وہ دعا کی مجالس او رمحافل میں شریک ہوتے ہوں اور عاطفہ رقت کیوجہ سے متاثر ہو کر آہ و نالہ گریہ و بکاء بھی کر لیتے ہوں_

ایک شخص نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے سامنے استغفار کے کلمات زبان پر جاری کئے تو آنحضرت نے فرمایا '' تیری ماں تیری عزاء میں بیٹھے کیا جانتے ہو کہ

۱۶۹

استغفار او توبہ کیا ہے؟ توبہ کرنا بلند لوگوں کا مرتبہ ہے توبہ اور استغفار چھ چیزوں کا نام ہے_ ۱_ گذرے ہوئے گناہوں پر پشیمانی ہونا_ ۲_ ہمیشہ کے لئے گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ کرنا_۳_ لوگوں کے حقوق کو ادا کرنا کہ جب تو خدا کے سامنے جائے تو تیری گردن پر لوگوں کا کوئی حق نہ ہو_ ۴_ پوری طرح سے متوجہ ہو کہ جس واجب کو ترک کیا ہے اسے ادا کرے_ ۵_ اپنے گناہوں پر اتنا غمناک ہو کہ وہ گوشت جو حرام کے کھانے سے بنا ہے وہ ختم ہوجائے اور تیری چمڑی تیری ہڈیوں پر چمٹ جائے اور پھر دوسرا گوشت نکل آئے گا_ ۶_ اپنے نفس کو اطاعت کرنے کی سختی اور مشقت میں ڈالے جیسے پہلے اسے نافرمانی کی لذت اور شیرینی سے لطف اندوز کیا تھا ان کاموں کے بعد تو یہ کہے کہ استغفر اللہ) ۳۲۸) تو گویا یہ پھر توبہ حقیق ہے_ گناہ شیطن اتنا مکار اور فریبی ہے کہ کبھی انسان کو توبہ کے بارے میں بھی دھوکا دے دیتا ہے_ ممکن ہے کہ کسی گنہگار نے وعظ و نصیحت یا دعا کی مجلس میں شرکت کی اور مجلس یا دعا سے متاثر ہوا اور اس کے آنسو بہنے لگے یا بلند آواز سے رونے لگا اس وقت اسے شیطن کہتا ہے کہ سبحان اللہ کیا کہنا تم میں کیسی حالت پیدا ہوئی_ بس یہی تو نے توبہ کرلی اور تو گناہوں سے پاک ہوگیا حالانکہ نہ اس کا دل گناہوں پر پشیمان ہوا ہے اور نہ اس کا آئندہ کے لئے گناہوں کے ترک کردینے کا ارادہ ہے اور نہ ہی اس نے ارادہ کیا ہے کہ لوگوں اور خدا کے حقوق کو ادا کرے گا اس طرح کا تحت تاثیر ہوجانا توبہ نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی نفس کے پاک ہوجانے اور آخرت کی سعادت کا سبب بنتا ہے اس طرح کا کا شخص نہ گناہوں سے لوٹا ہے اور نہ ہی خدا کی طرف پلٹا ہے_

جن چیزوں سے توبہ کی جانی چاہئے

گناہ کیا ہے اور کس گناہ سے توبہ کرنی چاہئے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالی کی طرف جانے اور سیر و سلوک سے مانع ہو اور دنیا سے علاقمند کر دے اور توبہ کرنے سے روکے رکھے وہ گناہ ہے اور اس سے پرہیز کرنا چاہئے اور نفس

۱۷۰

کو اس سے پاک کرنا چاہئے گناہ دو قسم پر ہوتے ہیں_ ۱_ اخلاقی گناہ_ ۲_ عملی گناہ_

۱ _ اخلاقی گناہ

برے اخلاق اور صفات نفس کو پلید اور کثیف کر دیتے ہیں اور انسانیت کے صراط مستقیم کے راستے پر چلنے اور قرب الہی تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں_ بری صفات اگر نفس میں رسوخ کر لیں اور بطور عادت اور ملکہ کے بن جائیں تو ذات کے اندر کو تبدیل اور تغیر کر دیتے ہیں یہاں تک کہ انسانیت کے کس درج پر رہے اسے بھی متاثر کردیتے ہیں_ اخلاقی گناہوں کو اس لحاظ سے کہ اخلاقی گناہ ہیں معمولی اور چھوٹا اور غیر اہم شمار نہیں کرنا چاہئے اور ان سے توبہ کرنے سے غافل نہیں ہونا چاہئے بلکہ نفس کو ان سے پاک کرنا ایک ضروری اور زندگی ساز کام ہے_ برے اخلاق نام ہے_ ریائ، نفاق، غضب، تکبر، خودبینی، خودپسندی، ظلم، مکر و فریب و غیبت، تہمت نگانا، چغلخوری، عیب نکالنا، وعدہ خلافی، جھوٹ حب دنیا حرص اور لالچ، بخیل ہونا حقوق والدین ادا نہ کرنا، قطع رحمی_ کفر ان نعمت ناشکری، اسراف، حسد، بدزبانی گالیاں دینا اور اس طرح کی دوسری بری صفات اور عادات

سینکٹروں روایات اور آیات ان کی مذمت اور ان سے رکنے اور ان کے آثار سے علاج کرنے اور ان کی دنیاوی اور اخری سزا کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ اخلاقی کتابوں میں ان کی تشریح اور ان کے بارے میں بحث کی گئی ہے_ یہاں پر ان کے بارے میں بحث نہیں کی جا سکتی_ اخلاقی کتابوں اور احادیث میں ان کے بارے میں رجوع کیا جا سکتا ہے_

۲_ عملی گناہ

عملی گناہوں میں سے ایک چوری کرنا_ کسی کو قتل کرنا_ زناکاری، لواطت، لوگوں کا مال غصب کرنا، معاملات میں تقلب کرنا، واجب جہاد سے بھاگ جانا_

۱۷۱

امانت میں خیانت کرنا، شراب اور نشہ آور چیز کا پینا، مردار گوشت کھانا، خنزیر اور دوسرے حرام گوشت کھانا، قمار بازی، جھوٹی گواہی دینا، بے گناہوں لوگوں پر زنا کی تہمت لگانا، واجب نمازوں کو ترک کرنا، واجب روزے نہ رکھنا، حج نہ کرنا، امر بہ معروف اور نہی منکر کو ترک کرنا، نجس غذا کھانا، اور دوسرے حرام کام جو مفصل کتابوں میں موجود ہیں کہ جن کی تشریح اور وضاحت یہاں ممکن نہیں ہے_ یہ تو مشہور گناہ ہیں کہ جن سے انسان کو اجتناب کرنا چاہئے اور اگر بجالایا ہو تو ان سے توبہ کرے اور اللہ کی طرف رجوع کرے لیکن کچھ گناہ ایسے بھی ہیں جو مشہور نہیں ہیں اور انہیں گناہوں کے طور پر نہیں بتلایا گیا لیکن وہ اللہ کے برگزیدہ بندوں اور اولیاء خدا کے لئے گناہ شمار ہوتے ہیں جیسے مستحبات کا ترک کر دینا یا مکروہات کا بجالانا بلکہ گناہ کے تصور کو او رذات الہی سے کسی غیر کی طرف توجہہ کرنے کو اور شیطانی وسوسوں کو جو انسان کو خدا سے غافل کر دیتے ہیں_ یہ تمام اولیاء خدا اور اس کی صفات اور افعال کی پوری اور کامل معرفت نہ رکھنے کو جو ہر ایک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اللہ تعالی کے خاص منتخب بندوں کے لئے گناہ شمار ہوتے ہیں اور ان سے وہ توبہ کرتے رہتے تھے بلکہ اس سے بالا تر ذات الہی اور اس کی صفات اور افعال کی پوری اور کامل معرفت نہ رکھنے کو ج و ہر ایک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اللہ تعالی اور اس طرح کے نقص کے احساس سے ان کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا اور گریہ نالہ و زاری سے خدا کی طرف رجوع کرتے تھے اور توبہ اور استغفار کرتے تھے_ پیغمبروں اور ائمہ اطہار کے توبہ کرنے کو اسی معنی میں لیا جانا چاہئے_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر روز ستر دفعہ استغفار کرتے تھے جبکہ آپ پر کوئی گناہ بھی نہیں تھا_(۳۲۹) رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ '' کبھی میرے دل پر تاریکی عارض ہوتی تھی تو اس کے لئے میں ہر روز ستر دفعہ استغفار کیا کرتا تھا_(۳۳۰)

۱۷۲

دوسرا حصہ

نفس کی تکمیل اور تربیت

۱۷۳

نفس کی تکمیل اور تربیت

نفس کو پاک صاف کرنے کے بعد اس کی تکمیل اور تربیت کا مرحلہ آتا ہے کہ جسے اصطلاح اخلاقی میں تحلیہ_ کہا جاتا ہے_ علوم عقلیہ میں ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کا نفس ہمیشہ حرکت اور ہونے کی حالت میں ہوتا ہے_ اس کی فعلیت اس کی استعداد اور قوت سے ملی ہوئی ہے_ آہستہ آہستہ اندر کی قوت اور استعداد کو مقام فعلیت اور بروز و ظہور میں لاتا ہے اور اپنی ذات کی پرورش کرتا ہے اگر نفس نے صراط مستقیم پر حرکت کی اور چلا تو وہ آہستہ کامل کامل تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ آخر کمال تک پہنچ جاتا ہے اور اگر صراط مستقیم سے ہٹ گیا اور گمراہی کے راستے پر گامزن ہوا تو پھر بھی آہستہ آہستہ کمال انسانی سے دور ہوتا جاتا ہے اور حیوانیت کی ہولناک وادی میں جا گرتا ہے_

خدا سے قرب

یہ معلوم ہونا چاہئے کہ انسان کی حرکت ایک حقیقی اور واقعی حرکت ہے نہ کہ اعتباری محض اور یہ حرکت انسان کی روح اور نفس کی ہے نہ جسم اور تن کی اور روح کا حرکت کرنا اس کا ذاتی فعل ہے نہ کہ عارضی_ اس حرکت میں انسان کا جوہر اور گوہر حرکت کرتا ہے اور متغیر ہوتا رہتا ہے_ لہذا انسان کی حرکت کا سیر اور راستہ ایک واقعی

۱۷۴

راستہ ہے نہ اعتباری اور مجازی_ لیکن اس کا مسیر اس کی متحرک ذات سے جدا نہیں ہے بلکہ متحرک اور حرکت کرنے والا نفس اپنی ذات کے باطن میں حرکت کرتا ہے اور مسیر کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے_ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر حرکت کے لئے کوئی غایت غرض ہوتی ہے_ انسان کی ذات کی حرکت کی غرض اور غایت کیا ہے؟ انسان اس جہان میں کس غرض اور غایت کی طرف حرکت کرتا ہے اور اس حرکت میں اس کا انجام کیا ہوگا؟

روایات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی حرکت کی جو غرض معین کی گئی ہے وہ قرب الہی ہے لیکن تمام انسان صراط مستقیم پر نہیں چلتے اور قرب الہی تک نہیں پہنچتے _ قرآن انسانوں کو تین گروہ میں تقسیم کرتا ہے_ ۱_ اصحاب میمنہ_ ۲_ اصحاب مشئمہ_ ۳_ سابقو کے جنہیں مقربین کے نام سے موسوم کیا گیا ہے_ قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' تم انسان تین گروہ ہو_ اصحاب میمنہ آپ کیا جانتے ہیں کہ اصحاب میمنہ کون اشخاص ہیں؟ اصحاب مشئمہ اور آپ کیا جانتے ہیں کہ وہ کون اشخاص ہیں ؟ بہشت کی طرف سبقت کرنے والے اور اللہ تعالی کی رحمت کو حاصل کرنے کے لئے بھی سبقت کرتے ہیں یہ وہ اشخاص ہیں جو خدا کے مقرب بندے ہیں ور بہشت نعیم میں سکونت رکھیں گے_''(۳۳۱)

اصحاب میمنہ یعنی سعادت مند حضرات اور اصحاب مشئمہ یعنی اہل شقاوت اور بدبخت_ اور سابقین وہ حضرات ہیں کہ جو صراط مستقیم کو طے کرنے میں دوسروں پر سبقت کرتے ہیں اور قرب الہی کے مقام تک پہنچتے ہیں_ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حرکت نفس کی غرض اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے_ خدا ایک اور آیت میں فرماتا ہے _ '' اگر خدا کے مقربین سے ہوا تو قیامت کے دن آرام والی بہشت اور نعمت الہی سے جو خدا کا عطیہ ہے استفادہ کرے گا_ اور اگر اصحاب یمین سے ہوا تو ان کی طرف سے تم پر سلام ہے اور اگر منکر اور گمراہوں سے ہوا تو اس پر دوزخ کا گرم پانی ڈالا جائیگا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا_(۳۳۲)

۱۷۵

نیز ایک اور آیت میں ہے کہ '' اس طرح نہیں ہے کہ کافرون نے گمان کیا ہوا ہے یقینا ابرار اور نیک لوگوں کا دفتر اور کتاب (اور جو کچھ اس میں موجود ہے) علین یعنی اعلی درجات میں ہے آپ کیا جانتے ہیں کہ علین کیا چیز ہے وہ ایک کتاب ہے جو خدا کی طرف سے ہوا کرتی ہے اور اللہ کے مقرب اس مقام کا مشاہدہ کریںگے_(۳۳۳) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا انتہائی کمال اور اسکے سیر اور حرکت کی غرض اور غایت اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے تا کہ انسان حرکت کر کے اس مقام تک جا پہنچیں لہذا مقربین کا گروہ سعادتمندوں میں سے ایک ممتاز گروہ ہے قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جب ملائکہ نے کہا اے مریم خداوند عالم نے تجھے ایک کلمہ کی جو خداوند عالم کی طرف سے ہے یعنی عیسی بن مریم کی بشارت دی ہے کہ جو دنیا اور آخرت میں خدا کے نزدیک عزت والا اور اس کے مقرب بندوں میں سے ہے_(۳۳۴)

ان آیات اور روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے لائق اور ممتاز بندے کہ جنہوں نے ایمان اور نیک اعمال میں دوسروں پر سبقت حاصل کرلی ہے بہت ہی اعلی جگہ پر سکونت کریں گے کہ جسے قرب الہی کا مقام بتلایا گیا ہے اور شہداء بھی اسی مقام میں رہیں گے_ قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جو راہ خدا میں مارے گئے ہیں ان کے بارے میں یہ گمان نہ کر کہ وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں روزی پاتے ہیں_(۳۳۵)

لہذا انسان کا انتہائی اور آخری کمال خداوند عالم کا قرب حاصل کرنا ہوتاہے_

قرب خدا کا معنی

یہ معلوم کیا جائے کہ خدا کے قرب کا مطلب اور معنی کیا ہے؟ اور کس طرح تصور کیا جائے کہ انسان خدا کے نزدیک ہوجائے_ قرب کے معنی نزدیک ہونے کے ہیں اور کسی کے نزدیک ہونے کو تین معنی میں استعمال کیا جاتا ہے_

قرب مکان

دو موجود جب ایک دوسرے کے نزدیک ہوں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک

۱۷۶

دوسرے کے قریب ہیں_

قرب زمانی

جب دو چیزیں ایک زمانے میں ایک دوسرے کے نزدیک ہوں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب اور ہمعصر ہیں_ اور یہ واضح ہے کہ بندوں کا خدا کے نزدیک اور قریب ہونا ان دونوں معنی میں نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا کسی مکان اور زمانے میں موجود نہیں ہوا تھا تا کہ کوئی چیز اس مکان اور زمان کے لحاظ سے خدا کے قریب اور نزدیک کہی جائے بلکہ خدا تو زمانے اور مکان کا خالق ہے اور ان پر محیط ہے

قرب مجازی

کبھی کہا جاتا ہے کہ فلان شخص فلان شخص کے قریب اور نزدیک ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلان کا احترام او ربط اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کی خواہش کو وہ بجالاتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ اسے انجام دے دیتا ہے اس طرح کی نزدیکی اور قرب کو مجازی اور اعتباری اور تشریفاتی قرب اور نزدیکی کہا جاتا ہے یہ قرب حقیقی نہیں ہوا کرتا بلکہ مورد احترام قرا ردینے والے شخص کو اس کا نزدیک اور قریبی مجازی لحاظ سے کہا جاتا ہے_ کیا اللہ کے بندوں کو خدا سے اس معنی کے لحاظ سے قریبی اور نزدیکی قرار ددیا جا سکتا ہے؟ آیا خدا سے قرب اس معنی میں ہو سکتا ہے یا نہ؟

یہ مطلب ٹھیک ہے کہ خدا اپنے لائق بندوں سے محبت کرتا ہے اور ان سے علاقمند ہے اور ان کی خواہشات کو پورا بھی کرتا ہے لیکن پھر بھی بندے کا قرب خدا سے اس معنی میں مراد نہیں لیا جا سکتا_ کیونکہ پہلے اشارہ کیا گیا ہے کہ علوم عقلیہ اور آیات اور روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کی حرکت ذاتی اور اس کا صراط مستقیم پر چلنا اور مسیر ایک امر واقعی ہے نہ کہ امر اعتباری اور تشریفاتی خدا کی طرف رجوع کرنا کہ جس کے لئے اتنی آیات اور روایات وارد ہوئی ہیں ایک حقیقت فرماتا ہے_ ''اے نفس مطمئن تو اللہ تعالی کی طرف رجوع کر اس حالت میں کہ جب اللہ تعالی

۱۷۷

تجھ سے راضی ہے اور تو اللہ تعالی سے راضی ہے_(۳۳۶)

نیز فرماتا ہے ''جس نے نیک عمل انجام دیا اس کا فائدہ اسے پہنچے گا اور جس نے برا عمل انجام دیا اس کا نقصان اسے پہنچے گا اس وقت سب اللہ کی طرف پلٹ آؤ گے_(۳۳۷)

خدا فرماتا ہے '' جو مصیبت کے وقت کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کا ملک ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے_(۳۳۸)

بہرحال اللہ تعالی کی طرف رجوع اور صراط مستقیم اور سبیل اللہ اور نفس کا کامل ہونا یہ ایسے امور ہیں جو واقعی ہیں نہ اعتباری اور تشریفاتی_ انسان کا خدا کی طرف حرکت کرنا ایک اختیاری اور جانی ہوئی حرکت ہے کہ جس کا نتیجہ مرنے کے بعد جا معلوم ہوگا_ وجود میں آنے کے بعد یہ حرکت شروع ہوجاتی ہے اور موت تک چلی جاتی ہے لہذا خدا سے قرب ایک حقیقی چیز ہے_ اللہ تعالی کے لائق بندے واقعا اللہ تعالی کے نزدیک ہوجاتے ہیں اور گناہنگار اور نالائق اللہ تعالی سے دور ہوجاتے ہیں لہذا غور کرنا چاہئے کہ خدا سے قرب کے کیا معنی ہیں؟

خدا سے قرب وہ قرب نہیں کہ جو متعارف اور جانا پہچانا ہوا ہوتا ہے بلکہ ایک علیحدہ قسم ہے کہ جسے قرب کمالی اور وجودی درجے کا نام دیا جاتا ہے _ اس مطلب کے واضح ہونے کے لئے ایک تمہید کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے _ فلسفہ اسلام اور کتب فلسفہ میں یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ وجود اور ہستی ایک حقیقت مشکک ہے کہ جس کے کئی درجات اور مراتب ہیں_ وجود بجلی کی روشنی اور نور کی طرح ہے جیسے نور کے کئی درجے زیادہ اور کم ہوتے ہیں ایک درجہ مثلا کمتر ایک ولٹ بجلی کا ہے کہ جس میں روشنی تھوڑی ہوتی ہے اور اس کے اوپر چلے جایئےہ زیادہ سے زیادہ درجے پائے جاتے ہیں یہ تمام کے تمام نور اور روشنی کے وجود ہیں اور درجات ہیں کمتر اور اعلی درجے کے درمیاں کے درجات ہیں جو سب کے سب نور ہیں ان میں فرق صرف شدت اور ضعف کا ہوتا ہے بعینہ اس طرح وجود اور ہستی کے مختلف مراتب اور

۱۷۸

درجات ہیں کہ جن میں فرق صرف شدت اور ضعف کا ہوتا ہے _ وجود کا سب سے نیچا اور پشت درجہ اسی دنیا کے وجود کا درجہ ہے کہ جسے مادہ اور طبیعت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وجود کا اعلی ترین درجہ اور رتبہ ذات مقدس خدا کا وجود ہے کہ جو ذات مقدس کمال وجود کے لحاظ سے غیر متناہی ہے ان دو مرتبوں اور درجوں کے درمیان وجود کے درجات اور مراتب موجود ہیں کہ جن کا آپس میں فرق شدت اور ضعف کا ہے_ یہیں سے واضح اور روشن ہوجائیگا کہ جتنا وجود قوی تر اور اس کا درجہ بالاتر اور کاملتر ہوگا وہ اسی نسبت سے ذات مقدس غیر متناہی خدائے متعال سے نزدیک تر ہوتا جائیگا اس کے برعکس وجود جتنا ضعیف تر ہوتا جائیگا اتنا ہی ذات مقدس کے وجود سے دور تر ہو جائیگا اس تمہید کے بعد بندہ کا اللہ تعالی سے قرب اور دور ہونے کا معنی واضح ہوجاتا ہے_ انسان روح کے لحاظ سے ایک مجرد حقیقت ہے جو کام کرنے کے اعتبار سے اس کا تعلق مادہ اور طبیعت سے ہے کہ جس کے ذریعے حرکت کرتا ہے اور کامل سے کاملتر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے انتہائی درجے تک جا پہنچتا ہے_ حرکت کی ابتداء سے لے کر مقصد تک پہنچنے کے لئے وہ ایک شخص اور حقیقت ہی ہوا کرتا ہے_ لیکن جتنا زیادہ کمال حاصل کرتا جائیگا اور وجود کے مراتب پر سیر کرے گا وہ اسی نسبت سے ذات الہی کے وجود غیر متناہی کے نزدیک ہوتا جائیگا_ انسان ایمان اور نیک اعمال کے ذریعے اپنے وجود کو کامل کاملتر بنا سکتا ہے یہاں تک کہ وہ قرب الہی کے مقام تک پہنچ جائے اور منبع ہستی اور چشمہ کمال اور جمال کے فیوضات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر لے اور خود بھی بہت سے آثار کا منبع اور سرچشمہ بن جائے _ اس توضیح کے بعد واضح ہوگیا کہ انسان کی حرکت اور بلند پروازی ایک غیر متناہی مقصد کی طرف ہوتی ہے ہر آدمی اپنی کوشش اور تلاش کے ذریعے کسی نہ کسی قرب الہی کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے یعنی اللہ تعالی کے قرب کے مقام کی کوئی خاص حد اور انتہا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے مقام قرب کی حقیقت کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ قرب ایک اضافی امر ہے کہ انسان جتنی زیادہ محنت اور عمل کرے گا ایک اعلی مقام اور اس سے اعلی مقام تک پہنچتا جائیگا اور ذات اللہ کے فیوضات اور برکات سے زیادہ سے زیادہ بہرمند ہوتا جائیگا_

۱۷۹

کمالات انسان کی بنیاد ایمان ہے

نفس انسانی کے کمالات تک پہنچنے اور ذات الہی کے قرب کی طرف حرکت کرنے کی اساس اور بنیاد ایمان اور معرفت ہے ایک کمال تک پہنچنے والے انسان کو اپنے مقصد اور حرکت کی غرض و غایت کو اپنے سامنے واضح رکھنا چاہئے اور اسے معلوم ہو کہ وہ کدھر اور کہاں جانا چاہتا ہے اور کس طریقے اور راستے سے وہ حرکت کرے ورنہ وہ مقصد تک نہیں پہنچ سکے گا_ اللہ تعالی پر ایمان اس کی حرکت کی سمت کو بتلاتا ہے اور اس کے مقصد اور غرض کو واضح کرتا ہے_ جو لوگ خدا پر ایمان نہ رکھتے ہونگے وہ صراط مستقیم کے طے کرنے سے عاجز اور ناتواں ہونگے_ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ اللہ تعالی اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے وہ سیدھے راستے سے منحرف ہیں_(۳۳۹)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے بلکہ وہ لوگ کہ جو آخرت کے عالم پر ایمان نہیں رکھتے وہ کمال کے عالم سے دور ہوا کرتے اور صرف مادیات اور اپنے نفس کی حیوانی خواہشات کے پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں_(۳۴۰) اسی لئے اس کا مقصد اور غرض سوائے مادی جہان کے اور کچھ نہیں ہوتا وہ کمال کے راستے پر ہی نہیں ہے تا کہ قرب الہی تک پہنچنے کا اس کے لئے کوئی امکان باقی ہو اس کے حرکت کی سمت صرف دنیا ہے اور انسانیت کے صراط مستقیم کے مرتبے سے دور ہوچکا ہے اگر کافر کوئی اچھا کام بھی کرے تو وہ اس

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346