خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس16%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119376 / ڈاؤنلوڈ: 5163
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

مشورہ دیا کرتا تھا_ اسی عبداللہ بن سلام نے حضرت عثمان کے محاصرے کے وقت اس کی زبانی کلامی حمایت پر اکتفا کیا اور اس کی کوئی عملی مدد نہیں کی(۱) حالانکہ اس نے جناب عثمان کی عملی مدد کا وعدہ بھی کیا تھا_ اور جب جناب عثمان کا گھیراؤ کرنے والے لوگوں نے عبداللہ بن سلام کے متعلق اسے کہا کہ یہ ابھی تک بھی اپنی یہودیت پر ڈٹا ہوا ہے تو وہ اپنی یہودیت کی نفی کرنے لگا(۱) نہ صرف یہ بلکہ ابن سلام ، کعب الاحبار اور یہود و نصاری کے دوسرے زعماء و بزرگان جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا تھا وہ اسلامی حکومت کے بہت سے اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز تھے ، یہ دونوں اشخاص بہت سے اہم امور میں ا س وقت کے حکمرانوں کے مشیر اور معاون ہوتے تھے_

ہم بارگاہ خداوندی میں دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں اہل کتاب کی سیاہ کاریوں اور مسلمانوں کی سیاست ،عقائد، تفسیر، حدیث ، فقہ اور تاریخ میں ان کی ریشہ دوانیوں اور اثر گذاریوں کے متعلق ایک مستقل کتاب لکھنے کی توفیق عطا فرمائے_

____________________

۱)مندرجہ ذیل کتب میں اس کے اقوال ملاحظہ ہوں : المصنف صنعانی ج۱۱ ص ۴۴۴، ص ۴۴۵و ۴۴۶ نیز اسی کے حاشیہ میں از طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۸۳ ، حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۴۰ ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۹۲ و ۹۳ و الاصابہ ج ۲ ص ۳۲۱ _

۲)ملاحظہ ہو: الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۲۲۳و ۲۲۴_

۲۱

۲۳

دوسری فصل :

غیر جنگی حوادث و واقعات

۲۲

حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے بعض مہاجرین کی واپسی :

جب حبشہ میں موجود مسلمانوں کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی مدینہ کی طرف ہجرت کی خبر پہنچی تو ان میں سے (۳) مرد اور آٹھ عورتیں واپس آئیں_ جن میں سے دو مرد مکہ میں فوت ہوگئے اور سات آدمیوں کو قید کر لیا گیا لیکن باقی مدینہ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے جن میں سے چوبیس افراد جنگ بدر میں بھی موجود تھے(۱) _

اور(حبشہ سے) مدینہ کی طرف ہجرت کا یہ سلسلہ جاری رہا(۲) یہاں تک کہ حضرت جعفرعليه‌السلام ہجرت کے ساتویں سال فتح خیبر کے موقع پر باقی ماندہ افراد کو لے کر پہنچے _ جسکا ذکر انشاء اللہ بعد میں آئے گا_

مذکورہ بالا تیس اشخاص ان افرادکے علاوہ ہیں جو بعض کے بقول بعثت کے پانچویں برس اور ہجرت مدینہ سے آٹھ سال پہلے مکہ میں واپس آئے تھے_ لیکن ان کا مکہ سے گزرنے کا سبب(حالانکہ وہ اسی شہر سے ہی بھاگ کرگئے تھے) بظاہر یہ ہے کہ چونکہ مدینہ کی طرف جانے والا راستہ مکہ کے قریب سے گزر تا تھا(۳) تو شاید وہ مکہ میں موجود ا پنے اموال کو لینے، اقربااور رشتہ داروں سے ملنے اور بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد پھر مدینہ جانے کے ارادے سے مخفیانہ یا علانیہ طور پر مکہ میں داخل ہوئے_

لیکن قریش ان کے ساتھ قساوت قلبی اور سنگدلی کے ساتھ پیش آئے، ان کے لئے کسی قسم کے

____________________

۱) طبقات ابن سعد ج/ حصہ۱ص ۱۳۹_

۲) طبقات ابن سعد ج/۱حصہ۱ ص ۱۳۹،زاد المعاد ج/ ۱ ص ۲۵ و ج/ ۲ ص ۲۴ ، ۴۵ ، البدء والتاریخ ج/ ۴ ص ۱۵۲ و فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵_

۳) اور اس پر المصنف ج/۵ ص ۳۶۷ کی یہ عبارت دلالت کرتی ہے کہ ''جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار قریش سے برسرپیکارہوئے تو وہ مہاجرین حبشہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پاس پہنچنے سے مانع ہوئے_یہاں تک کہ وہ لوگ جنگ خندق کے موقع پر مدینہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آملے''_ البتہ ان کا '' جنگ خندق کے مو قع پر '' کہنا ، ناقابل تائید ہے اور شاید خندق ، خیبر کی جگہ لکھا گیا ہے_

۲۳

احترام ، غریب الوطنی اور رشتہ داری کا لحاظ بھی نہیں کیا اور یہ بات واضح ہے کہ حبشہ کے مہاجرین کے اس گروہ کا مدینہ میں پہنچنا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہنچنے کے چند مہینے بعد تھا کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کی خبر کاان تک پہنچنا پھر ان کا مکہ کی طرف آنا اور وہاں پر رشتہ داروں سے ملاقات کرنا اور قریش کا وہ سلوک کرنا اور پھر ان کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا یہ سب چیزیں ایک طولانی مدت کے گزرنے کی متقاضی ہیں، یہاں تک کہ عسقلانی کہتا ہے :'' ابن مسعود مکہ کی طرف اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے تیس آدمیوں میں سے تھے اور وہ مدینہ میں اس وقت پہنچے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے''(۱) _

حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ کے گھر میں :

ہجرت کے پہلے سال (اور کہا گیا ہے کہ دوسرے سال )حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیت الشرف میں آئیں اور یہ ماہ شوال کی بات ہے، مورخین نے کہا ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے علاوہ کسی دوسری کنواری عورت سے شادی نہیں کی لیکن ہم اس بات کے صحیح ہونے پر اطمینان نہیں رکھتے اور اس کی وجہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضرت خدیجہعليها‌السلام کے ساتھ ازدواج کی بحث میں گزر چکی ہے کہ حضرت خدیجہع ليها‌السلام کی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے علاوہ کسی دوسرے آدمی سے شادی کا مسئلہ نہایت مشکوک ہے_ ہو سکا تو انشاء اللہ ہم آئندہ بھی اس کی طرف اشارہ کریںگے_

رخصتی کی رسم

اور ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ کس وجہ سے حضرت عائشہ کی رخصتی کی رسم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتی تھی کیونکہ روایت کی گئی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے لئے ولیمہ نہیں کیا حالانکہ اس دور میں لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ولیمہ کھانے کی توقع بھی تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی طاقت بھی رکھتے تھے_ صر ف یہی کچھ نقل کیا گیا ہے کہ دودھ کاایک پیالہ سعد بن عبادہ کے گھر سے آیا اور اس میں سے کچھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیا اور باقی حضرت عائشہ(۲)

____________________

۱) فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵ _

۲) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵۸ ، السیرة الحلبیة ج/۲ ص ۱۲۱ _

۲۴

نے_اسی کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس شادی کا ولیمہ قرار دینا بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ طبعی بات ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو اپنے پاس بیٹھنے والے کو کھانا پیش کرنے سے غفلت نہیں فرماسکتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ کی تو بات ہی اور ہے_

انوکھا استدلال :

حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اپنی منزلت اورشان پر اس طرح استدلال فرماتی تھیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ساتھ ماہ شوال میں ازدواج کیا تھا _ وہ کہتی تھیںکہ :

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماہ شوال میں مجھے شرف زوجیت بخشا پس رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج میں سے کون سی زوجہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک مجھ سے زیادہ منزلت رکھتی ہے؟(۱) _

حقیقتاً یہ انوکھا استدلال ہے _ اس لئے کہ کب ماہ شوال کی اتنی عظیم فضیلت تھی جو حضرت عائشہ کی منزلت و فضیلت پر دلالت کرتی ؟_

جبکہ بلاشک و شبہہ حضرت خدیجہ اور حضرت ام سلمہ اوردیگر ازواج ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ان کی نسبت زیادہ منزلت و عظمت رکھتی تھیں اسی وجہ سے تو یہ ان سے حسد کرتیں، ان کو اذیت دیتیں اور اکثر خودنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے بھی ان کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتی تھیں ہمارے اس دعوے کے بعض دلائل ہجرت سے پہلے حضرت عائشہ کے عقد سے بحث کے دوران ذکر ہو چکے ہیں_

اور اس سے بھی عجیب تربات یہ ہے کہ بعض حضرات نے ماہ شوال میں عقد کے استحباب کا حکم صادر کیا ہے(۲) _

لگتا یہی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی رحلت کے بعد آنے والی حکومت وقت کی دست راست اور حکومت وقت اور ان کے حامیوں کی آنکھوں کے کانٹے حضرت علیعليه‌السلام کی اچھائی کے ساتھ نام تک نہ لے سکنے والی(۳)

____________________

۱) تاریخ طبری مطبوعہ الاستقامة ج ۲ ص ۱۱۸ ، السیرة الحلبیہ ج ۲ ص ۱۲۰، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۵۸_

۲) نزھة المجالس صفوری الشافعی ج/۲ ص ۱۳۷_

۳)فتح الباری ج ۲ ص ۱۳۱، مسند احمد ج ۶ ص ۲۲۸ ،و الغدیر ج ۹ ص ۳۲۴_

۲۵

حضرت عائشہ سے کچھ لوگوں کی محبت و عقیدت ، اور ان کی خواہشات کو اہمیت دینا ہی ان لوگوں کی اس طرح کی شریعت سازی کا موجب بنا_حالانکہ خود ہی روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت جویریہ اورحضرت حفصہ کے ساتھ ماہ شعبان میں اور زینب بنت خزیمہ کے ساتھ ماہ مبارک رمضان میں اور زینب بنت جحش کے ساتھ ذی القعدہ میں رشتہ ازدواج استوار فرمایا_ پس اس صورت میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مستحب کو ترک کیا ہے اور اس پر صرف اور صرف اکیلی حضرت عائشہ کے لئے عمل کیا ہے_ یہ بات حقیقتاًتعجب آور ہے اور نہایت ہی عجیب ہے

ایک نئے دور کی ابتداء

بہر حال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیت الشرف میں حضرت عائشہ کے آنے سے امن و آشتی اور عظمت و وقار کے نمونہ اس گھر میں خاص قسم کی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں اوریہ گھر بہت سے ایسے اختلافات اور جھگڑوں کی جولانگاہ بن گیا جو اکثر اوقات نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے غم و غصّہ کے موجب بنتے تھے اوراکثر جھگڑوں میں حضرت عائشہ کا کردار بنیادی ہوتا تھا_

ہمارے اس مدعا پر تاریخ اور متواتر احادیث گواہ ہیں بلکہ بعض منابع کے مطابق خود حضرت عائشہ نے تصریح کی ہے کہ : ''نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیت الشرف میں رونما ہونے والے تما م اختلافات کا سبب میں ہی تھی''_

مومنین کے درمیان صلح والی آیت:

بعض مورخین نے غزوہ بدر سے پہلے کے حالات میں لکھا ہے(۱) کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک مرتبہ خزرج کے قبیلہ بنی حرث میں سعدبن عبادہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے _ یہ واقعہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے اسلام لانے سے پہلے کاہے_

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۶۴_

۲۶

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی سواری پرسوارعبداللہ بن ابی کی ایک محفل کے قریب سے گذرے جس میں مسلمان، مشرکین، اور یہودی ملے جلے بیٹھے تھے _ ان میں عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سواری کی ٹاپوں سے گرد و غبار اڑا تو ابن ابی نے اپنی چادر سے ناک ڈھاپنتے ہوئے کہا:'' ہم پر گرد و غبار نہ اڑاؤ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سواری سے نیچے اترے اور اسے مسلمان ہونے کی دعوت دی تو ابن ابی کہنے لگا : '' بھلے مانس اگر تیری باتیں سچ ہیں تو یہ سب سے بہترین باتیں ہیں لیکن تیرے کہنے کا انداز بالکل بھی صحیح نہیں ہمیں محفل میں آکر پریشان مت کرو ،جاؤ اپنی سوار ی کا رخ کرواور جو تمہارے پاس آئے تم اسے یہ باتیں سنانا''_ ابن رواحہ نے کہا:'' جی ہاں یا رسول اللہ آپ ہمارے پاس آکر ہمیں اطمینان سے یہ باتیں سنائیں کیونکہ ہمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ فرمائشےات پسند ہیں '' _ پھر تو مسلمانوں اور مشرکوںکے درمیان ایسی گالی گلوچ شروع ہوگئی کہ مارکٹائی تک نوبت پہنچنے والی تھی _ لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انہیں خاموش رہنے کی برابر تلقین کرتے رہے ، یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئے_

اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سعد بن عبادہ کے پاس تشریف لے گئے اور سارا ماجرا اسے سنایا_ سعد نے عرض کی کہ آپ ابن ابی کو چھوڑ دیں کیونکہ جلد ہی ہم اس پر ہلہ بولیں گے _ لیکن جب وہ ان کے حملے سے پہلے اسلام لے آیا تو سعد بن عبادہ کے قبیلہ والے اس پر چڑھائی سے باز رہے _

دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور کچھ مسلمان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ ابن ابی کی طرف تشریف لے گئے تا کہ ا س کے قبیلے سے روابط برقرار کریں _جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس نے کہا: ''دور ہو جاؤ مجھ سے بخدا تمہاری سواری کی بد بو سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے ''_ اس پرایک انصاری صحابی بولے:'' اللہ کی قسم تیرے وجود کی بوسے رسول اللہ کی سواری کی بو کہیں زیادہ پاکیزہ ہے''_ ابن ابی کے قبیلے کے آدمی کو غصہ آیا اس نے اسے گا لیاں دیں_ اب طرفین غضبناک ہوگئے اور پھر دونوں میں چھڑیوں اورجوتوں سے لڑائی ہوئی _

۲۷

اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:

( و ان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینهما ) (حجرات _۹)

اگر مومنین کے دو گروہوں میں لڑائی ہوجائے تو ان میں صلح کرادو_(۱)

تفسیر مجمع البیان میں مذکورہے کہ جس نے ابن ابی سے مذکورہ بات کی وہ عبداللہ بن رواحہ تھے اور لڑائی ابن رواحہ کے قبیلے اوس اور ابن ابی کے قبیلے خزرج کے درمیان ہوئی_

البتہ دونوں روایات قابل اعتراض ہیں _کیونکہ:

اولاً: آیت صلح پہلی روایت پہ منطبق نہیں ہوتی کیونکہ اس روایت کی روسے جھگڑا مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان تھادو مسلمان گروہوں کے درمیان نہیں _بلکہ دوسری روایت سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ جھگڑا مومنین کے دوگروہوں میں تھا _اگر دونوں روایات کو ایک روایت قرار دیں کیونکہ دونوں کا سیاق و سباق اور مضمون ایک ہی ہے تو پھر بھی یہ اطمینان حاصل نہیں ہوتا کہ یہ آیہ مجیدہ اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہو_

ثانیاً : آیہ مجیدہ سورہ مبارکہ حجرات میں ہے جو ہجرت کے چند سال بعد نازل ہوئی _کیونکہ اس سورت کا نزول سورہ مجادلہ ، اور جنگ خندق کی مناسبت سے نازل ہونے والی سورت احزاب اور دیگر سورتوں کے نزول کے بعد ہوا_ جبکہ یہ بات گزر چکی ہے کہ مذکورہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کاہے_ ان ساری باتوں کے علاوہ روایات کے مضامین میں بھی اختلاف و تناقض پایا جاتاہے جو واضح ہے_

البتہ ایسا بھی نہیں کہ روایت سرے سے ہی ناقابل قبول اور جعلی ہو_ تا ہم ہو سکتا ہے یہ واقعہ ہجرت کے چند سال بعد سورہ حجرات کے نزو ل اور ابن ابی کے اسلام لانے کے بعد رونما ہوا ہو اور جھگڑا مومنین کے دو گروہوں کے درمیان ہو_ اس اعتبار سے دوسری روایت مضمون کے زیادہ قریب اور مناسب ہے_

____________________

۱)السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۶۳و۶۴،درمنثورج/۶ص۹۰از مسلم، بخاری، احمد، بیہقی کی سنن ، ابن مردویہ ، ابن جریر اور ابن منذر ، حیاة الصحابہ ج/۲ ص ۵۷۸ ،۵۷۹ ، ۵۶۰از البخاری ج/۱ص ۳۷۰ ، ج/۳ ص ۸۴۵_

۲۸

سلمان محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاقبول اسلام :

پہلی ہجری میں اوربقولے اسی سال کے ماہ جمادی الاولی(۱) میں سلمان محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم المعروف سلمان فارسی (حشر نا الله معه و فی زمرته )نے اسلام قبول کیا_ یہی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اہل بیت علیھم السلام نے فرمایا:''سلمان منا اهل البیت'' (۲) _

یہی وہ سلمان ہیں جنہوں نے دین حق کی تلاش میں اپنے علاقے سے ہجرت کی اور اس را ہ میں انہوں نے بہت ساری مصیبتیں اور مشکلات برداشت کیں _ یہاں تک کہ غلام ہوئے اور پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں آزاد ہوئے(۳) _

کہتے ہیں کہ مدینہ میں ''قبا'' کے مقام پر حضرت سلمان فارسی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضری دی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے یہ کہہ کہ کھجوریں پیش کیں کہ یہ صدقہ ہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خودتو کھانے سے انکار فرمایالیکن اصحاب سے امر فرمایا کہ کھالیں تو انہوں نے یہ کھجوریں کھالیں_ حضرت سلمان نے اسے پہلی نشانی شمار کیا _

اگلی مرتبہ پھر جناب سلمان کی ملاقات آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مدینہ میں ہوئی_ اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں کھجوریں یہ کہہ کر پیش کیں کہ یہ تحفہ ہے _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول فرمایا اور کھجوریں کھالیں پس حضرت سلمان نے اسے دوسری نشانی شمار کیا _

____________________

۱)تاریخ الخمیس ج/ ۱ ص ۳۵۱_

۲)قاموس الرجال ج/۴ ترجمہ سلمان_

۳) المصنف ج / ۸ ص ۴۱۸ میںان کے اسلام لانے کا واقعہ مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سلمان فارسی کے علاقے میں ایک راہب تھا _ آپ نے بعض خاص قسم کی تعلیمات اس سے سیکھیں اور علاقے کے لوگوں کو بتائیں تو انہوں نے راہب کو اپنے علاقے سے نکال باہر کیا_ آپ اپنے اہل و عیال سے چھپ کر اس کے ساتھ وہاں سے نکلے اور موصل پہنچ گئے _ وہاں انکی ملاقات چالیس۴۰راہبوں سے ہوئی _ چند ماہ بعد ایک راہب کے ہمراہ آپ بیت المقدس گئے وہاں ایک راہب کی سخت عبادت و ریاضت اور انکی بے چینی کو دیکھا لیکن پھر جلد ہی اس کا دل اس سے بھر گیا _ وہاں انصار کے سواروں کے ایک دستے نے ان راہبوںسے حضرت سلمان کے بارے سوال کیا توانہوںنے جواب دیا کہ یہ ایک بھگوڑا غلام ہے _پس انہوں نے اسے مدینے لے جاکر ایک باغ میں کام پر لگادیا_ اس راہب نے جناب سلمان کو بتایا تھا کہ عرب سے ایک نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عنقریب ظہور کرناہے جو صدقہ نہیں کھائے گا، ہدیہ قبول کرے گا اور اسکے شانوں پر نبوت کی مہر ہوگی _ اس راہب نے آپ سے کہا تھا کہ اسکی اتباع کرنا_

۲۹

اسکے بعد حضرت سلمان کی ملاقات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بقیع کے ایک نشیب میں ہوئی جہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعض اصحاب کی تشیع جنازہ میں شریک تھے پس قریب آئے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام کیا اور پیچھے پیچھے چل دیئے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی پشت مبارک سے چادر ہٹائی تو دیکھا کہ شانوں پر نبوت کی مہر موجود ہے_ پس اب وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جھکے ،شانوں پر بوسہ دیا اور گریہ کرنا شروع کیا_ اس کے بعد اسلام قبول کیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اپنا سارا واقعہ بیان کیا _ اسکے بعد حضرت سلمان نے اپنے مالک سے اپنی آزادی کا معاہدہ کیا اور اپنی آزادی کی رقم ادا کرنے کے لئے محنت مزدوری کرنے لگا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کی مالی امداد فرمائی _ اور پھر حضرت سلمان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غلامی میں اپنی ساری زندگی گذاردی تا کہ اس آزادی کا حق ادا کرسکیں_

اس نے پہلی مرتبہ جنگ خندق میں حصہ لیا اور پھر اس کے بعد کئی جنگوں میں حصہ لیا_ ابن عبدالبر کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے پہل جنگ بدر میں حصہ لیا اور یہ نظریہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مالی امداد کے تناظر میں زیادہ مناسب ہے _ اسکے لئے حدیث و تاریخ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے _(۱) نیز ہماری کتاب''سلمان الفارسی فی مواجهة التحدی'' ( سلمان فارسی چیلنجوںکے مقابلے میں) بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں_

ایک اہم بات :

یہاں قابل ملاحظہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت سلمان نے ذاتی احساسات یا مفادات کی بناء پر اسلام قبول نہیں کیا اور نہ ہی کسی مجبوری یا کسی کے دباؤ یا کسی سے متاثر ہونے کی بنا پر اسلام قبول کیا بلکہ خالصتاً اپنی عقل و فکر اور سوچ و بچار کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے_ دین حق تک پہنچنے کے لئے انہوں نے بہت سعی و کوشش کی اور اس راہ میں بہت سی رکاوٹوں، مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا _ اور یہ بات اس دین کے فطری ہونے نیز عقل کے احکامات اور سالم فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہونے کی تائید کرتی

____________________

۱)بطور مثال قاموس الرجال ج/۴ ، الاصابہ ج/ ۲ ص ۶۲ ، الاستیعاب اور دیگر کتابیں_

۳۰

ہے_ اسی طرح کی باتیں ہم حضرت ابوذرکے اسلام قبول کرنے کے واقعات میں بیان کرچکے ہیں، وہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں_

رومہ کا کنواں حضرت عثمان کے صدقات میں :

بعض نے حضرت عثمان کے فضائل میں لکھاہے کہ جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو سوائے رومہ کے کنویں کے کوئی اور ایسا کنواں نہ تھا جس سے صاف اور میٹھا پانی پیا جاتا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' کون ہے جو اپنے ذاتی مال سے اس کنویں کو خریدے اور اپنی بالٹی اور دیگر مسلمانوںکی بالٹیاں اس میں قرار دے (یعنی سب مسلمانوں کے لئے وقف کردے ) تو اسے جنت میں اپنی پسند کا اس سے بھی اچھا کنواں ملے گا؟ ''پس حضرت عثمان نے اپنے خالص مال سے اس کنویں کو خریدا اور اس کنویں میں اپنی اور مسلمانوں کی بالٹیاں ڈال دیں_ لیکن جب حضرت عثمان کا محاصرہ ہو اتو لوگوں نے انہیں اس کنویں سے سخت پیاس کی صورت میں بھی پانی نہیں پینے دیا تھا حتی کہ وہ مجبور ہوکر سمندر کا پانی پینے لگے تھے _

لیکن ان روایات میں شدید اختلاف پایا جاتاہے_ہم بعدمیں مدارک و مصادر کی طرف اشارہ کریں گے_ انہی اختلافات کی وجہ سے ہمیں ان کے صحیح ہونے کے بارے شک ہے_یہ اختلافات مندرجہ ذیل ہیں:_

اولاً : روایات میں اتنا تناقض و اختلاف ہے کہ کوئی ایک روایت بھی دوسری سے نہیں ملتی _مثلاً کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان کے خلاف بغاوت ہوئی توانہوں نے باغیوں کو رومہ کے کنویں والے واقعہ کا واسطہ دیا لیکن یہاں روایتوں میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے _ ایک روایت تو یہ کہتی ہے کہ جب وہ اپنے گھر میں محاصرے میں تھے تو تب انہوں نے لوگوں کے سامنے آکر یہ بات کی تھی جبکہ ایک اور روایت کہتی ہے کہ اس وقت وہ مسجد میں تھے _ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آدھا کنواں سو اونٹنیوں کے عوض اور باقی آدھا ایک آسان نرخ پہ خریدا_دوسری روایت کہتی ہے کہ چالیس ہزار کا کنواں خریدا ایک اور روایت میں

۳۱

ہے کہ ۳۵ اونٹینوں کے عوض خریدا_ چوتھی روایت ہے کہ آدھا کنواں بارہ ہزار درہم میںاور باقی آدھا آٹھ ہزار میں خریدا_

ایک اور روایت اس بارے میں یہ ہے کہ یہ کنواں ایک یہودی کا تھا_ کوئی بھی قیمت ادا کئے بغیر اس سے پانی کا ایک قطرہ تک نہیں پی سکتا تھا_ایک اور روایت کہتی ہے کہ یہ کنواں قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کا تھا_ تیسری روایت کہتی ہے کہ یہ کنواں بنی غفار کے ایک شخص کی ملکیت تھا_ یہاں ایک روایت یہ کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے کنواں خریداجبکہ دوسری یہ کہتی ہے کہ انہوں نے کنواں کھودا _ لوگ دونوں روایتوں کو جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلے کنواں خریدا لیکن اسکے بعداسے دوبارہ کھودنے کی ضرورت پڑ گئی_(۱) لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ خود کہتے ہیں کہ اس کا ذکر حضرت عثمان نے اس وقت کیا تھا جب اصحاب کو اس کی قسم دی تھی اور یہ واقعہ صرف ایک ہی مرتبہ ہواتھا_

ایک روایت یہ کہتی ہے کہ یہ چشمہ تھا جو زمین پر جاری تھا جبکہ دوسری کہتی ہے کنواں تھا_ ایک روایت کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کے مدینہ پہنچنے پر کنواں خریدا _ لیکن دوسری روایت کی حکایت یہ ہے کہ جب خلیفہ تھے تب یہ کنواں خریدا تھا_

ایک روایت میں ہے کہ خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے کنواں خریدنے کو فرمایا _دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں میں اعلان کرایا کہ کوئی ہے جو کنواں خریدے_ تیسری روایت کا کہناہے کہ اس غفاری (کنویں کے مالک ) نے جنت میں دو چشموں کے بدلے بھی پاک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں اسے بیچنا گوارا نہ کیا _جب یہ بات حضرت عثمان کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اسے ۳۵ ہزار میں خریدا(۲) _

____________________

۱)اس توجیہ کو سمہودی نے وفاء الوفاء ج/ ۳ ص ۹۷۰ میں ذکر کیا ہے_

۲)ان روایات کا مطالعہ فرمائیں اور ان کا آپس میں تقابل کریں_وفاء الوفاء للسمھودی ج / ۳ ص ۹۶۷ _ ۹۷۱ ، سنن نسائی ج/۶ ص ۲۳۴، ۲۳۵ ، ۲۳۶ ، منتخب کنز العمال ج/۵ ص۱۱ ، حیات الصحابہ ج/۲ ص ۸۹ از طبرانی وابن عساکر ، مسند احمد ج /۱ ص۷۰ ، ۷۵ ، السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۷۵ ، اسی طرح بغوی، ابن زبالہ، ابن شبة، ابن عبدالبر، الحازمی، ابن حبان، ابن خزیمہ سے بھیروایت کی گئی ہے ، الترمذی ص ۶۲۷ ، حلیة الاولیاء ج/۱ ص ۵۸ ، البخاری حاشیہ فتح الباری ج/۵ ص ۳۰۵ ، فتح الباری ج ۵ ص ۳۰۵ ، ۳۰۶ ، سنن بیہقی ج/ ۶ ص ۱۶۷ ، ۱۶۸نیز التراتیب الاداریہ _

۳۲

اختلافات اور تناقضات کی فہرست طولانی ہے جن کے ذکر کا موقع نہیں _اگر کوئی چاہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتاہے جن کے ہم نے حوالے دیئے ہیں_

ثانیاً : نسائی، مسند احمد اور ترمذی جیسی کتب میں ایک روایت مذکور ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب مدینہ تشریف لائے تووہاں میٹھا اور پینے کے قابل پانی نہ تھا_ یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں ہے کیوں کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو میٹھے پانی کے کافی سارے کنویں تھے_ جن کنوؤں سے حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زندگی بھر پانی استعمال فرمایا_ ان کنوؤں میں سے اسقیا، بضاعہ، جاسوم اور دار ا نس کے کنویں تھے جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا لعاب دین پھینکا تو اسکے بعد مدینے میں ان سے زیادہ میٹھے پانی کا کوئی اور کنواں نہ تھا(۱) اس کے علاوہ بہت سارے کنویں تھے اس سلسلے میں وفاء الوفاء کے باب '' آبار المدینہ'' کا مطالعہ کرسکتے ہیں _

ثالثاً : اگر رومہ کے کنویں والی حدیث صحیح مان لی جائے تو پھر مندرجہ ذیل جواب طلب سؤالات سامنے آتے ہیں_

۱_حضرت عثمان جو حبشہ سے تازہ آئے تھے اور انکے پاس کوئی مال و متاع بھی نہ تھا تو پھر چالیس ، پینتیس یا بیس ہزار درہم اور سو اونٹنیاں کہاں سے آگئیں _ انہوں نے کب اور کس طرح یہ مال کمایا؟_

۲ _ حضرت عثمان نے جنگ بدر کے موقع پر اتنی بڑی رقم کے ہوتے ہوئے مدد کیوں نہ کی ؟ یا ان اونٹیوں میں کوئی چیز کیوں خرچ نہ کی جو روایات کے بقول یہ ان کا خالص ذاتی مال تھا؟ حالانکہ اس وقت مسلمانوں کو چھوٹی سے چھوٹی چیز کی بھی اشد ضرورت تھی _کیونکہ دو یا تین افراد ایک ہی اونٹ پر بیٹھتے تھے اوران کے پاس صرف ایک ہی گھوڑا تھا _ مسلمانوں کے پاس صرف چھ عدد زر ہیں اور آٹھ عدد تلواریں تھیں جبکہ باقیوں نے ڈنڈوں اور کھجور کی چھڑیوں کے ساتھ جنگ کی _ اسکا اور اس کے منابع کا ذکر آئے گا_

حضرت عثمان نے اپنے اموال سے بالکل بھی مدد نہ کی ؟ کیا پھر بھی یہ بات درست اور معقول ہے کہ انہوں نے اپنے پاس موجود سب کچھ لٹا دیا اور خالی ہاتھ ہوگئے؟

____________________

۱) وفاء الوفاء للسمھودی ج/ ۳ ص ۹۵۱ ، ۹۵۶ ، ۹۵۸ ، ۹۵۹ ، ۹۷۲_

۳۳

حضرت عثمان نے کیونکر غریب مسلمانوں کو کھانا نہ کھلایا ، انکی ضروریات کو پورا نہ کیا اور انصار کی مدد نہ کی ؟ خود پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کیوں نہ کی _ جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شدید اقتصادی بحران کا شکار تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی معاشی حالت ہجرت کے چند سال بعدجاکے کہیں ٹھیک ہوئی؟

۳_ بعض روایات کہتی ہیں کہ حضرت عثمان کو اس کنویں کا پانی پینے سے منع کردیا گیا جس سے وہ سمندر کا پانی پینے پر مجبور ہوگئے_ یہ بات واقعاً بہت عجیب ہے پس اگر حضرت عثمان پانی حاصل کرسکتے تھے تو انہوں نے مدینہ میں دسیوں کی تعدا میں موجود دیگر کنوؤں کا میٹھا پانی کیوں استعمال نہیں کیا ؟_

کیونکہ جس شخص نے پانی پینے سے منع کیا تھا وہ تو چاہتا تھا کہ ان تک کسی طرح کا کوئی پانی ، کہیںسے بھی نہ پہنچے_ کیونکہ بقول ان کے حضرت عمار یاسر اس تک پانی پہنچانے لگے تو طلحہ نے انہیں منع کردیا _(۱)

پس جب تک حضرت علیعليه‌السلام نے اپنے بچوں کے ہمراہ پانی نہیں پہنچایا تب تک انہیں پانی میسر نہیں آیا اور واضح ہے کہ آپعليه‌السلام نے اس کام سے اپنے خاندان کو خطرات میں جھونک دیا_ کیا یہ درست ہے کہ انہوں نے واقعا سمندر کا پانی پیا تھا؟_ جبکہ سمندر کا فاصلہ مدینہ سے بہت زیادہ دور ہے _ یا یہ نمکین اور کھارا پانی استعمال کرنے سے کنایہ ہے ؟ ؟

۴_ اگر حضرت عثمان نے یہ سارا مال صدقہ کیاتھا تو کیوں ان کی مدح میں ایک آیت بھی نازل نہیں ہوئی جو اس عمل کی تعریف کرتی جبکہ حضرت علیعليه‌السلام نے مختلف اوقات میں '' جو کی تین روٹیاں'' ، '' انگوٹھی'' ، '' چاردرہم'' اسی طرح '' نجوی'' کے واقعہ میں صدقے دیئے تو مختلف آیات کے نزول سے تعریف کے مستحق بنے لیکن حضرت عثمان کئی ہزار درہم اورایک سو اونٹنیاں صدقہ دینے پر بھی کسی تعریف کے مستحق نہیں ٹھہرے بلکہ خدا نے ان کے متعلق ایک کلمہ یا ایک حرف تک بھی ارشاد نہیں فرمایا ؟ اس کے برعکس وہ روایت جو اس عظیم فضیلت کو بیان کرتی ہے اس میں بہت زیادہ تناقض پایا جاتاہے اور وہ علمی اور آزاد تنقید کے سامنے بالکل نہیں ٹھہرتی _ اس کے علاوہ انہوںنے بھی دوسرے صحابہ کی طرح ایک درہم کا صدقہ دے کر ''آیت

____________________

۱)وفاء الوفاء ج ۳ ص ۹۴۵_

۳۴

نجوی'' پر عمل کیوں نہیں کیا ؟ یہاں تک کہ اصحاب کی مذمت میں آیت نازل ہوئی_ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتگو سے قبل صدقہ دینے سے کترانے پر ان کی بھی دوسرے صحابہ سمیت مذمت کی ہے _

'' اریس'' کا کنواں

بالا خر ہم یہ نہیں جان سکے کہ صرف '' رومہ'' کے کنویں کو اتنی عزت و عظمت کیسے ملی اور اریس کے کنویں کے ساتھ ایسا کیوں نہ ہوا ؟ _ جبکہ دعوی یہ ہے کہ یہ کنواں بھی حضرت عثمان نے ہی ایک یہودی سے خریدا تھا_ پھر اسے وقف بھی کردیا تھا _(۱) اللہ تعالی حضرت عثمان کو کنوؤں کے معاملے میں برکت دے لیکن یہودیوں کو تو اس غم اور غصہ سے مرجانا چاہئے تھا کیونکہ کنویں تو وہ کھودتے تھے لیکن ان سے حضرت عثمان خرید خرید کر وقف کردیتے تھے اور یہ سب فضیلت ، کرامت اور عظمت حاصل کرتے جاتے تھے _

مسئلے کی حقیقت

ظاہراً صحیح بات وہی ہے جو '' عدی بن ثابت '' کے ذریعہ سے ابن شبہ کی روایت میں آئی ہے کہ مزینہ قبیلے کے ایک شخص کو '' رومہ '' نامی کنواں ملاتو اس نے اس کا ذکر حضرت عثمان (جو اس وقت خلیفہ تھے) سے کیاتو انہوں نے یہ کنواں بیت المال سے ۳۰ ہزار درہم کا خریدکر اسے مسلمانوں کے لئے وقف کردیا(۲) _

لیکن سمہودی نے اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ روایت متروک ہے اور زبیر بن بکار نے اپنی کتاب ''عتیق'' میں اس روایت کو بیان کیا ہے_لیکن وہ اسے رد کرتے ہوئے کہتاہے:'' یہ درست نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک ثابت یہ ہے کہ حضرت عثمان نے یہ کنواں رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اپنے مال سے خریدکر اسے وقف کردیا تھا''(۳) _

____________________

۱) وفاء الوفاء ج ۳ ص ۹۶۸_

۲)وفاء الوفاء ج/ ۳ ص ۹۶۷ از ابن شبة _اس روایت کو زبیر بن بکار نے بھی روایت کیاہے_

۳)گذشتہ حوالہ_

۳۵

جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ روایات جن کی طرف زبیر بن بکار نے اشارہ کیا ہے کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہیں _خصوصاً جبکہ ان روایات میں بہت اختلاف اور تناقض پایا جاتاہے اور ان روایات پہ ایسے اعتراضات بھی گزر گئے ہیں کہ جن کا کوئی جواب نہیں نیز ان روایات کی اسنا د و مدارک میں بھی بہت سے اعتراضات ہیں _ ایسے حالات میں روایت مذکور کی سند میں متروک شخص کے ہونے میں کوئی حرج نہیں _ اور اسے ماننا ہی پڑے گا کیونکہ یہ روایت اس زمانے کے حالات اور تاریخی واقعات سے مطابقت بھی رکھتی ہے_ اور بقیہ روایات بھی صحیح نہیں ہوسکتیں کیونکہ یہ ساری کی ساری حضرت عثمان کی فضیلت بنانے کے لئے گھڑی گئی ہیں_

البتہ مذکورہ بالا روایت کا یہ جملہ ہم نہیں سمجھ سکے '' انہوں نے بیت المال مسلمین سے ۳۰ ہزار درہم کا کنواں خریدا اور پھر مسلمانوں کے لئے اسے وقف کردیا ...'' _اگر یہ کنواں مسلمانوں کے اموال سے خریدا گیا تھا تو پھر مسلمانوں ہی کے لئے وقف کرنے کا کیا معنی ہے؟ہاں اس صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ در حقیقت بیت المال کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے تھے اس لئے اسے وقف کہتے تھے _ اور ہم نے ان کے اس نظریئے پر کچھ دلائل اور قرائن بھی بیان کئے ہیں اس لئے آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں(۱)

کھجور کی پیوندکاری

کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے اور کھجوروں کی پیوند کاری کر نے والے کچھ افراد کے قریب سے گذرے ( یا ان کا شور سنا ) تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا اگر تم اس کام کو چھوڑ دو تو بہتر ہوگا _ ان لوگوں نے اس کام کو چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کھجوریں نرم گٹھلی والی اور خراب نکل آئیں _ پھر ایک روز ان کے قریب سے گزرے یا ان سے یہ بات ذکر کی گئی، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استفسار فرمایا کہ کیا ہوا تمہاری کھجوروں کو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی تو ایسا کرنے کو کہاتھا (لہذا اس کا نتیجہ واضح ہے)_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

۱) ملاحظہ ہو ہماری کتاب : دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام ، بحث ''ابوذر ، سوشلسٹ ، کیمونسٹ یا مسلمان ؟''_

۳۶

نے فرمایا:'' تم لوگ دنیاوی امور کو مجھ سے بہترجانتے ہو'' _ یا یہ فرمایا : ''اگر مفید تھا تو انہیں ویساہی کرنا چاہئے تھا میں نے تو یوں ہی ایک گمان کیا تھا_ لہذا تم لوگ اس گمان کی وجہ سے میرا مؤاخذہ نہیں کرسکتے _ البتہ میں جب اللہ تعالی کی کوئی بات تمہیں بتاؤں تو تم اس پر ضرور عمل کرو کیونکہ میں خدا پر ہرگز جھوٹ نہیں بولتا''_(۱)

ہمیں اس روایت کے صحیح ہونے میں شک ہے _کیونکہ اس روایت کی نصوص میں بھی اختلاف پایا جاتاہے _اس کے علاوہ مندرجہ ذیل چند سوالات کا پوچھنا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسے کاموں میں مداخلت کیوں کرتے تھے جن سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کوئی واسطہ ہی نہ تھا اور نہ ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان میں کوئی مہارت حاصل تھی ؟

کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں جانتے تھے کہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہرلفظ پر عمل کرتے اور اس سے متاثر ہوتے ہیں ؟ ؟_

لوگ اتنے بڑے نقصان پر کیسے راضی ہوگئے؟ پھرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشور ے کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون تھا؟ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ کہنا کیسا ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو وہ ہیں جنہوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص کو حکم دیا کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو کچھ بھی سن رہاہے سب تحریر کرے کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے سوائے حق کے کوئی چیز نہیں نکلتی ؟ یہ روایت بہت مشہور و معروف ہے _ یہ روایت اپنے مآخذو مدارک کے ساتھ پہلی جلد میں بیان ہوچکی ہے ، وہاں ملاحظہ فرمائیں_

اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سن مبارک اس وقت (۳۳ تینتیس) سال سے زیادہ تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عرب خطے کے مرکزی حصے کے رہنے والے تھے_ کیا ہم اس بات کی تصدیق کرسکیں گے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیوند کاری اور اس کے فوائد کو نہیں جانتے تھے اور یہ کہ کھجور اسکے بغیر کوئی نتیجہ نہیں دیتی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زندگی کا

____________________

۱)صحیح مسلم ج/۷ ص ۹۵، سنن ابن ماجہ ج/۲ ص ۸۲۵ کتاب الرھون باب ۱۵، مسنداحمد ج/۶ ص۱۲۳نیز ج ۳ ص ۱۵۲، البر صان والعرجان ص ۲۵۴، مشکل الآثارج/۲ص۲۹۴، کشف الاستار عن مسند البزار ج ۱ ص ۱۱۲ ، مسند ابویعلی ج ۶ ص ۱۹۸و ۲۳۸ و صحیح ابن حبان مطبوعہ مؤسسة الرسالہ ج ۱ ص ۲۰۱_

۳۷

ایک بڑا عرصہ اس کے متعلق کچھ بھی نہ سنا ہو حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہی عربوں کے درمیان اور ان کے ساتھ رہتے تھے یا کم از کم ان کی ہمسائیگی میں تو تھے؟

بالآخر کیا یہ صحیح ہے کہ دنیاوی امور میں لوگوں پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت واجب نہ تھی؟ اور یہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رائے بیان فرمائی تھی؟ کیا یہ درست ہے کہ اسلام، دین اور دنیا میں فاصلے کا قائل ہو اور اس دین مقدس کا کل ہم و غم دنیاوی امور نہ ہوں بلکہ صرف اخروی امور ہوں ؟ کیا یہ اسلام پر بہتان اور تہمت نہیں ہے ؟ کیا یہ سب کچھ اسلام اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے برخلاف نہیں ؟اور کیا یہ سیکو لرازم کی طرف اشارہ نہیں ؟ اور اسلام کو صرف عبادت گا ہوں میں منحصر کرنے کی ابتداء نہیں ؟

۳۸

۴۱

تیسری فصل :

ابتدائے ہجرت میں بعض اساسی کام

۳۹

تمہید:

مدینہ پہنچنے کے فوراً بعد رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بہت سے ایسے بنیادی کام انجام دیئے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اسلامی دعوت کے مستقبل سے مربوط تھے، یہ کام مختلف نوعیت کے تھے ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں_

۱: نماز جمعہ کا انعقاد_

۲ : مسجد قبا کی تعمیر،ان دونوں کا موں کے متعلق ہم پہلے بحث کرچکے ہیں_

۳ : مدینہ میں مسجد کی تعمیر _اس بارے میں ایک علیحدہ فصل میں بات کریں گے_

۴ : ہجری تاریخ کا آغاز _اس کے لئے بھی ایک علیحدہ فصل مخصوص کی گئی ہے_

۵ : مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ_

۶ : مسلمانوں کے آپس میں آئندہ تعلقات نیز غیر مسلم اقوام کے ساتھ ان کے روابط

کی نوعیت اور حدود کا تعین_

۷ : علاقے میں بسنے والے یہودیوں سے صلح :

اور ان مؤخر الذکر تین امور کے لئے بھی علیحدہ فصل رکھی گئی ہے_

اس سلسلے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ اور کام بھی انجام دیئے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ہم ان کی طرف اشارہ کریں گے ، یہاں ہم مؤخر الذکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پانچ کاموں کی وضاحت کرتے ہیں اور ابتدا ہجری تاریخ کے آغاز سے کرتے ہیں_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

لیکن اللہ کے خالص بندے جو کمالات اور خیرات کے مقامات تک پہنچ چکے ہیں اور اللہ تعالی کے بے نہایت کمال اور جمال کا مشاہدہ کرلیا ہے اور اللہ تعالی کے ذکر اور اس کی ذات کی محبت میں خوش ہیں اور کوئی غم اور غصہ نہیں رکھتے کیونکہ وہ جب خدا کو رکھتے ہیں تو سب چیزیں رکھتے ہیں دنیاوی امور سے لگاؤ نہیں لگا رکھا تا کہ ا ن کے نہ ہونے سے خوف اور ڈر رکھتے ہوں_ کمالات اور خیرات کے منبع اور مرکز سے دل لگا رکھا ہے اور خود بھی صاحب کمال ہیں_

امام حسین علیہ السلام عرفہ کی دعا میں فرماتے ہیں_ '' خدایا تیری ذات ہے کہ جس نے اجنبیوں کو اپنے اولیاء کے دلوں سے باہر نکال دیا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ تیرے سوا کسی کو دوست نہیںرکھتے اور تیرے غیر سے پناہ نہیں مانگتے وہ خوفناک مصائب میں تجھ سے انس اور محبت رکھتے ہیں اگر ان میں معرفت اور شناسائی حاصل ہوئی ہے تو وہ بھی تیری ہدایت کی وجہ سے ہے_ جو تجھے نہیں پاتا وہ کس چیز کو پاسکتا ہے؟ جو تجھے رکھتا ہو وہ کس چیز کو نہیں رکھتا؟ کتنا نقصان میں ہے وہ انسان جو تیرے عوض کسی دوسرے کو اختیار کرے؟ کتنا بدبخت ہے وہ انسان جو تیرے سوا کسی دوسرے کی طرف رجوع کرے_ کس طرح انسان کسی دوسرے سے امید رکھے جب کہ تیرے احسان اس سے قطع اور ختم نہیں ہوئے؟ کس طرح انسان اپنی حاجات کو دوسرے سے طلب کرے جب کہ تیرے احسان کرنے کی عادت نہیں بدلی؟(۳۷۶)

خلاصہ مقام ذکر اور شہود تک پہنچنے کی ایک علامت اور اثر انسان میں آرام اور سکون اور اطمینان قطب ہے اور سوائے خدا کے کوئی اور نہیں جو دل کی کشتی کو زندگی کی متلاطم امواج سے آرام اور سکون دے سکے_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ان کے دل اللہ تعالی کے ذکر سے آرام اور اطمینان میں ہیں اور یاد رکھو کہ دل کو تو صرف خدا کے ذکر سے ہی آرام اور اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے_(۳۷۷)

۲۰۱

خدا کی بندے کی طر توجہ _

جب بندہ خدا کو یاد کرتا ہے تو خدا بھی اس کے عوض بندے کو مورد عنایت اور توجہ قرار دیتا ہے_ یہ مطلب آیات اور روایات سے مستفاد ہوتا ہے_

خدا فرماتا ہے ''مجھے یاد کرو تا کہ میں تمہیں یاد کروں_(۳۷۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے فرمایا ہے_ اے ادم کے فرزند مجھے اپنے دل میں یاد کر تا کہ میں تجھے اپنے دل میں یاد کروں_ اے آدم کے فرزند مجھے خلوت اور تنہایی میں یاد کر تا کہ میں تجھے خلوت میں یاد کروں_ اے آدم زاد مجھے مجمع میں یاد کر تا کہ میں تیرے مجمع سے مجمع میں یاد کروں آپ نے فرمایا کہ جو انسان خدا کو لوگوں کے درمیان یاد کرے خدا اسے ملائکہ کے درمیان یاد کرتا ہے_(۳۷۹)

اللہ تعالی کا بندے کی طرف متوجہ ہونا اور لطف و کرم کرنا ایک اعتباری اور تشریفاتی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت اور واقعیت ہے اس کی دو میں سے ایک سے توجیہ کی جا سکتی ہے_

۱_ جب بندہ خدا کو یاد کرنا ہے تو اس کے ذریعے فیض الہی کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے خداوند عالم بھی اس پر کمال کو نازل کرتا ہے اور اس کے درجات کو بلند کر دیتا ہے_

۲_ جب اللہ تعالی کا ذکر کرنے والا انسان خدا کو یاد کرتا ہے تو وہ اللہ تعالی کی طرف حرکت کرتا ہے اور وہ اللہ تعالی کے لطف اور کرم کا مورد قرار پاتا ہے_ اسے خدا عالی مرتبہ کے لئے جلب اور جذب کر دیتا ہے اور اس کے دل کے کنٹرول کرنے کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے_

پیغمبر گرامی نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم فرماتا ہے کہ جب میں بندے کو اپنے میں مشغول اور متوجہ پاتا ہوں تو اسے سوال اور مناجات کرنے کا علاقمند بنا دیتا ہوں اور اگر بھی اس پر غفلت طاری ہو جائے تو اس کے عارض ہونے سے رکاوٹ کھڑی کر دیتا

۲۰۲

ہوں_ یہ یندے میرے حقیقی اولیاء ہیں یہ واقعی بہادر اور شجاع ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر میں چاہتا ہوں کہ زمین والوں کو ہلاک کردں تو ان کے وجود کی برکت سے زمین والوں سے عذاب کو دور کردیتاہوں_(۳۸۰)

خلاصہ خدا کو اپنی بندے کی طرف توجہہ کرنا ایک اعتباری اور تشریفاتی کام نہیں ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت ہے جو ان دو میں سے ایک توجیہہ کی جا سکتی ہے اگر چہ دونوں کو بھی اکٹھا کیا جا سکتا ہے_

خدا کا بندے سے محبت کرنا_

ذکر خدا کی آثار میں سے ایک اثر اور علامت خدا کا ایسے بندے سے محبت کا ہو جانا ہوتا ہے_ آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بندہ خدا کی یاد میں ہو اور خدا اور اس کے پیغمبر علیہ السلام کے احکام پر عمل کرنے والا ہو تو خدا بھی اس کے عوض ایسے بندے کو دوست رکھتا ہے_ خدا قرآن میں فرماتا ہے '' اے لوگو اگر واقعاً خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تا کہ خدا بھی تمہیں دوست رکھے_(۳۸۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے پیغمبر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ '' جو شخص اللہ تعالی کا بہت زیادہ ذکر کرے تو وہ اللہ تعالی کا مورد محبت قرار پائیگا_ جو شخص اللہ تعالی کی یاد میں بہت زیادہ ہو گا اس کے لئے دو برات کے نامے لکھ دیئے جائیں گے ایک دوزخ سے برات اور دوسرے نفاق سے برات_(۳۸۲)

اللہ تعالی کی بندے سے محبت کوئی اعتبار اور تشریفاتی امر نہیں ہوتا اور یہ اس معنی میں بھی نہیں ہوتی جو محبت بندے کو خدا سے ہوتی ہے_ انسان میں محبت کے ہونے کے معنی اس کا کسی چیز سے کہ جس کا وہ محتاج ہے ولی لگاؤ اور علاقمندی ہوا کرتی ہے لیکن خدا کے محبت کرنے کے ایسے معنی مراد نہیں ہوا کرتے اور نہ ہی اللہ تعالی میں یہ معنی صحیح ہے_ خدا کے محبت کرنے کی یوں وضاحت کی جائے کہ خدا بندے پر اپنا لطف و کرم زیادہ کرتا ہے اور اسے عبادت اور توجہہ اور اخلاص کی زیادہ توفیق

۲۰۳

عنایت فرماتا ہے ک جس ذریعے کمالات اور قرب کے درجات کی طرف اسے جذب اور جلب کرتا ہے اور چونکہ خدا اپنے بندے کو دوست رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ راز اور نیاز کو سنے تو اسے دعا نماز ذکر اور مناجات کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے اور چونکہ اس کے تقرب کو دوست رکھتا ہے تو اس کے لئے کمال تک رسائی کا وسیلہ فراہم کر دیتا ہے خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ خدا اپنے بندے کو دوست رکھتا ہے لہذا اس کے دل کو اپنے کنٹرول میں لے لیتا ہے اور توفیق دیتا ہے کہ وہ بہتر اور سریع تر اس کے مقام قرب کی طرف حرکت کرے_

اہم اثر:

اس مقام ذکر میں اس کے حاصل کرنیوالے کو بہت عالی فوائد حاصل ہو جاتے ہیں کہ جن کے بیان کرنے کے لئے قلم اور زبان عاجز اور ناتوان ہے اور سوائے اس مقام تک پہنچنے والوں کے اور کوئی بھی اس سے مطلع نہیں ہو سکتا_

عارف اپنے نفس کے صاف اور پاک اور اپنے باطن کو تصفیہ کرنے عبادت اور ریاضت تفکر اور دائمی ذکر کرنے کے ذریعے اسے ایسے مقام تک پہنچتا ہے کہ وہ اپنی باطنی آنکھ اور کان کے ذریعے حقائق اور واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے اور انہیں سنتا ہے کہ جو ظاہری آنکھ اور کان کے ذریعے دیکھنے اور سننے کے قابل نہیں ہوتے_ کبھی کبھی وہ موجودات کی تسبیح اور تقدیس بلکہ ملائکہ کی تسبیح کو بھی سنتا ہے اور ان کے ساتھ ہم آواز ہو جاتا ہے جب کہ وہ اسی دنیا میں زندگی کر رہا ہوتا ہے اور دنیا کے لوگوں کے ساتھ معاشرت کر رہا ہو تا ہے لیکن اپنے اندر میں ایک اعلی نقطہ کو دیکھتا ہے اور کسی دوسرے جہان میں اس طرح زندگی کر رہا ہوتا ہے کہ گویا وہ اس جہان میں زندہ نہیں ہے دوسرے جہان کی دوزخ اور بہشت کا مشاہدہ کرتا ہے_ اور نیک اور صالح افراد اور فرشتوں سے ربط رکھتا ہے_ دوسرے جہان سے مانوس اور دوسری طرح کی نعمتوں کو پا رہا ہے لیکن وہ ان چیزوں کے بارے میں غالباً کسی سے ذکر نہیں کرتا کیونکہ

۲۰۴

اس طرح کے افراد راز کو چھپانے والے ہوتے ہیں اور اس طرح کی شہرت کو پسند نہیں کرتے_

عارف کے قلب پر علوم اور معارف وارد ہوتے ہیں اور بعض ایسے کشف اور شہود رکھتا ہے جو متعارف علوم جیسے نہیں ہوتے_ عارف ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ تمام چیزوں سے یہاں تک کہ اپنے نفس سے بھی غافل ہوتا ہے اور سوائے ذات الہی کے اسماء اور صفات کے اور کسی طرف متوجہ نہیں ہوتا اللہ تعالی کی ذات کو ہر جگہ حاضر اور ناظر دیکھتا ہے کہ خود اس نے فرمایا کہ وہی اول ہے اور وہی آخر ہے اور وہی ظاہر ہے اور وہی باطن ہے_ ہو الاول و الاخر و الظاہر و الباطن_

تمام دنیا کو اللہ تعالی کی صفات کا مظہر اور تمام کمال اور جمال کو اسی ذلت سے جانتا ہے_

تمام دنیا کو اللہ کی صفات کا مظہر اور تمام کمال اور جمال کو اسی ذات سے جانتا ہے _ تمام موجودات کو ذات کے لحاظ سے فقیر اور محتاج سمجھتا ہے اور صرف غنی مطلق بے نیاز اللہ تعالی کی ذات کو دیکھتا ہے_ اور ذات الہی کے جمال اور کمال مطلق کے مشاہدے میں غرق رہتا ہے_ اور یہ بھی معلوم رہے کہ خود مقام فناء کے کئی درجات اور مقامات ہیں کہ بہتر یہی ہے کہ یہ مولف ان سے محروم ان مقامات کے بیان کرنے سے احتراز ہی کرے_ خدا ان کو مبارک کرے جو ان مقامات کے اہل ہیں_

۲۰۵

پہنچنے کے راستے

ایمان کے کامل کرنے اور مقام ذکر اور شہود تک پہنچنے کے لئے مندرجہ ذیل امور سے استفادہ کیا جا سکتا ہے_

۱_ فکر اور دلیل

وہ دلائل اور استدلالات جو توحید اور وجود خدا کے ثابت کرنے کے لئے لائے جاتے ہیں وہ ایمان کو کامل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں یا وہ دلیلیں جو فلسفہ اور علم کلام اور علم عرفان کی کتابوں میں بیان کی گئی ہیں ان سے ثابت کیا جاتا ہے کہ تمام موجودات عالم ذات کے لحاظ سے محتاج اور فقیر بلکہ عین احتیاج اور فقر ہیں وہ اپنے وجود کو باقی رکھنے میں اور تمام افعال اور حرکات میں ایک ایسی ذات کے محتاج ہیں جو بے نیاز اور غنی ہو بلکہ اسی ذات سے ان کا ربط اور اتصال ہے_ تمام موجودات عالم محتاج اور محدود ہیں صرف ایک ذات ہے جو اپنے وجود میں مستفنی بالذات ہے اور کمال غیر متناہی رکھتی ہے اور وہ ذات واجب الوجود ہے کہ جس میں کوئی نقص اور احتیاج نہیں اور اسکے وجود میں کوئی احتیاج نہیں ہے_ وہ ذات تمام کمالات کی مالک ہے_ اس کے علم اور قدرت اور حیات اورتمام کمالات کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے ہر جگہ حاضر اور ناظر ہے اور کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے_ تمام موجودات سے نزدیک ہے یہاں تک کہ وہ شاہ رگ سے خود انسان سے زیادہ نزدیک ہے_ بہت سی آیات اور احادیث خدا کی انہی صفات کو بیان کرتی ہیں_

۲۰۶

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' مشرق اور مغرب خدا کی ملکیت ہے پس تم جس طرف توجہ کرو گے خدا وہاں موجود ہے_(۳۸۳) نیز خدا فرماتا ہے کہ '' خدا تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو اور تمہارے کاموں کو جانتا ہے اور ان سے باخبر ہے_(۳۸۴)

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' ہم انسان سے اس کی شاہ رگ سے زیادہ نزدیک ہیں_(۳۸۵)

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' خدا ہر چیز کو دیکھنے والا اور حاضر ہے_(۳۸۶)

خدا کے پہچاننے میں غور اور فکر کرنا انسان کو کفر کی تاریکی سے نکال کر خدا پر ایمان لے آنے کی طرف لے جاتا ہے اور تکامل اور کمال تک پہنچنے کا راستہ کھول دیتا ہے اور عمل کی طرف جو ایمان کا لازمہ ہے دعوت دیتا ہے_

۲_ آیات ا لہی میں غور کرنا

خدا اس دنیا کی ہر ایک چیز کو خدا کی نشانی قرار دیتا ہے_ خدا متعدد آیات میں تاکید فرماتا ہے کہ خدا کی نشانیوں اور آیات میں خوب غور اور فکر کرو تا کہ ان کی رعنائیوں اور حسن سے اور ان کے نظم اور حساب سے ہونے کیوجہ سے جو تمام عالم پر برقرار ہے ایک دانا اور قادر اور علیم اور حکیم خدا کو معلوم کرلوگے_ انسان سے اس کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی خلقت اور وہ اسرار اور رموز اور حیرت انگیز قدرت جو اس کے جسم اور روح میں رکھ دیئے گئے ہیں اور اسی طرح مختلف زبانوں اور رنگوں اور شکلوں اور ہمسر کے وجود کو خوب غور سے سوچو اور فکر کرو_ اسی طرح انسان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سورج اور ستاروں کی خلقت اور ان کی منظم حرکت اور حسن اور زیبائی میں غور اور فکر کرے اسی طرح انسان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ زمین اور پہاڑوں اور درخت نباتات اور مختلف سمندری اور خشکی کے حیوانات میں غور اور فکر کرے_ قرآن مجید میں اس طرح کے مطالبے کے بہت سے نمونوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بہت ہی صحیح اور درست ہے کہ یہ جہان حسن اور تعجب میں ڈالنے والی چیزوں سے ہے_ جس شی کو دیکھیں اس میں سینکڑوں مصلحتیں تعجب آور موجود ہیں_ سورج ستارے کہکشاں بادل حیرت انگیز ایٹم زمین آسمان، پہاڑ، درخت، نباتات، مختلف دریائی اور خشکی کے حیوانات معدنیات، سمندر دریا، بڑے بڑے جنگل، چھوٹے بڑے، درخت

۲۰۷

اور نباتات، بڑے حیوانات، ہاتھی، اونٹ یہاں تک کہ چیونٹیوں اور مچھر بلکہ حیوانات جو دور بین سے دیکھے جاتے ہیں جیسے ویرس اور جراثیم و غیرہ انسان ان کی زیبائی اور ظرافت کو جب مشاہدے کرے اور موجودات جہاں میں جو رموز اور مصالح، ہیں اور اس جہاں کے نظم اور ضبط اور اس میں ربط اور اتصال کو جو ان پر حاکم ہے دیکھے تو ان تمام چیزوں سے ایک ایسے خالق اور پیدا کرنے والے کا جو عظیم اور صاحب قدرت اور بے انتہا علم اور حکمت رکھنے والا ہے کا علم پیدا کریگا_ اور حیرت اور تعجب میں غرق ہوجائیگا او ر تہ دل سے کہے گا اے میرے رب تو نے ان چیزوں کو بیہودہ اور لغعو پیدا نہیں کیا_ ربنا ما خلقت ہدا باطلا_ آسمان کو جو ستاروں سے اوپر ہے اسے دیکھے اور ان میں خوب غور اور فکر کرے جنگل کے پاس بیٹھ جائے اور اللہ تعالی کی عظمت اور قدت کا نظارہ کرے کہ کتنا عمدہ اور زیبا اور خوشمنا جہان ہے_

۳_ عبادت

ایمان اور معرفت کے بعد انسان کو نیک اعمال اور اپنے فرائض کے بجالانے میں سعی اور کوشش کرنی چاہئے اس واسطے کے عمل کے ذریعے ہی ایمان کامل سے کاملتر ہوتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے قرب کے مقام تک پہنچتا ہے_ یہ صحیح ہے کہ ایمان اور معرفت اور توحید بلندی کی طرف لے جاتی ہے لیکن نیک عمل اس میں اس کی مدد کرتے ہیں_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جو شخص عزت چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ تمام عزت خدا کے ہاں ہوتی ہے توحید کا نیک کلمہ خدا کیطرف جاتا ہے اور نیک عمل اسے اوپر لے جاتا ہے_(۳۸۷) نیک عمل کی نسبت ایمان اور معرفت کے لئے پٹرول کی ہے جو ہوائی جہاز میں ڈالا جاتا ہے جب تک ہوائی جہاز میں پٹرول ہو گا وہ بلندی کی طرف پرواز کرتا جائیگا اور جب بھی اس کا پٹرول ختم ہوجائیگا وہ تمام کا تمام گر جائیگا اسی طرح ایمان اور معرفت جب تک اس کے ساتھ نیک عمل انجام پاتا رہے گا وہ انسان کو اعلی مقامات کی طرف لے جاتا رہے گا لیکن جب اس کی نیک عمل مدد کرنا چھوڑ دے گا ایمان ختم ہوجائیگا_ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' اپنے پروردگار کی عبادت کرتا کہ تجھے یقیقن کا مقام حاصل ہوجائے_(۳۸۸)

۲۰۸

نفس کی تکمیل اور اس کی تربیت اور مقام یقین تک پہنچنے کا تنہا ایک راستہ ہے اور وہ ہے خدا کی عبادت اور بندگی اور اپنے فرائض کی بجا آوری_ اگر کوئی خیال کرے کہ عبادت کے علاوہ کسی اور راستے سے اعلی مقامات پر فائز ہو سکتا ہے تو وہ بہت ہی سخت اشتباہ کر رہا ہے_

انشاء اللہ بعد میں نیک عمل کے متعلق بھی بحث کریں گے_

۴_ اذکار اور دعائیں_

اسلام دعاؤں کے ہمیشہ پڑھنے رہنے کو بہت اہمیت دیتا ہے_ اذکار اور دعائیں پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ان کے پڑھنے پر ثواب بھی بتلائے گئے ہیں_ ذکر اذکار در حقیقت عبادت کی ایک قسم ہے جو نفس کی تکمیل اور قرب الہی کا سبب ہوتے ہے جیسے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' پانچ چیزیں ہیں جو انسان کے میزان عمل کو بھاری کر دیتی ہیں_ سبحان اللہ _ الحمد اللہ اور لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر اور نیک بیٹے کی موت پر صبر کرنا_(۳۸۹)

آپ(ص) نے فرمایا کہ '' جب مجھے معراج پر لے جایا گیا اور میں بہشت میں داخل ہوا تو میں نے ملائکہ کو دیکھا کہ وہ سونے چاندی کا محل بنانے میں مشغول تھے لیکن کبھی کام کرنا چھوڑ دیتے تھے اور کبھی کام کرنا شروع کر دیتے تھے_ میں نے ان سے کہا کہ کیوں کام کرنے لگ جاتے ہو اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہو؟ انہوں نے کہا جب محل تعمیر کرنے کا میٹریل آجاتا ہے تو کام کرتے ہیں اور جب وہ ختم ہو جاتا ہے تو کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں_ میں نے پوچھا کہ تمہارے کام کرنے میٹریل کونسا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ و الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ہے_

جب مومن دنیا میں یہ ذکر کرتا رہتا ہے ہمیں میٹریل ملتا رہتا ہے اور ہم بھی کام کرتے رہتے ہیں اور جب وہ اس ذکر سے غافل ہوجاتا ہے اور اسے پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو ہم بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں_(۳۹۰)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص سبحان اللہ کہے تو اس کے لئے بہشت میں ایک درخت لگا دیا جاتا ہے اور جو شخص الحمد اللہ کہے تو خدا

۲۰۹

اس کے لئے بہشت میں درخت لگا دیتا ہے اور جو شخص لا الہ الا اللہ کہے اس کے لئے خدا بہشت میں درخت لگا دیتا ہے_ اس وقت قریشی مرد نے عرض کی _ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پھر تو ہمارے لئے بہشت میں بہت ہی درخت ہونگے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں اسی طرح ہی ہوگا لیکن خیال رکھنا کہ کوئی آگ نہ بھیجنا کہ جو ان درختوں کو جلا دے کیونکہ خداوند قرآن میں فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو تم خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو_(۳۹۱)

جو کلام بھی انسان کو خدا کی یاد دلائے اور اس میں اللہ تعالی کی تعریف اور تسبیح اور تمجید ہو تو وہ کلام ذکر کہلائیگا لیکن احادیث میں خاص خاص دعاؤں اور اذکار کا ذکر ہوا ہے اور ان کے پڑھنے کے اثرات اور ثواب بھی بتلایا گیا ہے کہ جن میں سے زیادہ اہم لا الہ الا اللہ سبحان اللہ _ الحمد اللہ _ اللہ اکبر_ لا حول و لا قوة الا باللہ_ حسبنا اللہ و نعم الوکیل _ لا الہ الا اللہ سبحانک انی کنت من الظالمین_ یا حی یا قیوم یا من لا الہ الا انت افوض امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد_ لا حول و لا قوة الا باللہ العلی العظیم _ یا اللہ_ یا رب_ یا رحمن_ یا ارحم الراحمین_ یا ذالجلال و الاکرام_ یا غنی یا مغنی اسی طرح اور دوسرے اسماء حسنی کے جو دعاوں اور احادیث میں نقل ہوئے ہیں_ یہ تمام کے تمام ذکر ہیں اور انسان کو خدا کی یاد دلاتے ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں تقرب کا وسیلہ بنتے ہیں_ اللہ کی طرف رجوع کرنے والا انسان ان میں سے کسی ایک کو انتخاب کر کے اسے ہمیشہ پڑھتا رہے لیکن بعض اہل معرفت ان میں سے بعض کو ترجیح دیتے ہیں_ بعض لا الہ الا اللہ کے پڑھنے کی سفارش کرتے ہیں اور دوسرے بعض نے سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر کو انتخاب کیا ہے اور بعض نے دوسرے بعض کلمات کو ترجیح دی ہے لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب پر لا الہ الا اللہ ترجیح رکھتا ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بہترین عبادت لا الہ الا اللہ کہا ہے_(۳۹۲)

آپ(ص) نے فرمایا کہ '' لا الہ الا اللہ اذکار کا سردار اور ان سے بڑا ہے_(۳۹۳)

۲۱۰

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جبرائیل(ع) سے نقل کیا ہے کہ '' خداوند عالم فرماتا ہے کہ لا الہ الا اللہ کا کلمہ میری پناہ گاہ اور قلعہ ہے جو اس میں داخل ہوجائے وہ عذاب دیئے جانے سے امان میں ہوگا_(۳۹۴)

لیکن ذکر کرنے کی غرض اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنا ہوتا ہے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ جو کلام بھی اللہ تعالی کی طرف زیادہ توجہہ دلائے اس کا ذکر کرنا زیادہ مناسب ہوگا_ حالات اور افراد اور مقامات مختلف ہوتے ہیں_ لہذا ہو سکتا ہے کہ یا اللہ کا کلمہ بعض افراد کے لئے یا بعض حالات میں زیادہ مناسب افراد کے لئے لا الہ الا اللہ کا کلمہ اور دوسرے بعض افراد کے لئے یا غفار یا ستار مناسب ہو اسی طرح دوسرے اذکار_ اسلئے اگر کوئی انسان کسی استاد یا کامل مربی تک رسائل رکھتا ہو تو اس کے لئے بہتر ہے کہ و اس سے مدد طلب کرے اور اگر اسے کسی تک رسائی نہ ہو تو وہ دعاؤں اور احادیث کی کتابوں اور پیغمبر اکرم اور ائمہ علیہم السلام کے فرامین سے استفادہ کرے تمام اذکار اور عبادات اچھی ہیں جب کہ ان کو صحیح بجا لایا جائے تو وہ ان کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کر سکتا ہے اور مقامات عالیہ تک رسائل حاصل کر لے گا_ انسان ان تمام سے یا ان میں سے بعض سے استفادہ کر سکتا ہے لیکن مشائخ اور ماہرین استادوں نے مقام ذکر اور شہود تک پہنچے کے لئے بعض مخصوص اذکار کا انتخاب کیا ہوا ہے کہ جنہیں خاص کیفیت اور خاص عدد کے ساتھ ہمیشہ پڑھنے رہنے کی سفارش کی ہے تا کہ وہ اس مقصد کو حاصل کر سکے_

لیکن اس نقطہ کی طرف بہت زیادہ توجہہ دینے کی ضرورت ہے کہ جو دعائیں اور اذکار شرعیت میں وارد ہوئی ہیں گرچہ سب عبادت ہیں اور اجمالا تقرب کا موجب بھی ہوتی ہیں لیکن ان کی اصلی غرض غیر خدا سے بالکل اور کامل طور سے قطع قطع کرنا اور حضور قلب سے ذات الہی کی طرف توجہ کرنا ہے_ لہذا ہمیں صرف اذکار کے الفاظ کے تکرار پر ہی اکتفاء کرنی چاہیئے اور نہ ہی اصلی ا علی غرض و غایت اور معنی کی طرف توجہہ کرنے سے غافل ہو جائیں کیونکہ الفاظ کا تکرار بلکہ انہیں ہمیشہ پڑھتے رہنا اتنا مشکل نہیں ہے اس واسطے کہ الفاظ کے ذکر کرتے وقت کئی قسم کے افکار اور مختلف

۲۱۱

طرح کے خیالات انسان پر ہجوم کرتے رہتے ہیں اور اسے خدا کی یاد سے غافل کر دیتے ہیں اور جب تک خیالات اور افکار کو دور نہیں کیا جاتا اس وقت تک نفس افاضات اور اشراقات الہی کے قبول کرنے کی لیاقت پیدا نہیں کر سکتا_

صرف یہی کام انسان کو اصلی غرض تک نہیں پہنچا سکتا وہ جو مفید اور فائدہ مند ہے وہ ذات الہی کی طرف حضور قلب اور خیالات کا دور کرنا اور فکر کا ایک مرکز پر برقرار رکھنا ہوتا ہے اور یہ کام بہت زیادہ مشکل ہے اس واسطے کہ ذکر کرتے وقت کئی طرح کے فکر اور مختلف خیالات انسان پر ہجوم اور ہوتے ہیں اور اس کو خدا کی یاد سے غافل کر دیتے ہیں اور جب تک دل سے خیالات کو دور نہ کرے اس وقت تک انسانی نفس اللہ تعالی کے فیض اور اشراق کی لیاقت پیدا نہیں کرتا وہ دل اللہ تعالی کے انوار کا محل بنتا ہے کہ جو اغیار سے خالی ہو_ خیالات کا دور کرنا اور فکر کو ایک جگہ جمع کرنا ایک حتمی ارادے اور جہاد اور محافظ اور پائیداری کا محتاج ہوتا ہے اور اس طرح نہیں ہوتا کہ ایک دفعہ بغیر کسی ممارست اور دوام کے ایسا ممکن ہو جائے نفس کے ساتھ نرمی بر تنی چاہئے اور آہستہ آہستہ اسے اس کی عادت دی جانی چاہئے_

۲۱۲

وظائف اور دستور

بعض عرفاء نے اس راستے کو طے کرنے کے لئے مندرجہ ذیل امور کے بجالانے کی سفارش کی ہے_

۱_ اس مقام کے طالب کو سب سے پہلے توبہ کے ذریے اپنے نفس کو گناہوں اور باطنی گندگیوں اور برے اخلاق سے پاک اور صاف کرنا چاہئے پہلے توبہ کی نیت سے غسل کرے اور غسل کی حالت میں اپنے گناہوں اور باطنی کثافتوں کو دل میں لائے اور اللہ تعالی سے عرض کرے اے خالق_ میں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے اور تیری طرف لوٹ آیا ہوں اور ارادہ کر لیا ہے کہ پھر سے گناہ نہیں کروں گا جیسے میں اپنے جسم کو پانی سے پاک کرتا ہوں اپنے دل کو گناہوں اور برے اخلاق سے پاک کر رہا ہوں_

۲_ اپنے آپ کو ہر حالت اور ہر وقت خدا کے سامنے دیکھے اور کوشش کرے کہ تمام حالات میں خدا کی یاد میں رہے اور اگر غفلت طاری ہو جائے تو فوراً لوٹ آئے_

۳_ اپنے آپ پر اچھی طرح کنٹرول کرے تا کہ وہ پھر گناہ کو بجا نہ لائے_ اس خاص وقت دن اور رات میں نفس کے محاسبے کے لئے معین کردے اور پوری وقت سے دن اور رات کے اعمال کا حساب کرے اور اپنے نفس کو مورد مواخذہ

۲۱۳

قرار دے_

۴_ سوائے ضرورت کے چپ رہے اور زیادہ کلام نہ کرے_

۵_ صرف ضرورت جتنی غذا کھائے اور زیادہ کھانے سے پرہیز کرے_

۶_ ہمیشہ با وضو رہے اور جس وقت وضوء باطل ہوجائے فوراً وضو کرلے_ روسل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ '' خداوند عالم فرماتا ہے کہ جو شخص وضو کے باطل ہوجانے کے بعد دوبارہ وضو نہ کرے اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور جو شخص وضو کرنے کے بعد دو رکعت نماز نہ پڑھے اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور اگر کوئی انسان پڑھے اورنماز کے بعد دنیا اور آخرت کے لئے دعا کرے اور میں اسے قبول نہ کروں تو میں نے اس پر ظلم کیا ہے لیکن میں ظلم کرنے والا خدا نہیں ہوں_(۳۹۵)

۷_ دن اور رات میں ایک خاص وقت اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کے لئے مخصوص کردے اور اگر یہ رات میں بالخصوص سحری کے وقت ہو تو بہتر ہے خلوت اور تنہائی میں بیٹھ جائے اور اپنے سرکو زانوں میں رکھے اور تمام حواس کو اپنے آپ میں سموئے اور غلط خیالات اور افکار کو روکے_ ایک مدت تک اس عمل کو بجالائے اس عمل سے تجھ کچھ مکاشفات حاصل ہونگے_

۸_یا حی یا قیوم اور یا من لا اله الا انت کے ذکر کو اپنی زبان کو ورد قرار دے اور حضور قلب سے ہمیشہ اس کا تکرار کرے_

۹_ دن اور رات میں ایک طویل سجدہ بجالائے اور جتنا ہوسکتا ہے حضور قلب سے اس ذکر کا اس میں تکرار کرے_لا اله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین _ اس سجدہ کو طولانی بجالانا مجرب ہے اور اچھے اثرات رکھتا ہے_ بعض عرفا سے نقل ہوا ہے کہ وہ اس ذکر کو چار ہزار دفعہ پڑھا کرتا تھا_

۱۰_ دن اور رات میں ایک خاص وقت کو معین کر کے اس ذکر یا غنی یا مغنی کو کئی

۲۱۴

بار پڑھے_

۱۱_ ہر روز حضور قلب سے کچھ مقدار قرآن مجید پڑھے اور آیات کے معانی میں غور اور فکر کرے اور اگر کھڑے ہو کر یڑھے تو بہتر ہے_ _

۱۲_ سحری کے وقت بیدار ہو اور وضو کرے اور خلوت اور تنہائی کی جگہ میں حضور قلب سے نماز تہجد پڑھے اور وتر نماز کے قنوت کو طویل کرے اور اپنے اور مومنین کے لئے مغفرت کو طلب کرے تہجد کی نماز کے بعد آیت سخرہ کو ستر دفعہ پڑھے یقین حاصل کرنے اور خیالات دور ہونے کے لئے مفید اور مجرب ہے_ آیت سخرہ یہ ہے ''ان ربکم الله الذی خلق السموات و الارض فی سته ایام ثم استوی علی العرش یغشی اللیل النهار یطلبه حثیثا و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بامره الا له الخلق و الامر تبارک الله رب العالمین ادعوا ربکم تضرعا و خفیة انه لا یحب المعتدرین و لاتفسدوا فی الارض بعد اصلاحها و ادعوه خوفا و طمعا ان رحمة الله قریب من المسحنین (۳۹۶) نتیجہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ چالیس شب و روز تک ان دستورات اور وظائف پر عمل کرے ممکن ہے کہ اللہ تعالی کے لطف کا مورد توجہہ قرار پاسکے اور اس کے لئے کچھ مکاشفات حاصل ہوجائیں اور پہلے چالیسویں میں اس طرح توفیق حاصل نہ ہو تو مایوس نہیں ہونا چاہئے اور دوسرا چالیسواں حتمی اور کوشش سے شروع کردے او رجب تک نتیجہ حاصل نہ ہو اسے بجالاتے رہنا چاہئے تیسرا اورچوتھا اور جب تک نتیجہ حاصل نہ ہو اس دستور العمل پر عمل کرتے رہنا چاہئے اور کبھی کوشش اور عمل کرنے سے دست بردار نہیں ہونا چاہیئےس طریقے پر محنت کرے اور خداوند عالم کی ذات سے توفیق طلب کرے اور جب بھی قابلیت اور استعداد پیدا ہوگئی تو اللہ تعالی کے فیض کا محل قرار پاجائیگا اور اگر انسان ابتداء میں ان تمام دستورالعمل پر

۲۱۵

عمل کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو پھر ان میں تھوڑے سے دستور العمل پر عمل کرنا شروع کردے اور پھر آہستہ آہستہ ان میں اضافہ کرتا جائے لیکن ان میں سے اہم عمل غور اور فکر کرنا اور اپنے نفس پر کنٹرول اور حضور قلب اور خدا کی طرف توجہہ کرنا ہوتا ہے اور اہم یہ ہے کہ عارف کو اپنے نفس سے تصورات اور خیالات اور بیہودہ افکار اور غیر کو دور کرنا ہوتا ہے اور تمام کا تمام خدا کی طرف توجہہ ہو لیکن یہ کام بہت ہی مشکل اور سخت ہے خیالات کا دور کرنا تین مرحلوں میں انجام دیا جا سکتا ہے_

۱_ پہلے مرحلے میں کوشش کرے کہ پوری توجہہ صرف اسی ذکر پر ہو کہ جسے ادا کر رہا ہے اور دوسرے تمام خیالات کو اپنے سے دور رکھے اس کام کو اتنا زیادہ کرے کہ اپنے نفس پر پوری طرح کنٹرول کرلے اور اپنے سے دوسرے فکر رو کے رکھے_

۲_دوسرے مرحلے میں پہلے مرحلے والے کام میں مشغول رہے اور ساتھ ہی یہ کوشش بھی کرے کہ ذکر کو ادا کرتے وقت اس کے معانی اور مفہوم پر توجہہ کرے اور ان معانی کو ذہن پر جاری کرے اور دوسرے خیالات اور تصورات کے ہجوم و روکے رکھے اور اسی حالت میں ذکر کے معنی اور مفہوم کی طرف بھی پوری طرح متوجہ رہے_

۳_ تیسرے مرحلے میں کوشش کرے کہ معانی کو پہلے اپنی دل میں قرار دے اور جب دل نے معانی کو قبول کر لیا اور اس پر ایمان لے آیا تو پھر اس ذکر کو زبان پر جاری کرے کہ گویا زبان دل کی پیروی کر رہی ہے_

۴_ چوتھے مرحلے میں کوشش کرے کہ تمام خیالات اور تصورات اور معانی یہاں تک کہ ان کے تصوری مفہوم کو بھی دل سے دور کرے اور نفس کو اللہ تعالی کے فیوضات اور برکات کے نازل ہونے کے لئے آمادہ اور مہیا کرے اپنے تمام وجود کے ساتھ ذات الہی کی طرف متوجہہ رہے اور تمام غیر خدا کو دل سے دور کرے اور اشراقات اور افاضات سے استفادہ کرے اور اللہ تعالی کی توجہ سے سیر اور

۲۱۶

صعود کے کمال کے درجات طے کرنے لگے_ عارف انسان اس حالت میں ممکن ہے کہ اس طرح مستفرق ہوجائے کہ سوائے خدا کے اور کوئی چیز نہ دیکھے اور صرف خدا سے ہی مانوس ہوجائے_ ایسے افراد کو یہ کیفیت مبارک ہو بہت ہی بہتر ہے کہ اس موضوع کو اولیاء خدا کے سپرد کردیں کہ جنہوں نے ان مراحل اور ان طریقوں کو طے کیا ہوا ہے اور مقام شوق اور ذوق انس اور بقاء کا مزہ چکھا ہوا ہے_

امیر المومنین(ع) کا حکم

نوف کہتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ جلدی سے جا رہے تھے_ میں نے عرض کی _ اے مولای_ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا اے نوف مجھے میری حالت پر چھوڑ دے کیونکہ میری آرزو او رتمنا مجھے اپنے محبوب کی طرف لے جا رہی ہے _ میں نے عرض کی _ اے میری مولا_ آپ کی آرزو کیا ہے؟ آپ نے فرمایا_ وہ ذات جو میری آرزو کو جانے وہ جانتی ہے کہ میری آرزو کیا ہے اور دوسروں کو اس آرزو کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ؟ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ خدا کا بندہ اللہ تعالی کی نعمتوں اور حاجات میں کسی دوسرے کو شریک قرار نہ دے_

میں نے عرض کی_ یا امیرالمومنین میں خواہشات نفس اور دنیاوی امور کی طمع سے اپنے اوپر ڈرتا ہوں؟ آپ نے فرمایا کہ تم کیوں اس ذات سے جو خوف کرنے والوں اور عارفین کی حفاظت کرنے والی ہے سے غافل ہو؟ میں نے عرض کی کہ اس ذات کی مجھے نشاندہی فرمایئےآپ نے فرمایا کہ وہ خداوند عالم ہے کہ جس کے فضل اور کرم سے تو اپنی آرزو کو حاصل کرتا ہے_ تو ہمت کر کے اس کی طرف متوجہ رہ اور جو کچھ دل پر خیالات آتے ہیں انہیں باہر نکال دے اور اگر پھر تجھ پر یہ کام دشوار ہوا تو میں اس کا ضامن ہوں _ خدا کی طرف لوٹنے جا اور اپنی تمام توجہہ خدا کی طرف کر خداوند عالم فرماتا ہے کہ مجھے اپنی ذات اور جلال کی قسم کہ اس کی امید جو میرے سوا کسی دوسرے سے امید رکھتا ہو قطع کر

۲۱۷

دیتا ہوں اور اسے ذلت اور خواری کا لباس پہناتا ہوں اور اپنے قرب سے دور کر دیتا ہوں اور اس کا اپنے سے ربط توڑ دیتا ہوں اور اس کی یاد کو مخفی رکھتا ہوں_ ویل اور پھٹکار ہو اس پر کہ جو مشکلات میں میرے سوا کسی دوسرے سے پناہ لیتا ہے جب کہ تمام مشکلات کا حل کرنا میرے ہاتھ میں ہے_ کیا وہ میرے غیر سے امید رکھتا ہے جب کہ میں زندہ اور باقی ہوں_ کیا مشکلات کے حل کرنے میں میرے بندوں کے دروازے پر جاتا ہے جب کہ ان کا دروازہ بند ہے_ کیا میرے دروازہ کو چھوڑ رہا ہے جب کہ وہ کھلا ہوا ہے؟ کس نے مجھ سے امید رکھی ہو اور میں نے اسے نا امید کیا ہو؟

میں نے اپنے بندوں کی امیدوں کو اپنے ذمہ لیا ہوا ہے اور میں ان کی ان میں حفاظت کرتا ہوں میں نے آسمان کو ان سے پر کردیا ہے جو میری تسبیح کرنے سے تھکتے نہیں ہیں اور فرشتوں سے کہہ رکھا ہے کہ کسی وقت بھی میرے اور میرے بندوں کے درمیاں دروازہ بند نہ کریں_ جب کسی کو مشکل پیش آئے کیا وہ نہیں جانتا کہ میری اجازت کے بغیر کوئی بھی اس کی مشکل کو حل نہیں کر سکتا؟ کیوں بندہ اپنی ضرورات میں میری طرف رجوع نہیں کرتا جب کہ میں اسے وہ دیتا ہوں کہ جسے اس نے چاہا بھی نہیں ہوتا کیوں مجھ سے سوال نہیں کرتا اور میرے غیر سے سوال کرتا ہے؟ کیا تم یہ سوچ سکتے ہو کہ بغیر سوال کئے تو میں بندے کو دیتا ہوں اور جب وہ مجھ سے سوال کرے گا تو میں اسے نہیں دونگا؟ کیا میں بخیل ہوں کیا بندہ مجھے بخیل جانتا ہے؟ کیا دنیا اور آخرت میرے ہاتھ میں نہیں ہے؟ کیا جو داور سخا میری صفت نہیں ہے؟ کیا فضل اور رحمت میرے ہاتھ میں نہیں ہے؟ کیا تمام آرزوئیں میرے پاس نہیں آتیں؟ کون ہے جو انہیں قطع کرے گا؟ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم اگر تمام لوگوں کی خواہشات اور آرزوں کو زمین پر اکٹھا کردیں اور ہر ایک کو ان تمام کے برابر بھی دے دوں تو ذرہ بھر میرے ملک میں کمی واقع نہ ہوگی_ جو کچھ میری طرف سے دیا جاتا ہے وہ

۲۱۸

کس طرح نقصان والا ہوگا؟ کتنا بیچارہ اور فقیر ہے وہ شخص کہ جو میری رحمت سے نامید ہے؟ کتنا بیچارہ ہے وہ شخص جو میری نافرمانی کرتا ہے اور حرام کاموں کو بجا لاتا ہے اور میری عزت کی حفاظت نہیں کرتا اور طغیان کرتا ہے؟ امیر المومنین علیہ السلام نے اس کے بعد نوف سے فرمایا کہ اے نوف طغیان کرتا ہے؟ امیر المومنین علیہ السلام نے اس کے بعد نوف سے فرمایا کہ اے نوف یہ دعا پڑھنا_

''الهی ان حمدتک فبموا هبک، و ان مجدتک فبمرادک و ان قدستک فبقوتک و ان هللتک فبقدرتک، و ان نظرت فالی رحمتک، و ان غضصت فعلی یعقتک، الی انه من لم یشغله الو لوع بذکرک، و لم یزوه السفر بقربک، کانت حیاته علیه میتته علیه حسرة، الهی تناهت ابصارت رددون ما یریدون، هتکت بینک و بینهم حجت الغفلته ، فسکنوا فی نورک، تنقسؤا بروحک، فصارت قلوبهم مغارسا لهییتک و ابصارهم معا کفا لقدرتک و قربت ازواجهم من قدسک، فجالسؤا اسقک بوقار المجالسته، و خضوع المخاطبته، فاقبلت الیهم اقبال الشفیق، انصت لهم انصات الرفیق، واجبتهم اجابات الاحباء و انا جیتهم مناجاة الاخلائ، فبلغ بی المحل الذی الیه و صلوا، و انقلیی من ذکری الی ذکرک، و لا تترک بینی و بین ملکوت عزک بابا الافتحته، و لا حجابا من حجب الغفلته الا هتکته حتی تقیم روحی بین ضیاء عرشک، و تجقل لها مقاما نص نورک انک علی کل شی قدیر_

الهی ما اوحش طریقا لا یکون رفیقی فیه املی فیک ، و ابعد سفر الا یکون رجائی عنه دلیلی منک، خاب

۲۱۹

من اعتصم بحبل غیرک، وضعف رکن من استند الی غیر رکنک، فیا معلم موملیه الامل فیذهب عنهم کابته الوجل، یا تخرمنی صالح العمل، و اکلاء نی کلاة من فیارقته الحیل، فکیف یلحق موملیک ذل الفقر و انت الغنی، عن مضار المذنبین، الهی و ان کل حلاوة منقطعته، و حلاوة الایمان تزداد حلاوتها اتصالا بک، الهی و ان قلبی قد بسط امله فیک، فاذقه من حلاوة بسطل ایاه البلوغ لما امل، انک علی کل شیء قدیر_

الهی اسئلک مسئلته من یعرفک کنته معرفتک من کل خیر ینتبغی للمومن ان یسلکه، و اعوذ بک من کل شر و فتنته اعذت بها احباء ک خلقک، انک علی کل شیء قدیر_

الهی اسئلک مسلته المسکین الذی قد تحیر فی رجاه، فلا یجد ملجا و لا مسنداً یصل به الیک، و لا یستدل به علیک الا بک و باز کانک و مقامتک التی لا تعطیل لها مسنک، فاسئلک باسمک الذی طهرت به لخاصته اولیائک، فوحدوک، و اعرفوک فعبدوک بحقیقک ان تعرفنی نفسک لا قرلک بربوبیتک علی حقیقته الایمان بک و لا تجعلنی یا الهی من یعبد الاسم دون المعنی

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346