خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس0%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات:

صفحے: 346
مشاہدے: 100491
ڈاؤنلوڈ: 3515

تبصرے:

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 100491 / ڈاؤنلوڈ: 3515
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

لیکن اللہ کے خالص بندے جو کمالات اور خیرات کے مقامات تک پہنچ چکے ہیں اور اللہ تعالی کے بے نہایت کمال اور جمال کا مشاہدہ کرلیا ہے اور اللہ تعالی کے ذکر اور اس کی ذات کی محبت میں خوش ہیں اور کوئی غم اور غصہ نہیں رکھتے کیونکہ وہ جب خدا کو رکھتے ہیں تو سب چیزیں رکھتے ہیں دنیاوی امور سے لگاؤ نہیں لگا رکھا تا کہ ا ن کے نہ ہونے سے خوف اور ڈر رکھتے ہوں_ کمالات اور خیرات کے منبع اور مرکز سے دل لگا رکھا ہے اور خود بھی صاحب کمال ہیں_

امام حسین علیہ السلام عرفہ کی دعا میں فرماتے ہیں_ '' خدایا تیری ذات ہے کہ جس نے اجنبیوں کو اپنے اولیاء کے دلوں سے باہر نکال دیا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ تیرے سوا کسی کو دوست نہیںرکھتے اور تیرے غیر سے پناہ نہیں مانگتے وہ خوفناک مصائب میں تجھ سے انس اور محبت رکھتے ہیں اگر ان میں معرفت اور شناسائی حاصل ہوئی ہے تو وہ بھی تیری ہدایت کی وجہ سے ہے_ جو تجھے نہیں پاتا وہ کس چیز کو پاسکتا ہے؟ جو تجھے رکھتا ہو وہ کس چیز کو نہیں رکھتا؟ کتنا نقصان میں ہے وہ انسان جو تیرے عوض کسی دوسرے کو اختیار کرے؟ کتنا بدبخت ہے وہ انسان جو تیرے سوا کسی دوسرے کی طرف رجوع کرے_ کس طرح انسان کسی دوسرے سے امید رکھے جب کہ تیرے احسان اس سے قطع اور ختم نہیں ہوئے؟ کس طرح انسان اپنی حاجات کو دوسرے سے طلب کرے جب کہ تیرے احسان کرنے کی عادت نہیں بدلی؟(۳۷۶)

خلاصہ مقام ذکر اور شہود تک پہنچنے کی ایک علامت اور اثر انسان میں آرام اور سکون اور اطمینان قطب ہے اور سوائے خدا کے کوئی اور نہیں جو دل کی کشتی کو زندگی کی متلاطم امواج سے آرام اور سکون دے سکے_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ان کے دل اللہ تعالی کے ذکر سے آرام اور اطمینان میں ہیں اور یاد رکھو کہ دل کو تو صرف خدا کے ذکر سے ہی آرام اور اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے_(۳۷۷)

۲۰۱

خدا کی بندے کی طر توجہ _

جب بندہ خدا کو یاد کرتا ہے تو خدا بھی اس کے عوض بندے کو مورد عنایت اور توجہ قرار دیتا ہے_ یہ مطلب آیات اور روایات سے مستفاد ہوتا ہے_

خدا فرماتا ہے ''مجھے یاد کرو تا کہ میں تمہیں یاد کروں_(۳۷۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے فرمایا ہے_ اے ادم کے فرزند مجھے اپنے دل میں یاد کر تا کہ میں تجھے اپنے دل میں یاد کروں_ اے آدم کے فرزند مجھے خلوت اور تنہایی میں یاد کر تا کہ میں تجھے خلوت میں یاد کروں_ اے آدم زاد مجھے مجمع میں یاد کر تا کہ میں تیرے مجمع سے مجمع میں یاد کروں آپ نے فرمایا کہ جو انسان خدا کو لوگوں کے درمیان یاد کرے خدا اسے ملائکہ کے درمیان یاد کرتا ہے_(۳۷۹)

اللہ تعالی کا بندے کی طرف متوجہ ہونا اور لطف و کرم کرنا ایک اعتباری اور تشریفاتی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت اور واقعیت ہے اس کی دو میں سے ایک سے توجیہ کی جا سکتی ہے_

۱_ جب بندہ خدا کو یاد کرنا ہے تو اس کے ذریعے فیض الہی کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے خداوند عالم بھی اس پر کمال کو نازل کرتا ہے اور اس کے درجات کو بلند کر دیتا ہے_

۲_ جب اللہ تعالی کا ذکر کرنے والا انسان خدا کو یاد کرتا ہے تو وہ اللہ تعالی کی طرف حرکت کرتا ہے اور وہ اللہ تعالی کے لطف اور کرم کا مورد قرار پاتا ہے_ اسے خدا عالی مرتبہ کے لئے جلب اور جذب کر دیتا ہے اور اس کے دل کے کنٹرول کرنے کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے_

پیغمبر گرامی نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم فرماتا ہے کہ جب میں بندے کو اپنے میں مشغول اور متوجہ پاتا ہوں تو اسے سوال اور مناجات کرنے کا علاقمند بنا دیتا ہوں اور اگر بھی اس پر غفلت طاری ہو جائے تو اس کے عارض ہونے سے رکاوٹ کھڑی کر دیتا

۲۰۲

ہوں_ یہ یندے میرے حقیقی اولیاء ہیں یہ واقعی بہادر اور شجاع ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر میں چاہتا ہوں کہ زمین والوں کو ہلاک کردں تو ان کے وجود کی برکت سے زمین والوں سے عذاب کو دور کردیتاہوں_(۳۸۰)

خلاصہ خدا کو اپنی بندے کی طرف توجہہ کرنا ایک اعتباری اور تشریفاتی کام نہیں ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت ہے جو ان دو میں سے ایک توجیہہ کی جا سکتی ہے اگر چہ دونوں کو بھی اکٹھا کیا جا سکتا ہے_

خدا کا بندے سے محبت کرنا_

ذکر خدا کی آثار میں سے ایک اثر اور علامت خدا کا ایسے بندے سے محبت کا ہو جانا ہوتا ہے_ آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بندہ خدا کی یاد میں ہو اور خدا اور اس کے پیغمبر علیہ السلام کے احکام پر عمل کرنے والا ہو تو خدا بھی اس کے عوض ایسے بندے کو دوست رکھتا ہے_ خدا قرآن میں فرماتا ہے '' اے لوگو اگر واقعاً خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تا کہ خدا بھی تمہیں دوست رکھے_(۳۸۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے پیغمبر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ '' جو شخص اللہ تعالی کا بہت زیادہ ذکر کرے تو وہ اللہ تعالی کا مورد محبت قرار پائیگا_ جو شخص اللہ تعالی کی یاد میں بہت زیادہ ہو گا اس کے لئے دو برات کے نامے لکھ دیئے جائیں گے ایک دوزخ سے برات اور دوسرے نفاق سے برات_(۳۸۲)

اللہ تعالی کی بندے سے محبت کوئی اعتبار اور تشریفاتی امر نہیں ہوتا اور یہ اس معنی میں بھی نہیں ہوتی جو محبت بندے کو خدا سے ہوتی ہے_ انسان میں محبت کے ہونے کے معنی اس کا کسی چیز سے کہ جس کا وہ محتاج ہے ولی لگاؤ اور علاقمندی ہوا کرتی ہے لیکن خدا کے محبت کرنے کے ایسے معنی مراد نہیں ہوا کرتے اور نہ ہی اللہ تعالی میں یہ معنی صحیح ہے_ خدا کے محبت کرنے کی یوں وضاحت کی جائے کہ خدا بندے پر اپنا لطف و کرم زیادہ کرتا ہے اور اسے عبادت اور توجہہ اور اخلاص کی زیادہ توفیق

۲۰۳

عنایت فرماتا ہے ک جس ذریعے کمالات اور قرب کے درجات کی طرف اسے جذب اور جلب کرتا ہے اور چونکہ خدا اپنے بندے کو دوست رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ راز اور نیاز کو سنے تو اسے دعا نماز ذکر اور مناجات کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے اور چونکہ اس کے تقرب کو دوست رکھتا ہے تو اس کے لئے کمال تک رسائی کا وسیلہ فراہم کر دیتا ہے خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ خدا اپنے بندے کو دوست رکھتا ہے لہذا اس کے دل کو اپنے کنٹرول میں لے لیتا ہے اور توفیق دیتا ہے کہ وہ بہتر اور سریع تر اس کے مقام قرب کی طرف حرکت کرے_

اہم اثر:

اس مقام ذکر میں اس کے حاصل کرنیوالے کو بہت عالی فوائد حاصل ہو جاتے ہیں کہ جن کے بیان کرنے کے لئے قلم اور زبان عاجز اور ناتوان ہے اور سوائے اس مقام تک پہنچنے والوں کے اور کوئی بھی اس سے مطلع نہیں ہو سکتا_

عارف اپنے نفس کے صاف اور پاک اور اپنے باطن کو تصفیہ کرنے عبادت اور ریاضت تفکر اور دائمی ذکر کرنے کے ذریعے اسے ایسے مقام تک پہنچتا ہے کہ وہ اپنی باطنی آنکھ اور کان کے ذریعے حقائق اور واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے اور انہیں سنتا ہے کہ جو ظاہری آنکھ اور کان کے ذریعے دیکھنے اور سننے کے قابل نہیں ہوتے_ کبھی کبھی وہ موجودات کی تسبیح اور تقدیس بلکہ ملائکہ کی تسبیح کو بھی سنتا ہے اور ان کے ساتھ ہم آواز ہو جاتا ہے جب کہ وہ اسی دنیا میں زندگی کر رہا ہوتا ہے اور دنیا کے لوگوں کے ساتھ معاشرت کر رہا ہو تا ہے لیکن اپنے اندر میں ایک اعلی نقطہ کو دیکھتا ہے اور کسی دوسرے جہان میں اس طرح زندگی کر رہا ہوتا ہے کہ گویا وہ اس جہان میں زندہ نہیں ہے دوسرے جہان کی دوزخ اور بہشت کا مشاہدہ کرتا ہے_ اور نیک اور صالح افراد اور فرشتوں سے ربط رکھتا ہے_ دوسرے جہان سے مانوس اور دوسری طرح کی نعمتوں کو پا رہا ہے لیکن وہ ان چیزوں کے بارے میں غالباً کسی سے ذکر نہیں کرتا کیونکہ

۲۰۴

اس طرح کے افراد راز کو چھپانے والے ہوتے ہیں اور اس طرح کی شہرت کو پسند نہیں کرتے_

عارف کے قلب پر علوم اور معارف وارد ہوتے ہیں اور بعض ایسے کشف اور شہود رکھتا ہے جو متعارف علوم جیسے نہیں ہوتے_ عارف ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ تمام چیزوں سے یہاں تک کہ اپنے نفس سے بھی غافل ہوتا ہے اور سوائے ذات الہی کے اسماء اور صفات کے اور کسی طرف متوجہ نہیں ہوتا اللہ تعالی کی ذات کو ہر جگہ حاضر اور ناظر دیکھتا ہے کہ خود اس نے فرمایا کہ وہی اول ہے اور وہی آخر ہے اور وہی ظاہر ہے اور وہی باطن ہے_ ہو الاول و الاخر و الظاہر و الباطن_

تمام دنیا کو اللہ تعالی کی صفات کا مظہر اور تمام کمال اور جمال کو اسی ذلت سے جانتا ہے_

تمام دنیا کو اللہ کی صفات کا مظہر اور تمام کمال اور جمال کو اسی ذات سے جانتا ہے _ تمام موجودات کو ذات کے لحاظ سے فقیر اور محتاج سمجھتا ہے اور صرف غنی مطلق بے نیاز اللہ تعالی کی ذات کو دیکھتا ہے_ اور ذات الہی کے جمال اور کمال مطلق کے مشاہدے میں غرق رہتا ہے_ اور یہ بھی معلوم رہے کہ خود مقام فناء کے کئی درجات اور مقامات ہیں کہ بہتر یہی ہے کہ یہ مولف ان سے محروم ان مقامات کے بیان کرنے سے احتراز ہی کرے_ خدا ان کو مبارک کرے جو ان مقامات کے اہل ہیں_

۲۰۵

پہنچنے کے راستے

ایمان کے کامل کرنے اور مقام ذکر اور شہود تک پہنچنے کے لئے مندرجہ ذیل امور سے استفادہ کیا جا سکتا ہے_

۱_ فکر اور دلیل

وہ دلائل اور استدلالات جو توحید اور وجود خدا کے ثابت کرنے کے لئے لائے جاتے ہیں وہ ایمان کو کامل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں یا وہ دلیلیں جو فلسفہ اور علم کلام اور علم عرفان کی کتابوں میں بیان کی گئی ہیں ان سے ثابت کیا جاتا ہے کہ تمام موجودات عالم ذات کے لحاظ سے محتاج اور فقیر بلکہ عین احتیاج اور فقر ہیں وہ اپنے وجود کو باقی رکھنے میں اور تمام افعال اور حرکات میں ایک ایسی ذات کے محتاج ہیں جو بے نیاز اور غنی ہو بلکہ اسی ذات سے ان کا ربط اور اتصال ہے_ تمام موجودات عالم محتاج اور محدود ہیں صرف ایک ذات ہے جو اپنے وجود میں مستفنی بالذات ہے اور کمال غیر متناہی رکھتی ہے اور وہ ذات واجب الوجود ہے کہ جس میں کوئی نقص اور احتیاج نہیں اور اسکے وجود میں کوئی احتیاج نہیں ہے_ وہ ذات تمام کمالات کی مالک ہے_ اس کے علم اور قدرت اور حیات اورتمام کمالات کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے ہر جگہ حاضر اور ناظر ہے اور کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے_ تمام موجودات سے نزدیک ہے یہاں تک کہ وہ شاہ رگ سے خود انسان سے زیادہ نزدیک ہے_ بہت سی آیات اور احادیث خدا کی انہی صفات کو بیان کرتی ہیں_

۲۰۶

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' مشرق اور مغرب خدا کی ملکیت ہے پس تم جس طرف توجہ کرو گے خدا وہاں موجود ہے_(۳۸۳) نیز خدا فرماتا ہے کہ '' خدا تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو اور تمہارے کاموں کو جانتا ہے اور ان سے باخبر ہے_(۳۸۴)

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' ہم انسان سے اس کی شاہ رگ سے زیادہ نزدیک ہیں_(۳۸۵)

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' خدا ہر چیز کو دیکھنے والا اور حاضر ہے_(۳۸۶)

خدا کے پہچاننے میں غور اور فکر کرنا انسان کو کفر کی تاریکی سے نکال کر خدا پر ایمان لے آنے کی طرف لے جاتا ہے اور تکامل اور کمال تک پہنچنے کا راستہ کھول دیتا ہے اور عمل کی طرف جو ایمان کا لازمہ ہے دعوت دیتا ہے_

۲_ آیات ا لہی میں غور کرنا

خدا اس دنیا کی ہر ایک چیز کو خدا کی نشانی قرار دیتا ہے_ خدا متعدد آیات میں تاکید فرماتا ہے کہ خدا کی نشانیوں اور آیات میں خوب غور اور فکر کرو تا کہ ان کی رعنائیوں اور حسن سے اور ان کے نظم اور حساب سے ہونے کیوجہ سے جو تمام عالم پر برقرار ہے ایک دانا اور قادر اور علیم اور حکیم خدا کو معلوم کرلوگے_ انسان سے اس کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی خلقت اور وہ اسرار اور رموز اور حیرت انگیز قدرت جو اس کے جسم اور روح میں رکھ دیئے گئے ہیں اور اسی طرح مختلف زبانوں اور رنگوں اور شکلوں اور ہمسر کے وجود کو خوب غور سے سوچو اور فکر کرو_ اسی طرح انسان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سورج اور ستاروں کی خلقت اور ان کی منظم حرکت اور حسن اور زیبائی میں غور اور فکر کرے اسی طرح انسان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ زمین اور پہاڑوں اور درخت نباتات اور مختلف سمندری اور خشکی کے حیوانات میں غور اور فکر کرے_ قرآن مجید میں اس طرح کے مطالبے کے بہت سے نمونوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بہت ہی صحیح اور درست ہے کہ یہ جہان حسن اور تعجب میں ڈالنے والی چیزوں سے ہے_ جس شی کو دیکھیں اس میں سینکڑوں مصلحتیں تعجب آور موجود ہیں_ سورج ستارے کہکشاں بادل حیرت انگیز ایٹم زمین آسمان، پہاڑ، درخت، نباتات، مختلف دریائی اور خشکی کے حیوانات معدنیات، سمندر دریا، بڑے بڑے جنگل، چھوٹے بڑے، درخت

۲۰۷

اور نباتات، بڑے حیوانات، ہاتھی، اونٹ یہاں تک کہ چیونٹیوں اور مچھر بلکہ حیوانات جو دور بین سے دیکھے جاتے ہیں جیسے ویرس اور جراثیم و غیرہ انسان ان کی زیبائی اور ظرافت کو جب مشاہدے کرے اور موجودات جہاں میں جو رموز اور مصالح، ہیں اور اس جہاں کے نظم اور ضبط اور اس میں ربط اور اتصال کو جو ان پر حاکم ہے دیکھے تو ان تمام چیزوں سے ایک ایسے خالق اور پیدا کرنے والے کا جو عظیم اور صاحب قدرت اور بے انتہا علم اور حکمت رکھنے والا ہے کا علم پیدا کریگا_ اور حیرت اور تعجب میں غرق ہوجائیگا او ر تہ دل سے کہے گا اے میرے رب تو نے ان چیزوں کو بیہودہ اور لغعو پیدا نہیں کیا_ ربنا ما خلقت ہدا باطلا_ آسمان کو جو ستاروں سے اوپر ہے اسے دیکھے اور ان میں خوب غور اور فکر کرے جنگل کے پاس بیٹھ جائے اور اللہ تعالی کی عظمت اور قدت کا نظارہ کرے کہ کتنا عمدہ اور زیبا اور خوشمنا جہان ہے_

۳_ عبادت

ایمان اور معرفت کے بعد انسان کو نیک اعمال اور اپنے فرائض کے بجالانے میں سعی اور کوشش کرنی چاہئے اس واسطے کے عمل کے ذریعے ہی ایمان کامل سے کاملتر ہوتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے قرب کے مقام تک پہنچتا ہے_ یہ صحیح ہے کہ ایمان اور معرفت اور توحید بلندی کی طرف لے جاتی ہے لیکن نیک عمل اس میں اس کی مدد کرتے ہیں_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جو شخص عزت چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ تمام عزت خدا کے ہاں ہوتی ہے توحید کا نیک کلمہ خدا کیطرف جاتا ہے اور نیک عمل اسے اوپر لے جاتا ہے_(۳۸۷) نیک عمل کی نسبت ایمان اور معرفت کے لئے پٹرول کی ہے جو ہوائی جہاز میں ڈالا جاتا ہے جب تک ہوائی جہاز میں پٹرول ہو گا وہ بلندی کی طرف پرواز کرتا جائیگا اور جب بھی اس کا پٹرول ختم ہوجائیگا وہ تمام کا تمام گر جائیگا اسی طرح ایمان اور معرفت جب تک اس کے ساتھ نیک عمل انجام پاتا رہے گا وہ انسان کو اعلی مقامات کی طرف لے جاتا رہے گا لیکن جب اس کی نیک عمل مدد کرنا چھوڑ دے گا ایمان ختم ہوجائیگا_ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' اپنے پروردگار کی عبادت کرتا کہ تجھے یقیقن کا مقام حاصل ہوجائے_(۳۸۸)

۲۰۸

نفس کی تکمیل اور اس کی تربیت اور مقام یقین تک پہنچنے کا تنہا ایک راستہ ہے اور وہ ہے خدا کی عبادت اور بندگی اور اپنے فرائض کی بجا آوری_ اگر کوئی خیال کرے کہ عبادت کے علاوہ کسی اور راستے سے اعلی مقامات پر فائز ہو سکتا ہے تو وہ بہت ہی سخت اشتباہ کر رہا ہے_

انشاء اللہ بعد میں نیک عمل کے متعلق بھی بحث کریں گے_

۴_ اذکار اور دعائیں_

اسلام دعاؤں کے ہمیشہ پڑھنے رہنے کو بہت اہمیت دیتا ہے_ اذکار اور دعائیں پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ان کے پڑھنے پر ثواب بھی بتلائے گئے ہیں_ ذکر اذکار در حقیقت عبادت کی ایک قسم ہے جو نفس کی تکمیل اور قرب الہی کا سبب ہوتے ہے جیسے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' پانچ چیزیں ہیں جو انسان کے میزان عمل کو بھاری کر دیتی ہیں_ سبحان اللہ _ الحمد اللہ اور لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر اور نیک بیٹے کی موت پر صبر کرنا_(۳۸۹)

آپ(ص) نے فرمایا کہ '' جب مجھے معراج پر لے جایا گیا اور میں بہشت میں داخل ہوا تو میں نے ملائکہ کو دیکھا کہ وہ سونے چاندی کا محل بنانے میں مشغول تھے لیکن کبھی کام کرنا چھوڑ دیتے تھے اور کبھی کام کرنا شروع کر دیتے تھے_ میں نے ان سے کہا کہ کیوں کام کرنے لگ جاتے ہو اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہو؟ انہوں نے کہا جب محل تعمیر کرنے کا میٹریل آجاتا ہے تو کام کرتے ہیں اور جب وہ ختم ہو جاتا ہے تو کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں_ میں نے پوچھا کہ تمہارے کام کرنے میٹریل کونسا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ و الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ہے_

جب مومن دنیا میں یہ ذکر کرتا رہتا ہے ہمیں میٹریل ملتا رہتا ہے اور ہم بھی کام کرتے رہتے ہیں اور جب وہ اس ذکر سے غافل ہوجاتا ہے اور اسے پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو ہم بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں_(۳۹۰)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص سبحان اللہ کہے تو اس کے لئے بہشت میں ایک درخت لگا دیا جاتا ہے اور جو شخص الحمد اللہ کہے تو خدا

۲۰۹

اس کے لئے بہشت میں درخت لگا دیتا ہے اور جو شخص لا الہ الا اللہ کہے اس کے لئے خدا بہشت میں درخت لگا دیتا ہے_ اس وقت قریشی مرد نے عرض کی _ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پھر تو ہمارے لئے بہشت میں بہت ہی درخت ہونگے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں اسی طرح ہی ہوگا لیکن خیال رکھنا کہ کوئی آگ نہ بھیجنا کہ جو ان درختوں کو جلا دے کیونکہ خداوند قرآن میں فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو تم خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو_(۳۹۱)

جو کلام بھی انسان کو خدا کی یاد دلائے اور اس میں اللہ تعالی کی تعریف اور تسبیح اور تمجید ہو تو وہ کلام ذکر کہلائیگا لیکن احادیث میں خاص خاص دعاؤں اور اذکار کا ذکر ہوا ہے اور ان کے پڑھنے کے اثرات اور ثواب بھی بتلایا گیا ہے کہ جن میں سے زیادہ اہم لا الہ الا اللہ سبحان اللہ _ الحمد اللہ _ اللہ اکبر_ لا حول و لا قوة الا باللہ_ حسبنا اللہ و نعم الوکیل _ لا الہ الا اللہ سبحانک انی کنت من الظالمین_ یا حی یا قیوم یا من لا الہ الا انت افوض امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد_ لا حول و لا قوة الا باللہ العلی العظیم _ یا اللہ_ یا رب_ یا رحمن_ یا ارحم الراحمین_ یا ذالجلال و الاکرام_ یا غنی یا مغنی اسی طرح اور دوسرے اسماء حسنی کے جو دعاوں اور احادیث میں نقل ہوئے ہیں_ یہ تمام کے تمام ذکر ہیں اور انسان کو خدا کی یاد دلاتے ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں تقرب کا وسیلہ بنتے ہیں_ اللہ کی طرف رجوع کرنے والا انسان ان میں سے کسی ایک کو انتخاب کر کے اسے ہمیشہ پڑھتا رہے لیکن بعض اہل معرفت ان میں سے بعض کو ترجیح دیتے ہیں_ بعض لا الہ الا اللہ کے پڑھنے کی سفارش کرتے ہیں اور دوسرے بعض نے سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر کو انتخاب کیا ہے اور بعض نے دوسرے بعض کلمات کو ترجیح دی ہے لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب پر لا الہ الا اللہ ترجیح رکھتا ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بہترین عبادت لا الہ الا اللہ کہا ہے_(۳۹۲)

آپ(ص) نے فرمایا کہ '' لا الہ الا اللہ اذکار کا سردار اور ان سے بڑا ہے_(۳۹۳)

۲۱۰

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جبرائیل(ع) سے نقل کیا ہے کہ '' خداوند عالم فرماتا ہے کہ لا الہ الا اللہ کا کلمہ میری پناہ گاہ اور قلعہ ہے جو اس میں داخل ہوجائے وہ عذاب دیئے جانے سے امان میں ہوگا_(۳۹۴)

لیکن ذکر کرنے کی غرض اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنا ہوتا ہے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ جو کلام بھی اللہ تعالی کی طرف زیادہ توجہہ دلائے اس کا ذکر کرنا زیادہ مناسب ہوگا_ حالات اور افراد اور مقامات مختلف ہوتے ہیں_ لہذا ہو سکتا ہے کہ یا اللہ کا کلمہ بعض افراد کے لئے یا بعض حالات میں زیادہ مناسب افراد کے لئے لا الہ الا اللہ کا کلمہ اور دوسرے بعض افراد کے لئے یا غفار یا ستار مناسب ہو اسی طرح دوسرے اذکار_ اسلئے اگر کوئی انسان کسی استاد یا کامل مربی تک رسائل رکھتا ہو تو اس کے لئے بہتر ہے کہ و اس سے مدد طلب کرے اور اگر اسے کسی تک رسائی نہ ہو تو وہ دعاؤں اور احادیث کی کتابوں اور پیغمبر اکرم اور ائمہ علیہم السلام کے فرامین سے استفادہ کرے تمام اذکار اور عبادات اچھی ہیں جب کہ ان کو صحیح بجا لایا جائے تو وہ ان کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کر سکتا ہے اور مقامات عالیہ تک رسائل حاصل کر لے گا_ انسان ان تمام سے یا ان میں سے بعض سے استفادہ کر سکتا ہے لیکن مشائخ اور ماہرین استادوں نے مقام ذکر اور شہود تک پہنچے کے لئے بعض مخصوص اذکار کا انتخاب کیا ہوا ہے کہ جنہیں خاص کیفیت اور خاص عدد کے ساتھ ہمیشہ پڑھنے رہنے کی سفارش کی ہے تا کہ وہ اس مقصد کو حاصل کر سکے_

لیکن اس نقطہ کی طرف بہت زیادہ توجہہ دینے کی ضرورت ہے کہ جو دعائیں اور اذکار شرعیت میں وارد ہوئی ہیں گرچہ سب عبادت ہیں اور اجمالا تقرب کا موجب بھی ہوتی ہیں لیکن ان کی اصلی غرض غیر خدا سے بالکل اور کامل طور سے قطع قطع کرنا اور حضور قلب سے ذات الہی کی طرف توجہ کرنا ہے_ لہذا ہمیں صرف اذکار کے الفاظ کے تکرار پر ہی اکتفاء کرنی چاہیئے اور نہ ہی اصلی ا علی غرض و غایت اور معنی کی طرف توجہہ کرنے سے غافل ہو جائیں کیونکہ الفاظ کا تکرار بلکہ انہیں ہمیشہ پڑھتے رہنا اتنا مشکل نہیں ہے اس واسطے کہ الفاظ کے ذکر کرتے وقت کئی قسم کے افکار اور مختلف

۲۱۱

طرح کے خیالات انسان پر ہجوم کرتے رہتے ہیں اور اسے خدا کی یاد سے غافل کر دیتے ہیں اور جب تک خیالات اور افکار کو دور نہیں کیا جاتا اس وقت تک نفس افاضات اور اشراقات الہی کے قبول کرنے کی لیاقت پیدا نہیں کر سکتا_

صرف یہی کام انسان کو اصلی غرض تک نہیں پہنچا سکتا وہ جو مفید اور فائدہ مند ہے وہ ذات الہی کی طرف حضور قلب اور خیالات کا دور کرنا اور فکر کا ایک مرکز پر برقرار رکھنا ہوتا ہے اور یہ کام بہت زیادہ مشکل ہے اس واسطے کہ ذکر کرتے وقت کئی طرح کے فکر اور مختلف خیالات انسان پر ہجوم اور ہوتے ہیں اور اس کو خدا کی یاد سے غافل کر دیتے ہیں اور جب تک دل سے خیالات کو دور نہ کرے اس وقت تک انسانی نفس اللہ تعالی کے فیض اور اشراق کی لیاقت پیدا نہیں کرتا وہ دل اللہ تعالی کے انوار کا محل بنتا ہے کہ جو اغیار سے خالی ہو_ خیالات کا دور کرنا اور فکر کو ایک جگہ جمع کرنا ایک حتمی ارادے اور جہاد اور محافظ اور پائیداری کا محتاج ہوتا ہے اور اس طرح نہیں ہوتا کہ ایک دفعہ بغیر کسی ممارست اور دوام کے ایسا ممکن ہو جائے نفس کے ساتھ نرمی بر تنی چاہئے اور آہستہ آہستہ اسے اس کی عادت دی جانی چاہئے_

۲۱۲

وظائف اور دستور

بعض عرفاء نے اس راستے کو طے کرنے کے لئے مندرجہ ذیل امور کے بجالانے کی سفارش کی ہے_

۱_ اس مقام کے طالب کو سب سے پہلے توبہ کے ذریے اپنے نفس کو گناہوں اور باطنی گندگیوں اور برے اخلاق سے پاک اور صاف کرنا چاہئے پہلے توبہ کی نیت سے غسل کرے اور غسل کی حالت میں اپنے گناہوں اور باطنی کثافتوں کو دل میں لائے اور اللہ تعالی سے عرض کرے اے خالق_ میں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے اور تیری طرف لوٹ آیا ہوں اور ارادہ کر لیا ہے کہ پھر سے گناہ نہیں کروں گا جیسے میں اپنے جسم کو پانی سے پاک کرتا ہوں اپنے دل کو گناہوں اور برے اخلاق سے پاک کر رہا ہوں_

۲_ اپنے آپ کو ہر حالت اور ہر وقت خدا کے سامنے دیکھے اور کوشش کرے کہ تمام حالات میں خدا کی یاد میں رہے اور اگر غفلت طاری ہو جائے تو فوراً لوٹ آئے_

۳_ اپنے آپ پر اچھی طرح کنٹرول کرے تا کہ وہ پھر گناہ کو بجا نہ لائے_ اس خاص وقت دن اور رات میں نفس کے محاسبے کے لئے معین کردے اور پوری وقت سے دن اور رات کے اعمال کا حساب کرے اور اپنے نفس کو مورد مواخذہ

۲۱۳

قرار دے_

۴_ سوائے ضرورت کے چپ رہے اور زیادہ کلام نہ کرے_

۵_ صرف ضرورت جتنی غذا کھائے اور زیادہ کھانے سے پرہیز کرے_

۶_ ہمیشہ با وضو رہے اور جس وقت وضوء باطل ہوجائے فوراً وضو کرلے_ روسل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ '' خداوند عالم فرماتا ہے کہ جو شخص وضو کے باطل ہوجانے کے بعد دوبارہ وضو نہ کرے اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور جو شخص وضو کرنے کے بعد دو رکعت نماز نہ پڑھے اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور اگر کوئی انسان پڑھے اورنماز کے بعد دنیا اور آخرت کے لئے دعا کرے اور میں اسے قبول نہ کروں تو میں نے اس پر ظلم کیا ہے لیکن میں ظلم کرنے والا خدا نہیں ہوں_(۳۹۵)

۷_ دن اور رات میں ایک خاص وقت اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کے لئے مخصوص کردے اور اگر یہ رات میں بالخصوص سحری کے وقت ہو تو بہتر ہے خلوت اور تنہائی میں بیٹھ جائے اور اپنے سرکو زانوں میں رکھے اور تمام حواس کو اپنے آپ میں سموئے اور غلط خیالات اور افکار کو روکے_ ایک مدت تک اس عمل کو بجالائے اس عمل سے تجھ کچھ مکاشفات حاصل ہونگے_

۸_یا حی یا قیوم اور یا من لا اله الا انت کے ذکر کو اپنی زبان کو ورد قرار دے اور حضور قلب سے ہمیشہ اس کا تکرار کرے_

۹_ دن اور رات میں ایک طویل سجدہ بجالائے اور جتنا ہوسکتا ہے حضور قلب سے اس ذکر کا اس میں تکرار کرے_لا اله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین _ اس سجدہ کو طولانی بجالانا مجرب ہے اور اچھے اثرات رکھتا ہے_ بعض عرفا سے نقل ہوا ہے کہ وہ اس ذکر کو چار ہزار دفعہ پڑھا کرتا تھا_

۱۰_ دن اور رات میں ایک خاص وقت کو معین کر کے اس ذکر یا غنی یا مغنی کو کئی

۲۱۴

بار پڑھے_

۱۱_ ہر روز حضور قلب سے کچھ مقدار قرآن مجید پڑھے اور آیات کے معانی میں غور اور فکر کرے اور اگر کھڑے ہو کر یڑھے تو بہتر ہے_ _

۱۲_ سحری کے وقت بیدار ہو اور وضو کرے اور خلوت اور تنہائی کی جگہ میں حضور قلب سے نماز تہجد پڑھے اور وتر نماز کے قنوت کو طویل کرے اور اپنے اور مومنین کے لئے مغفرت کو طلب کرے تہجد کی نماز کے بعد آیت سخرہ کو ستر دفعہ پڑھے یقین حاصل کرنے اور خیالات دور ہونے کے لئے مفید اور مجرب ہے_ آیت سخرہ یہ ہے ''ان ربکم الله الذی خلق السموات و الارض فی سته ایام ثم استوی علی العرش یغشی اللیل النهار یطلبه حثیثا و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بامره الا له الخلق و الامر تبارک الله رب العالمین ادعوا ربکم تضرعا و خفیة انه لا یحب المعتدرین و لاتفسدوا فی الارض بعد اصلاحها و ادعوه خوفا و طمعا ان رحمة الله قریب من المسحنین (۳۹۶) نتیجہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ چالیس شب و روز تک ان دستورات اور وظائف پر عمل کرے ممکن ہے کہ اللہ تعالی کے لطف کا مورد توجہہ قرار پاسکے اور اس کے لئے کچھ مکاشفات حاصل ہوجائیں اور پہلے چالیسویں میں اس طرح توفیق حاصل نہ ہو تو مایوس نہیں ہونا چاہئے اور دوسرا چالیسواں حتمی اور کوشش سے شروع کردے او رجب تک نتیجہ حاصل نہ ہو اسے بجالاتے رہنا چاہئے تیسرا اورچوتھا اور جب تک نتیجہ حاصل نہ ہو اس دستور العمل پر عمل کرتے رہنا چاہئے اور کبھی کوشش اور عمل کرنے سے دست بردار نہیں ہونا چاہیئےس طریقے پر محنت کرے اور خداوند عالم کی ذات سے توفیق طلب کرے اور جب بھی قابلیت اور استعداد پیدا ہوگئی تو اللہ تعالی کے فیض کا محل قرار پاجائیگا اور اگر انسان ابتداء میں ان تمام دستورالعمل پر

۲۱۵

عمل کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو پھر ان میں تھوڑے سے دستور العمل پر عمل کرنا شروع کردے اور پھر آہستہ آہستہ ان میں اضافہ کرتا جائے لیکن ان میں سے اہم عمل غور اور فکر کرنا اور اپنے نفس پر کنٹرول اور حضور قلب اور خدا کی طرف توجہہ کرنا ہوتا ہے اور اہم یہ ہے کہ عارف کو اپنے نفس سے تصورات اور خیالات اور بیہودہ افکار اور غیر کو دور کرنا ہوتا ہے اور تمام کا تمام خدا کی طرف توجہہ ہو لیکن یہ کام بہت ہی مشکل اور سخت ہے خیالات کا دور کرنا تین مرحلوں میں انجام دیا جا سکتا ہے_

۱_ پہلے مرحلے میں کوشش کرے کہ پوری توجہہ صرف اسی ذکر پر ہو کہ جسے ادا کر رہا ہے اور دوسرے تمام خیالات کو اپنے سے دور رکھے اس کام کو اتنا زیادہ کرے کہ اپنے نفس پر پوری طرح کنٹرول کرلے اور اپنے سے دوسرے فکر رو کے رکھے_

۲_دوسرے مرحلے میں پہلے مرحلے والے کام میں مشغول رہے اور ساتھ ہی یہ کوشش بھی کرے کہ ذکر کو ادا کرتے وقت اس کے معانی اور مفہوم پر توجہہ کرے اور ان معانی کو ذہن پر جاری کرے اور دوسرے خیالات اور تصورات کے ہجوم و روکے رکھے اور اسی حالت میں ذکر کے معنی اور مفہوم کی طرف بھی پوری طرح متوجہ رہے_

۳_ تیسرے مرحلے میں کوشش کرے کہ معانی کو پہلے اپنی دل میں قرار دے اور جب دل نے معانی کو قبول کر لیا اور اس پر ایمان لے آیا تو پھر اس ذکر کو زبان پر جاری کرے کہ گویا زبان دل کی پیروی کر رہی ہے_

۴_ چوتھے مرحلے میں کوشش کرے کہ تمام خیالات اور تصورات اور معانی یہاں تک کہ ان کے تصوری مفہوم کو بھی دل سے دور کرے اور نفس کو اللہ تعالی کے فیوضات اور برکات کے نازل ہونے کے لئے آمادہ اور مہیا کرے اپنے تمام وجود کے ساتھ ذات الہی کی طرف متوجہہ رہے اور تمام غیر خدا کو دل سے دور کرے اور اشراقات اور افاضات سے استفادہ کرے اور اللہ تعالی کی توجہ سے سیر اور

۲۱۶

صعود کے کمال کے درجات طے کرنے لگے_ عارف انسان اس حالت میں ممکن ہے کہ اس طرح مستفرق ہوجائے کہ سوائے خدا کے اور کوئی چیز نہ دیکھے اور صرف خدا سے ہی مانوس ہوجائے_ ایسے افراد کو یہ کیفیت مبارک ہو بہت ہی بہتر ہے کہ اس موضوع کو اولیاء خدا کے سپرد کردیں کہ جنہوں نے ان مراحل اور ان طریقوں کو طے کیا ہوا ہے اور مقام شوق اور ذوق انس اور بقاء کا مزہ چکھا ہوا ہے_

امیر المومنین(ع) کا حکم

نوف کہتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ جلدی سے جا رہے تھے_ میں نے عرض کی _ اے مولای_ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا اے نوف مجھے میری حالت پر چھوڑ دے کیونکہ میری آرزو او رتمنا مجھے اپنے محبوب کی طرف لے جا رہی ہے _ میں نے عرض کی _ اے میری مولا_ آپ کی آرزو کیا ہے؟ آپ نے فرمایا_ وہ ذات جو میری آرزو کو جانے وہ جانتی ہے کہ میری آرزو کیا ہے اور دوسروں کو اس آرزو کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ؟ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ خدا کا بندہ اللہ تعالی کی نعمتوں اور حاجات میں کسی دوسرے کو شریک قرار نہ دے_

میں نے عرض کی_ یا امیرالمومنین میں خواہشات نفس اور دنیاوی امور کی طمع سے اپنے اوپر ڈرتا ہوں؟ آپ نے فرمایا کہ تم کیوں اس ذات سے جو خوف کرنے والوں اور عارفین کی حفاظت کرنے والی ہے سے غافل ہو؟ میں نے عرض کی کہ اس ذات کی مجھے نشاندہی فرمایئےآپ نے فرمایا کہ وہ خداوند عالم ہے کہ جس کے فضل اور کرم سے تو اپنی آرزو کو حاصل کرتا ہے_ تو ہمت کر کے اس کی طرف متوجہ رہ اور جو کچھ دل پر خیالات آتے ہیں انہیں باہر نکال دے اور اگر پھر تجھ پر یہ کام دشوار ہوا تو میں اس کا ضامن ہوں _ خدا کی طرف لوٹنے جا اور اپنی تمام توجہہ خدا کی طرف کر خداوند عالم فرماتا ہے کہ مجھے اپنی ذات اور جلال کی قسم کہ اس کی امید جو میرے سوا کسی دوسرے سے امید رکھتا ہو قطع کر

۲۱۷

دیتا ہوں اور اسے ذلت اور خواری کا لباس پہناتا ہوں اور اپنے قرب سے دور کر دیتا ہوں اور اس کا اپنے سے ربط توڑ دیتا ہوں اور اس کی یاد کو مخفی رکھتا ہوں_ ویل اور پھٹکار ہو اس پر کہ جو مشکلات میں میرے سوا کسی دوسرے سے پناہ لیتا ہے جب کہ تمام مشکلات کا حل کرنا میرے ہاتھ میں ہے_ کیا وہ میرے غیر سے امید رکھتا ہے جب کہ میں زندہ اور باقی ہوں_ کیا مشکلات کے حل کرنے میں میرے بندوں کے دروازے پر جاتا ہے جب کہ ان کا دروازہ بند ہے_ کیا میرے دروازہ کو چھوڑ رہا ہے جب کہ وہ کھلا ہوا ہے؟ کس نے مجھ سے امید رکھی ہو اور میں نے اسے نا امید کیا ہو؟

میں نے اپنے بندوں کی امیدوں کو اپنے ذمہ لیا ہوا ہے اور میں ان کی ان میں حفاظت کرتا ہوں میں نے آسمان کو ان سے پر کردیا ہے جو میری تسبیح کرنے سے تھکتے نہیں ہیں اور فرشتوں سے کہہ رکھا ہے کہ کسی وقت بھی میرے اور میرے بندوں کے درمیاں دروازہ بند نہ کریں_ جب کسی کو مشکل پیش آئے کیا وہ نہیں جانتا کہ میری اجازت کے بغیر کوئی بھی اس کی مشکل کو حل نہیں کر سکتا؟ کیوں بندہ اپنی ضرورات میں میری طرف رجوع نہیں کرتا جب کہ میں اسے وہ دیتا ہوں کہ جسے اس نے چاہا بھی نہیں ہوتا کیوں مجھ سے سوال نہیں کرتا اور میرے غیر سے سوال کرتا ہے؟ کیا تم یہ سوچ سکتے ہو کہ بغیر سوال کئے تو میں بندے کو دیتا ہوں اور جب وہ مجھ سے سوال کرے گا تو میں اسے نہیں دونگا؟ کیا میں بخیل ہوں کیا بندہ مجھے بخیل جانتا ہے؟ کیا دنیا اور آخرت میرے ہاتھ میں نہیں ہے؟ کیا جو داور سخا میری صفت نہیں ہے؟ کیا فضل اور رحمت میرے ہاتھ میں نہیں ہے؟ کیا تمام آرزوئیں میرے پاس نہیں آتیں؟ کون ہے جو انہیں قطع کرے گا؟ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم اگر تمام لوگوں کی خواہشات اور آرزوں کو زمین پر اکٹھا کردیں اور ہر ایک کو ان تمام کے برابر بھی دے دوں تو ذرہ بھر میرے ملک میں کمی واقع نہ ہوگی_ جو کچھ میری طرف سے دیا جاتا ہے وہ

۲۱۸

کس طرح نقصان والا ہوگا؟ کتنا بیچارہ اور فقیر ہے وہ شخص کہ جو میری رحمت سے نامید ہے؟ کتنا بیچارہ ہے وہ شخص جو میری نافرمانی کرتا ہے اور حرام کاموں کو بجا لاتا ہے اور میری عزت کی حفاظت نہیں کرتا اور طغیان کرتا ہے؟ امیر المومنین علیہ السلام نے اس کے بعد نوف سے فرمایا کہ اے نوف طغیان کرتا ہے؟ امیر المومنین علیہ السلام نے اس کے بعد نوف سے فرمایا کہ اے نوف یہ دعا پڑھنا_

''الهی ان حمدتک فبموا هبک، و ان مجدتک فبمرادک و ان قدستک فبقوتک و ان هللتک فبقدرتک، و ان نظرت فالی رحمتک، و ان غضصت فعلی یعقتک، الی انه من لم یشغله الو لوع بذکرک، و لم یزوه السفر بقربک، کانت حیاته علیه میتته علیه حسرة، الهی تناهت ابصارت رددون ما یریدون، هتکت بینک و بینهم حجت الغفلته ، فسکنوا فی نورک، تنقسؤا بروحک، فصارت قلوبهم مغارسا لهییتک و ابصارهم معا کفا لقدرتک و قربت ازواجهم من قدسک، فجالسؤا اسقک بوقار المجالسته، و خضوع المخاطبته، فاقبلت الیهم اقبال الشفیق، انصت لهم انصات الرفیق، واجبتهم اجابات الاحباء و انا جیتهم مناجاة الاخلائ، فبلغ بی المحل الذی الیه و صلوا، و انقلیی من ذکری الی ذکرک، و لا تترک بینی و بین ملکوت عزک بابا الافتحته، و لا حجابا من حجب الغفلته الا هتکته حتی تقیم روحی بین ضیاء عرشک، و تجقل لها مقاما نص نورک انک علی کل شی قدیر_

الهی ما اوحش طریقا لا یکون رفیقی فیه املی فیک ، و ابعد سفر الا یکون رجائی عنه دلیلی منک، خاب

۲۱۹

من اعتصم بحبل غیرک، وضعف رکن من استند الی غیر رکنک، فیا معلم موملیه الامل فیذهب عنهم کابته الوجل، یا تخرمنی صالح العمل، و اکلاء نی کلاة من فیارقته الحیل، فکیف یلحق موملیک ذل الفقر و انت الغنی، عن مضار المذنبین، الهی و ان کل حلاوة منقطعته، و حلاوة الایمان تزداد حلاوتها اتصالا بک، الهی و ان قلبی قد بسط امله فیک، فاذقه من حلاوة بسطل ایاه البلوغ لما امل، انک علی کل شیء قدیر_

الهی اسئلک مسئلته من یعرفک کنته معرفتک من کل خیر ینتبغی للمومن ان یسلکه، و اعوذ بک من کل شر و فتنته اعذت بها احباء ک خلقک، انک علی کل شیء قدیر_

الهی اسئلک مسلته المسکین الذی قد تحیر فی رجاه، فلا یجد ملجا و لا مسنداً یصل به الیک، و لا یستدل به علیک الا بک و باز کانک و مقامتک التی لا تعطیل لها مسنک، فاسئلک باسمک الذی طهرت به لخاصته اولیائک، فوحدوک، و اعرفوک فعبدوک بحقیقک ان تعرفنی نفسک لا قرلک بربوبیتک علی حقیقته الایمان بک و لا تجعلنی یا الهی من یعبد الاسم دون المعنی

۲۲۰