خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس16%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122462 / ڈاؤنلوڈ: 5530
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

دکھائی نہیں دیتی، اور کوئی بھی تدبیر و حیلہ اُسے عبور کرنے کے لئے کارگر ثابت نہیں ہوتا، اور اس پانی کے پیچھے چاندی وغیرہ کے پہاڑ موجود ہیں۔ تو یہ وہ مقام ہے کہ جہاں تدبیر خالق حکیم محل فکر بنی ہوئی ہے ، خداوند عالم چاہتا ہے کہ وہ اپنی قدرت اور اپنے وسیع خزانوں کا پتہ بتائے، تاکہ اسکے بندے جان لیں کہ اگر وہ چاہے تو اپنے بندوں کو سونا اور چاندی کے پہاڑ بھی عطا کرسکتا ہے مگر اس میں خود اس کے بندوں کی بھلائی نہیں ، اس لئے کہ اگر ایسا ہوجائے تو وہی چیز رونما ہوگی کہ جو بیان کی چاچکی ہے، کہ لوگوں کے نزدیک اس کی قدر و قیمت کم ہوجائے گی، اور لوگ اس سے کم استفادہ کرینگے، تم اس مطلب کواس چیز سے سمجھ سکتے ہو کہ کبھی لوگوں کی بنائی ہوئی بہترین اور نفیس چیز مثلاً نایاب برتن اور دوسرا سامان کمی سے پایا جاتا ہے اور یہ سامان قیمتی اور گرانبہا اہمیت کا حامل ہوتا ہے ،لیکن جہاں وہ چیز زیادہ ہوئی ، اور تمام لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچی تو اس کے قدر وقیمت گرجاتی ہے تو پس نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چیزوں کی اہمیت ان کی نایابی میں ہے۔

( نباتات )

اے مفضل۔ذرا غور وفکر کرو،نباتات ، گیاہ اور ان کے فائدوں پر کس طرح سے پھل بطور غذا ، کاہ (جو اور گندم کے ڈنٹھل وغیرہ) بطور گھاس، سوکھی لکڑیاں جلانے کیلئے، لکڑیاں ، تختوں اور فرنیچر وغیرہ بنانے کیلئے اور درخت کی چھال ، پتے ، جڑ اور گون مختلف قسم کے کاموں میں استعمال ہوتے ہیں۔

اے مفضل کیا تم اس چیز کے بارے میں فکر کرتے ہو کہ اگر پھلوں کو اس طرح زمین پر پاتے کہ نہ وہ درخت پر ہوتے ، اور نہ ان شاخوں پر کہ جو انہیں اٹھائے ہوئے ہیں، تو کیا تم جانتے ہو کہ کیا ہوتا؟ اور معیشت میں کس قدر خلل ایجاد ہوجاتا کہ غذا تو موجود ہوتی مگر لکڑی، تختہ ، سوکھی لکڑیاں ، کاہ اور ان سے حاصل ہونے والے تمام فوائد جو بیان کئے جا چکے ہیں، سب کے سب ختم ہوجاتے اس کے علاوہ

۱۴۱

درختوں اور سبز پودوں کی وجہ سے خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جسے دیکھ کر انسان ایسا لطف اندوز ہوتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی چیز کو دیکھ کر اتنا لطف اندوز نہیں ہوتا۔

( زراعت میں کیا خوبصورت تدبیر )

اے مفضل ذرا اس محصول زراعت پر غور کرو کہ کس طرح تدبیر کی گئی ہے کہ ایک دانے سے سو یا کمتر و بیشتر دانے نکلتے ہیں ذراسوچو کہ اس وقت کیا عالم ہوتا کہ اگر ایک دانے سے فقط ایک ہی دانہ نکلتا، پھر آخر کیوں اس قدر پھل نکلتے ہیں سوائے اس کے کہ غلہ میں وسعت پیدا ہو، اور کسان اس میں سے کچھ کو کاشت کرے اور کچھ کو دوسری فصل ہونے تک اپنی ضرورت کے استعمال میں لائے ، کیاتم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی بادشاہ یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک شہر آباد کرے تو اس کا طور طریقہ بھی یہی ہے کہ وہ اسکے رہنے والوں کو اس قدر دیتا ہے کہ وہ اس میں سے کچھ کو کاشت کریں اور کچھ اس کے محصول ہونے تک اپنی ضرورتوں میں استعمال کریں، کیا تم نے اس امر میں تدبیر کا مشاہدہ کیاجو بیان کیا جاچکا ہے کہ زراعت سے کس طرح وسیع مقدار میں ثمر حاصل ہوتا ہے کہ جو انکی ضرورتوں کو بھی پورا کرتا ہے، اور دوبارہ کاشت کے بھی کام آتا ہے، جس طرح سے درخت وپودے اور کھجور کے درخت نشوونما پاتے ہوئے بہت زیادہ سے ہوجاتے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ درخت کی جڑ کے اطراف نئے شاخہ نشوونما پاتے ہیں، آخر ایسا کیوں ہے؟ سوائے اس کے کہ لوگ انہیں کاٹیں، اور اپنی ضرورتیں پوری کریں، اور جو باقی بچ جائے اسے زمین میں دوبارہ کاشت کریں، پس اگر ایک درخت کی ایک جڑ ہوتی اور اس کے گرد دوسرے نئے شاخہ نہ نکلتے تو کبھی یہ بات ممکن نہ ہوتی کہ انہیں اکھاڑ کر اپنی ضرورتوں کو پورا کیا جائے، یا انہیں دوبارہ کاشت کردیا جائے، اور اس کے علاوہ شاخہ اگنے کی علت یہ ہے کہ اگر درخت نابود ہو جائے تو اس شاخہ کے ذریعہ دوبارہ درختکاری کی جاسکے ۔

۱۴۲

( دانوں کی حفاظت )

اے مفضل ، ذرا غوروفکر کرو بعض دانوں ، مثل ، مونگ،ماش، لوبیا، اور اس قسم کے دوسرے دانوں پر کہ تم انہیں دیکھو گے کہ وہ ایک ایسے ظرف سے نکلتے ہیں کہ جو تھیلے کی مانند ہے، تاکہ وہ ظرف انہیں اس وقت تک آفات سے محفوظ رکھے جب تک کہ وہ محکم و سخت نہ ہوجائیں ، بالکل اسی طرح ، جس طرح سے جنین کے لئے بچہ دانی ہے، اور ہاں گندم اور اس قسم کے دوسرے دانوں پر تم دیکھو گے کہ چھلکے موجود ہیں جو طبقہ بہ طبقہ ایک دوسرے کے اوپر تکیہ کئے ہوئے ہیں اور ان کے سر ایک ڈنٹھل نما ہے ، تاکہ وہ پرندوں کے لئے رکاوٹ اور مانع ہو اور زراعت کسان کے لئے زیادہ باقی بچے اب اگر کوئی یہ کہے کہ مگر ایسا نہیں کہ پرندے گندم اور دانوں کو کھائیں؟ تو اسے جواب دیا جائے گا کہ یقینا، خالق حکیم کی تدبیر اسی طرح ہے ، اس لئے کہ پرندے بھی خدا کی مخلوق ہیں اور خداوند متعال نے انکے لئے بھی ان چیزوں میں حصہ رکھا ہے کہ جو زمین سے اگتی ہیں ، لیکن دانوں کو پردے میں اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ پرندے تمام دانوں تک دست رسی پیدا نہ کرسکیں کہ ایسا ہونے سے وہ دانوں کے ساتھ کھیلیں گے اور اسے خراب کردیں گے اس لئے اگر پرندہ ایسے دانوں تک پہنچ جائے جہاں اسکے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہوتو وہ ان کے کھانے پر اس طرح پڑ جاتا ہے کہ وہ انہیں ختم کرکے ہی دم لیتا ہے اور اس طرح کھانے سے اس کا نظام ہضم خراب ہوجاتا ہے،اور وہ مرجاتا ہے اور کسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے، لہٰذا اس بناء پر دالوں اور دانوں کو پردہ میں قرار دیا، تاکہ وہ انکی حفاظت کرے اور پرندے ان تک کمی سے دسترسی پیدا کرسکیں، اورایک معین مقدار تک ان سے اپنی غذا حاصل کرلیں،ا ور اکثر دالیں، اور دانے انسانوں کے لئے باقی بچ جائیں اس لئے کہ انسان اس غذا پر ترجیح رکھتا ہے ، کیونکہ وہ اس کے آمادہ کرنے پر زحمت و مشقت اور سختی کا سامنا کرتا ہے اور پھر انسان کی احتیاج پرندوں کی احتیاج سے بہت زیادہ ہے۔

۱۴۳

( صنعت ِ خیمہ کو صنعتِ درخت سے نقل کیا گیا ہے )

اے مفضل ،ذرا غور فکر کرو اس حکمت پر جو درختوں اور نباتات کے خلق کرنے میں بروئے کار لائی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ حیوانات کی طرح غذا کے محتاج ہیں لیکن ان کا منھ حیوانات کے منھ کی طرح نہیں اور نہ وہ حیوانات کی طرح حرکت رکھتے ہیں ، کہ جو حرکت کرتے ہوئے غذا کی طرف جائیں لہٰذا انکی جڑوں کو زمین میں رکھا گیا تاکہ وہ زمین سے غذا حاصل کریں، اور شاخوں و پتوں تک اس غذا کو پہنچائیںتو گویا زمین ان کے لئے ماں کی مانند ہے کہ جو ان کی پرورش کرتی ہے اور انکی جڑیں انکے منھ کی جگہ پر ہیں کہ جو زمین کو پکڑے ہوئے ہیں تاکہ اس سے غذا حاصل کریں جس طرح سے حیوانات اپنی ماں سے غذا حاصل کرتے ہیں ، اے مفضل ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خیمہ کے ستونوں کو کس طرح طناب کی مدد سے ہر سمت باندھا جاتا ہے تاکہ خیمہ سیدھاکھڑا رہے اور ادھر اُدھر نہ جھکے اور یہی نظام تمام نباتات میں پاؤگے کہ انکی جڑیں طناب کی مانند زمین میں پھیلی ہوئی ہیں تاکہ وہ اسے کھڑا رکھیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو کس طرح ممکن تھا کہ تیز ہوا میں کھجور اورا س قسم کے دوسرے بلند قوی درخت کھڑے رہتے ، پس ذرا غور کرو اس حکمت و تدبیر پر کہ کس طرح وہ اس تدبیر سے سبقت کئے ہوئے ہے کہ جو لوگ اپنے خیمہ پردے وغیرہ لگانے کے دوران استعمال کرتے ہیں ، بلکہ یہ کہا جائے کہ خیمہ اور اس قسم کی دوسری چیزیں خلقت درخت کو دیکھ کر بنائی گئی ہیں ، اس لئے کہ خلقت درخت صنعت خیمہ سے پہلے ہے ، مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ لکڑیاں اور ستون درخت سے لئے جاتے ہیں پس ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صنعت خیمہ کو درخت کی صنعت سے نقل کیا گیا ہے۔

۱۴۴

( درخت کے پتے کی خلقت )

اے مفضل۔ ذرا پتے کی خلقت پر غور کرو، تم مشاہدہ کرو گے کہ اس کے اند رگیں موجود ہیں اور ان سب کے درمیان ایک موٹی رگ ہے کہ جو پتے کی لمبائی تک پھیلی ہوئی ہے اور کچھ باریک اور غلیظ رگیں ہیں جو محکم اور مضبوط طور پر ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں کہ جو کھل نہیں سکتیں، اگر پتہ بھی ان چیزوں میں سے ہوتا کہ جسے انسان خود اپنے ہاتھوں سے دوسری چیزوں کی طرح بناتا تو بشر کبھی بھی پتوں کے بنانے سے فارغ نہ ہوتا اور فقط ایک درخت ایک سال میں بنتا ، اس لئے کہ اس کی بناوٹ کے دوران مختلف آلات و ادوات اور مختلف آراء و مشورہ وغیرہ کی ضرورت پڑتی ، لیکن خداوند عالم نے اس طرح کی عظیم تدبیر رکھی کہ وہ بہار کے چند دنوں میں تمام کے تمام بن جاتے ہیں۔ اس طرح کہ تمام پہاڑ، دشت، صحرائ، و بیابان کو پر کردیتے ہیں کہ اس میں کسی قسم کی رائے و مشورہ کی ضروت نہیں پڑتی، بلکہ وہ اس عمل کو اس غریزہ کے تحت انجام دیتے ہیں کہ جو ان میں نافذ ہے ، اے مفضل ان تمام باریک و نازک رگوں کی علتوں کو جان لو کہ انہیں کیوں پتہ میں پھیلنے کے لئے چھوڑا گیا ہے یہ اس لئے تاکہ یہ رگیں پانی کو پتہ تک پہنچائیں اور اسے سیراب کریں، جیسا کہ بدن کی رگیں بھی اسی طرح منتشر ہیں، تاکہ غذا کو بدن کے ہر حصہ میں پہنچادیا جائے، غلیظ اور موٹی رگوں میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی سختی کی وجہ سے پتہ کی حفاظت کرتی ہے تاکہ پتہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر مرجھانے سے محفوظ رہے ، لہٰذا تم ایک پتے میں رگو ں کو اس طرح پاؤ گے جس طرح سے ایک کپڑے کے پردے کو لکڑیوں کے ساتھ اس کے طول و عرض کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہو۔تاکہ وہ ایک دوسرے کو مضبوطی سے پکڑے رہیں اور کپڑا ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے محفوظ رہے پس صناعت بشر اگرچہ خلقت حکیم کی حکمت پر دلالت کرتی ہے ، مگر در حقیقت وہ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔

۱۴۵

( بیج ،چھلکا اور ان کی علت )

( اے مفضل) ذرا غور کرو، بیچ اور پھلوں کے دانوں پر کہ کس طرح ان میں حکمت رکھی گئی ہے انہیں قائم مقام درخت قرار دیا ، تاکہ اگر درخت کے اُگنے پر کوئی رکاوٹ پیش آئے تو اسے کاشت کیا جاسکے، بالکل اُسی طرح جس طرح سے قیمیتی اور بہترین أشیاء کو مختلف مقامات پر رکھا جاتا ہے کہ اگر ایک کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے تو دوسری چیز ا سکی نیابت کرسکے، اور اب چھلکا کہ یہ اپنی سختی کی وجہ سے پھلوں کی نرمی اور لطافت کو حفظ کرتے ہیں کہ اگر چھلکا نہ ہوتا تو پھل خراب ہوجاتے اور درخت سے بکھر جاتے اور جلد ہی فاسد ہوجاتے ، بیجوں میں سے بعض بیچ ایسے ہیں کہ جو غذائیت کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں اور بعض سے تیل بھی نکلالا جاتا ہے کہ جو مختلف کاموں کے استعمال می لایا جاتا ہے ان تمام باتوں سے تمہارے سامنے بیچ اور چھلکے کی اہمیت واضح اور روشن ہوگئی ، اب ذرا غور کرو کہ آخر کھجور کے درخت اور انگور کی بیل پر اس قدر لذیذ پھل کیوں نکلتے ہیں، حالانکہ ان کے اوپر اس قسم کی دوسری چیزیں بھی تو وجود میں آسکتی تھیںکہ جو کھانے کے قابل نہ ہو جیسے چنا وغیرہ ، ایسا اسے لئے ہے تاکہ انسان ان سے مکمل طور پر استفادہ کرسکے۔

( درخت میں تدبیر خداوندی )

اے مفضل۔ ذرا غور وفکر کرو اس تدبیر پر کہ جو درخت میں استعمال ہوئی ہے تم مشاہدہ کروگے کہ وہ ایک سال میں ایک بار مرتا ہے اور وہ بہت ہی زیادہ حرارت کو اپنے تنے کے اندر قید کرلیتا ہے کہ جس سے مواد میوہ پیدا ہوتا ہے اورپھر درخت دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے ، اور وہ مواد میوہ شگوفہ کی صورت میں

۱۴۶

باہر آتا ہے اورپھر یکے بعد دیگرے پھل فراہم کرتاہے اُسی طرح جیسا کہ بعض چیزوں کو ہاتھ سے پکایا جاتا ہے اور شاخوں کو دیکھوگے کہ وہ تمہاری طرف اس طرح پھلوں کو بڑھاتی ہیں جس طرح سے کوئی ہاتھ سے بڑھا رہا ہو، اور خوشبو دار پودوں کے دیکھو گے کہ وہ اسی طرح اپنی شاخوں کی مدد سے تمہاری طرف پھولوں کو پیش کرتے ہیں جیسا کہ وہ خود چل کر تمہاری طرف آرہے ہوں ، اب ذرا بتاؤ کہ یہ حکمت و تدبیر کس کی طرف سے ہے اسکی علت سوائے ا سکے کچھ بھی نہیں کہ انسان درختوں کے پھلوں اور ان کی مختلف خوشبو سے لذت حاصل کرے ، تعجب ہے ان لوگوں پر کہ جو بجائے اس کے کہ وہ ان نعمتوں پر خداوندکا شکریہ ادا کریں وہ ان نعمتوں سے کفر اختیار کرتے ہیں۔

( انار کی خلقت )

اے مفضل۔ انار کی خلقت اور اس میں استعمال شدہ تدبیر پر غور کرو کہ تم اس میں چربی کی مانند ٹیلوں کو پھیلا ہو اپاؤگے اور اسکے دانوں کو اس طرح لگایا گیا ہے جیسا کہ ہاتھوں سے ٹاکا گیا ہو،اور وہ مختلف حصوں میں تقسیم ہوئے ہیں اور ہر حصہ ایک لفافے میں بند ہے ، ایسا لفافہ کہ جو تعجب آور، لطیف اور حیرت انگیز طریقہ پر بنایا گیا ہو اور اسی طرح اسکی کھال جو دانوں کو اُٹھائے ہوئے ہے، کیا اب بھی اس صنعت کے اندر کوئی تدبیر باقی رہ جاتی ہے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا یہ صحیح نہ ہوتا کہ انار کے اندر فقط دانے ہوتے تو ہم کہیں گے کہ انار میں ایسی تدبیر اس لئے استعمال نہیں ہوئی کہ انار کا ایک دانہ دوسرے دانہ کی حفاظت نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا اس چربی کو اسکے اندر رکھا گیا تاکہ وہ دانے کی پرورش کرے اور اسکے لئے غذا کا بندوبست کرے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ دانے کی جڑ اس چربی میں داخل ہوتی ہے اور پھر یہ کہ دانہ کو اس کے لفافے میں بند کیا گیا ہے تاکہ بکھرنے سے محفوظ رہ سکے، اور اسکے اوپر محکم، چھلکے کاخول اڑا دیا، تاکہ وہ اسے مختلف آفات سے بچائے ، میری یہ تمام گفتگو انار کی تعریف میں بہت کم ہے جبکہ

۱۴۷

انار کی تعریف و توصیف کے بارے میں ان لوگوں کے لئے بے انتہا مطالب ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اس کے بارے میں گفتگو یا تقریر کریں لیکن میں نے جس قدر اسکی تعریف بیان کی وہ اس کی حکیمانہ خلقت پر دلیل کے لئے کافی ہے۔

( بیل بوٹے کی خلقت )

اے مفضل۔ فکر کرو، ضعیف بیل بوٹے کہ جسکا پھل بے انتہا سنگین ہے جیسے کدو، کھیرا، خربوزہ، وغیرہ اور اس تدبیر پر کہ جو ان میں استعمال کی گئی ہے، لہٰذا جب یہ بات طے ہوئی کی اس میں اس قسم کے پھل لگیں تو اُسی دن سے اسکے لئے یہ بات مقدر ہوئی کہ وہ زمین پر بچھی ہونی چاہییے کہ اگر یہ بھی سنبل اور دوسرے درختوں کی طرح کھڑی ہوتی تو ہرگز ان پھلوں کے وزن کو برداشت نہیں کرسکتی تھی، غور کرو کہ یہ بیل کس طرح زمین پر پھیلی ہوئی ہے اور کس طرح زمین نے اس کے پھلوں کو اپنے دوش پر اٹھا رکھا ہے، اور کھیرے کی بیل کو دیکھو کہ وہ زمین پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے پھل اس کے اردگرد بکھرے ہوئے ہیں، اس بلی کی مانند کہ جو زمین پر لیٹی ہوئی ہے، اور اسکے بچے اس کے اردگرد جمع ہیں کہ جو اُس سے دودھ پینا چاہتے ہیں۔ اب ذرا غور کرو کہ یہ پھل کیسے مناسب موقع پر نکلتے ہیں جبکہ گرمی کی شدت اور ہوا گرم ہو، اور لوگ انہیں شوق وولولے کے ساتھ خریدتے ہیں ، اور ان سے استفادہ کرتے ہیں ، اگر یہ سردیوں میں اُگتے تو لوگ مسلم طور پر ان سے دوری اختیار کرتے اور انہیں کھانے کے لئے استعمال نہ کرتے اور اسکے علاوہ و ہ ان کے لئے نقصان دہ بھی ہوتے ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کھیرا سردیوں میں پکتا ہے، تو لوگ اسکے کھانے کی طرف رغبت نہیں رکھتے، مگر وہ لوگ جو زیادہ ہی حریص ہوں کہ وہ ان چیزوں کے استعمال سے بھی نہیں رکتے کہ جو انکے لئے نقصان دہ اور مضر ہیں اور اُسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن پر اُن پھلوں کا کھان ناگوار گذرتا ہے۔

۱۴۸

( کھجور کا درخت )

اے مفضل، ذرا غور کروکھجور کے اس درخت پر جو مادہ ہے اور اُسے ایک نر کی ضرورت ہوتی ہے ، لہٰذا اسکے لئے ایک نر بھی رکھا گیا ہے جو اسکے ساتھ عمل تلقیح کو انجام دیتا ہے تو گویا کھجور کا نر بھی حیوان کے نر کی طرح ہے کہ جو اپنی مادہ کے ساتھ مقاربت کرتا ہے، تاکہ اسکی مادہ حاملہ ہوجائے مگر مادہ کھجور حاملہ نہیں ہوتی ذرا کھجور کی خلقت پر غور کرو تم مشاہدہ کروگے کہ اسکے طول وعرض کے حصہ کو بغیر کسی دھاگے کے اس طرح سیا گیا ہے جس طرح سے کوئی ہاتھ سے سیتا ہے، تاکہ وزنی شاخیں تیز ہوا کی وجہ سے ٹوٹ نہ جائیں، اور اس وقت جبکہ وہ کھجور کا کامل درخت بن جاتاہے تو اُسے چھت، پل اور اس کے علاوہ دوسری چیزوں کے استعمال میں لایا جاتا ہے اور اس طرح تم اس کی لکڑی کے تختوں کو دیکھو گے کہ اس کے اجزاء طول و عرض کے اعتبار سے بعض ، بعض میں پیوست ہیں جیسا کہ وہ کپڑا کہ جو دھاگوں سے بُنا ہو کہ اُس میں دھاگے ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں اور اسی طرز پر اسکے لئے استحکام و پائیداری ہے، تاکہ وہ ان آلات و ادوات کے بنانے میں استعمال ہوسکے، کہ جن سے مختلف قسم کا کام لیا جاتا ہے، لیکن اگر کھجور کا درخت پتھر کی مانند خشک ہوتا تو اسے چھت ، دروازے ، تختے ، صندوق اور اس قسم کی دوسری چیزوں میں استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا ، کھجور کے عظیم ترین فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ پانی پر ٹھہر جاتا ہے اور نہیں ڈوبتا سب اس بات کو تو جانتے ہیں مگر جو عظیم راز اُس میں پوشیدہ ہے اُسے سب نہیں جانتے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر کس طرح سے یہ کشتیاں اور جہاز جو پہاڑوں کی مانند وزن کو اُٹھائے ہوئے ہیں پانی پر ٹھہر سکتے تھے اور کس طرح سے لوگ کم خرچ کے ذریعہ تجارت کے مال کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جاتے، اس کے بغیر مسلماً پر ان کا خرچ بہت زیادہ ہوتا اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگ جس چیز کی احتیاج و ضرورت رکھتے وہ چیز یا تو اس شہر میں نایاب ہوتی یا پھر بہت مشکل سے ہاتھ آتی۔

۱۴۹

( ادویات اور ان کے فوائد )

اے مفضل۔أدویات ، انکی جڑوں اور یہ کی ان میں سے ہر ایک مخصوص درد کے لئے ہے، غور وفکرکرو، أدوایات ہذیوں میں داخل ہوکر غلیظ فضلات جیسے بلغم، وغیرہ کو جسم سے باہر نکالتی ہیں۔ افتیمون (گیاہی دوا کا نام) کہ یہ گیس کو ختم کرتی ہے، سبیکبح، کہ یہ ورم کو ختم کرتا ہے، اور یہ اس قسم دوسرے کام بھی انجام دیتی ہیں ، کون ہے وہ کہ جس نے انہیں یہ قوت عطا کی سوائے اسکے کہ جس نے انہیں بشر کے فائدہ کے لئے خلق کیا، اور کس نے لوگوں کو ان سے آگاہ ومطلع کیا سوائے اسکے کہ جس نے انکے نفع اور فائدے کو ان ادویات میں رکھا ورنہ کون اور کہاں ان چیزوں سے واقفیت پیدا کرسکتا تھا، کہ جس طرح سے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ انسان ان تمام چیزوں کو اپنی عقل، لطیف فکر اور مختلف تجربہ کے ذریعہ پہچانتا ہے، اگر انسان کے بارے میں اس بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے، تو پھر یہ بتاؤ کہ یہ حیوانات کس طرح سے ان کے خواص سے آگاہ ہوئے ہیں؟ کہ بعض درندے کچھ دواؤں سے اپنا معالجہ خود کرتے ہیں اور اسی طرح بعض پرندے کچھ دواؤں سے اپنا معالجہ خود کرتے ہیں اور اسی طرح بعض پرندے جب انہیں قبض کی شکایت ہوتی ہے تو دریا کے پانی سے حقنہ کرتے ہیں ، اس طرح سے وہ اپنے آپ کو صحیح وسالم رکھتے ہیں، اور اس قسم کی بہت سی مثالیں اور اب شاید تم ان نباتات کے بارے میں کہ جو صحراء و بیابان میں اُگتے ہیں یہ خیال کرو کہ یہ ایک زائد اور بے فائدہ چیز ہیں کہ جسکی کوئی ضرورت نہیں جبکہ در حقیقت ایسا نہیں بلکہ وہ وحشی جانوروں کے لئے غذا اور انکے دانے پرندوں کے لئے غذا اور انکی شاخیں لوگوں کے آگ جلانے کے کام آتی ہیں ، اور ان میں دوسرے بھی خواص پائے جاتے ہیں اور وہ یہ کہ اس ان سے بدن کا معالجہ، کھال کی صفائی اور یہ رنگ آمیزی کے کام آتے ہیں ، اور اسکے علاوہ بھی دوسرے بہت سے فائدے ہیں۔

۱۵۰

اے مفضل۔ کیا تم نہیں جانتے کہ سب سے کم قیمت چیز صحرائی گھاس ہے اور اس قسم کی دوسری ایسی چیزیں کم قیمت ہونے کے باوجودبہت سے فائدے رکھتی ہیں کہ جس سے کاغذ تیار کیا جاتا ہے کہ جسکی ضرورت بادشاہ اور دوسرے تمام لوگوں کو ہوتی ہے، اسکے علاوہ اس سے چٹائیاں بھی بنائی جاتی ہیں کہ جس سے سب ہی لوگ استفادہ کرتے ہیں، اور اس قسم کے غلاف تیار کئے جاتے ہیں کہ جن میں برتن رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ ٹوٹنے اور معیوب ہونے سے محفوظ رہیں ،اور اس قسم کے دوسرے بھی فائدے ہیں پس عبرت حاصل کرو ان چھوٹی بڑی چیزوں کے فائدوں سے کہ جن میں بعض قیمتی اور بعض کم قیمت ہیں اور ان سب میں پست ترین انسان اور حیوان کا فضلہ ہے کہ جو اپنی مکمل نجاست کے ساتھ اان میں جمع ہے کہ جو ذراعت اور سبزیوں کی کاشت کے لئے جامع ترین کھاد کے طور پر اپنی قدر وقیمت رکھتا ہے کہ جس کا مقابلہ دوسری کوئی اور چیز نہیں کرسکتی اس سے سبزیاں بہترین طریقے سے رشد ونمو پاتی ہیں اور یہ ان کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے مگر سب اُس فضلہ سے نفرت کرتے ہیں اور وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتے کہ وہ اس سے قریب ہوں ۔ اے مفضل۔ جان لو کہ ہرچیز کی قیمت اسکی اپنی منزلت کے مطابق نہیں بلکہ یہ اپنے لئے دو مختلف بازاز میں مختلف قیمت رکھتی ہے ایک بازار کسب وتجارت ہے اور دوسرا بازار علم و معرفت ہے۔ افسوس کہ جس چیز کی قیمت بازاز کسب و تجارت میں کم ہے، بازار علم و معرفت میں وہ پُرقیمت ہے۔ تم اس چیز کو ہرگز حقیر مت سمجھو اگر کیمیا دان اس بات کو جان لیں کہ فضلہ کے اندر کیا خصوصیتیں ہیں تو وہ بڑی سے بڑی قیمت پر خریدنے کے لئے تیار ہوجائیں گے اور اس بات پر فخر کریں گے۔

مفضل کہتے ہیں کہ یہاں وقت زوال آپہنچا اور میرے آقا و مولانماز کے لئے کھڑے ہوگئے، آپ نے فرمایا کہ کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ (انشاء اللہ ) میں نے جو کچھ سیکھا اس پر بہت ہی زیادہ مسرور وخوشحال واپس پلٹا ، جو کچھ خدا نے مجھے عطا کیا اُس پر اس کا شکر گزار تھا، میں نے یہ رات بہت ہی خوش و خرم بسر کی۔

۱۵۱

۱۵۲

( روزچہارم )

۱۵۳

۱۵۴

مفضل کہتے ہیں کہ چوتھے روز میں صبح سویرے امام ـ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ،اور اجازت لینے کے بعد آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ ـ نے فرمایا: تمام حمدوثناء ، بزرگی و پاکیزگی اُس خداوند متعال کے لئے ہے کہ جس کا اسم مبارک تمام أسماء پر مقدم ہے، وہ نور أعظم ہے اور بہت ہی زیادہ جاننے والا اور صاحب کرامت و جلالت ہے کہ جو مخلوق کا خالق، عالمین و زمانہ کا فنا کرنے والا اور پوشیدہ راز کا جاننے والا ہے کہ جس کے أسماء دوستوں کے لئے خزانے اور اس کا علم غیروں کے لئے پوشیدہ ہے۔

درود وسلام ہو اُن پر کے جو وحی کے مبلغ اور رسالت کا کام انجام دینے والے ہیں کہ خداوند متعال نے انہیں بشیر و نذیر بناکر بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے حکم سے اسکی طر ف دعوت دیں اور انہیں اس کے عذاب سے ڈرائیں اور ان کی ہدایت اور رہنمائی کریں کہ جو بھی اس حجت کے تمام ہونے کے بعد گمراہ ہوا وہ ہلاک ہوگیا۔اور جو بھی ان دلائل و برہان کے ذریعہ ہدایت پاگیا تو اس پر ، اس کی اولاد، اس کے مرحومین اور اسکی آنے والی نسلوں پر خدا کا درود وسلام ہو کہ جس کے وہ مستحق ہیں۔

( آفات وبلیات اتفاق پر دلیل نہیں )

اے مفضل۔ میں أدّلہ و براہین کے ذریعہ خلقت، حسن تدبیر اور اُس قصد و ارادہ پر کہ جو انسان ، حیوان ، نباتات اور أشجار میں مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ اس قدر روشنی ڈال چکا ہوں کہ جس سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ عبرت حاصل کریں، اور اب میں تمہارے لئے بعض ایسی آفات وبلیات کے بارے میں شرح بیان کرتا ہوں کہ جنہیں بعض زمانوں میں جاہلوں کے ایک گروہ نے انکار خدا اور خلقت میں تدبیر کے انکار کا وسیلہ قرار دیا، فرقہ معطلہ ، اور فرقہ مانویہ ، عالم میں رونما ہونے والے

۱۵۵

حادثات کو خلافِ حکمت و تدبیر جانتے ہیں اور خالق کائنات کا انکار کرتے ہیں من جملہ وہ موت وفنا کا بھی انکار کرتے ہیں ! اور اسی طرح فرقہ دہریہ کہ جو یہ گمان کرتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز بغیر علت اور بطور اتفاق وجود میں آئی ہے لیکن میری یہ گفتگو اور کلام ان کے تمام خیالات و اقوال کو باطل کردے گا۔

خدا انہیں غرق کرے کہ یہ کس طرف منھ، چرا کر بھاگتے ہیں۔(سورہ توبہ، آیت 30) بہت سے جاہل افراد نے اس قسم کے حادثات ، مثلا وباء یرقان،أولوں کا گرنا، اور ٹڈیوں کا ایسا اجتماع کہ جوزراعت کو تباہ وبرباد کردیتا ہے اور اس قسم کے دوسرے ایسے حادثات کو کہ جو زمانے میں رونما ہوتے ہیں انکار خدا کا وسیلہ قرار دیا، ان کے اس قسم کے خیالات کا جواب یہ دیا جائے گا کہ اگر کوئی خالق ومدبر نہ ہوتا تو پھر کیونکر یہ چیزیں زیادہ شدت سے ظاہر نہیں ہوتیں ، مثلاً یہ کہ آسمان زمین پر گر پڑے، زمین دھنس جائے، سورج اپنی حرکت کے برخلاف عمل کرے یا یہ کہ طلوع نہ ہو، نہریں اور چشمے اس طرح خشک ہوجائیں کہ ہونٹوں کو تر کرنے کے لئے پانی میسر نہ ہو ،ہوائیں اس طرح رک جائیں کہ تمام چیزیں فاسد و ضائع ہوجائیں، یا یہ کہ دریاؤں کا پانی پوری خشکی کو اپنے اندر لے لے، اور ہر چیز کو غرق کرکے رکھ دے اور اس قسم کی دوسری وبائیں آخر دائمی اور ہمیشہ کیوں نہیں رہتیںکہ وہ جس عالم میں بھی ہوں اسے بے کار اور ناکارہ بنادیں؟ بلکہ یہ آفتیں اس طرح ہیں کہ کچھ وقت کے لئے ظاہر ہوتی ہیں اور پھر انہیں ختم کردیا جاتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ عالم اس قسم کی بلاؤں (کہ جو اوپر بیان کی گئیں) سے حفظ و امان میں ہے کہ اگر ان میں سے ایک بھی رونما ہوجائے، تو وہ عالم کو نابود کردے۔ کبھی کبھی عالم کو چھوٹی بلاؤں اور آفتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ لوگ ڈریں، اور راہ مستقیم پر گامزن ہو جائیں اور پھر یہ آفتیں دائمی نہیں ہوتیں بلکہ انہیں لوگوں سے اُس وقت اُٹھالیا جاتا ہے جبکہ ان سے نصیحت و فکر کی امید ظاہر ہونے لگتی ہے تو پس یہ بات واضح ہوگئی کی بلاؤں کا نازل ہونا انکے لئے باعث نصیحت اور انکا دور ہونا انکے لئے باعث رحمت ہے گروہ معطلہ کے افراد بھی وہی بات کہتے ہیں کہ جو بات گروہ مانویہ

۱۵۶

کے افراد کہتے ہیں اور وہ بات یہ ہے کہ انسان پر بلیات و آفات نازل نہیں ہونی چاہیئیں اور یہ کہ اگر عالم کے لئے کوئی مہربان خالق ہوتا تو اس قسم کے ناگوار حادثات کبھی بھی عالم کا رخ نہیں کرتے ، کہنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی زندگی کو ہر قسم کے رنج والم سے محفوظ ہونا چاہیے تھا۔ جبکہ اگر ایسا ہوتا تو انسان سرکش ہوجاتا کہ جس میں نہ اسکے دین کی بھلائی ہے اور نہ دنیا کی ، جیسا کہ اس بات کا مشاہدہ تم اُن لوگوں میں کرسکتے ہو کہ جو بہت زیادہ دولت مند ہوں اور اپنی زندگی عیش و آرام سے گزار رہے ہوں کہ دنیا کی تمام نعمتیں انکے لئے حاضر ہوں تو یہ لوگ یہاں تک اپنی حد سے تجاوز کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو بشر ہونے سے بھی بھلا بیٹھتے ہیں اور ہرگز یہ نہیں سوچتے کہ انکی پرورش کسی اور نے کی ہے تو پس ایسے موقع پر یہ ضروری تھا کہ کوئی آفت و بلاء موجود ہو کہ جو ان پر نازل کی جائے اس لئے کہ انسان پر واجب ہے کہ وہ ضعیف وکمزور پر رحم کرے، فقیروں کے ساتھ مساوات سے پیش آئے اور انکے ساتھ ہمدردی کرے ، ناتواں لوگوں کے ساتھ مہربانی کرے، غمزدہ اور شکستہ دل افراد کے ساتھ مہر و محبت سے پیش آئے لیکن وہ یہ سب کام نہیں کرتے مگر جہاں وہ مصیبت و بلاء میں مبتلا ہوا، اور اُس نے اسکی تلخی کا مزہ چکھ لیا تب کہیں جاکر اس پر نصیحت مؤثر ہوتی ہے اور وہ بینا ہوجاتا ہے تو اگر اب بھی کوئی ان بلاؤں اور مصیبتوں اور حادثات کا منکر ہوجائے تو وہ لوگ اُن بچوں کی مانند ہیں کہ جو ہمیشہ تلخ اور کڑوی دواء کو برا ہی کہتے ہیں اور ان لذیذ غذاؤں کو منع کرنے پر غیض و غضب میں آجاتے ہیں کہ جو انکے لئے نقصان دہ ہیں ، اور وہ لوگ کسب آداب ، علوم اور صنعتوں کو دشمن رکھتے ہیں،اور چاہتے ہیں کہ ہمیشہ لہو ولعب میں اپنی زندگی کو بسر کریں کے جسے چاہیں کھائیں اور جسے چاہیں پیئیں اور وہ نہیں جانتے کہ اس طرح بیکاری میں وقت گزارنے سے انکے دین اور دنیا کو کس قدر نقصان پہونچے گا،اور یہ لذیذ کھانے ان کے جسم کو کس طرح نقصان پہونچائیں گے، اور وہ نہیں جانتے کہ یہ آفات وبلیات ان کے آداب اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ہیں جیسا کہ وہ دواء کے فائدے کو نہیں جانتے

۱۵۷

اگرچہ اس میں ایک مقدار تلخی ہے۔

( انسان گناہوں سے معصوم خلق کیوں نہ ہوا؟ )

اب اگر کوئی یہ کہے کہ انسان گناہوں سے معصوم خلق کیوں نہ ہوا جو یہ آفتیں اور بلائیں رونما ہوکر اسے نقصان پہونچاتی ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر انسان گناہوں سے معصوم خلق ہوتا تو اب جو بھی نیکی کرتا تو یہ نیکی قابل تعریف نہ ہوتی اور نہ ہی وہ اسکے اجر وثواب کا مستحق ہوتا۔

اور اگر کوئی یہ کہے کہ خداوند متعال کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی تمام نعمتیں بندوں کو عطا کردیتا تو اس کے جواب میں کہا جائیگا ، ذرا تم اُس شخص کی حالت پر غور کرو جو صاحب عقل و فہم ہو اور وہ ایک جگہ بیٹھ جائے اور اُسے جس چیز کی ضرورت ہو اُسے بغیر کسی زحمت و مشقت کے اس کے سامنے پیش کردیا جائے کہ جس کا وہ مستحق نہیں تو کیا اُس کا نفس اس بات پر راضی ہوگا ، ہرگز نہیں ، بلکہ تم اُسے دیکھو گے کہ وہ ان چیزوں کو زیادہ چاہتا ہے کہ جو اس نے زحمت و مشقت کے بعد حاصل کی ہیں آخرت کی نعمتیں بھی بالکل اسی طرح ہیں کہ جو اس کے حاصل کرنے والے کے لئے کامل ہوجاتی ہیں اس لئے کہ اس کے حاصل کرنے میں اس نے سعی و کوشش سے کام لیا اور وہ اس کا مستحق بھی تھا کہ اسے اس قسم کی نعمتیں عطا کی جاتیں، پس ان نعمتوں اور ثواب کو حاصل کرنے کے لئے خداوند عالم نے انسان کے لئے اس دنیا میں راہ ہموار کی ہے کہ وہ اس دنیا میں رہ کر ان کے حصول کے لئے کوشاں رہے تاکہ وہ اُن نعمتوں سے پوری طرح لطف اندوز ہوسکے، کہ جو اسے آخرت میں عطا کی جائیں گی۔

اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ کبھی لوگوں کو اس قسم کی نعمتیں ملتی ہیں کہ جنہیں پاکر وہ خوشحال ہوجاتے ہیں ، باوجود اس کے کہ وہ اس کے مستحق نہ تھے تو پھر آخر اس قسم کی وضیعت پر کیا چیز مانع ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ آخرت کی نعمتیں بھی اُسے ایسے ہی مل جائیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر

۱۵۸

اس راہ کو لوگوں کے لئے فراہم کردیا جائے کہ انہیں گناہ کے باوجود آخرت میں نعمتیں اور اجر و ثواب ملے، تو وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے، فسادات ، لوگوں کے قتل وغیرہ میں مبالغہ آرائی سے کام لیں گے پھر کون ہوگا کہ جو اپنے آپ کو زن فاحشہ سے بچائے گا اور کون نیکی کو انجام دینے کے لئے زحمت و مشقت کو برداشت کرے گا ، جب کے کہ وہ یقین رکھتا ہے کہ ہر حال میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوگا، اگر لوگوں کا حساب و کتاب نہ ہوتا تو پھر کون اپنے آپ ، اپنے مال اور اپنے گھر والوں کو لوگوں کے ناجائز تجاوز سے حفظ و أمان میں رکھ سکتا تھا ، تو گویا اس قسم کی حالت و کیفیت کا ضرر لوگوں پر بہت ہی جلد اثر انداز ہوتا اور دنیا سے پہلے آخرت وجود میں آجاتی ، اور اس سے حکمت اور عدل الٰہی دوونوں باطل ہوکر رہ جاتے، اور اس حالت کے صحیح نہ ہونے پر اعتراض کیا جاسکتا تھا۔

( آفات کی دلیل اور توجیہ )

( اے مفضل) کبھی یہ لوگ خداوند متعال اور اس کی تدبیر کے انکار کے لئے اپنے ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے ان آفات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو تمام لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اب چاہے یہ لوگ نیک ہوں یابد، یا فقط نیک لوگوں کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں جبکہ فاسد و فاجر ان سے بالکل محفوظ رہ جاتے ہیں لہٰذا تدبیر حکیم میں ان کی کس طرح توجیہ کی جائے اور انکی دلیل کیا ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ وہ آفتیں اور مصیبتیں جو دونوں گروہ پر نازل ہوتی ہیں ان میں ان دونوں گروہ کی بھلائی ہے اس لئے کہ وہ لوگ جو نیک اور صالح ہیں جب ان پر یہ مصیبتیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں تو وہ خداوند متعال کی عطا کی ہوئی نعمتوں پر متذکر ہوجاتے ہیں اور یہ تذکر و نصیحت انہیں صبرو نصیحت کی طرف کھینچتا ہے اور فاجر و بدکار لوگوں کو ان بلاؤں اور مصیبتوں کے نازل ہونے سے یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ ان کا حرص و لالچ کم ہوجاتی ہے تو گویا خداوند متعال آفتوں اور بلاؤں کے ذریعہ اپنے

۱۵۹

بندوں کو برائی سے بچانا چاہتا ہے اور اس کے علاوہ یہ کہ اگر نیک اور صالح افراد ان آفات سے صحیح وسالم بچ گئے تو وہ نیک اور اچھے کاموں کی طرف اور زیادہ مائل ہوتے ہیں اور ان کی بصیرت و معرفت میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور فاجر لوگ جب اپنے پروردگار کی مہربانی و عطوفت اور اسکی رؤفیت کو دیکھتے ہیں ، کہ وہ ان آفات سے صحیح وسالم بچ گئے کہ جس کے وہ مستحق نہ تھے، تو یہ أمر انہیں لوگوں سے ہمدردی و مہربانی کرنے پر ابھارتا ہے، حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ اُن افراد کے ساتھ بھی ہمدردی و مہربانی سے پیش آتے ہیں کہ جنہوں نے ان کے ساتھ بدی کی، اگر کوئی یہ کہے کہ چلو یہ تو اس کا جواب تھا جب آفاتیں انسان کے مال پر نازل ہوتی ہیں مگر اُن آفتوں کی دلیل کیا ہے کہ جو انسان کے جسم پر وارد ہوتی ہیں مثلاً جل جانا، غرق ہوجانا، سیلاب و زلزلہ کا آنا وغیرہ ؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ خداوند متعال نے اس امر میں بھی ان دونوں گروہ کی بھلائی رکھی ہے ، نیک اور اچھے لوگوں کے لئے یہ کہ جب وہ اس قسم کی چیزوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو دنیا کی تکلیفوں اور پریشانیوں سے نجات پاتے ہیں اور فاجر و فاسق افراد جب ان حوادث سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے گناہ بکھر کر رہ جاتے ہیں،ا ور مزید گناہ کرنے سے رک جاتے ہیں ،مختصر یہ کہ خداوند متعال اپنی حکمت و تدبیر سے ان تمام امور کو خیروخوبی سے بدل دیتا ہے ، جیسا کہ ہوا جب کبھی درخت کو اکھاڑ دیتی ہے ، تو صنعت کار اُسے اٹھا کر اپنی صنعت کے کام میں لے آتا ہے، بالکل اسی طرح خداوند مدبر وحکیم ان آفتوں کو جو لوگوں کی جان و مال پر نازل ہوتی ہیں انہیں لوگوں کے لئے خیر وخوبی اور سود مند بنادیتا ہے اب اگر کوئی یہ کہے کہ آخر لوگ ان خطرات کا شکار ہوتے ہی کیوں ہیں؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ اس لئے تاکہ لوگ اپنی طویل صحت و سلامتی کی خاطر معصیت میں گم نہ ہوجائیں اور فاجر وبدکار لوگ اپنی بدفعلیوں میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لیں، اور نیکو کار بھی نیک کام کرتا ہوا سست نہ پڑجائے اور یہ دو أمر لوگوں کی راحت و خوشحالی پر غلبہ نہ کرلیں اس کے علاوہ یہ آفاتیں لوگوں کو نیک کام میں رشد کرنے کی ہدایت و رہنمائی ،ا ور انہیں متنبہ

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' اپنی زبان کو قابو اور اس کی حفاظت کر یہ نفس کے لئے بہترین ہدیہ ہے_ انسان صحیح اور حقیقی ایمان تک نہیں پہنچتا مگر یہ کہ وہ اپنی زبان کی نگاہ داری اور حفاظت کرے_(۴۲۱)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تین چیزیں فہم اور فقہ کی علامت ہیں تحمل اور بردباری _ علم اور سکوت_ ساکت رہنا دانائی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے_ ساکت رہنا محبت کا سبب ہوتا ہے اور ہر نیکی کی دلیل ہے_(۴۲۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جب عقل کامل ہوتی ہے تو گفتگو ہو جاتی ہے_(۴۲۳)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ''کوئی بھی عبادت ساکت رہنے اور خانہ کعبہ کی طرف پیدل جانے سے افضل نہیں ہے_(۴۲۴)

رسول خدا نے جناب ابوذر سے فرمایا کہ '' میں تجھے زیادہ ساکت رہنے کی سفارش کرتا ہوں اس واسطے کہ اس وسیلے سے شیطن تم سے دور ہوجائے گا_ دین کی حفاظت کے لئے ساکت رہنا بہتر مددگار ہے_(۴۲۵)

خلاصہ انسان سالک اور عارف پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پر پوری طرح کنٹرول کرے اور سنجیدہ اور سوچ سمجھ کر بات کرے اور زیادہ اور بیہودہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے دنیاوی امور میں ضرورت کے مطابق باتیں کرے جو اسے زندگی کرنے کے لئے ضروری ہیں اور اس کے عوض اللہ تعالی کا ذکر اور ورد اور علمی مطالب اور فائدہ مند اور اجتماع کے لئے مفید گفتگو کرنے میں مشغول رہے _ ہمارے بزرگاور عارف ربانی استاد علامہ طباطبائی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ساکت رہنے کے گراں قدر آثار مشاہدہ کئے ہیں_ چالیس شب و روز ساکت رہنے کو اختیار کیجئے اور سوائے ضروری کاموں کے باتیں نہ کریں اور فکر اور ذکر خدا میں مشغول رہیں تا کہ تمہارے لئے نورانیت اور صفاء قلب حاصل ہو سکے_

۲۴۱

چھٹی رکاوٹ

اپنی ذات اور اپنے اپ سے محبت ہے اگر عارف انسان نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر اس کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ سامنے آتی ہے اور وہ ہے اس کا جب ذات یعنی اپنی ذات سے محبت کرنا_ وہ متوجہ ہوگا کہ اس کے تمام کام اور حرکات یہاں تک کہ اس کی عبادت و غیرہ کرنا سب کے سب اپنی ذات کی محبت کیوجہ سے انجام پارہے ہیں_ عبادت ریاضت ذکر اور دعا نماز اور روزے اس لئے انجام دے رہا ہے تا کہ اپنے نفس کو کامل کرے اور اسے ان کی اجزاء آخرت میں دی جائے گرچہ اس طرح کی عبادت کرنا بھی انسان کو بہشت اور آخرت کے ثواب تک پہنچا دیتی ہے لیکن وہ ذکر اور شہود کے بلند و بالا مقام اور رتبہ تک نہیں پہنچاتی جب تک اس کا نفس حب ذات کو ترک نہ کرے اور وہ اللہ تعالی کے بے مثال جمال کا مشاہدہ نہیں کر سکے گا جب تک تمام حجاب اور موانع یہاں تک کہ حب ذات کا حجاب اور مانع بھی ترک نہ کرے اس صورت میں وہ انوار الہی کا مرکز بننے کی قابلیت اور استعداد پیدا نہیں کر سکے گا_ لہذا عارف اور سالک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریاضت اور مجاہدہ کر کے اپنے آپ کو حب ذات کی حدود سے باہر نکالے اپنی ذات کی محبت کو خدا کی محبت میں تبدیل کر دے اور تمام کاموں کو صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے بجا لائے اگر غذا کھاتا ہے تو اس غرض سے کھائے کہ اس کے محبوب نے زندہ رہنے کے لئے اسے ضروری قرار دیا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو اسے اس نیت سے بجالائے کہ ذات الہی ہی عبادت اور پرستش کی سزاوار اور مستحق ہے_ اس طرح کا انسان نہ دینا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے اور نہ آخرت کا بلکہ وہ صرف خدا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے_ یہاں تک کہ وہ کشف اور کرامت کا طلبکار بھی نہیں ہوتا اور سوائے حقیقی معبود کے اس کا کوئی اور مطلوب اورمنظور نظر نہیں ہوتا_ اگر کوئی اس مرحلے کو طے کر لے یہاں تک کہ اپنی شخصیت اور ذات کو اپنے آپ سے جدا کردے تو وہ مقام توحید میں

۲۴۲

قدم رکھ لے گا اور شہود اور لقاء اللہ کے بلند اور بالا مقام تک ترقی کر جائیگا اور بارگاہ مقعد صدق عند ملیک مقتدر میں نازل ہوجائیگا_

ساتویں رکاوٹ

کمال اور عرفان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اور شاید یہ سابقہ تمام رکاوٹوں سے بھی زیادہ ہو وہ ہے ارادہ کا ضعیف ہونا_ اور حتمی فیصلے کرنے کی قدرت نہ رکھنا _ یہ رکاوٹ اور مانع انسان کو عمل شروع کرنے سے روک دیتی ہے_ شیطن اور نفس کرتا ہے کہ انسان کو ظاہر ی ذمہ داری اور وظائف شرعی کی بجالانے کو کافی قرار دے گرچہ اس میں حضور قلب اور توجہہ نہ بھی ہو_ شیطن انسان کو کہتا ہے کہ تو صرف انہیں عبادت کے بجالانے کے سوا اور کوئی شرعی وظیفہ نہیں رکھتا تجھے حضور قلب اور توجہہ اور ذکر سے کیا کام ہے؟ اور اگر کبھی انسان اس کی فکر کرنے بھی لگے تو اسے سینکٹروں حیلے اور بہانوں سے روک دیتا ہے اور کبھی اس مطلب کو اس کرے لئے اتنا سخت نمایاں کرتا ہے کہ انسان اس سے مایوس اور نامید ہوجاتا ہے لیکن اس انسان کے لئے جو کمال حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے ضروری ہے کہ وہ شیطن اور نفس امارہ کے ایسے وسوسوں کے سامنے رکاوٹ بنے اور احادیث اور آیات اور اخلاق کی کتابوں کے مطالعے کرنے سے معلوک کرے کہ سیر اور سلوک کے لئے حضور قلب اور ذکر و شہود کی کتنی ضرورت اور اہمیت ہے اور جب اس نے اس کی اہمیت کو معلوم کر لیا اور اپنی ابدی سعادت کو اس میں دیکھ لیا تو پھر حتمی طور سے اس پر عمل کرے گا اور مایوسی اور ناامیدی کو اپنے سے دور کردے گا اور اپنے آپ سے کہے گا کہ یہ کام گرچہ مشکل ہے اور چونکہ اخروی سعادت اس سے وابستہ ہے لہذا ضرور مجھے اس پر عمل کرنا چاہئے_ اللہ تعالی فرماتا ہے جو ہمارے راستے

۲۴۳

میں کوشش اور جہاد کرتے ہیں ہم اس کو اپنے راستوں کی راہنمائی کر دیتے ہی_

و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا (۴۲۶)

ہماری یہ ساری بحث اور کلام تکامل اور تقرب الہی کے پہلے وسیلے اور ذریعے میں تھی یعنی اللہ تعالی کے ذکر میں تھی _ بحث کی طوالت پر ہم معذرت خواہ ہیں_

۲۴۴

دوسرا وسیلہ

فضائل اور مکارم اخلاق کی تربیت

نفس کے کمال تک پہنچنےاور قرب الہی کے حاصل کرنے کے لئے ایک وسیلہ ان اخلاقی کی جو انسان کی فطرت اور سرشت میں رکھ دیئے گئے ہیں پرورش اور تربیت کرنا ہے_ اچھے اخلاق ایسے گران بہا امور ہیں کہ جن کا ربط اور سنخیت انسان کے ملکوتی روح سے ہے ان کی تربیت اور پرورش سے انسان کی روح کامل سے کاملتر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے بلند و بالا مقام قرب تک پہنچتا ہے_ اللہ تعالی کی مقدس ذات تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ ہے_ انسان چونکہ عالم بالا سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنی پاک فطرت سے کمالات انسانی کو کہ جن کی عالم بالا سے مناسبت ہے انہیں خوب پہچانتا ہے اور فطرتا ان کی طرف مائل ہے اسی لئے تمام انسان تمام زمانوں میں نیک اخلاق کو جانتے اور درک کرتے ہیں جیسے عدالت_ ایثار_ سچائی_ امانتداری _ احسان _ نیکی_ شجاعت_ صبر اور استقامت علم خیر خواہی مظلوموں کی مدد شکریہ احسان شناسی سخاوت اور بخشش_ وفا

۲۴۵

عہد_ توکل_ تواضع اور فروتنی_ عفو اور درگزر_ نرمی مزاجی _ خدمت خلق و غیرہ ان تمام کو ہر انسان خوب پہچانتے اور جانتے ہیں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتاہے_ کہ قسم نفس کی اور اس کی کہ اسے نیک اور معتدل بنایا ہے اور تقوی اور منحرف ہوجانے کا راستہ اسے بتلایا ہے کامیاب وہ ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک بنایا اور نقصان میں ہوگا وہ کہ جس نے اپنے نفس کو آلودہ اور ناپاک بنایا_(۴۳۷)

جب اخلاقی کام بار بار انجام دیئے جائیں تو وہ نفس میں راسخ اور ایک قسم کا ملکہ پیدا کر لیتے ہیں وہی انسان کو انسان بنانے اور اپنا نے اور ہوجانے میں موثر اور اثر انداز ہوتے ہیں اسی واسطے اسلام اخلاق کے بارے میں ایک خاص طرح کی اہمیت قرار دیتا ہے_ اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے_ سینکٹروں آیات اور روایات اخلاق کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ قرآن مجید کی زیادہ آیتیں اخلاق کے بارے میں اور اخلاقی احکام پر مشتمل ہیں یہاں تک کہ اکثر قرآن کے قصوں سے غرض اور غایت بھی اخلاقی احکام امور ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید ایک اخلاقی کتاب ہے _ قاعدتا پیغمبروں کے بھیجنے کی ایک بہت بڑی غرض اور غایت بھی نفس کو پاک اور صاف بنانا اور اخلاق کی اور پرورش کرنا ہے_ ہمارے پیغمبر علیہ السلام نے بھی اپنی بعثت اور بھیجے جانے کی غرص اخلاق کی تکمیل کرنا اور نیک اخلاق کی تربیت کرنا بتلائی ہے اور فرمایا ہے کہ '' میں اللہ تعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تا کہ نیک اخلاق کو پورا اور تمام کروں_(۴۲۸)

پیغمبر اسلام لوگوں سے فرماتے تھے کہ '' میں نیک اخلاق کی تمہیں نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۴۲۹)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں اخلاق حسنہ سے کوئی چیز افضل ہو نہیں رکھی جائیگی_(۴۳۰)

۲۴۶

تیسرا وسیلہ

عمل صالح

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد انسان کے تکامل کا وسیلہ اعمال صالح ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان قرب خدا اور درجات عالیہ کو حاصل کر سکتا ہے اور اپنی اخروی زندگی کو پاک و پاکیزہ بنا سکتا ہے_ قرآن مجید میں ہے کہ '' جو شخص نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایمان رکھتا ہو ہم اس کو ایک پاکیزہ میں اٹھائیں گے اور اسے اس عمل سے کہ جسے وہ بجا لایا ہے_ بہتر جزاء اور ثواب دیں گے_(۴۳۱)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے دنیا کی زندگی کے علاوہ ایک اور پاک و پاکیزہ زندگی ہے اور وہ نئی زندگی اس کے ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے_ قرآن فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ خداوند عالم کی طرف لوٹیں یہی وہ لوگ ہیں جو مقامات اور درجات عالیہ پر فائز ہوتے ہیں_(۴۳۲)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو انسان اللہ تعالی کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے نیک عمل بجالانا چاہئے اور عبادت میں خدا کا کوئی شریک قرار نہ دینا چاہئے_(۴۳۳)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو شخص عزت کا طلبکار ہے تو تمام عزت اللہ تعالی کے

۲۴۷

پاس ہے کلمہ طیبہ اور نیک عمل اللہ تعالی کی طرف جاتا ہے_(۴۳۴)

اللہ تعالی اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام عزت اور قدرت اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی کے پاس ہے اور کلمہ طیبہ یعنی موحد انسان کی پاک روح اور توحید کا پاک عقیدہ ذات الہی کی طرف جاتا ہے اور اللہ تعالی نیک عمل کو اپنے پاس لے جاتا ہے_ نیک عمل جب خلوص نیت سے ہو تو انسان کی روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے ترقی اور کمال دیتا ہے_ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ آخرت کی پاک و پاکیزہ زندگی اور اللہ تعالی سے قرب اور القاء کا مرتبہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے حاصل ہوتا ہے_ قرآن مجید نے نیک اعمال کے بجا لانے پر بہت زیادہ زور دیا ہے خدا سعادت اور نجات کا وسیلہ صرف عمل صالح کو جانتا ہے نیک عمل کا معیار اور میزان اس کا شریعت اور وحی الہی کے مطابق ہونا ہوا کرتا ہے_ خداوند عالم جو انسان کی خصوصی غرض سے واقف ہے اس کی سعادت اور تکامل کے طریقوں کو بھی جانتا ہے اور ان طریقوں کو وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام کے سپرد کر دیا ہے تا کہ آپ انہیں لوگوں تک پہنچا دیں اور لوگ ان سے استفادہ حاصل کریں_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں جب خدا اور اس کا رسول تمہیں کسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہیں تو اسے قبول کرو_(۴۳۵)

نیک اعمال شرعیت اسلام میں واجب اور مستحب ہوا کرتے ہیں_ عارف اور سالک انسان ان کے بجالانے سے اللہ تعالی کی طرف سیر و سلوک کرتے ہوئے قرب الہی کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور یہی تنہا قرب الہی تک پہنچنے کا راستہ ہے اور دوسرے جتنے راستے ہیں وہ عارف کو اس مقصد تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ ٹیڑھے راستے ہیں_ عارف انسان کو مکمل طور سے شرعیت کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اور سیر و سلوک کے لیے شرعیت کے راستے کے علاوہ اور کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے اور ان اذکار اور اوراد اور حرکت سے کہ جس کا شرعیت اسلام میں کوئی مدرک اور

۲۴۸

ذکر موجود نہ ہو اس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہئے نہ صرف وہ مقصد تک نہیں پہنچاتے بلکہ وہ اس کو مقصد سے دور بھی کر دیتے ہیں کیونکہ شرعیت سے تجاوز کرنا بدعت ہوا کرتا ہے_ عارف اور سالک انسان کو پہلے کوشش کرنی جاہئے کہ وہ واجبات اور فرائض دینی کو صحیح اور شرعیت کے مطابق بجالائے کیونکہ فرائض اور واجبات کے ترک کردینے سے مقامات عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا گرچہ وہ مستحبات کے بجالائے اور ورد اور ذکر کرنے میں کوشاں بھی رہے_ دوسرے مرحلے میں مستحبات اور ذکر اور ورد کی نوبت آتی ہے_ عارف انسان اس مرحلے میں اپنے مزاجی استعداد اور طاقت سے مستحبات کے کاموں کا بجا لائے اور جتنی اس میں زیادہ کوشش کرے گا اتنا ہی عالی مقامات اور رتبے تک جا پہنچے گا_ مستحبات بھی فضیلت کے لحاظ سے ایک درجے میں نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض دوسرے بعض سے افضل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بہتر اور جلدی مقام قرب تک پہنچاتے ہیں جیسے احادیث کی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے_ عارف انسان نمازیں دعائیں ذکر اور اوراد کتابوں سے انتخاب کرے اور اس کو ہمیشہ بجا لاتا رہے جتنا زیادہ اور بہتر بجا لائیگا اتنا صفا اور نورانیت بہتر پیدا کرے گا اور مقامات عالیہ کی طرف صعود اور ترقی کرے گا ہم یہاں کچھ اعمال صالح کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور باقی کو کتابوں کی طرف مراجعہ کرنے کا کہتے ہیں لیکن اس کا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ فرائض اور نوافل ذکر اور ورد اس صورت میں عمل صالح ار موجب قرب ہونگے جب انہیں بطور اخلاص بجا لایا جائے_ عمل کا صالح اور نیک اور موجب قرب ہونا اخلاص اور خلوص کی مقدار کے لحاظ سے ہوگا لہذا پہلے ہم اخلاص اور خلوص میں بحث کرتے ہیں پھر کچھ تعداد اعمال صالح کی طرف اشارہ کریںگے_

اخلاص

اخلاص کا مقام اور مرتبہ تکامل اور سیر و سلوک کے اعلی ترین مرتبے میں سے ایک ہے اور خلوص کی کی وجہ سے انسان کی روح اور دل انوار الہی کا مرکز بن جاتا ہے

۲۴۹

اور اس کی زبان سے علم اور حکمت جاری ہوتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خدا کے لئے چالیس دن خالص اور فارغ ہوجائے تو اس کے دل سے حکمت اور دانائی کے چشمے ابلتے اور جاری ہوجاتے ہیں_(۴۳۶)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنے اعمال کو خدا کے لئے خالص بجالاتے ہیں اور اپنے دلوں کو اس لئے کہ اللہ تعالی کی وجہ کا مرکز پاک رکھتے ہیں_(۴۳۷)

حضرت زہراء علیہا السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خالص عبادت اللہ تعالی کی طرف بھیجے اللہ تعالی بھی بہترین مصلحت اس پر نازل فرماتا ہے_(۴۳۸)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے '' بندوں کا پاک دل اللہ تعالی کی نگاہ کا مرکز ہوتا ہے جس شخص نے دل کو پاک کیا وہ اللہ تعالی کا مورد نظر قرار پائیگا_(۴۳۹)

پیغمبر علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور اس نے اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ '' خلوص اور اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جس شخص کو میں دوست رکھتا ہوں اس کے دل میں یہ قرار دے دیتا ہوں_(۴۴۰)

خلوص کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ کم از کم اس کا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی عبادت کو شرک اور ریاء اور خودنمائی سے پاک اور خالص کرے اور عبادت کو صرف خدا کے لئے انجام دے خلوص کی اتنی مقدار تو عبادت کے صحیح ہونے کی شرط ہے اس کے بغیر تو تقرب ہی حاصل نہیں ہوتا عمل کی قیمت اور ارزش اس کے شرک اور ریاء سے پاک اور خالص ہونے پر موقوف ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم تمہاری شکل اور عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے_(۴۴۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں بہترین شریک ہوں جو شخص کسی دوسرے کو عمل میں شریک قرار دے (تو تمام عمل کو اسی

۲۵۰

کے سپرد کر دیتا ہوں) میں سوائے خالص عمل کے قبول نہیں کرتا _(۴۴۲) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم لوگوں کو قیامت میں ان کی نیت کے مطابق محشور کرے گا_(۴۴۳)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خوش نصیب ہے وہ شخص جو عبادت اور دعا کو صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے اور اپنی آنکھوں کو ان میں مشغول نہ کرے جو آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی وجہ سے جو اس سے کان پر پڑتا ہے اللہ تعالی کے ذکر کو فراموش نہ کرے اور جو چیزیں دوسروں کو دی گئی ہیں ان پر غمگین نہ ہو_(۴۴۴)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے_ ''عمل میں خلوص سعادت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے_(۴۴۵) اللہ تعالی کے ہاں وہ عبادت قبول ہوتی ہے اور موجب قرب اور کمال ہوتی ہے جو ہر قسم کے ریاء اور خودپسندی اور خودنمائی سے پاک اور خالص ہو اور صرف اور صرف خدا کے لئے انجام دی جائے عمل کی قبولیت اور ارزش کا معیار خلوص اور اخلاص ہے جتنا خلوص زیادہ ہوگا اتناہی عمل کامل تر اور قیمتی ہوگا_ عبادت کرنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں_

ایک وہ لوگ جو اللہ تعالی کے عذاب اور جہنم کی آگ کے خوف اور ڈر سے عبادت بجا لاتے ہیں_

دوسرے وہ لوگ ہیں جو بہشت کی نعمتوں اور آخرت کے ثواب کے لئے اوامر اور نواہی کی اطاعت کرتے ہیں ان کا اس طرح کا عمل اس کے صحیح واقع ہونے کے لئے تو مضر نہیں ہوتا ان کا ایسا عمل صحیح اور درست ہے اور موجب قرب اور ثواب بھی ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں لوگوں کو راہ حق کی ہدایت اور ارشاد اور تبلیغ کے لئے غالبا انہیں دو طریقوں سے استفادہ کیا گیا ہے بالخصوص پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء اللہ خداوند عالم کے عذاب سے ڈرتے تھے اور جزع اور فزع کیا کرتے تھے اور بہشت اور اس کی نعمتوں کے لئے شوق اور امید کا اظہار کیا کرتے تھے_

۲۵۱

تیسرے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانہ کے لئے اللہ تعالی کی پرستش اور عبادت کیا کرتے ہیں اس طرح کا عمل بجا لانا اسکے منافی نہیں جو عمل کے قبول ہونے میں خلوص شرط ہے اسی واسطے احادیث میں لوگوں کو عمل بجالانے کی ترغیب اور شوق دلانے میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے تا کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالی کے احکام کی اطاعت کریں بلکہ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے عبادت میں انہماک اور کوشش کرنے کا سبب یہ بتلایا ہے کہ کیا ہم اللہ کے شکر گزار بندے قرار نہ پائیں(افلا اکون عبدا شکورا)گر چہ ان تینوں کے اعمال قابل قبول واقع ہوتے ہیں لیکن تیسرے قسم کے لوگ ایک خاص امتیاز اور قیمت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں خلوص زیادہ ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں وہ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم وہ ہے جو آخرت کے ثواب حاصل کرنے کے لئے خدا کی عبادت کرتے ہیں_ ان لوگوں کا کردار تاجروں والا ہے دوسری قسم وہ ہے جو جہنم کے خوف سے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں یہ اطاعت اور عبادت غلاموں اور نوکر والی ہے_ تیسری قسم وہ ہے جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانے کے ادا کرنے کے لئے عبادت کرتے ہیں یہ عبادت آزاد مردوں والی عبادت ہے_(۴۴۶)

چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو نفس کی تکمیل اور روح کی تربیت کے لئے عبادت کرتے ہیں اس طرح کا م قصد بھی اس خلوص کو جو عبادت کے صحیح ہونے میں شرط ضرر نہیں پہنچاتا_

پانچویں قسم اللہ کے ان ممتاز اور مخصوص بندوں کی ہے کہ جنہوں نے خدا کو اچھی طرح پہنچان لیا ہے اور جانتے ہیں کہ تمام کمالات اور نیکیوں کا منع اور سرچشمہ خدا ہے اس کی عبادت کرتا ہے اور چونکہ وہ اللہ کی بے انتہا قدرت اور عظمت کی طرف متوجہ ہیں اور اس ذات کے سوا کسی اور کو موثر نہیں دیکھتے صرف اسی ذات کو پرستش اور عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اسی لئے خدا کو دوست رکھتے ہیں اور اس کی قدرت اور

۲۵۲

عظمت کے سامنے خضوع اور خشوع کرتے ہیں اور یہ اخلاص اور خلوص کا اعلی ترین درجہ اور مرتبہ ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عبادت کرنے والے تین گروہ ہیں_ ایک گروہ ثواب کی امید میں عبادت کرتا ہے یہ عبادت حریص لوگوں کی ہے کہ جن کی غرض طمع ہوتا ہے دوسرا گروہ وہ ہے جو دوزخ کے ڈر سے عبادت کرتا ہے_ یہ عبادت غلاموں کی عبادت ہے کہ خوف اس کا سبب بنتا ہے لیکن میں چونکہ خدا کو دوست رکھتا ہوں اسی لئے اس کی پرستش اور عبادت کرتا ہوں یہ عبادت بزرگوں اور اشراف لوگوں کی ہے اس کا سبب اطمینان اور امن ہے اللہ تعالی فرماتا ہے (و ہم فزع یومئسذ امنون کہ وہ قیامت کے دن امن میں ہیں_ نیز اللہ فرماتا ہے ''قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله و یغفر لکم ذنوبکم _(۴۴۷) امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' اے میرے مالک_ میں تیری عبادت نہ دوزخ کے خوف سے اور نہ بہشت کے طمع میں کرتا ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کے تجھے عبادت اور پرستش کے لائق جانتا ہوں_(۴۴۸)

یہ تمام گروہ مخلص ہیں اور ان کی عبادت قبول واقع ہوگی لیکن خلوص اور اخلاص کے لحاظ سے ایک مرتبے میں نہیں ہیں بلکہ ان میں کامل اور کاملتر موجود ہیں پانچویں قسم اعلی ترین درجہ پر فائز ہے لیکن یہ واضح رہے کہ جو عبادت کے اعلی مرتبہ پر ہیں وہ نچلے درجہ کو بھی رکھتے ہیں اور اس کے فاقد نہیں ہوتے بلکہ نچلے درجے کے ساتھ اعلی درجے کو بھی رکھتے ہیں_ اللہ تعالی کے مخلص اور صدیقین بندے بھی اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں اور ان کے لطف اور کرم کی امید رکھتے ہیں اللہ تعالی کی نعمتوں کے سامنے شکر ادا کرتے ہیں اور معنوی تقرب اور قرب کے طالب ہوتے ہیں لیکن ان کی عبادت کا سبب فقط یہی نہیں ہوتا اور چونکہ وہ خدا کی سب سے اعلی ترین معرفت رکھتے ہیں اسی لئے اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں یہ اللہ تعالی کے ممتاز اور منتخب بندے ہیں مقامات عالیہ کے علاوہ نچلے سارے درجات رکھتے ہیں کیونکہ جو انسان تکامل

۲۵۳

کے لئے سیر و سلوک کرتا ہے جب وہ اعلی درجے تک پہنچتا ہے تو نچلے درجات کو بھی طے کر کے جاتا ہے_

اب تک جو ذکر جو ذکر ہوا ہے وہ عبادت میں خلوص اور اخلاص تھا لیکن خلوص صرف عبادت میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ عارف انسان تدریجا ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ خود اور اس کا دل اللہ تعالی کے لئے خالص ہو جاتا ہے اور تمام غیروں کو اپنے دل سے اس طرح نکال دیتا ہے کہ اس کے اعمال اور حرکات اور افکار خداوند عالم کے ساتھ اختصاص پیدا کر لیتے ہیں اور سوائے اللہ تعالی کی رضایت کے کوئی کام بھی انجام نہیں دیتا اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور خدا کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتا_ اس کی کسی سے دوستی اور دشمنی صرف خدا کے لئے ہوا کرتی ہے اور یہ اخلاص کا اعلی ترین درجہ ہے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کا عمل اور علم محبت اور بغض کرنا اور نہ کرنا بولنا اور ساکت رہنا تمام کا تمام خدا کے لئے خالص ہو_(۴۴۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص کی محبت اور دشمنی خرچ کرنا اور نہ کرنا صرف خدا کے لئے ہو یہ ان انسانوں میں سے ہے کہ جس کا ایمان کامل ہوتا ہے_(۴۵۰) امام جعفر صادق علیہ السلام نے ''فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے جس بندے کے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز نہ رکھی ہو تو اس کو اس سے اور کوئی شریف ترین چیز عطا نہیں کی_(۴۵۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہاں ہے وہ دل جو اللہ تعالی کو بخش دیا گیا ہو اور اس کی اطاعت کا پیمان اور عہد بناندھا گیا ہو_(۴۵۲)

جب کوئی عارف انسان اس مرتبے تک پہنچ جائے تو خدا بھی اس کو اپنے لئے خالص قرار دے دیتا ہے اور اپنی تائید اور فیض اور کرم سے اس کو گناہوں سے محفوظ

۲۵۴

کر دیتا ہے اس طرح کا انسان مخلص پہچانا جاتا ہے اور مخلص انسان اللہ تعالی کے ممتاز بندوں میں سے ہوتے ہیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے خالص قرار دے دیا ہے_(۴۵۳)

قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' یقینا و ہ خالص ہوگیا ہے اور رسول اور پیغمبر ہے_(۴۵۴)

اللہ تعالی کے خالص بندے ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں کہ شیطن ان کو گمراہ کرنے سے ناامید ہوجاتا ہے قرآن کریم شیطن کی زبان نقل کرتا ہے کہ اس نے خداوند عالم سے کہا کہ '' مجھے تیری عزت کی قسم کہ میں تیرے تمام بندوں کو سوائے مخلصین کے گمراہ کروں گا اور مخلصین کے گمراہ کرنے میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے_(۴۵۵) بلکہ اخلاص کے لئے روح اور دل کو پاک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور عبادت کرنے میں کوشش اور جہاد کرنا ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''عبادت کا نتیجہ اور ثمر اخلاص ہوتا ہے_(۴۵۶)

جیسے کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ چالیس دن تک عبادت اور ذکر کو برابر بجا لانا دل کے صفا اور باطنی نورانیت اور مقام اخلاص تک پہنچنے کے لئے سبب اور موثر اورمفید ہوتاہے نہ صرف ایک دفعہ بلکہ تدریجا اور اخلاص کے باطنی مراحل طے کرتے رہنے سے ایسا ہو سکتا ہے_

۲۵۵

کچھ نیک اعمال

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کو تکامل تک پہچانے اور قرب اور ارتقاء کے مقام تک لے جانے کا راستہ صرف اور صرف وحی الہی اور شرعیت کی پیروی کرنے میں منحصر ہے اور یہی وہ راستہ ہے کہ جسے انبیاء علیہم السلام نے بیان کیا ہے او رخود اس پر عمل کیا ہے اور اسے واجبات اور مستحبات سے بیات کیا ہے یہی عمل صالح ہے_ عمل صالح یعنی واجبات اور مستحبات جو اسلام میں بیان کئے گئے ہیں اور انہیں قرآن اور احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں لکھا گیا ہے آپ انہیں معلوم کر سکتے ہیں اور ان پر عمل کر کے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہم یہاں پر ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں_

اول: واجب نمازیں

قرب الہی اور سیر و سلوک معنوی کے لئے نماز ایک بہترین سبب اور عامل ہے_ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر پرہیزگار انسان کے لئے نماز قرب الہی کا وسیلہ ہے_(۴۵۷)

معاویہ بن وھب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ بہترین وسیلہ جو بندوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے اور خدا اسے دوست رکھتا ہے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا

۲۵۶

اللہ کی معرفت کے بعد میں نماز سے بہتر کوئی اور کسی چیز کو وسیلہ نہیں پاتا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی کے نیک بندے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے مجھے جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کی سفارش ہے_(۴۵۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کے نزدیک نماز محبوب ترین عمل ہے_ انبیاء کی آخری وصیت نماز ہے_ کتنا ہی اچھا ہے کہ انسان غسل کرے اور اچھی طرح وضوء کرے اس وقت ایک ایسے گوشہ میں بیٹھ جائے کہ اسے کوئی نہ دیکھے اور رکوع اور سجود میں مشغول ہوجائے جب انسان سجدے میں جائے اور سجدے کو طول دے تو شیطن داد اور فریاد کرتا ہے کہ اس بندے نے خدا کی اطاعت کی اور سجدہ کیا اور میں نے سجدے کرنے سے انکار کر دیا تھا_(۴۵۹)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک بندہ کی خدا کے نزدیک ترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سجدے میں ہوتا اس واسطے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ واسجد و اقترب_(۴۶۰)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو آسمان سے اس پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد ملائکہ گھیرا کر لیتے ہیں ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اگر یہ نماز کی ارزش اور قیمت کو جانتا تو کبھی نماز سے روگردانی نہ کرتا_(۴۶۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے '' جب مومن بندہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خداوند عالم نماز سے فارغ ہونے تک اس کی طرف نگاہ کرتا ہے اور آسمان سے اللہ تعالی کی رحمت اسے گھیر لیتی ہے اور فرشتے اس کے اردگرد گھیرا ڈال دیتے ہیں خداوند اس پر ایک فرشتے کو معین کر دیتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ اے نماز پڑھتے والے اگر تو جان لیتا کہ تو کس کی توجہ کا مرکز ہے اور کس سے مناجات کر رہا ہے تو پھر تو کسی دوسری چیز کی طرف ہرگز توجہ نہ کرتا اور کبھی یہاں سے باہر نہ جاتا_(۴۶۲)

۲۵۷

نماز میں حضور قلب

نماز ایک ملکوتی اور معنوی مرکب ہے کہ جس کی ہر جزو میں ایک مصلحت اور راز مخفی ہے_ اللہ تعالی سے راز و نیاز انس محبت کا وسیلہ اور ارتباط ہے_ قرب الہی اور تکامل کا بہترین وسیلہ ہے_ مومن کے لئے معراج ہے برائیوں اور منکرات سے روکنی والی ہے_ معنویت اور روحانیت کا صاف اور شفاف چشمہ ہے جو بھی دن رات میں پانچ دفعہ اس میں جائے نفسانی آلودگی اور گندگی سے پاک ہو جاتا ہے اللہ تعالی کی بڑی امانت اور اعمال کے قبول ہونے کا معیار اور ترازو ہے_

نماز آسمانی راز و اسرار سے پر ایک طرح کا مرکب ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں روح اور زندگی ہو_ نماز کی روح حضور قلب اور معبود کی طرف توجہہ اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع ہے_ رکوع اور سجود قرات اور ذکر تشہد اور سلام نماز کی شکل اور صورت کو تشکیل دیتے ہیں_ اللہ تعالی کی طرف توجہ اور حضور قلب نماز کے لئے روح کی مانند ہے_ جیسے جسم روح کے بغیر مردہ اور بے خاصیت ہے نماز بھی بغیر حضور قلب اور توجہ کے گرچہ تکلیف شرعی تو ساقط ہو جاتی ہے لیکن نماز پڑھنے والے کو اعلی مراتب تک نہیں پہنچاتی نماز کی سب سے زیادہ غرض اور غایت اللہ تعالی کی یاد اور ذکر کرنا ہوتا ہے_ خداوند عالم پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ '' نماز کو میری یاد کے لئے برپا کر_( ۴۶۴)

قرآن مجید میں نماز جمعہ کو بطور ذکر کہا گیا ہے یعنی '' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو موجب نماز جمعہ کے لئے آواز دی جائی تو اللہ تعالی کے ذکر کی طرف جلدی کرو_(۴۶۵)

نماز کے قبول ہونے کا معیار حضور قلب کی مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز میں حضور قلب ہوگا اتنا ہی نماز مورد قبول واقع ہوگی_ اسی لئے احادیث میں حضور قلب کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے_ جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے ''کبھی آدھی نماز قبول ہوتی ہے اور کبھی تیسرا حصہ اور کبھی چوتھائی اور کبھی پانچواں حصہ

۲۵۸

اور کبھی دسواں حصہ_ بعض نمازیں پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نماز پڑھنے والے کے سرپر مار دی جاتی ہے_ تیری نماز اتنی مقدر قبول کی جائیگی جتنی مقدار تو خدا کی طرف توجہ کرے گا_( ۴۶۶) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا اس کی طرف توجہہ کرتا ہے اور اپنی توجہ کو اس سے نہیں ہٹاتا مگر جب تین دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھی اس سے اعراض اور روگردانی کر لیتا ہے_(۴۶۷)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سستی اور بیہودہ حالت میں نماز نہ پڑھو_ نماز کی حالت میں اپنی فکر میں نہ رہو کیونکہ تم خدا کے سامنے کھڑے ہو_ جان لو کہ نماز سے اتنی مقدار قبول ہوتی ہے جتنی مقدار تیرا دل اللہ کی طرف توجہ کرے گا_(۸ ۴۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو بندہ نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی کی طرف متوجہ ہو تو خدا اس سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے کس کا ارادہ کیا ہے اور کس کو طلب کرتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو خالق اور حفاظت کرنے والا ڈھونڈتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو بخشنے والا طلب کرتے ہو؟ جب کہ میں کریم اور بخشنے والوں سے زیادہ کریم اور بخشنے والا ہوں اور سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہوں میں تمہیں اتنا ثواب دونگا کہ جسے شمار نہیں کیا سکے گا میری طرف توجہ کر کیونکہ میں اور میرے فرشتے تیری طرف توجہ کر رہے ہیں اگر نمازی نے خدا کی طرف توجہ کی تو اس دفعہ اس کے گزرے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہیں اور اس نے دوسری دفعہ خدا کے علاوہ کسی طرف توجہہ کی تو خداوند عالم دوبارہ اسے سابقہ گفتگو کی طرح خطاب کرتا ہے اگر اس نے نماز کی طرف توجہ کر لی تو اس کا غفلت کرنے والا گناہ بخشنا جاتا ہے اور اس کے آثار زائل ہوجاتے ہیں اور اگر تیسری دفعہ نماز سے توجہہ ہٹا لے خدا

۲۵۹

پھر بھی پہلے کی طرح اسے خطاب کرتا ہے اگر اس دفعہ نماز کی توجہ کر لے تو اس دفعہ اس کا غفلت والا گناہ بخش دیا جاتا ہے اور اگر چوتھی دفعہ نماز سے توجہ ہٹا لے تو خدا اور اس کے ملائکہ اس سے توجہ ہٹا لیتے ہیں_ خدا اس سے کہتا ہے کہ تجھے اسی کی طرف چھوڑے دیا ہے کہ جس کی طرف توجہ کر رہا ہے_(۴۶۹)

نماز کی ارزش اور قیمت خدا کی طرف توجہ اور حضور قلب سے ہوتی ہے توجہ اور حضور قلب کی مقدار جتنا اسے باطنی صفا اور تقرب الی اللہ حاصل ہوتا ہے_ بلا وجہ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء کرام نماز کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے_ امیر المومنین علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو آپ کے بدن پر لزرہ طاری ہوجاتا تھا اور آپکے چہرے کا رنگ بدن جاتا تھا_

آپ سے تبدیلی اور اضطراب کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ''کہ اس وقت اس امانت کے ادا کرنے کا وقت آپہنچا ہے جو آسمان اور زمین پر ڈالی گئی تھی لیکن وہ ڈرگئے تھے اور اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن انسان نے اس بڑے امانت کے اٹھانے کو قبول کر لیا تھا میرا خوف اس لئے ہے کہ آیا میں اس امانت کو ادا کر لونگا یا نہ؟(۴۷۰)

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے احوال میں کہا گیا ہے کہ نماز کے وقت ان کے چہرے کا رنگ زرد اور سرخ ہو جاتا تھا اور نماز کی حالت میں اس طرح ہوتے تھے کہ گویا اس گفتگو کر رہے ہیں کہ جسے وہ دیکھ رہے ہیں_(۴۷۱)

امام زین العابدین کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا اور ایک حقیر بندے کی طرح خدا کے سامنے کھڑے ہوتے تھے آپ کے بدن کے اعضاء خدا کے خوف سے لرزتے تھے اور آپ کی نماز ہمیشہ و داعی اور آخری نماز کی طرح ہوا کرتی تھی کہ گویا آپ اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھ سکیں گے_(۴۷۲)

حضرت زہرا علیہا السلام کے بارے میں ہے کہ نماز کی حالت میں سخت خوف کی

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346