خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس11%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122447 / ڈاؤنلوڈ: 5523
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

وجہ سے آپ کی سانس رکنے لگ جاتی تھی_(۴۷۳)

امام حسن علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ نماز کی حالت میں آپ کا بدن مبارک لرزنے لگتا تھا اور جب بہشت یا دوزخ کی یاد کرتے تو اس طرح لوٹتے پوٹتے کہ جیسے سانپ نے ڈس لیا ہو اللہ تعالی سے بہشت کی خواہش کرتے اور دوزخ سے پناہ مانگتے تھے_(۴۷۴)

حضرت عائشےہ رسول خدا(ص) کے بارے میں فرماتی ہیں کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو کر رہی ہوتی جب نماز کا وقت آیات تو آپ اس طرح منقلب ہوتے کہ گویا آپ مجھے نہیں پہچانتے اور میں انہیں نہیں پہچانتی_(۴۷۵)

امام زین العابدین علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ نماز کی حالت میں تھے کہ آپ کے کندھے سے عبا گر گئی لیکن آپ متوجہ نہیں ہوئے جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کے اصحاب میں سے ایک نے عرض کی اے فرزند رسول(ص) آپ کی عباء نماز کی حالت میں گر گئی اور آپ نے توجہ نہیں کی؟ آپ نے فرمایا کہ افسوس ہو تم پر جانتے ہو کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہوا تھا؟ اس ذات کی توجہ نے مجھے عباء کے گرنے کی توجہ سے روکا ہوا تھا_ کیا تم نہیں جانتے کہ بندہ کی نماز اتنی مقدار قبول ہوتی ہے کہ جتنا وہ خدا کی طرف حضور قلب رکھتا ہو_ اس نے عرض کی _ اے فرزند رسو ل(ص) پس ہم تو ہلاک ہوگئے؟ آپ نے فرمایا '' نہیں _ اگر تم نوافل پڑھو تو خدا ان کے وسیلے سے تمہاری نماز کو پورا کر دے گا_(۴۷۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ نماز کی حالت میں آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا تھا اور آپ کے سینے سے غلفے کی طرح آواز اٹھتی ہوئی سنی جاتی تھی اور جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اس لباس کی طرح جو زمین پر گرا ہوا ہو حرکت نہیں کیا کرتے تھے_

۲۶۱

حضور قلب کے مراتب

حضور قلب اول اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کے مختلف درجات ہیں کہ ان میں سے بعض کامل اور دوسرے بعض زیادہ کامل ہیں_ عارف انسان آہستہ آہستہ ان درجات کو طے کرے تا کہ قرب اور شہود کے اعلی درجے اور عالیتر مقام کو حاصل کر لے_ یہ ایک طویل راستہ ہے اور متعدد مقامات رکھتا ہے کہ جس کی وضاحت مجھ جیسے محروم انسان سے دور ہے دور سے دیکھتے والا جو حسرت کی آگ میں جل رہا ہے یہ اس کی قدرت اور طاقت سے خارج ہے لیکن اجمالی طور سے بعض مراتب کی طرف اشارہ کرتا ہوں شاید کہ عارف انسان کے لئے فائدہ مند ہو_

پہلا مرتبہ

یوں ہے کہ نماز پڑھنے والا تمام نماز یا نماز کے بعض حصے میں اجمالی طور سے توجہ کرے کہ خداوند عالم کے سامنے کھڑا ہوا ہے اور اس ذات کے ساتھ ہم کلام اور راز و نیاز کر رہا ہے گرچہ اسے الفاظ کے معانی کی طرف توجہ نہ بھی ہو اور تفضیلی طور سے نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے_

دوسرا مرتبہ

قلب کے حضور اور توجہ کا یوں ہونا کہ نمازی علاوہ اس کے کہ وہ نماز کی حالت میں اپنے آپ کو یوں جانے کہ خدا کے سامنے کھڑا اور آپ سے راز و نیاز کر رہا ہے ان کلمات کے معانی کی طرف بھی توجہ کرے جو پڑھ رہا ہے اور سمجھے کہ وہ خدا سے کیا کہہ رہا ہے اور کلمات اور الفاظ کو اس طرح ادا کرے کہ گویا ان کے معانی کو اپنے دل پر خطور دے رہا ہے مثل اس ماں کے جو الفاظ کے ذریعے اپنے فرزند کو معانی کو تعلیم دیتی ہے_

۲۶۲

تیسرا مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی تمام سابقہ مراتب بجا لاتے ہوئے تکبیر اور تسبیح تقدیس اور تحمید اور دیگر اذکار اور کلمات کی حقیقت کو خوب جانتا ہو اور ان کو علمی دلیلوں کے ذریعے پہچانتا ہو اور نماز کی حالت میں ان کی طرف متوجہ ہو اور خوف جانے کہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا چاہتا ہے اور کس ذات سے ہم کلام ہے_

چوتھے مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی ان سابقہ مرحلوں کے ساتھ کلمات اور اذکار کے معانی اور معارف کو اچھی طرح اپنی ذات کے اندر سموئے اور کامل یقین اور ایمان کے درجے پر جا پہنچے اس حالت میں زبان دل کی پروی کرے گی اور دل چونکہ ان حقائق کا ایمان رکھتا ہے زبان کو ذکر کرنے پر آمادہ اور مجبور کرے گا_

پانچواں مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی سابقہ تمام مراحل کے ساتھ کشف اور شہود اور حضور کامل تک جاپہنچے اللہ تعالی کے کمالات اور صفات کو اپنی باطنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے اور سوائے خدا کے اور کسی چیز کو نہ دیکھے یہاں تک کہ اپنے آپ اور اذکار اور افعال اور حرکات کی طرف بھی متوجہ نہ ہو خدا سے ہم کلام ہے یہاں تک کہ متکلم اور کلام سے بھی غافل ہے اپنے آپ کو بھی گم اور ختم کر چکا ہے_ اور اللہ تعالی کے جمال کے مشاہدے میں محو اور غرق ہے_ یہ مرتبہ پھر کئی مراتب اور درجات رکھتا ہے کہ عارف انسانوں کے لحاظ سے فرق کر جاتا ہے _ یہ مرتبہ ایک عمیق اور گہرا سمندر ہے بہتر یہی ہے کہ مجھ جیسا محروم انسان اس میں وارد نہ ہو اور اس کی وضاحت ان کے اہل اور مستحق لوگوں کی طرف منتقل کردے_اللهم ارزقنا حلاوة ذکرک و

۲۶۳

مشاهدة جمالک

حضور قلب اور توجہ کے اسباب

جتنی مقدار حضور قلب اور توجہ کی ارزش اور قیمت زیادہ ہے اتنی مقدار یہ کام مشکل اور سخت دشوار بھی ہے _ جب انسان نماز میں مشغول ہوتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالنا شروع کردیتا ہے او ردل کو دائما ادھر ادھر لے جاتا ہے اور مختلف خیالات اور افکارمیں مشغول کر دیتا ہے_ اسی حالت میں انسان حساب کرنا شروع کر دیتا ہے بقشے بناتا ہے اور گذرے ہوئے اور آئندہ کے مسائل میں فکر کرنا شروع کر دیتا ہے_ علمی مطالب کو حل کرتا ہے اور بسا اوقات ایسے مسائل اور موضوعات کو کہ جن کو بالکل فراموش کر چکا ہے نماز کی حالت میں یاد کرتا ہے اور اس وقت اپنے آپ میں متوجہ ہوتا ہے کہ جب نماز ختم کر چکا ہوتا ہے اور اگر اس کے درمیان تھوڑا سا نماز کی فکر میں چلا بھی جائے تو اس سے فورا منصرف ہوجاتا ہے_

بہت سی تعجب اور افسوس کا مقام ہے _ کیا کریں کہ اس سرکش اور بیہودہ سوچنے والے نفس پر قابو پائیں کس طرح نماز کی حالت میں مختلف خیالات اور افکار کو اپنے آپ سے دور کریں اور صرف خدا کی یاد میں رہیں_ جن لوگوں نے یہ راستہ طے کر لیا ہے اور انہیں اس کی توفیق حاصل ہوئی ہے وہ ہماری بہتر طریقے سے راہنمایی کر سکتے ہیں_ بہتر یہ تھا کہ یہ قلم اور لکھنا اس ہاتھ میں ہوتا لیکن یہ حقیر اور محروم بھی چند مطالب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو حضور قلب اور توجہہ کے فائدہ مند ہوں گے_

۱_ گوشہ نشینی

اگر مستحب نماز یا فرادی نماز پڑھے تو بہتر ہے کہ کسی تنہائی کے مکان کو منتخب کرے کہ ج ہاں شور و شین نہ ہو اور وہاں کوئی فوٹو و غیرہ یا کوئی ایسی چیز نہ ہو کہ جو نمازی کو اپنی طرف متوجہ کرے اور عمومی جگہ پر نماز پڑھے اور اگر گھر میں نماز پڑھے تو

۲۶۴

بہتر ہے کہ کسی خاص گوشے کو منتخب کر لے اور ہمیشہ وہاں نماز پڑھتا رہے نماز کی حالت میں صرف سجدہ گاہ پر ن گاہ رکھے یا اپنی آنکھوں کو بند رکھے اور ان میں سے جو حضور قلب اور توجہہ کے لئے بہتر ہو اسے اختیار کرے اور بہتر یہ ہے کہ چھوٹے کمرے یا دیوار کے نزدیک نماز پڑھے کہ دیکھنے کے لئے زیادہ جگہ نہ ہو اور اگر نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھے تو پھر صرف سجدہ گاہ پر نگاہ کرے اور اگر پیش نماز بلند آواز سے قرات پڑھے تو اس کی قرائت کی طرف خوب توجہ کرے_

۲_ رکاوٹ کا دور کرنا

نماز شروع کرنے سے پہلے جو حضور قلب اور توجہ کا مانع اور رکاوٹ ہے اسے دور کرے پھر نماز پڑھنے میں مشغول ہوجائے اور اگر پیشاب اور پاخانے کا زور ہو تو پہلے اس سے فارغ ہو جائے اس کے بعد وضو کرے اور نماز میں مشغول ہو اور اگر سخت بھوک اور پیاس لگی ہوئی ہو تو پہلے کھانا اور پانی پی لے اور اس کے بعد نماز پڑھے اور اگر پیٹ کھانے سے بھرا ہوا اور نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو تو پھر ٹھہر جائے اور صبر کرے یہاں تک کہ نماز پڑھنے کو دل چاہنے لگے_

اور اگر زیادہ تھکاوٹ یا نیند کے غلبے سے نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو_ تو پہلے اپنی تکاوٹ اور نیند کو دور کرے اس کے بعدنماز پڑھے_ اور اگر کسی مطلب کے واضح نہ ہونے یا کسی واقعہ کے رونما ہونے سے پریشان ہو اگر ممکن ہو تو پہلے اس پریشانی کے اسباب کو دور کرے اور پھر نماز میں مشغول ہو سب سے بڑی رکاوٹ دنیاوی امور سے محبت اور علاقہ اور دلبستگی ہوا کرتی ہے_ مال و متاع _ جاہ و جلال اور منصب و ریاست اہل و عیال یہ وہ چیزیں ہیں جو حضور قب کی رکاوٹ ہیں ان چیزوں سے محبت انسان کے افکار کو نماز کی حالت میں اپنی طرف مائل کر دیتے ہیں اور ذات الہی کی طرف متوجہ ہونے کو دور کر دیتے ہیں_ نماز کو ان امور سے قطع تعلق کرنا چاہئے تا کہ اس کی توجہ اور حضور قلب اللہ تعالی کی طرف آسان ہوجائے_

۲۶۵

۳_ قوت ایمان

انسان کی اللہ تعالی کی طرف توجہ اس کی معرفت اور شناخت کی مقدار کے برابر ہوتی ہے اگر کسی کا اللہ تعالی پر ایمان یقین کی حد تک پہنچا ہوا ہو اور اللہ تعالی کی قدرت اور عظمت اور علم اور حضور اور اس کے محیط ہونے کا پوری طرح یقین رکھتا ہو تو وہ قہر اللہ تعالی کے سامنے خضوع اور خشوع کرے گا_ اور اس غفلت اور فراموشی کی گنجائشے باقی نہیں رہے گی_ جو شخض خدا کو ہر جگہ حاضر اور ناظر جانتا ہو اور اپنے آپ کو اس ذات کے سامنے دیکھتا ہو تو نماز کی حالت میں جو ذات الہی سے ہم کلامی کی حالت ہوتی ہے کبھی بھی اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہیں ہوگا_ جیسے اگر کوئی طاقت ور بادشاہ کے سامنے بات کر رہا ہو تو اس کے حواس اسی طرف متوجہ ہونگے اور جانتا ہے کہ کیا کہہ رہاہے اور کیا کر رہا ہے اگر کوئی اللہ تعالی کو عظمت اور قدرت والا جانتا ہو تو پھر وہ نماز کی حالت میں اس سے غافل نہیں ہوگا لہذا انسان کو اپنے ایمان اور معرفت الہی کو کامل اور قوی کرنا چاہئے تا کہ نماز میں اسے زیادہ حضور قلب حاصل ہوسکے_

پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ '' خدا کی اس طرح عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے_(۴۷۸)

ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے امام زین العابدین علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ آپ کا نماز میں ایک رنگ آتا تھآ اور جاتا تھا؟ آپ نے فرمایا '' ہاں وہ اس مبعود کو کہ جس کے سامنے کھڑے تھے کامل طور سے پہچانتے تھے_(۴۷۹)

۴_ موت کی یاد

حضور قلب اور توجہ کے پیدا ہونے کی حالت کا ایک سبب موت کا یاد کرنا ہو

۲۶۶

سکتا ہے اگر انسان مرنے کی فکر ہیں اور متوجہ ہو کہ موت کا کوئی وقت نہیں ہوتا ہر وقت اور ہر شرائط میں موت کاواقع ہونا ممکن ہے یہاں تک کہ شاید یہی نماز اس کی آخری نماز ہو تو اس حالت میں وہ نماز کو غفلت سے نہیں پڑھے گا بہتر ہے کہ انسان نماز سے پہلے مرنے کی فکر میں جائے اور یوں تصور کرے کہ اس کے مرنے کا وقت آ پہنچا ہے اور حضرت عزرائیل علیہ السلام اس کی روح قبض کرنے کے لئے حاضر ہو چکے ہیں تھوڑا سا وقت زیادہ نہیں رہ گیا اور اس کے اعمال کا دفتر اس کے بعد بند ہو جائیگا اور ابدی جہاں کی طرف روانہ ہوجائے گا وہاں اس کے اعمال کا حساب و کتاب لیا جائے گا جس کا نتیجہ یا ہمیشہ کی سعادت اور اللہ تعالی کے مقرب بندوں کے ساتھ زندگی کرنا ہوگا اور یا بدبختی اور جہنم کے گڑھے میں گر کر عذاب میں مبتلا ہونا ہوگا_

اس طرح کی فرک اور مرنے کو سامنے لانے سے نماز میں حضور قلب اور توجہ کی حالت بہتر کر سکے گا اور اپنے آپ کو خالق کائنات کے سامنے دیکھ رہا ہوگا اور نماز کو خضوع اور خشوع کی حالت میں آخری نمازسمجھ کر بجا لائیگا نماز کے شروع کرنے سے پہلے اس طرح اپنے آپ میں حالت پیدا کرے اور نماز کے آخر تک یہی حالت باقی رکھے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' واجب نماز کو اس کے وقت میں اس طرح ادا کرو کہ وہ تمہاری وداعی اور آخری نماز ہے اور یہ خوف رہے کہ شاید اس کے بعد نماز پڑھنے کی توفیق حاصل نہ ہو_ نماز پڑھنے کی حالت میں سجدہ گاہ پر نگاہ رکھے اور اگر تجھے معلوم ہوجائے کہ تیرے نزدیک کوئی تجھے دیکھ رہا ہے اور پھر تو نماز کو اچھی طرح پڑھنے لگے تو جان لے کہ تو اس ذات کے سامنے ہے جو تجھے دیکھ رہا ہے لیکن تو اس کو نہیں دیکھ رہا_(۴۸۰)

۵_ آمادگی

جب نمازی نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر کسی خلوت اور تنہائی کی

۲۶۷

مناسب جگہ جا کر نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوجائے اور نماز شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی بے پناہ عظمت اور قدرت اور اپنی ناتوانی اور کمزوری کو یاد کرے اور یہ یاد کرے کہ وہ پروردگار اور تمام چیزوں کے مالک کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے ہمکلام ہے_ ایسی عظیم ذات کے سامنے کھڑا ہے کہ جو تمام افکار یہاں تک کہ مخفی سوچ اور فکر کو جانتا ہے_ موت اور اعمال کے حساب اور کتاب بہشت اور دوزخ کو سامنے رکھے اور احتمال دے کہ شاید یہ اس کی آخری نماز ہو اپنی اس سوچ اور فکر اتنا زیادہ کرے کہ اس کی روح اس کی تابع اور مطیع ہوجائے اس وقت توجہ اور حضور قلب سے اذان اور اقامہ کہتے اور اس کے بعد نماز کی طرف مہیا ہونے والی یہ دعا پڑھے _ اللہم الیک توجہت و مرضاتک طلبت و ثوابک ابتقیت و بک امنت و علیک توکلت اللہم صل علی محمد و آلہ محمد و افتح مسامع قلبی لذکرک و ثبتنی علی دینک و دین نبیک و لا تزغ قلبی بعد اذ ہدیتنی و ہب لی من لدنک رحمة انک انت الوہاب

اس دعا کے پڑھتے کے وقت ان کلمات کی معانی کی طرف توجہ کرے پھر یہ کہے _ یا محسن قد اتاک المسئی یا محسن احسن الی

اگر حضور قلب اور توجہہ پیدا ہوجائے تو پھر تکبیر الاحرام کہے اور نماز میں مشغول ہوجائے اور اگر احساس ہوجائے کہ ابھی وہ حالت پیدا نہیں ہوئی تو پھر استغفار کرے اور شیطانی خیالات سے خداوند عالم سے پناہ مانگے اور اتنا اس کو تکرار کرے کہ اس میں وہ حالت پیدا ہوجائے تو اس وقت حضور قلب پیدا کر کے تکبیرة الاحرام کے معنی کی طرف توجہہ کرے نماز میں مشغول ہوجائے لیکن متوجہ رہے کہ وہ کس ذات سے ہمکلام ہے اور کیا کہہ رہا ہے اور متوجہ رہے کہ زبان اور دل ایک دوسرے کے ہمراہوں اور جھوٹ نہ بولے کیا جانتا ہے کہ اللہ اکبر کے معنی کیا ہیں؟ یعنی اللہ تعالی اس سے بلند و بالا ہے کہ اس کی تعریف اور وصف کی جا سکے درست متوجہ رہے کہ کیا

۲۶۸

کہتا ہے آیا جو کہہ رہا ہے اس پر ایمان بھی رکھتا ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب تو نماز کے قصد سے قبلہ رخ کھڑا ہو تو دنیا اور جو کچھ اس میں ہے لوگوں اور ان کے حالات اور اعمال سب کو ایک دفعہ بھولا دے اور اپنے دل کو ہر قسم کے ایسے کام سے جو تجھے یاد خدا سے روکتے ہوں دل سے نکال دے اور اپنی باطنی آنکھ سے ذات الہی کی عظمت اور جلال کا مشاہدہ کر اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے اس دن کے لئے حاضر جان کہ جس دن کے لئے تو نے اپنے اعمال اگلی دنیا کے لئے بھیجے ہیں اور وہ ظاہر ہونگے اور خدا کی طرف رجوع کریں گے اور نماز کی حالت میں خوف اور امید کے درمیان رہ تکبرة الاحرام کہنے کے وقت جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے معمولی شمار کر کیونکہ جب نمازی تکبیرة الاحرام کہتا ہے خداوند عالم اسکے دل پر نگاہ کرتا ہے اگر تکبیر کی حقیقت کی طرف متوجہ نہ ہو تو اسے کہتا ہے اے جھوٹے_ مجھے دھوکا دینا چاہتا ہے؟ مجھے عزت اور جلال کی قسم میں تجھے اپنے ذکر کی لذت سے محروم کرونگا اور اپنے قرب اور اپنی مناجات کرنے کی لذت سے محروم کر دونگا_(۴۸۱)

درست ہے کہ نیت اور تکبرة الاحرام کے وقت اس طرح کی تیاری قلب کے حضور کے لئے بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے لیکن سب سے مہم تر یہ ہے کہ ایسی حالت استمرار پیدا کرے اگر معمولی سے غفلت طاری ہوگئی تو انسان کی روح ادھر ادھر پرواز کرنے لگے گی اور حضور اور توجہہ خداوند عالم کی طرف سے ہٹ جائیگی_ لہذا نمازی کو تمام نماز کی حالت میں اپنے نفس کی مراقبت اور حفاظت کرنی چاہئے اور مختلف خیالات اور افکار کو روکنا چاہئے ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے حاضر سمجھے اور اس طرح نماز پڑھے کہ خدا کے ساتھ کلام کر رہا ہے اور اس کے سامنے رکوع اور سجود کر رہا ہے اور کوشش کرے کہ قرائت کرتے وقت ان کے معانی کی طرف متوجہ رہے اور غور کرے کہ کیا کہہ رہا ہے اورکس عظیم ذات کے ساتھ گفتگو کر رہا ہے اس حالت کو

۲۶۹

نماز کے آخر تک باقی رکھے گرچہ یہ کام بہت مشکل اور دشوار ہے لیکن نفس کی مراقبت اور کوشش کرنے سے آسان ہو سکتا ہے و الذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا اگر اسے اس کی ابتداء میں توفیق حاصل نہ ہو تو ناامید نہ ہو بلکہ بطور حتمی اور کوشش کر کے عمل میں وارد ہوتا کہ تدریجاً نفس پر تسلط حاصل کرلے_ مختلف خیالات کو دل سے نکالے اور اپنے آپ کو خدا کی طرف توجہ دے اگر ایک دن یا کئی ہفتے اور مہینے یہ ممکن نہ ہوا ہو تو مایوس اور نا امید نہ ہو اور کوشش کرے کیونکہ یہ بہرحال ایک ممکن کام ہے_ انسانوں کے درمیان ایسے بزرگ انسان تھے اور ہیں کہ جو اول نماز سے آخر نماز تک پورا حضور قلب رکھے تھے اور نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے تھے_ ہم بھی اس بلند و بالا مقام تک پہنچنے سے نا امید نہ ہوں اگر کامل مرتبہ تک نہیں پہنچے پائے تو کم از کم جتنا ممکن ہے اس تک پہنچ جائیں تو اتنا ہی ہمارے لئے غنیمت ہے_(۴۸۲)

دوم _ نوافل

پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سیر اور سلوک اور اللہ تعالی سے تقرب کا بہترین راستہ نماز ہے_ اللہ تعالی انسان کی خلقت کی خصوصیت کے لحاظ سے اس کے تکامل اور کمال حاصل کرنے کے طریقوں کو دوسروں سے زیادہ بہتر جانتا ہے_ اللہ تعالی نے نماز کو بنایا ہے اور پیغمبر علیہ السلام کے ذریعے انسانوں کے اختیار میں دیا ہے تا کہ وہ اپنی سعادت اور کمال حاصل کرنے کے لئے اس سے فائدہ حاصل کریں _ نماز کسی خاص حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے ہر زمانے میں ہر مکان اور ہر شرائط میں فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے نماز کی دو قسمیں ہیں ایک واجب نمازیں اور دوسری مستحب نمازیں_

چھ نمازیں واجب ہیں پہلی پنجگانہ نمازیں یعنی دن اور رات میں پانچ نمازیں دوسری نماز آیات تیسری نماز میت چوتھی نماز اطراف پانچویں وہ نمازیں جو نذر یا قسم یا

۲۷۰

عہد سے انسان پر واجب ہوتی ہیں چھٹی باپ کی نمازیں جو بڑے لڑکے پر واجب ہیں_

پنجگانہ نمازیں تو تمام مکلفین مرد اور عورت پر واجب ہیں لیکن باقی نمازیں خاص زمانے اور خاص شرائط سے واجب ہوتی ہیں_ جو انسان اپنی سعادت اور کمال کا طالب ہے اس پر پہلے ضروری ہے کہ وہ واجب نمازوں کو اس طرح جس طرح بنائی گئی ہیں انجام دے_ اگر انہیں خلوص اور حضور قلب سے انجام دے تو یہ بہترین اللہ تعالی سے تقرب کا موجب ہوتی ہیں_ واجبات کو چھوڑ کر مستحبات کا بجا لانا تقرب کا سبب نہیں ہوتا_ اگر کوئی خیال کرے کہ فرائض اور واجبات کو چھوڑ کر مستحبات اور اذکار کے ذریعے تقرب یا مقامات عالیہ تک پہنچ سکتا ہے تو اس نے اشتباہ کیا ہے_ ہاں فرائض کے بعد نوافل اور مستحبات سے مقامات عالی اور تقرب الہی کو حاصل کر سکتا ہے_ دن اور رات کے نوافل پینتیں ہیں ظہر کی آٹھ ظہر سے پہلے اور عصر کی آٹھ عصر سے پہلے اور تہجد کی گیارہ رکعت ہیں_ احادیث کی کتابوں میںنوافل کے پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے اور انہیں واجب نمازوں کا متمم اور نقص کو پر کرنے والا بتلایا گیا ہے_ دن اور رات کی نوافل کے علاوہ بھی بعض نوافل خاص خاص زمانے اور مکان میں بجالانے کا کہا گیا ہے او ران کا ثواب بھی بیان کیا گیا ہے آپ مختلف مستحب نمازوں اور ان كّے ثواب اور ان کے فوائد اور اثرات کو حدیث اور دعا کی کتابوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نفس کے کمال تک پہنچنے میں ان سے استفادہ کرسکتے ہیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ ہمیشہ کے لئے کھالا ہوا ہے_ اس کے علاوہ بھی ہر وقت ہر جگہ اور ہر حالت میں نماز پڑھنا مستحب ہے_

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا '' مستحب نمازیں مومن کے لئے تقرب کا سبب ہوا کرتی ہیں_(۴۸۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھی آدھی اور کبھی تہائی اور چوتھائی نماز اوپر جاتی ہے_ یعنی قبول ہوتی ہے_ اتنی نماز اوپر جاتی ہے اور قبول ہوتی ہے کہ

۲۷۱

جتنی مقدار اس میں حضور قلب ہو اسی لئے مستحب نمازوں کے پڑھنے کا کہا گیا ہے تا کہ ان کے ذریعے جو نقصان واجب نماز میں رہ گیا ہے پورا کیا جائے_(۴۸۴)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' مومن بندہ میرے نزدیک محبوب ہے اور اس کے لئے واجبات پر عمل کرنے سے اور کوئی چیز بہتر نہیں ہے مستحبات کے بجالانے سے اتنا محبوب ہوجاتا ہے کہ گویا میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ دیکھتا ہے اور گویا میں اس کی زبان ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ بولتا ہے اور گویا میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ چیزوں کو پکڑتا ہے اور گویا میں اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں کہ جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھے پکارے تو میں قبول کرتا ہوں اور جواب دیتا ہوں اور اگر کوئی چیز مجھ سے مانگے تو اسے عطا کرتا ہوں میں نے کسی چیز میں تردید اور ٹھہراؤ پیدا نہیں کیا جتنا کہ مومن کی روح قبض کرنے میں کیا ہے وہ مرنے کو پسند نہیں کرتا اور میں بھی اس کا ناپسندی کو ناپسند کرتا ہوں_(۴۸۵)

سوّم_ تہجّد

مستحبات میں سے تہجد کی نماز کی بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے قرآن مجید اور احادیث میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے خداوند عالم کی ذ ات پیغمبر علیہ السلام کو فرماتا ہے کہ ''رات کو تھوڑے سے وقت میں تہجد کی نماز کے لئے کھڑا ہو یہ تیرے لئے مستحب ہے شاید خدا تجھے خاص مقام کے لئے مبعوث قرار دے دے_(۴۸۶)

اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' کچھ لوگ رات کو اپنے پروردگار کے لئے سجدے اور قیام کے لئے رات گذارتے ہیں_(۴۸۷)

اللہ تعالی مومنین کی صفات میں یوں ذکر کرتا ہے کہ '' رات کو بستر سے اپنے آپ کو جدا کرتے ہیں اور امید اور خوف میں خدا کو پکارتے ہیں اور جو کچھ انہیں دیا گیا ہے

۲۷۲

خرچ کرتے ہیں کوئی نہیں جان سکتا کہ کتنی نعمتیں ہیں جو ان کی آنکھ کے روشنی اور ٹھنڈک کا موجب بنیں گی جنہیں ان کے اعمال کی جزاء کے طور پر محفوظ کیا جاچکا ہے_(۴۸۸)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ خداوند عالم نے دنیا کو وحی کی ہے کہ اپنی خدمت کرنے والوں کو مصیبت اورمشقت میں ڈال اور جو ترک کر دے اس کی خدمت کر جب کوئی بندہ رات کی تاریکی میں اپنے خالق سے خلوت اور مناجات کرتا ہے تو خدا اس کے دل کو نورانی کردیتا ہے جب وہ کہتا ہے با رب یا رب تو خدا کی طرف سے کہا جاتا ہے_ لبیک یا عبدی_ تو جو چاہتا ہے طلب کرتا کہ میں تجھے عطا کروں مجھ پر توکل اور آسرا کرتا کہ میں تجھے کفایت کروں اس کے بعد اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے بندے کو دیکھو کس طرح تاریکی میں میرے ساتھ مناجات کر رہا ہے جب کہ بیہودہ لوگ لہو اور لعب میں مشغول ہیں اور غافل انسان سوئے ہوئے ہیں تم گواہ رہو کہ میں نے اسے بخش دیا ہے_(۴۸۹)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرماتے ہیں کہ '' جبرائیل مجھے تہجد کی نماز میں اتنی سفارش کر رہا تھا کہ میں نے گمان کیا کہ میری امت کے نیک بندے رات کو کبھی نہیں سوئیں گے_(۴۹۰)

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' آدھی رات میں دو رکعت نماز پڑھنا میرے نزدیک دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے_(۴۹۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تہجد کی نماز شکل کو خوبصورت اور اخلاق کو اچھا اور انسان کو خوشبودار بناتی ہے اور رزق کو زیادہ کرتی ہے اور قرض کو ادا کراتی ہے اور غم اور اندوہ کو دور کرتی ہے اور آنکھوں کو روشنائی اور جلادیتی ہے_(۴۹۲)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' تہجد کی نماز اللہ تعالی کی خوشنودی اورملائکہ سے دوستی کا وسیلہ ہے_ تہجد کی نماز پیغمبروں کاطریقہ اور سنت اور ایمان اور معرفت کے لئے نور اور وشنی ہے_ کیونکہ تہجد کی نماز کے ذریعے ایمان قوی ہوتا ہے) بدن کو آرام دیتی ہے اور شیطان کو غضبناک کرتی ہے_ دشمنوں

۲۷۳

کے خلاف ہتھیار ہے دعا اور اعمال کے قبول ہونے کا ذریعہ ہے انسان کی روزی کو وسیع کرتی ہے_ نمازی اور ملک الموت کے درمیان شفیع ہوتی ہے_ قبر کے لئے چراغ اور فرش ہے اور منکر اور نکیر کا جواب ہے_ قبر میں قیامت تک مونس اور نمازی کی زیارت کرتی رہے گی_ جب قیامت برپا ہوگی تو نمازی پر سایہ کرے گی اس کے سرکا تاج اور اس کے بدن کا لباس ہوگی_ اس کے سامنے نور اور روشنی ہوگی اور جہنم اور دوزخ کی آگ کے سامنے نور اور روشنی ہوگی اور جہنم اور دوزخ کی آگ کے سامنے رکاوٹ بنے گی_ مومن کے لئے اللہ تعالی کے نزدیک حجت ہے اور میران میں اعمال کو بھاری اور سنگین کردے گی پل پر عبور کرنے کا حکم ہے اور بہشت کی چابی ہے کیونکہ نماز تکبیر اور حمد تسبیح اور تمجید تقدیس اور تعظیم قرات اور دعا ہے_ یقینا جب نماز وقت میں پڑھی جائے تو تمام اعمال سے افضل ہے_(۴۹۳)

تہجد کی نماز میں بہت زیادہ آیات اوراحادیث وارد ہوئی ہیں_ تہجد کی نماز کو پڑھنا پیغمبروں اور اولیاء خدا کا طریقہ اور سنت ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ اطہار نماز تہجد کے بارے میں خاص اہمیت اور توجہ اور عنایت رکھتے تھے_ اللہ کے اولیاء اور عرفاء شب کو ہمیشہ بجالانے سے اور سحر کیوقت دعا اور ذکر سے عالی مراتب تک پہنچے ہیں_ کتنا ہی اچھا اور بہتر اور لذت بخش ہے کہ انسان سحری کے وقت نیند سے بیدار ہوجائے اور نرم اور آرام وہ بستر کو چھوڑ دے اور وضوء کرے اور رات کی تاریکی میں جب کہ تمام آنکھیں نیند میں گم اور سوئی ہوئی ہیں اللہ تعالی کے حضور راز و نیاز کرے اور اس کے وسیلے روحانی معراج کے ذریعے بلندی کی طرف سفر کرے اور آسمان کے فرشتوں سے ہم آواز بنے اور تسبیح اور تہلیل تقدیس اور تمجید الہی میں مشغول ہوجائے اس حالت میں اس کا دل اللہ تعالی کے انوار اور اشراقات مرکز قرار اپائیگا اورخدائی جذب سے مقام قرب تک ترقی کرے گا (مبارک ہو ان لوگوں کو جو اس کے اہل ہے)

۲۷۴

نماز شب کی کیفیت

تہجد کی نماز گیارہ رکعت ہے دو دو رکعت کر کے صبح کی نماز کی طرح پڑھی جائے باین معنی کہ اٹھ رکعت کو تہجد کی نیت سے اور دور رکعت نماز شفع کی نیت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے پڑھے_ کے لئے کچھ آداب اور شرائط بیان کئے گئے ہیں_ جنہیں دعاؤں اور احادیث کی کتابوں میں دیکھےا جا سکتا ہے_

۲۷۵

چوتھا وسیلہ

جہاد اور شہادت

اسلام کو وسعت دینے اور کلمہ توحید کے بلند و بالا کرنے اسلام کی شوکت اور عزت سے دفاع کرنے قرآن کے احکام اور قوانین کی علمداری اور حاکمیت کو برقرار کرنے ظلم اور تعدی سے مقابلہ کرنے محروم اور مستضعفین کی حمایت کرنے کے لئے جہاد کرنا ایک بہت بڑی عبادت ہے اور نفس کے تکامل اور ذات الہی سے تقرب اور رجوع الی اللہ کا سبب ہے_ جہاد کی فضیلت میں بہت زیادہ روایات اور آیات وارد ہوئی ہیں_

خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور اپنے وطن سے ہجرت کر لی ہے اور اپنے مال اور جان سے خدا کے راستے میں جہاد کرتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک ایک بلند و بالا مقام اور رتبہ رکھتے ہیں اور وہی نجات پانے والے لوگ ہیں خدا انہیں اپنی رحمت اور رضوان اور بہشت کی کہ جس میں دائمی نعمتیں موجود ہیں خوشخبری اور بشارت دیتا ہے_ وہ بہشت میں ہمیشہ رہیں گے اور یقینا اللہ تعالی کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی جزا اور ثواب ہے_(۴۹۴)

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' اللہ تعالی نے مجاہدوں کو جہاد نہ کرنے والوں پر بہت زیادہ ثواب دیئے جانے میں برتری اور بلندی دی ہوئی ہے_(۴۹۵)

۲۷۶

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کا نام باب المجاہدین ہے_ جب مجاہد بہشت کی طرف روانہ ہوں گے تووہ دروازہ کھل جائیگا جب کے جانے والوں نے اپنی تلواروں کو اپنے کندھوں پر ڈال رکھا ہو گا دوسرے لوگ قیامت کے مقام پر کھڑے ہونگے اور فرشتوں ان کا استقبال کریں گا_(۴۹۶)

پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر نیکی کے اوپر کوئی نہ کوئی اور نیک موجود ہے یہاں تک کہ انسان اللہ کے راستے میں مارا جائے کہ پھر اس سے بالاتر اور کوئی نیکی موجود نہیں ہے_(۴۹۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اللہ کے راستے میں شہادت پالے تو خداوند عالم سے اس کا کوئی یاد نہیں دلائے گا_(۴۹۸)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم شہید کو سات چیزیں عنایت فرمائیگا_ ۱_ جب اس کے خون کا پہلا قطرہ بہتا ہے تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے_ ۲_ شہادت کے بعد اس کا سر دو حوروں کے دامن میں قرار دیتا ہے اور وہ اس کے چہرے سے غبار کو ہٹاتی ہیں اور کہتی ہیں_ تم پر شاباش ہو وہ بھی ان کے جواب میں ایسا کہتا ہے_ ۳_ اسے بہشت کا لباس پہنایا جاتا ہے_ ۴_ بہشت کے خزانچی اس کے لئے بہترین عطر اور خوشبو پیش کرتے ہیں کہ ان میں سے جسے چاہے انتخاب کرلے_

۵_ شہادت پانے کے وقت وہ اپنی جگہ بہشت میں دیکھتا ہے_ ۶_ شہادت کے بعد اس کی روح کی خطاب ہوتا ہے کہ بہشت میں جس جگہ تیرا دل چاہتا ہے گردش کر_ ۷_ شہید اللہ تعالی کے جمال کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس میں ہر پیغمبر اور شہید کو آرام اور سکون ہے_(۴۹۹)

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' خداوند عالم مومنین کے جان اور مال کو خرید تا ہے تا کہ اس کے عوض انہیں بہشت عنایت فرمائے یہ وہ مومن ہیں جو اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ ان سے

۲۷۷

اللہ تعالی کا وعدہ ہے جو تو رات اور انجیل اور قرآن میں اللہ تعالی نے لکھ دیا ہے اور اللہ تعالی سے کون زیادہ وعدہ کو پورا کرنے والا ہے؟ تمہیں یہ معاملہ مبارک ہو کہ جو تم نے خدا سے کر لیا ہوا ہے اور یہ ایک بڑی سعادت ہے_(۵۰۰)

قرآن مجید کی یہ آیت ایک بڑی لطیف اور خوش کن آیت ہے کہ جو لوگوں کو عجیب اور لطیف ارو ظریف انداز سے جہاد کا شوق دلاتی ہے _ ابتداء میں کہتی ہے _ کہ اللہ تعالی نے مومنین کے مال اور جان کو خرید لیا ہے اور اس کے عوض ان کو بہشت دیتا ہے یہ کتنا بہترین معاملہ ہے؟ اللہ تعالی جو غنی مطلق اور جہان کا مالک ہے وہ خریدار ہے اور فروخت کرنے والے مومنین ہیں جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں_ اور جن چیزوں پر معاملہ کیا ہے وہ مومنین کے مال اور جان ہیں اور اس معاملہ کا عوض بہشت ہے اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ تورات اورانجیل اور قرآن یعنی تین آسمانی بڑی کتابیں ہیں جن میں اس طرح کا ان سے وعدہ درج کیا گیا ہے_ پھر خدا فرماتا ہے کہ کس کو پیدا کر سکتے ہو کہ اللہ تعالی سے وعدہ پر عمل کرے آخر میں خدا مومنین کو خوشخبری دیتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نیک بختی اورسعادت ہے_

قرآن مجید ان لوگوں کے لئے جو خدا کے راستے میں شہید ہوجاتے ہیں مقامات عالیہ کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ '' ان لوگوں کو مردہ گمان نہ کرو جو اللہ کے راستے میں شہید ہوجاتے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں روزی پاتے ہیں_(۵۰۱) لفظ عندہم جو اس آیت میں ہے وہ بلند و بالا مقام کی طرف اشارہ ہے مرنے کے بعد انسان کی روح کا زندہ رہنا شہیدکے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام انسان زندہ ہیں لیکن شہداء کی خصوصیت یہ ہے کہ شہید اللہ کے ہاں عالیترین مقامات اور درجات میں زندہ رہتا ہے اور انہیں مقامات عالیہ میں روزی دیا جاتا ہے اور یہ واضح ہے کہ ان مقامات میں روزی دیا جانا دوسروں کے ساتھ مساوی اور برابر نہیں ہے_ اللہ تعالی کے راستے میں شہادت بہت بڑی قیمت اور بڑی عبادت ہے_ عارف اس ممتاز راستے میں عالی مقامات تک جاپہنچتا ہے_ اس بزرگ عبادت کو دوسری عبادت سے دو چیزوں کی وجہ

۲۷۸

سے خصوصیت اورامتیاز حاصل ہے_ پہلی_ مجاہد انسان کی غرض اور غایت اپنے ذاتی مفاد اور لواحقین کے مفاد کو حاصل کرنا نہیں ہوتا وہ کوتاہ نظر اور خودخواہ نہیں ہوتا بلکہ وہ جہاں میں خدا خواہ ہوا کرتا ہے_ مجاہد انسان کلمہ توحید اور اسلام کی ترویج اور وسعت کو چاہتا ہے اور ظلم اور ستم اور استکبار کے ساتھ مبارزہ اور جہاد کرتا ہے اور محروم طبقے اور مستضعفین سے دفاع کرتا ہے اور اجتماعی عدالت کے جاری ہونے کا طلبکار ہوتا ہے اور چونکہ یہ غرض سب سے بلند اور بالا ترین غرض ہے لہذا وہ اعلی درجات اور مراتب کو پالیتا ہے_

دوسری _ ایثار کی مقدار

مجاہد انسان اللہ تعالی سے تقرب اور اس کی ذات کی طرف سیر اور سلوک کے لئے ارزشمند اور قیمتی چیز کا سرمایہ ادا کرتا ہے اگر کوئی انسان صدقہ دیتا ہے تو تھوڑے سے مال سے درگذر اور صرف نظر کرتا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو تھوڑا سا وقت اور طاقت اس میں خرچ کرتا ہے لیکن مجاہد انسان تمام چیزوں سے صرف نظر اور درگذر کرتا ہے اور سب سے بالاتر اپنی جان سے ہاتھ دھولیتا ہے اور اپنی تمام ہستی کو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کے سپرد کر دیتا ہے_ مال اور جاہ و جلال مقام اور منصب اور اہل اور عیال اور رشتہ داروں سے صرف نظر کرتا ہے اور اپنی جان اور روح کو اپنے پروردگار کے سپرد کر دیتا ہے_ جس کام کو متدین اور عارف لوگ پوری عمر کرتے ہیں مجاہد انسان ان سب سے زیادہ تھوڑے سے وقت میں انجام دے دیتا ہے_ مجاہد انسان کی عظیم او رنورانی روح کے لئے مادیات اور مادی جہان تنگ ہوتا ہے اسی واسطے وہ شیر کی طرح مادی جہان کے پنجرے کو توڑتا ہے اور تیز پرواز کبوتر کی طرح وسیع عالم اور رضایت الہی کی طرف پرواز کرتا ہے اور اعلی مقامات اور مراتب تک اللہ تعالی کی طرف جاپہنچتا ہے_ اگر دوسرے اولیاء خدا ساری عمر میں تدریجاً محبت اور عشق اور شہود کے مقام تک پہنچتے ہیں تو مجاہد شہید ایک رات میں سو سال کا راستہ طے کر لیتا ہے اور

۲۷۹

مقام لقاء اللہ تک پہنچتا ہے _ اگر دوسرے لوگ ذکر اور ورد قیام اور قعود کے وسیلے سے اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں_ تو اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے والا انسان زخم اور درد سختی اور تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دے کر اللہ تعالی کا تقرب ڈھونڈتا ہے_

ان دو میں بہت زیادہ فرق ہے_ جنگ اور جہاد کا میدان ایک خاص قسم کی نورانیت اور صفا اور معنویت رکھتا ہے_ شور و شفب اور عشق اور حرکت اور ایثار کا میدان ہے_ محبوب کے را ستے میں بازی لے جانے اور ہمیشگی زندگی کا میدان ہے_ مورچے میں بیٹھتے والوں کا زمزمہ ایک خاص نورانیت اور صفا اور جاذبیت رکھتا ہے کہ جس کی نظیر اور مثال مساجد اورمعابد میں بہت کم حاصل ہوتی ہے_

۲۸۰

پانچواں وسیلہ

خدمت خلق اور احسان

خداوند عالم سے تقرب اور قرب صرف نماز روزہ حج اور زیارت ذکر اور دعا میں منحصر نہیں ہے اور نہ ہی مساجد اور معابد میں منحصر ہے بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں کو انجام دینا اور احسان اور نیکوکاری مخلوق خدا کی خدمت کرنا بھی جب اس میں قصد قربت ہو تو وہ بھی بہترین عبادت ہے کہ جس کے ذریعے سے اپنے آپ کو بنانا اور نفس کی تکمیل کرنا اور نفس کی تربیت کرنا اور ذات الہی کے تقرب کا موجب ہوتا ہے_ اسلام کی نگاہ میں اللہ کا قرب اور سیر و سلوک اور تعبد کے معنی لوگوں سے کنارہ کشی اور گوشہ نشینی نہیں ہے بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے لوگوں میں رہ کر لوگوں کے ساتھ احسان اور نیکی انجام دینا اور مومنین کے ضروریات کو پورا کرنا اور انہیں خوش کرنا محروم طبقے کا دفاع مسلمانوں کے امور میں اہتمام کرنا اور ان کے مصائب کو دور کرنا اور خدا کے بندوں کی مدد کرنا یہ تمام اسلام کی نگاہ میں ایک بہت بڑی عبادتیں ہیں کہ جن کا ثواب حج اور عمرے کے کئی برابر زیادہ ہوتا ہے_ اس کے متعلق سینکٹروں احادیث پیغمبر اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں _ امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میری مخلوق میرے عیال ہیں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب انسان وہ ہے جو میری مخلوق پر مہربان ہو اور ان کے ضروریات کے بجا

۲۸۱

لانے میں زیادہ کوشش کرلے_(۵۰۲)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ '' لوگ اللہ کہ اہل و عیال ہیں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب انسان وہ ہے جو اللہ کے اہل و عیال کو فائدہ پہنچائے اور ان کے دلوں کو خوشنود کرے_(۵۰۳)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کسی مومن کا کسی دوسرے مومن کے سامنے مسکرانا ایک حسنہ اور نیکی ہوا کرتا ہے اور اس کی تکلیف اور گرفتاری کو دور کرنا بھی ایک نیکی ہے خدا کسی ایسی چیز سے عبادت نہیں گیا کہ جو اس کے نزدیک مومن کے خوش کرنے سے زیادہ محبوب ہو_(۵۰۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو کسی مومن کو خوش کرے اس نے مجھے خوش کیا ہے اور جس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خوش کیا ہوا اس نے خدا کو خوش کیا ہے اور جس نے خدا کو خوش کیا ہو اور وہ جنت میں داخل ہوگا_(۵۰۵)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک مومن کی حاجت اور ضرورت کو پورا کر دینا اللہ تعالی کے نزدیک بیس ایسے حج سے کہ جسمیں ایک لاکھ خرچ کیا ہو زیادہ محبوب ہے_(۵۰۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' مسلمان کی ضرورت اور حاجت کے پورے کرنے میں کوشش کرنا خانہ کعبہ کے ستر دفعہ طواف کرنے سے بہتر ہے_(۵۰۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کے ایسے بندے ہیں جو لوگوں کو ان کی حاجات میں پناہ گاہ بنتے ہیں یہ وہ ہیں کہ جو قیامت میں اللہ تعالی کے عذاب سے محفوظ ہونگے_(۵۰۸)

جیسے کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ احسان نیکوکاری اللہ کے بندوں کی خدمت لوگوں کے مصائب دور کرنے میں کوشش اسلام کی نگاہ میں ایک بہت بڑی عبادت شمار ہوتے ہیں کہ اگر انسان اسے قصد قربت سے بجالائے تو یہ تکمیل نفس اور اس کی تربیت اور قرب الہی کا وسیلہ بنتا ہے_ افسوس کہ اکثر لوگ صحیح اسلام کو نہ پہنچاننے

۲۸۲

کی وجہ سے اس بہت بڑی اسلامی عبادت سے غفلت برتتے ہیں اور عبادت اور قرب الہی کو فقط نماز روزہ دعا اور زیارت ذکر اور ورد میں منحصر جانتے ہیں_

۲۸۳

چھٹا وسیلہ

دعا

تکمیل روح اور قرب خدا کی بہترین عبادت اور سبب دعا ہے اسی لئے خداوند عالم نے اپنے بندوں کو دعا کرنے کی دعوت دی ہے_ قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے ''مجھ سے مانگو اور دعا کرو تا کہ میں تمہیں عنایت کروں جو لوگ میری عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلدی اور خواری کی حالت میں جہنم میں داخل ہونگے_(۵۰۹) پھر اللہ تعالی نے فرمایا ہے '' تضرع اور مخفی طور سے خدا سے مانگو یقینا خدا تجاوز اور ظلم کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا_(۵۱۰) اور فرمایا '' اے میرے بندو مجھ سے سوال کرو ان سے کہہ دو کہ میں ان کے نزدیک ہوں اگر مجھ پکاریں تو میں ان کا جواب دونگا_(۵۱۱)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' دعا عبادت کی روح اور مغز ہے_(۵۱۲)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دعا عبادت ہے_ خدا فرماتا ہے کہ لوگ میری عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں_ خدا کو پکار اور یہ نہ کہہ کہ بس کام ختم ہوچکا ہے_(۵۱۳)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھی دعا کو ترک نہ کرو کیونکہ تم ایسا عمل پیدا نہیں کرو گے جو دعا سے زیادہ تقرب کا موجب ہو یہاں تک کہ معمولی چیزوں

۲۸۴

کو کبھی خدا سے طلب کرو اور ان کے معمولی ہونے کی وجہ سے دعا کرنے کو ترک نہ کرو کیونکہ معمولی چیزوں کا مالک بھی وہی ہے جو بڑے امور کا مالک ہے_(۵۱۴)

لہذا خدا کے بندے کو دعا کرنی چاہئے کیونکہ وہ تمام وجود میں خدا کا محتاج ہے بلکہ عین احتیاج اور فقر ہے اگر ایک لحظہ بھی اللہ تعالی کا فیض قطع ہو جائے تو وہ نابود ہوجائیگا_ جو کچھ بھی بندے کو پہنچتا ہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے لہذا بندے کو اس تکوینی اور طبعی احتیاج کو زبان سے اظہار کرنا چاہئے اپنی احتیاج اور فقر اور بندگی کو عملی طور سے ثابت کرنا چاہئے اور اس کے سوا کوئی عبادت کا اور مفہوم اور معنی نہیں ہے_ انسان دعا کرنے کی حالت میں خدا کی یاد میں ہوتا ہے اور اس کے ساتھ راز اور نیاز کرتا ہے اور تضرع اور زاری جو عبادت کی رسم ہے غنی مطلق کے سامنے پیش کرتا ہے_

دنیا جہاں سے اپنے فقر اور احتیاج کو قطع کرتا ہے خیرات اور کمالات کے مرکز اور منبع کے ساتھ ارتباط برقرار کرتا ہے_ عالم احتیاج سے پرواز کرتا ہے اور اپنی باطنی آنکھ سے جمال حق کا مشاہدہ کرتا ہے_ اس کے لئے دعا اور راز و نیاز کی حالت ایک لذیذ ترین اور بہترین حالت ہوتی ہے_ خدا کے نیک بندے اور اولیاء اسے کسی قیمت پر کسی قیمت سے معاملہ نہیں کرتے صحیفہ سجادیہ اور دوسری دعاؤں کی کتابوں کی طرف رجوع کیجئے کہ کس طرح ائمہ اطہار علیہم السلام راز و نیاز کرتے تھے_ خدا سے ارتباط اور دعا کی قبولیت کی امید دعا کرنے والے کے دل کو کس طرح آرام اور دل کو گرمی دیتی ہے_ اگر انسان مصائب اور مشکلات کے حل کے لئے خدا سے پناہ نہ مانگے تو کس طرح وہ مشکلات کا تحمل کر سکتا ہے اور زندگی کو گرم و نرم رکھ سکتا ہے؟

دعا مومن کا ہتھیار ہے کہ جس کے وسیلے سے ناامید اور یاس کا مقابلہ کرتا ہے اور مشکلات کے حل کے لئے غیب کی خدا سے پناہ نہ مانگے تو کس طرح وہ مشکلات کا تحمل کر سکتا ہے اور زندگی کو گرم و نرم رکھ سکتا ہے؟

۲۸۵

دعا مومن کا ہتھیار ہے کہ جن کے وسیلے سے نا امیدی اورپاس کا مقابلہ کرتا ہے اور مشکلات کے حل کے لئے غیب طاقت سے مدد طلب کرتا ہے_ پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام ہمیشہ اس ہٹھیار سے استفادہ کیا کرتے تھے اور مومنین کو ان سے استفادہ کرنے کی سفارش کیا کرتے تھے_

امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ '' انبیاء کے ہتھیار سے فائدہ حاصل کرو_ پوچھا گیا کہ انبیاء کا ہتھیار کیا تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ دعا_(۵۱۵)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا اپنے بندوں میں اسے زیادہ دوست رکھتا ہے جو زیادہ دعا کرتا ہے میں تمہیں وصیت کرتا ہؤں کہ سحر کے وقت سے لے کر سورج نکلنے تک دعا کیا کرو کیونکہ اس وقت آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور لوگوں کا رزق تقسیم کیا جاتا ہے اور ان کی بڑی بڑی حاجتیں پوری کی جاتی ہیں_(۵۱۶)

دعا ایک عبادت ہے بلکہ عبادت کی روح ہے اور آخرت میں اس کا اجر دیا جاتا ہے اور مومن کی معراج ہے اور عالم قدس کی طرف پرواز ہے روح کو کامل اور تربیت دیتی ہے اور قرب خدا تک پہنچاتی ہے_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' مومن کا ہتھیار دعا ہے اور دعا دین کا ستون اور زمین اور آسمان کا نور ہے_(۵۱۷) امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نیک بختی اور سعدت کی چابی دعا ہے_ بہترین دعا وہ ہے _ جو پاک اور تقوی والی دل سے ہو خدا سے مناجات کرنا نجات کا سب ہوتا ہے اور اخلاص کے ذریعے نجات حاصل ہوتی ہے جب مصائب اور گرفتاری میں شدت آجائے تو خدا اسے پناہ لینی چاہئے_(۵۱۸) لہذا دعا ایک ایسی عبادت ہے کہ اگر اس کے شرائط موجود ہوں اور درست واقع ہو تو نفس کے کمال تک پہنچنے اور قرب خدا کا موجب ہوتی ہے اور یہ اثر یقینی طور سے دعا پر مرتب ہوتا ہے_ اس لئے خدا کے بندے کو کسی حالت اور کسی شرائط میں اس بڑی عبادت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ کسی وقت بھی بغیر اثر کے نہیں ہوا کرتی گرچہ اس کا فوری طور سے ظاہر بظاہر اثر مرتب نہ ہو رہا ہو_ ہو سکتا ہے کہ

۲۸۶

دعا کرنے والے کی خواہش اور سوال کو موخر کر دیا جائے یا دنیا میں بالکل پوری ہی نہ کی جائے لیکن ایسا ہونا بھی بغیر مصلحت کے نہ ہوگا_ کبھی مومن کی دنیاوی خواہش کے قبول کرنے میں واقعاً مصلحت نہیں ہوتی _ خداوند عالم بندے کی مصلحتوں کو اس سے زیادہ بہتر جانتا ہے لیکن بندے کو ہمیشہ اپنے احتیاج اور فقر کے ہاتھ کو قادر مطلق کے سامنے پھیلاتے رہنا چاہئے اور اپنی حاجتوں کو پورا کیا جائیگا لیکن خدا کبھی مصلحت دیکھتا ہے کہ اپنی بندے کی حاجت کو موخر کر دے تا کہ وہ اللہ تعالی سے زیادہ راز و نیاز اور مناجات کرے اور وہ اعلی مقامات اور درجات تک جا پہنچے اور کبھی اللہ تعالی اپنے بندے کی مصلحت اس میں دیکھتا ہے کہ اس کی حاجت کو اس دنیا میں پورا نہ کیا جائے تا کہ ہمیشہ وہ خدا کی یاد میں رہے اور آخرت کے جہان میں اس کو بہتر اجر اور ثواب عنایت فرمائے_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خدا اس بندے پر اپنی رحمت نازل کرے_ جو اپنی کو خدا سے طلب کرے اور دعا کرنے میں اصرار کرے خواہ اس کی حاجتیں پوری کی جائیں یا پوری نہ کی جائیں آپ نے اس وقت یہ آیت تلاوت کیوادعوا ربی عسی الا اکون بدعا ربی شقیاً _(۵۱۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھی مومن اپنی حاجت کو خدا سے طلب کرتا ہے لیکن خدا اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میری بندے کی حاجت کے پورے کئے جانے کو موخر کر دو کیونکہ دوست رکھتا ہے کہ اپنے بندے کی آواز اور دعا کو زیادہ سنتا رہے پس قیامت میں اس سے کہے گا اے میرے بندے تو نے مجھ سے طلب کیا تھا لیکن میں نے تیرے قبول کئے جانے کو موخر کر دیا تھا اب اس کے عوض فلاں ثواب اور فلاں ثواب تجھے عطا کرتا ہوں اسی طرح فلانی دعا اور فلانی دعا_ اس وقت مومن آرزو کرے گا کہ کاش میری کوئی بھی دعا دنیا میں قبول نہ کی جاتی یہ اس لئے تمنا

۲۸۷

کرتا ہے_ جب وہ آخرت کا ثواب دیکھتا ہے_(۵۲۰) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے _ دعا کے آداب کو حفظ کر اور متوجہ رہ کہ کس کے ساتھ بات کر رہا ہے اور کس طرح اس سے سوال کر رہا ہے اور کس لئے اس سے سوال کرتا ہے_ اللہ تعالی کی عظمت اور بزرگی کو یاد کر اور اپنے دل میں جھانک اور مشاہدہ کر کہ جو کچھ تو دل میں رکھتا ہے_ خدا اسے جانتا ہے اور تیرے دل کے اسرار سے آگاہ ہے تیرے دل میں جو حق یا باطل پنہاں اور چھپا ہوا ہے اس سے مطلع ہے اپنی ہلاکت اور نجات کے راستے کو معلوم کر کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا سے ایسی چیز کو طلب کرے کہ جس میں تیری ہلاکت ہو جب کہ تو خیال کرتا ہے کہ اس میں تیری نجات ہے_

خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' کبھی انسان خیر کی جگہ اپنے شر کو چاہتا ہے انسان اپنے کاموں میں جلد باز اور جلدی کرنے والا ہے_ پس ٹھیک فکر کر کہ خدا سے کس کا سوال کر رہا ہے اور کس لئے طلب کر رہا ہے_ دعا اپنے دل کو پروردگار کے مشاہدے کے لئے پگھلانا ہے_ اور اپنے تمام اختیارات کو چھوڑنا اور تمام کاموں کو اللہ تعالی کے انتظار میں نہ رہ کیونکہ خدا تیرے راز اور سب سے زیادہ مخفی راز سے بھی آگاہ اور مطلع ہے_ شاید تو خدا سے ایسی چیز طلب کر رہا ہے جب کہ تیری نیت اس کے خلاف ہے_(۵۲۱)

۲۸۸

ساتواں وسیلہ

روزہ

تزکیہ نفس اور اس کی پاک کرنے اور خودسازی کے لئے ایک بہت بڑی عبادت کہ جس کے بہت زیادہ اثرات پائے جاتے ہیں وہ روزہ ہے_ روزے یک فضیلت میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' روزہ جہنم کی آگ سے حفاظت کرنے والی ڈھال ہے_(۵۲۲)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دونگا_(۵۲۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' روزہ رکھنے والا بہشت میں پھرتا ہے اور فائدہ حاصل کرتاہ ے اس کے لئے فرشتے افطار کرنے تک دعا کرتے ہیں_(۵۲۴)

پیغمبر علیہ السلامم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص ثواب کے لئے ایک مستحبی روزہ رکھے اس کے لئے بخشا جانا واجب ہے_ (۲۵۵ ) حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' روزہ دار کا سونا بھی عباد ہے اور اس کا چپ رہنا تسبیح ہے_ اور اس کا عمل مقبول اور اس کی دعا قبول کی جاتی ہے_(۵۲۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے نیک

۲۸۹

بندوں کے اعمال دس برابر سے سات سو برابر ثواب رکھتے ہیں سوائے روزے کہ جو میرے لئے مخصوص ہو تو اس کی جزاء میں دونگا پس روزے کا ثواب صرف خدا جانتا ہے_(۵۲۷)

امیر المومنین علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے معراج کی رات فرمایا _ ''اے میرے خالق_ پہلی عبادت کونسی ہے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ پہلی عبادت ساکت رہنا اورروزے _ پیغمبر علیہ السلام نے عرض کی اے میرے خالق روزہ کا اثر کونسا ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ روزے کا اثر دانائی ہے اور دانائی معرفت کا سبب ہوتی ہے_ اور معرفت یقین کا سبب بنتی ہے اور جب انسان یقین کے مرتبے تک پہنچتا ہے تو پھر اس کو کوئی پرواہ نہیں کہ وہ سختی میں یا آرام میں زندگی کرے_(۵۲۸)

روزہ ایک خاص عبادت ہے کہ جس میں دو پہلو نفی اور ثبات موجود ہوتے ہیں پہلا اپنے نفس کو کھانے پینے اور عزیز لذت سے جو شرعا جائز ہے روکنا اور محافظت کرنا_ اسی طرح خدا اور رسول پر جھوٹ نہ باندھنا اور بعض دوسری چیزوں کو ترک کرنا ہوتا ہے_ دوسرا_ قصد قربت اور اخلاص کو جو در حقیقت اس عبادت کے روح کے بمنزلہ ہے_ روزے کی حقیقت نفس کو روکنا اورمادی لذات سے حتمی طور سے قصد قربت سے محافظت کرنا ہوتا ہے_ کھانا پینا جنسی عمل خدا اور رسول پر جھوٹ باندھنا روزے کو باطل کردیتے ہیں فقہی کتابوں میں روزے کی یوں تعریف کی گئی ہے کہ اگر کوئی ان امور یعنی کھانے پینے جماع خدا اور رسول پر جھوٹ باندھے _ انزال منی_ حقنہ کرنا_ غسل ارتماسی _ جنابت پر باقی رہنا کو قصد قربت سے ترک کرے تو اس کی عبادت صحیح ہے اور اس کی قضاء اور کفارہ نہیں بتلایا گیا ہے بلکہ روزہ اس سے زیادہ وسیع معنی میں بیان کیا گیا ہے_ حدیث میں آیا ہے کہ روزہ صرف کھانے پینے کے ترک کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی روزہ دار وہ ہے کہ حس کے تمام اعضاء اور جوارح گناہوں کو ترک کریں یعنی آنکھ آنکھوں کے گناہوں سے اسی طرح زبان اور کان ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء اپنے اپنے گناہوں کو ترک کریں ایسا روزہ اللہ کے خاص بندوں کا ہے_

۲۹۰

اس سے بلند اور بالا ایک وہ روزہ ہے جو خاص الخاص لوگوں کا روزہ ہے اور وہ ان چیزوں کے ترک کرنے کے علاوہ اپنے دل کو ہر اس خیال اور فکر سے فارغ کردے جو خدا کی یاد سے روکے اور ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اور اسے حاضر اور ناظر جانے اور اپنے آپ کو خدا کا مہمان جانے اور اپنے آپ کو خدا کی ملاقات کے لئے آمادہ کے_ نمونے کے طور پر اس حدیث کی طرف توجہ کیجئے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں روزہ صرف کھانے اور پینے کو ترک کرنے سے حاصل نہیں ہوتا_ جب روزہ رکھے تو پھر کان اور آنکھ اور زبان اور شکم اور شرمگاہ کو بھی گناہوں سے محفوظ کرے اور ساکت رہے سوائے نیکی اور مفید کلام کے بات کرنے سے رکا رہے اور اپنی خدمت کرنے والوں اور نوکروں سے نرمی کرے جتنا ہو سکتا ہے ساکت رہے سوائے خدا کے ذکر کے اور اس طرح نہ ہو کہ روزے والا دن اس طرح کا ہو کہ جس دن روزہ نہ رکھا ہوا ہو _ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا ہے جو شخص ماہ رمضان کا روزہ ساکت ہو کر رکھے اور کان اور آنکھ اور زبان اور شرمگاہ اور دوسرے بدن کے اعضاء کو جھوٹ اور حرام اور غیبت سے اللہ کے تقرب کی نیت سے روکے رکھے تو وہ روزہ اس کے تقرب کا اس طرح سبب بنے گا کہ گویا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہم نشین ہو_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' روزہ صر ف نہ کھانے اور پینے کا نام نہیں ہے_(۵۲۹) بلکہ اس کے شرائط ہیں کہ ان کی محافظت کرنی چاہئے تا کہ روزہ کامل اور تام ہو سکے وہ ہے سکوت اور چپ رہنا_ کیا تم نے حضرت مریم علیہا السلام کی بات نہیںسنی کہ جو آپ نے لوگوں کے جواب میں کہا تھا کہ میں نے اللہ تعالی کے لئے نذر کی ہوئی ہے کہ آج کے دن کسی سے بات نہ کروں یعنی چونکہ روزے سے ہوں مجھے چپ رہتا چاہئے لہذا جب تم روزہ رکھو تو اپنی زبان کو جھوٹ بولنے سے روکو_ اور غصہ نہ کرو_ گالیاں نہ دو بری باتیں نہ کرو_ جھگڑا اور لڑائی نہ کرو_ ظلم اور ستم سے پرہیز کرو_ جہالت اور بد اخلاقی اور ایک دوسرے سے دوری سے پرہیز کرو_ اللہ تعالی کے

۲۹۱

ذکر اور نماز سے غافل نہ رہو_ سکوت اور تعقل اور صبر و صدق اور برے لوگوں سے دوری کا خیال کرو_ باطل کلام جھوٹ بہتان دشمنی سوء ظن غیبت چغل خوری سے اجتناب کرو_ اور آخرت کی طرف توجہ رکھو اور اس دن کے آنے کے انتظار میں رہو کہ جس دن خدا کا وعدہ پورا ہوگا اور اللہ تعالی کی ملاقات کا سامان مہیا کرو_ آرام اور وقار خشوع خضوغ ذلت کہ جب کوئی بندہ اپنے مولی سے ڈرتا ہے اس کی رعایت کرو_ خوف اور امید خوف اور ترس کی حالت میں رہو اور اگر اپنے دل کو عیبوں سے اور باطل کو دھوکا دینے سے اور بدن کو کثافت سے پاک اور صاف کرو_ اللہ تعالی کے علاوہ ہر ایک چیز سے بیزاری کرو_ اور اللہ کی حکومت کو روزے کے وسیلے سے اور ظاہر اور باطن کو جس سے خدا نے منع کیا ہے خالی کرنے سے قبول کر لیا اور اللہ تعالی سے خوف اور خشیت کو ظاہر اور باطن میں ادا کیا اور روزہ کے دنوں اپنے نفس کو خدا کے لئے بخش دیا اور اپنے دل کو خدا کے لئے خالی کر دیا اور اسے حکم دیا تا کہ وہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرے اگر اس طرح اور اس کیفیت سے روزہ رکھا تو پھر تو واقعا روزہ دار ہے اور اپنے وظیفہ پر عمل کیا ہے اور ان چیزوں میں جتنی کمی اکرو گے اتناہی تیرا روزہ ناقص ہوجائیگا کیونکہ روزہ رکھنا صرف نہ کھانے اور پینے سے نہیں ہوتا بلکہ خدا نے روزے کو تمام افعال اور اقوال جو روزے کو باطل کردیتے ہیں حجاب اور مانع قرار دیا ہے پس روزے رکھنے والے کتنے تھوڑے ہیں اور بھوکے رہنے والے بہت زیادہ ہیں_(۵۳۰)

اپنے آپ کو سنوار نے میں روزے کا کردار

اگر روزے کو اسی طرح رکھا جائے کہ جس طرح پیغمبر اسلام نے چاہا ہے اور اسی کیفیت اور شرائط سے بجالا جائے کہ جو شرعیت نے معین کیا ہے تو پھر روزہ ایک بہت بڑی قیمتی اور مہم عبادت ہے اور نفس کے پاک کرنے میں بہت زیادہ اثر کرتا ہے روزہ ہر حالت میں نفس کو گناہوں اور برے اخلاق سے خالی کرنے اور نفس کو کامل اور

۲۹۲

زینت دیئے جانے والے اور اللہ تعالی کے اشراقات سے استفادہ کرنے میں کامل طور سے موثر ہوتا ہے_ روزہ رکھنے والا گناہوں کے ترک کرنے کے وسیلے سے نفس امارہ پر کنٹرول کر کے اپنے قابو میں رکھتا ہے_ روزے کے دن گناہوں کے ترک کرنے سے نفس کی ریاضت اور عملی تجربے کا زمانہ ہوتا ہے_ اس زمانے میں نفس کو گناہوں اور کثافت سے پاک کرنے کے علاوہ جائز لذات کھانے پینے سے بھی چشم پوشی کرتا ہے اور اس وسیلے سے اپنے نفس کو صفا اور نورانیت بخشتا ہے کیونکہ بھوک باطن کے صفا اور خدا کی طرف توجہہ کا سبب ہوتی ہے_ انسان بھوک کی حالت میں غالباً خوش حالی کی حالت پیدا کر لیتا ہے کہ جو پیٹ بھری حالت میں اسے حاصل نہیں ہوتی_ خلاصہ روزہ تقوی حاصل کرنے میں بہت زیادہ تاثیر رکھتا ہے اسی لئے قرآن مجید میں تقوی حاصل کرنے کو روزے کے واجب قرار دینی کی غرض بتلایا گیا ہے_ قرآن میں ہے _ ''اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے روزہ تم پر واجب کیا گیا ہے جیسے کہ پہلے لوگوں پر واجب کیا گیا تا کہ تھا تم اس وسیلے سے صاحب تقوی ہو جاؤ_(۵۳۱) جو شخص ماہ رمضان میں روز رکھے اور چونکہ روزہ دار پورے مہینے میں گناہوں اور برے اخلاق سے پرہیز کرتا ہے اور اپنے نفس پر قابو پالیتا ہے تو وہ ماہ رمضان کے بعد بھی گناہوں کے ترک کرنے کی حالت کو باقی رکھے گا_

یہاں تک جو کچھ کہااور لکھا گیا ہے وہ روزے کا نفس انسانی کے پاک کرنے اور نفس کو گناہوں اور کثافتوں سے صاف کرنے کا اثر لیکن روزہ کچھ مثبت اثرات بھی رکھتا ہے جو نفس کو کمال تک پہنچنے اور باطن کے خوشمنا ہونے اور ذات الہی تک تقرب کا موجب اور سبب بنتا ہے _ جیسے_

۱_ روزہ یعنی نفس کو مخصوص مفطرات سے روکنا ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں اخلاص اور قصد قربت سے نفس کی تکمیل اور تربیت ہوتی ہے اور قرب الہی کا دوسری عبادتوں کی طرح سبب بنتی ہے_

۲_ گناہوں اور اور لذات کے ترک کرنے سے روزہ دار کا دل صاف اور پاک ہو جاتا

۲۹۳

ہے اور خدا کے سوا ہر فکر اور ذکر سے فارغ ہوجاتا ہے اس وسیلے سے اللہ تعالی کے اشراقات اور افاضات اور القاء اللہ کی استعداد اور قابلیت پیدا کر لیتا ہے اور اس حالت میں اللہ تعالی کے الطاف اور عنایات اسے شامل حال ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالی کے جذبے سے قرب الہی کو حاصل کر لیتا ہے_ اسی لئے احادیث میں وارد ہوا ہے کہ روزے دار کا سانس لینا اور سونا بھی ثواب اور عبادت ہے_

۳_ روزے کے دن عبادت اور نماز اور دعا اور قرآن پڑھنے ذکر اور خیرات اور مبرات کے بہترین دن ہوتی ہیں کیونکہ نفس حضور قلب اور اخلاص اور اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کے لئے دوسرے دلوں سے زیادہ آمادہ اور حاضر ہوتا ہے_ ماہ رمضان عبادت کی بہار اور خدا کی طرف توجہ کرنے کے لئے بہترین وقت ہوا کرتا ہے اسی لئے احادیث میں ہے کہ جب ماہ رمضان آتا تھا تو امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے فرزند سے سفارش کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ '' عبادت کرنے میں کوشش کرو کیونکہ اس مہینے میں رزق تقسیم کیا جاتا ہے_ اور اجل اور موت لکھی جاتی ہے_ اس میں وہ لوگ جو خدا کے پاس جائیں گے لکھے جاتے ہیں_ ماہ رمضان میں تک ایک رات ایسی کہ جس میں عبادت کرنا ہزار مہینے سے زیادہ افضل ہے_(۵۳۲) امیرالمومنین نے لوگوں سے فریاد کہ '' ماہ رمضان میں دعا زیادہ کیاکرو اور توبہ اور استغفار کرو کیونکہ دعا کے وسیلے سے تم سے مصیبتیں دور کی جائیں گی اور توبہ اور استغفار کے ذریعے سے تمہارے گناہ مٹ جائیں گے_(۵۳۳)

امیرالمومنین نے روایت کی ہے کہ '' رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک دن ہمارے لئے خطبہ بیان کیا اور اس میں فرمایا لوگو_ ماہ رمضان کا مہینہ برکت اور رحمت اور مغفرت کی ساتھ تمہارے طرف آیا ہے یہ مہینہ دوسرے مہینوں سے خدا کے نزدیک بہترین مہینہ ہے_ اس کے دن دونوں سے بہترین دن ہیں اور راتیں راتوں میں سے بہترین راتیں ہیں اس کی گھڑیاں گھڑیوں میں سے بہترین گھڑیاں ہیں یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں تم خدا کی طرف اس میں دعوت دیئے گئے ہو اور اللہ تعالی کی نزدیک

۲۹۴

صاحب کرامت قرار دیئے گئے ہو_ اس میں تمہارا سانس لینا تسبیح کا ثواب رکھتا ہے اور تمہارا سونا عبادت کا ثواب رکھتا ہے_ اس مہینے میں تمہارے اعمال قبول کئے جاتے ہیں اور تمہاری دعائیں قبول کی جاتی ہیں پس تم سچی نیت اور پاک دل سے خدا کو پکارو کہ اس نے تمہیں اس میں روزہ رکھتے اور قرآن پڑھنے کی توفیق عنایت فرمائی ہے کیونکہ بدبخت اور شقی ترین وہ شخص ہے جو اس بزرگ مہینے میں اللہ تعالی کے بخشنے جانے سے محروم رہے اس میں اپنی بھوک اور پیاس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو_ فقراء اور مساکین کو صدقہ دو اور بڑوں کا احترام کرو اور اپنے سے چھوٹوں پر رحم کرو_ اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو_ اپنی زبان کی حفاظت کرو اور حرام چیزوں سے اپنی آنکھوں کو بندہ کرو اور کانوں کو احرام کے سننے سے بند کرو_ یتیموں پر رحم اور مہربانی کرو_ اور اپنے گناہوں سے توبہ کرو_ اور نماز کے اوقات میں اپنے ہاتھوں کو دعا کرنے کے لئے بلند کرو کیونکہ یہ وقت بہترین وقت ہے کہ خدا لوگوں پر رحمت کی نگاہ ڈالتا ہے اور ان کی مناجات کو قبول کرتا ہے اور ان کی پکار پر لبیک کہتا ہے جب کوئی سوال کرے اسے عطا کرتا ہے اور اس کی دعا کو قبول کرتا ہے_ لوگو تمہاری جانیں تمہارے اعمال کے مقابلے میں گروہی میں پس استغفار کے ذریعے انہیں آزاد کراؤ_

تمہاری پشت گناہوں کی وجہ سے سنگین ہوچکی ہے طویل سجدوں سے اس بار سنگین کو ہلکار کرو اور جان لو کہ خدا نے اپنے عزت کی قسم کھا رکھی ہے کہ نماز پڑھنے اور سجدہ کرنے والوں کو عذاب نہ کرے اور ان کو قیامت کے دن جہنم کی آگ سے ڈرائے_

لوگو جو شخص اس مہینے میں روزہ دار کو افطاری کرائے اسے ایک بندے کے آزاد کرنے کا ثواب دیا جائیگا اور گذرے ہوئے گناہوں کو معاف کردیا جائیگا_ کہا گیا_ یا رسول اللہ_ ہم تمام افطاری دینے پر قدرت نہیں رکھتے _ آپ نے فرمایا کہ دوزخ کی آگ سے بچو خواہ ایک ٹکڑا یا پانی کا ایک گھونٹ پلانا ہی کیوں نہ ہو _ لوگو جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق کو اچھا کرے قیامت کے دل پل صراط سے عبور کرے گا_ اور خدا

۲۹۵

اسے آزاد کرے گا_ جو شخص اس مہینے میں کسی بندے کے کام کو آسان کردے خداوند عالم قیامت کی دن اس کے کام کو آسان کردے گا_ جو شخص اس مہینے میں اپنی برائی کو لوگوں سے روکے خدا قیامت کے دن اپنے غضب کو اس سے روکے گا_ جو شخص کسی یتیم کی عزت کرے خدا قیامت کے دن اسے اپنی رحمت سے متصل کرے گا جو شخص قطع رحمی کرے خدا قیامت کے دن اس سے اپنی رحمت کو قطع کردے گا_ جو شخص اس مہینے میں مستحب نمازیں پڑھے خدا اس کے لئے جہنم سے برات لکھ دے گا_ جو شخص اس مہینے میں مجھ پر زیادہ درود بھیجے خدا اس کے نامہ اعمال کے ترازو کو بھاری قرار دے گا_ جو شخص اس مہینے میں قرآن کی ایک آیت پڑھے اس کو ایک قرآن کے ختم کرنے کا جو دوسرے مہینوں میں پڑھے گا ثواب دیا جائیگا_ لوگو اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اللہ تعالی سے طلب کرو کہ وہ تم پر بند نہ کرے _ اس مہینے میں دوزخ کے دروازے بند کردیئےاتے ہیں_ خدا سے طلب کرو کہ وہ تم پر کھول نہ دیئے جائیں_ اس مہینے میں شیطانوں کو زنجیروں میں بند کر دیا جاتا ہے خدا سے طلب کرو کہ ان کو تم پر تسلط اور غلبہ نہ دیا جائے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا_ یا رسول اللہ اس مہینے میں سب سے بہترین عمل کونسا ہے؟ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابوالحسن_

اس مہینے میں محرمات سے پرہیز کرنا سب سے زیادہ افضال عمل ہے_(۵۳۴)

جیسے کہ ان حادیث سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ ماہ رمضان پر برکت اور بافضیلت مہینہ ہے یہ عبادت اور اپنے آپ کو بنانے دعا اور تہجد نفس کی تکمیل اور تربیت کا مہینہ ہے_ اس مہینے میں عبادت دوسرے مہینوں کی نسبت کئی برابر ثواب رکھتی ہے یہاں تک کہ اس مہینے میں مومن کا سانس لینا بھی عبادت ہے_ اس مہینے مین جنت کے دروازے مومنین کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں_ اللہ تعالی کے فرشتے خدا کے بندوں کو عبادت کی طرف بلاتے

۲۹۶

رہتے ہیں بالخصوص سحری اور شب قدر کہ جس میں جاگتے رہنا اور عبادت کرنا ہزار مہینے سے افضل ہے خدا نے اس مہینے میں عام دربار لگایا ہے اور تمام مومنین کو اپنی طرف مہمانی کے لئے بلایا ہے اس دعوت کا پیغام پیغمبر علیہم السلام لائے ہیں_

میزبان جواد مطلق ہے _ اللہ کے مقرب فرشتے مہمان مومنین کے خدمت گزار ہیں_ اللہ تعالی کی نعمتوں کا عام دسترخوان بچھا ہوا ہے_ مختلف قسم کی نعمتیں اور جوائز کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے_ اور نہ کسی کے دل پر خطور کیا ہے مہیا کر دی گئی ہیں_ رمضان کا مہینہ پر برکت اور با فضیلت مہینہ ہے_اللہ تعالی کی توفیق ہر طرف سے آمادہ اور مہیا ہے_ دیکھیں کہ ہماری ہمت اور لیاقت کتنی ہے اگر ہم نے غفلت کی تو قیامت کے دن پشیمان ہونگے لیکن اس دن پشیمانی کوئی قائدہ مند نہ ہوگی_ ماہ رمضان کی دعائیں مفاتیح الجنان اردو اور دوسری دعاؤں کی کتابوں میں موجود ہیں جیسے مفاتیح الجنان جدید و غیرہ_ خلوص اور توجہہ کے ساتھ اللہ تعالی کے تقرب اور سیر و سلوک کے لئے ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے_

آخر میں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ باقی تمام عبادات بھی نماز اور روزے ذکر اور دعا کی طرح اپنے آپ کو بنانے اور سنوارنے اور تکمیل اور تربیت نفس میں مفید اور موثر ہوتے ہیں چونکہ ہماری بنا اختصار پر تھی لہذا ان کو توضیح اور تشریح سے صرف نظر کیا ہے_

۲۹۷

حواشی-۱

۱_لقد منّ الله علیه المؤمنین اذ بعث فیهم رسولاً من انفسهم یتلوا علیهم آیاته و یزکیهم و یعلّمهم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین_ آل عمران/ ۱۶۴

۲_ قال رسول الله صلّی الله علیه و آله: علیکم بمکارم الاخلاق فانّ الله عزوجل بعثنی بها_ بحار/ ج ۶۹ ص ۳۷۵_

۳_ عن النبی صلی الله علیه و آله انه قال: انّما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق_ مستدک /ج ۲ ص ۲۸۲_

۴_ قال ابوعبدالله علیه السلام: انّ الله تبارک و تعالی خصّ الانبیا_ بمکارم الاخلاق، فمن کانت فیه فلیحمد الله علی ذلک، و من لم یکن فلیتضرع الی الله و لیسئله_ مستدرک/ ج ۲ ص ۲۸۳_

۵_ قال امیرالمؤمنین علیه السلام: لو کنّا لا نرجو جنة و لا نخشی ناراً و لا ثواباً و لا عقاباً لکان ینبغی لنا ان نطلب مکارم الاخلاق فانها مما تدّل علی سبیل النجاح_ مستدرک/ ج۲ ص ۲۸۳_

۶_ عن ابی جعفر علیه السلام قال: انّ اکمل المؤمنین ایماناً احسنهم خلقاً_ کافی/ ج ۲ ص ۹۹_

۷_ جاء رجل الی رسول الله علیه و آله من بین یدیه فقال: یا رسول الله ماالدین؟ فقال: حسن الخلق_ ثم اتاه من قبل یمینه فقال: یا رسول الله ما الدین؟ فقال: حسن الخلق_ ثم اتاه من قبل شماله فقال: ما الدین؟ فقال: حسن الخلق_ ثم اتاه من ورائه فقال: ما الدین؟ فالتفت الیه فقال: اما تفقه؟ هو ان لا تغضب_ محجة البیضائ/ ج ۵ ص ۸۹_

۸_الذی احسن کلّ شیء خلقه و بدا خلق الانسان من طین، ثم جعل نسله من سلالة من ماء مهین ثمّ سوّاه و نفخ فیه من روحه و جعل لکم السمع و الابصار و الافئدة قلیلاً ما تشکرون _ سجدة/ ۷_

۲۹۸

۹_فاذا سوّیته و نفخت فیه من روحی فقعوا له ساجدین _ حجر/ ۲۹_

۱۰_و لقد کرّمنا بنی آدم و حملناهم فی البر و البحر و رزقناهم من الطیبات و فضّلناهم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً _ اسرائ/ ۷۰_

۱۱_قل ان الخاسرین الذین خسروا انفسهم و اهلیهم یوم القیامة الا ذالک هو الخسران المبین _ زمر/ ۱۵_

۱۲_ قال علی علیه السلام: عجبت لمن ینشد ضالته و قد اضلّ نفسه فلا یطلبها_ غرر الحکم/ ص ۴۹۵_

۱۳_و یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی و ما اوتیتم من العلم الّا قلیلاً _ اسرائ/ ۸۵_

۱۴_ قال علی علیه السلام: ان النفس لجوهرة ثمنیة من صانها رفعها و من ابتذلها وضعها_ غرر الحکم/ ص ۲۲۶_

۱۵_ قال علی علیه السلام: من عرف نفسه لم ینهنا بالفانیات_ غرر الحکم/ ص ۶۶۹_

۱۶_ قال علی علیه السلام: من عرف شرف معناه صانه عن دنائة شهوته و زور مناه_ غرر الحکم/ ص ۷۱۰_

۱۷_ قال علی علیه السلام: من شرف نفسه کثرت عواطفه_ غرر الحکم / ص ۶۳۸_

۱۸_ قال علی علیه السلام: من شرف نفسه نزّها عن ذلّه المطالب_ غرر ا لحکم/ ص ۶۹۹_

۱۹_و امّا من خاف مقام ربّه و نهی النفس عن الهوی فانّ الجنة هی الماوی _ نازعات/ ۴۱_

۲۰_و ما ابرّء نفسی انّ النفس لا مّارة بالسوء الا ما رحم ربّی _ یوسف/ ۵۳_

۲۱_ قال النبی صلی الله علی و آله: اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک_ بحار/ ج ۷۰ ص ۶۴_

۲۲_ قال علی علیه السلام: انّ النفس لامّارة بالسوء فمن ائتمنها خانته و من استنام الیها اهلکته و من رضی عنها اوردته شرّ الموارد_ غرر الحکم/ ص ۲۲۶_

۲۳_ قال علیه بن الحسین علیه السلام فی دعاه: الهی الیک اشکو نفساً بالسوء امّارة و الی الخطئیة مبادرة و بمعاصیک مولعة و لسخطک متعرضه تسلک بی مسالک المهالک_ بحار/ ج ۹۴ ص ۱۴۳_

۲۵_فان لم یستجیبوا لک فاعلم انّما یتّبعون اهوائهم من اضلّ ممن اتّبع هواه بغیر هدی من الله انّ الله لایهدی القوم الضالمین _ قصص/ ۵۰_

۲۶_و لقد ذرانا لجهنم کثیراً من الجن و الانس لهم قلوب لا یفقهون بها و لهم اعین لایبصرون بها و لهم اذان لایسمعون بها اولئک کالانعام بل هم اضلّ اولئک هم الغافلون _ اعراف/ ۱۷۹_

۲۹۹

۲۷_افرا یت من اتخذ الهه هواه و اضلّه الله علی علم و ختم علی سمعه و قلبه و جعل علی بصره غشاوة فمن یهدیه من بعد الله افلا تذکرون _ جاثیہ/ ۲۳_

۲۸_ قال علی علیه السلام: المغبون من شغل بالدنیا و فاته حظه من الاخرة_ غرر الحکم/ ج ۱ ص ۸۸_

۲۹_ قال علی علیه السلام: اکم نفسک من کل دنيّه و ان ساقتک الی الرغائب، فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا و لا تکن عبد غیرک و قد جعلک الله حرّاً و ما خیر خیرا لا ینال الا بشّر و یسر لا ینال الّا بعسر_ نهج البلاغه صبحی صالح/ ص ۴۰۱ کتاب ۳۱_

۳۰_ قال اامیرالمؤمنین علیه السلام: لبئس المتجر ان تری الدنیا لنفسک ثمناً و ممالک عند الله عوضا_ نهج البلاغه / خطبه ۳۳_ ۷۵_

۳۱_و نفس و ما سوّیها فا لهمها فجورها و تقوی ها، قد افلح من زكّیها و قد خاب من دسی ها _ شمس/ ۷ تا ۱۰_

۳۲_ قیل لعلی بن الحسین علیه السلام: من اعظم الناس خطراً؟ قال: من لم یر الدنیا خطراً لنفسه_ تحف العقول/ ص ۲۸۵_

۳۳_ قال علی علیه السلام: من کرمت علیه نفسه هانت علیه شهواته_ نهج البلاغه/ قصار ۴۴۹_

۳۴_یعلمون ظاهراً من الحیاة الدنیا و هم عن الاخرة غافلون _ روم/ ۷_

۳۵_لقد کمنت فی غفلة من هذا فبصرک الیوم حدید _ ق/ ۲۲_

۳۶_کل نفس بما کسبت رهینة _ مدثر/ ۳۸_

۳۷_ثم توفی کل نفس ما کسبت و هم لا یظلمون _ آل عمران/ ۱۶۱_

_لا یؤاخذکم الله باللغو فی ایمانکم و لکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم و الله غفور حلیم _ بقرہ/ ۲۲۵_

۳۸_لا یکلّف الله نفساً الّا وسعها لها ما کسبت و علیه ما اکتسبت _ بقرہ/ ۲۸۶_

۳۹_یوم تجد کل نفس ما عملت من خیر محضراً و ما عملت من سوئ: تودّ لو انّ بینها و بینه امداً بعیداً _ آل عمران/ ۳۰_

۴۰_من عمل صالحاً فلنفسه و من اساء فعلیها ثم الی ربکم ترجعون _ جائیہ/ ۱۵_

۴۱_فمن یعمل مثقال ذرّه خیراً یره و من یعمل مثقال ذرّة شرّاً یره _ زلزال/ ۷_

۴۲_و ما تقدّموا لا نفسکم من خیر تجدوه عندالله _ بقرہ/ ۱۱_

۴۳_یوم لا ینفع مال و لا بنون الّا من اتی الله بقلب سلیم_ شعرائ/ ۸۵_

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346