خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس22%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119369 / ڈاؤنلوڈ: 5163
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

خواہشات پر عقل کی حکومت

اگر چہ انسان پرخواہشات کی حکومت بہت ہی مستحکم ہوتی ہے لیکن عقل کے اندر ان خواہشات کو کنٹرول کرنے اور انہیں صحیح رخ پرلانے کی مکمل صلاحیت اورقدرت پائی جاتی ہے۔بشرطیکہ انسان خواہشات پر عقل کو فوقیت دے اور اپنے معاملات زندگی کی باگ ڈورعقل کے حوالہ کردے۔

صرف یہی نہیں بلکہ جس وقت خواہشات پر عقل کی گرفت کمزور پڑجاتی ہے اور خواہشات اسکے دائرہ اختیار سے باہر نکل جاتے ہیں تب بھی عقل کی حیثیت حاکم و سلطان کی سی ہوتی ہے وہ حکم دیتی ہے ،انسان کو برے کامو ںسے روکتی ہے،اور خواہشات ،نفس کے اندرصرف وسوسہ پیدا کرتے ہیں حضرت علی نے فرمایاہے:

(للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجروتنهی )( ۱ )

''نفسوں کے اندرمختلف خواہشیں سر ابھارتی ہیںاور عقلیں ان سے مانع ہوتی ہیں اورانہیں روکتی رہتی ہیں''

آپ ہی سے منقول ہے :

(للقلوب خواطرسوئ،والعقل یزجرمنها )( ۲ )

''دلوںمیں برے خیالات آتے ہیں اور عقل ان سے روکتی رہتی ہے''

اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہشات کی بناء پر انسان کے نفس میں صرف برے خیالات،اوہام اور وسوسے جنم لیتے ہیں لیکن عقل کے پاس انہیں کنڑول کرنے نیز ان سے روکنے کا اختیار موجود ہے اور اس کی حیثیت حاکم و سلطان کی سی ہے۔ اسی لئے مولائے کائنات نے فرمایاہے:

(العقل الکامل قاهرللطبع السُّوئ )( ۳ )

''عقل کامل ،بری طبیعتوں پر غالب ہی رہتی ہے''

جسکا مطلب یہ ہوا کہ انسانی مزاج اور اسکا اخلاق، بے جا خواہشات کی بناء پر بگڑکرچاہے جتنی پستی میں چلاجائے تب بھی عقل کی حکومت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے اور عقل سلیم وکامل اپنے اندر

____________________

(۱)تحف العقول ص۹۶۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۳)بحار الانوارج۱۷ص۱۱۶۔

۲۱

ہر قسم کی بری طبیعت اور مزاج کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ اسلامی تربیت کا ایک اہم اصول ہے جسکے بارے میں ہم آئندہ تفصیل سے گفتگوکریں گے۔

انسان ،عقل اور خواہش کا مجموعہ

یہاں تک ہم اس واضح نتیجہ تک پہونچ چکے ہیں کہ خواہشیں کتنی ہی قوی اورموثر کیوں نہ ہوںلیکن وہ انسان سے اسکاارادہ اور قوت ارادی کونہیں چھین سکتی ہیں۔بشرطیکہ انسان عقل کو کامل بنالے اور معاملات زندگی میں عقل کو اہمیت دیتارہے کیونکہ انسان، عقل اور خواہشات سے مل کر بنا ہے لہٰذاعقل اور خواہشات کے باعث انسان ہمیشہ ترقی و تنزلی کی منزلیںطے کرتارہتاہے انسان اپنے معاملات حیات میں جس حد تک عقل کی حاکمیت کا قائل ہوگا اور اپنی عقل کے تکامل کی کوشش کرے گا اسی حد تک ترقی اور کمال کی جانب قدم بڑھائے گا اسکے برخلاف عقل کو بالکل نظر انداز کرکے اور اس سے غافل ہو کراگرخواہشات کوعقل پر ترجیح دے گاتو اسی کے مطابق پستیوں میں چلاجائے گا۔

لیکن حیوانات کی زندگی کا معاملہ انسان کے بالکل بر خلاف ہے کیونکہ ان کے یہاں کہیں سے کہیں تک عقل کا گذر نہیں ہے اوروہاںسوفیصد خواہشات کی حکومت ہوتی ہے گویا وہ صرف ایک سبب کے تابع ہوتے ہیںاوران کی زندگی صرف اسی ایک سبب کے تحت گذرتی ہے۔مولائے کائنات کا ارشاد ہے:

(إن ﷲ رکّب فی الملائکة عقلا ًبلا شهوة،ورکّب فی البهائم شهوةبلاعقل،ورکّب فی بنی آدم کلیهمافمن غلب عقله شهوته فهوخیرمن الملائکة،ومن غلبت شهوته عقله،فهوشرمن البهائم )( ۱ )

''خداوند عالم نے ملائکہ کو صرف عقل دی ہے مگرخواہشات نہیں دیںاورحیوانات

____________________

(۱)وسائل الشیعہ،کتاب الجھاد:جہاد النفس باب ۹ح۲۔

۲۲

کو خواہشات دی ہیں مگر عقل سے نہیں نوازا ،مگر اولاد آدم میں یہ دونوںچیزیں ایک ساتھ رکھی ہیں لہٰذا جسکی عقل اس کی خواہشوں پر غالب آجائے وہ ملائکہ سے بہتر ہے اور جس کی خواہشیں اسکی عقل پر غلبہ حاصل کرلیں وہ حیوانات سے بدتر ہے ''

خواہشات کی شدت اورکمزوری

اسلامی تہذیب کاایک اہم مسئلہ خواہشات کی شدت اورکمزوری کا بھی ہے۔کیونکہ عین ممکن ہے کہ کوئی خواہش نہایت مختصر اور کم ہواور ممکن ہے کہ بعض خواہشات بھڑک کرشدت اختیار کرلیں ۔ چنانچہ اگر یہ مختصر ہوگی تو اس پر عقل حاکم ہوگی اور آدمی ،انسان کامل بن جائے گا اوراگر یہی خواہشات شدت اختیار کرلیں تو پھر ان کا تسلط قائم ہوجاتا ہے اور انسان،حیوانیت کی اس پستی میں پہنچ جاتا ہے جہاں صرف اور صرف خواہشات کا راج ہوتاہے اور عقل وشعور نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔

انسان چاہے اس حالت کے ماتحت ہو یا اس حالت کے ماتحت ہو ہرصورت میں خواہشات کی کمی یا زیادتی کا دارومدار خود انسان کے اوپر ہی ہوتا ہے کہ جب وہ خواہشات کا تابع ہوتاہے اور ان کے تمام مطالبات کو پورا کرتاہے تو خواہشات اور بھڑک اٹھتی ہیں اور انسان کو مکمل طور پر اپنا اسیر بنالیتی ہیںاور انسانی زندگی میں ایک مضبوط قوت کے روپ میں ابھرتی ہیں اور انسان کی زندگی میں ان کاکردار بہت اہم ہوتا ہے۔

اوراسی کے برعکس جب انسان اپنی خواہشات پرپابندی لگاتارہے اوران کوہمیشہ حداعتدال میں رکھے اور خواہشات پرانسان کا غلبہ ہواور وہ عقل کے ماتحت ہوں تو پھر اسکی خواہشات ضعیف ہوجاتی ہیں اور انکا زور گھٹ جاتاہے ۔

ایک متقی کے اندر بھی وہی خواہشات ہوتے ہیں جو دوسروں کے اندر پائے جاتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ متقی افراد خواہشات کو اپنی عقل و فہم کے ذریعہ اپنے قابو میں رکھتے ہیں جبکہ بے عمل افرادپر ان کے خواہشات حاکم ہوتے ہیں اورخواہشات ان کو قابو میںکرلیتے ہیں۔ اس دور اہے پر انسان کوکوئی ایک راستہ منتخب کرناہے وہ جسے چاہے اختیار کرے۔ خواہشات کو کچل کر ان کا مالک ومختا ر بن جائے یا انکی پیروی کرکے ان کاغلام ہوجائے۔

۲۳

آئندہ صفحات میں ہم خواہشات پرغلبہ حاصل کرنے کے کچھ طریقے ذکر کریںگے لیکن فی الحال آیات وروایات کی روشنی میں ان باتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جن سے خواہشات کی کمزوری یاشدت اور ان صفات کے اسباب کا علم حاصل ہوتاہے۔

سب سے پہلے قرآن کریم کی آیات ملاحظہ فرمائیں۔ﷲتعالیٰ ارشادفرماتاہے:

( ولکن ﷲ حبَّب لیکم الایمان وزیَّنه فی قلوبکم وکَرَّه إلیکم الکفروالفسوق والعصیان ) ( ۱ )

''لیکن خدا نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا ہے اور کفر،فسق اور معصیت کو تمہارے لئے ناپسندیدہ قرار دیدیا ہے ''

فسوق (برائی) کی یہ نفرت خداوند عالم نے مومنین کے دلوں میں پیداکی اور اہل تقویٰ اس سے ہمیشہ متنفر رہتے ہیںمگرفاسقین اس پرلڑنے مرنے کو تیار رہتے ہیں اسکے واسطے جان توڑ کوشش کرتے ہیں اور اس کی راہ میں بیش قیمت اشیاء کو قربان کردیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کس ذات نے اس برائی کو مومنین کی نظروں میں قابل نفرت بنادیا؟ کون ہے جس نے فاسقوں کی نگاہ میں اسے محبوب بنادیا؟یقینا خدا وند عالم ہی نے مومنین کو اس سے متنفر کیا ہے۔کیونکہ مومن کا دل خداکے قبضۂ قدرت میں رہتا ہے لیکن برائیوں کو فاسقوں کیلئے پسندیدہ بنانے والی چیز خود ان برائیوں اور خواہشات کی تکمیل نیزان کوہرقیمت پر انجام دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جسکی بناپر وہ ان کی

____________________

(۱)سورئہ حجرات آیت۷۔

۲۴

من پسند چیز بن جاتی ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے:

(المداومة علیٰ الخیرکراهیة الشر )( ۱ )

''کار خیر کی پابند ی برائیوں سے بیزار و متنفر کرتی ہے''

یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اگر مسلسل کا رخیر کی پابندی کی جاتی رہے تو خود بخود شر اور برائی سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے شر سے مراد انسان کی وہ خواہشات اور لذتیں ہیںجن کے پیچھے لوگ دوڑتے رہتے ہیں۔ یعنی فاسق اور گمراہ لوگ انھیں حرام خواہشات ولذائذ کے متلاشی رہتے ہیں۔

اس کے برعکس ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح کارخیرکی پابندی کے باعث برائی سے نفرت ہوجاتی ہے اسی طر ح یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ''برائیوں کی پابندی سے برائیوں کی محبت پیدا ہوجاتی ہے''

خطبہ متقین جو خطبہ ہمام کے نام سے مشہور ہے اس میں امیر المومنین کا یہ ارشاد ہے: (تراه قریباًأمله،قلیلاًزلَله،خاشعاًقلبه،قانعةنفسه،منزوراًأکله،سهلاًأمره، حریزاًدینه،میتةً شهوته،مکظوماًغیظه )( ۲ ) '' متقین کی پہچان یہ ہے کہ ان کی آرزوئیں بہت مختصر ،لغزشیںکم،دل خاشع،نفس قانع، غذا معمولی،معاملات آسان،دین محفوظ ،خواہشات مردہ اور غیظ و غضب اور غصہ ٹھنڈارہتاہے''

بیشک تقویٰ شہوات اور خواہشات کو مختصر اور سادہ بنا دیتا ہے جسکے نتیجہ میں حریص اور لالچی نفوس بھی متقی اور قانع ہو جاتے ہیںاور انکی خواہشات گھٹ کر گویا مردہ ہوجاتی ہیں۔

البتہ اس طرح کی روایات نقل کرنے سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ تقویٰ ،خواہشات کو لگام

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۷۔

(۲)نہج البلا غہ خطبہ ۹۵(ہمام)

۲۵

لگاکر ایک دم روک دیتا ہے( اگر چہ یہ بات اپنی جگہ پر کسی حد تک درست ہے )۔بلکہ نفس کے اوپر تقویٰ کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات کو بہت ہی ہلکا اور سادہ بنادیتا ہے اور اسی مقصد کے تحت ہم نے مذکورہ روایات بیان کی ہیں اب حضرت علی سے مروی مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں جنہیں ہم بغیر کسی تبصرہ کے پیش کررہے ہیں:

(کلما قویت الحکمة،ضعفت الشهوة )( ۱ )

''جس قدر حکمت قوی ہوگی خواہش اتنی ہی کمزور ہوجائے گی''

(اذاکثرت المقدرة قلت الشهوة )( ۲ )

''جب قدرت زیادہ ہوگی تو شہوت کم ہوجائے گی''

(العفة تضعف الشهوة )( ۳ )

''عفت اور پاکدامنی شہوت کو کمزور بنادیتی ہے''

(من اشتاق الیٰ الجنة سلا من الشهوات )( ۴ )

''جو جنت کا مشتاق ہوا وہ خواہشات سے بری ہوگیا ''

(واذکرمع کل لذة زوالها،ومع کل نعمة انتقالها،ومع کل بلیة کشفها فن ذلک أبقیٰ للنعمة،وأنقیٰ للشهوة،وأذهب للبطر،وأقرب للفرج، وأجد ر بکشف الغمةودرک المأمول )( ۵ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۱۱۔

(۲)بحار الانوار ج۷۲ص۶۸ونہج البلاغہ حکمت ۲۴۴۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۱۸۔

(۴)نہج البلاغہ حکمت ۳۱۔

(۵)غررالحکم۔

۲۶

''ہر لذت کے ساتھ اسکے زوال پر، ہر نعمت کے ساتھ اسکے منتقل ہونے اورہر بلاکے ساتھ اسکے رفع ہونے پر بھی نظر رکھو کیونکہ یہ نعمت کو تادیر باقی رہنے، شہوت کو صاف و پاکیزہ بنانے ،نعمت پر اترانے اور اسکی ناشکری کو ختم کرنے ،آسانی اور کشادگی کو قریب کرنے ،مشکلات اور پیچیدگیوں کودور کرنے نیزآرزووں کی تکمیل کے لئے سب سے زیادہ مناسب ہے۔''

تقویٰ اورضبط نفس کاتسلط انسانی خواہشات اور آرزووں پر اس حد تک ہوتا ہے کہ وہ انسانی خواہشات کو حدود الٰہیہ کے سانچہ میں ڈھال دیتے ہیں جسکے بعد انسان صرف وہی چاہتااور پسند کرتا ہے جو خداوند عالم پسند کرتا ہے اور صرف اسی سے نفرت اور کراہت محسوس کرتا ہے جس سے خداوندعالم نفرت کرتاہے اور یہ انسانی نفس اور حدود الٰہیہ کے آپسی رابطہ کی آخری حد ہے اسی عجیب و غریب انقلاب کی طرف اس آیۂ کریمہ نے اشارہ کیا ہے :

(وکرَّه لیکم الکفر والفسوق والعصیان )( ۱ )

''اور کفر،فسق اور معصیت کو تمہارے لئے ناپسندیدہ قرار دیدیا ہے ''

اس مرحلہ میں تقویٰ کاانسان پر صرف یہی اثر نہیںہوتا ہے کہ وہ کفر،فسق وفجور اور گناہ سے دوررہتا ہے بلکہ تقویٰ انسان کو ان باتوں سے متنفر بھی کردیتا ہے۔

انسانی زندگی میں خواہشات کا مثبت کردار

انسانی زندگی میں اسکی خواہشوں کی تباہ کاریوں کو دیکھنے کے بعد ہر انسان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ان کی اتنی تباہ کاریوںکے باوجودبھی خداوند عالم نے انسان کے اندر ان خواہشات کو کیوں پیدا کیا ہے؟اور ان کاکیا فائدہ ہے ان میںایساکونسا مثبت پہلو پایاجاتا ہے جسکی بناپر انہیں خلق کیا گیا ہے؟اگر چہ آئندہ ہم خواہشات کی تباہ کاریوں اور اسکے منفی اثرات کا جائزہ لیں گے

____________________

(۱)سورئہ حجرات آیت۷۔

۲۷

لیکن فی الحال اسکے مثبت اثرات اور فوائد کا تذکرہ کررہے ہیں۔

۱۔انسانی زندگی کا سب سے طاقتور محرک

انسانی خواہشات اس کی زندگی میں سب سے بڑا محرک ہیں کیونکہ ﷲ تعالیٰ نے حیات انسانی کے اہم ترین پہلوئوں کو انہیں خواہشات سے جوڑدیا ہے اوریہی خواہشات اسکی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کی ضامن ہیں۔

جیسے تولیدنسل، انسانی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر انسان صفحہ ہستی سے نابود ہوکر رہ جائے گا۔لہٰذا افزائش نسل اوراسکی بقاکے لئے کوئی ایساذریعہ یا جذبہ در کار تھا جسکی بنا پر نسل انسانی باقی رہے۔چنانچہ اس اہم مسئلہ کو خداوند عالم نے جنسی خواہشات سے جوڑکر بقائے انسانیت کا سامان فراہم کردیا۔

اسی طرح جسمانی نشوونما کو کھانے پینے سے جوڑ دیا اگر آب ودانہ کی یہ خواہش نہ ہوتو انسانی جسم نمو نہیں پاسکتا اور مسلسل جد و جہد کی وجہ سے اسکے بدن میں جو کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اس کی کمی پوری نہیں ہوسکتی تھی اور اسکے بدن میں جو خلیے مردہ ہوجاتے ہیں ان کی جگہ زندہ خلیے حاصل نہ ہوپاتے۔

اسی طرح خدا وند عالم نے اجتماعی زندگی کے لئے نفس میں سماج کی جانب رغبت اوررجحان کا جذبہ رکھا ہے اگر یہ جذبہ نہ ہوتاتو سماجی زندگی انتشار کا شکار ہوجاتی اور انسانی تہذیب و تمدن تارتار ہوجاتا۔

انسانی زندگی کے اقتصادی اور معاشی حصہ میں ملکیت اورمالکیت کا جذبہ کا رفرما رکھا ہے۔ اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو پھر اقتصادی نظام بالکل برباد ہوجاتا ۔

جان ،مال،ناموس اورعزت و آبرو کے تحفظ کیلئے قوت غضب رکھی گئی ہے اگر انسان کے اندر یہ قوت نہ رہے تو پھر ہر سمت دشمنی کارواج ہوگا اور کہیںبھی امن وامان کا نام ونشان باقی نہ رہے گا

اسی طرح انسان کے وہ دوسرے تمام ضروریات جن کے بغیر اسکے لئے روئے زمین پر زندگی گذار ناممکن نہیںہے ان کے لئے بھی خداوند عالم نے کوئی نہ کوئی جذبہ اور خواہش ضرور رکھی ہے اور اسی خواہش کے ذریعہ ان ضروریات کی فراہمی کا انتظام کیا ہے۔

۲۸

۲۔خواہشات ترقی کا زینہ

خواہشات انسانی زندگی میں ترقی کا زینہ ہیںاسی کے ساتھ یہ وہ پھسلن بھرا راستہ بھی ہے جس پر چل کرانسان پستیوں میںبھی پہنچ سکتا ہے۔اوراسی زینہ کے ذریعہ خدا تک بھی پہونچ سکتا ہے یہی زینہ انسان کی ترقی اور تکامل میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جسکی تفصیل کچھ یوں ہے۔

قرب خدا کی جانب انسان کا سفر اور اسی طرح انسان کی نشو ونما کادارو مداراس کے ''ارادہ''پر ہے جبکہ جمادات ،حیوانات اورنباتات کی نشو و نما اور ان کاتکاملی سفر ایک فطری اور قہری انداز میں انجام پاتاہے۔اور اس میں ان کے کسی ارادہ کا دخل نہیں ہوتا ہے لیکن انسان کو خداوند عالم نے ''ارادہ''کے ذریعہ یہ خاص شرف بخشا ہے کہ اس کی ہر حرکت ،ہر کام اسکے اپنے ارادہ واختیار کے تحت انجام پاتاہے ۔ انسان اور کائنات کی دوسری تمام اشیاء مشیت وارادہ ٔ الٰہی کے تابع ہیں اس اعتبار سے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے فرق صرف اتنا ساہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ مشیت الٰہی کا تابع ہوتا ہے اوربقیہ کا ئنات فطری اورقہری طور پر یعنی اپنے ارادہ و اختیار کے بغیر مشیت الٰہی کے مطابق چلتی رہتی ہے۔

احکام الٰہی در اصل خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ کا مظہر ہیں جن پر بندہ اپنے اختیار سے چلتا ہے اسی طرح سنن الٰہی بھی مشیت و ارادہ الٰہی کامظہر ہیں جن پر جمادات نباتا ت اور حیوانات اپنے ارادہ و اختیار کے بغیر رواں دواں ہیں۔

اسی لئے انسان کو قرآن مجید میں:(خلیفة ﷲ)قرار دیا گیاہے( ۱ ) اور اسکے علاوہ پوری کائنات کو (مسخرات بأ مرہ)''اسکے حکم کی تابع ''کہا گیا ہے۔( ۲ )

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت۳۰۔

(۲)سورئہ اعراف آیت ۵۴وسورئہ نحل آیت ۱۲و۷۹۔

۲۹

خلافت اور تسخیر کے درمیان ایک چیز مشترک ہے اور ایک لحاظ سے ان کے درمیان اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ ان کا مشترک پہلو یہ ہے کہ دونوں ہی مشیت و ارادئہ الٰہی کے تابع اور مطیع ہیں البتہ اس لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ خلیفہ خدا (انسان)اپنے ارادہ و اختیار سے حکم الٰہی کی پابندی کرتا ہے اور(والمسخرات بامرہ) تقریباًمشینی اندا ز میں اپنے کسی ارادہ و اختیار کے بغیر حکم خدا پر چلتے رہتے ہیں۔

اور یہی نکتہ انسان کی عظمت و بلندی کا راز ہے کیونکہ اگر وہ بھی اپنے قصد و ارادہ سے خداوند عالم کی اطاعت نہ کرتااور مجبور ہوتا تو پھر اسکے اور بقیہ پوری کائنات کے عمل میں کوئی فرق نہ ہوتااور اس کے عمل کو کسی قسم کا امتیاز یا برتری حاصل نہ ہوتی۔

اسی ارادی اور اختیاری اطاعت نے دیگر مخلوقات کے مقابل انسان کوخلافت الٰہیہ کا اہل بنایا ہے اور اسی بناء پر اسکے ہر عمل کی قدروقیمت بھی اسکی محنت و مشقت کے متناسب ہوتی ہے۔

چونکہ ارادی عمل میں جسمانی زحمت کے ساتھ نفسیاتی اور روحانی زحمت ومشقت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے لہٰذاخدا کے نزدیک اس عمل کی قدروقیمت زیادہ ہونی ہی چاہئے ۔ارادی عمل سے پیدا ہونے والی حرکت میں سرعت و استحکام بھی زیادہ ہونا چاہئے لہٰذا یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان تو کسی عمل کیلئے باقاعدہ زحمتیں اٹھائے اور دوسرا شخص بغیر کسی مشقت کے کوئی عمل انجام دے اور قدرو قیمت کے اعتبار سے دونوں برابر قرار د یدئے جائیں ۔

جیسے'' کھانے پینے'' اور'' روزہ رکھنے'' کے درمیان زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے جبکہ چاہے کھانا پینا ہو اور یا روزہ ہو یہ سب اعمال قصد وارادہ اور حکم الٰہی کی اطاعت کے جذبہ سے انجام پاتے ہیں لیکن کھانے پینے میں چونکہ انسان کے ارادہ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا اور اس میں اسے کسی قسم کی زحمت ومشقت نہیں ہوتی ہے اورچونکہ ہرعمل کی قیمت کا اندازہ اس عمل کی راہ میں ہونے والی اس محنت و مشقت کو دیکھکر لگایا جاتا ہے جو اس عمل کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے درکار ہوتی ہے اور کیونکہ کھانے پینے میں ایسی کوئی خاص زحمت نہیں ہے لہٰذاروزہ کے برخلاف اس عمل کی کوئی خاص اہمیت بھی نہیں ہے۔

جس عمل میں زحمت و مشقت کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی اس عمل کی قدروقیمت بھی اسی اعتبار سے بڑھتی رہے گی۔اور ایسا عمل انسانی ترقی اور قرب الٰہی کے سفر میں زیادہ اہمیت کا حامل ہوتاہے ۔ لہٰذا اصل حیثیت عمل پر صرف ہونے والی محنت ومشقت کی ہے اور اگر یہ محنت و مشقت نہ ہو تو پھر عمل بالکل بے قیمت ہوکر رہ جاتاہے۔

۳۰

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ زحمت ومشقت کیا ہے؟یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟اور اسکے درجات مختلف کیوں ہوتے ہیں؟

اس زحمت و مشقت کودینی اصطلاح میں''ابتلا''یعنی امتحان اور آزمائش کہا جاتا ہے اور یہ زحمت و مشقت خواہشات اور آرزووںکے وقت ظاہرہوتی ہے کیونکہ اگر ہمارے وجود میں خداوند عالم کی ودیعت کردہ یہ خواہشات نہ ہوتیں یا اسی طرح ان خواہشات کی مخالفت کے بغیر اطاعت ممکن ہوتی تو پھر ہمارے کسی عمل کی کوئی قیمت باقی نہ رہ جاتی اور کوئی عمل بھی قرب الٰہی کا ذریعہ نہیں بن سکتاتھا۔

اس ابتلاء اور مشقت کے درجات میں تفاوت در اصل خواہشات اور آرزووں کی شدت و ضعف یاکمی وزیادتی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ خواہشات جتنی زیادہ طاقتور ہونگی ان پر قابو پانے کیلئے انسان کو اتنی ہی مشقت اٹھا ناپڑے گی( ۱ ) اور عمل کو انجام دینے کیلئے خواہشات نفس کی جتنی زیادہ مخالفت درکارہوتی ہے وہ عمل قرب خداکیلئے اتنا ہی بیش قیمت ہوتاہے اور اسی کے مطابق خداوندعالم اسے جنت میں ثواب عنایت فرما تاہے ۔

____________________

(۱)خواہشات کے بارے میں اسلام کا نظریۂ اعتدال واضح ہے اوراسے تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔مختصر یہ کہ:

اسلام نہ تومکمل طورپر خواہشات کا گلا گھو ٹنے کی اجازت دیتاہے اور نہ وہ انھیں مطلق العنا ن چھوڑنے کاقائل ہے بلکہ اسلام کا ہر انسان سے صرف اتنا مطالبہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو شرعی احکام کے دائر ہ میں پورا کرتا رہے ۔

۳۱

اس وضاحت کے بعد بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ اپنے پروردگار کی جانب انسان کے ارتقائی سفر میں خواہشات کی کیا قدر وقیمت ہے کیونکہ قرب الٰہی کے ہر راہرو کو خواہشات اور آرزووںکے اس دلدل سے گذرناپڑے گاجسے خداوندعا لم نے ہر انسان کے وجود کا حصہ قرار دیا ہے ۔

اس وضاحت سے یہ نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ جسطرح خواہشات پستی اور ہلاکت کا باعث ہیںاسی طرح خداوندعالم تک پہونچنے کا زینہ بھی ہیں یہ نظریہ اسلامی فکر کی امتیازی جدت کا ایک نمونہ ہے ۔

جس کی طرف متعدد روایات میں اشارہ پایاجا تا ہے مگرہم اس مقام پر بطور نمونہ صرف دوروایات ذکر کر رہے ہیں :

۱۔(عن أبی البجیر،وکان من أصحاب النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:اصاب النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یومًاجوع شدید،فوضع حجراً علیٰ بطنه ثم قال:''ألارُبَّ طاعمة،ناعمة،فی الدنیاجائعة،عاریةیوم القیامة،ألارُبَّ مکرم لنفسه،وهولها مهین،ألاربّ مهین لنفسه،وهولها مکرم،ألا یارب متخوض،متنعم،فیما أفاء ﷲعلیٰ رسوله،ماله عندﷲ من خلاق،ألاون''عمل الجنة''حَزْنة بربوة، ألاون'' عملالنار''سهلة بشهوة،ألایارب شهوة ساعةٍأورثت حزناًطویلا )( ۱ )

''پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی ابی بجیر کا بیان ہے کہ ایک روز آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوبے حد بھوک لگی تھی تو آپ نے اپنے شکم مبارک پر پتھر رکھ لیا اور فرمایا :

نعمتوں کے خواہشمندکتنے ایسے افرادہیںجنہیں دنیا میں نعمتیں مل جاتی ہیں لیکن وہ قیامت کے دن بھوکے اور برہنہ ہونگے یا د رکھو! بظاہراپنے نفس کی عزت کرنے والے نہ جانے کتنے لوگ خودنفس کی توہین کرتے ہیں ۔اور نفس کو رسوا کرنے والے کتنے افراد ہیں جو دراصل نفس کی عزت

____________________

(۱)ذم الہویٰ لا بن الجوزی ص۳۸۔

۳۲

افزائی کرتے ہیں۔یاد رکھو! کتنے لوگ ان نعمتوں سے سرشار ہیںجو خداوندعالم نے اپنے رسول کو عنایت فرمائی ہیں مگر خدا کے نزدیک ان کا کوئی مرتبہ نہیں ہے یادرکھو !کہ جنت والا عمل ''حزنہ بربوة' ( نا ہموار پہا ڑی پر چڑھنے کے مثل )ہے اور جہنمی اعمال خواہشات کے عین مطابق او ر آسان ہیں یا د رکھو! بسا اوقات ایک ساعت کی شہوت ،طویل حزن و ملال کاسبب ہوتی ہے۔''

اس روایت میں متعدد قابل توجہ فکر انگیز نکات پائے جاتے ہیں جن سے بیحد مفید نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں جیسے کتنے نفس ایسے ہیں کہ جب انہیں کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے تو انہیں وہ نعمت مل جاتی ہے مگر وہ اپنی خواہشات کی بناء پر حرام وحلال کی کوئی فکر نہیں کرتے ۔۔۔ایسے لوگ روز قیامت بھوکے اوربرہنہ لائے جائیں گے۔

اور اسی طرح بعض اپنی خواہشات اور آرزووں کو پورا کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح اپنے نفس کی عزت و احترام میں اضافہ کررہے ہیں جب کہ در حقیقت وہ نفس کی توہین کرکے اسے تکلیف پہنچا رہے ہیں۔

کچھ لوگ اپنے نفس کے ساتھ شدت اور سختی سے پیش آتے ہیں اورجب وہ کسی شہوت اور خواہش کی طرف آگے بڑھناچاہتاہے تو صرف اسے روکتے ہی نہیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اسکی توہین و تذلیل بھی کرتے ہیںیہ عمل در حقیقت اپنے نفس کی عزت افزائی اور احترام ہے۔

اور کچھ ایسے ہیں جو بالکل اندھا دھنداپنی خواہشات میں ڈوبے رہتے ہیں انھیںصرف دنیاوی لذت سے مطلب ہے ایسے لوگوں کو آخرت میں کچھ ہاتھ آنے والانہیں ہے۔یہ لوگ آخرت کی نعمتوں سے محروم رہیں گے۔

حدیث کے ان الفاظ پرمزید توجہ فرمائیں :

(ألا ون عمل الجنةحَزْنة بربوة )

''حزنة ربو ة'' والاعمل جنت میں لے جاتا ہے۔''

۳۳

''حزنہ'' ناہموار پتھریلی زمین اور'' ربوة'' اس پر چلنے کو کہا جاتا ہے۔جو شخص ناہمواراور پتھریلی پہاڑیوں پر چڑھتا ہے اسکا سانس پھول جاتا ہے اور ہمت جواب دینے لگتی ہے اور آخری منزل تک پہنچنے تک اسکو بیحد مشقتوں کا سامنا کر نا پڑتاہے جیسے دریا کے بہائو کے خلاف تیرنے میں انسان کی ہمت جواب دینے لگتی ہے لیکن ہموار راستہ پر چلنا یا دریا کے رخ کے مطابق تیرنا نہایت ہی آسان کام ہے یہی حال جنت اور جہنم کے اعمال یعنی اطاعت و معصیت کا بھی ہے کہ گناہ کرتے وقت تو انسان آسانی کے ساتھ خواہشات کے بہائو میں بہتا رہتا ہے لیکن اطاعت خدا کرتے وقت اسے اپنے نفس کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرناپڑتا ہے۔

۲۔ نہج البلاغہ میں منقول ہے کہ مولائے کائنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کایہ قول نقل کیا ہے کہ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم برابر یہ فرمایا کرتے تھے:

(ن الجنةحفت بالمکاره،ون النارحفت بالشهوات،واعلموا:نه مامن طاعة ﷲ شیٔ لایأتی فی کره،وما من معصیة ﷲ شیٔ لایاتی فی شهوة،فرحم ﷲامرأً نزع نفسه عن شهوته،وقمع هویٰ نفسه،فن هذه النفس أبعد شی منزعا،ونها لاتزال تنزع لی معصیة فی هویٰ )( ۱ )

'' جنت کے چاروں طرف مشکلات اور زحمتوں کا حصار ہے اور جہنم کے چاروں طرف شہوتوں (خواہشات )کا گھرائو ہے اور یہ یاد رکھو کہ خدا کی کوئی اطاعت ایسی نہیں ہے جس میں کچھ نہ کچھ زحمت اور ناگواری کا پہلو نہ ہو اور اسکی کوئی معصیت ایسی نہیں ہے جس میں شہوت اور ہوی ٰوہوس شامل نہ ہو۔ ﷲ اس بندے پر رحمت نازل کرے جو اپنے نفس کو ہویٰ وہوس سے دور کرلے اور اپنی ہوس کو بالکل اکھاڑ پھینکے کہ یہ نفس خواہشات میں بہت دور تک کھینچ لے جانے والا ہے اور ہمیشہ

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۱۷۶

۳۴

گناہوں کی خواہش کی طرف ہی کھنچتا رہتا ہے''

یہ حدیث ہمارے اس نتیجہ کی بہترین دلیل ہے جسے ہم نے روایات سے اخذ کرکے یہاںپیش کیا ہے کیونکہ جنت و جہنم ہی ہر انسان کی آخری منزل ہے جوانسان خداوند عالم کی طرف محوحرکت ہے وہ جنت میں جائے گا اور جو اسکی نافرمانی کرے گا وہ انتہائی پستیوں میں پہنچ کر جہنم کا نوالہ بن جائے گا۔

جنت کے چاروں طرف مشکلات اور ناگوار یوں کے حصار کا مطلب یہ ہے کہ اس تک پہونچنے کے لئے انسان کو ہر طرح کی مشکلات سے گذر ناپڑتا ہے یعنی خواہشات اور ہوی وہوس پر قابو پانے ،تسلط حاصل کرنے اوراسے کچلنے کے لئے سخت زحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے

جبکہ جہنم کے ہر طرف خواہشات اور ہوی ٰو ہوس کا بسیراہے انسان خواہشات اور ہوی وہوس کے درمیان پھسل کرہی تنزلی اور پستیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث کی روشنی میں امیر المومنین نے ایک عام اصول ہمارے حوالے کردیا ہے:

(مامن طاعة ﷲ شیء لایاتیفی کره ،ومامن معصیة ﷲ شیء لایاتی فی شهوة )

'' ہر اطاعت خدا کے وقت کچھ نہ کچھ ناگواری ضرور محسوس ہوتی ہے اور ہر گناہ میں ہوس کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور پایا جاتا ہے ''

اطاعت الٰہی کرتے وقت نفس کو اسکی خواہشات و لذات اور ہویٰ و ہوس سے دور رکھنے کے لئے انسان کو ناگواری کا احساس ہوتاہے جبکہ وہ گناہوں میں لذت محسوس کرتا ہے کیونکہ اس سے نفس کی ہوس اور خواہشات پوری ہوتی ہیں اور اسے کسی قسم کے اندرونی ٹکرائو کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

ان تمام تفصیلات کے بعد یہ حقیقت بآسانی قبول کی جاسکتی ہے کہ انسان کے لئے خداوندعالم تک پہونچنے کی راہیں خواہشات اور لذتوں کی دشوار گذاروادیوں سے ہوکر ہی گذرتی ہیں اورانسان خواہشات کے زینہ سے ہی ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا خداوند عالم تک پہونچتا ہے۔ اگرانسانی وجود میں یہ خواہشات نہ ہوتیں تو انسان کے لئے اس منزل معراج وکمال تک پہونچنا ہرگز آسان نہ ہوتا جس کااسے اہل قرار دیاگیا ہے۔

۳۵

عمل اور رد عمل کا سلسلہ

خداوند عالم نے انسانی وجود میں خواہشات کو ودیعت فرماکر اسکے لئے درحقیقت ایک ایساذخیرہ فراہم کردیا جس سے انسان اپنی ہر ضرورت پوری کر سکتاہے ۔جیسے پروردگار نے انسان کے لئے زمین کے اندر کھانے پینے اور لباس کی جملہ ضروریات ،سمندروں میں پینے اور سینچائی کے لئے پانی فضا میں ہوا اور سانس کے لئے مختلف اقسام کے ذخائر فراہم کردئیے کہ انسان ان تینوں عناصر سے حسب ضرورت آب و غذایا دوسرے خام مواد حاصل کرتاہے۔اسی طرح خداوند عالم نے ان خواہشات کے ضمن میں نفس انسانی کے اندر علم ومعرفت ،یقین اور بندگی کے خزانے بھی ودیعت فرمائے ہیں۔

نفسانی خواہشات در حقیقت حیوانی وجود کا مقدمہ ہیں اوران خواہشات کا اکثر حصہ حیوانات کے اندر پایا جاتا ہے صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسکو خداوند عالم نے ''ارادہ''کے ذریعہ ان خواہشات پرغلبہ حاصل کرنے ،انہیں روکنے یامحدود رکھنے کی صلاحیت بھی عنایت فرمائی ہے اوراسی ارادہ کے ماتحت ہوجانے کے بعد یہ اڑیل اور خود سر حیوانی خصلتیں بھی بہترین روحانی اور اخلاقی فضائل و اقدار ،بصیرت ویقین، عزم واستقلال اور تقوی وپرہیزگاری جیسی حسین شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

وہ خواہشات جن سے انسان کے اندر حیوانی اور جسمانی پہلو کی تشکیل ہوتی ہے یہ جب کنٹرول اور قابو میں رکھنے والے اسباب کے ماتحت آتی ہیں تو اخلاقی اقدار میں تبدیل ہوجاتی ہیںاور وہی خواہشات اس کے ''انسانی''پہلو کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ خود سرحیوانی خواہشات تقویٰ اور پرہیزگاری کے ذریعہ کس طرح ان بلندوبالا انسانی اقدار میں تبدیل ہوتی ہیں اور تقوی و پرہیز گاری کی بنا پر نفس کے اندرکس قسم کے تغیرات اورتبدیلیاںرونماہوتے ہیں جو اس حیوانی خصلت کو علم ویقین اور صبر و بصیرت میں تبدیل کردیتے ہیں؟اسکا جواب ہمیں نہیں معلوم ہے۔

۳۶

بلکہ نہایت افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ایک تویہ کہ ہمیں یہ بات معلوم نہیں ہے۔ اور مزیدافسوس یہ کہ علم ومعرفت کا یہ وسیع باب انسان کیلئے آج تک نہ کھل سکا اور قدیم وجدیدماہرین نفسیات یہاں تک کہ اسلامیات کے ماہرین میں سے کوئی بھی آج تک اس گتھی کو سلجھا نے میں کامیاب نہیں ہوسکاہے۔

لیکن جب ہم خود اپنے نفس کے اوپر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اسکے اندربڑے پیمانہ پر رونما ہونے والے عمل اور رد عمل کے سلسلہ کا صاف اشارہ ملتاہے جیسے حیا ئ،جنسی خواہشات پر غلبہ حاصل کرنے کا ''ذریعہ''ہی نہیں ہے بلکہ حیاء ان خواہشات کو کچلنے کا ''نتیجہ''بھی ہے۔چنانچہ انسان ادب،فن اور ذوق کے غیر اخلاقی مواقع پر جس حد تک جنسی خواہشات کو کچلتارہتاہے اس کی حیامیں اتنا ہی اضافہ ہوتاجاتاہے ۔

ادب سے ہمار ی مراد ،ہرگز بدکاری نہیںہے البتہ وہ بلندپایہ ادب ،فن اور ذوق جس کی بناء انسان حیوانیت سے ممتاز ہوتاہے وہ اسی قوت برداشت اور تقوی کی بناء پر حاصل ہوتا ہے۔

اس سلسلہ میں جب ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اسکے اندر بھی ہمیں واضح طورپر اشارے ملتے ہیں جو ہمیںاپنے نفس کے بارے میں غور کرنے سے حاصل ہورہے تھے ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( واتقواﷲ ویعلمکم ﷲ ) ( ۱ )

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت ۲۸۲۔

۳۷

''یعنی تم پر ہیزگار اور متقی بن جائواور خداوند عالم تم کو دولت علم عطا فرمائے گا''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس آیت کا دوسرا جملہ( ویعلمکم ﷲ ) پہلے جملہ پر بغیرکسی رابطہ کے عطف کیا گیاہے اوران دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ علم و تقویٰ میں گہرا رابطہ ہے اور یہ دونوں جملے در حقیقت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ۔ اور ایک ترازو کے دوپلڑوںکی طرح ہیں؟

جو شخص بھی قرآن مجید کے اسلوب سے باخبر ہے وہ اسمیں کوئی شک وشبہ نہیں کرسکتا اوروہ یقینی طورپر جانتاہے کہ یہ دونوں جملے ایک ہی ترازو کے دوپلڑوںکی مانند ہیں۔ خداوند عالم نے اپنے بندوںکے لئے یہاں جس علم کاتذکرہ فرمایا ہے وہ علم تقویٰ کا ہی نتیجہ اور اثر ہے اور یہ علم اس علم سے بالکل مختلف ہے جسے ہم تعلیم کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ علم، نور ہے جو خداوند عالم اپنے جس بندے کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے۔

اس نور کی طرف سورئہ حدید کی یہ آیۂ کریمہ بھی اشارہ کر رہی ہے:

( یاأیهاالذین آمنواا تقواﷲ وآمنوابرسوله یؤتکم کفلین من رحمته ویجعل لکم نوراً تمشون به ) ( ۱ )

''ایمان والو ﷲ سے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آو تاکہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دوہرے حصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جسکی روشنی میں چل سکو''

اس نور سے مراد علم ہے لہٰذا سورئہ بقرہ اور سورئہ حدید دونوں مقامات پرعلم اور تقویٰ کے درمیان ایک جیسارابطہ پایا جاتا ہے۔

تقویٰ خواہشات کے طوفان کے سامنے بند باندھنے کا نام ہے اور خواہشات کے سامنے

____________________

(۱)سورئہ حدید آیت۲۸۔

۳۸

لگائی جانے والی یہی بندش ایک دن نور علم و بصیرت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

جناب یوسف کے واقعہ کے ذیل میں ارشاد الٰہی ہے :

( ولمابلغ أشده آتیناه حکماً وعلماً وکذٰلک نجزی المحسنین ) ( ۱ )

''اور جب یوسف اپنی جوانی کی عمر کو پہونچے تو ہم نے انہیں حکم اور علم عطا کردیا کہ ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں''

جناب موسیٰ کے قصہ میں بھی بعینہ یہی تذکرہ موجودہے :

( ولمابلغ أشده واستویٰ آتیناه حکماً وعلماً وکذٰلک نجزی المحسنین ) ( ۲ )

''اور جب موسی جوانی کی توانائیوں کو پہونچے اور تندرست ہوگئے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کردی اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے جناب موسی اور جناب یوسف کو اس خاص انعام سے کیوں نواز ا دوسرے لوگوں کو یہ نعمت کیوں نہیں ملی؟کیاخدا یوں ہی بلاسبب اپنے بعض بندوں کو ایسے اعزاز سے نوازدیتاہے اور دوسروں کو محروم رکھتاہے؟یا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سب تبدیلیاں ثابت واستوار الٰہی سنتوں کے تحت انجام پاتی ہیں۔

جو لوگ قرآنی لہجہ سے واقف ہیں انھیں اس بات میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ نہیں ہوسکتا کہ ان دونوں آیتوں میں علم وحکمت کا تعلق ''احسان ''سے قراردیا گیا ہے۔ ''( وکذٰ لک نجزی المحسنین ) ''اور ہم احسان کرنے والوں کو اسی طرح جزادیاکرتے ہیں''تو جب وہ علم وحکمت جو جناب مو سی اور جناب یوسف کو خدا کی طرف سے عطا کی گئی ہے وہ سنت الٰہی کی بناء پر احسان سے

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت ۲۲

(۲)سورہ قصص آیت ۱۴

۳۹

مربوط ہے تو اسکے معنی یہ ہوئے کہ محسنین اپنے احسان اور حسن عمل کی وجہ سے ہی رحمت الٰہی کے مستحق ہوتے ہیںاور اسی بناء پر ان کو اسکی بارگاہ سے علم وحکمت کی دولت سے نوازا جاتا ہے۔لہٰذا اس استدلال کی درمیانی کڑیوں کو چھوڑتے ہوئے ہم مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ'' درحقیقت وہ احسان،علم وحکمت میں تبدیل ہوگیا ہے۔''

اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ تقوی اور خواہشات نفس کی مخالفت،احسان کا واضح ترین مصداق ہیں۔

فی الحال ہم اس موضوع کو مزید طول نہیں دے سکتے کیونکہ اس اہم موضوع کے لئے ہمارے پاس مناسب مقدار میں علمی مواد موجودنہیں ہے۔خدا وند عالم سے یہی دعا ہے کہ کوئی ایسا صاحب علم و کمال پیدا ہوجائے جو بہترین انداز سے اس مسئلہ کی گتھیاں سلجھا دے۔ کیونکہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نفس کے اندرعمل اور رد عمل کا سلسلہ بالکل اسی طرح رونما ہوتارہتاہے جس طرح فیزکس،کیمسٹری اور زولوجی وغیرہ کے میدانوں میں دکھائی دیتاہے مثلاًحرارت حرکت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور حرکت حرارت میں بدل جاتی ہے یا بجلی کی طاقت حرکت پیدا کردیتی ہے اور اسی حرکت سے بجلی بنائی جاتی ہے بالکل اسی طرح نفس کے اندربھی عمل اور رد عمل کا سلسلہ پایا جاتاہے جسکی طرف قرآن مجید کی بعض آیتوں میں سرسری اشارہ موجود ہے ،لہٰذااسلام سے تعلق رکھنے والے علم النفس کے ماہرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نفس کے اسرار سے پردہ ہٹاکر ان کے اصول وقوانین کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

خواہشات کا تخریبی کردار

خواہشات اور طاغوت

انسانی زند گی میںبربادی کاایک مرکز انسانی ہویٰ و ہوس اور خواہشات ہیں اور دوسرا مرکز طاغوت ہے انکے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ ہویٰ وہوس نفس کے اندر رہ کر تخریبی کا رروائی کرتی ہے اور طاغوت یہی کام نفس کے باہرسے انجام دیتا ہے اس طرح یہ دونوں انسان کو فتنہ وفسا داورتباہی کی آگ میں جھونک دیتے ہیں۔بس ان کاانداز جداہوتاہے۔

شیطان ان خواہشات کے ذریعہ انسان کے اندرداخل ہوکر اس پر اپنا قبضہ جما لیتا ہے جبکہ سماج یا معاشرہ اور قوموں کے اوپر طاغوت کے ذریعہ اپنی گرفت مضبوط رکھتا ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

پانچواں وسیلہ

خدمت خلق اور احسان

خداوند عالم سے تقرب اور قرب صرف نماز روزہ حج اور زیارت ذکر اور دعا میں منحصر نہیں ہے اور نہ ہی مساجد اور معابد میں منحصر ہے بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں کو انجام دینا اور احسان اور نیکوکاری مخلوق خدا کی خدمت کرنا بھی جب اس میں قصد قربت ہو تو وہ بھی بہترین عبادت ہے کہ جس کے ذریعے سے اپنے آپ کو بنانا اور نفس کی تکمیل کرنا اور نفس کی تربیت کرنا اور ذات الہی کے تقرب کا موجب ہوتا ہے_ اسلام کی نگاہ میں اللہ کا قرب اور سیر و سلوک اور تعبد کے معنی لوگوں سے کنارہ کشی اور گوشہ نشینی نہیں ہے بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے لوگوں میں رہ کر لوگوں کے ساتھ احسان اور نیکی انجام دینا اور مومنین کے ضروریات کو پورا کرنا اور انہیں خوش کرنا محروم طبقے کا دفاع مسلمانوں کے امور میں اہتمام کرنا اور ان کے مصائب کو دور کرنا اور خدا کے بندوں کی مدد کرنا یہ تمام اسلام کی نگاہ میں ایک بہت بڑی عبادتیں ہیں کہ جن کا ثواب حج اور عمرے کے کئی برابر زیادہ ہوتا ہے_ اس کے متعلق سینکٹروں احادیث پیغمبر اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں _ امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میری مخلوق میرے عیال ہیں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب انسان وہ ہے جو میری مخلوق پر مہربان ہو اور ان کے ضروریات کے بجا

۲۸۱

لانے میں زیادہ کوشش کرلے_(۵۰۲)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ '' لوگ اللہ کہ اہل و عیال ہیں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب انسان وہ ہے جو اللہ کے اہل و عیال کو فائدہ پہنچائے اور ان کے دلوں کو خوشنود کرے_(۵۰۳)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کسی مومن کا کسی دوسرے مومن کے سامنے مسکرانا ایک حسنہ اور نیکی ہوا کرتا ہے اور اس کی تکلیف اور گرفتاری کو دور کرنا بھی ایک نیکی ہے خدا کسی ایسی چیز سے عبادت نہیں گیا کہ جو اس کے نزدیک مومن کے خوش کرنے سے زیادہ محبوب ہو_(۵۰۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو کسی مومن کو خوش کرے اس نے مجھے خوش کیا ہے اور جس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خوش کیا ہوا اس نے خدا کو خوش کیا ہے اور جس نے خدا کو خوش کیا ہو اور وہ جنت میں داخل ہوگا_(۵۰۵)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک مومن کی حاجت اور ضرورت کو پورا کر دینا اللہ تعالی کے نزدیک بیس ایسے حج سے کہ جسمیں ایک لاکھ خرچ کیا ہو زیادہ محبوب ہے_(۵۰۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' مسلمان کی ضرورت اور حاجت کے پورے کرنے میں کوشش کرنا خانہ کعبہ کے ستر دفعہ طواف کرنے سے بہتر ہے_(۵۰۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کے ایسے بندے ہیں جو لوگوں کو ان کی حاجات میں پناہ گاہ بنتے ہیں یہ وہ ہیں کہ جو قیامت میں اللہ تعالی کے عذاب سے محفوظ ہونگے_(۵۰۸)

جیسے کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ احسان نیکوکاری اللہ کے بندوں کی خدمت لوگوں کے مصائب دور کرنے میں کوشش اسلام کی نگاہ میں ایک بہت بڑی عبادت شمار ہوتے ہیں کہ اگر انسان اسے قصد قربت سے بجالائے تو یہ تکمیل نفس اور اس کی تربیت اور قرب الہی کا وسیلہ بنتا ہے_ افسوس کہ اکثر لوگ صحیح اسلام کو نہ پہنچاننے

۲۸۲

کی وجہ سے اس بہت بڑی اسلامی عبادت سے غفلت برتتے ہیں اور عبادت اور قرب الہی کو فقط نماز روزہ دعا اور زیارت ذکر اور ورد میں منحصر جانتے ہیں_

۲۸۳

چھٹا وسیلہ

دعا

تکمیل روح اور قرب خدا کی بہترین عبادت اور سبب دعا ہے اسی لئے خداوند عالم نے اپنے بندوں کو دعا کرنے کی دعوت دی ہے_ قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے ''مجھ سے مانگو اور دعا کرو تا کہ میں تمہیں عنایت کروں جو لوگ میری عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلدی اور خواری کی حالت میں جہنم میں داخل ہونگے_(۵۰۹) پھر اللہ تعالی نے فرمایا ہے '' تضرع اور مخفی طور سے خدا سے مانگو یقینا خدا تجاوز اور ظلم کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا_(۵۱۰) اور فرمایا '' اے میرے بندو مجھ سے سوال کرو ان سے کہہ دو کہ میں ان کے نزدیک ہوں اگر مجھ پکاریں تو میں ان کا جواب دونگا_(۵۱۱)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' دعا عبادت کی روح اور مغز ہے_(۵۱۲)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دعا عبادت ہے_ خدا فرماتا ہے کہ لوگ میری عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں_ خدا کو پکار اور یہ نہ کہہ کہ بس کام ختم ہوچکا ہے_(۵۱۳)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھی دعا کو ترک نہ کرو کیونکہ تم ایسا عمل پیدا نہیں کرو گے جو دعا سے زیادہ تقرب کا موجب ہو یہاں تک کہ معمولی چیزوں

۲۸۴

کو کبھی خدا سے طلب کرو اور ان کے معمولی ہونے کی وجہ سے دعا کرنے کو ترک نہ کرو کیونکہ معمولی چیزوں کا مالک بھی وہی ہے جو بڑے امور کا مالک ہے_(۵۱۴)

لہذا خدا کے بندے کو دعا کرنی چاہئے کیونکہ وہ تمام وجود میں خدا کا محتاج ہے بلکہ عین احتیاج اور فقر ہے اگر ایک لحظہ بھی اللہ تعالی کا فیض قطع ہو جائے تو وہ نابود ہوجائیگا_ جو کچھ بھی بندے کو پہنچتا ہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے لہذا بندے کو اس تکوینی اور طبعی احتیاج کو زبان سے اظہار کرنا چاہئے اپنی احتیاج اور فقر اور بندگی کو عملی طور سے ثابت کرنا چاہئے اور اس کے سوا کوئی عبادت کا اور مفہوم اور معنی نہیں ہے_ انسان دعا کرنے کی حالت میں خدا کی یاد میں ہوتا ہے اور اس کے ساتھ راز اور نیاز کرتا ہے اور تضرع اور زاری جو عبادت کی رسم ہے غنی مطلق کے سامنے پیش کرتا ہے_

دنیا جہاں سے اپنے فقر اور احتیاج کو قطع کرتا ہے خیرات اور کمالات کے مرکز اور منبع کے ساتھ ارتباط برقرار کرتا ہے_ عالم احتیاج سے پرواز کرتا ہے اور اپنی باطنی آنکھ سے جمال حق کا مشاہدہ کرتا ہے_ اس کے لئے دعا اور راز و نیاز کی حالت ایک لذیذ ترین اور بہترین حالت ہوتی ہے_ خدا کے نیک بندے اور اولیاء اسے کسی قیمت پر کسی قیمت سے معاملہ نہیں کرتے صحیفہ سجادیہ اور دوسری دعاؤں کی کتابوں کی طرف رجوع کیجئے کہ کس طرح ائمہ اطہار علیہم السلام راز و نیاز کرتے تھے_ خدا سے ارتباط اور دعا کی قبولیت کی امید دعا کرنے والے کے دل کو کس طرح آرام اور دل کو گرمی دیتی ہے_ اگر انسان مصائب اور مشکلات کے حل کے لئے خدا سے پناہ نہ مانگے تو کس طرح وہ مشکلات کا تحمل کر سکتا ہے اور زندگی کو گرم و نرم رکھ سکتا ہے؟

دعا مومن کا ہتھیار ہے کہ جس کے وسیلے سے ناامید اور یاس کا مقابلہ کرتا ہے اور مشکلات کے حل کے لئے غیب کی خدا سے پناہ نہ مانگے تو کس طرح وہ مشکلات کا تحمل کر سکتا ہے اور زندگی کو گرم و نرم رکھ سکتا ہے؟

۲۸۵

دعا مومن کا ہتھیار ہے کہ جن کے وسیلے سے نا امیدی اورپاس کا مقابلہ کرتا ہے اور مشکلات کے حل کے لئے غیب طاقت سے مدد طلب کرتا ہے_ پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام ہمیشہ اس ہٹھیار سے استفادہ کیا کرتے تھے اور مومنین کو ان سے استفادہ کرنے کی سفارش کیا کرتے تھے_

امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ '' انبیاء کے ہتھیار سے فائدہ حاصل کرو_ پوچھا گیا کہ انبیاء کا ہتھیار کیا تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ دعا_(۵۱۵)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا اپنے بندوں میں اسے زیادہ دوست رکھتا ہے جو زیادہ دعا کرتا ہے میں تمہیں وصیت کرتا ہؤں کہ سحر کے وقت سے لے کر سورج نکلنے تک دعا کیا کرو کیونکہ اس وقت آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور لوگوں کا رزق تقسیم کیا جاتا ہے اور ان کی بڑی بڑی حاجتیں پوری کی جاتی ہیں_(۵۱۶)

دعا ایک عبادت ہے بلکہ عبادت کی روح ہے اور آخرت میں اس کا اجر دیا جاتا ہے اور مومن کی معراج ہے اور عالم قدس کی طرف پرواز ہے روح کو کامل اور تربیت دیتی ہے اور قرب خدا تک پہنچاتی ہے_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' مومن کا ہتھیار دعا ہے اور دعا دین کا ستون اور زمین اور آسمان کا نور ہے_(۵۱۷) امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نیک بختی اور سعدت کی چابی دعا ہے_ بہترین دعا وہ ہے _ جو پاک اور تقوی والی دل سے ہو خدا سے مناجات کرنا نجات کا سب ہوتا ہے اور اخلاص کے ذریعے نجات حاصل ہوتی ہے جب مصائب اور گرفتاری میں شدت آجائے تو خدا اسے پناہ لینی چاہئے_(۵۱۸) لہذا دعا ایک ایسی عبادت ہے کہ اگر اس کے شرائط موجود ہوں اور درست واقع ہو تو نفس کے کمال تک پہنچنے اور قرب خدا کا موجب ہوتی ہے اور یہ اثر یقینی طور سے دعا پر مرتب ہوتا ہے_ اس لئے خدا کے بندے کو کسی حالت اور کسی شرائط میں اس بڑی عبادت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ کسی وقت بھی بغیر اثر کے نہیں ہوا کرتی گرچہ اس کا فوری طور سے ظاہر بظاہر اثر مرتب نہ ہو رہا ہو_ ہو سکتا ہے کہ

۲۸۶

دعا کرنے والے کی خواہش اور سوال کو موخر کر دیا جائے یا دنیا میں بالکل پوری ہی نہ کی جائے لیکن ایسا ہونا بھی بغیر مصلحت کے نہ ہوگا_ کبھی مومن کی دنیاوی خواہش کے قبول کرنے میں واقعاً مصلحت نہیں ہوتی _ خداوند عالم بندے کی مصلحتوں کو اس سے زیادہ بہتر جانتا ہے لیکن بندے کو ہمیشہ اپنے احتیاج اور فقر کے ہاتھ کو قادر مطلق کے سامنے پھیلاتے رہنا چاہئے اور اپنی حاجتوں کو پورا کیا جائیگا لیکن خدا کبھی مصلحت دیکھتا ہے کہ اپنی بندے کی حاجت کو موخر کر دے تا کہ وہ اللہ تعالی سے زیادہ راز و نیاز اور مناجات کرے اور وہ اعلی مقامات اور درجات تک جا پہنچے اور کبھی اللہ تعالی اپنے بندے کی مصلحت اس میں دیکھتا ہے کہ اس کی حاجت کو اس دنیا میں پورا نہ کیا جائے تا کہ ہمیشہ وہ خدا کی یاد میں رہے اور آخرت کے جہان میں اس کو بہتر اجر اور ثواب عنایت فرمائے_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خدا اس بندے پر اپنی رحمت نازل کرے_ جو اپنی کو خدا سے طلب کرے اور دعا کرنے میں اصرار کرے خواہ اس کی حاجتیں پوری کی جائیں یا پوری نہ کی جائیں آپ نے اس وقت یہ آیت تلاوت کیوادعوا ربی عسی الا اکون بدعا ربی شقیاً _(۵۱۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھی مومن اپنی حاجت کو خدا سے طلب کرتا ہے لیکن خدا اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میری بندے کی حاجت کے پورے کئے جانے کو موخر کر دو کیونکہ دوست رکھتا ہے کہ اپنے بندے کی آواز اور دعا کو زیادہ سنتا رہے پس قیامت میں اس سے کہے گا اے میرے بندے تو نے مجھ سے طلب کیا تھا لیکن میں نے تیرے قبول کئے جانے کو موخر کر دیا تھا اب اس کے عوض فلاں ثواب اور فلاں ثواب تجھے عطا کرتا ہوں اسی طرح فلانی دعا اور فلانی دعا_ اس وقت مومن آرزو کرے گا کہ کاش میری کوئی بھی دعا دنیا میں قبول نہ کی جاتی یہ اس لئے تمنا

۲۸۷

کرتا ہے_ جب وہ آخرت کا ثواب دیکھتا ہے_(۵۲۰) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے _ دعا کے آداب کو حفظ کر اور متوجہ رہ کہ کس کے ساتھ بات کر رہا ہے اور کس طرح اس سے سوال کر رہا ہے اور کس لئے اس سے سوال کرتا ہے_ اللہ تعالی کی عظمت اور بزرگی کو یاد کر اور اپنے دل میں جھانک اور مشاہدہ کر کہ جو کچھ تو دل میں رکھتا ہے_ خدا اسے جانتا ہے اور تیرے دل کے اسرار سے آگاہ ہے تیرے دل میں جو حق یا باطل پنہاں اور چھپا ہوا ہے اس سے مطلع ہے اپنی ہلاکت اور نجات کے راستے کو معلوم کر کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا سے ایسی چیز کو طلب کرے کہ جس میں تیری ہلاکت ہو جب کہ تو خیال کرتا ہے کہ اس میں تیری نجات ہے_

خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' کبھی انسان خیر کی جگہ اپنے شر کو چاہتا ہے انسان اپنے کاموں میں جلد باز اور جلدی کرنے والا ہے_ پس ٹھیک فکر کر کہ خدا سے کس کا سوال کر رہا ہے اور کس لئے طلب کر رہا ہے_ دعا اپنے دل کو پروردگار کے مشاہدے کے لئے پگھلانا ہے_ اور اپنے تمام اختیارات کو چھوڑنا اور تمام کاموں کو اللہ تعالی کے انتظار میں نہ رہ کیونکہ خدا تیرے راز اور سب سے زیادہ مخفی راز سے بھی آگاہ اور مطلع ہے_ شاید تو خدا سے ایسی چیز طلب کر رہا ہے جب کہ تیری نیت اس کے خلاف ہے_(۵۲۱)

۲۸۸

ساتواں وسیلہ

روزہ

تزکیہ نفس اور اس کی پاک کرنے اور خودسازی کے لئے ایک بہت بڑی عبادت کہ جس کے بہت زیادہ اثرات پائے جاتے ہیں وہ روزہ ہے_ روزے یک فضیلت میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' روزہ جہنم کی آگ سے حفاظت کرنے والی ڈھال ہے_(۵۲۲)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دونگا_(۵۲۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' روزہ رکھنے والا بہشت میں پھرتا ہے اور فائدہ حاصل کرتاہ ے اس کے لئے فرشتے افطار کرنے تک دعا کرتے ہیں_(۵۲۴)

پیغمبر علیہ السلامم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص ثواب کے لئے ایک مستحبی روزہ رکھے اس کے لئے بخشا جانا واجب ہے_ (۲۵۵ ) حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' روزہ دار کا سونا بھی عباد ہے اور اس کا چپ رہنا تسبیح ہے_ اور اس کا عمل مقبول اور اس کی دعا قبول کی جاتی ہے_(۵۲۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے نیک

۲۸۹

بندوں کے اعمال دس برابر سے سات سو برابر ثواب رکھتے ہیں سوائے روزے کہ جو میرے لئے مخصوص ہو تو اس کی جزاء میں دونگا پس روزے کا ثواب صرف خدا جانتا ہے_(۵۲۷)

امیر المومنین علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے معراج کی رات فرمایا _ ''اے میرے خالق_ پہلی عبادت کونسی ہے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ پہلی عبادت ساکت رہنا اورروزے _ پیغمبر علیہ السلام نے عرض کی اے میرے خالق روزہ کا اثر کونسا ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ روزے کا اثر دانائی ہے اور دانائی معرفت کا سبب ہوتی ہے_ اور معرفت یقین کا سبب بنتی ہے اور جب انسان یقین کے مرتبے تک پہنچتا ہے تو پھر اس کو کوئی پرواہ نہیں کہ وہ سختی میں یا آرام میں زندگی کرے_(۵۲۸)

روزہ ایک خاص عبادت ہے کہ جس میں دو پہلو نفی اور ثبات موجود ہوتے ہیں پہلا اپنے نفس کو کھانے پینے اور عزیز لذت سے جو شرعا جائز ہے روکنا اور محافظت کرنا_ اسی طرح خدا اور رسول پر جھوٹ نہ باندھنا اور بعض دوسری چیزوں کو ترک کرنا ہوتا ہے_ دوسرا_ قصد قربت اور اخلاص کو جو در حقیقت اس عبادت کے روح کے بمنزلہ ہے_ روزے کی حقیقت نفس کو روکنا اورمادی لذات سے حتمی طور سے قصد قربت سے محافظت کرنا ہوتا ہے_ کھانا پینا جنسی عمل خدا اور رسول پر جھوٹ باندھنا روزے کو باطل کردیتے ہیں فقہی کتابوں میں روزے کی یوں تعریف کی گئی ہے کہ اگر کوئی ان امور یعنی کھانے پینے جماع خدا اور رسول پر جھوٹ باندھے _ انزال منی_ حقنہ کرنا_ غسل ارتماسی _ جنابت پر باقی رہنا کو قصد قربت سے ترک کرے تو اس کی عبادت صحیح ہے اور اس کی قضاء اور کفارہ نہیں بتلایا گیا ہے بلکہ روزہ اس سے زیادہ وسیع معنی میں بیان کیا گیا ہے_ حدیث میں آیا ہے کہ روزہ صرف کھانے پینے کے ترک کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی روزہ دار وہ ہے کہ حس کے تمام اعضاء اور جوارح گناہوں کو ترک کریں یعنی آنکھ آنکھوں کے گناہوں سے اسی طرح زبان اور کان ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء اپنے اپنے گناہوں کو ترک کریں ایسا روزہ اللہ کے خاص بندوں کا ہے_

۲۹۰

اس سے بلند اور بالا ایک وہ روزہ ہے جو خاص الخاص لوگوں کا روزہ ہے اور وہ ان چیزوں کے ترک کرنے کے علاوہ اپنے دل کو ہر اس خیال اور فکر سے فارغ کردے جو خدا کی یاد سے روکے اور ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اور اسے حاضر اور ناظر جانے اور اپنے آپ کو خدا کا مہمان جانے اور اپنے آپ کو خدا کی ملاقات کے لئے آمادہ کے_ نمونے کے طور پر اس حدیث کی طرف توجہ کیجئے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں روزہ صرف کھانے اور پینے کو ترک کرنے سے حاصل نہیں ہوتا_ جب روزہ رکھے تو پھر کان اور آنکھ اور زبان اور شکم اور شرمگاہ کو بھی گناہوں سے محفوظ کرے اور ساکت رہے سوائے نیکی اور مفید کلام کے بات کرنے سے رکا رہے اور اپنی خدمت کرنے والوں اور نوکروں سے نرمی کرے جتنا ہو سکتا ہے ساکت رہے سوائے خدا کے ذکر کے اور اس طرح نہ ہو کہ روزے والا دن اس طرح کا ہو کہ جس دن روزہ نہ رکھا ہوا ہو _ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا ہے جو شخص ماہ رمضان کا روزہ ساکت ہو کر رکھے اور کان اور آنکھ اور زبان اور شرمگاہ اور دوسرے بدن کے اعضاء کو جھوٹ اور حرام اور غیبت سے اللہ کے تقرب کی نیت سے روکے رکھے تو وہ روزہ اس کے تقرب کا اس طرح سبب بنے گا کہ گویا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہم نشین ہو_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' روزہ صر ف نہ کھانے اور پینے کا نام نہیں ہے_(۵۲۹) بلکہ اس کے شرائط ہیں کہ ان کی محافظت کرنی چاہئے تا کہ روزہ کامل اور تام ہو سکے وہ ہے سکوت اور چپ رہنا_ کیا تم نے حضرت مریم علیہا السلام کی بات نہیںسنی کہ جو آپ نے لوگوں کے جواب میں کہا تھا کہ میں نے اللہ تعالی کے لئے نذر کی ہوئی ہے کہ آج کے دن کسی سے بات نہ کروں یعنی چونکہ روزے سے ہوں مجھے چپ رہتا چاہئے لہذا جب تم روزہ رکھو تو اپنی زبان کو جھوٹ بولنے سے روکو_ اور غصہ نہ کرو_ گالیاں نہ دو بری باتیں نہ کرو_ جھگڑا اور لڑائی نہ کرو_ ظلم اور ستم سے پرہیز کرو_ جہالت اور بد اخلاقی اور ایک دوسرے سے دوری سے پرہیز کرو_ اللہ تعالی کے

۲۹۱

ذکر اور نماز سے غافل نہ رہو_ سکوت اور تعقل اور صبر و صدق اور برے لوگوں سے دوری کا خیال کرو_ باطل کلام جھوٹ بہتان دشمنی سوء ظن غیبت چغل خوری سے اجتناب کرو_ اور آخرت کی طرف توجہ رکھو اور اس دن کے آنے کے انتظار میں رہو کہ جس دن خدا کا وعدہ پورا ہوگا اور اللہ تعالی کی ملاقات کا سامان مہیا کرو_ آرام اور وقار خشوع خضوغ ذلت کہ جب کوئی بندہ اپنے مولی سے ڈرتا ہے اس کی رعایت کرو_ خوف اور امید خوف اور ترس کی حالت میں رہو اور اگر اپنے دل کو عیبوں سے اور باطل کو دھوکا دینے سے اور بدن کو کثافت سے پاک اور صاف کرو_ اللہ تعالی کے علاوہ ہر ایک چیز سے بیزاری کرو_ اور اللہ کی حکومت کو روزے کے وسیلے سے اور ظاہر اور باطن کو جس سے خدا نے منع کیا ہے خالی کرنے سے قبول کر لیا اور اللہ تعالی سے خوف اور خشیت کو ظاہر اور باطن میں ادا کیا اور روزہ کے دنوں اپنے نفس کو خدا کے لئے بخش دیا اور اپنے دل کو خدا کے لئے خالی کر دیا اور اسے حکم دیا تا کہ وہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرے اگر اس طرح اور اس کیفیت سے روزہ رکھا تو پھر تو واقعا روزہ دار ہے اور اپنے وظیفہ پر عمل کیا ہے اور ان چیزوں میں جتنی کمی اکرو گے اتناہی تیرا روزہ ناقص ہوجائیگا کیونکہ روزہ رکھنا صرف نہ کھانے اور پینے سے نہیں ہوتا بلکہ خدا نے روزے کو تمام افعال اور اقوال جو روزے کو باطل کردیتے ہیں حجاب اور مانع قرار دیا ہے پس روزے رکھنے والے کتنے تھوڑے ہیں اور بھوکے رہنے والے بہت زیادہ ہیں_(۵۳۰)

اپنے آپ کو سنوار نے میں روزے کا کردار

اگر روزے کو اسی طرح رکھا جائے کہ جس طرح پیغمبر اسلام نے چاہا ہے اور اسی کیفیت اور شرائط سے بجالا جائے کہ جو شرعیت نے معین کیا ہے تو پھر روزہ ایک بہت بڑی قیمتی اور مہم عبادت ہے اور نفس کے پاک کرنے میں بہت زیادہ اثر کرتا ہے روزہ ہر حالت میں نفس کو گناہوں اور برے اخلاق سے خالی کرنے اور نفس کو کامل اور

۲۹۲

زینت دیئے جانے والے اور اللہ تعالی کے اشراقات سے استفادہ کرنے میں کامل طور سے موثر ہوتا ہے_ روزہ رکھنے والا گناہوں کے ترک کرنے کے وسیلے سے نفس امارہ پر کنٹرول کر کے اپنے قابو میں رکھتا ہے_ روزے کے دن گناہوں کے ترک کرنے سے نفس کی ریاضت اور عملی تجربے کا زمانہ ہوتا ہے_ اس زمانے میں نفس کو گناہوں اور کثافت سے پاک کرنے کے علاوہ جائز لذات کھانے پینے سے بھی چشم پوشی کرتا ہے اور اس وسیلے سے اپنے نفس کو صفا اور نورانیت بخشتا ہے کیونکہ بھوک باطن کے صفا اور خدا کی طرف توجہہ کا سبب ہوتی ہے_ انسان بھوک کی حالت میں غالباً خوش حالی کی حالت پیدا کر لیتا ہے کہ جو پیٹ بھری حالت میں اسے حاصل نہیں ہوتی_ خلاصہ روزہ تقوی حاصل کرنے میں بہت زیادہ تاثیر رکھتا ہے اسی لئے قرآن مجید میں تقوی حاصل کرنے کو روزے کے واجب قرار دینی کی غرض بتلایا گیا ہے_ قرآن میں ہے _ ''اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے روزہ تم پر واجب کیا گیا ہے جیسے کہ پہلے لوگوں پر واجب کیا گیا تا کہ تھا تم اس وسیلے سے صاحب تقوی ہو جاؤ_(۵۳۱) جو شخص ماہ رمضان میں روز رکھے اور چونکہ روزہ دار پورے مہینے میں گناہوں اور برے اخلاق سے پرہیز کرتا ہے اور اپنے نفس پر قابو پالیتا ہے تو وہ ماہ رمضان کے بعد بھی گناہوں کے ترک کرنے کی حالت کو باقی رکھے گا_

یہاں تک جو کچھ کہااور لکھا گیا ہے وہ روزے کا نفس انسانی کے پاک کرنے اور نفس کو گناہوں اور کثافتوں سے صاف کرنے کا اثر لیکن روزہ کچھ مثبت اثرات بھی رکھتا ہے جو نفس کو کمال تک پہنچنے اور باطن کے خوشمنا ہونے اور ذات الہی تک تقرب کا موجب اور سبب بنتا ہے _ جیسے_

۱_ روزہ یعنی نفس کو مخصوص مفطرات سے روکنا ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں اخلاص اور قصد قربت سے نفس کی تکمیل اور تربیت ہوتی ہے اور قرب الہی کا دوسری عبادتوں کی طرح سبب بنتی ہے_

۲_ گناہوں اور اور لذات کے ترک کرنے سے روزہ دار کا دل صاف اور پاک ہو جاتا

۲۹۳

ہے اور خدا کے سوا ہر فکر اور ذکر سے فارغ ہوجاتا ہے اس وسیلے سے اللہ تعالی کے اشراقات اور افاضات اور القاء اللہ کی استعداد اور قابلیت پیدا کر لیتا ہے اور اس حالت میں اللہ تعالی کے الطاف اور عنایات اسے شامل حال ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالی کے جذبے سے قرب الہی کو حاصل کر لیتا ہے_ اسی لئے احادیث میں وارد ہوا ہے کہ روزے دار کا سانس لینا اور سونا بھی ثواب اور عبادت ہے_

۳_ روزے کے دن عبادت اور نماز اور دعا اور قرآن پڑھنے ذکر اور خیرات اور مبرات کے بہترین دن ہوتی ہیں کیونکہ نفس حضور قلب اور اخلاص اور اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کے لئے دوسرے دلوں سے زیادہ آمادہ اور حاضر ہوتا ہے_ ماہ رمضان عبادت کی بہار اور خدا کی طرف توجہ کرنے کے لئے بہترین وقت ہوا کرتا ہے اسی لئے احادیث میں ہے کہ جب ماہ رمضان آتا تھا تو امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے فرزند سے سفارش کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ '' عبادت کرنے میں کوشش کرو کیونکہ اس مہینے میں رزق تقسیم کیا جاتا ہے_ اور اجل اور موت لکھی جاتی ہے_ اس میں وہ لوگ جو خدا کے پاس جائیں گے لکھے جاتے ہیں_ ماہ رمضان میں تک ایک رات ایسی کہ جس میں عبادت کرنا ہزار مہینے سے زیادہ افضل ہے_(۵۳۲) امیرالمومنین نے لوگوں سے فریاد کہ '' ماہ رمضان میں دعا زیادہ کیاکرو اور توبہ اور استغفار کرو کیونکہ دعا کے وسیلے سے تم سے مصیبتیں دور کی جائیں گی اور توبہ اور استغفار کے ذریعے سے تمہارے گناہ مٹ جائیں گے_(۵۳۳)

امیرالمومنین نے روایت کی ہے کہ '' رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک دن ہمارے لئے خطبہ بیان کیا اور اس میں فرمایا لوگو_ ماہ رمضان کا مہینہ برکت اور رحمت اور مغفرت کی ساتھ تمہارے طرف آیا ہے یہ مہینہ دوسرے مہینوں سے خدا کے نزدیک بہترین مہینہ ہے_ اس کے دن دونوں سے بہترین دن ہیں اور راتیں راتوں میں سے بہترین راتیں ہیں اس کی گھڑیاں گھڑیوں میں سے بہترین گھڑیاں ہیں یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں تم خدا کی طرف اس میں دعوت دیئے گئے ہو اور اللہ تعالی کی نزدیک

۲۹۴

صاحب کرامت قرار دیئے گئے ہو_ اس میں تمہارا سانس لینا تسبیح کا ثواب رکھتا ہے اور تمہارا سونا عبادت کا ثواب رکھتا ہے_ اس مہینے میں تمہارے اعمال قبول کئے جاتے ہیں اور تمہاری دعائیں قبول کی جاتی ہیں پس تم سچی نیت اور پاک دل سے خدا کو پکارو کہ اس نے تمہیں اس میں روزہ رکھتے اور قرآن پڑھنے کی توفیق عنایت فرمائی ہے کیونکہ بدبخت اور شقی ترین وہ شخص ہے جو اس بزرگ مہینے میں اللہ تعالی کے بخشنے جانے سے محروم رہے اس میں اپنی بھوک اور پیاس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو_ فقراء اور مساکین کو صدقہ دو اور بڑوں کا احترام کرو اور اپنے سے چھوٹوں پر رحم کرو_ اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو_ اپنی زبان کی حفاظت کرو اور حرام چیزوں سے اپنی آنکھوں کو بندہ کرو اور کانوں کو احرام کے سننے سے بند کرو_ یتیموں پر رحم اور مہربانی کرو_ اور اپنے گناہوں سے توبہ کرو_ اور نماز کے اوقات میں اپنے ہاتھوں کو دعا کرنے کے لئے بلند کرو کیونکہ یہ وقت بہترین وقت ہے کہ خدا لوگوں پر رحمت کی نگاہ ڈالتا ہے اور ان کی مناجات کو قبول کرتا ہے اور ان کی پکار پر لبیک کہتا ہے جب کوئی سوال کرے اسے عطا کرتا ہے اور اس کی دعا کو قبول کرتا ہے_ لوگو تمہاری جانیں تمہارے اعمال کے مقابلے میں گروہی میں پس استغفار کے ذریعے انہیں آزاد کراؤ_

تمہاری پشت گناہوں کی وجہ سے سنگین ہوچکی ہے طویل سجدوں سے اس بار سنگین کو ہلکار کرو اور جان لو کہ خدا نے اپنے عزت کی قسم کھا رکھی ہے کہ نماز پڑھنے اور سجدہ کرنے والوں کو عذاب نہ کرے اور ان کو قیامت کے دن جہنم کی آگ سے ڈرائے_

لوگو جو شخص اس مہینے میں روزہ دار کو افطاری کرائے اسے ایک بندے کے آزاد کرنے کا ثواب دیا جائیگا اور گذرے ہوئے گناہوں کو معاف کردیا جائیگا_ کہا گیا_ یا رسول اللہ_ ہم تمام افطاری دینے پر قدرت نہیں رکھتے _ آپ نے فرمایا کہ دوزخ کی آگ سے بچو خواہ ایک ٹکڑا یا پانی کا ایک گھونٹ پلانا ہی کیوں نہ ہو _ لوگو جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق کو اچھا کرے قیامت کے دل پل صراط سے عبور کرے گا_ اور خدا

۲۹۵

اسے آزاد کرے گا_ جو شخص اس مہینے میں کسی بندے کے کام کو آسان کردے خداوند عالم قیامت کی دن اس کے کام کو آسان کردے گا_ جو شخص اس مہینے میں اپنی برائی کو لوگوں سے روکے خدا قیامت کے دن اپنے غضب کو اس سے روکے گا_ جو شخص کسی یتیم کی عزت کرے خدا قیامت کے دن اسے اپنی رحمت سے متصل کرے گا جو شخص قطع رحمی کرے خدا قیامت کے دن اس سے اپنی رحمت کو قطع کردے گا_ جو شخص اس مہینے میں مستحب نمازیں پڑھے خدا اس کے لئے جہنم سے برات لکھ دے گا_ جو شخص اس مہینے میں مجھ پر زیادہ درود بھیجے خدا اس کے نامہ اعمال کے ترازو کو بھاری قرار دے گا_ جو شخص اس مہینے میں قرآن کی ایک آیت پڑھے اس کو ایک قرآن کے ختم کرنے کا جو دوسرے مہینوں میں پڑھے گا ثواب دیا جائیگا_ لوگو اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اللہ تعالی سے طلب کرو کہ وہ تم پر بند نہ کرے _ اس مہینے میں دوزخ کے دروازے بند کردیئےاتے ہیں_ خدا سے طلب کرو کہ وہ تم پر کھول نہ دیئے جائیں_ اس مہینے میں شیطانوں کو زنجیروں میں بند کر دیا جاتا ہے خدا سے طلب کرو کہ ان کو تم پر تسلط اور غلبہ نہ دیا جائے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا_ یا رسول اللہ اس مہینے میں سب سے بہترین عمل کونسا ہے؟ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابوالحسن_

اس مہینے میں محرمات سے پرہیز کرنا سب سے زیادہ افضال عمل ہے_(۵۳۴)

جیسے کہ ان حادیث سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ ماہ رمضان پر برکت اور بافضیلت مہینہ ہے یہ عبادت اور اپنے آپ کو بنانے دعا اور تہجد نفس کی تکمیل اور تربیت کا مہینہ ہے_ اس مہینے میں عبادت دوسرے مہینوں کی نسبت کئی برابر ثواب رکھتی ہے یہاں تک کہ اس مہینے میں مومن کا سانس لینا بھی عبادت ہے_ اس مہینے مین جنت کے دروازے مومنین کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں_ اللہ تعالی کے فرشتے خدا کے بندوں کو عبادت کی طرف بلاتے

۲۹۶

رہتے ہیں بالخصوص سحری اور شب قدر کہ جس میں جاگتے رہنا اور عبادت کرنا ہزار مہینے سے افضل ہے خدا نے اس مہینے میں عام دربار لگایا ہے اور تمام مومنین کو اپنی طرف مہمانی کے لئے بلایا ہے اس دعوت کا پیغام پیغمبر علیہم السلام لائے ہیں_

میزبان جواد مطلق ہے _ اللہ کے مقرب فرشتے مہمان مومنین کے خدمت گزار ہیں_ اللہ تعالی کی نعمتوں کا عام دسترخوان بچھا ہوا ہے_ مختلف قسم کی نعمتیں اور جوائز کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے_ اور نہ کسی کے دل پر خطور کیا ہے مہیا کر دی گئی ہیں_ رمضان کا مہینہ پر برکت اور با فضیلت مہینہ ہے_اللہ تعالی کی توفیق ہر طرف سے آمادہ اور مہیا ہے_ دیکھیں کہ ہماری ہمت اور لیاقت کتنی ہے اگر ہم نے غفلت کی تو قیامت کے دن پشیمان ہونگے لیکن اس دن پشیمانی کوئی قائدہ مند نہ ہوگی_ ماہ رمضان کی دعائیں مفاتیح الجنان اردو اور دوسری دعاؤں کی کتابوں میں موجود ہیں جیسے مفاتیح الجنان جدید و غیرہ_ خلوص اور توجہہ کے ساتھ اللہ تعالی کے تقرب اور سیر و سلوک کے لئے ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے_

آخر میں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ باقی تمام عبادات بھی نماز اور روزے ذکر اور دعا کی طرح اپنے آپ کو بنانے اور سنوارنے اور تکمیل اور تربیت نفس میں مفید اور موثر ہوتے ہیں چونکہ ہماری بنا اختصار پر تھی لہذا ان کو توضیح اور تشریح سے صرف نظر کیا ہے_

۲۹۷

حواشی-۱

۱_لقد منّ الله علیه المؤمنین اذ بعث فیهم رسولاً من انفسهم یتلوا علیهم آیاته و یزکیهم و یعلّمهم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین_ آل عمران/ ۱۶۴

۲_ قال رسول الله صلّی الله علیه و آله: علیکم بمکارم الاخلاق فانّ الله عزوجل بعثنی بها_ بحار/ ج ۶۹ ص ۳۷۵_

۳_ عن النبی صلی الله علیه و آله انه قال: انّما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق_ مستدک /ج ۲ ص ۲۸۲_

۴_ قال ابوعبدالله علیه السلام: انّ الله تبارک و تعالی خصّ الانبیا_ بمکارم الاخلاق، فمن کانت فیه فلیحمد الله علی ذلک، و من لم یکن فلیتضرع الی الله و لیسئله_ مستدرک/ ج ۲ ص ۲۸۳_

۵_ قال امیرالمؤمنین علیه السلام: لو کنّا لا نرجو جنة و لا نخشی ناراً و لا ثواباً و لا عقاباً لکان ینبغی لنا ان نطلب مکارم الاخلاق فانها مما تدّل علی سبیل النجاح_ مستدرک/ ج۲ ص ۲۸۳_

۶_ عن ابی جعفر علیه السلام قال: انّ اکمل المؤمنین ایماناً احسنهم خلقاً_ کافی/ ج ۲ ص ۹۹_

۷_ جاء رجل الی رسول الله علیه و آله من بین یدیه فقال: یا رسول الله ماالدین؟ فقال: حسن الخلق_ ثم اتاه من قبل یمینه فقال: یا رسول الله ما الدین؟ فقال: حسن الخلق_ ثم اتاه من قبل شماله فقال: ما الدین؟ فقال: حسن الخلق_ ثم اتاه من ورائه فقال: ما الدین؟ فالتفت الیه فقال: اما تفقه؟ هو ان لا تغضب_ محجة البیضائ/ ج ۵ ص ۸۹_

۸_الذی احسن کلّ شیء خلقه و بدا خلق الانسان من طین، ثم جعل نسله من سلالة من ماء مهین ثمّ سوّاه و نفخ فیه من روحه و جعل لکم السمع و الابصار و الافئدة قلیلاً ما تشکرون _ سجدة/ ۷_

۲۹۸

۹_فاذا سوّیته و نفخت فیه من روحی فقعوا له ساجدین _ حجر/ ۲۹_

۱۰_و لقد کرّمنا بنی آدم و حملناهم فی البر و البحر و رزقناهم من الطیبات و فضّلناهم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً _ اسرائ/ ۷۰_

۱۱_قل ان الخاسرین الذین خسروا انفسهم و اهلیهم یوم القیامة الا ذالک هو الخسران المبین _ زمر/ ۱۵_

۱۲_ قال علی علیه السلام: عجبت لمن ینشد ضالته و قد اضلّ نفسه فلا یطلبها_ غرر الحکم/ ص ۴۹۵_

۱۳_و یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی و ما اوتیتم من العلم الّا قلیلاً _ اسرائ/ ۸۵_

۱۴_ قال علی علیه السلام: ان النفس لجوهرة ثمنیة من صانها رفعها و من ابتذلها وضعها_ غرر الحکم/ ص ۲۲۶_

۱۵_ قال علی علیه السلام: من عرف نفسه لم ینهنا بالفانیات_ غرر الحکم/ ص ۶۶۹_

۱۶_ قال علی علیه السلام: من عرف شرف معناه صانه عن دنائة شهوته و زور مناه_ غرر الحکم/ ص ۷۱۰_

۱۷_ قال علی علیه السلام: من شرف نفسه کثرت عواطفه_ غرر الحکم / ص ۶۳۸_

۱۸_ قال علی علیه السلام: من شرف نفسه نزّها عن ذلّه المطالب_ غرر ا لحکم/ ص ۶۹۹_

۱۹_و امّا من خاف مقام ربّه و نهی النفس عن الهوی فانّ الجنة هی الماوی _ نازعات/ ۴۱_

۲۰_و ما ابرّء نفسی انّ النفس لا مّارة بالسوء الا ما رحم ربّی _ یوسف/ ۵۳_

۲۱_ قال النبی صلی الله علی و آله: اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک_ بحار/ ج ۷۰ ص ۶۴_

۲۲_ قال علی علیه السلام: انّ النفس لامّارة بالسوء فمن ائتمنها خانته و من استنام الیها اهلکته و من رضی عنها اوردته شرّ الموارد_ غرر الحکم/ ص ۲۲۶_

۲۳_ قال علیه بن الحسین علیه السلام فی دعاه: الهی الیک اشکو نفساً بالسوء امّارة و الی الخطئیة مبادرة و بمعاصیک مولعة و لسخطک متعرضه تسلک بی مسالک المهالک_ بحار/ ج ۹۴ ص ۱۴۳_

۲۵_فان لم یستجیبوا لک فاعلم انّما یتّبعون اهوائهم من اضلّ ممن اتّبع هواه بغیر هدی من الله انّ الله لایهدی القوم الضالمین _ قصص/ ۵۰_

۲۶_و لقد ذرانا لجهنم کثیراً من الجن و الانس لهم قلوب لا یفقهون بها و لهم اعین لایبصرون بها و لهم اذان لایسمعون بها اولئک کالانعام بل هم اضلّ اولئک هم الغافلون _ اعراف/ ۱۷۹_

۲۹۹

۲۷_افرا یت من اتخذ الهه هواه و اضلّه الله علی علم و ختم علی سمعه و قلبه و جعل علی بصره غشاوة فمن یهدیه من بعد الله افلا تذکرون _ جاثیہ/ ۲۳_

۲۸_ قال علی علیه السلام: المغبون من شغل بالدنیا و فاته حظه من الاخرة_ غرر الحکم/ ج ۱ ص ۸۸_

۲۹_ قال علی علیه السلام: اکم نفسک من کل دنيّه و ان ساقتک الی الرغائب، فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا و لا تکن عبد غیرک و قد جعلک الله حرّاً و ما خیر خیرا لا ینال الا بشّر و یسر لا ینال الّا بعسر_ نهج البلاغه صبحی صالح/ ص ۴۰۱ کتاب ۳۱_

۳۰_ قال اامیرالمؤمنین علیه السلام: لبئس المتجر ان تری الدنیا لنفسک ثمناً و ممالک عند الله عوضا_ نهج البلاغه / خطبه ۳۳_ ۷۵_

۳۱_و نفس و ما سوّیها فا لهمها فجورها و تقوی ها، قد افلح من زكّیها و قد خاب من دسی ها _ شمس/ ۷ تا ۱۰_

۳۲_ قیل لعلی بن الحسین علیه السلام: من اعظم الناس خطراً؟ قال: من لم یر الدنیا خطراً لنفسه_ تحف العقول/ ص ۲۸۵_

۳۳_ قال علی علیه السلام: من کرمت علیه نفسه هانت علیه شهواته_ نهج البلاغه/ قصار ۴۴۹_

۳۴_یعلمون ظاهراً من الحیاة الدنیا و هم عن الاخرة غافلون _ روم/ ۷_

۳۵_لقد کمنت فی غفلة من هذا فبصرک الیوم حدید _ ق/ ۲۲_

۳۶_کل نفس بما کسبت رهینة _ مدثر/ ۳۸_

۳۷_ثم توفی کل نفس ما کسبت و هم لا یظلمون _ آل عمران/ ۱۶۱_

_لا یؤاخذکم الله باللغو فی ایمانکم و لکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم و الله غفور حلیم _ بقرہ/ ۲۲۵_

۳۸_لا یکلّف الله نفساً الّا وسعها لها ما کسبت و علیه ما اکتسبت _ بقرہ/ ۲۸۶_

۳۹_یوم تجد کل نفس ما عملت من خیر محضراً و ما عملت من سوئ: تودّ لو انّ بینها و بینه امداً بعیداً _ آل عمران/ ۳۰_

۴۰_من عمل صالحاً فلنفسه و من اساء فعلیها ثم الی ربکم ترجعون _ جائیہ/ ۱۵_

۴۱_فمن یعمل مثقال ذرّه خیراً یره و من یعمل مثقال ذرّة شرّاً یره _ زلزال/ ۷_

۴۲_و ما تقدّموا لا نفسکم من خیر تجدوه عندالله _ بقرہ/ ۱۱_

۴۳_یوم لا ینفع مال و لا بنون الّا من اتی الله بقلب سلیم_ شعرائ/ ۸۵_

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346