خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس16%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119341 / ڈاؤنلوڈ: 5160
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

نفس کو دور پھینک کر خوب غور و فکر کرے تو وہ اخلاقی فضائل اور اس کی قدر و قیمت اور اس کی ضد اسی طرح اخلاقی پستیاں اور رذائل اور اس کی اضداد کو پہچان لے گا اور اس میں تمام انسان تمام زمانوں میں ایسے ہی ہوا کرتے ہیں اور اگر بعض انسان اس طرح کی مقدس سوچ سے محروم ہیں تو اس کی وجہ انکی حیوانی خواہشات اور ہوی نفس کی تاریکی نے اس کے نور عقل پر پردہ ڈال رکھا ہوتا ہے_ قرآن مجید بھی فضائل اور رذائل کی پہچان اور شناخت کو انسان کا فطری خاصہ قرار دیتا ہے جیسے فرماتا ہے کہ '' قسم نفس کی اور اس کی جس نے اسے نیک خلق کیا ہے اور انحراف اور تقوی کا اسے الہام دیا ہے جس نے اپنے نفس کی تربیت کی اسے پاک و پاکیزہ قرار دیا وہی کامیابی حاصل کرے گا اور جس نے اس کو گناہوں اور برے اخلاق سے آلودہ کیا وہ نقصان اٹھائے گا_(۳۱)

پیغمبر(ص) اسی غرض کے لئے مبعوث ہوئے ہیں تا کہ انسان کی فطرت کو بیدار کریں اور اس کے اخلاقی ناآگاہ شعور کو آگاہی میں تبدیل کریں وہ آئے ہیں تا کہ انسان کے فضائل اور کمالات کے طریقوں کو پہچاننے کی طرف متوجہ کریں اور اس پر عمل کر کے مقام قرب الہی کو پانے اور مدارج کمال کو طے کرنے کی مدد اور راہنمائی فرمائیں_ وہ آئے ہیں تا کہ انسان کو انسانیت کے بلند مقام اور انسانی اقدار کی ضرورت اور انکی حفاظت اور زندہ رکھنے اور قدر و قیمت کی طرف متوجہ کریں_ وہ آئے ہیں تا کہ انسان کو یہ نقطہ سمجھائیں کہ تو حیوان نہیں ہے بلکہ تو انسان ہے اور فرشتوں سے بالاتر ہے_ دنیاوی امور اور حیوانی تظاہر تیرے ملکوتی بلند مقام کے شایان شان نہیں تو اپنے آپ کو اس کے عوض فروخت نہ کر_

امام سجاد سے پوچھا گیا کہ سب سے معزز ترین او رشریف ترین اور با اہمیت انسان کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ '' جو انسان دنیا کو اپنے لئے اہمیت نہ دے اور اس کو اپنے لئے خطرہ قرار نہ دے_(۳۲)

اگر انسان اپنی انسان شخصیت کو پہچانے اور اپنی انسانی وجود کو قوی قرار دے اور

۲۱

فضائل اور کمالات کو اس میں زندہ کرے اور رذائل اور پستیوں پر قابو پائے تو اس وقت انسان کو یہ مجال نہ ہوگی کہ وہ انسانی اقدار کو ترک کردے اور رذائل کے پیچھے دوڑے مثلا سچائی کو چھوڑ دے اور جھوٹ کے پیچھے جائے امانت داری کو چھوڑ دے اور خیانت کی طرف جائے_ عزت نفس کو چھوڑ دے اور اپنے آپ کو ذلت وخواری میں ڈالے احسان کو چھوڑ دے اور لوگ کو آزار اور تکلیف دینے کے پیچھے دوڑے_

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جو شخص اپنے نفس کی عزت کرے اور اسے معزز قرار دے اس کی نگاہ میں خواہشات نفسانی ہیچ اور پست ہوں گی_''

پیغمبروں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ انسان کی فطرت کو بیدار کریں تا کہ وہ اپنے اس گرانقدر وجود کے جوہر کو پہچانے اور اپنا تعلق اور ربط ذات خدا سے دریافت کر لے اور تمام چیزوں کو رضا اور قرب پروردگار کے حاصل کرنے میں صرف کرے یہاں تک کہ کھانا پینا سونا جاگنا بولنا کام کرنا مرنا جینا سب کے سب پاک او راخلاقی ہوں_ جب انسان اللہ کا بندہ ہوجائے تو پھر اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے کوئی اور اس کی غرض و غایت نہ ہوگی اس کے تمام کام عبادت اور اخلاق اور ذی قدر ہونگے_قل ان صلواتی و نسکی و محیای و مماتی لله رب العالمین لا شریک له و بذلک امرت و انا اول المسلمین _

اسی لئے اپنے آپ کو پہچاننا اسلام میں ایک خاص قدر و قیمت رکھتا ہے_(۳۳)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نفس کا پہچاننا سب سے زیادہ منفعت دار فائد ہے_'' آپ نے فرمایا کہ '' جس شخص نے اپنے آپ کو پہچانا اس کا کام بلند ہوگا_''

اپنے آپ کو پہچاننے سے مراد شناختی کارڈ نہیں بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ انسان اپنے واقعی مقام کو اس دنیا میں پہچانے اور جان لے کہ وہ فقط خاکی حیوان نہیں ہے بلکہ وہ عالم ربوبی کا عکس اور پرتو ہے اللہ کا خلیفہ اور اس کا امین ہے وہ ایک ملکوتی وجود ہے کہ جو دانا اور مختار اور آزاد خلق ہوا ہے تا کہ کمال غیر متناہی کی طرف سیر و سلوک کرے اور اپنی مخصوص خلقت کی وجہ سے اپنے آپ کو بنانے اور اس کی

۲۲

پرورش کرنے کا پابند ہے انسان اپنی اس شناخت کیوجہ سے شرافت اور کرامت کو محسوس کرتا ہے اور اپنے مقدس اور پرارزش وجود کو پہچانتا ہے اور کمالات اور فضائل اس کے لئے پر معنی اور قیمت پیدا کرلیتے ہیں اس صورت میں وہ نا امیدی اور بے فائدہ اور بیہودہ خلق ہونے سے نجات حاصل کر لیتا ہے پھر زندگی اس کے لئے پر بہا اور مقدس اور غرض دار اور خوشنما ہوجاتی ہے_

باطنی زندگی

انسان اس دنیا میں ایک ظاہری زندگی رکھتا ہے کہ جو اس کے جسم اور تن سے مربوط ہے_ کھتا ہے ، پیتا ہے، سوتا ہے، چلتا ہے، اور کام کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ باطن میں ایک نفسانی زندگی بھی رکھتا ہے، اس حالت میں وہ دنیا میں زندگی کرتا ہے_ باطن میں وہ کمال اور سعادت اور نورانیت کی طرف بھی سیر و سلوک کرتا ہے یا تو وہ بدبختی اور شقاوت اور تاریکی کی طرف جا رہا ہوتا ہے یا وہ انسانیت کے سیدھے راستے سے بھٹکا ہوا ہوتا ہے اور تاریک وادی اور حیوانیت کے پست درجہ میں غلطاں ہوتا ہے یا وہ کمال کے مدارج طے کر کے نور اور سرور و کمال و جمال کے راستے طے کرتا ہے یا وہ عذاب اور تاریکی میں گر رہا ہوتا ہے گرچہ اکثر لوگ اس باطنی زندگی سے غافل ہیں لیکن وہ حقیقت اور واقعیت رکھتی ہے_

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ '' وہ ظاہری دنیاوی زندگی کا علم تو رکھتے ہیں لیکن اخروی زندگی جو باطنی ہے سے غافل ہیں_(۳۴)

کسی چیز کا جان لینا یا نہ جاننا واقعیت میں موثر نہیں ہوتا_ قیامت کے دن جب انسان کی آنکھ سے مادیت کے سیاہ پردے اٹھا لیئے جائیں گے تو اس وقت وہ اپنی واقعیت اور اپنے آپ کو پہچانے گا_ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ '' قیامت کے دن انسان سے کہا جائیگا کہ تو دنیا میں اس امر سے غافل تھا لیکن آج تیری آنکھیں تیز بین

۲۳

ہوچکی ہیں_(۳۵)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اخروی امراسی دنیا میں انسان کی ذات میں موجود ہیں لیکن انسان ان سے غافل ہے لیکن آخرت میں جب غفلت کے پردے ہٹا لے جائیں گے تو اس وقت ان تمام امور کا مشاہدہ کرے گا_

آیات او رآیات سے یوں مستفاد ہوتا ہے کہ انسان کا نفس اس جہان میں کئی ایک چیزوں کو بجالاتا ہے اور جن چیزوں کو وہ بجالاتا ہے وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہیں جو آخرت میں اس کی زندگی کا ماحصل اور نتیجہ آور ہوتی ہیں_

خداوند ارشاد فرماتا ہے کہ '' ہر نفس اس عمل کے مقابلے میں گروی ہے جو وہ بجا لاتا ہے_(۳۶)

ارشاد فرماتا ہے '' ہر نفس نے جو کچھ انجام دیا ہے اسے پورا کا پورا ملے گا_(۳۷)

خداوند فرماتا ہے کہ ''ہم کس کو اس کی قدرت سے زیادہ حکم نہیں دیتے_ انسان نے جو اچھائیں انجام دی ہیں وہ اسی کے لئے ہوں گی اور تمام برائیاں بھی اس کے اپنے نقصان کے لئے ہوں گی_(۳۸)

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ '' ہر نفس جو خوبیاں انجام دی ہیں وہ اس کے سامنے حاضر ہوں گی اسی طرح جو برائی انجام دی ہے وہ آرزو کرے گا کہ کاش اس کے اور برے کام کے درمیان فاصلہ ہوتا_( ۳۹)

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ '' جو شخص نیک عمل انجام دیتا ہے وہ اپنے لئے انجام دیتا ہے اور جوشخص برے کام انجام دیتا ہے وہ اس کے لئے زیان آور ہونگے پھر تم سب اللہ کی طرف لوٹ آوگے_(۴۰)

خداوند عالم فرماتا ہے ''جو شخص ذرہ برابر اچھے کام انجام دیتا ہے وہ انہیں قیامت کے دن دیکھے گا اور جو شخص ذرہ برابر برے کام انجام دیتا ہے وہ ان کو بھی دیکھے گا_''

۲۴

خداوند فرماتا ہے '' انسان کے لئے نہیں ہوگا مگر وہ جسے تلاش اور حاصل کرتا ہے اور وہ اپنی کوشش اور تلاش کو عنقریب دیکھے گا_(۴۱)

خدا فرماتا ہے '' جو اچھائی تم نے آگے اپنے لئے بھیجی ہے اسے اللہ کے پاس تم پاؤ گے_(۴۲)

خدا فرماتا ہے کہ '' جس دن مال اور اولاد تمہیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے مگر وہ جو سالم قلب کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرے_(۴۳)

پیغمبر علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا ''اے قیس تو مجبور ہے کہ اپنے لئے کوئی ساتھی بنائے جو قبر تیرے ساتھ ہوگا وہ ساتھی زندہ ہوگا اور تو اس کے ساتھ دفن ہوگا اگر تو تیرا ساتھی اچھا اور عمدہ ہوا تو وہ تیری عزت کرے گا اور اگر وہ پست اور برا ہوا تو وہ تجھے بھی پست اور ذلیل کرے گا تو قیامت میں اسی ساتھی کے ساتھ محشور ہوگا اور تجھے اس کے متعلق پوچھا جائے گا پس کوشش کر کہ تو اپنا نیک ساتھی اپنے لئے اختیار کرے کہ اگر وہ نیک اور صالح ہوا تو وہ تجھ سے انس و محبت کرے گا اور اگر ساتھی برا ہوا تو تجھے اس سے وحشت اور عذاب کے علاوہ کچھ نہ ملے گا اور وہ تیرا ساتھی تیرا عمل ہے_(۴۴)

انسان اس دنیا میں اخروی زندگی کے لئے اپنے نفس کی تربیت کرنے میں مشغول رہتا ہے اور عقائد اور افکار اور ملکات اور عادات محبت علاقمندی اور مانوس چیزوں کی طرف توجہات اوروہ کام جو روح انسانی پر اثر انداز ہوتے ہیں تدریجا ان سے ساختہ پرداختہ اور پرورش پاتا ہے انسان کس طرح بنے ان چیزوں سے مربوط ہوتا ہے_ معارف عقائد صحیح فضائل، مکارم اخلاق محبت اور خدا سے پیوند توجہہ اور اللہ سے انس خدا کی اطاعت اور اس کی رضایت کا حصول اور وہ نیک کام بجالانا کہ جس کا خدا نے حکم دیا ہے یہ انسان کی ملکوتی روح کو مدارج کمال تک پہنچاتے ہیں_ اور مقام قرب الہی تک لے جاتے ہیں_ انسان اسی جہان میں ایمان اور اعمال صالح کے سبب ایک پاکیزہ اور جدید زندگی حاصل کرتا ہے جو آخرت کے جہاں میں ظاہر اور آشکار ہوگی_

خداوند قرآن میں فرماتا ہے '' جو بھی مرد یا عورت نیک کام انجام دے جب کہ ایمان بھی رکھتا ہو تو ہم اسے پاک اور عمدہ زندگی میں زندہ کریں گے_(۴۵)

۲۵

انسان اسی دنیا میں علاوہ ان نعمتوں کے کہ جن سے اس کا جسم لذت حاصل کرتا ہے وہ اخروی نعمت سے بھی بابہرہ ہو سکتا ہے اور ان کے ذریعے روح اور نفس کی پرورش بھی کر سکتا ہے اور اپنی معنوی اور اخروی زندگی کو بھی بنا سکتا ہے کہ جس کا نتیجہ آخرت کے جہان میں ظاہر ہوگا_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''خدا اپنے بندوں سے فرماتا ہے اے میرے دوست بندے دنیا میں عبادت کی نعمت سے فائدہ حاص کرو تا کہ اسی سے آخرت کے جہان میں فائدہ حاصل کر سکو_(۴۶)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''اللہ کا دائمی ذکر کرنا روح کی عذاب ہے_(۴۷)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''اللہ کے ذکر کو فراموش نہ کرو کیونکہ وہ دل کا نور ہے_(۴۸)

انسان کے لئے بہشت اور بہشتی نعمتیں جہنم اور جہنم کے عذاب عقائد اخلاق اور اعمال کے ذریعے سے ہی اسی دنیا میں بنتے ہیں گرچہ انسان اس سے غافل ہے لیکن آخرت کے جہان میں یہ سب حقیقت واضح ہوجائیگی _ امام سجاد علیہ السلام نے ایک بحیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ '' متوجہہ رہو جو بھی اولیاء خدا سے دشمنی کرے اور خدا کے دین کے علاوہ کسی دین کو اپنائے اور ولی خدا کے حکم کو پس پشت ڈالے اور اپنی رای اور فکر پر عمل کرے وہ شعلہ ور آگ میں ہوگا کہ جو جسم کو کھا جائیگی وہ بدن کے جنہوں نے اروح کو اپنے سے خالی کیا ہوا ہے اور بدبختی نے ان پر غلبہ کیا ہوا ہے یہ وہ مردے ہیں جو آگ کی حرارت کو محسوس نہیں کرتے اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ درد اور آگ کی حرارت کومحسوس کرتے _ اے صحابان بصیرت عبرت حاصل کر اور اللہ کا شکریہ ادا کرو کہ خداوند عالم نے تمہیں ہدایت کی ہے_(۴۹)

خداوند عالم فرماتا ہے '' جو لوگ یتیموں کا مال ظلم اور ناحق سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور یہ آگ عنقریب شعلہ ور ہوگی_(۵۰)

انسان اس دینا میں آخرت کے لئے نور و بصیرت فراہم کرتا ہے اور یا ظلمت

۲۶

اور تاریکی اگر اس دنیا میں اندھا اور بے نور ہوا تو آخرت میں بھی اندھا اور بے نور محشور ہوگا خدا فرماتے ہے جو شخص اس دنیا میں اس کے دل کی آنکھ اندھی ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اور گمراہ محشور ہوگا_(۵۱)

علامہ طباطبائی رضوان اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ نجف اشرف میں ایک شخص عابد زاہدانہ زندگی بسر کرتا تھا کہ جسے شیخ عبود کہا جاتا تھا کہا جاتا ہے کہ وہ ولی خدا اور اہل سیر و سلوک تھے ہمیشہ ذکر اور عبادت میں مشغول رہتے تھے کبھی قبرستان وادی السلام جاتے اور کئی گھنٹوں تک گوشہ و کنار میں بیٹھے رہتے تھے اور فکر کیا کرتے تھے اور کبھی ٹوٹی ہوئی قبروں میں چلتے اور نئی قبر کو با دقت ملاحظہ کرتے تھے ایک دن جب قبرستان میں سے واپس لوٹ رہے تھے کہ کئی ایک آدمیوں سے ان کی ملاقات ہوگئی اور انہوں نے ان سے ان کی احوال پرسی کی اور پوچھا اے شیخ عبودی وادی السلام نے کیا خبر تھی؟ اس نے کہا کہ کوئی تازہ خبر نہ تھی _ جب انہوں نے اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عجیب چیز دیکھی ہے کہ میں نے جتنا پرانی قبروں کو دیکھا ہے ان میں سانپ بچھو اور عذاب کی علامتیں نہیں دیکھیں_ میں نے ان میں سے ایک قبر والے سے سوال کیا (روایات میں آیا ہے کہ میت قبر میں سانپ اور دوسری موذی چیزوں سے عذاب دیا جاتا ہے لیکن میں تو آپ کی قبروں میں سانپ اور عقرب کو نہیں دیکھ رہا_ قبر والے نے جواب دیا ٹھیک ہے کہ سانپ اور بچھو ہماری قبروں میں نہیں لیکن تم خود ہو کہ دنیا سے سانپ اور بچھو اپنے ساتھ لے آتے ہو اور یہاں ان سے عذاب دیئے جاتے ہو_

انسانی باطنی اور نفسانی زندگی ایک حقیقی اور واقعی زندگی ہوا کرتی ہے انسان اپنی باطنی ذات میں ایک واقعی راستہ طے کرتا ہے یا وہ سعادت اور کمال تک پہنچاتا ہے او ر یا بدبختی اور ہلاکت لے جاتا ہے وہ واقعی ایک حرکت اور سیر کر رہا ہے اور عقائد اور اخلاق اور اعمال سے انسان مدد حاصل کرتا ہے_

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو شخص بھی عزت چاہتا ہے _ تمام عزت خدا کے لئے اور اچھے کلمات اور(پاک نفوس) خدا کے لئے صعود کرتے ہیں اور عمل صالح کو خدا اوپر

۲۷

لے جاتا ہے _(۵۲) ''

نفس کا فعلی ہونا کوشش اور کام کرنے کے نتیجہ میں ہوا کرتا ہے_ عقائد اور اخلاق اور ملکات اور خصائل اور ہمارے اعمال سے وہ بنتا ہے جو آخرت کے جہان میں اچھا یا برا نتیجہ جا کر ظاہر ہوتا ہے_

اپنے آپ کو کیسے بنائیں؟

علوم میں ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کی روح جسمانی الحدوث اور روحانی البقا ہے یعنی اس کی ملکوتی روح کی وہی اس کی جسمانی صورت ہے کہ بالتدریج تکامل کرتے مرتبہ نازل روح انسانی تک آئی ہے اور اس کی حرکت اور تکامل ختم نہیں ہوگا بلکہ تمام عمر تک اسی طرح جاری اور ہمیشہ رہے گا_

ابتداء میں روح انسانی ایک مجرد اور ملکوتی موجود ہے جو عالم مادہ سے برتر ہے لیکن وہ مجرد تمام اور کامل نہیں ہے بلکہ ایسا مجرد کہ جس کا مرتبہ نازل جسم اور بدن سے تعلق رکھتا ہے یہ ایک دو مرتبے رکھنے والا موجود ہے اس کا ایک مرتبہ مادی ہے اور اس کا بدن سے تعلق ہے اور مادی کاموں کو انجام دیتا ہے اسی وجہ سے اس کے لئے استکمال اور حرکت کرنا تصور کیا جاتا ہے_

اس کا دوسرا مرتبہ مجرد ہے اور مادہ سے بالاتر ہے اسی وجہ سے وہ غیر مادی کام دیتا ہے ایک طرف وہ حیوان ہے اور جسم دار اور دوسری طرف انسان ہے اور ملکوتی_

جب کہ وہ صرف ایک حقیقت ہے اور اس سے زیادہ نہیں لیکن وہ حیوانی غرائز اور صفات رکھتا ہے اور حیوانات والے کام انجام دیتا ہے اس کے باوجود وہ انسانی غرائز اور صفات انسانی بھی رکھتا ہے اور انسانی کام انجام دیتا ہے_ اس عجیب الخلقت موجود کے بارے میں خداوند فرماتا ہے_فتبارک الله احسن الخالقین _ ابتداء میں ایک موجود خلق ہوا کہ جو کامل نہیں تھا بلکہ اپنے آپ کو بالتدریج بناتا ہے اور تربیت

۲۸

اور پرورش کرتا ہے_

عقائد اور افکار ملکات اور عادات جو اعمال اور حرکات سے پیدا ہوتے ہیں وہ انسان کی ذات اور وجود کو بناتے ہیں اور تدریجا کمال تک پہنچاتے ہیں_ ملکات ایسے امور نہیں جو انسان کے وجود پر عارض ہوں بلکہ وہی انسان کے وجود اور ہویت کو بناتے ہیں_ تعجب انگیز یہ چیز ہے کہ افکار اور عقائد اور ملکات فقط انسان کے وجود میں موثر ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کے ہونے میں بھی موثر ہیں یعنی عمل صالح کی وجہ سے جو افکار اور عقائد صحیح اور مکارم اخلاق اور عادات اور ملکات وجود میں آتے ہیں وہ انسان کو تدریجا مراتب کمال تک پہنچاتے اور لے جاتے ہیں اور ایک کامل انسان کے مرتبہ اور قرب الہی تک پہنچا دیتے ہیں اسی طرح جہالت اور عقائد باطل اور رذائل اخلاق اور ملکات اور قساوتیں جو برے کاموں کے انجام دینے سے موجود ہوتی ہیں وہ انسانی روح کو ضعف اور پستی کی طرف لے جاتے ہیں اور تدریجا اسے حیوانیت کے مرتبے تک لے جاتے ہیں اونتیجتًا حیوانیت کی تاریک وادی میں ساقط کردیتے ہیں اور انسان ان ملکات اور صفات حیوانی اور جہالت کے انبار اور استحکام سے اپنی باطنی ذات میں ایک حیوان کی صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے_ جی ہاں وہ واقعا حیوان ہوجاتا ہے اور حیوانی شخصیت پیدا کرلیتا ہے وہ پھر انسان نہیں ہوتا بلکہ حیوان ہوجاتا ہے بلکہ حیوانات س بھی بدتر کیونکہ یہ وہ حیوان ہے جو انسانی طریق سے حیوان ہوا ہے گرچہ ظاہری صورت میں وہ انسانی زندگی بسر کرتا ہے لیکن اندرونی طور سے وہ حیوان ہے اور پھر اسے خود بھی نہیں جانتا_ حیوانات کی حیوانیت ان کی شکل و صورت سے مخصوص نہیں ہوا کرتی بلکہ حیوانی نفس بغیر قید اور شرط اور تمایلات اور غرائز حیوانی کو بجالانے کا نام ہے_ بھیڑنا اپنی شکل و صورت کا نام نہیں ہے بلکہ درندگی اور بغیر قید اور شرکے غریزہ درندگی کے بجالانے اور عدم تعقل کا نام ہے_ عقل کی آنکھ اور اس کے درک کو اندھا کردیا ہے_ ایسا انسان ایک واقعی بھیڑیا میں تبدیل ہوچکا ہے_ انسان ایک ایسا بھیڑیا ہے جو جنگل کے بھیڑوں سے بھی زیاہ درندہ ہے کیونکہ انسان اپنی عقل

۲۹

اور فہم کو درندگی کی صفت میں استعمال کرتا ہے_ بعض انسان ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ جنہیں جنگل کے بھیڑیئےھی ا نجام نہیں دیتے کیا وہ بھیڑیئےہیں ہیں؟ نہ بلکہ وہ واقعی بھیڑیئےیں لیکن خود نہیں سمجھتے اور دوسرے بھی اسے انسان سمجھتے ہیں قیامت کے دن جب آنکھوں سے پردے ہٹادیئے جائیں گے ان کا باطن ظاہر ہو جائیگا اور یہ بھی معلوم ہے کہ جنت بھیڑیوں کی جگہ نہیں ہے بھیڑیا کبھی اولیاء خدا اور اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ بہشت میں نہیں رہ سکتا_ ایسا بھیڑیا جو انسان کے راستے سے بھیڑیا ہوا ہے ضروری ہے کہ جہنم کے تاریک اور دردناک عذاب میںڈ الا جائے اور زندہ رہے_ انسان اس دنیا میں ایک انسان غیر متعین ہے جو اپنی شخصیت خود بناتا ہے یا وہ انسان ہوجائیگا جو اللہ کے مقرب فرشتوں سے بھی بالاتر ہوجائیگا یا باطنی صورت میں مختلف حیوانات میں تبدیل ہوجائیگا یہ ایک ایسا مطلب ہے جو علوم عالی میں بھی ثابت ہوچکا ہے اور اسے اولیاء خدا بھی کشف اورمشاہدے کا ادعا کرتے ہیں اور نیز اسے پیغمبر اکرم اورائمہ علیہم السلام نے بھی فرمایا یعنی جو حقیقی انسان کو پہچانتے ہیں انہوں نے اس کی خبردی ہے_

رسول خدا نے فرمایا ہے کہ ''لوگ قیامت کے دن ایسی شکلوں میں محشور ہونگے کہ بندر اور خنزیر کی شکلیں ان سے بہتر ہوں گی_(۵۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''مستکبر انسان چیونٹی کی شکل میں تبدیل ہوجائیگا جو محشر کے لوگوں کے پاؤں کے نیچے کچلا جائیگا یہاں تک کہ لوگوں کا حساب و کتاب ختم ہوجائے_(۵۵)

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ''قیامت کے دن وحشی حیوانات محشور ہونگے_(۵۶)

۳۰

بعض مفسرین نے اس آیت کی یوں تفسیر کی ہے کہ وحشی حیوانات سے مراد وہ انسان ہیں جو حیوانات کی شکلوں میں محشور ہونگے ورنہ حیوانات تو مکلف نہیں ہوتے کہ جنہیں محشور کیا جائے_

خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جن دن تمہاری جدائی اور علیحدگی کا دن ہوگا کہ جس وقت صور میں پھونکا جائیگا اور تم گروہ گروہ ہوجاؤگے(۵۷) _ بعض مفسرین نے اس آیت کی یوں تفسیر کی ہے کہ قیامت کے دن انسان ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے اور ہر ایک انسان اپنی باطنی صورت کے ساتھ اپنے دوسرے ہم شکلوں کے ساتھ محشور ہوگا_ اس آیت کی تفسیر میں ایک عمدہ حدیث پیغمبر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے_

معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ اس آیت یوم ینفخ فی الصور فتاتون افواجا کے متعلق میں نے رسول خدا(ص) سے سوال کیا_آپ نے فرمایا کہ اے معاذ تم نے ایک بہت اہم موضوع سے سوال کیا ہے آپ کے اس حالت میں آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا کہ میری امت کے دس دستے مختلف شکلوں میں محشور ہوں گے جو ایک دوسرے سے مختلف ہونگے_ بعض بندروں کی شکل میں دوسرے بعض خنزیر کی شکل میں محشور ہونگے_ بعض کے سرزمین کی طرف اور پاؤں اوپر کی طرف ہونگے اور حرکت کریں گے_ بعض اندھے اور سرگرداں ہونگے_ بعض گونگے اور بہرے ہوں گے کہ کچھ نہیں سمجھتے ہونگے_

بعض اپنی زبانوں کو چباتے ہوں گے اور پیپ اور گندگی اورخون ان کے منہ سے نکل رہا ہوگا کہ جس سے محشر کے لوگ تنفر کریں گے_بعض کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہونگے _ اور بعض اس حالت میں محشور ہونگے کہ آگ کے ستون سے لٹکے ہوئے ہونگے _ بعض مردار سے بدبوتر ہونگے _ بعض مس کے لباس پہنے ہوئے ہونگے جو ان کے جسم سے چپکا ہوا ہوگا_ آپ نے اس وقت فرمایا کہ جو لوگ بندروں کی شکل میں محشور ہونگے وہ وہ ہونگے جو چغلخور اور سخن چین تھے اور جو خنزیر کی شکل

۳۱

میں محشور ہونگے وہ رشوت خور اور حرام تھے اور جو الٹے لٹکے حرکت کر رہے ہونگے وہ سود خور تھے اور جو اندھے محشور ہونگے وہ ہونگے جو قضاوت اور حکومت میں ظلم و جور کرتے تھے اور جو اندھے اور بہرے محشور ہونگے وہ اپنے کردار میں خودپسند تھے اور جو اپنی زبان کو چبا رہے ہونگے وہ وہ علماء اور قاضی ہونگے کہ جن کا کردار ان کے اقوال کے مطابق نہ تھا اور جو ہاتھ پاؤں کٹے محشور ہونگے وہ ہمسایوں کوآزار اور اذیت دیتے تھے اور جو آگ کے ستوں سے لٹکے ہوئے ہونگے وہ بادشاہوں کے سامنے لوگوں کی شکایت لگاتے تھے اور جن کی بدبو مردار سے بدتر ہوگی وہ دنیا میں خواہشات اور لذت نفس کی پیروی کرتے تھے اور اللہ تعالی کا جو ان کے احوال میں حق تھا ادا نہیں کرتے تھے اور جن لوگوں نے مس کا لباس پہنا ہوا ہوگا وہ مستکبر اور فخر کیا کرتے تھے_(۵۸)

لہذا اخلاقی امور کو معمولی اور غیر مہم شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ بہت اہم امور ہیں جو انسان کی انسانی اور باطنی زندگی کو بناتے ہیں یہاں تک کہ وہ کیسا ہونا چاہئے میں اثر انداز ہوتے ہیں_ علم اخلاق نہ صرف ایسا علم ہے کہ جو کس طرح زندہ رہنے کو بتلاتا ہے بلکہ یہ وہ علم ہے جو انسان کو کیسا ہونا چاہئے بھی بتلاتا ہے_

۳۲

قرآن میں قلب

قلب کی لفظ قرآن اور احادیث میں بہت زیادہ استعمال ہوئی ہے اور اسے ایک خاص اہمیت قرار دی گئی ہے_ لیکن یہ خیال نہ کیا جائے کہ قلب سے مراد وہ دل ہے جو انسان کے دائیں جانب واقع ہوا ہے اور اپنی حرکت سے خون کو انسان کے تمام بدن میں پہچاتا ہے اور حیوانی زندگی کو باقی رکھتا ہے یہ اس لئے کہ قرآن مجید میں قلب کی لفظ کی طرف ایسی چیزیں منسوب کی گئی ہیں کہ جو اس قلب کے جس صنوبری سے مناسبت نہیں رکھتیں مثلاً

فہم اور عقل:

قرآن فرماتا ہے کہ ''کیوں زمین کی سیر نہیں کرتے تا کہ ایسا دل رکھتے ہوں کہ جس سے تعلق کریں_(۵۹)

عدم تعقل و فہم:

قرآن فرماتا ہے کہ ''ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہے اور وہ نہیں سمجھتے_''

قرآن فرماتا ہے کہ ''انکے پاس دل موجود ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے اور آنکھیں موجود ہیں

۳۳

لیکن وہ نہیں دیکھتے _(۶۰)

ایمان:

قرآن فرماتا ہے کہ ''خداوند عالم نے ان کے دلوں میں ایمان قرار دیا ہے اور اپنی خاص روح سے ان کی تائید کی ہے_ ( ۶۱)

کفر و ایمان:

قرآن فرماتا ہے_ '' جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کرتے ہیں اور تکبر بجالاتے ہیں''_

نیز فرماتا ہے_ ''کافر وہ لوگ ہیں کہ خدا نے ان کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر مہر ڈال دی ہے اور وہ غافل ہیں _(۶۲)

نفاق:

قرآن فرماتا ہے کہ '' منافق اس سے ڈرتے ہیں کہ کوئی سورہ خدا کی طرف سے نازل ہوجائے اور جو کچھ وہ دل میں چھپائے ہوئے ہیں وہ ظاہر ہوجائے(۶۳) _

ہدایت پانا:

قرآن میں ہے کہ ''جو شخص اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت کرتا ہے اور خدا تمام چیزوں سے آگاہ ہے _(۶۴)

نیز خدا فرماتا ہے کہ ''گذرے ہوئے لوگوں کے ہلاک کردینے میں اس شخص کے لئے نصیحت اور تذکرہ ہے جو دل رکھتا ہو یا حقائق کو سنتا ہو اور ان کا شاہد ہو _(۶۵)

اطمینان اور سکون:

قرآن میں ہے کہ ''متوجہ رہو کہ اللہ کے ذکر اور یاد سے دل آرام حاصل کرتے

۳۴

ہیں_(۶۶) اور نیز فرماتاہے _ خدا ہے جس نے سکون کو دل پر نازل کیا ہے تا کہ ان کا ایمان زیادہ ہو_(۶۷)

اضطراب و تحیر:

خدا قرآن میں فرماتا ہے ''فقط وہ لوگ جو اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور انکے دلوں میں شک اور تردید ہے وہ تم سے جہاد میں نہ حاضر ہونے کی اجازت لیتے ہیں اور وہ ہمیشہ شک اور تردید میں رہیں گے_( ۶۸)

مہربانی اور ترحم:

قرآن میں ہے '' ہم نے ان کے دلوں میں جو عیسی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں مہربانی اور ترحم قرار دیا ہے_(۶۹)

نیز خدا فرماتا ہے کہ ''اے پیغمبر خدا ہے جس نے اپنی مدد اور مومنین کے وسیلے سے تیری تائید کی ہے اور ان کے دلوں میں الفت قرار دی ہے _(۷۰)

سخت دل:

قرآن میں خدا فرماتا ہے '' اے پیغمبر اگر تو سخت دل اور تند خو ہوتا تو لوگ تیرے ارد گرد سے پراگندہ ہوجاتے _(۷۱)

خلاصہ دل قرآن مجید میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے او راکثر کام اس کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں جیسے ایمان، کفر، نفاق، تعقل، فہم، عدم تعقل، قبول حق، حق کا قبول نہ کرنا_ ہدایت، گمراہی خطاء عہد طہارت_ آلودگی_ رافت و محبت غلظت_ رعب غصہ شک تردید_ ترحم_ قساوت_ حسرت آرام_ تکبر، حسد، عصیان و نافرمانی، لغزش اور دوسرے اس طرح کے کام بھی دل کی طرف منسوب کئے گئے ہیں جب کہ دل جو گوشت کا بنا ہوا ہے اور بائیں جانب واقع ہے وہ ان کاموں کو بجا نہیں لاتا بلکہ یہ کام انسان کے نفس اور روح کے ہوا کرتے ہیں_ لہذا یہ کہنا ہوگا کہ قلب اور دل سے

۳۵

مراد وہ مجرد ملکوتی جوہر ہے کہ جس سے انسان کی انسانیت مربوط ہے _ قلب کا مقام قرآن میں ا تنا عالی اور بلند ہے کہ جب اللہ تعالی سے ارتباط جو وحی کے ذریعے سے انسان کو حاصل ہوتا ہے وہاں قلب کا ذکر کیا جاتا ہے_ خداوند قرآن مجید میں پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ ''روح الامین (جبرئیل) نے قرآن کو تیرے قلب پر نازل کیا ہے تا کہ تو لوگوں کو ڈرائے_ نیز خدا فرماتا ہے اے پیغمبر(ص) کہہ دے کہ جو جبرائیل (ع) کا دشمن ہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے کیونکہ جبرائیل (ع) نے تو قرآن اللہ کے اذن سے تیرے قلب پر نازل کیا ہے_( ۷۲) قلب کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ وہ وحی کے فرشتے کو دیکھتا اور اس کی گفتگو کو سنتا ہے خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ''خدا نے اپنے بندے (محمد(ص) ) پر وحی کی ہے اور جو پیغمبر (ص) کے قلب نے مشاہدہ کیا ہے اسے فرشتے نے جھوٹ نہیں بولا_(۷۳ )

قلب کی صحت و بیماری

ہماری زندگی قلب اور روح سے مربوط ہے روح بدن کو کنٹرول کرتی ہے_

جسم کے تمام اعضاء اور جوارح اس کے تابع فرمان ہیں تمام کام اور حرکات روح سے صادر ہوتے ہیں_ ہماری سعادت اور بدبختی روح سے مربوط ہے_ قرآن اور احادیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ انسان کا جسم کبھی سالم ہوتا ہے اور کبھی بیمار اور اس کی روح بھی کبھی سالم ہوتی ہے اور کبھی بیمار_ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ ''جس دن (قیامت) انسان کے لئے مال اور اولاد فائدہ مند نہ ہونگے مگر وہ انسان کہ جو سالم روح کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف لوٹے گا_(۷۴) _

نیز ارشاد فرماتا ہے کہ ''اس ہلاکت اور تباہ کاری میں تذکرہ ہے جو سالم روح رکھتا ہوگا_(۷۵) اور فرماتا ہے کہ '' بہشت کو نزدیک لائینگے جو دور نہ ہوگی یہ بہشت وہی ہے جو تمام ان بندوں کے لئے ہے جو خدا کی طرف اس حالت میں لوٹ آئے ہیں کہ جنہوں نے اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھا اور خدا نے ان کے لئے اس کا وعدہ کیا ہے

۳۶

کہ جو خدا مہربان سے ڈرتا رہا اور خشوع کرنے والی روح کے ساتھ اللہ کی طرف لوٹ آیا ہے_(۷۶)

جیسے کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ ان آیات میں روح کی سلامت کو دل کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور انسان کی اخروی سعادت کو روح سے مربوط قرار دیا ہے کہ جو سالم قلب اور خشوع کرنے والے دل کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف لوٹ آیا ہو اور دوسری جانب خداوند عالم نے بعض والوں یعنی روح کو بیمار بتلایا ہے جیسے خداوند عالم فرماتا ہے کہ ''منافقین کے دلوں میں بیماری ہے کہ خدا ان کی بیماری کو زیادہ کرتا ہے_(۷۷) نیز فرماتا ہے کہ ''وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ یہود اور نصاری کی دوستی کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ ایمان لانے کیوجہ سے مصیبت او گرفتاری موجود نہ ہوجائے(۷۸) _ ان آیات میں کفر نفاق کفار سے دوستی کو قلب کی بیماری قرار دیا گیا ہے_ اس طرح کی آیات اور سینکڑوں روایات سے جو پیغمبر (ع) اورائمہ علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں یوں مستفاد ہوتا ہے کہ انسان کی روح اور قلب بھی جسم کی طرح _ سالم اور بیمار ہوا کرتی ہے لہذا کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ دل کی بیماری کو مجازی معنی پر محمول کیا جائے_

خداوند عالم جو روح اور دل کا خالق ہے اور پیغمبر (ص) اور آئمہ علیہم السلام کہ جو انسان شناس ہیں دل او رروح کی بعض بیماریوں کی اطلاع دے رہے ہیں ہم کیوں نہ اس بیماری کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کریں_ وہ حضرات جو واقعی انسان شناس ہیں کفر نفاق حق کو قبول نہ کرنا_ تکبر کینہ پروری غصہ چغل خوری خیانت خودپسندی خوف برا چاہنا تہمت بدگوئی، غیبت، تندخوئی، ظلم، تباہ کاری، بخل، حرص، عیب جوئی، دروغ گوئی حب مقام ریاکاری حیلہ بازی، بدظنی، قساوت، ضعف نفس اور دوسری بری صفات کو انسان کی روح اور قلب کی بیماری بتلا رہے ہیں پس جو لوگ ان بیماریوں کے ساتھ اس دنیا سے جائیں گے وہ ایک سالم روح و دل خدا کے پاس نہیں جا رہے ہونگے

۳۷

تا کہ اس آیت مصداق قرار پاسکیںیوم لاینفع مال و لا بنون الا من اتی الله بقلب سلیم _

دل اور روح کی بیماریوں کو معمولی شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ جسم کی بیماریوں سے کئی گناہ خطرناک ہیں اور ان کا علاج ان سے زیادہ سخت اور مشکل ہے_ جسم کی بیماریوں میں جسم کے نظام تعادل میں گڑبڑ ہوا کرتی ہے کہ جس سے درد اور بے چینی اور بسا اوقات کسی عضو میں نقص آجاتا ہے لیکن پھر بھی وہ محدود ہوتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ آخری عمر تک باقی رہتی ہیں_ لیکن روح کی بیماری بدبختی اور عذاب اخروی کو بھی ساتھ لاتی ہے اور ایسا عذاب اسے دیا جائیگا جو دل کی گہرائیوں تک جائیگا اور اسے جلا کررکھ دے گا_ جو روح اس دنیا میں خدا سے غافل ہے اور اللہ تعالی کی نشانیوں کا مشاہدہ نہیں کرتی اور اپنی تمام عمر کو گمراہی اور کفر اور گناہ میں گذار دیتی ہے در حقیقت وہ روح اندھی اور تاریک ہے وہ اسی اندھے پن اور بے نوری سے قیامت میں مبعوث ہوگا اور اس کا انجام سوائے دردناک اور سخت زندگی کے اور کچھ نہ ہوگا_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو ہماری یاد سے روگردانی کرتے ہیں ان کی زندگی سخت ہوگی اور قیامت کے دن ا ندھے محشور ہونگے وہ قیامت کے دن کہے گا خدایا مجھے کیوں اندھا محشور کیا ہے؟ حالانکہ میں دنیا میں تو بینا تھا خداوند عالم اس کے جواب میں فرمائے گا کہ میری نشانیاں تیرے سامنے موجود تھیں لیکن تو نے انہیں بھلا دیا اسی لئے آج تمہیں فراموش کردیا گیا ہے _(۷۹)

خدا فرماتا ہے '' تم زمین میں کیوں سیر نہیں کرتے تا کہ تم ایسے دل رکھتے ہوگے کہ ان سے سمجھتے اور سننے والے کان رکھتے ہوتے یقینا کافروں کی آنکھیں اندھی نہیں بلکہ انکے دل کی آنکھیں اندھی ہیں_(۸۰)

پھر فرماتا ہے '' جو شخص اس دنیا میں اندھی آنکھ رکھتا ہوگا آخرت میں بھی وہ نابینا اور زیادہ گمراہ ہوگا_(۸۱)

۳۸

خدا فرماتا ہے کہ ''جس شخص کو خدا ہدایت کرتا ہے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جو شخص اپنے (اعمال کی وجہ) سے گمراہ ہوگا اس کے لئے کوئی دوست اور اولیاء نہ ہونگے اور قیامت کے دن جب وہ اندھے اور بہرے اور گونگے ان کو ایسے چہروں سے ہم محشور کریں گے_(۸۲)

ممکن ہے کہ اس گفتگو سے تعجب کیا جائے اور کہا جائے کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ قیامت کے دن انسان کی باطنی آنکھ آندھی ہوگی؟ کیا ہم اس آنکھ او رکان ظاہری سے کوئی اور آنکھ کان رکھتے ہیں؟ جواب میں عرض کیا جائیگا کہ ہاں جس نے انسان کو خلق فرمایا ہے اور جو اللہ کے بندے انسان شناس ہیں انہوں نے خبر دی ہے کہ انسان کی روح اور دل بھی آنکھ کان زبان رکھتی ہے گرچہ یہ آنکھ اور کان اور زبان اس کی روح سے سنخیت رکھتی ہے_ انسان ایک پیچیدہ موجود ہے کہ جو اپنی باطنی ذات میں ایک مخصوص زندگی رکھتا ہے_ انسان کی روح ایک تنہا مخصوص جہان ہے_ اس کے لئے اسی جہان میں نور بھی ہے اور صفا اور پاکیزگی بھی اس میں پلیدی اور کدورت بھی اس میں اس کے لئے بینائی اور شنوائی اور نابینائی بھی ہے لیکن اس جہاں کا نور اور ظلمت عالم دنیا کے نور اور ظلمت کا ہم سنخ نہیں ہے بلکہ اللہ اور قیامت اور نبوت اور قرآن پر ایمان روح انسانی کے لئے نور ہے_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ محمد(ص) پر ایمان لے آئے ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں انہوں نے اس نور کی جو ان کی ہمراہ ہے پیروی کی ہے یہی لوگ نجات یافتہ اور سعادتمند ہونگے_(۸۳)

خدا فرماتا ہے_ ''یقینا تمہاری طرف خداوند عالم سے ایک نور اور کتاب مبین نازل کی گئی ہے_( ۸۴) نیز خدا فرماتا ہے کہ '' کیا وہ شخص کہ جس کے دل کو خدا نے اسلام کے قبول کرلینے کے لئے کھول دیا ہے اور اس نے اللہ تعالی کی طر ف سے نور کو پالیا ہے وہ دوسروں کے برابر ہے؟ افسوس اور عذاب ہے اس کے لئے کہ جس کا دل اللہ تعالی کے ذکر سے قسی ہوگیا ہے_ ایسے لوگ ایک واضح گمراہی میں ہونگے_( ۸۵) خداوند عالم

۳۹

نے ہمیں خبردی ہے کہ قرآن ایمان، اسلام کے احکام اور قوانین تمام کے تمام نور ہیں_ انکی اطاعت اور پیروی کرنا قلب اور روح کو نورانی کردیتے ہیں یقینا یہ اسی دنیا میں روح کو نورانی کرتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ آخرت کے جہان میں جا ظاہر ہوگا_

خداوند عالم نے خبردی ہے کہ کفر نفاق گناہ حق سے روگردانی تاریکی روح کو کثیف کردیتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ آخرت کے جہان میں جا ظاہر ہوگا_ پیغمبروں کو اسی غرض کے لئے مبعوث کیا گیا ہے تا کہ وہ لوگوں کو کفر کی تاریکی سے نکالیں اور ایمان اور نور کے محیط میں وارد کریں_

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' ہم نے قرآن کو تم پر نازل کیا ہے تا کہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکالے اور نور میں وارد کرے_( ۸۶)

مومنین اسی جہان میں نور ایمان تزکیہ نفس مکارم اخلاق یاد خدا اور عمل صالح کے ذریعے اپنی روح اور دل کو نورانی کرلیتے ہیں اور باطنی آنکھ اور کان سے حقائق کا مشاہدہ کرتے ہیں اور سنتے ہیں_ اس طرح کے لوگ جب اس جہان سے جاتے ہیں تو وہ سراسر نور اور سرور اور زیبا اور خوشنما ہونگے اور آخرت کے جہان میں اسی نور سے کہ جسے دنیا میں مہیا کیا ہوگا فائدہ حاصل کریں گے_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' اس دن کو یاد کرو جب مومن مرد عورت کا نور انکے آگے اور دائیں جانب کو روشن کئے ہوگا (اور ان سے کہا جائیگا) کہ آج تمہارے لئے خوشخبری ایسی بہشت ہے کہ جس کی نہریں درختوں کے نیچے سے جاری ہیں اور تم ہمیشہ کے لئے یہاں رہوگے اور یہ ایک بہت بڑی سعادت اور خوشبختی ہے_(۸۷)

درست ہے کہ آخرت کے جہان کے نور کو اسی دنیا سے حاصل کیا جانا ہوتا ہے اسی لئے تو کافر اور منافق آخرت کے جہان میں نور نہیں رکھتے ہونگے_

قرآن میں آیا ہے کہ ''اس دن کو یاد کرو جب منافق مرد اور عورت مومنین سے کہیں گے کہ تھوڑی سے مہلت دو تا کہ ہم تمہارے نور سے استفادہ کرلیں ان سے

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346