خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس16%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119354 / ڈاؤنلوڈ: 5160
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

نفس کو دور پھینک کر خوب غور و فکر کرے تو وہ اخلاقی فضائل اور اس کی قدر و قیمت اور اس کی ضد اسی طرح اخلاقی پستیاں اور رذائل اور اس کی اضداد کو پہچان لے گا اور اس میں تمام انسان تمام زمانوں میں ایسے ہی ہوا کرتے ہیں اور اگر بعض انسان اس طرح کی مقدس سوچ سے محروم ہیں تو اس کی وجہ انکی حیوانی خواہشات اور ہوی نفس کی تاریکی نے اس کے نور عقل پر پردہ ڈال رکھا ہوتا ہے_ قرآن مجید بھی فضائل اور رذائل کی پہچان اور شناخت کو انسان کا فطری خاصہ قرار دیتا ہے جیسے فرماتا ہے کہ '' قسم نفس کی اور اس کی جس نے اسے نیک خلق کیا ہے اور انحراف اور تقوی کا اسے الہام دیا ہے جس نے اپنے نفس کی تربیت کی اسے پاک و پاکیزہ قرار دیا وہی کامیابی حاصل کرے گا اور جس نے اس کو گناہوں اور برے اخلاق سے آلودہ کیا وہ نقصان اٹھائے گا_(۳۱)

پیغمبر(ص) اسی غرض کے لئے مبعوث ہوئے ہیں تا کہ انسان کی فطرت کو بیدار کریں اور اس کے اخلاقی ناآگاہ شعور کو آگاہی میں تبدیل کریں وہ آئے ہیں تا کہ انسان کے فضائل اور کمالات کے طریقوں کو پہچاننے کی طرف متوجہ کریں اور اس پر عمل کر کے مقام قرب الہی کو پانے اور مدارج کمال کو طے کرنے کی مدد اور راہنمائی فرمائیں_ وہ آئے ہیں تا کہ انسان کو انسانیت کے بلند مقام اور انسانی اقدار کی ضرورت اور انکی حفاظت اور زندہ رکھنے اور قدر و قیمت کی طرف متوجہ کریں_ وہ آئے ہیں تا کہ انسان کو یہ نقطہ سمجھائیں کہ تو حیوان نہیں ہے بلکہ تو انسان ہے اور فرشتوں سے بالاتر ہے_ دنیاوی امور اور حیوانی تظاہر تیرے ملکوتی بلند مقام کے شایان شان نہیں تو اپنے آپ کو اس کے عوض فروخت نہ کر_

امام سجاد سے پوچھا گیا کہ سب سے معزز ترین او رشریف ترین اور با اہمیت انسان کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ '' جو انسان دنیا کو اپنے لئے اہمیت نہ دے اور اس کو اپنے لئے خطرہ قرار نہ دے_(۳۲)

اگر انسان اپنی انسان شخصیت کو پہچانے اور اپنی انسانی وجود کو قوی قرار دے اور

۲۱

فضائل اور کمالات کو اس میں زندہ کرے اور رذائل اور پستیوں پر قابو پائے تو اس وقت انسان کو یہ مجال نہ ہوگی کہ وہ انسانی اقدار کو ترک کردے اور رذائل کے پیچھے دوڑے مثلا سچائی کو چھوڑ دے اور جھوٹ کے پیچھے جائے امانت داری کو چھوڑ دے اور خیانت کی طرف جائے_ عزت نفس کو چھوڑ دے اور اپنے آپ کو ذلت وخواری میں ڈالے احسان کو چھوڑ دے اور لوگ کو آزار اور تکلیف دینے کے پیچھے دوڑے_

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جو شخص اپنے نفس کی عزت کرے اور اسے معزز قرار دے اس کی نگاہ میں خواہشات نفسانی ہیچ اور پست ہوں گی_''

پیغمبروں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ انسان کی فطرت کو بیدار کریں تا کہ وہ اپنے اس گرانقدر وجود کے جوہر کو پہچانے اور اپنا تعلق اور ربط ذات خدا سے دریافت کر لے اور تمام چیزوں کو رضا اور قرب پروردگار کے حاصل کرنے میں صرف کرے یہاں تک کہ کھانا پینا سونا جاگنا بولنا کام کرنا مرنا جینا سب کے سب پاک او راخلاقی ہوں_ جب انسان اللہ کا بندہ ہوجائے تو پھر اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے کوئی اور اس کی غرض و غایت نہ ہوگی اس کے تمام کام عبادت اور اخلاق اور ذی قدر ہونگے_قل ان صلواتی و نسکی و محیای و مماتی لله رب العالمین لا شریک له و بذلک امرت و انا اول المسلمین _

اسی لئے اپنے آپ کو پہچاننا اسلام میں ایک خاص قدر و قیمت رکھتا ہے_(۳۳)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نفس کا پہچاننا سب سے زیادہ منفعت دار فائد ہے_'' آپ نے فرمایا کہ '' جس شخص نے اپنے آپ کو پہچانا اس کا کام بلند ہوگا_''

اپنے آپ کو پہچاننے سے مراد شناختی کارڈ نہیں بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ انسان اپنے واقعی مقام کو اس دنیا میں پہچانے اور جان لے کہ وہ فقط خاکی حیوان نہیں ہے بلکہ وہ عالم ربوبی کا عکس اور پرتو ہے اللہ کا خلیفہ اور اس کا امین ہے وہ ایک ملکوتی وجود ہے کہ جو دانا اور مختار اور آزاد خلق ہوا ہے تا کہ کمال غیر متناہی کی طرف سیر و سلوک کرے اور اپنی مخصوص خلقت کی وجہ سے اپنے آپ کو بنانے اور اس کی

۲۲

پرورش کرنے کا پابند ہے انسان اپنی اس شناخت کیوجہ سے شرافت اور کرامت کو محسوس کرتا ہے اور اپنے مقدس اور پرارزش وجود کو پہچانتا ہے اور کمالات اور فضائل اس کے لئے پر معنی اور قیمت پیدا کرلیتے ہیں اس صورت میں وہ نا امیدی اور بے فائدہ اور بیہودہ خلق ہونے سے نجات حاصل کر لیتا ہے پھر زندگی اس کے لئے پر بہا اور مقدس اور غرض دار اور خوشنما ہوجاتی ہے_

باطنی زندگی

انسان اس دنیا میں ایک ظاہری زندگی رکھتا ہے کہ جو اس کے جسم اور تن سے مربوط ہے_ کھتا ہے ، پیتا ہے، سوتا ہے، چلتا ہے، اور کام کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ باطن میں ایک نفسانی زندگی بھی رکھتا ہے، اس حالت میں وہ دنیا میں زندگی کرتا ہے_ باطن میں وہ کمال اور سعادت اور نورانیت کی طرف بھی سیر و سلوک کرتا ہے یا تو وہ بدبختی اور شقاوت اور تاریکی کی طرف جا رہا ہوتا ہے یا وہ انسانیت کے سیدھے راستے سے بھٹکا ہوا ہوتا ہے اور تاریک وادی اور حیوانیت کے پست درجہ میں غلطاں ہوتا ہے یا وہ کمال کے مدارج طے کر کے نور اور سرور و کمال و جمال کے راستے طے کرتا ہے یا وہ عذاب اور تاریکی میں گر رہا ہوتا ہے گرچہ اکثر لوگ اس باطنی زندگی سے غافل ہیں لیکن وہ حقیقت اور واقعیت رکھتی ہے_

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ '' وہ ظاہری دنیاوی زندگی کا علم تو رکھتے ہیں لیکن اخروی زندگی جو باطنی ہے سے غافل ہیں_(۳۴)

کسی چیز کا جان لینا یا نہ جاننا واقعیت میں موثر نہیں ہوتا_ قیامت کے دن جب انسان کی آنکھ سے مادیت کے سیاہ پردے اٹھا لیئے جائیں گے تو اس وقت وہ اپنی واقعیت اور اپنے آپ کو پہچانے گا_ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ '' قیامت کے دن انسان سے کہا جائیگا کہ تو دنیا میں اس امر سے غافل تھا لیکن آج تیری آنکھیں تیز بین

۲۳

ہوچکی ہیں_(۳۵)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اخروی امراسی دنیا میں انسان کی ذات میں موجود ہیں لیکن انسان ان سے غافل ہے لیکن آخرت میں جب غفلت کے پردے ہٹا لے جائیں گے تو اس وقت ان تمام امور کا مشاہدہ کرے گا_

آیات او رآیات سے یوں مستفاد ہوتا ہے کہ انسان کا نفس اس جہان میں کئی ایک چیزوں کو بجالاتا ہے اور جن چیزوں کو وہ بجالاتا ہے وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہیں جو آخرت میں اس کی زندگی کا ماحصل اور نتیجہ آور ہوتی ہیں_

خداوند ارشاد فرماتا ہے کہ '' ہر نفس اس عمل کے مقابلے میں گروی ہے جو وہ بجا لاتا ہے_(۳۶)

ارشاد فرماتا ہے '' ہر نفس نے جو کچھ انجام دیا ہے اسے پورا کا پورا ملے گا_(۳۷)

خداوند فرماتا ہے کہ ''ہم کس کو اس کی قدرت سے زیادہ حکم نہیں دیتے_ انسان نے جو اچھائیں انجام دی ہیں وہ اسی کے لئے ہوں گی اور تمام برائیاں بھی اس کے اپنے نقصان کے لئے ہوں گی_(۳۸)

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ '' ہر نفس جو خوبیاں انجام دی ہیں وہ اس کے سامنے حاضر ہوں گی اسی طرح جو برائی انجام دی ہے وہ آرزو کرے گا کہ کاش اس کے اور برے کام کے درمیان فاصلہ ہوتا_( ۳۹)

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ '' جو شخص نیک عمل انجام دیتا ہے وہ اپنے لئے انجام دیتا ہے اور جوشخص برے کام انجام دیتا ہے وہ اس کے لئے زیان آور ہونگے پھر تم سب اللہ کی طرف لوٹ آوگے_(۴۰)

خداوند عالم فرماتا ہے ''جو شخص ذرہ برابر اچھے کام انجام دیتا ہے وہ انہیں قیامت کے دن دیکھے گا اور جو شخص ذرہ برابر برے کام انجام دیتا ہے وہ ان کو بھی دیکھے گا_''

۲۴

خداوند فرماتا ہے '' انسان کے لئے نہیں ہوگا مگر وہ جسے تلاش اور حاصل کرتا ہے اور وہ اپنی کوشش اور تلاش کو عنقریب دیکھے گا_(۴۱)

خدا فرماتا ہے '' جو اچھائی تم نے آگے اپنے لئے بھیجی ہے اسے اللہ کے پاس تم پاؤ گے_(۴۲)

خدا فرماتا ہے کہ '' جس دن مال اور اولاد تمہیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے مگر وہ جو سالم قلب کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرے_(۴۳)

پیغمبر علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا ''اے قیس تو مجبور ہے کہ اپنے لئے کوئی ساتھی بنائے جو قبر تیرے ساتھ ہوگا وہ ساتھی زندہ ہوگا اور تو اس کے ساتھ دفن ہوگا اگر تو تیرا ساتھی اچھا اور عمدہ ہوا تو وہ تیری عزت کرے گا اور اگر وہ پست اور برا ہوا تو وہ تجھے بھی پست اور ذلیل کرے گا تو قیامت میں اسی ساتھی کے ساتھ محشور ہوگا اور تجھے اس کے متعلق پوچھا جائے گا پس کوشش کر کہ تو اپنا نیک ساتھی اپنے لئے اختیار کرے کہ اگر وہ نیک اور صالح ہوا تو وہ تجھ سے انس و محبت کرے گا اور اگر ساتھی برا ہوا تو تجھے اس سے وحشت اور عذاب کے علاوہ کچھ نہ ملے گا اور وہ تیرا ساتھی تیرا عمل ہے_(۴۴)

انسان اس دنیا میں اخروی زندگی کے لئے اپنے نفس کی تربیت کرنے میں مشغول رہتا ہے اور عقائد اور افکار اور ملکات اور عادات محبت علاقمندی اور مانوس چیزوں کی طرف توجہات اوروہ کام جو روح انسانی پر اثر انداز ہوتے ہیں تدریجا ان سے ساختہ پرداختہ اور پرورش پاتا ہے انسان کس طرح بنے ان چیزوں سے مربوط ہوتا ہے_ معارف عقائد صحیح فضائل، مکارم اخلاق محبت اور خدا سے پیوند توجہہ اور اللہ سے انس خدا کی اطاعت اور اس کی رضایت کا حصول اور وہ نیک کام بجالانا کہ جس کا خدا نے حکم دیا ہے یہ انسان کی ملکوتی روح کو مدارج کمال تک پہنچاتے ہیں_ اور مقام قرب الہی تک لے جاتے ہیں_ انسان اسی جہان میں ایمان اور اعمال صالح کے سبب ایک پاکیزہ اور جدید زندگی حاصل کرتا ہے جو آخرت کے جہاں میں ظاہر اور آشکار ہوگی_

خداوند قرآن میں فرماتا ہے '' جو بھی مرد یا عورت نیک کام انجام دے جب کہ ایمان بھی رکھتا ہو تو ہم اسے پاک اور عمدہ زندگی میں زندہ کریں گے_(۴۵)

۲۵

انسان اسی دنیا میں علاوہ ان نعمتوں کے کہ جن سے اس کا جسم لذت حاصل کرتا ہے وہ اخروی نعمت سے بھی بابہرہ ہو سکتا ہے اور ان کے ذریعے روح اور نفس کی پرورش بھی کر سکتا ہے اور اپنی معنوی اور اخروی زندگی کو بھی بنا سکتا ہے کہ جس کا نتیجہ آخرت کے جہان میں ظاہر ہوگا_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''خدا اپنے بندوں سے فرماتا ہے اے میرے دوست بندے دنیا میں عبادت کی نعمت سے فائدہ حاص کرو تا کہ اسی سے آخرت کے جہان میں فائدہ حاصل کر سکو_(۴۶)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''اللہ کا دائمی ذکر کرنا روح کی عذاب ہے_(۴۷)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''اللہ کے ذکر کو فراموش نہ کرو کیونکہ وہ دل کا نور ہے_(۴۸)

انسان کے لئے بہشت اور بہشتی نعمتیں جہنم اور جہنم کے عذاب عقائد اخلاق اور اعمال کے ذریعے سے ہی اسی دنیا میں بنتے ہیں گرچہ انسان اس سے غافل ہے لیکن آخرت کے جہان میں یہ سب حقیقت واضح ہوجائیگی _ امام سجاد علیہ السلام نے ایک بحیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ '' متوجہہ رہو جو بھی اولیاء خدا سے دشمنی کرے اور خدا کے دین کے علاوہ کسی دین کو اپنائے اور ولی خدا کے حکم کو پس پشت ڈالے اور اپنی رای اور فکر پر عمل کرے وہ شعلہ ور آگ میں ہوگا کہ جو جسم کو کھا جائیگی وہ بدن کے جنہوں نے اروح کو اپنے سے خالی کیا ہوا ہے اور بدبختی نے ان پر غلبہ کیا ہوا ہے یہ وہ مردے ہیں جو آگ کی حرارت کو محسوس نہیں کرتے اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ درد اور آگ کی حرارت کومحسوس کرتے _ اے صحابان بصیرت عبرت حاصل کر اور اللہ کا شکریہ ادا کرو کہ خداوند عالم نے تمہیں ہدایت کی ہے_(۴۹)

خداوند عالم فرماتا ہے '' جو لوگ یتیموں کا مال ظلم اور ناحق سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور یہ آگ عنقریب شعلہ ور ہوگی_(۵۰)

انسان اس دینا میں آخرت کے لئے نور و بصیرت فراہم کرتا ہے اور یا ظلمت

۲۶

اور تاریکی اگر اس دنیا میں اندھا اور بے نور ہوا تو آخرت میں بھی اندھا اور بے نور محشور ہوگا خدا فرماتے ہے جو شخص اس دنیا میں اس کے دل کی آنکھ اندھی ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اور گمراہ محشور ہوگا_(۵۱)

علامہ طباطبائی رضوان اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ نجف اشرف میں ایک شخص عابد زاہدانہ زندگی بسر کرتا تھا کہ جسے شیخ عبود کہا جاتا تھا کہا جاتا ہے کہ وہ ولی خدا اور اہل سیر و سلوک تھے ہمیشہ ذکر اور عبادت میں مشغول رہتے تھے کبھی قبرستان وادی السلام جاتے اور کئی گھنٹوں تک گوشہ و کنار میں بیٹھے رہتے تھے اور فکر کیا کرتے تھے اور کبھی ٹوٹی ہوئی قبروں میں چلتے اور نئی قبر کو با دقت ملاحظہ کرتے تھے ایک دن جب قبرستان میں سے واپس لوٹ رہے تھے کہ کئی ایک آدمیوں سے ان کی ملاقات ہوگئی اور انہوں نے ان سے ان کی احوال پرسی کی اور پوچھا اے شیخ عبودی وادی السلام نے کیا خبر تھی؟ اس نے کہا کہ کوئی تازہ خبر نہ تھی _ جب انہوں نے اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عجیب چیز دیکھی ہے کہ میں نے جتنا پرانی قبروں کو دیکھا ہے ان میں سانپ بچھو اور عذاب کی علامتیں نہیں دیکھیں_ میں نے ان میں سے ایک قبر والے سے سوال کیا (روایات میں آیا ہے کہ میت قبر میں سانپ اور دوسری موذی چیزوں سے عذاب دیا جاتا ہے لیکن میں تو آپ کی قبروں میں سانپ اور عقرب کو نہیں دیکھ رہا_ قبر والے نے جواب دیا ٹھیک ہے کہ سانپ اور بچھو ہماری قبروں میں نہیں لیکن تم خود ہو کہ دنیا سے سانپ اور بچھو اپنے ساتھ لے آتے ہو اور یہاں ان سے عذاب دیئے جاتے ہو_

انسانی باطنی اور نفسانی زندگی ایک حقیقی اور واقعی زندگی ہوا کرتی ہے انسان اپنی باطنی ذات میں ایک واقعی راستہ طے کرتا ہے یا وہ سعادت اور کمال تک پہنچاتا ہے او ر یا بدبختی اور ہلاکت لے جاتا ہے وہ واقعی ایک حرکت اور سیر کر رہا ہے اور عقائد اور اخلاق اور اعمال سے انسان مدد حاصل کرتا ہے_

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو شخص بھی عزت چاہتا ہے _ تمام عزت خدا کے لئے اور اچھے کلمات اور(پاک نفوس) خدا کے لئے صعود کرتے ہیں اور عمل صالح کو خدا اوپر

۲۷

لے جاتا ہے _(۵۲) ''

نفس کا فعلی ہونا کوشش اور کام کرنے کے نتیجہ میں ہوا کرتا ہے_ عقائد اور اخلاق اور ملکات اور خصائل اور ہمارے اعمال سے وہ بنتا ہے جو آخرت کے جہان میں اچھا یا برا نتیجہ جا کر ظاہر ہوتا ہے_

اپنے آپ کو کیسے بنائیں؟

علوم میں ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کی روح جسمانی الحدوث اور روحانی البقا ہے یعنی اس کی ملکوتی روح کی وہی اس کی جسمانی صورت ہے کہ بالتدریج تکامل کرتے مرتبہ نازل روح انسانی تک آئی ہے اور اس کی حرکت اور تکامل ختم نہیں ہوگا بلکہ تمام عمر تک اسی طرح جاری اور ہمیشہ رہے گا_

ابتداء میں روح انسانی ایک مجرد اور ملکوتی موجود ہے جو عالم مادہ سے برتر ہے لیکن وہ مجرد تمام اور کامل نہیں ہے بلکہ ایسا مجرد کہ جس کا مرتبہ نازل جسم اور بدن سے تعلق رکھتا ہے یہ ایک دو مرتبے رکھنے والا موجود ہے اس کا ایک مرتبہ مادی ہے اور اس کا بدن سے تعلق ہے اور مادی کاموں کو انجام دیتا ہے اسی وجہ سے اس کے لئے استکمال اور حرکت کرنا تصور کیا جاتا ہے_

اس کا دوسرا مرتبہ مجرد ہے اور مادہ سے بالاتر ہے اسی وجہ سے وہ غیر مادی کام دیتا ہے ایک طرف وہ حیوان ہے اور جسم دار اور دوسری طرف انسان ہے اور ملکوتی_

جب کہ وہ صرف ایک حقیقت ہے اور اس سے زیادہ نہیں لیکن وہ حیوانی غرائز اور صفات رکھتا ہے اور حیوانات والے کام انجام دیتا ہے اس کے باوجود وہ انسانی غرائز اور صفات انسانی بھی رکھتا ہے اور انسانی کام انجام دیتا ہے_ اس عجیب الخلقت موجود کے بارے میں خداوند فرماتا ہے_فتبارک الله احسن الخالقین _ ابتداء میں ایک موجود خلق ہوا کہ جو کامل نہیں تھا بلکہ اپنے آپ کو بالتدریج بناتا ہے اور تربیت

۲۸

اور پرورش کرتا ہے_

عقائد اور افکار ملکات اور عادات جو اعمال اور حرکات سے پیدا ہوتے ہیں وہ انسان کی ذات اور وجود کو بناتے ہیں اور تدریجا کمال تک پہنچاتے ہیں_ ملکات ایسے امور نہیں جو انسان کے وجود پر عارض ہوں بلکہ وہی انسان کے وجود اور ہویت کو بناتے ہیں_ تعجب انگیز یہ چیز ہے کہ افکار اور عقائد اور ملکات فقط انسان کے وجود میں موثر ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کے ہونے میں بھی موثر ہیں یعنی عمل صالح کی وجہ سے جو افکار اور عقائد صحیح اور مکارم اخلاق اور عادات اور ملکات وجود میں آتے ہیں وہ انسان کو تدریجا مراتب کمال تک پہنچاتے اور لے جاتے ہیں اور ایک کامل انسان کے مرتبہ اور قرب الہی تک پہنچا دیتے ہیں اسی طرح جہالت اور عقائد باطل اور رذائل اخلاق اور ملکات اور قساوتیں جو برے کاموں کے انجام دینے سے موجود ہوتی ہیں وہ انسانی روح کو ضعف اور پستی کی طرف لے جاتے ہیں اور تدریجا اسے حیوانیت کے مرتبے تک لے جاتے ہیں اونتیجتًا حیوانیت کی تاریک وادی میں ساقط کردیتے ہیں اور انسان ان ملکات اور صفات حیوانی اور جہالت کے انبار اور استحکام سے اپنی باطنی ذات میں ایک حیوان کی صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے_ جی ہاں وہ واقعا حیوان ہوجاتا ہے اور حیوانی شخصیت پیدا کرلیتا ہے وہ پھر انسان نہیں ہوتا بلکہ حیوان ہوجاتا ہے بلکہ حیوانات س بھی بدتر کیونکہ یہ وہ حیوان ہے جو انسانی طریق سے حیوان ہوا ہے گرچہ ظاہری صورت میں وہ انسانی زندگی بسر کرتا ہے لیکن اندرونی طور سے وہ حیوان ہے اور پھر اسے خود بھی نہیں جانتا_ حیوانات کی حیوانیت ان کی شکل و صورت سے مخصوص نہیں ہوا کرتی بلکہ حیوانی نفس بغیر قید اور شرط اور تمایلات اور غرائز حیوانی کو بجالانے کا نام ہے_ بھیڑنا اپنی شکل و صورت کا نام نہیں ہے بلکہ درندگی اور بغیر قید اور شرکے غریزہ درندگی کے بجالانے اور عدم تعقل کا نام ہے_ عقل کی آنکھ اور اس کے درک کو اندھا کردیا ہے_ ایسا انسان ایک واقعی بھیڑیا میں تبدیل ہوچکا ہے_ انسان ایک ایسا بھیڑیا ہے جو جنگل کے بھیڑوں سے بھی زیاہ درندہ ہے کیونکہ انسان اپنی عقل

۲۹

اور فہم کو درندگی کی صفت میں استعمال کرتا ہے_ بعض انسان ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ جنہیں جنگل کے بھیڑیئےھی ا نجام نہیں دیتے کیا وہ بھیڑیئےہیں ہیں؟ نہ بلکہ وہ واقعی بھیڑیئےیں لیکن خود نہیں سمجھتے اور دوسرے بھی اسے انسان سمجھتے ہیں قیامت کے دن جب آنکھوں سے پردے ہٹادیئے جائیں گے ان کا باطن ظاہر ہو جائیگا اور یہ بھی معلوم ہے کہ جنت بھیڑیوں کی جگہ نہیں ہے بھیڑیا کبھی اولیاء خدا اور اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ بہشت میں نہیں رہ سکتا_ ایسا بھیڑیا جو انسان کے راستے سے بھیڑیا ہوا ہے ضروری ہے کہ جہنم کے تاریک اور دردناک عذاب میںڈ الا جائے اور زندہ رہے_ انسان اس دنیا میں ایک انسان غیر متعین ہے جو اپنی شخصیت خود بناتا ہے یا وہ انسان ہوجائیگا جو اللہ کے مقرب فرشتوں سے بھی بالاتر ہوجائیگا یا باطنی صورت میں مختلف حیوانات میں تبدیل ہوجائیگا یہ ایک ایسا مطلب ہے جو علوم عالی میں بھی ثابت ہوچکا ہے اور اسے اولیاء خدا بھی کشف اورمشاہدے کا ادعا کرتے ہیں اور نیز اسے پیغمبر اکرم اورائمہ علیہم السلام نے بھی فرمایا یعنی جو حقیقی انسان کو پہچانتے ہیں انہوں نے اس کی خبردی ہے_

رسول خدا نے فرمایا ہے کہ ''لوگ قیامت کے دن ایسی شکلوں میں محشور ہونگے کہ بندر اور خنزیر کی شکلیں ان سے بہتر ہوں گی_(۵۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''مستکبر انسان چیونٹی کی شکل میں تبدیل ہوجائیگا جو محشر کے لوگوں کے پاؤں کے نیچے کچلا جائیگا یہاں تک کہ لوگوں کا حساب و کتاب ختم ہوجائے_(۵۵)

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ''قیامت کے دن وحشی حیوانات محشور ہونگے_(۵۶)

۳۰

بعض مفسرین نے اس آیت کی یوں تفسیر کی ہے کہ وحشی حیوانات سے مراد وہ انسان ہیں جو حیوانات کی شکلوں میں محشور ہونگے ورنہ حیوانات تو مکلف نہیں ہوتے کہ جنہیں محشور کیا جائے_

خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جن دن تمہاری جدائی اور علیحدگی کا دن ہوگا کہ جس وقت صور میں پھونکا جائیگا اور تم گروہ گروہ ہوجاؤگے(۵۷) _ بعض مفسرین نے اس آیت کی یوں تفسیر کی ہے کہ قیامت کے دن انسان ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے اور ہر ایک انسان اپنی باطنی صورت کے ساتھ اپنے دوسرے ہم شکلوں کے ساتھ محشور ہوگا_ اس آیت کی تفسیر میں ایک عمدہ حدیث پیغمبر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے_

معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ اس آیت یوم ینفخ فی الصور فتاتون افواجا کے متعلق میں نے رسول خدا(ص) سے سوال کیا_آپ نے فرمایا کہ اے معاذ تم نے ایک بہت اہم موضوع سے سوال کیا ہے آپ کے اس حالت میں آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا کہ میری امت کے دس دستے مختلف شکلوں میں محشور ہوں گے جو ایک دوسرے سے مختلف ہونگے_ بعض بندروں کی شکل میں دوسرے بعض خنزیر کی شکل میں محشور ہونگے_ بعض کے سرزمین کی طرف اور پاؤں اوپر کی طرف ہونگے اور حرکت کریں گے_ بعض اندھے اور سرگرداں ہونگے_ بعض گونگے اور بہرے ہوں گے کہ کچھ نہیں سمجھتے ہونگے_

بعض اپنی زبانوں کو چباتے ہوں گے اور پیپ اور گندگی اورخون ان کے منہ سے نکل رہا ہوگا کہ جس سے محشر کے لوگ تنفر کریں گے_بعض کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہونگے _ اور بعض اس حالت میں محشور ہونگے کہ آگ کے ستون سے لٹکے ہوئے ہونگے _ بعض مردار سے بدبوتر ہونگے _ بعض مس کے لباس پہنے ہوئے ہونگے جو ان کے جسم سے چپکا ہوا ہوگا_ آپ نے اس وقت فرمایا کہ جو لوگ بندروں کی شکل میں محشور ہونگے وہ وہ ہونگے جو چغلخور اور سخن چین تھے اور جو خنزیر کی شکل

۳۱

میں محشور ہونگے وہ رشوت خور اور حرام تھے اور جو الٹے لٹکے حرکت کر رہے ہونگے وہ سود خور تھے اور جو اندھے محشور ہونگے وہ ہونگے جو قضاوت اور حکومت میں ظلم و جور کرتے تھے اور جو اندھے اور بہرے محشور ہونگے وہ اپنے کردار میں خودپسند تھے اور جو اپنی زبان کو چبا رہے ہونگے وہ وہ علماء اور قاضی ہونگے کہ جن کا کردار ان کے اقوال کے مطابق نہ تھا اور جو ہاتھ پاؤں کٹے محشور ہونگے وہ ہمسایوں کوآزار اور اذیت دیتے تھے اور جو آگ کے ستوں سے لٹکے ہوئے ہونگے وہ بادشاہوں کے سامنے لوگوں کی شکایت لگاتے تھے اور جن کی بدبو مردار سے بدتر ہوگی وہ دنیا میں خواہشات اور لذت نفس کی پیروی کرتے تھے اور اللہ تعالی کا جو ان کے احوال میں حق تھا ادا نہیں کرتے تھے اور جن لوگوں نے مس کا لباس پہنا ہوا ہوگا وہ مستکبر اور فخر کیا کرتے تھے_(۵۸)

لہذا اخلاقی امور کو معمولی اور غیر مہم شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ بہت اہم امور ہیں جو انسان کی انسانی اور باطنی زندگی کو بناتے ہیں یہاں تک کہ وہ کیسا ہونا چاہئے میں اثر انداز ہوتے ہیں_ علم اخلاق نہ صرف ایسا علم ہے کہ جو کس طرح زندہ رہنے کو بتلاتا ہے بلکہ یہ وہ علم ہے جو انسان کو کیسا ہونا چاہئے بھی بتلاتا ہے_

۳۲

قرآن میں قلب

قلب کی لفظ قرآن اور احادیث میں بہت زیادہ استعمال ہوئی ہے اور اسے ایک خاص اہمیت قرار دی گئی ہے_ لیکن یہ خیال نہ کیا جائے کہ قلب سے مراد وہ دل ہے جو انسان کے دائیں جانب واقع ہوا ہے اور اپنی حرکت سے خون کو انسان کے تمام بدن میں پہچاتا ہے اور حیوانی زندگی کو باقی رکھتا ہے یہ اس لئے کہ قرآن مجید میں قلب کی لفظ کی طرف ایسی چیزیں منسوب کی گئی ہیں کہ جو اس قلب کے جس صنوبری سے مناسبت نہیں رکھتیں مثلاً

فہم اور عقل:

قرآن فرماتا ہے کہ ''کیوں زمین کی سیر نہیں کرتے تا کہ ایسا دل رکھتے ہوں کہ جس سے تعلق کریں_(۵۹)

عدم تعقل و فہم:

قرآن فرماتا ہے کہ ''ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہے اور وہ نہیں سمجھتے_''

قرآن فرماتا ہے کہ ''انکے پاس دل موجود ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے اور آنکھیں موجود ہیں

۳۳

لیکن وہ نہیں دیکھتے _(۶۰)

ایمان:

قرآن فرماتا ہے کہ ''خداوند عالم نے ان کے دلوں میں ایمان قرار دیا ہے اور اپنی خاص روح سے ان کی تائید کی ہے_ ( ۶۱)

کفر و ایمان:

قرآن فرماتا ہے_ '' جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کرتے ہیں اور تکبر بجالاتے ہیں''_

نیز فرماتا ہے_ ''کافر وہ لوگ ہیں کہ خدا نے ان کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر مہر ڈال دی ہے اور وہ غافل ہیں _(۶۲)

نفاق:

قرآن فرماتا ہے کہ '' منافق اس سے ڈرتے ہیں کہ کوئی سورہ خدا کی طرف سے نازل ہوجائے اور جو کچھ وہ دل میں چھپائے ہوئے ہیں وہ ظاہر ہوجائے(۶۳) _

ہدایت پانا:

قرآن میں ہے کہ ''جو شخص اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت کرتا ہے اور خدا تمام چیزوں سے آگاہ ہے _(۶۴)

نیز خدا فرماتا ہے کہ ''گذرے ہوئے لوگوں کے ہلاک کردینے میں اس شخص کے لئے نصیحت اور تذکرہ ہے جو دل رکھتا ہو یا حقائق کو سنتا ہو اور ان کا شاہد ہو _(۶۵)

اطمینان اور سکون:

قرآن میں ہے کہ ''متوجہ رہو کہ اللہ کے ذکر اور یاد سے دل آرام حاصل کرتے

۳۴

ہیں_(۶۶) اور نیز فرماتاہے _ خدا ہے جس نے سکون کو دل پر نازل کیا ہے تا کہ ان کا ایمان زیادہ ہو_(۶۷)

اضطراب و تحیر:

خدا قرآن میں فرماتا ہے ''فقط وہ لوگ جو اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور انکے دلوں میں شک اور تردید ہے وہ تم سے جہاد میں نہ حاضر ہونے کی اجازت لیتے ہیں اور وہ ہمیشہ شک اور تردید میں رہیں گے_( ۶۸)

مہربانی اور ترحم:

قرآن میں ہے '' ہم نے ان کے دلوں میں جو عیسی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں مہربانی اور ترحم قرار دیا ہے_(۶۹)

نیز خدا فرماتا ہے کہ ''اے پیغمبر خدا ہے جس نے اپنی مدد اور مومنین کے وسیلے سے تیری تائید کی ہے اور ان کے دلوں میں الفت قرار دی ہے _(۷۰)

سخت دل:

قرآن میں خدا فرماتا ہے '' اے پیغمبر اگر تو سخت دل اور تند خو ہوتا تو لوگ تیرے ارد گرد سے پراگندہ ہوجاتے _(۷۱)

خلاصہ دل قرآن مجید میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے او راکثر کام اس کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں جیسے ایمان، کفر، نفاق، تعقل، فہم، عدم تعقل، قبول حق، حق کا قبول نہ کرنا_ ہدایت، گمراہی خطاء عہد طہارت_ آلودگی_ رافت و محبت غلظت_ رعب غصہ شک تردید_ ترحم_ قساوت_ حسرت آرام_ تکبر، حسد، عصیان و نافرمانی، لغزش اور دوسرے اس طرح کے کام بھی دل کی طرف منسوب کئے گئے ہیں جب کہ دل جو گوشت کا بنا ہوا ہے اور بائیں جانب واقع ہے وہ ان کاموں کو بجا نہیں لاتا بلکہ یہ کام انسان کے نفس اور روح کے ہوا کرتے ہیں_ لہذا یہ کہنا ہوگا کہ قلب اور دل سے

۳۵

مراد وہ مجرد ملکوتی جوہر ہے کہ جس سے انسان کی انسانیت مربوط ہے _ قلب کا مقام قرآن میں ا تنا عالی اور بلند ہے کہ جب اللہ تعالی سے ارتباط جو وحی کے ذریعے سے انسان کو حاصل ہوتا ہے وہاں قلب کا ذکر کیا جاتا ہے_ خداوند قرآن مجید میں پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ ''روح الامین (جبرئیل) نے قرآن کو تیرے قلب پر نازل کیا ہے تا کہ تو لوگوں کو ڈرائے_ نیز خدا فرماتا ہے اے پیغمبر(ص) کہہ دے کہ جو جبرائیل (ع) کا دشمن ہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے کیونکہ جبرائیل (ع) نے تو قرآن اللہ کے اذن سے تیرے قلب پر نازل کیا ہے_( ۷۲) قلب کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ وہ وحی کے فرشتے کو دیکھتا اور اس کی گفتگو کو سنتا ہے خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ''خدا نے اپنے بندے (محمد(ص) ) پر وحی کی ہے اور جو پیغمبر (ص) کے قلب نے مشاہدہ کیا ہے اسے فرشتے نے جھوٹ نہیں بولا_(۷۳ )

قلب کی صحت و بیماری

ہماری زندگی قلب اور روح سے مربوط ہے روح بدن کو کنٹرول کرتی ہے_

جسم کے تمام اعضاء اور جوارح اس کے تابع فرمان ہیں تمام کام اور حرکات روح سے صادر ہوتے ہیں_ ہماری سعادت اور بدبختی روح سے مربوط ہے_ قرآن اور احادیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ انسان کا جسم کبھی سالم ہوتا ہے اور کبھی بیمار اور اس کی روح بھی کبھی سالم ہوتی ہے اور کبھی بیمار_ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ ''جس دن (قیامت) انسان کے لئے مال اور اولاد فائدہ مند نہ ہونگے مگر وہ انسان کہ جو سالم روح کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف لوٹے گا_(۷۴) _

نیز ارشاد فرماتا ہے کہ ''اس ہلاکت اور تباہ کاری میں تذکرہ ہے جو سالم روح رکھتا ہوگا_(۷۵) اور فرماتا ہے کہ '' بہشت کو نزدیک لائینگے جو دور نہ ہوگی یہ بہشت وہی ہے جو تمام ان بندوں کے لئے ہے جو خدا کی طرف اس حالت میں لوٹ آئے ہیں کہ جنہوں نے اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھا اور خدا نے ان کے لئے اس کا وعدہ کیا ہے

۳۶

کہ جو خدا مہربان سے ڈرتا رہا اور خشوع کرنے والی روح کے ساتھ اللہ کی طرف لوٹ آیا ہے_(۷۶)

جیسے کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ ان آیات میں روح کی سلامت کو دل کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور انسان کی اخروی سعادت کو روح سے مربوط قرار دیا ہے کہ جو سالم قلب اور خشوع کرنے والے دل کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف لوٹ آیا ہو اور دوسری جانب خداوند عالم نے بعض والوں یعنی روح کو بیمار بتلایا ہے جیسے خداوند عالم فرماتا ہے کہ ''منافقین کے دلوں میں بیماری ہے کہ خدا ان کی بیماری کو زیادہ کرتا ہے_(۷۷) نیز فرماتا ہے کہ ''وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ یہود اور نصاری کی دوستی کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ ایمان لانے کیوجہ سے مصیبت او گرفتاری موجود نہ ہوجائے(۷۸) _ ان آیات میں کفر نفاق کفار سے دوستی کو قلب کی بیماری قرار دیا گیا ہے_ اس طرح کی آیات اور سینکڑوں روایات سے جو پیغمبر (ع) اورائمہ علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں یوں مستفاد ہوتا ہے کہ انسان کی روح اور قلب بھی جسم کی طرح _ سالم اور بیمار ہوا کرتی ہے لہذا کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ دل کی بیماری کو مجازی معنی پر محمول کیا جائے_

خداوند عالم جو روح اور دل کا خالق ہے اور پیغمبر (ص) اور آئمہ علیہم السلام کہ جو انسان شناس ہیں دل او رروح کی بعض بیماریوں کی اطلاع دے رہے ہیں ہم کیوں نہ اس بیماری کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کریں_ وہ حضرات جو واقعی انسان شناس ہیں کفر نفاق حق کو قبول نہ کرنا_ تکبر کینہ پروری غصہ چغل خوری خیانت خودپسندی خوف برا چاہنا تہمت بدگوئی، غیبت، تندخوئی، ظلم، تباہ کاری، بخل، حرص، عیب جوئی، دروغ گوئی حب مقام ریاکاری حیلہ بازی، بدظنی، قساوت، ضعف نفس اور دوسری بری صفات کو انسان کی روح اور قلب کی بیماری بتلا رہے ہیں پس جو لوگ ان بیماریوں کے ساتھ اس دنیا سے جائیں گے وہ ایک سالم روح و دل خدا کے پاس نہیں جا رہے ہونگے

۳۷

تا کہ اس آیت مصداق قرار پاسکیںیوم لاینفع مال و لا بنون الا من اتی الله بقلب سلیم _

دل اور روح کی بیماریوں کو معمولی شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ جسم کی بیماریوں سے کئی گناہ خطرناک ہیں اور ان کا علاج ان سے زیادہ سخت اور مشکل ہے_ جسم کی بیماریوں میں جسم کے نظام تعادل میں گڑبڑ ہوا کرتی ہے کہ جس سے درد اور بے چینی اور بسا اوقات کسی عضو میں نقص آجاتا ہے لیکن پھر بھی وہ محدود ہوتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ آخری عمر تک باقی رہتی ہیں_ لیکن روح کی بیماری بدبختی اور عذاب اخروی کو بھی ساتھ لاتی ہے اور ایسا عذاب اسے دیا جائیگا جو دل کی گہرائیوں تک جائیگا اور اسے جلا کررکھ دے گا_ جو روح اس دنیا میں خدا سے غافل ہے اور اللہ تعالی کی نشانیوں کا مشاہدہ نہیں کرتی اور اپنی تمام عمر کو گمراہی اور کفر اور گناہ میں گذار دیتی ہے در حقیقت وہ روح اندھی اور تاریک ہے وہ اسی اندھے پن اور بے نوری سے قیامت میں مبعوث ہوگا اور اس کا انجام سوائے دردناک اور سخت زندگی کے اور کچھ نہ ہوگا_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو ہماری یاد سے روگردانی کرتے ہیں ان کی زندگی سخت ہوگی اور قیامت کے دن ا ندھے محشور ہونگے وہ قیامت کے دن کہے گا خدایا مجھے کیوں اندھا محشور کیا ہے؟ حالانکہ میں دنیا میں تو بینا تھا خداوند عالم اس کے جواب میں فرمائے گا کہ میری نشانیاں تیرے سامنے موجود تھیں لیکن تو نے انہیں بھلا دیا اسی لئے آج تمہیں فراموش کردیا گیا ہے _(۷۹)

خدا فرماتا ہے '' تم زمین میں کیوں سیر نہیں کرتے تا کہ تم ایسے دل رکھتے ہوگے کہ ان سے سمجھتے اور سننے والے کان رکھتے ہوتے یقینا کافروں کی آنکھیں اندھی نہیں بلکہ انکے دل کی آنکھیں اندھی ہیں_(۸۰)

پھر فرماتا ہے '' جو شخص اس دنیا میں اندھی آنکھ رکھتا ہوگا آخرت میں بھی وہ نابینا اور زیادہ گمراہ ہوگا_(۸۱)

۳۸

خدا فرماتا ہے کہ ''جس شخص کو خدا ہدایت کرتا ہے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جو شخص اپنے (اعمال کی وجہ) سے گمراہ ہوگا اس کے لئے کوئی دوست اور اولیاء نہ ہونگے اور قیامت کے دن جب وہ اندھے اور بہرے اور گونگے ان کو ایسے چہروں سے ہم محشور کریں گے_(۸۲)

ممکن ہے کہ اس گفتگو سے تعجب کیا جائے اور کہا جائے کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ قیامت کے دن انسان کی باطنی آنکھ آندھی ہوگی؟ کیا ہم اس آنکھ او رکان ظاہری سے کوئی اور آنکھ کان رکھتے ہیں؟ جواب میں عرض کیا جائیگا کہ ہاں جس نے انسان کو خلق فرمایا ہے اور جو اللہ کے بندے انسان شناس ہیں انہوں نے خبر دی ہے کہ انسان کی روح اور دل بھی آنکھ کان زبان رکھتی ہے گرچہ یہ آنکھ اور کان اور زبان اس کی روح سے سنخیت رکھتی ہے_ انسان ایک پیچیدہ موجود ہے کہ جو اپنی باطنی ذات میں ایک مخصوص زندگی رکھتا ہے_ انسان کی روح ایک تنہا مخصوص جہان ہے_ اس کے لئے اسی جہان میں نور بھی ہے اور صفا اور پاکیزگی بھی اس میں پلیدی اور کدورت بھی اس میں اس کے لئے بینائی اور شنوائی اور نابینائی بھی ہے لیکن اس جہاں کا نور اور ظلمت عالم دنیا کے نور اور ظلمت کا ہم سنخ نہیں ہے بلکہ اللہ اور قیامت اور نبوت اور قرآن پر ایمان روح انسانی کے لئے نور ہے_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ محمد(ص) پر ایمان لے آئے ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں انہوں نے اس نور کی جو ان کی ہمراہ ہے پیروی کی ہے یہی لوگ نجات یافتہ اور سعادتمند ہونگے_(۸۳)

خدا فرماتا ہے_ ''یقینا تمہاری طرف خداوند عالم سے ایک نور اور کتاب مبین نازل کی گئی ہے_( ۸۴) نیز خدا فرماتا ہے کہ '' کیا وہ شخص کہ جس کے دل کو خدا نے اسلام کے قبول کرلینے کے لئے کھول دیا ہے اور اس نے اللہ تعالی کی طر ف سے نور کو پالیا ہے وہ دوسروں کے برابر ہے؟ افسوس اور عذاب ہے اس کے لئے کہ جس کا دل اللہ تعالی کے ذکر سے قسی ہوگیا ہے_ ایسے لوگ ایک واضح گمراہی میں ہونگے_( ۸۵) خداوند عالم

۳۹

نے ہمیں خبردی ہے کہ قرآن ایمان، اسلام کے احکام اور قوانین تمام کے تمام نور ہیں_ انکی اطاعت اور پیروی کرنا قلب اور روح کو نورانی کردیتے ہیں یقینا یہ اسی دنیا میں روح کو نورانی کرتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ آخرت کے جہان میں جا ظاہر ہوگا_

خداوند عالم نے خبردی ہے کہ کفر نفاق گناہ حق سے روگردانی تاریکی روح کو کثیف کردیتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ آخرت کے جہان میں جا ظاہر ہوگا_ پیغمبروں کو اسی غرض کے لئے مبعوث کیا گیا ہے تا کہ وہ لوگوں کو کفر کی تاریکی سے نکالیں اور ایمان اور نور کے محیط میں وارد کریں_

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' ہم نے قرآن کو تم پر نازل کیا ہے تا کہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکالے اور نور میں وارد کرے_( ۸۶)

مومنین اسی جہان میں نور ایمان تزکیہ نفس مکارم اخلاق یاد خدا اور عمل صالح کے ذریعے اپنی روح اور دل کو نورانی کرلیتے ہیں اور باطنی آنکھ اور کان سے حقائق کا مشاہدہ کرتے ہیں اور سنتے ہیں_ اس طرح کے لوگ جب اس جہان سے جاتے ہیں تو وہ سراسر نور اور سرور اور زیبا اور خوشنما ہونگے اور آخرت کے جہان میں اسی نور سے کہ جسے دنیا میں مہیا کیا ہوگا فائدہ حاصل کریں گے_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' اس دن کو یاد کرو جب مومن مرد عورت کا نور انکے آگے اور دائیں جانب کو روشن کئے ہوگا (اور ان سے کہا جائیگا) کہ آج تمہارے لئے خوشخبری ایسی بہشت ہے کہ جس کی نہریں درختوں کے نیچے سے جاری ہیں اور تم ہمیشہ کے لئے یہاں رہوگے اور یہ ایک بہت بڑی سعادت اور خوشبختی ہے_(۸۷)

درست ہے کہ آخرت کے جہان کے نور کو اسی دنیا سے حاصل کیا جانا ہوتا ہے اسی لئے تو کافر اور منافق آخرت کے جہان میں نور نہیں رکھتے ہونگے_

قرآن میں آیا ہے کہ ''اس دن کو یاد کرو جب منافق مرد اور عورت مومنین سے کہیں گے کہ تھوڑی سے مہلت دو تا کہ ہم تمہارے نور سے استفادہ کرلیں ان سے

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

۱۔ﷲ نے بندوں کوجو معین عمرعطا فرمائی ہے اس میں انسان مسلسل روزے رکھ سکتا ہے روزہ اگر چہ صرف ماہ رمضان میں ہی واجب ہے لیکن سال کے بقیہ دنوں میں مستحب ہی نہیں بلکہ''مستحب مؤکد ''ہے ۔

امام محمد باقر نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالہ سے خداوند عالم کا یہ قول نقل کیا ہے ۔

(الصوم لی وأنا اجزی به )( ۱ )

''روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اسکی جزادوں گا ''

اس طرح سال کے دوران روزہ چھوڑدینے سے انسان کتنے عظیم ثواب سے محروم ہوتا ہے ؟ اسے خدا کے علاوہ کوئی نہیںجانتا ۔اب انسان جس دن بھی روزہ نہ رکھکرﷲکی جائزاور حلال نعمتیں استعمال کرتا ہے اس کی وجہ سے وہ جنت کی کتنی نعمتوںسے محروم ہواہے ؟اسکا علم خدا کے علاوہ کسی کو نہیں ہے اگر چہ یہ طے ہے کہ جو کچھ اس نے کھایا وہ رزق حلال ہی تھا لیکن اس تھوڑے سے رزق کے باعث بہر حال آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع اسکے ہاتھ سے جاتا رہا ۔حلال لذتوں کے باعث دنیا و آخرت کے درمیان ٹکرائو کی یہ ایک مثال ہے ۔

۲۔جب انسان رات میں نیند کی لذت سے لطف اندوز ہوتا ہے تو بلا شبہ یہ زندگانی دنیا کی حلال اور بہترین لذت ہے لیکن جب انسان پوری رات سوتے ہوئے گذاردیتا ہے تو اس رات نماز شب اور تہجد کے ثواب سے محروم رہتا ہے ۔

فرض کیجئے خدا نے کسی کو ستر برس کی حیات عطا کی ہو تو اس کے لئے ستر سال تک یہ ثواب ممکن ہے لیکن جس رات بھی نماز شب قضا ہوجاتی ہے آخرت کی نعمتوں میں سے ایک حصہ کم ہوجاتاہے اگر (خدا نخواستہ )پورے ستر سال اسی طرح غفلت میں بسر ہوجائیں تو نعمات اخروی

____________________

(۱)بحارالانوار ج۹۶ص ۲۵۴ ،۲۵۵، ۲۴۹ ۔

۲۲۱

حاصل کرنے کا موقع بھی ختم ہوجائے گا اور پھر انسان افسوس کرے گا کہ ''اے کاش میں نے اپنی پوری عمر عبادت الٰہی میں بسر کی ہوتی ''

۳۔اگر خداوند عالم کسی انسان کومال عطا کرے تو اس مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے کافی مقدار میں اخروی نعمتیں حاصل کرنے کاامکان ہے انسان جس مقدار میںدنیاوی لذتوں کی خاطرمال خرچ کرتا ہے اتنی ہی مقدار میںآخرت کی نعمتوں سے محروم ہوسکتا ہے کہ اسی مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے دنیا کے بجائے آخرت کی لذتیں اور نعمتیں حاصل کرسکتا تھا لہٰذا اگر انسان اپنا پورا مال دنیاوی کاموں کے لئے خرچ کردے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس مال سے اخروی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع گنوادیا ۔چاہے اس نے یہ مال حرام لذتوں میں خرچ نہ کیا ہو ۔

اسی طرح انسان کے پاس آخرت کی لذتیں اورنعمتیں حاصل کرنے کے بے شمار مواقع ہوتے ہیں ۔مال ،دولت، عمر، شباب، صحت ،ذہانت ،سماجی حیثیت اور علم جیسی خداداد نعمتوں کے ذریعہ انسان آخرت کی طیب وطاہر نعمتیں کما سکتا ہے لیکن جیسے ہی اس سلسلہ میں کو تاہی کرتا ہے اپنا گھاٹا کر لیتا ہے خدا وندعالم نے ارشاد فرما یا ہے :

( والعصرِ٭انّ الا نسان لفی خسر ) ( ۱ )

''قسم ہے عصر کی بیشک انسان خسارہ میں ہے ''

آیۂ کر یمہ نے جس گھا ٹے کا اعلان کیا ہے وہ اس اعتبار سے ہے کہ آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے جن چیز وں کی ضرورت ہے خداوندعالم نے وہ تمام چیزیں اپنے بندوں کو (مفت ) عطا کردی ہیں اور انھیں خدا داد نعمتوں سے آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کا بھی انتظام کردیا ہے اس کے باوجود انسان کوتاہی کرتا ہے اور ان نعمتوں کو خواہشات دنیا کے لئے صرف کر کے آخرت کما نے کا

____________________

(۱)سورئہ عصر آیت۱۔۲۔

۲۲۲

موقع کھودیتا ہے تو یقیناگھاٹے میں ہے ۔

اس صور ت حال کی منظر کشی امیر المو منین حضرت علی نے بہت ہی بلیغ انداز میں فرمائی ہے آپ کا ارشاد ہے :

(واعلم أن الد نیاداربلیّة،لم یفرغ صاحبها فیها قط ساعة لاکانت فرغته علیه حسرة یوم القیامة )( ۱ )

''آگاہ ہو جا ئو یہ دنیا دار ابتلاہے اس میںا گر کوئی ایک ساعت بے کار رہتا ہے تو یہ ایک ساعت کی بے کاری روز قیامت حسرت کا باعث ہوگی''

یہاں بے کاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان ذکر خدا نہ کرے اور اسکی خوشنودی کے لئے کوئی عمل نہ بجالا ئے اور اسکے اعضاء وجوارح بھی قربت خدا کے لئے کوئی کام نہ کر رہے ہوں یا یاد خدا میں مشغول نہ ہوں ۔

اب اگر ایک گھنٹہ بھی اس طرح خالی اوربے کار رہے چاہے اس دوران کوئی گنا ہ بھی نہ کرے تواسکی بناپر قیامت کے دن اسے حسرت کا سامناکرنا ہوگا اس لئے کہ اس نے عمر ،شعور اور قلب جیسی نعمتوں کو معطل رکھا اورانہیں ذکرو اطاعت خدا میں مشغول نہ رکھ کر اس نے رضا ئے خدا اور نعمات اخروی حاصل کرنے کا وہ موقع گنوادیا ہے جسکا تدارک قطعا ممکن نہیں ہے بعد میں چاہے وہ جتنی اخروی نعمتیں حاصل کرلے لیکن یہ ضائع ہوجانے والا موقع بہر حال نصیب نہ ہوگا ۔

۳۔سنت الٰہی یہ ہے کہ انسان ترقی وتکامل اور قرب الٰہی کی منزلیں سختیوں اورمصائب کے ذریعہ طے کر تا ہے ۔ارشاد الٰہی ہے :

( أحَسِبَ الناس أن یُترکوا أن یقولواآمنّا وهم لایُفتنون ) ( ۲ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ مکتوب ۵۹۔

(۲)سورئہ عنکبوت آیت۲۔

۲۲۳

''کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ و ہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا''

دوسرے مقام پرارشاد ہوتا ہے :

( ولنبلونّکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقصٍ من الأموال والأنفس والثمرات ) ( ۱ )

''اور ہم یقیناتمہیں تھوڑاخوف تھوڑی بھوک اور اموال ونفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے ۔۔۔''

نیزارشاد خداوندی ہے :

( فأخذناهم بالبأساء والضرّاء لعلهم یتضرّعون ) ( ۲ )

''۔۔۔اسکے بعد ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں''

یہ آخری آیت واضح الفاظ میں ہمارے لئے خدا کی طرف انسانی قافلہ کی حرکت اور ابتلاء وآز مائش ،خوف، بھوک اور جان ومال کی کمی کے درمیان موجود رابطہ کی تفسیر کر رہی ہے کیونکہ تضرع وزاری قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے اور تضرع کی کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان جان ومال کی کمی، بھوک ،خوف اور شدائد ومصائب میں گرفتار ہوتاہے اس طرح انسان کے پاس دنیاوی نعمتیں جتنی زیادہ ہو ں گی اسی مقدار میں اسے تضرع سے محرومی کاخسارہ اٹھانا پڑے گا اور نتیجتاً وہ قرب الٰہی کی سعادتوں اور اخروی نعمتوں سے محروم ہوجا ئے گا ۔

زندگانی دنیا کے مصائب ومشکلات کبھی تو خدا اپنے صالح بندوں کو مرحمت فرماتا ہے تا کہ وہ تضرع وزاری کیلئے آمادہ ہوسکیں اور کبھی اولیائے الٰہی اوربند گان صالح خود ہی ایسی سخت زندگی

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت۱۵۵۔

(۲)سورئہ انعام آیت ۴۲۔

۲۲۴

کواختیار کر لیتے ہیں ۔

۴۔لذائذ دنیا سے کنار کشی کا ایک سبب یہ ہو تا ہے کہ انسان کبھی یہ خوف محسوس کرتا ہے کہ کہیں لذائذ دنیا کا عادی ہوکر وہ بتدریج حب دنیا میں مبتلا نہ ہو جا ئے اوریہ حب دنیاا سے خدا اور نعمات اخروی سے دور نہ کردے ۔اس لئے کہ لذائذ دنیا اورحب دنیا میں دوطرفہ رابطہ پایا جاتا ہے یہ لذ تین انسان میںحب دنیا کا جذبہ پیدا کر تی ہیں یااس میں شدت پیدا کر دیتی ہیں اس کے بر عکس حب دنیا انسان کودنیاوی لذتوں کو آخرت پر ترجیح دینے اوران سے بھر پور استفادہ کرنے بلکہ اسکی لذتوں میںبالکل ڈوب جانے کی دعوت دیتی ہے ۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان لا شعوری طور پر حب دنیا کا شکار ہو جائے لہٰذا لذائذ دنیاسے ہو شیار رہنا چاہئے کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ لذتین اسے اسکے مقصد سے دور کردیں ۔

۵۔کبھی ہمیں روایات میں ایسی بات بھی نظر آتی ہے کہ جو مذ کور ہ وضاحتوں سے الگ ہے جیسا کہ مولا ئے کائنات حضرت علی نے جناب محمدبن ابی بکر کو مصر کا حاکم مقرر کرتے وقت (عہد نامہ میں)ان کے لئے یہ تحریر فرما یاتھا:

(واعلمواعبادﷲأن المتّقین ذهبوا بعاجل الدنیا وآجل الآخرة ،۔۔۔)( ۱ )

''بندگان خدا !یا د رکھو کہ پرہیزگار افراد دنیا اور آخرت کے فوائد لے کرآگے بڑھ گئے ۔وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہوسکے۔وہ دنیا میں بہترین انداز سے زندگی گذار تے رہے جو سب نے کھایا اس سے اچھاپاکیزہ کھانا کھایااور وہ تمام لذتیںحاصل کرلیں جو عیش پرست حاصل کرتے ہیں اور وہ سب کچھ پالیا جو جابراور متکبر افراد کے حصہ میں آتا ہے ۔اسکے بعد وہ زادراہ لے کر گئے جو منزل تک پہونچادے اور وہ تجارت کرکے گئے

____________________

(۱)نہج البلا غہ مکتوب ۲۷۔

۲۲۵

جس میں فائدہ ہو۔دنیا میں رہ کر دنیا کی لذت حاصل کی اور یقین رکھے رہے کہ آخرت میں پروردگار کے جوار رحمت میں ہوںگے۔جہاں نہ ان کی آواز ٹھکرائی جائے گی اور نہ کسی لذت میں ان کے حصہ میں کوئی کمی ہوگی''

ان جملات میں متقین اور غیر متقین کا مواز نہ کیا گیا ہے جبکہ جن روایات کا ہم تجز یہ پیش کررہے تھے انمیں درجات متقین کا مو از نہ ہے،نہ کہ متقین اور غیر متقین کا!ظا ہر ہے کہ یہ دو نوں الگ ا لگ چیزیں ہیں لہٰذا ان دو نوں کا حکم بھی الگ ہو گا ۔

۲۲۶

با طن بیں نگاہ

دنیا کے بارے میں سر سری اور سطحی نگاہ سے ہٹ کر ہم دنیا پر زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے سا تھ نظر کر سکتے ہیں ۔جسے ہم (الرؤ یة النافذة) کا نام دے سکتے ہیں اس رویت میں ہم دنیا کے ظاہر سے بڑ ھ کر اس کے با طن کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔ جس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا کا ظا ہراگر حبّ دنیا کی طرف لے جا تا ہے اور انسان کو فر یب دیتا ہے تو اس کے بر خلا ف دنیا کا باطن انسان کو زہداور دنیا سے کنارہ کشی کی دعوت دیتا ہے ۔باطن بیں نگاہ ظا ہر سے بڑھکر دنیا کی اندرو نی حقیقت کو عیاں کر کے یہ بتا تی ہے کہ متاع دنیا بہر حال فنا ہو جا نے والی ہے نیز یہ کہ انسان کا دنیا میں انجام کیا ہو گا ؟ یوں انسان خو د بخود زہدا ختیار کر لیتا ہے ۔

روایات میںکثرت سے یہ تا کید کی گئی ہے کہ دنیا کو اس (نظر) سے دیکھنا چا ہئے، انسان مو ت کی طرف متو جہ رہے اورہمیشہ مو ت کو یاد رکھے، طویل آرزووں اور مو ت کی طرف سے غا فل ہو نے سے منع کیا گیاہے ۔

مو ت در اصل اس با طنی دنیا کا چہرہ ہے جس سے انسان فرار کرکے موت کو بھلا نا چا ہتا ہے چنا نچہ روایت میں وارد ہو ا ہے کہ (موت سے بڑھ کر کو ئی یقین ، شک سے مشا بہ نہیں ہے ) اس لئے کہ موت یقینی ہے ،اسمیں شک و شبہ کی گنجائش نہیں اس کے با وجود انسان اس سے گر یزاں ہے

۲۲۷

اور اسے بھلا ئے رکھنا چا ہتا ہے ۔

حا لا نکہ روایات میں اس کے با لکل بر عکس نظر آتا ہے امام محمد با قر کا ارشاد ہے:

(أکثروا ذکرالموت، فانه لم یُکثرالانسان ذکرالموت الازهد فی الدنیا )( ۱ )

'' مو ت کو کثرت سے یا د کرو کیو نکہ انسان جتنا کثرت سے موت کو یا د کر تا ہے اس کے زہد میں اتنا ہی اضا فہ ہو تا ہے''

امیر امو منین حضرت علی کا ار شاد گر امی ہے :

(من صوّرالموتَ بین عینیه هان أمرالدنیا علیه )( ۲ )

''جس کی نگا ہوں کے سا منے مو ت ہو تی ہے دنیا کا مسئلہ اس کے لئے آسان ہو تا ہے''

آپ ہی کا ار شاد ہے :

(أحقّ الناس بالزهادة من عرف نقص الدنیا )( ۳ )

''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے وہ زہد کا زیادہ حقدار ہے ''

امام مو سیٰ کا ظم کا ارشاد ہے:

(ان العقلاء زهدوا فی الدنیا،ورغبوا فی الآخرة ۔۔۔)( ۴ )

''بے شک صاحبان عقل دنیا میں زاہد اور آخرت کی جا نب راغب ہو تے ہیں انھیں معلوم ہے کہ دنیا طالب بھی ہے مطلوب بھی ،اسی طرح آخرت بھی طالب اور مطلوب ہو تی ہے ۔جو آخرت کا طلبگار ہو تا ہے اسے دنیا طلب کرتی ہے اور اپنا حصہ لے لیتی ہے ۔جو دنیا کا طلبگار ہو تا ہے آخرت اس

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۳ص۶۴۔

(۲)غرر الحکم ج۲ص۲۰۱۔

(۳) غرر الحکم ج۱ص۱۹۹۔

(۴)بحارالانوار ج ۷۸ ص ۳۰۱۔

۲۲۸

کی طالب ہو تی ہے پھر جب مو ت آتی ہے تو اس کی دنیا و آخرت دونوں خراب ہو جا تی ہیں ''

روا یت میں ہے کہ امام مو سی ٰ کا ظم ایک جنا زہ کے سر ہا نے تشریف لا ئے تو فر ما یا:

(ان شیئاً هذا أوّله لحقیق أن یُخاف آخره )( ۱ )

''جس چیز کا آ غازیہ (مر دہ لاش )ہو اس کے انجام کا خوف حق بجا نب ہے ''

ان روا یات میں ذکر مو ت اور زہد کے در میان واضح تعلق نظر آ تا ہے بالفاظ دیگران روایات میںنظر یہ یاتھیوری اورپریکٹیکل کے در میان تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ موت کا ذکر اور اسے یاد رکھنا ایک قسم کا نظر یہ اور تھیوری ہے اور زھد اس نظریہ کے مطابق راہ وردش یاپر یکٹیکل کی حیثیت رکھتا ہے امیر المو منین حضرت علی لوگوں کو دنیا کے بارے میں صحیح اور حقیقی نظریہ سے روشناس کراتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

(کونواعن الدنیا نُزّاها،والیٰ الآخرة ولّاهاولاتشیموا بٰارقها،ولا تسمعواناطقها،ولاتجیبواناعقها،ولاتستضیئواباشراقها،ولاتفتنواباعلاقها،فن برقهاخالب،ونطقهاکاذب ،واموالها محروبة،واعلاقها مسلوبة )( ۲ )

''دنیا سے پاکیزگی اختیار کرو اور آخرت کے عاشق بن جائو۔۔۔ اس دنیا کے چمکنے والے بادل پر نظر نہ کرو اور اسکے ترجمان کی بات مت سنو ،اسکے منادی کی بات پر لبیک مت کہو اور اسکی چمک د مک سے روشنی مت حاصل کرو اور اسکی قیمتی چیزوں پر جان مت دو اس لئے کہ اسکی بجلی فقط چمک دمک ہے اور اسکی باتیں سراسر غلط ہیں اسکے اموال لٹنے والے ہیں اور اسکا سامان چھننے والا ہے ''

آپ ہی کاارشاد گرامی ہے:

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۳۲۰ ۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱ ۔

۲۲۹

(وأخرجوا من الدنیا قلوبکم من قبل ان تخرج منها ابدانکم )( ۱ )

''دنیا سے اپنے دلوں کو نکال لو قبل اس کے کہ تمہارے بدن دنیا سے نکالے جائیں ''

دنیا سے دل نکال لینے کا مطلب ،دنیا سے قطع تعلق کرنا ہے جسے ہم (ارادی اور اختیاری موت)کا نام دے سکتے ہیں اس کے بالمقابل( قہری اور غیر اختیاری موت )ہے جسمیں ہمارے بدن دنیا سے نکالے جائیں گے ۔امام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قہری موت سے پہلے ارادی موت اختیارکرلیں اور دنیا سے قطع تعلق کا ہی دوسرا نام ''زہد''ہے ۔۔۔دنیا کے باطن کو دیکھنے والی نظر اور زہد سے اسکے رابطہ کو سمجھنے کے لئے خود زہد کے بارے میںجاننااور گفتگوکرنا ضروری ہے ۔

زہد

زہد،حب دنیا کے مقابل حالت ہے ۔طور وطریقہ اور سلوک کی یہ دونوں حالتیں دو الگ الگ نظریوں سے پیداہوتی ہیں ۔

حب دنیا کی کیفیت اس وقت نمودار ہوتی ہے کہ جب انسان دنیا کے فقط ظاہرپر نظر رکھتا ہے اس کے بر خلاف اگر انسان کی نظر دنیا کے باطن کو بھی دیکھ رہی ہے تو اس سے زہد کی کیفیت جنم لیتی ہے ۔

چونکہ حب دنیا کا مطلب دنیا سے تعلق رکھنا ہے اور زہد اس کے مقابل کیفیت کا نام ہے تو زہد کا مطلب ہوگا دنیا سے آزاد البتہ اس کے معنی کی وضاحت ضروری ہے ۔حب دنیا کے مفہوم کو سمیٹ کر دو لفظوں میںیوں بیان کیا جاسکتا ہے :

۱۔فرحت ومسرت

۲۔حزن وملال

حب دنیا کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کولذائذ دنیا میں جب کچھ بھی نصیب ہو تا ہے تووہ خوش

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۴۔

۲۳۰

ہوجاتا ہے اور جب وہ کسی نعمت سے محروم رہتا ہے یااس سے کوئی نعمت چھن جاتی ہے تووہ محزون ہوجاتاہے چونکہ زہد حب دنیا کے مقابل کیفیت کا نام ہے لہٰذا زہد کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان دنیا سے اتنا آزاداور بے پرواہ ہوکہ دنیا میں سب کچھ مل جانے پربھی خوشی محسوس نہ کرے اور کچھ بھی نہ ملنے پر مغموم و محزون نہ ہو ۔

خدا وند عالم فر ماتا ہے :

(۔۔۔لکیلا تحزنوا علیٰ مافاتکم ولامااصابکم ۔۔۔)( ۱ )

''۔۔۔تاکہ تم نہ اس پر رنجیدہ ہو جو چیز ہاتھ سے نکل گئی ہے اور نہ اس مصیبت پر جو نازل ہوگئی ہے ۔۔۔''

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

(۔۔۔لکیلا تاسوا علیٰ مافاتکم ولا تفرحوا بماآتاکم ۔۔۔)( ۲ )

''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اسکا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر غروراور فخر نہ کرو ۔۔۔''

امیر المو منین حضرت علی سے مروی ہے :

(الزهدکله فی کلمتین من القرآن )

''پورا زہد قرآن کے دو لفظوں میں سمٹا ہوا ہے جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے :

(لکیلا تأسواعلیٰ مافاتکم )( ۳ )

''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسکا افسوس نہ کرو''

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت ۱۵۳۔

(۲)سورئہ حدید آیت۲۳۔

(۳)سورئہ حدید آیت ۲۳۔

۲۳۱

(فمن لم یأس علی الماضی ولم یفرح بالآ تی فهوالزاهد )( ۱ )

جو انسان ماضی پرافسوس نہ کرے اور ہاتھ آجانے والی چیز پر خوش نہ ہووہ زاہد ہے ''

ایک دوسرے مقام پر آپ سے روایت ہے :

''الزهدکلمة بین کلمتین من القرآن قال اللّٰه:(لکیلا تأسوا)فمن لم یأس علیٰ الماضی،ولم یفرح بالآ تی،فقد اخذ الزهد بطرفیه ''( ۲ )

''زہد قرآن کے دو لفظوں کا مجمو عہ ہے خدا وند عالم فر ماتا ہے :

(لکیلا تأسوا ۔۔۔)''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسکا افسوس نہ کرو''

لہٰذاجو انسان ماضی پر افسوس نہ کرے اور ہاتھ آجانے والی چیز پر خوش نہ ہو اس نے پورا زہد حاصل کرلیا ہے ''

امیرالمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(من اصبح علی الدنیا حزیناً،فقد أصبح لقضاء اللّٰه ساخطاً،ومن لهج قلبه بحب الدنیاالتاط قبله منها بثلاث:همّ لایُغِبُّه،وحرص لایترکه،وأمل لایدرکه )( ۳ )

''جو دنیا کے بارے میں محزون ہو گا وہ قضا و قدر الٰہی سے ناراض ہو گا جس کا دل محبت دنیا کا دلدادہ ہوجائے اسکے دل میں یہ تین چیزیں پیوست ہوجاتی ہیں وہ غم جو اس سے جدا نہیں ہوتا ہے ،وہ لالچ جو اسکا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے وہ امید جسے وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتا ہے ''

یہ بھی حزن و فر حت سے آزادی کا ایک رخ ہے کہ دنیا کے بارے میں حزن وملال ،قضا وقدر الٰہی سے ناراضگی کے باعث ہوتا ہے اس لئے کہ انسان دنیا میں جن چیزوں سے بھی محروم ہوتا

____________________

(۱)بحا ر الانوار ج ۷۸ ص ۷۰۔

(۲)بحارالانوار ج ۷۰ ص ۳۲۔

(۳)نہج البلاغہ حکمت ۲۲۸۔

۲۳۲

ہے وہ در حقیقت قضا وقدر الٰہی کے تحت ہی ہوتا ہے نیز حب دنیا انسان میں تین صفتیں پیدا کرتی ہے ہم وغم ،حرص وطمع، آرزو۔ اس طرح وہ انسان کو ظلم وستم اور عذاب کے پنجوں میں جکڑدیتی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(ایهاالناس انماالدنیا ثلا ثة:زاهدوراغب وصابر،فأماالزاهدفلا یفرح بشیٔ من الدنیا أتاه،ولایحزن علیٰ شیٔ منها فاته وامّاالصابرفیتمنّاها بقلبه،فان ادرک منهاشیئاصرف عنها نفسه،لما یعلم من سوء عاقبتها وامّا الراغب فلایبالی من حِلٍّ اصابها أم من حرام )( ۱ )

''اے لوگو: دنیا کے افرادتین قسم کے ہیں :۱۔زاہد ۲۔صابر ۳۔راغب

۱۔زاہد وہ ہے جو کسی بھی چیز کے مل جانے سے خوش یا کسی بھی شے کے نہ ملنے سے محزون نہیں ہوتا ۔صابر وہ ہے جو دل ہی دل میں دنیا کی تمنا تو کرتا ہے لیکن اگر اسے دنیا مل جاتی ہے تو چونکہ اسکے برے انجام سے واقف ہے لہٰذا اپنامنھ اس سے پھیر لیتا ہے اور راغب وہ ہے کہ جسے یہ پروا نہیں ہے کہ اسے دنیا حلال راستہ سے مل رہی ہے یا حرام راستہ سے ''

زہدکے معنی ،لوگوں کی تین قسموںاور ان قسموں پر زاہد ین کی تقسیم کے سلسلہ میں یہ حدیث عالی ترین مطالب کی حامل ہے ۔اسکے مطابق لوگوں کی تین قسمیں ہیں :

زاہد ،صابر اور راغب۔

زاہد وہ ہے کہ جو دنیا اور اسکی فرحت وملال سے آزاد ہو۔

صابر وہ ہے کہ جو ان چیزوں سے آزاد تو نہیں ہے مگر حب دنیا ،دنیاوی فرحت ومسرت اور حزن وملال سے نجات پانے کے لئے کوشاںہے ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۲۱۔

۲۳۳

راغب وہ ہے کہ جو دنیا کا اسیر اور اسکی فرحت ومسرت اور حزن و ملال کے آگے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے۔

ان میں پہلا اور تیسراگروہ ایک دوسرے کے بالکل مقابل ہے کہ ایک مکمل طریقہ سے آزاد اور دوسراہر اعتبار سے مطیع و اسیرجبکہ تیسرا گروہ درمیانی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی فرحت و ملال کا رخ دنیا سے آخرت کی جانب موڑدیں یہی بہترین چیز ہے کیونکہ اگر ہماری کیفیت یہ ہوکہ ہم اطاعت خدا کرکے خوشی محسوس کریں اور اطاعت سے محرومی پر محزون ہوں تو یہ بہترین بات ہے اس لئے کہ اس خوشی اورغم کا تعلق آخرت سے ہے ۔

مولائے کائنات حضرت علی، ا بن عباس کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

''اما بعد !انسان کبھی کبھی ایسی چیز کو پاکر بھی خوش ہوجاتا ہے جو ہاتھ سے جانے والی نہیںتھی اور ایسی چیز کو کھوکر رنجیدہ ہوجاتا ہے جو ملنے والی نہیں تھی لہٰذا خبر دار تمہارے لئے دنیا کی سب سے بڑی نعمت، کسی لذت کا حصول یا جذبۂ انتقام ہی نہ بن جائے بلکہ بہترین نعمت باطل کو مٹانے اور حق کو زندہ کرنے کو سمجھو اور تمہیں ان اعمال سے خوشی ہو جنہیں پہلے بھیج دیا ہے اور تمہارا افسوس ان امور پر ہو جنہیں چھوڑکر چلے گئے ہو اور تمام تر فکر موت کے مرحلہ کے بارے میں ہونی چاہئیے''( ۱ )

زہد،تمام نیکیوں کا سرچشمہ

جس طرح حیات انسانی میں حب دنیا تمام برائیوں کی جڑہے اسی طرح تمام نیکیوں اور اچھائیوں کا سرچشمہ ''زہد''ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حب دنیا انسان کو دنیا اور اسکی خواہشات کا اسیر بنادیتی ہے اور دنیا خود تمام برائیوں اور پستیوں کی بنیاد ہے لہٰذا حب دنیابھی انسان کو برائیوںاور

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب ۶۶۔

۲۳۴

پستیوں کی طرف لے جاتی ہے جبکہ زہد کا مطلب ہے دنیااور خواہشات دنیا سے آزاد ہونا اور جب انسان برائیوں کی طرف لے جانے والی دنیا سے آزاد ہوگا تو اسکی زندگی خود بخود نیکیوں اور اچھائیوں کا سرچشمہ بن جائے گی ۔

روایات معصومین میں اس چیز کی طرف متعدد مقامات پر مختلف اندازسے اشارہ کیا گیا ہے بطور نمونہ ہم یہاں چند احادیث پیش کر رہے ہیں۔

امام صادق کا ارشاد ہے:

(جُعل الخیرکله فی بیت وجُعل مفتاحه الزهد فی الدنیا )( ۱ )

''تمام نیکیاں ایک گھر میں قرار دی گئی ہیں اور اسکی کنجی دنیا کے سلسلہ میں زہد اختیار کرنا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الزهد أصل الدین )( ۲ )

''دین کی اصل، زہد ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الزهد اساس الدین )( ۳ )

''دین کی اساس اور بنیاد، زہد ہے ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(الزهد مفتاح باب الآخرة،والبرا ئة من النار،وهو ترکک کل شیٔ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۴۹۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۹۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۳۰۔

۲۳۵

یشغلک عن اللّٰه من غیرتأسف علیٰ فوتها ولا أعجاب فی ترکها،ولاانتظارفرج منها،ولاطلب محمدة علیها،ولاعوض منهابل تریٰ فواتهاراحة،وکونهاآفة،وتکون أبداً هارباً من الآفة،معتصماً بالراحة )( ۱ )

''زہد،باب آخرت کی کنجی اورجہنم سے نجات کا پروانہ ہے ۔زہد کا مطلب یہ ہے کہ تم ہراس چیز کو ترک کردو جو تمہیں یاد خدا سے غافل کردے اور تمہیں اسکے چھوٹ جانے کا نہ کوئی افسوس ہو اور نہ اسے ترک کرنے میں کوئی زحمت ہو ۔اس کے ذریعہ تمہاری کشادگی کی توقع نہ ہو،نہ ہی اس پر تعریف کی امید رکھو، نہ اسکا بدلہ چاہو بلکہ اسکے فوت ہوجانے میں ہی راحت اور اسکی موجود گی کو آفت سمجھوایسی صورت میں تم ہمیشہ آفت سے دوراورراحت وآرام کے حصارمیںرہو گے''

حضرت علی نے فرمایا ہے :

(الزهد مفتاح الصلاح )( ۲ )

''زہد صلاح کی کنجی ہے ''

زہد کے آثار

حیات انسانی میں زہد کے بہت عظیم آثار و نتائج پائے جاتے ہیں جنہیں زاہد کے نفس اور اسکے طرز زندگی میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔

۱۔آرزووں میں کمی

حب دنیا کا نتیجہ آرزووں کی کثرت ہے اور زہد کا نتیجہ آرزووں میں کمی۔ جب انسان کا تعلق دنیا سے کم ہو اوروہ خواہشات دنیا سے آزاد ہوتو طبیعی طور پر اسکی آرزوئیں بھی مختصر ہوںگی وہ دنیا میں

____________________

(۱) بحا ر الا نو ا ر ج ۰ ۷ ص۳۱۵۔

(۲)غررالحکم ص۹۹،۳۷۔۸۔

۲۳۶

زندگی بسر کرے گا متاع زندگانی اوردنیاوی لذتوںسے استفادہ کرے گا لیکن ہمیشہ موت کو بھی یاد رکھے گا اور اسی طرح یہ بات بھی اسکے پیش نظر رہے گی کہ ان چیز وں کا سلسلہ کسی بھی وقت اچانک ختم ہوجائے گا۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(من یرغب فی الدنیا فطال فیها أمله،أعمیٰ ﷲ قلبه علیٰ قدررغبته فیها، ومن زهد فیها فقصرفیهاأمله،أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیً بغیرهدایة،وأذهب عنه العمائ،وجعله بصیرا )( ۱ )

''جو شخص دنیا کی طرف راغب ہوتاہے اسکی آرزوئیں طولانی ہوتی ہیں اور دنیا کی طرف اسکی رغبت کے مطابق ﷲ اسکے قلب کو اندھا کردیتاہے اور جو دنیا میں زاہد ہوتاہے اسکی آرزوئیں مختصر ہوتی ہیں اور ﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اوراسباب ہدایت کے بغیر ہدایت عطا کرتاہے۔اوراس سے اندھے پن کو دور کرکے اسکو بصیر بنا دیتاہے ''

اس روایت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زہد ،سے آرزوئیںکم ہوجاتی ہیں اور اس کمی سے بصیرت اورہدایت ملتی ہے اسکے برعکس دنیا کی جانب رغبت سے آرزووں میں کثرت پیدا ہوتی ہے اور یہ کثرت اندھے پن کا سبب ہے تو آخر آرزووں کی قلت اور بصیرت کے درمیان کیا تعلق ہے ؟

اسکا راز یہ ہے کہ طویل آرزوئیںانسان کو دنیا میں اس طرح جکڑدیتی ہیں کہ انسان اس سے بیحدمحبت کرنے لگتا ہے اوردنیاکی محبت ا انسان اور خدا کے درمیان حجاب بن جاتی ہے اور جب آرزوئیں مختصر ہوتی ہیں تو یہ حجاب اٹھ جاتا ہے۔اور ظاہر ہے کہ جب قلب کے حجابات دور ہوجائیں گے تواس میں بصیرت پیدا ہوجائے گی ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۷ص۲۶۳۔

۲۳۷

(الزهد فی الدنیا قصرالأمل،وشکرکل نعمة،والورع عن کل ماحرّم ﷲ )( ۱ )

''دنیا میں زہد کا مطلب یہ ہے کہ آرزوئیں قلیل ہوں،ہر نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور محرمات الٰہی سے پرہیز کیا جائے''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الزهد تقصیرالآمال،واخلاص الاعمال )( ۲ )

''آرزووںمیںکمی اور اعمال میں خلوص کا نام زہد ہے ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(أیهاالناس،الزهادة قصرالأمل،والشکرعندالنعم،والتورع عندالمحارم،فانْ عزب ذلک عنکم،فلایغلب الحرام صبرکم،ولاتنسواعندالنعم شکرکم،فقدأعذرﷲالیکم بحججٍ مسفرةظاهرة،وکتبٍ بارزةالعذرواضحة )( ۳ )

''اے لوگوں:زہد امیدوں کے کم کرنے ،نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اور محرمات سے پرہیز کرنے کا نام ہے ۔اب اگر یہ کام تمہارے لئے مشکل ہوجائے تو کم ازکم اتنا کرناکہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکر کو فراموش نہ کردینا کہ پروردگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اور حجت تمام کرنے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کردیا ہے ''

۲۔دنیاوی تاثرات سے نجات اورآزادی

دنیاوی نعمتیں ملنے سے نہ انسان خوشی محسوس کرے گا اور نہ ان سے محرومی پر محزون ہوگا ۔

امیرالمومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۱۶۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۹۳۔

(۳)نہج البلاغہ خطبہ ۸۱۔

۲۳۸

(فمن لم یأس علیٰ الماضی،ولم یفرح بالآ تی فقد أخذ الزهد بطرفیه )( ۱ )

''جو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اور ہاتھ آنے والی چیزوں سے مغرور نہ ہوجائے اس نے سارا زہدسمیٹ لیا ہے ''

امیر المومنین کے ہر کلام کی مانند حیات انسانی میں زہد کے نتائج کے بارے میں شاہکار کلام پایا جاتا ہے ہم یہاں اس کلام کو نہج البلاغہ سے نقل کر رہے ہیں ۔''اپنے کانوں کو موت کی آواز سنادو قبل اسکے کہ تمہیں بلالیاجائے دنیا میں زاہدوں کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ خوش بھی ہوتے ہیں تو ان کا دل روتا رہتاہے اور وہ ہنستے بھی ہیںتوان کا رنج و اندوہ شدیدہوتاہے۔وہ خود اپنے نفس سے بیزاررہتے ہیںچاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں ۔افسوس تمہارے دلوں سے موت کی یاد نکل گئی ہے اور جھوٹی امیدوں نے ان پر قبضہ کرلیا ہے۔اب دنیا کا اختیار تمہارے اوپر آخرت سے زیادہ ہے اور وہ عاقبت سے زیادہ تمہیں کھینچ رہی ہے ۔تم دین خدا کے اعتبار سے بھائی بھائی تھے۔ لیکن تمہیں باطن کی خباثت اور ضمیر کی خرابی نے الگ الگ کردیا ہے کہ اب نہ کسی کا بوجھ بٹاتے ہو۔نہ نصیحت کرتے ہو۔نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہواور نہ ایک دوسرے سے واقعاًمحبت کرتے ہو۔آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ معمولی سی دنیا کو پاکر خوش ہوجاتے ہو اور مکمل آخرت سے محروم ہوکر رنجیدہ نہیں ہوتے ہو۔تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے نکل جائے تو پریشان ہوجاتے ہو اور اسکا اثر تمہارے چہروں سے ظاہر ہوجاتاہے اور اس کی علیٰحدگی پر صبر نہیں کرپاتے ہو جیسے وہی تمہاری منزل ہے اور جیسے اس کا سرمایہ واقعی باقی رہنے والا ہے۔تمہاری حالت یہ ہے کہ کوئی شخص بھی دوسرے کے عیب کے اظہارسے باز نہیں آتا ہے مگر صرف اس خوف سے کہ وہ بھی اسی طرح پیش آئے گا ۔تم سب نے آخرت کو نظر انداز کرنے اور دنیا کی محبت پر اتحاد کرلیاہے اور ہر ایک کا دین زبان کی چٹنی بن کر رہ گیا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۳۲۰،نہج البلاغہ حکمت ۴۳۹۔

۲۳۹

ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب نے اپنا عمل مکمل کرلیا ہے اور اپنے مالک کو واقعا خوش کرلیا ہے۔''( ۱ )

۳۔دنیاپرعدم اعتماد

انسانی نفس کے اوپر زہد کے آثار میں سے ایک اثریہ بھی ہوتا ہے کہ زاہد کبھی بھی دنیا پر اعتماد نہیں کرتا ۔انسان جب دنیا سے محبت کرنے لگتا ہے اور اس کا نفس دنیا میں الجھ جاتا ہے تو وہ دنیا پر بھروسہ کرتا ہے اوردنیا کو ہی اپناٹھکانہ اوردائمی قیام گا ہ مان لیتا ہے لیکن جب انسان کے اندر زہد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اوروہ اپنے دل سے حب دنیا کونکال دیتا ہے تو پھراسے دنیا پر اعتبار بھی نہیں رہ جاتا اور وہ دنیا کو محض ایک گذرگاہ اور آخرت کے لئے ایک پُل تصور کرتاہے ۔

دنیا کے بارے میں لوگوں کے درمیان دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں ۔کچھ افراد دنیا کو قیام گاہ مان کر اس سے دل لگالیتے ہیں اور کچھ لوگ دنیا کو گذر گاہ اور آخرت کے لئے ایک پل سمجھ کر اس سے دل نہیں لگاتے ۔دو نوںقسم کے افراد اسی دنیا میں رہتے ہیں اورخدا کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں مگر ان کے درمیان فر ق یہ ہے کہ پہلے گروہ کامنظور نظر خود دنیا ہوتی ہے اور وہ اسی کو سب کچھ مانتے ہیں یہاںتک کہ موت ان سے دنیا کو الگ کردیتی ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے کہ جو دنیا کو سب کچھ سمجھ کر اس سے دل نہیں لگاتا بلکہ اسے گذر گاہ اور پل کی حیثیت سے دیکھتا ہے لہٰذا جب موت آتی ہے تو دنیا کی مفارقت ان پر گراں نہیں گذرتی ہے۔

دنیا میں انسان کی حالت او راس میں اسکے قیام کی مدت کو روایات میں بہترین مثالوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے ایک مثال کے بموجب دنیامیں انسان کا قیام ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی سوار راستہ میںسورج کی گرمی سے پریشان ہوکر کسی سایہ داردرخت کے نیچے بیٹھ جاتا ہے اور تھوڑی دیر آرام کے بعد پھر اپنے کام کے لئے چل پڑتا ہے ۔ کیا ایسی صورت میں دنیا کو اپنا ٹھکانہ، دائمی قیام گاہ سمجھنا اور

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۳

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346