خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس16%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122272 / ڈاؤنلوڈ: 5497
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

خودسازی

ابراہیم امینی

ناشر: انتشارات شفق

نوبت چاپ: دہم ۱۳۸۰

تیراژ:۴۰۰۰

چاپ: قدس

شابک: ۰-۰۲۰-۴۸۵-۹۶۴

۳

تقدیم

اس ناچیز تحریر کو جہاد اور شہادت کے راہ پیماؤں اور عرفاء کہ جنہوں نے سو سالہ راستے کو ایک شب میں طے کیا ہے اور محبوب کے عشق میں ایک لحظہ جلے ہیں اور بلند مقام (جو اپنے رب سے رزق حاصل کرتے ہیں) تک صعود کیا ہے کی خدمت میں اس امید پر تقدیم کرتا ہوں کہ وہ ایک نگاہ لطف ہماری طرف بھی مبذول کریں_

مؤلف

اس کتاب کا ترجمہ اس امید میں کر رہا ہوں کہ یہ میرے لئے صدقہ جاریہ قرار پاتے ہوئے پڑھنے والے اس پر عمل کر کے اس حقیر کے لئے دعاء مغفرت کریں اور دعا کریں میرا انجام محبت آل محمد(ص) پر قرار پائے_ اور خداوند عالم مجھے مرنے کے بعد اپنی جوار رحمت میں قرار دے_ آمین

مترجم

۴

مقدمہ

الحمد لله رب العالمین و الصلوة و السلام علی اشرف الانبیاء و المرسلین حبیب اله العالمین ابی القاسم محمد صلی الله علیه و آله وسلم الذی بعثه رحمة للعالمین لیزکیهم و یعلمهم الکتاب و الحکمة و السلام علی عترته و ابل بیته الطیبین الطاهرین

خدایا ہمیں انسانیت کے سیدھے راستے اور کمال مدارج کے طے کرنے کی ہدایت فرما اور ہمارے تاریک دلوں کو معرفت اور یقین کے نور سے روشن کر_ خود پسندی، خودبینی خواہشات و تمینات نفسانی کے پردوں کو ہمارے دلوں سے ہٹا دے اور ہماری باطنی آنکھکو بے مثال جمال کے دیکھنے کی بینائی عطا کردے_ اور ہمیں اپنے آپ کو سنوار نے اور روح کو پاک و پاکیزہ کرنے کے راستوں کی طرف مدد فرما_ اپنے غیر کی طرف توجہہ اور محبت کو ہمارے دلوں سے نکال دے اور غفلت کے پردوں کو ہمارے دلوں سے دور کردے اور اپنی محبت اور انس کے شفاف چشمہ سے سیراب فرما_ تاکہ ہم اپنی طرف متوجہ ہوں اور باقی ماندہ گرانقدر عمر کو گذری ہوئی زندگی کی طرح سستی اور غفلت میں بسر نہ کردیں_

اس ناچیز بندہ جو خواہشات اور تمینات نفسانی میں گرفتار اور حیران و پریشان اور مقامات معنوی اور درجات کمال سے بے خبر اور مراتب سیر و سلوک سے نا واقف نے اس کا ارادہ کیا ہے کہ خود سازی تہذیب اور تزکیہ نفس کی بحث کے میدان میں وارد ہو اور قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے فرامین اور تزکیہ اور

۵

تہذیب نفس اور سیر اور سلوک الی اللہ کے قواعد کلیہ سے استفادہ کر کے پڑھنے والوں اور طالبین راہ معرفت کی خدمت میں پیش کرے اس امید پر کہ شاید سالکین راہ ہدایت کے لئے مددگار ثابت ہو اور خداوند عالم اس حقیر اور محروم پر احسان کرے اور میرا ہاتھ پکڑ کر نادانی خودخواہی غفلت کی تاریکیوں سے خارج کردے اور ذکر و انس و محبت و بقاء کی وادی کی طرف رہنمائی فرمائے شاید باقیماندہ عمر میں اگر ہو بعض گذرے ہوئے نقصانات کا جبران کر سکوں_ احب الصالحین و لست منہم نیکوں کو دوست رکھتا ہوں گر چہ ان میں سے نہیں ہوں_

اہم نقطہ

اس بحث میں وارد ہونے سے پہلے ایک مہم مطلب کا تذکرہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ خودسازی (اپنے آپ کو سدھارنا) اور تزکیہ نفس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ انسان گوشہ نشین اور دنیاوی مشاغل کو ترک کردے اور اجتماعی اور معاشرتی ذمہ داریوں اور عہدوں سے دست بردار ہوجائے بلکہ خود اس کتاب کے مباحث میں واضح ہوجائیگا کہ گوشہ نشینی اور فردی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو قبول نہ کرنا خودسازی اور تکمیل و تہذیب نفس کے منافی ہے_ اسلام مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ با وجودیکہ عام لوگوں میں زندگی بسر کریں اور فردی اور اجتماعی وظائف انجام دیں اپنے آپ سے غافل نہ ہوں اور خودسازی اور تہذیب نفس کی تربیت کو اہمیت دین اور اسے مورد عنایت قرار دیں_

مؤلف

۶

پیغمبروں کے بعثت کی اہم غرض نفوس کا پاکیزہ کرنا تھا

پیغمبروں کا سب سے بڑا ہدف اور غرض انسانی نفوس کی پرورش کرنا اور نفوس انسانی کو پاک و پاکیزہ بنانا تھا_

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ '' خداوند عالم نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ان سے ایک رسول ان کے درمیان بھیجا ہے تا کہ وہ ان کے لئے قرآنی آیات کی تلاوت کرے اور ان کے نفوس کو پاک و پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے گرچہ وہ اس سے پہلے ایک کھلی ہوئی گمراہی میں غرق تھے_(۱)

تعلیم و تربیت کا موضوع اس قدر مہم تھا کہ پیغمبروں کے بھیجنے کی غرض قرار پایا اور خداوند عالم نے اس بارے میں اپنے بندوں پر احسان کیا_ انسان کی فردی اور اجتماعی شخصیت کی سعادت اور دنیوی اور اخروی شقاوت اس موضوع سے وابستہ ہے کہ کس طرح انسان نے اپنے آپ بنایا ہے اور بنائے گا_ اسی وجہ سے انسان کا اپنے آپ کو بنانا ایک زندگی ساز سرنوشت ساز کام شمار ہوتا ہے_ پیغمبر(ص) آئے ہیں تا کہ خودسازی اور نفس انسانی کی پرورش اور تکمیل کا راستہ بتلائیں اور مہم ا ور سرنوشت ساز کام کی

۷

رہنمائی اور مدد فرمائیں پیغمبر آئے ہیں تا کہ نفوس انسانی کو رذائل اور برے اخلاق اور حیوانی صفات سے پاک اور صاف کریں اور اچھے اخلاق اور فضائل کی پرورش کریں_ پیغمبر علیہم السلام آئے ہیں تا کہ انسانوں کو خودسازی کا درس دیں اور برے اخلاق کی شناخت اور ان پر کنٹرول اور خواہشات نفسانی کو قابو میں رکھنے کی مدد فرمائیں اور ڈرانے اور دھمکانے سے ان کے نفوس کو برائیوں اور ناپاکیوں سے پاک و صاف کریں_ وہ آئے ہیں تا کہ فضائل اور اچھے اخلاق کے پودے کو انسانی نفوس میں پرورش دیں اور بار آور بنائیں اور اپنی راہنمائی اور تشویق اور ترغیب سے ان کے مددگار بنیں_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ '' میں تمہیں اچھے اخلاق کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۲)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' میں اسلئے بھیجا گیا ہوں تا کہ اچھے اخلاق کو نفوس انسانی میں مکمل کروں_(۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم نے پیغمبروں کو اچھے اخلاق کے لئے منتخب کیا ہے جو شخص بھی اپنے آپ میں اچھے اخلاق موجو د پائے تو خداوند عالم کا اس نعمت پر شکریہ ادا کرے اور جو شخص اپنے آپ میں اچھے اخلاق سے محروم ہو اسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع اور زاری کرنی چاہئے اور اللہ تعالی سے اچھے اخلاق کو طلب کرنا چاہئے_(۴)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اگر بالغرض میں بہشت کی امید نہ رکھتا ہوتا اور دوزخ کی آگ سے نہ ڈرتا ہوتا اور ثواب اور عقاب کا عقیدہ بھی نہ رکھتا ہوتا تب بھی یہ امر لائق تھا کہ میں اچھے اخلاق کی جستجو کروں کیونکہ اچھے اخلاق کامیابی اور سعادت کا راستہ ہے_(۵)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایمان کے لحاظ سے کاملترین مومنین وہ

۸

ہیں کہ جن کے اخلاق بہتر ہوں_'' رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ '' قیامت کے دن نامہ اعمال میں کوئی چیز حسن خلق سے افضل نہیں رکھی جائیگی_(۶)

ایک آدمی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ دین کیا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا ''حسن خلق'' وہ آدمی اٹھا اور آپ(ص) کے دائیں جانب آیا اور عرض کی کہ دین کیا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا ''حسن خلق'' یعنی اچھا اخلاق_ پھر وہ گیا اور آپ کے بائیں جانب پلٹ آیا اور عرض کی کہ دین کیا ہے ؟ آپ(ص) نے اس کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کیا تو نہیں سمجھتا؟ کہ دین یہ ہے کہ تو غصہ نہ کرے_(۷)

اسلام کو اخلاق کے بارے میں خاص توجہہ ہے اسی لئے قرآن مجید میں اخلاق کے بارے میں احکام کی نسبت زیادہ آیات قرآنی وارد ہوئی ہیں یہاں تک کہ قرآن کے قصوں میں بھی غرض اخلاقی موجود ہے_ تمہیں احادیث میں اخلاق کے بارے ہزاروں حدیثیں ملیں گی اگر دوسرے موضوعات سے زیادہ حدیثیں نہ ہوئیں تو ان سے کمتر بھی نہیں ہیں_ اخلاق کے بارے میں ثواب اور خوشخبریاں جو ذکر ہوئی ہیں دوسرے اعمال کے ثواب سے کمتر نہیں ہیں_ اور برے اخلاق سے ڈرانا اور سزا جو بیان ہوئی ہے وہ دوسرے اعمال سے کمتر نہیں ہیں_ اسی لئے اسلام کی بنیاد اخلاقیات پر تشکیل پاتی ہے_ مناسب نہیں کہ اسے دین کے احکام میں دوسرا درجہ دیا جائے اور دینداروں کے لئے آرائشے اور خوبصورتی کا درجہ دیا جائے اگر احکام میں امر اور نہی ہیں تو اخلاق میں بھی امر اور نہی موجود ہیں اور اگر احکام میں تشویق اور تخویف ثواب اور عقاب اور جزا ء اور سزا موجود ہے تو اخلاق میں بھی یہی امور موجود ہیں_

پس احکام شرعی اور اخلاق میں کونسا فرق موجود ہے؟ اگر ہم سعادت اور کمال کے طالب ہیں تو اخلاقیات سے لاپرواہی نہیں برت سکتے ہم اخلاقی واجبات کو اس بہانے سے کہ یہ اخلاقی واجبات ہیں ترک کردیں اور اخلاقی محرمات کو اس بنا پر کہ یہ اخلاقی محرمات ہیں بجالاتے رہیں_ اگر نماز واجب ہے اور اس کا ترک کرنا حرام اور موجب

۹

سزا ہے تو عہد کا ایفا بھی واجب ہے اور خلاف وعدہ حرام ہے اور اس پر بھی سزا ہوگی پس ان دونوں میں کیا فرق ہے؟

واقعی متدین اور سعادت مند وہ انسان ہے کہ جو احکام شرعیہ اور تکالیف الہی کا پابند ہو اور اخلاقیات کا بھی پابند ہو بلکہ سعادت اور کمال معنوی اور نفسانی میں اخلاقیات بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جیسے کہ بعد میں ذکر کریں گے_

بزرگ شناسی و خودسازی

گرچہ انسان ایک حقیقت ہے لیکن یہ مختلف جہات اور اوصاف رکھتا ہے_ انسان کے وجود کا ایک مٹی کے جوہر سے جو بے شعور ہے آغاز ہوا ہے اور پھر یہ جوہر مجرد ملکوتی تک جاپہنچتا ہے خداوند عالم قرآن مجید میںفرماتا ہے کہ '' خداوند وہ ہے کہ جس نے ہر چیز کو اچھا پیدا کیا ے اور انسان کو مٹی سے بنایا ہے اور اس کی نسل کو بے وقعت پانی یعنی نطفہ سے قرار دیا ہے پھر اس نطفہ کو اچھا اور معتدل بنایا ہے اور پھر اس میں اپنی طرف منسوب روح کو قرار دیا ہے اور تمہارے لئے کان، آنکھ اور دل بنایا ہے اس کے باوجود تم پھر بھی بہت کم اس کا شکریہ ادا کرتے ہو_(۸)

انسان مختلف مراتب اور جہات رکھتا ہے ایک طرف تو وہ ایک جسم طبعی ہے اور اس جسم طبعی کے آثار رکھتا ہے دوسری طرف وہ جسم نامی ہے کہ وہ اس کے آثار بھی رکھتا ہے اور دوسرے لحاظ سے وہ ایک حیوان ہے اور وہ حیوان کے آثار بھی رکھتا ہے لیکن بالاخرہ وہ ایک انسان ہے اور وہ انسانیت کے آثار بھی رکھتا ہے جو حیوانات میں موجود نہیں ہیں_

لہذا انسان ایک حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت وجود کے لحاظ سے مختلف مراتب اور درجات کی حامل ہے_ جب یہ کہتا ہے کہ میرا وزن اور میری شکل و صورت تو وہ

۱۰

اپنے جسم نامی ہونے کی خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میری شکل و صورت تو وہ اپنے جسم نامی ہونے کی حکایت کر رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میرا چلنا اور شہوت اور غضب تو وہ اپنے حیوانی درجہ کی خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میرا سوچنا اور عقل اور فکر تو وہ اپنے انسان اعلی درجہ کا پتہ دے رہا ہوتا ہے پس انسان کی میں اور خود مختلف موجود ہیں_ ایک جسمانی میں اور ایک میں نباتی اور ایک میں حیوانی اور ایک میں انسانی لیکن ان میں سے انسانی میں پر ارزش اور اصالت رکھتی ہے وہ چیز کہ جس نے انسان کو انسان بنایا ہے اور تمام حیوانات پر برتری دی ہے وہ اس کی روح مجرد ملکوتی اور نفخہ الہی ہے_

خداوند عالم انسان کی خلقت کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو ٹی سے خلق کیا ہے پھر اسے نطفہ قرار دیا ہے اور اسے ایک مضبوطہ جگہ رحم مادر میں قرار دیا ہے اور پھر نطفہ کو علقہ لو تھڑا اور پھر علقہ کو نرم گوشت بنایا ہے اور پھر نرم گوشت کو ہڈیاں بنایا ہے پھر ان ہڈیوں پر گوشت سے ڈھانپا ہے_ پر اس میں روح مجرد ملکوتی کو پھونکا ہے جس سے اسے ایک نئی مخلوق بنایا ہے_ شاباش اس کامل قادر پر جو بہترین خلق کرنے والا ہے_

انسان کی خلقت کے بارے خدائے دانا فرماتا ہے_ تبارک اللہ احسن الخالقین اسی ملکوتی روح کی وجہ سے انسان کایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ '' میں نے آدم (ع) کو پیدا کیا ہے اور اس روح کو جو میری طرف نسبت رکھتی ہے اس میں پھونکا ہے لہذا تم سب اس کی طرف سجدہ کرو_(۹)

اگر انسان تعظیم کا مورد قرار پایا ہے اور خدا نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے اولاد آدم کو محترم قرار دیا ہے اور انہیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا ہے اور ہر قسم کی پاکیزہ اور لذیذ غذا اس کی روزی قرار دی ہے اور اپنی بہت سی مخلقو پر اسے

۱۱

برتری دے ہے(۱۰) تو یہ سب اسی روح ملکوتی کے واسطے سے ہے لہذا انسان اگر خود سازی یعنی اپنے آپ کو سنوارنا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی انسانی میں کو سنوارے اور تربیت دے نہ وہ اپنی حیوانی میں یا جسمانی میں کی پرورش کرے پیغمبروں کی غرض بعثت بھی یہی تھی کہ انسان کو خودسازی اورجنبہ انسانی کی پرورش میں اس کی مدد کریں اور اسے طاقت فراہم کریں_ پیغمبر(ص) انسانوں سے فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے انسانی میں کو فراموش نہ کرو اور اگر تم نے اپنے انسانی خود اور میں کو خواہشات حیوانی پر قربانی کر دیا تو بہت بڑا نقصان تمہارے حصہ اور نصیب میں آجائیگا_

خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے '' اے پیغمبر_ ان سے کہہ دے کہ نقصان میں وہ اشخاص ہیں جو اپنے نفس انسانی اور اپنے اہل خانہ کے نفوس کو قیامت کے دن نقصان میں قرار دیں اور یہ بہت واضح اور کھلا ہوا نقصان ہے_(۱۱)

جو لوگ حیوانی زندگی کے علاوہ کسی دوسرے چیز کی سوچ نہیں کرتے در حقیقت وہی لوگ ہیں جنہوں نے انسانی شخصیت کو کھو دیا ہوا ہے کہ جس کی تلاش میں وہ کوشش نہیں کرتے_(۱۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''میں اس شخص سے تعجب کرتا ہوں کہ ایک گم کی ہوئی چیز کی تلاش تو کرتا ہے جب کہ اس نے اپنے انسانی روح کو گم کیا ہوا ہے اور اس کے پیدا کرنے کے درپے نہیں ہوتا_'' اس سے بدتر اور دردناک تر کوئی نقصان نہیں ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنی انسانی اور واقعی اور حقیقی شخصیت کو کھو بیٹھے ایسے شخص کے لئے سوائے حیوانیت کے اور کچھ باقی نہیں رہے گا_

روح انسانی اور نفس حیوانی

جو روایات اور آیات روح اور نفس انسانی کی بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ د و

۱۲

قسم پر ہیں ایک قسم نفس انسانی کو ایک در بے بہا اور شریف ملکوتی کہ جو عالم ربوبی سے آیا ہے اور فضائل اور کمالات انسانی کامنشا ہے بیان کرتی ہیں اور انسان کو تاکید کرتی ہیں کہ ایسے کمالات اور جواہر کی حفاظت اور نگاہ داری اور تربیت اور پرورش میں کوشش کرے اور ہوشیار رہے کہ ایسے بے بہا در کو ہاتھ سے نہ جانے دے کہ اس سے اسے بہت زیاد نقصان اٹھانا پڑے گا_ نمونے کے طور پر قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' اے محمد (ص) آپ سے روح کی حقیقت کا سوال کرتے ہیں ان کے جواب میں کہہ دے کہ یہ پروردگار کے عالم سے ہے اور وہ علم جو تمہیں دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے_(۱۳)

اس آیت میں روح کو ایک موجود عالم امر سے جو عالم مادہ سے بالاتر ہے قرار دیا ہے_

امیرالمومنین علیہ السلام نے روح کے بارے میں فرمایا ہے کہ ''روح ایک در بے بہا ہے جس نے اس کی حفاظت کی اسے وہ اعلی مرتبہ تک پہنچائیگا اور جس نے اس کی حفاظت میں کوتاہی کی یہ اسے پستی کی طرف جائیگا_(۱۴)

آپ نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص نے اپنی روح کی قدر پہچانی وہ اسے پست اور فانی کاموں کے بجالانے کی طرف نہیں لے جائی گی_(۱۵)

آپ نے فرمایا ''جس شخص نے روح کی شرافت کو پالیا وہ اسے پست خواہشات اور باطل تمینات سے حفاظت کردے گی_(۱۶)

''روح جتنی شریف ہوگی اس میں اتنی زیادہ مہربانی ہوگی_(۱۷)

آپ نے فرمایا کہ '' جس کا نفس شریف ہوگا وہ اسے سوال کرنے کی خواری سے پاک کردے گا_(۱۸)

اس قسم کی آیات اور روایات کے بہت زیادہ نمونے موجود ہیں_ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس انسانی ایک بیش بہا قیمتی در ہے کہ جس کی حفاظت و نگاہ داری اور تربیت کرنے میں کوشش کرنی چاہئے_

دوسری قسم کی روایات وہ ہیں کہ جس میں نفس انسانی کو ایک انسان کا سخت دشمن

۱۳

تمام برائیوں کا مبدا بتلایا گیا ہے لہذا اس سے جنگ کی جائے اور اسے سرکوب کیا جائے ور نہ وہ انسان کے لئے بدبختی اور شقاوت کے ا سباب مہیا کردے گا_ نمونے کے طور پر جیسے قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جو شخص مقام رب سے ڈرتا ہو اور اپنے نفس کو خواہشات پر قابو پاتا ہو اس کی جگہ جنت ہے_(۱۹)

قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ '' میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا کیونکہ وہ ہمیشہ برائیوں کی دعوت دیتا ہے مگر جب خدا رحم کرے_(۲۰)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' تیرا سب سے بدترین دشمن وہ نفس ہے جو تیرے دو پہلو میں موجود ہے_(۲۱)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نفس ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے جو شخص اسے امین قرار دے گا وہ اس سے خیانت کرے گا جس نے اس پر اعتماد کیا وہ اسے ہلاکت کی طرف لے جائیگا، جو شخص اس سے راضی ہوگا وہ اسے بدترین موارد میں وارد کردےگا_(۲۲)

نیز آپ نے فرمایا '' نفس پر اطمینان کرنا شیطان کے لئے بہترین اور مضبوط موقعہ ہوا کرتا ہے_(۲۳)

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''اے پروردگار کہ میں آپ سے نفس کی شکایت کرتا جو ہمیشہ برائی کی دعوت دیتا ہے اور گناہ اور خطاء کی طرف جلدی کرتا ہے او ربرائی سے علاقمند ہے اور وہ اپنے آپ کو تیرے غضب کا مورد قرار دیتا ہے اور مجھے ہلاکت کے راستوں کی طرف کھینچتا ہے_(۲۴)

اس قسم کی آیات اور روایات بہت زیادہ ہیں کہ جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ نفس ایک ایسا موجود ہے جو شریر اور برائیوں کا سرچشمہ ہے لہذا چاہئے کہ جہاد کر کے اس کی کوشش کو سرکوب کیا جائے_

۱۴

ممکن ہے کہ بعض لوگ تصور کریں کہ ان دو قسم کی آیات اور روایات میں تعارض اور تزاحم واقع ہے یا خیال کریں کہ انسان میں دو نفس اور روح ہیں کہ ایک اچھائیوں کامنبع ہے اور دوسرا نفس حیوانی ہے جو برائیوں کا سرچشمہ ہے لیکن یہ دونوں تصور اور خیال غلط ہیں_ پہلے تو ان دو قسم میں تعارض ہی موجود نہیں ہے دوسرے علوم میں ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کی ایک حقیقت ہے اور ایک روح ہے اور اس طرح نہیں ہے کہ انسانیت اور حیوانیت انسان میں ایک دوسرے سے جدا اور علیحدہ ہوں_

بلکہ نفس انسانی میں دو مرتبے اور دو وجودی حیثیت ہیں نیچے اور پست مرتبے میں وہ ایک حیوان ہے کہ جس میں حیوان کے تمام آثار اور خواص موجود ہیں اور ایک اعلی مرتبہ ہے کہ جس میں وہ ایک انسان ہے اور وہ نفخہ الہی اور عالم ملکوت سے آیا ہے_

جب یہ کہا گیا ہے کہ نفس شریف اور قیمتی اور اچھائیوں کا مبدا ہے اس کے بڑھانے اور پرورش اور تربیت میں کوشش کرنی چاہئے یہ اس کے اعلی مرتبے کی طرف اشارہ ہے اور جب یہ کہا گیا ہے کہ نفس تیرا دشمن ہے اس پر اعتماد نہ کرو تجھے ہلاکت میں ڈال دے گا اور اسے جہاد اور کوشش کر کے قابو میں رکھ یہ اس کے پست مرتبے کی طرف اشارہ ہے یعنی اس کی حیوانیت کو بتلایا گیا ہے_ جب کہا جاتا ہے کہ نفس کی تربیت اور پرورش کر اس سے مراد انسانی مرتبہ ہوتا ہے اور جب کہا جاتا ہے کہ اس کو سرکوب اور مغلوب کر دے تو اس سے مقصود اس کا پست حیوانی مرتبہ ہوتا ہے_

ان دو مرتبوں اور دو حیثیتوں اور دو وجودوں میں ہمیشہ کشمکش اور جنگ رہتی ہے_ حیوانی مرتبہ کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اپنی خواہشات اور تمینات کو پورا کرنے میں لگا رہے اور قرب الہی اور ترقی اور تکامل سے نفس انسانی کو روکے رکھے اور اسے اپنا غلام بنائے رکھے اس کے برعکس نفس انسانی اور مرتبہ عالی وجود انسانی ہمیشہ کوشش میں رہتا ہے کہ کمالات انسانی کے اعلی مراتب طے کرے اور قرب الہی کی مقام پر فائز

۱۵

ہوجائے اس مقام تک پہنچنے کے لئے وہ خواہشات اور تمایلات حیوانی کو قابو میں کرتا ہے اور اسے اپنا نوکر اور غلام بنا لیا ہے اس کشمکش اورجنگ میں ان دو سے کون دوسرے پر غلبہ حاصل کرتا ہے اگر روح انسان اور ملکوتی نے غلبہ حاصل کر لیا تو پھر انسانی اقدار زندہ ہوجائیں گی اور انسان قرب الہی کے بلند مرتبے اور قرب الہی تک سیر و سلوک کر تا جائیگا اور اگر روح حیوانی اور حیثیت بہیمی نے غلبہ حاصل کر لیا تو پھر عقل کا چراغ بچھ جائیگا اور وہ اسے گمراہی اور ضلالت کی وادی میں دھکیل دے گا اسی لئے پیغمبر آئے ہیں کہ انسان کو اس مقدس جہاد اورجنگ میں حتمی اور یقینی مدد میں_

۱۶

انسانی ارزش

انسان کی دو حیثیتیں اور دو وجود ہیں ایک وجود انسانی اور ایک وجود حیوانی_ انسان کی قدر اور قیمت انسانی وجود سے ہے اور حیوانی وجود سے نہیں ہے_ حیوانی وجود تو اس کا طفیلی ہے اور در حقیقت وہ کچھ بھی نہیں ہے_ گر چہ انسان حیوان تو ہے ہی اور اسے حیوانی وجود کے لئے اس کے لوازم زندگی حاصل کرنے کو اہمیت دینی بھی چاہئے_ لیکن انسان اس دنیا میں اس لئے نہیں آیا کہ وہ حیوانی زندگی بسر کرے بلکہ انسان اس اس جہان میں اسلئے آیا ہے کہ وہ اپنی حیوانی زندگی سے انسان زندگی کی تکمیل کرے اور اس حیوانی زندگی سے انسان زندگی کا فائدہ حاصل کرے انسان دونوں انسانی حیوانی زندگی میں کئی ایک چیزوں کا محتاج ہوتا ہے کہ جن کے تقاضے خود اس کے وجود میں رکھ دیئے گئے ہیں_ اس لحاظ سے کہ وہ ایک حیوان ہے اور نامی ہے پانی غذا مکان لباس ہوا محتاج ہے تا کہ وہ زندہ رہے پانی اور غذا کا محتاج اور اس لحاظ سے کہ ان کو پورا کرے اسے تلاش اور کوشش کرنی ہوتی ہے_ بھوک پیاس لذت پانی اور غذا کی طلب یہ اس کے وجود میں رکھ دی گئی ہوئی ہیں اور اس لحاظ سے کہ نسل انسانی باقی رہے جنسی غریزہ اور بیوی کی طرف میلان اس کے وجود میں رکھ دیا گیا ہے_ انسان

۱۷

اپنے باقی رہنے کا علاقمند ہوتا ہے زندگی کے باقی رکھنے میں حیوانی زندگی اور اس کے آثار کا پابند ہے جب غذا کو دیکھتا ہے اور بھوک کا احساس کرتا ہے تو غذا کھانے کی طرف میلان پیدا کرتا ہے اور اپنے آثار سے کہتا ہے کہ مجھے غذا حاصل کرنی چاہئے اور اسے کھانا چاہئے اور اس کے حاصل کرنے میں کوئی مانع آڑے آرہا ہو تو اس سے مقابلہ کرتا ہے_ یقینا ایسا احساس پر انہیں ہے کیونکہ اپنی زندگی کے دوام کے لئے انسان کو کام کرنا چاہئے تا کہ کھائے اور پیئے_ اسلام میں نہ صرف اس سے روکا نہیںگیا بلکہ اس کی سفارش بھی کی گئی ہے_ لیکن اس مطلب کو بھی جاننا چاہئے کہ حیوانی زندگی اخروی زندگی کا مقابلہ اور تمہید ہے یہ خود انسان کی خلقت کی غرض نہیں ہے بلکہ یہ طفیلی ہے اصیل نہیں ہے_ اگر کسی نے حیوانی زندگی کو ہی اصل اور ہدف قرار دے دیا اور دن رات خواہشات و تمینات حیوانی زندگی میں لگا رہا اور اس کی کوشش اور تلاش کرتا رہا اور اپنی زندگی کا ہدف خورد و نوش پہننا اور آرام کرنا اور شہوت رانی اور غرائز حیوانی کا پورا کرنا قرار دے دیا تو وہ ضلالت اور گمراہی میں ہی جا پڑے گا_ کیونکہ اس نے ملکوتی روح اور عقل انسانی کو حاکمیت سے دور کر کے فراموشی کے خانے میں ڈال دیا ہے ایسے شخص کو انسان شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ وہ ایک حیوان ہے جو انسان کی شکل و صورت میں ہے_ اس کے پاس عقل ہے لیکن وہ ایسی دور ہوئی ہے کہ جس سے انسانی کمالات اور فضائل کو نہیں پہچان رہا وہ کان اور آنکھ رکھتا ہے لیکن حقایق اور واقعات کو نہیں سنتا اور نہیں دیکھتا_ قرآن ایسے انسان کو حیوان بلکہ اس سے بھی گمراہ تر جانتا ہے کیونکہ حیوان تو عقل ہی نہیں رکھتا لیکن ایسا شخص عقل رکھتا ہے اور نہیں سمجھتا _

قرآن مجید میں ہے کہ '' اے پیغمبر اگر تیری دعوت کو قبول نہیں کرتے تو سمجھ لے کہ یہ لوگ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں اور کونسا شخص اس سے گمراہ تر ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے اور اللہ تعالی ظالموں کو بھی ہدایت نہیں کر ے گا_(۲۵) قرآن مجید فرماتا ہے _ کہ ''ہم نے بہت سے جنات اور انسان جہنم کے لئے پیدا کئے ہیں کہ وہ اپنے سوء اختیار سے جہنم میں جائیں گے_

۱۸

اس واسطے کہ ان کے پاس دل تو ہو لیکن اس سے سمجھتے نہیں_ آنکھیں رکھتے ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں_ کان رکھتے ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں یہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گمراہ ترین یہ غافل ہیں_(۲۶)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' وہ شخص کہ جس نے خواہشات نفس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے با وجودیکہ وہ عالم ہے لیکن خدا نے اسے گمراہ کر رکھا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہرلگادی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں آپ نے دیکھا؟ کہ سوائے خدا کے اسے کون ہدایت کرے گا؟ وہ کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتا_(۲۷)

کون سا شخص اس سے بدبخت تر ہے جو ملکوتی نفس اور اپنی انسانی سعادت اور کمالات کو خواہشات نفس اور حیوانی زندگی پر قربان کر دیتا ہے؟ اور نفس انسانی کو حیوانی لذات کے مقابلے فروخت کر دیتا ہے؟

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''کہ خسارت میں وہ شخص ہے جو دنیا میں مشغول ہے اور اخروی زندگی کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ رہا ہے_(۲۸)

آپ نے فرمایا '' اپنے نفس کو پست کاموں سے روکے رکھ گرچہ تجھے ان امور کی طرف رغبت ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ جتنا تو اپنے نفس کو اس میں مشغول رکھتا ہے اس کا تجھے کوئی عوض حاصل نہ ہوگا_

اپنے آپ کو دوسروں کا غلام نہ بنا جب کہ خدا نے تجھے آزاد خلق کیا ہے_ وہ خیر جو شر کے وسیلے سے حاصل ہو وہ خیر نہیں ہے اور گشایش حاصل نہیں ہوتی مگر سختی کے ذریعے سے_(۲۹) _

آپ نے فرمایا '' وہ بری تجارت ہے کہ جس میں تو اپنے نفس کو اس کی قیمت قراردے اور جو تیرا ثواب اور اجر اللہ کے ہاں موجود ہے اسے اس تجارت کا عوض قرار دے دے_(۳۰)

انسان فقط حیوانی وجود کا خلاصہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک انسانی وجود بھی رکھتا ہے اسی حیثیت سے وہ جوہر مجرد اور ملکوتی موجود ہے جو عالم قدس سے آیا ہے اور حیوانی

۱۹

خواہشات کے علاوہ بھی ارزش رکھتا ہے _ اگر انسان اپنی باطنی ذات اور ملکوتی روح میں فکر کرے اور اپنے آپ کو خوب پہچانے اور مشاہدہ کرے کہ وہ عالم قدرت و کرامت علم و رحمت وجود نور و احسان خیر و عدالت خلاصہ عالم کمال سے آیا ہے اور اسی عالم سے سنخیت اور مناسب رکھتا ہے_ تو اس وقت انسان ایک اور دید سے ایک اور عالم کو دیکھے گا اور کمال مطلق کو نگاہ کرے گا اور اسی عالم کی صفات سے علاقمند ہوگا اور اس گران بہار سرمایہ کیوجہ سے اپنے حیوانیت کے پست مرتبے سے حرکت کرے گا تا کہ کمال کے مدارج کے راستے طے کرے اور مقام قرب الہی تک جاپہنچے یہ وہ صورت ہے کہ اس کے سامنے اخلاقی اقدر واضح ہوجائیں گی اگر اخلاق اقدار مثل علم احسان، خیر خواہی، ایثار، عدالت جو دو سخا محروم طبقے کی حمایت سچائی امانتداری کا خواہشمند ہوا تو اس لحاظ سے اپنے آپ کو عالم کمال سے دیکھے گا اور ایسے مراتب اور اقدار کو اپنے انسانی بلند مقام کے مناسب پائیگا اور اسے اسی وجہ سے دوست رکھے گا یہاں تک کہ حاضر ہو گا کہ وہ حیوانی وجود اور اس کی خواہشات کو اس بلند مقام تک پہنچنے کے لئے قربان کر دے_

اخلاق اقدار اور مکارم روحانی اور معنوی جو ملکوتی روح انسان سے متناسب ہیں کہ ایک سلسلہ کا نام ہے اور انسان کمال تک پہنچنے کے لئے ان کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے_

اور اپنے آپ سے کہتا ہے کہ مجھے انہیں انجام دینا چاہئے اور اخلاقی انجام دی جانے والی اشیاء کا سرچشمہ شرافت اور کرامت نفس ہوا کرتا ہے_ اور کمال روحانی اور بلندی مقام تک پہنچنے کے لئے بجا لایا جاتا ہے_ جب انسان یہ کہتا ہے کہ مجھے راہ حق میں ایثار کرنا چاہئے یعنی ایثار تکامل ذات اور بلندی مرتبے کے لئے فائدہ مند ہے اور ضروری ہے کہ ایسے مرتبہ تک پہنچنا چاہئے_ معنوی کمالات تک پہنچنے کا راستہ صرف ایک ہے اور مقام انسان اس اقدار اور ان کی ضد کی پہچان میں مساوی خلق ہوئے ہیں_ اگر انسان اپنی محبوب اور پاک فطرت کی طرف رجوع کرے اور خواہشات اور ہوی

۲۰

مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ بستر میں پر چھا گیا ہے۔ بخدا میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لیے کہ:

1. وہ (مرکز ) باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر۔

2. تم امر حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں ۔

3. وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔

4. وہ اپنے شہروں میں امن برقرار رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو۔

میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤ ، تو ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لےجائے گا۔

امام اس حد تک ان سے خوف محسوس کر رہے ہیں کہ ایک لکڑی کا پیالہ بھی انہیں دیتے ہوئے امن محسوس نہیں کرتے ہیں۔ چہ جائے کہ ان کی اطاعت اور پیروی پر اعتماد کریں۔ یہ مظلومیت امام علی علیہ السلام کی انتہاء ہے۔ اس کے بعد آپ اللہ کے حضور اس طرح شکوہ کرتے ہیں:

اللَّهُمَّ إِنِّي قَدْ مَلِلْتُهُمْ وَ مَلُّونِي وَ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُونِي فَإَبْدِلْنِي بِهِمْ خَيراً مِنْهُمْ وَ إَبْدِلْهُمْ بِي شَرّاً مِنِّي اللَّهُمَّ مِثْ قُلُوبَهُمْ كَمَا يُمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ إَمَا وَ اللَّهِ لَوَدِدْتُ إَنَّ لِي بِكُمْ إَلْفَ فَارِسٍ مِنْ بَنِي فِرَاسِ بْنِ غَنْم‏: هُنَالِكَ لَوْ دَعَوْتَ‏ إَتَاكَ‏ مِنْهُمْ‏ ****** فَوَارِسُ مِثْلُ إَرْمِيَةِ الْحَمِيم

۲۱

اے اللہ! وہ مجھ سے تنگ دل ہو چکے ہیں اور میں ان سے۔ وہ مجھ سے اکتا چکے ہیں اور میں ان سے، مجھے ان کے بدلے میں اچھے لوگ عطا کر او رمیرے بدلے میں انہیں کوئی اور برا حاکم دے۔ خدا یا! ان کے دلوں کو اس طرح (اپنے غضب سے) پگھلا دے جس طرح نمک پانی میں گھول دیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ تمہارے بجائے میرے پاس نبی فراس ابن غنم کے ایک ہی ہزار سوار ہوتے ایسے (جن کا وصف شاعر نے بیان کیا) اگر تم کسی وقت انہیں پکارو، تو تمہارے پاس ایسے سوار پہنچیں جو تیز روئی میں گرمیوں کے ابر کے مانند ہیں۔(16)

امت کے درمیان امام کا وجود چکی میں کیل کی طرح ہےکہ لوگ اس کے ارد گرد نظم و نسق کے ساتھ رہتے ہیں ان میں کوئی بھی اگر اپنی گردش سے منحرف ہو جائے تو اس کا بنیادی ڈھانچہ منہدم ہو جائے گا۔ امام فرماتے ہیں:

وَ إِنَّمَا إَنَا قُطْبُ الرَّحَى‏تَدُورُ عَلَيَّ وَ إَنَا بِمَكَانِي فَإِذَا فَارَقْتُهُ‏ اسْتَحَارَ مَدَارُهَا وَ اضْطَرَبَ ثِفَالُهَا هَذَا لَعَمْرُ اللَّهِ الرَّإيُ السُّوءُ

میں چکی کے اندر کا وہ قطب ہوں جس کے گرد چکی گھومتی ہے جب تک میں اپنی جگہ پر ٹھہرا رہوں اور اگر میں نے اپنا مقام چھوڑ دیا ، تو اس کے گھومنے کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا۔ خدا کی قسم یہ بہت برا مشورہ ہے ۔

امام اور رہبر کی اطاعت اور پیروی امت کو گرداب حوادث میں حیران اور سرگردان ہونے سے بچاتی ہےتاکہ اپنے زمانے اور اس کے حوادث سے انسان امان میں رہیں اور ٹیڑھے راستے پر جانے سے خود کو بچا کے رکھ سکیں، جیسا کہ بنی اسرائیل کے قوم حضرت موسی علیہ السلام کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے حیرانی اور پریشانی کی گرداب میں پھنس گئے۔ امام فرماتے ہیں:

-------------

(16)- ترجمہ مفتی جعفر ص 136 و 137 خ 25

۲۲

لَكِنَّكُمْ تِهتُمْ مَتَاهَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ لَعَمْرِي لَيُضَعَّفَنَ‏ لَكُمُ‏ التِّيهُ‏ مِنْ بَعْدِي إَضْعَافاً بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ وَ قَطَعْتُمُ الْإَدْنَى وَ وَصَلْتُمُ الْإَبْعَدَ وَ اعْلَمُوا إَنَّكُمْ إِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِيَ لَكُمْ سَلَكَ بِكُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُولِ وَ كُفِيتُمْ مَئُونَةَ الِاعْتِسَافِ وَ نَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الْإَعْنَاق‏

تم بنی اسرائیل کی طرح صحرائے تیہ میں بھٹک گئے اور اپنی جان کی قسم میرے بعدتمہاری سرگردانی و پریشانی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ کیونکہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے اور قریبیوں سے قطع تعلق کر لیا اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے ۔ یقین رکھو کہ اگر تم دعوت دینے والے کی پیروی کرتے تو وہ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راستہ پر لے چلتا اور تم بے راہ روی کی زحمتوں سے بچ جاتے اور اپنی گردنوں سے بھاری بوجھ اتار پھینکتے۔ (17)

-----------------

(17)- ترجمہ مفتی جعفر ص 390 خ159

۲۳

ج- رہبر اور عوام کے ایک دوسرے پر حقوق

کسی بھی معاشرے میں امام اور امت کے ایک دوسرے کے اوپر حقوق ہیں، کہ ان کی رعایت کرنے سے وہ معاشرہ ترقی، کمال اور ہمیشہ کی سعادت اور خوشبختی حاصل کر لے گا۔ان حقوق کی دو قسم ہیں: ایک وہ حقوق ہیں جو امام اور رہبر کی نسبت لوگوں کے گردنوں پر ہیں۔ دوسرے وہ حقوق جو معاشرے میں رہنے والوں کی نسبت امام اور رہبر کی گردن پر ہیں یہ امام کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی سعادت کی طرف رہنمائی کرے۔ ایک جگہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

إَيُّهَا النَّاسُ إِنَ‏ لِي‏ عَلَيكُمْ‏ حَقّاً وَ لَكُمْ عَلَيَّ حَقٌّ فَإَمَّا حَقُّكُمْ عَلَيَّ: 1- فَالنَّصِيحَةُ لَكُمْ 2-وَ تَوْفِيرُ فَيئِكُمْ عَلَيكُمْ 3- وَ تَعْلِيمُكُمْ كَيلَا تَجْهَلُوا 4- وَ تَإدِيبُكُمْ كَيمَا تَعْلَمُوا

وَ إَمَّا حَقِّي عَلَيكُمْ 1- فَالْوَفَاءُ بِالْبَيعَةِ2- وَ النَّصِيحَةُ فِي الْمَشْهَدِ وَ الْمَغِيبِ 3- وَ الْإِجَابَةُ حِينَ إَدْعُوكُمْ 4- وَ الطَّاعَةُ حِينَ آمُرُكُم‏

اے لوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے کہ 1- میں تمہاری خیر خواہی کو پیش نظر رکھوں2- اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں، 3- تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو4- اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں جس پر تم عمل کرو ۔

اور میرا تم پر یہ حق ہے کہ 1- بیعت کی ذمہ داریوں کو پوا کرو2- اور سامنے اور پس پشت خیر خواہی کرو۔ 3- جب بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو،4- اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو۔(18)

---------------

(18)- ترجمہ مفتی جعفر ص 158 خ 34

۲۴

ہر چیز سے پہلے جس کی اہمیت زیادہ ہے وہ لوگوں کا امام کے اوامر و نواہی کی اطاعت کرنا ہے۔ اسی اطاعت کے چھاؤں میں سماج میں نظم و نسق برقرار رہے گا، معاشرہ دشمنوں کی کھلے اور چھپے حملوں سے محفوظ رہے گا۔ فرمان امام علیہ السلام کے آخری دونوں جملے اسی مطلب کو بیان کر رہے ہیں۔ یہی بے چون و چرا اطاعت معاشرے کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ معاشرے کی نشو ونما کرے گا۔ اور یہی اطاعت معاشرے کو دشمنوں کی شر سے محفوظ رکھنے کی ضامن ہے۔اسی اطاعت کے سائے میں دشمنوں کے منحوس عزائم سے پردہ اٹھ جائے گا اور ان کے نقشوں کا شکست فاش ہوگا۔

دوسری جانب اس اطاعت اور پیروی ہی کی برکت سے معاشرہ ترقی کرے گا۔ لوگوں کے لیے ترقی کی راہیں کھل جائیں گی۔ علمی چوٹیاں سر ہوں گی۔ انسانوں کا تزکیہ بھی اسی اطاعت کے اندر ہے؛ وہی تزکیہ جس کے انجام دہی پر انبیاء علیہم السلام مامور تھے اور اہداف نبوت و رسالت میں سے ایک یہی تھا:

﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ﴾

وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔(21)

واضح ہے کہ تعلیم او رتزکیہ اہداف رسالت میں سے دو اہم ہدف ہیں کہ جو آیت میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ امام علی علیہ السلام کا وہ فرمان جس میں آپ امام کے اوپر لوگوں کے حقوق کو بیان فرما رہے ہیں ٹھیک اسی نکتہ کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ لوگوں کو تعلیم سکھانے اور ان کی تربیت کرنے کے علاوہ تزکیہ بھی امام پر ضروری ہے۔

--------------

(21)- سورہ جمعہ : 2

۲۵

اس بنا پر امام اور رہبر کی اطاعت کرنا حقیقت میں ان دو اہم اہداف کی حفاظت کرنا ہے:

الامامة نظاما للامة و الطاعة تعظيما للامامة

امامت امت کا نظام درست رکھنے کے لیے ہے اور اطاعت کو امامت کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔(22)

ان تمام باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ کسی معاشرے کے لیے امام اور رہبرکا ہونا دین اسلام کی ضروریات میں سے ہے۔ اس اہم منصب میں کسی قسم کا شبہہ ایجاد کرنامعاشرے کو تباہی اور بربادی کی کھائی میں دھکیل دینے کا سبب بن سکتا ہے؛ لہذا رہبر کو طاقتور بنانا ہر ایک کی ذمہ داری ہے اوربغیر چون و چرا رہبر اور امام کی اطاعت کے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں ہو گا۔ اگر معاشرے اس اہم ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام رہا تو تباہی کی کنویں میں گر نا یقینی ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرہ اس مشکل میں پھنس گیا ۔ اسلامی معاشرہ ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس کا علاج سالوں بعد بھی ممکن نہ ہو سکا۔

2- اختلاف اور انتشار کا شکار ہونا

اختلاف و انتشار حکومتوں کی بربادی کا ایک اہم سبب ہے۔ اگر لوگوں کے دل کسی بھی سیاسی اور پارٹی رجحان کے با وجود ایک ہو جائیں، زبان پر ایک ہی نعرہ رہے، سب کے ہاتھ ایک ہی مقصد کے لیے اٹھیں ، تو وہاں یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ بنیادی پیشرفت ہوگی اور حکومتی نظام کو بدلا جا سکے گا۔

------------

(22)- حلوانی، حسین بن محمد بن حسن بن نصر، نزہة الناظر و تنبیہ الخاطر ص46

۲۶

اسلام ابتداء ہی سے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتا چلا آیا ہے۔قرآن کریم میں خدا فرماتا ہے:

﴿وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِاللَّهِ جَمِيعاً وَ لاَ تَفَرَّقُو وَ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً وَ كُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ (23)

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔(24)

-------------

(23)- سورہ آل عمران : 103

(24)- شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں : جب یہ حکم آتا ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو تو فوراً ذہنوں میں ایک خطرے کا احساس ہوتا ہے کہ کوئی سیلاب آنے والا ہے، غرق ہونے کا خطرہ ہے، کوئی طوفان آنے والا ہے کہ اس امت کی کشتی کا شیرازہ بکھرنے والا ہے، کوئی آندھی آنے والی ہے جو اس انجمن کو منتشر کر دے۔ اللہ کی رسی کو تھام لو،وَّلَا تَفَرَّقُوْا سے پتہ چلا کہ فرقہ پرستی کس قسم کا سیلاب ہے، کس قدر خطرناک طوفان اور کتنی مہلک آندھی ہے۔ چنانچہ رسولِ اسلامؐ کے بعد سے آج تک ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ اپنے مسلک سے ذرا اختلاف رکھنے والوں کو کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ دین سے زیادہ انہیں مسلک عزیز ہے اور دوسروں کو زیر کرنے کی خاطر اپنے دین تک سے ہاتھ دھونے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔

۲۷

خدا نے سختی کے ساتھ اختلاف اور انتشار سے منع کیا ہے:

﴿وَ لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَ إُولئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾

اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو واضح دلائل آجانے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے اور ایسے لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہو گا ۔(25)

قرآن کریم اتحاد ، اتفاق اور دلوں کے ایک ہونے کو کامیابی اور سعادت کی کنجی کے طور پر بیان کر رہا ہے:

﴿يَا إَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَ صَابِرُوا وَ رَابِطُوا وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾

اے ایمان والو!صبرسے کام لو استقامت کا مظاہرہ کرو، مورچہ بند رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو۔ (26 و 27)

----------------

(25)- سورہ آل عمران : 105

(26)- سورہ آل عمران : 200

(27)- شیخ محسن نجفی فرماتے ہیں: صبر و تحمل ہر تحریک کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، لیکن امت مسلمہ نے ایک جامع نظام حیات کی تحریک چلانی ہے۔ یہ راستہ خون کی ندیوں، مخالف آندھیوں، مصائب کے پہاڑوں اور دوستوں کی لاشوں پر سے گزرتا ہے۔ ساتھ دینے والوں کی قلت، دشمنوں کی کثرت، قریبیوں کی بے وفائی اور دشمنوں کی چالاکی، ساتھیوں کی سہل انگاری اور مدمقابل کی نیرنگی جیسے کٹھن مراحل طے کرنا پڑتے ہیں، لہٰذا اس کے اراکین کے صبر و تحمل کا دائرہ بھی جامع اور وسیع ہونا چاہیے۔ اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لیے بھی صبر درکار ہے۔ بھوک اور ناداری میں بھی مال حرام سے اجتناب، غیظ و غضب، جذبۂ انتقام اور قوت کے باوجود تجاوز اور ظلم سے پرہیز اور دیگر ہر قسم کی خواہشات کا مقابلہ بھی صبر و تحمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اطاعت و فرمانبرداری کی بنیاد بھی صبر ہے۔جب تک صبر و حوصلہ نہ ہو اطاعت رب کا بوجھ اٹھانا ممکن نہ ہو گا۔

۲۸

اختلاف، انتشار، فرقہ واریت، پارٹی بازی، دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف دشمنی اور کینہ توزی مومنوں کی طاقت کو نابود کرنے والی ہیں؛ اسی لیے مومنین کو سفارش کی جارہی ہے کہ اسلام کے پرچم تلے جمع ہو جائیں، خدا اور اس کے رسول کے اوامر کو بے چون چرا مان لیں:

﴿وَ إَطِيعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَ اصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾

اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(28 و 29)

امام علی علیہ السلام کوفہ والوں کی شکست کے اسباب میں سے ایک سبب ان کے درمیان اختلاف، پارٹی بازی،فرقہ واریت اور انتشار کو قرار دے رہے ہیں:

---------------

(28)- سورہ انفال : 46

(29)- اطاعت اور تعمیل حکم۔ دوسرے لفظوں میں تنظیم اور ڈسپلن کو جنگی حکمت عملی میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے جیساکہ تمام عسکری قوانین میں اس بات کو اولیت دی جاتی ہے۔ باہمی نزاع سے احتراز کرنا۔ اگرچہ ہر معاشرے کو اتحاد کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے تاہم اس کی ضرورت جنگ میں زیادہ ہوتی ہے ۔ باہمی نزاع اطاعت اور قیادت کے فقدان کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ (بلاغ القرآن - شیخ محسن علی نجفی)

۲۹

إَلَا وَ إِنَّكُمْ قَدْ نَفَضْتُمْ إَيدِيَكُمْ‏ مِنْ‏ حَبْلِ‏ الطَّاعَةِ وَ ثَلَمْتُمْ حِصْنَ اللَّهِ الْمَضْرُوبَ عَلَيكُمْ بِإَحْكَامِ الْجَاهِلِيَّةِ فَإِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ قَدِ امْتَنَ‏ عَلَى جَمَاعَةِ هَذِهِ الْإُمَّةِ فِيمَا عَقَدَ بَينَهُمْ مِنْ حَبْلِ هَذِهِ الْإُلْفَةِ الَّتِي يَنْتَقِلُونَ فِي ظِلِّهَا وَ يَإوُونَ إِلَى كَنَفِهَا بِنِعْمَةٍ لَا يَعْرِفُ إَحَدٌ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ لَهَا قِيمَةً لِإَنَّهَا إَرْجَحُ مِنْ كُلِّ ثَمَنٍ وَ إَجَلُّ مِنْ كُلِّ خَطَرٍ وَ اعْلَمُوا إَنَّكُمْ صِرْتُمْ بَعْدَ الْهِجْرَةِ إَعْرَاباً وَ بَعْدَ الْمُوَالاةِ إَحْزَابا مَا تَتَعَلَّقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا بِاسْمِهِ وَ لَا تَعْرِفُونَ مِنَ الْإِيمَانِ إِلَّا رَسْمَه‏

دیکھو تم نے اطاعت کے بندھنوں سے اپنے ہاتھوں کو چھڑا لیا اور زمانہ جاہلیت کے طور و طریقوں سے اپنے گرچ گچھے ہوئے حصار میں رخنہ ڈال دیا۔ خدا وند عالم نے اس امت کے لوگوں پر اس نعمت بے بہا کے ذریعہ سے لطف و احسان فرمایا کہ جس کی قدر و قیمت کو مخلوقات میں سے کوئی نہیں پہچانتا؛ کیونکہ وہ ہر (ٹھہرائی ہوئی) قیمت سے گراں تر اور ہر شرف و بلندی دے بالا تر ہے۔ اور وہ یہ کہ ان کے درمیان انس و یکجہتی کا رابطہ (اسلام) قائم کیا کہ جس کے سایہ میں وہ منزل کرتے ہیں او رجس کے کنار (عاطفیت) میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ جانے رہو کہ تم (جہالت و نادانی) کو خیر باد کہہ دینے کے بعد پھر صحرائی بدو اور باہمی دوستی کے بعد پھر مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہو۔ اسلام سے تمہارا واسطہ نام کو رہ گیا ہے اور ایمان سے چند ظاہری لکیروں کے علاوہ تمہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ (30)

--------------

(30)- ترجمہ مفتی جعفر ص 466 خ 190 خطبہ قاصعہ۔

۳۰

امام علیہ السلام نے اپنے اس نورانی کلام میں امت مسلمہ اور کوفہ والوں کی انحراف اور نابودی کے بعض اسباب و عوامل کی طرف اشارہ فرمایا:

1. امام اور رہبر کی اطاعت نہ کرنا۔

2. جاہلیت کے طور طریقوں کو زندہ کرنا اور اسلامی اقدار کو پامال کرنا۔

3. برادری اور یکجہتی کی نعمت کو کھو دینا۔

4. پارٹی بازی اور فرقہ واریت کو فروغ دینا۔

5. اسلام کے اقدار کو نابود کر کےصرف نام کو باقی رکھنا۔

ان علتوں میں ہر ایک زنجیر کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تعجب کا مقام وہ ہے جہاں اہل حق اپنے حق اور حقانیت کی دفاع میں انتشار اور اختلاف کے شکار ہیں جبکہ باطل والے اپنے باطل کی حمایت میں متحد ہیں۔یہ غم بہت ہی دردناک ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے زبان سے کئی مرتبہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے سنا گیا ہے:

فَيَا عَجَباً عَجَباً وَ اللَّهِ‏ يُمِيتُ‏ الْقَلْبَ‏ وَ يَجْلِبُ الْهَمَّ مِنَ اجْتِمَاعِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ عَلَى بَاطِلِهِمْ وَ تَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ فَقُبْحاً لَكُمْ وَ تَرَحاً حِينَ صِرْتُمْ غَرَضاً يُرْمَى يُغَارُ

العجب ثم العجب خدا کی قسم ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہارے جمعیت کا حق سے منتشر ہوجانا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے تم تو تیروں کا از خود نشانہ بنے ہوئے ہو۔

بسر بن ارطات کے یمن پر غلبہ پانے کی خبریں سننے کے بعد آپ نے پھر ارشاد فرمایا کہ : میں جانتا تھا کہ شامی تم پر غالب آئیں گے؛ کیونکہ وہ اپنے باطل کی حمایت پر متحد ہیں جبکہ تم اپنے حق کی دفاع میں اختلاف او رانتشار کا شکار ہو۔(31)

------------

(31)- ترجمہ مفتی خ 25

۳۱

اس بنا پر کامیابی اور فتح کی علت لوگوں کا کم یا زیادہ ہونا نہیں ہے بلکہ مقصد اور ہدف کے راہ میں یکجہت اور متحد ہونا ہے۔ امام ایک جگہ فرماتے ہیں:

وَ الْعَرَبُ‏ الْيَوْمَ‏ وَ إِنْ‏ كَانُوا قَلِيلًا فَهُمْ كَثِيرُونَ بِالْإِسْلَامِ عَزِيزُونَ بِالاجْتِمَاعِ فَكُنْ قُطْباً وَ اسْتَدِرِ الرَّحَى بِالْعَرَب‏ وَ إَصْلِهِمْ دُونَكَ نَارَ الْحَرْب‏

آج عرب والے اگر چہ گنتی میں کم ہیں مگر اسلام کی وجہ سے وہ بہت ہیں ا وراتحاد باہمی کے سبب سے (فتح و) غلبہ پانے والے ہیں تم اپنے مقام کھونٹی کی طرح جمے رہو اور عرف کا نظم و نسق بر قرار رکھو اور ان ہی کو جنگ کی آگ کا مقابلہ کرنے دو۔(32)

خدا نے ایمان کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک کر دیاجو کسی کی بس کی بات نہیں تھی اپنے رسول سے فرما رہا ہے:

﴿وَ إَلَّفَ بَينَ قُلُوبِهِمْ لَوْ إَنْفَقْتَ مَا فِي الْإَرْضِ جَمِيعاً مَا إَلَّفْتَ بَينَ قُلُوبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللَّهَ إَلَّفَ بَينَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾

اور اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی ہے، اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کرتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن اللہ نے ان (کے دلوں) کو جوڑ دیا، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ (33)

--------------------

(32)- ترجمہ مفتی جعفر ص 340 خ 144

(33)- سورہ مبارکہ انفال : 63

۳۲

اتحاد و یکجہتی ایک ایسی عظیم نعمت ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کو عطا کیا ہے، اور مسلمانوں کو بھی چاہیئے کہ اس نعمت کی قدر کریں اور کسی بھی قیمت پر اسے ہاتھ سے جانے نہ دیں:

﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَإَزِيدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾

اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔ (34 و 35)

3- دنیا داری

دنیا اور اس کی تجلیات و تجملات کی طرف رخ کرنا، دولت جمع کرنا ان عوامل و اسباب میں سےایک ہے جو کسی بھی حکومت کی نابودی اور مٹ جانے کا سبب بنتا ہے۔ دنیا پرستی یا سیکولرازم دو قسم کے بنیادی اور کلیدی افراد کے پاس پائی جاتی ہے:

الف : کمیونٹی رہنماؤں اور سیاستدانوں کی دنیا طلبی

اگر معاشرے کے رہنما او رحکمراں طبقہ دنیا پرستی میں مبتلا ہوگئے تو سماج میں رہنے والے اور رہنما کے درمیان ایک خلیج ایجاد ہو جائے گا؛ اس وقت معاشرے کے کمزور طبقہ ان کو اپنے سے الگ سمجھیں گے اور اس کی حمایت اور مدد سے ہاتھ اٹھا لیں گے، دوسری طرف سے یہ منحوس صفت ایسے لوگوں کو وجود میں لائے گی جو کبھی بھی معاشرے کے کمزور طبقہ کی مصیبت اور درد کو نہیں سمجھیں گے۔

---------------

(34)- سورہ مبارکہ ابراہیم : 7

(35)- شکر کی صورت میں زیادہ کے وعدے کو تاکیدی لفظوں لام اور نون تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ شکر کی صورت میں اضافہ و فراوانی اللہ کا ایک لازمی قانون ہے، جو خود اپنی جگہ ایک رحمت ہے۔ جبکہ نا شکری کی صورت میں عذاب کے لیے تاکیدی الفاظ اختیار نہیں فرمائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کفرانِ نعمت کی صورت میں عذاب ایک لازمی قانون نہیں ہے اور یہاں عفو کے لیے گنجائش ہے۔ اسی لیےلَاَزِيْدَنَّكُمْ فرمایا،لاعذبنکم نہیں فرمایا۔ نعمتوں پر شکر کرنا ایک صحیح طرز فکر، متوازن سوچ اور اعلیٰ قدروں کا مالک ہونے کی دلیل ہے۔ ایسے لوگ نعمتوں کی قدر دانی کرتے ہیں۔ شیخ محسن علی نجفی؛ بلاغ القرآن۔

۳۳

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت علیہ السلام اور باقی ائمہ علیہم السلام کا دنیا داری سے بچ کر غریبوں مسکینوں اور فقیروں کے ساتھ رہنا تنگدستی اور پیسہ نہ ملنے کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ کمزور اور ناتوان لوگوں کی مصائب کو سمجھنے کے لیے تھا۔ قرآن کریم کبھی کسی قوم کے لالچی حکمران کو "ملاء " کہ کر خطاب کر رہا ہے اور انہیں طغیان گری اور کفر و نفاق کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے:

﴿و قَالَ الْمَلَإُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَ إَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هٰذَا إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَإكُلُ مِمَّا تَإكُلُونَ مِنْهُ وَ يَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ﴾

اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے جو آخرت کی ملاقات کی تکذیب کرتے تھے اور جنہیں ہم نے دنیاوی زندگی میں آسائش فراہم کررکھی تھی کہا : یہ تو بس تم جیسا بشر ہے، وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔(36)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے حضور فریاد کر رہے ہیں:

﴿ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَإَهُ زِينَةً وَ إَمْوَالاً فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى إَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلاَ يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْإَلِيمَ﴾

اے ہمارے پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیاوی زندگی میں زینت بخشی اور دولت سے نوازا ہے پروردگارا! کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ (دوسروں کو ) تیری راہ سے بھٹکائیں؟ پروردگارا ان کی دولت کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ یہ لوگ دردناک عذاب کا سامنا کرنے تک ایمان نہ لائیں۔ (37)

---------------

(36)- سورہ مومنون : 33

(37)- سورہ مبارکہ یونس :88

۳۴

دوسرا لفظ جسے قرآن نے دنیا پرست رہنماؤں کے لیے استعمال کیا وہ "مترف یعنی عیاش" اور اس کے دیگر مشتقات ہیں۔ جیسے :سورہ سبأ آیت 34 اور 35 میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ مَا إَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلاَّ قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا إُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ وَ قَالُوا نَحْنُ إَكثَرُ إَمْوَالاً وَ إَوْلاَداً وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ﴾

اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگریہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے: جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔ اور کہتے تھے: ہم اموال اور اولاد میں بڑھ کر ہیں ہم پر عذاب نہیں ہو گا۔

اسی طرح سورہ اسراء آیت نمبر 16 میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ إِذَا إَرَدْنَا إَنْ نُهلِكَ قَرْيَةً إَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيراً﴾

اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر فیصلہ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔(38)

امام علی علیہ السلام بھی اپنے گورنروں اور والیوں سمیت تمام کارکنوں کو عیاشی، دنیا پرستی، سیکولرازم اور اشرافیت سے نہی فرماتے تھے، اور ان کاموں میں ہمیشہ ان کے اوپر نگراں رہتے تھے ۔ اپنے کسی والی -عثمان بن حنیف - کے نام خط میں لکھتے ہیں :

----------------

(38)- شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں: قرآن کے مطابق ہر قوم کی تباہی اس کے مراعات یافتہ طبقہ مترفین کی طرف سے آتی ہے، وہ تمام تر وسائل اور سہولیات کو اپنا حق تصور کرتے ہیں اور محروم طبقہ کے حقوق کو پامال کرتے ہیں۔ یہاں سے بقائے باہمی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور قومیں ہلاکت کا شکار ہو تی ہیں۔

۳۵

إَمَّا بَعْدُ يَا ابْنَ حُنَيفٍ فَقَدْ بَلَغَنِي‏ إَنَ‏ رَجُلًا مِنْ‏ فِتْيَةِ إَهلِ‏ الْبَصْرَةِ دَعَاكَ إِلَى مَإدُبَةٍ فَإَسْرَعْتَ إِلَيهَا تُسْتَطَابُ لَكَ الْإَلْوَانُ وَ تُنْقَلُ إِلَيكَ الْجِفَانُوَ مَا ظَنَنْتُ إَنَّكَ تُجِيبُ إِلَى طَعَامِ قَوْمٍ عَائِلُهُمْ مَجْفُوٌّ وَ غَنِيُّهُمْ مَدْعُوٌّ فَانْظُرْ إِلَى مَا تَقْضَمُهُ‏ مِنْ هَذَا الْمَقْضَم فَمَا اشْتَبَهَ عَلَيكَ عِلْمُهُ فَالْفِظْهُ وَ مَا إَيقَنْتَ بِطِيبِ وُجُوهِهِ فَنَلْ مِنْه‏

اے ابن حنیف! مجھے یہ اطلاع ملی ہے بصرہ کے جوانوں میں سے ایک شخص نے تمہیں کھانے پر بلایا اور تم لپک کر پہنچ گئے کہ رنگا رنگ کے عمدہ عمدہ کھانے تمہارے لیے چن چن کر لائے جا رہے تھے اور بڑے بڑے پیالے تمہاری طرف بڑھائے جا رہے تھے۔ مجھے امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن کے یہاں سے فقیر و نادار دھتکارے گئے ہوں اور دولت مند مدعو ہوں۔ جو لقمے چباتے ہو انہیں دیکھ لیا کرو، اور جس کے متعلق شبہ بھی اسے چھوڑدیا کرو اور جس کے پاک و پاکیزہ طریق سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کھاؤ۔(39)

اس کے بعد امام علیہ السلام اپنی پاک سیرت کو بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:

تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہر مقتدی کا ایک پیشوا ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے، اور جس کے نور علم سے کسب ضیاء کرتا ہے۔ دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس دنیا کے ساز و سامان میں سے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تمہارے بس کی یہ بات نہیں۔ لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو۔ خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا او رنہ اس کی مال و متاع میںسے انبارجمع کر رکھے ہیں، اور نہ ان کپڑوں کے بدلے میں (جو پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پرانا کپڑا میں نے مہیا کیا ہے۔(40)

--------------

(39)- ترجمہ مفتی جعفر ص 361 مکتوب 45

(40)- ایضا ص 362

۳۶

اس کے بعد امام فرماتے ہیں:

اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد، عمدہ گیہوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کے لیے ذرائع مہیا کر سکتا تھا لیکن ایسا کہاں ہوسکتا ہے کہ خواہشیں مجھے مغلوب بنالیں، اور حرص مجھےاچھے اچھے کھانوں کے چن لینے کی دعوت دے جبکہ حجاز و یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں کہ جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی بھی آس نہ ہو، اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہوا ہو۔ کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہا ہوں؟ در آنحالیکہ میرے گرد و پیش بھوک اور پیا سے جگر تڑپتے ہوں یا میں ویسا ہو جاؤن جیسے کہنے والے نے کہا کہ تمہاری بیماری یہ کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کو ترس رہے ہوں، کیا میں اسی میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنین کہا جاتا ہے مگر میں زمانہ کی سختیوں میں مومنوں کا شریک و ہمدم اور زندگی کے بد مزگیوں میں ان کے لیے نمونہ نہ بنوں! میں اس لیے پیدا نہیں ہوا ہوں کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہوں۔ اس بندھے ہوئے مغلوب چوپایہ کی طرح جسے صرف پنے چارے ہی کی فکر لگی رہتی ہے یا اس کھلے ہوئے جانور کی طرح جس کا کام منہ مارنا ہوتا ہے، وہ گھاس سے پیٹ بھر لیتا ہے اور جو اس سے مقصد پیش نظر ہوتا ہے اس سے غافل رہتا ہے کیا میں بے قید و بند چھوڑ دیا گیا ہوں؟ یا بیکار کھلے بندوں رہا کر دیا گیا ہوں کہ کمراہی کی رسیوں کو کھینچتا رہوں اور بھٹکے جگہوں میں منہ اٹھائے پھرتا رہوں؟(41)

------------------

(41)- ایضا ص 363

۳۷

امام علیہ السلام کے اس نورانی کلام میں غور و فکر کرنا اسلامی معاشرے کے حکمرانوں کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مولا کی پیروی کرتے ہوئے دنیا کی زیب و زینت اور تجملات سے پرہیز کریں، ان لوگوں کی بھی فکر کریں جن کے پاس کھانے کے لیے روٹی کا ایک نوالہ بھی نہیں ہے؛ اس صورت میں حکمرانوں کی انسانی جذبہ میں طوفان آئے گا اور معاشرے کی مشکلات کو حل کرنے کی فکر میں پڑیں گے۔ اسی خط میں امام علیہ السلام دنیا کی مکر اور دھوکہ بازی کو بھی بیان کرتے ہیں اور اپنے حکمرانوں سے فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں کے حالات پر غور و فکر کریں جوزمین کےاندر دفن ہو چکے ہیں اور اپنی دنیا کو دوسروں کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ اس کے بعد امام علیہ السلام دنیا داری سے دور رہنے کی سخت تاکید کرتے ہیں اور دنیا پرستوں کو وارننگ دیتے ہیں۔ ساتھ ہی دنیا میں اپنی حالت کو بھی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح آپ ؑ نے دنیا کی مہار کو اپنے ہاتھ میں لیا نہ کہ اپنی مہار کو دنیا کے ہاتھ میں دیا۔ اور آخر میں عثمان بن حنیف کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَاتَّقِ اللَّهَ يَا ابْنَ حُنَيفٍ وَ لْتَكفُفْ إَقْرَاصُكَ لِيَكُونَ مِنَ النَّارِ خَلَاصُك‏

پس اللہ سے ڈرو اے ابن حنیف!اور اپنی روٹی کے نوالوں پر بس کرو تا کہ تو دوزخ کی آگ سے بچ سکے۔

دنیا کی زینتوں کی طرف دل لبھاناذاتی نقصانات اور برے اثرات کے علاوہ سماج میں اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جو انسان دنیا پرست بن جائے وہ خود کو تباہ و برباد کرنے کے علاوہ معاشرہ کو بھی تباہ و بربادی کے کنویں میں دھکیل دے گا، امام علیہ السلام مالک اشتر کے عہد نامہ میں لکھتے ہیں:

۳۸

فَإِنَّ الْعُمْرَانَ مُحْتَمِلٌ مَا حَمَّلْتَه‏ وَ إِنَّمَا يُؤْتَى‏ خَرَابُ‏ الْإَرْضِ‏ مِنْ إِعْوَازِ إَهلِهَا وَ إِنَّمَا يُعْوِزُ إَهلُهَا لِإِشْرَافِ إَنْفُسِ الْوُلَاةِ عَلَى الْجَمْعِ وَ سُوءِ ظَنِّهِمْ بِالْبَقَاءِ وَ قِلَّةِ انْتِفَاعِهِمْ بِالْعِبَرِ

کیونکہ ملک آباد ہے تو جیسا بوجھ اس پر لا دوگے، وہ اٹھالے گا اور زمین کی تباہی تو اس سے آتی ہے کہ کاشتکاروں کے ہاتھ تنگ ہو جائیں اور ان کی تنگ دستی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ حکام مال و دولت کو سمیٹنے پر تل جاتے ہیں اور انہیں اپنے اقتدار کے ختم ہونے کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور عبرتوں سے بہت کم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔(42)

امام علیہ السلام اپنی پوری حکومت کے کے دوران دنیا کی مذمت اور آپ کے دنیا سے تعلق کے علاوہ اپنے گورنروں او رحکمرانوں کو بھی دنیا کی زینتوں او ررنگینیوں سے دور رہنے کی تاکید فرماتے تھے، اور انہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طرز زندگی کی یاد دہانی فرماتے تھے۔(43)

----------------

(42)- ترجمہ مفتی جعفر ص 459 مکتوب 53

(43)- ایضا ص 373 خ 159

۳۹

ب: سماج میں رہنے والے عام لوگوں کی دنیا پرستی

یہ بات واضح ہے کہ صرف حکمرانوں، گورنروں اور صاحب اقتدار لوگوں کی دنیا کی طرف رغبت اور تمایل مذموم نہیں ہے بلکہ اس مشکل میں اگر امت مسلمہ بھی پڑ جائے تو بھی حکومتیں ہی نابود اور برباد ہوں گی۔

حضرت علی علیہ السلام خطبہ 131 میں لوگ اور معاشرے کی تباہی کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَ تَعَادَيْتُمْ‏ فِي‏ كَسْبِ‏ الْأَمْوَالِ‏

اور مال کے کمانے پر ایک دوسرے سے دشمنی رکھتے ہو۔(44)

اگر کوئی امت دنیا پرستی میں مبتلاء ہونے کے بعد متزلزل ہو جائے اور پر معنی بلندیوں کو سر کرنے کے بجائے ذلت و پستی کے گہرائی کھائی میں گر پڑے تو آپ ع کی نظر میں وہ امت کبھی بھی فلاح و سعادت حاصل نہیں کر سکے گی:

فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ تَغَيَّرَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ‏ عَنْ‏ كَثِيرٍ مِنْ حَظِّهِمْ فَمَالُوا مَعَ الدُّنْيَا وَ نَطَقُوا بِالْهَوَى وَ إِنِّي نَزَلْتُ مِنْ هَذَا الْإَمْرِ مَنْزِلًا مُعْجِبا اجْتَمَعَ بِهِ إَقْوَامٌ إَعْجَبَتْهُمْ إَنْفُسُهُمْ وَ إَنَا إُدَاوِي مِنْهُمْ قَرْحاً إَخَافُ إَنْ يَكُونَ عَلَقاً

کتنے ہی لوگ ہیں جو آخرت کی بہت سی سعادتوں سے محروم ہو کر رہ گئے ۔ وہ دنیا کے ساتھ ہو لیے۔ خواہش نفسانی سے بولنے لگے۔ میں اس معاملے میں ایک حیرت و استعجاب کی منزل میں ہوں کہ جہان ایسے لوگ اکھٹے ہوں گے جو خود بینی، اور خود پسندی میں مبتلا ہیں۔ میں ان کے زخم کا مداوا تو کر رہا ہوں مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ منجمد خون کی صورت اختیار کر کے لا علاج نہ ہوئے۔ (45)

----------------

(44)- ترجمہ مفتی جعفر ص 325 خ 131

(45)- ترجمہ مفتی جعفر ص 695 مکتوب 78۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346