خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس16%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119328 / ڈاؤنلوڈ: 5160
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کہا جائیگا کہ اگر ہوسکتا ہے تو دنیا میں واپس چلے جاؤ اور اپنے لئے نور کو حاصل کرو _(۸۸)

قلب روح احادیث میں

دین کے رہبروں اور حقیقی انسان کو پہچاننے والوں نے انسان کی روح اور قلب کے بارے بہت عمدہ اور مفید مطالب بتلائے ہیں کہ ان میں سے بعض کی طرف یہاں اشارہ کیا جاتا ہے کہ بعض احادیث کی بناپر قلب اور روح کو تین گروہ میں تقسیم کیا گیا ہے_ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ''ہم تین طرح کے قلب رکھتے ہیں_ پہلی نوع_ ٹیڑھا قلب جو کسی خیر اور نیکی کے کاموں کو درک نہیں کرتا اور یہ کافر کا قلب ہے_ دوسری نوع وہ قلب ہے کہ جس میں ایک سیاہ نقطہ موجود ہے یہ وہ قلب ہے کہ جس میں نیکی اور برائی کے درمیان ہمیشہ جنگ و جدال ہوتی ہے ان دو میں سے جو زیادہ قوی ہوگا وہ اس قلب پر غلبہ حاصل کریگا_ تیسری نوع قلب مفتوح ہے اس قلب میں چراغ جل رہا ہے جو کبھی نہیں بجھتا اور یہ مومن کا قلب ہے_(۸۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے پدر بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ ''آپ نے فرمایا کہ قلب کے لئے گناہ سے کوئی چیز بدتر نہیں ہے_ قلب گناہ کا سامنا کرتا ہے اور اس سے مقابلہ کرتا ہے یہاں تک کہ گناہ قلب پر غالب آجاتا ہے اور وہ قلب کو ان اور ٹیڑہا کردیتا ہے _(۹۰)

اور امام سجاد علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ '' انسان کی چار آنکھیں ہیں اپنی دو ظاہری آنکھوں سے دین اور دنیا کے امور کو دیکھتا ہے اور اپنی دو باطنی آنکھوں سے ان امور کو دیکھتا ہے جو آخرت سے مربوط ہیں جب اللہ کسی بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کے قلب کی دو باطنی آنکھوں کو کھول دیتا ہے تا کہ اس کے ذریعے غیب کے جہان اور آخرت کے امر کا مشاہدہ کرسکے اور اگر خدا اس کی خیر کا

۴۱

ارادہ نہ کرے تو اس کے قلب کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑ دیتا ہے _(۹۱)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' قلب کے دو کان ہیں ایمان کی روح آہستہ سے اسے کار خیر کی دعوت دیتی ہے اور شیطن آہستہ سے اسے برے کاموں کی دعوت دیتا ہے جو بھی ان میں سے دوسرے پر غالب آجائے وہ قلب کو اپنے لئے مخصوص کرلیتا ہے_(۹۲)

امام صادق علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نقل کیا ہے کہ ''آپ (ص) نے فرمایا کہ سب سے بدترین اندھاپن قلب کا اندھا پن ہے_(۹۳)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان کے قلب میں ایک سفید واضح نقطہ ہوتا ہے اگر گناہ کا ارتکاب کرلے تو اس کے قلب میں سیاہ نقطہ پیدا ہوجاتا ہے اگر اس کے بعد توبہ کرلے تو وہ سیاہ نقطہ مٹ جاتا ہے اور اگر گناہ کرنے پر اصرار کرے تو وہ سیاہ نقطہ آہستہ سے بڑھنے لگ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سفید نقطے کو گھیر لیتا ہے اس حالت میں پھر اس قلب کا مالک انسان نیکیوں کی طرف رجوع نہیں کرتا اور اس پر یہ آیت صادق آجاتی ہے کہ ان کے اعمال نے ان کے قلوب پرغلبہ حاصل کرلیا ہے اور انہیں تاریک کردیا ہے_(۹۴)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جس میں تقوی اور خوف خدا کم ہو اس کا قلب او ردل مرجاتا ہے اور جس کا دل مرجائے وہ جہنم میں داخل ہوگا _(۹۵)

حضرت امیرعلیہ السلام نے اپنے فرزند کو وصیت میں فرمایا کہ ''اے فرزند فقر اور ناداری ایک مصیبت اور بیماری ہے اور اس سے سخت بیماری جسم کی بیماری ہے اور دل کی بیماری جسم کی بیماری سے بھی زیادہ سخت ہے_ مال کی وسعت اللہ تعالی کی ایک نعمت ہے اس سے افضل بدن کا سالم رہنا ہے اور اس سے افضل دل کا تقوی ہے_(۹۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے_ کہ '' حضرت داود پیغمبر (ع) نے اللہ تعالی کی درگاہ میں عرض کیا خدایا تمام بادشاہوں کے خزانے میں تیرا خزانہ کہاں ہے؟

۴۲

اللہ تعالی نے جواب میں فرمایا کہ میرا ایک خزانہ ہے جو عرش سے بڑا اور کرسی سے وسیع تر اور بہشت سے زیادہ خوشبودار اور تمام ملکوت سے زیادہ خوبصورت ہے اس خزانہ کی زمین معرفت اور اس کا آسمان ایمان_

اس کا سورج شوق اور اس کا چاند محبت اور اس کے ستارے خدا کی طرف توجہات اس کا بادل عقل اس کی بارش رحمت اس کا میوہ اطاعت اور ثمرہ حکمت ہے_ میرے خزانے کے چار دروازے ہیں پہلا علم، دوسرا عقل، تیسرا صبر، چوتھا رضایت، جان لے کہ میرا خزانہ میرے مومن بندوں کا قلب اور دل ہے_( ۹۷)

اللہ تعالی کے ان بندوں کے جو قلب اور دل اور روح کو پہنچانتے ہیں ان احادیث میں بہت مفید مطالب بیان فرمائے ہیں کہ کچھ کی طرف ہم یہاں اشارہ کرتے ہیں_

قلب کافر

کافر کے دل کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ الٹا اور ٹیڑہا ہے اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے_ اس طرح کا دل اپنی اصلی فطرت سے ہٹ چکا ہے اور عالم بالا کی طرف نگاہ نہیں کرتا وہ صرف دنیاوی امور کو دیکھتا ہے اسی لئے وہ خدا اور آخرت کے جہاں کا مشاہدہ نہیں کرتا اس کے بارے نیکی اور خوبی کا تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ نیک کام اس صورت میں درجہ کمال اور قرب الہی تک پہنچتے ہیں جب وہ رضا الہی کے لئے انجام دیئےائیں لیکن کافر نے اپنے دل کو الٹا کردیا ہے تا کہ وہ خدا کو نہ دیکھ سکے وہ اپنے تمام کاموں سے سوائے دنیا کے اور کوئی غرض نہیں رکھتا وہ صرف دنیا تک رسائی چاہتا ہے نہ خدا کا قرب_ اس طرح کا دل گرچہ اصلی فطرت والی آنکھ رکھتا تھا لیکن اس نے اپنی آنکھ کو اندھا کر رکھا ہے_ کیونکہ وہ واضح ترین حقیقت وجود خدا جو تمام جہاں کا خالق ہے کا مشاہدہ نہیں کرتا وہ اس دنیا میں اندھا ہے اور آخرت میں بھی اندھا ہوگا_ اس نے اس دنیا میں امور دنیا سے دل لگا رکھا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے

۴۳

امور دنیا سے ہی وابستگی باقی رہے گی لیکن وہ اسے وہاں حاصل نہ ہوں گے اور وہ اس کے فراق کی آگ میں جلتا رہے گا_ اس قسم کے دل میں ایمان کا نور نہیں چمکتا اور وہ بالکل ہی تاریک رہتا ہے_

۲_ کافر کے دل مقابل مومن کامل کا دل ہے_ مومن کے دل کا دروازہ عالم بالا اور عالم غیب کی طرف کھلا ہوا ہوتا ہے ایمان کا چراغ اس میں جلتا ہوا ہوتا ہے اور کبھی نہیں بجھتا_ اس کے دل کی دونوں آنکھیں دیکھ رہی ہوتی ہیں اور عالم غیب اور اخروی امور کو ان سے مشاہدہ کرتا ہے_ اس طرح کا دل ہمیشہ ہمیشہ کمال اور جمال اور خیر محض یعنی خداوند تعالی کی طرف متوجہ رہتا ہے اور اس کا تقرب چاہتا ہے وہ خدا کو چاہتا ہے اور مکارم اخلاق اور اعمال صالح کے ذریعے ذات الہی کی طرف حرکت کرتا رہتا ہے_ اس قسم کا دل عرش اور کرسی سے زیادہ وسیع اور بہشت سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے اور یہ قدرت رکھتا ہے کہ اللہ تعالی کا مرکز انوار الہی اور خزانہ الہی قرار پائے_ اس طرح کے دل کی زمین اللہ کی معرفت اور اس کا آسمان اللہ پر ایمان اور اس کا سورج لقاء الہی کا شوق اور اس کا چاند اللہ کی محبت_ مومن کے دل میں عقل کی حکومت ہوتی ہے اور رحمت الہی کی بارش کو اپنی طرف جذب کرلیتا ہے کہ جس کا میوہ عبادت ہے اس طرح کے دل میں خدا اور اس کے فرشتوں کے سوا اور کوئی چیز موجود نہیں ہوتی_

ایسا دل تمام کا تمام نور ا ور سرور اور شوق اور رونق اور صفا والا ہوتا ہے اور آخرت کے جہان میں بھی اسی حالت میں محشور ہوگا_ (ایسے دل والے کو مبارک ہو)

۳_ مومن کا دل جب کبھی گناہ سے آلودہ ہوجاتا ہے تو ایسے مومن کا دل بالکل تاریک اور بند نہیں رہتا بلکہ ایمان کے نور سے روشن ہوجاتا ہے اور کمال الہی اور تابش رحمت کے لئے کھل جاتا ہے لیکن گناہ کے بجالانے سے اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ موجود ہوجاتا ہے اور اسی طریق سے شیطن اس میں راستہ پالیتا ہے_ اس کے دل

۴۴

کی آنکھ اندھی نہیں ہوتی لیکن گناہ کی وجہ سے بیمار ہوگئی ہے اور اندھے پن کی طرف آگئی ہے_ اس طرح کے دل میں فرشتے بھی راستے پالیتے ہیں اور شیطن بھی_ فرشتے ایمان کے دروازے سے اس میں وارد ہوتے ہیں اور اسے نیکی کی طرف دعوت دیتے ہیں شیطن اس سیاہ نقطہ کے ذریعے سے نفوذ پیدا کرتا ہے اور اسے برائی کی دعوت دیتا ہے_ شیطن اور فرشتے اس طرح کے دل میں ہمیشہ جنگ اور جدال میں ہوتے ہیں_ فرشتے چاہتے ہیں کہ تمام دل پر نیک اعمال کے ذریعے چھاجائیں اور شیطن کو وہاں سے خارج کردیں اور شیطن بھی کوشش کرتا ہے کہ گناہ کے بجالانے سے دل کو تاریک بلکہ تاریک تر کردے اور فرشتوں کو وہاں سے باہر نکال دے اور پورے دل کو اپنے قبضے میں لے لے اور ایمان کے دروازے کو بالکل بند کردے_ یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کو دکھیلنے پر لگے رہتے ہیں اور پھر ان میں کون کامیاب ہوتا ہے اور اس کی کامیابی کتنی مقدار ہوتی ہے_ انسان کی باطنی زندگی اور اخروی زندگی کا انجام اسی سے وابستہ ہوتا ہے یہ وہ مقام ہے کہ جہاں نفس کیساتھ جہاد کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ جس کی تفصیل بیان کی جائیگی_

قسی القلب

انسان کی روح اور دل ابتداء میں نورانیت اور صفاء اور مہربانی اور ترحم رکھتے ہیں_ انسان کا دل دوسروں کے دکھ اور درد یہاں تک کہ حیوانات کے دکھ اور درد سے بھی رنج کا احساس کرتا ہے اسے بہت پسند ہوتا ہے کہ دوسرے آرام اور اچھی زندگی بسر کریں اور دوسروں پر احسان کرنے سے لذت حاصل کرتا ہے اور اپنی پاک فطرت سے خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور عبادت اور دعا راز و نیاز اور نیک اعمال کے بجالانے سے لذت حاصل کرتا ہے اور گناہوں کے ارتکاب سے فوراً متاثر اور پشیمان ہوجاتا ہے_ اگر اس نے فطرت کے تقاضے کو قبول کرلیا اور اس کے مطابق عمل کیا تو

۴۵

دن بدن اس کے صفا قلب اورنورانیت اور مہربان ہونے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے_

عبادت اور دعا کے نتیجے میں دن بدن عبادت اور دعا اور خدا سے انس و محبت میں زیادہ علاقمند ہوتا جاتا ہے_ اور اگر اس نے اپنے اندرونی اور باطنی خواہشات کو نظرانداز کیا اور اس کے مخالف عمل کیا تو آہستہ آہستہ وہ پاک احساسات نقصان کی طرف جانا شروع کردیتے ہیں یہاں تک کہ ممکن ہے وہ بالکل ختم اور نابود ہوجائیں_ اگر اس نے دوسروں کے درد کے موارد کو دیکھا اور ان کے خلاف اپنے رد عمل کا مظاہرہ نہ کیا تو آہستہ آہستہ ان سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان کے دیکھنے سے معمولی سا اثر بھی نہیں لیتا بلکہ ہوسکتا ہے کہ ایسے مقام تک پہنچ جائے کہ دوسروں کے فقر اور فاقہ اور ذلت و خواری بلکہ ان کے قید و بند اور مصائب سے لذت حاصل کرنا شروع کردے_ انسان ابتداء میں گناہ کرنے پر پشیمان اور ناخوش ہوتا ہے لیکن اگر ایک دفعہ گناہ کا ارتکاب کرلیا تو دوسری دفعہ گناہ کرنے پر تیار ہوجاتا ہے اور اسی طرح دوسری دفعہ گناہ کے بعد تیسری دفعہ گناہ کرنے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے اور گناہ کرنے کے اصرار پر ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ پھر گناہ کرنے سے پیشمانی کا احساس تو بجائے خود بلکہ گناہ کرنے کو اپنی کامیابی اور خوشی قرار دیتا ہے_ ایسے انسانوں کے اس طرح کے دل سیاہ اور الٹے ہوچکے ہوتے ہیں اور قرآن اور احادیث کی زبان میں انہیں قسی القلب کہا جاتا ہے شیطین نے ایسے دلوں پر قبضہ کرلیا ہوتا ہے اور اللہ تعالی کے مقرب فرشتوں کو وہاں سے نکال دیا ہوتا ہے_ اس کے نجات کے دروازے اس طرح بند ہوجاتے ہیں کہ اس کے لئے توبہ کرنے کی امید بھی نہیں کی جاسکتی_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ''جب ہماری مصیبت ان پر وارد ہوتی ہے تو توبہ اور زاری کیوں نہیں کرتے؟ ان کے دلوں پر قساوت طاری ہوچکی ہے اور شیطان نے ان کے برے کردار کو ان کی آنکھوں میں خوشنما بنادیا ہے_(۹۸)

نیز خدا فرماتا ہے_ '' افسوس ہے ان دلوں پر کہ جنہیں یاد خدا سے قساوت نے گھیر رکھا ہے ایسے لوگ ایک واضح گمراہی ہیں پڑے ہوئے ہیں_(۹۹)

۴۶

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''ہر مومن کے دل میں ایک سفید نقطہ ہوتا ہے اگر اس نے گناہ کا ارتکاب کیا اور دوبارہ اس گناہ کو بجالایا تو ایک سیاہ نقطہ اس میں پیدا ہوجاتا ہے اور اگر اس نے گناہ کرنے پر اصرار کیا تو وہ سیاہ نقطہ آہستہ سے بڑھنا شروع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اس دل کے سفید نقطہ کو بالکل ختم کردیتا ہے اس وقت ایسے دل والا آدمی کبھی بھی اللہ تعالی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور یہی خداوند عالم کے اس فرمان سے کہ ان کے کردار نے ان کے دلوں کو چھپا رکھا ہے مراد ہے_(۱۰۰)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان کے آنسو قساوت قلب کی وجہ سے خشک ہوجاتے ہیں اور قلب میں قساوت گناہون کے اثر کیوجہ سے ہوتی ہے_(۱۰۱)

رسول خدا نے فرمایا ہے '' چار چیزیں انسان میں قساوت قلب کی علامتیں ہیں_ آنسوں کا خشک ہوجانا_ قساوت قلب_ روزی کے طلب کرنے میں زیادہ حریص ہونا_

اور گناہوں پر اصرار کرنا_(۱۰۲)

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں_ '' اے میرے خدا میں دل کے سخت ہوجانے سے آپ سے شکایت کرتا ہوں ایسا دل جو وسواس سے ہمیشہ تغیرپذیر ہے اور آلودگی اور خشم سے جڑا ہوا ہے_ میں آپ سے ایسی آنکھ سے شکایت کرتا ہوں جو تیرے خوف سے نہیں روتی اور اس کی طرف متوجہ ہے جو اسے خوش رکھتی ہے_(۱۰۳)

پس جو انسان قلب کی سلامتی اور اپنی سعادت سے علاقمند ہے اس کو گناہ کے ارتکاب سے خواہ گناہ صفیرہ ہی کیوں نہ ہو بہت زیادہ پرہیز کرنی چاہئے_ اور ہمیشہ اپنی روح کو نیک کاموں عبادت دعا اور خدا سے راز و نیاز مہربانی احسان اور دوسروں کی مدد مظلوموں اور محروموں کی حمایت اور خیرخواہی نیک کاموں میں مدد عدالت خواہی اور عدالت برپا کرنے میں مشغول رکھے تا کہ آہستہ آہستہ نیک اعمال بجالانے کی عادت پیدا کرے اور باطنی صفا اور نورانیت کو حاصل کرلے تا کہ اس کی روح ملائکہ کا مرکز قرار پائے_

۴۷

قلب کے طبیب اور معالج

پہلے بیان ہوچکا ہے کہ دل اور روح بھی جسم کی طرح سالم ہوا کرتا ہے اور بیمار_ انسان کی اخروی سعادت اس سے مربوط ہے کہ انسان سالم روح کے ساتھ اس دنیا سے جائے_ ہمارے لئے ضروری ہے کہ روح کی سلامتی اور بیماریوں سے واقف ہوں_

ان بیماریوں کی علامات کو پہچانیں تا کہ روح کی مختلف بیماریوں سے مطلع ہوں ان بیماریوں کے اسباب اور علل کو پہچانیں تا کہ ان بیماریوں کو روک سکیں کیا ان بیماریوں کی پہچان میں ہم خود کافی معلومات رکھتے ہیں یا ان کی پہچان میں پیغمبروں کے محتاج ہیں_ اس میں کسی شک کی گنجائشے نہیں کہ ہم روح کی خلقت اور اس کے اسرار اور رموز سے جو اس موجود ملکوتی میںرکھے گئے کافی معلومات نہیں رکھتے_

قاعدتا ہم اپنی روحانی اور باطنی زندگی سے بے خبر ہیں_ نفسانی بیماریوں کے اسباب کو اچھی طرح نہیں جانتے اور ان بیماریوں کی علامتوں کی بھی اچھی طرح تشخیص نہیں کرسکتے اور ان مختلف بیماریوں کا علاج اور توڑ بھی نہیں جانتے اسی لئے پیغمبروں کے وجود کی طرف محتاج ہیں تا کہ وہ ہمیں اس کے طریق کار کی ہدایت اور رہبری کریں_ پیغمبر روح کے معالج اور ان بیماریوں کے علاج کے جاننے والے ہوتے ہیں_ اور اللہ تعالی کی تائید اور الہامات سے روح کے درد اور اس کے علاج کو خوب جانتے ہیں وہ انسان شناسی کی درسگاہ میں بذریعہ وحی انسان شناس بنے ہیں اور اس ملکوتی وجود کے اسرار اور رموز سے اچھی طرح مطلع اور آگاہ ہیں_ وہ صراط مستقیم اور اللہ کی طرف سیر و سلوک کو خوب پہچانتے ہیں اور انحراف کے اسباب اور عوامل سے واقف ہیں اسی لئے وہ انسان کی اس سخت راستے کو طے کرنے میں مدد کرتے ہیں اور انحراف اور کجروی سے روکتے ہیں_ جی ہاں پیغمبر اللہ کی طرف سے معالج ہیں کہ تاریخ انسانی

۴۸

میں انہوں نے انسان کی خدمت انجام دی ہے اور ان کی ایسی خدمات کئی درجہ زیادہ بدن کے معالجین سے بڑھ کر کی ہے پیغمبروں نے جوہر ملکوتی ورح کو کشف کرتے ہوئے انسانوں کو اس کی پہچان کرائی ہے اور ان کی انسانی شخصیت کو زندہ کیا ہے_ پیغمبر(ص) تھے کہ جنہوں نے انسانوں کا مکارم اخلاق اور معارف اور معنویات سے روشناس کیا ہے اور قرب الہی کے راستے اور سیرو سلوک کی نشاندہی کی ہے_ پیغمبر تھے کہ جنہوں نے انسان کو خدا اور جہان غیب سے آشنا اور واقف کیا ہے اور انسان کے تزکیہ نفس اور تہذیب کے پرورش کرنے میں کوشش اور تلاش کی ہے_ اگر انسان میں معنویت محبت اور عطوفت اور مکارم اخلاق اور اچھی صفات موجود ہیں تو یہ اللہ کے بھیجے ہوئے معالجین کی دائمی اور متصل کوشش بالخصوص خاتم پیغمبر علیہ السلام کی دائمی کوشش کی برکت سے ہیں واقعا پیغمبر اللہ تعالی کے صحیح اور ممتاز بشریت کے معالج ہیں اسی لئے احادیث میں ان کی عنوان طبیب اور معالج کے عنوان سے پہچان کرائی گئی ہے_

امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر گرامی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ '' محمد(ص) چلتا پھر تا طبیب ہے کہ ہمیشہ انسانی روحوں کی طبابت کرنے میں کوشان تھا اور بیماریوں کے علاج کے لئے مرہم فراہم کر رکھی تھی اور اسے مناسب مورد میں کام میں لاتا تھا_ اندھی روح اور بہرے کان گنگی زبان کو شفا دیتے تھے_ اور داؤوں کو انسانوں پر استعمال کرتے تھے جو حیرت اور غفلت میں غرق اور تھے ان انسانوں کو جو حکمت اور علم کے نور سے استفادہ نہیں کرتے تھے اور حقائق اور معارف الہی کے ناشناس تھے اسی لئے تو ایسے انسان حیوانات سے بھی بدتر زندگی بسر کرتے تھے_(۱۰۴)

قرآن کو روح کے لئے شفاء دینی والی دواء بیان کیا گیا ہے_

خدا ارشاد فرماتا ہے کہ '' اللہ کی طرف سے موعظہ نازل ہوا ہے اور وہ قلب یعنی روح کے درد کے لئے شفا ہے_(۱۰۵)

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' قرآن میں ہم نے بعض ایسی چیزیں نازل کی ہیں جو مومنین

۴۹

کے لئے شفاء اور رحمت ہیں_(۱۰۶)

امیر المومنین علیہ السلام قرآن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ''قرآن کو سیکھو کہ وہ بہترین کلام ہے اس کی بات میں خوب غور کرو کہ عقل کی بارش روح کو زندہ کرتی ہے اور قرآن کے نور سے شفاء حاصل کرو کہ وہ دلوں کو یعنی روحوں کو شفا بخشتا ہے_(۱۰۷)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ '' جو شخص قرآن رکھتا ہو وہ کسی دوسری چیز کا محتاج نہ ہوگاہ اور جو شخص قرآن سے محروم ہوگاہ کبھی غنی نہ ہوگا_ قرآن کے واسطے سے اپنے روح کی بیماریوں کا علاج کرو اور مصائب کے ساتھے مٹھ بھیڑ میں اس سے مدد لو کیونکہ قرآن بزرگترین بیماری کفر اور نفاق اور گمراہی سے شفا دیتا ہے_(۱۰۸)

جی ہاں قرآن میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نفوس کے طبیب ہیں_ ہمارے درد اور اس کے علاج کو خوب جانتا ہے اور ایسے قرآن کو لایا ہے جو ہمارے باطنی درد کے لئے شفا دیتے کا ضابطہ ہے اور ہمیں ایسا قرآن دیا ہے_ اس کے علاوہ کئی اقسام کی باطنی بیماریوں اور ان کے علاج پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے واضح کیا ہے اور وہ حدیث کی شکل میں ہمارے لئے باقی موجود ہیں لہذا اگر ہمیں اپنے آپ کے لئے روح کی سعادت اور سلامتی مطلوب ہے تو ہمیں قرآن اور احادیث سے استفادہ کرنا چاہئے اور اپنی روح کی سعادت اور سلامتی مطلوب ہے تو ہمیں قرآن اور احادیث سے استفادہ کرنا چاہئے اور اپنی روح کی سعادت اور سلامتی کے طریق علاج کی مراعات کرنی چاہئے اور قرآن اور پیغمبر(ص) اور ائمہ اطہارعلیہم السلام کی راہنمایی میں اپنی روح کی بیماریوں کو پہچاننا چاہئے اور ان کی علاج کے لئے کوشش اور سعی کرنی چاہئے اور اگر ہم اس امر حیاتی اور انسان ساز میں کوتاہی کریں گے تو ایک بہت بڑے نقصان کے متحمل ہونگے کہ جس کا نتیجہ ہمیں آخرت کے جہان میں واضح اور روشن ہوگا_

تکمیل اور تہذیب نفس

پہلے بتاتا جا چکا ہے کہ روح کی پرورش اور تربیت ہمارے لئے سب سے زیادہ

۵۰

ضروری ہے کیونکہ دنیا اور آخرت کی سعادت اسی سے مربوط ہے اور پیغمبر علیہم السلام بھی اسی غرض کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوئے ہیں_ روح کی تربیت اور خودسازی دو مرحلوں میں انجام دینی ہوگی_

پہلا مرحلہ: روح کی برائیوں سے پاک کرنا یعنی روح کو برے اخلاق سے صاف کرنا اور گناہوں سے پرہیز کرنا اس مرحلہ کا نام تصفیہ اور تخلیہ رکھنا گیا ہے_

دوسرا مرحلہ: روح کی تحصیل علم اور معارف حقہ فضائل اور مکارم اخلاق اور اعمال صالحہ کے ذریعے تبریت اور تکمیل کرنا اس مرحلہ کا نام تحلیہ رکھا گیا ہے یعنی روح کی پرورش اور تکمیل اور اسے زینت دینا_

انسان کو انسان بنانے کے لئے دونوں مرحلوں کی ضرورت ہوتی ہے اس واسطے کہ اگر روح کی زمین برائیوں سے پاک اور منزہ نہ ہوئی تو وہ علوم اور معارف حقہ مکارم اخلاق اعمال صالح تربیت کی قابلیت پیدا نہیں کرے گاہ وہ روح جو ناپاک اور شیطان کا مرکز ہو کس طرح انوار الہی کی تابش کا مرکز بن سکے گا؟ اللہ تعالی کے مقرب فرشتے کس طرح ایسی روح کی طرف آسکیں گے؟ اور پھر اگر ایمان اور معرفت اور فضائل اخلاق اور اعمال صالح نہ ہوئے تو روح کس ذریعے سے تربیت پا کر تکامل حاصل کرسکے گی_ لہذا انسان کو انسان بنانے کے لئے دونوں مرحلوں کو انجام دیا جائے ایک طرف روح کو پاک کیا جائے تو دوسری طرف نیک اعمال کو اس میں کاشت کیا جائے _ شیطن کو اس سے نکالا جائے اور فرشتے کو داخل کیا جائے غیر خدا کو اس سے نکالا جائے اور اشراقات الہی اور افاضات کو اس کے لئے جذب کیا جائے یہ دونوں مرحلے لازم اور ملزم ہیں یوں نہیں ہو سکتا کہ روح کے تصفیہ کے لئے کوشش کی جائے اور نیک اعمال کو بجا لانے کو بعد میں ڈالا جائے جس طرح یہ نہیں ہو سکتا کہ باطنی امور کی اہمیت کو نظر انداز کیا جائے اور نیک اعمال بجالانے میں مشغول ہوا جائے بلکہ یہ دونوں ایک ہی زمانے میں بجا لائے جانے چاہئیں برائیوں اور برے اخلاق کو ترک کر

۵۱

دینا انسان کو اچھائیوں کے بجالانے کی طرف بلاتا ہے اور نیک اعمال کا بالانا بھی گناہوں اور برے اخلاق کے ترک کر دینے کا موجب ہوتا ہے لہذا اس بحث میں ہم مجبور ہیں کہ ان دونوں مرحلوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیں لہذا پہلے ہم تہذیب نفس اور روح کی پاکی بحث کرتے ہیں_

۵۲

پہلا حصہ

تخلیہ یا تہذیب نفس

۵۳

تہذیب نفس

اس مرحلے میں ہمیں تین کام انجام دینے ہونگے_

۱_ باطل عقائد اور غلط افکار اور خرافات سے نفس کو پاک کرنا_

۲_ برے اخلاق اور رذائل سے نفس کو پاک کرنا_

۳_ گناہوں اور معاصی کا ترک کرنا_

خرافات اور عقائد باطل عین جہالت اور نادانی ہوتے ہیں اور انسان کی رو ح کو تاریک کر دیتے ہیں اور صراط مستقیم اور قرب الہی اور تکامل سے منحرف کر دیتے ہیں باطل عقائد رکھنے والے تکامل کے راستے کو نہیں بچانتے اسی واسطے گمراہی اور ضلالت کی وادی میں قدم رکھتے ہیں اور یقینا مقصد تک نہیں پہنچتے جو روح تاریک ہو کس طرح وہ انوار الہی کی تابش کا مرکز قرار پا سکتی ہے؟ اسی طرح برے اخلاق اور ان کے ملکات حیوانی عادات کو تقویت پہچانتے ہیں اور انسانی روح کو آہستہ آہستہ خاموش اور تنہا ہو جانے کی طرف لے جاتے ہیں ایسا انسان انسانی غرض خلقت جو قرب الہی اور کمال تک پہنچنا ہوتا ہے کبھی نہیں پہنچے گا اسی طرح گناہوں اور معصیت کو بجالانا انسان کی روح کو تاریک اور آلودہ کر دیتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ تکامل اور قرب الہی سے دور ہو جاتا ہے اور اس طرح انسان آخری غرض اور غایت تک نہیں پہنچنے پاتا_ اسی

۵۴

واسطے نفس کا پاک و پاکیزہ کرنا ہمارے لئے انتہائی اہم اور ضروری کام شمار ہوتا ہے لہذا ضروری ہے کہ پہلے برے اخلاق اور گناہوں کو پہچانیں اور پھر عمل کے مرحلے میں قدم رکھیں اور اپنی روح کو پاک و پاکیزہ بنائیں_ اتفاق سے ہمیں پہلے مرحلے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی اس واسطے کہ ارواح کے اطباء اور خدا کے بھیجے ہوئے انسان شناسی یعنی پیغمبروں اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے برے اخلاق کو بطور کامل ہمارے لئے بیان کر دیا ہے اور ان کا علاج کرنا بھی بتلا دیا ہے_ معصیت اور نافرمانیوں کو ہمارے لئے شمار کر کے انکا علاج بھی بیان کر دیا ہے ہم تمام برے اخلاق کو جانتے اور پہچانتے ہیں اور ان کی برائیوں سے آگاہ ہیں _ ہم جانتے ہیں کہ نفاق ،تکبر ،حسد ،کینہ پروری، غضب چغلخوری خیانت ،خودپسندی ،برا چاہنا، شکایت کرنا، تہمت لگانا، برا بھلا کہنا، بد زبان ہونا، تندخوئی_ ظلم بے اعتمادی خوف، بخل، حرص، عیب جوئی، جھوٹ بولنا، حب دنیا اور مقام اور ریاست کی محبت ریاکاری، دھوکا دینا، حیلہ باز ہونا، براگمان، قسی القلب ہونا، ضعف نفس اور اس طرح کی دوسری صفات بری اور زشت ہیں_ اس کے علاوہ ہم فطرت کی رو سے ان کی برائیوں کو سمجھ پاتے ہیں_ سینکڑوں روایات اور آیات ان کی برائیوں اور قبیح ہونے کی گوہی دے رہی ہیں ہماری احادیث اس کے متعلق اتنی زیادہ ہیں کہ ان میں کسی کمی کا احساس نہیں ہوتا_ اسی طرح تمام محرمات اور گناہوں کی وضاحت قرآن مجید اور انکی تشریح اور ان کا عذاب اور سزا احادیث میں موجود ہے_ غالبا ہم تمام کو جانتے ہیں لہذا برے اخلاق اور صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی پہچان میں ہمیں کوئی مشکل نہیں آتی اس کے باوجود ہم غالبا شیطن اور نفس امارہ کے قیدی ہیں اور توفیق حاصل نہیںکرتے کہ اپنی نفس گناہوں اور برے اخلاق سے پاک کریں اور یہی اساسی مشکل ہے کہ جس کا علاج ہمیں سوچنا چاہئے_ میری نگاہ میں اس کا مہم ترین سبب دو چیزیں ہیں_ پہلی کہ ہم اپنی اخلاقی بیماریوں کو نہیں پہچانتے اور اپنے بیمار ہونے کا اقرار نہیں کرتے اور دوسرے اخلاقی بیماری کو معمولی قرار دیتے ہیں اور اس کے برے اور دردناک انجام سے غافل ہیں اسی لئے تو اس کے علاج کرنے میں

۵۵

کو شش نہیں کرتے یہی وہ دو مہم سبب ہیں کہ جنہوں نے ہمیں اپنی اصلاح اور تہذیب نفس سے غافل کر رکھا ہے ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس میں بحث کریں اور اس کا علاج بتلائیں_

بیماری سے غفلت

ہم غالبا اخلاقی بیماریوں کو پہچانتے ہیں اور ان کے برے ہونے کو بھی جانتے ہیں لیکن یہ صرف دوسروں میں نہ اپنے وجود میں_ اگر ہم کسی دوسرے میں برے اخلاق اور برے رفتار کو دیکھیں تو اس کی برائی کو اچھی طرح جان لیتے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہی بری صفت بلکہ اس سے بدتر ہم میں موجود ہو تو اس کی طرف ہم بالکل متوجہ نہیں ہوتے مثلا دوسرے کے حقوق کو ضائع کرنا برا سمجھتے ہیں اور اس کے بجا لانے والے سے نفرت کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ہم خود دوسروں کے حقوق ضائع کر رہے ہوں لیکن اسے بالکل نہیں سمجھتے بلکہ اپنے کام کو تو دوسرے کے حقوق کو ضائع کرنا ہی نہیں جانتے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اپنے ایسے کام کو ایک اپنی نگاہ میں بہت عمدہ اور اخلاقی قدر والا گر دانتا ہو اسی طریقے سے اپنے نفس کو مطمئن کر دیتے ہیں یہی حال دوسرے بری صفات کا بھی ہو سکتا ہے یہی تو وجہ ہوتی ہے کہ ہم اپنی کبھی اصلاح کرنے کی فکر میں نہیں جاتے کیونکہ اگر بیمار اپنے آپ کو بیمار نہ سمجھے تو وہ علاج کرنے کی فکر میں نہیں جاتا اور چونکہ ہم اپنے آپ کو بیمار نہیں سمجھتے لہذا اس کے علاج کرنے کے درپے بھی نہیں ہوتے ہماری سب سے بڑے مصیبت اور مشکل یہی ہے_ لہذا اگر ہم اپنی سعادت کی فکر میں جائیں تو اس مشکل کا حل ہمیں تلاش کرنا ہوگا اور جس ذریعے سے بھی ممکن ہو ہمیں اپنی نفسانی بیماریوں کے پہچاننے میں کوشش کرنی چاہئے_

۵۶

نفس کی بیماریوں کے تشخیص کے راستے

بہتر ہوگا کہ نفس کی مختلف بیماریوں کی پہچان میں ان وسائل سے کہ جن سے ممکن ہے استفادہ کیا جائے یہاں چند ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے_

۱_ تقویت عقل: ملکوتی انسان کا اعلی مرتبہ اور اس کے وجود کا کاملترین امتیاز جو انسان کے لئے تمام مخلوقات سے امتیاز دینے کا منشا اور مبدا ہے اسے قرآن اور احادیث میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے روح نفس قلب عقل یہ تمام نام ایک حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو مختلف جہات کیوجہ سے مختلف نام دیئے گئے ہیں_

اس لحاظ سے کہ وہ حقیقت موجب فکر اور سوچ اور سمجھنا اور تعقل ہے اسے عقل کا نام دیا گیا ہے احادیث کی کتابوں میں عقل کو ایک ممتاز مقام دیا گیا ہے یہاں تک کہ اس کے لئے ایک علیحدہ فصل احادیث کے کتابوں میں مخصوص کی گئی ہے_ احادیث میں عقل کو موجودات سے شریف ترین موجود اور احکام اور ثواب اور عقاب کا منشاء بتلایا گیا ہے جیسے امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' جب اللہ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اسے بولنے پر قدرت دی اور پھر اسے کہا کہ اے عقل آگے آ؟ عقل نے اطاعت کی اور آگے آئی_ پھر اللہ تعالی نے فرمایا کہ لوٹ جا_ عقل نے پھر اطاعت کی اور لوٹ گئی اس وقت خداوند عالم نے فرمایا کہ'' مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم کہ میں نے تجھ سے بہتر اور محبوب ترین مخلوق خلق نہیں کی تجھے کامل نہیں کرونگا مگر اس میں کہ جسے میں دوست رکھتا ہونگا_ جان لو کہ میرے اوامر اور نواہی تیری طرف متوجہ ہونگے اور تجھی ہی سے ثواب اور عقاب دونگا_(۱۰۹)

انسان عقل کے ذریعے فکر کرتا ہے اور حقائق کو معلوم کرتا ہے اچھائی اور برائی فائدہ مند اور ضرر رساں ذمہ داریوں کی تشخیص کرتا ہے اگر انسان کے پاس عقل نہ

۵۷

ہوتی تواس کے اور حیوانات کے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا اسی لئے خداوند عالم نے قرآن کریم میں تعقل اور تفکر اور تامل اور تفقہ پر اعتماد کیا ہے اور انسان سے چاہتا ہے کہ اپنی عقل کو اپنے آپ میں کام میں لائے_

قرآن مجید میں آیا ہے کہ خداوند ایسی نشانیاں تمہارے لئے بیان کرتا ہے_ شاید تم تعقل کرو اور تفکر کرو_''(۱۱۰) نیز خدا فرماتا ہے '' وہ زمین میں کیوں سیر نہیں کرتے تا کہ ان کے لئے دل ہو کہ فکر و غور کریں_(۱۱۱)

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' سب سے بدتر حرکت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو بہرے گونگے اور سوچ نہیں کرتے_(۱۱۲)

خداوند عالم ان لوگوں کو جوعقل کان اور زبان رکھتے ہیں لیکن حقائق کی پہچان میں ان سے کام نہیں لیتے انہیں حیوانات کے زمرے میں شمار کرتا ہے بلکہ حیوانات سے بھی بدتر قرار دیتا ہے کیونکہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے_

خدا فرماتا ہے '' خدا پلیدی کو ان پر قرار دیتا ہے جو تعقل نہیں کرتے_(۱۱۳)

انسان میں جتنی اچھائی ہے وہ عقل سے ہے، عقل سے خدا کو پہچانتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے اور قیامت کو قبول کرتا ہے اور اس کے لئے مہیا ہوتا ہے_ پیغمبروں کو قبول کرتا ہے اور ان کی اطاعت کرتا ہے_ اچھے اخلاق کو پہچانتا ہے اور اپنے آپ کو ان میں ڈھالتا ہے برائیوں کو پہچانتا ہے اور ان سے پرہیز کرتا ہے_ اسی درجہ سے قرآن اور احادیث میں عقل کی عظمت اور جلالت بیان کی گئی ہے_

امام صادق علیہ السلام ایک سوال کرنے والے کے جواب میں فرماتے ہیں کہ '' عقل وہ چیز ہے کہ جس وجہ سے خدا کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے سے بہشت حاصل کی جاتی ہے_(۱۱۴)

نیز امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' جو شخص عاقل ہوگا دین رکھتا ہوگا اور جو شخص دین رکھتا ہوگا وہ بہشت میں داخل ہوگا_(۱۱۵)

امام موسی کاظم علیہ السلام نے ہشام سے فرمایا کہ '' خدا کی لوگوں پر حجت اور

۵۸

دلیلیں دو ہیں ایک ظاہری اور دورسری باطنی_ ظاہری حجت انبیاء اور ائمہ علیہم السلام ہیں اور باطنی عقل ہے_(۱۱۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرماتا ہے _ '' عقل کے لحاظ سے کامل تر لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق تمام سے بہتر ہوں_(۱۱۷)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' مومن کا راہنما عقل ہے_(۱۱۸)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر انسان کا دوست عقل ہے اور اس کا دشمن جہالت_(۱۱۹)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' انسان کا خودپسند ہونا اس کے عقل کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے_(۱۲۰)

امام موسی بن جعفر علیہ السلام نے ہشام سے فرمایا کہ '' جو شخص بغیر مال کے بے نیازی اور روح کو حسد سے آرام اور اطمینان میں رکھے اور دین میں سالم رہے اسے تضرع اور زاری سے خدا سے دعا مانگی چاہئے کہ خدا اس کی عقل کو کامل کردے _ جو شخص عاقل ہوگا وہ قدر کفایت پر قناعت کرے گا اور جو شخص کفایت کی مقدر ارپر قناعت کرے گا وہ غنی اور بے نیاز ہوگا اور جس نے مقدار کفایت پر قناعت نہ کی وہ ہرگز بے نیاز نہ ہوگا_(۱۲۱)

امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں '' عقلمند انسان دنیا کے زائد امور کو ترک کرتے ہیں چہ جائیکہ گناہوں کو جب کہ ترک دینیا افضال ہے تو گناہوں کا ترک کرنا تو واجب ہے_(۲۲۲)

آپ نے فرمایا کہ '' عقلمند انسان جھوٹ نہیں بولتا گر چہ اس کی روح اس کی طرف مائل ہی کیوں نہ ہو_(۱۲۳)

آپ نے فرمایا کہ '' جو شخص مروت نہیںرکھتا اور جو شخص عقل نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا وہ مروت نہیں رکھتا سب سے قیمتی انسان وہ ہے جو دنیا کو اپنے نفس کی

۵۹

قیمت قرار نہ دے اور جان لو کہ تمہارے جسم کی قیمت سوائے بہشت کے اور کوئی نہیں ہے لہذا اسے بہشت کے عوض کسی اور چیز کے مقابلے فروخت نہ کرو_(۱۲۴)

ان تمام احادیث سے عقل کے پردازش اور قیمتی ہونے کو سمجھا جا سکتا ہے اور اس سے معارف اور علوم اور ایمان کا لانا عبادت خدا اور اس کی شناخت مکارم اخلاق سے استفادہ کرنا اور رذائل اور گناہوں سے اجتناب کرنا حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اس نقطہ کی طرف متوجہہ ہونا چاہئے اور اس سے استفادہ کیا جانا چاہئے_ عقل انسان کے بدن میں ایک عادل قاضی ہے اور حاکم ہے لیکن یہ اس صورت میں اچھا فیصلہ دیتا ہے جب اس کے لئے امن کا ماحول میسر ہو اور اس کے فیصلے کو مورد قبول قرار دیا جائے یہ اس دانا اور قدرت مند اور مدبر اور خیر اندیش حاکم کے قائم ہے لیکن بشرطیکہ اس کے فیصلے اور حکومت کی تائید کی جائے یہ ایک دانا مشورہ دینے والے اور مورد اعتماد اور خیر اندیش کے قائم ہے لیکن بشرطیکہ اس سے مشورہ طلب کیا جائے اور اس کے فرمان کو درست سنا جائے_

اگر بدن پر عقل کی حکومت ہو اور خواہشات اور غرائز نفسانی پر اس کا تسلط ہو تو وہ بدن کی مملکت پر بہترین طریقہ سے حکومت کرے گا_ غرائز اور قومی میں تعادل برقرار کرے گا_ اور تمام کو تکامل اور سیر و صعود الی اللہ پر برقرار رکھے گا لیکن اس سادگی سے حیوانی خواہشات اور تمایلات عقل کی حکومت کو قبول کرلیں گے اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے نہ بلکہ یہ اتنی فتنہ انگیزی اور خرابکاری کریں گے_ تا کہ وہ عقل کو میدان سے باہر نکال دیں اس کا علاج یہ ہے کہ عقل کو قوی کیا جاے کیونکہ عقل جتنا طاقت ور اور نافذ ہوگا وہ داخلی دشمنوں کو بہتر پہچانے گا اور ان پر تسلط حاصل کرنے اور انہیں دبانے پر زیادہ قادر ہوگا_ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عقل کو مضبوط بنانے کی کوشش اور جہاد کریں_

۲_ عمل سے پہلے فکر کرنا: عقل کے قوی کرنے میں ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' اپنی زبان کو قابو اور اس کی حفاظت کر یہ نفس کے لئے بہترین ہدیہ ہے_ انسان صحیح اور حقیقی ایمان تک نہیں پہنچتا مگر یہ کہ وہ اپنی زبان کی نگاہ داری اور حفاظت کرے_(۴۲۱)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تین چیزیں فہم اور فقہ کی علامت ہیں تحمل اور بردباری _ علم اور سکوت_ ساکت رہنا دانائی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے_ ساکت رہنا محبت کا سبب ہوتا ہے اور ہر نیکی کی دلیل ہے_(۴۲۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جب عقل کامل ہوتی ہے تو گفتگو ہو جاتی ہے_(۴۲۳)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ''کوئی بھی عبادت ساکت رہنے اور خانہ کعبہ کی طرف پیدل جانے سے افضل نہیں ہے_(۴۲۴)

رسول خدا نے جناب ابوذر سے فرمایا کہ '' میں تجھے زیادہ ساکت رہنے کی سفارش کرتا ہوں اس واسطے کہ اس وسیلے سے شیطن تم سے دور ہوجائے گا_ دین کی حفاظت کے لئے ساکت رہنا بہتر مددگار ہے_(۴۲۵)

خلاصہ انسان سالک اور عارف پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پر پوری طرح کنٹرول کرے اور سنجیدہ اور سوچ سمجھ کر بات کرے اور زیادہ اور بیہودہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے دنیاوی امور میں ضرورت کے مطابق باتیں کرے جو اسے زندگی کرنے کے لئے ضروری ہیں اور اس کے عوض اللہ تعالی کا ذکر اور ورد اور علمی مطالب اور فائدہ مند اور اجتماع کے لئے مفید گفتگو کرنے میں مشغول رہے _ ہمارے بزرگاور عارف ربانی استاد علامہ طباطبائی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ساکت رہنے کے گراں قدر آثار مشاہدہ کئے ہیں_ چالیس شب و روز ساکت رہنے کو اختیار کیجئے اور سوائے ضروری کاموں کے باتیں نہ کریں اور فکر اور ذکر خدا میں مشغول رہیں تا کہ تمہارے لئے نورانیت اور صفاء قلب حاصل ہو سکے_

۲۴۱

چھٹی رکاوٹ

اپنی ذات اور اپنے اپ سے محبت ہے اگر عارف انسان نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر اس کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ سامنے آتی ہے اور وہ ہے اس کا جب ذات یعنی اپنی ذات سے محبت کرنا_ وہ متوجہ ہوگا کہ اس کے تمام کام اور حرکات یہاں تک کہ اس کی عبادت و غیرہ کرنا سب کے سب اپنی ذات کی محبت کیوجہ سے انجام پارہے ہیں_ عبادت ریاضت ذکر اور دعا نماز اور روزے اس لئے انجام دے رہا ہے تا کہ اپنے نفس کو کامل کرے اور اسے ان کی اجزاء آخرت میں دی جائے گرچہ اس طرح کی عبادت کرنا بھی انسان کو بہشت اور آخرت کے ثواب تک پہنچا دیتی ہے لیکن وہ ذکر اور شہود کے بلند و بالا مقام اور رتبہ تک نہیں پہنچاتی جب تک اس کا نفس حب ذات کو ترک نہ کرے اور وہ اللہ تعالی کے بے مثال جمال کا مشاہدہ نہیں کر سکے گا جب تک تمام حجاب اور موانع یہاں تک کہ حب ذات کا حجاب اور مانع بھی ترک نہ کرے اس صورت میں وہ انوار الہی کا مرکز بننے کی قابلیت اور استعداد پیدا نہیں کر سکے گا_ لہذا عارف اور سالک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریاضت اور مجاہدہ کر کے اپنے آپ کو حب ذات کی حدود سے باہر نکالے اپنی ذات کی محبت کو خدا کی محبت میں تبدیل کر دے اور تمام کاموں کو صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے بجا لائے اگر غذا کھاتا ہے تو اس غرض سے کھائے کہ اس کے محبوب نے زندہ رہنے کے لئے اسے ضروری قرار دیا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو اسے اس نیت سے بجالائے کہ ذات الہی ہی عبادت اور پرستش کی سزاوار اور مستحق ہے_ اس طرح کا انسان نہ دینا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے اور نہ آخرت کا بلکہ وہ صرف خدا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے_ یہاں تک کہ وہ کشف اور کرامت کا طلبکار بھی نہیں ہوتا اور سوائے حقیقی معبود کے اس کا کوئی اور مطلوب اورمنظور نظر نہیں ہوتا_ اگر کوئی اس مرحلے کو طے کر لے یہاں تک کہ اپنی شخصیت اور ذات کو اپنے آپ سے جدا کردے تو وہ مقام توحید میں

۲۴۲

قدم رکھ لے گا اور شہود اور لقاء اللہ کے بلند اور بالا مقام تک ترقی کر جائیگا اور بارگاہ مقعد صدق عند ملیک مقتدر میں نازل ہوجائیگا_

ساتویں رکاوٹ

کمال اور عرفان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اور شاید یہ سابقہ تمام رکاوٹوں سے بھی زیادہ ہو وہ ہے ارادہ کا ضعیف ہونا_ اور حتمی فیصلے کرنے کی قدرت نہ رکھنا _ یہ رکاوٹ اور مانع انسان کو عمل شروع کرنے سے روک دیتی ہے_ شیطن اور نفس کرتا ہے کہ انسان کو ظاہر ی ذمہ داری اور وظائف شرعی کی بجالانے کو کافی قرار دے گرچہ اس میں حضور قلب اور توجہہ نہ بھی ہو_ شیطن انسان کو کہتا ہے کہ تو صرف انہیں عبادت کے بجالانے کے سوا اور کوئی شرعی وظیفہ نہیں رکھتا تجھے حضور قلب اور توجہہ اور ذکر سے کیا کام ہے؟ اور اگر کبھی انسان اس کی فکر کرنے بھی لگے تو اسے سینکٹروں حیلے اور بہانوں سے روک دیتا ہے اور کبھی اس مطلب کو اس کرے لئے اتنا سخت نمایاں کرتا ہے کہ انسان اس سے مایوس اور نامید ہوجاتا ہے لیکن اس انسان کے لئے جو کمال حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے ضروری ہے کہ وہ شیطن اور نفس امارہ کے ایسے وسوسوں کے سامنے رکاوٹ بنے اور احادیث اور آیات اور اخلاق کی کتابوں کے مطالعے کرنے سے معلوک کرے کہ سیر اور سلوک کے لئے حضور قلب اور ذکر و شہود کی کتنی ضرورت اور اہمیت ہے اور جب اس نے اس کی اہمیت کو معلوم کر لیا اور اپنی ابدی سعادت کو اس میں دیکھ لیا تو پھر حتمی طور سے اس پر عمل کرے گا اور مایوسی اور ناامیدی کو اپنے سے دور کردے گا اور اپنے آپ سے کہے گا کہ یہ کام گرچہ مشکل ہے اور چونکہ اخروی سعادت اس سے وابستہ ہے لہذا ضرور مجھے اس پر عمل کرنا چاہئے_ اللہ تعالی فرماتا ہے جو ہمارے راستے

۲۴۳

میں کوشش اور جہاد کرتے ہیں ہم اس کو اپنے راستوں کی راہنمائی کر دیتے ہی_

و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا (۴۲۶)

ہماری یہ ساری بحث اور کلام تکامل اور تقرب الہی کے پہلے وسیلے اور ذریعے میں تھی یعنی اللہ تعالی کے ذکر میں تھی _ بحث کی طوالت پر ہم معذرت خواہ ہیں_

۲۴۴

دوسرا وسیلہ

فضائل اور مکارم اخلاق کی تربیت

نفس کے کمال تک پہنچنےاور قرب الہی کے حاصل کرنے کے لئے ایک وسیلہ ان اخلاقی کی جو انسان کی فطرت اور سرشت میں رکھ دیئے گئے ہیں پرورش اور تربیت کرنا ہے_ اچھے اخلاق ایسے گران بہا امور ہیں کہ جن کا ربط اور سنخیت انسان کے ملکوتی روح سے ہے ان کی تربیت اور پرورش سے انسان کی روح کامل سے کاملتر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے بلند و بالا مقام قرب تک پہنچتا ہے_ اللہ تعالی کی مقدس ذات تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ ہے_ انسان چونکہ عالم بالا سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنی پاک فطرت سے کمالات انسانی کو کہ جن کی عالم بالا سے مناسبت ہے انہیں خوب پہچانتا ہے اور فطرتا ان کی طرف مائل ہے اسی لئے تمام انسان تمام زمانوں میں نیک اخلاق کو جانتے اور درک کرتے ہیں جیسے عدالت_ ایثار_ سچائی_ امانتداری _ احسان _ نیکی_ شجاعت_ صبر اور استقامت علم خیر خواہی مظلوموں کی مدد شکریہ احسان شناسی سخاوت اور بخشش_ وفا

۲۴۵

عہد_ توکل_ تواضع اور فروتنی_ عفو اور درگزر_ نرمی مزاجی _ خدمت خلق و غیرہ ان تمام کو ہر انسان خوب پہچانتے اور جانتے ہیں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتاہے_ کہ قسم نفس کی اور اس کی کہ اسے نیک اور معتدل بنایا ہے اور تقوی اور منحرف ہوجانے کا راستہ اسے بتلایا ہے کامیاب وہ ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک بنایا اور نقصان میں ہوگا وہ کہ جس نے اپنے نفس کو آلودہ اور ناپاک بنایا_(۴۳۷)

جب اخلاقی کام بار بار انجام دیئے جائیں تو وہ نفس میں راسخ اور ایک قسم کا ملکہ پیدا کر لیتے ہیں وہی انسان کو انسان بنانے اور اپنا نے اور ہوجانے میں موثر اور اثر انداز ہوتے ہیں اسی واسطے اسلام اخلاق کے بارے میں ایک خاص طرح کی اہمیت قرار دیتا ہے_ اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے_ سینکٹروں آیات اور روایات اخلاق کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ قرآن مجید کی زیادہ آیتیں اخلاق کے بارے میں اور اخلاقی احکام پر مشتمل ہیں یہاں تک کہ اکثر قرآن کے قصوں سے غرض اور غایت بھی اخلاقی احکام امور ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید ایک اخلاقی کتاب ہے _ قاعدتا پیغمبروں کے بھیجنے کی ایک بہت بڑی غرض اور غایت بھی نفس کو پاک اور صاف بنانا اور اخلاق کی اور پرورش کرنا ہے_ ہمارے پیغمبر علیہ السلام نے بھی اپنی بعثت اور بھیجے جانے کی غرص اخلاق کی تکمیل کرنا اور نیک اخلاق کی تربیت کرنا بتلائی ہے اور فرمایا ہے کہ '' میں اللہ تعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تا کہ نیک اخلاق کو پورا اور تمام کروں_(۴۲۸)

پیغمبر اسلام لوگوں سے فرماتے تھے کہ '' میں نیک اخلاق کی تمہیں نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۴۲۹)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں اخلاق حسنہ سے کوئی چیز افضل ہو نہیں رکھی جائیگی_(۴۳۰)

۲۴۶

تیسرا وسیلہ

عمل صالح

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد انسان کے تکامل کا وسیلہ اعمال صالح ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان قرب خدا اور درجات عالیہ کو حاصل کر سکتا ہے اور اپنی اخروی زندگی کو پاک و پاکیزہ بنا سکتا ہے_ قرآن مجید میں ہے کہ '' جو شخص نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایمان رکھتا ہو ہم اس کو ایک پاکیزہ میں اٹھائیں گے اور اسے اس عمل سے کہ جسے وہ بجا لایا ہے_ بہتر جزاء اور ثواب دیں گے_(۴۳۱)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے دنیا کی زندگی کے علاوہ ایک اور پاک و پاکیزہ زندگی ہے اور وہ نئی زندگی اس کے ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے_ قرآن فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ خداوند عالم کی طرف لوٹیں یہی وہ لوگ ہیں جو مقامات اور درجات عالیہ پر فائز ہوتے ہیں_(۴۳۲)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو انسان اللہ تعالی کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے نیک عمل بجالانا چاہئے اور عبادت میں خدا کا کوئی شریک قرار نہ دینا چاہئے_(۴۳۳)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو شخص عزت کا طلبکار ہے تو تمام عزت اللہ تعالی کے

۲۴۷

پاس ہے کلمہ طیبہ اور نیک عمل اللہ تعالی کی طرف جاتا ہے_(۴۳۴)

اللہ تعالی اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام عزت اور قدرت اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی کے پاس ہے اور کلمہ طیبہ یعنی موحد انسان کی پاک روح اور توحید کا پاک عقیدہ ذات الہی کی طرف جاتا ہے اور اللہ تعالی نیک عمل کو اپنے پاس لے جاتا ہے_ نیک عمل جب خلوص نیت سے ہو تو انسان کی روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے ترقی اور کمال دیتا ہے_ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ آخرت کی پاک و پاکیزہ زندگی اور اللہ تعالی سے قرب اور القاء کا مرتبہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے حاصل ہوتا ہے_ قرآن مجید نے نیک اعمال کے بجا لانے پر بہت زیادہ زور دیا ہے خدا سعادت اور نجات کا وسیلہ صرف عمل صالح کو جانتا ہے نیک عمل کا معیار اور میزان اس کا شریعت اور وحی الہی کے مطابق ہونا ہوا کرتا ہے_ خداوند عالم جو انسان کی خصوصی غرض سے واقف ہے اس کی سعادت اور تکامل کے طریقوں کو بھی جانتا ہے اور ان طریقوں کو وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام کے سپرد کر دیا ہے تا کہ آپ انہیں لوگوں تک پہنچا دیں اور لوگ ان سے استفادہ حاصل کریں_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں جب خدا اور اس کا رسول تمہیں کسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہیں تو اسے قبول کرو_(۴۳۵)

نیک اعمال شرعیت اسلام میں واجب اور مستحب ہوا کرتے ہیں_ عارف اور سالک انسان ان کے بجالانے سے اللہ تعالی کی طرف سیر و سلوک کرتے ہوئے قرب الہی کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور یہی تنہا قرب الہی تک پہنچنے کا راستہ ہے اور دوسرے جتنے راستے ہیں وہ عارف کو اس مقصد تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ ٹیڑھے راستے ہیں_ عارف انسان کو مکمل طور سے شرعیت کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اور سیر و سلوک کے لیے شرعیت کے راستے کے علاوہ اور کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے اور ان اذکار اور اوراد اور حرکت سے کہ جس کا شرعیت اسلام میں کوئی مدرک اور

۲۴۸

ذکر موجود نہ ہو اس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہئے نہ صرف وہ مقصد تک نہیں پہنچاتے بلکہ وہ اس کو مقصد سے دور بھی کر دیتے ہیں کیونکہ شرعیت سے تجاوز کرنا بدعت ہوا کرتا ہے_ عارف اور سالک انسان کو پہلے کوشش کرنی جاہئے کہ وہ واجبات اور فرائض دینی کو صحیح اور شرعیت کے مطابق بجالائے کیونکہ فرائض اور واجبات کے ترک کردینے سے مقامات عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا گرچہ وہ مستحبات کے بجالائے اور ورد اور ذکر کرنے میں کوشاں بھی رہے_ دوسرے مرحلے میں مستحبات اور ذکر اور ورد کی نوبت آتی ہے_ عارف انسان اس مرحلے میں اپنے مزاجی استعداد اور طاقت سے مستحبات کے کاموں کا بجا لائے اور جتنی اس میں زیادہ کوشش کرے گا اتنا ہی عالی مقامات اور رتبے تک جا پہنچے گا_ مستحبات بھی فضیلت کے لحاظ سے ایک درجے میں نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض دوسرے بعض سے افضل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بہتر اور جلدی مقام قرب تک پہنچاتے ہیں جیسے احادیث کی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے_ عارف انسان نمازیں دعائیں ذکر اور اوراد کتابوں سے انتخاب کرے اور اس کو ہمیشہ بجا لاتا رہے جتنا زیادہ اور بہتر بجا لائیگا اتنا صفا اور نورانیت بہتر پیدا کرے گا اور مقامات عالیہ کی طرف صعود اور ترقی کرے گا ہم یہاں کچھ اعمال صالح کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور باقی کو کتابوں کی طرف مراجعہ کرنے کا کہتے ہیں لیکن اس کا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ فرائض اور نوافل ذکر اور ورد اس صورت میں عمل صالح ار موجب قرب ہونگے جب انہیں بطور اخلاص بجا لایا جائے_ عمل کا صالح اور نیک اور موجب قرب ہونا اخلاص اور خلوص کی مقدار کے لحاظ سے ہوگا لہذا پہلے ہم اخلاص اور خلوص میں بحث کرتے ہیں پھر کچھ تعداد اعمال صالح کی طرف اشارہ کریںگے_

اخلاص

اخلاص کا مقام اور مرتبہ تکامل اور سیر و سلوک کے اعلی ترین مرتبے میں سے ایک ہے اور خلوص کی کی وجہ سے انسان کی روح اور دل انوار الہی کا مرکز بن جاتا ہے

۲۴۹

اور اس کی زبان سے علم اور حکمت جاری ہوتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خدا کے لئے چالیس دن خالص اور فارغ ہوجائے تو اس کے دل سے حکمت اور دانائی کے چشمے ابلتے اور جاری ہوجاتے ہیں_(۴۳۶)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنے اعمال کو خدا کے لئے خالص بجالاتے ہیں اور اپنے دلوں کو اس لئے کہ اللہ تعالی کی وجہ کا مرکز پاک رکھتے ہیں_(۴۳۷)

حضرت زہراء علیہا السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خالص عبادت اللہ تعالی کی طرف بھیجے اللہ تعالی بھی بہترین مصلحت اس پر نازل فرماتا ہے_(۴۳۸)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے '' بندوں کا پاک دل اللہ تعالی کی نگاہ کا مرکز ہوتا ہے جس شخص نے دل کو پاک کیا وہ اللہ تعالی کا مورد نظر قرار پائیگا_(۴۳۹)

پیغمبر علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور اس نے اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ '' خلوص اور اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جس شخص کو میں دوست رکھتا ہوں اس کے دل میں یہ قرار دے دیتا ہوں_(۴۴۰)

خلوص کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ کم از کم اس کا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی عبادت کو شرک اور ریاء اور خودنمائی سے پاک اور خالص کرے اور عبادت کو صرف خدا کے لئے انجام دے خلوص کی اتنی مقدار تو عبادت کے صحیح ہونے کی شرط ہے اس کے بغیر تو تقرب ہی حاصل نہیں ہوتا عمل کی قیمت اور ارزش اس کے شرک اور ریاء سے پاک اور خالص ہونے پر موقوف ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم تمہاری شکل اور عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے_(۴۴۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں بہترین شریک ہوں جو شخص کسی دوسرے کو عمل میں شریک قرار دے (تو تمام عمل کو اسی

۲۵۰

کے سپرد کر دیتا ہوں) میں سوائے خالص عمل کے قبول نہیں کرتا _(۴۴۲) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم لوگوں کو قیامت میں ان کی نیت کے مطابق محشور کرے گا_(۴۴۳)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خوش نصیب ہے وہ شخص جو عبادت اور دعا کو صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے اور اپنی آنکھوں کو ان میں مشغول نہ کرے جو آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی وجہ سے جو اس سے کان پر پڑتا ہے اللہ تعالی کے ذکر کو فراموش نہ کرے اور جو چیزیں دوسروں کو دی گئی ہیں ان پر غمگین نہ ہو_(۴۴۴)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے_ ''عمل میں خلوص سعادت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے_(۴۴۵) اللہ تعالی کے ہاں وہ عبادت قبول ہوتی ہے اور موجب قرب اور کمال ہوتی ہے جو ہر قسم کے ریاء اور خودپسندی اور خودنمائی سے پاک اور خالص ہو اور صرف اور صرف خدا کے لئے انجام دی جائے عمل کی قبولیت اور ارزش کا معیار خلوص اور اخلاص ہے جتنا خلوص زیادہ ہوگا اتناہی عمل کامل تر اور قیمتی ہوگا_ عبادت کرنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں_

ایک وہ لوگ جو اللہ تعالی کے عذاب اور جہنم کی آگ کے خوف اور ڈر سے عبادت بجا لاتے ہیں_

دوسرے وہ لوگ ہیں جو بہشت کی نعمتوں اور آخرت کے ثواب کے لئے اوامر اور نواہی کی اطاعت کرتے ہیں ان کا اس طرح کا عمل اس کے صحیح واقع ہونے کے لئے تو مضر نہیں ہوتا ان کا ایسا عمل صحیح اور درست ہے اور موجب قرب اور ثواب بھی ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں لوگوں کو راہ حق کی ہدایت اور ارشاد اور تبلیغ کے لئے غالبا انہیں دو طریقوں سے استفادہ کیا گیا ہے بالخصوص پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء اللہ خداوند عالم کے عذاب سے ڈرتے تھے اور جزع اور فزع کیا کرتے تھے اور بہشت اور اس کی نعمتوں کے لئے شوق اور امید کا اظہار کیا کرتے تھے_

۲۵۱

تیسرے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانہ کے لئے اللہ تعالی کی پرستش اور عبادت کیا کرتے ہیں اس طرح کا عمل بجا لانا اسکے منافی نہیں جو عمل کے قبول ہونے میں خلوص شرط ہے اسی واسطے احادیث میں لوگوں کو عمل بجالانے کی ترغیب اور شوق دلانے میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے تا کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالی کے احکام کی اطاعت کریں بلکہ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے عبادت میں انہماک اور کوشش کرنے کا سبب یہ بتلایا ہے کہ کیا ہم اللہ کے شکر گزار بندے قرار نہ پائیں(افلا اکون عبدا شکورا)گر چہ ان تینوں کے اعمال قابل قبول واقع ہوتے ہیں لیکن تیسرے قسم کے لوگ ایک خاص امتیاز اور قیمت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں خلوص زیادہ ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں وہ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم وہ ہے جو آخرت کے ثواب حاصل کرنے کے لئے خدا کی عبادت کرتے ہیں_ ان لوگوں کا کردار تاجروں والا ہے دوسری قسم وہ ہے جو جہنم کے خوف سے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں یہ اطاعت اور عبادت غلاموں اور نوکر والی ہے_ تیسری قسم وہ ہے جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانے کے ادا کرنے کے لئے عبادت کرتے ہیں یہ عبادت آزاد مردوں والی عبادت ہے_(۴۴۶)

چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو نفس کی تکمیل اور روح کی تربیت کے لئے عبادت کرتے ہیں اس طرح کا م قصد بھی اس خلوص کو جو عبادت کے صحیح ہونے میں شرط ضرر نہیں پہنچاتا_

پانچویں قسم اللہ کے ان ممتاز اور مخصوص بندوں کی ہے کہ جنہوں نے خدا کو اچھی طرح پہنچان لیا ہے اور جانتے ہیں کہ تمام کمالات اور نیکیوں کا منع اور سرچشمہ خدا ہے اس کی عبادت کرتا ہے اور چونکہ وہ اللہ کی بے انتہا قدرت اور عظمت کی طرف متوجہ ہیں اور اس ذات کے سوا کسی اور کو موثر نہیں دیکھتے صرف اسی ذات کو پرستش اور عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اسی لئے خدا کو دوست رکھتے ہیں اور اس کی قدرت اور

۲۵۲

عظمت کے سامنے خضوع اور خشوع کرتے ہیں اور یہ اخلاص اور خلوص کا اعلی ترین درجہ اور مرتبہ ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عبادت کرنے والے تین گروہ ہیں_ ایک گروہ ثواب کی امید میں عبادت کرتا ہے یہ عبادت حریص لوگوں کی ہے کہ جن کی غرض طمع ہوتا ہے دوسرا گروہ وہ ہے جو دوزخ کے ڈر سے عبادت کرتا ہے_ یہ عبادت غلاموں کی عبادت ہے کہ خوف اس کا سبب بنتا ہے لیکن میں چونکہ خدا کو دوست رکھتا ہوں اسی لئے اس کی پرستش اور عبادت کرتا ہوں یہ عبادت بزرگوں اور اشراف لوگوں کی ہے اس کا سبب اطمینان اور امن ہے اللہ تعالی فرماتا ہے (و ہم فزع یومئسذ امنون کہ وہ قیامت کے دن امن میں ہیں_ نیز اللہ فرماتا ہے ''قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله و یغفر لکم ذنوبکم _(۴۴۷) امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' اے میرے مالک_ میں تیری عبادت نہ دوزخ کے خوف سے اور نہ بہشت کے طمع میں کرتا ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کے تجھے عبادت اور پرستش کے لائق جانتا ہوں_(۴۴۸)

یہ تمام گروہ مخلص ہیں اور ان کی عبادت قبول واقع ہوگی لیکن خلوص اور اخلاص کے لحاظ سے ایک مرتبے میں نہیں ہیں بلکہ ان میں کامل اور کاملتر موجود ہیں پانچویں قسم اعلی ترین درجہ پر فائز ہے لیکن یہ واضح رہے کہ جو عبادت کے اعلی مرتبہ پر ہیں وہ نچلے درجہ کو بھی رکھتے ہیں اور اس کے فاقد نہیں ہوتے بلکہ نچلے درجے کے ساتھ اعلی درجے کو بھی رکھتے ہیں_ اللہ تعالی کے مخلص اور صدیقین بندے بھی اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں اور ان کے لطف اور کرم کی امید رکھتے ہیں اللہ تعالی کی نعمتوں کے سامنے شکر ادا کرتے ہیں اور معنوی تقرب اور قرب کے طالب ہوتے ہیں لیکن ان کی عبادت کا سبب فقط یہی نہیں ہوتا اور چونکہ وہ خدا کی سب سے اعلی ترین معرفت رکھتے ہیں اسی لئے اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں یہ اللہ تعالی کے ممتاز اور منتخب بندے ہیں مقامات عالیہ کے علاوہ نچلے سارے درجات رکھتے ہیں کیونکہ جو انسان تکامل

۲۵۳

کے لئے سیر و سلوک کرتا ہے جب وہ اعلی درجے تک پہنچتا ہے تو نچلے درجات کو بھی طے کر کے جاتا ہے_

اب تک جو ذکر جو ذکر ہوا ہے وہ عبادت میں خلوص اور اخلاص تھا لیکن خلوص صرف عبادت میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ عارف انسان تدریجا ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ خود اور اس کا دل اللہ تعالی کے لئے خالص ہو جاتا ہے اور تمام غیروں کو اپنے دل سے اس طرح نکال دیتا ہے کہ اس کے اعمال اور حرکات اور افکار خداوند عالم کے ساتھ اختصاص پیدا کر لیتے ہیں اور سوائے اللہ تعالی کی رضایت کے کوئی کام بھی انجام نہیں دیتا اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور خدا کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتا_ اس کی کسی سے دوستی اور دشمنی صرف خدا کے لئے ہوا کرتی ہے اور یہ اخلاص کا اعلی ترین درجہ ہے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کا عمل اور علم محبت اور بغض کرنا اور نہ کرنا بولنا اور ساکت رہنا تمام کا تمام خدا کے لئے خالص ہو_(۴۴۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص کی محبت اور دشمنی خرچ کرنا اور نہ کرنا صرف خدا کے لئے ہو یہ ان انسانوں میں سے ہے کہ جس کا ایمان کامل ہوتا ہے_(۴۵۰) امام جعفر صادق علیہ السلام نے ''فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے جس بندے کے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز نہ رکھی ہو تو اس کو اس سے اور کوئی شریف ترین چیز عطا نہیں کی_(۴۵۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہاں ہے وہ دل جو اللہ تعالی کو بخش دیا گیا ہو اور اس کی اطاعت کا پیمان اور عہد بناندھا گیا ہو_(۴۵۲)

جب کوئی عارف انسان اس مرتبے تک پہنچ جائے تو خدا بھی اس کو اپنے لئے خالص قرار دے دیتا ہے اور اپنی تائید اور فیض اور کرم سے اس کو گناہوں سے محفوظ

۲۵۴

کر دیتا ہے اس طرح کا انسان مخلص پہچانا جاتا ہے اور مخلص انسان اللہ تعالی کے ممتاز بندوں میں سے ہوتے ہیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے خالص قرار دے دیا ہے_(۴۵۳)

قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' یقینا و ہ خالص ہوگیا ہے اور رسول اور پیغمبر ہے_(۴۵۴)

اللہ تعالی کے خالص بندے ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں کہ شیطن ان کو گمراہ کرنے سے ناامید ہوجاتا ہے قرآن کریم شیطن کی زبان نقل کرتا ہے کہ اس نے خداوند عالم سے کہا کہ '' مجھے تیری عزت کی قسم کہ میں تیرے تمام بندوں کو سوائے مخلصین کے گمراہ کروں گا اور مخلصین کے گمراہ کرنے میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے_(۴۵۵) بلکہ اخلاص کے لئے روح اور دل کو پاک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور عبادت کرنے میں کوشش اور جہاد کرنا ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''عبادت کا نتیجہ اور ثمر اخلاص ہوتا ہے_(۴۵۶)

جیسے کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ چالیس دن تک عبادت اور ذکر کو برابر بجا لانا دل کے صفا اور باطنی نورانیت اور مقام اخلاص تک پہنچنے کے لئے سبب اور موثر اورمفید ہوتاہے نہ صرف ایک دفعہ بلکہ تدریجا اور اخلاص کے باطنی مراحل طے کرتے رہنے سے ایسا ہو سکتا ہے_

۲۵۵

کچھ نیک اعمال

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کو تکامل تک پہچانے اور قرب اور ارتقاء کے مقام تک لے جانے کا راستہ صرف اور صرف وحی الہی اور شرعیت کی پیروی کرنے میں منحصر ہے اور یہی وہ راستہ ہے کہ جسے انبیاء علیہم السلام نے بیان کیا ہے او رخود اس پر عمل کیا ہے اور اسے واجبات اور مستحبات سے بیات کیا ہے یہی عمل صالح ہے_ عمل صالح یعنی واجبات اور مستحبات جو اسلام میں بیان کئے گئے ہیں اور انہیں قرآن اور احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں لکھا گیا ہے آپ انہیں معلوم کر سکتے ہیں اور ان پر عمل کر کے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہم یہاں پر ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں_

اول: واجب نمازیں

قرب الہی اور سیر و سلوک معنوی کے لئے نماز ایک بہترین سبب اور عامل ہے_ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر پرہیزگار انسان کے لئے نماز قرب الہی کا وسیلہ ہے_(۴۵۷)

معاویہ بن وھب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ بہترین وسیلہ جو بندوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے اور خدا اسے دوست رکھتا ہے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا

۲۵۶

اللہ کی معرفت کے بعد میں نماز سے بہتر کوئی اور کسی چیز کو وسیلہ نہیں پاتا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی کے نیک بندے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے مجھے جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کی سفارش ہے_(۴۵۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کے نزدیک نماز محبوب ترین عمل ہے_ انبیاء کی آخری وصیت نماز ہے_ کتنا ہی اچھا ہے کہ انسان غسل کرے اور اچھی طرح وضوء کرے اس وقت ایک ایسے گوشہ میں بیٹھ جائے کہ اسے کوئی نہ دیکھے اور رکوع اور سجود میں مشغول ہوجائے جب انسان سجدے میں جائے اور سجدے کو طول دے تو شیطن داد اور فریاد کرتا ہے کہ اس بندے نے خدا کی اطاعت کی اور سجدہ کیا اور میں نے سجدے کرنے سے انکار کر دیا تھا_(۴۵۹)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک بندہ کی خدا کے نزدیک ترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سجدے میں ہوتا اس واسطے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ واسجد و اقترب_(۴۶۰)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو آسمان سے اس پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد ملائکہ گھیرا کر لیتے ہیں ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اگر یہ نماز کی ارزش اور قیمت کو جانتا تو کبھی نماز سے روگردانی نہ کرتا_(۴۶۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے '' جب مومن بندہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خداوند عالم نماز سے فارغ ہونے تک اس کی طرف نگاہ کرتا ہے اور آسمان سے اللہ تعالی کی رحمت اسے گھیر لیتی ہے اور فرشتے اس کے اردگرد گھیرا ڈال دیتے ہیں خداوند اس پر ایک فرشتے کو معین کر دیتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ اے نماز پڑھتے والے اگر تو جان لیتا کہ تو کس کی توجہ کا مرکز ہے اور کس سے مناجات کر رہا ہے تو پھر تو کسی دوسری چیز کی طرف ہرگز توجہ نہ کرتا اور کبھی یہاں سے باہر نہ جاتا_(۴۶۲)

۲۵۷

نماز میں حضور قلب

نماز ایک ملکوتی اور معنوی مرکب ہے کہ جس کی ہر جزو میں ایک مصلحت اور راز مخفی ہے_ اللہ تعالی سے راز و نیاز انس محبت کا وسیلہ اور ارتباط ہے_ قرب الہی اور تکامل کا بہترین وسیلہ ہے_ مومن کے لئے معراج ہے برائیوں اور منکرات سے روکنی والی ہے_ معنویت اور روحانیت کا صاف اور شفاف چشمہ ہے جو بھی دن رات میں پانچ دفعہ اس میں جائے نفسانی آلودگی اور گندگی سے پاک ہو جاتا ہے اللہ تعالی کی بڑی امانت اور اعمال کے قبول ہونے کا معیار اور ترازو ہے_

نماز آسمانی راز و اسرار سے پر ایک طرح کا مرکب ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں روح اور زندگی ہو_ نماز کی روح حضور قلب اور معبود کی طرف توجہہ اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع ہے_ رکوع اور سجود قرات اور ذکر تشہد اور سلام نماز کی شکل اور صورت کو تشکیل دیتے ہیں_ اللہ تعالی کی طرف توجہ اور حضور قلب نماز کے لئے روح کی مانند ہے_ جیسے جسم روح کے بغیر مردہ اور بے خاصیت ہے نماز بھی بغیر حضور قلب اور توجہ کے گرچہ تکلیف شرعی تو ساقط ہو جاتی ہے لیکن نماز پڑھنے والے کو اعلی مراتب تک نہیں پہنچاتی نماز کی سب سے زیادہ غرض اور غایت اللہ تعالی کی یاد اور ذکر کرنا ہوتا ہے_ خداوند عالم پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ '' نماز کو میری یاد کے لئے برپا کر_( ۴۶۴)

قرآن مجید میں نماز جمعہ کو بطور ذکر کہا گیا ہے یعنی '' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو موجب نماز جمعہ کے لئے آواز دی جائی تو اللہ تعالی کے ذکر کی طرف جلدی کرو_(۴۶۵)

نماز کے قبول ہونے کا معیار حضور قلب کی مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز میں حضور قلب ہوگا اتنا ہی نماز مورد قبول واقع ہوگی_ اسی لئے احادیث میں حضور قلب کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے_ جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے ''کبھی آدھی نماز قبول ہوتی ہے اور کبھی تیسرا حصہ اور کبھی چوتھائی اور کبھی پانچواں حصہ

۲۵۸

اور کبھی دسواں حصہ_ بعض نمازیں پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نماز پڑھنے والے کے سرپر مار دی جاتی ہے_ تیری نماز اتنی مقدر قبول کی جائیگی جتنی مقدار تو خدا کی طرف توجہ کرے گا_( ۴۶۶) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا اس کی طرف توجہہ کرتا ہے اور اپنی توجہ کو اس سے نہیں ہٹاتا مگر جب تین دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھی اس سے اعراض اور روگردانی کر لیتا ہے_(۴۶۷)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سستی اور بیہودہ حالت میں نماز نہ پڑھو_ نماز کی حالت میں اپنی فکر میں نہ رہو کیونکہ تم خدا کے سامنے کھڑے ہو_ جان لو کہ نماز سے اتنی مقدار قبول ہوتی ہے جتنی مقدار تیرا دل اللہ کی طرف توجہ کرے گا_(۸ ۴۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو بندہ نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی کی طرف متوجہ ہو تو خدا اس سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے کس کا ارادہ کیا ہے اور کس کو طلب کرتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو خالق اور حفاظت کرنے والا ڈھونڈتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو بخشنے والا طلب کرتے ہو؟ جب کہ میں کریم اور بخشنے والوں سے زیادہ کریم اور بخشنے والا ہوں اور سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہوں میں تمہیں اتنا ثواب دونگا کہ جسے شمار نہیں کیا سکے گا میری طرف توجہ کر کیونکہ میں اور میرے فرشتے تیری طرف توجہ کر رہے ہیں اگر نمازی نے خدا کی طرف توجہ کی تو اس دفعہ اس کے گزرے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہیں اور اس نے دوسری دفعہ خدا کے علاوہ کسی طرف توجہہ کی تو خداوند عالم دوبارہ اسے سابقہ گفتگو کی طرح خطاب کرتا ہے اگر اس نے نماز کی طرف توجہ کر لی تو اس کا غفلت کرنے والا گناہ بخشنا جاتا ہے اور اس کے آثار زائل ہوجاتے ہیں اور اگر تیسری دفعہ نماز سے توجہہ ہٹا لے خدا

۲۵۹

پھر بھی پہلے کی طرح اسے خطاب کرتا ہے اگر اس دفعہ نماز کی توجہ کر لے تو اس دفعہ اس کا غفلت والا گناہ بخش دیا جاتا ہے اور اگر چوتھی دفعہ نماز سے توجہ ہٹا لے تو خدا اور اس کے ملائکہ اس سے توجہ ہٹا لیتے ہیں_ خدا اس سے کہتا ہے کہ تجھے اسی کی طرف چھوڑے دیا ہے کہ جس کی طرف توجہ کر رہا ہے_(۴۶۹)

نماز کی ارزش اور قیمت خدا کی طرف توجہ اور حضور قلب سے ہوتی ہے توجہ اور حضور قلب کی مقدار جتنا اسے باطنی صفا اور تقرب الی اللہ حاصل ہوتا ہے_ بلا وجہ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء کرام نماز کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے_ امیر المومنین علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو آپ کے بدن پر لزرہ طاری ہوجاتا تھا اور آپکے چہرے کا رنگ بدن جاتا تھا_

آپ سے تبدیلی اور اضطراب کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ''کہ اس وقت اس امانت کے ادا کرنے کا وقت آپہنچا ہے جو آسمان اور زمین پر ڈالی گئی تھی لیکن وہ ڈرگئے تھے اور اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن انسان نے اس بڑے امانت کے اٹھانے کو قبول کر لیا تھا میرا خوف اس لئے ہے کہ آیا میں اس امانت کو ادا کر لونگا یا نہ؟(۴۷۰)

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے احوال میں کہا گیا ہے کہ نماز کے وقت ان کے چہرے کا رنگ زرد اور سرخ ہو جاتا تھا اور نماز کی حالت میں اس طرح ہوتے تھے کہ گویا اس گفتگو کر رہے ہیں کہ جسے وہ دیکھ رہے ہیں_(۴۷۱)

امام زین العابدین کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا اور ایک حقیر بندے کی طرح خدا کے سامنے کھڑے ہوتے تھے آپ کے بدن کے اعضاء خدا کے خوف سے لرزتے تھے اور آپ کی نماز ہمیشہ و داعی اور آخری نماز کی طرح ہوا کرتی تھی کہ گویا آپ اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھ سکیں گے_(۴۷۲)

حضرت زہرا علیہا السلام کے بارے میں ہے کہ نماز کی حالت میں سخت خوف کی

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346