خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس22%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122275 / ڈاؤنلوڈ: 5499
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

خودسازی

ابراہیم امینی

ناشر: انتشارات شفق

نوبت چاپ: دہم ۱۳۸۰

تیراژ:۴۰۰۰

چاپ: قدس

شابک: ۰-۰۲۰-۴۸۵-۹۶۴

۳

تقدیم

اس ناچیز تحریر کو جہاد اور شہادت کے راہ پیماؤں اور عرفاء کہ جنہوں نے سو سالہ راستے کو ایک شب میں طے کیا ہے اور محبوب کے عشق میں ایک لحظہ جلے ہیں اور بلند مقام (جو اپنے رب سے رزق حاصل کرتے ہیں) تک صعود کیا ہے کی خدمت میں اس امید پر تقدیم کرتا ہوں کہ وہ ایک نگاہ لطف ہماری طرف بھی مبذول کریں_

مؤلف

اس کتاب کا ترجمہ اس امید میں کر رہا ہوں کہ یہ میرے لئے صدقہ جاریہ قرار پاتے ہوئے پڑھنے والے اس پر عمل کر کے اس حقیر کے لئے دعاء مغفرت کریں اور دعا کریں میرا انجام محبت آل محمد(ص) پر قرار پائے_ اور خداوند عالم مجھے مرنے کے بعد اپنی جوار رحمت میں قرار دے_ آمین

مترجم

۴

مقدمہ

الحمد لله رب العالمین و الصلوة و السلام علی اشرف الانبیاء و المرسلین حبیب اله العالمین ابی القاسم محمد صلی الله علیه و آله وسلم الذی بعثه رحمة للعالمین لیزکیهم و یعلمهم الکتاب و الحکمة و السلام علی عترته و ابل بیته الطیبین الطاهرین

خدایا ہمیں انسانیت کے سیدھے راستے اور کمال مدارج کے طے کرنے کی ہدایت فرما اور ہمارے تاریک دلوں کو معرفت اور یقین کے نور سے روشن کر_ خود پسندی، خودبینی خواہشات و تمینات نفسانی کے پردوں کو ہمارے دلوں سے ہٹا دے اور ہماری باطنی آنکھکو بے مثال جمال کے دیکھنے کی بینائی عطا کردے_ اور ہمیں اپنے آپ کو سنوار نے اور روح کو پاک و پاکیزہ کرنے کے راستوں کی طرف مدد فرما_ اپنے غیر کی طرف توجہہ اور محبت کو ہمارے دلوں سے نکال دے اور غفلت کے پردوں کو ہمارے دلوں سے دور کردے اور اپنی محبت اور انس کے شفاف چشمہ سے سیراب فرما_ تاکہ ہم اپنی طرف متوجہ ہوں اور باقی ماندہ گرانقدر عمر کو گذری ہوئی زندگی کی طرح سستی اور غفلت میں بسر نہ کردیں_

اس ناچیز بندہ جو خواہشات اور تمینات نفسانی میں گرفتار اور حیران و پریشان اور مقامات معنوی اور درجات کمال سے بے خبر اور مراتب سیر و سلوک سے نا واقف نے اس کا ارادہ کیا ہے کہ خود سازی تہذیب اور تزکیہ نفس کی بحث کے میدان میں وارد ہو اور قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے فرامین اور تزکیہ اور

۵

تہذیب نفس اور سیر اور سلوک الی اللہ کے قواعد کلیہ سے استفادہ کر کے پڑھنے والوں اور طالبین راہ معرفت کی خدمت میں پیش کرے اس امید پر کہ شاید سالکین راہ ہدایت کے لئے مددگار ثابت ہو اور خداوند عالم اس حقیر اور محروم پر احسان کرے اور میرا ہاتھ پکڑ کر نادانی خودخواہی غفلت کی تاریکیوں سے خارج کردے اور ذکر و انس و محبت و بقاء کی وادی کی طرف رہنمائی فرمائے شاید باقیماندہ عمر میں اگر ہو بعض گذرے ہوئے نقصانات کا جبران کر سکوں_ احب الصالحین و لست منہم نیکوں کو دوست رکھتا ہوں گر چہ ان میں سے نہیں ہوں_

اہم نقطہ

اس بحث میں وارد ہونے سے پہلے ایک مہم مطلب کا تذکرہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ خودسازی (اپنے آپ کو سدھارنا) اور تزکیہ نفس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ انسان گوشہ نشین اور دنیاوی مشاغل کو ترک کردے اور اجتماعی اور معاشرتی ذمہ داریوں اور عہدوں سے دست بردار ہوجائے بلکہ خود اس کتاب کے مباحث میں واضح ہوجائیگا کہ گوشہ نشینی اور فردی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو قبول نہ کرنا خودسازی اور تکمیل و تہذیب نفس کے منافی ہے_ اسلام مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ با وجودیکہ عام لوگوں میں زندگی بسر کریں اور فردی اور اجتماعی وظائف انجام دیں اپنے آپ سے غافل نہ ہوں اور خودسازی اور تہذیب نفس کی تربیت کو اہمیت دین اور اسے مورد عنایت قرار دیں_

مؤلف

۶

پیغمبروں کے بعثت کی اہم غرض نفوس کا پاکیزہ کرنا تھا

پیغمبروں کا سب سے بڑا ہدف اور غرض انسانی نفوس کی پرورش کرنا اور نفوس انسانی کو پاک و پاکیزہ بنانا تھا_

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ '' خداوند عالم نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ان سے ایک رسول ان کے درمیان بھیجا ہے تا کہ وہ ان کے لئے قرآنی آیات کی تلاوت کرے اور ان کے نفوس کو پاک و پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے گرچہ وہ اس سے پہلے ایک کھلی ہوئی گمراہی میں غرق تھے_(۱)

تعلیم و تربیت کا موضوع اس قدر مہم تھا کہ پیغمبروں کے بھیجنے کی غرض قرار پایا اور خداوند عالم نے اس بارے میں اپنے بندوں پر احسان کیا_ انسان کی فردی اور اجتماعی شخصیت کی سعادت اور دنیوی اور اخروی شقاوت اس موضوع سے وابستہ ہے کہ کس طرح انسان نے اپنے آپ بنایا ہے اور بنائے گا_ اسی وجہ سے انسان کا اپنے آپ کو بنانا ایک زندگی ساز سرنوشت ساز کام شمار ہوتا ہے_ پیغمبر(ص) آئے ہیں تا کہ خودسازی اور نفس انسانی کی پرورش اور تکمیل کا راستہ بتلائیں اور مہم ا ور سرنوشت ساز کام کی

۷

رہنمائی اور مدد فرمائیں پیغمبر آئے ہیں تا کہ نفوس انسانی کو رذائل اور برے اخلاق اور حیوانی صفات سے پاک اور صاف کریں اور اچھے اخلاق اور فضائل کی پرورش کریں_ پیغمبر علیہم السلام آئے ہیں تا کہ انسانوں کو خودسازی کا درس دیں اور برے اخلاق کی شناخت اور ان پر کنٹرول اور خواہشات نفسانی کو قابو میں رکھنے کی مدد فرمائیں اور ڈرانے اور دھمکانے سے ان کے نفوس کو برائیوں اور ناپاکیوں سے پاک و صاف کریں_ وہ آئے ہیں تا کہ فضائل اور اچھے اخلاق کے پودے کو انسانی نفوس میں پرورش دیں اور بار آور بنائیں اور اپنی راہنمائی اور تشویق اور ترغیب سے ان کے مددگار بنیں_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ '' میں تمہیں اچھے اخلاق کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۲)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' میں اسلئے بھیجا گیا ہوں تا کہ اچھے اخلاق کو نفوس انسانی میں مکمل کروں_(۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم نے پیغمبروں کو اچھے اخلاق کے لئے منتخب کیا ہے جو شخص بھی اپنے آپ میں اچھے اخلاق موجو د پائے تو خداوند عالم کا اس نعمت پر شکریہ ادا کرے اور جو شخص اپنے آپ میں اچھے اخلاق سے محروم ہو اسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع اور زاری کرنی چاہئے اور اللہ تعالی سے اچھے اخلاق کو طلب کرنا چاہئے_(۴)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اگر بالغرض میں بہشت کی امید نہ رکھتا ہوتا اور دوزخ کی آگ سے نہ ڈرتا ہوتا اور ثواب اور عقاب کا عقیدہ بھی نہ رکھتا ہوتا تب بھی یہ امر لائق تھا کہ میں اچھے اخلاق کی جستجو کروں کیونکہ اچھے اخلاق کامیابی اور سعادت کا راستہ ہے_(۵)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایمان کے لحاظ سے کاملترین مومنین وہ

۸

ہیں کہ جن کے اخلاق بہتر ہوں_'' رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ '' قیامت کے دن نامہ اعمال میں کوئی چیز حسن خلق سے افضل نہیں رکھی جائیگی_(۶)

ایک آدمی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ دین کیا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا ''حسن خلق'' وہ آدمی اٹھا اور آپ(ص) کے دائیں جانب آیا اور عرض کی کہ دین کیا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا ''حسن خلق'' یعنی اچھا اخلاق_ پھر وہ گیا اور آپ کے بائیں جانب پلٹ آیا اور عرض کی کہ دین کیا ہے ؟ آپ(ص) نے اس کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کیا تو نہیں سمجھتا؟ کہ دین یہ ہے کہ تو غصہ نہ کرے_(۷)

اسلام کو اخلاق کے بارے میں خاص توجہہ ہے اسی لئے قرآن مجید میں اخلاق کے بارے میں احکام کی نسبت زیادہ آیات قرآنی وارد ہوئی ہیں یہاں تک کہ قرآن کے قصوں میں بھی غرض اخلاقی موجود ہے_ تمہیں احادیث میں اخلاق کے بارے ہزاروں حدیثیں ملیں گی اگر دوسرے موضوعات سے زیادہ حدیثیں نہ ہوئیں تو ان سے کمتر بھی نہیں ہیں_ اخلاق کے بارے میں ثواب اور خوشخبریاں جو ذکر ہوئی ہیں دوسرے اعمال کے ثواب سے کمتر نہیں ہیں_ اور برے اخلاق سے ڈرانا اور سزا جو بیان ہوئی ہے وہ دوسرے اعمال سے کمتر نہیں ہیں_ اسی لئے اسلام کی بنیاد اخلاقیات پر تشکیل پاتی ہے_ مناسب نہیں کہ اسے دین کے احکام میں دوسرا درجہ دیا جائے اور دینداروں کے لئے آرائشے اور خوبصورتی کا درجہ دیا جائے اگر احکام میں امر اور نہی ہیں تو اخلاق میں بھی امر اور نہی موجود ہیں اور اگر احکام میں تشویق اور تخویف ثواب اور عقاب اور جزا ء اور سزا موجود ہے تو اخلاق میں بھی یہی امور موجود ہیں_

پس احکام شرعی اور اخلاق میں کونسا فرق موجود ہے؟ اگر ہم سعادت اور کمال کے طالب ہیں تو اخلاقیات سے لاپرواہی نہیں برت سکتے ہم اخلاقی واجبات کو اس بہانے سے کہ یہ اخلاقی واجبات ہیں ترک کردیں اور اخلاقی محرمات کو اس بنا پر کہ یہ اخلاقی محرمات ہیں بجالاتے رہیں_ اگر نماز واجب ہے اور اس کا ترک کرنا حرام اور موجب

۹

سزا ہے تو عہد کا ایفا بھی واجب ہے اور خلاف وعدہ حرام ہے اور اس پر بھی سزا ہوگی پس ان دونوں میں کیا فرق ہے؟

واقعی متدین اور سعادت مند وہ انسان ہے کہ جو احکام شرعیہ اور تکالیف الہی کا پابند ہو اور اخلاقیات کا بھی پابند ہو بلکہ سعادت اور کمال معنوی اور نفسانی میں اخلاقیات بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جیسے کہ بعد میں ذکر کریں گے_

بزرگ شناسی و خودسازی

گرچہ انسان ایک حقیقت ہے لیکن یہ مختلف جہات اور اوصاف رکھتا ہے_ انسان کے وجود کا ایک مٹی کے جوہر سے جو بے شعور ہے آغاز ہوا ہے اور پھر یہ جوہر مجرد ملکوتی تک جاپہنچتا ہے خداوند عالم قرآن مجید میںفرماتا ہے کہ '' خداوند وہ ہے کہ جس نے ہر چیز کو اچھا پیدا کیا ے اور انسان کو مٹی سے بنایا ہے اور اس کی نسل کو بے وقعت پانی یعنی نطفہ سے قرار دیا ہے پھر اس نطفہ کو اچھا اور معتدل بنایا ہے اور پھر اس میں اپنی طرف منسوب روح کو قرار دیا ہے اور تمہارے لئے کان، آنکھ اور دل بنایا ہے اس کے باوجود تم پھر بھی بہت کم اس کا شکریہ ادا کرتے ہو_(۸)

انسان مختلف مراتب اور جہات رکھتا ہے ایک طرف تو وہ ایک جسم طبعی ہے اور اس جسم طبعی کے آثار رکھتا ہے دوسری طرف وہ جسم نامی ہے کہ وہ اس کے آثار بھی رکھتا ہے اور دوسرے لحاظ سے وہ ایک حیوان ہے اور وہ حیوان کے آثار بھی رکھتا ہے لیکن بالاخرہ وہ ایک انسان ہے اور وہ انسانیت کے آثار بھی رکھتا ہے جو حیوانات میں موجود نہیں ہیں_

لہذا انسان ایک حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت وجود کے لحاظ سے مختلف مراتب اور درجات کی حامل ہے_ جب یہ کہتا ہے کہ میرا وزن اور میری شکل و صورت تو وہ

۱۰

اپنے جسم نامی ہونے کی خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میری شکل و صورت تو وہ اپنے جسم نامی ہونے کی حکایت کر رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میرا چلنا اور شہوت اور غضب تو وہ اپنے حیوانی درجہ کی خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میرا سوچنا اور عقل اور فکر تو وہ اپنے انسان اعلی درجہ کا پتہ دے رہا ہوتا ہے پس انسان کی میں اور خود مختلف موجود ہیں_ ایک جسمانی میں اور ایک میں نباتی اور ایک میں حیوانی اور ایک میں انسانی لیکن ان میں سے انسانی میں پر ارزش اور اصالت رکھتی ہے وہ چیز کہ جس نے انسان کو انسان بنایا ہے اور تمام حیوانات پر برتری دی ہے وہ اس کی روح مجرد ملکوتی اور نفخہ الہی ہے_

خداوند عالم انسان کی خلقت کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو ٹی سے خلق کیا ہے پھر اسے نطفہ قرار دیا ہے اور اسے ایک مضبوطہ جگہ رحم مادر میں قرار دیا ہے اور پھر نطفہ کو علقہ لو تھڑا اور پھر علقہ کو نرم گوشت بنایا ہے اور پھر نرم گوشت کو ہڈیاں بنایا ہے پھر ان ہڈیوں پر گوشت سے ڈھانپا ہے_ پر اس میں روح مجرد ملکوتی کو پھونکا ہے جس سے اسے ایک نئی مخلوق بنایا ہے_ شاباش اس کامل قادر پر جو بہترین خلق کرنے والا ہے_

انسان کی خلقت کے بارے خدائے دانا فرماتا ہے_ تبارک اللہ احسن الخالقین اسی ملکوتی روح کی وجہ سے انسان کایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ '' میں نے آدم (ع) کو پیدا کیا ہے اور اس روح کو جو میری طرف نسبت رکھتی ہے اس میں پھونکا ہے لہذا تم سب اس کی طرف سجدہ کرو_(۹)

اگر انسان تعظیم کا مورد قرار پایا ہے اور خدا نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے اولاد آدم کو محترم قرار دیا ہے اور انہیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا ہے اور ہر قسم کی پاکیزہ اور لذیذ غذا اس کی روزی قرار دی ہے اور اپنی بہت سی مخلقو پر اسے

۱۱

برتری دے ہے(۱۰) تو یہ سب اسی روح ملکوتی کے واسطے سے ہے لہذا انسان اگر خود سازی یعنی اپنے آپ کو سنوارنا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی انسانی میں کو سنوارے اور تربیت دے نہ وہ اپنی حیوانی میں یا جسمانی میں کی پرورش کرے پیغمبروں کی غرض بعثت بھی یہی تھی کہ انسان کو خودسازی اورجنبہ انسانی کی پرورش میں اس کی مدد کریں اور اسے طاقت فراہم کریں_ پیغمبر(ص) انسانوں سے فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے انسانی میں کو فراموش نہ کرو اور اگر تم نے اپنے انسانی خود اور میں کو خواہشات حیوانی پر قربانی کر دیا تو بہت بڑا نقصان تمہارے حصہ اور نصیب میں آجائیگا_

خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے '' اے پیغمبر_ ان سے کہہ دے کہ نقصان میں وہ اشخاص ہیں جو اپنے نفس انسانی اور اپنے اہل خانہ کے نفوس کو قیامت کے دن نقصان میں قرار دیں اور یہ بہت واضح اور کھلا ہوا نقصان ہے_(۱۱)

جو لوگ حیوانی زندگی کے علاوہ کسی دوسرے چیز کی سوچ نہیں کرتے در حقیقت وہی لوگ ہیں جنہوں نے انسانی شخصیت کو کھو دیا ہوا ہے کہ جس کی تلاش میں وہ کوشش نہیں کرتے_(۱۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''میں اس شخص سے تعجب کرتا ہوں کہ ایک گم کی ہوئی چیز کی تلاش تو کرتا ہے جب کہ اس نے اپنے انسانی روح کو گم کیا ہوا ہے اور اس کے پیدا کرنے کے درپے نہیں ہوتا_'' اس سے بدتر اور دردناک تر کوئی نقصان نہیں ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنی انسانی اور واقعی اور حقیقی شخصیت کو کھو بیٹھے ایسے شخص کے لئے سوائے حیوانیت کے اور کچھ باقی نہیں رہے گا_

روح انسانی اور نفس حیوانی

جو روایات اور آیات روح اور نفس انسانی کی بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ د و

۱۲

قسم پر ہیں ایک قسم نفس انسانی کو ایک در بے بہا اور شریف ملکوتی کہ جو عالم ربوبی سے آیا ہے اور فضائل اور کمالات انسانی کامنشا ہے بیان کرتی ہیں اور انسان کو تاکید کرتی ہیں کہ ایسے کمالات اور جواہر کی حفاظت اور نگاہ داری اور تربیت اور پرورش میں کوشش کرے اور ہوشیار رہے کہ ایسے بے بہا در کو ہاتھ سے نہ جانے دے کہ اس سے اسے بہت زیاد نقصان اٹھانا پڑے گا_ نمونے کے طور پر قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' اے محمد (ص) آپ سے روح کی حقیقت کا سوال کرتے ہیں ان کے جواب میں کہہ دے کہ یہ پروردگار کے عالم سے ہے اور وہ علم جو تمہیں دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے_(۱۳)

اس آیت میں روح کو ایک موجود عالم امر سے جو عالم مادہ سے بالاتر ہے قرار دیا ہے_

امیرالمومنین علیہ السلام نے روح کے بارے میں فرمایا ہے کہ ''روح ایک در بے بہا ہے جس نے اس کی حفاظت کی اسے وہ اعلی مرتبہ تک پہنچائیگا اور جس نے اس کی حفاظت میں کوتاہی کی یہ اسے پستی کی طرف جائیگا_(۱۴)

آپ نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص نے اپنی روح کی قدر پہچانی وہ اسے پست اور فانی کاموں کے بجالانے کی طرف نہیں لے جائی گی_(۱۵)

آپ نے فرمایا ''جس شخص نے روح کی شرافت کو پالیا وہ اسے پست خواہشات اور باطل تمینات سے حفاظت کردے گی_(۱۶)

''روح جتنی شریف ہوگی اس میں اتنی زیادہ مہربانی ہوگی_(۱۷)

آپ نے فرمایا کہ '' جس کا نفس شریف ہوگا وہ اسے سوال کرنے کی خواری سے پاک کردے گا_(۱۸)

اس قسم کی آیات اور روایات کے بہت زیادہ نمونے موجود ہیں_ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس انسانی ایک بیش بہا قیمتی در ہے کہ جس کی حفاظت و نگاہ داری اور تربیت کرنے میں کوشش کرنی چاہئے_

دوسری قسم کی روایات وہ ہیں کہ جس میں نفس انسانی کو ایک انسان کا سخت دشمن

۱۳

تمام برائیوں کا مبدا بتلایا گیا ہے لہذا اس سے جنگ کی جائے اور اسے سرکوب کیا جائے ور نہ وہ انسان کے لئے بدبختی اور شقاوت کے ا سباب مہیا کردے گا_ نمونے کے طور پر جیسے قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جو شخص مقام رب سے ڈرتا ہو اور اپنے نفس کو خواہشات پر قابو پاتا ہو اس کی جگہ جنت ہے_(۱۹)

قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ '' میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا کیونکہ وہ ہمیشہ برائیوں کی دعوت دیتا ہے مگر جب خدا رحم کرے_(۲۰)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' تیرا سب سے بدترین دشمن وہ نفس ہے جو تیرے دو پہلو میں موجود ہے_(۲۱)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نفس ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے جو شخص اسے امین قرار دے گا وہ اس سے خیانت کرے گا جس نے اس پر اعتماد کیا وہ اسے ہلاکت کی طرف لے جائیگا، جو شخص اس سے راضی ہوگا وہ اسے بدترین موارد میں وارد کردےگا_(۲۲)

نیز آپ نے فرمایا '' نفس پر اطمینان کرنا شیطان کے لئے بہترین اور مضبوط موقعہ ہوا کرتا ہے_(۲۳)

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''اے پروردگار کہ میں آپ سے نفس کی شکایت کرتا جو ہمیشہ برائی کی دعوت دیتا ہے اور گناہ اور خطاء کی طرف جلدی کرتا ہے او ربرائی سے علاقمند ہے اور وہ اپنے آپ کو تیرے غضب کا مورد قرار دیتا ہے اور مجھے ہلاکت کے راستوں کی طرف کھینچتا ہے_(۲۴)

اس قسم کی آیات اور روایات بہت زیادہ ہیں کہ جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ نفس ایک ایسا موجود ہے جو شریر اور برائیوں کا سرچشمہ ہے لہذا چاہئے کہ جہاد کر کے اس کی کوشش کو سرکوب کیا جائے_

۱۴

ممکن ہے کہ بعض لوگ تصور کریں کہ ان دو قسم کی آیات اور روایات میں تعارض اور تزاحم واقع ہے یا خیال کریں کہ انسان میں دو نفس اور روح ہیں کہ ایک اچھائیوں کامنبع ہے اور دوسرا نفس حیوانی ہے جو برائیوں کا سرچشمہ ہے لیکن یہ دونوں تصور اور خیال غلط ہیں_ پہلے تو ان دو قسم میں تعارض ہی موجود نہیں ہے دوسرے علوم میں ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کی ایک حقیقت ہے اور ایک روح ہے اور اس طرح نہیں ہے کہ انسانیت اور حیوانیت انسان میں ایک دوسرے سے جدا اور علیحدہ ہوں_

بلکہ نفس انسانی میں دو مرتبے اور دو وجودی حیثیت ہیں نیچے اور پست مرتبے میں وہ ایک حیوان ہے کہ جس میں حیوان کے تمام آثار اور خواص موجود ہیں اور ایک اعلی مرتبہ ہے کہ جس میں وہ ایک انسان ہے اور وہ نفخہ الہی اور عالم ملکوت سے آیا ہے_

جب یہ کہا گیا ہے کہ نفس شریف اور قیمتی اور اچھائیوں کا مبدا ہے اس کے بڑھانے اور پرورش اور تربیت میں کوشش کرنی چاہئے یہ اس کے اعلی مرتبے کی طرف اشارہ ہے اور جب یہ کہا گیا ہے کہ نفس تیرا دشمن ہے اس پر اعتماد نہ کرو تجھے ہلاکت میں ڈال دے گا اور اسے جہاد اور کوشش کر کے قابو میں رکھ یہ اس کے پست مرتبے کی طرف اشارہ ہے یعنی اس کی حیوانیت کو بتلایا گیا ہے_ جب کہا جاتا ہے کہ نفس کی تربیت اور پرورش کر اس سے مراد انسانی مرتبہ ہوتا ہے اور جب کہا جاتا ہے کہ اس کو سرکوب اور مغلوب کر دے تو اس سے مقصود اس کا پست حیوانی مرتبہ ہوتا ہے_

ان دو مرتبوں اور دو حیثیتوں اور دو وجودوں میں ہمیشہ کشمکش اور جنگ رہتی ہے_ حیوانی مرتبہ کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اپنی خواہشات اور تمینات کو پورا کرنے میں لگا رہے اور قرب الہی اور ترقی اور تکامل سے نفس انسانی کو روکے رکھے اور اسے اپنا غلام بنائے رکھے اس کے برعکس نفس انسانی اور مرتبہ عالی وجود انسانی ہمیشہ کوشش میں رہتا ہے کہ کمالات انسانی کے اعلی مراتب طے کرے اور قرب الہی کی مقام پر فائز

۱۵

ہوجائے اس مقام تک پہنچنے کے لئے وہ خواہشات اور تمایلات حیوانی کو قابو میں کرتا ہے اور اسے اپنا نوکر اور غلام بنا لیا ہے اس کشمکش اورجنگ میں ان دو سے کون دوسرے پر غلبہ حاصل کرتا ہے اگر روح انسان اور ملکوتی نے غلبہ حاصل کر لیا تو پھر انسانی اقدار زندہ ہوجائیں گی اور انسان قرب الہی کے بلند مرتبے اور قرب الہی تک سیر و سلوک کر تا جائیگا اور اگر روح حیوانی اور حیثیت بہیمی نے غلبہ حاصل کر لیا تو پھر عقل کا چراغ بچھ جائیگا اور وہ اسے گمراہی اور ضلالت کی وادی میں دھکیل دے گا اسی لئے پیغمبر آئے ہیں کہ انسان کو اس مقدس جہاد اورجنگ میں حتمی اور یقینی مدد میں_

۱۶

انسانی ارزش

انسان کی دو حیثیتیں اور دو وجود ہیں ایک وجود انسانی اور ایک وجود حیوانی_ انسان کی قدر اور قیمت انسانی وجود سے ہے اور حیوانی وجود سے نہیں ہے_ حیوانی وجود تو اس کا طفیلی ہے اور در حقیقت وہ کچھ بھی نہیں ہے_ گر چہ انسان حیوان تو ہے ہی اور اسے حیوانی وجود کے لئے اس کے لوازم زندگی حاصل کرنے کو اہمیت دینی بھی چاہئے_ لیکن انسان اس دنیا میں اس لئے نہیں آیا کہ وہ حیوانی زندگی بسر کرے بلکہ انسان اس اس جہان میں اسلئے آیا ہے کہ وہ اپنی حیوانی زندگی سے انسان زندگی کی تکمیل کرے اور اس حیوانی زندگی سے انسان زندگی کا فائدہ حاصل کرے انسان دونوں انسانی حیوانی زندگی میں کئی ایک چیزوں کا محتاج ہوتا ہے کہ جن کے تقاضے خود اس کے وجود میں رکھ دیئے گئے ہیں_ اس لحاظ سے کہ وہ ایک حیوان ہے اور نامی ہے پانی غذا مکان لباس ہوا محتاج ہے تا کہ وہ زندہ رہے پانی اور غذا کا محتاج اور اس لحاظ سے کہ ان کو پورا کرے اسے تلاش اور کوشش کرنی ہوتی ہے_ بھوک پیاس لذت پانی اور غذا کی طلب یہ اس کے وجود میں رکھ دی گئی ہوئی ہیں اور اس لحاظ سے کہ نسل انسانی باقی رہے جنسی غریزہ اور بیوی کی طرف میلان اس کے وجود میں رکھ دیا گیا ہے_ انسان

۱۷

اپنے باقی رہنے کا علاقمند ہوتا ہے زندگی کے باقی رکھنے میں حیوانی زندگی اور اس کے آثار کا پابند ہے جب غذا کو دیکھتا ہے اور بھوک کا احساس کرتا ہے تو غذا کھانے کی طرف میلان پیدا کرتا ہے اور اپنے آثار سے کہتا ہے کہ مجھے غذا حاصل کرنی چاہئے اور اسے کھانا چاہئے اور اس کے حاصل کرنے میں کوئی مانع آڑے آرہا ہو تو اس سے مقابلہ کرتا ہے_ یقینا ایسا احساس پر انہیں ہے کیونکہ اپنی زندگی کے دوام کے لئے انسان کو کام کرنا چاہئے تا کہ کھائے اور پیئے_ اسلام میں نہ صرف اس سے روکا نہیںگیا بلکہ اس کی سفارش بھی کی گئی ہے_ لیکن اس مطلب کو بھی جاننا چاہئے کہ حیوانی زندگی اخروی زندگی کا مقابلہ اور تمہید ہے یہ خود انسان کی خلقت کی غرض نہیں ہے بلکہ یہ طفیلی ہے اصیل نہیں ہے_ اگر کسی نے حیوانی زندگی کو ہی اصل اور ہدف قرار دے دیا اور دن رات خواہشات و تمینات حیوانی زندگی میں لگا رہا اور اس کی کوشش اور تلاش کرتا رہا اور اپنی زندگی کا ہدف خورد و نوش پہننا اور آرام کرنا اور شہوت رانی اور غرائز حیوانی کا پورا کرنا قرار دے دیا تو وہ ضلالت اور گمراہی میں ہی جا پڑے گا_ کیونکہ اس نے ملکوتی روح اور عقل انسانی کو حاکمیت سے دور کر کے فراموشی کے خانے میں ڈال دیا ہے ایسے شخص کو انسان شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ وہ ایک حیوان ہے جو انسان کی شکل و صورت میں ہے_ اس کے پاس عقل ہے لیکن وہ ایسی دور ہوئی ہے کہ جس سے انسانی کمالات اور فضائل کو نہیں پہچان رہا وہ کان اور آنکھ رکھتا ہے لیکن حقایق اور واقعات کو نہیں سنتا اور نہیں دیکھتا_ قرآن ایسے انسان کو حیوان بلکہ اس سے بھی گمراہ تر جانتا ہے کیونکہ حیوان تو عقل ہی نہیں رکھتا لیکن ایسا شخص عقل رکھتا ہے اور نہیں سمجھتا _

قرآن مجید میں ہے کہ '' اے پیغمبر اگر تیری دعوت کو قبول نہیں کرتے تو سمجھ لے کہ یہ لوگ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں اور کونسا شخص اس سے گمراہ تر ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے اور اللہ تعالی ظالموں کو بھی ہدایت نہیں کر ے گا_(۲۵) قرآن مجید فرماتا ہے _ کہ ''ہم نے بہت سے جنات اور انسان جہنم کے لئے پیدا کئے ہیں کہ وہ اپنے سوء اختیار سے جہنم میں جائیں گے_

۱۸

اس واسطے کہ ان کے پاس دل تو ہو لیکن اس سے سمجھتے نہیں_ آنکھیں رکھتے ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں_ کان رکھتے ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں یہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گمراہ ترین یہ غافل ہیں_(۲۶)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' وہ شخص کہ جس نے خواہشات نفس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے با وجودیکہ وہ عالم ہے لیکن خدا نے اسے گمراہ کر رکھا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہرلگادی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں آپ نے دیکھا؟ کہ سوائے خدا کے اسے کون ہدایت کرے گا؟ وہ کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتا_(۲۷)

کون سا شخص اس سے بدبخت تر ہے جو ملکوتی نفس اور اپنی انسانی سعادت اور کمالات کو خواہشات نفس اور حیوانی زندگی پر قربان کر دیتا ہے؟ اور نفس انسانی کو حیوانی لذات کے مقابلے فروخت کر دیتا ہے؟

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''کہ خسارت میں وہ شخص ہے جو دنیا میں مشغول ہے اور اخروی زندگی کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ رہا ہے_(۲۸)

آپ نے فرمایا '' اپنے نفس کو پست کاموں سے روکے رکھ گرچہ تجھے ان امور کی طرف رغبت ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ جتنا تو اپنے نفس کو اس میں مشغول رکھتا ہے اس کا تجھے کوئی عوض حاصل نہ ہوگا_

اپنے آپ کو دوسروں کا غلام نہ بنا جب کہ خدا نے تجھے آزاد خلق کیا ہے_ وہ خیر جو شر کے وسیلے سے حاصل ہو وہ خیر نہیں ہے اور گشایش حاصل نہیں ہوتی مگر سختی کے ذریعے سے_(۲۹) _

آپ نے فرمایا '' وہ بری تجارت ہے کہ جس میں تو اپنے نفس کو اس کی قیمت قراردے اور جو تیرا ثواب اور اجر اللہ کے ہاں موجود ہے اسے اس تجارت کا عوض قرار دے دے_(۳۰)

انسان فقط حیوانی وجود کا خلاصہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک انسانی وجود بھی رکھتا ہے اسی حیثیت سے وہ جوہر مجرد اور ملکوتی موجود ہے جو عالم قدس سے آیا ہے اور حیوانی

۱۹

خواہشات کے علاوہ بھی ارزش رکھتا ہے _ اگر انسان اپنی باطنی ذات اور ملکوتی روح میں فکر کرے اور اپنے آپ کو خوب پہچانے اور مشاہدہ کرے کہ وہ عالم قدرت و کرامت علم و رحمت وجود نور و احسان خیر و عدالت خلاصہ عالم کمال سے آیا ہے اور اسی عالم سے سنخیت اور مناسب رکھتا ہے_ تو اس وقت انسان ایک اور دید سے ایک اور عالم کو دیکھے گا اور کمال مطلق کو نگاہ کرے گا اور اسی عالم کی صفات سے علاقمند ہوگا اور اس گران بہار سرمایہ کیوجہ سے اپنے حیوانیت کے پست مرتبے سے حرکت کرے گا تا کہ کمال کے مدارج کے راستے طے کرے اور مقام قرب الہی تک جاپہنچے یہ وہ صورت ہے کہ اس کے سامنے اخلاقی اقدر واضح ہوجائیں گی اگر اخلاق اقدار مثل علم احسان، خیر خواہی، ایثار، عدالت جو دو سخا محروم طبقے کی حمایت سچائی امانتداری کا خواہشمند ہوا تو اس لحاظ سے اپنے آپ کو عالم کمال سے دیکھے گا اور ایسے مراتب اور اقدار کو اپنے انسانی بلند مقام کے مناسب پائیگا اور اسے اسی وجہ سے دوست رکھے گا یہاں تک کہ حاضر ہو گا کہ وہ حیوانی وجود اور اس کی خواہشات کو اس بلند مقام تک پہنچنے کے لئے قربان کر دے_

اخلاق اقدار اور مکارم روحانی اور معنوی جو ملکوتی روح انسان سے متناسب ہیں کہ ایک سلسلہ کا نام ہے اور انسان کمال تک پہنچنے کے لئے ان کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے_

اور اپنے آپ سے کہتا ہے کہ مجھے انہیں انجام دینا چاہئے اور اخلاقی انجام دی جانے والی اشیاء کا سرچشمہ شرافت اور کرامت نفس ہوا کرتا ہے_ اور کمال روحانی اور بلندی مقام تک پہنچنے کے لئے بجا لایا جاتا ہے_ جب انسان یہ کہتا ہے کہ مجھے راہ حق میں ایثار کرنا چاہئے یعنی ایثار تکامل ذات اور بلندی مرتبے کے لئے فائدہ مند ہے اور ضروری ہے کہ ایسے مرتبہ تک پہنچنا چاہئے_ معنوی کمالات تک پہنچنے کا راستہ صرف ایک ہے اور مقام انسان اس اقدار اور ان کی ضد کی پہچان میں مساوی خلق ہوئے ہیں_ اگر انسان اپنی محبوب اور پاک فطرت کی طرف رجوع کرے اور خواہشات اور ہوی

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۴۔سورۂ غافر میں ارشاد فرمایا:

( ...الذین یحملونَ العرش ومَن حوله يُسبّحون بحمد ربّهم ویؤمنون به و یستغفرون للذین آمنواربّنا وسعت کُلّ شیئٍ رّحمةً و علماً فأغفر للذین تابوا و اتّبعوا سبیلک و قِهم عذابَ الجحیم ) ( ۱ )

وہ جو عرش خدا کو اٹھاتے ہیںنیز وہ جو اس کے اطراف میں ہیں،اپنے پروردگار کی تسبیح وستائش کرتے ہوئے اس پر ایمان رکھتے ہیںاور مومنین کے لئے (اس طرح)طلب مغفرت کرتے ہیں:خدایا! تیری رحمت اور علم نے ہر چیز کا احاطہ کر لیا ہے، پس جن لوگوں نے توبہ کی اور تیری راہ پر چلے انھیں بخش دے اور دوز خ کے عذاب سے محفوظ رکھ!

۵۔ سورۂ زمر میں ارشاد ہوتا ہے:

( و تریٰ الملا ئکة حا فّین من حول العرش يُسبحون بحمد ر بهم و قضی بینهم با لحق و قیل الحمد للّه ربّ العا لمین ) ( ۲ )

اور فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش خدا کے ارد گرد حلقہ کئے ہوئے ہیں اور اپنے ربّ کی ستائش میں تسبیح پڑھتے ہیں ؛ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور کہا جائے گا:ستائش ﷲربّ العالمین سے مخصوص ہے۔

۶۔ سورۂ حاقہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( و یحمل عرش ربّک فوقهم یومئذٍ ثمانية ) ( ۳ )

اس دن تمہارے رب کے عرش کوآٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔

کلمات کی تشریح

۱۔العرش:

عرش ؛لغت میں چھت دار جگہ کو کہتے ہیں جس کی جمع عروش ہے ، تخت حکومت کو حاکم کی رفعت وبلندی

____________________

(۱)غافر ۷(۲)زمر ۷۵(۳)سورہ ٔ حاقہ ۱۷ ۔

۱۲۱

نیز اس کی عزت وشوکت کے اعتبار سے عرش کہتے ہیں، عرش ملک اور مملکت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، کتاب''لسان العرب'' میں آیا ہے کہ''ثلّ ﷲ عرشھم'' یعنی خدا وند عالم نے ان کے ملک اور سلطنت کو برباد کر دیا۔( ۱ )

ایک عرب زبان شاعر اس سلسلے میں کہتا ہے:

اِذا ما بنو مروان ثلت عروشهم :: وأودت کما أودت اِیادوحمیر

جب مروانیوں کا ملک تباہ وبرباد ہوگیااور'' حِمْےَر'' اور'' اِیاد'' کی طرح مسمار ہوگیا۔( ۲ )

۲۔ استویٰ:

الف:''التحقیق فی کلمات القرآن''نامی کتاب میں مادہ ''سوی''کے ضمن میں آیا ہے کہ ''استوائ'' کے معنی بمقتضائے محل بدلتے رہتے ہیں ، یعنی ہر جگہ وہاں کے اقتضاء اور حالات کے اعتبار سے اس کے معنی میں تغییر اور تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔

ب:''مفردات راغب'' نامی کتاب میں مذکور ہے کہ'' استوائ'' جب کبھی علیٰ کے ذریعہ متعدی ہو تو ''استیلائ'' یعنی غلبہ اور مستقر ہونے کے معنی میں ہے ،جیسے''الرحمن علی العرش استویٰ''رحمن عرش پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے۔

ج:'' المعجم الوسیط'' نامی کتاب میں مذکور ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ!استویٰ علیٰ سریر الملک أوعلیٰ العرش'' تخت حکومت پر متمکن ہوا یابادشاہی کرسی پر بیٹھا، اس سے مراد یہ ہے کہ مملکت کا اختیار اپنے قبضہ میں لیا۔

اخطل نامی شاعر نے بشربن مروان اموی کی مدح میں کہا ہے:

قد استویٰ بشر علی العراق :: من غیر سیفٍ أودمٍ مهراقٍ

بشر نے عراق کی حکومت شمشیر اور کسی قسم کی خونریزی کے بغیر اپنے ہاتھ میں لے لی!( ۳ )

____________________

(۱)مفردات راغب اور المعجم الوسیط میں مادہ '' عرش'' اور لسان العرب میں مادہ ثلل کی جانب مراجعہ کیجئے۔

(۲)بحار، ج ۵۸، ص ۷.

(۳)بشر بن مروان اموی خلیفہ عبد الملک مروان کا بھائی ہے جس نے ۷۴ ھ میں بصرہ میں وفات پائی اس کی تفصیل آپ کو ابن عساکر کی تاریخ دمشق میں ملے گی

۱۲۲

آیات کی تفسیر

جب ہم نے جان لیا کی ا سمائے الٰہی میں ''رحمن ورحیم'' ''ربُّ العا لمین'' کے صفات میں سے ہیں اور ہر ایک کے دنیا وآخرت دونوں جگہ آثار پائے جاتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ''اسم''قرآنی اصطلاح میں صفات ، خواص اشیاء اور ان کی حقیقت بیان کرنے کے معنی میں ہے اور''عرش'' عربی لغت میں حکومت اور قدرت کے لئے کنایہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ''استوائ'' جب علیٰ کے ذریعہ متعدی ہوگا تو غلبہ اور تسلط کے معنی دیتا ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے:

''استویٰ علی سریر الملک او علیٰ العرش''

سریر حکومت یا عرش حکومت پر جلوہ افروز ہوا (متمکن ہوا)یعنی:''تولیٰ الملک'' مملکت وحکومت کا اختیار اپنے قبضہ میں لیا۔

اب اگر قرآن کریم میں '' استویٰ علی العرش''کے مذکورہ ہفت گانہ مقامات کی طرف رجوع کریں تو اندازہ ہوگا کہ ان تمام مقامات پر''استوائ''علیٰ کے ذریعہ متعدی ہوا ہے ،جیسے:

( استویٰ علیٰ العرش ید بّر الأمر ) ( ۱ )

وہ عرش پر متمکن ہو کر امر کی تدبیر کرتا ہے۔

( ثُّم استویٰ علی العرش ید بر الامر ) ( ۲ )

پھر وہ عرش پر متمکن ہوااور تدبیر امر میں مشغول ہوگیا۔

ان آیات میں (نوع تدبیر کی طرف اشارہ کئے بغیر)صراحت کے ساتھ فرمایا :'' عرش پر متمکن ہوا اور تدبیر امر میں مشغول ہو گیا۔،، سورۂ اعراف کی ۵۴ ویں آیت میں انواع تدبیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( استویٰ علی العرش یغشی الیل النهار...) )

وہ عرش پر جلوہ افروز ہوا اور شب کے ذریعہ دن کو چھپا دیتا ہے۔

اور سورۂ حدید کی چوتھی آیت میں تدبیر کار کی طرف کناےةًاشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( استویٰ علیٰ العرش یعلم ما یلج فی الارض وما یخرج منها )

____________________

(۱)یونس ۳.

(۲)سجدہ ۴و ۵ ؛ رعد ۲

۱۲۳

عرش پر متمکن ہوا وہ جو کچھ زمین کے اندر جاتاہے اور جو کچھ اس سے خارج ہوتا ہے سب کو جانتاہے۔

یعنی خداوند عالم جو کچھ اس کی مملکت میں ہوتا ہے جانتا ہے اور ساری چیزیںاس کی تدبیر کے مطابق ہی گردش کرتی ہیں۔

یہیں پر سورۂ فرقان کی ۵۹ ویں آیت کے معنی بھی معلوم ہوجاتے ہیں جہاں خداوندعالم فرماتا ہے:

( استویٰ علیٰ العرش الرحمن فسئل به خبیراً )

عرش قدرت پر متمکن ہوا، خدائے رحمان ،لہٰذا صرف اسی سے سو ال کرو کہ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے! یعنی وہ جو کہ عرش قدرت پر متمکن ہوا ہے وہی خدا وند رحمان ہے جو کہ تمام عالمین کو اپنی وسیع رحمت کے سایۂ میں پرورش کرتا ہے اور جو بھی اس کی مملکت میں کام کرتا ہے اس کی رحمت اور رحمانیت کے اقتضاء کے مطابق ہے یہ موضوع سورۂ طہ کی پانچوں آیت میں مزیدتا کید کے ساتھ بیان ہوا ہے:

( الرحمن علیٰ العرش استویٰ) )

خدا وند رحمان ہے جو عرش قدرت پر غلبہ اور تسلط رکھتا ہے۔

اس لحاظ سے، جو کچھ سورہ ''ہود'' کی ساتویں آیت میں فرماتا ہے :

( خلق السموات والأرض فی ستة أیام وکان عرشه علیٰ المائ )

آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں خلق فرمایا اور اس کا عرش قدرت پانی پرٹھہراتھا ۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مملکت خدا وندی میں زمین وآسمان کی خلقت سے قبل جز پانی کے جس کی حقیقت خدا وندعالم ہی جانتا ہے کوئی اور شے ٔموجود نہیں تھی ۔

اورجو سورۂ غافر کی ساتویں آیت میں فرماتا ہے:

( الذین یحملون العرش )

وہ لوگ جو عرش کو اٹھاتے ہیں۔

اس سے بار گاہ الٰہی کے کار گزار فرشتے ہی مراد ہیں کہ بعض کو نمائندہ بنایا اور بعض کو پیغمبروں کی امداد کے لئے بھیجا بعض کچھ امتوں جیسے قوم لوط پر حا ملان عذاب ہیں اور بعض آدمیوں کی روح قبض کرتے ہیں خلاصہ یہ کہ ہر ایک اپنا مخصوص کام انجام دیتا ہے اور جو کچھ ہماری دنیا میں خدا وند عالم کی ربوبیت کا مقتضیٰ ہی اس میں مشغول ہے۔

۱۲۴

اور سورۂ حاقہ کی ساتویں آیت میں جو فرماتا ہے:

( و یحمل عرش ربّک فوقهم یومئذٍ ثمانية )

تمہارے رب کے عرش قدرت کو اس دن آٹھ فرشتے حمل کریں گے۔

اس سے مراد قیامت کے دن فرمان خدا وندی کا اجراء کرنے والے فرشتوں کے آٹھ گروہ ہیں۔

اورسورہ نحل کی ۱۴ و یں آیت میں جو فرمایا:

( وهو الذ ی سخر البحر لتأکلوا لحماً طریاً و تستخر جوا منه حليةً تلبسو نها و تری الفلک مواخر فیه )

وہ خدا جس نے تمہارے لئے دریا کو مسخر کیا تا کہ اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور زیور نکالو جسے تم پہنتے ہو اور کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ دریا کا سینہ چاک کرتی ہیں۔

اس کے معنی یہ ہے کہ دریا کو ہمارا تابع بنا دیا تا کہ اُس کے خواص سے فائد ہ اٹھائیں اور یہ حضرت آدم کی تعلیم کا ایک مورد ہے چنانچہ اس سے پہلے اسی سورہ کی ۵ ویں تا۸ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( والأ نعام خلقها لکم فیها دفء و منا فع ومنهاتأکلون و لکم فیها جمال حین تُر یحون وحین تسرحون و تحمل أثقا لکم اِلیٰ بلدٍ لم تکونوا بالغیه الِاّ بشقّ الأنفس اِنّ ربّکم لرء وف رحیم ، والخیل و البغا ل و الحمیر لترکبو ها وزینةً و )

اور اس نے چوپا یوں کو خلق کیا کیو نکہ اس میں تمہاری پوشش کا وسیلہ اور دیگر منفعتیں پائی جاتی ہیں اوران میں سے بعض کا گوشت کھاتے ہو اوروہ تمہارے شکوہ اور زینت وجمال کا سبب ہیں، جب تم انھیںجنگل سے واپس لاتے ہو اور جنگل کی طرف روانہ کرتے ہو،نیز تمہارا سنگین و وزنی بار جنھیں تم کافی زحمت ومشقت کے بغیروہاںتک نہیںپہنچا سکتے یہ اٹھاتے ہیں،یقیناتمہاراربرؤفومہربان ہے اوراس نے گھوڑوں،گدھوں اور خچروں کو پید ا کیاتا کہ ان پر سواری کرو اور وہ تمہاری زینت کا سامان ہوں۔خدا وند عالم نے اس کے علاوہ کہ ان کو ہمارا تابع اور مسخربنایا ہے ان سے استفادہ کے طریقے بھی ہمیں سکھائے تا کہ گوشت،پوست، سواری اور بار برداری میں استفادہ کریں۔

سورہ زخرف کی بارھویں اور تیر ھویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( والذی خلق الأزواج کلّها و جعل لکم من الفلک و الاّنعام ماتر کبون ، لتستوا علی ظهوره، ثُمّ تذکر وا نعمة ربّکم اِذا استو یتم علیه و تقو لوا سبحان الذی سخر لنا هذا و ما کُنا له مقر نین )

۱۲۵

اور جس خدا نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا اور تمہارے لئے کشتیوں اور چوپایوں کے ذریعہ سواری کا انتظا م کیا تا کہ ان کی پشت پر سوار ہو اور جب تم ان کی پشت پر سوار ہو جاؤ تو اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو اور کہو: وہ خدا منزہ اور پاک و پاکیزہ ہے جس نے ان کو ہمارا تابع اور مسخر بنایا ورنہ ہمیں ان کے تسخیر کرنے کی طاقت وتوانائی نہیں تھی۔

جس خدا نے ہمیں ان آیات میں مذکور چیزوں سے استفادہ کا طریقہ بتا یا اور اپنی''ربوبیت'' کے اقتضاء کے مطابق انھیں ہمارا تابع فرمان اور مسخر بنایااسی خدا نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں اور گھر کے چھپروں میں پھول اور شگو فوں کو چوس کر شہد بنائے، اسی نے دریا کو مچھلیوں کے اختیار میں دیا اور الہام غریزی کے تحت اس سے بہرہ مند ہونے اور استفادہ کرنے کی روش اورطریقہ بتا یا،اس طرح سے اسنے اپنی وسیع رحمت کے ذریعہ ہر ایک مخلوق کی ضرورت کو دیگر موجودات سے بر طرف کیا اوراس کے اختیار میں دیا نیز ہر ایک کو اس کی ضروری اشیاء کی خاصیتوں سے آگاہ کیا تا کہ اس سے فائدہ حاصل کرے بعبارت دیگر شہد کی مکھی کوبقائے حیات کے لئے ضرور ی اشیاء کے اسما ء اور ان کی خاصیتوں سے آگاہ کیا تاکہ زندگی میں اس کا استعمال کرے اور مچھلیوں کو بھی ان کی ضرورت کے مطابق اشیاء کے اسماء اور خواص سکھائے تاکہ زندگی میں ان کا استعمال کرے ،وغیرہ ۔

رہی انسان کی بات تو خدا وندعالم نے اسے خلق کرنے کے بعد اس کی تعریف وتوصیف میں فرمایا:

( فتبارک ﷲ احسن الخا لقین )

بابرکت ہے وہ ﷲ جو بہترین خالق اور پیدا کرنے والا ہے۔

خدا وند عالم نے تمام اسماء اوران کی خاصیتیں اسے بتا دیں ؛چنانچہ سورۂ جاثیہ کی ۱۳ ویں آیت میں فرمایا:

( وسخر لکم مافی السموات والأرض جمیعاً منه )

اورخدا نے جو کچھ زمین وآسمان میں ہے سب کو تمہارے اختیار میں دیا اور اسے تمہارا تابع بنا دیا۔

سورۂ لقمان کی ۲۰ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے!

( ألم تروا اَنّ ﷲ سخر لکم ما فی السموات وما فی الأرض )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے زمین و آسمان کے درمیان کی تمام چیزوں کو تمہارا تابع اور مسخر بنا یا۔

پر وردگار عالم نے اپنی مخلوقات کی ہر صنف کو دیگر تمام مخلوقات سے استفادہ کرنے کی بقدر ضرورت ہدایت فرمائی۔ اور جو مخلوق دیگر مخلوق کی نیاز مندتھی تکوینی طور پر اس کو اس کا تابع بنایا ہے۔

۱۲۶

اور انسان جوکہ خدا داد صلاحیت اور جستجوو تلاش کرنے والی عقل کے ذریعہ تمام اشیاء کے خواص کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر کوشش کرے اور علوم کو حاصل کرنے کے لئے جد وجہد کرے،تو اسے یہ معلوم ہوگا کہ تمام مخلوقات اس کے استعمال کے لئے اسکے اختیار میں ہیں، مثال کے طور پر اگر'' ایٹم'' کے خواص کو درک کرنے کی کوشش کرے تویقینا وہاں تک اس کی رسائی ہو جائے گی اور چو نکہ ایٹم ان اشیاء میں ہے جو انسان کے تابع اور مسخر ہے، قطعی طور پر وہ اسے شگا ف کرنے اور اپنے مقاصد میں استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس طرح سے خدا نے آگ ،الکٹریک اورعلوم کی دیگر شاخوں جیسے فیزک اور کیمسٹری کواس کے حوالے کیا نیز انھیں اس کا تابع بنایا تا کہ مختلف دھاتوںسے ہوائی جہاز اور راکٹ وغیرہ بنائے اوراسے زمین کے اطراف میں گردش دے وغیرہ وغیرہ ۔

لیکن یہ انسان''چونکہ سرکش ، طاغی اور حریص ہے ''لہٰذا اس شخص کا محتاج اور ضرورت مند ہے جو ان مسخرات سے استفادہ کا صحیح طریقہ اور راستہ بتائے تا کہ جو اس نے حاصل کیا اور اپنے قبضہ میں کر لیا ہے ا سے اپنے یا دوسروں کے نقصان میں استعمال نہ کرے۔''کھیتی'' اور نسل '' کو اس کے ذریعہ نابود نہ کرے''ربّ رحمان''نے عالی مرتبت انبیاء کواس کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا تا کہ مسخرات سے استفادہ کی صحیح راہ وروش بتائیں پس''ربّ رحمن'' کے جملہ آثار رحمت میں سے پیغمبروں کا بھیجنا ،آسمانی کتابوں کا نازل کرنا اور لوگوں کو تعلیم دینا ہے، اس موضوع کی وضاحت سورہ رحمان میں لفظ ''رحمن'' کی تفسیر کے ذریعہ اس طرح کی ہے:

( الرّحمن، علّم القرآن )

خدا وندرحمان نے ،قرآن کی تعلیم دی۔

( خلق الاِنسان،علّمهُ البیان )

انسان کوخلق کیا اوراسے بیان کرنا سکھا یا۔

( الشمسُ والقمر بحسبان )

سورج اور چاندحساب کے ساتھ گردش کرتے ہیں۔

( والنجم والشجر یسجدان )

اور بوٹیاں بیلیں اور درخت سب اسی کا سجد ہ کر رہے ہیں ۔

( والسماء رفعها ووضع المیزان )

اوراُس نے آسمان کو رفعت دی اور میزان وقانون وضع کیا(بنایا)۔

۱۲۷

( والأرض وضعها للِْاِ نام )

اور زمین کو مخلوقات کے لئے خلق کیا۔

( فیها فا کهة والنخل ذات الأکمام )

اس میں میوے اور کھجو ریں ہیں جن کے خوشوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔

( والحبّ ذوالعصف والرّیحان )

اورخوشبو دار گھاس اور پھول کے ساتھ دانے ہیں۔

( فباَیّ آلاء ربّکما تکذّبان )

پھر تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔

( تبارک اْسم ربّک ذی الجلال والاِکرام )

تمہارے صاحب جلال واکرام رب کا نام مبارک ہے۔

نیز ''ربّ'' ہے جو :

( یبسط الرّزق لمن یشاء ویقدر ) ( ۱ )

جس کی روزی میں چاہے وسعت دیدے اور جسکی روزی میں چاہے تنگی کر دے۔

جو کچھ ہم نے رحمت''ربّ'' کے آثار دنیا میں پیش کئے ہیں وہ مومن اور کافر تمام لوگوں کو شامل ہیں اس بناء پر''رحمان'' دنیا میں ''ربّ العالمین''کے صفات میں شمار ہوتا ہے نیز اس کی رحمت تمام خلائق جملہ مومنین وکافرین سب کو شامل ہے اور چونکہ ''ربّ العالمین'' لوگوں کی پیغمبروں پر''وحی'' کے ذریعہ ہدایت کر تا ہے، قرآن کریم ''وحی'' کی ''ربّ'' کی طرف، جو کہ ﷲ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے ،نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( ذلک ممّا أوحیٰ اِلیک ربّک من الحکمة ) ( ۲ )

یہ اس کی حکمتوں میں سے ہے کہ تمہارے''ربّ'' نے تم کو وحی کی ہے۔

____________________

(۱) سبا۳۶،۳۹

(۲) اسراء ۳۹.

۱۲۸

اور فرمایا:

( اتّبع ما أوحی اِلیک من ربّک ) ( ۱ )

جو چیز تما رے ربّ کی طرف سے تم پر وحی کی گئی ہے اس کی پیروی کرو۔

قرآن اسی طرح ارسال رسل اور آسمانی کتابوں کے نازل کرنے کو '' ربّ العالمین''کی طرف نسبت دیتا ہے اور حضرت ہود کے حالات زندگی کی شرح میں فرماتا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا:

( یا قوم لیس بی سفا هة و لکِنّی رسول من ربّ العالمینأبلٔغکم رسا لات ربِّی ) ( ۲ )

اے میری قوم! میرے اندر کسی قسم کی سفاہت نہیں ہے لیکن میں ،،ربُّ العالمین،، کی جانب سے ایک رسول اور فرستادہ ہوں کہ اپنے پروردگار کی رسالت تم تک پہنچاتاہوں۔

نیز حضرت نوح کے بارے میں فرماتا ہے: انھوں نے اپنی قوم سے کہا:

( یا قوم لیس بی ضلا لة و لکنّی رسول من ربّ العا لمینَاُبلّغکم رسالات ربِّی ) ( ۳ )

اے میری قوم! میرے اندر کسی قسم کی ضلالت اور گمراہی نہیں ہے، لیکن میں ''ربّ العا لمین'' کا فرستادہ اور رسول ہوں ،کہ اپنے پروردگار کی رسالت تم تک پہنچاتاہوں۔

اور حضرت موسیٰ کے بارے میں فرماتا ہے کہ ا نھوں نے فرعون سے کہا:

( یا فرعون انِّی رسول من ربّ العا لمین ) ( ۴ )

اے فرعون! میں ربّ العالمین کا فرستادہ ہوں۔

آسمانی کتابوں کے نازل کرنے کے سلسلے میں فرمایا :

( واتل ما أوحی اِلیک من کتاب ربّک ) ( ۵ )

جوکچھ تمہارے''رب'' کی کتاب سے تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کرو!

( تنزیل الکتاب لاریب فیه من ربّ العالمین ) ( ۶ )

اس کتاب کا نازل ہونا کہ جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے رب العا لمین کی طرف سے ہے ۔

____________________

(۱) انعام ۱۰۶ (۲)اعراف ۶۷ ، ۶۸(۳)اعراف ۶۱ ، ۶۲(۴) اعراف ۱۰۴ (۵)کہف ۲۷(۶) سجدہ ۲ ۔

۱۲۹

( اِنّه لقرآن کریم تنزیل من ربّ العالمین ) ( ۱ )

بیشک یہ قرآن کریم ہے جو ''ربّ العا لمین'' کی طرف سے نازل ہوا ہے

نیز امر و فرمان کی نسبت''ربّ'' کی طرف دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( قل أمر ربِیّ با لقسط و أقیموا وجو هکم عند کلّ مسجد ) ( ۲ )

کہہ دو!میرے ربّ نے عدالت وانصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر مسجد میں اپنا رخ اس کی طرف رکھو۔

اس لحاظ سے صرف اورصرف''ربّ'' کی اطاعت کرنی چاہئے ،جیسا کہ خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنین کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( آمن الرسول بما أنزل الیه من ربّه و المؤ منون و قالوا سمعنا وأطعنا غفرانک ربّناّ ) ( ۳ )

پیغمبر جو کچھ اس کے ''رب'' کی طرف سے نازل ہوا ہے اس پر ایمان لایا ہے اور تمام مومنین بھی ایمان لا ئے ہیںاوران لوگوںنے کہا ! ہم نے سنا اور اطاعت کی اے ہمارے پروردگارہم ! تیری مغفرت کے خواستگار ہیں۔

انبیاء بھی چو نکہ اوامر ''ربّ العا لمین''کی تبلیغ کرتے ہیں ، لہٰذا خدا وند متعال نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیتے ہوئے فرمایا :

( أطیعواﷲ وأطیعواالرسول ولا تبطلوا أعمالکم ) ( ۴ )

خدا کی اطاعت کرواور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو ۔

یہی حال گناہ اور معصیت کا ہے کہ کسی سے بھی صادر ہو''ربّ العا لمین'' کی نافرمانی کی ہے ،جیسا کہ فرمایا:

( فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه ) ( ۵ )

سارے فرشتو ں نے سجدہ کیا جز ابلیس کے، جوکہ جنوں میں سے تھا اور اپنے ''ربّ'' کے فرمان سے باہر ہو گیا۔

نیز یہ بھی فرمایا:

( فعقروا الناقة و عتوا عن أمر ربهم ) ( ۶ )

____________________

(۱)واقعہ ۷۷، ۸۰(۲)اعراف ۲۹ (۳)بقرہ ۲۸۵(۴) محمد ۳۳(۵)کہف ۵۰ (۶)اعراف ۷۷

۱۳۰

(قوم ثمود) نے''ناقہ'' کوپے کر دیا اور اپنے ربّ کے فرمان سے سر پیچی کی۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لفظ ''امر'' اور فرمان جملہ سے حذف ہو جاتا ہے لیکن اس کے معنی باقی رہتے ہیں، جیسا کہ حضرت آدم کے بارے میں فرمایا:

( وعصیٰ آدم ربّه فغویٰ)( ) ۱ )

آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور جزا سے محروم ہو گئے۔

یعنی آدم نے اپنے رب کے امرکی نافرمانی کی۔

انبیاء علیہم السلام بھی چونکہ اوامر''ربّ''کولوگوں تک ابلاغ کرتے ہیں تو ان کی نافرمانی اور سر پیچی فرمان''ربّ'' کی مخالفت شمار ہوتی ہے، جیسا کہ خدا فر عون اور اس کی قوم نیز ان لوگوں کے بارے میں جوان سے پہلے تھے فرماتا ہے:

( و جاء فرعون ومن قبلهفعصوا رسول ربّهم ) ( ۲ )

فرعون اور وہ لوگ جواس سے پہلے تھے ....ان سب نے اپنے ربّ کے فرستادہ پیغمبر کی مخالفت کی ۔

انسان نافرمانی کرنے کے بعد جب توبہ کرتا ہے اپنے ''رب'' سے مغفرت چاہتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے:

( الذین یقولون ربّنا انّنا آمنا فا غفرلنا ذنو بنا ) ( ۳ )

وہ لوگ کہتے ہیں: اے ہمارے'' رب'' ! ہم ایمان لائے ، لہذا ہمارے گناہوں کو بخش دے۔

( وما کان قولهم اِلاّ أن قالوا ربنّا أغفرلنا ذنوبنا ) ( ۴ )

اوران کا کہنا صرف یہ تھا کہ اے ہمارے پروردگار !ہمارے گناہوں کو بخش دے۔

( ربّنا فاغفر لنا ذنو بنا و کفرعناّ سيّئا تنا ) ( ۵ )

ا ے ہمارے پروردگارا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی کر۔

سورہ قصص میں حضرت موسیٰ کے قول کے حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( ربّ انِی ظلمتُ نفسی فاغفر لیِ فغفر له ) ( ۶ )

ا ے میرے پروردگار! میں نے اپنے او پر ظلم کیا لہٰذا مجھے بخش دے اورخدا نے انھیں بخش دیا۔

اسی وجہ سے ''غفور'' و غفار''بھی ربّ کے صفات میں سے ہے، چنانچہ فرمایا:

____________________

(۱)طہ ۱۲۱(۲) حاقہ ۹،۱۰(۳)آل عمران ۱۶ (۴)آل عمران ۱۴۷(۵)آل عمران ۱۹۳۔(۶)قصص ۱۶۔

۱۳۱

( والذین عملوا السئّات ثُّمّ تابوا من بعد ها وآمنوا انّ ربّک من بعدها لغفور رحیم ) ( ۱ )

وہ لوگ جنھوں نے گناہ کیا اور اس کے بعد توبہ کی اور ایمان لائے(جان لیں کہ) تمہاراربّ اس کے بعد غفور ومہر بان ہے۔

اپنی قوم سے نوح کے قول کی حکایت کرتا ہے:

( فقلت استغفروا ربّکم انّه کان غفاّراً ) ( ۲ )

(نوح نے کہا) میں نے ان سے کہا:اپنے ربّ سے بخشش ومغفرت طلب کرو کیونکہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور غفاّر ہے۔

سورۂ بقرہ میں فرمایا:

( فتلقّیٰ آدم من رّبه کلماتٍ فتاب علیه اِنّه هو التّوابُ الرحیم ) ( ۳ )

پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے اور خدا نے ان کی توبہ قبول کی کیو نکہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

اور جو لوگ گناہ کرنے کے بعد توبہ کے ذریعہ اس کی تلافی اور جبران نہیں کرتے ان کے کردار کی سزاربّ العالمین کے ذمہّ ہے ،جیسا کہ فرمایا:

( قل یا عبادیِ الذین أسر فوا علیٰ أنفسهم لا تقنطوا من رحمة ﷲو انیبوا اِلیٰ ربّکم و أسلموا له من قبل أن یا تیکم العذا بُ ثُمّ لا تنصرون ) ( ۴ )

کہو: اے میرے و ہ بندو کہ تم نے اپنے اوپر ظلم وستم نیزا سراف کیاہے! خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہواپنے رب کی طرف لوٹ آؤ اوراس کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہو جاؤقبل اسکے کہ تم پر عذاب نازل ہو پھر کوئی یار ویاور نہ رہ جائے۔

ربّ کا اعمال کی جزا دینا کبھی دنیا میں ہے اور کبھی آخرت میں اور کبھی دنیا وآخرت دونوں میں ہے قرآن کریم سب کی نسبت رب کی طرف دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( لقد کان لسبا فی مسکنهم آية جنتان عن یمینٍ و شمالٍ کلوا من رزق ربّکم و اشکرٔ وا له بلدة طیبة و ربّ غفور فا عرضوا فارسلنا علیهم سیل العرم و بد لنا هم بجنّتیهم جنتین )

____________________

(۱)اعراف ۱۵۳(۲)نوح ۱۰ (۳)بقرہ ۳۷(۴)زمر ۵۳،۵۴

۱۳۲

( ذوا تی أکل خمطٍ و اثلٍ و شیئٍ من سدرٍ قلیل ذلک جز ینا هم بما کفر واوهل نجازی اِلّا الکفو ر ) ( ۱ )

قوم ''سبا'' کے لئے ان کی رہائش گاہ میں ایک نشانی تھی: داہنے اور بائیں دو باغ تھے( ہم نے ان سے کہا) اپنے رب کارزق کھاؤ اور اس کا شکر اداکرو ، شہر صاف ستھرا اور پاکیزہ ہے اور تمہارا ''ربّ'' بخشنے والا ہے، (لیکن) ان لوگوں نے خلاف ورزی اوررو گردانی کی تو ہم نے تباہ کن سیلابی بلااُن کے سر پر نازل کر دی اور دو میوہ دار باغوں کو تلخ اور کڑوے باغوں اور کچھ کو بیر کے درختوںمیں تبدیل کر دیا، یہ سزا ہم نے انھیں ان کے کفر کی بنا پر دی،آیا ہم کفران نعمت کرنے والے کے علاوہ کو سزا دے سکتے ہیں؟

لیکن آخری جزا قیامت میں دوبارہ اٹھائے جانے اور حساب کتاب کے بعد ہے،قرآن کریم محشور کرنے اور حساب و کتاب کرنے کی بھی نسبت ربّ کی طرف دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( وانّ ربّک هو یحشر هم ) ( ۲ )

تمہارا''ربّ'' انھیںمحشور کرے گا

نیز فرماتا ہے:

( ما فرّطنا فی الکتاب من شیٔ ٍثمّ الی ربّهم یحشرون ) ( ۳ )

اس کتاب میں ہم نے کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے، پھر سب کے سب اپنے ''ربّ'' کی جانب محشور کئے جائیں گے۔

اور فرماتا ہے:

( انّ حسابهم الِّا علی ربِّی لو تشعرون ) ( ۴ )

(نوح نے کہا) ان کا حساب صرف اور صرف ہمارے رب کے ساتھ ہے اگر تم یہ بات درک کرتے ہو !

لوگ حساب وکتاب کے بعد یا مومن ہیں کہ ہر حال میں ''رحمت''خدا وندی ان کے شامل حال ہو گی یا غیر مومن کہ رحمت الٰہی سے دور ہوں گے ،خدا وند عالم نے مومنین کے بارے میں فرمایا:

( یوم نحشر المتّقین الی الرحمن و فداً ) ( ۵ )

جس دن پرہیز گاروں کو ایک ساتھ خدا وند ''رحمان'' کی جانب مبعوث کریں گے۔

____________________

(۱)سبا ۱۵ (۲)حجر ۲۵(۳)انعام ۳۸ (۴)شعرا ۱۱۳(۵) مریم ۸۵

۱۳۳

البتہ ربّ العالمین کی رحمت اس دن مو منین سے مخصوص ہے،یہی وجہ ہے کہ خدا کو آخرت کا رحیم کہا جاتا ہے اور لفظ ''رحیم'' رحمان کے بعد استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا:

( ألحمد للّه ربّ العالمین،الرحمن الرحیم )

حمد وستائش عالمین کے ربّ ﷲ سے مخصوص ہے،وہ خدا وند رحمن ورحیم ہے۔

کیو نکہ رحمن کی رحمت اس دنیا میں تمام افراد کو شامل ہے ،لیکن ''رحیم'' کی رحمت مو منین سے مخصوص ہے۔

غیر مومن اور کافر کے بارے میں ارشاد فرمایا!

( انّ جهنّم کانت مرصاداً، للطا غین مآباًجزائًً وفاقاً ) ( ۱ )

یقینا جہنم ایک سخت کمین گاہ ہے اور نافرمانوںکی باز گشت کی جگہ ہے ...یہ ا ن کے اعمال کی مکمل سزا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رب العالمین کو روز جزا کا مالک کہتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہوا:

( الحمد للّه ربّ العالمینالرحمن الرحیم مالک یوم الدین )

جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کے مطابق ''ربّ'' رحمن بھی ہے اور ''رازق'' بھی'' رحیم'' بھی ہے اور ''توّاب و غفار ''بھی اور تمام دیگر اسمائے حسنیٰ کا بھی مالک ہے۔

بحث کاخلاصہ

خدا وند عالم سورۂ اعلی میں فرماتا ہے: مخلوقات کا رب وہی ہے جس نے انھیں بہترین طریقے سے خلق کیا ،پھر انھیںہدایت پذ یری کے لئے آمادہ کیا ،پھر اس کے بعد ہر ایک کی زندگی کے حدود معین کئے اور انھیں ہدایت کی ، پھراس کے بعد کی آیات میں حیوان کی چراگاہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے:''ربّ'' وہی ہے جس نے حیوانات کی چرا گاہ کو ظاہر کیا اوراسے پر ورش دی تا کہ شدید سبز ہو نے کے بعد ا پنے آخری رشد یعنی خشک گھاس کی طرف مائل ہو۔

اسی طرح سورۂ رحمن میں جس کی آیات کو ہم نے پیش کیا جو ساری کی ساری ربوبیت کی توصیف میں تھیں آغاز سورہ میں تعلیم بیان کے ذریعہ انسان کی تربیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( خلق الانسان علّمه البیان )

____________________

(۱) نبائ۲۱، ۲۲، ۲۶

۱۳۴

انسان کو خلق کیا اوراسے بیان کی تعلیم دی یعنی اسے ہدایت قبول کرنے کے لائق بنایا۔

سورۂ علق میں انسان کی پرورش سے متعلق صفات''ربوبیت''کے دوسرے گوشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( خلق الانسان من علقالذی علّم با لقلم علّم الاِنسان ما لم یعلم )

انسانوں کو منجمد خون سے خلق کیا وہی ذات جس نے ا سے قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور جو انسان نہیں جانتا تھا اس کی تعلیم دی ،یعنی اسے ہدایت قبول کر نے کے لئے آمادہ کیا۔

مذکورہ دونوں موارد(آموزش بیان اور قلم کے ذریعہ تعلیم) کلمہ ''سوّی'' کی تشریح ہے جو کہ''سورہ اعلیٰ'' میں آیاہے۔

سورۂ'' شوریٰ، نساء ، آل عمران'' میں ''ربّ العالمین ''کے ذریعہ انسان کی کیفیت ہدا یت کی شرح کرتے ہوئے فرمایا:انسان کے لئے دین اسلام کو معین کیا اوراسے اپنی کتابوں میں اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ارسال کیا

سورۂ یونس اور اعراف میں فرمایا:تمہارا ربّ وہی خدا ہے جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اور انھیں ہدایت تسخیری سے نوازا۔

سورۂ انعام میں ۹۵ تا۱۰۱آیات میں انواع مخلوقات کی یاد آوری کے بعدآیت ۱۰۲ میں فرمایا:

( ذلکم ﷲ ربکم لا اله الاّ هوخالق کل شیئٍ فا عبدوهُ )

یہ ہے تمہارا رب، ﷲ ،اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے،وہ تمام چیزوں کا خالق ہے ،صرف اس کی عبادت کرو۔

یہاں تک جو کچھ ہم نے ربوبیت کے صفات اور اس کے اسماء کو بیان کیا سب کے سب ﷲ کے صفات اور اس کے اسماء سے تعلق رکھتے ہیں، ﷲ کے'' اسمائے حسنیٰ ''کی بحث میں انشاء ﷲ دیگر اسمائے حسنیٰ کوجو ﷲ سے مخصوص ہیں ذکر کر یں گے۔

۱۳۵

۴

ﷲ کے اسمائے حسنیٰ

۱۔ ﷲ

۲۔ کرسی

۱۔ﷲ

بعض علمائے علم لغت کہتے ہیں: ﷲ در حقیقت'' اِلٰہ'' تھا جو کہ'' آلِھة'' کا اسم جنس ہے ،اس پر الف و لام تعریف داخل ہوا، اور ''اَلْاِلٰہُ ''ہو گیا، پھر الف کو اس کے کسرہ کے ساتھ حذف کردیا گیا اور دو لام کو باہم ادغام کر دیا ''ﷲ'' ہو گیا ،یعنی لفظ الہ اور ﷲ ؛رجل اور الرجل کے مانند ہیں پہلے دونوں یعنی الہ ورجل ''الھة او ر رجال'' کا اسم جنس ہیں اور دوسرے دونوں یعنی ''ﷲ'' اور ''الرجل'' الف ولام کے ذریعہ معرفہ ہو گئے ہیں اورمورد نظررجل اورالہ معین ومشخص کئے ہیں اس لحاظ سے لا الہ الاﷲ'' کے معنی ہو ں گے: کوئی معبود نہیں ہے جزاس کے جو کہنے والے کا موردنظر اورمقصود ہے۔

یہ نظریہ غلط اور اشتباہ ہے ، کیو نکہ لفظ ﷲ نحویوں کی اصطلاح میں ''عَلَم مرتجل'' (منحصر بہ فرد )ہے اور ذات باری تعالیٰ سے مخصوص ہے، جس کے تمام صفات جامع جمیع اسمائے حسنیٰ ہیں اور کوئی بھی اس نام میں اس کا شریک نہیں ہے جس طرح کوئی ''الوہیت اور ''ربوبیت'' میں اس کاشریک نہیں ہوسکتاہے ۔

چنانچہ ﷲ اسلامی اصطلاح میں ایک ایسا نام ہے جو اس ذات سے مخصوص جس کے یہاں تمام صفات کمالیہ پائے جاتے ہیں، جیسا کہ خود ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ولِلّہ الأسماء الحسنیٰ'' تمام اسمائے حسنیٰ( ۱ ) ''ﷲ'' کیلئے ہیں اور فرمایا:( ﷲ لا اِلٰه اِلاّ هوله ا لأ سماء الحُسنیٰ ) ( ۲ ) وہ خدا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تمام اسمائے حسنیٰ اس کے لئے ہیں۔

بنابرایں ''لا اِلٰہ اِلّا ﷲ'' یعنی ہستی میں کوئی موثراور خالق نہیں اور تمام صفات کمالیہ اور اسمائے حسنیٰ کے مالک خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ﷲ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک''قیوّم'' ہے قیوّم یعنی پائندہ قائم بالذات ہر چیز کا محافظ و نگہبان نیز وہ ذات جو موجودات کو قوام عطا کرتی ہے، آیت کے یہ معنی سورۂ طہ کی

____________________

(۱)اعراف ۱۸۰ (۲)طہ ۸.

۱۳۶

۵۰ ویں آیت میں ذکر ہو ئے ہیں:

( ربّنا الذی أعطی کلّ شیٍ خلقه ثّم هدی ) ( ۱ )

ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر موجود کو جو اس کے خلقت کا لازمہ تھا عطا کیا، پھر اس کے بعد ہدایت کی ہے.

پس وہی ﷲ جو تما م صفات کمالیہ اور اسمائے حسنیٰ کا مالک ہے وہ ربّ، رحمان ، رازق، تواب،غفاّر، رحیم اور روز جزا کا مالک ہے، یہی وجہ ہے قرآن کریم میں کہیں پر لفظ ﷲربّ کی جگہ استعمال ہوا ہے یعنی جس جگہ ربّ کانام ذکر کرنا سزاوارتھا وہاں ربّ کی جگہ استعمال ہوا اور ربّ کے صفات اپنے دامن میں رکھتا ہے جیسے:رازق،تواب،غفورا وررحیم اور وہ ذات جو انسان کو اس کے عمل کی جزا دیتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا:

۱۔( ﷲ یبسط الرّزق لمن یشاء ویقدر ) ( ۲ )

ﷲ ہی ہے جوجس کے لئے چاہتاہے اس کے رزق میں وسعت عطا کرتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے اس کے رزق میں تنگی کرتا ہے۔

۲۔( وانّ ﷲ هو التّواب الرحیم ) ( ۳ )

یقینا وہی ﷲ توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔

۳۔( اِنّ ﷲ غفوررحیم ) ( ۴ )

یقینا ﷲ بخشنے والا اور رحیم ہے۔

۴۔( لیجزیهم ﷲ أحسن ما کانوا یعملون ) ( ۵ )

تاکہ خدا انھیں جزا دے بہترین اعمال کی، جو انھوں نے انجام دئے ہیں۔

گزشتہ آیات میں جیسا کہ ہم نے ملا حظہ کیا ِ،صفات رزّاق ،غفور اور رحیم اور جزا دینے والا کہ ربّ العالمین سے مخصوص ہیں سب کی نسبت ﷲ کی طرف ہے ،کیو نکہ ﷲ تما م صفات کمالیہ کا مالک اور خود ''ربّ العا لمین'' ہے۔

بعض اسماء و صفات جو قرآن کریم میں آئے ہیں وہ بھی ''ﷲ'' کی مخصوص صفت ہیں جیسے:

( ﷲ لا اِلٰه اِلاّ هو الحیّ القيّوم لا تأ خذه سنة و لا نوم له ما فی السموات و ما فی )

____________________

(۱) طہ۵۰(۲) رعد۲۶ (۳) توبہ ۱۰۴ (۴) بقرہ ۱۸۲(۵) توبہ ۱۲۱

۱۳۷

( الأرض من ذالّذی یشفع عنده اِلاّ باِ ذنه یعلم ما بین أید یهم و ما خلفهم و لا یحیطون بشیئٍ من علمه اِلّا بما شاء وسع کر سيّه السموات و الأرض و لا یؤده حفظهما و هو العلیّ العظیم ) ( ۱ )

کوئی معبودنہیںجزاللہ کے حی وقیوم اور پائندہ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند ،جو کچھ زمین وآسمان میں ہے ا سی کا ہے کون ہے جو اس کے پاس ا س کے فرمان کے علاوہ شفاعت کرے؟ جو کچھ ان کے سامنے اور پیچھے ہے اسے جانتا ہے اور کوئی اس کے علم کے ایک حصہ سے بھی آگاہ نہیں ہوتا جز یہ کہ وہ خود چاہے، اس کی حکومت کی''کرسی'' زمین وآسمان کو محیط ہے نیز ان کی محا فظت اسے تھکا تی نہیں ہے اور وہ ' علی ّ و عظیم''(بلند مرتبہ و با عظمت) ہے۔

اس آیت میں مذکور تمام اسماء و صفات ''ﷲ'' سے مخصوص ہیں اور ''الہٰ '' خالق اور ربّ العالمین کے صفات میں سے نہیں ہیں۔

نیز ایسے صفات جیسے:عزیز ،حکیم،قدیر،سمیع،بصیر،خبیر، غنی،حمید، ذوالفضل العظیم،( عظیم فضل کا مالک) واسع، علیم(وسعت دینے والا اور با خبر) اور فعال لمایشائ(اپنی مرضی سے فعل انجام دینے والا)... یہ سارے صفات '' ﷲ'' کے مخصوص صفات ہیں، اس لحاظ سے ﷲ ایک نام ہے ا ن صفات میں سے ہر ایک کے لئے اوراللہ کی حقیقت یہی صفات اور اسمائے حسنیٰ ہیں۔

عبرانی زبان میں بھی ''ےَھُوَہ'' کو'' ﷲ'' کی جگہ اور''الوھیم'' کو''الا لہ'' کی جگہ استعمال کرتے ہیں ۔

ﷲ کی ایک صفت یہ ہے کہ اس کی ''کرسیٔ حکومت'' زمین وآسمان سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ چنانچہ اب ہم''کرسی'' کے معنی کی تحقیق وبر رسی کریں گے۔

____________________

(۱) بقرہ ۲۵۵

۱۳۸

۲۔کرسی

لفظ کرسی؛ لغت میں تخت اور علم کے معنی میں ہے۔

طبری،قرطبی اور ابن کثیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ فرمایا :''کرسی خدااس کا علم ہے''۔ اورطبری کہتے ہیں:

''جس طرح خدا وند عالم نے فرشتوں کی گفتگو کی خبر دی ہے کہ انھوں نے اپنی دعا میں کہا :

( ربّنا وسعت کلّ شیء علماً )

پروردگار ا! تیرا علم تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

اس آیت میں بھی خبر دی ہے کہ''وسع کرسےّہ السموات و الأرض'' اس کا علم زمین وآسمان کو محیط ہے،کیو نکہ''کرسی'' در حقیقت علم کے معنی میں ہے ،عرب جو اپنے علمی نوٹ بک کوکرّاسہ کہتے ہیں اسی باب سے ہے ،چنانچہ علما ء اور دانشوروں کو ''کَراسی'' کہا جاتا ہے۔(طبری کی بات تمام ہوئی)۔

طبری کی بات پر اضافہ اضافہ کرتے ہوئے ہم بھی کہتے ہیں:خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کی اپنی قوم سے گفتگوکی حکایت کی ہے جو انھوں نے اپنی قوم سے کی:

( وسع ربیّ کلّ شیئٍ علماً أ فلا تتذکّرون ) ( ۱ )

ہمارے رب کا علم تمام چیزوں کو شامل اور محیط ہے آیاتم لوگ نصحت حاصل نہیں کرتے؟

اورشعیب کی گفتگو اپنی قوم سے کہ انھوں نے کہا ہے:

( وسع ربّنا کلّ شیئٍ علماً ) ( ۲ )

ہمارے رب کا علم تمام اشیا ء کو محیط ہے۔

اور موسیٰ کی سامری سے گفتگو کہ فرمایا:

____________________

(۱) انعام ۸۰

(۲)اعراف ۸۹

۱۳۹

( ِِِانّما اِلٰهکم ﷲ الذی لا أِله الاّ هو وسع کلّ شیئٍ علماً ) ( ۱ )

تمہارا معبود صرف ''ﷲ'' ہے وہی کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، اس کا علم تمام اشیاء کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔

رسول خدا کے اوصیاء میں چھٹے وصی یعنی امام جعفر صادق نے سائل کے جواب میں جس نے کہا : (وسع کر سیہ السموات و الارض) اس جملہ میں کرسی کے کیا معنی ہیں ؟فرمایا: خدا کا علم ہے۔( ۲ )

قرآن کریم میں کرسی کا تخت اور علم دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے، خدا وند عالم نے سور ئہ ص میں سلیمان کی داستان میں فر مایا:

( و لقد فتّنا سلیمان و ألقینا علیٰ کر سيّه جسداً ) ( ۳ )

ہم نے سلیمان کو آزمایا اور ان کی کرسی (تخت ) پر ایک جسد ڈال دیا۔

اور اس آیت میں فرماتا ہے:

( یعلم ما بین أید هم وما خلفهم ولا يُحیطون بشیء ٍ من علمه ِالّا بما شاء وسع کر سيّه السموات و الٔارض ) ( ۴ )

خدا وند عالم ان کے سامنے اور پس پشت کی ساری باتوں کو جانتا ہے اور وہ ذرہ برابر بھی اس کے ''علم'' سے آگاہ نہیں ہو سکتے جز اس کے کہ وہ خود چاہے،اس کی کرسی یعنی اس کا''علم''زمین وآسمان کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

''کرسی'' جیسا کہ آیہ شریفہ سے ظاہر ہے ''علمہ'' کے بعدمذکور ہے اس قرینہ سے معنی یہ ہوں گے:وہ لوگ ذرہ برابر علم خدا وندی سے آگاہ نہیں ہو سکتے جزاس کے کہ خدا خود چاہے، اس کا علم زمین وآسمان کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔

اس لحاظ سے بعض روایات کے معنی ،جو کہتی ہیں:''کل شیء فی الکرسی'' ساری چیزیں کرسی میں ہیں، یہ ہوں گے کہ تمام چیز علم الٰہی میں ہے۔

یہاں پر'' ﷲ کے اسمائے حسنی ٰ''کی بحث کو ختم کرتے ہیںاور''عبودیت'' کی بحث جو کہ اس سے مر بوط ہے اس کی بر رسی و تحقیق کر یں گے۔

____________________

(۱)طہ ۹۸(۲) توحید صدوق:ص ۳۲۷، باب: معنی قول اللہ عز وجل : وسع کرسیہ الماوات والارض.(۳) سورۂ ص ۳۴. (۴)بقرہ۲۵۵

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346