خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس16%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122444 / ڈاؤنلوڈ: 5521
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

خودسازی

ابراہیم امینی

ناشر: انتشارات شفق

نوبت چاپ: دہم ۱۳۸۰

تیراژ:۴۰۰۰

چاپ: قدس

شابک: ۰-۰۲۰-۴۸۵-۹۶۴

۳

تقدیم

اس ناچیز تحریر کو جہاد اور شہادت کے راہ پیماؤں اور عرفاء کہ جنہوں نے سو سالہ راستے کو ایک شب میں طے کیا ہے اور محبوب کے عشق میں ایک لحظہ جلے ہیں اور بلند مقام (جو اپنے رب سے رزق حاصل کرتے ہیں) تک صعود کیا ہے کی خدمت میں اس امید پر تقدیم کرتا ہوں کہ وہ ایک نگاہ لطف ہماری طرف بھی مبذول کریں_

مؤلف

اس کتاب کا ترجمہ اس امید میں کر رہا ہوں کہ یہ میرے لئے صدقہ جاریہ قرار پاتے ہوئے پڑھنے والے اس پر عمل کر کے اس حقیر کے لئے دعاء مغفرت کریں اور دعا کریں میرا انجام محبت آل محمد(ص) پر قرار پائے_ اور خداوند عالم مجھے مرنے کے بعد اپنی جوار رحمت میں قرار دے_ آمین

مترجم

۴

مقدمہ

الحمد لله رب العالمین و الصلوة و السلام علی اشرف الانبیاء و المرسلین حبیب اله العالمین ابی القاسم محمد صلی الله علیه و آله وسلم الذی بعثه رحمة للعالمین لیزکیهم و یعلمهم الکتاب و الحکمة و السلام علی عترته و ابل بیته الطیبین الطاهرین

خدایا ہمیں انسانیت کے سیدھے راستے اور کمال مدارج کے طے کرنے کی ہدایت فرما اور ہمارے تاریک دلوں کو معرفت اور یقین کے نور سے روشن کر_ خود پسندی، خودبینی خواہشات و تمینات نفسانی کے پردوں کو ہمارے دلوں سے ہٹا دے اور ہماری باطنی آنکھکو بے مثال جمال کے دیکھنے کی بینائی عطا کردے_ اور ہمیں اپنے آپ کو سنوار نے اور روح کو پاک و پاکیزہ کرنے کے راستوں کی طرف مدد فرما_ اپنے غیر کی طرف توجہہ اور محبت کو ہمارے دلوں سے نکال دے اور غفلت کے پردوں کو ہمارے دلوں سے دور کردے اور اپنی محبت اور انس کے شفاف چشمہ سے سیراب فرما_ تاکہ ہم اپنی طرف متوجہ ہوں اور باقی ماندہ گرانقدر عمر کو گذری ہوئی زندگی کی طرح سستی اور غفلت میں بسر نہ کردیں_

اس ناچیز بندہ جو خواہشات اور تمینات نفسانی میں گرفتار اور حیران و پریشان اور مقامات معنوی اور درجات کمال سے بے خبر اور مراتب سیر و سلوک سے نا واقف نے اس کا ارادہ کیا ہے کہ خود سازی تہذیب اور تزکیہ نفس کی بحث کے میدان میں وارد ہو اور قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے فرامین اور تزکیہ اور

۵

تہذیب نفس اور سیر اور سلوک الی اللہ کے قواعد کلیہ سے استفادہ کر کے پڑھنے والوں اور طالبین راہ معرفت کی خدمت میں پیش کرے اس امید پر کہ شاید سالکین راہ ہدایت کے لئے مددگار ثابت ہو اور خداوند عالم اس حقیر اور محروم پر احسان کرے اور میرا ہاتھ پکڑ کر نادانی خودخواہی غفلت کی تاریکیوں سے خارج کردے اور ذکر و انس و محبت و بقاء کی وادی کی طرف رہنمائی فرمائے شاید باقیماندہ عمر میں اگر ہو بعض گذرے ہوئے نقصانات کا جبران کر سکوں_ احب الصالحین و لست منہم نیکوں کو دوست رکھتا ہوں گر چہ ان میں سے نہیں ہوں_

اہم نقطہ

اس بحث میں وارد ہونے سے پہلے ایک مہم مطلب کا تذکرہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ خودسازی (اپنے آپ کو سدھارنا) اور تزکیہ نفس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ انسان گوشہ نشین اور دنیاوی مشاغل کو ترک کردے اور اجتماعی اور معاشرتی ذمہ داریوں اور عہدوں سے دست بردار ہوجائے بلکہ خود اس کتاب کے مباحث میں واضح ہوجائیگا کہ گوشہ نشینی اور فردی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو قبول نہ کرنا خودسازی اور تکمیل و تہذیب نفس کے منافی ہے_ اسلام مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ با وجودیکہ عام لوگوں میں زندگی بسر کریں اور فردی اور اجتماعی وظائف انجام دیں اپنے آپ سے غافل نہ ہوں اور خودسازی اور تہذیب نفس کی تربیت کو اہمیت دین اور اسے مورد عنایت قرار دیں_

مؤلف

۶

پیغمبروں کے بعثت کی اہم غرض نفوس کا پاکیزہ کرنا تھا

پیغمبروں کا سب سے بڑا ہدف اور غرض انسانی نفوس کی پرورش کرنا اور نفوس انسانی کو پاک و پاکیزہ بنانا تھا_

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ '' خداوند عالم نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ان سے ایک رسول ان کے درمیان بھیجا ہے تا کہ وہ ان کے لئے قرآنی آیات کی تلاوت کرے اور ان کے نفوس کو پاک و پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے گرچہ وہ اس سے پہلے ایک کھلی ہوئی گمراہی میں غرق تھے_(۱)

تعلیم و تربیت کا موضوع اس قدر مہم تھا کہ پیغمبروں کے بھیجنے کی غرض قرار پایا اور خداوند عالم نے اس بارے میں اپنے بندوں پر احسان کیا_ انسان کی فردی اور اجتماعی شخصیت کی سعادت اور دنیوی اور اخروی شقاوت اس موضوع سے وابستہ ہے کہ کس طرح انسان نے اپنے آپ بنایا ہے اور بنائے گا_ اسی وجہ سے انسان کا اپنے آپ کو بنانا ایک زندگی ساز سرنوشت ساز کام شمار ہوتا ہے_ پیغمبر(ص) آئے ہیں تا کہ خودسازی اور نفس انسانی کی پرورش اور تکمیل کا راستہ بتلائیں اور مہم ا ور سرنوشت ساز کام کی

۷

رہنمائی اور مدد فرمائیں پیغمبر آئے ہیں تا کہ نفوس انسانی کو رذائل اور برے اخلاق اور حیوانی صفات سے پاک اور صاف کریں اور اچھے اخلاق اور فضائل کی پرورش کریں_ پیغمبر علیہم السلام آئے ہیں تا کہ انسانوں کو خودسازی کا درس دیں اور برے اخلاق کی شناخت اور ان پر کنٹرول اور خواہشات نفسانی کو قابو میں رکھنے کی مدد فرمائیں اور ڈرانے اور دھمکانے سے ان کے نفوس کو برائیوں اور ناپاکیوں سے پاک و صاف کریں_ وہ آئے ہیں تا کہ فضائل اور اچھے اخلاق کے پودے کو انسانی نفوس میں پرورش دیں اور بار آور بنائیں اور اپنی راہنمائی اور تشویق اور ترغیب سے ان کے مددگار بنیں_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ '' میں تمہیں اچھے اخلاق کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۲)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' میں اسلئے بھیجا گیا ہوں تا کہ اچھے اخلاق کو نفوس انسانی میں مکمل کروں_(۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم نے پیغمبروں کو اچھے اخلاق کے لئے منتخب کیا ہے جو شخص بھی اپنے آپ میں اچھے اخلاق موجو د پائے تو خداوند عالم کا اس نعمت پر شکریہ ادا کرے اور جو شخص اپنے آپ میں اچھے اخلاق سے محروم ہو اسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع اور زاری کرنی چاہئے اور اللہ تعالی سے اچھے اخلاق کو طلب کرنا چاہئے_(۴)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اگر بالغرض میں بہشت کی امید نہ رکھتا ہوتا اور دوزخ کی آگ سے نہ ڈرتا ہوتا اور ثواب اور عقاب کا عقیدہ بھی نہ رکھتا ہوتا تب بھی یہ امر لائق تھا کہ میں اچھے اخلاق کی جستجو کروں کیونکہ اچھے اخلاق کامیابی اور سعادت کا راستہ ہے_(۵)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایمان کے لحاظ سے کاملترین مومنین وہ

۸

ہیں کہ جن کے اخلاق بہتر ہوں_'' رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ '' قیامت کے دن نامہ اعمال میں کوئی چیز حسن خلق سے افضل نہیں رکھی جائیگی_(۶)

ایک آدمی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ دین کیا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا ''حسن خلق'' وہ آدمی اٹھا اور آپ(ص) کے دائیں جانب آیا اور عرض کی کہ دین کیا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا ''حسن خلق'' یعنی اچھا اخلاق_ پھر وہ گیا اور آپ کے بائیں جانب پلٹ آیا اور عرض کی کہ دین کیا ہے ؟ آپ(ص) نے اس کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کیا تو نہیں سمجھتا؟ کہ دین یہ ہے کہ تو غصہ نہ کرے_(۷)

اسلام کو اخلاق کے بارے میں خاص توجہہ ہے اسی لئے قرآن مجید میں اخلاق کے بارے میں احکام کی نسبت زیادہ آیات قرآنی وارد ہوئی ہیں یہاں تک کہ قرآن کے قصوں میں بھی غرض اخلاقی موجود ہے_ تمہیں احادیث میں اخلاق کے بارے ہزاروں حدیثیں ملیں گی اگر دوسرے موضوعات سے زیادہ حدیثیں نہ ہوئیں تو ان سے کمتر بھی نہیں ہیں_ اخلاق کے بارے میں ثواب اور خوشخبریاں جو ذکر ہوئی ہیں دوسرے اعمال کے ثواب سے کمتر نہیں ہیں_ اور برے اخلاق سے ڈرانا اور سزا جو بیان ہوئی ہے وہ دوسرے اعمال سے کمتر نہیں ہیں_ اسی لئے اسلام کی بنیاد اخلاقیات پر تشکیل پاتی ہے_ مناسب نہیں کہ اسے دین کے احکام میں دوسرا درجہ دیا جائے اور دینداروں کے لئے آرائشے اور خوبصورتی کا درجہ دیا جائے اگر احکام میں امر اور نہی ہیں تو اخلاق میں بھی امر اور نہی موجود ہیں اور اگر احکام میں تشویق اور تخویف ثواب اور عقاب اور جزا ء اور سزا موجود ہے تو اخلاق میں بھی یہی امور موجود ہیں_

پس احکام شرعی اور اخلاق میں کونسا فرق موجود ہے؟ اگر ہم سعادت اور کمال کے طالب ہیں تو اخلاقیات سے لاپرواہی نہیں برت سکتے ہم اخلاقی واجبات کو اس بہانے سے کہ یہ اخلاقی واجبات ہیں ترک کردیں اور اخلاقی محرمات کو اس بنا پر کہ یہ اخلاقی محرمات ہیں بجالاتے رہیں_ اگر نماز واجب ہے اور اس کا ترک کرنا حرام اور موجب

۹

سزا ہے تو عہد کا ایفا بھی واجب ہے اور خلاف وعدہ حرام ہے اور اس پر بھی سزا ہوگی پس ان دونوں میں کیا فرق ہے؟

واقعی متدین اور سعادت مند وہ انسان ہے کہ جو احکام شرعیہ اور تکالیف الہی کا پابند ہو اور اخلاقیات کا بھی پابند ہو بلکہ سعادت اور کمال معنوی اور نفسانی میں اخلاقیات بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جیسے کہ بعد میں ذکر کریں گے_

بزرگ شناسی و خودسازی

گرچہ انسان ایک حقیقت ہے لیکن یہ مختلف جہات اور اوصاف رکھتا ہے_ انسان کے وجود کا ایک مٹی کے جوہر سے جو بے شعور ہے آغاز ہوا ہے اور پھر یہ جوہر مجرد ملکوتی تک جاپہنچتا ہے خداوند عالم قرآن مجید میںفرماتا ہے کہ '' خداوند وہ ہے کہ جس نے ہر چیز کو اچھا پیدا کیا ے اور انسان کو مٹی سے بنایا ہے اور اس کی نسل کو بے وقعت پانی یعنی نطفہ سے قرار دیا ہے پھر اس نطفہ کو اچھا اور معتدل بنایا ہے اور پھر اس میں اپنی طرف منسوب روح کو قرار دیا ہے اور تمہارے لئے کان، آنکھ اور دل بنایا ہے اس کے باوجود تم پھر بھی بہت کم اس کا شکریہ ادا کرتے ہو_(۸)

انسان مختلف مراتب اور جہات رکھتا ہے ایک طرف تو وہ ایک جسم طبعی ہے اور اس جسم طبعی کے آثار رکھتا ہے دوسری طرف وہ جسم نامی ہے کہ وہ اس کے آثار بھی رکھتا ہے اور دوسرے لحاظ سے وہ ایک حیوان ہے اور وہ حیوان کے آثار بھی رکھتا ہے لیکن بالاخرہ وہ ایک انسان ہے اور وہ انسانیت کے آثار بھی رکھتا ہے جو حیوانات میں موجود نہیں ہیں_

لہذا انسان ایک حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت وجود کے لحاظ سے مختلف مراتب اور درجات کی حامل ہے_ جب یہ کہتا ہے کہ میرا وزن اور میری شکل و صورت تو وہ

۱۰

اپنے جسم نامی ہونے کی خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میری شکل و صورت تو وہ اپنے جسم نامی ہونے کی حکایت کر رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میرا چلنا اور شہوت اور غضب تو وہ اپنے حیوانی درجہ کی خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میرا سوچنا اور عقل اور فکر تو وہ اپنے انسان اعلی درجہ کا پتہ دے رہا ہوتا ہے پس انسان کی میں اور خود مختلف موجود ہیں_ ایک جسمانی میں اور ایک میں نباتی اور ایک میں حیوانی اور ایک میں انسانی لیکن ان میں سے انسانی میں پر ارزش اور اصالت رکھتی ہے وہ چیز کہ جس نے انسان کو انسان بنایا ہے اور تمام حیوانات پر برتری دی ہے وہ اس کی روح مجرد ملکوتی اور نفخہ الہی ہے_

خداوند عالم انسان کی خلقت کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو ٹی سے خلق کیا ہے پھر اسے نطفہ قرار دیا ہے اور اسے ایک مضبوطہ جگہ رحم مادر میں قرار دیا ہے اور پھر نطفہ کو علقہ لو تھڑا اور پھر علقہ کو نرم گوشت بنایا ہے اور پھر نرم گوشت کو ہڈیاں بنایا ہے پھر ان ہڈیوں پر گوشت سے ڈھانپا ہے_ پر اس میں روح مجرد ملکوتی کو پھونکا ہے جس سے اسے ایک نئی مخلوق بنایا ہے_ شاباش اس کامل قادر پر جو بہترین خلق کرنے والا ہے_

انسان کی خلقت کے بارے خدائے دانا فرماتا ہے_ تبارک اللہ احسن الخالقین اسی ملکوتی روح کی وجہ سے انسان کایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ '' میں نے آدم (ع) کو پیدا کیا ہے اور اس روح کو جو میری طرف نسبت رکھتی ہے اس میں پھونکا ہے لہذا تم سب اس کی طرف سجدہ کرو_(۹)

اگر انسان تعظیم کا مورد قرار پایا ہے اور خدا نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے اولاد آدم کو محترم قرار دیا ہے اور انہیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا ہے اور ہر قسم کی پاکیزہ اور لذیذ غذا اس کی روزی قرار دی ہے اور اپنی بہت سی مخلقو پر اسے

۱۱

برتری دے ہے(۱۰) تو یہ سب اسی روح ملکوتی کے واسطے سے ہے لہذا انسان اگر خود سازی یعنی اپنے آپ کو سنوارنا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی انسانی میں کو سنوارے اور تربیت دے نہ وہ اپنی حیوانی میں یا جسمانی میں کی پرورش کرے پیغمبروں کی غرض بعثت بھی یہی تھی کہ انسان کو خودسازی اورجنبہ انسانی کی پرورش میں اس کی مدد کریں اور اسے طاقت فراہم کریں_ پیغمبر(ص) انسانوں سے فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے انسانی میں کو فراموش نہ کرو اور اگر تم نے اپنے انسانی خود اور میں کو خواہشات حیوانی پر قربانی کر دیا تو بہت بڑا نقصان تمہارے حصہ اور نصیب میں آجائیگا_

خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے '' اے پیغمبر_ ان سے کہہ دے کہ نقصان میں وہ اشخاص ہیں جو اپنے نفس انسانی اور اپنے اہل خانہ کے نفوس کو قیامت کے دن نقصان میں قرار دیں اور یہ بہت واضح اور کھلا ہوا نقصان ہے_(۱۱)

جو لوگ حیوانی زندگی کے علاوہ کسی دوسرے چیز کی سوچ نہیں کرتے در حقیقت وہی لوگ ہیں جنہوں نے انسانی شخصیت کو کھو دیا ہوا ہے کہ جس کی تلاش میں وہ کوشش نہیں کرتے_(۱۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''میں اس شخص سے تعجب کرتا ہوں کہ ایک گم کی ہوئی چیز کی تلاش تو کرتا ہے جب کہ اس نے اپنے انسانی روح کو گم کیا ہوا ہے اور اس کے پیدا کرنے کے درپے نہیں ہوتا_'' اس سے بدتر اور دردناک تر کوئی نقصان نہیں ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنی انسانی اور واقعی اور حقیقی شخصیت کو کھو بیٹھے ایسے شخص کے لئے سوائے حیوانیت کے اور کچھ باقی نہیں رہے گا_

روح انسانی اور نفس حیوانی

جو روایات اور آیات روح اور نفس انسانی کی بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ د و

۱۲

قسم پر ہیں ایک قسم نفس انسانی کو ایک در بے بہا اور شریف ملکوتی کہ جو عالم ربوبی سے آیا ہے اور فضائل اور کمالات انسانی کامنشا ہے بیان کرتی ہیں اور انسان کو تاکید کرتی ہیں کہ ایسے کمالات اور جواہر کی حفاظت اور نگاہ داری اور تربیت اور پرورش میں کوشش کرے اور ہوشیار رہے کہ ایسے بے بہا در کو ہاتھ سے نہ جانے دے کہ اس سے اسے بہت زیاد نقصان اٹھانا پڑے گا_ نمونے کے طور پر قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' اے محمد (ص) آپ سے روح کی حقیقت کا سوال کرتے ہیں ان کے جواب میں کہہ دے کہ یہ پروردگار کے عالم سے ہے اور وہ علم جو تمہیں دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے_(۱۳)

اس آیت میں روح کو ایک موجود عالم امر سے جو عالم مادہ سے بالاتر ہے قرار دیا ہے_

امیرالمومنین علیہ السلام نے روح کے بارے میں فرمایا ہے کہ ''روح ایک در بے بہا ہے جس نے اس کی حفاظت کی اسے وہ اعلی مرتبہ تک پہنچائیگا اور جس نے اس کی حفاظت میں کوتاہی کی یہ اسے پستی کی طرف جائیگا_(۱۴)

آپ نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص نے اپنی روح کی قدر پہچانی وہ اسے پست اور فانی کاموں کے بجالانے کی طرف نہیں لے جائی گی_(۱۵)

آپ نے فرمایا ''جس شخص نے روح کی شرافت کو پالیا وہ اسے پست خواہشات اور باطل تمینات سے حفاظت کردے گی_(۱۶)

''روح جتنی شریف ہوگی اس میں اتنی زیادہ مہربانی ہوگی_(۱۷)

آپ نے فرمایا کہ '' جس کا نفس شریف ہوگا وہ اسے سوال کرنے کی خواری سے پاک کردے گا_(۱۸)

اس قسم کی آیات اور روایات کے بہت زیادہ نمونے موجود ہیں_ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس انسانی ایک بیش بہا قیمتی در ہے کہ جس کی حفاظت و نگاہ داری اور تربیت کرنے میں کوشش کرنی چاہئے_

دوسری قسم کی روایات وہ ہیں کہ جس میں نفس انسانی کو ایک انسان کا سخت دشمن

۱۳

تمام برائیوں کا مبدا بتلایا گیا ہے لہذا اس سے جنگ کی جائے اور اسے سرکوب کیا جائے ور نہ وہ انسان کے لئے بدبختی اور شقاوت کے ا سباب مہیا کردے گا_ نمونے کے طور پر جیسے قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جو شخص مقام رب سے ڈرتا ہو اور اپنے نفس کو خواہشات پر قابو پاتا ہو اس کی جگہ جنت ہے_(۱۹)

قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ '' میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا کیونکہ وہ ہمیشہ برائیوں کی دعوت دیتا ہے مگر جب خدا رحم کرے_(۲۰)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' تیرا سب سے بدترین دشمن وہ نفس ہے جو تیرے دو پہلو میں موجود ہے_(۲۱)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نفس ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے جو شخص اسے امین قرار دے گا وہ اس سے خیانت کرے گا جس نے اس پر اعتماد کیا وہ اسے ہلاکت کی طرف لے جائیگا، جو شخص اس سے راضی ہوگا وہ اسے بدترین موارد میں وارد کردےگا_(۲۲)

نیز آپ نے فرمایا '' نفس پر اطمینان کرنا شیطان کے لئے بہترین اور مضبوط موقعہ ہوا کرتا ہے_(۲۳)

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''اے پروردگار کہ میں آپ سے نفس کی شکایت کرتا جو ہمیشہ برائی کی دعوت دیتا ہے اور گناہ اور خطاء کی طرف جلدی کرتا ہے او ربرائی سے علاقمند ہے اور وہ اپنے آپ کو تیرے غضب کا مورد قرار دیتا ہے اور مجھے ہلاکت کے راستوں کی طرف کھینچتا ہے_(۲۴)

اس قسم کی آیات اور روایات بہت زیادہ ہیں کہ جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ نفس ایک ایسا موجود ہے جو شریر اور برائیوں کا سرچشمہ ہے لہذا چاہئے کہ جہاد کر کے اس کی کوشش کو سرکوب کیا جائے_

۱۴

ممکن ہے کہ بعض لوگ تصور کریں کہ ان دو قسم کی آیات اور روایات میں تعارض اور تزاحم واقع ہے یا خیال کریں کہ انسان میں دو نفس اور روح ہیں کہ ایک اچھائیوں کامنبع ہے اور دوسرا نفس حیوانی ہے جو برائیوں کا سرچشمہ ہے لیکن یہ دونوں تصور اور خیال غلط ہیں_ پہلے تو ان دو قسم میں تعارض ہی موجود نہیں ہے دوسرے علوم میں ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کی ایک حقیقت ہے اور ایک روح ہے اور اس طرح نہیں ہے کہ انسانیت اور حیوانیت انسان میں ایک دوسرے سے جدا اور علیحدہ ہوں_

بلکہ نفس انسانی میں دو مرتبے اور دو وجودی حیثیت ہیں نیچے اور پست مرتبے میں وہ ایک حیوان ہے کہ جس میں حیوان کے تمام آثار اور خواص موجود ہیں اور ایک اعلی مرتبہ ہے کہ جس میں وہ ایک انسان ہے اور وہ نفخہ الہی اور عالم ملکوت سے آیا ہے_

جب یہ کہا گیا ہے کہ نفس شریف اور قیمتی اور اچھائیوں کا مبدا ہے اس کے بڑھانے اور پرورش اور تربیت میں کوشش کرنی چاہئے یہ اس کے اعلی مرتبے کی طرف اشارہ ہے اور جب یہ کہا گیا ہے کہ نفس تیرا دشمن ہے اس پر اعتماد نہ کرو تجھے ہلاکت میں ڈال دے گا اور اسے جہاد اور کوشش کر کے قابو میں رکھ یہ اس کے پست مرتبے کی طرف اشارہ ہے یعنی اس کی حیوانیت کو بتلایا گیا ہے_ جب کہا جاتا ہے کہ نفس کی تربیت اور پرورش کر اس سے مراد انسانی مرتبہ ہوتا ہے اور جب کہا جاتا ہے کہ اس کو سرکوب اور مغلوب کر دے تو اس سے مقصود اس کا پست حیوانی مرتبہ ہوتا ہے_

ان دو مرتبوں اور دو حیثیتوں اور دو وجودوں میں ہمیشہ کشمکش اور جنگ رہتی ہے_ حیوانی مرتبہ کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اپنی خواہشات اور تمینات کو پورا کرنے میں لگا رہے اور قرب الہی اور ترقی اور تکامل سے نفس انسانی کو روکے رکھے اور اسے اپنا غلام بنائے رکھے اس کے برعکس نفس انسانی اور مرتبہ عالی وجود انسانی ہمیشہ کوشش میں رہتا ہے کہ کمالات انسانی کے اعلی مراتب طے کرے اور قرب الہی کی مقام پر فائز

۱۵

ہوجائے اس مقام تک پہنچنے کے لئے وہ خواہشات اور تمایلات حیوانی کو قابو میں کرتا ہے اور اسے اپنا نوکر اور غلام بنا لیا ہے اس کشمکش اورجنگ میں ان دو سے کون دوسرے پر غلبہ حاصل کرتا ہے اگر روح انسان اور ملکوتی نے غلبہ حاصل کر لیا تو پھر انسانی اقدار زندہ ہوجائیں گی اور انسان قرب الہی کے بلند مرتبے اور قرب الہی تک سیر و سلوک کر تا جائیگا اور اگر روح حیوانی اور حیثیت بہیمی نے غلبہ حاصل کر لیا تو پھر عقل کا چراغ بچھ جائیگا اور وہ اسے گمراہی اور ضلالت کی وادی میں دھکیل دے گا اسی لئے پیغمبر آئے ہیں کہ انسان کو اس مقدس جہاد اورجنگ میں حتمی اور یقینی مدد میں_

۱۶

انسانی ارزش

انسان کی دو حیثیتیں اور دو وجود ہیں ایک وجود انسانی اور ایک وجود حیوانی_ انسان کی قدر اور قیمت انسانی وجود سے ہے اور حیوانی وجود سے نہیں ہے_ حیوانی وجود تو اس کا طفیلی ہے اور در حقیقت وہ کچھ بھی نہیں ہے_ گر چہ انسان حیوان تو ہے ہی اور اسے حیوانی وجود کے لئے اس کے لوازم زندگی حاصل کرنے کو اہمیت دینی بھی چاہئے_ لیکن انسان اس دنیا میں اس لئے نہیں آیا کہ وہ حیوانی زندگی بسر کرے بلکہ انسان اس اس جہان میں اسلئے آیا ہے کہ وہ اپنی حیوانی زندگی سے انسان زندگی کی تکمیل کرے اور اس حیوانی زندگی سے انسان زندگی کا فائدہ حاصل کرے انسان دونوں انسانی حیوانی زندگی میں کئی ایک چیزوں کا محتاج ہوتا ہے کہ جن کے تقاضے خود اس کے وجود میں رکھ دیئے گئے ہیں_ اس لحاظ سے کہ وہ ایک حیوان ہے اور نامی ہے پانی غذا مکان لباس ہوا محتاج ہے تا کہ وہ زندہ رہے پانی اور غذا کا محتاج اور اس لحاظ سے کہ ان کو پورا کرے اسے تلاش اور کوشش کرنی ہوتی ہے_ بھوک پیاس لذت پانی اور غذا کی طلب یہ اس کے وجود میں رکھ دی گئی ہوئی ہیں اور اس لحاظ سے کہ نسل انسانی باقی رہے جنسی غریزہ اور بیوی کی طرف میلان اس کے وجود میں رکھ دیا گیا ہے_ انسان

۱۷

اپنے باقی رہنے کا علاقمند ہوتا ہے زندگی کے باقی رکھنے میں حیوانی زندگی اور اس کے آثار کا پابند ہے جب غذا کو دیکھتا ہے اور بھوک کا احساس کرتا ہے تو غذا کھانے کی طرف میلان پیدا کرتا ہے اور اپنے آثار سے کہتا ہے کہ مجھے غذا حاصل کرنی چاہئے اور اسے کھانا چاہئے اور اس کے حاصل کرنے میں کوئی مانع آڑے آرہا ہو تو اس سے مقابلہ کرتا ہے_ یقینا ایسا احساس پر انہیں ہے کیونکہ اپنی زندگی کے دوام کے لئے انسان کو کام کرنا چاہئے تا کہ کھائے اور پیئے_ اسلام میں نہ صرف اس سے روکا نہیںگیا بلکہ اس کی سفارش بھی کی گئی ہے_ لیکن اس مطلب کو بھی جاننا چاہئے کہ حیوانی زندگی اخروی زندگی کا مقابلہ اور تمہید ہے یہ خود انسان کی خلقت کی غرض نہیں ہے بلکہ یہ طفیلی ہے اصیل نہیں ہے_ اگر کسی نے حیوانی زندگی کو ہی اصل اور ہدف قرار دے دیا اور دن رات خواہشات و تمینات حیوانی زندگی میں لگا رہا اور اس کی کوشش اور تلاش کرتا رہا اور اپنی زندگی کا ہدف خورد و نوش پہننا اور آرام کرنا اور شہوت رانی اور غرائز حیوانی کا پورا کرنا قرار دے دیا تو وہ ضلالت اور گمراہی میں ہی جا پڑے گا_ کیونکہ اس نے ملکوتی روح اور عقل انسانی کو حاکمیت سے دور کر کے فراموشی کے خانے میں ڈال دیا ہے ایسے شخص کو انسان شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ وہ ایک حیوان ہے جو انسان کی شکل و صورت میں ہے_ اس کے پاس عقل ہے لیکن وہ ایسی دور ہوئی ہے کہ جس سے انسانی کمالات اور فضائل کو نہیں پہچان رہا وہ کان اور آنکھ رکھتا ہے لیکن حقایق اور واقعات کو نہیں سنتا اور نہیں دیکھتا_ قرآن ایسے انسان کو حیوان بلکہ اس سے بھی گمراہ تر جانتا ہے کیونکہ حیوان تو عقل ہی نہیں رکھتا لیکن ایسا شخص عقل رکھتا ہے اور نہیں سمجھتا _

قرآن مجید میں ہے کہ '' اے پیغمبر اگر تیری دعوت کو قبول نہیں کرتے تو سمجھ لے کہ یہ لوگ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں اور کونسا شخص اس سے گمراہ تر ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے اور اللہ تعالی ظالموں کو بھی ہدایت نہیں کر ے گا_(۲۵) قرآن مجید فرماتا ہے _ کہ ''ہم نے بہت سے جنات اور انسان جہنم کے لئے پیدا کئے ہیں کہ وہ اپنے سوء اختیار سے جہنم میں جائیں گے_

۱۸

اس واسطے کہ ان کے پاس دل تو ہو لیکن اس سے سمجھتے نہیں_ آنکھیں رکھتے ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں_ کان رکھتے ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں یہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گمراہ ترین یہ غافل ہیں_(۲۶)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' وہ شخص کہ جس نے خواہشات نفس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے با وجودیکہ وہ عالم ہے لیکن خدا نے اسے گمراہ کر رکھا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہرلگادی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں آپ نے دیکھا؟ کہ سوائے خدا کے اسے کون ہدایت کرے گا؟ وہ کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتا_(۲۷)

کون سا شخص اس سے بدبخت تر ہے جو ملکوتی نفس اور اپنی انسانی سعادت اور کمالات کو خواہشات نفس اور حیوانی زندگی پر قربان کر دیتا ہے؟ اور نفس انسانی کو حیوانی لذات کے مقابلے فروخت کر دیتا ہے؟

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''کہ خسارت میں وہ شخص ہے جو دنیا میں مشغول ہے اور اخروی زندگی کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ رہا ہے_(۲۸)

آپ نے فرمایا '' اپنے نفس کو پست کاموں سے روکے رکھ گرچہ تجھے ان امور کی طرف رغبت ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ جتنا تو اپنے نفس کو اس میں مشغول رکھتا ہے اس کا تجھے کوئی عوض حاصل نہ ہوگا_

اپنے آپ کو دوسروں کا غلام نہ بنا جب کہ خدا نے تجھے آزاد خلق کیا ہے_ وہ خیر جو شر کے وسیلے سے حاصل ہو وہ خیر نہیں ہے اور گشایش حاصل نہیں ہوتی مگر سختی کے ذریعے سے_(۲۹) _

آپ نے فرمایا '' وہ بری تجارت ہے کہ جس میں تو اپنے نفس کو اس کی قیمت قراردے اور جو تیرا ثواب اور اجر اللہ کے ہاں موجود ہے اسے اس تجارت کا عوض قرار دے دے_(۳۰)

انسان فقط حیوانی وجود کا خلاصہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک انسانی وجود بھی رکھتا ہے اسی حیثیت سے وہ جوہر مجرد اور ملکوتی موجود ہے جو عالم قدس سے آیا ہے اور حیوانی

۱۹

خواہشات کے علاوہ بھی ارزش رکھتا ہے _ اگر انسان اپنی باطنی ذات اور ملکوتی روح میں فکر کرے اور اپنے آپ کو خوب پہچانے اور مشاہدہ کرے کہ وہ عالم قدرت و کرامت علم و رحمت وجود نور و احسان خیر و عدالت خلاصہ عالم کمال سے آیا ہے اور اسی عالم سے سنخیت اور مناسب رکھتا ہے_ تو اس وقت انسان ایک اور دید سے ایک اور عالم کو دیکھے گا اور کمال مطلق کو نگاہ کرے گا اور اسی عالم کی صفات سے علاقمند ہوگا اور اس گران بہار سرمایہ کیوجہ سے اپنے حیوانیت کے پست مرتبے سے حرکت کرے گا تا کہ کمال کے مدارج کے راستے طے کرے اور مقام قرب الہی تک جاپہنچے یہ وہ صورت ہے کہ اس کے سامنے اخلاقی اقدر واضح ہوجائیں گی اگر اخلاق اقدار مثل علم احسان، خیر خواہی، ایثار، عدالت جو دو سخا محروم طبقے کی حمایت سچائی امانتداری کا خواہشمند ہوا تو اس لحاظ سے اپنے آپ کو عالم کمال سے دیکھے گا اور ایسے مراتب اور اقدار کو اپنے انسانی بلند مقام کے مناسب پائیگا اور اسے اسی وجہ سے دوست رکھے گا یہاں تک کہ حاضر ہو گا کہ وہ حیوانی وجود اور اس کی خواہشات کو اس بلند مقام تک پہنچنے کے لئے قربان کر دے_

اخلاق اقدار اور مکارم روحانی اور معنوی جو ملکوتی روح انسان سے متناسب ہیں کہ ایک سلسلہ کا نام ہے اور انسان کمال تک پہنچنے کے لئے ان کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے_

اور اپنے آپ سے کہتا ہے کہ مجھے انہیں انجام دینا چاہئے اور اخلاقی انجام دی جانے والی اشیاء کا سرچشمہ شرافت اور کرامت نفس ہوا کرتا ہے_ اور کمال روحانی اور بلندی مقام تک پہنچنے کے لئے بجا لایا جاتا ہے_ جب انسان یہ کہتا ہے کہ مجھے راہ حق میں ایثار کرنا چاہئے یعنی ایثار تکامل ذات اور بلندی مرتبے کے لئے فائدہ مند ہے اور ضروری ہے کہ ایسے مرتبہ تک پہنچنا چاہئے_ معنوی کمالات تک پہنچنے کا راستہ صرف ایک ہے اور مقام انسان اس اقدار اور ان کی ضد کی پہچان میں مساوی خلق ہوئے ہیں_ اگر انسان اپنی محبوب اور پاک فطرت کی طرف رجوع کرے اور خواہشات اور ہوی

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کذاوکذا سے بدل دیاہے جو غیر معروف اور غیر مشہور ہیں۔

ابن کثیر شامی جس کی تاریخ کی اساس تاریخ طبری ہے، لیکن جب اس سند تک پہونچا ہے تو تاریخ طبری کوچھوڑ کر طبری کی تفسیر کی روش کی پیروی کی اور وہ بھی مبہم اور مجمل طریقے سے ۔ ان تمام چیزوں سے بدتر و ہ تحریف ہے جسے اس زمانے کے روشن فکر اور مصر کے مشہور مورخ ڈاکٹر محمد حسنین ہیکل نے اپنی کتاب ''حیات محمد'' میں کیاہے اور خود اپنی کتاب کے معتبر ہونے پر سوالیہ نشان لگادیاہے۔

کیونکہ اولاً انھوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو حساس جملے کو جودعوت کے آخر میں پیغمبر نے بعنوان سوال فرمایا تھا اس کو نقل کیا ہے لیکن اس دوسرے جملے کو جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی سے فرمایاتھا کہ تو میرا بھائی ،وصی اور میرا خلیفہ ہے کوبالکل حذف کردیا اور اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔

ثانیاً اپنی کتاب کے دوسرے اور تیسرے ایڈیشن میں اپنا تعصب کچھ اور بھی دکھایا اور اس حدیث کے پہلے حصے کو بھی حذف کردیا. گویا متعصب افراد نے انھیںاس پہلے جملے کو نقل کرنے پر ہی بہت ملامت کی،اور اس کتربیونت کی وجہ سے ناقدین تاریخ کو تنقید کا موقع دیا ، اور اپنی کتاب کے اعتبار کو گرا دیا ۔

۴۱

اسکافی کا بیان

اسکافی نے اپنی مشہور و معروف کتاب میں اس تاریخی فضیلت کا تذکرہ کیاہے کہ حضرت علی نے اپنے باپ، چچا اور بنی ہاشم کی بزرگ شخصیتوں کے سامنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عہد و پیمان باندھاکہ ہم آپ کی مدد کریں گے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں اپنا بھائی، وصی اور خلیفہ قرار دیا. اس کے متعلق وہ لکھتے ہیں :

''وہ افراد جو یہ کہتے ہیں کہ امام بچپن میں ہی صاحب ایمان تھے ،اوریہ وہ زمانہ ہوتا ہے کہ جب بچہ اچھے اور برے میںتمیز نہیں کرپاتا، اس تاریخی فضیلت کے سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟!

کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) کثیر تعداد میں موجود افراد کے کھانے کا انتظام ایک بچے کے حوالے کریں؟ یاایک چھوٹے بچے کو حکم دیں کہ بزرگان کو کھانے پر مدعو کرے؟

کیایہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر ایک نابالغ بچے کو راز نبوت بتائیں اور اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ میںدیں اور اسے اپنا بھائی ، وصی اور اپنا خلیفہ لوگوںکے لئے معین کریں؟!

بالکل نہیں ! بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت علی اس دن جسمانی قوت اور فکری لحاظ سے اس حد پر پہونچ چکے تھے کہ ان کے اندر ان تمام کاموں کی صلاحیت موجود تھی یہی وجہ تھی کہ اس بچے نے کبھی بھی دوسرے بچوں سے انسیت نہ رکھی اورنہ ان کے گروہ میں شامل ہوئے اور نہ ہی ان کے ساتھ کھیل کود میں مشغول ہوئے، بلکہ جس وقت سے پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ نصرت و مدد اور فداکاری کا پیمان باندھا تو اپنے کئے ہوئے وعدے پر قائم و مستحکم رہے اور ہمیشہ اپنی گفتار کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار میں ڈھالتے رہے اور پوری زندگی پیغمبر(ص)کے مونس و ہمدم رہے۔

۴۲

وہ نہ صرف اس موقع پر پہلے شخص تھے جو سب سے پہلے پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت پر اپنے ایمان کا اظہار کیا ،بلکہ اس وقت بھی جب کہ قریش کے سرداروں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ اگر آپ اپنے وعدے میں سچے ہیں اور آپ کارابطہ خدا سے ہے تو کوئی معجزہ دکھائیں (یعنی حکم دیں کہ خرمے کا درخت یہاں سے اکھڑ کر آپ کے سامنے کھڑا ہوجائے) تو اس وقت بھی علی وہ واحد شخص تھے جو تمام لوگوںکے انکار کرنے کے باوجود اپنے ایمان کا لوگوں کے سامنے اظہار کیا۔(۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے قریش کے سرداروں کے معجزہ طلبی کے واقعے کو اپنے ایک خطبہ میںنقل کیاہے. آپ فرماتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ان لوگوں سے کہا:اگر خدا ایساکرے تو کیا خدا کی وحدانیت اور میری رسالت پر ایمان لاؤ گے؟ سب نے کہا: ہاں یا رسول اللہ۔

اس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا کی اور خدا نے ان کی دعا کو قبول کیااور درخت اپنی جگہ سے اکھڑ کر پیغمبر(ص) کے سامنے بڑے ادب سے کھڑا ہوگیا. معجزہ طلب کرنے والے سرداروں نے کفر و عناد و عداوت کی راہ اختیار کی اور تصدیق کرنے کے بجائے پیغمبر(ص) کو جادوگر کے خطاب سے نوازا ،اور میں پیغمبر(ص) کے پاس کھڑا تھا ،میں نے ان کی طرف رخ کر کے کہا: اے پیغمبر ! میں وہ پہلا شخص ہوںجوآپ کی رسالت پر ایمان لایا، اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ درخت نے اس کام کو خدا کے حکم سے انجام دیاہے تاکہ آپ کی نبوت کی تصدیق کرے اور آپ کے قول کوسچا کر دکھائے۔

اس وقت میرا یہ اعتراف کرنا اور تصدیق کرنا ان لوگوں پر گراں گزرا، ان لوگوںنے کہا کہ تمہاری تصدیق علی کے علاوہ کوئی نہیں کرے گا۔(۲)

______________________

(۱) النقض علی العثمانیہ ص ۲۵۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۳ ص۲۴۴ و ۲۴۵، میں تذکرہ کیا ہے۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۲۳۸ (قاصعہ)

۴۳

تیسری فصل

بے مثال فداکاری

ہر انسان کے اعمال و کردار کا پتہ اس کے فکر اور عقیدے سے ہوتا ہے ،اورقربانی اور فداکاری اہل ایمان کی علامت ہے .اگر انسان کا ایمان کسی چیز پر اس منزل تک پہونچ جائے کہ اسے اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھے توحقیقت میں اس چیز پر کبھی آنچ نہیں آنے دے گا. اور اپنی ہستی اور تمام کوششوں کواس پر قربان کرے گا قرآن مجیدنے اس حقیقت کو اس اندازسے بیان کیاہے:

( انَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاﷲِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِامْوَالِهِمْ وََنفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اﷲِ ُوْلَئِکَ هُمْ الصَّادِقُونَ ) (۱)

''سچے مومن تو بس وہی ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، پھر انہوں نے اس میں سے کسی طرح کا شک وشبہ نہ کیا اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیا یہی لوگ ( دعوائے ایمان میں ) سچے ہیں''

بعثت کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں نے بہت زیادہ شکنجے اور ظلم و بربریت کواپنی کامیابی کی راہ میں برداشت کیا تھا جس چیز نے دشمنوں کو خدا کی وحدانیت کے اقرار سے روک رکھا تھا وہی بیہودہ خاندانی عقائد اوراپنے خداؤں پر فخر و مباہات اور قوم پرستی پر تکبر و غرور اور ایک قبیلے کا دوسرے قبیلے والوں سے کینہ و عداوت تھیم یہ تمام موانع مکہ اور اطرافیان مکہ میں اسلام کے نشر و اشاعت میں اس وقت تک رہے جب تک پیغمبر(ص) نے مکہ فتح کر نہ لیا تھا اور صرف اسلام کی قدرت کاملہ سے ہی یہ تمام موانع ختم ہوئے۔

مسلمانوں پر قریش کی زیادتی سبب بنی کہ ان میں سے کچھ لوگ حبشہ اور کچھ لوگ مدینہ کی طرف ہجرت کریں، اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی جنہیں خاندان بنی ہاشم خصوصاً حضرت ابوطالب کی مکمل حمایت حاصل تھی لیکن جعفر بن ابی طالب مجبور ہوئے کہ بعثت کے پانچویں سال چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کریں اور ہجرت کے ساتویں سال (فتح خیبر کے سال) تک وہیں پررہیں۔

______________________

(۱)سورۂ حجرات، آیت ۱۵

۴۴

بعثت کا دسواں سال پیغمبر اسلام(ص) کے لئے بہت سخت تھا، جب آپ کے حامی اور پشت پناہ اور مربی اور عظیم چچا کا انتقال ہوگیا. ابھی آپ کے چچا جناب ابوطالب کی وفات کو چند دن نہ گزرے تھے کہ آپ کی عظیم و مہربان بیوی حضرت خدیجہ کا بھی انتقال ہوگیا. جس نے اپنی پوری زندگی اور جان و مال کو پیغمبر کے عظیم ہدف پر قربان کرنے پر کبھی دریغ نہیں کیا، پیغمبر اسلام (ص)ان دو باعظمت حامیوں کی رحلت کی وجہ سے مکہ کے مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم و زیادتی ہونے لگی ، یہاں تک کہ بعثت کے تیرہویں سال تمام قریش کے سرداروں نے ایک میٹنگ میں یہ طے کیا کہ توحیدکی آواز کو ختم کرنے کے لئے پیغمبر(ص) کو زندان میں ڈال دیا جائے یا انھیں قتل کردیا جائے یا پھر کسی دوسرے ملک میں قیدکردیاجائے تاکہ یہ آواز توحید ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے، قرآن مجید نے ان کے ان تینوں ارادوں کا تذکرہ کیاہے۔

ارشاد قدرت ہے:

( وَاذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ َوْ یَقْتُلُوکَ َوْ یُخْرِجُوکَ وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اﷲُ وَاﷲُ خَیْرُ الْمٰاکِرِیْنَ ) (۱)

اور (اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب کفار تم سے فریب کر رہے تھے تاکہ تم کوقید کرلیں یاتم کومار ڈالیں یا تمہیں (گھر سے) باہر نکال دیں وہ تو یہ تدبیر کر رہے تھے اور خدا بھی (ان کے خلاف) تدبیر کر رہا تھا اور خدا تو سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔

قریش کے سرداروں نے یہ طے کیا کہ ہر قبیلے سے ایک شخص کو چنا جائے اور پھر یہ منتخب افراد نصف شب میں یکبارگی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر پر حملہ کریں اور انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردیں اور اس طرح سے مشرکین بھی ان کی تبلیغ اور دعوت حق سے سکون پا جائیں گے اور ان کا خون پورے عرب کے قبیلوں میں پھیل جائے گا. اور بنی ہاشم کا خاندان ان تمام قبیلوں سے جو اس خون کے بہانے میں شامل تھے جنگ و جدال نہیں کرسکتے، فرشتۂ وحی نے پیغمبر(ص) کو مشرکوں کے اس برے ارادے سے باخبر کیا اور حکم خدا کو ان تک پہونچایا کہ جتنی جلدی ممکن ہو مکہ کو چھوڑ کر یثرب چلے جائیں۔

ہجرت کی رات آگئی ،مکہ اور پیغمبر اسلام(ص) کا گھر رات کے اندھیروں میں چھپ گیا ،قریش کے

______________________

(۱) سورۂ انفال، آیت ۳۰

۴۵

مسلح سپاہیوں نے چاروں طرف سے پیغمبر(ص)کے گھر کا محاصرہ کرلیا اس وقت پیغمبر(ص) کے لئے ضروری تھا کہ گھر کو چھوڑ کر نکل جائیں اور اس طرح سے جائیں کہ لوگ یہی سمجھیں کہ پیغمبر گھر میں موجود ہیں اور اپنے بستر پر آرام فرما رہے ہیں. لیکن اس کام کے لئے ایک ایسے بہادر اور جانباز شخص کی ضرورت تھی جو آپ کے بستر پر سوئے اور پیغمبر کی سبز چادر کو اس طرح اوڑھ کر سوئے کہ جو لوگ قتل کرنے کے ارادے سے آئیں وہ یہ سمجھیں کہ پیغمبر ابھی تک گھر میں موجود ہیں اور ان کی نگاہیں صرف پیغمبر کے گھر پر رہے اور گلی کوچوں اور مکہ سے باہر آنے جانے والوں پر پابندی نہ لگائیں ، لیکن ایسا کون ہے جو اپنی جان کو نچھاور کرے اور پیغمبر کے بستر پر سو جائے؟ یہ بہادر شخص وہی ہے جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لایا اور ابتدائے بعثت سے ہی اس شمع حقیقی کا پروانہ کی طرح محافظ رہا، جی ہاں یہ عظیم المرتبت انسان حضرت علی کے علاوہ کوئی اور نہ تھا اور یہ افتخار بھی اسی کے حصہ میں آیا، یہی وجہ ہے کہ پیغمبر نے حضرت علی ـکومخاطب کرتے ہوئے فرمایا: مشرکین قریش مجھے قتل کرنا چاہتے ہیںاور ان کا یہ ارادہ ہے کہ یک بارگی مل جل کر میرے گھر پر حملہ کریںاور مجھے بستر پر ہی قتل کردیں. خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں مکہ سے ہجرت کرجاؤں .اس لئے ضروری ہے کہ آج کی شب تم میرے بستر پر سبز چادر کواوڑھ کر سوجاؤ تاکہ وہ لوگ یہ تصور کریں کہ میں ابھی بھی گھر میں موجود ہوں اور اپنے بستر پر سو رہا ہوںاور یہ لوگ میرا پیچھا نہ کریں. حضرت علی پیغمبر کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے ابتداء شب سے پیغمبر اسلام کے بستر پر سوگئے۔

چالیس آدمی ننگی تلواریں لئے ہوئے رات بھر پیغمبر(ص) کے گھر کا محاصرہ کئے رہے اور دروازے کے جھروکوں سے گھر کے اندر نگاہیں جمائے تھے اور گھر کے حالات کا سرسری طور پر جائزہ لے رہے تھے ، ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ خود پیغمبر اپنے بستر پر آرام کر رہے ہیں. یہ جلاد صفت انسان مکمل طریقے سے گھر کے حالات پر قبضہ جمائے تھے اور کوئی چیز بھی ان کی نگاہوںسے پوشیدہ نہیں تھی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دشمنوں کے اتنے سخت پہروںکے باوجود پیغمبر کس طرح سے اپنے گھر کو چھوڑ کر ہجرت کر گئے. بہت سے مؤرخین کا نظریہ ہے کہ پیغمبر اکرم جب گھر سے نکلے تو سورۂ یٰسن کی تلاوت کر رہے تھے۔(۱)

______________________

(۱) یہاں سورۂ یٰسین کی آٹھویںاور نویں آیتیں مراد ہیں۔

۴۶

اور محاصرین کی صفوں کوتوڑتے ہوئے ان کے درمیان سے اس طرح نکلے کہ کسی کو بھی احساس تک نہ ہوا .یہ بات قابل انکار نہیں ہے کہ مشیت الہی جب بھی چاہے پیغمبر کو بطور اعجاز اور غیر عادی طریقے سے نجات دے، کوئی بھی چیزاس سے منع نہیں کرسکتی. لیکن یہاں پر بات یہ ہے کہ بہت زیادہ قرینے اس بات کی حکایت کرتے ہیںکہ خدا اپنے پیغمبر کو معجزے کے ذریعے سے نجات نہیں دینا چاہتاتھا کیونکہ اگر ایسا ہو تا تو ضروری نہیں تھاکہ حضرت علی پیغمبر کے بستر پر سوتے اور خود پیغمبر غار ثور میں جاتے اور پھر بہت زیادہ زحمت و مشقت کے ساتھ مدینے کا راستہ طے کرتے۔

بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ جس وقت پیغمبر اپنے گھر سے نکلے اس وقت تمام دشمن سورہے تھے اور پیغمبر ان کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر چلے گئے، لیکن یہ نظریہ حقیقت کے برخلاف ہے، کیونکہ کوئی بھی عقلمند انسان یہ قبول نہیں کرسکتاکہ چالیس جلاد صفت انسانوںنے گھر کا محاصرہ صرف اس لئے کیاتھا کہ پیغمبر گھر سے باہر نہ جاسکیں تاکہ مناسب وقت اور موقع دیکھ کر انھیں قتل کریں اور وہ لوگ اپنے وظیفے کواتنا نظر انداز کردیں کہ سب کے سب سے آرام سے سوجائیں۔

لیکن بعیدنہیں ہے جیساکہ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ پیغمبر محاصرین کے درمیان سے ہوکر نکلے تھے۔(۱)

______________________

(۱) سیرۂ حلبی ج۲ ص ۳۲

۴۷

خانۂ وحی پر حملہ

قریش کے سپاہی اپنے ہاتھوں کوقبضۂ تلوار پر رکھے ہوئے اس وقت کے منتظر تھے کہ سب کے سب اس خانہء وحی پر حملہ کریں اور پیغمبر کو قتل کردیں جو بستر پر آرام کر رہے ہیں .وہ لوگ دروازے کے جھروکے سے پیغمبر کے بستر پر نگاہ رکھے تھے اور بہت زیادہ ہی خوشحال تھے اوراس فکر میںغرق تھے کہ جلدی ہی اپنی آخری آرزؤں تک پہونچ جائیں گے،مگر علی علیہ السلام بڑے اطمینان و سکون سے پیغمبر کے بستر پر سو رہے تھے. کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خداوند عالم نے اپنے حبیب، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کودشمنوں کے شر سے نجات دیا ہے. دشمنوں نے پہلے یہ ارادہ کیاتھا کہ آدھی رات کو پیغمبر کے گھر پر حملہ کریں گے لیکن کسی وجہ سے اس

ارادے کوبدل دیا اور یہ طے کیا کہ صبح کو پیغمبر کے گھر میں داخل ہوں گے اور اپنے مقصد کی تکمیل کریںگے،

رات کی تاریکی ختم ہوئی اور صبح صادق نے افق کے سینے کو چاک کیا. دشمن برہنہ تلواریں لئے ہوئے یکبارگی پیغمبر کے گھر پر حملہ آور ہوئے اوراپنی بڑی اوراہم آرزوؤں کی تکمیل کی خاطر بہت زیادہ خوشحال پیغمبر کے گھر میں وارد ہوئے، لیکن جب پیغمبر کے بستر کے پاس پہونچے تو پیغمبر کے بجائے حضرت علی ـ کوان کے بستر پر پایا ،ان کی آنکھیں غصے سے لال ہوگئیں اور تعجب نے انھیں قید کرلیا .حضرت علی ـکی طرف رخ کر کے پوچھا: محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہاںہیں؟

آپ نے فرمایا: کیاتم لوگوںنے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو میرے حوالے کیا تھا جو مجھ سے طلب کر رہے ہو؟

۴۸

اس جواب کو سن کر غصے سے آگ بگولہ ہوگئے اور حضرت علی پر حملہ کردیااور انہیں مسجد الحرام لے آئے، لیکن تھوڑی جستجو وتحقیق کے بعد مجبور ہوکر آپ کوآزاد کردیا، وہ غصے میں بھنے جارہے تھے،اور ارادہ کیا کہ جب تک پیغمبر کو قتل نہ کرلیں گے آرام سے نہ بیٹھیں گے۔(۱)

قرآن مجیدنے اس عظیم اور بے مثال فداکاری کو ہمیشہ اور ہر زمانے میں باقی رکھنے کے سلسلے میں حضرت علی ـکی جانبازی کو سراہا ہے اور انھیں ان افراد میں شمار کیا ہے جو لوگ خدا کی مرضی کی خاطر اپنی جان تک کونچھاور کردیتے ہیں:

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَه ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ رَؤف بِالْعِبٰادِ )

اور لوگوں میں سے خدا کے بندے کچھ ایسے ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور خدا ایسے بندے پر بڑا ہی شفقت والاہے۔(۲)

بنی امیہ کے زمانے کے مجرم

بہت سارے مفسرین نے اس آیت کی شان نزول کو ''لیلة المبیت'' سے مخصوص کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت علی ـکے بارے میں اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہے۔(۳)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۲ ص ۹۷

(۲) سورۂ بقرہ، آیت ۲۰۷

(۳) حضرت علی کے بارے میں اس آیت کے نزول کے متعلق سید بحرینی نے اپنی کتاب تفسیر برہان (ج۱ ص ۲۰۶۔ ۲۰۷) میں تحریر کیا ہے۔ مرحوم بلاغی نے اپنی کتاب تفسیر آلاء الرحمان ، ج۱ ص ۱۸۵۔ ۱۸۴، میں نقل کیاہے. مشہور شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید کہتا ہے کہ مفسرین نے اس آیت کے نزول کو حضرت علی کے بارے میں نقل کیا ہے (مراجعہ کریں ج۱۳ ص ۲۶۲)

۴۹

سمرہ بن جندب، بنی امیہ کے زمانے کا بدترین مجرم صرف چار لاکھ درہم کی خاطر اس بات پر راضی ہوگیا کہ اس آیت کے نزول کو حضرت علی ـ کی شان میں بیان نہ کر کے لوگوں کے سامنے اس سے انکار کردے اور مجمع عام میں یہ اعلان کردے کہ یہ آیت عبد الرحمن بن ملجم کی شان میں نازل ہوئی ہے .اس نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ اس آیت کو علی ـکے بارے میں نازل ہونے سے انکار کیا، بلکہ ایک دوسری آیت جو منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی اس کو حضرت علی ـسے مخصوص کردیا(۱) کہ یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی ہے وہ آیت یہ ہے:

( وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یُعْجِبُکَ قَوْلُهُ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیُشْهِدُ اﷲَ عَلَی مَا فِی قَلْبِهِ وَهُوَ َلَدُّ الْخِصَامِ ) (۲)

اے رسول: بعض لوگ (منافقین سے ایسے بھی ہیں) جن کی (چکنی چپڑی) باتیں (اس ذراسی) دنیوی زندگی میں تمہیں بہت بھاتی ہیںاو روہ اپنی دلی محبت پر خدا کو گواہ مقرر کرتے ہیں حالانکہ وہ (تمہارے) دشمنوںمیں سب سے زیادہ جھگڑالو ہیں۔

اس طرح سے حقیقت پر پردہ ڈالنا اور تحریف کرنا ایسے مجرم سے کوئی بعیدنہیں ہے .وہ عراق میں ابن زیاد کی حکومت کے وقت بصرہ کا گورنر تھا، اور خاندان اہلبیت سے بغض و عداوت رکھنے کی وجہ سے ۸ ہزار آدمیوں کو صرف اس جرم میں قتل کر ڈالا تھاکہ وہ علی ـکی ولایت و دوستی پر زندگی بسر کر رہے تھے. جب ابن زیاد نے اس سے باز پرس کی کہ تم نے کیوں اور کس بنیاد پر اتنے لوگوںکو قتل کر ڈالا، کیا تو نے اتنا بھی نہ سوچا کہ ان میں سے بہت سے افراد بے گناہ بھی تھے، اس نے بہت ہی تمکنت سے جواب دیا ''لو قتلت مثلہم ما خشیت'' میں اس سے دو برابر قتل کرنے میں بھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا۔(۳)

سمرہ کے شرمناک کارناموں کا تذکرہ یہاں پر ممکن نہیں ہے ،کیونکہ یہ وہی شخص ہے جس نے پیغمبر اسلام کا حکم ماننے سے انکار کردیا آپ نے فرمایا: جب بھی اپنے کھجور کے پیڑ کی شاخیں صحیح کرنے کے لئے

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص ۷۳

(۲) سورۂ بقرہ، آیت ۲۰۴

(۳) تاریخ طبری ج۲سن ۵۰، ہجری کے واقعات

۵۰

کسی کے گھر میں داخل ہو تو ضروری ہے کہ صاحب خانہ سے اجازت لے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا یہاں تک کہ پیغمبر اس درخت کو بہت زیادہ قیمت دیکر خریدنا چاہ رہے تھے پھر بھی اس نے پیغمبر کے ہاتھ نہیں بیچا اور کہا کہ اپنے درخت کی دیکھ بھال کے لئے کبھی بھی اجازت نہیں لے گا۔

اس کی ان تمام باتوں کو سن کر پیغمبر نے صاحب خانہ کو حکم دیا کہ جاؤ اس شخص کے درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر دور پھینک دو. اور سمرہ سے کہا: ''انک رجل مضار و لا ضرر و لاضرار''یعنی تو لوگوںکونقصان پہونچاتا ہے اور اسلام نے کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو نقصان پہونچائے، جی ہاں، یہ چند روزہ تحریف سادہ مزاج انسانوںپربہت کم اثر انداز ہوئی، لیکن کچھ ہی زمانہ گذرا تھا کہ تعصب کی چادریں ہٹتی گئیں اور تاریخ اسلام کے محققین نے شک و شبہات کے پردے کو چاک کرکے حقیقت کوواضح و روشن کردیاہے اور محدثین ومفسرین قرآن نے ثابت کردیا کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے، یہ تاریخی واقعہ اس بات پر شاہد ہے کہ شام کے لوگوں پر اموی حکومت کی تبلیغ کا اثر اتنا زیادہ ہوچکا تھا کہ جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی بات سنتے تو اس طرح یقین کرلیتے گویالوح محفوظ سے بیان ہو رہی ہے، جب شام کے افراد سمرہ بن جندب جیسے کی باتوں کی تصدیق کرتے تھے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ تاریخ اسلام سے ناآشنا تھے، کیونکہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت عبدالرحمن پیدا بھی نہ ہوا تھا اور اگر پیدا ہو بھی گیا تھا تو کم از کم حجاز کی زمین پر قدم نہ رکھا تھا اور پیغمبر کو نہیں دیکھا تھا کہ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوتی۔

۵۱

ناروا تعصب

حضرت علی ـکی فداکاری، اس رات جب کہ پیغمبر کے گھر کو قریش کے جلادوںنے محاصرہ کیا تھا ایسی چیز نہیں ہے جس سے انکار کیا جاسکے یا اسے معمولی سمجھا جائے۔

خداوند عالم نے اس تاریخی واقعے کو ہمیشہ باقی رکھنے کے لئے قرآن مجید کے سورۂ بقرہ آیت ۲۰۷ میں اس کا تذکرہ کیا ہے اور بزرگ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی ـکی شان میں نازل ہوئی ہے .لیکن حضرت علی ـ سے بغض و عداوت اور کینہ رکھنے والوںنے پوری کوشش وطاقت سے اس بات کی کوشش کی کہ اس بزرگ اور عظیم تاریخی فضیلت کی اس طرح سے تفسیر کی جائے کہ حضرت علی ـ کی عظیم و بے مثال قربانی کی کوئی فضیلت باقی نہ رہے۔

جاحظ، اہلسنت کا ایک مشہور ومعروف دانشمند لکھتا ہے :

علی ـکا پیغمبر کے بستر پرسونا ہرگز اطاعت اور بزرگ فضیلت شمار نہیں ہوسکتی، کیونکہ پیغمبر نے انھیں اطمینان دلایاتھا اگر میرے بستر پر سوجاؤ گے توتمہیں کوئی تکلیف ونقصان نہیں پہونچے گا۔(۱)

اس کے بعد ابن تیمیہ دمشقی(۲) نے اس میں کچھ اور اضافہ کیاہے کہ علی ـ کسی اور طریقے سے جانتے تھے کہ میں قتل نہیں ہوسکتا، کیونکہ پیغمبر نے ان سے کہا تھا کہ کل مکہ کے ایک معین مقام پر اعلان کرناکہ جس کی بھی امانت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس ہے آکر اپنی امانت واپس لے جائے. علی اس ماموریت کوجو پیغمبر نے انھیں دیا تھا ،سے خوب واقف تھے کہ اگر پیغمبر کے بستر پر سوؤں گا تو مجھے کوئی بھی ضرر نہیں پہونچے گا اور میری جان صحیح و سالم بچ جائے گی۔

______________________

(۱) العثمانیہ، ص ۴۵

(۲) ابن تیمیہ علمائے اسلام سے مخالفت رکھتا تھااورایک خاص عقیدہ ، شفاعت، قبروںکی زیارت و... کے متعلق رکھتا تھااس لئے علمائے وقت نے اسے چھوڑ دیاتھا اور آخر کار شام کے زندان میں ۷۲۸ ہجری میں اس کا انتقال ہوگیا۔

۵۲

جواب

اس سے پہلے کہ اس موضوع کے متعلق بحث کریں ایک نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ جاحظ اور ابن تیمیہ اور ان دونوں کے ماننے والوں نے جوخاندان اہلبیت سے عداوت رکھنے میں مشہور ہیں، علی ـ کی اس فضیلت سے انکار کرنے کی وجہ سے غیر شعوری طور پر بڑی فضیلت کوحضرت علی ـ کے لئے ثابت کیا ہے ،کیونکہ حضرت علی پیغمبر کی طرف سے مامور تھے کہ ان کے بستر پر سوجائیں، ایمان کے اعتبار سے یہ بات دوحالتوں سے خارج نہیں ہے ،یاان کا ایمان پیغمبر کی صداقت پر ایک حد تک تھا یا وہ بغیر چون و چرا پیغمبر کی ہر بات پر ایمان رکھتے تھے. پہلی صورت میںہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت علی کو اپنی جان و سلامتی کے باقی رہنے کا قطعی طور پر علم تھا .کیونکہ جو شخص ایمان وعقیدے کے اعتبار سے ایک عام مرتبہ پرفائز ہو، ہرگز پیغمبر کی گفتار سے یقین واعتماد حاصل نہیں کرسکتا ،اور اگر ان کے بستر پر سوجائے توبہت زیادہ ہی فکر مند اور مضطرب رہے گا۔

لیکن اگر حضرت علی ـ ایمان کے اعتبار سے عالی ترین مرتبہ پر فائز تھے اور پیغمبر کی گفتگو کی سچائیان کے دل ودماغ پر سورج کی روشنی کی طرح واضح وروشن تھی توایسی صورت میںحضرت علی ـکے لئے بہت بڑی فضیلت کوثابت کیا ہے. کیونکہ جب بھی کسی شخص کا ایمان اس بلندی پر پہونچ جائے کہ جوکچھ بھی پیغمبر سے سنے اسے صحیح اور سچا مانے کہ وہ اس کے لئے روز روشن کی طرح ہو اور اگر پیغمبر اس سے کہیں کہ میرے بستر پر سوجاؤ تواسے کوئی نقصان نہ پہونچے گا تووہ بستر پر اتنے اطمینان اور آرام سے سوئے کہ اسے ایک سوئی کی نوک کے برابر بھی خطرہ محسوس نہیں ہوتو ایسی فضیلت کی کوئی بھی چیز برابری نہیں کرسکتی۔

۵۳

آئیے اب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں

ابھی تک ہماری بحث اس بات پر تھی کہ پیغمبر نے حضرت علی ـسے کہا کہ تم قتل نہ ہوگے. لیکن اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوگاکہ بات ایسی نہیں ہے جیسا کہ جاحظ اور ابن تیمیہ کے ماننے والوں نے گمان کیا ہے اور تمام مؤرخین نے اس واقعہ کواس طرح نقل نہیں کیا ہے جیساکہ ان دونوںنے لکھا ہے:

طبقات کبریٰ(۱) کے مؤلف نے واقعۂ ہجرت کو تفصیل سے ذکر کیاہے اور جاحظ کے اس جملے کو(کہ پیغمبر نے علی سے کہا کہ میرے بستر پر سوجاؤ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہونچے گا) ہرگز تحریر نہیں کیا ہے۔

نہ صرف یہ بلکہ مقریزی نویں صدی کا مشہور مؤرخ(۲) اس نے اپنی مشہور کتاب ''امتاع الاسماع'' میں بھی کاتب واقدی کی طرح اس واقعے کا تذکرہ کیا ہے اور اس بات سے انکار کیاہے کہ پیغمبر نے علی ـ سے کہا ''کہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہونچے گا''

جی ہاں. انہی افراد کے درمیان ابن ہشام نے اپنی کتاب سیرت ج۱ ص ۴۸۳ پراور طبری نے اپنی کتاب تاریخ طبری ج۲ ص۹۹ پر اس کا تذکرہ کیاہے اور اسی طرح ابن اثیر نے اپنی کتاب تاریخ کامل ج۲ ص ۳۸۲ پراس کے علاوہ اور بھی بہت سے مؤرخین نے اسے نقل کیا ہے ان تمام مؤرخین نے سیرۂ

______________________

(۱) محمد بن سعد جوکاتب واقدی کے نام سے مشہور ہے ۱۶۸ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۲۳۰ ہجرت میں دنیا سے رخصت ہوئے ان کی کتاب طبقات جامع ترین اور سب سے اہم کتاب ہے جو سیرت پیغمبر پر لکھی گئی ہے ج۱ ص ۲۲۸ پر رجوع کرسکتے ہیں

(۲) تقی الدین احمد بن علی مقریزی (وفات ۸۴۵ ہجری)

۵۴

ابن ہشام یاتاریخ طبری سے نقل کیا ہے۔

اس بنا ء پر عقل اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ پیغمبر نے یہ بات کہی ہے، اور اگر مان لیں کہ پیغمبر نے یہ بات کہی بھی ہے تو کسی بھی صورت سے یہ معلوم نہیں کہ ان دونوں باتوں کو (نقصان نہ پہونچنا اور لوگوں کی امانت واپس کرنا) اسی رات میں پہلی مرتبہ کہا ہو. اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس واقعے کوعلماء اور شیعہ مورخین اور بعض سیرت لکھنے والے اہلسنت نے دوسرے طریقے سے نقل کیاہے، جس کی ہم وضاحت کر رہے ہیں:

شیعوں کے مشہور و معروف دانشمند مرحوم شیخ طوسی اپنی کتاب ''امالی'' میںہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ،جو کہ پیغمبر کی سلامتی اور نجات پر ختم ہوتا ہے، لکھتے ہیں :

شب ہجرت گزر گئی. اور علی ـاس مقام سے آگاہ تھے جہاں پیغمبر نے پناہ لی تھی. اور پیغمبر کے سفر پرجانے کے مقدمات کو فراہم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ رات میں ان سے ملاقات کریں۔(۱)

پیغمبر نے تین رات غار ثور میں قیام کیا، ایک رات حضرت علی ـ، ہند بن ابی ہالہ غار ثور میں پیغمبر کی خدمت میں پہونچے، پیغمبر نے حضرت علی کو چند چیزوں کا حکم دیا:

۱۔ دواونٹ ہمارے اور ہمارے ہمسفر کے لئے مہیا کرو (اس وقت ابوبکر نے کہا: میں نے پہلے ہی سے دو اونٹ اس کام کے لئے مہیا کر لئے ہیں، پیغمبر(ص) نے فرمایا: میں اس وقت تمہارے ان دونوں اونٹوںکوقبول کروں گا جب تم ان دونوں کی قیمت مجھ سے لے لو، پھر علی کو حکم دیا کہ ان اونٹوں کی قیمت اداکردو''

۲۔ میں قریش کا امانتدار ہوں اورابھی لوگوں کی امانتیں میرے پاس گھر میں موجود ہیں، کل مکہ کے فلاںمقام پر کھڑے ہوکر بلندآواز سے اعلان کرو کہ جس کی امانت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس ہے وہ آئے اور اپنی امانت لے جائے۔

۳۔ امانتیں واپس کرنے کے بعد تم بھی ہجرت کے لئے تیار رہو، اور جب بھی تمہارے پاس میرا خط پہونچے تو میری بیٹی فاطمہ اور اپنی ماں فاطمہ بنت اسد اور زبیر بن عبدالمطلب کی بیٹی فاطمہ کو اپنے ہمراہ لے آؤ۔

______________________

(۱) اعیان الشیعہ ج۱ ص۲۳۷

۵۵

پھر فرمایا: اب تمہارے لئے جو بھی خطرہ یا مشکلات تھیں وہ دور ہوگئیں ہیںاور تمہیں کوئی تکلیف نہ پہونچے گی۔(۱)

یہ جملہ بھی اسی جملے کی طرح ہے جسے ابن ہشام نے سیرۂ ہشام میں اور طبری نے تاریخ طبری میں نقل کیاہے، لہٰذا اگر پیغمبر نے حضرت علی کوامان دیاہے تو وہ بعد میں آنے والی رات کے لئے تھا نہ کہ ہجرت کی رات تھی، اور اگر حضرت علی کوحکم دیا ہے کہ لوگوں کی امانتوں کوادا کردو تووہ دوسری یا تیسری رات تھی نہ لیلة المبیت تھا۔

اگرچہ اہلسنت کے بعض مؤرخین نے واقعہ کواس طرح نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے شب ہجرت ہی حضرت علی ـ کو امان دیا تھا اور اسی رات امانتوں کے ادا کرنے کا حکم دیا تھامگر یہ قول توجیہ کے لائق ہے کیونکہ انھوںنے صرف اصل واقعہ کونقل کیا ہے وقت اورجگہ اور امانتوں کے واپس کرنے کو وہ بیان نہیں کرنا مقصود نہیں تھا کہ جس کیوجہ سے دقیق طور پر ہر محل کا ذکر کرتے۔

حلبی اپنی کتاب ''سیرۂ حلبیہ'' میں لکھتا ہے:

جس وقت پیغمبر غار ثور میں قیام فرما تھے توانہی راتوں میں سے کسی ایک رات حضرت علی ـ، پیغمبر کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوئے، پیغمبر نے اس رات حضرت علی کو حکم دیا کہ لوگوں کی امانتیںواپس کردو اور پیغمبر کے قرضوں کوادا کردو۔(۲)

در المنثورمیں ہے کہ علی نے شب ہجرت کے بعد پیغمبر سے ملاقات کی تھی۔(۳)

______________________

(۱) پیغمبر کی عبارت یہ ہے:

''انہم لن یصلوا الیک من الآن بشیء تکرہہ''

(۲) سیرۂ حلبی، ج۲، ص ۳۷۔ ۳۶

(۳) سیرۂ حلبی، ج۲، ص ۳۷۔ ۳۶

۵۶

امام ـ کی فداکاری پر دو معتبر گواہ

تاریخ کی دو چیزیںاس بات پر گواہ ہیں کہ حضرت علی کا عمل، ہجرت کی شب، فداکاری کے علاوہ کچھ اور نہ تھااور حضرت علی صدق دل سے خدا کی راہ میں قتل اور شہادت کے لئے آمادہ تھے ملاحظہ کیجئے۔

۱۔ اس تاریخی واقعہ کی مناسبت سے جو امام علیہ السلام نے اشعار کہے ہیں اور سیوطی نے ان تمام اشعار کواپنی تفسیر(۱) میںنقل کیا ہے جو آپ کی جانبازی اور فداکاری پر واضح دلیل ہے۔

وقیت بنفسی خیر من وطأ الحصیٰ-----و من طاف بالبیت العتیق وبالحجر

محمد لما خاف أن یمکروا به----- فوقاه ربی ذو الجلال من المکر

و بتّ اراعیهم متی ینشروننی-----و قد وطنت نفسی علی القتل والأسر

میں نے اپنی جان کو روئے زمین کی بہترین اور سب سے نیک شخصیت جس نے خدا کے گھر اور حجر اسماعیل کا طواف کیا ہے اسی کے لئے سپر (ڈھال) قرار دیا ہے۔وہ عظیم شخص محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اور میں نے یہ کام اس وقت انجام دیا جب کفار ان کو قتل کرنے کے لئے آمادہ تھے لیکن میرے خدا نے انھیں دشمنوں کے مکر و فریب سے محفوظ رکھا۔میں ان کے بستر پر بڑے ہی آرام سے سویااور دشمن کے حملہ کا منتظر تھا اور خود کومرنے یا قید ہونے کے لئے آمادہ کر رکھاتھا۔

۲۔ شیعہ اور سنی مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ خداوند عالم نے اس رات اپنے دو بزرگ فرشتوں، جبرئیل و میکائیل کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں تم میں سے ایک کے لئے موت اور دوسرے کے لئے حیات مقرر کروں توتم میں سے کون ہے جوموت کو قبول کرے اوراپنی زندگی کودوسرے کے حوالے کردے؟ اس وقت دونوں فرشتوں میں سے کسی نے بھی موت کو قبول نہیں کیا اور نہ ایک دوسرے کے ساتھ فداکاری کرنے کا وعدہ کیا پھر خدا نے ان دونوں فرشتوں سے کہا : زمین پر جاؤ اور دیکھو کہ علی ـنے کس طرح سے موت کو اپنے لئے خریدا ہے اور خود کو پیغمبر پر فدا کردیا ہے ،جاؤ علی ـ کودشمنوں کے شر سے محفوظ رکھو۔(۲)

______________________

(۱) الدر المنثور، ج۳، ص ۱۸۰

(۲) بحار الانوار ج۱۹ ص ۳۹ ، احیاء العلوم غزالی

۵۷

اگرچہ بعض لوگوںنے طویل زمانہ گذرنے کی وجہ سے اس عظیم فضیلت پر پردہ ڈالا ہے، مگر ابتدائے اسلام میں حضرت علی کا یہ عمل دوست اور دشمن سب کی نظر میں ایک بہت بڑی اور فدا کاری شمار کی جاتی تھی ۔چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ جو عمر کے حکم سے خلیفہ معین کرنے کے لئے بنائی گئی تھی، حضرت علی ـ

نے اپنی اس عظیم فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے شرکائے شوریٰ پر اعتراض کیا اور کہا: میں تم سب کوخدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ کیا میرے علاوہ کوئی اور تھا جوغار ثور میں پیغمبر کے لئے کھانا لے گیا؟

کیا میرے علاوہ کوئی ان کے بستر پر سویا؟ اورخود کوا س بلا میں ان کی سپر قرار دیا؟ سب نے ایک آواز ہوکر کہا: خدا کی قسم تمہارے علاوہ کوئی نہ تھا۔(۱)

مرحوم سیدبن طاوؤس نے حضرت علی ـ کی اس عظیم فداکاری کے بارے میں بہترین تحلیل کرتے ہیں اورانھیں اسماعیل کی طرح فداکار اور باپ کے سامنے راضی بہ رضا رہنے سے قیاس کرتے ہوئے حضرت علی کے ایثار کو عظیم ثابت کیاہے۔(۲)

______________________

(۱) خصال صدوق ج۲ ص۱۲۳، احتجاج طبرسی ص ۷۴

(۲) رجوع کریں اقبال ص ۵۹۳، بحار الانوار ج۱۹ ص ۹۸

۵۸

تیسرا باب

بعدِہجرت اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے حضرت علی ـ کی زندگی

پہلی فصل

اس زمانے پر ایک نظر

پیغمبر اسلام کی ہجرت کے بعد حضرت علی کامکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا آپ کی زندگی کا تیسرا حصہ ہے .اور اس فصل کے تمام صفحات حضرت علی کی زندگی کے اہم ترین اورتعجب خیز حالات پر مشتمل ہیں،اور امام علیہ السلام کی زندگی کے مہم اور حساس امور زندگی کے اس دور سے وابستہ ہیں جسے ہم دو مرحلوں میں خلاصہ کر رہے ہیں:

۱۔ میدان جنگ میں آپ کی فداکاری اور جانبازی

پیغمبر اسلام نے مدینے کی اپنی پوری زندگی میں مشرکوں، یہودیوں اورفتنہ و فساد برپا کرنے والوں کے ساتھ ۲۷ غزوات میں لڑیں. مسلمانوں کی تاریخ لکھنے والوں کی نظر میں جن لوگوں نے ان غزوات کے حالات اور شجاعتوں کا تذکرہ کیاہے، کہتے ہیں کہ غزوہ یعنی وہ جنگ جس میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی لشکر کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی، اور خود سپاہیوں کے ہمراہ میدان جنگ گئے اور انہی کے ساتھ مدینہ واپس آئے. غزوات کے علاوہ ۵۵ ''سریہ'' بھی آپ کے حکم سے انجام پائیں۔(۱)

سریہ سے مراد وہ جنگ ہے جس میں اسلامی فوج کے کچھ سپاہی و جانباز دشمنوں کو شکست دینے اور ان سے لڑنے کے لئے مدینہ سے روانہ ہوئے اور لشکر کی سپہ سالاری اسلامی فوج کے اہم شخص کے ہاتھوں میںتھی، حضرت امیر علیہ السلام نے پیغمبر کے غزوات میں سے ۲۶ غزووں میں شرکت کی اور صرف ''جنگ تبوک'' میں پیغمبر اسلام کے حکم سے مدینہ میں رہے ا ور جنگ تبوک میں شریک نہ ہوئے .کیونکہ یہ خوف تھا کہ مدینے کے منافقین پیغمبر کی عدم موجودگی میں مدینہ پر حملہ کردیںاور مدینہ میں اسلامی امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیں۔جن سریوں کی باگ ڈور امام کے ہاتھوں میں تھی ان کی تعداد معین نہیں ہے مگر پھر بھی ہم ان کی تفصیلات اس حصے میں بیان کریں گے۔

______________________

(۱) واقدی نے اپنی کتاب مغازی، ج۱، ص ۲ میں پیغمبر کی سریہ کی تعدا د اس سے کم لکھی ہے۔

۵۹

۲۔ وحی (قرآن) کا لکھنا

کتابت وحی اور بہت سی تاریخی اور سیاسی سندوں کا منظم کرنااور تبلیغی اور دعوتی خطوط لکھنا حضرت علی علیہ السلام کاعظیم اور حساس ترین کارنامہ تھا۔

امیر المومنین علیہ السلام نے قرآن کی تمام آیتوں کو چاہے وہ مکہ میں نازل ہوئی ہوں یامدینے میں یا پیغمبر کی زندگی میں نازل ہوئی ہوں بہت ہی عمدہ طریقے سے انھیں لکھا، اور اسی وجہ سے کاتب وحی اور محافظ قرآن مشہور ہوئے، اسی طرح سیاسی و تاریخی اسناد کے منظم کرنے اور تبلیغی خطوط لکھنے، جو آج بھی تاریخ اور سیرت کی بہت سی کتابوں میں موجودہیں، حضرت علی سب سے پہلے کاتب مشہور ہوئے ،یہاں تک کہ حدیبیہ کا تاریخی صلح نامہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے املاء پر مولائے کائنات حضرت علی ـکے ہاتھوں سے لکھا گیا۔

امام علیہ السلام کی علمی اور قلمی خدمات صرف اسی پر منحصر نہیں تھیں بلکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آثار اور سنتوں کی بہت زیادہ حفاظت بھی کی ہے اور مختلف اوقات میں پیغمبر کی حدیثوں کو جواحکام، فرائض، آداب، سنت، حادثات و واقعات اور غیب کی خبروں پر مشتمل تھیں تحریر کیا. یہی وجہ ہے کہ امام علیہ السلام نے پیغمبر سے جو کچھ بھی سنا اسے چھ کتابوں میں لکھ کر اپنی یادگار چھوڑی. اور امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ تمام کتابیں آپ کے بیٹوں کے پاس عظیم میراث کے طورر پر پہونچیں اور امیر المومنین ـ کے بعد دوسرے رہبروں نے مناظرے وغیرہ کے وقت ان کتابوں کو بعنوان دلیل پیش کیا. زرارہ جو امام جعفر صادق ـ کے اہم ترین شاگرد تھے انھوں نے ان کتابوں میں سے چند کتابوں کو آپ کے پاس دیکھااور خصوصیتوں کو نقل کیا ہے۔(۱)

______________________

(۱) تہذیب الاحکام شیخ طوسی ج۲ ص ۲۰۹ طبع نجف ، فہرست نجاشی ص ۲۵۵، طبع ہندوستان ، مؤلف نے ان چھ کتابوں کے متعلق ''بررسی مسند احمد'' کے مقدمہ میں تفصیل سے بحث کی ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346