خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس22%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119348 / ڈاؤنلوڈ: 5160
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

جہاد اور تائید الہی

یہ ٹھیک ہے کہ نفس کے ساتھ جہاد بہت سخت اور مشکل ہے اور نفس کے ساتھ جہاد کرنا استقامت اور پائیداری اور ہوشیاری اور حفاظت کا محتاج ہے لیکن پھر بھی ایک ممکن کام ہے اور انسان کو تکامل کے لئے یہ ضروری ہے اگر انسان ارادہ کرلے اور نفس کے جہاد میں شروع ہوجائے تو خداوند عالم بھی اس کی تائید کرتا ہے_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جو شخص اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستے کی ہدایت کرتے ہیں_(۱۵۴)

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مبارک ہو اس انسان کے لئے جو اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اپنے نفس اور خواہشات نفس کے ساتھ جہاد کرے _ جو شخص خواہشات نفس کے لئے لشکر پر غلبہ حاصل کر لے تو وہ اللہ تعالی کی رضایت حاصل کر لیگا_ جو شخص اللہ تعالی کے سامنے عاجزی اور فروتنی سے پیش آئے اور اپنی عقل کو نفس کا ہمسایہ قرار دے تو وہ ایک بہت بڑی سعادت حاصل کرلیگا_

انسان اور پروردگار کے درمیان نفس امارہ اور اس کی خواہشات کے تاریک اور وحشت ناک پردے ہوا کرتے ان پردوں کے ختم کرنے کیلئے خدا کی طرف احتیاج خضوع اور خشوع بھوک اور روزہ رکھنا اور شب بیداری سے بہتر کوئی اسلحہ نہیں ہوا کرتا اس طرح کرنے والا انسان اگر مرجائے تو دنیا سے شہید ہو کر جاتا ہے اور اگر زندہ رہ جائے تو اللہ تعالی کے رضوان اکبر کو جا پہنچتا ہے خداوند عالم فرماتا ہے جو لوگ ہمارے راستے میں جہاد کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستوں کی راہنمائی کردیتے ہیں_ اور خدا نیک کام کرنے والوں کے ساتھ ہے_ اگر کسی کو تو اپنے نفس کو ملامت اور سرزنش اور اسے اپنے نفس کی حفاظت کرنے میں زیادہ شوق دلا_ اللہ تعالی کے اوامر او رنواہی کو

۸۱

اس کے لئے لگام بنا کر اسے نیکیوں کی طرف لے جا جس طرح کہ کوئی اپنے ناپختہ غلام کی تربیت کرتا ہے اور اس کے کان پکڑ کر اسے ٹھیک کرتا ہے_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنی نماز پڑھتے کہ آپ(ص) کے پائوں مبارک ورم کر جاتے تھے اور لوگوں کے اعتراض کرنے پر انہیں یوں جواب دیتے تھے کہ کیا میں شکر ادا کرنے والا بندہ نہ بنوں؟ پیغمبر اکرم عبادت کرکے اپنی امت کو درس دے رہے تھے_ اے انسان تو بھی کبھی عبادت اور اس کی برکات کے مٹھاس کو محسوس کر لیا اور اپنے نفس کو اللہ تعالی کے انوار سے نورانی کر لیا تو پھر تو ایسا ہوجائیگا کہ ایک گھڑی بھی عبادت سے نہیں رک سکے گا گرچہ تجھے تکڑے ٹکڑے ہی کیوں نہ کردیا جائے_

عبادت سے روگردانی اور اعراض کی وجہ سے انسان عبادت کے فوائد اور گناہ اور معصیت سے محفوظ رہنے اور توفیقات الہی سے محروم ہوجاتا ہے_(۱۵۵)

نفس کی ساتھ جہاد بالکل جنگ والے جہاد کی طرح ہوتا ہے جو وار دشمن پر کریگا اور جو مورچہ دشمنوں سے فتح کرے گا اسی مقدار اس کا دشمن کمزور اور ضعیف ہوتا جائیگا اور فتح کرنے والی فوج طاقت ور ہوتی جائیگی_

اور دوبارہ حملہ کرنے اور فتح حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیگی_ اللہ تعالی کا طریق کار اور سنت یوں ہی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ان تنصر و اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم_

نفس کے ساتھ جہاد کرنا بھی اسی طرح ہوتا ہے_ جتنا وار نفس آمادہ پر وارد ہوگا اور اس کی غیر شرعی خواہشات اور ھوی و ہوس کی مخالفت کی جائیگی اتنی ہی مقدار نفس کمزور ہوجائیگا اور تم قوی ہوجائو گے اور دوسری فتح حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہوجائو گے برعکس جتنی سستی کرو گے اور نفس کے مطیع اور تسلیم ہوتے جائوگے تم ضعیف ہوتے جائو گے اور نفس قوی ہوتا جاے گا اور تمہیں فتح کرنے کے لئے نفس آمادہ تر ہوتا جائیگا اگر ہم نفس کے پاک کرنے میں اقدام کریں تو خداوند عالم کی طرف سے تائید

۸۲

کئے جائیں گے اور ہر روز زیادہ اور بہتر نفس امارہ پر مسلط ہوتے جائیں گے لیکن اگر خواہشات نفس اور اس کی فوج کے لئے میدان خالی کردیں تو وہ قوی ہوتا جائیگا اور ہم پر زیادہ مسلط ہوجائیگا_

اپنا طبیب خود انسان

یہ کسی حد تک ٹھیک ہے کہ پیغمبر اور ائمہ اطہار انسانی نفوس کے طبیب اور معالج ہیں لیکن علاج کرانے اور نفس کے پاک بنانے اور اس کی اصلاح کرنے کی ذمہ دار ی خود انسان پر ہے_ پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار انسان کو علاج کرنے کا درس دیتے ہیں اور نفس کی بیماریوں اور ان کی علامتیں اور برے نتائیج اور علاج کرنے کا طریقہ اور دواء سے آگاہی پیدا کرے اور اپنے نفس کی اصلاح کی ذمہ داری سنبھال لے کیونکہ خود انسان سے کوئی بھی بیماری کی تشخیص بہتر طریقے سے نہیں کر سکتا اور اس کے علاج کرنے کے درپے نہیں ہو سکتا_ انسان نفسانی بیماریوں اور اس کے علاج کو واعظین سے سنتا یا کتابوں میں پڑھتا ہے لیکن بالاخر جو اپنی بیماری کو آخری پہچاننے والا ہوگا اور اس کا علاج کرے گا وہ خود انسان ہی ہوگا_ انسان دوسروں کی نسبت درد کا بہتر احساس کرتا ہے اور اپنی مخفی صفات سے آگاہ اور عالم ہے اگر انسان اپنے نفس کی خود حفاظت نہ کرے تو دوسروں کے وعظ اور نصیحت اس میں کس طرح اثر انداز اور مفید واقع ہو سکتے ہیں؟ اسلام کا یہ نظریہ ہے کہ اصلاح نفس انسان داخلی حالت سے شروع کرے اور اپنے نفس کو پاک کرنے اور بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے رعایت کرتے ہوئے اسے اس کے لئے آمادہ کرے اور اسلام نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کی خود حفاظت کرئے اور یہی بہت بڑا تربیتی قاعدہ اور ضابطہ ہے_ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ہر انسان اپنی نیکی اور برائی سے خود آگاہ اور عالم ہے گرچہ وہ عذر گھڑتا

۸۳

رہتا ہے_(۱۵۶)

حضرت صادق علیہ السلام نے ایک آدمی سے فرمایا کہ ''تمہیں اپنے نفس کا طبیب اور معالج قرار دیا گیا ہے تجھے درد بتلایا جا چکا ہے اور صحت و سلامتی کی علامت بھی بتلائی گئی ہے اور تجھے دواء بھی بیان کردی گئی ہے پس خوب فکر کر کہ تو اپنے نفس کا کس طرح علاج کرتا ہے_(۱۵۷)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' شخص کو وعظ کرنے والا خود اس کا اپنا نفس نہ ہو تو دوسروں کی نصیحت اور وعظ اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں دے گا_(۱۵۸)

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا '' اے آدم کے بیٹے تو ہمیشہ خوبی اور اچھائی پر ہوگا جب تک تو اپنے نفس کو اپنا واعظ اور نصیحت کرنے والا بنائے رکھے گا_(۱۵۹)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کمزور ترین وہ انسان ہے جو اپنے نفس کی اصلاح کرنے سے عاجز اور ناتواں ہو_(۱۶۰)

نیز امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان کے لئے لائق یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی سرپرستی کو اپنے ذمہ قرار دے _ ہمیشہ اپنی روح کی اور زبان کی حفاظت کرتا رہے_(۱۶۱)

۸۴

تہذیب نفس کے مراحل

حفاظت قبلی: اخلاقی اصول صحت کا لحاظ اور گناہوں اور برے اخلاق سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا نفس کو پاک کرنے کا آسان ترین اور بہترین مرحلہ ہوا کرتا ہے جب تک نفس انسان گناہ میں آلودہ نہیں ہوا اور اس کا ارتکاب نہیں کیا تب فطری نورانیت اور صفا قطب رکھتا ہے_ اچھے کاموں کے بجالانے اور اچھے اخلاق سے متصف ہونے کی زیادہ قابلیت رکھتا ہے_

ابھی تک اس کا نفس تاریک اور سیاہ نہیں ہوا اور شیطن نے وہاں راستہ نہیں پایا اور برائیوں کی عادت نہیں ڈالی اسی وجہ سے گناہ کے ترک کردینے پر زیادہ آمادگی رکھتا ہے_ جوان اور نوجوان اگر ارادہ کرلیں کہ اپنے نفس کو پاک رکھیں گے اور گناہ کے ارتکاب اور برے اخلاق سے پرہیز کریں گے تو ان کے لئے ایسا کرنا کافی حد تک آسان ہوتا ہے_ کیونکہ ان کا یہ اقدام حفظ نفس میں آتا ہے اور حفظ نفس عادت کے ترک کرنے کی نسبت بہت زیادہ آسان ہوتا ہے لہذا جوانی اور نوجوانی بلکہ بچپن کا زمانہ نفس کے پاک رکھنے کا بہترین زمانہ ہوا کرتا ہے انسان جب تک خاص گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا وہ گناہ کے ترک پر زیادہ آمادگی رکھتا ہے لہذا جوانوں نوجوانوں اور وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا انہیں ایسی حالت کی فرصت کو غنیمت شمار کرنا چاہئے اور کوشش کریں کہ بالکل گناہ کا ارتکاب نہ کریں اور اپنے نفس کو اسی پاکیزگی اور طہارت کی حالت میں محفوظ رکھیں_ حفاظت کرنا گناہ کے ترک کرنے سے

۸۵

زیادہ آسان ہوا کرتا ہے اور ضروری ہے کہ اس نقطے کی طرف متوجہہ رہیں کہ اگر گناہ کا ارتکاب کر لیا اور برے اخلاق کو اپنا لیا ور شیطن کو اپنے نفس کی طرف راستہ دے دیا تو پھر ان کے لئے گناہ کا ترک کرنا بہت مشکل ہوجائیگا_

شیطن اور نفس امارہ کی کوشش ہوگی کہ ایک دفعہ اور دو گناہ کے انجام دینے کو اس کے لئے معمولی اور بے اہمیت قرار دے تا کہ اس حیلہ سے اپنا اثر رسوخ اس میں جمالے اور نفس کو گناہ کرنے کا عادی بنا دے لہذا جو انسان اپنی سعادت ا ور خوشبختی کی فکر میں ہے اسے چاہئے کہ حتمی طور سے نفس کی خواہشات کے سامنے مقابلہ کرے اور گناہ کے بجالانے میں گرچہ ایک ہی مرتبہ کیوں نہ ہو اپنے آپ کو روکے رکھے_

امیر المومنین نے فرمایا ہے کہ '' کسی برے کام یا کلام کو اپنے نفس کو بجالانے کی اجازت نہ دو_(۱۶۲)

آپ نے فرمایا کہ '' اپنے نفس کی خواہشات پر اس سے پہلے کہ وہ طاقتور ہوجائے غلبہ حاصل کرو کیونکہ اگر وہ طاقتور ہوگیا تو پھر وہ تجھے اپنا قیدی بنالے گا اور جس طرف چاہے گا تجھے لے جائیگا اس وقت تو اس کے سامنے مقابلہ نہیں کر سکے گا_(۱۶۳)

آپ نے فرمایا کہ '' عادت چھاجانے والا دشمن ہے_(۱۶۴)

آپ نے فرمایا کہ'' عادت انسان کی ثانوی طبیعت ہوجاتی ہے_(۱۶۵)

آپ نے فرمایا کہ '' اپنی خواہشات پر اس طرح غلبہ حاصل کرو جس طرح ایک دشمن دوسرے دشمن پر غلبہ حاصل کرتا ہے اور اس کے ساتھ اس طرح جنگ کرو کہ جس طرح دشمن دشمن کے ساتھ جنگ کرتا ہے_ شاید کہ اس ذریعہ سے اپنے نفس کو رام اور مغلوب کر سکو_(۱۶۶)

آپ نے فرمایا کہ '' گناہ کا نہ کرنا توبہ کرنے سے زیادہ آسان ہے ہو سکتا ہے کہ ایک گھڑی کی شہوت رانی طولانی غم کا باعث ہوجائے_ موت انسان کے لئے دنیا کی پستی اور فضاحت کو واضح اور کشف کرنے کا سبب ہوتی ہے_ اور عقلمند انسان کے لئے

۸۶

کسی خوشی اور سرور کو نہیں چھوڑتی _(۱۶۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ '' اپنے نفس کو ان چیزوں سے جو نفس کے لئے ضرر رساں ہیں روح کے نکلنے سے پہلے روکے رکھ اور اپنے نفس کے لئے آزادی اس طرح آزادی کی کوشش کر کہ جس طرح زندگی کے اسباب کے طلب کرنے میں کوشش کرتا ہے_ تیرا نفس تیرے اعمال کے عوض گروی رکھا جا چکا ہے_(۱۶۸)

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو شخص اللہ تعالی کے مقام و مرتبت سے خوف کھائے اور اپنے نفس کو اس کی خواہشات سے روکے رکھے اس کی جگہ اور مقام بہشت میں ہے_(۱۶۹)

بہر حال حفاظت قبلی سب سے آسان راستہ ہے اور جتنا انسان اس راستے کی تلاش اور عمل کرنے میں کوشش کرے گا یہ اس کے لئے پر ارزش اور قیمتی ہوگا_ اس جوان کو مبارک ہو جو زندگی کے آغاز سے ہی اپنے نفس امارہ پر قابو پائے رکھتا ہو اور اسے گناہ کرنے کی اجازت نہ دے اور آخری عمر تک اسے پاک و پاکیزہ اور اللہ کے تقرب کے لئے سیر و سلوک میں ڈالے رکھے تا کہ قرب الہی کے مرتبے تک پہنچ جائے_

یکدم ترک کرنا

اگر قبلی حفاظت کے مرحلے سے روح نکل جائے اور گناہ سے آلودہ ہو جائے تو اس وقت روح اور نفس کے پاک کرنے کی نوبت آجائیگی_ روح کے پاک کرنے میں کئی ایک طریق استعمال کئے جا سکتے ہیں لیکن سب سے بہتریں طریقہ اندرونی انقلاب اور ایک دفعہ اور بالکل ترک کر دینا ہوا کرتا ہے_ جو انسان گناہ اور برے اخلاق میں آلودہ ہوچکا ہوا ہے اسے کیدم خدا کی طرف رجوع اور توبہ کرنی چاہئے اور اپنی روح کو گناہ کی کثافت اور آلودگی سے دھونا چاہئے اور اسے پاک و پاکیزہ کرے ایک حتمی اور یقینی ارادے سے شیطن کو روح سے دور کرے اور روح کے دروازوں کو شیطن کے

۸۷

لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردے اور دل کے گھر کو اللہ تعالی کے مقرب فرشتوں کے نازل ہونے اور انوار الہی کے مرکز قرار پانے کے لئے کھول دے اور ایک ہی حملہ میں نفس امارہ اور شیطن کو مغلوب کردے اور نفس کی لگام کو مضبوط اور ہمیشہ کے لئے اپنے ہاتھ میں لئے رکھے کتنے لوگ ہیں کہ جنہوں نے اس طریقے سے اپنے نفس پر غلبہ حاصل کیا ہے اور اپنے نفس کو یکدم اور یک دفعی طریقہ سے پاک کرنے کی توفیق حاصل کر لی ہے اور پھر آخری عمر تک اسی کے پابند رہے ہیں یہ اندرونی انقلاب کبھی واعظ او راخلاق کے پاک بنانے والے استاد کے ایک جملے یا اشارے سے پیدا ہوجاتا ہے یا ایک واقعہ غیر عادی سے کہ کسی دعا ذکر اور کی مجلس میں ایک آیت یا روایت یا چند دقیقہ فکر کرنے سے حاصل ہو جایا کرتا ہے_ کبھی ایک معمولی واقعہ مثل ایک چنگاری کے داخل ہونے سے دل کو بدل اور روشن کر دیتا ہے_ ایسے لوگ گذرے ہیں جنہیں اسی طرح سے اپنے نفس کو پاکیزہ بنانے کی توفیق حاصل ہوئی ہے اور وہ راہ خدا کے سالک قرار پائے ہیں جیسے بشر حافی کا واقعہ_ بشر حافی کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ ایک اشراف اور ثروتمند انسان کی اولاد میں سے تھا اور دن رات عیاشی اور فسق و فجور میں زندگی بسر کر رہا تھا اس کا گھر فساد رقص اور سرور عیش و نوش ارو غنا کامرکز تھا کہ غنا کی آواز اس کے گھر سے باہر بھی سنائی دیتی تھی لیکن اسی شخص نے بعد میں توبہ کر لی اور زاہد اور عابد لوگوں میں اس کا شمار ہونے لگا_ اس کے توبہ کرنے کا واقعہ یوں لکھا ہے کہ ایک دن اسی بشر کی لونڈی کوڑا کرکٹ کا ٹوکراے کر دروازے کے باہر پھینکے کے لئے آئی اسی وقت امام موسی کاظم علیہ السلام اس کے دروازے کے سامنے سے گزر رہے تھے اور گھر سے ناچنے گانے کی آواز آپ کے کان میں پڑی آپ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ '' اس گھر کا مالک آزاد ہے یا غلام؟ اس نے جواب دیا کہ آزاد اور آقا زادہ ہے _ امام نے فرمایا تم نے سچ کہا ہے کیونکہ اگر یہ بندہ اور غلام ہوتا تو اپنے مالک اور مولی سے ڈرتا اور اس طرح اللہ تعالی کی معصیت میں غرق اور گستاخ نہ ہوتا_ وہ لونڈی گھر میں لوٹ گئی_ بشر جو شراب کے دسترخوان پر بیٹھا تھا اس نے لونڈی

۸۸

سے پوچھا کہ تم نے دیر کیوں کی؟ لونڈی نے اس غیر معروف آدمی کے سوال اور جواب کو اس کے سامنے نقل کیا_ بشر نے لونڈی سے پوچھا کہ آخری بات اس آدمی نے کیا کہی؟ لونڈی نے کہا کہ اس کا آخری جملہ یہ تھا کہ تم نے سچ کہا ہے کہ اگر وہ غلام ہوتا اور اپنے کو آزاد نہ سمجھتا یعنی اپنے آپ کو خدا کا بندہ اور غلام سمجھتا تو اپنے مولی اور آقا سے خوف کھاتا اور اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے میں اتنا گستاخ اور جری نہ ہوتا_ امام علیہ السلام کا یہ مختصر جملہ تیر کے طرح بشر کے دل پر لگا اور آگ کی چنگاری کی طرح اس کے دل کو نورانی اور دگرگون کر گیا _ شراب کے دسترخوان کو دور پھینکا اور ننگے پائوں باہر دڑا اور اپنے آپ کو اس غیر معروف آدمی تک جا پہنچایا اور دوڑتے دوڑتے امام موسی کاظم علیہ السلام تک جا پہنچا اور عرض کی اے میرے مولی میں اللہ تعالی اور آپ سے معذرت کرتا ہوں_ جی ہاں میں اللہ تعالی کا بندہ اور غلام تھا اور ہوں لیکن میں نے اپنے اللہ تعالی کی غلامی اور بندگی کو فراموش کردیا اسی وجہ سے اس طرح کی گستاخیاں کرنے لگا لیکن اب میں نے اپنے آپ کو بندہ سمجھ لیا اور اپنے گذرے ہوئے کردار سے توبہ کرتا ہوں کیا میری توبہ قبول ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا ہاں_ اللہ تعالی تیری توبہ قبول کرلے گا اور تو اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کو ہمیشہ کے لئے ترک کردے_ بشر نے توبہ کی_ اور عبادت گذار اور زہاد اور اولیاء خدا میں داخل ہوگیا اور اس نعمت کے شکریہ کے طور پر اپنی ساری عمر ننگے پائوں چلتا رہا (جس کی وجہ سے اس کا نام بشر حافی یعنی ننگے پائوں والا ہوگیا_(۱۷۰)

ابو بصیر کہتے ہیں کہ ایک آدمی جو ظالم بادشاہوں کا ملازم اور مددگار تھا میری ہمسایگی میں رہتا تھا اس نے بہت کافی مال حرام طریقے سے جمع کیا ہوا تھا اور اس کا گھر فساد اور عیاشی لہو و لعب رقص اور غنا کا مرکز تھا میں اس کی ہمسایگی میں بہت ہی تکلیف اور دکھ میں تھا لیکن اس کے سوا کوئی راہ فرار بھی نہ تھی کئی دفعہ اسے نصیحت کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا لیکن ایک دن میں نے اس کے متعلق بہت زیادہ اصرار کیا_ اس نے کہا اے فلان _ میں شیطن کا قیدی اور اس کے پھندے میں آ چکار ہوں

۸۹

اور عیاشی اور شراب خوری کا عادی ہوچکا ہوں اور اسے نہیں چھوڑ سکتا_ بیمار ہوں لیکن میں اپنا علاج بھی نہیں کرتا چاہتا_ تو میرا اچھا ہمسایہ ہے لیکن میں تیرا برا ہمسایہ ہوں کیا کروں خواہشات نفس کا قیدی ہو گیا ہوں کوئی نجات کا راستہ نہیں دیکھ پاتا_ جب تو امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں جائے تو آپ کے سامنے میری حالت بیان کرنا شاید میرے لئے کوئی نجات کا راستہ نکال سکیں ابو بصیر کہتا ہے کہ میں اس کی اس گفتگو سے بہت زیادہ متاثر ہوا_ کئی دن کے بعد جب میں کوفہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت کے مقصد سے مدینہ منورہ گیا اور جب آپ کی خدمت میں مشرف ہوا تو اپنے ہمسایہ کے حالات اور اس کی گفتگو کا تذکرہ آپ کی خدمت میں بیان کیا_ آپ نے فرمایا کہ جب تو کوفہ واپس جائے وہ آدمی تیرے ملنے کے لئے آئے گا_ اس سے کہنا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جس حالت میں تو ہے یعنی گناہوں کو چھوڑ دے تو میں تیرے لئے جنت کا ضامن ہوں_

ابوبصیر کہتے ہیں کہ '' جب میں اپنے کا مدینہ میں پورے کر چکا تو کوفہ واپس لوٹ آیا_ لوگ میرے ملنے کے لئے آرہے تھے انہیں میں میرا وہ ہمسایہ بھی مجھے ملنے کے لئے آیا احوال پرسی کے بعد اس نے واپس جانا چاہا تو میں نے اسے اشارے سے کہا کہ بیٹھا رہ مجھے آپ سے کام ہے_ جب میرا گھر لوگوں کے چلے جانے سے خالی ہو گیا تو میں نے اس سے کہا_ کہ میں نے تیری حالت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان کی تھی _ آپ نے مجھے فرمایا تھا کہ جب تو کوفہ جائے تو میرا سلام اسے پہنچا دینا اور اسے کہنا کہ اس حالت یعنی گناہوں کو ترک کردے میں تیری جنت کا ضامن ہوں_ اس تھورے سے امام کے پیغام نے اس شخص پر اتنا اثر کیا کہ وہ وہیں بیٹھ کر رونے لگ گیا اور اس کے بعد مجھ سے کہا کہ اے ابو بصیر تجھے خدا کی قسم کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایسا فرمایا ہے؟ میں نے اس کے سامنے قسم اٹھائی کہ یہ پیغام بعینہ وہی ہے جو امام علیہ السلام نے دیا ہے_ وہ کہنے لگا بس یہی پیغام میرے لئے کافی ہے_ یہ کہا اور وہ میرے گھر سے باہر چلا گیا_ کافی دن تک مجھے اس کی کوئی خبر نہ ملی_ ایک دن اس نے

۹۰

میرے لئے پیغام بھیجا کہ میرے پاس آ مجھے تم سے کام ہے_ میں نے اس کی دعوت قبول کی اور اس کے گھر کے دروازے پر گیا_ دروازے کے پیچھے سے مجھے آواز دی اور کہا_ اے ابو بصیر _ جتنا مال میں نے حرام سے اکٹھا کیا ہوا تھا وہ سب کا سب میں نے لوگوں میں تقسیم کر دیا ہے_ یہاں تک کہ میں نے اپنا لباس بھی دے دیا ہے_ اب ننگا اور بے لباس دروازے کے پیچھے کھڑا ہوں_ اے ابوبصیر میں نے امام جعفر صادق کے حکم پر عمل کیا ہے اور تمام گناہوں کو چھوڑ دیا ہے یعنی توبہ کر لی ہے_ ابوبصیر کہتا ہے کہ میں اس ہمسائے کے گناہوں کے چھوڑ دینے اور توبہ کر لینے سے بہت خوشحال ہوا اور امام علیہ السلام کی کلام کے اس میں اثر کرنے سے حیرت زدہ ہوا_ گھر واپس لوٹ آیا تھورے سے کپڑے اور خوراک لی اور اس کے گھر لے گیا_ کئی دن کے بعد پھر مجھے بلایا_ میں اس کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ بیمار اور علیل ہے اور وہ کافی دن تک بیمار رہا میں اس کی برابر عیادت اور بیمار پرسی اور بیمار داری کرتا رہا_ لیکن اس کے لئے کوئی علاج فائدہ مند واقع نہ ہوا_ ایک دن اس کی حالت بہت سخت ہوگئی اور جان کنی کے عالم میں ہوگیا_ میں اس کے سرہانے بیٹھا رہا جب کہ وہ جان سپرد کرنے کی حالت میں تھا یکدفعہ ہوش میں آیا اور کہا_ اے ابوبصیر امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے یہ جملہ کہا اور اس جہان فانی سے کوچ کر گیا_ میں کئی دنوں کے بعد حج کو گیا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوا_ میرا ایک پائوں دروازے کے اندر اور ایک پائوں دروازے سے باہر تھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا_ اے ابوبصیر ہم نے تیرے ہمسائے کہ بارے میں جو وعدہ کیا تھا_ ہم نے وہ پورا کردیا ہے ہم نے جو اس کے لئے بہشت کی تھی اسے دلوادی ہے_(۱۷۱) اس طرح کے لوگ تھے اور اب بھی ہیں کہ حتمی ارادے اور شجاعانہ اقدام سے اپنے نفس امارہ کو مغلوب کر لیتے ہیں اور اس کی مہار اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں_ ایک اندرونی اور باطنی انقلاب سے نفس کو پاک کردیتے ہیں اور تمام برائیوں کو چھوڑ کر اسے صاف اور شفاف بنا دیتے ہیں_ معلوم ہوا کہ اس طرح کا راستہ اختیار کر لینا

۹۱

ہمارے لئے بھی ممکن ہے_

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ '' عادت کے ترک کرنے کے لئے اپنے نفس پر غلبہ حاصل کرو اور ہوی اور ہوس اور خواہشات کے ساتھ جہاد کرو شاید تم اپنے نفس کو اپنا قیدی بنا سکو_(۱۷۲)

نیز امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''سب سے بہتر عبادت اپنی عادات پر غلبہ حاصل کرنا ہوتا ہے_(۱۷۳)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے_ '' قیامت کے دن تمام آنکھیں سوائے تین آنکھوں کے رو رہی ہوں گی_

۱_آنکھ جو خدا کے راستے کے لئے بیدار رہی ہو_

۲_ وہ آنکھ جو خدا کے خوف سے روتی رہی ہو_

۳_ وہ آنکھ جس نے محرمات الہی سے چشم پوشی کی ہو_(۱۷۴)

جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ'' خداوند عالم نے جناب موسی علیہ السلام کو وحی کی کہ کوئی انسان میرا قرب محرمات سے پرہیز کر کے کسی اور چیز سے حاصل نہیں کر سکتا یقینا میں بہشت عدن کو اس کے لئے مباح کر دوں گا اور کسی دوسرے کو وہاں نہیں جانے دوں گا_(۱۷۵)

یہ بھی مانا جاتا ہے کہ نفس امارہ کو مطیع بنانا اور بطور کلی گناہ کا انجام نہ دینا اتنا آسان کام نہیں ہے لیکن اگر انسان ملتفت ہو اور فکر اور عاقبت اندیشی رکھتا ہو اور ارادہ اور ہمت کر لے تو پھر اتنا یہ مشکل بھی نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں اللہ تعالی کی تائید بھی اسے شامل حال ہوگی اور خدا فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ہمارے راستے کے لئے جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ہدایت کردیتے ہیں اور اللہ ہے ہی احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے_ والذین جاہلوا فینا لنہدینہم سبلنا و ان اللہ مع المحسنین_(۱۷۶)

۹۲

آہستہ آہستہ ترک کرنا

اگر ہم اتنی اپنے آپ میں طاقت اور ہمت نہیں رکھتے کہ یکدم تمام گناہوں کو ترک کر دیں تو اتنا تو مصمم ارادہ کر لیں کہ گناہوں کو آہستہ آہستہ انجام دے دیں پہلی دفعہ امتحان کے طور پر ایک گناہ یا کئی ایک گناہ کو ترک کرنا شروع کردیں اور مصمم ارادہ کرلیں_ اس کام کو دوام دیں کہ اس کے ترک پر اپنے نفس کو کامیاب قرار دے دیں اور ان گناہوں کا بالکل ختم کردیں پھر یہی کام دوسرے چند ایک گناہوں کے بارے میں انجم دینا شروع کردیں اور اس پر کامیابی حاصل کرلیں اور اسی حالت میں خوب ملتفت رہیں کہ کہیں اس ترک کئے ہوئے گناہ کو پھر سے انجام نہ دے دیں اور یہ واضح ہے کہ ہر گناہ یا چند گناہوں کے ترک کرنے پر نفس امارہ اور شیطن کمزور ہوتا جائیگا اور جتنا شیطن نفس سے باہر نکلے گا اس کی جگہ اللہ تعالی کا فرشتہ لے لے گا_ جس گناہ کا سیاہ نقطہ نفس سے دور ہوگا اتنی مقدار وہاں نورانیت اور سفیدی زیادہ ہوجائے گی_ اسی طریقے سے گناہوں کے ترک کو برابر انجام دیتے جائیں تو پھر بطور کامل نفس پاک ہوجائیگا اور نفس کو اس کے نفسانی خواہشات پر قابو پانے اور فتح حاصل کرنے کی پوری طرح کامیابی حاصل ہوجائیگی اور ممکن ہے کہ اسی دوران ایک ایسے مرتبے تک پہنچ جائیں کہ تمام گناہوں کو یکدم ترک کرنے کی طاقت اور قدرت پیدا کرلیں ایسی صورت میں ایسی قیمتی اور پر ارزش فرصت سے استفادہ کرنا چاہئے اور یکدم تمام گناہوں کو ترک کر دینا چاہئے اور شیطن اور نفس امارہ کو باہر پھینک ڈالنے پر قابو پالینا چاہئے اور نفس کے گھر کو خدا اور اس کے فرشتوں کے لئے مخصوص کر لینا چاہئے اگر اس کے لئے کوشش اور جہاد کریں تو یقینا اس پر کامیاب ہوجائیں گے_ نفس کے ساتھ جہاد بعینہ دشمن کے ساتھ جہاد کرنے جیسا ہوتا ہے _ دشمن سے جہاد کرنے والا ہر وقت دشمن پر نگاہ رکھے اپنی طاقت کو دشمن کی طاقت سے موازنہ کرے اور اپنی طاقت کو

۹۳

قوی کرنے میں لگا رہے اور فرصت ملتے ہی ممکن طریقے سے دشمن پر حملہ کردے اور اس کی فوج کو ہلاک کردے یا اپنے ملک سے باہر نکال دے_

۹۴

وہ کام جو نفس کے پاک کرنے میں مدد دیتے ہیں

۱_ فکر کرنا_

نفس کے پاک کرنیکا ایک اہم مانع غفلت ہوا کرتی ہے اگر ہم دن رات دنیا کی زندگی میں غرق رہیں اور موت کی یاد سے غافل رہیں اور ایک گھڑی بھی مرنے کے بعد کے بارے میں سوچنے پر حاضر نہ ہوں اور اگر کبھی مرنے کی فکر آئی بھی تو اسے فوراًء بھلادیں ہیں اور اگر برے اخلاف کے نتائج سے غافل ہیں اور اگر گناہوں کی اخروی سزا اور عذاب کا فکر نہیں کرتے خلاصہ خدا اور آخرت پر ایمان ہمارے دل کی گہرائیوں میں راسخ نہیں ہوا اور خدا صرف ایک ذہنی مفہوم سے آگے نہیں بڑھا تو پھر ایسی غفلت کے ہوتے ہوئے ہم کس طرح اپنے نفس کو پاک کرنے کا عزم بالجزم کرسکتے ہیں؟ کس طرح نفس کو اس کی خواہشات پر کنٹرول کرسکتے ہیں؟ کیا اس سادگی سے نفس امارہ کے ساتھ جہاد کیا جاسکتا ہے؟ غفلت خود ایک نفس کی بڑی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے اور یہ دوسری بیماریوں کے لئے جڑ واقع ہوتی ہے_ اس بیماری اور درد کا علاج صرف فکر کرنا عاقبت اندیشی اور ایمان کی قوت کو مضبوط اور قوی کرنا ہے_ انسان کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ اپنے نفس کا محافظ اور مراتب رہے_ کسی وقت بھی اسے فراموش نہ کرے اور نفسانی بیماریوں کے بدانجام اور گناہوں کی سزا اور دوزخ کی سخت

۹۵

عذاب کو سوچنا رہے_ قیامت کے حساب اور کتاب کو ہمیشہ نگاہ میں رکھے اس صورت میں نفس کو پاک کرنے کے لئے آمادہ کیا جاسکتا ہے اور حتمی فیصلہ کرسکتا ہے اور اپنے نفس کو برے اخلاق اور گناہوں سے پاک کرسکتا ہے_

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جو شخص اپنے دل کو دائمی فکر سے آباد کرے گا اس کے ظاہری اور باطنی کام اچھے ہونگے_(۱۷۷)

۲_ تادیب و مجازات_

اگر ہم نفس کے پاک کرنے پر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہم تنبیہہ اور ادب دیئےانے اور جزائے اخروی سے استفادہ کرسکتے ہیں_ ابتداء میں ہم نفس کو خطاب کرتے ہوئے تہدید اور ڈرائیں کہ میں نے حتمی ارادہ کرلیا ہے کہ گناہوں کو ترک کردوں اور اگر اے نفس تو میری اس میں مدد نہیں کرے گا اور گناہ کا ارتکاب کرے گا تو میں فلاں سزا تیرے بارے میں جاری کردونگا مثلاً اگر تو نے کسی کی غیبت کی تو میں ایک دن روزہ رکھ لوں گا یا ایک ہفتے تک صرف لازمی گفتگو کروں گا یا اتنا روپیہ صدقے کے طور پر دے دونگا یا ایک دن پانی نہیں پیونگا یا صرف ایک وقت غذا سے تجھے محروم کردونگا یا کئی گھنٹے گرمیوں میں دھوپ میں بیٹھا رہونگا تا کہ تو جہنم کی حرارت کو نہ بھلاسکے یا اس طرح اور سزائیں اپنے نفس کو سنائیں_

اس کے بعد اپنے نفس پر اچھی طرح نگاہ رکھیں کہ وہ بعد میں غیبت نہ کرنے لگے اور اگر اس سے غیبت صادر ہوجائے تو حتمی ارادے سے بغیر کسی نرمی اور سستی کے اس کے مقابلے میں اڑجائیں اور وہ سزا جاسکا نفس سے وعدہ کیا ہوا تھا اس پر جاری کردیں جب نفس امارہ کو احساس ہوجائیگا کہ ہم گناہ کے نہ کرنے پر مصر ہیں اور بغیر کسی نرمی کے اسے سزادیں گے تو پھر وہ ہماری شرعی چاہت کوماننے لگے جائے گا_

اگر کافی مدت تک بغیر چشم پوشی کے اس طریقے پر عمل کرتے رہیں تو پھر ہم شیطن کے راستے کو روک سکیں گے اور نفس امارہ پر پوری طرح سے مسلط ہوجائیں

۹۶

گے لیکن اس کی عمدہ شرط یہ ہے کہ ہم حتمی ارادہ کرلیں اور بغیر کسی معمولی نرمی کے سرکش نفس کو سزا دے دیں_ بہت تعجب کا مقام ہے کہ ہم دنیاوی امور میں معمولی غلطی کرنے والے کو سزا اور تنبیہہ کرتے ہیں لیکن اپنے نفس کے پاک کرنے میں اس روش پر عمل نہیں کرتے حالانکہ اخروی سعادت اور نجات نفس کے پاک ہونے پر موقوف ہوتی ہے_

اللہ تعالی کے بہت سے بندوں نے اپنے نفس کے پاک کرنے اور بہتر بنانے اور نفس پر قابو پانے میں اس طریقے پر عمل کرنے کی توفیق حاصل کی ہے_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نفس کو اپنا قیدی بنانے اور اس کی عادات کو ختم کرنے میں بھوک بہت ہی زیادہ مددگار ہوتی ہے_(۱۷۸)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جو شخص اپنے نفس کو ریاضت اور تکلیف میں زیادہ رکھے گا وہ اس سے فائدہ اٹھائیگا_( ۱۷۹)

ایک صحابی فرماتے ہیں کہ سخت گرمی کے زمانے میں رسول خدا (ص) ایک دن ایک درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اسی دوران ایک آدمی ایا اس نے اپنا لباس اتارا اور گرم ریت پر لیٹ گیا اور ریت پر لوٹنا پوٹنا شروع کردیا کبھی اپنی پیٹھ کو گرم ریت پر رکھ کر گرم کرتا اور کبھی اپنے پیٹ اور کبھی اپنے چہرے کو اور کہتا اے نفس امارہ اس ریت کی گرمایش کو چکھ اور جان لے کہ دوزخ کی آگ کی گرمی اس سے زیادہ اور سخت تر ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کاخوب نظارہ کر رہے تھے_ جب اس آدمی نے اپنا لباس پہنا اور چاہا کہ وہاں سے چلا جائے تو رسول خدا(ص) نے اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ دیا_ اس آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم بجا لایا اور آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ(ص) نے اس سے فرمایا کہ میں نے تجھے ایسا کام کرتے دیکھا ہے کہ اسے دوسرے لوگ نہیں کرتے تمہاری اس کام سے کیا غرض تھی؟ اس نے جواب میں عرض کی یا رسول اللہ (ص) مجھے خدا کے خوف نے اس کام کے کرنے پر آمادہ کیا ہے_ میں یہ کام انجام دیتا تھا اور اپنے نفس سے کہتا تھا کہ اس گرمی کو چکھ اور جان

۹۷

لے کہ دوزخ کی آگ کی گرمی اس سے زیادہ شدید اور دردناک ہے_ رسول خدا(ص) نے فرمایا واقعی تو خدا سے خوف زدہ ہوا ہے اور اللہ تعالی نے تیرے اس عمل سے آسمان کے فرشتوں پر فخر کیا ہے_ آنحضرت(ص) نے اس کے بعد اپنے اصحاب سے فرمایا کہ'' اس آدمی کے نزدیک جائو اور الس سے خواہش کرو کہ وہ تمہارے لئے دعا کرے اصحاب اس کے نزدیک گئے اور اس سے دعا کی خواہش کی اس آدمی نے دعا کے لئے ہاتھ ااٹعائے اور کہا الہم اجمع امرنا علی الہدی و اجعل التقوی زادنا و الجنتہ مابنا(۱۸۰)

یعنی اے اللہ ہمیں ہدایت پر جمع کردے اور تقوی کو ہمارا زاد راہ قرار دے اور جنت ہمارا ٹھکانا بنا امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنے نفس کو با ادب بنانے کے لئے کوشش کرو اور اسے سخت عادت سے روکو_(۱۸۱)

حضرت صادق علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان نفس کی خواہشات سے زیادہ تاریک اور وحشت ناک پردہ نہیں ہوا کرتا اور اسے ختم کرنے کے لئے خدا کی طرف احتیاج اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع اور دن میں بھوک اور پیاس اور رات کی بیداری سے کوئی بہتر ہتھیار نہیں ہے اگر انسان ایسی حالت میں مرجائے تو شہید دنیا سے جائے گا اور اگر زندہ رہے تو بالاخرہ اللہ تعالی کے رضوان اکبر کو حاصل کر لے گا خدا قرآن میں فرماتا ہے '' جو ہمارے راستے میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کردیتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے_(۱۸۲)

۳_ اللہ تعالی کی کرامت کی طرف توجہہ کرنا اور انسانی اقدار کو قوی بنانا

بیان ہوچکا ہے کہ انسانی روح اور نفس ایک گران بہا موتی ہے جو حیات و کمال و جمال و رحمت و احسان کے عالم سے وجود میں آیا ہے اور بطور فطرت انہیں امور سے

۹۸

سنخیت رکھتا ہے اگر یہ اپنے بلند مقام اور منزلت اور قیمتی وجود کی طرف توجہ رکھے ہوئے ہو تو گناہوں کا ارتکاب اور برے اخلاق کو اپنی شان سے پست تر شمار کرے گا اور فطرتا ان سے متنفر ہوگا جب اس نے سمجھ لیا کہ وہ انسان ہے اور انسان ذات الہی کے خاص لطف و کرم سے عالم بالا سے اس دنیا میں آیا ہے تو پھر اس کی نگاہ میں حیوانی خواہشات اور ہوی اور ہوس بے قیمت جلوہ گر ہوں گی اور اپنے وجود میں مکارم اخلاق کو زندہ رکھنے کی طرف مائل ہوگا_

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اپنے نفس کی عزت کرتا ہو اس کے لئے شہوات بہت معمولی اور بے ارزش ہوں گی_(۱۸۳)

امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ معزز اور گراں قدر انسان کون ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا '' جو دنیا کو اپنے وجود کی قیمت قرار نہ دے _(۱۸۴) لہذا روح کے انسانی شرافت اور اس کے وجود کے قیمتی ہونے اور اس کے مقام و مرتبت کے بلند و بالا کی طرف توجہہ سے نفس کو گناہوں اور برے اخلاق سے پاک کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے _ اگر ہم اپنی روح سے مخاطب ہوں اور اسے کہیں کہ اے روح تو علم و حیات کمال و جمال احسان و رحمت اور قدس کے عالم سے آئی ہے تو اللہ تعالی کا خلیفہ ہے تو ایسا انسان ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے اور اللہ تعالی کے قرب حاصل کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو حیوان سے بلند و بالا ہے_ تیرے وجود کی قیمت حیوانی خواہشات کی پیروی کرنا نہیں ہے اگر انسان اس طرح سوچے تو پھر گناہوں کے ترک کر دینے اور روح کو پاک کرنے میں بہت آسانی ہوجائیگی اسی طرح نفس کو پاک کرنے کے لئے ہر بری صفت کی ضد کو قوی کرنا چاہئے تا کہ بری صفت آہستہ آہستہ دور ہو جائے نیک صفت کو اس کی جگہ لئے چاہئے تا کہ اس کی ثانوی عادت ہو جائے مثلا اگر کسی انسان سے حسد کرتے ہیں اور اس پر نعمت او رخوشی سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور اس کی برائی اور اذیت اور توہین اور لاپروراہی کرنے اور اس کے کاموں میں روڑا اٹکانے سے ہم اپنے اندرونی بغض کو خوش کرتے ہیں تو اس صورت میں ہمیں

۹۹

اس کی تعریف اور ثنا احترام اور احسان اور خیرخواہی اور مدد کرنے میں کوشش کرنی چاہئے جب ہمارے کام حسد کے اقتضا کے خلاف ہونگے تو پھر آہستہ آہستہ یہ بری صفت زائل ہوجائیگی اور خیرخواہی کی صفت اس کی جگہ لے لے گی_ اور اگر ہم کنجوسی اور بخل کی بیماری میں مبتلا ہوئے تو پھر اپنے مال کو شرعی امور میں خرچ کردینے کو اپنے نفس پر لازم قرار دے دیں تا کہ تدریجا بخالت کی صفت زائل ہوجائے اور احسان اور خرچ کرنے کی عادت ہوجائے_ اور اگر حقوق اللہ خمس و زکوة و غیرہ کے ادا کرنے میں بخل کرتے ہیں تو پھر حتمی طور سے نفس کے مقابلے پر آجائیں اور اس کے وسوسے پر کان نہ دھریں اور مالی حقوق کو ادا کردیں اور اگر ہم اپنے مال کو اپنے اہل و عیال اور زندگی کے مصارف میں خرچ کرنے سے انکار کرتے ہیں تو پھر ان میں خرچ کرنے کے لئے اپنے نفس پر زور دیں تا کہ اس کی عادت ہوجائے اور اگر بخالت کیوجہ سے نیکی کے کاموں میں شریک نہیں ہوتے تو پھر جیسے بھی ہو ان امور میں شرکت کرتے رہیں اور کچھ اپنے مال کو اللہ تعالی کے راستے اور غریبوں کی اعانت کے لئے خرچ کرتے رہیں تا کہ آہستہ آہستہ اس کام کی عادت پڑ جائے معلوم ہے کہ یہ کام ابتداء میں بہت حد تک مشکل ہونگے لیکن اگر پائیداری اور کر گزرنا ہوجائے تو پھر یہ آسان ہوجائیں گے_

قاعدتا اپنے نفس کو پاک کرنے اور برے اخلاق سے جہاد کرنے کے لئے دو کاموں کو ہمیں انجام دینا ہوگا_

۱_ برے اخلاق اور نفس کی خواہش کا کبھی اثبات میں جواب نہ دیں یعنی جو نفس چاہتا جائے ہم اسے بجالاتے جائیں ایسا نہ کریں تا کہ اس کا بیج اور جڑ آہستہ آہستہ خشک ہو جائے_

۲_ نیک صفت جو بری صفت کی ضد ہے اسے قوی بنائیں اور نفس کو اس پر عمل کرنے کے لئے مجبور کریں تا کہ وہ آہستہ آہستہ اس کی عادت ڈال لے اور وہ اس کی عادت اور ملکہ بن جائے اور بری صفت کو بیخ سے اکھاڑ ڈالے_

۱۰۰

عزت خدا کے لیے ہے پھر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا (کہ جب تمام عزت اللہ کے لیے ہے) پھر عزت کی خاطر ادھر ادھر کیوں جاتے ہو۔ یا پھر فرمایا:انّ القَوة للّٰه جمیعًا (1) تمام قدرت خدا کے لیے ہے۔ پھر نتیجہ کے طور پر فرمایا: کہ تو پھر ہر وقت کسی اور کے پیچھے کیوں لگے رہتے ہو؟ اس آیت میں بھی یہی فرمایا: سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں پھر فرمایا: تو اب جب کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو تو پھر یہ لڑائی جھگڑا کس لیے؟ پس آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت سے رہو۔ اس لیے کہ فرد اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے پہلے فکری اور اعتقادی اصلاح ضروری ہے اُس کے بعد انسان کے کردار اور اس کی رفتار کی بات آتی ہے۔

٭ اخوت و برادری جیسے کلمات کا استعمال اسلام نے ہی کیا ہے۔ صدر اسلام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سات سو چالیس افراد کے ہمراہ ''نخلیہ'' نامی علاقے میں موجود تھے کہ جبرائیل امین ـ نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے درمیان اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کیا ہے۔ لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنی اصحاب کے درمیان اخوت کے رشتہ کو قائم کیا اور ہر ایک کو اس کے ہم فکر کا بھائی بنادیا۔ مثلاً: ابوبکر کو عمر کا، عثمان کو عبدالرحمن کا، حمزہ کو زید بن حارث کا، ابو درداء کو بلال کا، جعفرطیار کو معاذ بن جبل کا، مقداد کو عمار کا، عائشہ کو حفصہ ، ام سلمہ کو صفیہ، اور خود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا بھائی بنایا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارک بقرہ، آیت 165

(2)۔ بحارا لانوار، ج38، ص 335

۱۰۱

جنگ اُحد میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو شہداء (عبداللہ بن عمر اور عمر بن جموع) جنکے درمیان اخوت و برادری کا عقد برقرار تھا کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔(1)

٭ نسبی برادری بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی۔فَلَا أَنسَابَ بَیْنَهُمْ (2) لیکن دینی برادری قیامت کے دن بھی برقرار رہے گی۔اِخوانًا علی سُرُررٍ مُّتَقَابِلِیْنَ (3)

٭اخوت و برادری با ایمان عورتوں کے درمیان بھی قائم ہے چنانچہ ایک مقام پر عورتوں کے درمیان بھی اخوت و برادری کی تعبیر موجود ہے۔وَاِن کَانُوا اِخوَةً رِجَالاً و نِسآئً (4)

٭اخوت و برادری صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ دنیا کی خاطر اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کرے تو جو اس کی نظر میں ہے وہ اس سے محروم رہے گا۔ اس طرح کے برادر قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں گے۔(5)

الَْخِلاَّئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ ِلاَّ الْمُتَّقِینَ - (6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ شرح ابن الحدید، ج15، ص 215؛ بحار الانوار، ج20، ص 121 (2)۔ سورئہ مبارکہ مومنون، آیت 101

(3)۔ سورئہ مبارکہ حجر، آیت 57 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 176

(5)۔ بحار، ج75، ص 167 (6)۔ سورئہ مبارکہ زخرف، آیت 67

۱۰۲

٭برادری اور اخوت کی برقراری سے زیادہ اہم چیز برادر کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ روایات میں ایسے شخص کی سرزنش کی گئی ہے جو اپنے برادر دینی کا خیال نہ رکھے اور اُسے بھلا دے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ اگر تمہارے برادران دینی نے تم سے قطع تعلق کرلیا ہے تو تم ان سے تعلق برقرار رکھوصِلْ مَنْ قَطَعَک (1)

روایات میں ہے کہ جن افراد سے قدیمی اور پرانا رشتہ اخوت و برادری قائم ہو ان پر زیادہ توجہ دو اگر کوئی لغزش نظر آئے تو اُسے برداشت کرو۔ اگر تم بے عیب دوستوں (برادران) کی تلاش میں رہو گے تو دوستوں کے بغیر رہ جاؤ گے۔(2)

٭روایات میں ہے کہ جو اپنے برادر کی مشکل حل کرے گا اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ جو اپنے دینی برادر کی ایک مشکل دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ایک لاکھ حاجات پوری کرے گا۔(3)

٭حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: مومن ، مومن کا بھائی ہے ۔ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں۔کہ اگر ایک حصے میں درد ہو تو دوسرا حصہ بھی اُسے محسوس کرتا ہے۔

(4) سعدی نے اس حدیث کو شعر کی صورت میں یوں بیان کیا ہے۔

بنی آدم اعضای یکدیگرند کہ در آفرینش زیک گوھرند

چو معنوی بہ درد آورد روزگار دگر عضوھا را نماند قرار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار ، ج78، ص 71 (2)۔ میزان الحکمہ

(3)۔ میزان الحکمہ (اخوة) (5)۔ اصول کافی، ج2، ص 133

۱۰۳

تو کز محنت دیگران بی غمی نشاید کہ نامت نھند آدمی

ترجمہ: اولاد آدم ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں کیونکہ سب خاک سے پیدا ہوئے ہیں اگر کسی پر مشکل وقت آجائے تو دوسروںکو بھی بے قرار رہنا چاہیے۔

اگر تم دوسروں کی پریشانی اور محنت سے بے اعتنائی کرو تو شاید تمہیں کوئی انسان بھی نہ کہے۔

برادری کے حقوق:

٭ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کی گردن پر تیس حق ہیں اور اسے ان تمام حقوق کو ادا کرنا ہوگا۔(جن میں سے پچیس حقوق درج ذیل ہیں)

1۔ عفو و درگزر 2۔ راز داری

3۔ خطاؤں کو نظر انداز کردینا 5۔ عذر قبول کرنا

5۔ بد اندیشوں سے اس کا دفاع کرنا 5۔ خیر خواہی کرنا

7۔ وعدہ کے مطابق عمل کرنا 8۔ عیادت کرنا

9۔ تشییع جنازہ میں شرکت کرنا 10۔ دعوت اور تحفہ قبول کرنا

11۔ اسکے تحفے کی جزا دینا 12۔ اسکی عطا کردہ چیزوں پر شکریہ ادا کرنا

13۔ اسکی مدد کے لیے کوشش کرنا 15۔ اسکی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا

15۔ اسکی حاجت روائی کرنا 16۔ اسکی مشکلات کو دور کرنے کے لیے سعی کرنا

17۔ اسکی گمشدہ چیز کو تلاش کرنا 18۔ اسے چھینک آئے تو اسکے لیے طلب رحمت

۱۰۴

کرنا

19۔ اسکے سلام کا جواب دینا 20۔ اسکی بات کا احترام کرنا

21۔ اسکے لیے بہترین تحفہ کو پسند کرنا 22۔ اس کی قسم کو قبول کرنا

23۔ اسکے دوست کو دوست رکھنا اور اس سے دشمنی نہ رکھنا

25۔ مشکلات میں اُسے تنہا نہ چھوڑنا

25۔ جو اپنے لیے پسند کرے وہی اس کے لیے پسند کرے(1)

ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت(اِنّما المومنون اخوة) کی تلاوت کے بعد فرمایا مسلمانوں کا خون ایک ہے اگر عام لوگ بھی کوئی عہد و پیمان کریں تو سب کو اس کا پابند ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر ایک عام مسلمان کسی کو پناہ یا امان

دے تو دوسرے کو بھی اس کا پابند ہونا چاہیے۔ سب مشترکہ دشمن کے مقابل اکھٹے ہوجائیں۔وَهُمْ یَد علی مَن سَواهم- (2)

٭ حضرت علی ـ سے منقول ہے کہ آپ نے کمیل سے فرمایا: اے کمیل اگر تم اپنے بھائی کو دوست نہیں رکھتے تو پھر وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔(3)

انسان اپنے ایمان کامل کے ساتھ اولیاء خدا کے مدار تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

سلْمٰان مِنا اهل البیت (4) سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ جس طرح کفر کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار، ج75، ص 236 (1)۔ تفسیر قمی، ج1، ص 73

(3)۔ تحف العقول ص 171 (5)۔ بحارالانور، ج10، ص 23ا

۱۰۵

ہمراہ ہوکر اس مدار سے خارج ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرزند نوح ـکے بارے میں حضرت نوح ـ سے فرمایا:اِنّه لَیسَ مِنْ أهلَکَ- وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔(1)

بہترین بھائی:

٭روایات میں بہترین بھائی کی یہ نشانیاں بیان کی ہیں۔

1۔ تمہارا بہترین بھائی وہ ہے جو تمہارا غمخوار اور ہمدرد ہو یہاں تک کہ سختی سے تمہیں خدا کی اطاعت کی طرف دعوت دے۔ تمہاری مشکلوں کو حل کرے۔ خدا کی خاطر تیرا دوست بنا ہو۔ اسکا عمل تیرے لیے سرمشق ہو۔ اسکی گفتگو تیرے عمل میں اضافہ کا باعث ہو۔ تیری کوتاہیوں کو نظر انداز کرے۔ اور تجھے خواہشات نفس میں گرفتار ہونے سے بچائے۔ اور اگر تجھ میں کوئی

عیب دیکھے تو تجھے خبردار کرے۔ نماز کو اہمیت دے ۔ حیادار، امانت دار اور سچا ہو۔خوشحالی اور تنگ دستی میں تجھے نہ بھلائے۔(2)

صلح و آشتی قرآن کی روشنی میں:

ہم نے اس آیت میں پڑھا ہے کہ مومنین آپس میں بھائی ہیں لہٰذا اُن میں صلح و

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ ہود، آیہ 56

(2)۔ میزان الحکمہ

۱۰۶

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں اسی سلسلہ میں مختلف تعابیر آئی ہیں:

صلح ''والصُّلح خَیر'' (1) ''وأصلِحوا ذات بینکم'' (2)

2۔تالیف قلوب''فَألف بین قلوبکم'' (3)

3۔توفیق''اِن یُریدا اصلاحًا یُوَفِّق اللّٰه بینهُمٰا'' (4)

5۔ سِلم''أدخُلوا فِی السِّلم کافَّة'' (5)

مندرجہ بالا تعبیر اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام صلح و آشتی ، پیار ومحبت اور خوشگوار زندگی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

صلح آشتی کی اہمیت:

٭مسلمانوں کی درمیان الفت اور محبت کو خداوند عالم کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔''کنتم أعدا فَاَلَّفَ بین قلوبکم'' (6) یاد کرو اس وقت کوکہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر خدا نے تمہارے درمیان پیار و محبت کو قائم کردیا۔ جیسا کہ قبیلہ اوس و خزرج کے درمیان ایک سو بیس سال سے جنگ و خونریزی چل رہی تھی اسلام نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (2)۔سورئہ مبارکہ انفال، آیت 1

(3)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 35

(5)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (6)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103

۱۰۷

کے درمیان صلح کرادی۔

صلح وآشتی کرانا عزت و آبرو کی زکات اور خدا کی طرف سے رحمت اور بخش کا سبب ہے۔''ان تُصلحوا و تتّقوا فانَّ اللّٰه کان غفوراً رحیمًا'' (1) جو بھی مسلمانوں کے درمیان صلح و دوستی کا سبب بنے تو اُسے جزائے خیر ملے گی۔

''وَمَن یَشفَع شَفَاعةً حَسنةً یکن لَه نصیب منها'' (2)

٭ لوگوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے لیے اسلام کے خاص احکامات ہیں من جملہ۔

1۔جھوٹ جو گناہان کبیرہ میں سے ہے اگر صلح و آشتی کرانے کے لیے بولا جائے تو اسکا کوئی گناہ نہیں ہے۔'' لَا کِذْبَ علی المُصْلح'' (3)

2۔ سرگوشی ایک شیطانی عمل ہے جو دیکھنے والوں میں شک و شبہ پیدا کرتا ہے جسکی نہی کی گئی ہے لیکن اگر یہ سرگوشی صلح و آشتی کرانے کے لیے ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔''لَا خَیرَ فی کثیر من نجواهم اِلّا مَنْ أمَرَ بِصدقةٍ أو معروفٍ او اصلاح بین الناس'' (4)

3۔ اگرچہ قسم کو پورا کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے سلسلے میں کوئی قدم نہ اٹھائے گا تو اس قسم کو توڑا جاسکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 129 (2)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 85

(3)۔بحارا الانوار،ج69، ص 252 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 115

۱۰۸

ہے۔''وَلا تجعلو اللّٰه عرضَة لایمانکم ان --- تصلحوا بین الناس'' (1)

ہم تفاسیر کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی بیٹی اور ان کے داماد میں اختلاف ہوگیا۔ لڑکی کے والد نے یہ قسم کھائی کہ وہ ان کے معاملے میں دخالت نہ کریگا۔ یہ آیت نازل ہوئی کہ قسم کو نیکی و پرہیز گاری اور اصلاح کے ترک کا وسیلہ قرار مت دو۔

5۔ اگرچہ وصیت پر عمل کرنا واجب اور اس کا ترک کرنا حرام ہے لیکن اگر وصیت پر عمل کرنا لوگوں کے درمیان کینہ اور کدورت کی زیادتی کا سبب ہو تو اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وصیت پر عمل نہ کیا جائے تاکہ لوگوں کے درمیان پیار ومحبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم رہے۔''فَمن خَافَ مِن مُوصٍ و جُنفًا أو اِثمًا فاصلح بینهم فلا اثم علیه'' (2)

5۔ اگرچہ مسلمان کا خون محترم ہے لیکن اگر بعض افراد فتنہ، فساد کا باعث بنیں تو اسلام نے صلح و آشتی کے لیے انکے قتل کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔'' فقاتلو الّتی تبغی'' (3)

صلح و آشتی کے موانع:

قرآن و احادیث میں صلح و آشتی کے بہت سے موانع ذکر کیے گئے ہیں من جملہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 225

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 182 (3)۔سورئہ مبارکہ حجرات، آیت 9

۱۰۹

1۔ شیطان: قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔ادخلوا فی السّلم کافّة ولا تتّبعوا خطوات الشیطان'' (1) سب آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہو اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔انّما یُرید الشیطان أنْ یوقع بینکم العداوة والبغضائ'' (2) شیطان تمہارے درمیان کینہ و کدورت پیدا کرنا چاہتا ہے۔

2۔ مال کی چاہت اور بخل۔'' والصلح خیر و اُحضِرتِ الاَنفس الشُح'' (3) اور صلح و دوستی بہتر ہے اگرچہ لوگ حرص و لالچ اور بخل کرتے ہیں۔

3۔ غرور و تکبر بھی کبھی کبھی صلح و آشتی کے لیے مانع ہے۔

قرآن میں نزول رحمت کے چند عوامل:

٭ اگر قرآن مجید کے''لعلکم ترحمون'' کے جملوں پر نظر کریں تو نزول رحمت کے چند عوامل تک رسائی ممکن ہے۔

1۔ خدا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آسمانی کتب کی پیروی''واطیعو اللّٰه والرسول--- '' (4) ''وهذا کتاب --- فاتبعوه--- لعلکم ترحمون'' (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (2)۔ سورئہ مبارکہ مائدہ، آیت 91

(3)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (5)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 132

(5)۔سورئہ مبارکہ انعام، آیت 155

۱۱۰

2۔ نماز کا قائم کرنا اور زکات کا ادا کرنا۔''اقیموا الصلوٰة واتو الزکاة--- لعلکم ترحمون'' (1)

3۔ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانا۔''فاصلحوا--- لعلکم ترحمون''

5۔ استغفار اور توبہ۔''لولا تستغفرون اللّٰه لعلکم ترحمون'' (2)

5۔ غور سے قرآن کی تلاوت سننا''واذ اقرأ القرآن فاستمعوا له --- لعلکم ترحمون'' (3)

روایات میں نزول رحمت کے عوامل:

٭ معصومین کی روایات میں بھی نزول رحمت کے عوامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔ بیمار مومن کی عیادت کرنا:''مَن عَادَ مومِنًا خاض- الرَّحمة خوضًا'' (4)

جو شخص بیمار مومن کی عیادت کے لیے جائے تو وہ شخص خدا کی مکمل رحمت کے زیر سایہ ہے۔

2۔ کمزور اور ناتوان افراد کی مدد کرنا۔''اِرحموا ضُعفائکم واطلبوا الرحمة- ---،، (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نور، آیت 56 (2)۔ سورئہ مبارکہ نمل، آیت 56

(3)۔ سورئہ مبارکہ اعراف، آیت 205 (5)۔ وسائل الشیعہ، ج2، ص 515 (5)۔ مستدرک، ج9، ص 55

۱۱۱

معاشی حوالے سے کمزور افراد پر رحم کرکے خدا کی رحمت کو طلب کرو۔

3۔ روایات میں کثیر العیال افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کو کہا گیا ہے خاص طور پر جن کی بیٹیاں زیادہ ہوں۔

5۔ دعاو نماز، نرمی سے پیش آنا اور اپنے برادر دینی سے مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی نزول رحمت کے اسباب ہیں۔(1)

5۔ لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنا۔ وہ افراد جو اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے تمہارے پاس آئیں خدا کی رحمت میں انکی حاجت روائی کیے بغیر واپس نہ پلٹانا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ وسائل الشیعہ، ج7، ص 31

(2)۔کافی، ج2، ص 206

۱۱۲

آیت نمبر 11

یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ قَوْم مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یّکُوْنوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآئ مِّنْ نِسَآئٍ عَسٰی أنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزوا بِالْأَلْقٰابِط بِئسَ الاِسْمُ الفُسُوقُ بَعْدَ الاِیْمٰانِج وَمَنْ لَّم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظّٰلِمُونَ-

ترجمہ:

اے ایمان والو! خبر دار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے کہ شاید کہ وہ اس سے بہتر ہو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے کہ شاید وہی عورتیں ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دینا اور برے برے الفاظ سے بھی یاد نہ کرنا کہ ایمان کے بعد بدکاری کا نام ہی بہت برا ہے اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ یہی لوگ درحقیقت ظالمین ہیں۔

نکات:

O کلمہ''لَمْز'' یعنی لوگوںکے سامنے ان کی عیب جوئی کرنا ، کلمہ''همز'' کے معنی پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنا ہے(1) اور کلمہ''تَنَابز'' کے معنی دوسروں کو برے القاب سے پکارنا ہے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کتاب العین (2)۔ لسان العرب

۱۱۳

O گزشتہ آیت میں اخوت و بردری کے بارے میں بحث ہوئی اور اس آیت میں ان چیزوں کا ذکر ہے جو اخوت و برادری کے راستہ میں رکاوٹ ہیں اور اسی طرح ماقبل کی آیات میں لڑائی جھگڑے اور صلح و صفا کی بات تھی تو اس آیت میں بعض ایسے عوامل کا ذکر ہے جو لڑائی جھگڑے کاسبب بنتے ہیں جیسے مذاق اڑانا ، تحقیر کرنا اور برے القاب سے پکارناہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی برکات میں سے ایک معاشرہ کے ماحول کو پاک و پاکیزہ بنانا اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے نیز ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے سے روکنا ہے۔

پیغامات:

1۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بندگان خدا کا مذاق اڑائے ۔''یٰاایُّهٰا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ''

2۔ جو شخص کسی کو لوگوں کی توہین کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اس کے روکنے میں توہین آمیز پہلو نہ ہو۔''یٰا ایُّهٰا الذّین امَنُولَا یَسْخَرُ قَوْم مِنْ قَوْمٍ '' یہی نہیں فرمایا:لَا تَسْخَروا کہ جس کے معنی یہ ہیں کہ تم مذاق اڑانے والے ہو۔

3۔ مذاق اڑانا، فتنہ و فساد، کینہ پروری اور دشمنی کی کنجی ہے''لا یَسْخَر قَوْم---'' برادری اور صلح و آشتی بیان کرنے کے بعد مذاق اڑانے سے منع کیا ہے۔

5۔ تبلیغ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جہاں اہم مسئلہ بیان کرنا ہو یا مخاطبین میں ہر نوع کے افراد موجود ہوں تو وہاں مطالب کو ہر گروہ کے لیے تکرار کے ساتھ بیان کرنا

۱۱۴

چاہیے۔قومٍ من قومٍ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَآئٍ-

5۔ تربیت اور وعظ و نصیحت کے دوران لوگوں میں سے فتنہ و فساد کی جڑ کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے- (عسیٰ اَنْ یکونوا خیرا ) مذاق اڑانے کی اصل وجہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھناہے۔ قرآن مجید اس معاملے کو جڑ سے ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے فرماتا ہے: تمہیں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھنا چاہیئے شاید کہ وہ تم سے برتر ہوں۔

6۔ ہم لوگوں کے باطن سے بے خبر ہیں اس لیے ہمیں ظاہر بین، سطحی نظر اور فقط موجودہ حالات پر نگا نہیں کرنی چاہیے۔(عسیٰ أَنْ یَکُونوا خَیْرًا---)

7۔ سب لوگ ایک جوہر سے ہیں اس لیے لوگوں کی برائی کرنا دراصل اپنی برائی کرنا ہے ۔''وَلَا تَلْمِزُو أَنْفُسکُم''

8۔ دوسروں کی عیب جوئی کرکے انہیں انتقام جوئی پر ابھارنا ہے تاکہ وہ بھی تمہارے عیب بیان کریںپس دوسروں کے عیب نقل کرنا در حقیقت اپنے عیوب کا انکشاف کرنا ہے( لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُم)

9۔ مذاق اڑانا یک طرفہ نہیں ہوتا ہے ممکن ہے کہ طرف مقابل بھی دیر یا جلد آپ کا مذاق اڑانا شروع کردے۔(و لَا تَنَابَزُوا کسی کام کے دو طرفہ انجام پانے کے لیے استعمال ہوتا ہے)

10۔ اگر کسی کا مذاق اڑایا ہو یا اُسے برے نام سے پکارا ہو تو اس کے لیے توجہ کرنا ضروری ہے(من لم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ ) البتہ یہ توبہ فقط زبانی نہ ہو

۱۱۵

بلکہ کسی کو تحقیر کرنے کی توبہ یہ ہے کہ جس کی تحقیر کے ہے اس کی تکریم کرنا ہوگی کسی حق کے چھپانے کی توبہ یہ ہوگی کے اُس حق کو ظاہر کیا جائے(تابو و اصلحوا و بیّنوا) (1) فساد کرنے والے کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے امور میں اصلاح کرے(تَابُوا واصلحوا )

11۔ کسی کا مذاق اڑانا در حقیقت اس کے احترام پر تجاوز کرنا ہے اگر مذاق اڑانے والا توبہ نہ کرے تو وہ ظالم ہے(فَأُولٰئِکَ هُم الظَّالِمُونَ)

دوسروں کا مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا:

O ظاہری طور پر استہزاء ایک گناہ دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت وہ چند گناہوں کا مجموعہ ہے مثال کے طور پر مذاق اڑانے میں، تحقیر کرنا، ذلیل و خوار کرنا، کسی کے عیوب ظاہر کرنا، اختلاف ایجاد کرنا، غیبت کرنا، کینہ توزی، فتنہ و فساد پھیلانا، انتقام جوئی کی طرف مائل کرنا، اور طعنہ زنی جیسے گناہ پوشیدہ ہیں۔

مذاق اڑانے کی وجوہات:

1۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ مال و دولت ہے قرآن مجید میں ہے''ویل لِکُلِّ هُمَزَة لُّمَزَةٍ ن الَّذِیْ جَمَعَ مٰالاً وَّعَدَّده '' (2) وائے ہو اس پر جو اُس مال و دولت کی خا طر جو اس نے جمع کر رکھی ہے پیٹھ پیچھے انسان کی برائی کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 160

(2)۔ سورئہ مبارکہ ھمزہ 1۔2

۱۱۶

2۔ کبھی استہزاء اور تمسخر کی وجہ علم اور مختلف ڈگریاں ہوتی ہیں قرآن مجید نے اس گروہ کے بارے میں فرمایا:'' فَرِحُوا بِمَا عِنْدَ هُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُونَ '' (1) اپنے علم کی بناء پر ناز کرنے لگے ہیں اور جس چیز کی وجہ سے وہ مذاق اڑا رہے تھے اُسی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔

3۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جسمانی قوت و توانائی ہوتی ہے ۔ کفار کا کہنا تھا( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةَ) (2) کون ہے جو ہم سے زیادہ قوی ہے۔

5۔ کبھی دوسروں کا مذاق اڑانے کی وجہ وہ القاب اور عناوین ہوتے ہیں جنہیں معاشرہ میں اچھا نہیں سمجھتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کفار ان غریب لوگوں کو جو انبیاء کا ساتھ دیتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور کہتے تھے:''مَا نَراکَ اتَّبَعکَ اِلّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرذِلْنَا'' (3)

ہم آپ کے پیرو کاروں میں صرف پست اور ذلیل افراد ہی دیکھ رہے ہیں۔

5۔ کبھی مذاق اڑانے کی علت تفریح ہوتی ہے۔

6۔ کبھی مال و مقام کی حرص و لالچ کی وجہ سے تنقید تمسخر کی صورت اختیار کرلیتی ہے مثال کے طور پر ایک گروہ زکوٰة کی تقسیم بندی پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عیب جوئی کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ غافر 83

(2)۔ سورئہ مبارکہ فصلت 15

(3)۔ سورئہ مبارکہ ھود 27

۱۱۷

قرآن مجید میں ارشاد ہوا:''وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَلْمِزْکَ فِی الصَّدَقاتِ فَاِنْ أُعْطُوا مِنْهٰا رَضُوا وَ اِنْ لَمْ یُعْطَوْا مِنْهٰا اِذَا هُمْ یَسْخَطُونَ'' (1) اس تنقید کی وجہ طمع اور لالچ ہے کہ اگر اسی زکوٰة میں سے تم خود ان کو دیدو تو یہ تم سے راضی ہوجائیں گے لیکن اگر انہیں نہیں دو گے تو وہ آپ سے ناراض ہوکر عیب جوئی کریں گے۔

7۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جہل و نادانی ہے۔ جیسے جناب موسی ـ نے جب گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بنی اسرائیل کہنے لگے کیا تم مذاق اڑا رہے ہو؟ جناب موسی ـنے فرمایا:''أَعُوذُ بِاللّٰهِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الجٰاهِلِیْنَ'' (2) خدا کی پناہ جو میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔یعنی مذاق اڑانے کی وجہ جہالت ہوتی ہے اور میں جاہل نہیں ہوں۔

نا چاہتے ہوئے تحقیر کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے ایک صحابی سے پوچھا اپنے مال کی زکوٰة کیسے دیتے ہو؟ اس نے کہا: فقراء میرے پاس آتے ہیں اور میں انہیں دے دیتا ہوں۔

امام ـ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤتم نے انہیں ذلیل کیا ہے آئندہ ایسانہ کرنا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو بھی میرے دوست کو ذلیل کرے گا گویا وہ مجھ سے جنگ کے لیے آمادہ ہے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 58

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 67

(3)۔مستدرک الوسائل ج/9، ص 105

۱۱۸

تمسخر اور مذاق اُڑانے کے مراتب:

O جس کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ جس قدر مقدس ہوگا اس سے مذاق بھی اتنا ہی خطرناک ترہوگا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے''أ باللّٰه و آیاتِه وَ رَسُولِهِ کنتم تَسْتَهْزِؤُنَ'' (1)

کیا تم اللہ، قرآن اور رسول کا مذاق اڑا رہے ہو۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر سب مشرکین کو معاف کردیا سوائے ان لوگوں کے جن کا کام عیب جوئی اور مذاق اڑانا تھا۔

O حدیث میں ہے کہ مومن کو ذلیل کرنا خدا کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے۔(2)

مذاق اڑانے کا انجام:

O آیات و روایات کی روشنی میں بری عاقبت مذاق اڑانے والوں کا انتظار کررہی ہے من جملہ:

الف: سورئہ مطففین میں ہے کہ جو لوگ دنیا میں مومنین پر ہنستے تھے، انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے روز قیامت اہل جنت انہیں

حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان پر ہنسیں گے۔''فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 65 (2)۔ وسائل الشیعہ ج/ 12،ص270

۱۱۹

الکُفَّارِ یَضْحَکُونَ'' (1)

ب: کبھی کبھی اڑانے والوں کو اسی دنیا میں سزا مل جاتی ہے۔'' اِنْ تسخَرُوا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرو مِنکُمْ کما تَسْخَرُونَ'' (2)

ج: قیامت کا دن مذاق اڑانے والوں کے لیے حیرت کا دن ہوگا''یَا حَسْرَةً عَلٰی العِبٰادَ مَا یَا تِیْهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ اِلَّا کَانُوا بِه یَسْتَهْزَئُ ونَ'' (3)

د: حدیث میں ہے کہ مذاق اڑانے والے کی جان کنی نہایت سخت ہوگی۔''مَاتَ بِشَرّ مَیْتَه'' (4)

ھ: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: اگر کوئی شخص مومنین پر طعنہ زنی کرتا ہے یا انکی بات کو رد کرتا ہے تو گویا اس نے خدا کو رد کیا ہے۔(5)

یاد داشت:

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جہاں اور بہت سے کام انجام دیئے وہاں ایک کام یہ کیا کہ لوگوں اور علاقوں کے وہ نام تبدیل کردیئے جو برے مفاہیم رکھتے تھے(6) کیوں کہ برے نام لوگوں کی تحقیر اور تمسخر کا باعث بنتے تھے۔

Oایک روز جناب عقیل ـمعاویہ کے پاس گئے تو معاویہ نے آپ کی تحقیر کی غرض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ مطففین 35 (2)۔ سورئہ مبارکہ ہود 38

(3)۔ سورئہ مبارکہ یس 30 (5)۔ بحار الانوار ج72 ص 155

(5)۔ وسائل الشیعہ ج13، ص 270 (6)۔ اسد الغابہ ج3، ص 76، ج5 ص362

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346