خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس22%

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 346

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119374 / ڈاؤنلوڈ: 5163
سائز سائز سائز
خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

خودسازی (یعنی)تزكيه و تهذيب نفس

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ایسی محنت کریں کہ زمین خود کہے کہ مجھ کو شرعی احکام کے بیج بوتا کہ

ایمانیت کا جڑ

عبادت کا تنا

اور فرائض واجبات کے برگ وبار

اور اعمال صالحہ کادرخت تیار ہو

پھر اس میں اخلاقیات کے پھل آئیں اور ان میں

اخلاص کا رس ہو ۔

اگر کسی گھر میں معنویت اور روحانیت نہ ہو ،اسلامی تعلیمات پر عمل نہ ہو اس گھر کی حالت خراب ہوہی جاتی ہے ۔

گناہ انسان کے دل کو سیاہ کردیتاہے ،دل کو بیمار کردیتا ہے اورجب دل ہی بیمار ہوجائے تو اس پر سب سے پہلی مصیبت یہ آتی ہے کہ انسان عبادت سے لذت حاصل نہیں کرسکتا بلکہ گناہ سے لذت حاصل کرتاہے اور جو گناہ سے لذت حاصل کرتا ہے وہ جان لے کہ وہ روحانی اعتبار سے بیمار ہے ۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ :

"اگر کوئی شخص چاقو کو ہاتھ میں یا پیٹ میں کسی کی کمر میں مارے تو جو ہوتا ہے اس سے زیادہ یہ گناہ دل کے لئے خطرناک ہوتے ہیں ۔"

لہذا یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ اپنی لڑکیوں کو اسلام کے احکام وقوانین

۶۱

سے روشناس کرائیں اور واجب احکام یاد کرائیں ۔ لیکن اب جب کہ انہوں نے ا س سلسلے میں کوتاہی کی ہے اور سادہ لوح بے گناہ لڑکی کو تعلیم دئیے بغیر شادی کے بندھن میں باندھ دیا ہے تو اب یہ اہم ترین اور سنگین فریضہ شوہر پر عائد ہوتاہے کہ وہ بیوی کو دینی مسائل سے روشناس کرائے اور سلام کے واجبات وحرام چیزوں کے متعلق بتائے اور اس کی فہم اور عقل کے مطابق اس کو اسلامی اخلاق اور عقائد کی تعلیم دے ۔

شوہر محترم! اگر آپ خود اس کام کو انجام دے سکیں تو کیا کہنا ۔

اس کے علاوہ اہل علم سے مشورہ کرکے سودمند اور علمی اور اخلاقی کتب اور رسالے مہیا کرکے اس کو پڑھنے کی ترغیب دلائے اور ضرورت ہو تو ایک قابل اعتماد اور عالم دیندار استاد یا معلمہ کو اس کی تعلیم وتربیت کے لئے مقررکیجئے ۔

اب اگر آپ نے اس فریضہ کو ادا کیا تو آپ ایک دیندار ،دانا ،خوش اخلاق اور مہربان بیوی کے ہمراہ زندگی بسر کریں گے اور اخروی ثواب کے علاوہ بہترین دنیاوی زندگی بھی بسر کریں گے ۔

اور اگر آپ نے اس فریضے کی انجام دہی میں کوتاہی کی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دنیا میں ضعیف الایمان اور لاعلم بیوی کا ساتھ رہے گا جو دینی واخلاقی اصولوں سے بے بہرہ ہوگی اور قیامت میں بھی خداوند قہار اس سلسلے میں بازپرس کرے گا ۔

کیونکہ اس سے قرآن میں آپ کی یہ ذمہ داری قراردی ہے کہ :

۶۲

"اے ایمان والو ، خود اپنے آپ کو اور اپنے خاندان والوں کو اس جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھرہوں گے "۔

امام صادق(ع)فرماتے ہیں کہ :

"جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس کو سن کر ایک مسلمان رونے لگا اوربولا میں خود اپنے نفس کو آگ سے محفوظ رکھنے سے عاجز ہوں اس پر مجھے یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ اپنے گھر والوں کو بھی دوزخ کی آگ سےبچاؤں "۔

تو پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا :

" اس قدر کافی ہے کہ جن کاموں کو تم انجام دیتے ہو ان ہی کو کرنے کو ان سے کہو اور خود جن کاموں کو تمہیں ترک کرنا چاہیے ان سے انہین روکتے رہو ۔"

تعلیم وتربیت کے لئے حوصلہ اور وقت درکار ہے اگر عقل اور تدبر سے کام لے کر اس سلسلے میں جس قدر محنت کرے گا خود اس کے مفاد میں ہوگا اور اگلی زندگی اور عالم آخرت تک اس کے اثرات سے بہرہ مند ہوگا ۔

٭ جس دعا کی ابتدا ء بسم اللہ الرحمن الرحیم ہو وہ دعا کبھی نامنظور نہیں ہوتی ۔(حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

۶۳

نسخہ نمبر ۱۲

--{دیندار شوہر گھر میں فقہی قوانین نہ چلائیں کیونکہ گھر الفت ومحبت سے چلتے ہیں ، قانون سے نہیں }--

مثلا اگرآپ بیوی سے یہ کہیں کہ تم اپنے والدین یا فلاں رشتہ دار سے ملنے نہیں جاؤں گی کیونکہ میری اجازت کے بغیر گھر س ے باہر قدم نہیں نکال سکتیں ۔

یہ قانون سے بہت غلط استفادہ ہے ۔آیت اللہ حسین مظاہری، ایک مجتہد کا قول اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ

"بعض عادل شمر سے بھی بدتر ہیں ۔"

قانون سے ایسا غلط استفادہ بظاہر مذہبی مردوں اور عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔مثلا کوئی لڑکی اسکول یا کالج جاتی ہے اور ایک یا دو اصطلاحات یاد کرکے غرور کرنے لگتی ہے اپنے شوہر سے کہتی ہے میں پڑھنا چاہتی ہوں ، میں گھر کا کوئی کام نہ کروں گی کیونکہ یہ مجھ پر واجب نہیں ہے ۔ یہ قانون فقہی سے غلط اسفادہ ہے بقول ان عالم کے یہ لڑکی عادل ہے لیکن شمر سے بدتر ہے کیونکہ آج نہیں تو کال ضرور اس گھر کو برباد کرے گی ۔

۶۴

اگر چہ آپ ایک مومن ہیں لیکن سخت گیر ہیں ،امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر میں ضرورت سے زیادہ ہی سخت ہیں ۔ آپ کی یہ سخت گیری اور تیز روی ایک دن آپی پاکیزہ بیوی کو اور آپ کی نیک سیرت لڑکی کو ضدی اور خراب کردے گی ۔

نسخہ نمبر ۱۳

--{بیوی سے اچھا سلوک کرنا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا }--

اگر آپ صدر مملکت یا وزیر اعظم کے داماد بنیں اور وہ آپ سےیہ کہے کہ " دیکھو میری بیٹی س اچھا سلوک کرنا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا " تو آپ کس طرح دل وجان سے اس کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گے اور اس کی ناگوار باتوں کو بھی خندہ پیشانی س برداشت کریں گے ۔

جب صدر یا وزیر اعظم کی بات کی آپ کو اتنی ہی پرواہ ہے تو اگر اس پوری کائنات کا پروردگار آپ سے یہ کہے :

"وعاشر هنّ بالمعروف "

"(دیکھو)ان بیویوں سے اچھا سلوک کرو۔"(سورۃ نساء ۱۹)

تو اب آپ کا رد عمل بیوی سے کیا ہونا چاہئے ،افسوس صدر اور وزیر اعظم

۶۵

کی ہدایت کی تو اتنی پرواہ ہو اور کائنات کے پروردگار کی ہدایت اور حکم کو اتنی اہمیت بھی نہ ہو جتنی اس کے فاسق وفاجر بندہ کی ہو ۔ افسو س! اگر آپ پروردگار عالم کی اس ہدایت کو یاد رکھیں گے تو گھر میں کبھی جھگڑا نہ ہوگا ۔

نسخہ نمبر ۱۴

--{ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگتے رہنا چاہیئے }--

ان تمام نسخوں پر عمل کے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگتے رہنا چاہیئے ۔بعض اوقات انسان کے اپنے گناہوں کی نحوست کایہ اثر ہوتا ہے کہ بیوی یا اولاد نافرمان ہوجاتی ہے اوراسی طرح بیوی کے لئے بھی مسلسل دعائیں مانگتی رہنا چاہیئں ۔ایک مرد دانا کا کہنا ہے کہ میں اپنے گناہوں کا اثر اکثر بیوی بچوں بلکہ گھر کے پالتو جانوروں تک میں پاتا ہوں کہ ہو پہلے کی طرح میرے مطیع وفرمانبردار نہیں رہتے ۔

آخری بات :- آپ نے دیکھا کہ آپ کی بیوی ،ایک لڑکی نے صرف دو بول پڑھ کر آپ سے ایسا رشتہ قائم کیا اور اپنے والدین ان دو بولیوں کی ایسی لاج رکھی کہ ماں کو چھوڑ ا ، باپ کو چھوڑا ،بہن بھائی اور پورے خاندان کو چھوڑا اورآپ کی ہوگئی ۔جب یہ لڑکی ان دو بولیوں کا اتنا بھرم رکھتی ہے کہ سب کو چھوڑ کر ایک

۶۶

کی ہوگئی لیکن آپ سے نہ ہو سکا کہ یہ دو بول :

"لا اله الا الله محمد رسول الله علی ولی الله "

" پڑھ کر اس اللہ کے ہوجاؤ جس کے لئے یہ دو بول پڑھےتھے :۔؟؟؟

٭ علم حاصل کرو ۔ علم کاحاصل کرنا نیکی ہے ۔ مشق جاری رکھنا تسبیح ہے ۔علمی معاملات میں بحث ومباحثہ جہاد ہے ۔ جاہل آدمی کو تعلیم دینا صدقہ ہے اور علم کی وجہ سے طالب علم خدا سے نزدیکی حاصل کرلیتا ہے ۔ کیونکہ علم کے ذریعے حرام وحلال کے درمیان فرق پہچانا جاتاہے اور علم طالب علم کو جنت کے راستے پر لگادیتا ہے اور علم وحشت میں انیس ہے علم تنہائی میں دوست ہے ۔(حضرت علی علیہ السلام

۶۷

ساس ،سسر اور گھر کے دیگر افراد کے عمل کے لئے چودہ مجرب نسخے

نسخہ بمبر ۱

--{ساس سسر یا گھر میں رہنے والے اور افراد سورہ بقرہ پڑھ کر اپنے گھر والوں پر دم کریں }--

کیونکہ رسول اسلام (ص)نے فرمایا ہے :

"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد (ص) کی جان ہے ، شیطان اس گھر میں ٹھہر نہیں سکتا جس میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جائے ۔"

اس لئے کہ گھروں میں جھگڑوں سے بچنے کے لئے شیطان مردوں سے بچنے کی بہت زیادہ فکر کی جائے اور جن چیزوں سے گھروں میں شیاطین آتے ہیں ان سے بچا جائے اور جن اعمال سے شیاطین سے حفاظت ہوتی ہے ،ان اعمال کا اہتمام کیا جائے جس میں سے ایک عمل گھر میں سورہ بقرہ کا ختم ہے ۔

۶۸

نسخہ نمبر ۲

--{ساس سسر یا گھر میں کثرت سے تلاوت قرآن بمعہ ترجمہ کا اہتمام کریں }--

کیونکہ حدیث میں ہے کہ :

" جس گھر میں قران کریم کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ملائکہ اس میں حاضر ہوتے ہیں ،شیاطین نکل جاتے ہیں اور جس گھر میں تلاوت نہ ہو ، اس میں خیر وبرکت کم ہوجاتی ہے ،شیاطین اس گھر میں مسکن بنالیتے ہیں ۔فرشتے وہاں سے چلتے جاتے ہیں "

نسخہ نمبر ۳

--{ حتی الامکان بیٹے کو شادی کے بعد الگ رہنے کی ترغیب دیں }--

دینداری کا دم بھرنے والے اکثر سےایک غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ

۶۹

سب کا ایک ساتھ ،ایک ہی گھر میں رہنا بہت ضروری ہے ورنہ گھر کی برکت نکل جائے گی ۔

محترم ساس وسسر ! ایک برتن میں کھانا پکنے سے برکت ضرور آئے گی لیکن لڑائی جھگڑے ی وجہ سے گھروں میں نفرت ،حسد ،بغض ،غیبت ،لڑائی ،جھگڑے کا دروازہ کھل جاتا ہے اور وہ پورے گھر کو اللہ کی رحمت سے دور کردیتا ہے ۔ صرف ایک ایسی برکت کے لئے ہزاروں مصیبتوں اور گناہوں کا ارتکاب کیسے جائز ہوگا ؟

یعنی ایک مستحب کے لئے اتنا اہتمام کہ ہزاروں حرام اس کی وجہ سے ہوجائیں یہ کہاں کی عقلمندی ہے ؟

ایک گھر جہاں کئی شادی شدہ بھائی ایک ساتھ رہتے ہوں اور ایک ساتھ کھانا کھاتے ہوں لیکن

----- آپس میں دل گرفتہ ہوں ۔

---- روزانہ جھگڑے بڑھ رہے ہوں ۔

---- حسد اور حرص کی بیماریاں بڑھ رہی ہوں ۔

----- رات کو شوہر آئیں تو بہو ئیں ایک دوسرے کے خلاف باتین کرکے شوہروں (سگے بھائیوں )میں عداوت اور دشمنی کے بیج بورہی ہوں ۔

----- غیبت ،چغل خوری اور جھوٹ کے جراثیم پیداہو کر بڑی بڑی روحانی بیماریاں پیدا کررہے ہوں ۔

۷۰

---- بیٹے کو ماں اور بہن سے دور کیا جارہا ہو۔

---- بیوی گھر چھوڑنے یا طلاق لینے کی دھمکی دے رہی ہو ۔

----- ساس ، تعویذ ،گنڈوں کی فکر میں ہو ۔

----- سسر ہر نماز کے بعد بد دعا کررہا ہو ۔

-----لڑکے یا لڑکی کی ساس ،پورے خاندان میں سمدھی اور سمدھن کے برا ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہو ۔

----- چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑے بڑے عیب بنا کر پیش کیا جارہا ہو ۔

----- ان سب کے نتیجے میں گھر کے بعض افراد نفسیاتی ہمسپتالوں کے چکر کاٹ رہے ہوں ۔

----- اپنے بچوں کو مشترک گھر میں رہنے سے حرام سے ڈش انٹینا اور کیبل سے بچانا مشکل ہورہا ہو ۔

اور اس کے بر خلاف ایک گھر ایسا ہو جہاں شادی ک فضول اور بیہودہ رسموں سے پیسے بچا کر اور ایسی شادی کرکے جس میں ش کے تین نقطے نہ ہوں یعنی سادی ،ایسی شادی جو سادہ ہو ، اسراف اور فضول خرچیوں سے مبرا ہو اور ان حرام کاموں سے پیسے بچا کر جب تک مستقل علیحدہ مکان لینے کی گنجائش نہ ہو تو چاہے چھوٹا سا گھر یا فلیٹ بھی کیوں نہ ہو الگ رہ کر ماں ،باپ کی خدمت کرکے زیادہ سے زیادہ دعائیں لی جاتی ہوں ۔

----- نند اور بھاوج میں آپس کی محبت برقراررہے ۔

۷۱

---- دیورانی اور جیٹھانیاں ایک دوسرے کا احترام کرتی ہوں ۔

---- بچوں کی اچھی تربیت ہورہی ہو۔

----- روزانہ یا اکثر ملاقات کے لئے آپس میں آنا جانا ہو۔

----- حسب توفیق تحفہ ،تحائف دئیے جاتے ہوں ۔

---- کھانا پکا کر ساس وسسر کے لئے لایا جاتا ہو ۔

----- چھوٹے بچوں میں آپس میں محبت ہو ۔

دونوں زندگیاں آپ کے سامنے ہیں ،دونوں کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔ کون سی زندگی آپ کو پسند ہے ؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔

محترم ساس ! جو بات رب العالمین کی شریعت میں بری نہیں ، اس کو برا نہ سمجھئے ، شریعت میں جس کی اجازت ہو اس پر پابندی نہ لگائیے ۔

لیکن بد قسمتی سے اور بعض اوقات آپ کی ہٹ دھرمی سے اور ان تما م خرابیوں کے بعد لڑجھگڑ کر بیٹا اور بیٹا اور بہو کو علیحدہ ہونا ہی پڑتا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ ان تمام خرابیوں سے پہلے ہی ان کو الگ کردیں ۔

----- چاہے کتنی بھی طلاقیں ہوں ۔

----- کتنے بھی گھر اجڑیں ۔

----- کتنے نوجوانوں کی زندگیاں برباد ہوں ۔

---- کتنے بہن بھائی ،بہنوں میں اختلاف وجھگڑے ہوں ۔

کیا تب بھی آپ کا فیصلہ وہی رہے گا ؟

۷۲

اسلامی شریعت نے بھی بہو کے لئے ساس ،سسر کی خدمت کرنے کو حسن سلوک تو کہا ہے لیکن واجب قرار نہیں دیا اور دیور اور جیٹھ کی خدمت تو غیر مناسب بھی ہے اکثر بے پردگی کا اہتمام ہوتا ہے ۔ اور جب یہ سب بہو کے فرائض میں شامل ہی نہیں تو آپ زبردستی خدمت کیسے لیں گے ؟ یہی سوچ فتنے او رفساد کی بنیادیں ہے اور ظلم کی ابتدا ہے ۔

نسخہ نمبر ۴

--{ ہم مزاج بیٹے اور بہو کو ساتھ رکھیں }--

اگر آپ بھی چا ہتے ہیں کہ ایک بیٹا ہمارے ساتھ ہو اور پوتے پوتیوں سے گھر میں رونق ہو تو اس بیٹے کو ساتھ رکھیں جس سے مزاج ملتا ہو ۔اور اس بیٹے اور بہو کو دعائیں بھی دیتے رہیں جو آپ کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔

نسخہ نمبر ۵

--{ کچن تو ضرور علیحدہ ہو }--

اگر مالی حالات یا کسی اور مصلحت سے بہوؤں کو ایک ہی گھر میں رکھنا ہو

۷۳

تو کم از کم اتنا کیجئے کہ ان کے آنے جانے کا راستہ الگ ہو اور کچن تو ضرور علیحدہ ہو ، زیادہ تر آگ چولہے ہی بھڑکتی ہے ۔'

نسخہ نمبر ۶

--{ حسن اخلاق او رخوش دلی سے جتنی چاہے خدمت کروائیے }--

ساس اور سسر خصوصا ساس اگر سلیقہ مند ہو تو بہو کے ساتھ حسن اخلاق او رخوش دلی سے جتنی چاہے خدمت کرواسکتی ہیں ۔ یہ بہو کے لئے سعادت اور ساس وسسر کے اخلاق کی بلندی کی علامت ہے ۔لیکن بہو سے جبر ا خدمت لینا نہ شرعا جائز ہے اور نہ اخلاقا صحیح ہے ۔

بہو کا اکرام اور عزت کرکے دیکھئے آپ حیران ہوں گے کہ وہ آپ کی بیٹی سے بڑھ کر آپ کی خدمت گزار ہوگی ۔

٭ عالم کو عابد پر وہی فضیلت ہے جو چاند کو چودھویں شب میں تمام ستاروں پر ہے اور علماء وارث انبیاء ہوتے ہیں ۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

۷۴

نسخہ نمبر ۷

--{ بہو سے بدگمان نہ ہوں }--

اس کی غلطی دیکھ کر بھی اچھی تاویل کریں ،اپنے خیال کی پرواہ نہ کریں ۔

جب آپ ایسا کریں گے تو گویا شیطان کے منہ پر طمانچہ ماریں گے وہ خبیث خود بخود دور ہوجائے گا ۔

امام صادق (ع) نے فرمایا ہ ےکہ :

"اس ناپاک کے منہ پر طمانچہ مارو ،جب اس کو ماروگے ، اس کی باتوں پر عمل نہ کروگے تویہ خود بخود دفع ہوجائے گا ۔"

اس کے برعکس اگر اس کی باتوں کو اہمیت دیں گے اور بہو سے سوء ظن رکھیں گے تو یہ منحوس شیطان آپ کی فکر اور سوچ پر قابض ہو جائے گا لہذا س کا علاج فقط یہ قرآنی حکم ہے کہ :

"لوگوں سے متعلق بد گمانی سے پر ہیز کرو کیونکہ اکثر گمان گناہ ہوتے ہیں ۔"

اگر آپ نے ظن یا گمان بد سے کام لیا تو گویا قرآن کی مخالفت کی ہے ۔

۷۵

نسخہ نمبر ۸

--{بیٹا اور بہو کے ہر کام میں مداخلت نہ کریں }--

اگر آپ اپنی شادی شدہ اولاد کو سعادت مند دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ ان کے ہر کام میں مداخلت نہ کریں ۔

آپ کو حیوانوں سے سبق لینا چاہئیے کہ وہ اپنے بچوں کی اسوقت تک سرپرستی کرتے ہیں جب تک وہ ان کے محتاج ہوتے ہو۔جو نہی وہ ایک مستقل زندگی گزارنے کے قابل ہوتے ہیں والدین ان کو آزاد چھوڑدیتے ہیں تاکہ وہ اپنی مستقل زندگی گزارنا شروع کردیں ۔یہی بات پرندوں اور دیگر جانوروں بلکہ انسانوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم اس پر عمل نہیں کرتے ۔

جب اولاد کی شادی ہوجائے تو ان کے کاموں میں بے جا مداخلت نہ کریں ۔

٭ جان لو کہ تم علم کے ساتھ ہی خوش نصیبی حاصل کرسکتے ہو ۔(حضرت علی علیہ السلام)

۷۶

نسخہ نمبر ۹

--{ماں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ داماد اور بہو کی طرفداری کریں }--

آیت اللہ مظاہری فرماتے ہیں کہ :

"ہمیشہ صلح وصفائی آپ کا مطمع نظر رہے ۔"

بہو کے ماں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ داماد کی طرفداری کریں اور ساس وسسر کو بہو کی طرفداری کرنی چاہئیے ۔

اگر لڑکی لڑبھڑ کر ماں باپ کے گھر چلی جائے تو لڑکی کی ماں اپنی بیٹی کو لے جاکر داماد کے حوالے کردے اور اس کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ کرباتیں کرے تو داماد کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہو،راضی ہوجائے گا اور اگر ساس وسسر گھر میں بہو کے ساتھ الفت ومحبت رکھیں اور اگر جھگڑا پیدا ہو جائے تو اس کی طرفداری کریں تو بہو خواہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو خود بخود ان کے ساتھ محبت کرنےلگے گی اور جھگڑا فساد ختم ہوجائے گا ۔

امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب (ع) نے اپنی شہادت کے وقت اپنے فرزندوں کو یوں نصیحت فرمائی :

۷۷

" اے میرے فرزندوں ! میں تمہیں تاکید کرتاہوں کہ تقوی کو اپنا شعار بناؤ ،اپنے معاملات کو منظم رکھو اور اپنے درمیان ہمیشہ صلح وصفائی رکھو"۔

کیونکہ میں نے تمہارے جد پیغمبر اسلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا :-

دو افراد کے درمیان صلح کرنا خدا کے نزدیک ایک سال کی نماز اور روزوں سے افضل ہے ۔"

نسخہ نمبر ۱۰

--{ کبھی بھی بہو کی برائی بیٹے سے یا داماد کی برائی اپنی بیٹی سے نہ کریں }--

ان کی خامیوں کی تلاش میں بھی نہ رہیں ۔

بہت سے لوگ خود اپنے اندر اور دوسروں میں اچھائیاں نہیں دیکھ پاتے ان کو ہر چیز منفی صورت میں نظر آتی ہے وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اندر کیسی کیسی خوبیاں ہیں بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے میں کون کون سی برائیاں ہیں ۔

منفی پہلو کی سوچ گویا مکھی کی طرح ہے وہ باغ میں بھی جائے تو ڈھونڈ تی ہے کہ کہیں کوئی گندگی مل جائے تاکہ وہ اس پر بیٹھ سکے ۔

محترم ساس و سسر ،اپنی بہو اور داماد کے پیچھے نہ پڑیں کہ کسی نہ کسی طرح

۷۸

کوئی نقص نکال ہی لوں بلکہ آپ کو ایک بلبل کی طرح ہمیشہ پھولوں پر ہی رہنا چاہئیے ۔آپ کو پھولوں ہی کی تلاش ہونی چاہیے ۔بہو میں اچھائی اور مثبت نقاط کی تلاش کرنی چاہیئے ،آپ اس کی ساری اچھائیاں ایک بد سلوکی کی وجہ سے بھلا دیتے ہیں ۔ اور آپ کا رویہ یکدم بدل جاتا ہے ۔

افسوس! قرآن کا بھی یہی مشہورہ ہے کہ انسان وفادار نہیں ہے ۔

نسخہ نمبر ۱۱

--{معافی کواپنا شعار بنائیں }--

واقعا اگر آپ کی بہو بری بھی ہے ،اور اس نے آپ کے ساتھ کچھ زیادتی بھی کی ہے تو آپ اسے معاف کردیں ۔

کیوں ؟

اس لئے کہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ قیامت میں خدا آپ کو معاف کردے ؟

آپ نے سنا ہوگا کہ قیامت میں کچھ لوگ بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلے جائیں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس دنیا میں عفو ،درگذر اور بخشش سے کام لیتے ہیں ۔

۷۹

نسخہ نمبر ۱۲

--{ جب کوئی تم سے برائی کرے اس کے ساتھ نیکی کرو}--

آیت اللہ مظاہری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گھر میں (بمعہ ترجمہ) لکھ کر ایسی جگہ لٹکا دینی چاہئیے ،کہ گھر کے ہر فرد کی نگاہ اس پر پڑتی رہے

"ویدرون بالحسنة "(سورہ قصص)

"جب کوئی تم سے برائی کرے اس کے ساتھ نیکی کرو"

اے ساس وسسر ! اگر آپ قرآنی احکام پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ کو اس آیت پر بھی عمل کرنا ہوگا ۔یہ آیت لکھ کر ایسی جگہ لٹکا دیں کہ جسے آپ بھی دیکھیں ،بہو بھی دیکھے ،بیٹا بھی دیکھے ،گھر کے بچے بھی دیکھ لیں اور آہستہ آہستہ سب میں معاف کرنے کی طاقت پیدا ہوجائے ۔ اگر آپ اور بہو میں ہم آہنگی نہ ہو تو بھی بخشش اور حسن سلوک سے اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں ۔

٭ علم کی وجہ سے اللہ کے واحد ہونے کا اقرار کیا جاتا ہے علم کے ذریعے صلہ رحم کیا جاتا ہے ۔"

۸۰

جہاد اور تائید الہی

یہ ٹھیک ہے کہ نفس کے ساتھ جہاد بہت سخت اور مشکل ہے اور نفس کے ساتھ جہاد کرنا استقامت اور پائیداری اور ہوشیاری اور حفاظت کا محتاج ہے لیکن پھر بھی ایک ممکن کام ہے اور انسان کو تکامل کے لئے یہ ضروری ہے اگر انسان ارادہ کرلے اور نفس کے جہاد میں شروع ہوجائے تو خداوند عالم بھی اس کی تائید کرتا ہے_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جو شخص اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستے کی ہدایت کرتے ہیں_(۱۵۴)

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مبارک ہو اس انسان کے لئے جو اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اپنے نفس اور خواہشات نفس کے ساتھ جہاد کرے _ جو شخص خواہشات نفس کے لئے لشکر پر غلبہ حاصل کر لے تو وہ اللہ تعالی کی رضایت حاصل کر لیگا_ جو شخص اللہ تعالی کے سامنے عاجزی اور فروتنی سے پیش آئے اور اپنی عقل کو نفس کا ہمسایہ قرار دے تو وہ ایک بہت بڑی سعادت حاصل کرلیگا_

انسان اور پروردگار کے درمیان نفس امارہ اور اس کی خواہشات کے تاریک اور وحشت ناک پردے ہوا کرتے ان پردوں کے ختم کرنے کیلئے خدا کی طرف احتیاج خضوع اور خشوع بھوک اور روزہ رکھنا اور شب بیداری سے بہتر کوئی اسلحہ نہیں ہوا کرتا اس طرح کرنے والا انسان اگر مرجائے تو دنیا سے شہید ہو کر جاتا ہے اور اگر زندہ رہ جائے تو اللہ تعالی کے رضوان اکبر کو جا پہنچتا ہے خداوند عالم فرماتا ہے جو لوگ ہمارے راستے میں جہاد کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستوں کی راہنمائی کردیتے ہیں_ اور خدا نیک کام کرنے والوں کے ساتھ ہے_ اگر کسی کو تو اپنے نفس کو ملامت اور سرزنش اور اسے اپنے نفس کی حفاظت کرنے میں زیادہ شوق دلا_ اللہ تعالی کے اوامر او رنواہی کو

۸۱

اس کے لئے لگام بنا کر اسے نیکیوں کی طرف لے جا جس طرح کہ کوئی اپنے ناپختہ غلام کی تربیت کرتا ہے اور اس کے کان پکڑ کر اسے ٹھیک کرتا ہے_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنی نماز پڑھتے کہ آپ(ص) کے پائوں مبارک ورم کر جاتے تھے اور لوگوں کے اعتراض کرنے پر انہیں یوں جواب دیتے تھے کہ کیا میں شکر ادا کرنے والا بندہ نہ بنوں؟ پیغمبر اکرم عبادت کرکے اپنی امت کو درس دے رہے تھے_ اے انسان تو بھی کبھی عبادت اور اس کی برکات کے مٹھاس کو محسوس کر لیا اور اپنے نفس کو اللہ تعالی کے انوار سے نورانی کر لیا تو پھر تو ایسا ہوجائیگا کہ ایک گھڑی بھی عبادت سے نہیں رک سکے گا گرچہ تجھے تکڑے ٹکڑے ہی کیوں نہ کردیا جائے_

عبادت سے روگردانی اور اعراض کی وجہ سے انسان عبادت کے فوائد اور گناہ اور معصیت سے محفوظ رہنے اور توفیقات الہی سے محروم ہوجاتا ہے_(۱۵۵)

نفس کی ساتھ جہاد بالکل جنگ والے جہاد کی طرح ہوتا ہے جو وار دشمن پر کریگا اور جو مورچہ دشمنوں سے فتح کرے گا اسی مقدار اس کا دشمن کمزور اور ضعیف ہوتا جائیگا اور فتح کرنے والی فوج طاقت ور ہوتی جائیگی_

اور دوبارہ حملہ کرنے اور فتح حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیگی_ اللہ تعالی کا طریق کار اور سنت یوں ہی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ان تنصر و اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم_

نفس کے ساتھ جہاد کرنا بھی اسی طرح ہوتا ہے_ جتنا وار نفس آمادہ پر وارد ہوگا اور اس کی غیر شرعی خواہشات اور ھوی و ہوس کی مخالفت کی جائیگی اتنی ہی مقدار نفس کمزور ہوجائیگا اور تم قوی ہوجائو گے اور دوسری فتح حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہوجائو گے برعکس جتنی سستی کرو گے اور نفس کے مطیع اور تسلیم ہوتے جائوگے تم ضعیف ہوتے جائو گے اور نفس قوی ہوتا جاے گا اور تمہیں فتح کرنے کے لئے نفس آمادہ تر ہوتا جائیگا اگر ہم نفس کے پاک کرنے میں اقدام کریں تو خداوند عالم کی طرف سے تائید

۸۲

کئے جائیں گے اور ہر روز زیادہ اور بہتر نفس امارہ پر مسلط ہوتے جائیں گے لیکن اگر خواہشات نفس اور اس کی فوج کے لئے میدان خالی کردیں تو وہ قوی ہوتا جائیگا اور ہم پر زیادہ مسلط ہوجائیگا_

اپنا طبیب خود انسان

یہ کسی حد تک ٹھیک ہے کہ پیغمبر اور ائمہ اطہار انسانی نفوس کے طبیب اور معالج ہیں لیکن علاج کرانے اور نفس کے پاک بنانے اور اس کی اصلاح کرنے کی ذمہ دار ی خود انسان پر ہے_ پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار انسان کو علاج کرنے کا درس دیتے ہیں اور نفس کی بیماریوں اور ان کی علامتیں اور برے نتائیج اور علاج کرنے کا طریقہ اور دواء سے آگاہی پیدا کرے اور اپنے نفس کی اصلاح کی ذمہ داری سنبھال لے کیونکہ خود انسان سے کوئی بھی بیماری کی تشخیص بہتر طریقے سے نہیں کر سکتا اور اس کے علاج کرنے کے درپے نہیں ہو سکتا_ انسان نفسانی بیماریوں اور اس کے علاج کو واعظین سے سنتا یا کتابوں میں پڑھتا ہے لیکن بالاخر جو اپنی بیماری کو آخری پہچاننے والا ہوگا اور اس کا علاج کرے گا وہ خود انسان ہی ہوگا_ انسان دوسروں کی نسبت درد کا بہتر احساس کرتا ہے اور اپنی مخفی صفات سے آگاہ اور عالم ہے اگر انسان اپنے نفس کی خود حفاظت نہ کرے تو دوسروں کے وعظ اور نصیحت اس میں کس طرح اثر انداز اور مفید واقع ہو سکتے ہیں؟ اسلام کا یہ نظریہ ہے کہ اصلاح نفس انسان داخلی حالت سے شروع کرے اور اپنے نفس کو پاک کرنے اور بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے رعایت کرتے ہوئے اسے اس کے لئے آمادہ کرے اور اسلام نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کی خود حفاظت کرئے اور یہی بہت بڑا تربیتی قاعدہ اور ضابطہ ہے_ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ہر انسان اپنی نیکی اور برائی سے خود آگاہ اور عالم ہے گرچہ وہ عذر گھڑتا

۸۳

رہتا ہے_(۱۵۶)

حضرت صادق علیہ السلام نے ایک آدمی سے فرمایا کہ ''تمہیں اپنے نفس کا طبیب اور معالج قرار دیا گیا ہے تجھے درد بتلایا جا چکا ہے اور صحت و سلامتی کی علامت بھی بتلائی گئی ہے اور تجھے دواء بھی بیان کردی گئی ہے پس خوب فکر کر کہ تو اپنے نفس کا کس طرح علاج کرتا ہے_(۱۵۷)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' شخص کو وعظ کرنے والا خود اس کا اپنا نفس نہ ہو تو دوسروں کی نصیحت اور وعظ اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں دے گا_(۱۵۸)

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا '' اے آدم کے بیٹے تو ہمیشہ خوبی اور اچھائی پر ہوگا جب تک تو اپنے نفس کو اپنا واعظ اور نصیحت کرنے والا بنائے رکھے گا_(۱۵۹)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کمزور ترین وہ انسان ہے جو اپنے نفس کی اصلاح کرنے سے عاجز اور ناتواں ہو_(۱۶۰)

نیز امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان کے لئے لائق یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی سرپرستی کو اپنے ذمہ قرار دے _ ہمیشہ اپنی روح کی اور زبان کی حفاظت کرتا رہے_(۱۶۱)

۸۴

تہذیب نفس کے مراحل

حفاظت قبلی: اخلاقی اصول صحت کا لحاظ اور گناہوں اور برے اخلاق سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا نفس کو پاک کرنے کا آسان ترین اور بہترین مرحلہ ہوا کرتا ہے جب تک نفس انسان گناہ میں آلودہ نہیں ہوا اور اس کا ارتکاب نہیں کیا تب فطری نورانیت اور صفا قطب رکھتا ہے_ اچھے کاموں کے بجالانے اور اچھے اخلاق سے متصف ہونے کی زیادہ قابلیت رکھتا ہے_

ابھی تک اس کا نفس تاریک اور سیاہ نہیں ہوا اور شیطن نے وہاں راستہ نہیں پایا اور برائیوں کی عادت نہیں ڈالی اسی وجہ سے گناہ کے ترک کردینے پر زیادہ آمادگی رکھتا ہے_ جوان اور نوجوان اگر ارادہ کرلیں کہ اپنے نفس کو پاک رکھیں گے اور گناہ کے ارتکاب اور برے اخلاق سے پرہیز کریں گے تو ان کے لئے ایسا کرنا کافی حد تک آسان ہوتا ہے_ کیونکہ ان کا یہ اقدام حفظ نفس میں آتا ہے اور حفظ نفس عادت کے ترک کرنے کی نسبت بہت زیادہ آسان ہوتا ہے لہذا جوانی اور نوجوانی بلکہ بچپن کا زمانہ نفس کے پاک رکھنے کا بہترین زمانہ ہوا کرتا ہے انسان جب تک خاص گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا وہ گناہ کے ترک پر زیادہ آمادگی رکھتا ہے لہذا جوانوں نوجوانوں اور وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا انہیں ایسی حالت کی فرصت کو غنیمت شمار کرنا چاہئے اور کوشش کریں کہ بالکل گناہ کا ارتکاب نہ کریں اور اپنے نفس کو اسی پاکیزگی اور طہارت کی حالت میں محفوظ رکھیں_ حفاظت کرنا گناہ کے ترک کرنے سے

۸۵

زیادہ آسان ہوا کرتا ہے اور ضروری ہے کہ اس نقطے کی طرف متوجہہ رہیں کہ اگر گناہ کا ارتکاب کر لیا اور برے اخلاق کو اپنا لیا ور شیطن کو اپنے نفس کی طرف راستہ دے دیا تو پھر ان کے لئے گناہ کا ترک کرنا بہت مشکل ہوجائیگا_

شیطن اور نفس امارہ کی کوشش ہوگی کہ ایک دفعہ اور دو گناہ کے انجام دینے کو اس کے لئے معمولی اور بے اہمیت قرار دے تا کہ اس حیلہ سے اپنا اثر رسوخ اس میں جمالے اور نفس کو گناہ کرنے کا عادی بنا دے لہذا جو انسان اپنی سعادت ا ور خوشبختی کی فکر میں ہے اسے چاہئے کہ حتمی طور سے نفس کی خواہشات کے سامنے مقابلہ کرے اور گناہ کے بجالانے میں گرچہ ایک ہی مرتبہ کیوں نہ ہو اپنے آپ کو روکے رکھے_

امیر المومنین نے فرمایا ہے کہ '' کسی برے کام یا کلام کو اپنے نفس کو بجالانے کی اجازت نہ دو_(۱۶۲)

آپ نے فرمایا کہ '' اپنے نفس کی خواہشات پر اس سے پہلے کہ وہ طاقتور ہوجائے غلبہ حاصل کرو کیونکہ اگر وہ طاقتور ہوگیا تو پھر وہ تجھے اپنا قیدی بنالے گا اور جس طرف چاہے گا تجھے لے جائیگا اس وقت تو اس کے سامنے مقابلہ نہیں کر سکے گا_(۱۶۳)

آپ نے فرمایا کہ '' عادت چھاجانے والا دشمن ہے_(۱۶۴)

آپ نے فرمایا کہ'' عادت انسان کی ثانوی طبیعت ہوجاتی ہے_(۱۶۵)

آپ نے فرمایا کہ '' اپنی خواہشات پر اس طرح غلبہ حاصل کرو جس طرح ایک دشمن دوسرے دشمن پر غلبہ حاصل کرتا ہے اور اس کے ساتھ اس طرح جنگ کرو کہ جس طرح دشمن دشمن کے ساتھ جنگ کرتا ہے_ شاید کہ اس ذریعہ سے اپنے نفس کو رام اور مغلوب کر سکو_(۱۶۶)

آپ نے فرمایا کہ '' گناہ کا نہ کرنا توبہ کرنے سے زیادہ آسان ہے ہو سکتا ہے کہ ایک گھڑی کی شہوت رانی طولانی غم کا باعث ہوجائے_ موت انسان کے لئے دنیا کی پستی اور فضاحت کو واضح اور کشف کرنے کا سبب ہوتی ہے_ اور عقلمند انسان کے لئے

۸۶

کسی خوشی اور سرور کو نہیں چھوڑتی _(۱۶۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ '' اپنے نفس کو ان چیزوں سے جو نفس کے لئے ضرر رساں ہیں روح کے نکلنے سے پہلے روکے رکھ اور اپنے نفس کے لئے آزادی اس طرح آزادی کی کوشش کر کہ جس طرح زندگی کے اسباب کے طلب کرنے میں کوشش کرتا ہے_ تیرا نفس تیرے اعمال کے عوض گروی رکھا جا چکا ہے_(۱۶۸)

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو شخص اللہ تعالی کے مقام و مرتبت سے خوف کھائے اور اپنے نفس کو اس کی خواہشات سے روکے رکھے اس کی جگہ اور مقام بہشت میں ہے_(۱۶۹)

بہر حال حفاظت قبلی سب سے آسان راستہ ہے اور جتنا انسان اس راستے کی تلاش اور عمل کرنے میں کوشش کرے گا یہ اس کے لئے پر ارزش اور قیمتی ہوگا_ اس جوان کو مبارک ہو جو زندگی کے آغاز سے ہی اپنے نفس امارہ پر قابو پائے رکھتا ہو اور اسے گناہ کرنے کی اجازت نہ دے اور آخری عمر تک اسے پاک و پاکیزہ اور اللہ کے تقرب کے لئے سیر و سلوک میں ڈالے رکھے تا کہ قرب الہی کے مرتبے تک پہنچ جائے_

یکدم ترک کرنا

اگر قبلی حفاظت کے مرحلے سے روح نکل جائے اور گناہ سے آلودہ ہو جائے تو اس وقت روح اور نفس کے پاک کرنے کی نوبت آجائیگی_ روح کے پاک کرنے میں کئی ایک طریق استعمال کئے جا سکتے ہیں لیکن سب سے بہتریں طریقہ اندرونی انقلاب اور ایک دفعہ اور بالکل ترک کر دینا ہوا کرتا ہے_ جو انسان گناہ اور برے اخلاق میں آلودہ ہوچکا ہوا ہے اسے کیدم خدا کی طرف رجوع اور توبہ کرنی چاہئے اور اپنی روح کو گناہ کی کثافت اور آلودگی سے دھونا چاہئے اور اسے پاک و پاکیزہ کرے ایک حتمی اور یقینی ارادے سے شیطن کو روح سے دور کرے اور روح کے دروازوں کو شیطن کے

۸۷

لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردے اور دل کے گھر کو اللہ تعالی کے مقرب فرشتوں کے نازل ہونے اور انوار الہی کے مرکز قرار پانے کے لئے کھول دے اور ایک ہی حملہ میں نفس امارہ اور شیطن کو مغلوب کردے اور نفس کی لگام کو مضبوط اور ہمیشہ کے لئے اپنے ہاتھ میں لئے رکھے کتنے لوگ ہیں کہ جنہوں نے اس طریقے سے اپنے نفس پر غلبہ حاصل کیا ہے اور اپنے نفس کو یکدم اور یک دفعی طریقہ سے پاک کرنے کی توفیق حاصل کر لی ہے اور پھر آخری عمر تک اسی کے پابند رہے ہیں یہ اندرونی انقلاب کبھی واعظ او راخلاق کے پاک بنانے والے استاد کے ایک جملے یا اشارے سے پیدا ہوجاتا ہے یا ایک واقعہ غیر عادی سے کہ کسی دعا ذکر اور کی مجلس میں ایک آیت یا روایت یا چند دقیقہ فکر کرنے سے حاصل ہو جایا کرتا ہے_ کبھی ایک معمولی واقعہ مثل ایک چنگاری کے داخل ہونے سے دل کو بدل اور روشن کر دیتا ہے_ ایسے لوگ گذرے ہیں جنہیں اسی طرح سے اپنے نفس کو پاکیزہ بنانے کی توفیق حاصل ہوئی ہے اور وہ راہ خدا کے سالک قرار پائے ہیں جیسے بشر حافی کا واقعہ_ بشر حافی کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ ایک اشراف اور ثروتمند انسان کی اولاد میں سے تھا اور دن رات عیاشی اور فسق و فجور میں زندگی بسر کر رہا تھا اس کا گھر فساد رقص اور سرور عیش و نوش ارو غنا کامرکز تھا کہ غنا کی آواز اس کے گھر سے باہر بھی سنائی دیتی تھی لیکن اسی شخص نے بعد میں توبہ کر لی اور زاہد اور عابد لوگوں میں اس کا شمار ہونے لگا_ اس کے توبہ کرنے کا واقعہ یوں لکھا ہے کہ ایک دن اسی بشر کی لونڈی کوڑا کرکٹ کا ٹوکراے کر دروازے کے باہر پھینکے کے لئے آئی اسی وقت امام موسی کاظم علیہ السلام اس کے دروازے کے سامنے سے گزر رہے تھے اور گھر سے ناچنے گانے کی آواز آپ کے کان میں پڑی آپ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ '' اس گھر کا مالک آزاد ہے یا غلام؟ اس نے جواب دیا کہ آزاد اور آقا زادہ ہے _ امام نے فرمایا تم نے سچ کہا ہے کیونکہ اگر یہ بندہ اور غلام ہوتا تو اپنے مالک اور مولی سے ڈرتا اور اس طرح اللہ تعالی کی معصیت میں غرق اور گستاخ نہ ہوتا_ وہ لونڈی گھر میں لوٹ گئی_ بشر جو شراب کے دسترخوان پر بیٹھا تھا اس نے لونڈی

۸۸

سے پوچھا کہ تم نے دیر کیوں کی؟ لونڈی نے اس غیر معروف آدمی کے سوال اور جواب کو اس کے سامنے نقل کیا_ بشر نے لونڈی سے پوچھا کہ آخری بات اس آدمی نے کیا کہی؟ لونڈی نے کہا کہ اس کا آخری جملہ یہ تھا کہ تم نے سچ کہا ہے کہ اگر وہ غلام ہوتا اور اپنے کو آزاد نہ سمجھتا یعنی اپنے آپ کو خدا کا بندہ اور غلام سمجھتا تو اپنے مولی اور آقا سے خوف کھاتا اور اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے میں اتنا گستاخ اور جری نہ ہوتا_ امام علیہ السلام کا یہ مختصر جملہ تیر کے طرح بشر کے دل پر لگا اور آگ کی چنگاری کی طرح اس کے دل کو نورانی اور دگرگون کر گیا _ شراب کے دسترخوان کو دور پھینکا اور ننگے پائوں باہر دڑا اور اپنے آپ کو اس غیر معروف آدمی تک جا پہنچایا اور دوڑتے دوڑتے امام موسی کاظم علیہ السلام تک جا پہنچا اور عرض کی اے میرے مولی میں اللہ تعالی اور آپ سے معذرت کرتا ہوں_ جی ہاں میں اللہ تعالی کا بندہ اور غلام تھا اور ہوں لیکن میں نے اپنے اللہ تعالی کی غلامی اور بندگی کو فراموش کردیا اسی وجہ سے اس طرح کی گستاخیاں کرنے لگا لیکن اب میں نے اپنے آپ کو بندہ سمجھ لیا اور اپنے گذرے ہوئے کردار سے توبہ کرتا ہوں کیا میری توبہ قبول ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا ہاں_ اللہ تعالی تیری توبہ قبول کرلے گا اور تو اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کو ہمیشہ کے لئے ترک کردے_ بشر نے توبہ کی_ اور عبادت گذار اور زہاد اور اولیاء خدا میں داخل ہوگیا اور اس نعمت کے شکریہ کے طور پر اپنی ساری عمر ننگے پائوں چلتا رہا (جس کی وجہ سے اس کا نام بشر حافی یعنی ننگے پائوں والا ہوگیا_(۱۷۰)

ابو بصیر کہتے ہیں کہ ایک آدمی جو ظالم بادشاہوں کا ملازم اور مددگار تھا میری ہمسایگی میں رہتا تھا اس نے بہت کافی مال حرام طریقے سے جمع کیا ہوا تھا اور اس کا گھر فساد اور عیاشی لہو و لعب رقص اور غنا کا مرکز تھا میں اس کی ہمسایگی میں بہت ہی تکلیف اور دکھ میں تھا لیکن اس کے سوا کوئی راہ فرار بھی نہ تھی کئی دفعہ اسے نصیحت کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا لیکن ایک دن میں نے اس کے متعلق بہت زیادہ اصرار کیا_ اس نے کہا اے فلان _ میں شیطن کا قیدی اور اس کے پھندے میں آ چکار ہوں

۸۹

اور عیاشی اور شراب خوری کا عادی ہوچکا ہوں اور اسے نہیں چھوڑ سکتا_ بیمار ہوں لیکن میں اپنا علاج بھی نہیں کرتا چاہتا_ تو میرا اچھا ہمسایہ ہے لیکن میں تیرا برا ہمسایہ ہوں کیا کروں خواہشات نفس کا قیدی ہو گیا ہوں کوئی نجات کا راستہ نہیں دیکھ پاتا_ جب تو امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں جائے تو آپ کے سامنے میری حالت بیان کرنا شاید میرے لئے کوئی نجات کا راستہ نکال سکیں ابو بصیر کہتا ہے کہ میں اس کی اس گفتگو سے بہت زیادہ متاثر ہوا_ کئی دن کے بعد جب میں کوفہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت کے مقصد سے مدینہ منورہ گیا اور جب آپ کی خدمت میں مشرف ہوا تو اپنے ہمسایہ کے حالات اور اس کی گفتگو کا تذکرہ آپ کی خدمت میں بیان کیا_ آپ نے فرمایا کہ جب تو کوفہ واپس جائے وہ آدمی تیرے ملنے کے لئے آئے گا_ اس سے کہنا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جس حالت میں تو ہے یعنی گناہوں کو چھوڑ دے تو میں تیرے لئے جنت کا ضامن ہوں_

ابوبصیر کہتے ہیں کہ '' جب میں اپنے کا مدینہ میں پورے کر چکا تو کوفہ واپس لوٹ آیا_ لوگ میرے ملنے کے لئے آرہے تھے انہیں میں میرا وہ ہمسایہ بھی مجھے ملنے کے لئے آیا احوال پرسی کے بعد اس نے واپس جانا چاہا تو میں نے اسے اشارے سے کہا کہ بیٹھا رہ مجھے آپ سے کام ہے_ جب میرا گھر لوگوں کے چلے جانے سے خالی ہو گیا تو میں نے اس سے کہا_ کہ میں نے تیری حالت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان کی تھی _ آپ نے مجھے فرمایا تھا کہ جب تو کوفہ جائے تو میرا سلام اسے پہنچا دینا اور اسے کہنا کہ اس حالت یعنی گناہوں کو ترک کردے میں تیری جنت کا ضامن ہوں_ اس تھورے سے امام کے پیغام نے اس شخص پر اتنا اثر کیا کہ وہ وہیں بیٹھ کر رونے لگ گیا اور اس کے بعد مجھ سے کہا کہ اے ابو بصیر تجھے خدا کی قسم کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایسا فرمایا ہے؟ میں نے اس کے سامنے قسم اٹھائی کہ یہ پیغام بعینہ وہی ہے جو امام علیہ السلام نے دیا ہے_ وہ کہنے لگا بس یہی پیغام میرے لئے کافی ہے_ یہ کہا اور وہ میرے گھر سے باہر چلا گیا_ کافی دن تک مجھے اس کی کوئی خبر نہ ملی_ ایک دن اس نے

۹۰

میرے لئے پیغام بھیجا کہ میرے پاس آ مجھے تم سے کام ہے_ میں نے اس کی دعوت قبول کی اور اس کے گھر کے دروازے پر گیا_ دروازے کے پیچھے سے مجھے آواز دی اور کہا_ اے ابو بصیر _ جتنا مال میں نے حرام سے اکٹھا کیا ہوا تھا وہ سب کا سب میں نے لوگوں میں تقسیم کر دیا ہے_ یہاں تک کہ میں نے اپنا لباس بھی دے دیا ہے_ اب ننگا اور بے لباس دروازے کے پیچھے کھڑا ہوں_ اے ابوبصیر میں نے امام جعفر صادق کے حکم پر عمل کیا ہے اور تمام گناہوں کو چھوڑ دیا ہے یعنی توبہ کر لی ہے_ ابوبصیر کہتا ہے کہ میں اس ہمسائے کے گناہوں کے چھوڑ دینے اور توبہ کر لینے سے بہت خوشحال ہوا اور امام علیہ السلام کی کلام کے اس میں اثر کرنے سے حیرت زدہ ہوا_ گھر واپس لوٹ آیا تھورے سے کپڑے اور خوراک لی اور اس کے گھر لے گیا_ کئی دن کے بعد پھر مجھے بلایا_ میں اس کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ بیمار اور علیل ہے اور وہ کافی دن تک بیمار رہا میں اس کی برابر عیادت اور بیمار پرسی اور بیمار داری کرتا رہا_ لیکن اس کے لئے کوئی علاج فائدہ مند واقع نہ ہوا_ ایک دن اس کی حالت بہت سخت ہوگئی اور جان کنی کے عالم میں ہوگیا_ میں اس کے سرہانے بیٹھا رہا جب کہ وہ جان سپرد کرنے کی حالت میں تھا یکدفعہ ہوش میں آیا اور کہا_ اے ابوبصیر امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے یہ جملہ کہا اور اس جہان فانی سے کوچ کر گیا_ میں کئی دنوں کے بعد حج کو گیا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوا_ میرا ایک پائوں دروازے کے اندر اور ایک پائوں دروازے سے باہر تھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا_ اے ابوبصیر ہم نے تیرے ہمسائے کہ بارے میں جو وعدہ کیا تھا_ ہم نے وہ پورا کردیا ہے ہم نے جو اس کے لئے بہشت کی تھی اسے دلوادی ہے_(۱۷۱) اس طرح کے لوگ تھے اور اب بھی ہیں کہ حتمی ارادے اور شجاعانہ اقدام سے اپنے نفس امارہ کو مغلوب کر لیتے ہیں اور اس کی مہار اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں_ ایک اندرونی اور باطنی انقلاب سے نفس کو پاک کردیتے ہیں اور تمام برائیوں کو چھوڑ کر اسے صاف اور شفاف بنا دیتے ہیں_ معلوم ہوا کہ اس طرح کا راستہ اختیار کر لینا

۹۱

ہمارے لئے بھی ممکن ہے_

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ '' عادت کے ترک کرنے کے لئے اپنے نفس پر غلبہ حاصل کرو اور ہوی اور ہوس اور خواہشات کے ساتھ جہاد کرو شاید تم اپنے نفس کو اپنا قیدی بنا سکو_(۱۷۲)

نیز امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''سب سے بہتر عبادت اپنی عادات پر غلبہ حاصل کرنا ہوتا ہے_(۱۷۳)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے_ '' قیامت کے دن تمام آنکھیں سوائے تین آنکھوں کے رو رہی ہوں گی_

۱_آنکھ جو خدا کے راستے کے لئے بیدار رہی ہو_

۲_ وہ آنکھ جو خدا کے خوف سے روتی رہی ہو_

۳_ وہ آنکھ جس نے محرمات الہی سے چشم پوشی کی ہو_(۱۷۴)

جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ'' خداوند عالم نے جناب موسی علیہ السلام کو وحی کی کہ کوئی انسان میرا قرب محرمات سے پرہیز کر کے کسی اور چیز سے حاصل نہیں کر سکتا یقینا میں بہشت عدن کو اس کے لئے مباح کر دوں گا اور کسی دوسرے کو وہاں نہیں جانے دوں گا_(۱۷۵)

یہ بھی مانا جاتا ہے کہ نفس امارہ کو مطیع بنانا اور بطور کلی گناہ کا انجام نہ دینا اتنا آسان کام نہیں ہے لیکن اگر انسان ملتفت ہو اور فکر اور عاقبت اندیشی رکھتا ہو اور ارادہ اور ہمت کر لے تو پھر اتنا یہ مشکل بھی نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں اللہ تعالی کی تائید بھی اسے شامل حال ہوگی اور خدا فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ہمارے راستے کے لئے جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ہدایت کردیتے ہیں اور اللہ ہے ہی احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے_ والذین جاہلوا فینا لنہدینہم سبلنا و ان اللہ مع المحسنین_(۱۷۶)

۹۲

آہستہ آہستہ ترک کرنا

اگر ہم اتنی اپنے آپ میں طاقت اور ہمت نہیں رکھتے کہ یکدم تمام گناہوں کو ترک کر دیں تو اتنا تو مصمم ارادہ کر لیں کہ گناہوں کو آہستہ آہستہ انجام دے دیں پہلی دفعہ امتحان کے طور پر ایک گناہ یا کئی ایک گناہ کو ترک کرنا شروع کردیں اور مصمم ارادہ کرلیں_ اس کام کو دوام دیں کہ اس کے ترک پر اپنے نفس کو کامیاب قرار دے دیں اور ان گناہوں کا بالکل ختم کردیں پھر یہی کام دوسرے چند ایک گناہوں کے بارے میں انجم دینا شروع کردیں اور اس پر کامیابی حاصل کرلیں اور اسی حالت میں خوب ملتفت رہیں کہ کہیں اس ترک کئے ہوئے گناہ کو پھر سے انجام نہ دے دیں اور یہ واضح ہے کہ ہر گناہ یا چند گناہوں کے ترک کرنے پر نفس امارہ اور شیطن کمزور ہوتا جائیگا اور جتنا شیطن نفس سے باہر نکلے گا اس کی جگہ اللہ تعالی کا فرشتہ لے لے گا_ جس گناہ کا سیاہ نقطہ نفس سے دور ہوگا اتنی مقدار وہاں نورانیت اور سفیدی زیادہ ہوجائے گی_ اسی طریقے سے گناہوں کے ترک کو برابر انجام دیتے جائیں تو پھر بطور کامل نفس پاک ہوجائیگا اور نفس کو اس کے نفسانی خواہشات پر قابو پانے اور فتح حاصل کرنے کی پوری طرح کامیابی حاصل ہوجائیگی اور ممکن ہے کہ اسی دوران ایک ایسے مرتبے تک پہنچ جائیں کہ تمام گناہوں کو یکدم ترک کرنے کی طاقت اور قدرت پیدا کرلیں ایسی صورت میں ایسی قیمتی اور پر ارزش فرصت سے استفادہ کرنا چاہئے اور یکدم تمام گناہوں کو ترک کر دینا چاہئے اور شیطن اور نفس امارہ کو باہر پھینک ڈالنے پر قابو پالینا چاہئے اور نفس کے گھر کو خدا اور اس کے فرشتوں کے لئے مخصوص کر لینا چاہئے اگر اس کے لئے کوشش اور جہاد کریں تو یقینا اس پر کامیاب ہوجائیں گے_ نفس کے ساتھ جہاد بعینہ دشمن کے ساتھ جہاد کرنے جیسا ہوتا ہے _ دشمن سے جہاد کرنے والا ہر وقت دشمن پر نگاہ رکھے اپنی طاقت کو دشمن کی طاقت سے موازنہ کرے اور اپنی طاقت کو

۹۳

قوی کرنے میں لگا رہے اور فرصت ملتے ہی ممکن طریقے سے دشمن پر حملہ کردے اور اس کی فوج کو ہلاک کردے یا اپنے ملک سے باہر نکال دے_

۹۴

وہ کام جو نفس کے پاک کرنے میں مدد دیتے ہیں

۱_ فکر کرنا_

نفس کے پاک کرنیکا ایک اہم مانع غفلت ہوا کرتی ہے اگر ہم دن رات دنیا کی زندگی میں غرق رہیں اور موت کی یاد سے غافل رہیں اور ایک گھڑی بھی مرنے کے بعد کے بارے میں سوچنے پر حاضر نہ ہوں اور اگر کبھی مرنے کی فکر آئی بھی تو اسے فوراًء بھلادیں ہیں اور اگر برے اخلاف کے نتائج سے غافل ہیں اور اگر گناہوں کی اخروی سزا اور عذاب کا فکر نہیں کرتے خلاصہ خدا اور آخرت پر ایمان ہمارے دل کی گہرائیوں میں راسخ نہیں ہوا اور خدا صرف ایک ذہنی مفہوم سے آگے نہیں بڑھا تو پھر ایسی غفلت کے ہوتے ہوئے ہم کس طرح اپنے نفس کو پاک کرنے کا عزم بالجزم کرسکتے ہیں؟ کس طرح نفس کو اس کی خواہشات پر کنٹرول کرسکتے ہیں؟ کیا اس سادگی سے نفس امارہ کے ساتھ جہاد کیا جاسکتا ہے؟ غفلت خود ایک نفس کی بڑی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے اور یہ دوسری بیماریوں کے لئے جڑ واقع ہوتی ہے_ اس بیماری اور درد کا علاج صرف فکر کرنا عاقبت اندیشی اور ایمان کی قوت کو مضبوط اور قوی کرنا ہے_ انسان کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ اپنے نفس کا محافظ اور مراتب رہے_ کسی وقت بھی اسے فراموش نہ کرے اور نفسانی بیماریوں کے بدانجام اور گناہوں کی سزا اور دوزخ کی سخت

۹۵

عذاب کو سوچنا رہے_ قیامت کے حساب اور کتاب کو ہمیشہ نگاہ میں رکھے اس صورت میں نفس کو پاک کرنے کے لئے آمادہ کیا جاسکتا ہے اور حتمی فیصلہ کرسکتا ہے اور اپنے نفس کو برے اخلاق اور گناہوں سے پاک کرسکتا ہے_

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جو شخص اپنے دل کو دائمی فکر سے آباد کرے گا اس کے ظاہری اور باطنی کام اچھے ہونگے_(۱۷۷)

۲_ تادیب و مجازات_

اگر ہم نفس کے پاک کرنے پر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہم تنبیہہ اور ادب دیئےانے اور جزائے اخروی سے استفادہ کرسکتے ہیں_ ابتداء میں ہم نفس کو خطاب کرتے ہوئے تہدید اور ڈرائیں کہ میں نے حتمی ارادہ کرلیا ہے کہ گناہوں کو ترک کردوں اور اگر اے نفس تو میری اس میں مدد نہیں کرے گا اور گناہ کا ارتکاب کرے گا تو میں فلاں سزا تیرے بارے میں جاری کردونگا مثلاً اگر تو نے کسی کی غیبت کی تو میں ایک دن روزہ رکھ لوں گا یا ایک ہفتے تک صرف لازمی گفتگو کروں گا یا اتنا روپیہ صدقے کے طور پر دے دونگا یا ایک دن پانی نہیں پیونگا یا صرف ایک وقت غذا سے تجھے محروم کردونگا یا کئی گھنٹے گرمیوں میں دھوپ میں بیٹھا رہونگا تا کہ تو جہنم کی حرارت کو نہ بھلاسکے یا اس طرح اور سزائیں اپنے نفس کو سنائیں_

اس کے بعد اپنے نفس پر اچھی طرح نگاہ رکھیں کہ وہ بعد میں غیبت نہ کرنے لگے اور اگر اس سے غیبت صادر ہوجائے تو حتمی ارادے سے بغیر کسی نرمی اور سستی کے اس کے مقابلے میں اڑجائیں اور وہ سزا جاسکا نفس سے وعدہ کیا ہوا تھا اس پر جاری کردیں جب نفس امارہ کو احساس ہوجائیگا کہ ہم گناہ کے نہ کرنے پر مصر ہیں اور بغیر کسی نرمی کے اسے سزادیں گے تو پھر وہ ہماری شرعی چاہت کوماننے لگے جائے گا_

اگر کافی مدت تک بغیر چشم پوشی کے اس طریقے پر عمل کرتے رہیں تو پھر ہم شیطن کے راستے کو روک سکیں گے اور نفس امارہ پر پوری طرح سے مسلط ہوجائیں

۹۶

گے لیکن اس کی عمدہ شرط یہ ہے کہ ہم حتمی ارادہ کرلیں اور بغیر کسی معمولی نرمی کے سرکش نفس کو سزا دے دیں_ بہت تعجب کا مقام ہے کہ ہم دنیاوی امور میں معمولی غلطی کرنے والے کو سزا اور تنبیہہ کرتے ہیں لیکن اپنے نفس کے پاک کرنے میں اس روش پر عمل نہیں کرتے حالانکہ اخروی سعادت اور نجات نفس کے پاک ہونے پر موقوف ہوتی ہے_

اللہ تعالی کے بہت سے بندوں نے اپنے نفس کے پاک کرنے اور بہتر بنانے اور نفس پر قابو پانے میں اس طریقے پر عمل کرنے کی توفیق حاصل کی ہے_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نفس کو اپنا قیدی بنانے اور اس کی عادات کو ختم کرنے میں بھوک بہت ہی زیادہ مددگار ہوتی ہے_(۱۷۸)

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جو شخص اپنے نفس کو ریاضت اور تکلیف میں زیادہ رکھے گا وہ اس سے فائدہ اٹھائیگا_( ۱۷۹)

ایک صحابی فرماتے ہیں کہ سخت گرمی کے زمانے میں رسول خدا (ص) ایک دن ایک درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اسی دوران ایک آدمی ایا اس نے اپنا لباس اتارا اور گرم ریت پر لیٹ گیا اور ریت پر لوٹنا پوٹنا شروع کردیا کبھی اپنی پیٹھ کو گرم ریت پر رکھ کر گرم کرتا اور کبھی اپنے پیٹ اور کبھی اپنے چہرے کو اور کہتا اے نفس امارہ اس ریت کی گرمایش کو چکھ اور جان لے کہ دوزخ کی آگ کی گرمی اس سے زیادہ اور سخت تر ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کاخوب نظارہ کر رہے تھے_ جب اس آدمی نے اپنا لباس پہنا اور چاہا کہ وہاں سے چلا جائے تو رسول خدا(ص) نے اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ دیا_ اس آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم بجا لایا اور آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ(ص) نے اس سے فرمایا کہ میں نے تجھے ایسا کام کرتے دیکھا ہے کہ اسے دوسرے لوگ نہیں کرتے تمہاری اس کام سے کیا غرض تھی؟ اس نے جواب میں عرض کی یا رسول اللہ (ص) مجھے خدا کے خوف نے اس کام کے کرنے پر آمادہ کیا ہے_ میں یہ کام انجام دیتا تھا اور اپنے نفس سے کہتا تھا کہ اس گرمی کو چکھ اور جان

۹۷

لے کہ دوزخ کی آگ کی گرمی اس سے زیادہ شدید اور دردناک ہے_ رسول خدا(ص) نے فرمایا واقعی تو خدا سے خوف زدہ ہوا ہے اور اللہ تعالی نے تیرے اس عمل سے آسمان کے فرشتوں پر فخر کیا ہے_ آنحضرت(ص) نے اس کے بعد اپنے اصحاب سے فرمایا کہ'' اس آدمی کے نزدیک جائو اور الس سے خواہش کرو کہ وہ تمہارے لئے دعا کرے اصحاب اس کے نزدیک گئے اور اس سے دعا کی خواہش کی اس آدمی نے دعا کے لئے ہاتھ ااٹعائے اور کہا الہم اجمع امرنا علی الہدی و اجعل التقوی زادنا و الجنتہ مابنا(۱۸۰)

یعنی اے اللہ ہمیں ہدایت پر جمع کردے اور تقوی کو ہمارا زاد راہ قرار دے اور جنت ہمارا ٹھکانا بنا امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنے نفس کو با ادب بنانے کے لئے کوشش کرو اور اسے سخت عادت سے روکو_(۱۸۱)

حضرت صادق علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان نفس کی خواہشات سے زیادہ تاریک اور وحشت ناک پردہ نہیں ہوا کرتا اور اسے ختم کرنے کے لئے خدا کی طرف احتیاج اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع اور دن میں بھوک اور پیاس اور رات کی بیداری سے کوئی بہتر ہتھیار نہیں ہے اگر انسان ایسی حالت میں مرجائے تو شہید دنیا سے جائے گا اور اگر زندہ رہے تو بالاخرہ اللہ تعالی کے رضوان اکبر کو حاصل کر لے گا خدا قرآن میں فرماتا ہے '' جو ہمارے راستے میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کردیتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے_(۱۸۲)

۳_ اللہ تعالی کی کرامت کی طرف توجہہ کرنا اور انسانی اقدار کو قوی بنانا

بیان ہوچکا ہے کہ انسانی روح اور نفس ایک گران بہا موتی ہے جو حیات و کمال و جمال و رحمت و احسان کے عالم سے وجود میں آیا ہے اور بطور فطرت انہیں امور سے

۹۸

سنخیت رکھتا ہے اگر یہ اپنے بلند مقام اور منزلت اور قیمتی وجود کی طرف توجہ رکھے ہوئے ہو تو گناہوں کا ارتکاب اور برے اخلاق کو اپنی شان سے پست تر شمار کرے گا اور فطرتا ان سے متنفر ہوگا جب اس نے سمجھ لیا کہ وہ انسان ہے اور انسان ذات الہی کے خاص لطف و کرم سے عالم بالا سے اس دنیا میں آیا ہے تو پھر اس کی نگاہ میں حیوانی خواہشات اور ہوی اور ہوس بے قیمت جلوہ گر ہوں گی اور اپنے وجود میں مکارم اخلاق کو زندہ رکھنے کی طرف مائل ہوگا_

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اپنے نفس کی عزت کرتا ہو اس کے لئے شہوات بہت معمولی اور بے ارزش ہوں گی_(۱۸۳)

امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ معزز اور گراں قدر انسان کون ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا '' جو دنیا کو اپنے وجود کی قیمت قرار نہ دے _(۱۸۴) لہذا روح کے انسانی شرافت اور اس کے وجود کے قیمتی ہونے اور اس کے مقام و مرتبت کے بلند و بالا کی طرف توجہہ سے نفس کو گناہوں اور برے اخلاق سے پاک کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے _ اگر ہم اپنی روح سے مخاطب ہوں اور اسے کہیں کہ اے روح تو علم و حیات کمال و جمال احسان و رحمت اور قدس کے عالم سے آئی ہے تو اللہ تعالی کا خلیفہ ہے تو ایسا انسان ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے اور اللہ تعالی کے قرب حاصل کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو حیوان سے بلند و بالا ہے_ تیرے وجود کی قیمت حیوانی خواہشات کی پیروی کرنا نہیں ہے اگر انسان اس طرح سوچے تو پھر گناہوں کے ترک کر دینے اور روح کو پاک کرنے میں بہت آسانی ہوجائیگی اسی طرح نفس کو پاک کرنے کے لئے ہر بری صفت کی ضد کو قوی کرنا چاہئے تا کہ بری صفت آہستہ آہستہ دور ہو جائے نیک صفت کو اس کی جگہ لئے چاہئے تا کہ اس کی ثانوی عادت ہو جائے مثلا اگر کسی انسان سے حسد کرتے ہیں اور اس پر نعمت او رخوشی سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور اس کی برائی اور اذیت اور توہین اور لاپروراہی کرنے اور اس کے کاموں میں روڑا اٹکانے سے ہم اپنے اندرونی بغض کو خوش کرتے ہیں تو اس صورت میں ہمیں

۹۹

اس کی تعریف اور ثنا احترام اور احسان اور خیرخواہی اور مدد کرنے میں کوشش کرنی چاہئے جب ہمارے کام حسد کے اقتضا کے خلاف ہونگے تو پھر آہستہ آہستہ یہ بری صفت زائل ہوجائیگی اور خیرخواہی کی صفت اس کی جگہ لے لے گی_ اور اگر ہم کنجوسی اور بخل کی بیماری میں مبتلا ہوئے تو پھر اپنے مال کو شرعی امور میں خرچ کردینے کو اپنے نفس پر لازم قرار دے دیں تا کہ تدریجا بخالت کی صفت زائل ہوجائے اور احسان اور خرچ کرنے کی عادت ہوجائے_ اور اگر حقوق اللہ خمس و زکوة و غیرہ کے ادا کرنے میں بخل کرتے ہیں تو پھر حتمی طور سے نفس کے مقابلے پر آجائیں اور اس کے وسوسے پر کان نہ دھریں اور مالی حقوق کو ادا کردیں اور اگر ہم اپنے مال کو اپنے اہل و عیال اور زندگی کے مصارف میں خرچ کرنے سے انکار کرتے ہیں تو پھر ان میں خرچ کرنے کے لئے اپنے نفس پر زور دیں تا کہ اس کی عادت ہوجائے اور اگر بخالت کیوجہ سے نیکی کے کاموں میں شریک نہیں ہوتے تو پھر جیسے بھی ہو ان امور میں شرکت کرتے رہیں اور کچھ اپنے مال کو اللہ تعالی کے راستے اور غریبوں کی اعانت کے لئے خرچ کرتے رہیں تا کہ آہستہ آہستہ اس کام کی عادت پڑ جائے معلوم ہے کہ یہ کام ابتداء میں بہت حد تک مشکل ہونگے لیکن اگر پائیداری اور کر گزرنا ہوجائے تو پھر یہ آسان ہوجائیں گے_

قاعدتا اپنے نفس کو پاک کرنے اور برے اخلاق سے جہاد کرنے کے لئے دو کاموں کو ہمیں انجام دینا ہوگا_

۱_ برے اخلاق اور نفس کی خواہش کا کبھی اثبات میں جواب نہ دیں یعنی جو نفس چاہتا جائے ہم اسے بجالاتے جائیں ایسا نہ کریں تا کہ اس کا بیج اور جڑ آہستہ آہستہ خشک ہو جائے_

۲_ نیک صفت جو بری صفت کی ضد ہے اسے قوی بنائیں اور نفس کو اس پر عمل کرنے کے لئے مجبور کریں تا کہ وہ آہستہ آہستہ اس کی عادت ڈال لے اور وہ اس کی عادت اور ملکہ بن جائے اور بری صفت کو بیخ سے اکھاڑ ڈالے_

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346