اجرعظیم

اجرعظیم 80%

اجرعظیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7580 / ڈاؤنلوڈ: 3737
سائز سائز سائز
اجرعظیم

اجرعظیم

مؤلف:
اردو

صدقہ خیرات

۱- امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ شب جمعہ اور یومِ جمعہ صدقہ دینا ہزار صدقہ کے برابر ہے اور محمد وآل محمد علیہم السلام پر درود پڑھنا ہزار ثواب کے برابر ہے۔

۲- امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے جو شخص ماہِ شعبان میں کچھ صدقہ دے اگرچہ آدھے خرما کے برابر کیوں نہ ہو‘ خداوندعالم اس کے جسم کو آتشِ جہنم سے بچائے گا۔ آگ اس پر حرام ہوگی۔

۳- امام محمدباقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: صدقہ دینا طول عمر کا باعث ہے اور ستر قسم کی بلائیں دفع کرتا ہے۔

۴- ماہِ شعبان میں صدقہ دینا چاہیے اگرچہ وہ نصف خرما ہی کیوں نہ ہو‘ اس سے خدا اس کے جسم پر جہنم کی آگ حرام کر دے گا۔

۵- عید غدیر ( ۱۸ ذوالحجہ) کے دن حاجت مند مومن بھائی کو ایک درہم صدقہ دینا دوسرے دنوں میں ایک ہزار درہم دینے کے برابر ہے۔ دوسری روایت کے تحت ایک لاکھ دینے کے مساوی ہے۔

۶- علامہ مجلسی نے فرمایا کہ معتبر روایت میں وارد ہوا ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک روپیہ (رائج الوقت سکّہ) تصدق کرنا دوسری جگہ پر دس ہزار روپے کے برابر ہے۔

۷- آنحضرت نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی میت کے لیے صدقہ دے کر اس پر مہربانی کرے تو خود اُس کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے اُحد کے پہاڑ کے برابر لکھا جائے گا اور روزِ قیامت وہ عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوگا۔

۸- غدیر ۱۸ ذی الحجہ کو ایک درہم (سکہ رائج الوقت) خیرات کرنا دوسرے دنوں کے دس لاکھ درہم کے برابر ہے۔

زیارات

۱- کوئی فرد زکور و اناث میں سے خرد و کلاں جہاں بھی ہو پاکیزگی کی حالت میں جب چاہے امام حسین علیہ السلام کی زیارت پڑھے تو امید ہے اسے حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔ طریقہ زیارت یوں ہے:

گھر کی چھت پر چلا جائے‘ دائیں دیکھے بائیں دیکھے‘ پھر اپنا سر آسمان کی طرف بلند کرے‘ یہ کلمات کہے:

السَّلامُ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِاللّٰهِ السَّلامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرکَاتُه (دو رکعت نمازِ زیارت؟)

۲- ماہِ رمضان کی شب اول میں ضریح مقدسہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے تاکہ اس کے گناہ جھڑ جائیں اور اُسے اس سال حج و عمرہ کرنے والے تمام افراد جتنا ثواب حاصل ہو۔

۳- حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے‘ فرمایا: تھوڑی مدت کے بعد میرے جسم کا ٹکڑا سرزمین خراسان میں دفن کیا جائے گا‘ جو مومن اس کی زیارت کرنے جائے گا‘ خدائے تعالیٰ اس کے لیے جنت واجب کر دے گا‘ اس کے بدن کے لیے آتشِ جہنم حرام کر دے گا‘ غمزدہ حالت میں اس کی زیارت کرے گا‘ رب کریم اس کے رنج و غم دُور کرے گا اور جو گناہگار اس کی زیارت کرنے جائے گا غفور الرحیم اس کے گناہ معاف کر دیگا۔

۴- امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے روایت ہے‘ فرمایا: جو شخص میرے بیٹے علی رضا کی زیارت کرے گا حق تعالیٰ اس کے لیے ۷۰ حج مقبولہ کا ثواب لکھے گا۔ پھر فرمایا: جن افراد نے آئمہ طاہرین کی قبروں کی زیارت کی ہوگی ہمارے ساتھ بیٹھیں گے لیکن ان سب میں سے میرے فرزند کے زائروں کا رتبہ بلند ہوگا اور انھیں اجر و انعام بھی سب سے زیادہ عطا کیا جائے گا۔

۵- حمیری نے قرب الاسناد میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے‘ حضرت رسول اللہ نے فرمایا کہ جس نے میری حیات میں یا اس کے بعد زیارت کی تو میں روزِ قیامت اس کی شفاعت کروں گا۔

۶- سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: مجھے میرے پدرعالی قدر نے خبر دی ہے کہ جو باطنی طور پر اب بھی حاضر ہیں کہ جو شخض مجھ پر یا میرے والد بزرگوار پر تین روز سلام کرے تو حق تعالیٰ اس کے لیے بہشت واجب کر دیتا ہے۔

میں نے عرض کی کہ آپ کی زندگی میں یا اس ظاہری زندگی کے بعد بھی؟

آپ نے فرمایا: ہاں زندگی میں اور بعد میں بھی سلام کا یہی اجر ہے۔

۷- عبداللہ بن عباس سے نقل ہوا ہے۔ حضرت رسول خدا نے فرمایا: جو شخص بقیع میں امام حسن علیہ السلام کی زیارت کرے‘ اس کے قدم پل صراط پر جمے رہیں گے‘ اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت سے متعلق ہے کہ زائر کے گناہ بخش دیئے جائیں گے نیزاسے تنگ دستی اور پریشانی لاحق نہ ہوگی۔

۸- جو شخص امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زیارت کرے (نجف اشرف) جب کہ ان کی امامت پر یقین رکھتا ہو‘ خلیفہ بلافصل تسلیم کرتا ہو تو ایک لاکھ شہیدوں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘ قیامت کے دن امن میں ہوگا‘ خداوند کریم اس کے حساب میں آسانی کرے گا‘ فرشتے اس کا استقبال کر رہے ہوں گے۔

۹- سید عبدالکریم ابن طاؤس نے اپنی کتاب فرحتہ العربیٰ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص حضرت امیرالمومنین کی زیارت کو پاپیادہ جائے تو حق تعالیٰ ہر قدم کے عوض ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھے گا۔ اگر واپسی پر بھی پاپیادہ چلے تو حق سبحانہ اس کے ہر قدم کے بدلے دو حج اور دو عمرے کا ثواب ہوگا۔

۱۰- دو معتبر سندوں سے نقل ہوا ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا جو شخص بہت دُور ہونے کے باوجود میری قبر کی زیارت کرے گا تو میں تین وقتوں میں اس کے پاس آؤں گا:

( i ) جب نیکوکاروں کا اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے۔

( ii ) جب لوگ پل صراط سے گزرتے ہوں گے۔

( iii ) جب اعمال کا وزن کیا جائے گا۔

۱۱- امام محمدتقی علیہ السلام سے روایت ہے: میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے جنت کا ضامن ہوں اُس شخص کے لیے جو طوس جاکر میرے والد گرامی (امام رضا) کی زیارت کرے اور آپ کو امام برحق بھی تسلیم کرے۔

۱۲- شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں امام محمد تقی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ طوس کے دو پہاڑوں کے درمیان زمین کا ایک ٹکڑا ہے جو بہشت سے لایا گیا ہے جو بھی مومن زمین کے اس خطے میں داخل ہو وہ قیامت میں دوزخ کی آگ سے آزاد ہوگا۔

کمالِ عقیدت کی بات ہے ۱۰۰۹ ھ میں شاہ عباس موسوی الحسینی اول اصفہان سے مشہد مقدس اپنے لاؤلشکر کے ساتھ پیدل چل کر آئے اور امام کی قبرمطہر کی زیارت کی۔ اس نذر کو پورا کرنے کے لیے ۲۸ دن لگے۔ امام کا پورا قبہ سونے کی اینٹوں سے بنوایا۔

۱۳- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جو شخص واجب الاطاعت امام یعنی خدا کی طرف سے مقرر کیے ہوئے امام کی زیارت کرے اور قبرمبارک کے پاس چار رکعت نماز ( ۲+۲) ادا کرے تو اس کے لیے حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا۔

ادعیہ‘ اوراد‘ تسبیحات‘ تعقیبات ‘ سجدئہ شکر

۱- صادق آل محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص اس صلوٰة کو بروز جمعہ پڑھے وہ گناہوں سے اِس طرح پاک ہوجائے گا جیسے ماں کے پیٹ سے اسی وقت پیدا ہوا ہو۔ دعا باب الصلوٰة میں درج ہے۔

۲- جو شخص اس دعا کو شب ِ جمعہ یا شب ِ عید دس مرتبہ پڑھے گا اس کے ثواب میں دس لاکھ حسنات لکھے جائیں گے‘ اور ہزار گناہ محو ہوں گے‘ نیز پڑھنے والے کے ہزار درجات بلند کیے جائیں گے۔ (دعا طویل ہے‘ اعمال شب جمعہ میں دیکھئے)

۳- بحوالہ سید ابن طاؤس امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب اور ان کے اہل بیت اطہار پر نمازِ ظہر اور عصر کے درمیان درود بھیجنا ستر رکعتوں کے ثواب کے برابرہے۔

۴- حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے جو شخص نمازِ ظہر کے بعد ان الفاظ کو پڑھے وہ تاظہور قائم آل محمد زندہ و سلامت رہے گا اور حضرت کی خدمت میں ہوگا۔ اگر راہی ملک عدم ہوگیا تو عارضی زندگی دے کر زیارتِ امام سے مشرف کیا جائے گا۔

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم - اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمّدٍ وَّاٰلِ مُحَمّدٍ وَعجِّلْ فَرجَهُمْ

۵- امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص نمازِ عصر کے بعد ستر مرتبہ استغفار کرے تو خداوند قدوس اس کے سات سو گناہ معاف کرے گا۔

۶- شب ِ جمعہ یا روزِ جمعہ سورہ جمعہ کی تلاوت کرنے سے جمعہ سے جمعہ تک کفارہ شمار ہوتا ہے۔

۷- سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کا معمول تھا۔ شب جمعہ مرحوم مومنین و مومنات کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتی تھیں۔ پوچھا کیا وجہ؟

فرمایا: ایک روایت کے مطابق ایسے شخص کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے جو دس مرحومین/مرحومات کے لیے دعائے مغفرت کرے۔

۸- امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ شب جمعہ میں محمد وآل محمد پر درود بھیجنے سے ہزار نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ ہزار گناہ معاف ہوتے ہیں اور ہزار درجے بلند ہوتے ہیں۔

۹- روایت ہے جو شخص نمازِ صبح سے پہلے تین مرتبہ ذکر کرے تو اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں خواہ کفِ دریا سے زیادہ ہوں۔

اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلاَّ هُوَ الْحَیِّ القَیُومُ وَاتُوبُ اِلَیْهِ

۱۰- روایت میں آیا ہے جو شخص جمعہ کے دن نمازِ صبح کے بعد طلوعِ آفتاب تک تعقیبات میں مشغول رہے تو جنت الفردوس میں اس کے ستر( ۷۰) درجات بلند کیے جائیں گے۔

۱۱- طلوعِ آفتاب سے قبل دس مرتبہ سورہ کافرون پڑھنے سے دعا مستجاب ہوتی ہے۔

۱۲- سختی و غم کے دُور ہونے اور کشائش کے اِس ذکر کا ہمیشہ پڑھنے بہت مفید ہے۔ یہی ذکر امام محمد تقی علیہ السلام نے تعلیم فرمایا:

یَامَن یَّکْفِی مِنْ کُلِّ شَی ءٍ وَّلَا یَّکْفِیْ مِنْهُ شَی ءٌ اِکْفِنِیْ مَآ اَهمِّنِی

"وہ جو ہرچیز سے بڑھ کرکفایت کرتا ہے اور اُس کے لیے کوئی چیز کفایت نہیں کرتی میرے اہم کاموں میں میری کفایت کر"۔

ماہِ رجب

حضرت رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ جو شخص ماہِ رجب میں صرف سومرتبہ کہے اس کے بعد حسب توفیق صدقہ دے تو حق تعالیٰ اس پر اپنی تمام تر رحمت و مغفرت نازل کرے گا اور جو اُسے پورے ماہ میں چار سو مرتبہ پڑھے تو خدا اُسے ایک سو شہیدوں کا اجر دے گا:

اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلاَّ هُوَ وَحْدَه لَا شَرِیْکَ لَه وَاتُوبُ اِلَیْهِ

۱۴- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہوئی ہے کہ ماہِ رجب میں جو شخص مرد/زن ایک ہزار مرتبہ لا الٰہ الا اللہ کہے تو حق تعالیٰ اس کے حق میں ایک ہزار نیکیاں لکھے اور جنت میں اس کے لیے سو شہر بنائے گا۔

۱۵- ماہِ رجب میں ہر جمعہ سو مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنے والے کے لیے ایک خالص نور ہوگا جو اُسے جنت کی طرف رہنمائی کرے گا۔

۱۶- ماہِ شعبان میں ستر مرتبہ استغفار کرنا گویا دوسرے مہینوں میں ستر ہزار مرتبہ استغفار کرنے کے برابر ہے۔

۱۷- امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص خاکِ شفا کی تسبیح ہاتھ میں لے کر ہر دانے پر یہ پڑھے:سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالحَمْدُلِلّٰهِ وَلَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اکْبَر ۔ خداوند تعالیٰ ہر دانے کے عوض چھ ہزار نیکیاں لکھے گا۔ اس کے ۶ ہزار گناہ مٹا دے گا‘ اس کے ۶ ہزار درجے بلند کرے گا اور اس کے لیے ۶ ہزار شفاعتیں لکھے گا۔

۱۸- امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے جو شخص خاکِ کربلا سے بنائی ہوئی پختہ تسبیح پھیرے اور ایک بار استغفار کہے تو حق تعالیٰ اس کے لیے ستر بار استغفار لکھے گا اور اگر اس تسبیح کو محض ہاتھ میں لیے رکھے تو بھی اس کے ہر دانے کے عوض سات بار استغفار لکھے جائیں گے۔

۱۹- اذان و اقامت کے درمیان مانگی ہوئی دعا ردّ نہیں ہوتی۔

۲۰- جو شخص پابندی کے ساتھ واجب نماز کے بعد تسبیح فاطمہ زہراء پڑھتا ہے کبھی بدبخت نہ ہوگا۔ قرآن مجید میں واذکرواللّٰہَ ذکرًا کثیرًا کا حکم دیا گیا ہے‘ وہ تسبیح حضرت زہراء ہے۔ گویا تسبیح پڑھنا خدا کو زیادہ یاد کرنے کے مترادف ہے۔ امام محمدباقر علیہ السلام سے مروی ہے جو شخص فاطمہ زہراء کی تسبیح پڑھنے کے بعد استغفار کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے بخش دے گا۔ ظاہراً تسبیح کے سو الفاظ ہیں لیکن میزانِ عمل میں ایک ہزار کے برابر ہیں‘ اسی سے شیطان دُور ہوتا ہے‘ رحمن راضی ہوتا ہے۔ امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں جو فرد بعد از نماز اپنے پاؤں کی کیفیت کو بدلے بغیر تسبیح فاطمہ زہراء پڑھے تو اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔ ایک اور معتبر حدیث میں امام ششم فرماتے ہیں: میرے نزدیک ہرنماز کے بعد حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی تسبیح پڑھنا روزانہ ہزار رکعت نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ یہ وہ تحفہ ہے جو اللہ کی طرف سے پاک پیغمبر کو ملا اور حضور پرنور نے یہ تحفہ اپنی پیاری اکلوتی بیٹی کو عطا فرمایا۔

۲۱- خاکِ شفا کی تسبیح ہاتھ میں ہو اور وہ فی الحال ذکر نہ کر رہا ہو‘ حضرت صاحب العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف فرماتے ہیں اس شخص کے لیے ذکر کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خاکِ شفاء کی تسبیح خود بخود ذکر کرتی ہے اور خاکِ تسبیح پڑھتی ہے جس کا ثواب ہاتھ میں پکڑنے والے کے نامہ اعمال میں درج ہوتا ہے۔ نیز فرمایا جو ذکر تسبیح خاکِ شفا پر کیا جائے وہ دوسرے اذکار و استغفار کے سترگنا کے برابر ہے۔

۲۲- شیخ کلینی نے معتبر سند کے ساتھ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص فریضہ نماز کے بعد پاؤں کو پلٹانے سے پہلے تین مرتبہ یہ دعا پڑھے تو خداوندعالم اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے خواہ وہ گناہ کثرت میں سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں:

اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلاَّ هُوَ الْحَیِّ القَیُومُ ذُوالجَلالِ وَالاکِرَامِ وَاَتُوبُ اِلَیْهِ -

۲۳- امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے منقول ہے جو شخص ہر فریضہ نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے تو کوئی کاٹنے والی چیز اُسے ضرر نہیں پہنچا سکے گی۔ حضور اکرم نے حضرت علی سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ہر فریضہ نماز کے بعد آیت الکرسی کی تلاوت اس لیے ضروری ہے کہ پیغمبر یا صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی اس عمل کو ہمیشہ جاری نہیں رکھ سکتا۔

مزید فرمایا: آیت الکرسی کی تلاوت رکھنے والے کی نماز قبول ہوتی ہے‘ وہ خدا کی پناہ میں رہے گا اور خدا اُسے گناہوں اور بلاؤں سے محفوظ رکھے گا۔

۲۴- نبی رحمت مالک خلق عظیم نے اپنے ایک بوڑھے صحابی شیبہ ہذلی کو یہ دعا تعلیم فرمائی اور کہا اس کلام کی برکت سے خدا تمھیں اندھے پن‘ دیوانگی‘ برص‘ جذام‘ پریشانی اور فضول گوئی سے نجات دے گا۔

سُبْحَانَ اللّٰهِ العَظِیمِ وَبِحمَدِه وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰهِ العَلِیِّ العَظِیْم

۲۵- تسبیحات اربعہ کے متعلق ختمی مرتبت حضور پرنور نے فرمایا: اس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہیں۔ یہ انسان کو چھت تلے دبنے‘ پانی میں ڈوبنے‘ کنوئیں میں گرنے‘ درندوں کے چیرنے پھاڑنے‘ بدتر موت اور آسمان سے آنے والی بلاؤں سے بچاتا ہے۔ یہی ان باقیات الصالحات میں ہے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نماز کے بعد تیس ( ۳۰) مرتبہ پڑھو:

سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالحَمْدُلِلّٰهِ وَلَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اکْبَر

۲۶- امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص فریضہ نماز کے بعد تیس ( ۳۰) مرتبہ سبحان اللہ کہے تو اس کے بدن پر موجود ہر گناہ ساقط ہو جائے گا۔ ایک اور صحیح حدیث میں آنجناب سے منقول ہے کہ خدا نے قرآن مجید میں "ذکرکثیر"فرمایا ہے۔ وہ ہر نماز کے بعد ۳۰ مرتبہ سبحان اللہ ہے۔

۲۷- قطب راوندی نے روایت کی ہے کہ حضرت امیرالمومنین نے براء بن عازب سے فرمایا: ہر نماز کے بعد دس مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنے والا کبھی مرتد نہ ہوگا۔

۲۸- ابن بابویہ نے معتبرسند کے ساتھ امام محمدباقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص نمازِ فجر کے بعد ستر مرتبہاسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاتُوبُ اِلَیْهِ کہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سات سو گناہ معاف کرتا ہے۔

۲۹- امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے جو شخص سورہ انا انزلناہ طلوعِ فجر کے بعد سات مرتبہ پڑھے تو اس کے لیے فرشتوں کی ۷۰ صفیں ۷۰ دفعہ صلوٰة پڑھتی ہیں اور ۷۰ مرتبہ اس کے لیے رحمت طلب کرتی ہیں۔

۳۰- شیخ احمد بن فہد اور دیگر علما نے روایت کی ہے کہ ایک شخص امام موسٰی کاظم کی خدمت میں آیا اور شکایت کی کہ میرا کاروبار بند ہو چکا ہے۔ جدھر کا رخ کرتا ہوں ناکام رہتا ہوں اور جو حاجت پیش آتی ہے وہ پوری نہیں ہوتی‘ حضرت نے فرمایا: نمازِ فجر کے بعد دس مرتبہ یہ پڑھا کرو:

سُبْحَانَ اللّٰهِ العَظِیمِ وَبِحمَدِه اسَتْغَفِرُ اللّٰهَ وَاسَئَلُه مِنْ فَضلِه

راوی کہتا ہے کہ میں نے تھوڑے ہی عرصہ تک یہ دعا پابندی کے ساتھ پڑھی تھی کہ مجھے بہت سا مال و زر مل گیا اور کاروبار چمک اٹھا۔

۳۱- عدة الداعی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو شخص نمازِ فجر کے بعد کسی سے بات کرنے سے پہلے یہ کہے:

رَبِّ صَلِّ عَلٰی مُحَمّدٍ وَّاهَلِ بَیتِه تو حق تعالیٰ اس کے چہرے کو آتشِ جہنم سے دُور رکھے گا۔

۳۲- جو شخص علاوہ نماز کسی نعمت کے ملنے پر خدا کے لیے سجدہ شکر بجا لائے تو اللہ تعالیٰ اس کے نام دس نیکیاں لکھ دیتا ہے‘ دس برائیاں مٹا دیتا ہے اور بہشت مین اس کے دس درجے بلند کر دیتا ہے۔

۳۳- شیخ کلینی نے معتبر سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شکایت کی میری لونڈی جو بیمار رہتی ہے اس کے لیے ہدایت فرمائیں۔ حضرت نے فرمایا: اسے کہو ہر واجب نماز کے بعد سجدئہ شکر میں یہ کہا کرے:

یَا رَؤفُ یَارَحِیمُ یَارَبِّ یَا سَیِّدِی

۳۴- جو شخص شام کے وقت غروبِ آفتاب کے قریب اور صبح طلوعِ آفتاب سے پہلے سو سومرتبہ اللہ اکبر کہے تو خدائے قدوس اس کے لیے سو غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھ دے گا۔ انھیں اوقات میں سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحمَدِہ پڑھنے والے کوقرأت کے مطابق نیکیاں میسر ہوں گی یعنی جتنی بار پڑھے گا اتنی ہی نیکیاں۔

۳۵- عبداللہ بن جندب اپنے زمانے کے عالم کہیرامام موسٰی کاظم اور امام علی رضا علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے‘ ساتویں امام کی خدمت میں عریضہ تحریر کیا:

مولا! بوڑھا ہو گیا ہوں‘ کمزوری کی وجہ سے کئی امور انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتا‘ مجھے خاص کلام تعلیم فرمایئے تاکہ علم و فہم میں مزید اضافہ ہو‘ اور اپنے کام خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔

حضرت نے جواب میں فرمایا: اس ذکرِعظیم القدر کو زیادہ سے زیادہ پڑھا کرو:سُبْحَانَ اللّٰهِ اَللّٰهُ اکْبَر ۔

۳۶- حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: مجھے یہ کلمات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم فرمائے:

جو شخص روزانہ سو مرتبہلَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ الْمَلِکُ الحَقُّ المُبِیْنُ پڑھے چار فائدے حاصل کرے گا:

( i ) فقر و فاقہ اور معاشی تنگی دُور ہوں گی ۔( ii ) قبر کی وحشت سے محفوظ رہے گا۔ ( iii ) غنا ظاہری اور باطنی نصیب ہوگا۔ ( iv ) جنت میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوگی۔

۳۷- سرکار رسالت مآب نے فرمایا: اس دعا میں اسم اعظم ہے جو کچھ چاہو اس کو وسیلہ بناکر اللہ سے طلب کرو‘ خدا عطا کرے گا:

اَللّٰهُمَّ بِاَنَّ لَکَ الحَمْدُ لَا اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ یَاحَنّانُ یَابَدِیعْ السَّمواتِ وَالْاَرضِ یَا ذَالجَلالِ وَالْاِکْرَام

۳۸- صاحب میہج الدعوات لکھتے ہیں کہ ایک اور روایت اسم اعظم کے باب میں عطا (راوی) سے بیان کی جاتی ہے۔ اس دعا میں اسم اعظم پوشیدہ ہے:

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم - یَااللّٰهُ یَااللّٰهُ یَااللّٰهُ ‘ یَارَحمٰنُ یَارَحمٰنُ یَارَحمٰنُ ‘ یانُور یانُور یَا ذَاالطَّولِ یَا ذَالجَلالِ وَالْاِکْرَام

۳۹- السَّلامِکثرت سے پڑھنے والا امراض سے شفا پائے گا‘ آفات سے سلامت رہے گا۔ اگر مریض پر ۱۰۰ مرتبہ پڑھا جائے صحت پائے گا۔

۴۰- جو شخص الخَالِقُ کا ورد رکھے تو اس کا چہرہ نورانی اور دل روشن رہے گا۔

۴۱- جو شخص حالت سجدہ میں تعقیبات کے اندر چودہ مرتبہ الَوْھّابُ کہے حق تعالیٰ اسے غنی کرے گا۔

۴۲- جو شخص رات کے وقت الکریم چند بار پڑھ کر سو جائے ملائکہ کو حکم ہوتا ہے کہ رات بھر اس کے لیے دعائے خیر کریں۔

۴۳- گم شدہ چیز مل جائے یا اطلاع ہو جائے اَلشَّھِیْدُ الْحَقکاغذ کے چار کونوں پر لکھے۔ درمیان میں ضائع ہونے والی چیز کا نام لکھے۔ نصف شب کو زیرآسمان ۷۰ مرتبہ اَلشَّھِیْدُ الْحَق کہے گمشدہ چیز کا حال معلوم ہوجائے گا‘ ان شاء اللہ!

۴۴- ۱۹ مرتبہ اَلحّیُ پڑھ کر دم کریں‘ آنکھیں دکھنے کا مرض ٹھیک ہو جائے گا۔

۴۵- حاکم کے سامنے جانے سے پہلے الرّؤفُ پڑھ کر جائے ان شاء اللہ مہربانی سے پیش آئے گا۔

۴۶- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو کوئی نماز کے بعد روزانہ ۳۰ مرتبہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہَ پڑھے بے پناہ رزق پائے گا۔ اسی مقصد کے لیے سورہ ق روزانہ پڑے اور رزق وسیع حاصل کرے۔

۴۷- حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کا ارشاد ہے جو کوئی سوتے وقت سورہ اخلاص پڑھے ملائکہ اس کی حفاظت پر مامور کر دیئے جاتے ہیں۔

۴۸- امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہر نماز واجب کے بعد تسبیح جناب فاطمة الزہراء میرے نزدیک ہر دن میں ہزار رکعت نماز نافلہ پڑھنے سے بہتر ہے۔

۴۹- یہ تسبیح زبان کے ساتھ سو دفعہ ہے لیکن میزانِ عمل میں اس کا ثواب ہزار تسبیح کے برابر لکھا جاتاہے۔ اللہ خوش ہوتا ہے (بلاتغیرکیفیت) اور شیطان دُور بھاگتا ہے۔

۵۰- خاکِ شفا کی تسبیح پر ہر دانہ کے بدلے چالیس حسنہ کی عطا ہوتی ہے کیونکہ یہ ذکرًا کثیرًا کا نعم البدل ہے۔

۵۱- امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: میرے نزدیک جمعہ کے روز صلوٰة پڑھنے والا بہترین عبادت میں مصروف ہے۔ شبِ جمعہ صلوات پڑھنا ہزار حسنہ کے برابر ہزار گنا محو ہوتے ہیں‘ ہزار درجے بلند ہوتے ہیں۔ ظہر اور عصر کے درمیان درود پڑھنے کا ثواب حج و عمرہ کے مترادف ہے۔

۵۲- جمعہ کی رات یا جمعہ کا دن صدقہ دینا باقی ایام سے ہزار گناہ زیادہ بہتر ہے۔

۵۳- امام موسٰی کاظم نے فرمایا: جس نے خفیہ طور پر اپنے بھائی کے لیے دعا کی اس کے لیے عرش سے ندا آتی ہے تیرے لیے ایک لاکھ اجر ہے۔

۵۴- محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاجس نےاشهد ان لا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَشَرِیْکَ لَه وَاشهد ان محمدًا عبده ورسوله کہا خدا اس کے نام پر ایک ہزار نیکیاں لکھتا ہے لیکن بشرطہا وشروطہا (اقرار امامت ضروری ہے)۔ (اصول الکامی جلدپنجم)

۵۵- امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: ہرنماز کے بعد تسبیحات اربعہ پڑھنے سے دنیا کی مصیبتیں دُور ہوتی ہیں‘ اور آخرت کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ تین سو ساٹھ مرتبہ روزانہ پڑھنا (جسم کی رگوں کے برابر) روزانہ کے تحفظ کی ضمانت ہے۔

۵۶- سورہ اخلاص کی مداوت کرنے والے کے جنازے میں ۷۰ ہزار فرشتے شرکت کرتے ہیں۔

دوسرا جلسہ

اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اہمیت اور ضرورت

ہم نے پہلے جلسہ میں اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت اس سلسلے کے منتخب مسائل کو بیان کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس سلسلے میں ہم کیا کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں ، آج ہم خداوندعالم کی مدد سے اس سلسلے میں بحث کریں گے کہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کتنی مہم اور ضروری ہے۔

۱۔ اسلامی انقلاب سے مغرب ومشرق کا برتاؤ

اس بحث کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرنے کے لئے ایک نگاہ اپنے ملک اور اس زمانے کے اسلامی ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں ،اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ دنیا پرست، قدرت طلب، زورگو افراد ہمیشہ تاریخ میں فتنہ وفساد کے باعث بنے ہیں اور جس طرح انسان کی زندگی ماڈرن ہوتی جارہی ہے او رحکومتیں قاعدہ وقانوں اورعلم کی بنیاد پر ترقی کی طرف گامزن ہیں ، فتنہ وفساد کی فعالیت بھی عملی تر اور قواعد وضوابط کے بنیاد پر دقیق تر ہوتی جارہی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی طاقتیں اس نتیجہ پر پہونچ گئی ہیں کہ دنیا کی دو بڑی سُوپر طاقت یعنی مغرب کی ثروتمند طاقت او رمشرق کی مارکسست او رکمیونیسٹ طاقت موجود ہیں اور جنگ کی کامیابی کے بعد دونوں طاقتوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنی قدرت سے دوسرے ممالک کو بھی خوف زدہ کیا جائے تاکہ وہ ان کے مقابلہ میں سر نہ اٹھاسکیں ۔

اور جب بھی کسی نے ان فتنہ گر اور مفسدوں کے مقابلہ میں سراٹھایا ہے ا سکو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان ظالم وستم گروں کا مقابلہ کرنے والے انبیاء اور ان کے پیروکار تھے جو کسی بھی زمانہ میں ستم گروں و ظالموں کے مقابلہ میں تسلیم نہیں ہوئے اسی وجہ سے ظالم و ستمگروں نے انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو اپنا دشمن سمجہا اور ان کے ساتھ دشمن جیسا سلوک کیا ، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد، خصوصاً کلیسا کو جو یورپ میں دینی قدرت کا مظھر تھا میدان سے خارج کرنے بعد یہ گمان کربیٹھے کہ اس وقت دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو ان کے مقابلہ میں آسکے۔

لیکن بیسویں صدی کی آخری تین دھائیوں میں غیر یقینی طور پر ایران کے انقلاب کو دیکھتے ہوئے بہت تعجب ہوا ، شروع میں تو یہ سوجا کہ کہ ایران کا یہ انقلاب ان دوسری انقلابی تحریکوں کی طرح ہے جو کبھی کبھی اسلامی ممالک میں ہوتی چلی آئی تھیں کہ جن کو کلّی طورپر نیست ونابود کردیا گیاتھا، انھوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ ہم اپنے مخصوص تجربات کے ذریعہ اس انقلاب کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینک دیں گے، لیکن جیسے جیسے زمانہ گذرتا گیا انھوں نے دیکھا کہ یہ انقلاب تو دوسری تحریکوں سے بہت نمایاں فرق رکھتا ہے۔

بہر حال اسلامی انقلابِ ایران کے نتیجہ میں اس منطقہ میں ایک بڑی طاقت رونما ہوئی ، انقلاب اسلامی نے مشرق ومغرب پر بھروسہ نہ کیا اور نہ ہی بغاوت جیسی تحریکوں اور فوجی ٹکراؤ کا سھارا لیا ،بلکہ غر ب کو ناکام کرتے ہوئے اسلامی حکومت تشکیل دیدی۔

اسلام دشمن طاقتوں کے پاس دینداری سے مقابلہ کا جو کچھ تجربہ تھا وہ سب انقلاب اسلامی کے نابودی کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا مگر کامیاب نہ ہوسکے ، آپ حضرات کے لئے تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم فقط اشارہ کرتے ہوئے گذرتے ہیں ۔

شروع ِ انقلاب میں ملکی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی ، اس امید میں کہ یھاں پر ایسی ایک حکومت تشکیل دی جائے جو مغرب کے لئے کام کرے، لیکن انھوں نے دیکھا کہ لوگوں کی طاقت وقدرت اس سے کھیں زیادہ ہے کہ یہ گروہوں کو تحریک کرکے انقلاب اسلامی کے لئے کوئی خطرہ ایجاد کریں یھاں تک کہ اپنے مختلف حربے استعمال کیئے منجملہ یہ کہ ایران پر اقصادی پا بند ی لگا ئی عراق کے ذریعہ آٹھ سال تک جنگ تھونپی ان تمام حربوں کے ذریعہ انقلاب اسلامی کو نا کام کرنا چاہتے تھے لیکن خدا کے فضل سے کسی طرح بھی کامیاب نہ ہوسکے۔

۲ ۔ جوانوں کی گمراہی کے لئے مغرب کا ایک ثقافتی حربہ

چونکہ دشمن کسی بھی میدان میں کا میاب نہ ہو سکا تو اس کی امید صرف جوانوں پر آکر رکی کہ ایران کے جوانوں کے لئے فرہنگ (کلچر ) کے لحاظ سے ایک طولانی مدت پروگرام بنا یاجائے ، اور اس پروگرام کے تحت مختلف طریقوں سے ملک میں نفوذ کرنا چاہا (کیونکہ اس سلسلے میں ان کے پاس کافی تجربہ موجود تھا)ان کی کوشش یہ تھی کہ ایک ایسا مرکز بتایاجائے کہ جس کے ذریعہ اپنے افکار ونظریات کو نشر وا شاعت کی جائے اور اس مرکز کے ذریعہ ملت کے مختلف لوگوں تک اپنی تبلیغاتی لھر یں پہونچائی جائیں تاکہ اہستہ اہستہ اپنی مرضی کے مطالق ماحول بنایا جائے ،ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں بھی دوسرے پروگراموں کی طرح انھوں نے اپنے علمی حساب وکتاب کے تحت پروگرام بنا یا۔

چنانچہ جب انھوں نے دیکھا کہ انقلاب کی نسل بڑھاپے کی طرف بڑہ رہی ہے ، اور مستقبل کی نبضوں کو جوانوں کے ھاتھو ں میں دیکھا (وہ جوان کہ جو شاہ کے ظلم وستم سے آگاہ نہیں ہیں اور نہ ہی انقلاب سے پہلے والے ا ور انقلاب کے بعدوالے اسلامی رزمندوں کی جانثار وں سے آگاہ ہیں ، اور صرف وہ اپنی خواہشوں کے پیروں ہیں ان کی مرادیں کبھی مادیات ہوتی ہیں اور کبھی خواہشات ) تو یہ کہ جوان طبقہ جو اس وقت ملت کی اکثریت ہے اس میں کسی طرح سے رسوخ پیدا کیا جائے اور اہستہ اہستہ اپنی مرضی کے مطابق ایسی حکومت بنوائیں حو ان کے نفع کیلئے کام کرے ، اوروہ اسی کشمکش میں تھے کہ پروگرام کو کھاں سے شروع کیا جائے، اور اس جوان نسل کے افکا رو عقائد میں کس طرح نفوذ کیا جائے ، تاکہ ان کی امیدوں کیلئے زمینہ فراہم ہو سکے ،چنانچہ انھوں نے اس سلسلے میں بہت اسٹیڈی کی کہ آخر اس قدر لوگ کیوں حکومت اسلامی کے حامی اور وفادار ہیں یھاں تک کہ تمام مشکلات مالی، مھنگائی، بمباری اور دوسری پریشانیوں کوبھی بر داشت کررہے ہیں پھر بھی حکومت اسلامی کی حمایت سے باز نہیں آتے ،ان تمام چیزوں کو دیکہ کر دشمن اس نتیجہ پر پہونجا کہ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ دین اسلام کے معتقد ہیں ۔

۳۔فرہنگی تین حربے

کیونکہ ایرانی قوم اہل بیت علیہم السلام کے پیروں ہیں اور ائمہ علیہم السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے لئے نمونہ عمل بنایا ہے، اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام کے لئے اپنی جان ومال بھی قربان کر سکتے ہیں اور ان کو یہ اعتقاد ان کی ماں نے دودہ میں پلایاہے ،اور جب تک زندہ رہیں گے، یہ عقیدہ ان کہ دلوں میں باقی رہے گا مگر دشمن اس عقیدہ کو کم رنگ کرنا چاہتا ہے ،اور دشمن کی تمنا یہ ہے کہ آئندہ آ نے والی نسل میں اس طرح کا عقیدہ باقی نہ رہے اور اس طرح اسلامی حکومت اور اسکے ذمہ دار افراد سے بد ظن کردیں ، کیونکہ لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ دین اسلام ہمارا حاکم ہے ،اور حکومت کے حقدار علماء اور دیندار افراد ہیں جن کی سرپرست ولی فقیہ ، ہے ،اور جب تک یہ عقیدہ جوانوں کے درمیان موجود ہے اس حکومت اسلامی کو کوئی نقصان نہیں پہونچ سکتا ۔

چنانچہ دشمن نے سوچا کہ اس اعتقاد کو ختم کرنا چاہئے لیکن کس طرح؟ ظاہر ہے کہ یہ افکار روشن فکر طبقہ کے ذریعہ ہی ان تک پہونچائے جاسکتے ہیں ، لھٰذا یونیورسٹی اور ثقافتی مراکز کے درمیان ایک ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے ذریعہ یہ افکار ملت تک پہونچائے جائیں ، اور ایسے افراد کو بروئے کار لایا جائے جو ان کے افکار کو پھیلائے اور حداقل لوگوں کے دلوں میں خصوصاً جوان طبقہ میں شک ووسوسہ پیدا کریں اور اسلامی حکومت، ولایت فقیہ کی نسبت ان کے عقائد کو ڈاماڈول اور کم رنگ کیا جائے، جوانوں میں حکومتِ اسلامی کی نسبت عقیدہ کو کم رنگ کرنا ہی ان کا مطلوب ہے کیونکہ اگر ان کے دلوں میں شک پیدا ہوگیا تو پھر کوئی دوسرا ۱۳/ سالہ نوجوان کمر سے بم باندہ کر ٹینک کے نیچے نہیں جائےگا، یہ کام تو اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب آخرت اور حساب وکتاب پر ایمان ہو اور اپنے صحیح راستہ کو جانتا ہو،لیکن اگر شک پیدا ہوجائے تو کافی ہے ایک قدم آگے بڑھائے اور پھر پیچھے ہٹ جائے اور یہ شک وتردید دشمن کے لئے کافی ہے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے۔

انہیں مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے زرخرید غلاموں (کہ واقعاً جنھوں نے دھوکہ کھایا) اور اپنے مختلف تجربوں ، او ران لوگوں کے ذریعہ کہ جن کے عقائد واقعاً ضعیف وکمزور ہیں مخفیانہ طور پر ذریعہ اپنے مقاصد کی طرف متوجہ کیا اور درج ذیل چیزوں کے ذریعہ اپنا کام شروع کیا۔

الف:دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا

دشمن کا سب سے پہلا کام دین کو سیاست اور حکومت سے جدا کرنے کی فکر کورائج کرنا تھا اس مسئلہ کی تبلیغ کے لئے راستہ بحد کافی ہموار تھا کیونکہ صدیوں سے مغرب اور یورپ میں اس سلسلہ میں کافی کام ہوچکا تھا بہت سی کتابیں لکھی گئیں کافی مقدار میں ریسرچ کی گئی تھیں جس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں یہ فکر رائج ہوچکی تھی کہ دین سیاست سے الگ ہے۔

اپنے اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ایران میں بھی راستہ ہموار کیا کہ کم از کم کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہو کہ دین سیاست سے جدا اور الگ ہے اگرچہ اس کے لئے تھوڑا بہت راستہ پہلے سے ہی ہموار تھا کیونکہ انقلاب سے پہلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی بعض وہ لوگ جو حکومت کے کارکنان تھے ایسا عقیدہ رکھتے تھے، ان کا اعتقاد یہ تھا کہ دین اور سیاست میں ایک بہت بڑی دیوار حائل ہے اور اس چیز کے پیش نظر تقریریں بھی ہوئیں ،کتابیں بھی لکھی گئیں ، چنانچہ اسی نظریہ کو مزید تقویت ان چیزوں کے ذریعہ جو مغربی ممالک میں کارگر ہوچکی تھیں اوریہ کوئی مشکل کام نہ تھا،دی گئی۔

پس معلوم یہ ہوا کہ دشمن کی ثقافتی کارکردگی میں سے ایک ، دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا ہے، البتہ اس فکر سے تمام لوگ تحت تاثیر قرار نہ پائے کیونکہ جن حضرات نے اس اسلامی حکومت کے لئے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو قربان کیا تھا، مالی قربانی پیش کی ہے ، اور تمام مشکلات کو برداشت کیا ہے، آسانی سے اس فکر سے متاثر نہیں ہونگے، کیونکہ ابھی تک ان کے کانوں میں امام خمینی کی دل نشین آوازیں گونج رہی ہیں ، اور مرحوم مدرس کی یہ آواز کھ” دیانت ماعین سیاست ما است“(ہماری دینداری اور ہماری سیاست ایک ہی ہے) کو اتنی آسانی سے نہیں بھلاسکتے تھے۔

ب: ولایت فقیہ کا انکار

دشمن اور مغرب زدہ روشن فکری کی کارگردی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ملت میں یہ فکر ایجاد کریں کہ اگرچہ سیاست اور اجتماعی کاموں میں دین دخالت رکھتا ہے اور معاشرہ میں بھی اسلامی احکامات جاری ہونے چاہئے ، اور سیاست میں بھی دینی امور کی طرف توجہ ہونا چاہئے، لیکن اسلامی حکومت کے معنی فقھاء کی حکومت نہیں ہے بلکہ اسلامی پارلیمینٹ میں قوانین کا طے ہونا کافی ہے، بعض قوانین کا دین کے خلاف نہ ہونا اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں دین کے مطابق قوانین جاری ہوگئے اور بس ، اسلامی حکومت کے معنی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ۔

پس دوسرا حصہ دشمن کی سیاست کا یہ تھاکہ اگر تمام لوگوں کو اس بات پر قانع نہ کرسکے کہ دین سیاست سے الگ ہے اور وہ اس بات کے قائل رہے کہ دین اور سیاست باہم ہیں تو ہم کھیں گے کہ دین اور سیاست باہم ہیں لیکن دینی حکومت کا مطلب یہ ہے کہ دینی احکام جاری ہوں ، لیکن ان احکام کامجری (جاری کرنے والا) کون ہے؟اس مسئلہ کا دین سے کوئی ربط نہیں ،بلکہ احکام دینی کو جاری کرنے کے لئے لوگوں نے جس کا انتخاب کرلیا وہی حاکم ہے، پس اسلامی حکومت کا مطلب اسلامی قوانین کا جاری کرنا ہے، نہ کہ حاکم متدین ، مومن اور فقیہ ہو،یعنی دین کی سیاست میں دخالت کو قبول کرتے ہیں لیکن دین احکام کا مجری فقیہ اور مجتھد ہو اس کو قبول نہیں کرتے ، یا یہ کہ حکوت کا سربراہ ولی فقیہ ہو ، غیر قابل قبول ہے۔

اس سلسلہ میں (یعنی ولایت فقیہ کے ذریعہ حکومت نہ ہونے کے سلسہ میں ) بہت کوششیں کیں اور اس وقت بھی ان کی یہ کوشش جاری ہے، مختلف اخباروں ، ماہناموں اور دیگر مختلف طریقوں سے ان مطالب کو منتشر کیا جارہا ہے اور اسی سلسلہ میں یونیورسٹی اور دوسرے مراکز میں میٹیگ کرتے رہتے ہیں تاکہ ابھی تک جو متدین حضرات دین کو سیاست سے جدا نہ ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں یہ فکر ڈالیں کہ اسلامی حکومت قابل قبول ہے لیکن ولایت فقیہ کی ضرورت نہیں ہے۔

اس قسم کا تبلیغی مشن، اسلامی احکامات اور فقھی بنیادوں سے نابلد جوانوں میں موثر ہوسکتا ہے خصوصاً جبکہ اس سلسلے میں ثقافتی وسائل کے ذریعہ بھر پور تبلیغات کی جائے، اور وسیع مالی امکانات کو اس کے لئے خرچ کیا جائے، لیکن پھر بھی ایسے افراد موجود ہیں جن پر ان کی تبلیغات کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور ولایت فقیہ کو جیسا کہ قانون اساسی میں بھی اسی کو محور قرار دیا گیاہے، اپنی تمام زندگی میں اہمیت دیتے ہیں اور جیسا کہ دنیا بھر میں یہ انقلاب، انقلابِ ولایت فقیھ، اور حکومت، حکومتِ ولایت فقیہ کے نام سے مشہور ہے، اور سبھی ولایت فقیہ کے پابند ہیں ۔

ج۔ ولایت فقیہ کو موردِ اعتراض قرار دینا

ظاہر ہے کہ جو لوگ ولایت فقیہ کے قائل ہیں ان کے درمیان ان لوگوں نے نفوذ کرنے کا دوسرا طریقہ انتخاب کیا وہ اس طرح کہ لوگوں میں اس فکر کو رائج کیا جائے کہ ایران میں موجودہ ولایت فقیہ مخدوش(قابل اعتراض) ہے، اور اس پر تجدید نظر کی جانی چاہئے اور یہ ولایت فقیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ڈیموکراسی(جمہوریت) اور لیبرالیزم کے اصولوں سے میل نہیں کھاتی، ولایت فقیہ کو اس طرح ہونا چاہئے کہ دور حاضر میں موجودہ ڈیموکراسی سے ہم اہنگ ہو،اور آج کی دنیا میں جو اصول وضوابط مسلم اور قابل قبول ہیں ان سے ولایت فقیہ متفق ہو، پس دشمن کی تیسری فکری سازش جمہوری اسلامی ایران میں ولایت فقیہ کو مخدوش کرناہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ عالمی استکبار اوردشمن ِ اسلام عملی اور فکری تین طریقوں سے اس اسلامی حکومت کو ضعیف کرنا چاہتاہے اور اس سلسلے میں انھوں نے خاص پروگرام بھی بنائے اور آج بھی اس طرح کے پروگرام بناتے رہتے ہیں لیکن ان کی امیدیں آنے والی نسل تھی کہ جس لئے انھوں نے ایک لمبافکری پروگرام بنارکھا تھا۔

اور اس فکری پروگرام کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ دین کو سیاست سے دور ہونے کی فکردے اس امید میں کہ ایک طبقہ اس کو قبول کرے گا۔

دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے لیکن اسلامی حکومت کا ولایت فقیہ سے کوئی ربط نہیں ہے،یہ نظریہ بھی ایک طبقہ میں قابل قبول ہوسکتا ہے۔

تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ جو لوگ ولایت فقیہ پر ایمان راسخ رکھتے ہیں ان میں یہ نظریہ رائج کریں کہ ولایت فقیہ مورد قبول ہے لیکن ایران میں جو ولایت فقیہ ہے اس کی فعلی صورت کو تبدیل ہونا چاہئے، خلاصہ دشمن ہر ممکن ذریعہ سے کوشش میں ہے کہ جوانوں کے درمیان شک وشبہ پیدا کرے تاکہ اسلامی حکومت کے سلسلے میں ان کا اعتقادضعیف وکمزور ہوجائے، اوراگر ایسا ممکن ہوا توپھر عالمی استکبار کے نفوذ کے لئے راستہ ہموار ہوجائے گا اور اسلامی معاشرے اور اسلامی حکومت میں نفوذ ہوجائےگا۔

جو لوگ ان تینوں نظریات میں سے کسی ایک کا شکار ہوگئے چاہے وہ کسی بھی جگہ ہوں ، کسی بھی مقام ومنزلت پرفائز ہوں گویا انھوں نے عالمی استکبار کی مددا ورنصرت کی اور استکبار کو اپنے اغراض ومقاصد تک پہونچنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

۴۔دشمن کی مذکورہ سازشوں کے مقابلے میں ہمارا وظیفہ

چونکہ دشمن نے مذکورہ سازشوں میں اپنی پوری طاقت صرف کی ہے لھٰذا وہ حضرات جواس حکوت کودل وجان سے چاہتے ہیں (اور الحمد للہ لوگوں کی اکثریت اس حکومت کو دل وجان سے چاہتی ہے اور اس کا نمونہ وہ عظیم مظاہرے ہوتے ہیں جو بعض موقع پر ہوتے رہتے ہیں اور تمام دنیا کو تعجب میں ڈال دیتے ہیں ) ان لوگوں کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ دشمن ان تین طریقوں سے انکے درمیان نفوذ نہ کرے، اور ان کوایسی کوشش کرنا چاہئے کہ جس سے لوگوں کا یہ عقیدہ راسخ تر ہوجائے کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے اور انہیں اس بات کا یقین ہوجائے کہ دوسرے ین اگر سیاست سے جدا ہوں تو ہوں ، لیکن اسلام سیاست سے جدا نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ اپنے دلوں میں یہ نظریہ راسخ کرلیں کہ حکومتِ اسلامی کا مطلب فقط یہ نہیں کہ پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بن جائیں یا یہ کہ وہ قوانین اسلام کے مخالف نہ ہوں ، بلکہ اسلامی حکومت کی حقیقت یہ ہے کہ قانوں کو جاری کرنے والے اسلام کے دلسوز اور اسلام کی پہچان رکھنے والے ہوں اور احکام الہی کو جاری کرنے میں اپنی پوری توجہ صرف کریں ، ورنہ اگر قانون کاغذ پر لکھے جائیں اور اس کو جاری کرنے والے ہی ان قوانین کاپاس ولحاظ نہ رکھیں تو اس سے لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا؟

کیا شاہ کے زمانے کے قوانین اساسی میں ایران کا رسمی مذہب شیعہ نہیں تھا؟ لیکن یہ قوانی کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوئے کیونکہ شاہ کی حکومت کافر اور دشمنوں سے بے حد متا ثر تھی جس کی وجہ سے اسلامی قوانین پرعمل نہیں ہوتا تھا۔

اگر قوانین صرف کاغذ پر لکھے ہوئے ہوں اور ان کا جاری کرنے والا مومن ومتدین اور قدرتمند نہ ہو تواس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، لھٰذا اگر اسلامی پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بنائے جائیں لیکن جو شخص ان قوانین کی نظارت کررہا ہے وہ اسلام کا دلسوز نہ ہو اور اس قدر قدرت نہ رکھتا ہوکہ ان قوانین کو جاری کرسکے، توایسے قوانین کو جاری ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ، لھٰذا دوسری ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم روز بروز ولایت فقیہ کے اعتقاد کو پختہ ترکریں ، تاکہ ہمارے یقین میں بھی اضافہ ہو اور ہماری نسلوں میں بھی یہ عقیدہ باقی رہے کہ ولایت فقیہ کے بغیر اسلامی حکومت ناممکن ہے۔

ان دومرحلوں کے بعد تیسرے مرحلے کی باری آتی ہے کہ یہ ولایت فقیہ کی موجودہ شکل وصورت جو اس وقت ایران می تقریباً ۲ ۰ سال سے ہے یہ وہی شکل وصورت ہے جس کو اہل بیت علیہم السلام نے بیان کیا ہے یا یہ کہ اس کی شکل وصورت کو عوض ہونا چاہئے؟

یہ تیسرا مرحلہ ایک فرعی مرحلہ ہے کہ جو گذشتہ دومرحلوں کے بعد ہے لھٰذا پہلے ان دومرحلوں پر بحث کرنا ضروری ہے اور انہیں دو مسئلوں کی بنیاد پر ہماری بحث اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت تشکیل پاتی ہے۔

۵۔دشمن کی سازشوں کے مقابلہ میں بہت رینراستوں کا انتخاب

مذکورہ مطالب سے واضح ہوجاتا ہے کہ دشمن نے اپنی تمام تر طاقت اپنی مندرجہ ذیل سازشوں میں صرف کردی:

۱۔دین وسیاست میں جدائی کرنا۔

۲۔اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ میں جدائی کرنا۔

۳۔ایران میں ولایت فقیہ کی کارگردگی میں شک وتردید کا ایجادکرنا۔

لھٰذا طبیعی طورپر ہمارا بھی تین گروہوں سے مقابلہ ہے پہلا گروہ وہ ہے کہ جس نے یہ قبول کرلیا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے یعنی مساجد، امامبارگاہ جدا ہیں اور سیاست وحکومت جدا ہے، لھٰذا ان لوگو ں سے بحث کرنے کے لئے ہمیں ایک خاص راستہ اپنانا پڑے گا۔

دوسرا گروہ وہ ہے جس نے اسلامی حکومت کو تو قبول کیا ہے لیکن اس کے احکام کے مجری کے سلسلے میں چوں وچراکرتے ہیں ، ان لوگوں سے بحث کرنے کا انداز دوسرا ہونا چاہئے، کیونکہ اگر فرض کریں کہ کوئی خدا ہی کا قائل نہیں ہے تو اس سے بحث اس طرح شروع کی جائے تاکہ خدا کا اثبات ہوسکے اوراس کے بعد نبوت عامہ (تمام انبیاء کی نبوت) اور نبوت خاصہ (حضرت محمد مصطفی کی نبوت) کے بارے میں بحث کی جائے لیکن اگر کوئی خدا اور بعض انبیاء کو قبول کرتا ہو لیکن حضرت محمد مصطفی کی نبوت کا منکر ہو تو اس سے نبوت خاصہ کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی۔

بہر حال جو لوگ خداوندعالم کو قبول کرتے ہیں لیکن پیغمبر اکرم کی نبوت کو قبول نہیں کرتے تو آنحضرت کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ پہلے خدا کے اثبات سے بحث شروع کی جائے کیونکہ اس کے لئے یہ طے شدہ ہے کہ کوئی خدا ہے اور اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجا ہے اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی مناسب راستہ اپنانا چاہئے اور جس سلسلہ میں ہم بحث کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے اصول اور مقدمات پر موقوف ہے کہ بعض لوگ قبول کرتے ہیں اور بعض لوگ ا ن کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے۔

لھٰذا مذکورہ بحث کے سلسلہ میں ہمیں بھی چند طریقوں سے بحث کرنا ہوگی اور اس کے لئے مختلف روش درکار ہیں یعنی ممکن ہے بعض جگہ فقط عقلی دلیلوں کے ذریعہ اپنا مدعی ثابت کریں اور جس چیز کو انسان کی عقل درک کرتی ہے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا سھارا نہ لیں ، ایسی صورت میں عقلی برہانوں کے ذریعہ بحث کو آگے بڑھائیں گے بالکل اسی طرح کہ اگر کوئی خدا کو نہ مانتا ہو اور اس کے سامنے خدا کے وجود کوثابت کرنا ہو تو ایسے موقع پر قرآن اور معصومین علیہم اسلام کی احادیث کے ذریعہ اثبات کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ وہ ابھی خدا کو ہی نہیں مانتا ، توقرآن وحدیث کو کس طرح قبول کرسکتا ہے؟!

اس کو سمجہانے کے لئے فقط عقل سے کام لینا پڑے گا اور اس کو عقلی دلیلوں کے ذریعہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہوگا، اسی طرح جن لوگوں نے اسلامی حکومت کو قبول کیا ہے وہ لوگ ایک قدم آگے ہیں تو ان لوگوں سے بحث کرنے کے لئے ایسا راستہ اپنا ناپڑے گاجو دینی باتیں قبول کرتے ہیں ان کے سامنے وہ دلیلیں بیان کریں جو محتوائے دین کو بیان کریں یعنی ان سے بحث کرنے کے لئے قرآن وحدیث اور تاریخی شواہد کو مدرک قرار دینا ہوگا۔

لیکن اگر حکومت کی کارگردگی کی بحث کی جائے تو تاریخی شواہد ومدارک کو مدنظر رکہ کر بحث کی جائے یھاں پر عقلی نقلی وتعبدی (قرآن وسنت) بحث نہیں ہوگی۔

خلاصہ یہ کہ ہماری بحث بھی مختلف پہلو رکھتی ہے لھٰذا ہماری بحث بھی مختلف طریقوں سے ہوگی، بعض جگہ عقلی طریقہ سے بحث ہوگی اور بعض جگہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بحث ہوگی ، اور بعض دوسری جگہ پر تاریخ کا سھارا لیا جائے گا، یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ بعض افراد بحث کے درمیان ہم پر اعتراض نہ کریں کہ یہ بحث عقلی ہے یا شرعی؟ اس وجہ سے پہلے یہ عرض کردینا مناسب سمجہا کہ ہماری بحث کے مختلف طریقے ہوں گے ، بحث کو اس کے مناسب طریقہ سے مورد تحقیق وبررسی قرار دیا جائے گا۔

۶۔دین کی تعریف اور اس کے حدود

یھاں پر ایک دوسرا مہم مسئلہ بھی ہے جس پر مستقل طور پر جدا گانہ بحث ہوسکتی ہے لیکن اس وقت صرف اس کی طرف اشارہ کریں گے:

یھاں پر بحث یہ ہے کہ دین کے حدود کھاں تک ہیں ؟ جس وقت ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ حکومت ودین میں کیا ربط ہے اور دین وسیاست کا جدا کرنا صحیح ہے یا نھیں ۔

تو سب سے پہلے خود دین کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے کہ دین کیا ہے دین کی صحیح تعریف ہمارے پاس ہونا چاہئے تاکہ اس کی بنیاد پر ہم اس کے حدودمعین کرسکیں ، اس سلسلے میں بعض لوگوں نے سعی فرمائی ہے مگر ایک دوسرے عنوان سے ،وہ اس طرح کہ آیاانسان کو دین کی ضرورت ہے یا نھیں ؟ اس چیز کو مورد بحث قرار دیتے ہیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دین کی انسان کی زندگی میں کیا دخالت ہے اس مرحلہ کی تحقیق وبررسی کے بعد ان لوگوں نے اس بحث کو مورد بحث قرار دیا کہ اسلام میں سیاست،دین کا جز ہے یا نھیں ؟ بہر حال ان لوگوں نے اس سلسلہ میں بہت سی بحثیں کی ہیں ، جیسا کہ آپ حضرات بھی ان بحثوں سے کم وبیش واقف ہیں ۔

”مثلاًدین سے ہماری امیدیں “ یعنی دین سے ہماری امیدیں حداقل درجہ پر ہیں یا حد اکثر درجہ پر (یعنی کیا دین انسان کی تمام زندگی کے مسائل کو شامل ہوتا ہے؟یا یہ کہ انسان کی زندگی کے بعض پہلوں کو شامل ہوتا ہے، بقیہ امور میں انسانی زندگی کے اکثر مسائل کو عقل و علم اور لوگوں کی مرضی کے مطابق حل ہوتے ہیں )وہ حضرات جو دین کو حکومت سے الگ گردانتے ہیں جس وقت انھوں نے دین کی تعریف فرمائی تو ایسی تعریف کی جو سیکولریزم کے عقیدہ کے موافق تھی مثلاً دین کی یوں تعریف فرماکی کہ : دین یعنی انسان کا خدا سے معنوی رابطہ یا اس سے ایک قدم اور آگے رکھا اور کھادین وہ چیز ہے کہ جو انسان کی آخرت (اگر آخرت کو قبول کرتا ہو )کی زندگی میں موثر اور کارگر ہو،یعنی دین کا کام یہ ہے کہ انسان کی زندگی کو آخرت سے ہم اہنگ کرے ۔

اور یہ بات واضح ہے کہ اگر دین کی اس طرح تعریف کی جائے تو پھر یہ کہنا بہت آسان ہے کہ دین کاسیاست سے کیا رابطھ؟سیاست کا خدا سے انسانی رابطہ کا کیا دخل؟سیاست تو صرف انسانوں کے درمیان ایک دوسرے سے رابطہ کو بیان کرتی ہے، اور سیاست دین سے الگ ہے، سیاست انسان کی دنیاوی زندگی سے متعلق ہے اور اس کا عالم آخرت سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور اگر دین کے حدود صرف یہ ہوں کہ جہاں انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رہے اور جہاں عقل خود فیصلہ اور قضاوت نہ کرسکتی ہو تو پھر وہاں دین سے کوئی رابطہ نہیں کیونکہ دین کے حدود وہاں تک محدود ہیں کہ جہاں پر عقل کی رسائی اور پہنچ نہ ہو ۔

لھٰذا اگر ہم نے دین کی مذکورہ تعریف کے مطابق اس کے حدود کو محدود کردیااور اس بات کے قائل ہوگئے کہ جن مسائل کو ہماری عقل حل کرسکتی ہے وہاں دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہم کو دین کی ضرورت وہاں ہے کہ جہاں ہماری عقل مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہو، چنانچہ جسیے جیسے زمانہ گزرتا جارہا ہے اور انسان ترقی کررہا ہے دین کی ضرورت کم ہوتی جارہی ہے چونکہ اس بنیاد پر دین کی ضرورت وہاں ہے کہ جہاں عقل ان مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہے۔

چونکہ شروع میں انسان علم و تمدن نہیں رکھتا تھا،لھٰذا اس کو دین کی ضرورت بہت زیادہ تھی اور چونکہ انسان خود اپنی عقل سے مسائل کو نہیں سمجھ سکتا تھا لھٰذا اس کو دین کی ضرورت تھی اور اہستہ اہستہ اس کو دین کی ضرورت کم ہوتی گئی،اور اس آخری زمانہ میں انسان کو دین کی ضرورت تقریبا ً نہیں ہے، ھاں بعض ان جزئی مسائل میں ہے جن کو عقل انسان ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہے اور کوئی امید بھی نہیں ہے کہ ان کو جلد ہی حل کرلیا جائے گا، ان مسائل میں ابھی بھی دین کی ضرورت ہے،(افسوس کہ یہ وہ لوگ ہیں جومسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اورپھر یہ اعتراض ا ور اشکال کرتے ہیں کہ اس وقت چونکہ عقل بشری کامل ہوگئی ہے،لھٰذا اب دین و وحی کے قوانین کی ضرورت نہیں ہے ) بہر حال مذکورہ دین کی تعریف کے مطابق نتیجہ یہ ہوگا کہ سیاست کا دین سے کوئی رابطہ نہیں ہے،اور جب ہم عقلی کوششوں اور عقلی استدلالوں کے ذریعہ تمام سیاسی مسائل کوحل کرسکتے ہیں ، تو پھر دین کیا ضرورت ہے؟

المختصر یہ کہ اب تک جو ہم نے بیان کئے وہ اس سلسلے کے چند اعتراضات اور اشکالات تھے، اوراب ہم اس کا مختصرا ًجواب عرض کرتے ہیں اور شروع ہی گوش گذار کردیں کہ دین کی تعریف کی گئی ہے اور اس کی بنیاد پر دین کو فقط اخروی زندگی سے مربوط اور خدا سے انسانی رابطہ مانتے ہیں ہماری نظرمیں باطل اور بے نیاد ہے، اور یہ نظریہ کہ دین سے سیاسی مسائل کا یعنی انسان کے سیاسی مسائل کا خدا سے کوئی ربط نہیں ،یہ ساری چیزیں انسان اور خدا کے روحانی رابطہ سے جداگانہ ہیں ، یہ بھی بے بنیاد اور بے ہودہ گفتگو ہے اور اس کا حقیقت دین سے کوئی ربط نھیں ، یہ دین کی نامکمل تعریف ہے، بلکہ دین وہ طریقہ ہے جو انسان کو صحیح رفتار وکردار پر گامزن رکھے یعنی اس طرح انسان کو بنادے کہ جس طرح خدا چاہے،یعنی اگر انسان اپنے اعتقاد اور اپنی فردی واجتماعی زندگی میں خدا کی مرضی کے مطابق قدم اٹھائے تو ایسا شخص دیندار ہے اور ا سکے مقابل اگر انسان کا عقیدہ خدا کی مرضی کے مخالف ہو او ران عقائد کو قبول کرے جو خدا کو ناپسند ہیں اور اس کی انفرادی واجتماعی زندگی کے اعمال و رفتار خدا پسندانہ نہ ہوں ، تو اس کا دین بھی ناقص ہوگا،خلاصہ یہ کہ دین تما م مذکورہ چیزوں کو شامل ہے۔

۷۔دینی طریقوں سے دینی معرفت کی ضرورت

اگر ہم دین کی تعریف کرنا چاہیں تو ہمیں دیندار اور دینی بزرگوں کی تعریف دیکھنا ہوگا کہ ان حضرات نے دین کی کس طرح تعریف کی ہے؟ او راگر ہم خود اپنے ذہن سے دین کی تعریف کریں اور من گھڑت تعریف کی بناپر کھیں کہ سیاسی اور اجتماعی مسائل دین سے خارج ہیں یا یہ کہ سیاسی واجتماعی مسائل کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے جیسا کہ دین کی ہم نے تعریف کی ہے نہ جیسا کہ خدا نے دین کو بھیجا ہے ،پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ دین خدا کی معرفت او را سکو سمجھنے کے لئے خود اپنے طور وطریقہ اور اپنی فکر کے مطابق دین کی تعریف نہ کریں بلکہ دین کی معرفت ا ورشناخت کے لئے ضروری ہے کہ دینی منابع ومآخذ کے ذریعہ دین کے بارے میں تحقیق کریں ۔

ھوسکتا ہے کہ کوئی یہ کھے : میں دین کو نہیں مانتا، کیونکہ اسلام کے صحیح ہونے پر جو دلیلیں قائم ہوئی ہیں وہ ضعیف ہیں یا (نعوذ باللہ) یہ کھے کہ ہمارے پاس اسلام کے جھوٹ اور باطل ہونے پر دلیل موجود ہے ، اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے ،تو یہ دعوی منظقی اور صحیح نہیں ہے، البتہ اگر کوئی اسلام کو قبول کرے ، او رپھر وہ کھے کہ جو میں کھتا ہوں وہی دین ہے نہ یہ کہ جو قرآن، پیغمبر اور ائمہ (ع) کھتے ہیں او رجس کے مسلمان معتقد ہیں ، اگر کوئی اسلام کے حق یا نا حق ہونے کے بارے میں بحث کرے چاہے وہ اس کی طرفداری کرے یا اس کی ردّ کرے ، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ اسلام کی معرفت اور پہچان حاصل کرے اور بے شک اسلام کی پہچان کے لئے خدا کے فرمان کی طرف رجوع کرے، جس نے اسلام کو بھیجا ہے ، لھٰذا قرآن کے ذریعہ اسلام کو پہچانا جائے، اس حقیقت کے پیش نظر ہم نے کھا کہ دین کی پہچان، اس کی تعریف اور اس کی فرمانروائی کے دائرے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دینی منابع، یعنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں ، نہ یہ کہ اپنی مرضی کے مطابق یا کسی امریکن اوریورپین (کہ جن کی باتیں ہمارے نزدیک غیر معتبر ہیں )کے کھنے کے مطابق دین کی تعریف کریں ۔

لھٰذا اگر کوئی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس اسلام کے مطابق گفتگو کرے جس کو قرآن، پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام نے بیان کیا ہے، او راسی اسلام کی بنیاد پر جس کی اصل قرآن وسنت ہے دین کی تعریف اور اس کے فرمانروائی کے دائرے کو سمجھیں نہ یہ کہ کسی مستشرق (مشرقی زبان دان اور ماہرعلوم) ،مولف اور سیاست مدار کی غرض کے تحت اسلام کی تعریف شدہ تعریف کو اپنائیں یا کسی (یورپی)دائرة المعارف (معلومات عامہ کتاب) کے مطابق اسلام کی تعریف کریں ایسے اسلام سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اسلامِ حقیقی کے طرف رجوع کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ دین کی فرمانروائی کا دائرہ انسان کی عقل وفہم پر ختم نہیں ہوتا بلکہ عقل، اسلامی شناخت کے طریقوں میں سے ایک ہے، اور اگر کوئی عربی زبان سے تھوڑی بھی واقفیت رکھتا ہو (اورقرآن کی تفسیر سے چاہے اجمالی ومختصر تفسیر سے آشنا ہو) جس وقت قرآن کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن نے اجتماعی مسائل کو نہیں چھوڑا اور ان کو بیان کیا ہے، پس کس طرح یہ کھاجاسکتا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے۔

اگر دین کے معنی قرآن کے مطابق کئے جائیں تو دین میں اجتماعی اور سیاسی مسائل شامل ہیں اور اس میں عبادت وذاتی اخلاقیات کے علاوہ قوانین مدنی ،قوانین جزائی (جرائم) اورعالمی قوانین موجود ہیں ، اور گھریلو زندگی ،شادی بیاہ،تربیت اولاد، کاروبار اور تجارت وغیرہ جیسے مسائل کو بیان کیا ہے، پس کون سی چیز ایسی ہے جو دین سے خارج ہے؟ معاملات،تجارت، اور رہن (گروی رکھنا) کے بارے میں قرآن مجید میں بڑی بڑی آیات موجود ہیں ، اگر اسلام کو قرآن کے ذریعہ پہچانے تو پھر کس طرح کوئی کھہ سکتا ہے کہ اسلام کا اجتماعی سے کیا ربط؟

اگر نکاح وطلاق دین کا جز نہ ہوں ، اگر تجارت، رہن خرید وفروخت اور سود دین سے مربوط نہ ہوں ، اسی طرح ولایت کا مسئلہ اور ولی امر کی اطاعت دین کا جز نہ ہوں تو پھر دین میں کیا باقی بچتا ہے؟! او ر آپ کس دین کی باتیں کرتے ہیں ؟ قرآن کریم نے مسلسل ان چیزوں کے بارے میں گفتگو کی ہے۔

اگر کوئی یہ کھے کہ جس دین میں اجتماعی وسیاسی مسائل کو شامل کیا جائے ہم اس دین کو نہیں مانتے! ٹھیک ہے نہ مانئے ، اسلام کو نہ ماننے والوں کی تعداد کوئی کم نہیں ہے ، اس وقت بھی بہت سے لوگ دین کو نہیں مانتے، ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں ، لیکن اگر وہ چاہتے ہیں تو آئیں او رہم سے بحث کریں تاکہ اس اسلامِ کامل کو ان کے لئے ثابت کریں او راگر نہیں چاہتے تو جو راستہ چاہیں اپنائیں :

( وَقُلِ الحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُومِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ ) (۱)

”(اے رسول) تم کھدو کہ سچی بات (کلمہ توحید) تمھارے پروردگار کی طرف سے (نازل ہوچکی ہے) بس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے“

لیکن اگر وہ کھیں کہ ہم اسلام کو قبول کر تے ہیں لیکن پھر اسلام کو ان مسائل پر شامل ہونے کا انکار کرتے ہیں ، او راسلام کے اکثر اجتماعی مسائل پر کیوں اعتراض کرتے ہیں ؟ کیا جو کچھ قرآن وسنت میں موجود ہے اسلام نہیں ہے؟ کہ تم لوگ نہ نماز کو قبول کرتے ہو اور نہ ہی دوسری عبادتوں کو ؟ تمھارا ایمان نہ اسلام کے اجتماعی مسائل پر ہے اور نہ ہی اس کے سیاسی مسائل پر، نہ تم اسلامی نکاح کو قبول کرتے ہو اور نہ ہی طلاق کو، اور اسی طرح دوسرے احکام کو قبول نہیں کرتے، تو پھر اسلام میں کیا چیز باقی ہے کہ جس اسلام کا تم دم بھرتے ہو وہ کیا ہے؟ یہ باتیں صرف سادہ لوح افراد کے لئے موثر ہوسکتی ہیں لیکن دانشمنداور پڑھے لکھے افراد کے لئے بے مایہ اور فضول ہیں ،بہر حال دین یعنی انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ کے ساتھ ہونا:

( صِبْغَةُ اللّٰه وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰه صِبْغَةً ) (۲)

”(مسلمانوں سے کھدو کہ) رنگ تو خدا ہی کا رنگ ہے جس میں تم رنگے ہوئےھو“

انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ میں بھی ہوسکتی ہے اور شیطانی رنگ وڈھنگ میں بھی، لیکن اگر انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ میں ہو تو پھرواقعاً اسلام کامل ہے ،اگر ہم چاہیں کہ الہی رنگ وڈھنگ اور اس کی مرضی کے بارے میں گفتگو کریں تو پہلے ہمیں دینی منابع کوپہچاننا ضروری ہے اور اسلام کی شناخت کے لئے قرآن، سنت اور عقل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اور یھی طریقے اسلام کے تما م عبادی، سیاسی، اجتماعی او رانفرادی مراحل کو شامل ہے۔

اور جیسا کہ ہم نے کھا کہ قرآن پر ایک سرسری نظر کافی ہے تاکہ ہمارے لئے یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ دین جو قرآن میں موجود ہے او رقرآن دین کا اصل منبع ہے، ممکن نہیں کہ اس اسلام میں سیاسی اور اجتماعی مسائل کو چھوڑ دیا گیا ہو اور قوانین کا مجموعہ سیاسی اور اجتماعی مسائل سے خالی ہو، یھاں تک کہ عبادی مسائل سے بھر پور ہو،اور یہ سلسلہ اسلام سے مرتبط نہیں ہے، کیونکہ وہ اسلام جو قرآن نے بیان کیا ہے ہم اس اسلام کا دفاع کرتے ہیں اور یہ اسلام سیاسی، اجتماعی اور عبادی مسائل کو شامل ہے اور سیاست اسلام کے مہم ارکان اور اس کے فرمانروائی کے اصل دائرے میں سے ہے، اور امریکن اور یورپین رائٹروں کے مطابق اسلام سے ہمارا کوئی ربط نہیں ہے اور اس کو حقیقی اسلام کی حقیقت سے دور اور اجنبی مانتے ہیں ۔

حوالے

۱ سورہ کھف آیت ۲۹

۲ سورہ بقرہ آیت ۱۳۸

دوسرا جلسہ

اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اہمیت اور ضرورت

ہم نے پہلے جلسہ میں اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت اس سلسلے کے منتخب مسائل کو بیان کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس سلسلے میں ہم کیا کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں ، آج ہم خداوندعالم کی مدد سے اس سلسلے میں بحث کریں گے کہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کتنی مہم اور ضروری ہے۔

۱۔ اسلامی انقلاب سے مغرب ومشرق کا برتاؤ

اس بحث کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرنے کے لئے ایک نگاہ اپنے ملک اور اس زمانے کے اسلامی ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں ،اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ دنیا پرست، قدرت طلب، زورگو افراد ہمیشہ تاریخ میں فتنہ وفساد کے باعث بنے ہیں اور جس طرح انسان کی زندگی ماڈرن ہوتی جارہی ہے او رحکومتیں قاعدہ وقانوں اورعلم کی بنیاد پر ترقی کی طرف گامزن ہیں ، فتنہ وفساد کی فعالیت بھی عملی تر اور قواعد وضوابط کے بنیاد پر دقیق تر ہوتی جارہی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی طاقتیں اس نتیجہ پر پہونچ گئی ہیں کہ دنیا کی دو بڑی سُوپر طاقت یعنی مغرب کی ثروتمند طاقت او رمشرق کی مارکسست او رکمیونیسٹ طاقت موجود ہیں اور جنگ کی کامیابی کے بعد دونوں طاقتوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنی قدرت سے دوسرے ممالک کو بھی خوف زدہ کیا جائے تاکہ وہ ان کے مقابلہ میں سر نہ اٹھاسکیں ۔

اور جب بھی کسی نے ان فتنہ گر اور مفسدوں کے مقابلہ میں سراٹھایا ہے ا سکو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان ظالم وستم گروں کا مقابلہ کرنے والے انبیاء اور ان کے پیروکار تھے جو کسی بھی زمانہ میں ستم گروں و ظالموں کے مقابلہ میں تسلیم نہیں ہوئے اسی وجہ سے ظالم و ستمگروں نے انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو اپنا دشمن سمجہا اور ان کے ساتھ دشمن جیسا سلوک کیا ، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد، خصوصاً کلیسا کو جو یورپ میں دینی قدرت کا مظھر تھا میدان سے خارج کرنے بعد یہ گمان کربیٹھے کہ اس وقت دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو ان کے مقابلہ میں آسکے۔

لیکن بیسویں صدی کی آخری تین دھائیوں میں غیر یقینی طور پر ایران کے انقلاب کو دیکھتے ہوئے بہت تعجب ہوا ، شروع میں تو یہ سوجا کہ کہ ایران کا یہ انقلاب ان دوسری انقلابی تحریکوں کی طرح ہے جو کبھی کبھی اسلامی ممالک میں ہوتی چلی آئی تھیں کہ جن کو کلّی طورپر نیست ونابود کردیا گیاتھا، انھوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ ہم اپنے مخصوص تجربات کے ذریعہ اس انقلاب کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینک دیں گے، لیکن جیسے جیسے زمانہ گذرتا گیا انھوں نے دیکھا کہ یہ انقلاب تو دوسری تحریکوں سے بہت نمایاں فرق رکھتا ہے۔

بہر حال اسلامی انقلابِ ایران کے نتیجہ میں اس منطقہ میں ایک بڑی طاقت رونما ہوئی ، انقلاب اسلامی نے مشرق ومغرب پر بھروسہ نہ کیا اور نہ ہی بغاوت جیسی تحریکوں اور فوجی ٹکراؤ کا سھارا لیا ،بلکہ غر ب کو ناکام کرتے ہوئے اسلامی حکومت تشکیل دیدی۔

اسلام دشمن طاقتوں کے پاس دینداری سے مقابلہ کا جو کچھ تجربہ تھا وہ سب انقلاب اسلامی کے نابودی کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا مگر کامیاب نہ ہوسکے ، آپ حضرات کے لئے تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم فقط اشارہ کرتے ہوئے گذرتے ہیں ۔

شروع ِ انقلاب میں ملکی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی ، اس امید میں کہ یھاں پر ایسی ایک حکومت تشکیل دی جائے جو مغرب کے لئے کام کرے، لیکن انھوں نے دیکھا کہ لوگوں کی طاقت وقدرت اس سے کھیں زیادہ ہے کہ یہ گروہوں کو تحریک کرکے انقلاب اسلامی کے لئے کوئی خطرہ ایجاد کریں یھاں تک کہ اپنے مختلف حربے استعمال کیئے منجملہ یہ کہ ایران پر اقصادی پا بند ی لگا ئی عراق کے ذریعہ آٹھ سال تک جنگ تھونپی ان تمام حربوں کے ذریعہ انقلاب اسلامی کو نا کام کرنا چاہتے تھے لیکن خدا کے فضل سے کسی طرح بھی کامیاب نہ ہوسکے۔

۲ ۔ جوانوں کی گمراہی کے لئے مغرب کا ایک ثقافتی حربہ

چونکہ دشمن کسی بھی میدان میں کا میاب نہ ہو سکا تو اس کی امید صرف جوانوں پر آکر رکی کہ ایران کے جوانوں کے لئے فرہنگ (کلچر ) کے لحاظ سے ایک طولانی مدت پروگرام بنا یاجائے ، اور اس پروگرام کے تحت مختلف طریقوں سے ملک میں نفوذ کرنا چاہا (کیونکہ اس سلسلے میں ان کے پاس کافی تجربہ موجود تھا)ان کی کوشش یہ تھی کہ ایک ایسا مرکز بتایاجائے کہ جس کے ذریعہ اپنے افکار ونظریات کو نشر وا شاعت کی جائے اور اس مرکز کے ذریعہ ملت کے مختلف لوگوں تک اپنی تبلیغاتی لھر یں پہونچائی جائیں تاکہ اہستہ اہستہ اپنی مرضی کے مطالق ماحول بنایا جائے ،ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں بھی دوسرے پروگراموں کی طرح انھوں نے اپنے علمی حساب وکتاب کے تحت پروگرام بنا یا۔

چنانچہ جب انھوں نے دیکھا کہ انقلاب کی نسل بڑھاپے کی طرف بڑہ رہی ہے ، اور مستقبل کی نبضوں کو جوانوں کے ھاتھو ں میں دیکھا (وہ جوان کہ جو شاہ کے ظلم وستم سے آگاہ نہیں ہیں اور نہ ہی انقلاب سے پہلے والے ا ور انقلاب کے بعدوالے اسلامی رزمندوں کی جانثار وں سے آگاہ ہیں ، اور صرف وہ اپنی خواہشوں کے پیروں ہیں ان کی مرادیں کبھی مادیات ہوتی ہیں اور کبھی خواہشات ) تو یہ کہ جوان طبقہ جو اس وقت ملت کی اکثریت ہے اس میں کسی طرح سے رسوخ پیدا کیا جائے اور اہستہ اہستہ اپنی مرضی کے مطابق ایسی حکومت بنوائیں حو ان کے نفع کیلئے کام کرے ، اوروہ اسی کشمکش میں تھے کہ پروگرام کو کھاں سے شروع کیا جائے، اور اس جوان نسل کے افکا رو عقائد میں کس طرح نفوذ کیا جائے ، تاکہ ان کی امیدوں کیلئے زمینہ فراہم ہو سکے ،چنانچہ انھوں نے اس سلسلے میں بہت اسٹیڈی کی کہ آخر اس قدر لوگ کیوں حکومت اسلامی کے حامی اور وفادار ہیں یھاں تک کہ تمام مشکلات مالی، مھنگائی، بمباری اور دوسری پریشانیوں کوبھی بر داشت کررہے ہیں پھر بھی حکومت اسلامی کی حمایت سے باز نہیں آتے ،ان تمام چیزوں کو دیکہ کر دشمن اس نتیجہ پر پہونجا کہ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ دین اسلام کے معتقد ہیں ۔

۳۔فرہنگی تین حربے

کیونکہ ایرانی قوم اہل بیت علیہم السلام کے پیروں ہیں اور ائمہ علیہم السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے لئے نمونہ عمل بنایا ہے، اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام کے لئے اپنی جان ومال بھی قربان کر سکتے ہیں اور ان کو یہ اعتقاد ان کی ماں نے دودہ میں پلایاہے ،اور جب تک زندہ رہیں گے، یہ عقیدہ ان کہ دلوں میں باقی رہے گا مگر دشمن اس عقیدہ کو کم رنگ کرنا چاہتا ہے ،اور دشمن کی تمنا یہ ہے کہ آئندہ آ نے والی نسل میں اس طرح کا عقیدہ باقی نہ رہے اور اس طرح اسلامی حکومت اور اسکے ذمہ دار افراد سے بد ظن کردیں ، کیونکہ لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ دین اسلام ہمارا حاکم ہے ،اور حکومت کے حقدار علماء اور دیندار افراد ہیں جن کی سرپرست ولی فقیہ ، ہے ،اور جب تک یہ عقیدہ جوانوں کے درمیان موجود ہے اس حکومت اسلامی کو کوئی نقصان نہیں پہونچ سکتا ۔

چنانچہ دشمن نے سوچا کہ اس اعتقاد کو ختم کرنا چاہئے لیکن کس طرح؟ ظاہر ہے کہ یہ افکار روشن فکر طبقہ کے ذریعہ ہی ان تک پہونچائے جاسکتے ہیں ، لھٰذا یونیورسٹی اور ثقافتی مراکز کے درمیان ایک ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے ذریعہ یہ افکار ملت تک پہونچائے جائیں ، اور ایسے افراد کو بروئے کار لایا جائے جو ان کے افکار کو پھیلائے اور حداقل لوگوں کے دلوں میں خصوصاً جوان طبقہ میں شک ووسوسہ پیدا کریں اور اسلامی حکومت، ولایت فقیہ کی نسبت ان کے عقائد کو ڈاماڈول اور کم رنگ کیا جائے، جوانوں میں حکومتِ اسلامی کی نسبت عقیدہ کو کم رنگ کرنا ہی ان کا مطلوب ہے کیونکہ اگر ان کے دلوں میں شک پیدا ہوگیا تو پھر کوئی دوسرا ۱۳/ سالہ نوجوان کمر سے بم باندہ کر ٹینک کے نیچے نہیں جائےگا، یہ کام تو اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب آخرت اور حساب وکتاب پر ایمان ہو اور اپنے صحیح راستہ کو جانتا ہو،لیکن اگر شک پیدا ہوجائے تو کافی ہے ایک قدم آگے بڑھائے اور پھر پیچھے ہٹ جائے اور یہ شک وتردید دشمن کے لئے کافی ہے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے۔

انہیں مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے زرخرید غلاموں (کہ واقعاً جنھوں نے دھوکہ کھایا) اور اپنے مختلف تجربوں ، او ران لوگوں کے ذریعہ کہ جن کے عقائد واقعاً ضعیف وکمزور ہیں مخفیانہ طور پر ذریعہ اپنے مقاصد کی طرف متوجہ کیا اور درج ذیل چیزوں کے ذریعہ اپنا کام شروع کیا۔

الف:دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا

دشمن کا سب سے پہلا کام دین کو سیاست اور حکومت سے جدا کرنے کی فکر کورائج کرنا تھا اس مسئلہ کی تبلیغ کے لئے راستہ بحد کافی ہموار تھا کیونکہ صدیوں سے مغرب اور یورپ میں اس سلسلہ میں کافی کام ہوچکا تھا بہت سی کتابیں لکھی گئیں کافی مقدار میں ریسرچ کی گئی تھیں جس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں یہ فکر رائج ہوچکی تھی کہ دین سیاست سے الگ ہے۔

اپنے اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ایران میں بھی راستہ ہموار کیا کہ کم از کم کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہو کہ دین سیاست سے جدا اور الگ ہے اگرچہ اس کے لئے تھوڑا بہت راستہ پہلے سے ہی ہموار تھا کیونکہ انقلاب سے پہلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی بعض وہ لوگ جو حکومت کے کارکنان تھے ایسا عقیدہ رکھتے تھے، ان کا اعتقاد یہ تھا کہ دین اور سیاست میں ایک بہت بڑی دیوار حائل ہے اور اس چیز کے پیش نظر تقریریں بھی ہوئیں ،کتابیں بھی لکھی گئیں ، چنانچہ اسی نظریہ کو مزید تقویت ان چیزوں کے ذریعہ جو مغربی ممالک میں کارگر ہوچکی تھیں اوریہ کوئی مشکل کام نہ تھا،دی گئی۔

پس معلوم یہ ہوا کہ دشمن کی ثقافتی کارکردگی میں سے ایک ، دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا ہے، البتہ اس فکر سے تمام لوگ تحت تاثیر قرار نہ پائے کیونکہ جن حضرات نے اس اسلامی حکومت کے لئے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو قربان کیا تھا، مالی قربانی پیش کی ہے ، اور تمام مشکلات کو برداشت کیا ہے، آسانی سے اس فکر سے متاثر نہیں ہونگے، کیونکہ ابھی تک ان کے کانوں میں امام خمینی کی دل نشین آوازیں گونج رہی ہیں ، اور مرحوم مدرس کی یہ آواز کھ” دیانت ماعین سیاست ما است“(ہماری دینداری اور ہماری سیاست ایک ہی ہے) کو اتنی آسانی سے نہیں بھلاسکتے تھے۔

ب: ولایت فقیہ کا انکار

دشمن اور مغرب زدہ روشن فکری کی کارگردی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ملت میں یہ فکر ایجاد کریں کہ اگرچہ سیاست اور اجتماعی کاموں میں دین دخالت رکھتا ہے اور معاشرہ میں بھی اسلامی احکامات جاری ہونے چاہئے ، اور سیاست میں بھی دینی امور کی طرف توجہ ہونا چاہئے، لیکن اسلامی حکومت کے معنی فقھاء کی حکومت نہیں ہے بلکہ اسلامی پارلیمینٹ میں قوانین کا طے ہونا کافی ہے، بعض قوانین کا دین کے خلاف نہ ہونا اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں دین کے مطابق قوانین جاری ہوگئے اور بس ، اسلامی حکومت کے معنی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ۔

پس دوسرا حصہ دشمن کی سیاست کا یہ تھاکہ اگر تمام لوگوں کو اس بات پر قانع نہ کرسکے کہ دین سیاست سے الگ ہے اور وہ اس بات کے قائل رہے کہ دین اور سیاست باہم ہیں تو ہم کھیں گے کہ دین اور سیاست باہم ہیں لیکن دینی حکومت کا مطلب یہ ہے کہ دینی احکام جاری ہوں ، لیکن ان احکام کامجری (جاری کرنے والا) کون ہے؟اس مسئلہ کا دین سے کوئی ربط نہیں ،بلکہ احکام دینی کو جاری کرنے کے لئے لوگوں نے جس کا انتخاب کرلیا وہی حاکم ہے، پس اسلامی حکومت کا مطلب اسلامی قوانین کا جاری کرنا ہے، نہ کہ حاکم متدین ، مومن اور فقیہ ہو،یعنی دین کی سیاست میں دخالت کو قبول کرتے ہیں لیکن دین احکام کا مجری فقیہ اور مجتھد ہو اس کو قبول نہیں کرتے ، یا یہ کہ حکوت کا سربراہ ولی فقیہ ہو ، غیر قابل قبول ہے۔

اس سلسلہ میں (یعنی ولایت فقیہ کے ذریعہ حکومت نہ ہونے کے سلسہ میں ) بہت کوششیں کیں اور اس وقت بھی ان کی یہ کوشش جاری ہے، مختلف اخباروں ، ماہناموں اور دیگر مختلف طریقوں سے ان مطالب کو منتشر کیا جارہا ہے اور اسی سلسلہ میں یونیورسٹی اور دوسرے مراکز میں میٹیگ کرتے رہتے ہیں تاکہ ابھی تک جو متدین حضرات دین کو سیاست سے جدا نہ ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں یہ فکر ڈالیں کہ اسلامی حکومت قابل قبول ہے لیکن ولایت فقیہ کی ضرورت نہیں ہے۔

اس قسم کا تبلیغی مشن، اسلامی احکامات اور فقھی بنیادوں سے نابلد جوانوں میں موثر ہوسکتا ہے خصوصاً جبکہ اس سلسلے میں ثقافتی وسائل کے ذریعہ بھر پور تبلیغات کی جائے، اور وسیع مالی امکانات کو اس کے لئے خرچ کیا جائے، لیکن پھر بھی ایسے افراد موجود ہیں جن پر ان کی تبلیغات کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور ولایت فقیہ کو جیسا کہ قانون اساسی میں بھی اسی کو محور قرار دیا گیاہے، اپنی تمام زندگی میں اہمیت دیتے ہیں اور جیسا کہ دنیا بھر میں یہ انقلاب، انقلابِ ولایت فقیھ، اور حکومت، حکومتِ ولایت فقیہ کے نام سے مشہور ہے، اور سبھی ولایت فقیہ کے پابند ہیں ۔

ج۔ ولایت فقیہ کو موردِ اعتراض قرار دینا

ظاہر ہے کہ جو لوگ ولایت فقیہ کے قائل ہیں ان کے درمیان ان لوگوں نے نفوذ کرنے کا دوسرا طریقہ انتخاب کیا وہ اس طرح کہ لوگوں میں اس فکر کو رائج کیا جائے کہ ایران میں موجودہ ولایت فقیہ مخدوش(قابل اعتراض) ہے، اور اس پر تجدید نظر کی جانی چاہئے اور یہ ولایت فقیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ڈیموکراسی(جمہوریت) اور لیبرالیزم کے اصولوں سے میل نہیں کھاتی، ولایت فقیہ کو اس طرح ہونا چاہئے کہ دور حاضر میں موجودہ ڈیموکراسی سے ہم اہنگ ہو،اور آج کی دنیا میں جو اصول وضوابط مسلم اور قابل قبول ہیں ان سے ولایت فقیہ متفق ہو، پس دشمن کی تیسری فکری سازش جمہوری اسلامی ایران میں ولایت فقیہ کو مخدوش کرناہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ عالمی استکبار اوردشمن ِ اسلام عملی اور فکری تین طریقوں سے اس اسلامی حکومت کو ضعیف کرنا چاہتاہے اور اس سلسلے میں انھوں نے خاص پروگرام بھی بنائے اور آج بھی اس طرح کے پروگرام بناتے رہتے ہیں لیکن ان کی امیدیں آنے والی نسل تھی کہ جس لئے انھوں نے ایک لمبافکری پروگرام بنارکھا تھا۔

اور اس فکری پروگرام کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ دین کو سیاست سے دور ہونے کی فکردے اس امید میں کہ ایک طبقہ اس کو قبول کرے گا۔

دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے لیکن اسلامی حکومت کا ولایت فقیہ سے کوئی ربط نہیں ہے،یہ نظریہ بھی ایک طبقہ میں قابل قبول ہوسکتا ہے۔

تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ جو لوگ ولایت فقیہ پر ایمان راسخ رکھتے ہیں ان میں یہ نظریہ رائج کریں کہ ولایت فقیہ مورد قبول ہے لیکن ایران میں جو ولایت فقیہ ہے اس کی فعلی صورت کو تبدیل ہونا چاہئے، خلاصہ دشمن ہر ممکن ذریعہ سے کوشش میں ہے کہ جوانوں کے درمیان شک وشبہ پیدا کرے تاکہ اسلامی حکومت کے سلسلے میں ان کا اعتقادضعیف وکمزور ہوجائے، اوراگر ایسا ممکن ہوا توپھر عالمی استکبار کے نفوذ کے لئے راستہ ہموار ہوجائے گا اور اسلامی معاشرے اور اسلامی حکومت میں نفوذ ہوجائےگا۔

جو لوگ ان تینوں نظریات میں سے کسی ایک کا شکار ہوگئے چاہے وہ کسی بھی جگہ ہوں ، کسی بھی مقام ومنزلت پرفائز ہوں گویا انھوں نے عالمی استکبار کی مددا ورنصرت کی اور استکبار کو اپنے اغراض ومقاصد تک پہونچنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

۴۔دشمن کی مذکورہ سازشوں کے مقابلے میں ہمارا وظیفہ

چونکہ دشمن نے مذکورہ سازشوں میں اپنی پوری طاقت صرف کی ہے لھٰذا وہ حضرات جواس حکوت کودل وجان سے چاہتے ہیں (اور الحمد للہ لوگوں کی اکثریت اس حکومت کو دل وجان سے چاہتی ہے اور اس کا نمونہ وہ عظیم مظاہرے ہوتے ہیں جو بعض موقع پر ہوتے رہتے ہیں اور تمام دنیا کو تعجب میں ڈال دیتے ہیں ) ان لوگوں کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ دشمن ان تین طریقوں سے انکے درمیان نفوذ نہ کرے، اور ان کوایسی کوشش کرنا چاہئے کہ جس سے لوگوں کا یہ عقیدہ راسخ تر ہوجائے کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے اور انہیں اس بات کا یقین ہوجائے کہ دوسرے ین اگر سیاست سے جدا ہوں تو ہوں ، لیکن اسلام سیاست سے جدا نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ اپنے دلوں میں یہ نظریہ راسخ کرلیں کہ حکومتِ اسلامی کا مطلب فقط یہ نہیں کہ پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بن جائیں یا یہ کہ وہ قوانین اسلام کے مخالف نہ ہوں ، بلکہ اسلامی حکومت کی حقیقت یہ ہے کہ قانوں کو جاری کرنے والے اسلام کے دلسوز اور اسلام کی پہچان رکھنے والے ہوں اور احکام الہی کو جاری کرنے میں اپنی پوری توجہ صرف کریں ، ورنہ اگر قانون کاغذ پر لکھے جائیں اور اس کو جاری کرنے والے ہی ان قوانین کاپاس ولحاظ نہ رکھیں تو اس سے لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا؟

کیا شاہ کے زمانے کے قوانین اساسی میں ایران کا رسمی مذہب شیعہ نہیں تھا؟ لیکن یہ قوانی کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوئے کیونکہ شاہ کی حکومت کافر اور دشمنوں سے بے حد متا ثر تھی جس کی وجہ سے اسلامی قوانین پرعمل نہیں ہوتا تھا۔

اگر قوانین صرف کاغذ پر لکھے ہوئے ہوں اور ان کا جاری کرنے والا مومن ومتدین اور قدرتمند نہ ہو تواس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، لھٰذا اگر اسلامی پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بنائے جائیں لیکن جو شخص ان قوانین کی نظارت کررہا ہے وہ اسلام کا دلسوز نہ ہو اور اس قدر قدرت نہ رکھتا ہوکہ ان قوانین کو جاری کرسکے، توایسے قوانین کو جاری ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ، لھٰذا دوسری ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم روز بروز ولایت فقیہ کے اعتقاد کو پختہ ترکریں ، تاکہ ہمارے یقین میں بھی اضافہ ہو اور ہماری نسلوں میں بھی یہ عقیدہ باقی رہے کہ ولایت فقیہ کے بغیر اسلامی حکومت ناممکن ہے۔

ان دومرحلوں کے بعد تیسرے مرحلے کی باری آتی ہے کہ یہ ولایت فقیہ کی موجودہ شکل وصورت جو اس وقت ایران می تقریباً ۲ ۰ سال سے ہے یہ وہی شکل وصورت ہے جس کو اہل بیت علیہم السلام نے بیان کیا ہے یا یہ کہ اس کی شکل وصورت کو عوض ہونا چاہئے؟

یہ تیسرا مرحلہ ایک فرعی مرحلہ ہے کہ جو گذشتہ دومرحلوں کے بعد ہے لھٰذا پہلے ان دومرحلوں پر بحث کرنا ضروری ہے اور انہیں دو مسئلوں کی بنیاد پر ہماری بحث اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت تشکیل پاتی ہے۔

۵۔دشمن کی سازشوں کے مقابلہ میں بہت رینراستوں کا انتخاب

مذکورہ مطالب سے واضح ہوجاتا ہے کہ دشمن نے اپنی تمام تر طاقت اپنی مندرجہ ذیل سازشوں میں صرف کردی:

۱۔دین وسیاست میں جدائی کرنا۔

۲۔اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ میں جدائی کرنا۔

۳۔ایران میں ولایت فقیہ کی کارگردگی میں شک وتردید کا ایجادکرنا۔

لھٰذا طبیعی طورپر ہمارا بھی تین گروہوں سے مقابلہ ہے پہلا گروہ وہ ہے کہ جس نے یہ قبول کرلیا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے یعنی مساجد، امامبارگاہ جدا ہیں اور سیاست وحکومت جدا ہے، لھٰذا ان لوگو ں سے بحث کرنے کے لئے ہمیں ایک خاص راستہ اپنانا پڑے گا۔

دوسرا گروہ وہ ہے جس نے اسلامی حکومت کو تو قبول کیا ہے لیکن اس کے احکام کے مجری کے سلسلے میں چوں وچراکرتے ہیں ، ان لوگوں سے بحث کرنے کا انداز دوسرا ہونا چاہئے، کیونکہ اگر فرض کریں کہ کوئی خدا ہی کا قائل نہیں ہے تو اس سے بحث اس طرح شروع کی جائے تاکہ خدا کا اثبات ہوسکے اوراس کے بعد نبوت عامہ (تمام انبیاء کی نبوت) اور نبوت خاصہ (حضرت محمد مصطفی کی نبوت) کے بارے میں بحث کی جائے لیکن اگر کوئی خدا اور بعض انبیاء کو قبول کرتا ہو لیکن حضرت محمد مصطفی کی نبوت کا منکر ہو تو اس سے نبوت خاصہ کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی۔

بہر حال جو لوگ خداوندعالم کو قبول کرتے ہیں لیکن پیغمبر اکرم کی نبوت کو قبول نہیں کرتے تو آنحضرت کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ پہلے خدا کے اثبات سے بحث شروع کی جائے کیونکہ اس کے لئے یہ طے شدہ ہے کہ کوئی خدا ہے اور اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجا ہے اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی مناسب راستہ اپنانا چاہئے اور جس سلسلہ میں ہم بحث کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے اصول اور مقدمات پر موقوف ہے کہ بعض لوگ قبول کرتے ہیں اور بعض لوگ ا ن کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے۔

لھٰذا مذکورہ بحث کے سلسلہ میں ہمیں بھی چند طریقوں سے بحث کرنا ہوگی اور اس کے لئے مختلف روش درکار ہیں یعنی ممکن ہے بعض جگہ فقط عقلی دلیلوں کے ذریعہ اپنا مدعی ثابت کریں اور جس چیز کو انسان کی عقل درک کرتی ہے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا سھارا نہ لیں ، ایسی صورت میں عقلی برہانوں کے ذریعہ بحث کو آگے بڑھائیں گے بالکل اسی طرح کہ اگر کوئی خدا کو نہ مانتا ہو اور اس کے سامنے خدا کے وجود کوثابت کرنا ہو تو ایسے موقع پر قرآن اور معصومین علیہم اسلام کی احادیث کے ذریعہ اثبات کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ وہ ابھی خدا کو ہی نہیں مانتا ، توقرآن وحدیث کو کس طرح قبول کرسکتا ہے؟!

اس کو سمجہانے کے لئے فقط عقل سے کام لینا پڑے گا اور اس کو عقلی دلیلوں کے ذریعہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہوگا، اسی طرح جن لوگوں نے اسلامی حکومت کو قبول کیا ہے وہ لوگ ایک قدم آگے ہیں تو ان لوگوں سے بحث کرنے کے لئے ایسا راستہ اپنا ناپڑے گاجو دینی باتیں قبول کرتے ہیں ان کے سامنے وہ دلیلیں بیان کریں جو محتوائے دین کو بیان کریں یعنی ان سے بحث کرنے کے لئے قرآن وحدیث اور تاریخی شواہد کو مدرک قرار دینا ہوگا۔

لیکن اگر حکومت کی کارگردگی کی بحث کی جائے تو تاریخی شواہد ومدارک کو مدنظر رکہ کر بحث کی جائے یھاں پر عقلی نقلی وتعبدی (قرآن وسنت) بحث نہیں ہوگی۔

خلاصہ یہ کہ ہماری بحث بھی مختلف پہلو رکھتی ہے لھٰذا ہماری بحث بھی مختلف طریقوں سے ہوگی، بعض جگہ عقلی طریقہ سے بحث ہوگی اور بعض جگہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بحث ہوگی ، اور بعض دوسری جگہ پر تاریخ کا سھارا لیا جائے گا، یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ بعض افراد بحث کے درمیان ہم پر اعتراض نہ کریں کہ یہ بحث عقلی ہے یا شرعی؟ اس وجہ سے پہلے یہ عرض کردینا مناسب سمجہا کہ ہماری بحث کے مختلف طریقے ہوں گے ، بحث کو اس کے مناسب طریقہ سے مورد تحقیق وبررسی قرار دیا جائے گا۔

۶۔دین کی تعریف اور اس کے حدود

یھاں پر ایک دوسرا مہم مسئلہ بھی ہے جس پر مستقل طور پر جدا گانہ بحث ہوسکتی ہے لیکن اس وقت صرف اس کی طرف اشارہ کریں گے:

یھاں پر بحث یہ ہے کہ دین کے حدود کھاں تک ہیں ؟ جس وقت ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ حکومت ودین میں کیا ربط ہے اور دین وسیاست کا جدا کرنا صحیح ہے یا نھیں ۔

تو سب سے پہلے خود دین کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے کہ دین کیا ہے دین کی صحیح تعریف ہمارے پاس ہونا چاہئے تاکہ اس کی بنیاد پر ہم اس کے حدودمعین کرسکیں ، اس سلسلے میں بعض لوگوں نے سعی فرمائی ہے مگر ایک دوسرے عنوان سے ،وہ اس طرح کہ آیاانسان کو دین کی ضرورت ہے یا نھیں ؟ اس چیز کو مورد بحث قرار دیتے ہیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دین کی انسان کی زندگی میں کیا دخالت ہے اس مرحلہ کی تحقیق وبررسی کے بعد ان لوگوں نے اس بحث کو مورد بحث قرار دیا کہ اسلام میں سیاست،دین کا جز ہے یا نھیں ؟ بہر حال ان لوگوں نے اس سلسلہ میں بہت سی بحثیں کی ہیں ، جیسا کہ آپ حضرات بھی ان بحثوں سے کم وبیش واقف ہیں ۔

”مثلاًدین سے ہماری امیدیں “ یعنی دین سے ہماری امیدیں حداقل درجہ پر ہیں یا حد اکثر درجہ پر (یعنی کیا دین انسان کی تمام زندگی کے مسائل کو شامل ہوتا ہے؟یا یہ کہ انسان کی زندگی کے بعض پہلوں کو شامل ہوتا ہے، بقیہ امور میں انسانی زندگی کے اکثر مسائل کو عقل و علم اور لوگوں کی مرضی کے مطابق حل ہوتے ہیں )وہ حضرات جو دین کو حکومت سے الگ گردانتے ہیں جس وقت انھوں نے دین کی تعریف فرمائی تو ایسی تعریف کی جو سیکولریزم کے عقیدہ کے موافق تھی مثلاً دین کی یوں تعریف فرماکی کہ : دین یعنی انسان کا خدا سے معنوی رابطہ یا اس سے ایک قدم اور آگے رکھا اور کھادین وہ چیز ہے کہ جو انسان کی آخرت (اگر آخرت کو قبول کرتا ہو )کی زندگی میں موثر اور کارگر ہو،یعنی دین کا کام یہ ہے کہ انسان کی زندگی کو آخرت سے ہم اہنگ کرے ۔

اور یہ بات واضح ہے کہ اگر دین کی اس طرح تعریف کی جائے تو پھر یہ کہنا بہت آسان ہے کہ دین کاسیاست سے کیا رابطھ؟سیاست کا خدا سے انسانی رابطہ کا کیا دخل؟سیاست تو صرف انسانوں کے درمیان ایک دوسرے سے رابطہ کو بیان کرتی ہے، اور سیاست دین سے الگ ہے، سیاست انسان کی دنیاوی زندگی سے متعلق ہے اور اس کا عالم آخرت سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور اگر دین کے حدود صرف یہ ہوں کہ جہاں انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رہے اور جہاں عقل خود فیصلہ اور قضاوت نہ کرسکتی ہو تو پھر وہاں دین سے کوئی رابطہ نہیں کیونکہ دین کے حدود وہاں تک محدود ہیں کہ جہاں پر عقل کی رسائی اور پہنچ نہ ہو ۔

لھٰذا اگر ہم نے دین کی مذکورہ تعریف کے مطابق اس کے حدود کو محدود کردیااور اس بات کے قائل ہوگئے کہ جن مسائل کو ہماری عقل حل کرسکتی ہے وہاں دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہم کو دین کی ضرورت وہاں ہے کہ جہاں ہماری عقل مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہو، چنانچہ جسیے جیسے زمانہ گزرتا جارہا ہے اور انسان ترقی کررہا ہے دین کی ضرورت کم ہوتی جارہی ہے چونکہ اس بنیاد پر دین کی ضرورت وہاں ہے کہ جہاں عقل ان مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہے۔

چونکہ شروع میں انسان علم و تمدن نہیں رکھتا تھا،لھٰذا اس کو دین کی ضرورت بہت زیادہ تھی اور چونکہ انسان خود اپنی عقل سے مسائل کو نہیں سمجھ سکتا تھا لھٰذا اس کو دین کی ضرورت تھی اور اہستہ اہستہ اس کو دین کی ضرورت کم ہوتی گئی،اور اس آخری زمانہ میں انسان کو دین کی ضرورت تقریبا ً نہیں ہے، ھاں بعض ان جزئی مسائل میں ہے جن کو عقل انسان ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہے اور کوئی امید بھی نہیں ہے کہ ان کو جلد ہی حل کرلیا جائے گا، ان مسائل میں ابھی بھی دین کی ضرورت ہے،(افسوس کہ یہ وہ لوگ ہیں جومسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اورپھر یہ اعتراض ا ور اشکال کرتے ہیں کہ اس وقت چونکہ عقل بشری کامل ہوگئی ہے،لھٰذا اب دین و وحی کے قوانین کی ضرورت نہیں ہے ) بہر حال مذکورہ دین کی تعریف کے مطابق نتیجہ یہ ہوگا کہ سیاست کا دین سے کوئی رابطہ نہیں ہے،اور جب ہم عقلی کوششوں اور عقلی استدلالوں کے ذریعہ تمام سیاسی مسائل کوحل کرسکتے ہیں ، تو پھر دین کیا ضرورت ہے؟

المختصر یہ کہ اب تک جو ہم نے بیان کئے وہ اس سلسلے کے چند اعتراضات اور اشکالات تھے، اوراب ہم اس کا مختصرا ًجواب عرض کرتے ہیں اور شروع ہی گوش گذار کردیں کہ دین کی تعریف کی گئی ہے اور اس کی بنیاد پر دین کو فقط اخروی زندگی سے مربوط اور خدا سے انسانی رابطہ مانتے ہیں ہماری نظرمیں باطل اور بے نیاد ہے، اور یہ نظریہ کہ دین سے سیاسی مسائل کا یعنی انسان کے سیاسی مسائل کا خدا سے کوئی ربط نہیں ،یہ ساری چیزیں انسان اور خدا کے روحانی رابطہ سے جداگانہ ہیں ، یہ بھی بے بنیاد اور بے ہودہ گفتگو ہے اور اس کا حقیقت دین سے کوئی ربط نھیں ، یہ دین کی نامکمل تعریف ہے، بلکہ دین وہ طریقہ ہے جو انسان کو صحیح رفتار وکردار پر گامزن رکھے یعنی اس طرح انسان کو بنادے کہ جس طرح خدا چاہے،یعنی اگر انسان اپنے اعتقاد اور اپنی فردی واجتماعی زندگی میں خدا کی مرضی کے مطابق قدم اٹھائے تو ایسا شخص دیندار ہے اور ا سکے مقابل اگر انسان کا عقیدہ خدا کی مرضی کے مخالف ہو او ران عقائد کو قبول کرے جو خدا کو ناپسند ہیں اور اس کی انفرادی واجتماعی زندگی کے اعمال و رفتار خدا پسندانہ نہ ہوں ، تو اس کا دین بھی ناقص ہوگا،خلاصہ یہ کہ دین تما م مذکورہ چیزوں کو شامل ہے۔

۷۔دینی طریقوں سے دینی معرفت کی ضرورت

اگر ہم دین کی تعریف کرنا چاہیں تو ہمیں دیندار اور دینی بزرگوں کی تعریف دیکھنا ہوگا کہ ان حضرات نے دین کی کس طرح تعریف کی ہے؟ او راگر ہم خود اپنے ذہن سے دین کی تعریف کریں اور من گھڑت تعریف کی بناپر کھیں کہ سیاسی اور اجتماعی مسائل دین سے خارج ہیں یا یہ کہ سیاسی واجتماعی مسائل کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے جیسا کہ دین کی ہم نے تعریف کی ہے نہ جیسا کہ خدا نے دین کو بھیجا ہے ،پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ دین خدا کی معرفت او را سکو سمجھنے کے لئے خود اپنے طور وطریقہ اور اپنی فکر کے مطابق دین کی تعریف نہ کریں بلکہ دین کی معرفت ا ورشناخت کے لئے ضروری ہے کہ دینی منابع ومآخذ کے ذریعہ دین کے بارے میں تحقیق کریں ۔

ھوسکتا ہے کہ کوئی یہ کھے : میں دین کو نہیں مانتا، کیونکہ اسلام کے صحیح ہونے پر جو دلیلیں قائم ہوئی ہیں وہ ضعیف ہیں یا (نعوذ باللہ) یہ کھے کہ ہمارے پاس اسلام کے جھوٹ اور باطل ہونے پر دلیل موجود ہے ، اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے ،تو یہ دعوی منظقی اور صحیح نہیں ہے، البتہ اگر کوئی اسلام کو قبول کرے ، او رپھر وہ کھے کہ جو میں کھتا ہوں وہی دین ہے نہ یہ کہ جو قرآن، پیغمبر اور ائمہ (ع) کھتے ہیں او رجس کے مسلمان معتقد ہیں ، اگر کوئی اسلام کے حق یا نا حق ہونے کے بارے میں بحث کرے چاہے وہ اس کی طرفداری کرے یا اس کی ردّ کرے ، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ اسلام کی معرفت اور پہچان حاصل کرے اور بے شک اسلام کی پہچان کے لئے خدا کے فرمان کی طرف رجوع کرے، جس نے اسلام کو بھیجا ہے ، لھٰذا قرآن کے ذریعہ اسلام کو پہچانا جائے، اس حقیقت کے پیش نظر ہم نے کھا کہ دین کی پہچان، اس کی تعریف اور اس کی فرمانروائی کے دائرے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دینی منابع، یعنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں ، نہ یہ کہ اپنی مرضی کے مطابق یا کسی امریکن اوریورپین (کہ جن کی باتیں ہمارے نزدیک غیر معتبر ہیں )کے کھنے کے مطابق دین کی تعریف کریں ۔

لھٰذا اگر کوئی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس اسلام کے مطابق گفتگو کرے جس کو قرآن، پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام نے بیان کیا ہے، او راسی اسلام کی بنیاد پر جس کی اصل قرآن وسنت ہے دین کی تعریف اور اس کے فرمانروائی کے دائرے کو سمجھیں نہ یہ کہ کسی مستشرق (مشرقی زبان دان اور ماہرعلوم) ،مولف اور سیاست مدار کی غرض کے تحت اسلام کی تعریف شدہ تعریف کو اپنائیں یا کسی (یورپی)دائرة المعارف (معلومات عامہ کتاب) کے مطابق اسلام کی تعریف کریں ایسے اسلام سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اسلامِ حقیقی کے طرف رجوع کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ دین کی فرمانروائی کا دائرہ انسان کی عقل وفہم پر ختم نہیں ہوتا بلکہ عقل، اسلامی شناخت کے طریقوں میں سے ایک ہے، اور اگر کوئی عربی زبان سے تھوڑی بھی واقفیت رکھتا ہو (اورقرآن کی تفسیر سے چاہے اجمالی ومختصر تفسیر سے آشنا ہو) جس وقت قرآن کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن نے اجتماعی مسائل کو نہیں چھوڑا اور ان کو بیان کیا ہے، پس کس طرح یہ کھاجاسکتا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے۔

اگر دین کے معنی قرآن کے مطابق کئے جائیں تو دین میں اجتماعی اور سیاسی مسائل شامل ہیں اور اس میں عبادت وذاتی اخلاقیات کے علاوہ قوانین مدنی ،قوانین جزائی (جرائم) اورعالمی قوانین موجود ہیں ، اور گھریلو زندگی ،شادی بیاہ،تربیت اولاد، کاروبار اور تجارت وغیرہ جیسے مسائل کو بیان کیا ہے، پس کون سی چیز ایسی ہے جو دین سے خارج ہے؟ معاملات،تجارت، اور رہن (گروی رکھنا) کے بارے میں قرآن مجید میں بڑی بڑی آیات موجود ہیں ، اگر اسلام کو قرآن کے ذریعہ پہچانے تو پھر کس طرح کوئی کھہ سکتا ہے کہ اسلام کا اجتماعی سے کیا ربط؟

اگر نکاح وطلاق دین کا جز نہ ہوں ، اگر تجارت، رہن خرید وفروخت اور سود دین سے مربوط نہ ہوں ، اسی طرح ولایت کا مسئلہ اور ولی امر کی اطاعت دین کا جز نہ ہوں تو پھر دین میں کیا باقی بچتا ہے؟! او ر آپ کس دین کی باتیں کرتے ہیں ؟ قرآن کریم نے مسلسل ان چیزوں کے بارے میں گفتگو کی ہے۔

اگر کوئی یہ کھے کہ جس دین میں اجتماعی وسیاسی مسائل کو شامل کیا جائے ہم اس دین کو نہیں مانتے! ٹھیک ہے نہ مانئے ، اسلام کو نہ ماننے والوں کی تعداد کوئی کم نہیں ہے ، اس وقت بھی بہت سے لوگ دین کو نہیں مانتے، ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں ، لیکن اگر وہ چاہتے ہیں تو آئیں او رہم سے بحث کریں تاکہ اس اسلامِ کامل کو ان کے لئے ثابت کریں او راگر نہیں چاہتے تو جو راستہ چاہیں اپنائیں :

( وَقُلِ الحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُومِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ ) (۱)

”(اے رسول) تم کھدو کہ سچی بات (کلمہ توحید) تمھارے پروردگار کی طرف سے (نازل ہوچکی ہے) بس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے“

لیکن اگر وہ کھیں کہ ہم اسلام کو قبول کر تے ہیں لیکن پھر اسلام کو ان مسائل پر شامل ہونے کا انکار کرتے ہیں ، او راسلام کے اکثر اجتماعی مسائل پر کیوں اعتراض کرتے ہیں ؟ کیا جو کچھ قرآن وسنت میں موجود ہے اسلام نہیں ہے؟ کہ تم لوگ نہ نماز کو قبول کرتے ہو اور نہ ہی دوسری عبادتوں کو ؟ تمھارا ایمان نہ اسلام کے اجتماعی مسائل پر ہے اور نہ ہی اس کے سیاسی مسائل پر، نہ تم اسلامی نکاح کو قبول کرتے ہو اور نہ ہی طلاق کو، اور اسی طرح دوسرے احکام کو قبول نہیں کرتے، تو پھر اسلام میں کیا چیز باقی ہے کہ جس اسلام کا تم دم بھرتے ہو وہ کیا ہے؟ یہ باتیں صرف سادہ لوح افراد کے لئے موثر ہوسکتی ہیں لیکن دانشمنداور پڑھے لکھے افراد کے لئے بے مایہ اور فضول ہیں ،بہر حال دین یعنی انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ کے ساتھ ہونا:

( صِبْغَةُ اللّٰه وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰه صِبْغَةً ) (۲)

”(مسلمانوں سے کھدو کہ) رنگ تو خدا ہی کا رنگ ہے جس میں تم رنگے ہوئےھو“

انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ میں بھی ہوسکتی ہے اور شیطانی رنگ وڈھنگ میں بھی، لیکن اگر انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ میں ہو تو پھرواقعاً اسلام کامل ہے ،اگر ہم چاہیں کہ الہی رنگ وڈھنگ اور اس کی مرضی کے بارے میں گفتگو کریں تو پہلے ہمیں دینی منابع کوپہچاننا ضروری ہے اور اسلام کی شناخت کے لئے قرآن، سنت اور عقل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اور یھی طریقے اسلام کے تما م عبادی، سیاسی، اجتماعی او رانفرادی مراحل کو شامل ہے۔

اور جیسا کہ ہم نے کھا کہ قرآن پر ایک سرسری نظر کافی ہے تاکہ ہمارے لئے یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ دین جو قرآن میں موجود ہے او رقرآن دین کا اصل منبع ہے، ممکن نہیں کہ اس اسلام میں سیاسی اور اجتماعی مسائل کو چھوڑ دیا گیا ہو اور قوانین کا مجموعہ سیاسی اور اجتماعی مسائل سے خالی ہو، یھاں تک کہ عبادی مسائل سے بھر پور ہو،اور یہ سلسلہ اسلام سے مرتبط نہیں ہے، کیونکہ وہ اسلام جو قرآن نے بیان کیا ہے ہم اس اسلام کا دفاع کرتے ہیں اور یہ اسلام سیاسی، اجتماعی اور عبادی مسائل کو شامل ہے اور سیاست اسلام کے مہم ارکان اور اس کے فرمانروائی کے اصل دائرے میں سے ہے، اور امریکن اور یورپین رائٹروں کے مطابق اسلام سے ہمارا کوئی ربط نہیں ہے اور اس کو حقیقی اسلام کی حقیقت سے دور اور اجنبی مانتے ہیں ۔

حوالے

۱ سورہ کھف آیت ۲۹

۲ سورہ بقرہ آیت ۱۳۸

دوسرا جلسہ

اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اہمیت اور ضرورت

ہم نے پہلے جلسہ میں اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت اس سلسلے کے منتخب مسائل کو بیان کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس سلسلے میں ہم کیا کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں ، آج ہم خداوندعالم کی مدد سے اس سلسلے میں بحث کریں گے کہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کتنی مہم اور ضروری ہے۔

۱۔ اسلامی انقلاب سے مغرب ومشرق کا برتاؤ

اس بحث کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرنے کے لئے ایک نگاہ اپنے ملک اور اس زمانے کے اسلامی ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں ،اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ دنیا پرست، قدرت طلب، زورگو افراد ہمیشہ تاریخ میں فتنہ وفساد کے باعث بنے ہیں اور جس طرح انسان کی زندگی ماڈرن ہوتی جارہی ہے او رحکومتیں قاعدہ وقانوں اورعلم کی بنیاد پر ترقی کی طرف گامزن ہیں ، فتنہ وفساد کی فعالیت بھی عملی تر اور قواعد وضوابط کے بنیاد پر دقیق تر ہوتی جارہی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی طاقتیں اس نتیجہ پر پہونچ گئی ہیں کہ دنیا کی دو بڑی سُوپر طاقت یعنی مغرب کی ثروتمند طاقت او رمشرق کی مارکسست او رکمیونیسٹ طاقت موجود ہیں اور جنگ کی کامیابی کے بعد دونوں طاقتوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنی قدرت سے دوسرے ممالک کو بھی خوف زدہ کیا جائے تاکہ وہ ان کے مقابلہ میں سر نہ اٹھاسکیں ۔

اور جب بھی کسی نے ان فتنہ گر اور مفسدوں کے مقابلہ میں سراٹھایا ہے ا سکو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان ظالم وستم گروں کا مقابلہ کرنے والے انبیاء اور ان کے پیروکار تھے جو کسی بھی زمانہ میں ستم گروں و ظالموں کے مقابلہ میں تسلیم نہیں ہوئے اسی وجہ سے ظالم و ستمگروں نے انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو اپنا دشمن سمجہا اور ان کے ساتھ دشمن جیسا سلوک کیا ، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد، خصوصاً کلیسا کو جو یورپ میں دینی قدرت کا مظھر تھا میدان سے خارج کرنے بعد یہ گمان کربیٹھے کہ اس وقت دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو ان کے مقابلہ میں آسکے۔

لیکن بیسویں صدی کی آخری تین دھائیوں میں غیر یقینی طور پر ایران کے انقلاب کو دیکھتے ہوئے بہت تعجب ہوا ، شروع میں تو یہ سوجا کہ کہ ایران کا یہ انقلاب ان دوسری انقلابی تحریکوں کی طرح ہے جو کبھی کبھی اسلامی ممالک میں ہوتی چلی آئی تھیں کہ جن کو کلّی طورپر نیست ونابود کردیا گیاتھا، انھوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ ہم اپنے مخصوص تجربات کے ذریعہ اس انقلاب کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینک دیں گے، لیکن جیسے جیسے زمانہ گذرتا گیا انھوں نے دیکھا کہ یہ انقلاب تو دوسری تحریکوں سے بہت نمایاں فرق رکھتا ہے۔

بہر حال اسلامی انقلابِ ایران کے نتیجہ میں اس منطقہ میں ایک بڑی طاقت رونما ہوئی ، انقلاب اسلامی نے مشرق ومغرب پر بھروسہ نہ کیا اور نہ ہی بغاوت جیسی تحریکوں اور فوجی ٹکراؤ کا سھارا لیا ،بلکہ غر ب کو ناکام کرتے ہوئے اسلامی حکومت تشکیل دیدی۔

اسلام دشمن طاقتوں کے پاس دینداری سے مقابلہ کا جو کچھ تجربہ تھا وہ سب انقلاب اسلامی کے نابودی کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا مگر کامیاب نہ ہوسکے ، آپ حضرات کے لئے تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم فقط اشارہ کرتے ہوئے گذرتے ہیں ۔

شروع ِ انقلاب میں ملکی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی ، اس امید میں کہ یھاں پر ایسی ایک حکومت تشکیل دی جائے جو مغرب کے لئے کام کرے، لیکن انھوں نے دیکھا کہ لوگوں کی طاقت وقدرت اس سے کھیں زیادہ ہے کہ یہ گروہوں کو تحریک کرکے انقلاب اسلامی کے لئے کوئی خطرہ ایجاد کریں یھاں تک کہ اپنے مختلف حربے استعمال کیئے منجملہ یہ کہ ایران پر اقصادی پا بند ی لگا ئی عراق کے ذریعہ آٹھ سال تک جنگ تھونپی ان تمام حربوں کے ذریعہ انقلاب اسلامی کو نا کام کرنا چاہتے تھے لیکن خدا کے فضل سے کسی طرح بھی کامیاب نہ ہوسکے۔

۲ ۔ جوانوں کی گمراہی کے لئے مغرب کا ایک ثقافتی حربہ

چونکہ دشمن کسی بھی میدان میں کا میاب نہ ہو سکا تو اس کی امید صرف جوانوں پر آکر رکی کہ ایران کے جوانوں کے لئے فرہنگ (کلچر ) کے لحاظ سے ایک طولانی مدت پروگرام بنا یاجائے ، اور اس پروگرام کے تحت مختلف طریقوں سے ملک میں نفوذ کرنا چاہا (کیونکہ اس سلسلے میں ان کے پاس کافی تجربہ موجود تھا)ان کی کوشش یہ تھی کہ ایک ایسا مرکز بتایاجائے کہ جس کے ذریعہ اپنے افکار ونظریات کو نشر وا شاعت کی جائے اور اس مرکز کے ذریعہ ملت کے مختلف لوگوں تک اپنی تبلیغاتی لھر یں پہونچائی جائیں تاکہ اہستہ اہستہ اپنی مرضی کے مطالق ماحول بنایا جائے ،ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں بھی دوسرے پروگراموں کی طرح انھوں نے اپنے علمی حساب وکتاب کے تحت پروگرام بنا یا۔

چنانچہ جب انھوں نے دیکھا کہ انقلاب کی نسل بڑھاپے کی طرف بڑہ رہی ہے ، اور مستقبل کی نبضوں کو جوانوں کے ھاتھو ں میں دیکھا (وہ جوان کہ جو شاہ کے ظلم وستم سے آگاہ نہیں ہیں اور نہ ہی انقلاب سے پہلے والے ا ور انقلاب کے بعدوالے اسلامی رزمندوں کی جانثار وں سے آگاہ ہیں ، اور صرف وہ اپنی خواہشوں کے پیروں ہیں ان کی مرادیں کبھی مادیات ہوتی ہیں اور کبھی خواہشات ) تو یہ کہ جوان طبقہ جو اس وقت ملت کی اکثریت ہے اس میں کسی طرح سے رسوخ پیدا کیا جائے اور اہستہ اہستہ اپنی مرضی کے مطابق ایسی حکومت بنوائیں حو ان کے نفع کیلئے کام کرے ، اوروہ اسی کشمکش میں تھے کہ پروگرام کو کھاں سے شروع کیا جائے، اور اس جوان نسل کے افکا رو عقائد میں کس طرح نفوذ کیا جائے ، تاکہ ان کی امیدوں کیلئے زمینہ فراہم ہو سکے ،چنانچہ انھوں نے اس سلسلے میں بہت اسٹیڈی کی کہ آخر اس قدر لوگ کیوں حکومت اسلامی کے حامی اور وفادار ہیں یھاں تک کہ تمام مشکلات مالی، مھنگائی، بمباری اور دوسری پریشانیوں کوبھی بر داشت کررہے ہیں پھر بھی حکومت اسلامی کی حمایت سے باز نہیں آتے ،ان تمام چیزوں کو دیکہ کر دشمن اس نتیجہ پر پہونجا کہ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ دین اسلام کے معتقد ہیں ۔

۳۔فرہنگی تین حربے

کیونکہ ایرانی قوم اہل بیت علیہم السلام کے پیروں ہیں اور ائمہ علیہم السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے لئے نمونہ عمل بنایا ہے، اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام کے لئے اپنی جان ومال بھی قربان کر سکتے ہیں اور ان کو یہ اعتقاد ان کی ماں نے دودہ میں پلایاہے ،اور جب تک زندہ رہیں گے، یہ عقیدہ ان کہ دلوں میں باقی رہے گا مگر دشمن اس عقیدہ کو کم رنگ کرنا چاہتا ہے ،اور دشمن کی تمنا یہ ہے کہ آئندہ آ نے والی نسل میں اس طرح کا عقیدہ باقی نہ رہے اور اس طرح اسلامی حکومت اور اسکے ذمہ دار افراد سے بد ظن کردیں ، کیونکہ لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ دین اسلام ہمارا حاکم ہے ،اور حکومت کے حقدار علماء اور دیندار افراد ہیں جن کی سرپرست ولی فقیہ ، ہے ،اور جب تک یہ عقیدہ جوانوں کے درمیان موجود ہے اس حکومت اسلامی کو کوئی نقصان نہیں پہونچ سکتا ۔

چنانچہ دشمن نے سوچا کہ اس اعتقاد کو ختم کرنا چاہئے لیکن کس طرح؟ ظاہر ہے کہ یہ افکار روشن فکر طبقہ کے ذریعہ ہی ان تک پہونچائے جاسکتے ہیں ، لھٰذا یونیورسٹی اور ثقافتی مراکز کے درمیان ایک ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے ذریعہ یہ افکار ملت تک پہونچائے جائیں ، اور ایسے افراد کو بروئے کار لایا جائے جو ان کے افکار کو پھیلائے اور حداقل لوگوں کے دلوں میں خصوصاً جوان طبقہ میں شک ووسوسہ پیدا کریں اور اسلامی حکومت، ولایت فقیہ کی نسبت ان کے عقائد کو ڈاماڈول اور کم رنگ کیا جائے، جوانوں میں حکومتِ اسلامی کی نسبت عقیدہ کو کم رنگ کرنا ہی ان کا مطلوب ہے کیونکہ اگر ان کے دلوں میں شک پیدا ہوگیا تو پھر کوئی دوسرا ۱۳/ سالہ نوجوان کمر سے بم باندہ کر ٹینک کے نیچے نہیں جائےگا، یہ کام تو اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب آخرت اور حساب وکتاب پر ایمان ہو اور اپنے صحیح راستہ کو جانتا ہو،لیکن اگر شک پیدا ہوجائے تو کافی ہے ایک قدم آگے بڑھائے اور پھر پیچھے ہٹ جائے اور یہ شک وتردید دشمن کے لئے کافی ہے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے۔

انہیں مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے زرخرید غلاموں (کہ واقعاً جنھوں نے دھوکہ کھایا) اور اپنے مختلف تجربوں ، او ران لوگوں کے ذریعہ کہ جن کے عقائد واقعاً ضعیف وکمزور ہیں مخفیانہ طور پر ذریعہ اپنے مقاصد کی طرف متوجہ کیا اور درج ذیل چیزوں کے ذریعہ اپنا کام شروع کیا۔

الف:دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا

دشمن کا سب سے پہلا کام دین کو سیاست اور حکومت سے جدا کرنے کی فکر کورائج کرنا تھا اس مسئلہ کی تبلیغ کے لئے راستہ بحد کافی ہموار تھا کیونکہ صدیوں سے مغرب اور یورپ میں اس سلسلہ میں کافی کام ہوچکا تھا بہت سی کتابیں لکھی گئیں کافی مقدار میں ریسرچ کی گئی تھیں جس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں یہ فکر رائج ہوچکی تھی کہ دین سیاست سے الگ ہے۔

اپنے اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ایران میں بھی راستہ ہموار کیا کہ کم از کم کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہو کہ دین سیاست سے جدا اور الگ ہے اگرچہ اس کے لئے تھوڑا بہت راستہ پہلے سے ہی ہموار تھا کیونکہ انقلاب سے پہلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی بعض وہ لوگ جو حکومت کے کارکنان تھے ایسا عقیدہ رکھتے تھے، ان کا اعتقاد یہ تھا کہ دین اور سیاست میں ایک بہت بڑی دیوار حائل ہے اور اس چیز کے پیش نظر تقریریں بھی ہوئیں ،کتابیں بھی لکھی گئیں ، چنانچہ اسی نظریہ کو مزید تقویت ان چیزوں کے ذریعہ جو مغربی ممالک میں کارگر ہوچکی تھیں اوریہ کوئی مشکل کام نہ تھا،دی گئی۔

پس معلوم یہ ہوا کہ دشمن کی ثقافتی کارکردگی میں سے ایک ، دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا ہے، البتہ اس فکر سے تمام لوگ تحت تاثیر قرار نہ پائے کیونکہ جن حضرات نے اس اسلامی حکومت کے لئے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو قربان کیا تھا، مالی قربانی پیش کی ہے ، اور تمام مشکلات کو برداشت کیا ہے، آسانی سے اس فکر سے متاثر نہیں ہونگے، کیونکہ ابھی تک ان کے کانوں میں امام خمینی کی دل نشین آوازیں گونج رہی ہیں ، اور مرحوم مدرس کی یہ آواز کھ” دیانت ماعین سیاست ما است“(ہماری دینداری اور ہماری سیاست ایک ہی ہے) کو اتنی آسانی سے نہیں بھلاسکتے تھے۔

ب: ولایت فقیہ کا انکار

دشمن اور مغرب زدہ روشن فکری کی کارگردی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ملت میں یہ فکر ایجاد کریں کہ اگرچہ سیاست اور اجتماعی کاموں میں دین دخالت رکھتا ہے اور معاشرہ میں بھی اسلامی احکامات جاری ہونے چاہئے ، اور سیاست میں بھی دینی امور کی طرف توجہ ہونا چاہئے، لیکن اسلامی حکومت کے معنی فقھاء کی حکومت نہیں ہے بلکہ اسلامی پارلیمینٹ میں قوانین کا طے ہونا کافی ہے، بعض قوانین کا دین کے خلاف نہ ہونا اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں دین کے مطابق قوانین جاری ہوگئے اور بس ، اسلامی حکومت کے معنی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ۔

پس دوسرا حصہ دشمن کی سیاست کا یہ تھاکہ اگر تمام لوگوں کو اس بات پر قانع نہ کرسکے کہ دین سیاست سے الگ ہے اور وہ اس بات کے قائل رہے کہ دین اور سیاست باہم ہیں تو ہم کھیں گے کہ دین اور سیاست باہم ہیں لیکن دینی حکومت کا مطلب یہ ہے کہ دینی احکام جاری ہوں ، لیکن ان احکام کامجری (جاری کرنے والا) کون ہے؟اس مسئلہ کا دین سے کوئی ربط نہیں ،بلکہ احکام دینی کو جاری کرنے کے لئے لوگوں نے جس کا انتخاب کرلیا وہی حاکم ہے، پس اسلامی حکومت کا مطلب اسلامی قوانین کا جاری کرنا ہے، نہ کہ حاکم متدین ، مومن اور فقیہ ہو،یعنی دین کی سیاست میں دخالت کو قبول کرتے ہیں لیکن دین احکام کا مجری فقیہ اور مجتھد ہو اس کو قبول نہیں کرتے ، یا یہ کہ حکوت کا سربراہ ولی فقیہ ہو ، غیر قابل قبول ہے۔

اس سلسلہ میں (یعنی ولایت فقیہ کے ذریعہ حکومت نہ ہونے کے سلسہ میں ) بہت کوششیں کیں اور اس وقت بھی ان کی یہ کوشش جاری ہے، مختلف اخباروں ، ماہناموں اور دیگر مختلف طریقوں سے ان مطالب کو منتشر کیا جارہا ہے اور اسی سلسلہ میں یونیورسٹی اور دوسرے مراکز میں میٹیگ کرتے رہتے ہیں تاکہ ابھی تک جو متدین حضرات دین کو سیاست سے جدا نہ ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں یہ فکر ڈالیں کہ اسلامی حکومت قابل قبول ہے لیکن ولایت فقیہ کی ضرورت نہیں ہے۔

اس قسم کا تبلیغی مشن، اسلامی احکامات اور فقھی بنیادوں سے نابلد جوانوں میں موثر ہوسکتا ہے خصوصاً جبکہ اس سلسلے میں ثقافتی وسائل کے ذریعہ بھر پور تبلیغات کی جائے، اور وسیع مالی امکانات کو اس کے لئے خرچ کیا جائے، لیکن پھر بھی ایسے افراد موجود ہیں جن پر ان کی تبلیغات کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور ولایت فقیہ کو جیسا کہ قانون اساسی میں بھی اسی کو محور قرار دیا گیاہے، اپنی تمام زندگی میں اہمیت دیتے ہیں اور جیسا کہ دنیا بھر میں یہ انقلاب، انقلابِ ولایت فقیھ، اور حکومت، حکومتِ ولایت فقیہ کے نام سے مشہور ہے، اور سبھی ولایت فقیہ کے پابند ہیں ۔

ج۔ ولایت فقیہ کو موردِ اعتراض قرار دینا

ظاہر ہے کہ جو لوگ ولایت فقیہ کے قائل ہیں ان کے درمیان ان لوگوں نے نفوذ کرنے کا دوسرا طریقہ انتخاب کیا وہ اس طرح کہ لوگوں میں اس فکر کو رائج کیا جائے کہ ایران میں موجودہ ولایت فقیہ مخدوش(قابل اعتراض) ہے، اور اس پر تجدید نظر کی جانی چاہئے اور یہ ولایت فقیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ڈیموکراسی(جمہوریت) اور لیبرالیزم کے اصولوں سے میل نہیں کھاتی، ولایت فقیہ کو اس طرح ہونا چاہئے کہ دور حاضر میں موجودہ ڈیموکراسی سے ہم اہنگ ہو،اور آج کی دنیا میں جو اصول وضوابط مسلم اور قابل قبول ہیں ان سے ولایت فقیہ متفق ہو، پس دشمن کی تیسری فکری سازش جمہوری اسلامی ایران میں ولایت فقیہ کو مخدوش کرناہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ عالمی استکبار اوردشمن ِ اسلام عملی اور فکری تین طریقوں سے اس اسلامی حکومت کو ضعیف کرنا چاہتاہے اور اس سلسلے میں انھوں نے خاص پروگرام بھی بنائے اور آج بھی اس طرح کے پروگرام بناتے رہتے ہیں لیکن ان کی امیدیں آنے والی نسل تھی کہ جس لئے انھوں نے ایک لمبافکری پروگرام بنارکھا تھا۔

اور اس فکری پروگرام کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ دین کو سیاست سے دور ہونے کی فکردے اس امید میں کہ ایک طبقہ اس کو قبول کرے گا۔

دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے لیکن اسلامی حکومت کا ولایت فقیہ سے کوئی ربط نہیں ہے،یہ نظریہ بھی ایک طبقہ میں قابل قبول ہوسکتا ہے۔

تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ جو لوگ ولایت فقیہ پر ایمان راسخ رکھتے ہیں ان میں یہ نظریہ رائج کریں کہ ولایت فقیہ مورد قبول ہے لیکن ایران میں جو ولایت فقیہ ہے اس کی فعلی صورت کو تبدیل ہونا چاہئے، خلاصہ دشمن ہر ممکن ذریعہ سے کوشش میں ہے کہ جوانوں کے درمیان شک وشبہ پیدا کرے تاکہ اسلامی حکومت کے سلسلے میں ان کا اعتقادضعیف وکمزور ہوجائے، اوراگر ایسا ممکن ہوا توپھر عالمی استکبار کے نفوذ کے لئے راستہ ہموار ہوجائے گا اور اسلامی معاشرے اور اسلامی حکومت میں نفوذ ہوجائےگا۔

جو لوگ ان تینوں نظریات میں سے کسی ایک کا شکار ہوگئے چاہے وہ کسی بھی جگہ ہوں ، کسی بھی مقام ومنزلت پرفائز ہوں گویا انھوں نے عالمی استکبار کی مددا ورنصرت کی اور استکبار کو اپنے اغراض ومقاصد تک پہونچنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

۴۔دشمن کی مذکورہ سازشوں کے مقابلے میں ہمارا وظیفہ

چونکہ دشمن نے مذکورہ سازشوں میں اپنی پوری طاقت صرف کی ہے لھٰذا وہ حضرات جواس حکوت کودل وجان سے چاہتے ہیں (اور الحمد للہ لوگوں کی اکثریت اس حکومت کو دل وجان سے چاہتی ہے اور اس کا نمونہ وہ عظیم مظاہرے ہوتے ہیں جو بعض موقع پر ہوتے رہتے ہیں اور تمام دنیا کو تعجب میں ڈال دیتے ہیں ) ان لوگوں کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ دشمن ان تین طریقوں سے انکے درمیان نفوذ نہ کرے، اور ان کوایسی کوشش کرنا چاہئے کہ جس سے لوگوں کا یہ عقیدہ راسخ تر ہوجائے کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے اور انہیں اس بات کا یقین ہوجائے کہ دوسرے ین اگر سیاست سے جدا ہوں تو ہوں ، لیکن اسلام سیاست سے جدا نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ اپنے دلوں میں یہ نظریہ راسخ کرلیں کہ حکومتِ اسلامی کا مطلب فقط یہ نہیں کہ پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بن جائیں یا یہ کہ وہ قوانین اسلام کے مخالف نہ ہوں ، بلکہ اسلامی حکومت کی حقیقت یہ ہے کہ قانوں کو جاری کرنے والے اسلام کے دلسوز اور اسلام کی پہچان رکھنے والے ہوں اور احکام الہی کو جاری کرنے میں اپنی پوری توجہ صرف کریں ، ورنہ اگر قانون کاغذ پر لکھے جائیں اور اس کو جاری کرنے والے ہی ان قوانین کاپاس ولحاظ نہ رکھیں تو اس سے لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا؟

کیا شاہ کے زمانے کے قوانین اساسی میں ایران کا رسمی مذہب شیعہ نہیں تھا؟ لیکن یہ قوانی کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوئے کیونکہ شاہ کی حکومت کافر اور دشمنوں سے بے حد متا ثر تھی جس کی وجہ سے اسلامی قوانین پرعمل نہیں ہوتا تھا۔

اگر قوانین صرف کاغذ پر لکھے ہوئے ہوں اور ان کا جاری کرنے والا مومن ومتدین اور قدرتمند نہ ہو تواس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، لھٰذا اگر اسلامی پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بنائے جائیں لیکن جو شخص ان قوانین کی نظارت کررہا ہے وہ اسلام کا دلسوز نہ ہو اور اس قدر قدرت نہ رکھتا ہوکہ ان قوانین کو جاری کرسکے، توایسے قوانین کو جاری ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ، لھٰذا دوسری ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم روز بروز ولایت فقیہ کے اعتقاد کو پختہ ترکریں ، تاکہ ہمارے یقین میں بھی اضافہ ہو اور ہماری نسلوں میں بھی یہ عقیدہ باقی رہے کہ ولایت فقیہ کے بغیر اسلامی حکومت ناممکن ہے۔

ان دومرحلوں کے بعد تیسرے مرحلے کی باری آتی ہے کہ یہ ولایت فقیہ کی موجودہ شکل وصورت جو اس وقت ایران می تقریباً ۲ ۰ سال سے ہے یہ وہی شکل وصورت ہے جس کو اہل بیت علیہم السلام نے بیان کیا ہے یا یہ کہ اس کی شکل وصورت کو عوض ہونا چاہئے؟

یہ تیسرا مرحلہ ایک فرعی مرحلہ ہے کہ جو گذشتہ دومرحلوں کے بعد ہے لھٰذا پہلے ان دومرحلوں پر بحث کرنا ضروری ہے اور انہیں دو مسئلوں کی بنیاد پر ہماری بحث اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت تشکیل پاتی ہے۔

۵۔دشمن کی سازشوں کے مقابلہ میں بہت رینراستوں کا انتخاب

مذکورہ مطالب سے واضح ہوجاتا ہے کہ دشمن نے اپنی تمام تر طاقت اپنی مندرجہ ذیل سازشوں میں صرف کردی:

۱۔دین وسیاست میں جدائی کرنا۔

۲۔اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ میں جدائی کرنا۔

۳۔ایران میں ولایت فقیہ کی کارگردگی میں شک وتردید کا ایجادکرنا۔

لھٰذا طبیعی طورپر ہمارا بھی تین گروہوں سے مقابلہ ہے پہلا گروہ وہ ہے کہ جس نے یہ قبول کرلیا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے یعنی مساجد، امامبارگاہ جدا ہیں اور سیاست وحکومت جدا ہے، لھٰذا ان لوگو ں سے بحث کرنے کے لئے ہمیں ایک خاص راستہ اپنانا پڑے گا۔

دوسرا گروہ وہ ہے جس نے اسلامی حکومت کو تو قبول کیا ہے لیکن اس کے احکام کے مجری کے سلسلے میں چوں وچراکرتے ہیں ، ان لوگوں سے بحث کرنے کا انداز دوسرا ہونا چاہئے، کیونکہ اگر فرض کریں کہ کوئی خدا ہی کا قائل نہیں ہے تو اس سے بحث اس طرح شروع کی جائے تاکہ خدا کا اثبات ہوسکے اوراس کے بعد نبوت عامہ (تمام انبیاء کی نبوت) اور نبوت خاصہ (حضرت محمد مصطفی کی نبوت) کے بارے میں بحث کی جائے لیکن اگر کوئی خدا اور بعض انبیاء کو قبول کرتا ہو لیکن حضرت محمد مصطفی کی نبوت کا منکر ہو تو اس سے نبوت خاصہ کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی۔

بہر حال جو لوگ خداوندعالم کو قبول کرتے ہیں لیکن پیغمبر اکرم کی نبوت کو قبول نہیں کرتے تو آنحضرت کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ پہلے خدا کے اثبات سے بحث شروع کی جائے کیونکہ اس کے لئے یہ طے شدہ ہے کہ کوئی خدا ہے اور اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجا ہے اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی مناسب راستہ اپنانا چاہئے اور جس سلسلہ میں ہم بحث کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے اصول اور مقدمات پر موقوف ہے کہ بعض لوگ قبول کرتے ہیں اور بعض لوگ ا ن کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے۔

لھٰذا مذکورہ بحث کے سلسلہ میں ہمیں بھی چند طریقوں سے بحث کرنا ہوگی اور اس کے لئے مختلف روش درکار ہیں یعنی ممکن ہے بعض جگہ فقط عقلی دلیلوں کے ذریعہ اپنا مدعی ثابت کریں اور جس چیز کو انسان کی عقل درک کرتی ہے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا سھارا نہ لیں ، ایسی صورت میں عقلی برہانوں کے ذریعہ بحث کو آگے بڑھائیں گے بالکل اسی طرح کہ اگر کوئی خدا کو نہ مانتا ہو اور اس کے سامنے خدا کے وجود کوثابت کرنا ہو تو ایسے موقع پر قرآن اور معصومین علیہم اسلام کی احادیث کے ذریعہ اثبات کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ وہ ابھی خدا کو ہی نہیں مانتا ، توقرآن وحدیث کو کس طرح قبول کرسکتا ہے؟!

اس کو سمجہانے کے لئے فقط عقل سے کام لینا پڑے گا اور اس کو عقلی دلیلوں کے ذریعہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہوگا، اسی طرح جن لوگوں نے اسلامی حکومت کو قبول کیا ہے وہ لوگ ایک قدم آگے ہیں تو ان لوگوں سے بحث کرنے کے لئے ایسا راستہ اپنا ناپڑے گاجو دینی باتیں قبول کرتے ہیں ان کے سامنے وہ دلیلیں بیان کریں جو محتوائے دین کو بیان کریں یعنی ان سے بحث کرنے کے لئے قرآن وحدیث اور تاریخی شواہد کو مدرک قرار دینا ہوگا۔

لیکن اگر حکومت کی کارگردگی کی بحث کی جائے تو تاریخی شواہد ومدارک کو مدنظر رکہ کر بحث کی جائے یھاں پر عقلی نقلی وتعبدی (قرآن وسنت) بحث نہیں ہوگی۔

خلاصہ یہ کہ ہماری بحث بھی مختلف پہلو رکھتی ہے لھٰذا ہماری بحث بھی مختلف طریقوں سے ہوگی، بعض جگہ عقلی طریقہ سے بحث ہوگی اور بعض جگہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بحث ہوگی ، اور بعض دوسری جگہ پر تاریخ کا سھارا لیا جائے گا، یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ بعض افراد بحث کے درمیان ہم پر اعتراض نہ کریں کہ یہ بحث عقلی ہے یا شرعی؟ اس وجہ سے پہلے یہ عرض کردینا مناسب سمجہا کہ ہماری بحث کے مختلف طریقے ہوں گے ، بحث کو اس کے مناسب طریقہ سے مورد تحقیق وبررسی قرار دیا جائے گا۔

۶۔دین کی تعریف اور اس کے حدود

یھاں پر ایک دوسرا مہم مسئلہ بھی ہے جس پر مستقل طور پر جدا گانہ بحث ہوسکتی ہے لیکن اس وقت صرف اس کی طرف اشارہ کریں گے:

یھاں پر بحث یہ ہے کہ دین کے حدود کھاں تک ہیں ؟ جس وقت ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ حکومت ودین میں کیا ربط ہے اور دین وسیاست کا جدا کرنا صحیح ہے یا نھیں ۔

تو سب سے پہلے خود دین کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے کہ دین کیا ہے دین کی صحیح تعریف ہمارے پاس ہونا چاہئے تاکہ اس کی بنیاد پر ہم اس کے حدودمعین کرسکیں ، اس سلسلے میں بعض لوگوں نے سعی فرمائی ہے مگر ایک دوسرے عنوان سے ،وہ اس طرح کہ آیاانسان کو دین کی ضرورت ہے یا نھیں ؟ اس چیز کو مورد بحث قرار دیتے ہیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دین کی انسان کی زندگی میں کیا دخالت ہے اس مرحلہ کی تحقیق وبررسی کے بعد ان لوگوں نے اس بحث کو مورد بحث قرار دیا کہ اسلام میں سیاست،دین کا جز ہے یا نھیں ؟ بہر حال ان لوگوں نے اس سلسلہ میں بہت سی بحثیں کی ہیں ، جیسا کہ آپ حضرات بھی ان بحثوں سے کم وبیش واقف ہیں ۔

”مثلاًدین سے ہماری امیدیں “ یعنی دین سے ہماری امیدیں حداقل درجہ پر ہیں یا حد اکثر درجہ پر (یعنی کیا دین انسان کی تمام زندگی کے مسائل کو شامل ہوتا ہے؟یا یہ کہ انسان کی زندگی کے بعض پہلوں کو شامل ہوتا ہے، بقیہ امور میں انسانی زندگی کے اکثر مسائل کو عقل و علم اور لوگوں کی مرضی کے مطابق حل ہوتے ہیں )وہ حضرات جو دین کو حکومت سے الگ گردانتے ہیں جس وقت انھوں نے دین کی تعریف فرمائی تو ایسی تعریف کی جو سیکولریزم کے عقیدہ کے موافق تھی مثلاً دین کی یوں تعریف فرماکی کہ : دین یعنی انسان کا خدا سے معنوی رابطہ یا اس سے ایک قدم اور آگے رکھا اور کھادین وہ چیز ہے کہ جو انسان کی آخرت (اگر آخرت کو قبول کرتا ہو )کی زندگی میں موثر اور کارگر ہو،یعنی دین کا کام یہ ہے کہ انسان کی زندگی کو آخرت سے ہم اہنگ کرے ۔

اور یہ بات واضح ہے کہ اگر دین کی اس طرح تعریف کی جائے تو پھر یہ کہنا بہت آسان ہے کہ دین کاسیاست سے کیا رابطھ؟سیاست کا خدا سے انسانی رابطہ کا کیا دخل؟سیاست تو صرف انسانوں کے درمیان ایک دوسرے سے رابطہ کو بیان کرتی ہے، اور سیاست دین سے الگ ہے، سیاست انسان کی دنیاوی زندگی سے متعلق ہے اور اس کا عالم آخرت سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور اگر دین کے حدود صرف یہ ہوں کہ جہاں انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رہے اور جہاں عقل خود فیصلہ اور قضاوت نہ کرسکتی ہو تو پھر وہاں دین سے کوئی رابطہ نہیں کیونکہ دین کے حدود وہاں تک محدود ہیں کہ جہاں پر عقل کی رسائی اور پہنچ نہ ہو ۔

لھٰذا اگر ہم نے دین کی مذکورہ تعریف کے مطابق اس کے حدود کو محدود کردیااور اس بات کے قائل ہوگئے کہ جن مسائل کو ہماری عقل حل کرسکتی ہے وہاں دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہم کو دین کی ضرورت وہاں ہے کہ جہاں ہماری عقل مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہو، چنانچہ جسیے جیسے زمانہ گزرتا جارہا ہے اور انسان ترقی کررہا ہے دین کی ضرورت کم ہوتی جارہی ہے چونکہ اس بنیاد پر دین کی ضرورت وہاں ہے کہ جہاں عقل ان مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہے۔

چونکہ شروع میں انسان علم و تمدن نہیں رکھتا تھا،لھٰذا اس کو دین کی ضرورت بہت زیادہ تھی اور چونکہ انسان خود اپنی عقل سے مسائل کو نہیں سمجھ سکتا تھا لھٰذا اس کو دین کی ضرورت تھی اور اہستہ اہستہ اس کو دین کی ضرورت کم ہوتی گئی،اور اس آخری زمانہ میں انسان کو دین کی ضرورت تقریبا ً نہیں ہے، ھاں بعض ان جزئی مسائل میں ہے جن کو عقل انسان ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہے اور کوئی امید بھی نہیں ہے کہ ان کو جلد ہی حل کرلیا جائے گا، ان مسائل میں ابھی بھی دین کی ضرورت ہے،(افسوس کہ یہ وہ لوگ ہیں جومسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اورپھر یہ اعتراض ا ور اشکال کرتے ہیں کہ اس وقت چونکہ عقل بشری کامل ہوگئی ہے،لھٰذا اب دین و وحی کے قوانین کی ضرورت نہیں ہے ) بہر حال مذکورہ دین کی تعریف کے مطابق نتیجہ یہ ہوگا کہ سیاست کا دین سے کوئی رابطہ نہیں ہے،اور جب ہم عقلی کوششوں اور عقلی استدلالوں کے ذریعہ تمام سیاسی مسائل کوحل کرسکتے ہیں ، تو پھر دین کیا ضرورت ہے؟

المختصر یہ کہ اب تک جو ہم نے بیان کئے وہ اس سلسلے کے چند اعتراضات اور اشکالات تھے، اوراب ہم اس کا مختصرا ًجواب عرض کرتے ہیں اور شروع ہی گوش گذار کردیں کہ دین کی تعریف کی گئی ہے اور اس کی بنیاد پر دین کو فقط اخروی زندگی سے مربوط اور خدا سے انسانی رابطہ مانتے ہیں ہماری نظرمیں باطل اور بے نیاد ہے، اور یہ نظریہ کہ دین سے سیاسی مسائل کا یعنی انسان کے سیاسی مسائل کا خدا سے کوئی ربط نہیں ،یہ ساری چیزیں انسان اور خدا کے روحانی رابطہ سے جداگانہ ہیں ، یہ بھی بے بنیاد اور بے ہودہ گفتگو ہے اور اس کا حقیقت دین سے کوئی ربط نھیں ، یہ دین کی نامکمل تعریف ہے، بلکہ دین وہ طریقہ ہے جو انسان کو صحیح رفتار وکردار پر گامزن رکھے یعنی اس طرح انسان کو بنادے کہ جس طرح خدا چاہے،یعنی اگر انسان اپنے اعتقاد اور اپنی فردی واجتماعی زندگی میں خدا کی مرضی کے مطابق قدم اٹھائے تو ایسا شخص دیندار ہے اور ا سکے مقابل اگر انسان کا عقیدہ خدا کی مرضی کے مخالف ہو او ران عقائد کو قبول کرے جو خدا کو ناپسند ہیں اور اس کی انفرادی واجتماعی زندگی کے اعمال و رفتار خدا پسندانہ نہ ہوں ، تو اس کا دین بھی ناقص ہوگا،خلاصہ یہ کہ دین تما م مذکورہ چیزوں کو شامل ہے۔

۷۔دینی طریقوں سے دینی معرفت کی ضرورت

اگر ہم دین کی تعریف کرنا چاہیں تو ہمیں دیندار اور دینی بزرگوں کی تعریف دیکھنا ہوگا کہ ان حضرات نے دین کی کس طرح تعریف کی ہے؟ او راگر ہم خود اپنے ذہن سے دین کی تعریف کریں اور من گھڑت تعریف کی بناپر کھیں کہ سیاسی اور اجتماعی مسائل دین سے خارج ہیں یا یہ کہ سیاسی واجتماعی مسائل کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے جیسا کہ دین کی ہم نے تعریف کی ہے نہ جیسا کہ خدا نے دین کو بھیجا ہے ،پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ دین خدا کی معرفت او را سکو سمجھنے کے لئے خود اپنے طور وطریقہ اور اپنی فکر کے مطابق دین کی تعریف نہ کریں بلکہ دین کی معرفت ا ورشناخت کے لئے ضروری ہے کہ دینی منابع ومآخذ کے ذریعہ دین کے بارے میں تحقیق کریں ۔

ھوسکتا ہے کہ کوئی یہ کھے : میں دین کو نہیں مانتا، کیونکہ اسلام کے صحیح ہونے پر جو دلیلیں قائم ہوئی ہیں وہ ضعیف ہیں یا (نعوذ باللہ) یہ کھے کہ ہمارے پاس اسلام کے جھوٹ اور باطل ہونے پر دلیل موجود ہے ، اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے ،تو یہ دعوی منظقی اور صحیح نہیں ہے، البتہ اگر کوئی اسلام کو قبول کرے ، او رپھر وہ کھے کہ جو میں کھتا ہوں وہی دین ہے نہ یہ کہ جو قرآن، پیغمبر اور ائمہ (ع) کھتے ہیں او رجس کے مسلمان معتقد ہیں ، اگر کوئی اسلام کے حق یا نا حق ہونے کے بارے میں بحث کرے چاہے وہ اس کی طرفداری کرے یا اس کی ردّ کرے ، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ اسلام کی معرفت اور پہچان حاصل کرے اور بے شک اسلام کی پہچان کے لئے خدا کے فرمان کی طرف رجوع کرے، جس نے اسلام کو بھیجا ہے ، لھٰذا قرآن کے ذریعہ اسلام کو پہچانا جائے، اس حقیقت کے پیش نظر ہم نے کھا کہ دین کی پہچان، اس کی تعریف اور اس کی فرمانروائی کے دائرے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دینی منابع، یعنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں ، نہ یہ کہ اپنی مرضی کے مطابق یا کسی امریکن اوریورپین (کہ جن کی باتیں ہمارے نزدیک غیر معتبر ہیں )کے کھنے کے مطابق دین کی تعریف کریں ۔

لھٰذا اگر کوئی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس اسلام کے مطابق گفتگو کرے جس کو قرآن، پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام نے بیان کیا ہے، او راسی اسلام کی بنیاد پر جس کی اصل قرآن وسنت ہے دین کی تعریف اور اس کے فرمانروائی کے دائرے کو سمجھیں نہ یہ کہ کسی مستشرق (مشرقی زبان دان اور ماہرعلوم) ،مولف اور سیاست مدار کی غرض کے تحت اسلام کی تعریف شدہ تعریف کو اپنائیں یا کسی (یورپی)دائرة المعارف (معلومات عامہ کتاب) کے مطابق اسلام کی تعریف کریں ایسے اسلام سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اسلامِ حقیقی کے طرف رجوع کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ دین کی فرمانروائی کا دائرہ انسان کی عقل وفہم پر ختم نہیں ہوتا بلکہ عقل، اسلامی شناخت کے طریقوں میں سے ایک ہے، اور اگر کوئی عربی زبان سے تھوڑی بھی واقفیت رکھتا ہو (اورقرآن کی تفسیر سے چاہے اجمالی ومختصر تفسیر سے آشنا ہو) جس وقت قرآن کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن نے اجتماعی مسائل کو نہیں چھوڑا اور ان کو بیان کیا ہے، پس کس طرح یہ کھاجاسکتا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے۔

اگر دین کے معنی قرآن کے مطابق کئے جائیں تو دین میں اجتماعی اور سیاسی مسائل شامل ہیں اور اس میں عبادت وذاتی اخلاقیات کے علاوہ قوانین مدنی ،قوانین جزائی (جرائم) اورعالمی قوانین موجود ہیں ، اور گھریلو زندگی ،شادی بیاہ،تربیت اولاد، کاروبار اور تجارت وغیرہ جیسے مسائل کو بیان کیا ہے، پس کون سی چیز ایسی ہے جو دین سے خارج ہے؟ معاملات،تجارت، اور رہن (گروی رکھنا) کے بارے میں قرآن مجید میں بڑی بڑی آیات موجود ہیں ، اگر اسلام کو قرآن کے ذریعہ پہچانے تو پھر کس طرح کوئی کھہ سکتا ہے کہ اسلام کا اجتماعی سے کیا ربط؟

اگر نکاح وطلاق دین کا جز نہ ہوں ، اگر تجارت، رہن خرید وفروخت اور سود دین سے مربوط نہ ہوں ، اسی طرح ولایت کا مسئلہ اور ولی امر کی اطاعت دین کا جز نہ ہوں تو پھر دین میں کیا باقی بچتا ہے؟! او ر آپ کس دین کی باتیں کرتے ہیں ؟ قرآن کریم نے مسلسل ان چیزوں کے بارے میں گفتگو کی ہے۔

اگر کوئی یہ کھے کہ جس دین میں اجتماعی وسیاسی مسائل کو شامل کیا جائے ہم اس دین کو نہیں مانتے! ٹھیک ہے نہ مانئے ، اسلام کو نہ ماننے والوں کی تعداد کوئی کم نہیں ہے ، اس وقت بھی بہت سے لوگ دین کو نہیں مانتے، ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں ، لیکن اگر وہ چاہتے ہیں تو آئیں او رہم سے بحث کریں تاکہ اس اسلامِ کامل کو ان کے لئے ثابت کریں او راگر نہیں چاہتے تو جو راستہ چاہیں اپنائیں :

( وَقُلِ الحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُومِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ ) (۱)

”(اے رسول) تم کھدو کہ سچی بات (کلمہ توحید) تمھارے پروردگار کی طرف سے (نازل ہوچکی ہے) بس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے“

لیکن اگر وہ کھیں کہ ہم اسلام کو قبول کر تے ہیں لیکن پھر اسلام کو ان مسائل پر شامل ہونے کا انکار کرتے ہیں ، او راسلام کے اکثر اجتماعی مسائل پر کیوں اعتراض کرتے ہیں ؟ کیا جو کچھ قرآن وسنت میں موجود ہے اسلام نہیں ہے؟ کہ تم لوگ نہ نماز کو قبول کرتے ہو اور نہ ہی دوسری عبادتوں کو ؟ تمھارا ایمان نہ اسلام کے اجتماعی مسائل پر ہے اور نہ ہی اس کے سیاسی مسائل پر، نہ تم اسلامی نکاح کو قبول کرتے ہو اور نہ ہی طلاق کو، اور اسی طرح دوسرے احکام کو قبول نہیں کرتے، تو پھر اسلام میں کیا چیز باقی ہے کہ جس اسلام کا تم دم بھرتے ہو وہ کیا ہے؟ یہ باتیں صرف سادہ لوح افراد کے لئے موثر ہوسکتی ہیں لیکن دانشمنداور پڑھے لکھے افراد کے لئے بے مایہ اور فضول ہیں ،بہر حال دین یعنی انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ کے ساتھ ہونا:

( صِبْغَةُ اللّٰه وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰه صِبْغَةً ) (۲)

”(مسلمانوں سے کھدو کہ) رنگ تو خدا ہی کا رنگ ہے جس میں تم رنگے ہوئےھو“

انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ میں بھی ہوسکتی ہے اور شیطانی رنگ وڈھنگ میں بھی، لیکن اگر انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ میں ہو تو پھرواقعاً اسلام کامل ہے ،اگر ہم چاہیں کہ الہی رنگ وڈھنگ اور اس کی مرضی کے بارے میں گفتگو کریں تو پہلے ہمیں دینی منابع کوپہچاننا ضروری ہے اور اسلام کی شناخت کے لئے قرآن، سنت اور عقل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اور یھی طریقے اسلام کے تما م عبادی، سیاسی، اجتماعی او رانفرادی مراحل کو شامل ہے۔

اور جیسا کہ ہم نے کھا کہ قرآن پر ایک سرسری نظر کافی ہے تاکہ ہمارے لئے یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ دین جو قرآن میں موجود ہے او رقرآن دین کا اصل منبع ہے، ممکن نہیں کہ اس اسلام میں سیاسی اور اجتماعی مسائل کو چھوڑ دیا گیا ہو اور قوانین کا مجموعہ سیاسی اور اجتماعی مسائل سے خالی ہو، یھاں تک کہ عبادی مسائل سے بھر پور ہو،اور یہ سلسلہ اسلام سے مرتبط نہیں ہے، کیونکہ وہ اسلام جو قرآن نے بیان کیا ہے ہم اس اسلام کا دفاع کرتے ہیں اور یہ اسلام سیاسی، اجتماعی اور عبادی مسائل کو شامل ہے اور سیاست اسلام کے مہم ارکان اور اس کے فرمانروائی کے اصل دائرے میں سے ہے، اور امریکن اور یورپین رائٹروں کے مطابق اسلام سے ہمارا کوئی ربط نہیں ہے اور اس کو حقیقی اسلام کی حقیقت سے دور اور اجنبی مانتے ہیں ۔

حوالے

۱ سورہ کھف آیت ۲۹

۲ سورہ بقرہ آیت ۱۳۸


5