اجرعظیم

اجرعظیم 60%

اجرعظیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7803 / ڈاؤنلوڈ: 3962
سائز سائز سائز
اجرعظیم

اجرعظیم

مؤلف:
اردو

صدقہ خیرات

۱- امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ شب جمعہ اور یومِ جمعہ صدقہ دینا ہزار صدقہ کے برابر ہے اور محمد وآل محمد علیہم السلام پر درود پڑھنا ہزار ثواب کے برابر ہے۔

۲- امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے جو شخص ماہِ شعبان میں کچھ صدقہ دے اگرچہ آدھے خرما کے برابر کیوں نہ ہو‘ خداوندعالم اس کے جسم کو آتشِ جہنم سے بچائے گا۔ آگ اس پر حرام ہوگی۔

۳- امام محمدباقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: صدقہ دینا طول عمر کا باعث ہے اور ستر قسم کی بلائیں دفع کرتا ہے۔

۴- ماہِ شعبان میں صدقہ دینا چاہیے اگرچہ وہ نصف خرما ہی کیوں نہ ہو‘ اس سے خدا اس کے جسم پر جہنم کی آگ حرام کر دے گا۔

۵- عید غدیر ( ۱۸ ذوالحجہ) کے دن حاجت مند مومن بھائی کو ایک درہم صدقہ دینا دوسرے دنوں میں ایک ہزار درہم دینے کے برابر ہے۔ دوسری روایت کے تحت ایک لاکھ دینے کے مساوی ہے۔

۶- علامہ مجلسی نے فرمایا کہ معتبر روایت میں وارد ہوا ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک روپیہ (رائج الوقت سکّہ) تصدق کرنا دوسری جگہ پر دس ہزار روپے کے برابر ہے۔

۷- آنحضرت نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی میت کے لیے صدقہ دے کر اس پر مہربانی کرے تو خود اُس کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے اُحد کے پہاڑ کے برابر لکھا جائے گا اور روزِ قیامت وہ عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوگا۔

۸- غدیر ۱۸ ذی الحجہ کو ایک درہم (سکہ رائج الوقت) خیرات کرنا دوسرے دنوں کے دس لاکھ درہم کے برابر ہے۔

زیارات

۱- کوئی فرد زکور و اناث میں سے خرد و کلاں جہاں بھی ہو پاکیزگی کی حالت میں جب چاہے امام حسین علیہ السلام کی زیارت پڑھے تو امید ہے اسے حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔ طریقہ زیارت یوں ہے:

گھر کی چھت پر چلا جائے‘ دائیں دیکھے بائیں دیکھے‘ پھر اپنا سر آسمان کی طرف بلند کرے‘ یہ کلمات کہے:

السَّلامُ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِاللّٰهِ السَّلامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرکَاتُه (دو رکعت نمازِ زیارت؟)

۲- ماہِ رمضان کی شب اول میں ضریح مقدسہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے تاکہ اس کے گناہ جھڑ جائیں اور اُسے اس سال حج و عمرہ کرنے والے تمام افراد جتنا ثواب حاصل ہو۔

۳- حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے‘ فرمایا: تھوڑی مدت کے بعد میرے جسم کا ٹکڑا سرزمین خراسان میں دفن کیا جائے گا‘ جو مومن اس کی زیارت کرنے جائے گا‘ خدائے تعالیٰ اس کے لیے جنت واجب کر دے گا‘ اس کے بدن کے لیے آتشِ جہنم حرام کر دے گا‘ غمزدہ حالت میں اس کی زیارت کرے گا‘ رب کریم اس کے رنج و غم دُور کرے گا اور جو گناہگار اس کی زیارت کرنے جائے گا غفور الرحیم اس کے گناہ معاف کر دیگا۔

۴- امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے روایت ہے‘ فرمایا: جو شخص میرے بیٹے علی رضا کی زیارت کرے گا حق تعالیٰ اس کے لیے ۷۰ حج مقبولہ کا ثواب لکھے گا۔ پھر فرمایا: جن افراد نے آئمہ طاہرین کی قبروں کی زیارت کی ہوگی ہمارے ساتھ بیٹھیں گے لیکن ان سب میں سے میرے فرزند کے زائروں کا رتبہ بلند ہوگا اور انھیں اجر و انعام بھی سب سے زیادہ عطا کیا جائے گا۔

۵- حمیری نے قرب الاسناد میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے‘ حضرت رسول اللہ نے فرمایا کہ جس نے میری حیات میں یا اس کے بعد زیارت کی تو میں روزِ قیامت اس کی شفاعت کروں گا۔

۶- سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: مجھے میرے پدرعالی قدر نے خبر دی ہے کہ جو باطنی طور پر اب بھی حاضر ہیں کہ جو شخض مجھ پر یا میرے والد بزرگوار پر تین روز سلام کرے تو حق تعالیٰ اس کے لیے بہشت واجب کر دیتا ہے۔

میں نے عرض کی کہ آپ کی زندگی میں یا اس ظاہری زندگی کے بعد بھی؟

آپ نے فرمایا: ہاں زندگی میں اور بعد میں بھی سلام کا یہی اجر ہے۔

۷- عبداللہ بن عباس سے نقل ہوا ہے۔ حضرت رسول خدا نے فرمایا: جو شخص بقیع میں امام حسن علیہ السلام کی زیارت کرے‘ اس کے قدم پل صراط پر جمے رہیں گے‘ اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت سے متعلق ہے کہ زائر کے گناہ بخش دیئے جائیں گے نیزاسے تنگ دستی اور پریشانی لاحق نہ ہوگی۔

۸- جو شخص امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زیارت کرے (نجف اشرف) جب کہ ان کی امامت پر یقین رکھتا ہو‘ خلیفہ بلافصل تسلیم کرتا ہو تو ایک لاکھ شہیدوں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘ قیامت کے دن امن میں ہوگا‘ خداوند کریم اس کے حساب میں آسانی کرے گا‘ فرشتے اس کا استقبال کر رہے ہوں گے۔

۹- سید عبدالکریم ابن طاؤس نے اپنی کتاب فرحتہ العربیٰ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص حضرت امیرالمومنین کی زیارت کو پاپیادہ جائے تو حق تعالیٰ ہر قدم کے عوض ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھے گا۔ اگر واپسی پر بھی پاپیادہ چلے تو حق سبحانہ اس کے ہر قدم کے بدلے دو حج اور دو عمرے کا ثواب ہوگا۔

۱۰- دو معتبر سندوں سے نقل ہوا ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا جو شخص بہت دُور ہونے کے باوجود میری قبر کی زیارت کرے گا تو میں تین وقتوں میں اس کے پاس آؤں گا:

( i ) جب نیکوکاروں کا اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے۔

( ii ) جب لوگ پل صراط سے گزرتے ہوں گے۔

( iii ) جب اعمال کا وزن کیا جائے گا۔

۱۱- امام محمدتقی علیہ السلام سے روایت ہے: میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے جنت کا ضامن ہوں اُس شخص کے لیے جو طوس جاکر میرے والد گرامی (امام رضا) کی زیارت کرے اور آپ کو امام برحق بھی تسلیم کرے۔

۱۲- شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں امام محمد تقی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ طوس کے دو پہاڑوں کے درمیان زمین کا ایک ٹکڑا ہے جو بہشت سے لایا گیا ہے جو بھی مومن زمین کے اس خطے میں داخل ہو وہ قیامت میں دوزخ کی آگ سے آزاد ہوگا۔

کمالِ عقیدت کی بات ہے ۱۰۰۹ ھ میں شاہ عباس موسوی الحسینی اول اصفہان سے مشہد مقدس اپنے لاؤلشکر کے ساتھ پیدل چل کر آئے اور امام کی قبرمطہر کی زیارت کی۔ اس نذر کو پورا کرنے کے لیے ۲۸ دن لگے۔ امام کا پورا قبہ سونے کی اینٹوں سے بنوایا۔

۱۳- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جو شخص واجب الاطاعت امام یعنی خدا کی طرف سے مقرر کیے ہوئے امام کی زیارت کرے اور قبرمبارک کے پاس چار رکعت نماز ( ۲+۲) ادا کرے تو اس کے لیے حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا۔

ادعیہ‘ اوراد‘ تسبیحات‘ تعقیبات ‘ سجدئہ شکر

۱- صادق آل محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص اس صلوٰة کو بروز جمعہ پڑھے وہ گناہوں سے اِس طرح پاک ہوجائے گا جیسے ماں کے پیٹ سے اسی وقت پیدا ہوا ہو۔ دعا باب الصلوٰة میں درج ہے۔

۲- جو شخص اس دعا کو شب ِ جمعہ یا شب ِ عید دس مرتبہ پڑھے گا اس کے ثواب میں دس لاکھ حسنات لکھے جائیں گے‘ اور ہزار گناہ محو ہوں گے‘ نیز پڑھنے والے کے ہزار درجات بلند کیے جائیں گے۔ (دعا طویل ہے‘ اعمال شب جمعہ میں دیکھئے)

۳- بحوالہ سید ابن طاؤس امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب اور ان کے اہل بیت اطہار پر نمازِ ظہر اور عصر کے درمیان درود بھیجنا ستر رکعتوں کے ثواب کے برابرہے۔

۴- حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے جو شخص نمازِ ظہر کے بعد ان الفاظ کو پڑھے وہ تاظہور قائم آل محمد زندہ و سلامت رہے گا اور حضرت کی خدمت میں ہوگا۔ اگر راہی ملک عدم ہوگیا تو عارضی زندگی دے کر زیارتِ امام سے مشرف کیا جائے گا۔

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم - اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمّدٍ وَّاٰلِ مُحَمّدٍ وَعجِّلْ فَرجَهُمْ

۵- امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص نمازِ عصر کے بعد ستر مرتبہ استغفار کرے تو خداوند قدوس اس کے سات سو گناہ معاف کرے گا۔

۶- شب ِ جمعہ یا روزِ جمعہ سورہ جمعہ کی تلاوت کرنے سے جمعہ سے جمعہ تک کفارہ شمار ہوتا ہے۔

۷- سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کا معمول تھا۔ شب جمعہ مرحوم مومنین و مومنات کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتی تھیں۔ پوچھا کیا وجہ؟

فرمایا: ایک روایت کے مطابق ایسے شخص کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے جو دس مرحومین/مرحومات کے لیے دعائے مغفرت کرے۔

۸- امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ شب جمعہ میں محمد وآل محمد پر درود بھیجنے سے ہزار نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ ہزار گناہ معاف ہوتے ہیں اور ہزار درجے بلند ہوتے ہیں۔

۹- روایت ہے جو شخص نمازِ صبح سے پہلے تین مرتبہ ذکر کرے تو اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں خواہ کفِ دریا سے زیادہ ہوں۔

اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلاَّ هُوَ الْحَیِّ القَیُومُ وَاتُوبُ اِلَیْهِ

۱۰- روایت میں آیا ہے جو شخص جمعہ کے دن نمازِ صبح کے بعد طلوعِ آفتاب تک تعقیبات میں مشغول رہے تو جنت الفردوس میں اس کے ستر( ۷۰) درجات بلند کیے جائیں گے۔

۱۱- طلوعِ آفتاب سے قبل دس مرتبہ سورہ کافرون پڑھنے سے دعا مستجاب ہوتی ہے۔

۱۲- سختی و غم کے دُور ہونے اور کشائش کے اِس ذکر کا ہمیشہ پڑھنے بہت مفید ہے۔ یہی ذکر امام محمد تقی علیہ السلام نے تعلیم فرمایا:

یَامَن یَّکْفِی مِنْ کُلِّ شَی ءٍ وَّلَا یَّکْفِیْ مِنْهُ شَی ءٌ اِکْفِنِیْ مَآ اَهمِّنِی

"وہ جو ہرچیز سے بڑھ کرکفایت کرتا ہے اور اُس کے لیے کوئی چیز کفایت نہیں کرتی میرے اہم کاموں میں میری کفایت کر"۔

ماہِ رجب

حضرت رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ جو شخص ماہِ رجب میں صرف سومرتبہ کہے اس کے بعد حسب توفیق صدقہ دے تو حق تعالیٰ اس پر اپنی تمام تر رحمت و مغفرت نازل کرے گا اور جو اُسے پورے ماہ میں چار سو مرتبہ پڑھے تو خدا اُسے ایک سو شہیدوں کا اجر دے گا:

اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلاَّ هُوَ وَحْدَه لَا شَرِیْکَ لَه وَاتُوبُ اِلَیْهِ

۱۴- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہوئی ہے کہ ماہِ رجب میں جو شخص مرد/زن ایک ہزار مرتبہ لا الٰہ الا اللہ کہے تو حق تعالیٰ اس کے حق میں ایک ہزار نیکیاں لکھے اور جنت میں اس کے لیے سو شہر بنائے گا۔

۱۵- ماہِ رجب میں ہر جمعہ سو مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنے والے کے لیے ایک خالص نور ہوگا جو اُسے جنت کی طرف رہنمائی کرے گا۔

۱۶- ماہِ شعبان میں ستر مرتبہ استغفار کرنا گویا دوسرے مہینوں میں ستر ہزار مرتبہ استغفار کرنے کے برابر ہے۔

۱۷- امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص خاکِ شفا کی تسبیح ہاتھ میں لے کر ہر دانے پر یہ پڑھے:سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالحَمْدُلِلّٰهِ وَلَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اکْبَر ۔ خداوند تعالیٰ ہر دانے کے عوض چھ ہزار نیکیاں لکھے گا۔ اس کے ۶ ہزار گناہ مٹا دے گا‘ اس کے ۶ ہزار درجے بلند کرے گا اور اس کے لیے ۶ ہزار شفاعتیں لکھے گا۔

۱۸- امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے جو شخص خاکِ کربلا سے بنائی ہوئی پختہ تسبیح پھیرے اور ایک بار استغفار کہے تو حق تعالیٰ اس کے لیے ستر بار استغفار لکھے گا اور اگر اس تسبیح کو محض ہاتھ میں لیے رکھے تو بھی اس کے ہر دانے کے عوض سات بار استغفار لکھے جائیں گے۔

۱۹- اذان و اقامت کے درمیان مانگی ہوئی دعا ردّ نہیں ہوتی۔

۲۰- جو شخص پابندی کے ساتھ واجب نماز کے بعد تسبیح فاطمہ زہراء پڑھتا ہے کبھی بدبخت نہ ہوگا۔ قرآن مجید میں واذکرواللّٰہَ ذکرًا کثیرًا کا حکم دیا گیا ہے‘ وہ تسبیح حضرت زہراء ہے۔ گویا تسبیح پڑھنا خدا کو زیادہ یاد کرنے کے مترادف ہے۔ امام محمدباقر علیہ السلام سے مروی ہے جو شخص فاطمہ زہراء کی تسبیح پڑھنے کے بعد استغفار کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے بخش دے گا۔ ظاہراً تسبیح کے سو الفاظ ہیں لیکن میزانِ عمل میں ایک ہزار کے برابر ہیں‘ اسی سے شیطان دُور ہوتا ہے‘ رحمن راضی ہوتا ہے۔ امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں جو فرد بعد از نماز اپنے پاؤں کی کیفیت کو بدلے بغیر تسبیح فاطمہ زہراء پڑھے تو اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔ ایک اور معتبر حدیث میں امام ششم فرماتے ہیں: میرے نزدیک ہرنماز کے بعد حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی تسبیح پڑھنا روزانہ ہزار رکعت نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ یہ وہ تحفہ ہے جو اللہ کی طرف سے پاک پیغمبر کو ملا اور حضور پرنور نے یہ تحفہ اپنی پیاری اکلوتی بیٹی کو عطا فرمایا۔

۲۱- خاکِ شفا کی تسبیح ہاتھ میں ہو اور وہ فی الحال ذکر نہ کر رہا ہو‘ حضرت صاحب العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف فرماتے ہیں اس شخص کے لیے ذکر کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خاکِ شفاء کی تسبیح خود بخود ذکر کرتی ہے اور خاکِ تسبیح پڑھتی ہے جس کا ثواب ہاتھ میں پکڑنے والے کے نامہ اعمال میں درج ہوتا ہے۔ نیز فرمایا جو ذکر تسبیح خاکِ شفا پر کیا جائے وہ دوسرے اذکار و استغفار کے سترگنا کے برابر ہے۔

۲۲- شیخ کلینی نے معتبر سند کے ساتھ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص فریضہ نماز کے بعد پاؤں کو پلٹانے سے پہلے تین مرتبہ یہ دعا پڑھے تو خداوندعالم اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے خواہ وہ گناہ کثرت میں سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں:

اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلاَّ هُوَ الْحَیِّ القَیُومُ ذُوالجَلالِ وَالاکِرَامِ وَاَتُوبُ اِلَیْهِ -

۲۳- امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے منقول ہے جو شخص ہر فریضہ نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے تو کوئی کاٹنے والی چیز اُسے ضرر نہیں پہنچا سکے گی۔ حضور اکرم نے حضرت علی سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ہر فریضہ نماز کے بعد آیت الکرسی کی تلاوت اس لیے ضروری ہے کہ پیغمبر یا صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی اس عمل کو ہمیشہ جاری نہیں رکھ سکتا۔

مزید فرمایا: آیت الکرسی کی تلاوت رکھنے والے کی نماز قبول ہوتی ہے‘ وہ خدا کی پناہ میں رہے گا اور خدا اُسے گناہوں اور بلاؤں سے محفوظ رکھے گا۔

۲۴- نبی رحمت مالک خلق عظیم نے اپنے ایک بوڑھے صحابی شیبہ ہذلی کو یہ دعا تعلیم فرمائی اور کہا اس کلام کی برکت سے خدا تمھیں اندھے پن‘ دیوانگی‘ برص‘ جذام‘ پریشانی اور فضول گوئی سے نجات دے گا۔

سُبْحَانَ اللّٰهِ العَظِیمِ وَبِحمَدِه وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰهِ العَلِیِّ العَظِیْم

۲۵- تسبیحات اربعہ کے متعلق ختمی مرتبت حضور پرنور نے فرمایا: اس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہیں۔ یہ انسان کو چھت تلے دبنے‘ پانی میں ڈوبنے‘ کنوئیں میں گرنے‘ درندوں کے چیرنے پھاڑنے‘ بدتر موت اور آسمان سے آنے والی بلاؤں سے بچاتا ہے۔ یہی ان باقیات الصالحات میں ہے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نماز کے بعد تیس ( ۳۰) مرتبہ پڑھو:

سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالحَمْدُلِلّٰهِ وَلَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اکْبَر

۲۶- امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص فریضہ نماز کے بعد تیس ( ۳۰) مرتبہ سبحان اللہ کہے تو اس کے بدن پر موجود ہر گناہ ساقط ہو جائے گا۔ ایک اور صحیح حدیث میں آنجناب سے منقول ہے کہ خدا نے قرآن مجید میں "ذکرکثیر"فرمایا ہے۔ وہ ہر نماز کے بعد ۳۰ مرتبہ سبحان اللہ ہے۔

۲۷- قطب راوندی نے روایت کی ہے کہ حضرت امیرالمومنین نے براء بن عازب سے فرمایا: ہر نماز کے بعد دس مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنے والا کبھی مرتد نہ ہوگا۔

۲۸- ابن بابویہ نے معتبرسند کے ساتھ امام محمدباقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص نمازِ فجر کے بعد ستر مرتبہاسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاتُوبُ اِلَیْهِ کہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سات سو گناہ معاف کرتا ہے۔

۲۹- امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے جو شخص سورہ انا انزلناہ طلوعِ فجر کے بعد سات مرتبہ پڑھے تو اس کے لیے فرشتوں کی ۷۰ صفیں ۷۰ دفعہ صلوٰة پڑھتی ہیں اور ۷۰ مرتبہ اس کے لیے رحمت طلب کرتی ہیں۔

۳۰- شیخ احمد بن فہد اور دیگر علما نے روایت کی ہے کہ ایک شخص امام موسٰی کاظم کی خدمت میں آیا اور شکایت کی کہ میرا کاروبار بند ہو چکا ہے۔ جدھر کا رخ کرتا ہوں ناکام رہتا ہوں اور جو حاجت پیش آتی ہے وہ پوری نہیں ہوتی‘ حضرت نے فرمایا: نمازِ فجر کے بعد دس مرتبہ یہ پڑھا کرو:

سُبْحَانَ اللّٰهِ العَظِیمِ وَبِحمَدِه اسَتْغَفِرُ اللّٰهَ وَاسَئَلُه مِنْ فَضلِه

راوی کہتا ہے کہ میں نے تھوڑے ہی عرصہ تک یہ دعا پابندی کے ساتھ پڑھی تھی کہ مجھے بہت سا مال و زر مل گیا اور کاروبار چمک اٹھا۔

۳۱- عدة الداعی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو شخص نمازِ فجر کے بعد کسی سے بات کرنے سے پہلے یہ کہے:

رَبِّ صَلِّ عَلٰی مُحَمّدٍ وَّاهَلِ بَیتِه تو حق تعالیٰ اس کے چہرے کو آتشِ جہنم سے دُور رکھے گا۔

۳۲- جو شخص علاوہ نماز کسی نعمت کے ملنے پر خدا کے لیے سجدہ شکر بجا لائے تو اللہ تعالیٰ اس کے نام دس نیکیاں لکھ دیتا ہے‘ دس برائیاں مٹا دیتا ہے اور بہشت مین اس کے دس درجے بلند کر دیتا ہے۔

۳۳- شیخ کلینی نے معتبر سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شکایت کی میری لونڈی جو بیمار رہتی ہے اس کے لیے ہدایت فرمائیں۔ حضرت نے فرمایا: اسے کہو ہر واجب نماز کے بعد سجدئہ شکر میں یہ کہا کرے:

یَا رَؤفُ یَارَحِیمُ یَارَبِّ یَا سَیِّدِی

۳۴- جو شخص شام کے وقت غروبِ آفتاب کے قریب اور صبح طلوعِ آفتاب سے پہلے سو سومرتبہ اللہ اکبر کہے تو خدائے قدوس اس کے لیے سو غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھ دے گا۔ انھیں اوقات میں سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحمَدِہ پڑھنے والے کوقرأت کے مطابق نیکیاں میسر ہوں گی یعنی جتنی بار پڑھے گا اتنی ہی نیکیاں۔

۳۵- عبداللہ بن جندب اپنے زمانے کے عالم کہیرامام موسٰی کاظم اور امام علی رضا علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے‘ ساتویں امام کی خدمت میں عریضہ تحریر کیا:

مولا! بوڑھا ہو گیا ہوں‘ کمزوری کی وجہ سے کئی امور انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتا‘ مجھے خاص کلام تعلیم فرمایئے تاکہ علم و فہم میں مزید اضافہ ہو‘ اور اپنے کام خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔

حضرت نے جواب میں فرمایا: اس ذکرِعظیم القدر کو زیادہ سے زیادہ پڑھا کرو:سُبْحَانَ اللّٰهِ اَللّٰهُ اکْبَر ۔

۳۶- حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: مجھے یہ کلمات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم فرمائے:

جو شخص روزانہ سو مرتبہلَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ الْمَلِکُ الحَقُّ المُبِیْنُ پڑھے چار فائدے حاصل کرے گا:

( i ) فقر و فاقہ اور معاشی تنگی دُور ہوں گی ۔( ii ) قبر کی وحشت سے محفوظ رہے گا۔ ( iii ) غنا ظاہری اور باطنی نصیب ہوگا۔ ( iv ) جنت میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوگی۔

۳۷- سرکار رسالت مآب نے فرمایا: اس دعا میں اسم اعظم ہے جو کچھ چاہو اس کو وسیلہ بناکر اللہ سے طلب کرو‘ خدا عطا کرے گا:

اَللّٰهُمَّ بِاَنَّ لَکَ الحَمْدُ لَا اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ یَاحَنّانُ یَابَدِیعْ السَّمواتِ وَالْاَرضِ یَا ذَالجَلالِ وَالْاِکْرَام

۳۸- صاحب میہج الدعوات لکھتے ہیں کہ ایک اور روایت اسم اعظم کے باب میں عطا (راوی) سے بیان کی جاتی ہے۔ اس دعا میں اسم اعظم پوشیدہ ہے:

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم - یَااللّٰهُ یَااللّٰهُ یَااللّٰهُ ‘ یَارَحمٰنُ یَارَحمٰنُ یَارَحمٰنُ ‘ یانُور یانُور یَا ذَاالطَّولِ یَا ذَالجَلالِ وَالْاِکْرَام

۳۹- السَّلامِکثرت سے پڑھنے والا امراض سے شفا پائے گا‘ آفات سے سلامت رہے گا۔ اگر مریض پر ۱۰۰ مرتبہ پڑھا جائے صحت پائے گا۔

۴۰- جو شخص الخَالِقُ کا ورد رکھے تو اس کا چہرہ نورانی اور دل روشن رہے گا۔

۴۱- جو شخص حالت سجدہ میں تعقیبات کے اندر چودہ مرتبہ الَوْھّابُ کہے حق تعالیٰ اسے غنی کرے گا۔

۴۲- جو شخص رات کے وقت الکریم چند بار پڑھ کر سو جائے ملائکہ کو حکم ہوتا ہے کہ رات بھر اس کے لیے دعائے خیر کریں۔

۴۳- گم شدہ چیز مل جائے یا اطلاع ہو جائے اَلشَّھِیْدُ الْحَقکاغذ کے چار کونوں پر لکھے۔ درمیان میں ضائع ہونے والی چیز کا نام لکھے۔ نصف شب کو زیرآسمان ۷۰ مرتبہ اَلشَّھِیْدُ الْحَق کہے گمشدہ چیز کا حال معلوم ہوجائے گا‘ ان شاء اللہ!

۴۴- ۱۹ مرتبہ اَلحّیُ پڑھ کر دم کریں‘ آنکھیں دکھنے کا مرض ٹھیک ہو جائے گا۔

۴۵- حاکم کے سامنے جانے سے پہلے الرّؤفُ پڑھ کر جائے ان شاء اللہ مہربانی سے پیش آئے گا۔

۴۶- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو کوئی نماز کے بعد روزانہ ۳۰ مرتبہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہَ پڑھے بے پناہ رزق پائے گا۔ اسی مقصد کے لیے سورہ ق روزانہ پڑے اور رزق وسیع حاصل کرے۔

۴۷- حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کا ارشاد ہے جو کوئی سوتے وقت سورہ اخلاص پڑھے ملائکہ اس کی حفاظت پر مامور کر دیئے جاتے ہیں۔

۴۸- امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہر نماز واجب کے بعد تسبیح جناب فاطمة الزہراء میرے نزدیک ہر دن میں ہزار رکعت نماز نافلہ پڑھنے سے بہتر ہے۔

۴۹- یہ تسبیح زبان کے ساتھ سو دفعہ ہے لیکن میزانِ عمل میں اس کا ثواب ہزار تسبیح کے برابر لکھا جاتاہے۔ اللہ خوش ہوتا ہے (بلاتغیرکیفیت) اور شیطان دُور بھاگتا ہے۔

۵۰- خاکِ شفا کی تسبیح پر ہر دانہ کے بدلے چالیس حسنہ کی عطا ہوتی ہے کیونکہ یہ ذکرًا کثیرًا کا نعم البدل ہے۔

۵۱- امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: میرے نزدیک جمعہ کے روز صلوٰة پڑھنے والا بہترین عبادت میں مصروف ہے۔ شبِ جمعہ صلوات پڑھنا ہزار حسنہ کے برابر ہزار گنا محو ہوتے ہیں‘ ہزار درجے بلند ہوتے ہیں۔ ظہر اور عصر کے درمیان درود پڑھنے کا ثواب حج و عمرہ کے مترادف ہے۔

۵۲- جمعہ کی رات یا جمعہ کا دن صدقہ دینا باقی ایام سے ہزار گناہ زیادہ بہتر ہے۔

۵۳- امام موسٰی کاظم نے فرمایا: جس نے خفیہ طور پر اپنے بھائی کے لیے دعا کی اس کے لیے عرش سے ندا آتی ہے تیرے لیے ایک لاکھ اجر ہے۔

۵۴- محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاجس نےاشهد ان لا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَشَرِیْکَ لَه وَاشهد ان محمدًا عبده ورسوله کہا خدا اس کے نام پر ایک ہزار نیکیاں لکھتا ہے لیکن بشرطہا وشروطہا (اقرار امامت ضروری ہے)۔ (اصول الکامی جلدپنجم)

۵۵- امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: ہرنماز کے بعد تسبیحات اربعہ پڑھنے سے دنیا کی مصیبتیں دُور ہوتی ہیں‘ اور آخرت کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ تین سو ساٹھ مرتبہ روزانہ پڑھنا (جسم کی رگوں کے برابر) روزانہ کے تحفظ کی ضمانت ہے۔

۵۶- سورہ اخلاص کی مداوت کرنے والے کے جنازے میں ۷۰ ہزار فرشتے شرکت کرتے ہیں۔

قرآن کی روسے امت مسلمہ ایک امت وسط ہے۔

یہ بات ظاہر ہے کہ یہ امت ایسی تعلیمات کی پروردہ ہے جو توسط و تعادل کی حامل ہے۔قرآن کی یہ آیت ختمی امت اور ختمی تعلمیات کا ذکر صرف ایک کلمہ کے ذریعہ کردیتی ہے اور وہ وسطیت و تعادل ہے۔

ہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تمام انبیاء کی تعلیمات میں وسطیت اور تعادل موجود نہیں رہا ہے۔اس سوال کے جواب میں کچھ کہنا ضروری ہے۔

اس روئے زمین پر انسان ہی ایک جاندار مخلوق نہیں ہے اور صرف وہی اجتماعی انداز میں زندگی بسر کرنے کا عادی نہیں ہے، دوسری جاندار مخلوقاتبھی ہیں جو مقررہ معمولات، ایک خاصنظم اور ڈھانچے کے مطابق زندگی بسر کرتی ہیں انسان کے بر عکس ان کی زندگی جنگل کے زمانے پتھر کے زمانے لو ہے کے زمانے ایٹم کے زمانے سے آشنا نہیں ہے۔روز اول سے جب سے کہ وہ وجود میں آئی ہیں ان کی زندگی کا ایک ہی منظم ڈھانچہ ہے یہ انسان ہی ہے جو اس آیت قرآنی کے مطابق"

( و خلق الانسان ضعیفاً ) (۵)

ترجمہ:"انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔"

اپنی زندگی کا آغاز صفر سے کرتا ہے اور ترقی کے لامتناہی راستے پر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔انسان فطرت کا ایک ہونہار اور بالغ فرزند ہے اسی لئے اسے آزادی و خود مختاری حاصل ہے اسے کسی مستقل ناظم و سرپرست اور ایسی جبری ہدایت کی ضرورت نہیں جس پر عمل کرنے کے لئے کوئی پوشیدہ اندرونی قوت اسے مجبور کرے۔دوسرے جاندار جو کچھ جبلت کے سامنے سر جھکا کر انجام دیتے ہیں وہ انسان آزادانہ ماحول میں عقل و قانین کے مطابق انجام دیتا ہے:

( انا هدینٰه السبیل اما شاکراًو اما کفوراً ) (۶)

ترجمہ:"ہم نے اسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا ہے یا کفر کرنے والا۔"

انسان میں انحراف و سقوط اور جمود و انحطاط پایا جاتا ہے جبکہ دوسرے جاندار ایک حالت پر قائ رہتے ہیں۔وہ اس بات پر قدرت نہیں رکھتے کہ سوچ سمجھ کر کہ خود آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں، سیدھی جانب کا رخ کریں یا بائیں سمت کا تیز چلیں یا آہستہ اس کے بر عکس انسان اپنی عقل و شعور سے کام لے کر آگے بھی قدم بڑھا سکتا ہے پیچھے بھی ہٹ سکتا ہے وہ دائیں یا بائیں کسی بھی سمت مڑسکتا ہے وہ تیز بھی چل سکتا ہے اور آہستہ بھی وہ ایک بندہ شاکر بھی بن سکتےا ہے اور سرکس کافر بھی۔اس طرح وہ افراط و تفریط کے درمیان کحڑا نظر آتا ہے۔

انسانی معاشرہ کبھی اس طرح عادات کا اسیر اور جامد و ساکن ہوجاتا ہے کہ کوئی موثر طاقت ہی اس کی زنجیروں کو کاٹ کر اسے حرکت میں لاسکتی ہے۔کبھی انسانی معاشرہ پر حرص و طمع اور نئی راہوں پر چلنے کی خوہش اس طرح مشلط ہوجاتی ہے کہ وہ فطرت کے اصول و قوانین تک کو بھلا بیٹھتا ہے اور کبھی وہ غرور و خود پرستی اور تکبر میں غرق ہوجاتا ہے، اسے خود بینی کی راہ سے ہٹا کر زہد و پرہیزگاری کی راہ پر ڈالنے کے لئے کسی اثر انداز ہونے والی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھ سکے جب یہی انسانی معاشرہ آرام طلبی مادر پدر آزادی اور ظلم و ستم کی راہ پر چل پڑتا ہے تو اس کے ضمیر کو جھنجھوڑ نے اور اس میں حقوق کا شعور احساس کے پیدا کرنے کے سوا اور چارہ نہیں ہوتا۔

یہ بات واضح ہے کہ تیزی کے ساتھ پیش قدمی ہو یا سست روی بائیں جانب میلان ہو یا دائیں جانب ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک خاص لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر معاشرہ کا انحراف دائیں جانب ہو تو اصلاح کرنے والی طاقت کو اسے بائیں جانب موڑنے کی کوشش کرنی ہوگی دورسری صورت میں اسے اس کے بر عکس عمل کرنا ہوگا۔

ہی وجہ ہے کہ کسی ایک زمانے اور کسی ایک قوم کی اصلاح کے لئے کوئی تدبیر دوا کی حیثیت رکھتی ہے تو وہی تدبیر دوسرے دور اور دوسری قوم کے لئے ایک مرض مہلک میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتی ہے چنانچہ بظاہر مختلف انبیاء کے درمیان ایک اختلاف نظر آتا ہے کسی پیامبر (ص) کو جنگ کی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے تو کسی کو صلح کی کوئی نبی نرمی سے کام لیتا ہے تو کوئی سختی سے کسی پیغمبر کو انقلابی انداز میں کام کرنا پڑتا ہے تو کسی کو اعتدال و سلامتی کی راہ اپنانی پڑتی ہے۔ایک پیغمبر کا سارا دور ابتلاؤ آزمایش سے بھرا ہوتا ہے تو دوسرے پیغمبر کے حصے میں فتح و نصرت بھی آتی ہے۔انبیاء کے درمیان اختلافات کا تعلق ان کے اس روئے سے ہے جو وہ اپنے زمانے کے حالات کے پیش نظر اختیار کرتے ہیں ورنہ ہدف کے اعتبار سے ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ہدف تمام انبیاء کا یک ہی ہے اور راستہ وہی صراط مستقیم ہے۔

قرآن کریم نے قصص انبیاء کے ضمن میں پوری طرح اس بات کی نشان وہی کی ہے کہ پیغمبروں میں سے ہر ایک مبداء و معاد سے متعلق اپنی مشترک تعلیمات کے تحت کسی ایک خاص نکتہ پر زور دیتا ہے وہ ایک مخصوص لائحہ عمل کے اجراء پر مامور ہوتا ہے یہ بات قصص قرآنی کے مطالعہ سے بخوبی روشن ہوجاتی ہے۔

مصلحین جب کسی تیزی سے آگے قدم بڑھانے والے یا پسماندہ معاشرہ میں دائیں یا دائیں جانب مائل معاشرہ میں ظہور کرتے ہیں اور اصلاح کا کام شروع کرتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک متعین لائحہ عمل صرف ایک محدود مدت کے لئے قابل اجراء ہوتا ہے اور معاشرہ کسی بھی نوعیت کا ہوا سے راہ عدل پر لانے کے لئے اس سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے جتنی کہ دوسری جانب سے اسے انحطاط و انحراف کی زاہ پر ڈالنے کے لئے کی جاتی ہے۔

ان توضیہحات کے بعد ہم زیر نظر آیت کے مفہوم کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔

پیغمبر اسلام کی رسالت تمام دوسرے انبیاء کی رسالتوں سے ان معنوں میں فرق و امتیاز رکھتی ہے کہ اس کی حیثیت قانون کی ہے کسی وقتی لائحہ عمل کی نہیں انسانیت کے لئے آپ کا لایا ہوا اساسی قانون کسی ترقی پسند یا رجعت پسندیدہ دائیں بازو یا بائیں بازو کی جانب مائل معاشرہ کے لئے مخصوص نہیں ہے۔

اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر نظام حیات ہے جو ہر موقع و محل کے لئے کار آمد اور زندگی کے تمام جزئی طریقوں پر حاوی ہے۔انبیاء کسی ایک معاشرہ کے لئے مبعوث کئے جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس معاشرہ کے لئے ایک مخصوص لائحہ عمل لے کر آتے تھے۔اسلام کی آمد کے بعد علماء اور امت مسلمہ کے دینی رہنماؤں کو بھی اسی طرح کام کرنا چاہیے جس طرح انبیاء نے انجام دیا تھا لیکن علماء و مصلحین اور انبیاء کے کام کے درمیان فرق یہ ہے کہ علماء وحی اسلام کے ابدی سرچشمے سے ہدایت حاصل کرکے ایک خاص لائحہ عمل وضع کرتے ہیں اور اس کے نفاذ کی کوشش کرتے ہیں۔

قرآن دوسری آسمانی کتابوں کی وقتی اور محدود تعلیمات کی روح اپنے اند لئے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن خود آسمانی کتابوں کا محافظ و نگہبان قرار دیتا ہے:

( و انزلنا الیک الکتٰاب بالحق مصدقا لما بین یدیه من الکتٰب و مهیمناً علیه ) (۷)

ترجمہ:"پھر اے نبی (ص) ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محفظ و نگہبان ہے۔"

اسلامی مخصوص سے یہ بات ثابت ہے کہ تمام انبیاء جو ایک کلی و خاتمی نبوت اور ایک اساسی قانون کے پیشرو کی حیثیت رکھتے ہیں اس بات کی پابند رہے ہیں کہ وہ اپنی اپنی امتوں کو ختم نبوت کے آخری دور میں دین کے اتمام و تکمیل کی خوشخبری دیں، اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں تمام پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا ہے۔

نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں اس کا ذکر بڑی عمدگی کے ساتھ کیا گیا ہے:

ولم یخل سبحانه خلقه من نبی مرسل اور کتاب منزل اور حجه لازمه اور محجه قائمه رسل لاتقصیر بهم قله عددهم و لاکثره المکذبین لهم و سلفت الاباء خلفت الابناء الی ان بعث الله محمدا رسول الله (ص) من سابق سعی که من بعده اوغا بر بر عرفه من قبله علی ذلک نسلت القرون و مضت الدهور لانجاز عدته و تمام نبوته ماخوذا علی النبین، میثاقه، مشهور سماته کریما میلاده ۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو کبھ کسی پیغمبریا کسی کتاب آسمانی یا کافی دلیل یا کسی روش طریقے سے خالی نہیں رکھا ہے، پیغمبروں کو ان کی قلت تعداد اور ان کے مخالفین کی کثرت تعداد نے کبھی ادائے فض سے نہیں روکا، ہر پیغمبر اپنے سے پہلے گزرنے والے پیغمبر سے پوری طرح متعارف رہا ہے اور خود اس کی آمد کی بشارت سابق پیغمبر کی زبانی لوگوں کو ملتی رہی ہے اسی طرح ایک نسل کے بعد دوسری نسل آتی رہی اور زمانہ گزر تا چلا گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق محمد (ص) کو سلسلہ نبوت کی تکمیل کے لئے بھیجا، اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے آپ کے بارہ میں پہلے ہی عہد و پیمان لے رکھا تھا۔آپ کی نشانیاں مشہور و معروف ہوچکی تھیں اور آپ کی ولادت ایک ولادت عظیم تھی۔

اس بارے میں رسول اکرم (ص) کے دو بڑے عمدہ کلمے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:

"نحن الاخرون السابقون یوم القیامة"

"ہم تمام پیغمبروں اور امتوں کے بعد دینا میں آئے ہیں لیکن آخرت میں ہم سب سے آگے ہوں گے اور سب ہمارے پیچھے آئیں گے۔"

آپ کا ایک دوسرا ارشاد یہ ہے:

"آدم و من دونه تحت للوئ ی یوم القیامة"

"قیامت کے دن تمام پیغمبر میرے پرچم تلے ہوں گے۔"

قیامت کے دن اس پیشروی اور پس روی اور رسول اکرم (ص) کے پرچم تلے تمام انبیاء کے ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ تمام انبیاء رسول اکرم (ص) کی بعثت کے لئے مقدمہ ہیں تو آپ نتیجہ سابق انبیاء پر جو وحی نازل ہوئی وہ ایک وقتی لائحہ عمل کے دائرہ تک محدود تھی اور رسول اکرم (ص) پر نازل ہونے والی وحی ایک کلی و ابدی قانون اساسی کے لئے تھی۔مسلمان بزرگوں نے رسول اکر (ص) کے ان دو عمدہ کلمات اور معارف اسلامی کے اس اصولسےہدایت حاصل کرتے ہوئے کہ جو کچھ اس دنیا میں ظاہر ہوتا ہے اس دنیا کے واقعات کا ملکوتی ظہور ہے بڑی عمدہ اور دلپذیر باتیں کہی ہیں:

و انی وان کنت ابن آدم صورۃ

فلی فیہ معنی شاہد بابوتی

و کلہم عن سبق معنای دائیر

بدائیرئی او وارد من شریعتی

و ما منہم الا و قد کان داعیا

بہ قومہ للحق عن تبعیتی

و قبل فعالی دون تکلیف ظاہری

ختمت بشرعی المضحی کل شرعۃ

مولوی نے بھی یہی مضمون باندھا ہے:

ظاہراً آن شاخ اصل میوہ است

باطناً بھر ثمر شد شاخ

گر نبودی میل و امید ثمر

کی نشاندہی باغبان بیخ شجر

پس بمعنی آن شجر از میوہ زاد

گر بصورت از شجر بودش بار

مصطفیٰ زین گفت کارم و انبیاء

خلف من باشند در زیر لوا

بھر این فرمودہ است آن زد فنون

رمز نحن آلاخرون و السابقون

گر بصورت من ز آدم زادہ ام

من بعمنی جد جد افتادہ ام

پس ز من زائید در معنی پدر

پس ز میوہ زاد در معنی شجر

اول فکر آخر آمد در عمل

خاصہ فکری کو بود وصف ازل

شبستری کہتا ہے:

کی خط است از اول تابہ آخر

بر او خلق خدا جمل مسافر

در این رہ انبیاء چون سار بانند

دلیل و رہنمای کاروانند

و زیشان سید ماگشتہ سالار

ہم او اول ہم او آخر در این کا

احد درمیم احمد گشت ظاہر

دراین دور اور آمد عین آخر

ز احمد تا احد یک میم فرق است

جھانی اندرین یک میم غرق است

بر او ختم آمد پایان این راہ

بدو منزل شدہ ادعوا الی اللہ

مقام دلکشایش جمع جمع است

جمال جانفرایش شمع جمع است

شدہ اور پیش و دلہا جملہ در پی

گرفتہ دست جادہا دامن وی

قرآن کریم نے بعد میں آنے والے انبیاء (اور بدرجہ اولی خاتم انبیاء) پر سابق انبیاء کی جانب سے ایمان لانے ان کی نبوت کو تسلیم کرنے بلکہ ان کی آمد کو خوشخبری دینے کا اور ذمہ داری کا کہ وہ اپنی امت کو بھی ایسا کرنے کی ہدایت کریں اور انہیں بعد میں آنے والے انبیاء کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے تیار کریں اور اسی طرح بعد میں آنے والے پیغمبروں کی جانب سے پیشرو پیغمبروں کی تائید و تصدیق کا اور اللہ تعالیٰ کا اپنے پیغمبروں سے اس خوشخبری اس تسلیم تائید تصدیق پر پختہ عہد لینے کا اس طرح ذکر کیا ہے:

( و اذ اخذ الله میثاق النبین لما اتییکم من کتاب و حکمة ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتومنن به و لتنصرنه قال اقررتم و اخذتم علی ذلکم اصی قالوآ اقررنا قال فاشهدوا وانا معکم من الشهدین ) (۸)

ترجمہ:"یاد کرو اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ"آج میں نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے۔کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اس تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اس کی مدد کرنی ہوگی"یہ ارشاد فرما کہ اللہ نے پوچھا"کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو۔"انہوں نے کہا"ہاں ہم اقرار کرتے ہیں"اللہ نے فرمایا "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گاوہ ہوں۔"

ن یوتوں کا ا یک رشتہ میں بندھا ہونا اور ایک نبوت کا دوسری سے مربوط ہوتے چلے جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ نبوت تکمیل کی جانب ایک تدریجی سفر ہے جس کا آخر حلقہ اس کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔عارفین اسلام کہتے ہیں:

"الخاتم من ختم المراتب باسره ا"

عنی پیغمبر خاتم وہ ہے جس نے تمام مراحل طے کرلیے ہیںاور وحی کی رو سے کوئی ایسی راہ باقی نہیں رہ گئی ہے جسے اس نے طے نہ کیا ہو اور کوئی ایسا نکتہ باقی نہیں رہ گیا ہے جس کی اس نے وضاحت نہ کی ہو۔اگر ہم یہ فرضکر لیں کہ کسی علم سے متعلق تمام مسائل حل ہوچکے ہیں تو پھر اس شعبہ میں کسی نئی تحقیق یا کسی نئے انکشاف کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔وحی سے متعلق مسائل کا معاملہ بالکل ایسا ہی ہے۔خدا کے آخری دستور کے آجانے کے بعد کسی نئے انکشاف اور کسی نے پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعہ جو کچھ انسنا پر منکشف ہوا ہے، اسے ایک ایسے کامل ترین مکاشفہ کی حیثیت حاصل ہے جو کسی انسنا کے دائرہ امکان میں ہو سکتا ہے یہ بات واضح ہے کہ ایک ایسے مکمل مکاشفہ کے بعد دوسرا جو بھی مکاشفہ ہو گا، وہ دار اصل پہلے سے طے کردہ راہ کی ہی ایک چیز ہو گی اس کے ساتھ کوئی نئی بات نہیں ہوغی، آخری بات تو وہی ہے جو اس کامل ترین مکاشفہ میں آچکی ہے:

( و تمت کلمت ربک صدقاً و عدلاً لامبدل لکلمٰته و هو السمیع العلیم ) (۹)

ترجمہ:"تمہارے رک کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔"

مرحوم فیض نے اپنی کتنا علم الیقین کے(۱۰) پر کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے:

"انسانی فطرت کا ہدف و مقصود و قرب الٰہی کے مقام تک پہنچنا ہے اور پیغمبروں کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیںہے۔اس اعتبار سے نبوت نظام زندگی کا ایک حصہ قرار پاتی ہے لیکن اس کا مقصود اور ہدف سب سے اونچا مرتبہ اور نبوت کا آخری درجہ ہے نہ کہ نبوت کا اولین درجہ، سنت الٰہی کے مطابق نبوت بتدریج درجہ کمال تک پہنچتی ہے جیسے کہ ایک عمارت بتدریج مکمل ہوتی ہے۔عمارت کی تعمیر کا ہدف اس کے پایے اور دیواریں نہیں ایک مکمل مکان ہوتا ہے، نبوت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے نبوت کا ہدف اس کی تکامل صورت ہے یہی وجہ ہے کہ نبوت کا سلسلہ ایک جگہ پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور مکلم ہو جاتا ہے۔

وہ مزید کسی اضافے کو قبول نہیں کرتا کیونکہ تکمیل کے بعد کوئی اضافہ و کمال کے منافی ہو تا ہے اور اس کی حیثیت ایک زائد انگلی کی سی ہو جاتی ہے، پیغمبر اکرم (ص) کی معروف حدیث میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے، آپ نے فرمیا نبوت ایک مکان کی مانند ہے جو تیار ہو چکا ہے لیکن اس کے مکمل ہو ے میں سرف ایک اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ کو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ کو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ کا نصب کرنے والا ہوں!

ہم نے گذشتہ صفحات میں جو کچھ لکھا ہے، وہ عقیدہ ختم نبوت کے پس منظراور اس کی بنیادون کی جانب رہنمائی کے لیے کافی ہے۔

یہ بات واضح ہوگئی کہ انسانی فطرت میں دین کی طلب وہ بنیاد ہے جس پر عقیدہختم نبوت استوار ہوتا ہے تمام انسانوں کی فطرت ایک ہے، تکمیل انسانیت کا سفر ایک با مقصد سفر ہے جو ایک متعین اور سیدھے راستہ جاری ہے ۔اس اعتبار سے دین حق، جو فطرت کے تقاضوں کی وضاحت کرتا ہے اور انسان کی راہ راست کی جانب رہنمائی کرتا ہے، صرف ایک ہی ہوسکتا ہے ۔ایک طریق زندگی جو انسانی فطرت کے مطابق ہو، جامع اور کلی ہو اور ہر طرح کی تبدیلی و تحریف سے محفوظ ہو اور جو مسائل کی اچھی طرح تشخیص کر سکے اور جسے اچھی طرح منطبق کیا جاسکے اور عمل و نفاذ کے مرحلے میں ہمیشہ رہنمائی کرسکے اور حالات کے مطابق مختلف طریقوں لائحہ عمل اور بے شمار جزئی قوانین کے لئے سرچشمہ ثابت ہوسکے انسانی فطرت کا ایک اہم تقاضا اور انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے آئدہ مضامین اس پہلو کو بہتر طریقے پر واضح کریں گے ۔

اب ہم ان سوالات کا جواب تلاش کرتے ہیں جن کی طرف ابتدا میں اشارہ کیا گیا تھا۔

آسمانی دروازے

پہلا سوال جس کے سبب ختم نبوت کا عقیدہ وجود میں آیا وہ عالم غیب اور انسان کے درمیان رابطے سے تعلق رکھتا ہے وہ سوال یہ ہے کہ سب سے پہلے دور کے انسان نے اپنی جہالت اور بے علمی کے باوجود وحی و الہٰام کے راستے سے عالم غیب کے ساتھ کس طرح رابطہ پیدا کرلیا اور اس پر آسمان کے دروازے کیسے کھل گئے؟ جبکہ ترقی یافتہ بعد کا انسان اس رحمت سے محروم رہا اور اس پر آسمان کے دروازے بند ہوگئے۔

کیا فی الواقع انسان کی روحانی اور باطنی صلاحیتیں کم ہوگئی ہیں اور وہ اس اعتبار سے تنزل میں چلا گیا ہے۔

یہ شبہ اس خیال سے پیدا ہوا ہے کہ عالم غیب کے ساتھ معنوی ربط و تعلق انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے اس لئے سلسلہ نبوت کے منقطع ہونے کا لازمی نتیجہ عالم غیب اور عالم انسانی کے درمیان روحانی اور معنوی رابطے کے انقطاع کی صورت میں ظاہر ہوگا۔

لیکن یہ خیال اپنی کوئی بنیاد نہیں رکھتا۔قرآن کریم بھی غیب اور ملکوت کے ساتھ اتصال کے درمیان اور مقام نبوت کے درمیان لازم و ملزوم کے تعلق کا قائل نہیں ہے جیسا کہ خرق عادت کو وہ پیغمبری کی واحد دلیل تسلیم نہیں کرتا، قرآن کریم ایسے اشخاص کا بھی ذکر کرتا ہے کہ ان کی معنوی زندگی ایسی طاقت سے بہرہ مند رہی ہے کہ انہوں نے فرشتوں کے ساتھ ہمکلامی کی ہے اور ان سے خارق العادت (غیر معمولی) امور انجام پائے ہیں حالانکہ وہ اشخاص نبی نہیں تھے۔اس کی بہترین مثال عمران کی بیٹی، عیسی مسیح (ع) کی ماں مریم ہے۔قرآن نے ان کے بارے میں حیرت انگیز واقعات کا ذکر کیا ہے۔قرآن موسیٰ (ع) کی والدہ کے بارے میں بھی کہتا ہے ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ موسیٰ (ع) کو دودہ پلائے اور جب اسے موسیٰ (ع) کے بارے میں کسی خوف کا احساس ہوا تو اسے دریا میں بہادے ہم اسے محفوظ رکھ کر تیری طرف واپس لوٹا دیں گے ہمیں معلوم ہے کہ عیسیٰ (ع) کی ماں پیغمبر تھیں اور نہ موسیٰ (ع) کی والدہ۔

حقیقت یہ ہے کہ ملکوتی حقائق کے غیب و شہود کے ساتھ اتصال، آواز غیبی کا سننا اور بالاخر غیب سے خبر کا پانا نبوت نہیں ہے، نبوت پیغام کا لانا ہے ہر دو شخص جسے غیب کی خبر مل جائے پیغام کا لانے والا نہیں ہوتا۔

قرآن اشراق اور الہٰام کا درازہ ان تمام لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنے باطن کو پاک کرلیتے ہیں:

( ان تتقوا الله یجعل لکم فرقاناً ) (۱۱)

ترجمہ:"اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لئے کسوئی بہم پہنچادے گا۔"

( والذین جاهد و افینا لنهدینهم سبلنا ) (۱۲)

ترجمہ:جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے رستے دکھائیں گے۔

اسی فلسفہ کے نقطہ نظر سے معنوی اور عرفانی زندگی زندگی کا ایک نمونہ پیش کرنے کے لئے نہج البلاغہ کے ایک خطبہ کچھ حصہ یہاں نقل کرنا کافی ہوگا۔

نہج البلاغہ کے خطبہ ۲۲۰ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

"ان الله تعال یٰ جعل الذکر جلاء للقوب تسمع به بعد الوقر ة و تبصربه بعد العشو ة و تنقادبه بعد المعاند ة و ما برح لله عزت آلائ ه ف ی البرهة بعد البرهة و فی ازمان الفترات عبادنا جاه م ف ی فکر ه م و کلم ه م ف ی ذات عقوله م"

ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے اپنی یاد کو دلوں کا صیقل قرار دیا ہے۔دل بہرے ہوجانے کے بعد بھی اس ذکر کے ذریعہ سننے والے اور اندھے ہوجانے کے بعد دیکھنے والے اور سرکشی و عناد کی راہ پر چل پڑنے کے بعد بھی مطیع و فرمانبردار ہو جاتے ہیں۔ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ زمانے کے ہر ایک حصے میں اور ان زمانوں میں جبکہ لوگوں کے درمیان کوئی پیغمبر موجود نہ ہو اللہ تعالیٰ کے ایسے بنے موجود رہے ہیں آج بھیء موجود ہیں جن کے دلوں میں وہ کوئی راز کی بات ڈالتا رہا ہے اور ان کی عقلوں کی راہ سے ان کے ساتھ بات کرتا ہے۔"

رسول اکرم (ص) سے روایت ہے:

( ان لله عباداً لیسوا بانبیاء یغبط هم النبوة )

"اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی موجود ہیں کہ وہ پیغمبر نہیں ہیں لیکن نبوت ان پر رشک کرتی ہے۔"

شیعہ ائمہ اطہار (ع) کی باطنی ولایت و امامت کے قائل ہیں جبکہ وہ انہیں نبی نہیں سمجھتے۔اس سے بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔

عارفین اسلام نے عرفانی اصطلاحات میں معنی سیرو سلوک کے مراتب کو چار مرحلوں میں تقسیم کیا ہے ہم طول کلام سے بچنے کے لئے اس کے صرف دو مرحلوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف) سفر از خلق بہ حق (مخلوق کی طرف سے خالق کی جانب سفر)

ب) سفر حقبہ خلق (خالق کی طرف سے مخلوق کی جانب سفر)

مخلوق کی جانب سے خلاق کی طرف سفر پیغمبروں کے لئے مخصوص نہیں ہے۔پیغمبر تو معبوث ہی اسی لئے ہوئے ہیں کہ اس سفر میں انسان کی مدد کریں، جو کچھ پیغمبروں کے لئے مخصوص ہے، وہ خالق کی جانب سے مخلوق کی جانب سفر ہے یعنی وہ مخلوق کی دستگیری اور ارشاد ہدایت پرمامور ہیں اس سے مراد پیغمبر کی کثرت کی جانب واپسی ہے تا کہ اسے وحدت کی راہ دکھا سکے۔

صدر المتالھین(۱۳) پر لکھتے ہیں:

"وحی یعنی پیغمبری اور منصب نبوت کے لئے قلب و سماعت پر فرشتے کا نزول منقطع ہو چکا ہے اور اب کسی شخص پر کوئی فرشتہ نازل مہیں ہوگا اور اسے کسی فرمان الٰہی کے جاری کرنے پر مامور نہیں کیا جائے گا، کیونکہ "اکلمت لکم دینکم" کے حکم کے تحت جو کچھ وحی کے راستے انسان تک پہنچتا تھا وہ پہنچ چکا ہے لیکن الہام و اشراق کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا ہے اور نہ آئند ہوگا اس راہ کا مسدوء ہونا ممکن نہیں۔"

اس سلسلے میں پہلے بہت کچھ کہا جا چکا ہے اس کا نقل مرنا موجب ظوالت ہوگا۔ہمارے زمانے کے دانشمندوں میں سے عالمہ اقبال نے ایک بڑی لطیف بات کہی ہے۔اقبال نے نبی اور عارف کے درمیان (ان کے قول کے مطابق مرد باطنی) فرق کو اس طرح واضح کیا ہے۔

ایک مرد عارف تجرنہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل کرنے والے اطمینان و سکون کے بعد حیات دنیوی کی جانب واپسی کو پسند نہیں کرتا۔اگر وہ ضرورت کی بنا پر واپس بھی آتا ہے تو انسانیت کے لئے اس کی واپسی چنداں سودمند نہیں ہوتی لیکن خلق کی طرف پیغمبر کی واپسی ثمر بخش اور تخلیقی پہلو کی حامل ہوتی ہے۔پیغمبر واپس آتا ہے اور وقت کے دھارے میں اتر جاتا ہے تاکہ تاریخ کے دھارے کو قابو میں لائے اور اس طرح کمال مقاصد سے ایک جہاں تازہ پیدا کرے۔ایک مرد عارف کے لیے تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل ہونے والا سکون ایک انتہائی مرحلہ ہے اور پیغمبر کے لئے اس کی روحانی قوت کا بیدار ہونا ہے جو ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔یہ قوت ایک ایسے اندازے کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے کہ عالم انسانی میں ایک مکمل انقلاب برپا کردیتی ہے پیغمبری کو ایک ایسی باطنی خود آگاہی رکھنے والی نوع سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کی اس میں تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) اپنی حدود سے باہر نکلنے کے قریب پہنچ جاتا ہے اور ایسے مواقع کی تلاش میں ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی کی طاقتوں کو از سر نو توجیہ کرے یا انہیں ایک تازہ شکل دے!

پس انقطاع نبوت سے مراد ارشاد و ہدایتر کے لیے خدا کی طرف سے ماموریت کا منقطع ہونا ہے۔خدا کی طرف سفر کرنے والوں اور سالکوں کے لیے معنوی فیض کا منقطع ہونا نہیں۔

اگر ہم نے یہ گمان کیا کہ اسلام نے نبوت کے اعلان کے ساتھ معنوی زندگی کی بھی نفی کردی ہے تو ہم سخت غلطی کریں گے۔

نبوت تبلیغی

دوسرا سوال یہ ہے کہ پیغمبران کرام بحثییت مجموعی دو بڑی ذمہ داریوں کو پورا کرتے رہے ہیں۔وہ خدا کی طرف سے انسان کے لیے قانون اور دستور العمل لاتے رہے ہیں وہ دوسرے یہ کہ وہ لوگوں کو خدا کی طرف بلانے کے ساتھ انہیں اس دور اور زمانے کے الٰہی دستور العمل پر کاربند ہونے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔پیغمبروں کی اکثریت اسی دوسرے فریضے کے انجام دینے پر مامور رہی ہے۔ایسے پیغمبروں کی تعداد بہت کم ہے جن کو قرآن اولوالعزم قرار دیتا ہے اور جن کے ذریعے قانون اور دستور العمل بھیجا گیا ہے۔اس اعتبار سے نبوتیں دو قسم کی رہی ہیں ایک نبوت تشریعی اور دوسری نبوت تبلیغی تشر یعی پیغبر جن کی تعداد بہت تھوڑی ہے وہ صاحب شریعت و قانون انبیاء کہلاتے ہیں جبکہ تبلیغی پیغمبروں کا کام صاحب شریعت پیغمبروں کی تعلیمات کو عام کرنا اور ان ہی کے مطابق تعلیم و ارشاد کا کام انجام دینا رہا ہے۔اسلام نے ختم نبوت کا اعلان کرکے نہ صرف تشریعی نبوت بلکہ تبلیغی نبوت کے سلسلے کوبھی ختم کردیا ہے۔آخر ایسا کیوں کیا گیا؟ امت محمد (ص) اور ملت اسلامیہکو پیغمبروں کے ہدایت و ارشاد کے اس سلسلے سے کیوں محروم کیا گیا؟

بلفرض ہم نے یہ بات تسلیم کرلی کہ تکمیل اتمام اور جامعیت و کلیت کی بنا پر تسریعی نبوت کا سلسلہ منقطع کردیا گیا لیکن تبلیغی نبوت کے سلسلے کو کس حکمت و فلسفے کی بنا پر ختم کیا گیا؟

حقیقت یہ ہے کہ نبوت اور ہدایت وحی کی اصل ذمہ داری یعنی وہی پہلی ذمہ داری (تشریعی) ہے جبکہ تبلیغ تعلیم اور دعوت کی ذمہ داری (تبلیغی) نصف بشری ہے تو نصف الٰہی۔

وحی اور نبوت یعنی عالم وجود کی بنیادوں سے ایک پوشیدہ اتصال اور رابطہ اور مخلوق کی ہدایت کے لیے اس کی ماموریت در اصل مظاہر ہدایت کا ایک مظہر ہے جو سارے عالم وجود پر حکم فرما ہے۔

( الذی خلق فسویٰ والذی قدر فهدیٰ ) (۱۴)

ترجمہ:"جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔"

موجودات زندگی کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اس درجہ کمال کی مناسبت سے جس پر وہ پہنچ جاتے ہیں ہدایت خاص سے پہرہ مند ہوتے ہیں یعنی ہدایت کی شکل اور خصوصیت زندگی کے مختلف مراحل کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔تمام دانشور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حیوانات اپنی ساخت کے وسائل طبیعی کے اعتبار سے ضعیف تر اور ناتوان تر ہیں لیکن وہ پوشیدہ جبلی رہنمائی کے اعتبار سے قوی تر ہوتے ہیں انہیں فطرت کی ایک مستقل سر پرستی اور حمایت حاصل رہتی ہے۔وہ جس قدر طبعی وسائل اور عقلی وہمی خیالی اور حسی طاقتوں سے لیس ہوتے چلے جاتے ہیں وجود کی سیڑھی پر ان کے قدم بلندی کی جانب اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ان کی جبلی ہدایت میں کمی آنے لگتی ہے۔ٹھیک اس بچہ کی طرح جو کمسنی کے ابتدائی مراحل میں ماں باپ اور دوسرے اشخاص کی مستقل سر پرستی اور نگرانی سے بہرہور رہتا ہے اور جس قدر وہ رشد و بلوغ حاصل کرتا جاتا ہے والدین کی مستقل نگرانی و سرپرستی کے دائرے سے باہر نکتا چلا جاتا ہے۔

جاندار مخلوقات کا زندگی کی سیڑھیوں پر چڑھ کر بلند ہونا اور ان کا عقلی وہمی خیالی حسی اور عضوی وسائل سے لیس ہونا ان کے استحکام و استقلال کو بڑھانا ہے اور اس اعتبار سے ان کی جبلی ہدایت کم ہوجاتی ہے۔

کہا جاتا ہے کیڑے دوسرے تمام حیوانات کی بہ نسبت جبلی ہدایت سے زیادہ لیس ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تکمیلی مراحل کے اعتبار سے سب سے نچلے درجہ میں ہیں اور انسان جو تکمیل کی سیڑھی کے سب سے اونچے پلہ پر پہنچا ہوا ہے تمام مخلوقات کی بہ نسبت جبلی ہدایت میں کمزور تر ہے۔

وحی ہدایت کے عالی ترین اور بلند ترین مراتب و مظہر میں سے ایک ہے۔وہ اپنے اندر ایک ایسی رہنمائی رکھتی ہے جو حس خیال عقل علم اور فلسفہ کی دسترس سے باہر ہے ان میں سے کوئی چیز وحی کی جگہ نہیں لے سکتی لیکن وحی تشریعی ہی اس خصوصیت کی حامل ہے وحی تبلیغی نہیں وحی تبلیغی کا معاملہ دوسرا ہے۔

انسان اس وقت تک تبلیغی وحی کا محتاج رہتا ہے جب تک اس کی عقل علم اور تمدن کا فرجہ اس مقام تک بلند نہیں ہو جاتا کہ وہ خود اپنے دین کے بارے میں دعوت تعلیم تبلیغ تفسیر اور اجتہاد کا فرض انجام دے سکے علم اور عقل کا ظہور دوسرے الفاظ میں انسانیت کا رشد و بلوغ خود وحی تبلیغی کو ختم کر دیتا ہے اور علماء ان انبیاء کے جانشین قرار پاتے ہیں۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے قرآن نے اپنی نازل ہونے والی پہلی آیت میں پڑھنے لکھنے کی اور قلم وعلم کی بات کی ہے۔

( اقرا باسم ربک الذی خلق؛ خلق الانسان من علق؛ اقراء و ربک الاکرم؛ الذی علم بالقلم؛ علم الانسان مالم یعلم ) (۱۵)

ترجمہ: "پڑھو (اپنے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا جمے ہوئے خون کے ایک لو تھڑے سے انسان کی تخلیق کی پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔"

یہ آیت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ قرآن کا عہد پڑھنے لکھنے سکھانے کا اور علم و عقل کا عہد ہے۔یہ آیت ہمیں اشار تا بتاتی ہے کہ قرآن کے اس دور میں تعلیم تبلیغ اور آسمانی آیات کی حفاظت کی ذمہ داری علماء کی طرف منتقل کردی گئی ہے اور علماء اس اعتبار سے انبیاء کے جانشین قرار پاتے ہیں۔اس آیت نے اس عہد میں بشریت کے استقلال اور بلوغ کا اعلان کیا ہے۔ قرآن نے اپنی تمام آیات میں تدبر عقلی استدلال فطرت کے تجرباتی و عینی مشاہدہ تاریخ کے مطالعہ اور گہرے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے یہ سب ختم نبوت کی اور وحی تبلیغی کی جگہ علم و عقل کے جانشین ہونے کی نشانیاں ہیں۔

قرآن کے لیے جس قدر کام ہوچکا ہے کیا کسی دوسری آسمانی کتاب کے لیے اس قدر کام انجام دیا گیا ہے؟ نزول قرآن کے ساتھ ہی قرآن کے ہزاروں حافظ پیدا ہوگئے۔نزول قرآن کو ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری تھی کہ علوم قرآنی کی خاطر نحو وصرف قواعد زبان اور عربی زبان کی لغات کی تیاری کا کام شروع ہوچکا تھا۔معانی بیان اور بدایع کا علم ایجاد ہوا ہزاروں تفسیریں اور ان کے مفسرین تفسیر قرآن کی درسگاہیں وجود میں آگئیں۔قرآن کے لفظ لفظ کے بارے میں تحقیق کا کام ہونے لگا اس کام زیادہ حصہ ان لوگوں کے ہاتھوں انجام پاتا رہا جن کی مادری زبان عربی نہیں ہے۔ صرف یہ قرآن سے متعلق خاطر ہی رہی ہے جس نے اس قدر جوش و جذبہ پیدا کردیا۔یہ ساری سرگرمیاں آخر توریت انجیل اور اوستا کے لیے کیوں ظاہر نہیں ہوئیں کیا خود یہ بات بشریت کے رشد و بلوغ اور کتاب آسمانی کی تبلیغ و حفاظت اس کی صلاحیت پر دلالت نہیں کرتی؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیںہے کہ عقل و دانش نبوت تبلیغی کی جانشین بن گئی ہے۔

انسان اپنے ابتدائی دور میں مکتب کے اس کمسن بچے کی طرح تھا جو چند روز بعد ہی اپنی کتاب کو پھاڑ کرپھینک دیتا ہے اس کے بر عکس عہد اسلامی کا انسان ایک بزرگ عالم کی طرح ہے کہ وہ جس قدر اپنی کتابوں کا بار بار مطالعہ کرتا ہے اسی قدر ان کے مضمین اسے یاد ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ ان کی گہرائی میں اتر تا چلا جاتا ہے۔

انسانی زندگی کو بالعموم عہد تاریخ اور تاریخ سے پہلے کے عہد کے دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔تاریخ کا عہد اس دور کو کہا جاتا ہے جس میں انسان اپنی یادداشتوں کو کتبوں اور کتابوں کی صورت میں محفوظ کرنے کے قابل ہوگیا تھا اس دور کی زندگی کے بارے میں ان ہی یادداشتوں کو فیصلہ کن قرار دیا جاتا ہے لیکن ما قبل تاریخ کے عہد کے ایسے کوئی آثار موجود نہیں ہیں جو اس زمانے کی زندگی کے بارے میں فیصلے کی بنیاد بن سکیں۔

لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ عہد تاریخ کے آثار بھی زیادہ تر پراگندہ اور منتشر ہیں، البتہ اس عہد کا وہ آخری حصہ ظہور اسلام کے دور سے پوری طرح متصل ہے جس میں انسان نے پانی تاریخ اور آثار کو منظم طریقے پر نسل بہ نسل منتقل کرنا شروع کردیا تھا خود اسلام کو اس رشد عقلی کا ایک بڑا عامل سمجھا جاتا ہے۔عہد اسلامی میں مسلمانوں نے خود اپنے آثار کی حفاظت و نگہداشت کا کام شروع کردیا تھا۔اس کے ساتھ مسلمانوں نے پچھلی قوموں کے آثار کی بھی کم و بیش حفاظت کی اور انہیں بعد کی نسلوں کی طرف منتقل کرتے رہے۔یہ ختم نبوت کا قریبی زمانہ ہی ہے کہ جس میں انسان نے اپنے علمی اور دینی ورثوں کی کی حفاظت کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔امر واقع یہ ہے کہ حقیقی عہد تاریخ ظہور اسلام کے عہد سے بالکل متصل ہے، گذشتہ ادوار میں ایک طرف نفیس علمی، فلسفی، اور دینی آثار ہوا اور دوسری طرف یہ آثار آب و آتش کے نذر بھی ہوتے رہے، تاریخ میں اس کی دردناک تفصیلات پوری طرح محفوظ ہیں۔

اسکندریہ کا عظیم مشرق روم کی شہنشاہیت پر مسیحیت کے اثر و رسوخ کے بعد تباہ ہو گیا اور اس مرکز تاریخی کتب خانہ متعصب عیسائیوں کے ہاتھوں نزر آتش ہو گیا!

علم کے ظہور اور ترقی کے ایک ایسے درجے تک انسان کی رسائی نے کہ وہ دین آسمانی کا محافظ، داعی اور مبلغ بن سکے، نبوت تبلیغی کی ضرورت باقی رہنے نہ دی اور اس کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس امت کے علماء کو انبیاء بنی اسرائیل کی مانند کہا ہے۔

علامہ اقبال نے ایک بڑی عمدہ بات کہی ہے۔

"پیغمبر اسلام دنیائے قدیم جدید کے درمیان کھڑے ہیں۔الہام کے سرچشمے سے جب آپ کا رشتہ جوڑا جاتا ہے تو دنیائے قدیم سے آپ کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور جب روح الہام کو بروئے کار لایا جاتا ہے تو دنیائے جدید سے آپ کا ربط ہو جاتا ہے۔زندگی نے آپ کی ذات میں معرفت کے وہ دوسرے سرچشمے دریافت کر لئے ہیں جو اس (زندگی) کے نئے سفر کے لیے موزون ہیں۔اسلام کا ظہور در اصل استدلالی اور استقرائی عقل کا وجود میں آنا ہے۔ظہور اسلام کے ساتھ رسالت، خود نبوت کے اختتام پذیر ہونے کی ضرورت کے نتیجے میں، حد کمال کو پہنچ جاتی ہے جس سے لازما یہ دانش مندانہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زندگی ہمیشہ، کمسنی کے مرحلے میں اور باہر سے رہنمائی کی محتاج نہیں رہ سکتی۔اسلام میں کاہنی (فالگیر) اور موروثی سلطنت کی نفی اور قرآن میں عقل اور تجربہ پر دائمی توجہ اور اس کتاب مبین کا فطرت اور تاریخ کو معرفت بشری کے سرچشموں کی حیچیت دنیا در اصل ختم نبوت کے واحد عقیدے کے مختلف خدوخال ہیں۔عقیدہ ختم نبوت کے یہ معنے نہیں لینے چاہیں کہ زندگی کی انتہائی سرنوشت یہ ہے کہ عقل کامل جزبات و احساسات کی جگہ حاصل کرلے، یہ بات نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب"

اسلام نے اعلان ختم نبوت کے ضمن میں اپنی ابدیت کا اعلان کیا ہے:"حلال محمّدٍ حلال الی یوم القیامه و حرام محمد حرام الی یوم القیامة"

ترجمہ: "محمد کا حلال کیا ہوا قیامت تک حلال ہے اور محمد (ص) کا حرام کیا ہوا قیامت تک حرام ہے"

سوالات اور اعتراضات کی ساری بوچھاڑ اسی موضوع سے ہے کہا جاتا ہے کیا کسی چیز کے لیے ہمیشگی ممکن ہے؟

دنیا میں ہر چیز فانی ہے، اس دنیا کی اصل بنیاد تغیر ہے، دنیا میں سرف ایک ہی چیز جاودانی ہے اور وہ یہ کہ کسی چیز کو ہمیشگی حاصل نہیں۔

ہمیشگی اور ابدیت کے منکر کبھی اپنی باتوں کو فلسفہ کا رنگ دے دیتے ہیں اور دلیل میں تغیر و تبدل کے اس قانون کو پیش کرتے ہیں جو فطرت کا ایک مجموعی قانون ہے۔

اگر ہم مسئلے پر اس نقطہ نظر سے غور کریں تو اعتراض کا واضح جواب مل جاتا ہے کہ وہ چیز جو ہمیشہ تغٰر و تبدل سے دوچار رہتی ہے وہ مادہ اور دنیا کی مادی ترکیبات ہیں لیکن قوانین اور نظامات خواہ وہ طبیعی نظامات ہوں یا وہ اجتماعی نظامات جو طبیعی اصولوں سے ہم آہنگ ہوں اس قانون تغیر و تبدل کے تحت نہیں آتے، ستارے اور شمسی نظامات ظاہر ہوتے ہیں اور چند دنوں بعد فرسودہ اور فانی ہو جاتے ہیں لیکن قانون کشش اپنی جگہ رہنا ہے، نباتات اور حیوانات وجود میں آتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں لیکن قوانین حیات باقی رہتے ہیں۔

ہی حال انسانوں اور ان کی زندگی کے قابون کا ہے، انسان جن میں پیغمبر بھی شامل ہے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن پیغمبر کا لایا ہوا آسمانی قانونزندہ اور تابندہ رہتا ہے ۔

مصطفیٰ را وعدہ داد الطاف حق

گر بمیری تو نمیرد این سبق

مظاہر فطرت تغیر پذیر ہیں قوانین فطرت کو تغیر نہیں، اسلام قانون ہے نہ کہ مطاہر کائنات سے ایک مظہراسلام اسی صورت مین مردہ ہو سکتا ہے کہ وہ قوانین فطرت سے ہم آہنگ نہ ہو لیکن جب اسلام کا اپنا دعویٰ ہے کہ وہ فطرت اور انسانی سرشت سے اور اس کے معاشرے سے تازگی اور قوت حاصل کرتا ہے اور قوانین فطرت سے ہم آہنگ ہے تو آخر وہ کس طرح ہو سکتا ہے؟

کبھی اجتماعیت کے پہلو سے اعتراض کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اجتماعی ضوابط اجتماعی تقاضوں کی بنیاد پر وضع کئے جاتے ہیں، جب معاشرہ کی ضروریات قوانین اجتماعی کی بنیاد ہیں تو ان کا عوامیل تمدن کی توسیع و تکمیل کے ساتھ ساتھ متغییر ہونا بھی ضروری ہے ہر زمانے کی ضروریات دوسرے زمانے کی ضروریات سے مختلف ہوتی ہیں، میزائیل طیاروں بجلی اور ٹیلی ویژن کے اس جدید دور کی ضروریات گھوڑوں، خچرون اور اونٹون کی پرانے کی ضروریات سے قطعی مختلف ہون گی، یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس جدید دور کے لیے بھی وہی ضوابط نافذ ہوں جو پرانے زمانے میں رائج تھے، دوسرے الفاظ میں عوامل تمدن کے اندر ترقی و توسیع لازمانئے تقاضے پیدا کرے گی، اس لیے جبر تاریخ کا راستہ روکنا اور زمانہ کے ایک ہی حال پر رکھنا ممکن نہیں ہے اور زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرنا بھی ممکن نہیں ہے، جامد اور یکساں ضوابط کا پابند رہنا مقتضیات زمانہ کے ساتھ مطابقت اور لچک پیدا کرنے اور تمدن کے قافل کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

بے شک اہم ترین مسئلہ ہے، ہماری نئی نسل بجز تغیر و تبدل اور وجدت طلبی اور زمانے کے نئے نئے تقاضوں کے کچھ نہیں سوچتی، نئی نسل کا سامنا کرتے بھی جو بات سب سے پہلے کانون تک پہنچتی ہے وہ یہی ہے، اس نسل کی انتہا پسندوں کے نقطہ نظر سے مذہب اور نو طلبی دو متضاد وجود ہیں، نو طلبی کی خاصیت حرکت اور ماضٰ سے منہ موڑنا ہے جبکہ مذہب کی خاصیت جمود سکون، ماضی سے وابستگی اور موجودہ وضع کی حفاظت کرنا ہے۔

اسلام کو دسرے ہر مذہب سے زیادہ اس طرز فکر کے حامل گروہ سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے، اسلام کا ابدیت و ہمیشگی کا دعوی اس گروہ کے لیے بڑا نا قابل برادشت ہے، اسلام زندگی کے تمام شعبون میں عمل دخل رکھتا ہے، خدا اور بندے کے درمیان تعلق سے لے کر افراد کے اجتماعی روابط، خاندانی روابط، فرد اور اجتماع کے روابط انسنا اور اس دنیا کے با ہمی روابط سب ہی سے وہ بحث کرتا ہے، اگر اسلام دوسرے مذاہب کی طرح چند رسلم عبادات اور خشک اخلاقی ضوابط تک محدود ہوتا تو پھر اس کے لیے کوئی دشواری نہ تھی لیکن وہ اس قدر مدنی، فوجداری، دیوانی، سیاسی، اجتماعی اور خاندانی قوانین و ضوابط رکھتے ہوئے کیا کر سکتا ہے؟

ہم نے اوپر جو اعتراض نقل کیا ہے اس میں جبر تاریخ ضروریات میں تغیر مقضیات زمانہ کی رعایت جیسے نکات کو اٹھا یا گیا ہے اس لیے اعتراض کے ان تین اصل نکات پر مختصراً، بحث کرنا ضروری ہے، اس کے بعد اسلام کے نقطہ نظر سے ہم اس اعتراض کو رفع کرنے کی کوشش کریں گے، ان محدود صفحات مین بحث کے تمام پہلووں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے، ایک ایسا مسئلہ جو فلسفہ، فقہ، تاریخ اور اجتماعیات سب ہی سے متعلق ہے ایک ضخیم کتاب کی وسعت چاہتا ہے جسے برسون کے مطالعہ کا حاسل قرار دیا جا سکے تا ہم توقع ہے کہ یہ مختسر مقالہ اس اشکال کے رفع کرنے میں مدد دے گا۔

جبر تاریخ

یہ کلمہ و اجزاء سے مرکب ہے ۔جبر اور تاریخ جبر کا مطلب کسی چیز کا حتمی اور یقینی ہونا ہے فلاسفہ کی اصطلاح میں اسے ضرورت اور وجوب کہا جاتا ہے مثلا :جب ہم ۵ *۵ کہتے ہیں تو یہ ضرب کھانے والے دونوں اعداد ضرورتا اور جبرا ۲۵ کے مساوی ہوں گے یعنی حتما ایسا ہی ہے اس کے خلاف ہونا ممکن نہیں ہے ۔یہ بات ظاہر ہے کہ جبر کا لفظ اصطلاحا ایک فلسفیانہ مفہوم رکھتا ہے ۔اس سے ہٹ کر جبر کا مفہوم حقوقی فقہی اور عرفی ہے یعنی یہ لفظ اکراہ اور جبریہ ارمال کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۵ *۵ اپنی ذاتی ساخت کی بناء پر ۲۵ کے مساوی ہے یہ کسی جبری قوت اور جبریہ عمل کی وجہ سے نہیں ہے لیکن تاریخ، تاریخ یعنی حادثات کا مجموعہ جو انسان کی سرگذشت کو تشکیل دیتا ہے ۔انسانی سرگذشت ایک راستہ طے کرتی ہے کچھہ ایسی طاقتیں کار فرما ہیں جو اسے حرکت میں لاتی ہیں اور اسے قابو میں رکھتی ہیں جیسے ایک دستی پہیہ یا ایک کارخانہ جسے ہاتھہ یا بھاپ کی طاقت سے چلایا جاتاہے ۔تاریخ کو بھی کچھہ عوامل اور طاقتیں حرکت میں رکھتی ہیں ۔اسے گردش میں لاتی ہیں اور آگے بڑھاتی ہیں ۔اس اعتبار سے جبر تاریخ، کا مطلب سرگذشت بشر کا حتمی اور پایبند ہونا ہے، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تاریخ کی حرکت کی حرکت جبری ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کی اجتماعی زندگی میں کچھہ ایسے طاقتور عوامل ہیں جو اپنے قطعی اچرات رکھتے ہیں ۔ان سے بچنا ممکن نہیں ان عوامل کی تاثیر یقینی اور حتمی ہوتی ہے ۔

جبر تاریخ، کے کلمے نے ہمارے اس دور میں بڑی قدر و قیمت حاصل کر لی ہے یہ کلمہ موجودہ زمانے میں وہی کردار ادا کررہا ہے جو اس نے ماضی میں قضا و قدر کے پردہ میں ادا کیا تھا۔حوادث زمانہ کے آگے سپرڈال دینا اور اپنے غلطیوں کے عذر تراشنا اس کا مدعا ہے ۔

یہ ایک شیر خونخوار ہے کہ اس کے مقابل تسلیم و رضا کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ماضی میں اس کا نام قضا و قدر تھا اور موجودہ دور میں اسے جبر تاریخ کہا جاتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ نقضا و قدر اور جبر تاریخ دونوں کلمہ صحیح فلسفیانہ مفہوم کے ھامل ہیں ۔ان کے حقیقی مفہوم کو نہ سمجھنا ہی غلط تعبیر کا سبب بنا ہے ہم نے اپنی کتاب "انسان و سرنوشت :میں قضاء و قدر کے بارے میں بحث کی ہے لیکن جبر تاریخ، یہ کہ انسانی سرگذشت دینا کے تمام حوادث کی طرح نہ تبدیل ہونے والا قانون رکھتی ہے اور تاریخی عوامل دوسرے تمام عوامل کی طرح قطعی اور لازمی تاثیرات رکھتے ہیں، یہ کوی ایسی بات نہیں ہے ۔قرآن کریم نے خود سنۃاللہ کہہ کر اس کی تائید کی ہے لیکن ان عوامل کی تاثیر کی نوعیت اصل مسئلہ ہے ۔کیا تاریخ کے جبری عوامل کا اثر اس صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ ہر چیز وقتی محدود اور زوال پذیر ہو کر رہ جاتی ہے یا اس کی کوئی دوسری صورت بھی ہے؟

ظاہر ہے اس مسئلہ کا تعلق عوامل کی نوعیت سے ہے ۔اگر تاریخ کو گردش میں لانے والے عوامل مضبوط اور پائیدار ہوں گے تو ان کی جبری تاثیر کا نتیجہ اس شکل میں ظاہر ہوگا کہ وہ گردش و تسلسل کو برقرار رکھیں گے ۔اگر اس کے بر عکس یہ عوامل ناپا ۴ دار عامل کا تعلق خاندان کی تشکیل رفیق زندگی کے انتخاب اور بچوں کی تولید میں موثر رہا ہے ۔تاریخ کے طویل دور میں خاندانی زندگی کے خلاف تحریکیں اٹھتی رہیں لیکن وہ سب ناکام ہوگئیں ۔ایسا کوں ہوا؟ یہ تحریکیں جبر تاریک کے خلاف تھیں، جبر تاریخ کا تقاضا یہ تھا کہ خاندانی زندگی باقی رہے ۔

ایک دوسرا تاریخی عامل مذہب ہے ۔پرستش انسان کی سرشت میں شامل ہے یہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہے ۔یہ عامل تاریخ کے تمام ادوار میں موثر رہا ہے اور اس نے مذہب پر سے توجہ کو ہٹنے نہیں دیا ۔

غرض یہ کہ جبر تاریخ کو کسی محدود اور وقتی چیز کے مساوی قرار دے کر ہر قانون اور قائدہ کی ناپائیداری پر دلیل لانا ایک بڑی غلطی ہے ۔جبر تاریخ، اس جگہ ناپائیداری کو نتیجہ کی صورت میں سامنے لاتی ہے جہاں زیر نظر عامل، جیسے اقتصادی پیداوار کا عامل ہو اور کوئی دوسرا عامل اس کی جگہ لے اس لئے انسان اور اس کی ضرورت تاریخ کو گوشزد میں لانے والے عوامل اور ان میں سے ہر عامل کی معاشرہ پر اثر انداز ہونے والی تاثیری قوت کا سراغ لگانا چاہئے تا کہ یہ معلوم ہو کہ اس کا اثر کہاں تک پہنچتا ہے اور ان میں سے کونسا عامل مضبوط و پائدار ہے اور کونسا کمزور و ناپائیدار ۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کی جملہ حالتوں کی ناپائیداری کو جبر تاریخ کے مساوی قرار دینے کا مفروضہ ہی انسان کے "یک جہتی" ہونے کے مفروضے کو آگے لانے کا سبب بنا ہے اس مفروضے کے مطابق "یک جہت" انسان زیادہ قدر و قیمت نہیں رکھتا اور تاریخ کا تعغیر ایک "یک شاخہ" تعغیر ہے ۔اس مفروضے کے حامیوں کے نقطہ نظر سے ہر دور میں تاریخ کا اصلی اور بنیادی عامل معشیت ہے دولت کی پیداوار اور تقسیم کا طریقہ، افراد کے اقتصادی روابط جیسے کارخانہ اور مزدور کے روابط، کسان اور زمیندار کے روابط جو کمزور اور تعغیر پذیر روابط ہیں، زندگی کے دوسرے گوشوں مثلا دین علم، فلسفہ، قانون، اخلاق اور ہنر کا تعین کرتے ہیں ۔ابتدا "دنیا میں اس مفروضے کا بڑا چرچا ہوا لیکن اب یہ اپنی قدر و قیمت کھو چکا ہے ۔آج دنیا اور تاریخ کے بہت سے مادہ پرست مفسرین اس مفروضے کو مسترد کرچکے ہیں ۔

ہر چند کہ ابھی علمی اعتبار سے قطعی طور ہر یہ نہیں کہاجاسکتا کہ انسان "یہ ناشنوا ساوجود "کثیر الجہت ہے اور انسانی تاریخ کی توجیہ کثیرالجہت، کے مفروضے سے ہی کی جاسکتی ہے البتہ یہ تسلیم شدہ قدر ہے انسان "یک جہت" نہیں ہے ۔اس کے یک جہت ہونے کا نظریہ اور انسانی تاریخ کے سفر کا یک خطی ہونے کا مفروضہ سب سے زیادہ بے بنیاد بے بنیادمفروضہ ہے ۔

قرآن کی روسے امت مسلمہ ایک امت وسط ہے۔

یہ بات ظاہر ہے کہ یہ امت ایسی تعلیمات کی پروردہ ہے جو توسط و تعادل کی حامل ہے۔قرآن کی یہ آیت ختمی امت اور ختمی تعلمیات کا ذکر صرف ایک کلمہ کے ذریعہ کردیتی ہے اور وہ وسطیت و تعادل ہے۔

ہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تمام انبیاء کی تعلیمات میں وسطیت اور تعادل موجود نہیں رہا ہے۔اس سوال کے جواب میں کچھ کہنا ضروری ہے۔

اس روئے زمین پر انسان ہی ایک جاندار مخلوق نہیں ہے اور صرف وہی اجتماعی انداز میں زندگی بسر کرنے کا عادی نہیں ہے، دوسری جاندار مخلوقاتبھی ہیں جو مقررہ معمولات، ایک خاصنظم اور ڈھانچے کے مطابق زندگی بسر کرتی ہیں انسان کے بر عکس ان کی زندگی جنگل کے زمانے پتھر کے زمانے لو ہے کے زمانے ایٹم کے زمانے سے آشنا نہیں ہے۔روز اول سے جب سے کہ وہ وجود میں آئی ہیں ان کی زندگی کا ایک ہی منظم ڈھانچہ ہے یہ انسان ہی ہے جو اس آیت قرآنی کے مطابق"

( و خلق الانسان ضعیفاً ) (۵)

ترجمہ:"انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔"

اپنی زندگی کا آغاز صفر سے کرتا ہے اور ترقی کے لامتناہی راستے پر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔انسان فطرت کا ایک ہونہار اور بالغ فرزند ہے اسی لئے اسے آزادی و خود مختاری حاصل ہے اسے کسی مستقل ناظم و سرپرست اور ایسی جبری ہدایت کی ضرورت نہیں جس پر عمل کرنے کے لئے کوئی پوشیدہ اندرونی قوت اسے مجبور کرے۔دوسرے جاندار جو کچھ جبلت کے سامنے سر جھکا کر انجام دیتے ہیں وہ انسان آزادانہ ماحول میں عقل و قانین کے مطابق انجام دیتا ہے:

( انا هدینٰه السبیل اما شاکراًو اما کفوراً ) (۶)

ترجمہ:"ہم نے اسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا ہے یا کفر کرنے والا۔"

انسان میں انحراف و سقوط اور جمود و انحطاط پایا جاتا ہے جبکہ دوسرے جاندار ایک حالت پر قائ رہتے ہیں۔وہ اس بات پر قدرت نہیں رکھتے کہ سوچ سمجھ کر کہ خود آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں، سیدھی جانب کا رخ کریں یا بائیں سمت کا تیز چلیں یا آہستہ اس کے بر عکس انسان اپنی عقل و شعور سے کام لے کر آگے بھی قدم بڑھا سکتا ہے پیچھے بھی ہٹ سکتا ہے وہ دائیں یا بائیں کسی بھی سمت مڑسکتا ہے وہ تیز بھی چل سکتا ہے اور آہستہ بھی وہ ایک بندہ شاکر بھی بن سکتےا ہے اور سرکس کافر بھی۔اس طرح وہ افراط و تفریط کے درمیان کحڑا نظر آتا ہے۔

انسانی معاشرہ کبھی اس طرح عادات کا اسیر اور جامد و ساکن ہوجاتا ہے کہ کوئی موثر طاقت ہی اس کی زنجیروں کو کاٹ کر اسے حرکت میں لاسکتی ہے۔کبھی انسانی معاشرہ پر حرص و طمع اور نئی راہوں پر چلنے کی خوہش اس طرح مشلط ہوجاتی ہے کہ وہ فطرت کے اصول و قوانین تک کو بھلا بیٹھتا ہے اور کبھی وہ غرور و خود پرستی اور تکبر میں غرق ہوجاتا ہے، اسے خود بینی کی راہ سے ہٹا کر زہد و پرہیزگاری کی راہ پر ڈالنے کے لئے کسی اثر انداز ہونے والی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھ سکے جب یہی انسانی معاشرہ آرام طلبی مادر پدر آزادی اور ظلم و ستم کی راہ پر چل پڑتا ہے تو اس کے ضمیر کو جھنجھوڑ نے اور اس میں حقوق کا شعور احساس کے پیدا کرنے کے سوا اور چارہ نہیں ہوتا۔

یہ بات واضح ہے کہ تیزی کے ساتھ پیش قدمی ہو یا سست روی بائیں جانب میلان ہو یا دائیں جانب ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک خاص لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر معاشرہ کا انحراف دائیں جانب ہو تو اصلاح کرنے والی طاقت کو اسے بائیں جانب موڑنے کی کوشش کرنی ہوگی دورسری صورت میں اسے اس کے بر عکس عمل کرنا ہوگا۔

ہی وجہ ہے کہ کسی ایک زمانے اور کسی ایک قوم کی اصلاح کے لئے کوئی تدبیر دوا کی حیثیت رکھتی ہے تو وہی تدبیر دوسرے دور اور دوسری قوم کے لئے ایک مرض مہلک میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتی ہے چنانچہ بظاہر مختلف انبیاء کے درمیان ایک اختلاف نظر آتا ہے کسی پیامبر (ص) کو جنگ کی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے تو کسی کو صلح کی کوئی نبی نرمی سے کام لیتا ہے تو کوئی سختی سے کسی پیغمبر کو انقلابی انداز میں کام کرنا پڑتا ہے تو کسی کو اعتدال و سلامتی کی راہ اپنانی پڑتی ہے۔ایک پیغمبر کا سارا دور ابتلاؤ آزمایش سے بھرا ہوتا ہے تو دوسرے پیغمبر کے حصے میں فتح و نصرت بھی آتی ہے۔انبیاء کے درمیان اختلافات کا تعلق ان کے اس روئے سے ہے جو وہ اپنے زمانے کے حالات کے پیش نظر اختیار کرتے ہیں ورنہ ہدف کے اعتبار سے ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ہدف تمام انبیاء کا یک ہی ہے اور راستہ وہی صراط مستقیم ہے۔

قرآن کریم نے قصص انبیاء کے ضمن میں پوری طرح اس بات کی نشان وہی کی ہے کہ پیغمبروں میں سے ہر ایک مبداء و معاد سے متعلق اپنی مشترک تعلیمات کے تحت کسی ایک خاص نکتہ پر زور دیتا ہے وہ ایک مخصوص لائحہ عمل کے اجراء پر مامور ہوتا ہے یہ بات قصص قرآنی کے مطالعہ سے بخوبی روشن ہوجاتی ہے۔

مصلحین جب کسی تیزی سے آگے قدم بڑھانے والے یا پسماندہ معاشرہ میں دائیں یا دائیں جانب مائل معاشرہ میں ظہور کرتے ہیں اور اصلاح کا کام شروع کرتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک متعین لائحہ عمل صرف ایک محدود مدت کے لئے قابل اجراء ہوتا ہے اور معاشرہ کسی بھی نوعیت کا ہوا سے راہ عدل پر لانے کے لئے اس سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے جتنی کہ دوسری جانب سے اسے انحطاط و انحراف کی زاہ پر ڈالنے کے لئے کی جاتی ہے۔

ان توضیہحات کے بعد ہم زیر نظر آیت کے مفہوم کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔

پیغمبر اسلام کی رسالت تمام دوسرے انبیاء کی رسالتوں سے ان معنوں میں فرق و امتیاز رکھتی ہے کہ اس کی حیثیت قانون کی ہے کسی وقتی لائحہ عمل کی نہیں انسانیت کے لئے آپ کا لایا ہوا اساسی قانون کسی ترقی پسند یا رجعت پسندیدہ دائیں بازو یا بائیں بازو کی جانب مائل معاشرہ کے لئے مخصوص نہیں ہے۔

اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر نظام حیات ہے جو ہر موقع و محل کے لئے کار آمد اور زندگی کے تمام جزئی طریقوں پر حاوی ہے۔انبیاء کسی ایک معاشرہ کے لئے مبعوث کئے جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس معاشرہ کے لئے ایک مخصوص لائحہ عمل لے کر آتے تھے۔اسلام کی آمد کے بعد علماء اور امت مسلمہ کے دینی رہنماؤں کو بھی اسی طرح کام کرنا چاہیے جس طرح انبیاء نے انجام دیا تھا لیکن علماء و مصلحین اور انبیاء کے کام کے درمیان فرق یہ ہے کہ علماء وحی اسلام کے ابدی سرچشمے سے ہدایت حاصل کرکے ایک خاص لائحہ عمل وضع کرتے ہیں اور اس کے نفاذ کی کوشش کرتے ہیں۔

قرآن دوسری آسمانی کتابوں کی وقتی اور محدود تعلیمات کی روح اپنے اند لئے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن خود آسمانی کتابوں کا محافظ و نگہبان قرار دیتا ہے:

( و انزلنا الیک الکتٰاب بالحق مصدقا لما بین یدیه من الکتٰب و مهیمناً علیه ) (۷)

ترجمہ:"پھر اے نبی (ص) ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محفظ و نگہبان ہے۔"

اسلامی مخصوص سے یہ بات ثابت ہے کہ تمام انبیاء جو ایک کلی و خاتمی نبوت اور ایک اساسی قانون کے پیشرو کی حیثیت رکھتے ہیں اس بات کی پابند رہے ہیں کہ وہ اپنی اپنی امتوں کو ختم نبوت کے آخری دور میں دین کے اتمام و تکمیل کی خوشخبری دیں، اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں تمام پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا ہے۔

نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں اس کا ذکر بڑی عمدگی کے ساتھ کیا گیا ہے:

ولم یخل سبحانه خلقه من نبی مرسل اور کتاب منزل اور حجه لازمه اور محجه قائمه رسل لاتقصیر بهم قله عددهم و لاکثره المکذبین لهم و سلفت الاباء خلفت الابناء الی ان بعث الله محمدا رسول الله (ص) من سابق سعی که من بعده اوغا بر بر عرفه من قبله علی ذلک نسلت القرون و مضت الدهور لانجاز عدته و تمام نبوته ماخوذا علی النبین، میثاقه، مشهور سماته کریما میلاده ۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو کبھ کسی پیغمبریا کسی کتاب آسمانی یا کافی دلیل یا کسی روش طریقے سے خالی نہیں رکھا ہے، پیغمبروں کو ان کی قلت تعداد اور ان کے مخالفین کی کثرت تعداد نے کبھی ادائے فض سے نہیں روکا، ہر پیغمبر اپنے سے پہلے گزرنے والے پیغمبر سے پوری طرح متعارف رہا ہے اور خود اس کی آمد کی بشارت سابق پیغمبر کی زبانی لوگوں کو ملتی رہی ہے اسی طرح ایک نسل کے بعد دوسری نسل آتی رہی اور زمانہ گزر تا چلا گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق محمد (ص) کو سلسلہ نبوت کی تکمیل کے لئے بھیجا، اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے آپ کے بارہ میں پہلے ہی عہد و پیمان لے رکھا تھا۔آپ کی نشانیاں مشہور و معروف ہوچکی تھیں اور آپ کی ولادت ایک ولادت عظیم تھی۔

اس بارے میں رسول اکرم (ص) کے دو بڑے عمدہ کلمے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:

"نحن الاخرون السابقون یوم القیامة"

"ہم تمام پیغمبروں اور امتوں کے بعد دینا میں آئے ہیں لیکن آخرت میں ہم سب سے آگے ہوں گے اور سب ہمارے پیچھے آئیں گے۔"

آپ کا ایک دوسرا ارشاد یہ ہے:

"آدم و من دونه تحت للوئ ی یوم القیامة"

"قیامت کے دن تمام پیغمبر میرے پرچم تلے ہوں گے۔"

قیامت کے دن اس پیشروی اور پس روی اور رسول اکرم (ص) کے پرچم تلے تمام انبیاء کے ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ تمام انبیاء رسول اکرم (ص) کی بعثت کے لئے مقدمہ ہیں تو آپ نتیجہ سابق انبیاء پر جو وحی نازل ہوئی وہ ایک وقتی لائحہ عمل کے دائرہ تک محدود تھی اور رسول اکرم (ص) پر نازل ہونے والی وحی ایک کلی و ابدی قانون اساسی کے لئے تھی۔مسلمان بزرگوں نے رسول اکر (ص) کے ان دو عمدہ کلمات اور معارف اسلامی کے اس اصولسےہدایت حاصل کرتے ہوئے کہ جو کچھ اس دنیا میں ظاہر ہوتا ہے اس دنیا کے واقعات کا ملکوتی ظہور ہے بڑی عمدہ اور دلپذیر باتیں کہی ہیں:

و انی وان کنت ابن آدم صورۃ

فلی فیہ معنی شاہد بابوتی

و کلہم عن سبق معنای دائیر

بدائیرئی او وارد من شریعتی

و ما منہم الا و قد کان داعیا

بہ قومہ للحق عن تبعیتی

و قبل فعالی دون تکلیف ظاہری

ختمت بشرعی المضحی کل شرعۃ

مولوی نے بھی یہی مضمون باندھا ہے:

ظاہراً آن شاخ اصل میوہ است

باطناً بھر ثمر شد شاخ

گر نبودی میل و امید ثمر

کی نشاندہی باغبان بیخ شجر

پس بمعنی آن شجر از میوہ زاد

گر بصورت از شجر بودش بار

مصطفیٰ زین گفت کارم و انبیاء

خلف من باشند در زیر لوا

بھر این فرمودہ است آن زد فنون

رمز نحن آلاخرون و السابقون

گر بصورت من ز آدم زادہ ام

من بعمنی جد جد افتادہ ام

پس ز من زائید در معنی پدر

پس ز میوہ زاد در معنی شجر

اول فکر آخر آمد در عمل

خاصہ فکری کو بود وصف ازل

شبستری کہتا ہے:

کی خط است از اول تابہ آخر

بر او خلق خدا جمل مسافر

در این رہ انبیاء چون سار بانند

دلیل و رہنمای کاروانند

و زیشان سید ماگشتہ سالار

ہم او اول ہم او آخر در این کا

احد درمیم احمد گشت ظاہر

دراین دور اور آمد عین آخر

ز احمد تا احد یک میم فرق است

جھانی اندرین یک میم غرق است

بر او ختم آمد پایان این راہ

بدو منزل شدہ ادعوا الی اللہ

مقام دلکشایش جمع جمع است

جمال جانفرایش شمع جمع است

شدہ اور پیش و دلہا جملہ در پی

گرفتہ دست جادہا دامن وی

قرآن کریم نے بعد میں آنے والے انبیاء (اور بدرجہ اولی خاتم انبیاء) پر سابق انبیاء کی جانب سے ایمان لانے ان کی نبوت کو تسلیم کرنے بلکہ ان کی آمد کو خوشخبری دینے کا اور ذمہ داری کا کہ وہ اپنی امت کو بھی ایسا کرنے کی ہدایت کریں اور انہیں بعد میں آنے والے انبیاء کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے تیار کریں اور اسی طرح بعد میں آنے والے پیغمبروں کی جانب سے پیشرو پیغمبروں کی تائید و تصدیق کا اور اللہ تعالیٰ کا اپنے پیغمبروں سے اس خوشخبری اس تسلیم تائید تصدیق پر پختہ عہد لینے کا اس طرح ذکر کیا ہے:

( و اذ اخذ الله میثاق النبین لما اتییکم من کتاب و حکمة ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتومنن به و لتنصرنه قال اقررتم و اخذتم علی ذلکم اصی قالوآ اقررنا قال فاشهدوا وانا معکم من الشهدین ) (۸)

ترجمہ:"یاد کرو اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ"آج میں نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے۔کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اس تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اس کی مدد کرنی ہوگی"یہ ارشاد فرما کہ اللہ نے پوچھا"کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو۔"انہوں نے کہا"ہاں ہم اقرار کرتے ہیں"اللہ نے فرمایا "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گاوہ ہوں۔"

ن یوتوں کا ا یک رشتہ میں بندھا ہونا اور ایک نبوت کا دوسری سے مربوط ہوتے چلے جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ نبوت تکمیل کی جانب ایک تدریجی سفر ہے جس کا آخر حلقہ اس کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔عارفین اسلام کہتے ہیں:

"الخاتم من ختم المراتب باسره ا"

عنی پیغمبر خاتم وہ ہے جس نے تمام مراحل طے کرلیے ہیںاور وحی کی رو سے کوئی ایسی راہ باقی نہیں رہ گئی ہے جسے اس نے طے نہ کیا ہو اور کوئی ایسا نکتہ باقی نہیں رہ گیا ہے جس کی اس نے وضاحت نہ کی ہو۔اگر ہم یہ فرضکر لیں کہ کسی علم سے متعلق تمام مسائل حل ہوچکے ہیں تو پھر اس شعبہ میں کسی نئی تحقیق یا کسی نئے انکشاف کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔وحی سے متعلق مسائل کا معاملہ بالکل ایسا ہی ہے۔خدا کے آخری دستور کے آجانے کے بعد کسی نئے انکشاف اور کسی نے پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعہ جو کچھ انسنا پر منکشف ہوا ہے، اسے ایک ایسے کامل ترین مکاشفہ کی حیثیت حاصل ہے جو کسی انسنا کے دائرہ امکان میں ہو سکتا ہے یہ بات واضح ہے کہ ایک ایسے مکمل مکاشفہ کے بعد دوسرا جو بھی مکاشفہ ہو گا، وہ دار اصل پہلے سے طے کردہ راہ کی ہی ایک چیز ہو گی اس کے ساتھ کوئی نئی بات نہیں ہوغی، آخری بات تو وہی ہے جو اس کامل ترین مکاشفہ میں آچکی ہے:

( و تمت کلمت ربک صدقاً و عدلاً لامبدل لکلمٰته و هو السمیع العلیم ) (۹)

ترجمہ:"تمہارے رک کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔"

مرحوم فیض نے اپنی کتنا علم الیقین کے(۱۰) پر کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے:

"انسانی فطرت کا ہدف و مقصود و قرب الٰہی کے مقام تک پہنچنا ہے اور پیغمبروں کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیںہے۔اس اعتبار سے نبوت نظام زندگی کا ایک حصہ قرار پاتی ہے لیکن اس کا مقصود اور ہدف سب سے اونچا مرتبہ اور نبوت کا آخری درجہ ہے نہ کہ نبوت کا اولین درجہ، سنت الٰہی کے مطابق نبوت بتدریج درجہ کمال تک پہنچتی ہے جیسے کہ ایک عمارت بتدریج مکمل ہوتی ہے۔عمارت کی تعمیر کا ہدف اس کے پایے اور دیواریں نہیں ایک مکمل مکان ہوتا ہے، نبوت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے نبوت کا ہدف اس کی تکامل صورت ہے یہی وجہ ہے کہ نبوت کا سلسلہ ایک جگہ پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور مکلم ہو جاتا ہے۔

وہ مزید کسی اضافے کو قبول نہیں کرتا کیونکہ تکمیل کے بعد کوئی اضافہ و کمال کے منافی ہو تا ہے اور اس کی حیثیت ایک زائد انگلی کی سی ہو جاتی ہے، پیغمبر اکرم (ص) کی معروف حدیث میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے، آپ نے فرمیا نبوت ایک مکان کی مانند ہے جو تیار ہو چکا ہے لیکن اس کے مکمل ہو ے میں سرف ایک اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ کو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ کو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ کا نصب کرنے والا ہوں!

ہم نے گذشتہ صفحات میں جو کچھ لکھا ہے، وہ عقیدہ ختم نبوت کے پس منظراور اس کی بنیادون کی جانب رہنمائی کے لیے کافی ہے۔

یہ بات واضح ہوگئی کہ انسانی فطرت میں دین کی طلب وہ بنیاد ہے جس پر عقیدہختم نبوت استوار ہوتا ہے تمام انسانوں کی فطرت ایک ہے، تکمیل انسانیت کا سفر ایک با مقصد سفر ہے جو ایک متعین اور سیدھے راستہ جاری ہے ۔اس اعتبار سے دین حق، جو فطرت کے تقاضوں کی وضاحت کرتا ہے اور انسان کی راہ راست کی جانب رہنمائی کرتا ہے، صرف ایک ہی ہوسکتا ہے ۔ایک طریق زندگی جو انسانی فطرت کے مطابق ہو، جامع اور کلی ہو اور ہر طرح کی تبدیلی و تحریف سے محفوظ ہو اور جو مسائل کی اچھی طرح تشخیص کر سکے اور جسے اچھی طرح منطبق کیا جاسکے اور عمل و نفاذ کے مرحلے میں ہمیشہ رہنمائی کرسکے اور حالات کے مطابق مختلف طریقوں لائحہ عمل اور بے شمار جزئی قوانین کے لئے سرچشمہ ثابت ہوسکے انسانی فطرت کا ایک اہم تقاضا اور انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے آئدہ مضامین اس پہلو کو بہتر طریقے پر واضح کریں گے ۔

اب ہم ان سوالات کا جواب تلاش کرتے ہیں جن کی طرف ابتدا میں اشارہ کیا گیا تھا۔

آسمانی دروازے

پہلا سوال جس کے سبب ختم نبوت کا عقیدہ وجود میں آیا وہ عالم غیب اور انسان کے درمیان رابطے سے تعلق رکھتا ہے وہ سوال یہ ہے کہ سب سے پہلے دور کے انسان نے اپنی جہالت اور بے علمی کے باوجود وحی و الہٰام کے راستے سے عالم غیب کے ساتھ کس طرح رابطہ پیدا کرلیا اور اس پر آسمان کے دروازے کیسے کھل گئے؟ جبکہ ترقی یافتہ بعد کا انسان اس رحمت سے محروم رہا اور اس پر آسمان کے دروازے بند ہوگئے۔

کیا فی الواقع انسان کی روحانی اور باطنی صلاحیتیں کم ہوگئی ہیں اور وہ اس اعتبار سے تنزل میں چلا گیا ہے۔

یہ شبہ اس خیال سے پیدا ہوا ہے کہ عالم غیب کے ساتھ معنوی ربط و تعلق انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے اس لئے سلسلہ نبوت کے منقطع ہونے کا لازمی نتیجہ عالم غیب اور عالم انسانی کے درمیان روحانی اور معنوی رابطے کے انقطاع کی صورت میں ظاہر ہوگا۔

لیکن یہ خیال اپنی کوئی بنیاد نہیں رکھتا۔قرآن کریم بھی غیب اور ملکوت کے ساتھ اتصال کے درمیان اور مقام نبوت کے درمیان لازم و ملزوم کے تعلق کا قائل نہیں ہے جیسا کہ خرق عادت کو وہ پیغمبری کی واحد دلیل تسلیم نہیں کرتا، قرآن کریم ایسے اشخاص کا بھی ذکر کرتا ہے کہ ان کی معنوی زندگی ایسی طاقت سے بہرہ مند رہی ہے کہ انہوں نے فرشتوں کے ساتھ ہمکلامی کی ہے اور ان سے خارق العادت (غیر معمولی) امور انجام پائے ہیں حالانکہ وہ اشخاص نبی نہیں تھے۔اس کی بہترین مثال عمران کی بیٹی، عیسی مسیح (ع) کی ماں مریم ہے۔قرآن نے ان کے بارے میں حیرت انگیز واقعات کا ذکر کیا ہے۔قرآن موسیٰ (ع) کی والدہ کے بارے میں بھی کہتا ہے ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ موسیٰ (ع) کو دودہ پلائے اور جب اسے موسیٰ (ع) کے بارے میں کسی خوف کا احساس ہوا تو اسے دریا میں بہادے ہم اسے محفوظ رکھ کر تیری طرف واپس لوٹا دیں گے ہمیں معلوم ہے کہ عیسیٰ (ع) کی ماں پیغمبر تھیں اور نہ موسیٰ (ع) کی والدہ۔

حقیقت یہ ہے کہ ملکوتی حقائق کے غیب و شہود کے ساتھ اتصال، آواز غیبی کا سننا اور بالاخر غیب سے خبر کا پانا نبوت نہیں ہے، نبوت پیغام کا لانا ہے ہر دو شخص جسے غیب کی خبر مل جائے پیغام کا لانے والا نہیں ہوتا۔

قرآن اشراق اور الہٰام کا درازہ ان تمام لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنے باطن کو پاک کرلیتے ہیں:

( ان تتقوا الله یجعل لکم فرقاناً ) (۱۱)

ترجمہ:"اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لئے کسوئی بہم پہنچادے گا۔"

( والذین جاهد و افینا لنهدینهم سبلنا ) (۱۲)

ترجمہ:جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے رستے دکھائیں گے۔

اسی فلسفہ کے نقطہ نظر سے معنوی اور عرفانی زندگی زندگی کا ایک نمونہ پیش کرنے کے لئے نہج البلاغہ کے ایک خطبہ کچھ حصہ یہاں نقل کرنا کافی ہوگا۔

نہج البلاغہ کے خطبہ ۲۲۰ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

"ان الله تعال یٰ جعل الذکر جلاء للقوب تسمع به بعد الوقر ة و تبصربه بعد العشو ة و تنقادبه بعد المعاند ة و ما برح لله عزت آلائ ه ف ی البرهة بعد البرهة و فی ازمان الفترات عبادنا جاه م ف ی فکر ه م و کلم ه م ف ی ذات عقوله م"

ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے اپنی یاد کو دلوں کا صیقل قرار دیا ہے۔دل بہرے ہوجانے کے بعد بھی اس ذکر کے ذریعہ سننے والے اور اندھے ہوجانے کے بعد دیکھنے والے اور سرکشی و عناد کی راہ پر چل پڑنے کے بعد بھی مطیع و فرمانبردار ہو جاتے ہیں۔ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ زمانے کے ہر ایک حصے میں اور ان زمانوں میں جبکہ لوگوں کے درمیان کوئی پیغمبر موجود نہ ہو اللہ تعالیٰ کے ایسے بنے موجود رہے ہیں آج بھیء موجود ہیں جن کے دلوں میں وہ کوئی راز کی بات ڈالتا رہا ہے اور ان کی عقلوں کی راہ سے ان کے ساتھ بات کرتا ہے۔"

رسول اکرم (ص) سے روایت ہے:

( ان لله عباداً لیسوا بانبیاء یغبط هم النبوة )

"اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی موجود ہیں کہ وہ پیغمبر نہیں ہیں لیکن نبوت ان پر رشک کرتی ہے۔"

شیعہ ائمہ اطہار (ع) کی باطنی ولایت و امامت کے قائل ہیں جبکہ وہ انہیں نبی نہیں سمجھتے۔اس سے بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔

عارفین اسلام نے عرفانی اصطلاحات میں معنی سیرو سلوک کے مراتب کو چار مرحلوں میں تقسیم کیا ہے ہم طول کلام سے بچنے کے لئے اس کے صرف دو مرحلوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف) سفر از خلق بہ حق (مخلوق کی طرف سے خالق کی جانب سفر)

ب) سفر حقبہ خلق (خالق کی طرف سے مخلوق کی جانب سفر)

مخلوق کی جانب سے خلاق کی طرف سفر پیغمبروں کے لئے مخصوص نہیں ہے۔پیغمبر تو معبوث ہی اسی لئے ہوئے ہیں کہ اس سفر میں انسان کی مدد کریں، جو کچھ پیغمبروں کے لئے مخصوص ہے، وہ خالق کی جانب سے مخلوق کی جانب سفر ہے یعنی وہ مخلوق کی دستگیری اور ارشاد ہدایت پرمامور ہیں اس سے مراد پیغمبر کی کثرت کی جانب واپسی ہے تا کہ اسے وحدت کی راہ دکھا سکے۔

صدر المتالھین(۱۳) پر لکھتے ہیں:

"وحی یعنی پیغمبری اور منصب نبوت کے لئے قلب و سماعت پر فرشتے کا نزول منقطع ہو چکا ہے اور اب کسی شخص پر کوئی فرشتہ نازل مہیں ہوگا اور اسے کسی فرمان الٰہی کے جاری کرنے پر مامور نہیں کیا جائے گا، کیونکہ "اکلمت لکم دینکم" کے حکم کے تحت جو کچھ وحی کے راستے انسان تک پہنچتا تھا وہ پہنچ چکا ہے لیکن الہام و اشراق کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا ہے اور نہ آئند ہوگا اس راہ کا مسدوء ہونا ممکن نہیں۔"

اس سلسلے میں پہلے بہت کچھ کہا جا چکا ہے اس کا نقل مرنا موجب ظوالت ہوگا۔ہمارے زمانے کے دانشمندوں میں سے عالمہ اقبال نے ایک بڑی لطیف بات کہی ہے۔اقبال نے نبی اور عارف کے درمیان (ان کے قول کے مطابق مرد باطنی) فرق کو اس طرح واضح کیا ہے۔

ایک مرد عارف تجرنہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل کرنے والے اطمینان و سکون کے بعد حیات دنیوی کی جانب واپسی کو پسند نہیں کرتا۔اگر وہ ضرورت کی بنا پر واپس بھی آتا ہے تو انسانیت کے لئے اس کی واپسی چنداں سودمند نہیں ہوتی لیکن خلق کی طرف پیغمبر کی واپسی ثمر بخش اور تخلیقی پہلو کی حامل ہوتی ہے۔پیغمبر واپس آتا ہے اور وقت کے دھارے میں اتر جاتا ہے تاکہ تاریخ کے دھارے کو قابو میں لائے اور اس طرح کمال مقاصد سے ایک جہاں تازہ پیدا کرے۔ایک مرد عارف کے لیے تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل ہونے والا سکون ایک انتہائی مرحلہ ہے اور پیغمبر کے لئے اس کی روحانی قوت کا بیدار ہونا ہے جو ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔یہ قوت ایک ایسے اندازے کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے کہ عالم انسانی میں ایک مکمل انقلاب برپا کردیتی ہے پیغمبری کو ایک ایسی باطنی خود آگاہی رکھنے والی نوع سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کی اس میں تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) اپنی حدود سے باہر نکلنے کے قریب پہنچ جاتا ہے اور ایسے مواقع کی تلاش میں ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی کی طاقتوں کو از سر نو توجیہ کرے یا انہیں ایک تازہ شکل دے!

پس انقطاع نبوت سے مراد ارشاد و ہدایتر کے لیے خدا کی طرف سے ماموریت کا منقطع ہونا ہے۔خدا کی طرف سفر کرنے والوں اور سالکوں کے لیے معنوی فیض کا منقطع ہونا نہیں۔

اگر ہم نے یہ گمان کیا کہ اسلام نے نبوت کے اعلان کے ساتھ معنوی زندگی کی بھی نفی کردی ہے تو ہم سخت غلطی کریں گے۔

نبوت تبلیغی

دوسرا سوال یہ ہے کہ پیغمبران کرام بحثییت مجموعی دو بڑی ذمہ داریوں کو پورا کرتے رہے ہیں۔وہ خدا کی طرف سے انسان کے لیے قانون اور دستور العمل لاتے رہے ہیں وہ دوسرے یہ کہ وہ لوگوں کو خدا کی طرف بلانے کے ساتھ انہیں اس دور اور زمانے کے الٰہی دستور العمل پر کاربند ہونے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔پیغمبروں کی اکثریت اسی دوسرے فریضے کے انجام دینے پر مامور رہی ہے۔ایسے پیغمبروں کی تعداد بہت کم ہے جن کو قرآن اولوالعزم قرار دیتا ہے اور جن کے ذریعے قانون اور دستور العمل بھیجا گیا ہے۔اس اعتبار سے نبوتیں دو قسم کی رہی ہیں ایک نبوت تشریعی اور دوسری نبوت تبلیغی تشر یعی پیغبر جن کی تعداد بہت تھوڑی ہے وہ صاحب شریعت و قانون انبیاء کہلاتے ہیں جبکہ تبلیغی پیغمبروں کا کام صاحب شریعت پیغمبروں کی تعلیمات کو عام کرنا اور ان ہی کے مطابق تعلیم و ارشاد کا کام انجام دینا رہا ہے۔اسلام نے ختم نبوت کا اعلان کرکے نہ صرف تشریعی نبوت بلکہ تبلیغی نبوت کے سلسلے کوبھی ختم کردیا ہے۔آخر ایسا کیوں کیا گیا؟ امت محمد (ص) اور ملت اسلامیہکو پیغمبروں کے ہدایت و ارشاد کے اس سلسلے سے کیوں محروم کیا گیا؟

بلفرض ہم نے یہ بات تسلیم کرلی کہ تکمیل اتمام اور جامعیت و کلیت کی بنا پر تسریعی نبوت کا سلسلہ منقطع کردیا گیا لیکن تبلیغی نبوت کے سلسلے کو کس حکمت و فلسفے کی بنا پر ختم کیا گیا؟

حقیقت یہ ہے کہ نبوت اور ہدایت وحی کی اصل ذمہ داری یعنی وہی پہلی ذمہ داری (تشریعی) ہے جبکہ تبلیغ تعلیم اور دعوت کی ذمہ داری (تبلیغی) نصف بشری ہے تو نصف الٰہی۔

وحی اور نبوت یعنی عالم وجود کی بنیادوں سے ایک پوشیدہ اتصال اور رابطہ اور مخلوق کی ہدایت کے لیے اس کی ماموریت در اصل مظاہر ہدایت کا ایک مظہر ہے جو سارے عالم وجود پر حکم فرما ہے۔

( الذی خلق فسویٰ والذی قدر فهدیٰ ) (۱۴)

ترجمہ:"جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔"

موجودات زندگی کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اس درجہ کمال کی مناسبت سے جس پر وہ پہنچ جاتے ہیں ہدایت خاص سے پہرہ مند ہوتے ہیں یعنی ہدایت کی شکل اور خصوصیت زندگی کے مختلف مراحل کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔تمام دانشور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حیوانات اپنی ساخت کے وسائل طبیعی کے اعتبار سے ضعیف تر اور ناتوان تر ہیں لیکن وہ پوشیدہ جبلی رہنمائی کے اعتبار سے قوی تر ہوتے ہیں انہیں فطرت کی ایک مستقل سر پرستی اور حمایت حاصل رہتی ہے۔وہ جس قدر طبعی وسائل اور عقلی وہمی خیالی اور حسی طاقتوں سے لیس ہوتے چلے جاتے ہیں وجود کی سیڑھی پر ان کے قدم بلندی کی جانب اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ان کی جبلی ہدایت میں کمی آنے لگتی ہے۔ٹھیک اس بچہ کی طرح جو کمسنی کے ابتدائی مراحل میں ماں باپ اور دوسرے اشخاص کی مستقل سر پرستی اور نگرانی سے بہرہور رہتا ہے اور جس قدر وہ رشد و بلوغ حاصل کرتا جاتا ہے والدین کی مستقل نگرانی و سرپرستی کے دائرے سے باہر نکتا چلا جاتا ہے۔

جاندار مخلوقات کا زندگی کی سیڑھیوں پر چڑھ کر بلند ہونا اور ان کا عقلی وہمی خیالی حسی اور عضوی وسائل سے لیس ہونا ان کے استحکام و استقلال کو بڑھانا ہے اور اس اعتبار سے ان کی جبلی ہدایت کم ہوجاتی ہے۔

کہا جاتا ہے کیڑے دوسرے تمام حیوانات کی بہ نسبت جبلی ہدایت سے زیادہ لیس ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تکمیلی مراحل کے اعتبار سے سب سے نچلے درجہ میں ہیں اور انسان جو تکمیل کی سیڑھی کے سب سے اونچے پلہ پر پہنچا ہوا ہے تمام مخلوقات کی بہ نسبت جبلی ہدایت میں کمزور تر ہے۔

وحی ہدایت کے عالی ترین اور بلند ترین مراتب و مظہر میں سے ایک ہے۔وہ اپنے اندر ایک ایسی رہنمائی رکھتی ہے جو حس خیال عقل علم اور فلسفہ کی دسترس سے باہر ہے ان میں سے کوئی چیز وحی کی جگہ نہیں لے سکتی لیکن وحی تشریعی ہی اس خصوصیت کی حامل ہے وحی تبلیغی نہیں وحی تبلیغی کا معاملہ دوسرا ہے۔

انسان اس وقت تک تبلیغی وحی کا محتاج رہتا ہے جب تک اس کی عقل علم اور تمدن کا فرجہ اس مقام تک بلند نہیں ہو جاتا کہ وہ خود اپنے دین کے بارے میں دعوت تعلیم تبلیغ تفسیر اور اجتہاد کا فرض انجام دے سکے علم اور عقل کا ظہور دوسرے الفاظ میں انسانیت کا رشد و بلوغ خود وحی تبلیغی کو ختم کر دیتا ہے اور علماء ان انبیاء کے جانشین قرار پاتے ہیں۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے قرآن نے اپنی نازل ہونے والی پہلی آیت میں پڑھنے لکھنے کی اور قلم وعلم کی بات کی ہے۔

( اقرا باسم ربک الذی خلق؛ خلق الانسان من علق؛ اقراء و ربک الاکرم؛ الذی علم بالقلم؛ علم الانسان مالم یعلم ) (۱۵)

ترجمہ: "پڑھو (اپنے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا جمے ہوئے خون کے ایک لو تھڑے سے انسان کی تخلیق کی پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔"

یہ آیت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ قرآن کا عہد پڑھنے لکھنے سکھانے کا اور علم و عقل کا عہد ہے۔یہ آیت ہمیں اشار تا بتاتی ہے کہ قرآن کے اس دور میں تعلیم تبلیغ اور آسمانی آیات کی حفاظت کی ذمہ داری علماء کی طرف منتقل کردی گئی ہے اور علماء اس اعتبار سے انبیاء کے جانشین قرار پاتے ہیں۔اس آیت نے اس عہد میں بشریت کے استقلال اور بلوغ کا اعلان کیا ہے۔ قرآن نے اپنی تمام آیات میں تدبر عقلی استدلال فطرت کے تجرباتی و عینی مشاہدہ تاریخ کے مطالعہ اور گہرے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے یہ سب ختم نبوت کی اور وحی تبلیغی کی جگہ علم و عقل کے جانشین ہونے کی نشانیاں ہیں۔

قرآن کے لیے جس قدر کام ہوچکا ہے کیا کسی دوسری آسمانی کتاب کے لیے اس قدر کام انجام دیا گیا ہے؟ نزول قرآن کے ساتھ ہی قرآن کے ہزاروں حافظ پیدا ہوگئے۔نزول قرآن کو ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری تھی کہ علوم قرآنی کی خاطر نحو وصرف قواعد زبان اور عربی زبان کی لغات کی تیاری کا کام شروع ہوچکا تھا۔معانی بیان اور بدایع کا علم ایجاد ہوا ہزاروں تفسیریں اور ان کے مفسرین تفسیر قرآن کی درسگاہیں وجود میں آگئیں۔قرآن کے لفظ لفظ کے بارے میں تحقیق کا کام ہونے لگا اس کام زیادہ حصہ ان لوگوں کے ہاتھوں انجام پاتا رہا جن کی مادری زبان عربی نہیں ہے۔ صرف یہ قرآن سے متعلق خاطر ہی رہی ہے جس نے اس قدر جوش و جذبہ پیدا کردیا۔یہ ساری سرگرمیاں آخر توریت انجیل اور اوستا کے لیے کیوں ظاہر نہیں ہوئیں کیا خود یہ بات بشریت کے رشد و بلوغ اور کتاب آسمانی کی تبلیغ و حفاظت اس کی صلاحیت پر دلالت نہیں کرتی؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیںہے کہ عقل و دانش نبوت تبلیغی کی جانشین بن گئی ہے۔

انسان اپنے ابتدائی دور میں مکتب کے اس کمسن بچے کی طرح تھا جو چند روز بعد ہی اپنی کتاب کو پھاڑ کرپھینک دیتا ہے اس کے بر عکس عہد اسلامی کا انسان ایک بزرگ عالم کی طرح ہے کہ وہ جس قدر اپنی کتابوں کا بار بار مطالعہ کرتا ہے اسی قدر ان کے مضمین اسے یاد ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ ان کی گہرائی میں اتر تا چلا جاتا ہے۔

انسانی زندگی کو بالعموم عہد تاریخ اور تاریخ سے پہلے کے عہد کے دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔تاریخ کا عہد اس دور کو کہا جاتا ہے جس میں انسان اپنی یادداشتوں کو کتبوں اور کتابوں کی صورت میں محفوظ کرنے کے قابل ہوگیا تھا اس دور کی زندگی کے بارے میں ان ہی یادداشتوں کو فیصلہ کن قرار دیا جاتا ہے لیکن ما قبل تاریخ کے عہد کے ایسے کوئی آثار موجود نہیں ہیں جو اس زمانے کی زندگی کے بارے میں فیصلے کی بنیاد بن سکیں۔

لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ عہد تاریخ کے آثار بھی زیادہ تر پراگندہ اور منتشر ہیں، البتہ اس عہد کا وہ آخری حصہ ظہور اسلام کے دور سے پوری طرح متصل ہے جس میں انسان نے پانی تاریخ اور آثار کو منظم طریقے پر نسل بہ نسل منتقل کرنا شروع کردیا تھا خود اسلام کو اس رشد عقلی کا ایک بڑا عامل سمجھا جاتا ہے۔عہد اسلامی میں مسلمانوں نے خود اپنے آثار کی حفاظت و نگہداشت کا کام شروع کردیا تھا۔اس کے ساتھ مسلمانوں نے پچھلی قوموں کے آثار کی بھی کم و بیش حفاظت کی اور انہیں بعد کی نسلوں کی طرف منتقل کرتے رہے۔یہ ختم نبوت کا قریبی زمانہ ہی ہے کہ جس میں انسان نے اپنے علمی اور دینی ورثوں کی کی حفاظت کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔امر واقع یہ ہے کہ حقیقی عہد تاریخ ظہور اسلام کے عہد سے بالکل متصل ہے، گذشتہ ادوار میں ایک طرف نفیس علمی، فلسفی، اور دینی آثار ہوا اور دوسری طرف یہ آثار آب و آتش کے نذر بھی ہوتے رہے، تاریخ میں اس کی دردناک تفصیلات پوری طرح محفوظ ہیں۔

اسکندریہ کا عظیم مشرق روم کی شہنشاہیت پر مسیحیت کے اثر و رسوخ کے بعد تباہ ہو گیا اور اس مرکز تاریخی کتب خانہ متعصب عیسائیوں کے ہاتھوں نزر آتش ہو گیا!

علم کے ظہور اور ترقی کے ایک ایسے درجے تک انسان کی رسائی نے کہ وہ دین آسمانی کا محافظ، داعی اور مبلغ بن سکے، نبوت تبلیغی کی ضرورت باقی رہنے نہ دی اور اس کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس امت کے علماء کو انبیاء بنی اسرائیل کی مانند کہا ہے۔

علامہ اقبال نے ایک بڑی عمدہ بات کہی ہے۔

"پیغمبر اسلام دنیائے قدیم جدید کے درمیان کھڑے ہیں۔الہام کے سرچشمے سے جب آپ کا رشتہ جوڑا جاتا ہے تو دنیائے قدیم سے آپ کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور جب روح الہام کو بروئے کار لایا جاتا ہے تو دنیائے جدید سے آپ کا ربط ہو جاتا ہے۔زندگی نے آپ کی ذات میں معرفت کے وہ دوسرے سرچشمے دریافت کر لئے ہیں جو اس (زندگی) کے نئے سفر کے لیے موزون ہیں۔اسلام کا ظہور در اصل استدلالی اور استقرائی عقل کا وجود میں آنا ہے۔ظہور اسلام کے ساتھ رسالت، خود نبوت کے اختتام پذیر ہونے کی ضرورت کے نتیجے میں، حد کمال کو پہنچ جاتی ہے جس سے لازما یہ دانش مندانہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زندگی ہمیشہ، کمسنی کے مرحلے میں اور باہر سے رہنمائی کی محتاج نہیں رہ سکتی۔اسلام میں کاہنی (فالگیر) اور موروثی سلطنت کی نفی اور قرآن میں عقل اور تجربہ پر دائمی توجہ اور اس کتاب مبین کا فطرت اور تاریخ کو معرفت بشری کے سرچشموں کی حیچیت دنیا در اصل ختم نبوت کے واحد عقیدے کے مختلف خدوخال ہیں۔عقیدہ ختم نبوت کے یہ معنے نہیں لینے چاہیں کہ زندگی کی انتہائی سرنوشت یہ ہے کہ عقل کامل جزبات و احساسات کی جگہ حاصل کرلے، یہ بات نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب"

اسلام نے اعلان ختم نبوت کے ضمن میں اپنی ابدیت کا اعلان کیا ہے:"حلال محمّدٍ حلال الی یوم القیامه و حرام محمد حرام الی یوم القیامة"

ترجمہ: "محمد کا حلال کیا ہوا قیامت تک حلال ہے اور محمد (ص) کا حرام کیا ہوا قیامت تک حرام ہے"

سوالات اور اعتراضات کی ساری بوچھاڑ اسی موضوع سے ہے کہا جاتا ہے کیا کسی چیز کے لیے ہمیشگی ممکن ہے؟

دنیا میں ہر چیز فانی ہے، اس دنیا کی اصل بنیاد تغیر ہے، دنیا میں سرف ایک ہی چیز جاودانی ہے اور وہ یہ کہ کسی چیز کو ہمیشگی حاصل نہیں۔

ہمیشگی اور ابدیت کے منکر کبھی اپنی باتوں کو فلسفہ کا رنگ دے دیتے ہیں اور دلیل میں تغیر و تبدل کے اس قانون کو پیش کرتے ہیں جو فطرت کا ایک مجموعی قانون ہے۔

اگر ہم مسئلے پر اس نقطہ نظر سے غور کریں تو اعتراض کا واضح جواب مل جاتا ہے کہ وہ چیز جو ہمیشہ تغٰر و تبدل سے دوچار رہتی ہے وہ مادہ اور دنیا کی مادی ترکیبات ہیں لیکن قوانین اور نظامات خواہ وہ طبیعی نظامات ہوں یا وہ اجتماعی نظامات جو طبیعی اصولوں سے ہم آہنگ ہوں اس قانون تغیر و تبدل کے تحت نہیں آتے، ستارے اور شمسی نظامات ظاہر ہوتے ہیں اور چند دنوں بعد فرسودہ اور فانی ہو جاتے ہیں لیکن قانون کشش اپنی جگہ رہنا ہے، نباتات اور حیوانات وجود میں آتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں لیکن قوانین حیات باقی رہتے ہیں۔

ہی حال انسانوں اور ان کی زندگی کے قابون کا ہے، انسان جن میں پیغمبر بھی شامل ہے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن پیغمبر کا لایا ہوا آسمانی قانونزندہ اور تابندہ رہتا ہے ۔

مصطفیٰ را وعدہ داد الطاف حق

گر بمیری تو نمیرد این سبق

مظاہر فطرت تغیر پذیر ہیں قوانین فطرت کو تغیر نہیں، اسلام قانون ہے نہ کہ مطاہر کائنات سے ایک مظہراسلام اسی صورت مین مردہ ہو سکتا ہے کہ وہ قوانین فطرت سے ہم آہنگ نہ ہو لیکن جب اسلام کا اپنا دعویٰ ہے کہ وہ فطرت اور انسانی سرشت سے اور اس کے معاشرے سے تازگی اور قوت حاصل کرتا ہے اور قوانین فطرت سے ہم آہنگ ہے تو آخر وہ کس طرح ہو سکتا ہے؟

کبھی اجتماعیت کے پہلو سے اعتراض کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اجتماعی ضوابط اجتماعی تقاضوں کی بنیاد پر وضع کئے جاتے ہیں، جب معاشرہ کی ضروریات قوانین اجتماعی کی بنیاد ہیں تو ان کا عوامیل تمدن کی توسیع و تکمیل کے ساتھ ساتھ متغییر ہونا بھی ضروری ہے ہر زمانے کی ضروریات دوسرے زمانے کی ضروریات سے مختلف ہوتی ہیں، میزائیل طیاروں بجلی اور ٹیلی ویژن کے اس جدید دور کی ضروریات گھوڑوں، خچرون اور اونٹون کی پرانے کی ضروریات سے قطعی مختلف ہون گی، یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس جدید دور کے لیے بھی وہی ضوابط نافذ ہوں جو پرانے زمانے میں رائج تھے، دوسرے الفاظ میں عوامل تمدن کے اندر ترقی و توسیع لازمانئے تقاضے پیدا کرے گی، اس لیے جبر تاریخ کا راستہ روکنا اور زمانہ کے ایک ہی حال پر رکھنا ممکن نہیں ہے اور زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرنا بھی ممکن نہیں ہے، جامد اور یکساں ضوابط کا پابند رہنا مقتضیات زمانہ کے ساتھ مطابقت اور لچک پیدا کرنے اور تمدن کے قافل کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

بے شک اہم ترین مسئلہ ہے، ہماری نئی نسل بجز تغیر و تبدل اور وجدت طلبی اور زمانے کے نئے نئے تقاضوں کے کچھ نہیں سوچتی، نئی نسل کا سامنا کرتے بھی جو بات سب سے پہلے کانون تک پہنچتی ہے وہ یہی ہے، اس نسل کی انتہا پسندوں کے نقطہ نظر سے مذہب اور نو طلبی دو متضاد وجود ہیں، نو طلبی کی خاصیت حرکت اور ماضٰ سے منہ موڑنا ہے جبکہ مذہب کی خاصیت جمود سکون، ماضی سے وابستگی اور موجودہ وضع کی حفاظت کرنا ہے۔

اسلام کو دسرے ہر مذہب سے زیادہ اس طرز فکر کے حامل گروہ سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے، اسلام کا ابدیت و ہمیشگی کا دعوی اس گروہ کے لیے بڑا نا قابل برادشت ہے، اسلام زندگی کے تمام شعبون میں عمل دخل رکھتا ہے، خدا اور بندے کے درمیان تعلق سے لے کر افراد کے اجتماعی روابط، خاندانی روابط، فرد اور اجتماع کے روابط انسنا اور اس دنیا کے با ہمی روابط سب ہی سے وہ بحث کرتا ہے، اگر اسلام دوسرے مذاہب کی طرح چند رسلم عبادات اور خشک اخلاقی ضوابط تک محدود ہوتا تو پھر اس کے لیے کوئی دشواری نہ تھی لیکن وہ اس قدر مدنی، فوجداری، دیوانی، سیاسی، اجتماعی اور خاندانی قوانین و ضوابط رکھتے ہوئے کیا کر سکتا ہے؟

ہم نے اوپر جو اعتراض نقل کیا ہے اس میں جبر تاریخ ضروریات میں تغیر مقضیات زمانہ کی رعایت جیسے نکات کو اٹھا یا گیا ہے اس لیے اعتراض کے ان تین اصل نکات پر مختصراً، بحث کرنا ضروری ہے، اس کے بعد اسلام کے نقطہ نظر سے ہم اس اعتراض کو رفع کرنے کی کوشش کریں گے، ان محدود صفحات مین بحث کے تمام پہلووں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے، ایک ایسا مسئلہ جو فلسفہ، فقہ، تاریخ اور اجتماعیات سب ہی سے متعلق ہے ایک ضخیم کتاب کی وسعت چاہتا ہے جسے برسون کے مطالعہ کا حاسل قرار دیا جا سکے تا ہم توقع ہے کہ یہ مختسر مقالہ اس اشکال کے رفع کرنے میں مدد دے گا۔

جبر تاریخ

یہ کلمہ و اجزاء سے مرکب ہے ۔جبر اور تاریخ جبر کا مطلب کسی چیز کا حتمی اور یقینی ہونا ہے فلاسفہ کی اصطلاح میں اسے ضرورت اور وجوب کہا جاتا ہے مثلا :جب ہم ۵ *۵ کہتے ہیں تو یہ ضرب کھانے والے دونوں اعداد ضرورتا اور جبرا ۲۵ کے مساوی ہوں گے یعنی حتما ایسا ہی ہے اس کے خلاف ہونا ممکن نہیں ہے ۔یہ بات ظاہر ہے کہ جبر کا لفظ اصطلاحا ایک فلسفیانہ مفہوم رکھتا ہے ۔اس سے ہٹ کر جبر کا مفہوم حقوقی فقہی اور عرفی ہے یعنی یہ لفظ اکراہ اور جبریہ ارمال کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۵ *۵ اپنی ذاتی ساخت کی بناء پر ۲۵ کے مساوی ہے یہ کسی جبری قوت اور جبریہ عمل کی وجہ سے نہیں ہے لیکن تاریخ، تاریخ یعنی حادثات کا مجموعہ جو انسان کی سرگذشت کو تشکیل دیتا ہے ۔انسانی سرگذشت ایک راستہ طے کرتی ہے کچھہ ایسی طاقتیں کار فرما ہیں جو اسے حرکت میں لاتی ہیں اور اسے قابو میں رکھتی ہیں جیسے ایک دستی پہیہ یا ایک کارخانہ جسے ہاتھہ یا بھاپ کی طاقت سے چلایا جاتاہے ۔تاریخ کو بھی کچھہ عوامل اور طاقتیں حرکت میں رکھتی ہیں ۔اسے گردش میں لاتی ہیں اور آگے بڑھاتی ہیں ۔اس اعتبار سے جبر تاریخ، کا مطلب سرگذشت بشر کا حتمی اور پایبند ہونا ہے، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تاریخ کی حرکت کی حرکت جبری ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کی اجتماعی زندگی میں کچھہ ایسے طاقتور عوامل ہیں جو اپنے قطعی اچرات رکھتے ہیں ۔ان سے بچنا ممکن نہیں ان عوامل کی تاثیر یقینی اور حتمی ہوتی ہے ۔

جبر تاریخ، کے کلمے نے ہمارے اس دور میں بڑی قدر و قیمت حاصل کر لی ہے یہ کلمہ موجودہ زمانے میں وہی کردار ادا کررہا ہے جو اس نے ماضی میں قضا و قدر کے پردہ میں ادا کیا تھا۔حوادث زمانہ کے آگے سپرڈال دینا اور اپنے غلطیوں کے عذر تراشنا اس کا مدعا ہے ۔

یہ ایک شیر خونخوار ہے کہ اس کے مقابل تسلیم و رضا کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ماضی میں اس کا نام قضا و قدر تھا اور موجودہ دور میں اسے جبر تاریخ کہا جاتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ نقضا و قدر اور جبر تاریخ دونوں کلمہ صحیح فلسفیانہ مفہوم کے ھامل ہیں ۔ان کے حقیقی مفہوم کو نہ سمجھنا ہی غلط تعبیر کا سبب بنا ہے ہم نے اپنی کتاب "انسان و سرنوشت :میں قضاء و قدر کے بارے میں بحث کی ہے لیکن جبر تاریخ، یہ کہ انسانی سرگذشت دینا کے تمام حوادث کی طرح نہ تبدیل ہونے والا قانون رکھتی ہے اور تاریخی عوامل دوسرے تمام عوامل کی طرح قطعی اور لازمی تاثیرات رکھتے ہیں، یہ کوی ایسی بات نہیں ہے ۔قرآن کریم نے خود سنۃاللہ کہہ کر اس کی تائید کی ہے لیکن ان عوامل کی تاثیر کی نوعیت اصل مسئلہ ہے ۔کیا تاریخ کے جبری عوامل کا اثر اس صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ ہر چیز وقتی محدود اور زوال پذیر ہو کر رہ جاتی ہے یا اس کی کوئی دوسری صورت بھی ہے؟

ظاہر ہے اس مسئلہ کا تعلق عوامل کی نوعیت سے ہے ۔اگر تاریخ کو گردش میں لانے والے عوامل مضبوط اور پائیدار ہوں گے تو ان کی جبری تاثیر کا نتیجہ اس شکل میں ظاہر ہوگا کہ وہ گردش و تسلسل کو برقرار رکھیں گے ۔اگر اس کے بر عکس یہ عوامل ناپا ۴ دار عامل کا تعلق خاندان کی تشکیل رفیق زندگی کے انتخاب اور بچوں کی تولید میں موثر رہا ہے ۔تاریخ کے طویل دور میں خاندانی زندگی کے خلاف تحریکیں اٹھتی رہیں لیکن وہ سب ناکام ہوگئیں ۔ایسا کوں ہوا؟ یہ تحریکیں جبر تاریک کے خلاف تھیں، جبر تاریخ کا تقاضا یہ تھا کہ خاندانی زندگی باقی رہے ۔

ایک دوسرا تاریخی عامل مذہب ہے ۔پرستش انسان کی سرشت میں شامل ہے یہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہے ۔یہ عامل تاریخ کے تمام ادوار میں موثر رہا ہے اور اس نے مذہب پر سے توجہ کو ہٹنے نہیں دیا ۔

غرض یہ کہ جبر تاریخ کو کسی محدود اور وقتی چیز کے مساوی قرار دے کر ہر قانون اور قائدہ کی ناپائیداری پر دلیل لانا ایک بڑی غلطی ہے ۔جبر تاریخ، اس جگہ ناپائیداری کو نتیجہ کی صورت میں سامنے لاتی ہے جہاں زیر نظر عامل، جیسے اقتصادی پیداوار کا عامل ہو اور کوئی دوسرا عامل اس کی جگہ لے اس لئے انسان اور اس کی ضرورت تاریخ کو گوشزد میں لانے والے عوامل اور ان میں سے ہر عامل کی معاشرہ پر اثر انداز ہونے والی تاثیری قوت کا سراغ لگانا چاہئے تا کہ یہ معلوم ہو کہ اس کا اثر کہاں تک پہنچتا ہے اور ان میں سے کونسا عامل مضبوط و پائدار ہے اور کونسا کمزور و ناپائیدار ۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کی جملہ حالتوں کی ناپائیداری کو جبر تاریخ کے مساوی قرار دینے کا مفروضہ ہی انسان کے "یک جہتی" ہونے کے مفروضے کو آگے لانے کا سبب بنا ہے اس مفروضے کے مطابق "یک جہت" انسان زیادہ قدر و قیمت نہیں رکھتا اور تاریخ کا تعغیر ایک "یک شاخہ" تعغیر ہے ۔اس مفروضے کے حامیوں کے نقطہ نظر سے ہر دور میں تاریخ کا اصلی اور بنیادی عامل معشیت ہے دولت کی پیداوار اور تقسیم کا طریقہ، افراد کے اقتصادی روابط جیسے کارخانہ اور مزدور کے روابط، کسان اور زمیندار کے روابط جو کمزور اور تعغیر پذیر روابط ہیں، زندگی کے دوسرے گوشوں مثلا دین علم، فلسفہ، قانون، اخلاق اور ہنر کا تعین کرتے ہیں ۔ابتدا "دنیا میں اس مفروضے کا بڑا چرچا ہوا لیکن اب یہ اپنی قدر و قیمت کھو چکا ہے ۔آج دنیا اور تاریخ کے بہت سے مادہ پرست مفسرین اس مفروضے کو مسترد کرچکے ہیں ۔

ہر چند کہ ابھی علمی اعتبار سے قطعی طور ہر یہ نہیں کہاجاسکتا کہ انسان "یہ ناشنوا ساوجود "کثیر الجہت ہے اور انسانی تاریخ کی توجیہ کثیرالجہت، کے مفروضے سے ہی کی جاسکتی ہے البتہ یہ تسلیم شدہ قدر ہے انسان "یک جہت" نہیں ہے ۔اس کے یک جہت ہونے کا نظریہ اور انسانی تاریخ کے سفر کا یک خطی ہونے کا مفروضہ سب سے زیادہ بے بنیاد بے بنیادمفروضہ ہے ۔


4

5