خلافت کے بارے میں اہل سنت کی رائے


اس بارے میں اہل سنت کی رائے سب کو معلوم ہے اوروہ یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے اپنی زندگی میں کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں  کیا ۔ لیکن صحابہ میں سے اہل حلّ وعقد سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور انھوں نے ابو بکر صدیق  کو اپنا خلیفہ چن لیا کیونکہ ایک تو ابو بکر رسول اللہ سے بہت نزدیک تھے ، دوسرے انھی کو رسول اللہ ص نے اپنے مرض الوفات میں نماز پڑھانے کے لیے اپنا جانشین مقررکیاتھا ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ابو بکر کو ہمارے دین کے کام کے لیے پسند کیا تو ہم انھیں اپنے دنیا کے کام کے لیے کیوں پسند نہ کریں ۔
اہل سنت  کے نقطہ نظر کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
1:- رسول اللہ ص نےکسی کو نامزد نہیں کیا ۔ اس سلسلے میں کوئی نص نہیں ۔
2:- خلیفہ کا تعیّن صرف شوری سے ہوتا ہے ۔
3:- ابوبکر کو کبار صحابہ نے خلیفہ منتخب کیا تھا ۔
یہی میری خود اپنی رائے تھی اس وقت جب کہ میں مالکی تھا ۔ اس رائے کا دفاع میں پوری طاقت سے کیا کرتا تھا اور جن آیات میں شوری کا ذکر ہے انھیں میں
اپنی رائے کے ثبوت میں پیش کرتا ۔ میں جہاں تک ہوسکتا تھا ، فخریہ کہا کرتا تھا کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو جمہوری نظام حکومت کا قائل ہے ۔ اسلام نے اس انسانی اصول کو جس پر دنیا کی ترقی یافتہ اور مہذب قومیں فخر کرتی ہیں اور وں سے پہلے اپنا لیا تھا ۔ مغرب میں جو جمہوری نظام انیسویں صدی میں متعارف ہوا اسلام اس سے چھٹی صدی ہی میں واقف ہوچکا تھا ۔
لیکن شیعہ علماء سے ملاقات کرنے ،ا ن کی کتابیں پڑھنے اور ان کے اطمینان بخش دلائل معلوم کرنے کے بعد میں نے اپنی رائے بدل دی ۔ اب حقیقت ظاہر ہوچکی تھی اور مجھے یقین ہوگیا تھا کہ یہ اللہ سبحانہ کی شان کے مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی امت کو بغیر امام کے چھوڑ دے ۔جب کہ وہ خود فرماتا ہے :
" إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ"
آپ صرف ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ایک ہدایت دینے والا ہے ۔(سورہ رعد ۔آیت 7)
اسی طرح کیار سول اللہ ص کی رحمت ورافت کا تقاضہ یہ تھاکہ آپ اپنی امت کو بغیر کسی سرپرست کے چھوڑ دیں خصوصا ایسی حالت میں جب کہ ہمیں یہ معلوم ہے  کہ آپ کو خود اپنی امت میں تفرقہ کا اندیشہ تھا (1)۔ اوریہ ڈر تھا کہ کہیں لوگ الٹے پاؤں نہ پھر جائیں (2)۔ دنیا کے حصول  میں ایک دوسرے پر بازی  لیجانے  کی کوشش نہ کرنے لگیں (3) ایک دوسرے کی گردن نہ مارنے لگیں (4)۔ اور یہودو نصاری کے طور طریقوں کی پیروی نہ کرنے لگیں ۔(5)
یہ بھی یاد رہے کہ جب عمر بن الخطاب زخمی ہوگئے تو ام المومنین عائشہ نے آدمیبھیج کر انھیں کہلوایا تھا کہ : اپنے بعد امت محمّدیہ کا کوئی خلیفہ مقرر کردیجیئے اور اسے اپنے بعد بے یارو مددگار نہ چھوڑیے ۔ کیونکہ مجھے فتنے  کا اندیشہ ہے ۔(6)
اسی طرح حضرت  عمر کے زخمی ہوجانے کے بعد عبداللہ بن عمر نے بھی اپنے والد سے کہا تھا کہ : لوگوں  کا خیال ہے کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کررہے ہیں لیکن اگر آپ کا کوئی اونٹ یا بھیڑ یں چرانے والا ہو اور وہ گلے کو چھوڑ کو آپ کے پاس چلا آئے تو کیا آپ یہ نہیں سمجھیں گے کہ اس نے گلے کو کھودیا ۔ انسانوں کی دیکھ بھال تو اور بھی زیادہ ضروری ہے ۔(7)
حضرت ابو بکر نے جن کومسلمانوں نے  اجماع کے ذریعے خلیفہ بنایا تھا خود ہی اس اصول کو توڑدیا  تاکہ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف ،تفرقہ اور فتنہ کے امکان  کا سد باب کیا جاسکے ۔یہ توجیہ اس صورت میں ہوگی جب ہم حسن ظن سے کام لیں ورنہ امام علی ع نے جو اس قضیے میں تمام پہلوؤں سے سب سے زیادہ واقف تھے ، پہلے ہی پیشین گوئی کردی تھی کہ ابو بکر کے بعد خلافت عمر بن الخطاب ہی کے پاس جائے گی ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب عمر نے امام علی ع پر ابوبکر کی بیعت کرنے کے لیے زورڈالا تھا ۔ امام علی ع نے کہا تھا :
"إحلب حلباً لّك شطره واشدد له اليوم يردّده عليك غداً."
آج تم دودھ دھولو، کل تمہیں اس کا آدھا حصّہ مل جائے گا ۔آج تم اس کی حیثیت مضبوط کردو ، کل وہ تمھیں واپس لوٹا دیگا ۔(8)
میں کہتا ہوں کہ جب ابوبکر ہی کو شوری کے اصول پر یقین نہیں تھا تو ہم کیسے مان لیں کہ رسول اللہ نے یہ معاملہ کسی کو خلیفہ نامزد کیے بغیر ایسے چھوڑ دیا ہوگا ۔کیا آپ کو اس مصلحت کا علم نہیں تھا جس کا علم ابو بکر ،عائشہ اور عبداللہ بن عمر کو
تھا اورجس سے سب لوگ صاف طور پر واقف تھے کہ اگر انتخاب کا اختیار عوام کو دیدیا جائے گا تو اس کا نتیجہ اختلاف کی شکل میں ظاہر ہوگا خاص کر جب معاملہ حکومت اور خلافت کا ہو ۔ خود حضرت ابو بکر کے انتخاب کے موقع پر سقیفہ میں ایسا ہوبھی چکا تھا ۔ انصار کے سردار سعد بن عبادہ ، ان کے بیٹے قیس بن سعد ، علی بن ابی طالب  ع، زبیر ابن العوّام(9) ،عباس بن عبدالمطلب ، اور دوسرے بنی ہاشم اوربعض دوسرے صحابہ نے جو خلافت کو علی ع کا حق سمجھتے تھے (10)، مخالفت کی تھی اور وہ علی ع کے مکان پر جمع ہوگئے تھے جہاں ان کو جلادیے جانے کی دھمکی دی گئی تھی ۔(11)
اس کے  علاوہ  ہم نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ نے اپنی پوری عملی زندگی میں کبھی ایک دفعہ بھی کسی غزوہ یا سریہ کے کمانڈر کے تعین  کے وقت اپنے اصحاب سے مشورہ کیا ہو ۔
اسی طرح مدینہ سے باہر جاتے وقت کسی سے مشورہ کیے بغیر جس کو مناسب سمجھے تھے اپنا جانشین مقرر کرجاتے تھے ۔ جب آپ کے پاس وفود آتے تھے اور اپنے اسلام کا اعلان کرتے تھے اس وقت بھی ان سے مشورہ کیے بغیر ان میں سے جس کو چاہتے تھے ان کا سربراہ مقرر کردیتے تھے ۔
آپ نے اپنے اس طریق کار کو اس وقت مزید واضح کردیا جب آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسامہ بن زید کو لشکر کا امیر مقرر کیا حالانکہ ان کی نوعمری اور صغر سنی کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اعتراض بھی کیا مگر آپ نے اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے ان لوگوں پر لعنت ک جو اس لشکر میں شامل ہونے سے گریز کریں (12)۔ اور واضح کردیا کہ امارت ،ولایت اور خلافت میں لوگوں کی مرضی داخل نہیں ، یہ معاملہ رسول ص کے حکم سے طے ہوتاہے اور رسول کا حکم اللہ کا حکم ہے ۔جب صورت یہ ہو تو ہم کیوں نہ دوسرے فریق کے دلائل پر بھی غور کریں ۔دوسرے
فریق سےمیری مراد شیعہ ہیں جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ رسول اللہ ص نے امام علی ع کو خلیفہ مقرر کیا تھا اور مختلف موقعوں پر اس کی تصریح بھی کردی تھی جن میں سب سے مشہور " غدیر خم" کا جلسہ ہے ۔
-------------------
(1):-جامع ترمذی۔سنن ابو داؤد ۔سنن ابن ماجہ ۔مسندامام احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 332۔
(2):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 902 باب الحوض اور جلد 5 صفحہ 192
(3):- صحیح بخاری جلد4 صفحہ 63۔
(4):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 112
(5):-
(6):- ابن قتیبہ ،الامامۃ والسیاسۃ جلد 1 صفحہ 28
(7):- ابن قتیبہ ، الامامۃ والسیاسۃ جلد 1 صفحہ 18 اورمابعد
(8):- صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 5 باب الاستخلاف وترکہ
(9):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 26 باب رجم الحبلی من الزنا
(10) (11):-ابن قتیبہ ،الامامۃ والسیاسۃ جلد اول صفحہ 18 اورمابعد ۔
(12):- الملل والنحل ،شہرستانی۔