حضرت فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیھا) کی شخصیت کے چند نمایاں نقوش

شہزادی کائنات(علیہاالسلام) کے تذکروں کا دائرہ کائنات میں نور کی پہلی کرن پھوٹنے سے لیکر آپ کی فانوس حیات کی روشنی کے گل ہونے والے لمحہ کے درمیان موجود وسعتوں سے کہیں زیادہ ھے-
آپ اس عظیم نہی کی ہیٹی ہیں جنھوں نے انسانیت کی فکروں کو ترقی سے سرفراز کرکے منزل معراج پر پھنچادیا نیز آپ ایسے مرد الہٰی کی زوجہ ہیں جو حق کا ایک اھم رکن اور تاریخ بشر یت کے سب سے عظیم نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وجود کا استمرار تھے-
آپ کمال عقل،جمال روح،پاکیزہ صفات اور اصل کرم کی اخری منزلوں پر فائز تھیں آپ نے جس معاشرہ میں زندگی بسر کی اسے آپنی ضوفشانیوں سے منور کردیا اور یہی نہیں بلکہ آپنے افکار وخیالات کے نتیجہ میں آپ اس سے کہیں اگے نظر ائیں،آپ نے رسالت الہٰیہ کے بر پا کردہ انقلاب میں ایسا مقام و مرتبہ حاصل کرلیا اور اس کا اتنا اھم رکن(حصہ)بن گئیں کہ جس کو سمجھے بغیر تاریخ رسالت کو سمجھنا قطعاً ناممکن ھے-
 ایک عورت کےلئے جتنے فضائل و کمالات ضروری ہیں جیسے انسانیت،عفت، پاکدامنی، کرامت  قداست و غیرہ کوشہزادی کائنات(س) نے آپنے کردار و عمل کی شکل میں بالکل مجسم کرکے پیش کردیا اس کے علاوہ آپ کی روشن وتابناک ذکاوت و ذھانت، منفرد زیرکی(فطانت)اور وسیع علم آپنی جگہ پر ھے اور آپ کے افتخار کےلئے یہی کافی ھے کہ آپ نے مدرسہٴ نبوت اورہیت رسالت میں ترہیت پائی اور آپنے والد گرامی سے وہ سب کچھ حاصل کرلیا جو ان پررب العالمین کی جانب سے نازل کیا گیا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں ھے کہ آپ آپنے والد گرامی کے گھر میں اس علمی دولت سے اراستہ ومزین ہوئیں جو مکہ کی کسی عورت کو نصیب نہ ھوسکی-
 آپ(سلام اللہ علیھا) نے حضرت محمد مصطفیٰ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت علی مرتضی(علیہ السلام) کی شیریں زبانوں سے قران کی ایتیں سنیں اور اس کے احکام وفرائض اور سنتوں کو اس طرح ذھن نشین کرلیا کہ بڑے بڑے صاحبان شرف و منزلت بھی اس کی گرد راہ تک نہیں پھونچ سکے-
آپ نے ایمان و یقین کے ساتھ نشو و نما پائی،وفا و اخلاص اور زھد کے ساتھ پروان چڑہیں اور چند سال کے اندر ہی یہ روشن ھوگیا کہ آپ وہ دختر شرف و منزلت ہیں جس کی نظیر جناب حواء کی ہیٹیوں میں کہیں نظر نہیں اسکتی-
آپ نے ھر کمال میں آپنے بابا کے نقش قدم پر چلتے ھوئے زندگی کے مختلف مراحل طے کئے یھاں تک کہ آپ کے بارے میں ام الموٴمنین عائشہ کو یہ کھنا پڑا:میں نے مخلوقات خدا میں کسی کو فاطمہ(سلام اللہ علیھا) سے زیادہ لب ولہجہ اور انداز گفتگو میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشابہ نہیں دیکھا اور جب وہ آپنے والد کی خدمت میں جاتی تھیں تووہ ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے تھے بہترین انداز سے انہیں خوش امدید کہتے تھے اور آپنی جگہ بٹھاتے تھے اور جب انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس جاتے تھے تو وہ بھی کھڑے ھوکر آپ کا استقبال کرتی تھیں اور ان کے ہاتھ پکڑکر ان کوبوسہ دیتی تھیں-
یہیں سے ھمیں وہ راز بھی معلوم ھوجاتا ھے جس کی بنا پر حضرت عائشہ نے بالکل واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ میں نے زمین کی تمام عورتوں میں جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) سے زیادہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب سے زیادہ چہیتی کسی کو نہیں پایا آپنے الفاظ میں انھوں نے اس کی یہ وجہ ہیان کی ھے:میں نے فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے باباکے علاوہ ان سے زیادہ زبان کا سچا کو ئی نہیں دیکھا-  
اس طرح شہزادی(علیہا السلام) کائنات، عالم نسوانیت کی ایک ایسی مکمل اور مجسم علامت بن گئیں جس کے سامنے تمام مومنین کے سر نھایت خلوص کے ساتھ بالکل خم نظر اتے ہیں-

۱-علم و معرفت

جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیھا) کےلئے وحی و نبوت کے گھر میں جن علوم ومعارف کا انتظام موجود تھا آپ نے صرف ان ہی پر اکتفا نہیں کی اور علم و معرفت کے افتاب کی جو کرنیں آپ کے اوپر مسلسل پڑتی رہتی تھیں آپ نے انہیں کو کافی نہیں سمجھا بلکہ آپنی توانائیوں کے مطابق آپنے والد گرامی اور آپنے شوہر  نامدار(جوعلم نہی کے شھر کا دروازہ تھے)سے مسلسل علوم حاصل کرتی رہیں آپ آپنے دونوں ہیٹوں یعنی امام حسن(علیہ السلام) اور امام حسین(علیہ السلام) کو پابندی سے بزم پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھیجا کرتی تھیں اور وآپسی پر ان سے سب کچھ دریافت بھی فرماتی تھیں جس سے ایک طرف تو تعلیم سے آپ کی دلچسپی اور دوسری جانب آپنے بچوں کی اعلیٰ ترہیت کا انداز معلوم ھوتا ھے نیز یہ کہ آپنے گھر کی تمام مصروفیتوںکے باوجود بھی آپ مسلمان عورتوں کو مسلسل تعلیم دیا کرتی تھیں-
طلب ونشر علم کی راہ میں آپ کی جہد مسلسل نے آپ کو بزرگ ترین راویات حدیث اور سنت مطھرہ کی حاملات میں سر فھرست لا کھڑا کیا ھے- انہی کوششوں کے نتیجہ میں ایک ضخیم کتاب وجود میں ائی جس کی آپ بہت قدر کیا کرتی تھیں”مصحف فاطمہ“ نام کی یہ کتاب آپ کی میراث کے طور پر آپ کے فرزندوں   ائمہ معصومین علیھم السلام تک یکے بعد دیگرے منتقل ھوتی رہی ھے- جس کی تفصیل آپ حضرات آپ کی میراث کے باب میں ملاحظہ کریں گے-
آپ کی بلندی فکر اوروسعت علم کا ندازہ آپ کے ان ہی دو خطبوں سے لگایا جاسکتاھے جو آپ نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بالکل بر جستہ ارشاد فرمائے تھے جن میں سے ایک خطبہ تو مسجد نبوی میں بڑے بڑے صحابہ کے درمیان دیا تھا اور دوسرا خطبہ آپنے گھر میں ارشاد فرمایاتھا اور یہ دونوں ہی خطبے  اج تک آپ کی فکر کی گھرائی،اصالت،نیز آپ کی ثقافتی وسعت نظر،منطقی قوت استدلال اورنااہل ہاتھوں میں امت کی باگ ڈور پھونچ جانے کے بعد رو نما ہونے والے واقعات کی پیشین گوئیوں کے بہترین شاھکار ہیں،
 اسکے علاوہ بارگاہ خدا میں آپ کا بے مثال ادب،خدا اور حق کی راہ میں آپ کے جہاد کا آپنا الگ مقام ھے-
ہیشک شہزادی(سلام اللہ علیھا)، ان اہل ہیت(علیہم السلام) کی ایک فرد تھیںجنھوں نے تقوا ئے الہٰی کو آپنے گلے لگایا تو اللہ نے انہیں دولت علم سے مالامال کردیا(جسکی طرف قران میں واضح اشارہ موجو ھے)اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم سے اراستہ و پیراستہ فرمایا-(اور گویا آپ کی گھٹی میں علم الٰہی شامل تھا)لہٰذاآپ کو ”فاطمہ “کھاجانے لگا اور چونکہ آپ کی کوئی مثل و نظیر نہیں ھے لہٰذا آپ کو ”بتول “کھا گیا-

۲- اخلاق کریمہ

جناب سیدہ کونین(سلام اللہ علیھا) نیک سیرت، پاک باطن، شریف النفس، جلیل القدر، زود فھم، خوش صفات، جری، نڈر، بھادر، غیرتمند خود پسندی سے ہیزار اور غرور و تکبر سے دور تھیں- (۱)
آپ(سلام اللہ علیھا) حوصلہ مند، بے حد بردبار، صاحب وقار و سکون، مہربان، پختہ رائے کی مالک اور پاکدامن تھیں-
آپنے والد نبی رحمت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے پہلے آپ کی زندگی پروقار، مقصد زیست سے سرشار اور خندہ روئی اور تبسّم کے ساتھ بسر ہوئی- لیکن آپنے والد کی وفات کے بعد وہ تبسّم نہ جانے کھاں غائب ھو گیا-
آپ نے حق کے علاوہ کبھی زبان نہیں کھولی سچائی کے علاوہ کوئی گفتگو نہ کی، کسی کا غلط انداز سے کبھی تذکرہ نہیںکیا،آپ غیبت،تھمت،چغلخوری، اشارہ و کنائے نیز کسی کی تضحیک سے کوسوں دوررہیں اسرار کی حفاظت،وعدہ وفائی،نصیحت کی تصدیق،معذرت قبول کرنا برائیوں سے چشم پوشی،گستاخیوں اور جسارتوں کو حلم وبردباری کے ساتھ نظر انداز کردینا آپ کی عام عادت تھی-
 آپ برائیوں سے دور،خیر و خیرات کی طرف مائل،امانتدار،دل اور زبان کی سچی، عفت وپاکدامنی کی اخری چوٹی(بلندی)پر فائز،پاکدامن اور ایسی پاکیزہ نظر خاتون تھیں جس پر خواھشات نفسانی کا ذرہ برابر اثر نہ ھوتا تھا اور ایسا کیوں نہ ھو؟آپ تو نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان اہلہیت میں شامل ہیںجن کو خداوندعالم نےھر برائی اور گندگی سے دور رکھا ھے-  
آپ کسی بھی نامحرم مرد سے بات کرتی تھیں تو آپ کے اور اس کے درمیان کوئی نہ کوئی پردہ ضرورحائل رہتا تھا، جو آپ کی عفت و پاکدامنی کی علامت ھے-
بلکہ اس سلسلہ میں آپ کے احتیاط کا یہ عالم تھا کہ آپ کو یہ بات بھی بری محسوس ہوئی کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے جنازہ کی اسی طرح ایک چادر ڈال کر اس کی تشییع کی جائے جس طرح دوسری عورتوں کا جنازہ اٹھایا جاتا ھے-  
آپ بے حد زاھدہ اور قناعت پسند تھیں اور آپ کو یہ معلوم تھا کہ لالچ سے دل مردہ ھوتا ھے نیز کام بگڑجاتے ہیں اسی لئے آپ آپنے والد گرامی کی اس حدیث پر شدت سے عمل پیرا تھیں ”فاطمة اصبری علی مرارة الدنیا لتفوزی بنعیم الابد“ ”اے فاطمہ دنیا کی تلخیوں پر صبر کرو تاکہ ابدی نعمتوں کی مالک بن جاوٴ“اس لئے آپ معمولی سے معمولی وسائل زندگی اورسادہ زیستی پر خوش وخرم، مشکلات ِزندگی پر صابر، تھوڑے سے حلال پر قانع نیزراضی و خشنود،دوسروں کے اموال سے بے پروا،نا حق چیز یا غیر خدا سے حاصل شدہ کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھنے کی پابند،مختصر یہ کہ آپ استغناء نفس کاراز ہیں،جیسا کہ آپ کے  والد گرامی نے فرمایا ھے:”انما الغنی غنی النفس“،مالداری(استغناء)صرف نفس کی مالداری ھے-
آپ وہ سیدہٴ بتول ہیں جو دنیا سے کنارہ کش ھو کر، خدا سے بالکل نزدیک، کائنات کی رنگینوں سے متنفراس کی بلاوٴں سے اچہی طرح واقف صبر وتحمل کے ساتھ آپنا فریضہ کو ادا کرنے والی اور بے شمار مشکلات زندگی کے باوجود ھمیشہ آپنے پروردگار کے ذکرمیں مصروف دکھائی دیتی ہیں-شہزادی دو عالم کوصرف اخرت کی فکر لاحق تھی اسی لئے آپ کو دنیاوی مسرتوں سے خوشی نہ ھوتی تھی،کیونکہ آپ نے آپنے بابا کو بھی ھمیشہ دنیا کی اسائش وارام اور اس کی لذتوں سے کنارہ کش اور دور ہی دیکھا-
آپ ہی سے دنیا والوں نے یہ سبق سیکھا ھے کہ بلاوٴں پر صبراوراسائشوں میں ذکرخدا کیسے ھوتا ھے اور قضاء و قدر الہٰی پر کس طرح راضی رھا جاتاھے جیسا کہ آپ نے آپنے والد گرامی کی یہ حدیث نقل فرمائی ھے:
”إنّ اللّه اذا احب عبداً ابتلاه فإن صبر اجتباه و إن رضی اصطفاه “-
خداوندعالم جب کسی بندہ سے محبت کرتا ھے تو اسے امتحان اور ازمائش میں مبتلا کردیتا ھے چنانچہ اگر وہ صبر کرلیتا ھے تو اسے چن لیتا ھے اور اگر وہ راضی رہتا ھے تو اسے ممتاز و منتخب قرار دیتا ھے-

۳-سخاوت وایثار

جود و سخا کے میدان میں آپ آپنے پدر بزگوار کے نقش قدم پر گامزن رہیں اس لیے کہ آپ نے انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سن رکہاتھا:”السخی قریب من اللّٰه…“سخاوت کرنے والا اللہ سے،لوگوںسے اور جنت سے قریب اور جھنم سے دور ھوتا ھے اور اللہ تعالیٰ خود بھی جوادھے اور سخاوت کرنے والے سے محبت کرتا ھے-“
اور ایثار تو حضرت محمد مصطفیٰ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شعار تھا یھاں تک کہ آپ کی بعض ازواج نے کھا ھے:پوری زندگی کبھی بھی آپ نے لگاتارتین دن تک سیر ھو کر کھانا نہیں کھایا بلکہ آپ ھمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے:”ولو شئنا لشبعنا ولکنا نوٴثر علی انفسنا“ ”اگر ھم چاہیں توشکم سیر،رہ سکتے ہیں مگر ھم لوگ آپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں“
 یہی وجہ ھے کہ شہزادی کائنات(سلام اللہ علیھا) آپنے والد کی پیروی میں ایثار وقربانی کے ھر مرحلہ میں اگے نظر اتی ہیں جسکا اندازہ اس بات سے بخوہی لگایا جاسکتا ھے کہ آپ نے آپنی شادی کا جوڑا بھی سائل کو عطا فرمادیا تھا آپ کے عظیم جودو ایثار کےلئے وہی واقعہ کافی ھے جسے ھم سورہٴ دھر کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کرچکے ہیں-
 جابر بن عبداللہ انصاری کا ہیان ھے:پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ھمیں عصر کی نماز پڑھائی جب تعقیبات سے فارغ ھوگئے تو محراب میںھماری طرف رخ کرکے ہیٹھ گئے لوگ آپ کو ھر طرف سے آپنے حلقہ میں لئے ھوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا شخص ایا جو بالکل پھٹے پرانے کپڑے پھنے ھوئے تھا جس سے بڑھا پے اور کمزوری
کی وجہ سے سنبھلا نہیں جارہاتھا یہ منظر دیکھ کر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی خیریت پوچہی!تو اس نے کھا:اے    نہی اللہ میں بہت بھوکاھوں لہٰذاکچھ کھانے کو دیدیجئے میرے پاس کپڑے نہیں ہیں مجھے کپڑے دیدیجئے اور میں فقیربھی ھوں-
 انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:میرے پاس تو فی الحال کوئی چیز نہیں ھے پھر بھی چونکہ خیر کی طرف راھنمائی کرنے والا خیرات کرنے والے کی طرح ھوتا ھے لہٰذا تم اس کے گھر چلے جاوٴ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ھے اور اللہ اور اس کارسول اس سے محبت رکھتے ہیں وہ آپنے اوپر اللہ کو ترجیح دیتا ھے،جاوٴ تم فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے حجرہ کی طرف چلے جاوٴ( ہی ہی کا گھر پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس حجرے سے ملا ھوا تھا جو ازواج کے حجروں سے الگ انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مخصوص حجرہ تھا)اور فرمایا:اے بلال ذرا اٹھو اور اسے فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے گھر تک پھنچادو-  
وہ دیھاتی جناب بلال کے ساتھ چلا گیا،جب وہ جناب فاطمہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازہ پر جا کررکا تو اس نے بلند آواز سے کھا: نبوت کے گھرانے والو! فرشتوں کی رفت و آمد کے مرکزو مقام اور روح الامین جبرئیل کے نزول کی چوکھٹ والو تم پر پروردگار عالم کا سلام ھو! شہزادی کونین(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا تم پر بھی سلام ھو، تم کون ھو؟ اس نے کھا میں ایک بوڑھا اعراہی ھوں آپ کے پدر بزرگوار کی خدمت میں حاضر ھوا تھا-
 اے دختر پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  میں برھنہ تن اور بھوکا ھوں لہٰذا مجھ پر کچھ کرم فرمائےخدا آپ  پر آپنی رحمت نازل کرے-  اس وقت آپ کے یھاں یہ حال تھا کہ شہزادی کونین نے اور اسی طرح، مولائے کائنات(علیہ السلام)( حتی حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے تین دن سے کچھ نہ کھایا تھا حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس بات کا علم تھا جناب سیدہ(سلام اللہ علیھا) نے گوسفند کی ایک کھال اٹھائی جس پر امام حسن(علیہ السلام) اور امام حسین(علیہ السلام) سوتے تھے اور فرمایا کہ اے دقّ الباب کرنے والے اس کو لیجا امید ھے کہ خدا اس کے ذریعہ تم کو بھلائی دے گا-  اعراہی نے کھا: اے دختر پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! میں نے آپ(سلام اللہ علیھا) سے بھوک کا شکوہ کیا ھے لیکن آپ(سلام اللہ علیھا) مجھ کو یہ کھال دے رہی ہیں؟ میں اس بھوک میں اس کا کیا کروں؟ یہ سن کر آپ نے آپنی گردن سے وہ ھار اتارکر اس اعراہی کی طرف بڑھا دیا جو آپ کو آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حمزہ   ۺ کی ہیٹی فاطمہ(سلام اللہ علیھا) نے تحفہ میں دیا تھا-اور فرمایا: لیجا کر اس کو ہیچ دینا امید ھے کہ خدا تم کو اس کے ذریعہ اس سے بہتر چیز عنایت فرمائے گا-  اعراہی ھارلے کر مسجد میں آیا حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپنے اصحاب کے درمیان تشریف فرما تھے اور کھا: اےرسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! فاطمہ(علیہا السلام) نے یہ ھار مجھ کو دے کر کھا ھے اس کو ہیچ دینا حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر روپڑے اور فرمایا کہ: اس کے ذریعہ اس سے بہتر چیزکیسے عنایت نہ فرمائے گا جبکہ تم کو یہ ھار بنی آدم کی تمام عورتوں کی سردار فاطمہ بنت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیا ھے؟ اس وقت جناب عمار یاسر کھڑئے ھوئے اور فرمایا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا مجھے یہ ھار خرید نے کی اجازت ھے؟ آپ نے فرمایا عمار! اس کو خرید لو کیونکہ اگر جن وانس بھی مل کر اس کو خرید لیں تو ان میں سے کسی پر بھی خدا عذاب نہ فرمائے گا-
 جناب عمارنے عرض کی اے اعراہی یہ ھار کتنے میں ہیچوگے؟ اس نے کھا کہ اس کی قیمت یہ ھے کہ مجھ کو پیٹ بھر روٹی اور گوشت مل جائے، ایک بر د یمانی مل جائے جسے اوڑھ کر میں نماز پڑھ سکوں اور اتنے دینار جن کے ذریعہ میں آپنے گھر وآپس پھونچ جاؤں اسی دوران جناب عمار   ۺ نے آپنا وہ تمام حصہ جو آپ   ۺ کو حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے مال غنیمت میں سے دیا تھا قیمت کے عنوان سے پیش کرتے ھوئے کھا کہ میں اس ھار کے بدلے تم کو ہیس دینار، دوسو درھم، ایک برد یمانی، آپنی سواری جو تم کو تمھارے گھر تک پھونچادے گی اور اتنی مقدار میں گیھوں کی روٹیاں اور گوشت بھی فراھم کر رھا ھوں جس سے تم بالکل سیر ھوجاؤ-  اعراہی نے کھا اے بھائی تم کتنے سخی ھو!    جناب عمار اس کو آپنے ساتھ لےگئے اور وعدے کے مطابق وہ ساری چیزیں اسے دیدیں اعراہی دوبارہ حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کھا: کیا تم سیر ھوگئے اور تم کو پوشاک مل گئی اس نے کھا میرے ماں بآپ آپ(علیہا السلام) پر فدا ھوں! جی ھاں میں بے نیاز ھوگیا ھوں-  حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو اب فاطمہ(علیہا السلام) کو ان کے ایثار کا بدلہ دو! تو اعراہی نے کھا: پروردگارا: تو معبود ھے ھم نے تجھ کو پیدا نہیں کیا ھے اور تیرے سوا ھمارا کوئی معبود نہیں ھے تو ھر حال میں ھمارا رازق ھے خدایا! فاطمہ(علیہا السلام) کو ایسی نعمت عطا فرما جیسی نعمت نہ کسی نے دیکہی ھوا اور نہ سنی ھو-  حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آمین کھا اور اصحاب کی طرف رخ کر کے کھا: خدا نے فاطمہ(علیہا السلام) کو دنیا میں یہ چیزیں دی ہیں:میں اس کا بآپ ھوں اور تمام عالمین میں کوئی مجھ جیسا نہیں؛ علی  (علیہ السلام) ان کے شوہر  ہیں اگر علی(علیہ السلام) نہ ھوتے تو فاطمہ(علیہا السلام) کا کوئی ھمسر نہ ھوتا، ان کو حسن(علیہ السلام) اور حسین(علیہ السلام) جیسے ہیٹے عطا کئے جن کا مثل تمام عالمین میں نہیں یہ تمام فرزندان انبیاء(علیہم السلام) اہل بھشت کے سردار ہیں-  آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جناب مقداد و عمار یاسرو سلمان فارسی ہیٹھے تھے ان سے آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: مزید بتاؤں؟
 انھوں نے کھا: جی ھاں! تو آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل آئے تھے انھوں نے یہ ہیان کیا ھے کہ جب فاطمہ(علیہا السلام) سے قبر میں دو فرشتے پوچہیں گے: تمھارا پروردگار کون ھے؟ تو وہ جواب دیں گی اللہ میرا پروردگار ھے وہ سوال کریں گے: تمھارا نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کون ھے؟ تو وہ یہ جواب دیں گی: میرے پدر بزرگوار- وہ سوال کریں گے: تمھارا ولی کون ھے؟ تو وہ یہ جواب دیں گی: یہ شخص جو میری قبر کے کنارے کھڑا ھے-  کیا میں تم کو ان کی مزید فضیلت بتاؤ ں؟ یاد رکھو خدا نے ان پر فرشتو ں کی ایک جماعت کو معین کیا ھے جو آگے پیچھے،دائیں بائیں ھر طرف سے ان کی حفاظت کرتی ھے یہ سب زندگی میں ان کے روبرو حاضر ہیں اور وہ ان کی وفات کے وقت بھی اور قبر میں بھی ان کے ساتھ رہیں گے-  اوروہ جماعت ان کے والد، شوہر  اور ان کی اولاد پر مسلسل درود بھیجتی رہتی ھے چنانچہ میری وفات کے بعد جو بھی میری زیارت کرے اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی ھے اور جس نے فاطمہ(علیہا السلام) کی زیارت کی اس نے گویا میری زیارت کی ھے جس نے علی(علیہ السلام) کی زیارت کی اس نے گویا فاطمہ(علیہم السلام) کی زیارت کی جس نے حسن(علیہ السلام) اور حسین(علیہ السلام) کی زیارت کی اس نے گویا علی(علیہ السلام) کی زیارت کی اور جس نے ان کی ذریت کی زیارت کی اس نے گویا ان دونوں کی زیارت کی ھے-
اس وقت جناب عمار یاسرنے ھار کو مشک سے معطر کیا اور اسے ایک برد یمانی میں لپیٹ دیا-  آپ کا ایک غلام تھا جس کو آپ نے خیبر سے ملنے والے آپنے حصے سے خرید ا تھا آپ نے اس سے فرمایا اس ھار کو لو اور سول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیدو اور تم بھی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملکیت ھو-
 غلام نے ھار لے کر رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا اور جناب عمار کی بات دھرائی تو حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: فاطمہ(علیہا السلام) کے پاس جاؤ اور ان کو یہ ھار دیدو اور تم بھی انہیں کی ملکیت میں ھو غلام ھار لے کر جناب فاطمہ(علیہاالسلام) کی خدمت میں حاضر ھوا
  اور آپ(سلام اللہ علیہا) کو حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گفتگو سے باخبر کیا جناب فاطمہ(علیہا السلام) نے وہ ھار لے لیا اور اس غلام کو آزاد کردیا غلام کوھنستا دیکھ کر جناب فاطمہ(علیہا السلام) نے پوچھا تم کیوں ھنس رھے ھو؟ اس نے کھا مجھ کو اس ھار کی برکت عظمیٰ سے ھنسایا ھے جس کی برکت سے ایک بھوکا شکم سیر ھوا، ایک برھنہ تن نے لباس پایا، ایک نادار مالدار ھوگیا، ایک غلام آزاد ھوگیا اور پھر یہ ھار آپنے مالک کے پاس وآپس آگیا-   

4-ایمان اور اطاعت الٰہی

خدا پر ایمان،انسان کامل کی قیمت ھے اور خدا کی اطاعت کمال کی بلندیوں تک پھونچنے کا زینہ ھے-  انبیاء(علیہم السلام) نے دار کرامت میں صدق کے مقامات حاصل کئے کیونکہ انھوں نے ایمان کے اعلیٰ ترین درجات پالئے تھے اور نیکیوں اوراللہ سبحانہ کی عبادت میں خلوص کے حصول کےلئے دنیا میں جد وجہد کی تھی-
قران کریم نے سورہ دھر میں شہزادی کونین(علیہا السلام) کے کمال اخلاص، خشیت الٰہی، خدا اور آخرت پر آپ کے اس ایمان کامل کی شھادت دی ھے جو ھر ایک کےلئے نمونہ ھے اسی طرح حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کے بارے میں یہ گواہی دی ھے:
<ان إبنتی فاطمة ملاٴ اللّه قلبها و جوارحها ايماناً الی مشاشها، ففرغت لطاعة اللّه>
” خدا نے میری ہیٹی فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا) کے دل اور اعضاء وجوارح کو ایمان سے پر کردیا ھے جس کی وجہ سے انھوں نے اطاعت الٰہی کےلئے آپنے آپ کو وقف کردیا ھے “
ایک اور جگہ آپ(علیہا السلام) کی عبادت کے بارے میں فرماتے ہیں:
<انّها متی قامت فی محرابها بين يدی ربها جل جلاله، زهر نورها لملائکة السماء کما يزهر نور الکواکب لاأهل الاٴرض “ و يقول الله عزو جل لملائکته:” يا ملائکتی، انظروا الی اٴمتی فاطمة، سيّدة امائی، قائمة بين يدی، ترتعد فرائصها من خيفتی، وقد اٴقبلت بقلبها علی عبادتی،اُشهدکم اٴنی قد آمنت شيعتها من النار>
” فاطمہ زھرا(علیہا السلام) جب محراب عبادت میں آپنے پروردگار کے سامنے کھڑی ھوتی ہیں تو ان کا نور آسمان کے فرشتوں کو اسی طرح چمکتا ھوا دکھائی دیتا ھے جس طرح زمین والوں کےلئے ستارے چمکتے دکھائی دیتے ہیں“اور خداوندعالم آپنے فرشتوں سے کہتا ھے:” میرے فرشتو! میری کنیز اور میری کنیزوں کی ملکہ و سردار  فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا) کو دیکھو جو میری بار گاہ میں کھڑی ھے اور میرے خوف سے تھر تھر کانپ رہی ھے اور دل کی مکمل توجہ کے ساتھ میری عبادت میں مشغول ھے تم سب گواہ رھنا کہ میں نے اس کے شیعوں کو آتش دوزخ سے امان دیدی ھے “  
<و قال الحسن بن علی: راٴيت امی فاطمة(سلام الله علیها ) قامت فی محرابها ليلة جمعتها،فلم تزل راکعة ساجدة حتی اتضح عمود الصبح، سمعتها تدعو للموٴمنين و الموٴمنات  و تسميهم و تکثر الدعاء لهم، و لاتدعو لنفسها بشيٴ، فقلت لها: يا اٴماه، لم لا تدعين لنفسک کما تدعين لغيرک؟ فقالت: يا بنی! الجار ثم الدار- >
”امام حسن(علیہ السلام) نے ایک بار شب جمعہ میں آپنی مادر گرامی کو محراب عبادت میں کھڑے ھوئے دیکھا آپ(سلام اللہ علیھا) مسلسل رکوع وسجود کرتی رہیں یھاں تک کہ سپیدیٴ سحر نمودار ہوگئی میں نے سنا کہ آپ(سلام اللہ علیھا) مومنین و مومنات کےلئے ان کا نام لے لے کر بہت زیادہ دعائیں کر رہی تھیں
 لیکن آپنے لئے کوئی دعا نہیں فرمائی میں نے عرض کی مادر گرامی: جس طرح آپ(سلام اللہ علیھا) دوسروں کےلئے دعا کر رہی تھیں اسی طرح آپ نے آپنے لئے کیوں دعا نہیں کی؟ تو آپ(سلام اللہ علیھا) نے فرمایا ہیٹے پہلے پڑوسی پھر گھر “  
جمعہ کے دن کی آخری گھڑیوں کو آپ(سلام اللہ علیھا) نے صرف دعا کےلئے مخصوص کر رکھا تھا اسی طرح آپ(علیہم السلام) رمضان کی آخری دس راتوں میں بالکل نہیں سوتی تھیں اور گھر میں موجود تمام افراد کو عبادت و دعا کےلئے شب ہیداری پر آمادہ کرتی تھیں-  حسن بصری نے کھا ھے: اس امت میں فاطمہ(علیہم السلام) سے زیادہ عبادت گذار کوئی نہیں ھوا آپ(علیہا السلام) اس قدر عبادت کرتی تھیں کہ پیروں پر ورم آجاتا تھا-
   آپ(علیہا السلام) نماز میں خوف خدا سے کانپتی تھیں-   حقیقت تو یہ ھے کہ جناب سیدہ(سلام اللہ علیھا) آپنی پوری حیات طیبہ میں کبھی بھی محراب عبادت سے باھر ہی نہیں نکلیں کیونکہ آپ(سلام اللہ علیھا) آپنے گھر کے اندر آپنے شوہر  کی فرمانبرداری اور اولاد کی ترہیت کی بنا پر عبادت خدا میں مصروف رہتی تھیں اور اسی طرح دوسر ی عام خدمات انجام دے کے بھی خدا کی اطاعت و عبادت ہی کرتی تھیں-  مزیدیہ کہ آپ(سلام اللہ علیہا) فقرا کی امداد بھی اطاعت و عبادت خدا کےلئے ہی کرتی تھیں اور خود زحمتیں برداشت کر کے دوسروں کے ضروریات پورے کرتی تھیں-

5-آپ(علیہا السلام) کا انداز محبت

جس طرح جناب سیدہ(علیہا السلام) نے آپنے پدر بزرگوار کا پیار پایا تھا اسی طرح آپ(علیہا السلام) بھی آپنے پدر بزرگوار کے ساتھ بہت حسن سلوک سے پیش آتی تھیں ان سے بے لوث محبت فرماتی تھیں ھمیشہ ان کو آپنے اوپر مقدم رکھا، آپ آپنے پدر بزرگوار کے گھر کا انتظام بھی سنبھالتی تھیں اوران کے آرام وسکون کا خیال رکھتی تھیں جس طرح کہ آپ (سلام اللہ علیھا) آپنے پدر گرامی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشی کے تمام وسائل فراھم کرتی تھیں مثلاً آن حضرت کے نھانے کےلئے پانی بھرنا، آپ کے، کھانے کا انتظام کرنا، کپڑے دھونا آپ کا معمول تھا حتی کہ آپ(علیہا السلام) دوسری خواتین کے ساتھ میدان جنگ میں کھانا اور پانی پھونچاتی تھیں- زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں اور ان کی مرھم پٹی کرتی تھیں-
جنگ احد میں آپ(علیہا السلام) نے حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زخموں کا اس طرح علاج کیا کہ جب دیکھا کہ خون بند نہیں ھو رھا ھے تو آپ(علیہا السلام) نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر اسے جلایا اور جب وہ جل کر بالکل راکھ ھوگیا تو اس کو زخم پر چھڑک دیا جس سے خون بند ھوگیا-  جب خندق کھودی جارہی تھی تو آپ(علیہا السلام) حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کےلئے تھوڑی سی روٹی لے کر آئیں حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا:
<فقال:ماهذه يا فاطمة؟ قالت: من قرص اختبزته لابنی، جئتک منه بهذه الکسرة-  فقال: يا بنية، اٴما اٴنّها لاٴول طعامٍ دخل فم اٴبيک منذ ثلاثة اٴيّام >
”فاطمہ زھرا  (علیہا السلام) یہ کیا ھے؟ آپ (سلام اللہ علیھا) نے فرمایا یہ اس روٹی کا ایک حصہ ھے جو میںنے آپنے دونوں بچوں کےلئے پکائی تھی اس میں سے آپ کےلئے اتنا حصہ بچاکر لائی ھوں اس وقت حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہیٹی: تمھارا بآپ تین دن کے بعد یہ پہلا کھانا کھارھا ھے “  
اس طرح جناب سیدہ(علیہا السلام) نے شفقت اور پیار ومحبت کی ان کمیوں کو پورا کردیا جو حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کےلئے راہ خدا میں جہاد و دعوت کے سخت ترین لمحات میں آپنے والدین اور زوجہ مکرمہ جناب خدیجہ(علیہا السلام) کی وفات کے بعد پیدا ہوگئی تھیں-  اسی سے ھم کو با ر بار حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر آنے والے اس فقرہ کا مطلب سمجھ میں آجاتا ھے:

<فاطمة اٴمّ اٴبيها > ” فاطمہ(علیہا السلام) آپنے بآپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ماں ہیں “-  
حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ(علیہا السلام) کے ساتھ بالکل ماں جیسا برتاؤ کرتے تھے مثلاً آپ(علیہا السلام) کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے تھے، مدینہ وآپسی پر سب سے پہلے آپ(علیہا السلام) سے ملاقات کرنے جاتے تھے اسی طرح ھر سفر اور جنگوں پر روانہ ھوتے وقت سب سے آخر میں آپ(علیہا السلام) سے رخصت ھوتے تھے گویا آپ(علیہا السلام) اس صاف وشفاف سر چشمہٴ رحمت سے سفر کی برکتوں کا توشہ حاصل کرتے تھے اسی طرح آپ(علیہا السلام) ان کے پاس بہت زیادہ رفت وآمد فرماتے تھے اور شہزدای کونین(علیہا السلام) آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح پیش آتی تھیں جیسے ایک ماں آپنی اولاد کے ساتھ پیش اتی ھے یعنی آپ(علیہا السلام)  حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رنج ومصیبت کو کم کرتی تھیں اور آپ کی خدمت اور فرمانبرداری میں کوئی کمی نہیں کرتی تھیں-

6-آپ(علیہا السلام) کا مسلسل جہاد

جناب سیدہ(علیہا السلام) اس وقت پیدا ہوئیں جب اسلام اور جاہلیت کے درمیان بے حد سخت مقابلہ جاری تھا آپ (علیہا السلام) نے اس وقت آنکہیں کھولیں جب مسلمان بت پرستی سے بر سر پیکار تھے-  قریش نے حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام بنی ہاشم کا محاصرہ کر رکھا تھا-  جس کی بنآپر حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپنی مجاھدزوجہ اور دختر گرامی کے ساتھ  شعب اہی طالب میں چلےگئے تھے قریش کا یہ محاصرہ تین سال جاری رھا، آپ(علیہا السلام) کو ھر طرح کی محرومی اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ(علیہاالسلام) نے حق کے دفاع اور آپنے مقصد کےلئے قربانی پیش کرتے ھوئے راہ خدا میں جہاد جاری رکھا-
 محاصرہ کے یہ سال نھایت سختی اور پریشانی کے عالم میں گذرے اور بالآخر حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وھاں سے  سرخ رو ھو کر نکلے-
خدا نے اسی سال جناب خدیجہ(علیہا السلام) کو آپنی بارگاہ میں بلالیا نیز اسی سال آپ(علیہا السلام) کے چچا، اور آپ کی تبلیغ کے حامی یعنی ناصر اسلام جناب ابو طالب نے وفات پائی-  آپنے سب سے زیادہ محبوب اور عزیز افراد کو کہونے کے بعد حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شدید رنج و الم میں مبتلا ھوگئے اسی طرح جناب فاطمہ زھرا(علیہا السلام) جو ابھی شفقت مادری سے اچہی طرح سیرنہ ھو پائی تھیں کہ انہیں بھی آپنی والدہ کی جدائی کا غم برداشت کرنا پڑا اور اس طرح آپنی والدہ گرامی کو کہونے کے باوجود آپ(علیہا السلام) آپنے پدر بزرگوار کی مصیبت میں ان کی شریک ہوگئیں-  حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھمیشہ یہ چاہتے تھے کہ آپ(علیہما السلام) کو اتنا پیار دیں کہ آپ(علیہا السلام) کا تمام ترغم دور ھوجائے-
حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حامی چچا ابو طالب کی وفات کے بعد قریش نے حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ھر طرح ستانا شروع کردیا جناب سیدہ کونین(علیہا السلام) آپنے والد کی آنکھوں سے ان قریش کے مظالم کا مشاھدہ کر تی رہتی تھیں جن کو حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تاریکیوں سے نور کی طرف لانا چاہتے تھے-
جبکہ حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب سیدہ کونین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رنج و الم کو ھلکا کرنا چاہتے تھے لہٰذا آپ ان کو یہ کہہ کر  صبر دلایا کرتے تھے کہ:
<لا تبکی يا بنية؛فان اللّه مانع اٴباک و ناصره علی اٴعداء دينه و رسالته>
”ہیٹی گریہ مت کرو کیونکہ خدا تمھارے بابا کا محافظ ھے اور وہی دین و رسالت کے دشمنوں کے خلاف میری نصرت کرے گا“  
اس طرح پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپنی ہیٹی کے اندر جہاد کی سب سے اعلیٰ روح پھونک رھے تھے اور ان کے قلب کو صبر کے ساتھ کامیاہی کی امید سے مالامال کر رھے تھے-  مکہ کی گھٹن کی فضا سے آپنے پدر بزرگوار کی مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد آپ(علیہا السلام) بھی ان علی(علیہ السلام) کے ھمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئیں کہ جنھوں نے قریش کے غرور کو چکنا چور کردیا اور آپ سب مقام قبا میں حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جاملے اس سفر میں پیدل چلتے چلتے آپ (علیہا السلام) کے پیروں پر ورم آگیا تھا-
جب آپ(علیہا السلام) کے پدر بزرگوار مدینہ میں آپنی با برکت حکومت کو مضبوط کر چکے تو آپ(علیہا السلام) شادی کرنے کے بعد آپنے شوہر  حضرت علی(علیہ السلام) کے گھر منتقل ہوگئیں اور ان کے جہاد میں ان کا ہاتھ بٹایا، زندگی کی سختیوں اور راہ خدا میں جہاد کی مشکلات پر صبر کیا اس طرح آپ (سلام اللہ علیھا) ایک نئی مشترکہ زندگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کر رہی تھیں-
آپ نے حق کی نصرت اور وصیت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دفاع کرنے میں اھم کردار ادا کیا اور آپ(علیہا السلام) نے صراط مستقیم سے لوگوں کے انحراف کے خلاف آپنے شوہر  کی طرف داری کےلئے سخت ترین لمحات میں فریاد بلند کی تاکہ دنیا کو یہ بتادیں کہ علی(علیہ السلام) کی زندگی کا اندرونی محاذ مضبوط ھے اور اسے ھرگز کمزور خیال نہ کیا جائے- البتہ ھر قسم کی صور ت حال سے نپٹنے کےلئے آپ(علیہا السلام) آخری فیصلہ آپنے قائد اور آپنے امام شوہر  گرامی کے اوپر چھوڑ دیتی تھیں تاکہ وہ خود ہی حالات کے اعتبار سے مناسب قدم اٹھاسکیں-
جناب سیدہ کونین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھفتہ کے دن صبح کے وقت احد میں شھدا کی قبروں کی زیارت کےلئے تشریف لے جاتی تھیں ان کےلئے طلب رحمت اور دعائے استغفار کر تی تھیں- یہ لگن اور جاں فشانی اس بات کا پتہ دیتی ھے کہ جناب سیدہ کونین(علیہا السلام) جہاد و شھادت کو کتنی اھمیت دیتی تھیں نیز آپ(علیہا السلام) کی اس عملی زندگی کی قدر و قیمت کا بھی پتہ چلتا ھے جو جہاد سے شروع ہوئی، اسی راستہ پر رواں دواں رہی اور آخر کار آپ(علیہاالسلام) کے درجہ شھادت پر فائز ہونے کے بعد جہاد پر ہی تمام ہوئی-