حضرت زہرا علیھاالسلام کی شادی سے پہلے اپنے والدبزرگوار کے زیر سایہ

۱- مدینہ کی طرف ہجرت-

بعثت کے تیرھویں سال پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ا پنی جان کی حفاظت اور آپنی تبلیغ کی بقاء کےلئے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور حضرت علی بن اہی طالب کو یہ حکم دیا کہ شب ہجرت آپ کے بستر پر لیٹ جائیںجس سے مشرکین کچھ سمجھ نہ سکیں وہ ان ہی کی طرف لگے ر ہ ہیں، آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کو اور بھی کئی حکم دئے تھے جن میں سے کچھ یہ تھے: جب وہ کسی قابل اطمینان جگہ پھنچ جائیں گے تو انہیں آپنے فواطم اور غیر فواطم تمام گھر والوں کے ساتھ بلانے کےلئے کسی کو ان کے پاس بھیجیں گے اور آپ کے پاس لوگوں کی جو امانتیں رکھی ہوئی ہیں وہ سب صاحبان امانت تک پھنچادیں یا آپ کے اوپر جن لوگوں کا قرض ھےا سے اداکردیں-
چنانچہ جب آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)قباء کے علاقہ میں پھنچے جو مدینہ سے صرف چندمیل کے فاصلہ پر ھے-
اور آپ وھاںقیام پذیرھوگئے توآپ نے اہی واقدلیثی کے ذریعہ حضرت علی(علیہ السلام)کو ایک خط بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ تمام امامنتیں وآپس کرکے تمام ہی ہیوں(فواطم) کوآپنے ساتھ یھاں لے آئیں چنانچہ حضرت علی(علیہ السلام) نے اسی وقت سے تیاری شرو ع کردی اور مکہ کی طرف ہجرت کرنے کےلئے سواریاں اور ضروری وسائل خرید لئے اور آپ کے ساتھ جو کمزور مؤمنین تھے انہیں یہ حکم دیا کہ جب چاروں طرف رات کا اندہیر اچھا جائے تو ھر ایک دبے قدموں اور خاموشی کے ساتھ و ادئ ذی طُوی میں پھنچ جائے-
جب آپ نے سب لوگوں کی امانتیں ان تک پھنچا دیں توآپ نے کعبہ کے اوپر چڑھ کر بلند آواز سے یہ اعلان کیا:
<يا اٴيّها الناس!هل من صاحب اٴمانة؟هل من صاحب وصية؟هل من عدّة له قِبل رسول الله؟ فلمّالم يات اٴحد لحق بالنبي>-
اے لوگو کیا کسی کی کوئی امانت ھے یا کسی کی کوئی وصیت ھے یا رسول الله کے اوپر کسی کاکچھ مطالبہ باقی ھے؟ چنانچہ جب کوئی بھی نہ آیا تو آپ رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت  میں پھنچ گئے-
حضرت علی(علیہ السلام)فواطم( یعنی جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا)، آپنی والدہ فاطمہ بنت اسد، فاطمہ بنت زہیر بن عبد المطلب، فاطمہ بنت حمزہ بن عبد المطلب) کو آپنے ساتھ لیکر دن کے اجالے میں آشکارا طور پر مدینہ کی طرف روانہ ھوگئے اور آپ کے ساتھ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی پرورش کرنے والی اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خادمہ بابر کة امّ ایمن اور ان کے ہیٹے بھی تھے اور اسی کاروان کے ساتھ رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روانہ کردہ ایلچی ابو واقد لیثی بھی وآپس لوٹے جو قافلہ کی ساربانی کررھے تھے، تو ایک بارانھوں نے اونٹوں کو تیز دوڑانا شروع کردیا تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:<ارفق بالنسوة يا اٴبا واقد، انّهن ضعاف >؛ اے ابو واقد عورتوں کا خیال رکھو یہ کمزور ہیں تو انھوں نے کھا مجھے ڈرھے کہ کہیں ھمیں پکڑ نے والے نہ پھنچ جائیں!
تو حضرت علی(علیہ السلام) نے فرمایا: <اٴربع عليک، فانّ رسول الله(صلی اللّه عليه وآله وسلم) قال لی: يا علي لن يصلوا من الآن اليک باٴمرٍ تکرهه>؛مجھ سے رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تھا کہ وہ تم سے کوئی ایسی بات نہیں کرسکتے جو تمہیں ناگوار ھو پھر حضرت علی(علیہ السلام) ان لوگوں کو آھستہ آھستہ لے کرچلنے لگے اور اس وقت آپ کی زبان پر یہ رجز جاری تھا:

و ليس الا الله فارفع ضنّکا
يکفيک ربّ الناس ما أهمّکما

الله کے علاوہ کوئی نہیں لہذا آپنی کمزوری کو دور کردو،،رب الناس، تمھارے ھر اھم کام میں تمھارے لئے کافی ھے-
آپ اسی طرح چلتے رھے مگر جب آپ ”ضجنان،، نامی جگہ کے قریب پھنچے تو قریش کے سات بھادر گھڑ سوار چھروں پر نقاب ڈالے ھوئے آپ کو پکڑنے کےلئے پھنچ گئے ان کے ساتھ آٹھواں آدمی حارث بن امیہ کا غلام جناح تھاجوبہت نامور بھادر تھا، تو حضرت علی(علیہ السلام) جناب ام ا یمن اور واقد کے پاس آئے،اس وقت ان سب لوگوں کی نظریں آپ کی طرف تھیں، آپ نے ان دونوں سے کھا:”انيخا الابل و اعقلاها“اونٹوں کو بٹھا کر باند ھ دو آپ آگے بڑھ گئے یھاں تک کہ خواتین سوار یوں سے اتر گئیں اتنی دیر میں وہ لوگ قریب آگئے تو حضرت علی(علیہ السلام) آپنی تلوار کہینچتے ھوئے ان کی طرف بڑھے ان لوگوں نے آپ کے نزدیک آکر کھا: تمھارا یہ خیال ھے کہ تم عورتوں کے ساتھ جان بچاکر نکل جاؤگے، وآپس چلوآپ نے کھا: اگر میں ایسانہ کروں؟ وہ بولے، تم ذلّت کے ساتھ پلٹائے جاؤگے یا ھم تمھارا سر آپنے ساتھ لے کرپلٹیں گے، اتنے میں وہ سارے گھڑ سوار عورتوں اور سواریوں پر قبضہ کرنے کےلئے ان کی طرف لپکے تو حضرت علی علیہ السلام ان کے درمیان میں حائل ھوئے توجناح نے آپ کے اوپر آپنی تلوار سے وار کردیا
آپ پھرتی کے ساتھ اس کے وارسے بچ گئے اور پھرآپ نے بڑی ہی ھوشیاری سے اس کے کندھے پروار کردیا کہ آپ کی تلواراس کے سر کو پھاڑ کر گھوڑے کی پیٹھ کو چھوتی ہوئی نکل گئی اور آپ نے ان پر تلوارکے حملے اورشدید کردئے تو وہ سب کے سب آپ کے پاس سے تتربتر ھوگئے اور کھنے لگے:اے ابو طالب کے فرزند تم ھمارے ہاتھوں سے بچ گئے!
 تو آپ نے فرمایا:<فانی منطلق الٰی ابن عمّی رسول الله(صلی اللّه عليه وآله وسلم) فمن سرّہ اٴن اٴفری لحمه و اٴُهيق دمه فليتبعنی>؛میں تو آپنے ابن عم، رسول الله کے پاس جارھاھوں چنانچہ جو میرے ہاتھوں مرناچاہتاھو یا آپنا خون بھانا چاہتاھو وہ میرا پیچھا کرے، مگر وہ سب کے سب ذلت و خواری کے ساتھ گردن  جھکا ے ھوئے وآپس چلےگئے-  
پھر حضرت علی(علیہ السلام)جناب ایمن اور واقد کے پاس آئے اور آپ نے فرمایا:”آپنی سواریوں کو آگے بڑھاؤ،،پھر آپ فاتحانہ انداز میں سواریوں کے ساتھ روانہ ھوگئے یھاں تک کہ ”ضجنان،، کی منزل پر پھنچ گئے اور وھاں جاکر پورے ایک دن اور رات بھر آرام کیا وھاںھر کمزور مسلمان بھی آپ کے ساتھ آملے رات بھران لوگوں نے نمازیں پڑہیں اور اٹھتے ہیٹھتے اور لیٹتے ھوئے ذکر خدا کرتے رھے ان کی یہ صورت حال اسی طرح جاری رہی یھاں تک کہ صبح نمودار ہوگئی حضرت علی(علیہ السلام) نے ان کے ساتھ نماز صبح پڑہی پھر آپنی منزل کی طرف چل پڑے یھاں تک کہ منزل قبا( جو مدینہ سے قریب ھے) تک پھنچ گئے اور رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جاملے جو بہت شدت سے آپ لوگوں کا انتظار کررھے تھے ، ان لوگوں کے پھنچنے سے پہلے ہی رسول الله کے اوپر وحی کی شکل میں آنحضرت کے شایان شان قرآن مجید کی یہ آیتیں نازل ہوئیں:
<الذين يذکرون الله قياماً و قعوداً و علٰی جنوبهم--->
نبی کریم پندرہ دن تک ان لوگوں کے انتظار میں قبا کی منزل پر رکے رھے تھے اس مدت کے اندر آپ نے مسجد قبا تعمیر کردی جس کے بارے میں الله تعالی نے قرآن مجید کی یہ آیتیں نازل فرمائیں <لمسجد اُسس علی التقویٰ من اٴول يوم اٴحقّ اٴن تقوم فيه>
 نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مسجد میں نماز پڑھنے اور اسے آباد رکھنے کی ترغیب دلائی اور اس میں نماز پڑھنے والے کےلئے عظیم ثواب کا تذکرہ فرمایا-جب قافلہ والے آرام کر چکے تو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپنے تمام ساتھیوں اور گھر والوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ھوئے مدینہ کے مسلمانوں نے اشعار، ترانوں اورنعروں کے ساتھ آپ کا شاندار استقبال کیا اوس و خزرج کے قہیلوں کے سر داروں اور بڑے لوگوں نے آپ کو کھلے دل کے ساتھ خو ش آمدید کھا اور آپنا تمام مالی اور فوجی سرمایہ آپ کی خدمت میں پیش کردیا آپ جس قہیلہ سے بھی گذرتے تھے اس قہیلہ کے سردار اس امید میں آگے بڑھ کرآپ کے ناقہ کی مھار تھام لیتے تھے کہ شاید آپ انہیں کے یھاں نزول اجلال فرمائیں اورانہیںآپنی ضیافت کے شرف سے نوازدیں آپ ان کےلئے دعائے خیرکرکے ا ن سے یہ فرماتے تھے کہ: <دعوا الناقة تسير فانّها ماٴمورة > اس ناقہ کو چھوڑدوتاکہ یہ خود چلتا رھے کیونکہ یہ خدا کی طرف سے مامور ھے-
پھر آپ کا ناقہ جناب ابو ایوب انصاری کے گھر کے پاس ایک کھلی جگہ پر جاکر ہیٹھ گیاآپ عماری سے نیچے تشریف لائے اور آپ کے ساتھ جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا) اور دوسری ہی ہیاں بھی اتر آئیں اور جناب    ام خالد (جناب ابو ایوب انصاری کی والدہ) کے پاس قیام پذیر ہوگئیں جناب فاطمہ(علیہا السلام) آپنے والد گرامی کے ھمراہ سات مہینے یعنی جب تک مسجد نبوی تیار نہ ہوگئی اور اس کے پاس رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کا سادہ ساگھر تیار نہ ھوگیا اسی گھر میں رہیں جسمیں چند حجرے پتھروں کے تھے اور چند حجرے کھجور کی شاخوں سے نبے ھوئے تھے جن کی اونچائی کی وضاحت امام حسن(علیہ السلام) نے ان الفاظ میں فرمائی ھے:<کنت اٴدخل بيوت النبي(صلی اللّه عليه وآله وسلم) و اٴنا غلام مراهق فاٴنال السقف بيدی >-
جب میں بالکل نو عمر تھا تو پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجروں میں داخل ہونے کے بعد میرا ہاتھ چھت تک پھنچ جاتاتھا----
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپنے گھر کےلئے جو سامان مہیا فرمایا وہ بھی نھایت سادہ اور متواضعانہ تھا، آپ نے آپنے لئے لکڑی کا ایک تخت بنوایا جو کھجور کی لکڑی کا بنا ھوا تھا، جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا) بھی دنیا ئے اسلام کے اسی سادہ اور متواضعانہ دار ہجرت اور نبوت کے گھر میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عنایتوں، اور محبتوںسے بھرہ مند ھو تی تھیں،یقینا یہ ایسی عنایت و محبت جو دنیامیں آپ کے علاوہ کسی اور دوسری عورت کو      نصیب نہ ھوسکی-
مکہ سے ہجرت کر نے کے بعد جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا) اسی گھر میں قیام پذیر ہوئیں تاکہ آپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکہیں کہ آپ کے والد گرامی کو مھاجرین اور انصار مدینہ ایک ہیش قیمت موتی کی طرح آپنے گہیرے میں لئے ھوتے ہیں اور آپ کےلئے جان کی قربانی تک دینے کےلئے تیارہیں اور آپ قہیلہ اوس و خزرج کے تازہ دم مسلمانوں کے ہیچ میں نھایت سکون واطمینان سے رہ رھے ہیں آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مھاجرین اور مدینہ کے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ کی بنیاد ڈالی تاکہ ان کے دل سے وطن کی غربت کا احساس اور خوف نکل جائے اور وہ اس اتحادکے ذریعہ مزید مستحکم اور سب کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر جمع ھوجائیں”جو خدائے وحدہ لا شریک پر ایمان ھے“البتہ آپ نے آپنے لئے حضرت علی(علیہ السلام) کو بچاکر رکھا تھااس وقت آپ کے اردگرد انصار و مھاجرین کا اچھا خاصا مجمع تھا چنانچہ ان سب کے درمیان آپ نے یہ ارشاد فرمایا: ”هذا اخی و وارثی من بعدی “”یہ میرا  بھائی اورمیرے بعدمیرا  وارث ھے “  حضرت علی(ع) کے سر پر نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اخوت کا سھرا بندھے ھوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ آپ کے سر پر آنحضرت کی داماد ی کا سھرا بھی بندھ گیا اور آپ آنحضرت کی ھر دل عزیز اور چہتی ہیٹی اور آپ کی پارہ قلب و جگر کے شوہر  بھی ھوگئے- 
مدینہ میں قیام پذیر ہونے کے بعد نہی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلے جناب سودہ سے شادی کی اوریہ جناب خدیجہ(سلام اللہ علیہا) کی وفات کے بعد آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی پہلی شادی تھی پھرآپ نے جناب ام سلمہ بنت     اہی امیہ سے نکاح کیا اور آپنی ہیٹی جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی دیکھ بھال اور ان کے کام کاج آپ کے حوالے کردئے- جناب ام سلمہ ہیان کرتی ہیں: رسول اللہ نے مجھ سے شادی کرنے کے بعد،آپنی ہیٹی فاطمہ (علیہا السلام) کی دیکھ بھال کا فریضہ میرے سپرد کردیا،چنانچہ میں ہی انہیںسب کچھ بتاتی اورسکھاتی تھی لیکن خدا کی قسم،وہ مجھ سے زیادہ مودب اور تمام چیزوں کے بارے میں مجھ سے زیادہ واقف کار تھیں-

 

۲-آپ(علیہم السلام) سے شادی کی کوششیں

 شہزادی کائنات حسب ونسب کے لحاظ سے آپنے دور کی تمام عورتوں سے ممتاز اور بلندتھیں کیونکہ آپ حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور جناب خدیجہ(علیہا السلام) کی ہیٹی، فضیلت و علم اور پاکیزہ صفات کی نسل طیبہ کا خلاصہ، جمال و صورت و سیرت میں آخری درجہ پر فائز، معنوی وروحانی اور انسانی کمالات کی حد آخر، نیز اعلی رفتار و گفتار اور تابندہ قسمت کی مالک تھیں-
آپ آپنی پختہ خیالی اوررشدعقلی میں آپنی کمسنی سے ہی ممتاز حیثیت کی حامل تھیں پروردگار عالم نے آپ کو عقل کامل، اعلی ذھانت و ذکاوت اور نورانی زندگی میں مکمل حسن وجمال سے نواز اتھا، آپ ھرروزآپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ خداوندعالم کی ان ہی عظیم اور ہی پایا ں نعمتوں اور عطایا کے درمیان فضائل و کمالا ت کے زینے طے کرتے ھوئے بلوغ کی منزل تک پھنچ گئیں- ابھی ہجرت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دوسرا سال شروع ھواتھا کہ مسلمانوں کو امن و امان اور سکون و اطمینان کی جھلکیاںدکھائی دینے لگیں تو اسی وجہ سے قریش کے بڑے بڑے لوگ جو سابق الاسلام ہونے کے علاوہ فضل و شرف اور مال ومنال کے اعتبارسے اعلیٰ حیثیت کے مالک تھے وہ آنحضر ت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شہزادی سے شادی کی درخواست لے کر جاتے تھے
مگر آ نحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سب کونھایت خوبصورتی سے یہ کہہ کر وآپس لوٹا دیتے تھے < انی انتظر فيها امر الله >اس بارے میں، مجھے حکم خدا کا انتظار ھے-  اور آپ ان سے اس طرح آپنامنھ پہیر لیتے تھے کہ سامنے والے کویہ احساس ھوتا تھا کہ جیسے آپ اس سے ناراض ھوں کیونکہ شہزادی کی ھمسری کےلئے رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر صرف حضرت علی(علیہ السلام)  پر ہی تھی اور آپ یہی چاہتے تھے کہ وہی شادی کا پیغام لے کر آئیں-  
بریدہ سے روایت ھے کہ جب ابوبکر جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے شادی کا پیغام لے کر آئے تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: <انھا صغیرة و انی انتظر بھا القضاء> وہ ابھی چھوٹی ہیں اور میں اس کے بارے میں ابھی الٰہی فیصلہ کا منتظر ھوںچنانچہ جب ان سے عمر کی ملاقات ہوئی توانھون نے عمر کو اطلاع دی تو عمر نے کھا: تم کو وآپس کردیا؟پھر عمر بھی آپنی درخواست لے کر پھنچے تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بھی رد کردیا- 

 

۳- حضرت علی(علیہ السلام) کا آپ سے پیغام شادی:

مولائے کائنات کے ذھن میں شہزادی دو عالم(علیہا السلام) کے ساتھ شادی کرنے کا خیال ضرور تھا مگر آپ کو اس دور کے مسلمانوں اور آپنی اقتصادی پر یشا نیوں اور فاقہ بھری زندگی کی فکر لا حق رہتی تھی، اسی لئے آپ شادی کا خیال چھوڑ کر آپنے اور مسلمانوں کے کاموں میں مصروف ھوجاتے تھے، اس وقت آپ کی عمر اکیس سال سے زیادہ ھوچکی تھی وہ وقت قریب آگیا تھا جب آپ جناب فا طمہ(علیہا السلام) سے رشتہٴ ازدواج میں منسلک ھوجائیں، ان کےلئے آپ کے علاوہ اور آپ کےلئے ان کے علاوہ کوئی کفو اور ھمسر نہیں تھا اور یہ ایسارشتہ تھا جس کو دھرایا نہیں جا سکتا تھا-
ایک دن جب حضرت علی( علیہ السلا م) آپنا کا م مکمل کرچکے تو آپنا ڈول اٹھایا اور اسے آپنے گھرلے جا کر اوپرلٹکا دیآپھرآپ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر پھنچ گئے، 
 اس وقت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب ام سلمہ کے گھر پر تھے، ابھی آپ راستہ ہی میں تھے کہ خدا کی طرف سے ایک فرشتہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ حکم لے کر نازل ھوا کہ ایک نور سے دوسرے نور،یعنی جناب فاطمہ(علیہا السلام) سے حضرت علی(علیہ السلام) کی شادی کردیں-  
حضرت علی(علیہ السلام) نے دق الباب کیا جناب ام سلمہ نے دریافت کیا کو ن ھے؟تو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا: اے ام سلمہ اٹھ کر دروازہ کھول دو اور انہیں اندر آنے کےلئے کھو یہ وہ شخص ھے جس سے الله اور اسکارسول محبت کرتے ہیں اور وہ ان دو نوں کو محبوب رکھتاھے-  تو ام سلمہ نے کھا: میرے ماںبآپ آپ پر قربان جائیں یہ کون ھے؟جس کو آپ نے ابھی دیکھابھی نہیں اور آپ اس کا تذکر ہ کرر ھے ہیں؟آپ نے فرمایا:<مه يا امّ سلمة فهذا رجل ليس بالخرق و لا بالنزق،هذا اٴخی و ابن عمّی واٴحبّ الخلق الي>-
 اے ام سلمہ! یہ میرا بھائی ابن عم، اور ساری مخلوقات میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ھے-  ام سلمہ کہتی ہیں میں اتنی جلدی میں اٹہی کہ قریب تھا کہ میں گر پڑتی-
جب میں نے دروازہ کھولاتو علی بن طالب(علیہم السلام) کوسامنے پایا،انھوں نے رسول اللہ کی خدمت میں پھنچ کر   السلام علیک یا رسو ل اللہ ورحمتہ اللہ و برکاتہ کھا تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: وعلیک السلام اے ابوالحسن، آؤہیٹھ جاؤ، تو حضرت علی(علیہ السلام) پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہیٹھ گئے اور اس طرح زمین کی طرف دیکھنے لگے جیسے انہیں کوئی کام ھو، مگر شرم و حیا کی وجہ سے اسے نہیں کہہ پارھے ہیں،
 اور وہ رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روبرو شرم و حیاء کی وجہ سے ایسے ھوگئے تھے کہ جیسے زمین میں گڑے جارھے ھوںاور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی حضرت علی(علیہ السلام) کے دل کی کیفیت کا اندازہ ھوگیا تھا لہذا آپ نے ان سے کھا:
<يا اٴبا الحسن، انّی اٴری اٴنّک اٴتيت لحاجة، فقل حاجتک و ابدِ ما فی نفسک، فکلّ حاجة لک عندی مقضية >-
اے علی(علیہ السلام) مجھے محسوس ھورھا کہ تم کسی کام سے آئے ھو، تمہیں جو کام ھو ہیان کرو اور اسے ظاھر کرو، میرے نزدیک تمھاری ھر حاجت پوری ھوگی، توحضرت علی(علیہ السلام) نے کھا:<فداک اٴہی و اُمّی انّک اٴخذتنی عن عمّک اٴهی طالب و من فاطمة بنت اٴسد و اٴنا صہی، فغذّيتنی بغذائک، و اٴدّبتنی باٴدبک، فکنتَ الي اٴفضل من اٴهی طالب و من فاطمة بنت اٴسد فی البرّ و الشفقة، و انّ الله تعالی هدانی بک و علٰی يديک، انّک و الله ذخری و ذخيرتی فی الدنيا و الآخرة يا رسول الله فقد اٴحببت مع ما شدّ الله من عضدی بک اٴن يکون لی بيت واٴن تکون لی زوجة اٴسکن اليها، و قد اٴتيتک خاطباً راغباً، اٴخطب اليک ابنتک فاطمة، فهل اٴنت مزوّجی يا رسول الله؟ >؛میرے ماں بآپ آپ پرقر بان ھوں، آپ نے آپنے چچا جناب ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد سے اس وقت مجھے گود لیا تھاجب میں، بالکل بچہ تھا آپ نے مجھے آپنے ساتھ کھا نا کھلایا، آپنے ادب کی تعلیم دی، اور آپ میرے اوپر میرے والد جناب ابوطالب(علیہ السلام) اور والدہ جناب فاطمہ بنت اسد سے زیادہ شفیق و مہربان تھے، الله تعالی نے آپ کے ذریعہ اور آپ کے ہاتھوں پر ھدایت سے سرفراز فرمایا اور آپ ہی دنیا و آخرت میں میرا سرمایہ ہیں، اے اللہ کے رسول میں ایسی شخصیت کی ھمراہی چاہتاھوں جس سے میرے ہاتھ مضبوط ھوجائیں اور اس کے ساتھ میں آپنا گھر بساسکوں، ایسی زوجہ ھوجومیری مونس بن سکے، میں آپ کی خدمت میں اسی رشتہ کی غرض سے آیا ھوں اور میں آپ کی ہیٹی فاطمہ(علیہا السلام) سے شادی کا پیغام لے کر حاضر ھواھوں،
یا رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ میری شادی کےلئے تیار ہیں؟ تو خوشی ومسرت سے رسول الله کا چھرہ کھلِ اٹھا آپ جناب فاطمہ(علیہا السلام) کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا:
” انّ علياً قدذکرکِ وهو من قد عرفت“
علی(علیہ السلام) نے تمھارا ذکر کیاھے اور تم توان کو پہچانتی ہی ھو،؟؟توجناب فاطمہ زھرا(علیہاالسلام) خاموش رہیں تو آپ نے فرمایا: <الله اٴکبر، سکوتها رضاها> اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ھے پھر آپ وھاں سے باھر آئے اور اسکے بعد ان کی شادی کردی-
جناب ام سلمہ کہتی ہیں میںنے دیکھاکہ رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چھرہ خوشی و مسرت سے کھلِ گیا پھر آپ نے حضرت علی(علیہ السلام) کی طرف مسکر اکران سے کھا:<يا علي فهل معک شيء اٴزوّجک به؟>
اے علی تمھارے پاس کوئی چیزھے جس کے ذریعہ میں تمھاری شادی کردوں؟ تو حضرت علی(علیہ السلام) نے کھا:
”فقال علي:فداک اٴهی و اُمّی، و الله ما يخفٰی عليک من اٴمری شيء، اٴملک الاسيفی و درعی و ناضحی، و ما اٴملک شيئاً غيرهذا“
میرے ماں بآپ آپ پر قربان جائیں، میرے حالات آپ سے بالکل مخفی نہیں ہیں میرے پاس کل سرمایہ میری یہ تلوار، زرہ اور یہ ایک ڈول ھے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ھے تو رسول الله نے فرمایا:<يا علي اٴمّا سيفک فلا غنٰی بک عنه، تجاهد فی سبيل الله، و تقاتل به اٴعداء الله، و ناضحک تنضح به علی نخلک و أهلک، و تحمل عليه رحلک فی سفرک  و لکنی قد زوّجتک بالدرع و رضيت بها منک >
اے علی! تلوار کے بغیر تو تمھارے لئے کوئی چارہ نہیں ھے اس سے تم راہ خدا میں جہاد کرتے ھو  اور دشمنان خدا کو قتل کرتے ھو، اور ڈول سے کھجوروںکو سینچنے اور گھر والوں کےلئے پانی کہیچتے ھواور سفر میں اسے آپنی سواری (آپنے مرکب) پر آپنے ساتھ لے کرچلتے ھو،
 لیکن میں زرہ کے بدلے تمھاری شادی کردیتا ھوں اور میں تم سے یہی قبول کرنے کےلئے تیارھوں <يا اٴبا الحسن، اٴاٴبشّرک؟! >، اے علی(علیہ السلام) تمہیں مبارک ھو حضرت علی کہتے ہیںمیں نے کھا:
 <قال علي قلت:((نعم فداک اٴہی و اُمّی بشّرنی، فاٴنّک لم تزل ميمون النقيبة، مبارک الطائر، رشيد الاٴمر، صلّی الله عليک >-
جی ھاں: میرے ماں باب آپ پر قربان ھوں، مجھے خوشخبری سنائیں کہ ہیشک آپ ھمیشہ سے مبارک ہیں تو رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
فقال رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم): <اُبشّرک يا علي فاٴنّ الله -عزوجل - قد زوّجكها فی السماء من قبل اٴن اٴزوّجكها فی الاٴرض، و لقدهبط علي فی موضعی من قبل اٴن تاٴتي---ينی ملک من السماء فقال: يا محمد! انّ الله - عزوجل - اطلع الی الاٴرض اطلاعة فاٴختارک من خلقه فبعثک برسالته، ثم اطلع الی الاٴرض ثانية فاختار لک منها اٴخاً و وزيراً و صاحباً و ختناً فزوّجه ابنتک فاطمة(سلام اللّه عليها)، و قد احتفلت بذلک ملائکة السماء، يا محمد! ان الله - عزوجل - اٴمرنی اٴن آمرک اٴن تزوّج عليّاً فی الاٴرض فاطمة، و تبشّرهما بغلامين زکيين نجيبين طاهرين خييرين فاضلين فی الدنيا و الآخرة، يا علي! فو الله ما عرج الملک من عندی حتٰی دققتَ الباب >-
اے علی(علیہ السلام)! میں تمہیں یہ خوشخبری دیتاھوں کہ اس سے پہلے کہ میں زمین پر فاطمہ(علیہم السلام) کا نکاح تم سے کرتا خداوندعالم نے آسمان پر ان کا نکاح تمھارے ساتھ کردیا ھے اور تمھارے یھاں پھنچنے سے پہلے اس جگہ آسمان سے ایک فرشتہ نازل ھو اتھا اور اس نے یہ کھاھے: اے محمد! الله تعالی نے زمین کے اوپر ایک نظر کی تو تمام مخلوقات کے درمیان سے آپ کو منتخب فرمایا اور پھر آپ کو آپنی رسالت کے ساتھ مبعوث کیا، اس نے زمین پر دوبارہ نظر کی تو آپ کےلئے بھائی، وزیر اور ساتھی کو منتخب فرمایا ھے لہذا آپ ساتھ آپنی ہیٹی فاطمہ(علیہا السلام) کی شادی کردیں، اس کی وجہ سے ملائکہ نے جشن منایا ھے،
اے محمد! الله تعالیٰ عزّوجل نے مجھے یہ حکم دیاھے کہ میں آپ کو یہ حکم دوں کہ آپ زمین پر علی(علیہ السلام) سے فاطمہ(علیہا السلام) کی شادی کردیں اور ان دونوں کو زکی، نجیب، طاھر نیک اور دنیا و آخرت میں صاحب فضیلت دو ہیٹوں کی مبارک بادبھی پیش کردیں، اے علی! خدا کی قسم وہ فرشتہ ابھی میرے پاس سے وآپس نہیں جانے پایاتھا کہ تم نے میرا دروازہ کھٹکھٹادیا

 

۴- آسمان سے آپ(علیہم السلام) کی شادی کا حکم:

ابن اہی الحدید کا ہیان ھے: پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب فاطمہ(علیہا السلام) کے ساتھ حضرت علی(علیہ السلام) کی شادی نہیں کی مگر یہ کہ اس سے پہلے الله تعالی نے آسمان پر فرشتوں کے درمیان ان کی شادی کردی جابر بن عبدالله انصاری سے روایت ھے: جب رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب فاطمہ(علیہا السلام) کی شادی حضرت علی(علیہ السلام) سے کی تھی، تو اس سے پہلے ہی  خداوندعالم نے عرش کے اوپر ان کی شادی کردی تھی-
امام محمد باقر(علیہم السلام) نے فرمایاھے:قال:رسول الله( ص)<انّمااٴنا بشر مثلکم، اٴتزوج فيکم واٴزوّجکم الّا فاطمة،فانّ تزويجها نزل من السماء >؛ رسول الله نے فرمایا: میں تمھاری طرح ایک بشرھوں تمھارے درمیان اور تم سے شادی کرتاھوں، البتہ فاطمہ(علیہا السلام) کے علاوہ کیونکہ ان کی شادی(کا حکم) آسمان سے نازل ھوا ھے-

 

۵- خطبہٴ عقد:

انس کا ہیان ھے: میں نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہیٹھا ھواتھا کہ آپ کے اوپر وحی نازل ہونے لگی جب آپ کو افاقہ ھوا تو آپ نے فرمایا:

<یا اٴنس! تدری ما جاء نی به جبر ئیل من صاحب العرش؟ انّ الله تعالی اٴمر نی اٴن اٴزوج فاطمة عليّا انطلق فادع لی المهاجرين والاٴ نصار
اے انس! کیا تمہیں معلوم ھے کہ صاحب عرش کی طرف سے جبرئیل میرے پاس کیا پیغام لے کر آئے تھے؟-  میں نے عرض کی: الله اور اس کارسول زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا: اللهتعالی نے مجھے یہ حکم دیاھے کہ فاطمہ(علیہا السلام) کی شادی علی(علیہ السلام) سے کردوں، جاؤ اورمیرے پاس مھاجرین و انصار کوبلالاؤ،انس کہتے ہیں: میں ان کو بلا لا یا جب سب لو گ آپنی آپنی جگہ آرام سے ہیٹھ گئے تو نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا: <الحمد لله المحمود بنعمته، المعبود بقدرته، المطاع بسلطانه، المرغوب اليه فيما عندہ،المرهوب عذابه،  النافذ اٴمره فی اٴرضه وسمائه، الذی خلق الخلق بقدرته، وميّزهم باٴحکامه، واٴعزّهم بدينه،  واٴکرمهم بنبيّه محمد، ثم انّ الله تعالی جعل المصاهرة  نسباً وصهراً، فاٴمرالله يجری ا لی قضائه، وقضاؤہ يجری الی قدرہ فلکلّ قدر اٴجل ولکل اٴجل کتاب(( يمحوالله مايشاء ويثبت وعندہ اُمّ الکتاب)) ثمّ انّ الله اٴمرنی اٴن اٴزوّج فاطمة بعلي، فاُشهدکم اٴنّی قد زوّجته علٰی اٴربعماٴئة مثقال من فضة ان رضی بذلک علي >؛حمد ھے اس الله کےلئے جو آپنی نعمت کی بنآپر محمود ھے، آپنی قدرت کی بنآپر معبود، آپنے تسلط کی وجہ سے مورداطاعت،جو کچھ اس کے پاس ھے قابل رغبت ھے،اس کا حکم اس کی زمین اور اس کے آسمان پر نافذ ھے، اس نے مخلوقات کو آپنی قدرت سے خلق فرمایا، آپنے احکام کے ذریعہ ان کے درمیان امتیاز پیدا کیا، آپنے دین کے ذریعہ انہیں عزت بخشی، آپنے نہی محمد کے ذریعہ انہیں شرف بخشا، پھر    خداوندعالم نے ایک دوسرے سے شادی ہیاہ کو نسب اورداما دی(رشتہ داری) کا وسیلہ قرار دیا تو خداوندعالم کا حکم اس کی قضا تک جاری رہتاھے اور اس کی قضا اس کی قدر(تقدیر) تک باقی رہتی ھے، چنانچہ ھر تقدیر کی ایک مدت ھے اور ھر مدت کےلئے ایک کتاب ھے الله جسے چاہتاھے محو کردیتاھے یا باقی رکھتاھے اور اس کے پاس   ام الکتاب(اصل کتاب) ھے، چنانچہ مجھے الله تعالیٰ نے یہ حکم دیاھے

کہ میں فاطمہ(علیہا السلام) کی شادی علی(علیہ السلام) سے کردوں، آپ لوگ گواہ رہئے گا کہ میں نے ان کی شادی چارسو مثقال چاندی کے عوض کردی ھے اگر علی اس پر راضی ھوں؟
اس وقت حضرت علی(علیہ السلام) وھاں موجود نہیں تھے ان کوپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کام سے بھیج ر کھا تھا پھر رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک طبق(سینی) منگوائی جس میں نآپختہ کھجوریں تھیں اور اسے ھمارے سامنے رکھ دیا پھر فرمایا: نوش فرما ئیں ابھی ھم انہیں اٹھا ہی رھے تھے کہ اتنے میںحضرت علی(علیہ السلام) آگئے تو رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  مسکرائے اور فرمایا:
<يا علي! انّ الله اٴمر نی اٴن اٴزوّجک فاطمة، فقد زوّجتكها علٰی اٴر بعمائة مثقال فضة ان رضيت>
”اے علی(علیہ السلام)!الله تعالی نے مجھے تمھارے ساتھ فاطمہ(علیہا السلام) کی شادی کرنے کا حکم دیا ھے اور میں نے چارسو مثقال چاندی کے مہر پر ان سے تمھاری شادی کردی ھے تم اس سے راضی ھو حضرت علی(علیہ السلام) نے کھا: ”قد رضیت رسول الله“”اے اللہ کے رسول میں راضی ھوں،، پھر حضرت علی(علیہ السلام) سجدہ میں گر پڑے اور الله تعالی کا شکر ادا کیا اور یہ کھا:<الحمد لله الذی حبّبنی الٰی خير البرية محمد رسول الله>
حمد ھے اس اللهکےلئے جس نے مجھے خیر البریہ اور رسول خدا حضرت محمد مصطفی کا محبوب قرار دیا، پھر رسول الله نے فرمایا:<بارک الله عليکما، وبارک فيکما واٴسعدکما، واٴخرج منکما الکثير الطيب >- الله تعالی تم دونوںکو برکت عطا کرے اور تمہیں سعید قرار دے اور تم سے کثیر اور پاک و پاکیزہ نسل جاری فرمائے-    
انس کہتے ہیں: خدا کی قسم کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں سے کثیر اور پاکیزہ نسل جاری فرمائی-  

۶-آپ(علیہہ السلام) کا مہر اور جہیز

حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عثمان کو چار سو درھم میں آپنی ذرہ فروخت کی اور مہر کی پوری رقم جو چار سوسیاہ درھموں پر مشتمل تھی لاکر رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی خدمت میں پیش کردی( البتہ بحار الانوار کی روایت کے مطابق یہ رقم پانچ سو درھم تھی-
 مترجم)رسول اکرم(علیہ السلام) نے آپ سے یہ رقم لے کر آپنے بعض اصحاب اور ازواج کو دے دی تاکہ وہ اس سے اس نئے گھر کےلئے ضرورت کا سامان خرید لائیں، چنانچہ جو مختصر سا جہیز تیار ھوا اس کی تفصیل یہ ھے- 

۱-سفید پیراھن سات درھم کا،۲-ایک چادر چار درھم کی، ۳- ایک خیبری سیاہ حلّہ،۴- ایک تخت کناروں والا،۵-دو عدد توشک مصری کپڑے کے،ایک کے چاشے کھال کی اور دوسرے کے اون کے تھے، ۶-طائف کے چمڑے کے چار تکیے جن کے حاشیے ادخر کے تھے، ۷-اونی پردہ، ۸-ایک چٹائی، ۹-ہاتھ کی چکی، ۱۰-چمڑے کا پیالہ،۱۱- کپڑے دہونے کا برتن، ۱۲-کاسہٴ شیر،۱۳-پانی رکھنے کا ٹب، ۱۴- ایک افتابہ(لوٹا)، ۱۵-سبز رنگ کا مٹکا، ۱۶-دو مٹی کے پیالے،۱۷-چمڑے کا مصلّا،۱۸-ایک عبا قطرانی، ۱۹- پانی کی مشک-
ان لوگوں کا ہیان ھے:ھم جہیز کا سب سامان لے کر آئے تو اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھ دیا، جب آپ نے اسے دیکھا تو آپ رو دئے اور آپ کے آنسو جاری ھوگئے پھر آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر یہ دعا فرمائی ” اللّهم بارک لقوم جل آنيتهم الخزف“
” بار الٰھا!اس قوم کےلئے برکت عطا فرما جن کے اکثر برتن مٹی کے ہیں “-
ادھر حضرت علی علیہ السلام نے آپنا گھردرست کیا، کمرے کے اندر باریک ریت کا فرش بنایا کپڑے لٹکانے کےلئے ایک دیوار سے دوسری دیوار کے درمیان ایک باریک سی لکڑی نصب کردی اور زمین پر ایک گوسفند کی کھال نیز کھجور کی چھال سے بھرا ھوا ایک توشک بچھا دیا-  
ابن یزید مدنی سے منقول ھے کہ جب حضرت علی(علیہ السلام) سے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شادی ہوئی تو اس وقت آپ کے پاس ریت کا فرش، ایک تکیہ، ایک ڈول اور ایک کوزہ تھا-  

 

۷-شادی اور ولیمہ کی تیاری

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”ومکثت بعد ذالک شهراً لا اُعاود رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم)فی فاطمة بشيء استحياءً من رسول الله(صلی اللّه عليه وآله وسلم) غير اٴنّی کنت اذا خلوت برسول الله(صلی اللّه عليه وآله وسلم) يقول لی:((ياعلی ما اٴحسن زوجتک واٴجلها اٴبشر ياعلي فقد زوّجتک سيّدة نساء العالمين)) فقال علي(عليهم السلام):((فلمّا کان بعد شهر دخل علي اٴخی عقيل فقال: يا اٴخی ما فرحت بشيء کفرحی بتزوجک فاطمة بنت محمد(صلی اللّه علیہ وآله وسلم)،يااٴخی فما بالک لا تساٴل  رسول الله(صلی اللّه عليه وآله وسلم) يدخل ها عليک؟ فتقرّ عينا باجتماع شملکما“شرم و حیا کی وجہ سے ایک مہینہ تک میں رسول اللہ سے فاطمہ(س) کے بارے میں کوئی بات نہ کرسکا، البتہ جب کبھی میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تنھا ھوتا تھا تو آپ مجھ سے یہ فرماتے تھے: اے علی! تمہیں مبارک ھو، میں نے عالمین کی عورتوں کی سردار خاتون سے تمھاری شادی کی ھے- پھر اس کے بعد حضرت علی(علیہ السلام) کہتے ہیں: جب ایک مہینہ گذر گیا تو میرے بڑے بھائی جناب عقیل میرے پاس آئے اور کھنے لگے اے بھائی مجھے کسی بات کی اتنی خوشی نہیں ھے جتنی فاطمہ(س) سے تمھاری شادی کی خوشی ھے-

 اے بھائی تم رسول اللہ سے ان کی رخصتی کی بات کیوں نہیں کرتے ھو؟تاکہ تمھاری شادی خانہ آبادی سے ھماری آنکھوں کو بھی ٹھنڈک نصیب ھوسکے “-
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ”و الله يا اٴخی انّی لاُحبّ ذلک وما يمنعنی من مساٴلته الّا الحياء منه “خدا کی قسم!اے بھائی میں بھی یہی چاہتا ھوں لیکن میرے لئے حیاء مانع ھے “ تو انھوں نے کھا تمہیں قسم ھے تم ابھی میرے ساتھ چلو جب ھم اٹھ کر رسول اللہ صلی علیہ اللہ و آلہ وسلم کی خدمت میںجانے لگے تو راستہ میں ام ایمن( رسول اللہ کی کنیز)سے ملاقات ہوگئی، ھم نے ان سے اس کا تذکرہ کیا، وہ بولیں آپ لوگ رھنے دیں،
 اور اسے ھمارے اوپر چھوڑ دیں ھم خود رسول اللہ سے بات کرلیں گے، کیونکہ ان معاملات میں عورتوں کی باتوں کا مردوں کے دل پر زیادہ اچھا اثر ھوتا ھے-  
 وہ وہیں سے وآپس لوٹ گئیں اور جناب ام سلمہۻ کے پاس پھنچیں اور انہیں باخبر کیا اور دوسری ازواج کو بھی مطلع کردیا-  چنانچہ وہ سب رسول اللہ کے پاس جمع ہوگئیں اور آپ کی طرف امید بھری نگاہیں ڈالیں-  چونکہ عام طور سے(ام المومنین)ام سلمہ ہی بات کیا کرتی تھیں- انھوں نے سب کی ترجمانی کرتے ھوئے عرض کی ھمارے ماں بآپ آپ پر قربان، اے اللہ کے رسول ھم اس وقت آپ کی خدمت میں ایسے کام کےلئے حاضر ہوئی ہیں کہ اگر اس وقت خدیجہ زندہ ھوتیں تو اس سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ھوتی، جناب ام سلمہ کہتی ہیں کہ جب ھم نے جناب خدیجہ کا نام لیا تو رسول اللہ کی انکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے فرمایا:
”خديجة واٴين مثل خديجة؟ صدقتنی حينما کذّبنی الناس ووازرتنی علٰی دين الله واٴعانتنی عليه بمالها “-
 خدیجہ؟ خدیجہ کے برابر کون ھوسکتا ھے؟ انھوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رھے تھے اور انھوں نے دین خدا میں میرا بوجھ بٹایا اور آپنے مال سے اس کےلئے میری مدد کی-
ام سلمہ کہتی ہیں: ھم نے عرض کی ھمارے ماں بآپ آپ پر قربان ھوںآپ خدیجہ کا جس طرح تذکرہ کرتے ہیں واقعاً وہ ایسی ہی تھیں، بھر حال اب وہ اللہ کو پیاری ھوچکی ہیں،
 خدا اسے ان کےلئے مبارک قرار دے اور ھمیں ان کے ساتھ آپنی جنت میں آپنی رضوان(مرضی)اور رحمت کے زیر سایہ ایک ساتھ جمع کرے، دین میں آپ کے بھائی، خاندانی اعتبار سے آپ کے چچا کے ہیٹے علی بن اہی طالب(علیہ السلام)کی یہ خواھش ھے کہ وہ فاطمہ زھر(س) اکو رخصت کرکے آپنے گھر لے جائیں تاکہ ان کے ساتھ مل کر آپنا گھر بسا سکیں تو آپ نے فرمایا: ”یاام سلمة فما بال علیّ لا یساٴلنی ذلک؟“ اے ام سلمہ کیا وجہ ھے کہ علی(علیہ السلام) نے مجھ سے یہ تذکرہ نہیں کیا؟
تو میں نے عرض کی: اے رسول اللہ! انہیں آپ سے حیاء آتی ھے ام ایمن کہتی ہیں کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے کھا: علی(علیہ السلام) کے پاس جاوٴ اور ان کو میرے پاس بلاکر لاوٴ میں رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پاس سے باھر آئی تو جیسے علی(علیہ السلام) میرا انتظار کر رھے تھے تاکہ وہ مجھ سے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا جواب معلوم کرسکیں، جب انھوں نے دیکھا تو پوچھا: اے ام ایمن بالآخر کیا ھوا؟ میں نے کھا، رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلو! حضرت علی(علیہ السلام) کہتے ہیں:  ”فدخلت وقمن اٴزواجه فدخلن البيت وجلست بين يدیه مطرقاً نحوالاٴرض حياءً منه“ فقال(صلی الله علیه وآلہ وسلم)” اٴتحبّ اٴن تدخل علیک زوجتک؟ فقلت واٴنا مطرق: نعم،فداک اٴهی وامّی “جب میں رسول اللہ کے پاس پھنچا تو ازواج اٹھ کر حجرے میں چلی گئیں اور میں شرم و حیا میں ڈوبا ھوا اور زمین پر نظریں جمائے آپ کے سامنے جاکر ہیٹھ گیا، آپ نے کھا کیا تم آپنی شریکہٴ حیات کو آپنے گھر رخصت کرکے لے جانا چاہتے ھو، میں نے زمین پر نگاہیں جمائے ھوئے کھا ” جی ھاں، میرے ماں بآپ آپ پر قربان “
آپ نے فرمایا:”نعم و کرامة، يا علي، اٴدخلها عليک فی ليلتنا هذه اٴو فی ليلة غد ان شاء الله “” ھاں کیا بہتر، اے علی آج رات یا کل رات انہیں رخصت کر کے آپنے گھر لے جانا انشاء اللہ “ پھر رسول اللہ آپنی ازواج کی طرف متوجہ ھوئے اور ان سے فرمایا وھاں کون ھے؟ تو ام سلمہ بولیں میں ام سلمہ، اور یہ زینب اور فلاں فلاں ہیں،

 تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:”هيئوا لابنتی و ابن عمی فی حجری بيتاً “ میری ہیٹی اور میرے ابن عم کےلئے میرے برابر میں ایک حجرہ میں انتظام کرو تو ام سلمہ نے کھا یا رسول اللہ یعنی آپ کے حجرہ میں؟ آپ نے فرمایا:تم آپنے حجرہ میں، اور آپنی ازواج کو حکم دیا کہ فاطمہ(س) کی شان کے مطابق ان کی زینت کریں-  
ام سلمہ کہتی ہیں کہ میںنے فاطمہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کیا تمھارے پاس آپنے لئے کوئی عطر وغیرہ ھے؟ انھوں نے جواب دیا: ھاں، پھر وہ ایک شیشی لے کر آئیں اور اس سے کچھ میری ہتھیلی پر چھڑک دیا جب میں نے اسے سونگھا تو، میں نے کبھی ایسی خوشبو نہیں سونگہی تھی، میں نے کھا یہ کیا ھے؟ انھوں نے جواب دیا: ”کان دحية الکلہی يدخل علی رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم)فيقول لی(صلی الله عليه وآله وسلم): يا فاطمة هات الوسادة فاطرحيها لعمّک، فاٴطرح له الوسادة فيجلس عليها، فاذا نهض سقط من بين ثيابه شيء فياٴمرنی بجمعه(فساٴل علي(عليهم السلام) رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) عن ذلک فقال(صلی الله عليه وآله وسلم): هو عنبر يسقط من اٴجنحة جبرئيل“- جب دحیہٴ کلہی رسول اللہ کی خدمت میں آتے تھے تو آپ فرماتے تھے اے فاطمہ(علیہاالسلام) آپنے چچا کےلئے تکیہ لے آوٴ، اور ان کےلئے تکیہ لگادو تاکہ وہ اس پر ہیٹھ جائیں، جب وہ اٹھ کر جاتے تھے تو ان کے کپڑوں سے کچھ ذرات جھڑ جاتے تھے، تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اس کو اکٹھا کرنے کےلئے کہتے تھے،(ایک دن حضرت علی(علیہ السلام) نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: یہ وہ عنبر ھے جو جبرئیل کے پروں سے گرتا تھا)

رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ”يا علی، لا بدّ للعرس من وليمة“اے علی(علیہ السلام) شادی کا ولیمہ ضروری ھے-
تو سعد بولے، میرے پاس ایک دنبہ ھے، کچھ انصار نے چند کلو مکئی کا آٹا اکٹھا کرلیااور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ نے      ام سلمہ کے پاس جو دس درھم رکھوا رکھے تھے وہ ان سے لے کر مجھے دیتے ھوئے یہ فرمایا:”اشتر سمناً و تمراً و اقطاً “
اس کا گہی، کھجور، اور مکھن خرید لاوٴ، میں خرید کر لایا اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کردیا آپ نے آپنی آستینیں الٹیں اور پوست کا ایک دسترخوان منگایا اور کھجوروں کو توڑ توڑ کراسے گہی اور مکھن کے ساتھ ملا کر رگڑنا شروع کردیا جس سے حیس نامی غذا تیار ہوگئی پھر آپ() نے کھا:”یا علی اُدعُ من اٴحببت“    ” تم جسے بلانا چاہتے ھو اسے دعوت دیدو“-
میں مسجد میں پھنچا مسجد صحابہ سے چھلک رہی تھی، مجھے اس بات میں شرم محسوس ہوئی کہ بعض لوگوں کو دعوت دوں اور دوسروں کو چھوڑ دوں، بالآخر میں وھاں موجود بلندی پر چڑھ گیا اور میں نے بلند آواز میں یہ اعلان کردیا آپ حضرات؛ فاطمہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ولیمہ کےلئے تشریف لے چلیں، چنانچہ لوگ ٹولیوں کی شکل میں اُدھر چل پڑے، تو مجھے لوگوں کی کثرت اور کھانے کی قلت کی وجہ سے شرم آنے لگی، رسول اللہ کو میری پریشانی کا اندازہ ھوگیا، تو آپ نے فرمایا:”یا علیّ انّی ساٴدعوالله بالبرکة، فجلّل السفرة بمندیل، و قال: اٴدخل علیّ عشرة بعد عشرة ففعلت، و جعلوا یاٴکلون و یخرجون لا ینقص الطعام“- اے علی(علیہ السلام)!میں ابھی اللہ تعالی سے برکت کی دعا کروں گا پھر آپ نے ایک بڑا رومال بچھا کر دسترخوان لگا دیا اور کھا، تم میرے پاس دس دس آدمیوں کو بھیجتے رھنا، چنانچہ میں ایسا ہی کرتا رھا اور وہ لوگ کھاتے رھے اور باھر نکلتے رھے مگر کھانا کم نہیں پڑا، اور نہی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود آپنے ہاتھ سے کھانا اتار اتار کر دے رھے تھے
 اور حضرت عباس، حضرت حمزہ اور حضرت علی(علیہ السلام) اور حضرت عقیل مھمانوں کا استقبال کر رھے تھے، حضرت علی(علیہ السلام) کا ہیان ھے:”فاٴکل القوم عن آخرهم طعامی و شربوا شراهی، و دعوا لی بالبرکة و صدروا و هم اٴکثر من اٴربعة آلاف رجل “-تمام کے تمام لوگوں نے کھانا کھالیااور دودھ پی لیا اور میرے لئے برکت کی دعا کرتے ھوئے رخصت ھوگئے ان کی تعداد چار ہزار سے زیادہ تھی-  
پھر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بڑے پیالے منگوائے اور انہیں بھر کر ازواج کے حجروں میں بھیج دیا اور پھر ایک پیالہ لے کر اس میں کھانا رکھ دیا اور فرمایا:”هذه لفاطمة و بعلها“- ” یہ فاطمہ اور ان کے شوہر  کےلئے ھے “
 

 ۸- شب عروسی کے تقريبات

 جب سورج ڈوبنے لگا تو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:” یا امّ سلمة هلمّی فاطمة“ اے ام سلمہ فاطمہ کو حاضر کرو، وہ گئیں اور انہیں لے کر آئیں آپ کی ردا زمین پر خط دے رہی تھی اور آپ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے شرم و حیاء کی بنا پر پسینہ میں غرق تھیں جس سے آپ کا پیر لڑکھڑا گیا تو رسول اللہ نے فرمایا:”اٴقالک الله العثرة فی الدنیا و الآخرة “ خداوندعالم دنیا و آخرت میں تمہیں ھر لغزش سے محفوظ رکھے-  جب آپ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آکر کھڑی ہوئیں تو انھوں نے آپ کے رخ انور سے ردا ہٹادی یھاں تک کہ حضرت علی(علیہ السلام) نے اس کا مشاھدہ کرلیا- نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار و مھاجرین اور جناب عبد المطلب کے گھروں کی عورتوں کو یہ حکم دیا کے وہ فاطمہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلیں، اور خوشی منائیں(اشعار)ترانے پڑہیں اور حمد و تکہیر کہتی رہیں اور کوئی ایسی بات منھ سے نہ نکالیں جس سے خدا راضی نہ ھو جناب جابر کہتے ہیں کہ پھر آپ نے ان کو شھبا(آپنے ناقہ یا خچر)پر سوار کیا جناب سلمان اس کی مھار یا لگام تھامے ھوئے تھے ستر ہزار حوریں آپ کا حلقہ کئے ھوئے تھیں اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حمزہ، عقیل، جعفر اور بنی ہاشم ان کے پیچھے آپنی تلواریں نکالے ھوئے چل رھے تھے اور ازواج نہی آگے آگے اشعار پڑھتی جارہی تھیں-
عورتیں ھر رجز( ترانہ) کے پہلے شعر کو ترنم کے ساتھ پڑھتی تھیں اور اس کے آخر میں تکہیر کہتی تھیں بالآخر وہ سب گھر کے اندر پھونچ گئیں پھر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مولائے کائنات(علیہم السلام) کی طرف متوجہ ھوئے اور ان کو بلایا اور پھر جناب فاطمہ(علیہم السلام) کو بلایا اور ان کا ہاتھ پکڑ کراسے حضرت علی(علیہ السلام) کے ہاتھ میں دیتے ھوئے فرمایا: ”بارک الله فی ابنة رسول الله، يا علی نعم الزوج  فاطمة، و يا فاطمة نِعم البعل علي“اے علی(علیہ السلام)!اللہ تمہیںرسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی ہیٹی مبارک کرے اے علی(علیہ السلام)!فاطمہ(علیہا السلام) بہترین ہیوی ہیں اور اے فاطمہ(علیہم السلام)! علی(علیہ السلام) بہترین شوہر  ہیں-
پھر فرمایا:”يا علي هذه فاطمة وديعة الله و وديعة  رسوله عندک، فاحفظ الله و احفظنی فی وديعتی“اے علی(علیہ السلام)! یہ فاطمہ(علیہم السلام) تمھارے پاس اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امانت ھے لہٰذا میری امانت میں اللہ اور میرا خیال رکھنا(حفاظت کرنا) شجرہ طوہی ۲۵۴-
پھر آپ نے یہ دعا فرمائی: ”اللّهم اجمع شملهما، و اٴلِّف بين قلبيهما، و اجعلهما و ذريتهما من ورثة جنة النعيم، و ارزقهما ذرية طاهرة طيبة مبارکة، واجعل فی ذرّيتهما البرکة، و اجعلهم اٴئمة يهدون باٴمرک الی طاعتک و ياٴمرون بما رضيت “ بار الٰھا!ان دونوں کے دلوں میں الفت ڈال دے اور ان دونوں کو اوران کی نسل کو جنت نعیم کے وارثین میں قرار دے اور انہیں طیب و طاھر اور مبارک نسل عطا فرما-  ان کی نسل میں برکت عنایت فرما اور انہیں ایسا امام قرار دینا جو تیرے حکم کے مطابق تیری طرف ھدایت دینے والے ھوں-
پھر آپ نے فرمایا: اب تم لوگ آپنے حجرے میں جاوٴ اور جب تک میں نہ آجاوٴں میرا انتظار کرتے رھنا-  

حضرت علی(علیہ السلام) کہتے ہیں: ”فاٴخذت بيد فاطمة و انطلقت بها حتی جلست فی جانب الصفة و جلست فی جانبها و هی مطرقة الی الاٴرض حياءً منّی و اٴنا مطرق الی الاٴرض حياءً منها“میں فاطمہ(علیہا السلام) کا ہاتھ پکڑ کر انہیں لے کر چلا یھاں تک کہ وہ حجرہ کے ایک گوشے میں ہیٹھ گئیں اور میں دوسرے گوشے میں ہیٹھ گیا وہ مجھ سے شرم کی وجہ سے زمین پر نگاہیںگاڑے ھوئے تھیں اور میں ان سے شرم و حیاء کی وجہ سے زمین کی طرف دیکھ رھا تھا-ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ اندر تشریف لائے آپ کے ہاتھ میں چراغ تھا آپ نے اسے کمرہ کے ایک گوشہ میں رکھ دیا پھر فرمایا:”يا علي خذ فی ذلک القعب ماءً من تلک الشکوة، ففعلت ثم اٴتيته به فتفل فيه تفلات، ثم ناولنی القعب و قال: اشرب منه، فشربت ثم رددته الی رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) فناوله فاطمة و قال: اشرہی حبيبتی فشربت منه، ثلاث جرعات ثم ردّته اليه، فاٴخذ ما بقی من الماء فنضحه علی صدری و صدرها و قال: انّما يريد الله ليذهب عنکم الرجس اٴهل البيت و يطهّرکم تطهيراً، ثم رفع يديه و قال: يا ربّ انّک لم تبعث نبياً الّا و قد جعلت له عترة، اللهمّ فاجعل عترتی الهادية من علي و فاطمة ، ثم خرج من عندهما فاٴخذ بعضادتی الباب و قال: طهّرکما الله و طهّر نسلکما، اٴنا سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم، اٴستودعکما الله و اٴستخلفه عليکما“” اے علی(علیہ السلام)! اُس مٹکے سے اِس پیالے میں پانی لے آوٴ،میں گیا اور پانی لاکر آپ کودے دیا آپ نے اس میں چند بار آپنا لعاب دھن ملایا اور فرمایا اس کو پیو تو میں نے پی کر اسے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کو وآپس کردیا پھر آپ نے اسے فاطمہ(س) کے حوالہ کرتے ھوئے کھا اے میری پیاری ہیٹی تم بھی پی لو، چنانچہ انھوں نے اس میں سے تین گھونٹ پی کر آنحضرت کوپیالہ وآپس کردیا آپ نے باقی پانی لے کر کچھ میرے سینہ کے اوپر چھڑ کا اور کچھ فاطمہ(علیہا السلام) کے سینہ پر چھڑک دیا اور فرمایا: ہیشک اے اہل ہیت!(علیہم السلام) اللہ کا ارادہ یہ ھے کہ تم سے ھر رجس کو دور رکھے اور تمہیں پاک و پاکیزہ رکھے،  
پھر آپ نے آپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور یہ دعا فرمائی: بار الٰھا! تو نے کسی نہی کو مبعوث نہیں فرمایا مگر یہ کہ اس کےلئے عترت قرار دی ھے لہٰذا بارالٰھا: میری عترت جو ھدایت دھندہ ھے اسے علی(علیہ السلام) و فاطمہ(علیہا السلام) کی نسل سے قرار دینا پھر آپ ان کے پاس سے باھر تشریف لے آئے اور انہیں یہ دعا دی:اللہ تم دونوں اور تمھاری نسل کو پاک و پاکیزہ قرار دے، جو تم سے مسالمت رکھے میں اس کےلئے سرآپا سلامتی اور جو تم سے جنگ کرے اس کےلئے سرآپا جنگ ھوں میں تم دونوں کو اللہ تعالی کے حوالہ کرتا ھوں اور اسی کو تمھارا سرپرست قرار دیتا ھوں“-
پھر آپ نے دروازہ بند کردیا اور عورتوں کو بھی حکم دیا تو وہ سب بھی باھر نکل گئیں-  
جب آپ باھر نکلنے لگے تو آپ کی نظر ایک خاتون پر پڑی، آپ نے ان سے پوچھاتم کون ھو؟ انھوں نے عرض کی: اسماء آپ نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں باھر نکلنے کا حکم نہیں دیا تھا؟ اسماء بولیں جی ھاں یا رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ میرے ماں بآپ آپ پر قربان:میں آپ کی مخالفت نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن میں نے خدیجہ سے ایک عھد کیا تھا کہ جب خدیجہ کی وفات کا وقت نزدیک آیا تو وہ رونے لگیں، میں نے ان سے کھا، آپ کیوں رو رہی ہیں جب کہ آپ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں؟ آپ تو نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ ہیں اور انھوں نے آپنی زبان مبارک سے آپ کو جنت کی بشارت دی ھے؟
انھوں نے کھامیں اس لئے نہیں رو رہی ھوں: بلکہ شادی کی رات ھر دلھن کو ایک عورت کی مدد کی ضرورت ھوتی ھے تاکہ وہ اس سے آپنے راز ہیان کرسکے اور آپنے ضروری کاموں میں اس سے مددلے سکے جب کہ فاطمہ(س) ابھی کمسن اور بچی ھے، مجھے اس بات کا خوف لاحق ھے کہ کہیں کوئی اُس وقت ان کی ذمہ داری آپنے اوپر قبول کرنے والا نہ ھو-  

تو میں نے کھا تھا: میں آپ کے سامنے خدا سے یہ عھد کرتی ھوں کہ اگر میں اس وقت تک باقی رہی تو آپ کی طرف سے یہ ذمہ داری ادا کروں گی، یہ سن کر رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ رودئے اور فرمایا ” اللہ کی قسم! کیا تم اسی لئے رکی ھو؟ “ میں نے عرض کی:جی ھاں:خدا کی قسم، تو آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لئے دعا فرمائی-

 

۹- عروسی کی صبح پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کی ملاقات

صبح عروسی، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاتھ میں دودھ کا ایک پیالہ لئے ھوئے جناب فاطمہ(علیہا السلام) کے پاس پھنچے اور آپ سے فرمایا:”اشرهی فداک اٴبوک“ ” ثم قال لعلی(علیہ السلام):”اشرب فداک ابن عمّک“-”کیف وجدت اٴهلک؟ قال: نعم العون علی طاعة الله “- وساٴل فاطمة فقالت: ”خیر بعل“- اسے پی لو تم پر تمھارابآپ قربان ھو، پھر حضرت علی(علیہ السلام) سے فرمایا نوش فرماوٴ تم پر تمھارا ابن عم قربان ھو-   پھر حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا: تم نے آپنی ہیوی کو کیسا پایا؟ تو آپ نے کھا: اطاعت الٰہی میں بہترین مددگار“ اور جب جناب فاطمہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال فرمایا: تو آپ نے کھا بہترین شوہر -  
حضرت علی علیہ السلام کہتے ہیں: ”ومکث رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم)بعد ذلک ثلاثاً لا يدخل علينا، فلمّا کان فی صبيحة اليوم الرابع جاء نا(صلی الله عليه وآله وسلم) ليدخل علينا---“ اس کے بعد تین دن تک رسول اللہ ھمارے یھاں تشریف نہیں لائے بلکہ چوتھے دن صبح ھمارے پاس آئے- --جب آپ ان دونوں کے پاس تشریف لےگئے تو آپ نے حضرت علی(علیہ السلام) سے باھر جانے کےلئے کھا اور آپنی ہیٹی جناب فاطمہ(علیہا السلام) سے تنہائی میں یہ پوچھا:”کيف اٴنت يا بُنية؟و کيف راٴيت زوجکِ؟ اے ہیٹی! تمھارا مزاج کیسا ھے؟ اور تم نے آپنے شوہر  کو کیسا پایا؟
آپ نے عرض کی:”يا اٴبه خير زوج، الّا اٴنّه دخل علي نساء من قريش و قلن لی زوّجکِ رسول الله من فقير لا مال له“ اے بابا!یقینا بہترین شوہر  ہیں البتہ میرے پاس قریش کی کچھ عورتیں آئی تھیں
اور مجھ سے یہ کہہ رہی تھیں کہ رسول اللہ نے تمھاری شادی ایک فقیر کے ساتھ کردی ھے جس کے پاس کسی طرح کی دولت نہیں ھے، تو آنحضرت نے فرمایا:”يا بنية ما اٴبوک و لا بعلُک بفقير، و لقد عرضت علي خزائن الاٴرض، فاخترت ما عند رہی، والله يا بنية  ما اٴلوتک نصحاً اٴنّ زوّجتک اقدمهم سلماً واٴکثرهم علماً و اٴعظمهم حلماً“يا بنية انّ الله -عزوجل - اطلع الی الاٴرض فاختار من اٴهلها رجلين فجعل اٴحدهما اٴباک و الآخر بعلک، يا بنية نِعم الزوج زوجک، لا تعصی له اٴمراً “-
اے ہیٹی نہ تمھارا بابا فقیر ھے اور نہ تمھارا شوہر  فقیر ھے بلکہ میرے سامنے تو زمین کے خزانے پیش کئے گئے تھے، مگر میں نے اس کا انتخاب کیا جو میرے پروردگار کے پاس ھے، خدا کی قسم اے میری ہیٹی میں نے تمھاری نصیحت اور خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی ھے میں نے تمھاری شادی اس کے ساتھ کی ھے جو تمام لوگوں میں سب سے پہلا مسلمان، ان میں سب سے بڑا عالم نیز ان سب سے زیادہ حلیم و بردبار ھے-  
اے میری ہیٹی، خداوندعالم نے جب زمین کے اوپر نظر کی تو اس سے دومردوں کو منتخب کیا ان میں سے ایک کو تمھارا بآپ اور دوسرے کو تمھارا شوہر  قرار دیا، اے ہیٹی تمھارا شوہر  بہترین شوہر  ھے، لہٰذا کسی بات میں ان کی مخالفت اور نافرمانی مت کرنا-  پھر رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ نے حضرت علی(علیہ السلام) کو” یا علی(علیہ السلام) “ کہہ کر آواز دی:” لہیک یا رسول الله “ قال: اُدخل بيتک و الطف بزوجتک و ارفق بها، فانّ فاطمة بضعة منّی، يؤلمنی ما يؤلمها و يسّرنی ما يسرّها، اٴستودعکما الله و اٴستخلفه عليکم“-
 آپ نے کھا میں حاضر ھوں آپ نے فرمایا: آپنے حجرہ کے اندر آجاوٴ آپنی شریکہٴ حیات سے لطف و محبت اور نرمی سے پیش آنا کیونکہ فاطمہ(س) میرا ٹکڑا ھے، جس چیزسے اسے اذیت ھوتی ھے اس سے مجھے بھی تکلیف پھنچتی ھے، جس سے اسے خوشی ھوتی ھے وہی چیز مجھے بھی خوش کرتی ھے، میں تم دونوں کو اللہ تعالی کے حوالہ کرتا ھوں اور اسی کو تمھارا پشت پناہ قرار دیتا ھوں-   

ایک روایت میں ھے کہ رسول اللہ نے آپنی ہیٹی کی شادی کرنے کے بعد ان سے فرمایا: ”زوّجتک سيداً فی الدنيا و الآخرة، وانّه اٴول اٴصحاہی اسلاماً و اٴکثرهم علماً و اٴعظمهم حلماً“  ” میں نے تمھاری شادی اس سے کی ھے جو دنیا و آخرت میں سید و سردار ھے وہ میرا سب سے پہلا مسلمان صحاہی ھے اور تمام مسلمانوں سے بڑا عالم اور ان کے درمیان سب سے زیادہ بردبار ھے- 

 

 ۱۰-شادی کی تاریخ

اہل ہیت علیھم السلام سے مروی تمام روایات میں یہ صراحت موجود ھے کہ آپ کی شادی معرکہ بدر سے مسلمانوں کی فاتحانہ وآپسی کے بعد ہوئی ھے-   
امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے مروی ھے:”تزوّج علی فاطمةفی شهر رمضان و بنی بهافی ذی الحجة من العام نفسه بعد معرکة بدر“” حضرت علی علیہ السلام نے ماہ رمضان میں جناب فاطمہ(س) سے نکاح فرمایا اور اسی سال جنگ بدر سے وآپسی کے بعد ذی الحجہ میں ان کی رخصتی ہوئی(انھوں نے آپنا گھر بسایا)-
یہ بھی روایت ھے کہ ۳-ھ  میں معرکہٴ بدر سے وآپسی اور شوال کے کچھ دن گذرنے کے بعدحضرت علی(علیہ السلام) اور جناب فاطمہ(س) کی شادی ہوئی-   
ایک روایت میں ھے کہ پہلی ذی الحجہ  ۲-ھ کو رسول اللہ نے جناب فاطمہ(س) سے حضرت علی (علیہم السلام) کی شادی کی  تھی-   
حضرت علی(علیہ السلام) اور جناب فاطمہ(س) کی شادی کے امتیازات
حضرت فاطمہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شادی میں مندجہ ذیل امتیازات پائے جاتے ہیں:

۱-یہ شادی زمین پر منعقد ہونے سے پہلے، حکم الٰہی سے آسمان پر منعقد ہوئی اس سلسلہ میں ھمارے لئے حضرت عمر کی یہی ایک روایت کافی ھے وہ کہتے ہیں کہ جناب جبرئیل نازل ھوئے اور انھوں نے کھا: ”یا محمّد انّ الله یاٴمرک اٴن تزوّج فاطمة ابنتک من علیّ “” اے محمد! اللہ تعالی نے آپ کو یہ حکم دیا ھے کہ آپنی ہیٹی فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کی شادی علی کے ساتھ کردیجئے-   


۲- اللہ تعالیٰ نے پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسل کوصرف اسی مبارک شادی اور انہیں دونوں پاک و پاکیزہ شوہر  اور ہیوی( ھمسروں)کے ذریعہ پہیلایا اس سلسلہ میں بھی حضرت عمر یہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے:”کلّ نسب و سبب ينقطع يوم القيامة ما خلا سبهی و نسهی، و کلّ بنی انثی فعصبتهم لاٴبيهم ما خلا ولد فاطمة، فانّی اٴبوهم اٴنا عصبتهم “ ”روز قیامت ھر نسب اور رشتہ داری ختم ھوجائے گی سوائے میرے نسب اور میری رشتہ داری کے اور تمام بنی آدم کا شجرہ ان کے بآپ سے چلتا ھے سوا فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کی اولاد کے، کیونکہ ہیشک میں ان کا بآپ ھوں اور ان کاسلسلہٴ نسب مجھ سے شروع ھوتا ھے“-   


۳-شہزادی کائنات رسول اکرم کی اکلوتی ہیٹی تھیں اور آپ کی کوئی دوسری حقیقی بھن نہیں تھی، اگرچہ جناب زینب و رقیہ اور ام کلثوم کے بارے میں یہ مشھور ضرور ھے کہ یہ رسول اللہ کی ہیٹیاں تھیں مگر صحیح یہی ھے کہ یہ سب جناب خدیجہ کی بھن جناب ھالہ کی ہیٹیاں تھیں اور جب رسول اکرم سے جناب خدیجہ کی شادی ہوئی تو یہ بھی ان کے ساتھ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں رھنے لگی تھیں مختصر یہ کہ اس تاریخی تحقیق کے مطابق ان سب کا  دختر پیغمبر ھونا ثابت نہیں ھے-