تقلید و مرجعیت ، شیعوں کی نظر میں


وہ بالغ و عاقل جو خود مجتہد نہ ہو۔ یعنی شریعت کے احکام کا قرآن وسنت سے استنباط کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو۔ اس کے لئے ضروری ہےکہ وہ علم و عدل اور تقوی و زہد کے پیکر جامع الشرئط مجتہد کی تقلید کرے چنانچہ اس سلسلہ میں خدا ندِ عالم کا ارشاد ہے:
اگر تم نہیں جانتے تو صاحبان علم سے پوچھ لو۔(نحل/۴۲)
جب ہم اس موضوع پر بحث کریں گے تومعلوم ہوگا کہ شیعہ امامیہ حادثات سے با خبر تھے پس ان کے یہاں وفات نبی(ص) سے آج تک علمیت و مرجعیت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا ہے۔
شیعوں کی تقلید کا سسلسلہ ائمہ اثںا عشر تک پہونچتا ہے اور ان ائمہ کا سلسلہ تین سو سال تک ایک ہی  نہج پر  جاری رہا ۔ ان میں سے کبھی ایک نے دوسرے کے قول کی مخالفت نہیں کی ۔ کیونکہ ان کےنزدیک نصوصِ قرآن و سنت ہی لائق اتباع تھیں۔ لہذا انھوں نے کبھی قیاس و اجتہاد پر عمل نہیں کیا اگر وہ ایسا کرتے تو ان کا اختلاف بھی مشہور ہوجاتا ، جیسا کہ اہل سنت والجماعت کے ائمہ اور قائدوں کےدرمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
ان باتوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ مذہب " اہل سنت والجماعت " خواہ وہ حنفی ہو یا مالکی ، شافعی ہو یا حنبلی، اس شخص کی رائے پر مبنی ہے جو زمانہ رسالت سے کافی بعد میں پیدا ہوا اور جس کا نبی(ص) سے کوئی ربط نہیں ہے۔
لیکن مذہب شیعہ امامیہ ذریٰت نبی(ص) کے بارہ(۱۲) ائمہ سے تواتر سے ثابت ہے ان میں سے بیٹا باپ سے روایت کرتا ہے۔ چنانچہ ایک امام کی حدیث ہے کہ میری حدیث میرے پدر کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث امیرالمؤمنین علی(ع) کی حدیث ہے اور علی(ع) کی حدیث رسول(ص) کی حدیث ہے اور رسول(ص) کی حدیث جبرئیل کی حدیث ہے اور وہ کلامِ خدا ہے۔
اگر یہ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کا کلام ہوتا تو تم اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے (نساء/۸۲)
معصوم امام کی غیبت کے بعد سے آج تک لوگ جامع الشرائط فقیہ کی تقلید کرتے ہیں۔ اور اس زمانہ سے آج تک مستقل طور پر فقہاء کا سلسلہ چلاآرہا ہے۔ ہر زمانہ میں امت میں سے ایک یا متعدد شیعہ مراجع ابھرتے ہیں اور شیعہ ان کے رسائل عملیہ کے مطابق عمل کرتے ہیں جو کہ انھوں نے کتاب و سنت سے استنباط کئے ہیں۔ واضح رہے کہ وہ مجتہدین ان جدید مسائل کے لئے اجتہاد کرتے ہیں جو اس صدی میں علمی پیشرفت وار تقاء اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے سامنے آتے ہیں جیسے آپریشن کے ذریعہ دل نکال کر دوسرے انسان کا دل رکھنا یاجسم کے کسی بھی عضو کی جگہ دوسرے انسان کا عضو  رکھنا  یا انجکشن کے ذریعہ نطفہ منتقل کرنا یا بینک وغیرہ کے معاملات وغیرہ۔
او ر مجتہدین کے درمیان سے وہ شخص نمایان مقام پر فائذ ہوتا ہے جو ان میں اعلم ہوتا ہے اسی کو شیعوں کا  مرجع یا زعیم حوزات علمیہ کہا جاتا ہے۔
شیعہ ہر زمانہ میں اس زندہ فقیہہ کی تقلید کرتےرہے ہیں جو لوگوں کی مشکلات کو سمجھتا ہے۔ ان کے مسائل کو اہمیت دیتا ہے چنانچہ لوگ اس سے سوال کرتے ہیں اور وہ انھیں جواب دیتا ہے۔
اس طرح شیعوں نے ہر زمانہ میں شریعتِ اسلامیہ کے دونوں اساسی مصادر یعنی کتاب و سنت کی حفاظت کی ہے اور ائمہ اثنا عشر سے منقول نصوص نے شیعہ علما کو قیاس وغیرہ سے مستغنی بنائے رکھا ہے اور پھر شیعوں نے حضرت علی بن ابی طالب (ع) ہی کے زمانہ سے تدوین حدیث کو اہمیت دی ہے خود حضرت علی(ع)  صحیفہ جامعہ کو محفوظ رکھے ہوئے تھے کہ جس میں وہ تمام چیزیں موجود تھیں جن کی قیامت تک لوگوں کو ضرورت ہوگی اور وہ صحیفہ باپ سے بیٹے کو میراث میں ملتا رہا اور وہ ایسے ہی اس کی حفاظت کرتے رہے جیسے لوگ سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہم شہید ّآیت اللہ باقر الصدر کا قول نقل کرچکے ہیں کہ:
ہم صرف قرآن و سنت  پر اعتماد کرتے ہیں:
ہم نے شہید صدر کی مثال پیش کی ہے ورنہ تمام شیعہ مراجع کا یہی قول ہے۔
شرعی تقلید اور دینی مرجعیت کے سلسلہ میں مختصر بحث سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے حقیقت میں شیعہ ہی قرآن اور ان احادیث رسول(ص) کے اہل میں جو کہ باب العلم ، عالم ربانی نبی(ص) کے بعد امت کے مرشد ثانی ، جس کو قرآن میں نفس نبی(ص) کہا گیا ہے ، سے منقول ہیں۔ ( آیت " قل تعالوا ندع انفسنا و انفسکم" کی طرف اشارہ ہے کہ نفس کی جگہ رسول(ص) علی(ع) کو لے گئے تھے۔ ملاحظہ فرمائیں مسلم باب فضائل علی علیہ السلام)
پس جو شہر میں آنا چاہتا ہے اور اس کے دروازہ سے داخل ہوتا ہے وہی شفا بخش چشم تک پہونچتا ہے، فائدہ اٹھاتا ہے اور شفا بخش علاج سے مستفید ہوتا ہے  اور اس رسی سے متمسک ہوتا ہے جس میں کوئی خدشہ نہیں ہے چنانچہ خداوندِ عالم کا  ارشاد ہے:
گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ (بقرہ ۱۸۹)
جو دروازہ کو چھوڑ کر کسی اور راستہ سے گھر میں داخل ہوتا ہے  وہ چور کہلاتا ہے اور جو گھر میں داخل نہ ہوا اور سنت نبی(ص) کو نہ پہچان سکا۔ اس  پر خدا عقاب کرے گا۔