سنَی مذاہب کی ترقی کا راز


تاریخی کتابوں اور اسلاف کی جمع کردہ چیزوں پر نظر رکھنے والا بغیر شک و تردید کے اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ اس زمانہمیں سینوں کے مذاہب اربعہ کی ترقی میں بر سر اقتدار پارٹی کا ہاتھ تھا لہذا اکثر لوگوں نے انھیں قبول کیا کیوں کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین کو اختیار کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک محقق اس بات کو بھی جانتا ہے کہ اس زمانہ میں اور دسیوں مذاہب اس لئے فنا ہوگئے تھے کہ حاکمِ وقت ان سے راضی نہیں تھا مثلا مذہبِ اوزاعی اور مذہبِ حسن بصری، ابوغنیہ ، ابن ذویب، سفیان ثوری، ابن داؤد اور لیث  بن سعد وغیرہ۔
مثلا لیث بن سعد مالک ابن انس کا دوست تھا اور علم فقہ میں ان سے کہیں آگے تھا لیکن اس  کا مذہب اس لئے برباد ہوگیا کہ اس سے حکومت راضی نہیں تھی۔جیسا کہ شافعی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے۔(مناقب شافعی، ص۵۲۴)
احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ : ابن ابی ذویب مالک بن انس سے افضل تھے۔ لیکن مالک رجال میں ماہر تھے۔ ( تذکرۃ الحفاظ ، ج۱، ص۱۷۶)
لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مالک کو صاحب مذہب دیکھتے ہیں کیونکہ  انھیں حکومت کا تقرب حاصل تھا حکام کے کہنے پر چلتے تھے لہذا یہ مشہور عالم بن گئے اور خوف طمع کے ذریعہ ان کے مذہب کی ترویج ہونے لگی خصوصا اندلس میں کہ جہاں مالک کے شاگرد یحیی نے اندلس کے حاکم سے رسم و راہ بڑھا کر تقرب حاصل کیا تو حاکم نے انھیں  قاضیوں کے سلکشن کا اختیار دے دیا۔ لہذا قضاوت کا منصب اسی کو دیا جاتا تھا جو  مالکی ہوتا تھا۔
اسی ابوحنیفہ کی وفات کے بعد ان کے مذہب کی ترقی کا باعث ابویوسف اور شیبان تھے یہ دونوں ابو حنیفہ کے پیروکار اور ان کے مخلص ترین شاگرد تھے اور عباسی خلیفہ ہارون رشید کے مقربین میں سے تھے اور ہارون کی حکومت کی پائیداری میں ان کا بڑاکردار تھا دوشیزاؤں کا رسیا اور لہو لعب کا شوقین ہارون ان کی موافقت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتا تھا۔
لہذا یہ دونوں اسی شخص کو قاضی بناتے تھے جو حنفی ہوتا تھا۔ چنانچہ اس زمانہ میں ابو حنیفہ اعظم العلماء اور ان کا مذہب اعظم المذاہب الفقہیہ بن گیا باوجود یکہ ان کے ہمعصر  علماء نے ان کے کافر ہونے اور زندیق بن جانے کا فتوی دیا تھا۔ فتوی دینے والوں میں سے امام احمد بن حنبل اور ابو الحسن اشعری ہیں۔
اور مذہب شافعی تو تقریبا مٹ جانے کے بعد زندہ ہوا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب ظالم و غاصب حکومت نے ان کی تائید  کی لہذا وہی مصر کہ جہاں شیعہ ہی شیعہ تھے شافعی بن گیا اور یہ صلاح الدین ایوبی کے زمانہ میں اس وقت ہواجب وہ شیعوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگا اور انھیں بے دردی کے ساتھ ذبح کرنے لگا۔
اسی طرح اگر معتصم عباسی حنبلی مذہب کی تائید نہ کرتا تو آج کوئی اس مذہب  کا نام لینے والا نہ ہوتا اور یہ اس وقت ہوا جب احمد بن حنبل نے خلق قرآن کے نظریہ سے برائت کا اظہار کیا ، اور متوکل کے زمانہ میں تو اس کا ستارہ اور اچھے طریقہ سے چمک گیا۔
ابھی ماضی قریب میں برطانیہ کے استعمار  کی مدد سے مذہب وہابیت نے فروغ پایا ہے۔ پھر برطانیہ نے آل سعود کو یہ ذمہ داری سونپی لہذا اس نے فورا شیخ محمد بن عبد الوہاب کی مدد اور حجاز و جزیرہ العرب میں اس کے مذہب کی نشر و اشاعت میں بھر پور تعاون کیا۔
اس طرح مذہب حنبلی کو تین ائمہ ملے پہلے امام احمد بن حنبل جنھیں خود اپنے فقیہ ہونے کا اقرار نہیں تھا، بلکہ وہ اہلِ حدیث  سے تعلق رکھتے تھے، ان کے بعد ابنِ تیمیہ ہیں جن کو اہلِ سنت نے شیخ الاسلام اور مجدد السنۃ  کا لقب دیا ہے جب کہ ان زمانے میں علماء ان کو اس لئے کافر کہتے تھے کہ وہ تمام مسلمانوں کو اس لئے مشرک کہتے تھے کہ وہ نبی(ص) سے توسل رکھتے تھے اس کے بعد زمانہ ماضی میں محمد بن عبد الوہاب برطانوی استعمار کے  چیلے اٹھتے ہیں اور مذہب حنبلی کی تجدید کی کوشش کرتے ہیں، وہ ابنِ تیمیہ کے فتاوے پر عمل کرتے  ہیں اس طرح احمد حنبل کانَ کی خبر ہوگئے کیونکہ اب اس مذہب کو لوگ مذہب وہابی کہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے  کہ ان مذاہب کی ترقی ، شہرت اور سربلندی حکام کی مرہونِ منت ہے۔
اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ تمام حکام ائمہ اہلِ بیت(ع) کے دشمن تھے۔ کیونکہ وہ اپنے نظام کے لئے  انھیں  (ائمہ اہلِ بیت(ع) ) چیلنج اور اپنی بادشاہت کا زوال تصوَر کرتے تھے لہذا وہ ہمیشہ ان کو الگ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور امت میں جھوٹا بنا کر پیش کرتے تھے اور ان کے شیعوں کو تہہ تیغ کرتے تھے۔
بدیہی تھا کہ وہ حکام بھی بعض چاپلوس  قسم کے علماء کے بڑے بڑے عہدوں اور مناصب سے نوازیں تاکہ ان علماء کے فتاوے حکام کے مطابق ڈھلتے رہیں اور فتاوے لوگوں کی دائمی ضرورت ہےکیونکہ ان میں شریعی مسائل رچ بس گئے ہیں۔
حکام کسی زمانہ میں بھی شریعت  کی کسی چیز سے واقف نہیں تھے اور نہ فقہہ کے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے لہذا ان کے لئے ایسے علما کا رکھنا ضروری تھاجو ان کے نام پر فتوا دیتے تھے اور لوگوں کو یہ باور کراتے تھے کہ دین الگ چیز ہے اور سیاست ایک الگ چیز ہے۔
اسی طرح خلیفہ سیاسی آدمی ہوتا تھا اور فقیہ دینی آدمی ہوتا تھا جیسا کہ آج بھی اسلامی ممالک میں رئیس جمہور سیاسی ہوتا ہے اور کوئی عالم دین اس کی مدد کرتا ہے جس کو مفتی جمہوریہ کہا جاتا ہے اس عالم کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عبادات، دینی نعرے اور جوانوں کے مسائل کو مدِ نظر رکھے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کو فتوا یا حکم دینے کا اختیار نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ وہی کتہا ہے جو حکومت و حاکم کی مرضی ہوتی ہے یا کم از کم اس کو فتوی حکومت اور اس کے دستورات کے مخالف نہ ہو۔
در حقیقت یہ فکر خلفائے ثلاثہ ابوبکر و عمر اور عثمان کے زمانہ سے چلی آرہی ہے انھوں نے دین و حکومت میں تفریق کرکے اپنے لئے حق تشریع  کا باب کھول لیا تھا اور اسی پر ان کی خلافت کی مصلحت و ضمانت اور اس کا باقی رہنا موقوف تھا۔
اور جب ان خلفائے ثلاثہ نے نبی(ص) کے ساتھ رہتے ہوئے وہی حدیثیں محفوظ کی  تھیں جو ان کی سیاست کے خلاف نہیں تھیں۔
مشہور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ ۹ ہجری میں مسلمان ہوا اور بہت مختصر زمانہ تک نبی(ص) کے ساتھ رہا اور قابلِ ذکر حدیثیں اسے یاد نہیں تھیں لہذا اس نے مجبورا ابوہریرہ ، عمرو بن العاصاور بعض صحابہ کو اس بات پر معین کیا کہ میری خواہش کے مطابق فتوی دیا کرو۔
معاویہ کے بعد بنی امیہ و بنی عباس نے بھی اس سنت حمیدہ پر عمل کیا چنانچہ ہر حاکم کی بغل می ایک قاضی القضاۃ  موجود رہتا ہے جس کا فرضہ ہی یہ ہے کہ وہ منصب قضاوت پر ان لوگوں کو معین کرے جو حکومت کے موافق اور اس کے دستور کے مطابق عمل کرنے والے ہوں۔
اب بعد  آپ کے لئے ان قاضیوں کی ماہیت کا جاننا ضروری ہے کہ جو اپنے سیدَ  و سردار  کو خوش کر کے اپنے رب کو غضبناک کرتے ہیں۔
اس کے بعد یہ معلوم ہوجائے گا کہ حکومت کے مناصب سے ائمہ اطہار(ع) کو کیوں الگ رکھا جاتا تھا ، طول تاریخ میں آپ کو ان میں سے کوئی  قاضی نہیں ملے گا اور نہ ہی مسند فتوی پر متمکن ملے گا۔
اور ہم سنَی مذہب کی ترقی کے سلسلہ میں ، جو کہ حکام کی مرہون منَت تھی، زیادہ تحقیق کریں گے تو ہم مذہبِ امام مالک سے پردہ ہٹانے کے لئے ایک مثال پیش کریں گے کیوں کہ یہی سب سے عظیم اور وسیع مذہب تصوَر کیا جاتا ہے۔
مالک صاحبِ موطا کی تالیف سے مشہور ہوئے تھے، یہ کتاب انھوں نے خود تالیف کی تھی۔ چنانچہ اہلِ سنت کے نزدیک قرآن کے بعد یہ صحیح ترین کتاب ہے بعض اہلِ سنت تو اسے صحیح بخاری پر بھی فوقیت دیتے ہیں۔
مالک نے بے پناہ شہرت پائی تھی ، یہاں تک کہا جانے لگا تھا کہ کیا مدینہ میں مالک کے ہوتے  ہوئے کو ئی فتوی دے سکتا ہے؟ انھیں دارالہجرۃ(مدینہ) کے امام کا لقب دیا گیا تھا۔
واضح رہے جب امام مالک نے بیعت اکراہ کے حرام ہونے کا فتوی دیدیا تھا اس وقت والی مدینہ جعفر بن سلیمان نے ان کو ستر کوڑے لگوائے تھے۔
اسی چیز کو مالکی ہمیشہ پیش کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ مالک تو ہمیشہ حکومت کی مخالفت کرتے تھے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ جو یہ لوگ  قصَہ بیان کرتے ہیں وہی اس کے بعد والا قصہ بھی بیان کرتے ہیں اب ہم آپ کے سامنے اس کی تفصیل پیش  کرتے ہیں۔
ابن قتیبہ کہتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ جب مالک کو کوڑے  لگنے کی اطلاع ابوجعفر منصور  کو ملی تو انھیں بہت صدمہ ہوا اور مدینہ سے جعفر بن سلیمان کی معزولی کا خط لکھا اور اس کو بغداد آنے کا حکم دیا۔
اس کے بعد مالک ابن انس کو  خط لکھ کر بغداد  تشریف لانے کی دعوت دی لیکن مالک نے انکار کر دیا اور ابوجعفر  کو خط لکھا کہ مجھے اس سے معاف رکھا جائے اور میرے عذر کو قبوک کیا جائے ابوجعفر نے پھر لکھا کہ آئندہ سال آپ مجھ سے حج میں ملیں انشاء اللہ حج کو جاؤں گا ۔ ( تاریخ خلفا سے ابن قتیبہ جلد۲، ص۱۴۹)
جب امیرالمؤمنین ابوجعفر  خلیفہ عباسی منصور اپنے چچازاد بھائی جعفر بن سلیمان بن عباس کو مدینہ کی گورندی سے صرف اس باتپر معزول کرتا ہے کہ اس نے امام مالک کو ، کوڑے لگوا دئیے تھے تو یہ بات خود سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دیتی ہے!
کیونکہ جعفر بن سلیمان نے اپنے چچازاد بھائی کی خلافت کی تائید ہی میں کوڑے لگوائے تھے۔ اس لحاظ سے ابوجعفر منصور کو  والی مدینہ کی ترقی اور عزت افزائی کرنا چاہئے تھی نہ کہ اس طریقہ سے اس کی اہانت ومعزولی کرنا چاہئے تھی کہ اسے معزول کر کے سختی کے  ساتھ مدینہ بلایا جائے پھر خلیفہ خود مالک سے خط لکھ کر عذر خواہی کرتا ہے۔ اور انھیں خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے ، یہ عجیب بات ہے!
اس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ والی مدینہ جعفر بن سلیمان سے حماقت میں یہ کام انجام پاگیا تھا وہ سیاست اور اس کی باریکیوں  سے واقف نہ تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ مالک خلیفہ  کا معتمد اور حرمین شریفین کا مرکز ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو منصور کبھی اپنے بھائی کو مدینہ کی گورنری سے معزول نہ کرتا کیوں کہ مالک نے بیعت اکراہ کی حرمت کا فتوی دے دیا تھا اس لحاظ سے وہ سزا کے مستحق تھے سو جعفر نے سزا دی تھی۔
اور ایسا تو آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے کہ کوئی حاکم  حکومت کی ہیبت اور ملک میں امن و امان برقرار رکھنے  کے لئے کسی کو جیل بھیج دیتا ہے اور بعد میں جب اس کی حیثیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ وزیر  محترم کے قریبی ہیں یا رئیس جمہور کی زوجہ کے آشناؤں میں سے ہیں تو حاکم کو اپنے منصب سے معزول ہونا پڑتا ہے اور اسے کوئی اور ذمہ داری سونپی جاتی ہے کہ جس کے بارے میں وہ حاکم صاحب خود بھی کچھ نہیں جانتے ۔
یہاں مجھے وہ واقعہ یادآ  گیا جو تیونس میں فرانس کے  تسلط کے زمانہ میں رونما  ہوا تھا۔ واقعہ یہ تھا کہ عیساویہ کا شیخ طریقت اور اس کی جماعت ایک شب روڈ سے اللہ اللہ کے نعرے لگاتے ہوئے شمشیر و چھری اور چاقوؤں کی جھنکاروں کے ساتھ چلا جارہا تھا۔
یہاں تک کہ اپنی عادت کے مطابق وہ تکیہ شریف پہونچ گئے ۔ ( جیسے صوفیوں کا فرقہ قادریہ  ہے۔)
ان کے راستہ میں ایک پولیس افسر کا مکان بھی واقع تھا ان کو ہا ہو  سے پریشان ہو کر گھر سے باہر نکلا اور ان کی تلواریں وغیرہ توڑ پھینک دیں  اور ان کے مجمع کو متفرق کردیا کیوں کہ انھوں نے آنے جانے والوں کے قانون کا احترام نہیں کیا تھا۔ پھر رات بارہ(۱۲) بج چکے تھے۔
اور جب وہاں کی سی  آئی ڈی نے گورنر کو اس حادثہ کی اطلاع دی تو وہ پولیس افسر پر بہت غضبناک ہوا اور اسے معزول کردیا اور اسے تین روز کے اندر اندر شہر قفصہ چھوڑ دینے کا آرڈر دے دیا۔
عیسایہ کے شیخ طریقت کو بلا کر فرانس کی حکومت کی طرف سے عذر خواہی کی اور انھیں و افسر مال دے کر راضی کر لیا اور یہ مال اس لئے دیا تھا تا کہ وہ اپنی تلوار، چھری چاقو   خرید لیں۔
اور جب ایک مقرَب بارگاہ نے گورنر صاحب سے دریافت کیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے لئے ان وحشیوں کی ایسی ہی چیزوں میں مشغول رکھنا افضل ہے ورنہ ہمارے لئے مشکلات کھڑی کردیں گے اور ہمیں نگل جائیں گے کیوں کہ ہم نے ان کی حقوق  غصب کر رکھے ہیں۔
اب ہم امام مالک کی طرف پلٹتے ہیں تاکہ خود ان کی زبانی ابوجعفر منصور سے ان کا ملاقات کا حال سنیں۔

 

منصور سے مالک کی ملاقات

اس ملاقات  کو عظیم مورخ ابنِ قتیبہ نے اپنی کتاب تاریخ الخلفا میں خود مالی سے نقل  کیا ہے۔ لہذا ہم قارئین کے لئے ان کی عبارت کا ترجمہ پیش کررہے ہیں۔
امام مالک کہتے ہیں : میں منی سے پلٹ کر خیموں کی طرف گیا وہاں میں نے اجازت طلب کی مجھے اجازت ملی۔ اجازت دینے والے نے مجھے اندر بلایا، میں نے اس سے کہا جب وہ قبہ کچھ دور رہ جائے گا جس میں امیرالمؤمنین ہیں تو تم مجھے بتادینا، وہ مجھے ایک خیمہ سے دوسرے خیمہ میں اور ایک قبہ سے دوسرے قبہ میں لے گیا جہاں ہر ایک میں مختلف اصناف کے لوگ ہاتھوں میں برہنہ تلواریں لئے ہوئے بیٹھے تھے۔ دربان نے مجھ سے کہا وہ قبہ ہے یہ کہہ کر چلا گیا۔
میں خود اس قبہ میں پہونچا جس میں امیر المؤمنین تشریف فرما تھے وہ مجلس برخاست کرچکے تھے اور تنہا بیٹھے تھے۔ انھوں نے ایسا موٹا  لباس پہن رکھا تھا کہ جس کی مثال نہیں ملتی تھی اور  یہ سب کچھ میرے آمد کی تواضع کے سلسلہ میں تھا۔ قبہ میں صرف ایک محافظ تلوار لئے  کھڑا تھا۔
جب میں قریب پہونچا تو انھوں نے خوش آمدید کہا اور اپنے قریب بلایا۔
کہا میرے قریب تشریف لائیں ، میں نے تشریف رکھنے کے لئے  اشارہ کیا لیکن انھوں  نے پھر اصرار کیا میرے پاس آئے یہاں تک کہ مجھے اتنا قریب بٹھایا کہ میرا زانو ان کے زانو کو چھونے لگا۔
پھر انھوں نے باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے کہا: اے عبداللہ قسم اس خدا  کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے نہ تو جعفر بن سلیمان کو (کوڑے لگانے کا ) حکم دیا تھا اور نہ مجھے اس کی خبر تھی اور جب مجھے اطلاع ملی تو بہت رنجیدہ ہوا۔
مالک کہتے ہیں کہ میں نے کہا خدا امیرالمؤمنین  کو عافیت میں رکھے اور شان بنائے رکھے، میں نے اسے( جعفر سلیمان کو ) رسول(ص)  اور آپ کی قرابت کی بنا پر معاف کردیا۔
ابو جعفر منصور نے کہا: خدا آپ  کو اور آپ کا اتباع کرنے والوں کو معاف فرمائے۔
مالک کہتے ہیں: پھر انھوں نے مجھ سے سلف و گذشتگان اور علما کے سلسلہ میں  گفتگو کا آغاز کیا تو میں نے انھیں لوگوں سے واقفیت کے متعلق اعلم پایا۔ پھر انھوں نے مجھ سے علم فقہ کے متعلق گفتگو کی تو میں نے انھیں متفق علیہ چیزوں میں عالم ترین انسان پایا اور اختلاف والی باتوں میں بھی اعلم پایا اور مرئی باتوں کا حافظ اور سنی گئی چیزوں کا بخوبی یاد رکھنے والا پایا۔
پھر مجھ سے کہا اے عبداللہ اس علم کو جمع کرو  اور اسے کتابی شکل دو، اور عبداللہ بن عمر کی شدُتوں ، عبداللہ بن عباس اور ابن مسعود کی نرمی و اختصار کو مد نظر اور میانہ روی اختیار کرنا اور اس چیز  کو اپنا جس پر ائمہ اور صحابہ متفق ہوں تاکہ ہم لوگوں کو آپ کے علم پر چلائیں اور تمام شہروں میں آپ کی کتاب کی نشرو اشاعت کریں اور لوگوں سے کہہ دیں کہ اس کتاب کی مخالفت نہ کریں اور اسی کے مطابق فیصلے کریں۔
میں(مالک) نے کہا: خدا امیر کی اصلاح کرے، اہلِ عراق ہمارے علم سے راضٰی نہ ہوں گے اور نہ ہماری بات پر عمل کریں گے۔
ابوجعفر منصور نے کہا: ہم انھیں اس پر زبردستی چلائیں گے اور ان کے سر قلم کردیں گے اور کوڑوں سے ان کی کمر نیلی کردیں گے اس کام میں جلدی کرو عنقریب میرا بیٹا المہدی تمہارے پاس آئے تاکہ اس کتاب کو تم سے سنے ، یقینا اس وقت تک تم اس کام سے فارغ ہوچکے  ہوں گے انشاءاللہ۔
مالک کہتے ہیں کہ : ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ پشت قبہ سے منصور کا چھوٹا لڑکا آیا۔ جب بچے نے مجھے دیکھا تو گھبرا گیا اور پچھلے پیروں  پلٹ گیا، ابوجعفر منصور نے کہا! آؤ میرے پیارے آؤ یہ اہلِ حجاز کے  فقیہ ابو عبداللہ ہیں اس کے کے بعد ابوجعفر میری طرف ملتفت کرتے اور کہا! اے ابو عبداللہ تم جانتے ہو یہ لڑکا کیوں گھبرا گیا اور اور کیوں نہیں آیا؟ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم!
ابو جعفر منصور نے کہا ، قسم خدا کی اس نے مجھے آپ سے تنہایی میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھا تو واپس پلٹ گیا اور مداخلت کو صحیح نہ سمجھا۔
مالک کہتے ہیں اس کے بعد منصور نے مجھے ایک ہزار سونے چاندی کے دینار دینے کے لئے حکم دیا اور خلعت عطا کیا نیز میرے بیٹے کو ایک ہزار دینار دینے کا حکم دیا، پھر میں نے اجازت طلب کی، انھوں نے رخصت کیا، میں نے بھی خدا حافظ کہا، انھوں نے بھی وداع کیا، پھر  ایک خواجہ سرا میرے پاس آیا اور اس نے ایک چادر میرے کندھے پر ڈال دی اور یہ رویہ دربار  کی طرف سے ہر اس شخص کے ساتھ روا رکھا جاتاہے جس کو عزَت و عظمت دی جاتی ہے وہ اس چادر کو لے کر لوگوں کے سامنے آتا ہے پھر خواجہ سرا کو دیتا ہے۔
پس جب وہ چادر میرے کندھے پر ڈالی تو میرا کندھا اس کے بوجھ سے جھک گیا۔
میں نے کہا : بھائی مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے ۔
ابو جعفر نے کہا: اسی مالک کی سواری تک پہنچادو۔ ( تاریخ خلفا ج۲، ص۱۵۰)

 

 

 

ضروری حاشیہ

امام مالک اور ابوجعفر منصور کی اس ملاقات سے ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سے ہم چند چیزوں کا پتہ لگاتے ہیں۔

۱: ہم عباسی خلیفہ کو اپنے چچا زاد بھائی ، جوکہ مدینہ میں اس کو گورنر تھا، کو معزول اور اس کی اہانت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اس کے برعکس امام مالک سے معذرت  کرتا ہے اور قسم کھا کر کہتا ہے کہ جو بیداد و ستم آپ کے ساتھ روا رکھا گیا ہے میں اس میں قطعی شریک نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے اس کا علم تھا اسی لئے جب مجھے اس کی اطلاع ملی تو مجھے بہت رنج ہوا۔
یہ تمام چیزیں ان دونوں کے گہرے تعلقات کی نشاندہی کرتی ہیں اور ابوجعفر منصور خلیفہ کے نزدیک مالک کی عظمت و مرتبت کا پتہ دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ خلیفہ نے ان سے شخصی اور گھریلو لباس میں ملاقات کی اور اس ملاقات کے دوران کوئی بھی ان کے پاس نہیں آسکتا تھا۔ ملاقات کی کیفیت دیکھ کر خلیفہ کا بیٹا بھی گھبرا گیا تھا۔ چنانچہ جب اس نے اپنے باپ کے پہلو سے پہلو ملا ہوا دیکھا تو واپس پلٹ گیا تھا۔

۲: اور منصور نے جو مالک سے یہ بات کہی تھی کہ مکہ اور مدینہ والے اس وقت تک امان میں ہیں جب تک آپ ان کے درمیان ہیں اور خدا نے انھیں ایک عظیم مصیبت سے بچالیا ۔
ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ اور مدینہ والے خلیفہ اور ظالم حکام کے خلاف شورش و انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے لیکن مالک نے انھیں ڈرایا  اور اپنے فتوؤں کے ذریعہ اس شورش کو دبا دیا مالک کےانھیں فتوؤں میں سے ایک یہ تھا کہ خدا و رسول اور الوالامر کی اطاعت واجب ہے لہذا لوگ خاموش ہوگئے  اور ڈر کے مارے خلیفہ سے جنگ نہ کی پیسے سے خریدے ہوئے فتوے نے خدا کے عذاب سے لوگوں کو محفوظ رکھا۔ ( بیعت اکراہ حرام اور بادشاہ کی اطاعت واجب والے دونوں فتوؤں میں کتنا تناقض ہے اس سلسلہ میں اہلِ سنت کے یہاں بہت سی روایات  ہیں ، نمونہ کے طور پر ان میں سے ایک پیش کرتا ہوں ، جو بادشاہ کی نافرمانی پر مرے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا ، بادشاہ کی باتوں کو سنو! اور عمل کرو خواہ وہ تمھارے اموال کو ہڑپ کرلے اور تمھاری پشت پر کوڑے لگائے۔)
اسی لئے منصور نے امام مالک سے کہا تھا : مکہ اور مدینہ والے فتنہ برپا کرنے میں بہت آگے ہیں اور فتنے کو دبانے میں نہایت ہی کمزور ہیں۔ خدا انھیں غارت کرے یہ کہاں بہکے چلے جارہے ہیں۔

۳: خلیفہ ، مالک کو یہ بات باورکراتا ہے کہ پوری دنیائے اسلام میں میرے نزدیک سب سے بڑے عالم آپ ہی ہیں، پھر مالک کے مذہب پر لوگوں کو زبردستی چلاتا ہے ور ترغیب و ہشت کے ذریعہ امام مالک کا اتباع کراتاہے۔
ترغیب کے سلسلہ میں اس کا یہ قول ہے : ہم تمام شہروں میں یہ اعلان کرادیں گے کوئی آپ (مالکی) کی کتاب کی مخالفت نہ کرے اور اسی سے فیصلے کریں  اور ایام حج میں ان (مالک) کے پاس وفود نمائندے بھیجیں۔
دہشت دلانے کے بارے میں اس کا یہ قول ہے : ہم اہلِ عراق کو اسی کتاب جپر عمل کرنے کے لئے مجبور کریں گے اور اگر وہ اس پر عمل نہیں کریں گے تو ہم تلوار سے ان کے تن و سر  میں جدائی ڈال دیں گے اور کوڑے سے پشت کو نیلی کردیں گے۔
اس فقرے سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ظالم حکام نے شیعوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہوگا انھیں ائمہ اہلِ بیت(ع) سے جدا کر کے امام مالک کی پیروی پر مجبور کیا گیا ہوگا۔
۴: ہم جانتے ہیں کہ امام مالک اور خلیفہ منصور ان ہی عقائد و مفاضل کے حامل تھے بالخصوص صحابہ اور ان خلفاء کے متعلق ان کا یہی عقیدہ تھا جو کہ تختِ خلافت پر زبردست متمکن  ہوگئے تھے۔ اس کا اظہار خود مالک فرماتے ہیں پھر انھوں (منصور) نےعِلم و فقہ کے بارے میں گفتگو کا آغاز کیا تو میں نے انھیں لوگوں میں عالم ترین پایا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ابوجعفر منصور نے تبادلہ خیال کیا اور وہی چیزیں باور کرائیں جو اسے محبوب تھیں کیونکہ اس سے قبل امام مالک سے ایک ملاقات کے درمیان وہ کہہ چکا تھا قسم خدا کی امیر المؤمنین کے بعد میں نے آپ کو اعلم پایا ہے( تاریخ الخلفا ابن قتیبہ جلد۲ ص۱۴۲)
(امیر المؤمنین سے منصور کی مراد وہ  خود ہی تھا)
مزید یہکہ ابن مالک نقلِ حدیث کے سلسلہ میں عبداللہ بن عمر ایسے ناصبی شخص پر اعتماد کرتے تھے کہ جو یہ کہتا  ہے۔ ہم زمانہ رسول(ص) میں ابوبکر و عمر اور عثمان کو بتدریج سب سے افضل سمجھتے تھے اور ان کے بعد تو سب ہی برابر تھے۔
عبداللہ بن عمر موطا اور فقہ میں مالک کے مشہور ترین راوی ہیں۔

۵: ہم یہ بھی ملاحظہ کرتے ہیں کہ جس سیاست کی بنیاد ظلم وجور پر استور تھی اس کا اقتضی یہ تھا کہ لوگوں کو ایسے فتوؤں سے راضی کرلیں جس کو وہ دوست رکھتے ہیں اور ان کو اس چیز کی تکلیف نہ دی جائے جو نصوصِ قرآن و سنتِ نبی(ص) کا لازمہ ہے۔
منصور نے مالک سے کہا تھا اس عم کو کتابیشکل میں جمع کرو اور عبداللہ بن عمر کی سختی، عبداللہ بن عباس کی برمی اور ابنِ مسعود کی اختصار پسندی کو مدِ نظر رکھو اور درمیانی راستہ کو اختیار کرو اور اس چیز پردھیان دو جس پر صحابہ کا اجماع ہے تاکہ آپ کی کتاب اور علم کو لوگوں کو پابند بناسکیں ، منصور کے اس قول سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ مذہب  اہلِ سنت والجماعت عبداللہ بن عمر کی سختی ، عبداللہ بن عباس کی نرمی اور ابنِ مسعود کی اختصار  پسندی اور اس چیز کا معجون ہے جس کو مالک نے میانہ روی سمجھا ہو کہ جس پر صحابہ یعنی ابوبکر و عمر و عثمان اور ان صحابہ کا اجماع تھا اور خلیفہ ابوجعفر منصور بھی ان سے راضی تھا۔
موطا ابنِ مالک میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے کہ جو ائمہ طاہرین(ع) سے مروی ہو جبکہ بعض ائمہ (ع) مالک و منصور کے ہم عصر تھے۔ اس کے برعکس خلیفہ ابو جعفر منصور نے ان پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا  تھا اور انھیں ہر چیز سے الگ  رکھا تھا۔
سب سے پہلے موطا ابنِ مالک میں صحابہ اور تابعین کی بیان کی ہوئی احادیث کو جمع کرنے کا خلیفہ نے حکم دیا تاکہ ان پر لوگوں کو چلایا جائے۔
لہذا لابدی طور پر ان احادیث کو اموی اور عباسیوں کی گھڑی ہوئی ہونی چاہئے تھیں کہ جو ان کی مصلحت کے مطابق اور ان کی سلطنت کے استحکام کا باعث ہوں اور ان اسلامی حقائق سے لوگوں کو دور رکھنے کا موجب قرار پائیں جن سے نبی(ص)  نے آگاہ کیا تھا۔
۷: امام مالک کو صرف عراق والوں سے خوف تھا کیونکہ وہ علی بن ابی طالب(ع) کے شیعہ تھے اور ان ہی کے عِلم وفقہ سے وہ مطمئن تھے اور آپ(ع) ہی کی اولاد سے ائمہ طاہرین(ع) کی تقلید کرتے تھے اور مالک جیسوں کو قطعی کوئی  اہمیت نہیں دیتے تھے ، کیونکہ و جانتے تھے کہ یہ سب ناصبی ہیں اور احکام کی چاپلوسی کرتے ہیں اور درہم و دینار میں اپنا دین بیچ چکے ہیں۔
اس لئے مالک نے خلیفہ سے کہا تھا : خدا میر کی اصلاح کرے عراق والے ہمارے علم پر راضٰ نہ ہوں گے اور نہ ہی ہماری بات پر عمل کریں گے ۔ پس منصور نے نہایت غرور و تکبَر سے کہا تھا ہم جبرا تمھاری بات منوائیں گے اور تلوار سے ان کے سر وتن  میں جدائی ڈالدیں گے اور کوڑوں سے ان کی کمر سیدھی کردیں گے۔
اس سے ہم پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ حکام کے ایجاد کردہ مذاہب کہ جن کو اہلِ سنت  کا نام دیا گیا وہ کس طرح دنیا میں پھیلے۔ اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ابوجعفر مالک کے مخالف اور مالک ان کے خلاف اور دونوں شافعی و حنبلی کے دشمن اور یہ دونوں بھی ان کے مخالف ہیں شاید ہی کوئی مسئلہ ایسا ہو جس پر چاروں متفق ہوں اس کے باوجود سب کے سب اہلِ سنت والجماعت ہیں یہ کون سی جماعت ہے؟ مالکی یا حنفی یا شافعی یا حنبلی؟ نہ یہ ہے نہ وہ ہے بلکہ یہ معاویہ  بن ابی سفیان کی جماعت ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے علی(ع) پر لعنت کرنے کے سلسلہ میں معاویہ کی موافقت کی تھی اور اسی(۸۰)  سال تک لعنت کرتے رہے۔ ایک مسئلہ میں عظیم اختلاف اور متفرق آراء اور متعدد فتوے ہونے کے باوجود یہ اختلاف رحمت ہے لیکن یہ مذاہب اربعہ ہی کے لئے رحمت ہے ہاں اگر کوئی دوسرا مجتہد ان کی مخالفت کردے تو وہ ان کی نظروں میں کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
لیکن شیعوں کا عذر قابل عفو نہیں ہے کیوں کہ وہ امیر المؤمنین علی(ع) پر کسی کو فوقیت  نہین دیتے ہیں اور اسی اختلاف کو ہلِ سنت والجماعت برداشت نہیں کرسکتے جب کہ مذاہب اربعہ  کا علی(ع) کو خلافت سے دور رکھنے اور ان کی فضیلت چھپانے کے سلسلہ میں اتفاق ہے۔

۸: جن حکام نے زبردستی مسلمانوں کے اموال کو ہڑپ کرلیا تھا ہم انھیں چاپلوس علما کے درمیان کھلے دل سے سخاوت  کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور اس طرح وہ ان کے دین اور ضمیر کو خرید لیتے ہیں۔
مالک کہتے ہیں : پھر مجھے ایک ہزار سونے چاندی کے دینار دینے کا حکم دیا اور میرے بیٹے کو بھی ایک ہزار دینار دلوائے۔
مالک کو اس بات کا اعتراف ہے کہ کبھی عطایا اس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں لیکن انھیں بیان نہیں کیا جاتا کیونکہ مالک اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ تمام عطایا کو ظاہر کرنے میں نقصان ہے اس لئے وہ چاہتے تھے لوگ ان عطایا کو دیکھنے نہ پائیں جیسا کہ وہ فرماتے ہیں جب خواجہ سرا نے وہ دیناروں والی گونی میرے کندھے پر رکھی تو میں اس کے بوجھ سے جھک گیا اور کہا  اسے کندھے سے اتاردو۔
جب منصور نے یہ محسوس کیا کہ اسے میں نہیں لے جاسکتا ہوں تو اس نے خواجہ سرا کو حکم دیا لوگوں کی نظروں سے بچا کر اسے سواری تک پہونچا دے۔

 

 

 

 

عبّاسی حاکم اپنے زمانہ کے علما کا امتحان لیتا ہے

عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور بڑا زیرک تھا وہ لوگوں کی عقلوں پر چھاجانا اور ان کے ضمیروں کی خرید لینا  جانتا تھا وہ اپنے اثر رسوخ اور اپنے ملک کی توسیع کے لئے لالچ اور  دہشت گردی کو استعمال کرتا تھا۔
ابوجعفر نے کہا : میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کو میں نے اس گھر میں بٹھایا تو آپ نے خانہ خدا کے معمار بن گئے اور میں لوگوں کو آپ کے علم پر چلا رہا ہوں اور دیگر شہر والوں سے آپ کے پاس وفود بھیجنے کا حکم دے رہا ہوں اور ایام حج میں آپ کے پاس اپنے نمائندے بھیجنے کے لئے کہہ رہا ہوں تاکہ وہ تمھارے دینی امور کو راہِ راست پر لے آئیں اس میں کوئی شک نہیں ہے اہلِ مدینہ ہی کا علم علم ہے۔ لیکن تم ان میں اعلم ہو ( تاریخ الخلفا ابن قتیبہ جلد۲ ص ۱۴۲)
ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ جب ابو جعفر منصور تخت خلافت پر متمکن ہوا تو اس نے  مالک ابنِ انس ابی ذویب اور ابنِ سمعان  کو ایک ہی وقت میں بلا کر دریافت کیا۔تمھارے نزدیک میرا شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے؟ ائمہ عدل میں یا ائمہ            جور میں؟
مالک نے کہا: اے امیر المؤمنین میں خدا سے تمھارے ذریعہ توسل کرتا ہوں اور محمد(ص) سے تمھاری قرابت کے لحاظ سے شفاعت کا طلب گار ہوں اس سلسلہ میں مزید گفتگو سے مجھے معاف فرمائیں ، منصور نے کہا امیر المؤمنین  نے تمھیں معاف کیا۔
ابنِ سمعاننے کیا : اے امیرالمؤمنین آپ سب سے اچھے ہیں ، خانہ خدا کا حج بجالائے ہیں ، دشمنوں سے لڑتے ہیں، راستوں کو محفوظ بناتے ہیں ، آپ کے سبب طاقتور کمزور کو چٹ نہیں کرسکتا، آپ سے دین قائم ہے۔ پس آپ لوگوں میں سب سے موزوں اور عادل امام ہیں۔
لیکن ابنِ ابی ذویب نے کہا: سم خدا کی میرے نزدیک تم سب سے زیادہ شرپسند ہو  خدا اور رسول(ص) اور ذی القربی ، مساکین اور یتیموں کا مال کھا رہے ہو، کمزوروں کو فنا کے گھاٹ اتار رہے ہو اور طاقتوروں کے ناک میں دم کر رکھا ہے ان کے اموال کو روک لیا ہے پس خدا کے سامنے کیا جواب دوگے۔
ابو جعفر نے کہا: خدا تمھیں غارت کرے تم کیا کہہ رہے ہو؟ سمجھ بھی رہے ہو؟ اپنے سامنے دیکھو! کیا ہے؟
ابنِ ذویب نے کہا: جی ہاں میں اپنے سامنے تلواروں کو دیکھ رہاہوں ، جو کہ موت ہیں اور موت سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ لہذا تاخیر سے بہتر جلد جانا ہے۔
اس گفتگو کے بعد منصور نے ابنِ ابی ذویب اور ابنِ سمعان کو رخصت کردیا، اور مالک سے تنہائی میں گفتگو کے دوران کہا۔
اے ابو عبداللہ آپ امن و امان اور سلامتی کے ساتھ اپنے شہر واپس تشریف لے جائیں اور اگر چاہیں تو ہمارے پاس رہیں ہم کسی کو بھی آپ سے فوقیت نہیں دیں گے اور نہ مخلوق میں کسی کو آپ پر امیر سمجھیں گے۔
اس کے بعد ابنِ قتیبہ لکھتے ہیں کہ اگلے روز ابو جعفر منصور نے ہر ایک (امام مالک، ابنِ ذویب اور سمعان) کے پاس اپنے پولیس آفیسر کے ہاتھ پانچ پانچ ہزار  دینار کی تھیلیاں بھیجیں اور اس سے کہا:
ہر ایک کو ایک تھیلی پیش کرو اگر مالک لیتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور اگر واپس کرتے ہیں تو ان کا کوئی جرم نہیں ہے۔
لیکن اگر بنِ ابی ذویب لیتے ہیں تو ان کا سر قلم کر کے میرے پا س لے آنا اور اگر لینے سے انکار کرتے ہیں تو ان کا یہ ہی مسلک ہے اور کوئی جرم نہیں ہے۔
اور اگر ابنِ سمعان واپس کرتے ہیں تو ان کا سر قلم کر کے لاناق اور اگر لے لیتے ہٰیں تو اسی  میں ان کی عافیت ہے، مالک کہتے ہیں پولیس آفیسر (officer  ( تینوں کے پاس پہونچا ابنِ سمعان نے تھیلی لے لی لہذا محفوظ رہے لیکن ابنِ ابی ذویب نے واپس کردی وہ بھی بچ گئے ، رہا میرا مسئلہ تو  قسم خدا کی میں اس کا محتاج تھا اس لئے لے لی۔ ( تاریخ الخلفاء ابنِ قتیبہ جلد۲ ص۱۴۴)
اس قصہ سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ مالک خلیفہ کے ظلم و جور کو پہچانتے ہیں لیکن اپنے اور خلیفہ کے تعلقات کی بنا پر محمد(ص)  کا نام لیتے ہیں اور منصور کی آپ(ص) سے قرابت کا تذکرہ کرتے ہیں۔
ظاہر ہے عباسی حکام کو یہ  چیز  بہت پسند تھی اور وہ اس بات کو بہت اہمیت دیتے تھے کہ لوگ ان کی تعظیم کریں اسی لئے انھیں مزید گفتگو کی زحمت نہ دی۔
ابنِ سمعان نے بھی وہ راستہ اختیار کیا جس میں قتل کا خوف نہ تھا کیونکہ تلواریں بیام سے باہر خلیفہ کے حکم کی منتظر تھیں۔
لیکن ابنِ ابی ذویب شجاع تھے وہ خدا کے سلسلہ مٰیں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کرتے تھے وہ مخلص مؤمن تھے صرف خدا اور رسول(ص) اور مؤمنین کے لئے وقف تھے۔ اس لئے انھوں نے حقیقت بیان کردی اور اس کی لاف گزاف کا انکار کردیا اور جب منصور نے قتل کی دھمکی دی تو کشادہ پیشانی سے اسے قبول کرلیا لیکن اس سے نہیں ڈرے ہم خلیفہ کو وافر مال کے ذریعے دو افراد کا امتحان لیتے ہوئے اور مالک کو اس امتحان سے مستثنی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں چنانچہ امام مالک کو اس سے معاف رکھا گیا اگر وہ مال قبوک کرلیتے ہیں تب بھی، واپس کردیتے ہیں تب بھی محفوظ ہیں۔
لیکن اگر ابنِ ذویب مال لے لیتے تو ان کا سر قلم کر لیا جاتا اور اگر ابنِ سمعان واپس کردیتے تو ان کی گردن ماردی جاتی۔
ابو جعفر منصور بڑا مکار تھا اسی لئے اس نے مالک کی عظمت بڑھائی، اس کے مذہب کو قبول کرنے کو واجب قرار دیا جبکہ ابنِ ذویب کے خلاف ہوگیا جو کہ امام مالک سے علم میں کہیں زیادہ تھے، جیسا کہ امام احمد بن حنبل کو اس کا اعتراف ہے۔
اسی طرح لیث بن سعد کے مذہب کو دبا دیا گیا جبکہ وہ شافعی کے بقول احمد بن حنبل سے بڑے فقیہ تھے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس زمانہ میں امام جعفر صادق(ع) علم و فقہ میں سب سے افضل تھے اور سب ہی کو اس بات کا اعتراف بھی تھا۔
تو پھر امت میں سے کس کی جرأت ہوسکتی ہے کہ وہ علم و عمل میں ان (امام جعفر صادق (ع)) سے مقابلہ کرے جبکہ ان کے جد علی ابن ابی طالب(ع) ہیں جو کہ رسول(ص) کے بعد سب سے بڑے عالم و فقیہ ہیں۔
لیکن سیاست کا تقاضہ ہے کہ وہ ایک گروہ اٹھاتی ہے اور دوسرے کو دباتی ہے ایسے ہی مال ایک کو بڑھاتا ہے دوسرے کو گراتا ہے۔
اس بحث میں ہم جس چیز کو واضح وسیلوں اور ٹھوس حجتوں سے ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ " اہلِ  سنت والجماعت" کے چاروں مذاہب سیاست کی کرشمہ سازی کا نتیجہ ہیں جو کہ لالچ و خوف سے لوگوں پر تھوپے گئے ہیں اور پھر لوگ اپنے بادشاہ کے دین کا اتباع کرتے ہیں۔
اس موضوع سے متعلق جو حضرقت تحقیق کے خواہاں ہیں وہ شیخ اسد حیدر رحمۃ اللہ کی کتاب " الامام الصادق والمذاہب الاربعہ" کا مطالعہ فرمائیں  اس سے معلوم ہوجائے گا کہ بادشاہ کے نزدیک امام مالک کی کیا حیثیت و عظمت تھی۔
یہاں تک امام شافعی امام مالک تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مدینہ کے گورنر کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں اور شافعی سے گورنر کہتا ہے کہ مدینہ سے مکہ پیادہ سفر کرنے والا میرے نزدیک اس انسان سے افضل ہے جوکہ مالک کے دروازے پر ٹھہرے کیوں کہ میں مالک کے دروازہ پر کھڑے ہونے کو سب سے بڑی ذلت  تصور کرتا ہوں۔
ظہر الاسلام مٰیں احمد امین مصری تحریر فرماتے ہیں کہ : مذہب اہلِ سنت کی نصرت اور ترقی میں حکومتوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے اور جب حکومت مضبوط و قوی ہوتی ہے اور وہ کسی مذہب کی مدد کرتی ہے تو لوگ اس کی تقلید کرتے ہیں اور پھر ایک کے بعد دوسری حکومت ان مذاہب کی مددگار بنتی رہی۔
ہم کہتے ہیں کہ مذہب امام جعفر صادق(ع) مذہب اہلِ بیت(ع) ہے مسلمانوں کی عادت کے لحاظ سے ہم اسے مذہب کہتے ہیں۔ ورنہ حقیقت میں وہ صحیح اسلام ہے۔ جسے رسول اللہ لائے تھے جس کی نہ کسی حاکم نے مدد کی تھی اور نہ کسی نے اسے تسلیم کیا تھا۔ بلکہ تمام حکام نے اسے نابود کرنے کی کوشش کی اور مختلف طریقوں سے لوگوں کو اس سے نفرت دلانے کی تگ و دو میں رہے۔
پس وہ گھٹا ٹوپ تاریکی چھوٹ گئی اور خدا کے فضل سے ہر  زمانہ میں اور ہر ظالم صدی میں اس کا اتباع کرنے والے موجود رہے کیوں کہ نورِ خدا کو پھونکوں سے نہیں بجھایا جاسکتا ، اور نہ ہی تلواروں سے اس کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جھوٹے پروپیگنڈوں سے بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا کہ جس سے خدا پر لوگوں کی حجت قائم ہوجائے یا وہ یہ کہنے لگیں کہ ہم اس سے بے خبر تھے۔
یقینا قریش نے ابتداء بعثت ہی میں محمد(ص) کا قصہ تمام کرنے کی کوشش کی تھی اور جب قریش فضلِ خدا اور ابوطالب اور علی(ع)  کی حمایت کی وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے تو محمد(ص)  کو ابتر کہہ کے اپنے دلوں کو تسلی دی۔
لیکن خدا نے رسول(ص)  کو کوثر عطا کیا اور محمد (ص) حسنین(ع) کے نانا بن گئے اورلوگوں کو بشارت دی کہ حسن(ع) و حسین(ع) دونوں امام ہیں خواہ یہ صلح کریں یا جنگ اور یہ تمام أئمہ امام حسین(ع) کی نسل سے ہونگے یہ تمام باتیں قریش کے لئے چیلنج تھیں۔
قریش اسے کبھی برداشت نہیں کرسکتے تھے چنانچہ نبی(ص)   کے بعد انھیں موقع مل گیا اور عترت طاہرہ(ع) کا خاتمہ کرنے کی انتھک کوشش میں لگ گئے یہاں تک فاطمہ(ع) کے گھر پر آگ اور لکڑی لے کر جمع ہوگئے اگر علی(ع) خاموشی اختیار نہ کرتے اور حق خلافت سے دست کش نہ ہوتے اور صلح و آشتی سے کام نہ لیتے تو عترت طاہری(ع)  کا خاتمہ بالخیر تھا اوراسی روز اسلام کا قصہ تمام ہوجاتا۔
پھر قریش حکومت چھین لینے کے بعد اس وقت تک خاموش رہے جب تک نسل محمدی(ص) سے کوئی ان کے منافع کے لئے چیلنج نہ بنا اور جیسے ہی خلافت علی(ع) کے ہاتھ میں آئی ویسے ہی قریش نے فتنہ وفساد کی آگ بھڑکادی اور اس وقت تک آرام سے نہ بیٹھے جب تک خلافت کو خبیث ترین شخص کو ہاتھوں میں نہ دے دیا، چنانچہ پھر خلافت قیصری بادشاہت ہوگئی جو باپوں سے بیٹوں کو میراث ملتی ہے اور جب امام حسین(ع) نے یزید کی بیعت سے انکار کیا تو قریش کی آتش حمیت بھڑک اٹھی اور اس نے عترتِ طاہرہ(ع) کو قصہ ہی ختم کرنے کی ٹھان لی بلکہ ہر اس چیز  کو نابود کرنے کا ارادہ کر لیا جس پر نسل محمد بن عبداللہ (ص) کا اطلاق ہوتا تھا۔
پس کربلا کی قتل گاہ میں نھوں نے ذریت نبی(ص) کو ذبح کر ڈالا یہاں تک کہ کمسن اور شیر خوار بچوں کو بھی تہہ تیغ کردیا ان کا ارادہ یہ تھا کہ شجر نبوَت(ص)  کی ہر  شاخ کو قلم کردیں۔
لیکن اللہ نے جو محمد(ص) سے وعدہ کیا تھا اے پورا کیا اور علی ابنِ ابی الحسین (ع)  کو بچالایا اور بقیہ ائمہ (ع) ان ہی کی نسل سے ہوئے اور زمین کو مشرق سے مغرب تک اولادِ  محمد(ص) سے بھر دیا یہی وہ کوثر ہے جو اللہ نے اپنے نبی(ص) کو عطا کیا تھا۔ اب ہر شہر و قریہ اور ہر خطہ زمین میں نسلِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم موجود ہے اور لوگوں کے درمیان وہ محبوب و محترم ہے۔
دشمنوں کی تمام بےنتیجہ کو ششوں کے بعد آج پوری دنیا میں شیعہ جعفری لوگوں کی تعداد ۲۵۰ مِلینَ ہے اور سب ائمہ اثناعشری کی تقلید کرتے ہیں اور ان کی مودت و محبت سے خدا کا تقر ب حاصل کرتے ہیں اور ان کے حد کی شفاعت کے امید وار ہیں۔
دیگر مذاہب میں سے کسی ایک کی بھی اتنی بڑی تعداد آپ کو ہرگز نہیں ملے گی۔اگرچہ ہر ایک مذہب کی حکومتِ وقت نے مدد کی ہے۔ وہ مکر کرتے ہیں ۔ خدا تدبیر کرتا ہے اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (انفال/۳۰)
کیا فرعون نے بنی اسرائیل کے ہر نومولود  لڑکے کو اس وقت قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا کہ جب اسے نجومیوں نے یہ بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تیری بادشاہت ختم کردے گا؟
لیکن بہترین تدبیر کرنے والے نے موسی(ع) کو فرعون کے مکر سے بچالیا اور اس کے گھر بھیجدیا اور خود فرعون کی آغوش میں پرورش کرائی اور اسی کے ذریعہ اس کی بادشاہت برباد کرائی اور فرعون کے گروہ کو ہلاک کردیا اور خدا کا حکم پورا ہوکر  رہتا ہے۔
کیا (فرعون زمانہ) معاویہ نے علی(ع) پر لعنت نہیں کی اور ان کو ، ان کی اولاد کو اور ان کے شیعوں کو قتل نہیں کیا؟
کیا علی(ع) کی کسی بھی فضیلت کے بیان کرنے کو حرام قرار نہیں دیا تھا؟ کیا  اس نے اپنی پوری کوشش سے نور خدا کو بجھادینے کی کوشش نہیں کی اور لوگوں کو جاہلیت کی طرف پلٹانا نہیں چاہا تھا؟ لیکن خیرالماکرین نے علی(ع) کے ذکر کو بلند کیا باوجودیکہ معاویہ اور اس کی پارٹی ناک رگڑ  کر مرگئی اور آج تمام شیعہ ، سنی مسلمانوں کی زبان پر نامِ علی(ع) ہے بلکہ یہود و نصارا کی زبان پر بھی علی(ع)  کا ورد  ہے آج قبرِ رسول(ص) کے بعد علی(ع) کی قبر زیارت گاہ خاص و عام بنی ہوئی ہے۔ لاکھوں مسلمان قبر  کا طواف کرتے ہیں عقیدت کے آنسو بہاتے ہیں اور آپ
آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں، آپ کا قبہ اور گلدستہ اذان سونے کا ہے جو کہ آنکھ کر خیرہ کرتا ہے۔
جب معاویہ جیسے بادشاہ کا نام مٹ گیا جس نے زمین پر بادشاہت کی اور اس میں فساد پھیلایا ، کیا آج کہیں اس کا نام و نشان ہے؟ کیا کہیں اس کا ایسا مزار ہے؟
ایک تاریک و متروک مقبرہ ہے بے شک باطل کے لئے قرار نہیں ہے اور حق کے لئے ثبات و قرار ہے۔
پس صاحبان عقل عبرت حاصل کریں۔
حمد ہے اس خدا کی جس نے ہماری ہدایت کی حمد  ہے اس خدا کی جس نے ہمیں اس بات کی شناخت کرائی کہ شیعہ ہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عمل کرتے ہیں اور وہی اہلِ سنت ہیں کیونکہ وہ اہلِ بیت(ع) کی اقتداء کرتے ہیں اور گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔
اہلِ بیت(ع) ہی وہ ہیں جنھیں خدا نے منتخب کیا پھر انھیں علم کتاب کا وارث بنایا اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ " اہلِ سنت والجماعت" سلف وخلف میں حکام کا اتباع کرتے ہیں جس چیز کا وہ دعو ا کرتے ہیں اس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔