امام حسین (ع)کی زیارت عرش پر اللہ کی زیارت ہے


رسول اکرم (ص)  اور اہلبیت  (ع)کی زیارت  کے بارے میں کثرت سے روایات  نقل ہوئی ہیں  زیارت کا مقصد زائر کا صاحب فضیلت کے پاس حاضر ہونا ہے تاکہ اس سےمحبت اور چاہت کا اعلان کرے ،برکت اور فیض حاصل کرے،اطاعت اور پیروی  کا دم بريے ،اور اس کے اخلاق اور سیرت کو اپنا ۓ ،اجر وثواب حاصل کرے  ان مقاصد  کے علاوہ  دوسرے اور  مقاصد کے لیے زیارت کی جاتی ہے جنیںت زیارت کی فضیلت ،ثواب اور فلسفہ کے باب میں بیان کیا جاتا ہے .
سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) کی زیارت کے بارے میں بتس سی روایتیں موجود ہیں جو آپ کی زیارت کی عظمت، فضیلت ،اور دنیا وآخرت میں اسکے آثار  اور برکتوں پر دلالت کرتی ہیں  بعض روایتوں میں آپ کی زیارت کیلئےایک ایسا امتیاز ذکر  ہوا ہے  جو کہ  انبیاء اور اوصیاء (ع) کی زیارتوں کےبارے میں نیںم ملتا وہ یہ ہے کہ جو امام حسین (ع) کی زیارت کرے تو اس نے عرش پر اللہ تعالی کی زیارت کی  ،یہ بت  عظیم اور گراں مطلب ہے جسے اللہ کا مقرب فرشتہ یا نبی مرسل یا وہ مومن تحمل کرسکتا ہے جس کے دل  سے اللہ تعالی نے  ایمان کا امتحان لیا ہو.  
عرش پر اللہ تعالٰی کی زیارت کرنا یعنی اللہ تعالی کے اسماء اور صفات کی تجلیات کا ملاحظہ کرنا یہ اس شخص کے لیے ہے جو امام حسین(ع)  کی زیارت کرے لیکن اس شرط کے ساتہ کہ امام عالی مقام کی معرفت رکتات ہو ایسےشخص  کواللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی اور صفات علیاء کی تجلی امام حسین (ع)کی ذات  میں،زندگی میں اور سیرت طہبو  میں  نظر آتی ہے  اسوقت اگر ایسا شخص امام حسین (ع)کو دیکہے تو  اسےاللہ تعالٰی نظر آتا ہے  وہ خدا جو واجب الوجود ہے اور تمام صفات کما ل وجلال و جمال کارکنےص والا ہےاور امام حسین (ع) کا وجود مبارک اس  کی سب سےبڑی نشانی  ہے .اور اس امر کی تائید میں ائمہ (ع)کی بتم سی روایات  وارد ہوئی ہیں :
حضرت امام صادق (ع) سے روایت ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا : حواریوں نے حضرت عیسیٰ (ع) سے پوچاح : اے روح اللہ !ہم کس کے ساتہ رہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس شخص کے ساتہ رہو جسے دیکہ کر تمیںی  خدا یاد آئے اس کی گفتارسے تما رے علم میں اضافہ ہو اور اس کاکردارتمیں  آخرت کی طرف مرغوب کرے .
امام حسین (ع) وہ کامل ترین فرد ہیں جنیں  دیکہ کر خداوندمتعال یاد آتا ہے جو شخص بوحل چوک  اور غفلت میں ہوجب وہ امام حسین (ع) کے حضور میں پنچے  تو اسے اللہ تعالٰی نظر آتا ہےاور اللہ تعالٰی کے حضور میں پنچتا  ہے لذپا آپ کےپاس اور آپ کے حرم شریف میں حساضر ہونا گویا عرش پر اللہ تعالی کے حضور  میں حاضر ہونا ہے اورجو شخص حرم شریف میں معرفت کے ساتہ آپ کی زیارت کرے تو گویا  عرش پر اللہ تعالی کی زیارت کی

1-حضرت امام حسن (ع) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نےفرمایا : میں اور حارث اعور، دونوں امیر المومنین (ع) کی خدمت میں حاضر تہے آپ نے فرمایا : میں نے رسول خدا  (ص)سے یہ فرما تےہوۓ سنا  کہ: آخری زمانے میں ایک ایسی قوم آئے گی جو میرے  بیٹے حسین کی قبر کی زیارت کرے گی جو اسکی زیارت کرے اس نے میری زیارت کی  آگاہ رہو ! جس نے حسین کی زیارت کی گویا اس نے عرش پر اللہ تعالی کی زیارت کی ہے .

2- بشیر دہاّن حضرت امام جعفر صادق (ع) سے نقل کرتاہے کہ آپ نے فرمایا: اے بشیر ،جو بیی معرفت کے ساتہ حسین (ع) کی قبر کی زیارت کرے  تو وہ عرش پر اللہ کی زیارت کرنے والے کی مانند ہے.

3- حضرت امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:جو شخص عاشورا کے دن حقیقی معرفت کے ساتہ قبر حسین ابن علی (ع) کی زیارت کرے تو وہ اس شخص جیسا ہے  جس نے عرش پر اللہ تعالی کی زیارت کی ہو.

4- زید شحّام کتاا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (ع) سے پوچاے : قبر امام حسین کی زیارت کرنے والے کیلئے کیا اجر ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کا اجر یہ ہے کہ گویا اس نےعرش پر اللہ تعالی کی زیارت  کی  ہے .

5 -حضرت امام رضا (ع) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: جوشخص دریائے فرات کے کنارےحضرت ابو عبد اللہ (الحسین ) (ع) کی قبر کی زیارت کرے  وہ عرش پر اللہ تعالٰی کی زیارت کرنے والے کے مانند ہے .
  
6-اور آپ سے مروی ہے  کہ فرمایا: جو بغداد (کاظمین)میں میرے بابا کی قبر کی زیارت کرے  تو وہ رسول خدا اور امیرالمؤمنینؑ کی زیارت کرنے  والے کی مانند ہے آگاہ رہو بیشک رسول خدا اور امیر المؤمنین (ع) کو اپنی الگ فضیلت حاصل ہے
راوی کتاس ہے پرل آپ نے مجہ سے فرمایا : جو دریائے فرات کے کنارے حضرت ابو عبداللہ (الحسین) کی قبر کی زیارت کرے  تو وہ کرسی پر اللہ تعالیٰ کی زیارت کرنے والےکی مانند ہے .
ظاہرا ًعرش پر یا کرسی پر اللہ تعالی کی زیارت کرنا،اللہ تعالیٰ سے بتن زیادہ قریب ہونے  اور قربت کے اعلی درجہ تک پنچنے  سے کنایہ ہے.
کاا جاتاہے: اہل معرفت کے ہاں یہ ثابت  ہے کہ  انسان کیلئےخدا کی جانب سیر وسلوک  کے درجے اور منزلیں  ہیں کہ جارں اللہ کی اطاعت کی وجہ سےایک بلند حالت ،عظیم مرتبہ اور قرب خاص تک پنچتا  ہے  جسے فنا فی اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ قرب خداوندی اوربندگی کی کمال کا آخری  مرحلہ ہےوہ حقیقی بند گی جو  ربوبیت ہے تک پنچع جاتا ہے یہ بندے کا علم خدا کے علم میں گہل مل جانے اس کی قدرت خدا کی قدرت میں مضمحل ہو جانے ،اسکا ارادہ اللہ کے ارادے میں گم ہو جانے سےتعبیر ہے کہ جالں اللہ تعالٰی کے ارادے  اور حکم کے سامنے اسکاکوئی بیی ارادہ  اور حکم نیںا ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت  کے سامنے اپنی کوئی قدرت نظر نیںا آتی ،اللہ تعالٰی کی مرضی کے خلاف کسی چیز کا ارادہ نیں  کرتا ،جب بندہ اس عرفانی حالت میں یائں تک  باقی رہتا ہے کہ یہ صفت اس کے تمام جسم وروح  میں رچ بس جاتی ہے اور اپنے رب میں اس حد تک فنا ہو جاتا ہے  کہ وہ اپنے رب کے اسماء حسنی  اور صفات علیا کا مظرس بن جاتا ہے اس مقام پر آکر اسکا اکرام خدا کا اکرام بن جاتا ہےاسکی زیارت خدا کی زیارت اور  اس کی توہین اللہ کی توہین بن جاتی ہے . جس طرح امیر المؤمنین (ع)سے منقول ایک حدیث شریف میں آپ نے فرمایا : جس نے ایک عالم کا احترام کیا تو  اس نے اپنے رب کا احترام کیا.
حقیقی عالم، اللہ تعالٰی کے علم کا مظرل ہوتا ہے اور اس کا احترام اللہ تعالٰی کا احترام شمار ہوتا ہے جیسا کہ منقول ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے  بعض انبیاءؑ سے مخاطب ہو کر فرمایا :میں بیمار ہوا تالتوتم عیادت کیلئے نیںت آیا جب   اللہ کے اس نبی نے سوال کیا اورحققتو امر کے بارے میں پوچاخ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرا فلان بندہ بیمار تاں تو تم عیادت کیلئے نیں  گیا .
رسول خدا (ص) نے فرمایا : جو کوئی اپنے باوئی کےگرف پر اس سے ملاقات کرے   تو الہں تعالٰی اس سے فرماتا ہے : تو میرا ممامن اور زائر ہے تیری میزبانی مجہ پر ہے تیرے اپنے بارئی سے محبت کی وجہ سےجنت  تجہ پرواجب قرار دیا ہے .
اور رسول خدا (ص) نے فرمایا : جو شخص کسی ضرورت کے بغیر  اپنے بادئی کےگرہ پر اس کی ملاقات کیلئے جائےتو وہ اللہ تعالٰی کے ممارنوں میں لکہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر ضروری ہوتا ہے کہ اپنے مماہن کا اکرام اور احترام کرے.
اور حضرت امام صادق (ع)نے فرمایا : جو شخص اللہ کی رضا کے خاطر اپنے بادئی کی ملاقات کیلئےجائے  تواللہ تعالی فرماتا ہے : تو نے میری زیارت کی ہے تیرا ثواب مجہ پر ہے  میں تیرے لئے جنت کے بغیر کسی ثواب پر راضی نیں  ہوں .
اور آپ نے فرمایا : جس کے پاس اس کا مؤمن باکئی آئےاور وہ اسکا احترام کرے تو بیشک اس نے اپنے پروردگار کا احترام کیا . 
اور جنونں نے درخت کے نیچے رسول اللہ کی بیعت کیں ان کے بارے میں کا  ہے کہ انہوں نے خدا کی بیعت کیں .جس طرح اللہ تعالیٰ نے جنگ کے میدان میں رسول اللہ کےدشمن کی طرف  کنکریوں کےپہینکنے کو اپنی طرف نسبت دی ہے .(وما رميت اذ رميت ولکن الله رمی) 
نواسہ رسول(ص) سید الشہداء ؑنے اللہ کی رضا کیلئے روزعاشورا اپنے تمام رشتہ داروں کو پیش کیا اور اسلام  کی خاطر اپنی اور اپنے اہل بیتؑ اور اصحاب کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اس کے علاوہ عصمت اوردوسرے مقامات کی وجہ سےآپ (قاب قوسین او ادنی ) کے مقام تک پنچے  ہے کہ جس سے آپ اللہ تعالی کا مظرع بن گئے  اس کے اسماء اور صفات میں فنا ہو چکے ہیں لذاا جس نے ان کی زیارت کی اس نے عرش اور کرسی پر اللہ تعالی کی زیارت کی. اس لیے زائر پر ضروری ہے اس زیارت سے جتنا ہو سکے فائدہ اٹہائے آپ کی شا دت کے بعد قبر مطر  کی زیارت کو عرش پر اللہ تعالی کی زیارت قرار دینا ایک بتا بڑی بات ہے جو عام  لوگوں کی سمجہ سے بالاتر ہے.
نقل ہوا ہے کہ جلیل القدر عالم دین سیدمدہی المعروف بحر العلوم نجف اشرف کے بزرگ عالم و عارف شیخ حسین سے ملنے آئے اور  بعض مسائل کے بارے میںپوچاک  .ان سوالات میں سےایک سوال امام حسین (ع) کےزائراور آپ پر رونے والےکے بارے میں منقول روایات کےبارے میں تاع  کہ عقل کیسے قبول کرتی ہے کہ ایسے چہوٹے کاموں کیلئے اتنا بڑا ثواب ہو ؟
شیخ نے جواب دیا : حضرت امام حسین (ع)اپنی تمام عظمتوں کے ساتہ ایک ممکن الوجود مخلوق ہیں  جنوجں نے مخلوق اور بندہ ہوتے ہوۓ خدا کی رضا کیلئے اپنا مال اپنی عزت ،اولاد، اصحاب ، رشتہ داراور اپنی جان یادں تک کہ شا دت کے بعد اپنا جسم مبارک، الغرض  اپنا سب کچہ اللہ کی راہ میں دے دیا تواللہ تعالی جو کہ سخی اور کریم ہے یہ سب کچہ امام حسین (ع) کو عطا کرے تو کیسے زیادہ ہے ؟ سید بحر العلوم اس  جواب پر راضی ہوۓ اوراسے بتا پسند فرمایا.