اہلِ سنت ، شیعوں کی نظر میں


شیعہ عوام میں سے بعض متعصب لوگوں سے قطع نظر جو کہ اہلِ سنت والجماعت کو  ناصبی کہتے ہیں ، شیعوں کے گذشتہ اور موجودہ علماء  اہلِ سنت والجماعت کو اپنا بھائی سمجھتے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اہلسنت بنی امیہ کے فریب میں آکر سلفِ صالح کے متعلق  حسن ظن رکھتے ہیں اور آنکھ  بند کرکے ان کی اقتداء کرتے ہیں۔ چنانچہ امویوں نے انھیں صراطِ مستقیم سے ہٹادیا اور ثقلین ۔ کتابِ خدا اور عترتِ رسول(ص) سے دور کردیا جو اپنے متمسک کو ضلالت و گمراہی سے محفوظ رکھتے ہیں اور اس کی ہدایت  کے ضامن ہیں۔
آپ نے شیعوں کو دیکھا ہوگا کہ جو کچھ لکھتے ہیں اپنے نفسوں سے دفاع اور اپنے معتقدات کی تعریف کے ساتھ ساتھ  اپنے سنی بھائیوں کو انصاف اور توحیدِ کلمہ کی دعوت دیتے ہیں۔
بعض شیعہ علماء نے تحقیق کی تکمیل اور مذاہت کو ایک چادر پر بٹھا کر گفتگو کرنے کےسلسلہ میں مختلف ملکوں اور شہروں میں مراکز قائم ہیں۔
اور ان میں سے بعض نے اہلِ سنت کے منارہ "علم و معرفت ازہر شریف" تک پہنچ کر بحث و مباحثہ کیا ہے او ازہر کے علماء سے (علمی) مقابلہ کیا ہے اور ان سے بطریق احسن مناظرہ کیا ہے اور بٖغض و عداوت  دور کرنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ امام شرف الدین موسوی نے مولانا سلیم الدین بشری سے ملاقات کے دوران مناظرہ کیا تھا اور اسی ملاقات و خط و کتابت کے نتیجہ  میں المراجعات نامی کتاب وجود میں آئی تھی ان کا مسلمانوں کو ایک  دوسرے سے قریب لانے میں بہت بڑا کردار  رہے۔ اس طرح مصر میں شیعہ علماء کی کوشش کامیاب ہوئی اور امام محمود شلتوت مفتی مصر نے اس وقت یہ فتوا دیا کہ شیعی جعفری مذہب قبول کرنا جائز ہے اور اسی وقت سے جامعہ ازہر میں فقہ جعفری کا درس دیا جانے لگا۔
ائمہ معصومین (ع) اور مذہب جعفری کے سلسلہ میں یہ ہے شیعہ اور خصوصا ان کے علماء کا کردار ،مذہب جعفری ہر طرح سے اسلام کی مکمل تصویر ہے، اس سلسلہ میں انھوں نے بہت سی کتابیں اور مقالات تحریر کئے ہیں اور اجتماعات منعقد کئے ہیں خصوصا ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تہران میں وحدتِ اسلامی کے نام سے اور تقریب المذاہب کے عنوان سے کانفرنس منعقد  ہوتی رہتی ہیں اور سب بغض و عداوت  کو ترک کرنے کی سچی دعوت ہیں اور سب  کا مقصد  مسلمانوں میں بھائی چارگی کی روح  پھونکنا اور ایک دوسرے کے احترام کو ملحوظ رکھنا ہے۔
ہر سال وحدتِ اسلامی کانفرنس میں شیعہ و سنی  علماء اورمفکرین کو بلایا جاتا ہے اور یہ لوگ ایک ہفتہ تک سچی اخوت کے سایہ میں زندگی گذارتے ہیں ، ایک دوسرے کےساتھ کھاتے پیتے  رہتے ہیں ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں ۔ دعا کرتے ہیں ۔ تبادلہ خیال کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے افکار سے استفادہ کرتے ہیں۔
ان کانفرنسوں کا مقصد تالیف قلوب  اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانا ہے ۔ تاکہ ایک دوسرے سے آشنا ہوجائیں  اور دشمنی کو چھوڑدیں یقینا اسی میں بھلائی اور  عظمت ہے اور عنقریب اس کا ثمرہ  انشاء اللہ مسلمانوں کو معلوم ہو جائے گا۔
آپ کسی بھی شیعہ کے  گھر میں داخل ہو کر دیکھئے آپ کو وہاں شیعہ کتب کے ساتھ ساتھ اہلِ سنت کی کتابیں  ضرور  مل جائیں گی چہ جائیکہ علما اور روشن فکر شیعوں کے گھر میں نہ ملیں اس کے بر عکس اہلِسنت  والجماعت کے گھروں میں صرف ان کے علماء ہی کی کتابیں ملیں گی۔ شیعوں کی ایک کتاب بھی نہیں ملے گی اگر با فرض محال مل بھی گئی تو ایک یا دو کتابیں ملیں گی۔ اسی لئے اہلِ سنت حقائق شیعہ سے بے خبر رہتے ہیں ،انھیں فقط بہتانوں کا علم رہتا ہے جو شیعوں کے دشمن  تراشتے ہیں۔
ایک عام شیعہ کو  بھی آپ تاریخ اسلام سے آشنا پائیں گے کیونکہ وہ تاریخ کے  بعض واقعات کو محفوظ رکھنے کے لئے اجتماعات  منعقد کرتے ہیں۔
جبکہ سنی عالم کو بھی آپ تاریخ کو اہمیت دیتا ہوا نہیں دیکھیں گے وہ اسے بیہودہ داستان تصور  کرتے ہیں اور اسے کریدنے اور اس سے باخبر ہونے کو بہتر نہیں سمجھتے ہیں  بلکہ اس سے قطع نظر  کرنے کو واجب سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے سلفِ صالح کے سلسلہ میں سوء ظن پیدا ہوتا ہے۔
جبکہ اس نے اپنے نفس  کو تمام صحابہ کی عدالت و پاکیزگی پر مطمئن کرلیا ہے اور اس چیز کی طرف مڑکر نہیں دیکھتا ہے جو تاریخ نے ان کے بارے میں محفوظ کی ہے۔ اسی لئے آپ ان کو اس شخص کے مقابلہ سے فرار ہی کرتا پائیں گے جو دلیل و برہان کے ذریعہ بحث کرتا ہے ۔ پس یا تو انھیں پہلے سے یہ معلوم رہتا ہے کہ ہم شکست کھاجائیںگے یا وہ عواطف  و میلانات  سے مغلوب ہوجاتے ہیں اور جواپنے نفس کو تحقیق کی زحمت میں مبتلا کرتا ہے اور اس کےسارے معتقدات ہوا بن کر اڑجاتے  ہیں اور وہ اہلِ بیت(ع)   مصطفی(ص)  کا شیعہ بن جاتاہے۔
پس شیعہ ہی اہلِ سنت  ہیں کیوں کہ ان کے پہلے امام علی ابن ابی طالب (ع) نبی(ص) کے بعد سنتِ نبی(ص)  کےسایہ میں زندگی گذارتے ہیں اور اسی کی فضا میں سانس لیتے ہیں۔ لوگ ان کے پاس خلافت لے کر آتے ہیں۔ بیعت کرنے پر تیار  ہیں ، لیکن اس شرط پر کہ سیرت شیخین پر عمل کرنا ہوگا۔ علی(ع)  فرماتے ہیں ، میں کتابِ خدا  اور سنت رسول(ص) کے علاوہ کسی کی سنت پر عمل نہیں کروں گا اور مجھے ایسی خلافت کی ضرورت نہیں ہے، جس میں سنت نبی(ص) پر تو عمل ہے لیکن کتابِ خدا سے کو سروکار نہ ہے، چنانچہ آپ فرماتےہیں ۔
" تمھاری خلافت میرے نزدیک ایسی ہی ہے جیسے بکری کے ناک سے بہنے والی رینٹھ، مگر یہ کہ میں حدودِ خدا میں سے کو ئی قائم کرسکوں۔"
آپ(ع)  کے فرزند امام حسین(ع)  کو مشہور قول ہے جو کہ رہتی دنیا تک سنا جاتارہے گا۔
" اگر دینِ محمد (ص) میرے قتل ہی سے قائم رہ سکتا ہے تو اے تلوارو! آؤ مجھے باڑپہ لے لو۔"
اسی لئے شیعہ اپنے سنی بھائیوں کو محبت سے دیکھتے ہیں گویا انھیں راہِ راست اور راہِ نجات پر لانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ شیعوں کے نزدیک کسی کی ہدایت کرنا ، جیسا  کہ صحیح روایات میں وارد ہوا ہے، دنیا و فیہا سے بہتر ہے۔ رسول(ص) نے فتحِ  خیبر کے لئے علی(ع)  کو بھیجتے وقت یہی فرمایا تھا:
" ان (یہودیوں) سےاس وقت تک جنگ کرنا جب تک کہ وہ کلمہ لا اله الا الله و أنَ محمدا رسول الله" نہ پڑھ لیں، پس اگر وہ یہ کلمہ پڑھ لیتے ہیں تو پھر ان کی جان و مال سے متعرض نہ ہونا، ان کا باقی حساب خدا لے گا۔ اگر خدا تمھارے ذریعہ کسی ایک شخص کی ہدایت کردے تو یہ تمھارے لئے ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پرسورج نے روشنی ڈالی ہے یا سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔( صحیح مسلم، ج۷، ص۱۲۲، کتاب الفضائل باب فضائل علی ابن ابی طالب(ع) )
جس طرح حضرت علی (ع) لوگوں کی ہدایت کرتے اور انھیں کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی طرف بلاتے تھے اسی طرح آج ان کے شیعہ اپنے نفسوں سے ہر قسم کی تہمتوں کا دفع کرتے ہیں اور اپنے سنی بھائیوں کو حقائقِ اہلبیت(ع)  سے متعارف کراتے ہیں اور انھیں سیدھے راستے کی ہدایت کرتے ہیں۔
" یقینا ان کے قصوں میں عقلمند کے لئے عبرت ہے(قرآن) کوئی ایسی بات نہیں ہے جو  گھڑی جائے بلکہ یہ موجودہ (آسمانی کتابوں) کی تصدیق ہے ۔ اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمانداروں  کے لئے سراسر ہدایت و رحمت ہے۔(یوسف، آیت۱۱۱)