نبی(ص) کو اہل سنت والجماعت کی تشریع قبول نہیں


گذشتہ بحثوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ شیعہ ائمہ اہل بیت(ع) کی اقتداء کرتے ہیں۔ اور رائے و قیاس پر عمل نہیں کرتے بلکہ ان دونوں کو حرام جانتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک رائے و قیاس نصِ نبوی(ص) سے حرام ہیں اور یہی فکر ان میں نسلا بعد چلی آرہی ہے۔ جیسا کہ اس صحیفہ جامعہ کا ذکر ہوچکا ہے کہ جس کا طول ستر (۷۰) گز ہے اور جس میں مسلمانوں کی قیامت تک کی مایحتاج  چیزیں مرقوم ہیں۔
یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اہل سنت والجماعت ہر عمل میں رائے اور قیاس کے محتاج ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس نصوص نبوی(ص) نہیں ہیں۔ جبکہ یہ اس کے محتاج ہیں ۔ کیونکہ ان کے بڑے سرداروں نے نصوصِ نبوی(ص) کا انکار کیا اور انھیں نذرِ آتش کردیا اورلوگوں کو ان کی تدوین وجمع آوری سے منع کردیا تھا۔
اس کے بعد اجتہاد ورائے کےقائلوں نے اپنے مذہب کی تائید اور حق کو باچل سے مشتبہ کرنے کے لیے رسول(ص) ک طرف سے حدیثیں گھڑیں اور کہا کہ جب رسول(ص) نے معاذ بن جبل کو یمن بھیج اتوان سے پوچھا تم کیسے فیصلے کروگے؟ معاذ نے کہا: میں کتابِ خدا سے فیصلہ کرونگا نبی(ص) نےفرمایا:
کتابِ خدا میں اس کا حکم نہ ہو تو؟
معاذ نے کہا:
تو سنتِ رسول(ص) سے فیٓصلہ کروں گا۔
رسول(ص) نے فرمایا:
اگرسنت رسول(ص) میں بھی نہ ہو توؕ
معاذ نےکہا:
اس وقت میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔
اس وقت نبی(ص) نے فرمایا:
حمد و ستائش ہے خدا کی کہ جس نے رسول اللہ(ص) کے نمائندہ کو ایسی توفیق عطا کی جس سے اللہ اور اس کا رسول(ص) راضی ہے۔
یہ حدیث باطل ہے۔ رسول اللہ(ص) ایسی بات نہیں کہہ سکتے اورنبی(ص) معاذ سے کیونکر کہہ سکتے تھے اگر تمھیں کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) میں اس چیز کا حکم نہ ملے؟ جب کہ خدا نے اپنے رسول(ص) سے فرمایا تھا:
اور  ہم نے تم پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے۔ (نحل/۸۹)
ہم نے کتاب میں کوئی بات بھی بیان کئے بغیر نہیں چھوڑی ہے۔(انعام/۳۸)
جو کچھ رسول(ص) تمھارے پاس لائیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔(حشر/۷)
نیز اپنے رسول (ص) سے فرمایا:
ہم نے حق کے ساتھ تم پر کتاب نازل کی تاکہ تم خدا کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے درماین فیصلہ کرو۔(نساء/۱۰۵)
ان آیتوں کے بعد نبی(ص) معاذ سے ایسی بات کیونکر کہہ سکتے تھے کہ اگر تمھیں کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) میں کوئی حکم نہ ملے تو؟ کیا یہ اس بات کا اعتراف نہیں ہے کہ کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) ناقص ہے؟ اوردونوں ہمارے قضاوت کےمسائل کو حل نہیں کرتی ہیں!
کو ئی کہنے والا جیہ بات کہہ سکتا ہے ہ معاذ بن جبل سے یہ بات تبلیغِ رسالت کے ابتدائی زمانہ میں کہی گئی تھی کہ جس وقت قرآن کامل طور پر نازل نہیں ہوا تھا۔
ہم کہتے ہیں: یہ دعوی صحیح نہیں ہے: اوّل تو خود معاذ کا یہ قول کہ میں کتابِ خدا سے فیصلہ رونگا، اس بات پر دلالت کررہا ہےکہ کتابِ خدا ان کے پاس کامل طور پر موجود تھی۔
اور پرھر ان کے اس ول سے کہ مین سنتِ رسول(ص) سے فیصلہ کروں گا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث عرصہ دراز کے بعد اس وقت گھڑی گئی جب نص کے مقابل اجتہاد و رائے اقوال کی کثرت ہوگئی تھی کیونکہ نبی(ص) کےبعد کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی اصلاح ہمیشہ استعمال ہوتی ہے۔
ثابیا :یہ بات اس لحاظ سے صحیح نہیں ہے کہ یہ ہر ایک احکامِ خدا سے جاہل انسان کے لئے نص بن جائے گی اور وہ اپنی رائے سےاجتہاد کرے گا اور اپنے نفس کو نصوص خود تلاش کرنے کی تکلیف نہدے گا۔
ثالثا:  درجِ ذیل قولِ خدا کے لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔
اور جو لوگ خدا کی نازل کردہ (کتاب) کےمطابق فیصلہ نہیں کرتے ہیں وہ کافر ہیں اور جو لوگ خداکی نازل کی ہوئی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ  ظالم ظالم ہیں اور جو لوگ خداکی نال کی ہوئی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔(مائدہ/۴۴، ۴۵، ۴۷)
رابعا : اس لئے صحیح نہیں کہ جو شخص احکامِ خدا سے جاہل ہو اسے قضاوت کرنے اور  فتوی دینے کا حق نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اس سلسلہ میں حکمِ خدا اور رسول(ص) سے آگاہ ہوجائے۔
اور جب خدا نے اپنے نبی(ص) کو امت کے لئے حقِ تشریع عطا کردیا تھا۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔
اور کسی مؤمن مرد اور مؤمن عورت کو خدا و رسول(ص) کےفیصلہ کے بعد اپنے امر کا اختیار نہیں ہے۔
لیکن اس کے باوجود آپ(ص) نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی اپنی رائے و اجتہاد سےکوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ آپ ہمیشہ نصوصِ الہی کے پابند رہے، جس کو جبرئیل لےکر نازل ہوئے تھے، اور جو روایات اس حقیقت کی مخالفت کرتی ہیں وہ سب گھڑی ہوئی ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود ہم قارئین کے مزید اطمینان کے لئے اہلِ سنت سے ایک دلیل پیش کرتے ہیں۔ بخاری اپنی صحیح  میں لکھتے ہیں:
 جب بھی نبی(ص) سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جاتا تھا کہ جس کے متعلق اس وقت تک وحی نازل نہیں ہوئی تھی تو آپ(ص) صاف فرمادیتے تھے: مجھے معلوم نہیں ہے اس وقت تک جواب نہیں دیتے تھے جب تک وحی نازل نہیں ہوجاتی تھی، اپنی رائے اور اجتہاد سے کچھ نہیں کہتے تھے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔
جیسی خدا نے تمھاری ہدایت کی ہے۔(نساء/۱۰۵) بخاری جلد۸ ص۱۴۸)
جی ہاں احکم الحاکمین ربّ العالمین اپنے رسول(ص) کے متعلق فرماتا ہے:
ہم نے آپ(ص) پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے جو دوسری (آسمانی) کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس کی نگہبان ہے پس جو کچھ خدا نے تم پر نازل کیا ہے اسکے مطابق فیصلہ کرو۔(مائدہ/۴۸)
جی ہاں قرآنِ کریم محمد(ص) کی شان میں فرماتا ہے:
ہم نے حق کے ساتھ آپ(ص) پر کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ(ص) خدا کی ہدایت کے مطابق لوگوںکے درمیان فیصلہ کریں۔(نساء/۱۰۵)
اور جب اہلِ سنت ہی کے بقول نبی(ص) اپنی رائے اور قیاس سے کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے تو ان کے لئے اس پر عمل کرنا کیسے جائز ہوگیا؟ اورکس لحاظ سے احکامِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی مخالفت کرنے لگے اور پھر خود کو اہلِ سنت کہتے ہیں واقعا یہ عجیب بات ہے۔