ام کلثوم زوجہ حضرت عمر کون تھیں ؟

مورخین ومحدثین اور علمائے فریقین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو ام کلثوم حضرت عمر کے نکاح میں آئیں وہ کم سن تھیں اور روایات میں اس بی بی کا سن چار سال سے سات سال تک کا بیان ہوا ہے ۔علماء یہ بھی تسلیم کرتے ہیں

کہ یہ عقد سنہ 17 ھ میں ہوا ہے ۔ہم نے اوپر ثابت کیا کہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کی عمر سنہ 17 ھ میں گیارہ بارہ سال تھی اور یہ سن عرب کی آب وہوا کی مناسبت سے صغیر سنی کا نہ تھا بلکہ اس عمر میں عربی لڑکیاں قابل شادی ہوچکی ہوتی ہیں لہذا زوجہ عمر ام کلثوم وہ نہیں ہوسکتی تھیں جو بنت علی و فاطمہ (علیھما السلام)تھیں۔
تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر کے نکاح میں ام کلثوم نا م کی بیوی متعدد تھیں مثلا
1:- ام کلثوم جمیلہ بنت عاصم بن ثابت ۔جو عاصم بن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد 2 ص 251)
2:-ام کلثوم بنت جرول خزاعیہ ۔ان کا اصل نام ملیکہ تھا ۔یہ زیدبن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ کامل جلد 3 ص 22)
3:- ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ۔زہری کے مطابق یہ بی بی زمانہ جاہلیت میں عمربن عاص کے پاس بھاگ کر آئی تھیں اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ان کے رشتہ داروں نے حضور (ص) سے واپسی کا مطالبہ کیا تو آنحضرت نے فرمایا ۔"جو عورت اسلام قبول کرے وہ واپس نہیں جائیگی چونکہ ابن عاص ابھی کافر تھا لہذا واپس نہ کیا گیا اور حضرت عمر نے ان سےنکاح کرلیا (تفسیر کبیر فخرالدین رازی جلد 8 ۔شرح بخاری قسطلانی ج 4 ص 349)
4:- ام کلثوم بنت راہب۔ (سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد )
5:- ام کلثوم بنت ابو بکر ۔ دختر اسماء بنت عمیس خواہر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ (طبقات الاتقیاء ابن جہاں ۔اعلام النساء جلد 4 ص 250)

استعیاب ،طبری ،کامل وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد ان کی زوجہ اسماء بنت عمیس کو ایک لڑکی سنہ 12 ھ میں پیدا ہوئی چونکہ اسماء نے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) سے شادی کرلی تھی لہذا اس بچی کو جس کا نام ام کلثوم تھا لیکر وہ حضرت علی کے گھر آگئیں چنانچہ مصنف رحمۃ اللعالمین لکھتے ہیں کہ
"اسماء بنت عمیس (بیوہ ابو بکر) کے بطن سے ایک لڑکی بعد وفات ابو بکر پیدا ہوئی تھی۔ اسی لڑکی سے حضرت عمر کانکاح ہوا (ملاحظہ کریں الفضائل تبلیغ مولوی محمد زکریا ۔کتاب ہدایۃ السعداء علامہ دولت آبادی )
پس چونکہ یہ ام کلثوم ربیبہ حضرت علی علیہ السلام کی تھیں لہذا رواج عرب کے مطابق ان کو بنت علی کہا گیا ۔
حضرت عمر نے اس رشتہ کے حصول کے لئے ام المسلمین حضرت عائشہ کو راضی کیا ان ہی کی کوششوں سے یہ نکاح ہوا ۔چنانچہ علامہ ابن حجر نس اصابہ میں طبری نے اپنی تاریخ میں اور ابن اثیر نے کامل میں لکھا ہے ۔
"حضرت عمر نے ان (ام کلثوم بنت ابو بکر) سے اپنے عقد کے لئے پیغام حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور وہ راضی ہو گئیں "۔
گو کہ حضرت علی علیہ السلام ذاتی طور پر اس رشتہ پر ناخوش تھے مگر اصل وارث خاندان ابو بکر تھا جن کی سرکردہ بی بی عائشہ تھیں لہذا ان کے دباؤ کے تحت آپ بھی بادل نخواستہ آمادہ ہوگئے ۔دشمنان اہلبیت نے اس رشتہ کو انتہائی غلط رنگوں میں پیش کیاجن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تفصیل میں نے اپنی کتاب "ذکا الاذہان بجواب جلاء الاذہان المعروف "ہزار تمھاری دس ہماری " میں پیش خدمت کردی ہے ۔
حضرت عمر کا بی بی عائشہ کے پاس ام کلثوم بنت ابو بکر کے لئے پیغام عقد بھیجنا اور بی بی صاحبہ کا رضامند ہونا مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہے ۔
1:-تاریخ الخمیس علامہ حسین دیار بکری مطبوعہ العامرہ العثمانیہ مصر جلد 2 ص 267
2:- تاریخ کامل علامہ ابن اثیر مطبوعہ مصر جلد نمبر 3 ص 21

3:- استیعاب فی معرفتہ الاصحاب علامہ ابن عبد البر مطبوعہ حیدر آباد دکن جلد 2 ص
بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد کوئی بیٹی ان کی پیدا نہ ہوئی جس کا نام ام کلثوم رکھا گیا حالانکہ مندرجہ ذیل شواہد سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے ۔
1:- تاریخ الامم و الملوک ابن جریر طبری مطبعہ الحسینہ قاہرہ مصر الجزء الثانی ص 50
2:- تاریخ الکامل علامہ ابن الاثیر مطبوعہ مصر الجزء الثانی ص 161
3:- تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری مطبوعہ مطبعۃ العامرہ العثمانیہ مصر جلد 2 ص 276
4:-الاصابہ فی تمیز الصحابہ حافظ ابن حجر عسقلانی مطبوعہ مطبعہ الشرفیہ مصر الجزء الثامن ص 276۔الجزء الثالث ص 27 ترجمہ زید بن خارجہ اور الجزء الثالث ص 211 ترجمہ الشماخ ۔
کچھ لوگوں کاگمان ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے نہ تھیں ۔چنانچہ صاحب بوارق محرقہ نس استیعاب اور کنز العمال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ام کلثوم کی ماں جناب اسماء بنت عمیس تھیں ۔

پس قرائن ثابت کرتے ہیں کہ سنہ 17 میں چار پانچ سالہ لڑکی ام کلثوم جس کا عقد حضرت عمر سے ہوا وہ حضرت ابو بکر کی صاحبزادی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کی ربیبہ تھیں ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ ام کلثوم اگر ربیبہ تھیں تو پھر حضرت عمر نے حضرت علی کے سامنے نسب وسبب رسول کا ذکر کیوں کیا تو جواب یہ ہے یہ روایات ثبوت صحت کی محتاج ہیں کیوں کہ یہ سب تو جناب عمر کو پہلے ہی حاصل ہوچکا تھا حالانکہ اسلام میں رشتہ داری کوئی معیار نہیں ہے ۔ اور مناکحت شرط فضیلت نہیں ہے ۔کیونکہ آسیہ کی زوجیت فرعون کےلئے مفید نہیں ہے ۔ اور لوط علیہ السلام اور نوح
علیہ السلام کی بیویوں کے لئے رشتہ ازدواج کسی فائدہ کا سبب نہیں ہے ۔اسی طرح ابو لہب کے فرزند عقبہ وعتبہ جو بقول اہل سنت داماد رسول تھے وہ بھی رشتہ دامادی سے کوئی شرف نہ پاسکے ۔
ہم شمس العلماء مولوی شبلی نعمانی کی ایک عبارت نقل کرتے ہیں ۔
"فلسفہ تاریخی کایہ ایک راز ہے کہ جو واقعات جس قدر زیادہ شہرت پکڑ جاتے ہیں اسی قدر ان کی صحت زیادہ مشتبہ ہوتی ہے ۔ دیوار قہقہہ ،چاہ بابل ، اب حیواں ، مارضحاک، جام جم سے بڑھ کر کس واقعہ نے شہرت عام کی سند حاصل کی ہے ؟ لیکن کیا ان میں ایک بھی اصلیت سے علاقہ رکھتا ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ اکثر واقعات کسی خاص وقتی سبب سے شہرت کی منزل پرآجاتے ہیں ۔پھر عام تقلید کے اثر سے جو خاصہ انسانی ہے ۔شہرت عام کی بنا پر لوگ اس پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی کو تنقید اور تحقیق کا خیال تک نہیں آتا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ مسلمات عامہ میں داخل ہوجاتے ہیں "۔ پس مولوی شبلی کی اس عبارت کو مد نظر رکھ کر اس واقعہ عقد ام کلثوم کو دیکھنا چاہئے ۔اور اندھا دھند روایات میں نہیں کھونا چاہئیے ۔کیونکہ روایات میں غلط اور صحیح ہرطرح کی خبریں ہیں سچ اور جھوٹ کی پہچان کے لئے ہم مسلمانوں کے پاس خدا کی کتاب بہترین کسوٹی ہے ۔کتابیں لاکھ صحیح ہوں ، مگر بلاخر وہ الہامی تو نہیں ہیں ۔محدثین و مورخین کتنے ہی جلیل القدر کیوں نہ ہوں بہر حال وہ معصوم او ر محفوظ عن الخطا نہ تھے ان سے غلطی کا صدور جائز تھا ۔

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں تو یہ ہے کہ اپنی کتب کے صحیح ہونے کا دعوی ہے یعنی وہ اپنی چھ کتابوں کو صحاح ستہ کہتے ہیں اوران چھ میں دو کو صحیحن سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ ان صحیح کتابون میں لاتعداد غلط
اور غیر معقول باتیں موجود ہیں جن کو بالاتفاق مبنی بر کذب تسلیم کیا گیا ہے ۔مگر شیعوں کا اپنی کتابون کے بارے میں ہرگز ایسا دعوی نہیں ہے ۔ نہ ہی وہ اپنی چار کتابون کو صحاح اربعہ کہتے ہیں بلکہ محض کتب اربعہ کہتے ہیں اور ان کتابوں میں بھی جھوٹی سچی ہرطرح کی روایات موجود ہیں ۔
پس جو بھی روایت خلاف قرآن ہو اس کو ترک کردیجئے خواہ وہ شیعہ کتاب سے ہو سنی صحیح سے ۔چنانچہ جب ہم اس نکاح کےافسانے کو قرآن مجید کی روشنی میں دکھتے ہیں تو یہ تمام روایات بے کار بے ہودہ موضوع اور خلاف قرآن قرار پاتی ہیں ۔پس تمام مسلمان کو چاہئیے کہ ایسی لغو باتوں کو بہتان سمجھکر ٹھکرادیں کیونکہ نہ ہی عقلی طورپر یہ پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں اور نہ ہی نقلی اعتبار سے ۔
ایسی خلاف شان روایات کی اشاعت کے بجائے متفق فضائل اور علمی مسائل کی تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئیے تاکہ دنیا حقیقی اسلامی تعلیمات سے روشناس ہوسکے ۔
دور حاضر میں زمانہ جن مسائل سے دوچار ہے اور جسے پر خطرات حالات میں گھرا ہوا ہے ان کے پیش نظر ایسے فرضی اور غیر ضروری مباحثے باہمی تلخی پیدا کرکے فضا کو مسموم تو کرسکتے ہیں مگرکسی تعمیری منصوبے کی تکمیل میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتے ہیں لہذا ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ ان فرسودہ بحثوں کو ختم کرکے اسلام کی عالمگیر حیثیت کو نمایاں کریں اور مخالفین اسلام کے عزائم کو خاک ميں ملا ئیں ۔دشمنوں کے دانت کھٹے کرکے یہ حقیقت ہر خاص وعام سے منوائیں کہ دنیا کے تمام مادی وروحانی مسائل کا واحد حل "دین اسلام "ہی پیش کرتا ہے ۔یہی وہ خدا کا صحیح دین ہے جو تمام الجھنوں سے نجات حاصل کرنے کاراستہ بتا تا ہے ۔کوئی سائنس

ہو یا کوئی فن کوئی ہنر ہو یا حرقت اسلام سے اس کی ہم آہنگی ثابت ہے ۔حقیقی علوم اسلامیہ ہی تمام جدید علوم کا سرچشمہ ہیں جن گتھیوں کو آج مشینی دور میں ان تھک کاوشوں سے کھولا جارہا ہے -چودہ سوسال قبل اسلام نے ان کا واحد حل پیش کیا ہے مگر افسوس کہ مسلمان خواب خرگوش میں محور ہے ۔اور انھوں نے اپنی فلاح وبہبود کے حصول کی پراوہ نہ کی ۔گھر کے جوگی کو جوگڑ ا سمجھ کر نظر انداز کیا اور باہر کے سدھ کے پیچھے بھاگنے لگے ۔نہ ادہر کے رہے نہ ادھر کے ۔
المختصر ہم نے اس حقیقت کو پایہ ثبوت تک پہنچادیا کہ یہ افسانہ با لکل بے بنیاد ہے ۔کچھ دشمنان اسلام نس اشتباہ نام سے فائدہ اٹھا کر اس کی مشہور ی کردی اور بعض نے نادانستہ طور پر مغالطہ کھایا ورنہ حقیقت شناسوں کے لئے صحیح صورت معلوم کرلینا کوئی مشکل بات نہیں ہے ۔
شیخ المحدثین جناب شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے رجال مشکواۃ میں اس قصہ کو ص 115 پر تحریر کرکے ان ہی خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ اورعلامہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ کامل کی تیسری جلد کے ص 23 پر یہی مضمون درج کیا ہے جناب ملک العلماء دولت آبادی نے اس قصہ کی اصلیت یوں لکھی ہے ۔
"اسماء بنت عمیس اول زن جعفر طیار بود باز در نکاح ابو بکر آمدہ از ابو بکر یک پسر و یک دختر ام کلثوم نام زائید بعد از اں بہ نکاح علی بن ابی طالب آمد ۔ام کلثوم ہمراہ مادر آمدہ عمرابن خطاب بام کلثوم دختر ابو بکر نکاح کرد"۔
یعنی حضرت اسماء بنت عمیس پہلے حضرت جعفر طیار کی زوجہ تھیں ان کےبعد حضرت ابو بکر کے نکاح میں آئیں ان کے ہاں ایک لڑکا اور

ایک بیٹی ام کلثوم پیدا ہوا ہیں ۔ابو بکر کے بعد آپ حضرت علی ابن ابی طالب (علیھما السلام) کی زوجیت میں آئیں ۔ام کلثوم اپنی والدہ کے ہمراہ آئیں اور حضرت عمربن "خطاب نے ان ام کلثوم بنت ابو بکر سے نکاح کیا ۔
علامہ ابن حجر عسقلانی نے اصابہ ص 343 پر لکھا ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر بوقت وفات ابو بکر شکم مادر میں تھیں ۔حضرت ابو بکر کی وفات سنہ 13ھ میں ہوئی ہے پس سنہ 17 میں عمر کے نکاح میں آتے وقت یہی ام کلثوم 4، 5 برس کی ہوسکتی ہیں ۔
حضرت عمر کی زوجہ ام کلثوم علامہ دولت آبادی کی تحقیق کے مطابق صغیر سنی میں حضرت عمر ہی کے گھر انتقال کر گئیں اوران کی کوئی اور لاد نہ تھی ہدایت السعداء ص 259۔
لیکن 55 سالہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کے واقعہ کربلا کے بعد والے خطبے جو انھوں نے عالم اسیری میں فاسقوں کے دربار میں فرماکر مسلمانوں کی خوابیدہ حمیت کو جگایا آج بھی تاریخوں میں محفوظ ہیں ۔
آپ کے پر فصاحت وبلاغت کلام نے شیر خدا علی المرتضی علیہ السلام کی آواز کا اشتباہ پیدا کردیا مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔سیدہ نس اہل کوفہ سے خطاب فرمایا ۔
"اے اہل کوفہ ! تمھارا برا حال ہو کس لئے تم نے حسین علیہ السلام کا ساتھ چھوڑا ۔اوران کو شہید کیا ۔ان کا مال و اسباب لوٹ لیا ۔اس کو اپنا ورثہ قرار دیا ۔اور ان کے اہل بیت کو قیدی بنالیا ۔ہلاک ہوتم ۔اور خدا کی رحمت تم سے دور رہے ۔وائے ہو تم پر ۔کیا جانتے ہو کس بلا میں گرفتار ہوئے اور کیسے کیسے خون تم نے بہائے کس کس کی بیٹیوں کو تم نے بے پردہ کیا کیسے اموال کو لوٹ لیا ۔تم نے ایسے شخص کے خون میں ہاتھ رنگے ہیں جو


پیغمبر کے بعد تمام عالم سے بہترین تھا ۔تمھارے دلوں سے رحم اٹھ گیا ۔بے شک اللہ کے بندے حق پر اور شیطان کے پیروکار نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
اس کے بعد بی بی نے کئی اشعار ارشاد فرمائے جن کا ماحصل یہ ہے ۔وائے ہو تم پر کہ تم نے بے جرم خطا میرے بھائی کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔عنقریب تمھاری سزا جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہوگی کہ تم نے ایسے شخص کو بے گنا ہ (قصدا) قتل کیا جس کا خون خدا اور اس کے رسول (ص) نے قرآن میں حرام کیا ہے ۔تم کو دوزخ کی بشارت ہو ۔تم روز قیامت یقینا جہنم کا ایندھن ہوگے ۔اور میں ساری عمر اپنے بھائی پر جو بعد ازرسول تمام مخلوق سے بہتر ہے گریہ وزاری کرتی رہوں گی اور آنسوؤں کے دریا اس غم جاودانی میں بہاتی رہوں گی ۔
روای کا بیان ہے کہ سیدہ کے اس خطاب کےبعد مجمع سامعین پر حزن وملال طاری ہوگیا لوگ آہ وبکاہ و نوحہ گریہ کرنے لگے ،عورتوں نے اپنے بال پر یشان کرلئے ،سر میں خاک ڈالی ،منہ پر طمانچے مارنے لگے ،رخسار چھیلنے لگے ، اور دیکھتے ہی دکھتے نالہ وشیون برپا ہوا فضا میں کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف دیکھتے ہی دیکھتے نالہ وشیون برپا ہوافضا مین کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف وایلا ،وامصیبتاہ کا شور اٹھا ،ہر سو ماتم شروع ہوا ۔ اور لوگوں نے یزیدی ظلم کے خلاف علانیہ احتجاج کیا ۔راوی کہتا ہے کہ اس دن سے زیادہ کوئی روز ایسا گریہ وبکا ہمارے دیکھنے میں نیں آیا ۔

جب امام زین العابدین علیہ السلام نےیہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو لوگوں کو چپ ہونے کا اشارہ کیا اور بعد میں حمد خدا اور نعت رسول (ص) کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا ۔
ہمیں اس بات کا پوری احساس ہے کہ موجودہ عالمی حالات کے پیش نظر ایسے فر سودہ موضوعات پر صرف وقت کسی طرح مفید نہیں ہے لیکن سخت مجبوری کے تحت اس شرمناک واقعہ پر قلم اٹھانا ضروری خیال کیا گیا ہے کیونکہ بعض شرپسند عناصر جان بوجھ کر ایسے لاحاصل مسائل کی تشہیر کر کے ایک طرف خاندان رسول سے اپنی دشمنی کا اظہار کررہے ہیں تو دوسری طرف اسلام جیسے مصفی وپاکیزہ دین کو اس قسم کی شرمناکیوں کے ساتھ پیش کرکے دین الہی کی تذلیل پر کمربستہ ہیں ۔ لہذا ناموس اکابرین اسلام اور تحفظ طہارت دین کے لئے اس مضر پروپیگنذے کی نشرو اشاعت کی روک تھام کی جانب یہ قدم اٹھایا گیا ۔ کیونکہ اگر ایسے موضوعات کی تردید نہ کی جائے تو یہ خاموشی اور چشم پو شی مستقبل قریب میں سخت رسوائی کا سبب ٹھہرسکتی ہے ۔
بے باک قلم کاروں ،مفسد مقرروں اور ناعاقبت اندیش عالموں نے اس بات کی قطعا پر واہ نہیں کی کہ ان رکیک موضوعات سے صحابہ کرام کا وقار خاک میں ملت ہے حضور اور اہلبیت اطہار کی توہین ہوتی ہے ۔انھیں صرف اپنے ممدوح کی جھوٹی سچی مدح سے غرض ہے خواہ ان کی یہ اندھی محبت روشن دشمنی ثابت ہو یا ان کی بے جا عقیدت دوسرے مذاہب کی نظر میں اسلام کی تضحیک وتذلیل بن جائے ۔مگر مرغا ایک ٹانگ پر ہی رہے گا ۔
افسانہ عقد ام کلثوم پر ہماری طرف سے لاتعداد کتب پیش کی جاچکی ہیں جو تاہنوز لا جواب ہیں مگر پھر بھی دن بدن بعض ضدی افراد اس جھوٹ کی پٹاری کو بازار میں فروخت کرنے لاتے رہتے ہیں اور یہ بات نہیں سوچتے ہیں کہ یہ خاک اپنے سر میں پڑے گی ۔چاند پر تھوکا واپس اپنے

پر پلٹے گا ۔دنیا نے پہلے "رنگیلا رسول" لکھ کر بدنام کیا تھا اب "عیاش خلیفہ" بھی چھپ سکتا ہے کہ پھر ہمیں منہ چھپانے کا کوئی کونہ بھی نظر نہ آئے گا ۔ گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگے گی ۔
پس دوسرے مذاہب میں اسلام کی حرمت بحال رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے بے ہودہ اختلافات کو ہوا نہ دی جائے کہ اس سے مجموعی طور پر خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ایسی حیا سوز ، پست اخلاق اور مضحکہ خیز باتوں سے دوسرے مذاہب والے اسلام پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔ مسلمانوں کی کرتوتوں پر ہنسی اڑاتے ہیں ۔ منصف مزاجوں کی عقلیں دنگ ہوجاتی ہیں ۔ نگاہیں شرم سے گڑ جاتی ہیں ۔ نظریں پتھر ہوجاتی ہیں ، سرگریبان میں چھپ جاتے ہیں گردنیں شرم کے مارے جھک جاتی ہیں ۔چہرے فق ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کلیجے منہ کو آتے ہیں ۔ زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں ، سخت ذلت ،شدید رسوائی وبدنامی کا سامنا ہوتا ہے ۔مذہب سے بیزاری کے خیالات ذہن پر تسلط جمالیتے ہیں ۔ہر راہ مسدود نظر آتی ہے کہ جائیں تو کدھر جائیں ۔ روایات کو مانیں یا دین کو بچائیں ۔
فرقہائے اسلامیہ کے اختلافات کو اگر داخلی لحاظ سے دیکھا جائے تو لا تعداد مسائل متنازعہ سامنے آتے ہیں ہر مکتب فکر کی جانب سے اپنے مسلک کی تائید میں متعدد تصانیف موجود ہیں بڑے بڑے مناظرے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے حق میں زور صرف کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی لیکن یہ مسائل اندرونی و داخلی حیثیت کے ہیں اور ان مباحثوں میں کم سے کم ایسی کوئی بات نہیں ہے جو غیر مذاہب والوں کے لئے ہمارے خلاف ہتھیار مہلک ثابت ہو سکے ۔ٹھیک ہے اندر ونی معاملات ہیں جو آپس میں تفہیم و افہام سے طے ہوسکتے ہیں ۔لیکن چند

امور ایسے بھی ہیں جن کی ہرگز کوئی مستحکم بنیاد نہیں ہے ان کو اس طرح مشہور کردیا گیا ہے کہ اب جھوٹ بھی سچ دکھائی دینے لگا ہے ۔ ان میں عقد ام کلثوم کا افسانہ بھی ہے لیکن یہ اختلاف توایسا ہے کہ مصنف عقل انگشت بد نداں نظر آتی ہے ۔یہ قصہ واہی اسلام کے جسم پر ناسور نظر آتاہے ۔وہ دین جو داعی شرافت وشرم وحیا ہے ۔جو بلند اخلا قی اور پاکیزہ معاشرت کی ضمانت دیتا ہے اسی دین کی مسند پر بیٹھنے والا مدعی خلافت بزرگ عالم پیری میں ایسی شرمناک حرکات کا مرتکب ہوتا ہے کہ اس واقعہ کو نقل کرنے پر بھی راقم و ناظر دونوں پانی پانی ہوئے جاتے ہیں ۔
ایسے ناگفتہ بہ واقعات کا بیان سراسر اسلام کی بدخواہی ،دین کی تحقیر وتقصیر اور بزرگان دین کی تو ہین ہے ۔لہذا تمام مخلص مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل کی جاتی ہے کہ وہ محض ضد میں آکر دین اور اکابرین اسلام کی مٹی پلید ہونے سے پہلے ہی حفظ تقدم کی احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ہر بات کو کہنے سے پہلے سوچیں کہ ہم اسلام اور بزرگان اسلام کی عزت افزائی کررہے ہیں یا تعظیم کشی عقل وانصاف کے ترازو پر تول کر قرآن و حدیث کی کسوٹی پر جانچ کر فطرت وعدل کی میزان دیکھکر کسی امر کا پر چار کریں وقتی مصلحت کے تحت جو بات آپ کو مفید نظرآتی ہے وہ دائمی طور پر مضرت رساں ہوسکتی ہے لہذا پہلے تو لو پھر بولو۔
"خبروں میں اگر صرف روایت پر اعتبار کرلیا جائے اور عادت کے اصول اور سیاست کے قواعد اور انسانی سوسائٹی کے اقتضاء کا لحاظ اچھی طرح نہ کیا جائے اور غائب کو حاضر اور حال گزشتہ پر نہ قیاس کیا جائے تو اکثر لغزش ہوگی "۔

یہ عبادت جلیل القدر مورخ ابن خلدون کی ہے ۔اس قتباس کے آئینہ میں افسانہ عقد ام کلثوم کو دیکھئے تو یقینا عقل کا فیصلہ ،ضمیر کی آواز ،انسانیت کی پکار ،شرم وحیا کی تائید ،تہذیب وتمیز کی تصدیق ،اخلاق وتمدن کی توثیق مندرجہ ذیل ہوگی ۔
"یہ قصّہ قطعی غلط بے بنیاد اور بہتان عظیم ہے ۔کیونکہ یہ واقعہ خلاف عقل وقیاس ہے "۔ کسی خبر کا لغو ہونا ازخود اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہوتا ہے ۔اور یہ فسانہ سرتا پا لغو ہے ، حماقت ہے ،بے مقصد تضیع وقت ہے ۔