حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حضرت خاتم الانبیاء (ص)

بسم اﷲ الرحمن الرحيم
آپ کا اسم گرامی محمد(ص) مشہور لقب احمد(ص) اور مصطفیٰ اور مشہور کنیت ابوالقاسم ہے۔ جمعہ کے دن صبح کے وقت عام الفیل کے سال سترہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ وہی سال جس میں خداوند عالم نے ابابیل کے ذریعے اپنے گھر کی حفاظت کی اور ہاتھی والوں کو جو خانہ خدا کو ڈھانے کی غرض سے آئے تھے نابود کیا۔ آپ کی شہادت ۲۸ صفر ۱۱ہجری کو ایک یہودی عورت کے زہر دینے کی وجہ سے واقع ہوئی۔
۲۵ سال کی عمر میں آپ(ص) نے حضرت خدیجہ(ع) سے شادی کی۔ یہ وہی خاتون ہیں جن کا اسلام اور مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔ حضور اکرم (ص) عام الفیل کے چالیسویں سال ۲۷ رجب المرجب کو مبعوث برسالت ہوئے۔ تیرہ سال تک مکہ میں کمر توڑ مصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کی۔ لیکن کفار قریش اسلام کی تبلیغ میں مانع ہوئے تو آپ (ص) نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہیں سے آپ نے اپنی رسالت کا پیغام دنیا میں پھیلایا۔ آپ (ص) کے والد حضرت عبداﷲ بن عبدالمطلب(ع) عرب کے سرداروں میں سے تھے۔ تاریخ کی گواہی کے مطابق آپ(ص) کی عظمت و بزرگواری کے ہم پلہ بہت کم لوگ تھے۔ حضور اکرم(ص) کی ولادت سے پہلے ہی آپ(ص) کے والد ماجد نے شام کے سفر سے لوٹ کر مدینہ میں وفات پائی اور وہیں پر مدفون ہوئے۔ اس وجہ سے حضور اکرم(ص) کی پرورش آپ(ص)  کے دادا حضرت عبدالمطلب (ع) نے کی اور آپ کی رضاعت کے لیے دایہ مقرر کی جن کا نام حلیمہ سعدیہ(رض) تھا۔ ان خاتون کی عظمت کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ حضور اکرم(ص) اپنی پرورش ان کے ہاتھوں ہونے پر فخر کرتے تھے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ(رض) نے چھ سال تک پرورش کرنے کے بعد آپ (ص) کو واپس آپ(ص) کی والدہ محترمہ(ع) کے پاس پہنچایا۔ اور حضور اکرم(ص) اپنی والدہ محترمہ(ع) کے ساتھ اپنے والد کی قبر کی زیارت کے لیے مدینہ چلے گئے مگر وہاں سے واپسی پر راستے میں حضرت آمنہ(ع) نے وفات پائی اور حضرت ام ایمن(ع) نے آپ (ص) کو آپ (ص) کے دادا حضرت عبدالمطلب (ع) تک پہنچایا۔ جب آپ(ص) کی عمر مبارک آٹھ سال کی تھی تو حضرت عبدالمطلب(ع) نے وفات پائی۔ اور ابوطالب(ع) جیسے چچا اور فاطمہ بنت اسد (ع) جیسی چچی نے ماں اور باپ بن کر آپ(ص) کی پرورش کی۔ اس وجہ سے آپ(ص) کو یتیمی کا احساس نہ ہوا مگر اس کے ملال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کریم نے اس نکتے کی طرف ارشاد فرمایا :
“أَ لَمْ يَجِدْكَ يَتيماً فَآوى‏ وَ وَجَدَكَ ضَالاًّ فَهَدَى‏ وَ وَجَدَكَ عَائلًا فَأَغْنى‏”
“ کیا تمہیں یتیم نہیں پایا کہ پناہ دیدی تمہیں راہ بھٹکتے دیکھا تو ہدایت دی تجھے گراں بوجھ سکے تلے پایا تو بے نیاز کردیا۔ ”
اس بنا پر رسول اکرم(ص) اگرچہ یتیم ، غریب اور محتاج تھے مگر اس کے اثرات آپ(ص) پر نہیں ملتے ہیں۔ کیونکہ خداوند عالم نے ابوطالب(ع) جیسی ہستی کے پاس آپ(ص) کو پناہ دی ۔ اور حضرت خدیجہ(ع) جیسی دولت مند خاتون کو شادی کے وقت جس نے یہ اعلان کیا کہ میری دولت آپ(ص) کی ہے اور میں خود آپ (ص) کی کنیز ہوں مالی ضروریات کی طرف سے خداوند عالم نے یوں بے نیاز کیا۔ آپ(ص) کی مادر گرامی حضرت آمنہ(ع) ایک عظیم خاتون تھیں۔ ان کی عظمت کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ حضور اکرم(ص) کی والدہ ہیں۔
حضور اکرم(ص) کی شرافت ، کرامت اور عالی صفات اور معجزات اس قدر زیادہ ہیں جن کی تفصیل دوسری مفصل کتابوں میں موجود ہے۔ چونکہ ہمیں یہاں اختصار مطلوب ہے اس لیے صرف ایک معجزے کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں اور قرآن کریم نے آپ(ص) کی شان میں جو کہا ہے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد اختصار کے ساتھ آپ(ص) کے القاب کی تفسیر بیان کرتے ہیں اور آخر میں آپ(ص) کے خاتم النبیین ہونے کے بارے میں کچھ بحث کرتے ہیں۔
مورخین کا لکھنا ہے کہ آپ(ص) کی ولادت کے دن دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ طاق کسریٰ میں شگاف پڑا ۔ اور اس کے کنگرے گر پڑے ، دریائے ساوہ خشک ہوا۔ آتش کدنہ فارس جو کئی سالوں سے مسلسل جل رہا تھا بجھ گیا۔ اس دن دنیا کے تمام بادشاہ حیران و پریشان اور گونگے بن گئے تھے۔ تمام بت اوندھے منہ گرے تھے، اس دن ساحروں کا سحر بے اثر ہوگیا تھا۔ لا الہ الا اﷲ کا کلمہ گونج رہا تھا اور جب آپ(ص) دنیا میں آئے تو آپ(ص) کے وجود کی برکت سے عالم نور ہویا۔ جب آپ(ص) نے لا الہ الا اﷲکہا تو دنیا جہاں نے آپ(ص) کے ہمزبان ہو کرلا الہ الا اﷲ کہا۔ حضور اکرم (ص) کے بارے میں قرآن کریم یوں فرماتا ہے۔
“وَ كَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهيداً ”
“ اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط قرار دیا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر(ص) تم پر گواہ ہوں”
اس آیت کریمہ کے دو معنی ہیں اور یہ تعبیر ان دونوں معانی کی حامل ہے کہ امت اسلامی انسانیت کے معاشرے کے لیے نمونہ عمل ہے اور رسول اکرم(ص) امت مسلمہ کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ لیکن ان آیت کے ایک اور عمیق معنی بھی ہیں جسے ائمہ علیہم السلام نے بیان فرمایا ہے اور شیعہ مفسرین خصوصا ہمارے استاد محترم علامہ طباطبائی نے ان روایات کی پیروی کرتے ہوئے مفصل بحث کی ہے اور وہ معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن امت اسلامی لوگوں کے اعمال کی گواہ بننے  والی ہے مگر یہ بات صریحی ہے کہ تمام امت والے اس کے لائق نہیں بلکہ یہ امر ائمہ معصومین علیہم السلام پر منحصر رہے گا۔ اہل بیت(ع) و شیعہ کی بے شمار ایسی روایات موجود ہیں جو اس دوسرے  معنی پر دلالت کرتی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ خداوند عالم نے ائمہ معصومین علیہم السلام کو اس لیے خلق فرمایا کہ وہ قیامت کے دن لوگوں کے اعمال کے گواہ بنیں اور حضور اکرم(ص) ان کے اعمال کے گواہ بنیں۔ اس دنیا میں گواہ کو تمام شرفتوں کا حامل ہونا چاہیے تاکہ وہ قیامت کے دن گواہ قرار پاسکے۔ اور اگر دنیا میں اس نے یہ مسائل نہ دیکھے ہوں تو قیامت کے دن گواہ نہیں ہوسکتا۔ لہذا ائمہ علیہم السلام کے لیے عالم ہستی کے محیط میں موجود ہونا چاہیے تاکہ ان کے اعمال پر مطلع ہوسکیں اور گواہی دے سکیں یہ وہی واسطہ فیض ہے جسے اصطلاح میں “ ولایت  تکوینی” کہا جاتا ہے اس صورت میں آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہوا کہ ائمہ علیہم السلام دنیا والوں کے لیے واسطہ فیض ہیں اور ان کے لیے حضور اکرم (ص) واسطہ فیض ہیں یہی معنی ہیں کہ حضور اکرم(ص) کو عقل کا نور مطلق یا “ اول ما خلق اﷲ ” کہا گیا ہے۔
اس بارے میں بڑی طویل بحث ہے مگر اس مختصر کتاب میں اس کی گنجائش موجود نہیں۔ ہم نے اپنی کتاب ” قرآن میں امامت و ولایت ” پر نسبتا مفصل بحث کی ہے۔ تفصیل کے خواہشمند اس کا مطالعہ کریں۔ جو کچھ کہا جاسکتا ہے یہ ہے کہ بہت ساری آیات اور روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ائمہ طاہرین( علیہم السلام ) اس عالم کے لیے فیض کا واسطہ ہیں اور اس دنیا مین جو کچھ نعمت ملتی ہے جیسے کہ ظاہری نعمات مثلا عقل، سلامتی، رزق، تحفظ ، یا نعمات باطنی اور معنوی مثلا علم، قدرت ، اسلام، وغیرہ بھی ان حضرات کے وسیلے سے ہے۔ اور ان حضرات کا وجود جہاں ہستی میں “ احاطہ علی” کی حیثیت رکھتا ہے اور حضور اکرم(ص) کی ذات گرامی ائمہ طاہرین(ع) کے لیے واسطہ فیض ہے اور ان حضرات کے جو نعمات ظاہری اور باطنی میسر ہیں وہ آںحضرت(ص) کے وجود با برکت کے ذریعے سے ہیں اور آپ(ص) کو وجود ان کے لیے “ احاطہ علی” قرار پاتا ہے۔
اور ائمہ علیہم السلام سے جو روایات “ کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اور رکھتے ہیں رسول اکرم(ص) کی طرف سے ہے اور رسول اکرم(ص) جو کچھ بھی رکھتے ہیں وہ خداوند عالم کی طرف سے ہے۔ ” کا مطلب بھی یہی ہے  حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے لیے بہت سارے القاب وارد ہوئے ہیں جن میں سے ہم کچھ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی تشریح کریں گے۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب احمد(ص) ہے۔ قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انجیل میں بھی یہ لقب استعمال میں آیا ہے قرآن کہتا ہے :
 “وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتي‏ مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَد”
“حضرت عیسی(ع) نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول(ص) آئے گا جس کا لقب احمد(ص) ہوگا۔
احمد کے معنی تعریف کرنے والے کے ہیں۔ یعنی جو شکر اور حمد کا حق بجا لائے وہ احمد ہے۔
ہم روایات میں پڑھتے ہیں کہ کثرت عبادت کی وجہ سے مورد اعتراض قرار پاتے ہیں۔ تو فرماتے ہیں تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
۲:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب محمود(ص) ہے  جیسا کہ قرآن میں آپ(ص) کا اسم مبارک محمد(ص) اور آپ(ص) کو محمود اور محمد(ص) کہا گیا ہے کیونکہ آپ(ص) کی تمام صفات قابل تعریف ہیں اس بارے میں قرآن فرماتا ہے :
“وَ إِنَّكَ لَعَلى‏ خُلُقٍ عَظيمٍ ”
“ بے شک آپ(ص) اخلاق حسنہ کی عظیم منزلت پر فائز ہیں۔”تم کمال کی صفات کے انتہائی درجے پر فائز ہو۔
ابن عربی کہتا ہے۔ خداوند عالم کے ہزار نام ہیں ان سب میں سے بہترین نام محمد، محمود اور احمد ہیں ۔ محمد اسے کہا جاتا ہے جس میں صفات کمالیہ بدرجہ اتم موجود ہوں ۔ اور آپ(ص) سے قبل کسی کا نام محمد نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ نام عالم ملکوت سے ہی آپ(ص) کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اور تمام آپ(ص) پر درود بھیجتے تھے۔
۳:۔ آپ(ص) کے عظیم القاب میں سے ایک لقب “ امی ” ہے یعنی جس نے لکھا پڑھا نہ ہو قرآن اس کی طرف یوں ارشاد کرتا ہے۔
 “ وَ ما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ وَ لا تَخُطُّهُ بِيَمينِكَ إِذاً لاَرْتابَ الْمُبْطِلُونَ ”( سورہ،عنکبوت، ۴۸)
“رسالت سے قبل نہ تو آپ(ص) نے پڑھا اور نہ تو لکھا آپ(ص) لکھے پڑھے نہیں تھے اگر آپ(ص) پڑھے لکھے ہوتے تو ممکن ہے کہ خود غرض لوگ شکوک و شبہات پیدا کرتے۔ لیکن پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود قرآن جیسی کتاب لائے تو کسی کو شک و شبہ کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ یہ خود حضور اکرم(ص) کا ایک بڑا معجزہ ہے جس شخص کے بارے میں جانتے ہیں کہ پڑھا لکھا نہیں ہے اور ان پڑھ ہے ایک ایسی کتاب لے آیا کہ جو تمام علوم سے مملو ہے اور اپنے کو کتاب ہدایت قرار دیتی ہے۔ہدایت یعنی راستہ دکھانے اور مطلوب تک پہنچانے کے معنوں میں ہے یعنی انسان کو اپنے مطلوب اور مقصد تک پہنچاتی ہے اس میں بہت ساری ایسی آیات ہیں جو فلسفہ کی عمیق گہرائیوں پر مشتمل ہیں مگر بڑی سادگی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ قرآن صرف فقہ کی کتاب نہیں مگر اس میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ انسانی معاشرے کا سر ان کے سامنے جھک جاتا ہے۔ کسی کی کیا مجال جو قرآن کے برابر قوانین مرتب کرسکے۔ عبادی، معاشرتی ، سیاسی ، قوانین، قصاص کے قوانین ، قوت اجرائی کے قوانین وغیرہ۔ قرآن کہتا ہے۔
“قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلى‏ أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هذَا الْقُرْآنِ لا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَوْ كانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهيراً ”(سورہ بنی إسرائیل : ۸۸ )
۴:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب کریم ہے اور یہ لقب بھی قرآن کریم میں مذکور ہے :
“إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَريمٍ ”(تکویر آیت ۱۹)
حضور اکرم(ص) مکہ مکرمہ میں اس قدر کفار کی اذیت سے دوچار تھے کہ وہ آپ(ص) پر پتھر برساتے تھے آپ(ص) بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لیتے تھے۔ حضرت ابو طالب(ع) اور حضرت خدیجہ(ع) آپ(ص) کو ڈھونڈ لاتے ۔ بارہا انہوں نے سنا کہ حضور اکرم(ص) فرماتے تھے کہ
“ اللهم اهد قومی فانهم لا يعلمون”
“ خداوند میری قوم کی ہدایت فرما۔ یہ لوگ نادان ہیں ”
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بارہ ہزار کے آراستہ لشکر کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوئے تو اپنے کسی ساتھی کو یہ کہتے ہوئے سنا۔“ الیوم یوم المطحمت۔” آج کا دن جنگ و بدلے کا دن ہے۔ آپ(ص) نے یہ سن کر امیرالمومنین(ع) کو اس کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ لوگوں کے درمیان یہ اعلان کرا دیں کہ کہ “ الیوم یوم المرحمة۔” یعنی آج رحمت ، کرامت اور معافی کا دن ہے۔
 ۵:۔ آپ (ص) کے القاب میں سے ایک رحمت ہے جو قرآن میں مذکور ہے۔
“وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ ”
“ ہم نے تمہیں دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔”
اور آپ (ص) کی رحمت کی حدود قرآن میں یوں بیان کی گئی ہیں۔
“فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ عَلى‏ آثارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهذَا الْحَديثِ أَسَفاً ”
“ اے رسول(ص) تم تو شدت حزن سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے قریب ہے کہ ان پر افسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہلاک کرو۔” ( سورہ کہف آیت ۶)
اگر سیرت مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غم و دکھ جھیلے ہیں راز و نیاز کیا ہے، صبر کیا ہے اور مشقت و تکلیف برداشت کی ہے۔
“لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَريصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنينَ رَؤُفٌ رَحيمٌ ”
“ ایک رسول(ص) تمہارے درمیان آیا ہے جو تم میں سے ہے تمہاری سرکشی اورہٹ دھرمی اس کے لیے بڑی گراں ہے تمہاری ہدایت کا خواہاں ہے مومنین پر مہربان اور رحمدل ہے۔” ( سورہ توبہ آیت ۱۲۸)
۶:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب متوکل ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ(ص) ہمیشہ ذات خداوند پر اعتماد رکھتے ہیں اور اپنی ذات پر نہیں بلکہ خدا پر اعتماد کرتے ہیں۔ آپ(ص) کی دعاؤں میں سے ایک یہ ہے۔
“ اللهم لا تکلنی الی نفسی طرفت عين ابدا”
“ خداوند پلک جھپکنے کے برابر وقت کے لیے بھی مجھے میرے اپنے حوالے نہ کر۔”
کہتے ہیں کہ ایک دشمن نے ایک جنگ کے دوران آپ(ص) کو اکیلا پایا اور اپنی تلوار سونپ کر آگے بڑھا اور کہا اے محمد(ص۹ بتاؤ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ آپ(ص) نے کمال اطمینان کے ساتھ جواب دیا میرا خدا۔ آپ(ص) کا یہ کہنا تھا کہ اس دشمن کے بدن پر لرزہ طاری ہوا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی آپ(ص) نے بڑھ کر تلوار اٹھائی اور فرمایا مجھے تو میرے پروردگار نے بچایا اب تم بتاؤ تمہیں کون بچائے گا؟ اس نے جواب دیا آپ (ص) کی مہربانی اور رحمدلی۔ یہ سن کر آپ(ص) نے اسے معاف فرمایا ۔
آپ(ص) اکثر اوقات ایسے اہم امور انجام دیتے تھے کہ عمومی سوچ اور نظریئے کے مطابق ان امور میں کامیابی کم نظر آتی تھی مگر آپ(ص) سوائے خدا کے کسی پر اعتماد نہ کرتے تھے آپ(ص) خدا پر توکل کرتے تھے خوف خدا رکھتے تھے اس لیے سب کچھ رکھتے تھے۔
پیغمبر اکرم(ص) خدا پر اعتماد رکھتے تھے نہ کہ دنیا پر بلکہ آپ(ص) دنیا کو ایک کھوکھلی شے سمجھتے تھے آپ(ص) سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا ۔ “ دنیا درخت کے سائے کی مانند ہے جس کے نیچے ایک مسافر تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتا ہے۔”
خلاصہ یہ کہ آپ(ص) توکل کے تمام معانی کے حامل تھے اپنے آپ پر نہیں بلکہ خدا پر توکل کرتے تھے آپ(ص) کو دوسروں پر نہیں بلکہ اپنے خدا پر اعتماد تھا۔
۷:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب امین ہے یہ لقب آپ(ص) کو قبائل عرب نے آپ(ص) کی بعثت سے بہت پہلے دیا تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضور اکرم(ص) اپنی بعثت سے پہلے ہی فوق العادت صفات کے حامل تھے آپ(ص) کی پاکدامنی ، سچائی، کمزوری کی دستگیری، اچھے آداب و رسوم کا لحاظ، معاشرتی اچھائیوں کا خیال خصوصا صفائی پاکیزگی اور امانت داری عربوں کے درمیان مشہور تھی۔
حضرت ابو طالب(ع) فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی آںحضور(ص) کو برہنہ نہیں دیکھا بلکہ یہاں تک کہ آپ(ص) کو رفع حاجت کے وقت کسی نے بھی نہیں دیکھا۔ جس دن آپ(ص) کو اسلامی کی کھلم کھلا تبلیغ کا حکم ملا تو آپ(ص) نے قریش کے بزرگوں کو جمع کیا تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دین سب سے پہلے آپ(ص) نے ان سے جو بات پوچھی یہ تھی کہ میں تمہارے درمیان کس قسم کا فرد ہوں سب نے یک زبان ہو کر کہا ہم نے آپ(ص) کو صادق اور امین مانتے ہیں اور جانتے ہیں۔
عبداﷲ بن جزعان ایک کمزور بوڑھا تھا اور اپنا گھر بنانے لگا تو حضور اکرم(ص) جن کی عمر اس وقت سات سال کی تھی بچوں کو لیکر آتے اور اس کے مکان بنانے میں مدد دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کا گھر تیار ہوا تو اس کا نام “ دار النصرہ” پڑگیا اور کمزوروں کی مدد کے لیے مرکز قرار دیا گیا۔
آپ(ص) ہر وقت ادب کے ساتھ چلتے۔ ادب کے ساتھ بیٹھتے اور گفتگو بھی اسی انداز میں کرتے تھے۔ آپ(ص) ہر وقت متبسم رہتے تھے جس کی وجہ سے آپ(ص) کو “ ضحوک ” کہا جاتا تھا آپ(ص) کا کلام فصیح اور شیرین ہوتا تھا۔ کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے جہاں تک ہوسکے دوسروں کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آتے تھے۔ یہ تمام چیزیں مسلم تاریخی ثبوت ہیں۔
۸:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب “ عبداﷲ” ہے یہ لقب بھی قرآن مجید سے ثابت ہے ارشاد ہوا   
“سُبْحانَ الَّذي أَسْرى‏ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذي بارَكْنا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّميعُ الْبَصيرُ ”( سورہ بنی اسرائیل آیت ۱)
“ پاک ومنزہ ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرائی مسجد الحرام سے لیکر مسجد اقصی تک جس کے ارد گرد کوہم نے با برکت قرار دیا ہے تاکہ اپنی آیات اسے دکھائیں بے شک وہ سننے والا اور با بصیرت ہے۔”
یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ(ص) کا یہ لقب آپ(ص) کے تمام القاب سے بہترین لقب ہے اس وجہ سے تو تشہد میں رسالت کے ذکر سے پہلے عبدیت کا ذکر ہوا ہے بندگی کے اپنے مراتب ہیں اس کے تمام مراتب میں سے بلند مرتبہ لقائ اﷲ کا ہے جس کے بارے میں قرآن نے باربار تذکرہ کیا ہے یہ بہت بلند مرتبہ ہے ایک ایسا مرتبہ جہاں پہنچ کر انسان سوائے ذات الہی کے اور کہیں دل نہیں لگاتا اس منزل میں اﷲ کے علاوہ اور کسی سے کوئی ربط نہیں رکھتا ہے۔
“رِجالٌ لا تُلْهيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ”
“ یعنی : ان کی  تجارت اور ان کی خرید و فروخت انہیں یاد خدا سے غافل نہیں کرتی۔”
ایک ایسا مرتبہ ہے جہاں انسان کا دل خدا کی محبت سے پر ہوتا ہے اس منزل میں انسان کے لیے کوئی غم و فکر نہیں۔ اس کا دل اطمینان سکون اور وقار سے پر ہوتا ہے۔
“ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ”
“ یعنی : دل اﷲ کے ذکر سے سکون حاصل کرتے ہیں۔” ان میں تڑپ خوف اور اضطراب نہیں ہوتا ہے۔
“أَلا إِنَّ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ ”( سورہ یونس آیت ۶۲   )
“ لوگو! خبردار رہو اﷲ کے دوستوں کے لیے کوئی خوف و غم نہیں۔”
 اور حضور اکرم(ص) عبدیت کے انتہائی اعلیٰ مرتبے کے حامل تھے۔
آپ(ص) گناہوں سے پاک تھے اور دوسروں کے گناہوں کو دیکھ کر غمگین ہوتے تھے۔ عبادت میں لذت پاتے تھے۔ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ پائے مبارک سوج گئے تو خداوند عالم کی طرف سے سورہ طہ نازل ہوئی اور عبادت کی زیادہ مشقت اٹھانے سے منع کیا گیا۔
۹:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب مصفطیٰ(ص) ہے آپ(ص) کا یہ لقب امت اسلامی کے لیے ایک عظیم فخر کا باعث ہے اور بہت بڑا اعزاز ہے کیونکہ مصطفیٰ کے معنی برگزیدہ کے ہیں اور خداوند عالم نے حضور اکرم(ص) کو تمام مخلوقات میں سے چنا ہے کیونکہ جہاں مہربانی  و رحمدلی کا موقع ہے آپ(ص) ایسے رحمدل اور مہربان ہیں کہ کوئی مثل نہیں۔ جس وقت حاتم طائی کی بیٹی مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئی اور مدینہ پہنچی اور مسلمان ہوئی تو حضور اکرم(ص) نے امین لوگوں کے ہمراہ اسے اپنے بھائی عدی کے پاس بھیجا۔ عدی  نے اپنی بہن کی زبانی حضور اکرم(ص) کے بارے میں سن کر ارداہ کیا کہ آپ(ص) کی خدمت میں پہنچے اور اسلام کو قریب سے دیکھ سکے۔ تاکہ بصیرت و معرفت کے ساتھ مسلمان ہوجائے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک دفعہ ہم حضور اکرم(ص) کے ساتھ چل رہے تھے کہ ایک بڑھیا نے آںحضرت(ص) کا راستہ روک لیا اور باتیں کرنے لگیں۔ حضور اکرم(ص) رک گئے اور کمال مہربانی کےساتھ اس کی باتیں سننے لگے اس عورت نے بہت زیادہ وقت لیا۔ مگر حضور اکرم(ص) نے اس کی بات نہیں کاٹی ۔ عدی کہتا ہے کہ آپ(ص) کی پیغامبری کی ایک دلیل تو میرے لیے ہی روشن ہوگئی۔ جب ہم آپ(ص) کےساتھ گھر پر پہنچے تو کسی قسم کی بکلفات موجود میں تھے۔گھر کا فرش گوسفند کے چمڑے کا تھا اور جو غذا کھانے کے لیے مہیا کی گئی وہ جو کی روٹی اور نمک تھی۔ یہ میرے لیے آپ(ص) کی نبوت کی دوسری دلیل بن گئی۔
جو شخص اقتدار رکھتا ہو، دولت رکھتا ہو، حیثیت رکھتا ہو، پیرو کاروں کی ایک کثیر تعداد رکھتا ہو اور اس کے گھر کی حالت یوں ہو اور لوگوں کے ساتھ اس قدر انکساری برتا ہو تو وہ پیغمبر ہی ہوسکتا ہے۔ آخر کار آپ(ص) سے ایک معجزانہ کام دیکھ کر میں نے اسلام قبول کیا۔ آںحضرت(ص) نے مجھ سے فرمایا تمھارے دین اور عقیدے کے مطابق ٹیکس لینا حرام ہے پھر تم کیوں کر ٹیکس لیتے ہو۔ یہ سن کر مجھے آپ(ص) کی نبوت کا یقین ہوگیا۔ آپ(ص) اتنے نرم دل تھے کہ جب کسی بچے کو روتا سنتے تو فورا نماز ختم کر کے اسے اٹھالیتے اور جب کسی بچی کو دیکھتے کہ پیسے گم کردئیے ہیں تو اسے پیسے بھی دیتے اور اس کی سفارش کرنے اس کے مالک کے گھر تک جاتے۔
لیکن جب اسلام کی بات آتی ہے اور دیکھتے ہیں کہ یہودی سازش کررہے ہیں، عہد شکنی پر تلے ہیں اور جاسوسی کررہے ہیں تو یقین ہوا کہ ان کا وجود اسلام کی ترقی کے لیے مانع ہے تو ان میں سے سات سو کے قتل کا حکم دیتے ہیں۔ یہ ایسا انسان ہے جو مختلف ابعاد کا جامع ہے۔ عام دستور یہ ہے کہ اگر ایک انسان زہد و ریا اور اصطلاح فلسفی کے مطابق “ بلی الرجی” کی راہ اختیار کرچکا ہو۔ اس کے تعلقات لوگوں کے ساتھ بہتر نہیں رہ سکتے اور وہ نہ تو معاشرے میں اپنا مقام بنا سکتا ہے اور نہ تو دلوں پر حکومت کرسکتا ہے۔ یعنی مخلوق کے ساتھ اس کے روابط مضبوط نہیں ہوسکتے ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کی ریاضت و مشقت کا پہلو بہت ہی مضبوط تھا یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بعثت سے قبل آپ(ص) غار حرا میں عبادت میں مشغول رہتے تھے اور آپ(ص) عبدیت کی انتہائی بلندی پر فائز تھے لیکن اس کے ساتھ مخلوق کے ساتھ تعلقات کے پہلو میں بھی بہت آگے تھے یہاں تک کہ قرآن کریم نے فرمایا :
“فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَليظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ”( آل‏عمران : ۱۵۹)
   “ خداوند عالم کی طرف سے شامل حال رحمت کی بناء پر تم لوگوں کے ساتھ مدارات کرتے ہو اور نرمی سے پیش آتے ہو اگر تمہاری باتین اور کردار سخت اور درشت ہوتا تو لوگ تمہارے پاس سے متفرق ہوجاتے ہی۔”
اے محمد(ص) آپ(ص) خوش گفتار ، خوش کردار ہیں اپنے سلوک اور زبان سے لوگوں کو اپنے سے دور نہیں کرتے بلکہ اپنے عمل اور زبان سے اپنے گرد لوگوں کو جمع کرتے ہیں دل کے بڑے نرم ہو سخت دل نہیں ہو ۔ یعنی رسول اکرم(ص) کا صحیح اتباع یہ ہے کہ ان دونوں پہلوؤں پر انسان خاص مقام حاصل کرے۔
مختصر یہ کہ حضور اکرم(ص) تمام صفات کمالیہ کے حامل تھے باوجود اس کے بہت سی صفات کمالیہ یکجا کرنا آسان نہیں۔ عالم تھے ، عارف تھے، عاشق تھے، دشمنوں پر سخت تھے، دوستوں پر مہربان تھے، بہادر تھے، ہمیشہ مسکراتے  رہتے تھے، عاقل تھے، آخرت کو ترجیح زیادہ دیتے تھے دنیا کو بھی جانتے تھے ، زاہد تھے، ثابت قدم تھے اور فعال تھے۔
اگر چہ حضور اکرم(ص) کے بے شمار القاب ہیں مگر ہم اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفا کرتے ہیں اس طرح آپ(ص) کی صفات کمالیہ بھی بہت زیادہ ہیں۔
            بلغ العلی بکماله کشف الدجی بجماله
            حسنت جميع خصاله صلو عليه و آله

آپ(ص) کے کمال کا پہلو اس حد تک پہنچا کہ آپ کے جمال کی برکتوں سے ساری تاریکیاں دور ہوگئیں ۔ آپ(ص) کے تمام خصائل نیک ہیں۔ بحث کےآخر میں آپ(ص) کے خاتم النبیین (ص) ہونے کے بارے میں مختصر گفتگو کریں گے۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب خاتم النبیین ہے لفظ خاتم  کے “ ت” پر زبر پڑھیں یا زیر دونوں صورتوں میں معنی پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ دونون میں اختتام کے معنی موجود ہیں عربی میں خاتم “ت” پر زبر کےساتھ انگوٹھی کو کہا جاتا ہے جس سے مہر لگایا جاتا ہے اور جب کوئی خط لکھا جاتا تھا تو اس کے آخر میں دستخط کی جگہ مہر لگایا جاتا ہے۔ انگوٹھی کے مہر کی جگہ آخری جگہ ہوتی تھی اور اس کے بعد خط ختم ہوجاتا ہے۔ پیغمبراکرم(ص) کے خاتم ہونے کا عقیدہ اسلام کی ضروریات میں سے ہے جو بھی مسلمان ہے وہ جانتا ہے ہے کہ حضور اکرم(ص) خاتم الانبیاء(ص) ہیں اور آپ(ص) کے بعد قیامت تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔
حلال محمد حلال الی يوم القيامه و حرامه حرام الی يوم القيمه
قرآن کریم نے متعدد آیات میں یہ واضح کیا ہے کہ حضور اکرم(ص) ہر زمانے ، ہر جگہ اور ہر کسی کے لیے نبی ہیں۔
“وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ”
“ ہم تمہیں نہیں بھیجا مگر یہ کہ سارے جہانوں کے انسانوں کے لیے رحمت۔
“ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجالِكُمْ وَ لكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خاتَمَ النَّبِيِّينَ ” (الأحزاب آیت ۴۰   )
“ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول(ص) اور خاتم الانبیاء ہیں۔”
قرآن کریم میں اس قسم کی آیات بہت ساری موجود ہیں اور اس طرح حضور اکرم (ص) کے خاتم الانبیاء ہونے کے بارے میں بہت ساری روایات بھی موجود ہیں۔ ان روایات میں سے ایک روایت “ روایت منزلت ” ہے جو سنی اور شیعہ تمام کے نزدیک مسلمہ ہے اور غایت المرام کے مصنف نے اسے ۱۷۰ اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جن مٰیں سے ایک سند اہل سنت کے ہاں یوں ہے کہ حضور اکرم(ص) نے فرمایا :
“أَنْتَ‏ مِنِّي‏ بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي”
“ تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسی ہی ہے جیسے کہ موسی (ع) کے ساتھ ہارون(ع) کی تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”
خاتم ہونے کا راز دو چیزون میں ڈھونڈا جاسکتا ہے۔
۱:۔ اسلام انسانوں کی فطرت کے ساتھ مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔
“فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنيفاً فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتي‏ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها لا تَبْديلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ ” (الروم، ۳۰   )
“ اپنے رخ کودین حنیف کی طرف متوجہ کرو جو انسانوں کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اﷲ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں یہ پائیدار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔”
۲:۔ دین اسلام تمام پہلوؤں کا جامع ہے اور یہ قدرت رکھتا ہے کہ ہر جگہ ، ہر زمانے میں ہر حالت میں معاشرے کے سامنے جوابدہ ہوسکے۔ اسلام اس بات کا دعویدار ہے کہ انسانی معاشرے میں دینی اعتبار سے جس چیز کی ضرورت تھی اسے بیان کیا ہے۔
“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ ”
“ کتاب جسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے تمام چیزوں کا بیان کرنے والی ہے۔”
“الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً ” (المائدة : ۳   )
“ آج کے دن ( غدیر خم کےدن ) ہم نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔”
اس کے علاوہ بہت ساری روایات صراحت کے ساتھ اس دعوی کو بیانگ دہل کہتی ہیں اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے اس ضمن میں روایات بھی وارد ہوتی ہیں۔
“  ما من شئ يطلبونہ الا وہو فی القرآن فمن اراد الک فليسئلنی عنہ”
“ کوئی چیز ایسی نہیں جس کی تمہیں ضرورت پڑے مگر یہ کہ وہ قرآن میں موجود ہے بس جو ایسا چاہپتا ہے اس بارے میں مجھ سے پوچھے۔”
جب حقیقت ایسی ہے تو کسی دوسرے دین کا آنا دبے فائدہ اور لغو قرار پاتا ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی دوسرے دین کا اس وقت ضروری ہوجانا جب موجودہ دین معاشرہ کی ضروریات کو پورا نہ کرسکے اور ایک خاص زمانے کے لیے ہو جب کہ ایسی محدودیت اسلام میں نہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل اسلام کا قانون مرجعت ہے۔ اسلام کے کسی حکم کے بارےے میں اگر آپ ایک “ مرجع” کے پاس پہنچیں اور تو یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کے سوالات کا جواب دینے سے عاجز آجائے۔
۳:۔ پہلے والے دین میں کسی قسم کی تحریف یا تبدیلی واقع ہو جائے، جیسا کہ یہودیت اور عیسایت کے بارے میں خود ان کا اپنا اقرار ہے جب کہ اسلام میں یہ نقص موجود نہیں ہے اور خداوند عالم نے اس بات کی ذمہ داری لے لی ہے کہ اسلام اس قسم کی تحریفات سے محفوظ رہے گا۔ قرآن کے بارے میں ہے۔
“لا يَأْتيهِ الْباطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزيلٌ مِنْ حَكيمٍ حَميدٍ ” (فصلت : ۴۲   )
“ اس میں باطل کے داخل ہونے کا امکان ہی نہیں چاہے سامنے یا پیچھے سے اور یہ حکمت والے قابل تعریف کا نازل کیا ہوا ہے جس نے تمام اشیاء کو حکومت کے ساتھ پسندیدہ صفات کے ساتھ خلق فرمایا ہے۔”
۴:۔ اس پہلے والے دین کی ضرورت رہی۔ مثلا اگر کوئی ایسا دین جو کسی خاص زمانے کے لیے بھیجا گیا ہو۔ جس نے اس خاص زمانے کی معنویات اور اقدار کو زیادہ سے زیادہ نظر رکھا ہوا اور جب وہ مطلوبہ ہدف پورا ہوا تو اس کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ اسلام کے بارے میں اس قسم کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اسلام انسان کے ساتھ سو فیصد مطابقت رکھتا ہے۔ اسلام نے جس طرح انسان کی معنویات کا خیال رکھا ہے اس طرح کی مادیت سے غافل نہیں رہا۔ بلکہ اسے بھی اہمیت دی ہے۔ جیسے ارشاد ہوتا ہے۔
“وَ ابْتَغِ فيما آتاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَ لا تَنْسَ نَصيبَكَ مِنَ الدُّنْيا ” ( سورہ القصص : آیت  ۷۷   )
“ جو کچھ اﷲ تعالی نے تمہیں دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کے طلب گار رہو اور اپنی دنیا کے حصے کو فراموش مت کرو یعنی اسے بھی حاصل کرو۔”
اسلام ایسے کامل قانون کا حامل ہے کہ تمام ممکنہ مسائل کا سامنا کرسکتا ہے اور ایسے احکام پیش کرتا ہے کہ قیامت تک کے زمانے کے لیے اجراء ہوسکتے ہیں۔ خداوند عالم کی طرف سے انبیاء(ع) اس لیے آتے تھے کہ اﷲ کا قانون اس کے بندوں کو پہنچائیں ایسے پیغمبروں کو علم کلام کی اصطلاح میں اولو العزم کہا جاتا ہے اور اب قرآن کے نازل ہونے کے بعد ان کی ضرورت نہیں رہی بلکہ قرآن نے خود ان کی جگہ لے لی ہے تو اب ایسے پیغمبروں کا آنا بے فائدہ ہے۔
اور بعض انبیاء صرف تبلیغ اور قوانین کے اجراء کے لیے آتے ہیں جب کہ اسلام نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے حکم کے ذریعے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے علمائے کرام ہی کو “ نظارت ملی” کا حق دیتا ہے اور بڑی اہمیت دیتا ہے بلکہ ان انبیاء کے برابر قرار دیا ہے۔“ علماء امتی بمنزلة انبياء بنی اسرائيل” حضور اکرم(ص) نے فرمایا۔ “ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔” نیز نبوت کے خاتمے کے بعد امامت اور اس کے بعد ولایت فقیہ کی بناء پر رسولوں کے نہ آنے کی تلافی ہوگئی اور مذکورہ صورتوں کے باوجود انبیاء کا آنا بے معنی ہو جاتا ہے۔