"صنائع اللہ " صنائع لنا" صنائع ربّنا " صنائعنا" کا تحقیقی جائزہ(دوسرا حصہ)

صنائع اللہ اور صنائعنا کی بحث میں ایک ضمنی  مطلب(15)

کلمہ" صنائع" کے معنی میں بعض نے لفظ "عبد " کے ذریعے جو تفسیر وتوضیح دی ہے جبکہ ہم نے اپنی پہلی پوسٹ میں اس معنی کو امام رضا علیہ السلام کی ایک روایت جو اباصلت رضی اللہ عنہ نے نقل کی اس کے ذریعے رد کیا تھا اورامام نے کسی کواپنے بندے ہونے سے صراحتا منع فرمایا اور اس کو اہل بیت علیہم السلام پر ظلم کرنے سے تعبیر فرماتی تھی اس نکتے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم یہاں پر وھابیوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے شبھات میں سے ایک شبھہ پر بحث کرینگے جو مسلمانوں کے نام کے ساتھ جب عبدالنبی یا عبد محمد یا  شیعہ حضرات عبد العلی ، عبدالحسن ،عبدالحسین ،عبدالرضا اور اردو میں غلام محمد، غلام نبی ، غلام علی ، غلام حسن ،غلام حسین وغیرہ رکھنے کے حوالے سے ہیں کیونکہ وہ لوگ کہتے ہیں لفظ عبد خدا سے مخصوص ہے اس کو خدا کے اسماء وصفات کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کے ساتھ استعمال شرک ہے اسی لئے عبدالرحمان ، عبدالرحیم ، عبدالحکیم ،وغیرہ رکھنا درست باقی مذکورہ نام غلط اور شرک قراردیا جاتا ہے  اب اہم ایک سوال کے ذریعے بحث کا آغاز کرتے ہیں
کیا "عبدالنبی " عبدالعلی" عبدالحسن" عبدالحسین " عبدالرضا" وغیرہ نام رکھنا صحیح ہے یا نہیں؟ دوسری عبارت میں
کیا غلام نبی ، غلام علی، غلام حسن ، غلام حسن اور غلام رضا وغیرہ نام رکھنا صحیح ہے یا نہیں ؟
یہ وھابیوں کی طرف سے وارد شدہ ایک شبہہ ہے کہتے ہیں کہ خدا کے علاوہ اورکسی کے نام سے پہلے عبد کا استعمال شرک کا موجب ہے
کیونکہ عبد کا معنی بندہ ہوتا ہے لھذا خدا کے علاوہ کسی بھی مخلوق کی نسبت بندگی کا اظہار شرک ہے
اس کے جواب میں ہم یہاں  پر عبد کی اقسام کو ذکرکرینگے پھر خود بخود شبہ اور شکوک پیدا کرنے والوں کے اوھام وخیالات زائل ہوجائینگے  کلمہ " عبد " کے چار معنی ہوتے ہیں
1:- عبد تکوینی وتخلیقی :
3:- عبد رقی(عبد قانونی وضعی)
2:- عبد تشریفی واخلاقی
4:- عبد مطیعی یا تابع داری


1:- عبد تکوینی یا تخلیقی  کا معنی اردو میں لفظ " بندہ" سے کیا جاتا ہے یعنی خداوند خالق ہے اور سارے مخلوقات اس کے بندے ہیں  اس معنی میں عبد خدا سے مخصوص ہے اورکوئی مخلوق کسی دوسرے مخلوق کا عبد نہیں بن سکتا  شاید وہابیوں کے نزدیک عبد کا صرف یہی معنی ہے اس لئے جب ہم  عبدالنبی یا عبدالمحمد یا عبد الحسین وغیرہ کے نام رکھے جاتے ہیں تو شرک کا نعرہ بلند کرتے ہیں ۔قرآن کریم میں اس لفظ عبد اس معنی میں استعمال ہوا ہے ارشاد رب العزت ہوتا ہے" إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا"سورہ مریم آیت 93(جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس رحمن کے حضور صرف بندے کی حیثیت سے پیش ہو گا) پس یعنی کل روزمحشر سارے مخلوقات خد کے حضور بندے کی  صورت میں پیش ہونگے لھذا اس معنی میں سارے مخلوقات خدا کے بندے ہی ہیں حضرت امام رضا علیہ السلام نے اسی معنی میں مخلوقات کو اپنے بندے ہونے حوالے سے منع فرمایا تھا


2:-عبد قانونی یا عبد وضعی اس کا معنی معمولا اردو میں "غلام" کا ہوتا ہے فقہی کتابوں میں اس پر الگ ابواب قائم ہیں اور قرآن میں قصاص کے حکم میں یہ آیت موجود ہے"كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَى بِالأُنثَى"سورہ بقرہ آیت 178(تم پر مقتولین کے بارے میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیاہے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت) اس میں عبد کا معنی بندہ نہیں ہے بلکہ غلام کے معنی میں ہے جو آزاد کے مقابلے میں ہے آزاد کو" حر" کہا جاتا ہے اور یہ وہی عبد ہے جب مسلمان کفار ومشرکین سے جنگ کرتے تھے تو فتح کے بعد ان کو اسیر کرتے تھے اور یہ اسیر مسلمانوں کے غلام بن جاتے تھے اور مرد کو عبد جبکہ عورت کو"امۃ" سے تعبیر ہوتی ہے دیگر قرآنی آیات بھی اس معنی میں موجود ہیں ہم اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے صرف نظر کرتے ہیں پس معلوم ہوتا ہے کہ عبد اس معنی میں خدا سے مخصوص نہیں بلکہ یہاں مخلوق دوسرے مخلوق کا عبد بنتے ہیں ہمارے زمانے میں اب یہ عبدیت کا سلسلہ موجود نہیں اسی لئے حوزھائی علمیہ میں اب ان ابواب کو نہیں پڑھایا جاتا ہے اسی معنی میں ہمارے ائمہ علیھم السلام کے غلام ہوتے تھے جیسے قنبر غلام مولا علی علیہ السلام یا دیگر ائمہ کے بھی غلام ہوتے تھے اس میں " عبد " یعنی غلام اپنے آقا یا مولا کی اجازت کے بغیر کوئی حرکت انجام نہیں دے دسکتا تھا یعنی عبد کو اپنے آقا اورمولا کا مطیع محض ہونا تھا


3:- عبد تشریفی اور اخلاقی  یہاں پر عبد کے معنی وہی غلام ہے لیکن نہ غلام حقیقی کیونکہ اسلام میں غلامی پسندیدہ عمل نہیں ہے  بلکہ یہاں پر جب کوئی کسی کی منزلت اور مقام بالا کا اظہار کرنا ہوں تو کہتا ہے کہ میں آپ کے غلام کی منزلت پر ہوں اور آپ میرے آقا اور مولا کے مقام پر ہو۔  ہم جب نام رکھتے ہیں  عبدالحسین یا غلام حسین یا غلام علی یا عبدالرضا وغیرہ تو یہ عبد تشریفی اور اخلاقی کے معنی میں ہیں کیونکہ پہلے معنی میں تو عبد مخصوص خدا ہوتا ہے اور دوسرے معنی میں اب حقیقی طور پر کوئی بھی کسی کا عبد یعنی غلام نہیں بنتا پس یہی تیسرا معنی رہتا ہے جو اس عبد کے ساتھ نام رکھنے بارے میں اوھام و شبھات کو زائل کرتا ہے  یعنی جب انسان کسی اسے محبت یا علاقہ مندی کا اظہار کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میں آپ کے غلام کے درجے پر ہوں" اسی معنی وضعی اور قانونی عبد" میں ہے کیونکہ یہاں غلام اپنے آقا کے فرمانبردار اور مطیع محض ہوتا ہے
حضرت امیر المومنین علیہ السلام اہمیت علم اور تعلیم کو اس جملے کے ذریعے بیان فرماتے ہیں " من علّمنی حرفا فقد صیّرنی عبدا " یعنی جس نے مجھے ایک حرف سکھایا گویا ا س نے مجھے اپنا غلام بنایا " یہاں پر بھی مراد عبد تشریفی اوراخلاقی ہے  نہ تکوینی اور نہ وضعی وقانونی ۔

4:- عبد مطیعی یہاں پر ہم لغت میں لفظ عبد کے معنی کی طرف ایک اشارہ کرتے ہیں  اہل لغت نے عبد کا معنی "مطیع" کے ذریعے سے بھی کیا ہے یعنی اپنے آقا ومولا کا فرمانبردارہونا  اب ہم اگر اوپر کے تین تقسیم سے قطع نظر اسی لغوی معنی پر دقت کریں تو عبد الحسین یا عبد النبی یا اردو میں غلام حسین یا غلام نبی کا معنی یہ بنتا ہے  مطیع حسین یا مطیع نبی توکیا مطیع نبی اور مطیع حسین بنا کوئی غلط کام ہے بلکہ یہ تو ایک خدا پسند عمل ہوگا لہذا اس حوالے سے جو شبھات کسی کی طرف سے بھی اٹھایا جائے وہ صرف کج فہمی کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا

-----------

15:- ذیل کے مطالب میں زیادہ تر (کتاب مرزبانی ازمکتب  اہل بیت(علیھم السلام) – تالیف آیت اللہ شیخ جعفر سبحانی حفظہ اللہ) بھر پور استفادہ کیا گیا ہے