اسلام اور ایمان میں فرق


خیر طلب : ( تھوڑے سکوت اور تبسم کے بعد) مجھ کو حیرت ہے کہ کس صورت سے جواب عرض کروں۔ اولا جو جمہور آپ کے پیش نظر ہے اور جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے وہ عام امت کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس جمہور سے چند اہل سنت وجماعت مراد ہیں۔
دوسرے افسوس ہے کہ اسلام اور ایمان کے بارے میں آپ کا بیان کافی نہیں ہے اس لیے کہ اس موضوع میں نہ صرف شیعوں کو اہل سنت وجماعت کے عقیدے سے اختلاف ہے بلکہ اشعری،معتزلی، حنفی اور شافعی فرقے بھی عقائد میں الگ ہیں۔ لیکن اتنا وقت نہیں ہے کہ مختلف فرقوں کے تمام اقوال نقل کئے جائیں۔
تیسرے آپ حضرات جو عالم و اہل قرآن ہیں اور آیات قرآنی پر نظر رکھتے ہیں ایسے عامیانہ اشکالات قائم کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ غالبا آپ حضرات کا مقصد یہ ے کہ جلسے کا وقت ضائع کیا جائے ورنہ اس سے کہیں اہم اصولی مطالب موجود ہیں جن سے ہم پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایسے طفلانہ اعتراضات تو آپ جیسے انسان سے میل نہیں کھاتے کہ تم نے اسلام و ایمان کو الگ الگ کر کے دو مختلف گروہ قائم کرنے کے اسباب فراہم کئے ہیں۔
حالاکہ ( بقول آپ کے) یہ دو گروہوں کی تقسیم خود خداوند حکیم نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں فرمائی ہے، غالبا آپ حضرات نے قرآن مجید کے اندر اصحاب یمین و اصحاب شمال کے ذکر کو فراموش کردیا ہے۔ کیا ایسا نہیں کہ سورہ نمبر۴۹ (حجرات) آیت نمبر۱۴ میں صریحا فرماتا ہے۔
"قالَتِ‏ الْأَعْرابُ‏آمَنَّاقُلْ لَمْ تُؤْمِنُواوَلكِنْ قُولُواأَسْلَمْناوَلَمَّايَدْخُل ِالْإِيمانُ فِي قُلُوبِكُمْ‏"
یقینا آپ جانتے ہیں کہ یہ آیہ شریفہ حجاز کے اعراب بنی اسد کے مذمت میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے قحط کے سال مدینہ منورہ میں آکر اسلام و ایمان کا اظہار کیا اور کلمہ شہادتین زبان پر جاری کیا لیکن چونکہ نعمات سے مستفید ہونے کے لیے ظاہری اسلام لائے تھے لہذا خدا نے اس آیت میں کو اس طریقہ سے جھٹلایا ہے کہ ( اے رسول (ص) اعراب و بنی اسد وغیرہ ) نے جو تم پر احسان رکھا ہے اور کہا ہے کہ ہم ایمان لے آئے تو ان سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے  البتہ یہ کہو کہ اسلام لائے ( جس سے مسلم میں داخل ہونا اظہار شہادت اور اطاعت احکام مراد ہے تاکہ قتل و اسیری سے تحفظ اور مالی حقوق حاصل ہوں اور ابھی تو تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا ہے یہ آیت شریفہ صاف صاف کہہ رہی ہے کہ مسلمانوں میں دو گروہ ہیں، ایک فرقہ حقیقی مسلمانوں کا ہے جو قلب اور عقیدے کے روسے حقائق پر ایمان لائے ہوئے ہیں اور انہیں کو مومن کہتے ہیں۔ اور دوسرا فرقہ ظاہری مسلمانوں کا ہے  جو اپنے اغراض و مقاصد کے لیے خوف یا طمع کی بنا پر ( قبیلہ بنی اسد وغیرہ کی طرح) فقط کلمہ شہادتین زبان پر جاری کر کے اپنے کو مسلمان کہتے ہیں لیکن اسلام کی حقیقت و معنویت یعنی باطنی ایمان کا ان کے دل و دماغ میں کوئی اثر نہیں، اگرچہ ظاہر کی بنا پر ان کے ساتھ معاشرت کی اجازت دی گئی ہے لیکن بحکم قرآن

" لیس لهم فی الآخرة من خلاق" آخرت میں ان کے لیے کوئی ثواب نہیں ہے، پس صرف کلمہ شہادتین کے اقرار اور اسلام کے مظاہرے سے معنوی نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔
سید : یہ آپ کا بیان صحیح ہے لیکن بغیر ایمان کے اسلام کا قطعا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ جیسا کہ بغیر اسلام کے ایمان کا کوئی نتیجہ نہیں کیا سورہ نمبر۴ (نساء) آیت نمبر۹۶ میں ارشاد نہیں ہے کہ "وَلاتَقُولُوالِمَنْ‏ أَلْقى‏ إِلَيْكُمُ السَّلام َلَسْتَ مُؤْمِناً"( یعنی جو شخص تم پر سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔) یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس کی کہ ہم ظاہر پر مامور ہیں کہ جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ دے اس کو پاک و طاہر مقدس اور اپنا بھائی سمجھیں اور اس کے ایمان کا انکار نہ کریں۔ یہ بات اس کی بہترین دلیل ہے کہ اسلام و ایمان ایک حکم میں ہیں۔
خیر طلب : اول تو یہ آیت ایک معین شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے ( جو اسامہ بن زید یا محلم بن جثامہ لیثی تھا) جس نے میدان جنگ میں ایک لا الہ الا اللہ کہنے والے کو اس خیال سے قتل کردیا تھا کہ اس نے محض خوف کی بنا پر کلمہ پڑھا ہے اور مسلمان ہوا ہے۔ لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ عموم کا فائدہ دیتی ہے تو اس پہلو سے بھی ہم تمام مسلمانوں کو تا وقتیکہ ان سے کھلم کھلا کوئی عمل نہ دیکھا جائے، ضروریات دین کے منکر نہ ہوجائیں اور کفر و ارتداد کا اظہار نہ کریں، مسلمان اور پاک جانتے ہیں ان کے ساتھ اسلامی معاشرت رکھتے ہیں۔ ظاہر کے حدود سے تجاوز نہیں کرتے، ان کے باطن سے کوئی مطلب نہیں رکھتے اور نہ لوگوں کے باطنی حالات کی جستجو کرنے کا حق ہی رکھتے ہیں۔


مراتب ایمان
البتہ انکشاف حقیقت کے لیے عرض کرتا ہوں کہ اسلام و ایمان کے درمیان مورد اور محل کے لحاظ سے عموم مطلق اور عموم من وجہ کا فرق ہے۔ اس لیے کہ ایمان کے لیے کچھ درجات ہیں اور اس سلسلہ میں اہل بیت طہارت(ع) کے اخبار و احادیث اختلاف اقوال کو ختم کر کے حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ چنانچہ امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے عمرو زبیری کی روایت میں فرمایا ہے۔
"أنّ‏ للإيمان‏ حالات‏ ودرجاتوطبقات و منازل فمنه الناقص البين نقصانه ومن الراجح الزائل رجحانه و منهالتام المنتهی تمامه"
یعنی ایمان کے لیے حالات و درجات اور طبقات و منازل ہیں۔ ان میں سے بعض ناقص ہیں جن کا نقصان ظاہر ہے بعض راجح ہیں جن کا رجحان زاید ہے، اور بعض ان میں سے مکمل ہیں جو انتہائے کمال پر پہنچے ہوئے ہیں۔)
ایمان ناقص ایمان کا وہی پہلا درجہ ہے جس کے ذریعے انسان کفر کے دائرے سے خارج ہو  کر جماعت مسلمین میں شامل ہوتا ہے اور اس کی جان، مال، خون اور عزت مسلمانوں کی امان میں آجاتی ہے۔
ایمان راجح سے حدیث میں اس شخص کا ایمان مراد ہے جو ایمانی صفات کا حامل ہونے کی وجہ سے ایمان میں اس آدمی پر فوقیت حاصل کرے جو ان صفتوں سے محروم ہو۔ جن کی طرف بعض روایتوں میں ارشاہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ کتاب مستطاب کافی و

 نہج البلاغہ میں حضرت امیرالمومنین(ع) اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ فرمایا :
"إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ وَضَعَ الْإِيمَانَ‏ عَلَى‏ سَبْعَةِأَسْهُمٍ‏ عَلَى الْبِرِّوَالصِّدْقِ وَالْيَقِينِ وَالرِّضَاوَالْوَفَاءِوَالْعِلْمِ وَالْحِلْمِ ثُمَّ قَسَمَ ذَلِكَ بَيْنَ النَّاسِ فَمَنْ جَعَلَ فِيهِ هَذِهِ السَّبْعَةَالْأَسْهُمِ فَهُوَكَامِلٌ مُحْتَمِلٌ"
یعنی در حقیقت خدائے تعالی نے ایمان کو سات حصوں میں تقسیم کیا ہے مطلب یہ ہے کہ مومن کے اندر سات صفتیں ہونا چاہیئے ، جن سے مراد نیکی ، راست بازی، یقین قلبی، رضاء وفاء علم اور بردباری ہے۔ یہ ساتوں صفات انسانوں کے درمیان تقسیم ہوگئے۔ جو شخص پوری طرح سے ان سب کا حامل ہو وہی مومن کامل ہے۔ پس جس کے اندر ان میں سے بعض موجود ہوں اور بعض نہ ہوں اس کا ایمان اس شخص کے ایمان سے بلند ہے جو سب ہی صفتوں سے خالی ہو۔
اور ایمان کامل اس شخص کا ایمان ہے جو تمام صفات حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ کا حامل ہو۔ چنانچہ اسلام  سے ایمان کا وہ پہلا درجہ مراد ہے جہاں صرف قول اور وحدانیت خدا و نبوت خاتم الانبیاء(ص) کا اقرار ہو۔ لیکن حقیقت دین، ایمان اس کے قلب میں داخل نہ ہوئی ہو، جیسا کہ رسول اللہ(ص) نے امت کے ایک گروہ سے فرمایا ہے۔" يا معشر من اسلم بلسانه و لم يخلص الايمان بقلبه" (یعنی اے وہ جماعت جس نے اپنی زبان سے اسلام قبول کیا ہے لیکن اس کے قلب میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے) بدیہی چیز ہے کہ اسلام و ایمان کے درمیان کھلا ہوا فرق ہے لیکن ہم لوگوں کے اندرونی کیفیات پر مامور نہیں ہیں اور شب گذشتہ ہم نے یہ نہیں کہا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا اور ان کے درمیان تفرقہ اور جدائی ڈالنا چاہیئے۔ ہم نے فقط اتنا کہا تھا کہ مومن کی علامت اس کا عمل ہے، لیکن ہم کو اعمال مسلمین کے کھوج کرنے کا حق نہیں ہے۔ البتہ ہم مجبور ہیں کہ ایمان کی علامتیں بیان کریں تاکہ جو لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور عمل کی کوشش کر کے ظاہر سے باطن اور صورت سے سیرت کی طرف آئیں جس سے حقیقت ایمان کا اظہار ہو اور وہ سمجھ لیں کہ آخرت کی نجات صرف عمل سے ہے، اس لیے کہ حدیث میں ارشاد ہے " الايمان هو الاقرار باللسان والعقد الجنان والعمل بالارکان" ( یعنی ایمان زبان سے اقرار، قلب سے عقیدہ اور اعضاء و جوارح سے عمل کا نما ہے، ( یعنی اس کے تین رکن ہیں) پس زبان سے اقرار اور دل سے عقیدہ عمل کا مقدمہ ہے، چنانچہ اگر کوئی مسلمان لا اله الا الله محمد رسول الله کا قائل اور اسلامی شکل و صورت میں بھی ہو لیکن واجبات کا تارک اور حرام افعال کا مرتکب ہو تو ہم اس کو مومن نہیں سمجھتے، ہرچند کہ بظاہر اس سے قطع تعلق نہیں کرتے بلکہ اسلامی معاشرت رکھتے ہیں۔ البتہ یہ جانتے ہیں کہ عالم آخرت میں جس کا مقدمہ یہ دنیا ہے ایسے شخص کے لیے راہ نجات مسدود ہے جب تک نیک اور خالص عمل کا حامل نہ بن جاوے جیسا کہ سورہ والعصر میں صاف اشارہ ہے " وَالْعَصْرِإِنَ‏ الْإِنْسانَ‏ لَفِي خُسْرٍإِلَّاالَّذِينَ آمَنُواوَعَمِلُواالصَّالِحاتِ‏ "( یعنی قسم عصر کی نوع انسان بڑے خطرے اور نقصان میں ہے سوا ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے) غرضیکہ بحکم قرآن ایمان کی جڑ عمل صالح ہے اور بس۔ اور اگر کوئی شخص عمل نہیں رکھتا تو چاہے قلب و زبان سے اقرار بھی کرتا ہو ایمان سے دور ہے۔