تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 16 تا 20)


"اُوْلٰئِكَ الَذِیْنَ اشْتَرَوُاالضَلٰلَةَ  بِالْهدٰی فَمَارَبِحَتْ تِجَارَتُهمْ وَمَاکَانُوْامُهتَدِیْنَ (16)
یہ ھیں جنہوں نےھدایت کے بدلے گمراھی مول لی تو نہ اُن کے بیوپار نے نفع ھی دیا اورنہ اُنہیں ھدایت ھی نصیب ھوئی"
؛؛؛
متقین کے بعد جو "اولئك الذين علٰی هدی من ربهم واولئك هم المفلحون" تھا یہ بظاھر اس کا جواب ھے جو منافقین کے ذکر کے بعد وارد ھوا ھے یعنی سورہ کی ابتدا میں جو کردار بیان ھوا تھا وہ ھدایتِ الہی پر قائم رھنے والوں کی شان ھے اور یہ کردار جو بعد کی کئی آیتوں میں بیان ھوا جن کی تفسیر سابقًا بیان ھوئی یہ ان کا ھے.جنہوں نے بالاختیار متاعِ گراں مایہ ھدایت کے بدلے ضلالت کو ترجیح دی اور اسی ترجیح دینے کو مجازًا "خریداری" سے بیان کیا گیا ھے اس لیے کہ وہ ھدایت اگرچہ ان کے پاس موجود نہ تھی مگر چونکہ وہ ان کے بالکل امکان میں تھی اور وہ چاھتے تو بلا مانع و مزاحم اُس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے اس لیے وہ گویا اُن کے قبضہ میں تھی اور اب جو انہوں نے ترک کرکے گمراھی پسند کی تو یہ ایسا ھے کہ جیسے انہوں نے اپنی مقبوضہ ملکیت کو ھاتھ سے دیکر اس کی قیمت میں گمراھی حاصل کی.(1)
اب گزشتہ فقرہ "اولئٰك الذین علٰی هدی من ربهم" کے ساتھ "اولٰئِك الذین اشترواالضللة بالهدی" کو رکھ دیجئے تو دونوں سے یہ صاف ظاھر ھوجائیگا کہ سابق میں جو "هدی للمتقین" کہا گیا تھا اس کا یہ مطلب نہیں ھے کہ خالق کی جانب سے اُسے پہلے ھی محدود کردیا گیا ھے.درحقیقت اس کی طرف سے تو وہ ھدایت سب ھی کےلیے ھے مگر یہ کہ اس کا فائدی صرف متقین کو حاصل ھوتا ھے اور کافرین و منافقین محروم رھتے ھیں یہ خود ان دونوں کے اختیار کا فرق ھے :
"انا هدیناه السبیل اما شاکراواما کفورا" (الدھر)
اس فقرہ میں جو مومنین کےلیے آیا تھا نتیجہ ان کے حسن اختیار کا دکھایا گیا تھا ان لفظوں میں کہ "اولئك هم المفلحون" فلاح کے معنی جیسا کہ وھاں بیان ھوا "دنیا و آخرت کی بہتری کے ھیں".اس کے باقابل منافقین کےلیے نتیجہ ان کے سوء اختیار کا دکھایا گیا ھے کہ
"فماربحت تجارتهم وماکانوا مهتدین"
یہ فلاح کے بالمقابل دنیا و آخرت دونوں کے خسارے کا اظہار ھے یعنی اُن کے اس بیوپار سے نہ تو دنیا ھی میں انہیں کوئی فائدہ حاصل ھوا کونکہ فائدہ تو وھی سمجھا سکتا ھے جو سرمایہ سے زیادہ قیمت رکھتا ھو.یہاں ھدایت الہی کے ذریعہ سے جو ان کے لیے انفرادی اور اجتماعی مفادات حاصل ھوسکتے تھے وہ سب ان کے ھاتھ سے گئے جس کے برابر بھی کوئی شے اُن کو نہیں مل سکی.چہ جائیکہ اس سے بہتر.
پھر یہ کہ وہ ھدایت سے بھی محروم ھوئے جو نجاتِ اُخروی کی ذمہ دار تھی.لہذا آخرت کی کامیابی تو کیا ملتی ھمیشہ ھمیشہ کے عذاب کا استحقاق انہیں حاصل ھوگیا اور اس سے بڑھ کر "خسرالدنیا والاخرة" کا مصداق اور کیا ھوسکتا ھے.
**


"مَثَلُهم کَمَثَلِ الَذِی اسْتَوْقَدْ  نَارًا^ فَلَمَآ اَضَآءَتْ مَا حَوْلَه  ذَهبَ الله بِنُوْرِهمْ وَ تَرَکَهمْ  فِیْ ظُلُمٰتٍ لاَ یُبْصِرُونَ (17)
ان کی مثال اس شخص کی سی ھے جس نےآگ سلگائی مگرجب آگ نےاُس کے گردوپیش اُجالاکر دیا،اللہ نے ان کی روشنی سلب
کرلی اور ان کو اندہیروں میں چھوڑ دیا اس حال میں کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا" ؛؛؛

یہ منافقین کے حالات کی تصویرکشی ھے.
جو کافر ھیں وہ تو ایک مستقل حال میں ھیں جسے روحانی نقطہ نظر سے اندھیرا ھی اندھیرا سمجھا جاسکتا ھے.مگر منافقین انہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آکر اظہارِ اسلام کیا.اس کی وجہ سے وہ اُس نورِ حقیقت سے قریب آگئے جو دین و دنیا کی ھدایت کا ذریعہ ھے اور اس طرح ایک آگ گویا انہوں نے سلگائی جس سے فائدہ اٹھانا ان کے لیے آسان نہ تھا.اس آگ کی روشنی گردوپیش پھیل گئی یعنی سینکڑوں طالبان حق اس کے نور سے منور ھوئے اور اس کی وجہ سے دنیا و آخرت کی کامیابی پر فائز ھوئے مگر خود یہ منافقین چونکہ انہوں نے دل میں انکار و عناد چھپا رکھا اور کھلے دل سے آیاتِ حقیقت پر غور نہیں لہذا ان کی آنکھوں کے سامنے وہ جو ایک جھلکی روشنی کی کبھی نمودار ھوئی تھی وہ بھی غائب ھوگئی اور توفیقاتِ الہیہ کے سلب ھوجانے سے جو ان کے سوء اختیار کا نتیجہ ھے انکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا ھی اندھیرا چھایا ھوا ھے.(2)
دوسری تفسیر اس تمثیل کی یہ ھے کہ ان منافقین,نے جب اظہارِ اسلام کیا تو اس کے نتائج نمودار ھوئے، ان احکام کی صورت میں جو ان کے اسلام پر مرتب ھوئے جیسے مالِ غنیمت سے حصہ ملنا، جان و مال کا محفوظ ھونا، اسلامی معاشرہ میں برابر کا درجہ دیا جانا وغیرہ یہ ھے وہ روشنی جو گردوپیش میں پھیل گئی مگر اس کے بعد جب آنکھ بند ھو,کے کھلی یعنی آخرت کی منزل سامنے آئی تو وہ سب برکات سلب نظر آئے.اب عذابِ آخرت اور اس کی سختیوں کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا. (3)
**


"صُمّ م بُکْمّ عُمِیّ فُهم لاَ یُرْجِعُوْنَ (18)
بہرے ، گونگے ، اندھے  ہیں وہ اب پلٹیں گے نہیں"؛؛؛
اس آیت کی وضاحت دوسرے مقام پر خود قرآن کی دوسری آیت سے معلوم ھوتی ھے کہ "لھم قلوب لایفقھون بھاولھم اعین لایبصرون بھاولھم اٰذان لا یسمعون بھا" (الاعراف #179) وہ بہرے اس معنی میں نہیں کہ ان کے کانوں میں سننے کی طاقت نہیں، کان ھیں اور کانوں میں ذاتًا سننے کی قوت بھی ھے مگر وہ ان کانوں سے صدائے حق سننے کا کام نہیں لیتے لہذا نتیجۃً وہ مثل بہرے کے ھوگئے ھیں.زبانیں بھی ھیں مگر تعصب اور ھٹ دھرمی کی وجہ سے کلمہ حق کے ساتھ گویا نہیں ھوتیں.اس اعتبار سے "گونگے" ھیں.آنکھیں ھیں مگر ان سے آیاتِ حقیقت پر نظر نہیں ڈالتے اور تعصب کے پردے ایسے پڑے ھیں کہ جلوہ حق انہیں نظر نہیں آتا.اس لحاظ سے وہ اندھے ھیں.(4)
اب جب انکی دشمنی اور ضد سے یہ ثابت ھے تو یہ اُمید کب کی جاسکتی ھے کہ وہ باطل سے حق کی طرف رجوع کریں اور اس مسلک سے جس پر قائم ھیں پلٹ کر کوئی دوسرا مسلک کریں.

**

"اَوْ کَصَیِبٍ مِنَ السَمَآءِ فِیْهِ  ظُلُمٰتّ وَرَعْدّ وَبَرْقّ^یَجْعَلُوْنَ  اَصَابِعَهمْ فِیْ اٰذَانِهمْ مِنَ  حَذَرِ الْمَوْتِ ^ وَالله مُحِیْطّ  بِالْکٰفِرِیْنَ (19)
یا جس طرح بارش آسمان کی جس میں تاریکیاں ھوں اورگرج اور چمک،وہ گرنےوالی بجلیوں سے مرنے کے ڈرسے اپنی
انگلیاں کانوں میں دے لیتےہیں حالانکہ اللہ کافروں کوھرطرف سے گھیرے ھوئے ھے"؛؛؛
یہ اسلام اور اُس میں منافقین کے کردار کی کچھ دوسری حیثیتوں سے تمثیل ھے.
اسلام اور اس کے برکات کیا ھیں؟؟ ایک موسلادھار بارش جو عالم بالا سے بورھی ھے جس سے فائدہ اُٹھارھے ھیں مگر مخالفینِ حق ، کافرین اور منافقین کے لیے اس میں تاریکیاں ھیں، گرج ھے اور چمک ھے کیونکہ اسلام کے غلبہ و رفعت سے اُنکی آنکھوں میں دنیا سیاہ ھے اور اپنے مستقبل کے لیے ان کا دل دھلا جاتا ھے اور آنکھیں خیرہ ھوئی جاتی ھیں.غزوات میں اسلامی فتوحات اور ان میں آئندہ کے لیے اُن کے مستقبل کے متعلق ھلاکت و تباھی کی جو تخویف و تہدید نظر آتی ھے اور اس کے متعلق وحی کے پُرزور اعلانات ان کے سامنے آتے ھیں.ان کے سننے کی تاب بھی انہیں نہیں ھے.اس سبب سے ان کے دل لرزنے لگتے ھیں اور وہ ان تاثرات سے بچنے کےلیے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ھیں یعنی کسی نہ کسی طرح ان کے سننے سے گریز کرتے ھیں.مگر یہ اُن کا کانوں میں انگلیاں دینا یعنی سننے سے گریز کرنا اس شترمرغ سے علٰیحدہ نہیں ھے جو آندھی کے ڈر سے ریگ (ریت) میں سرچھپا لیتا ھے.وہ اس طرح اُس عظیم انقلاب کے اثر سے محفوظ کہاں تک رہ سکتے ھیں.اسی کو ان الفاظ میں بتایا گیا ھے "اللہ ھر طرف سے کافروں کو گھیرے ھوئے ھے" اور وہ اس سے بچ کر نہیں نکل سکتے.
**

"یَکَادُالْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهمْ کُلَمَآ اَضَآءَلَهمْ مَشَوْا فِیْهِ وَاِذَآاَظْلَمَ عَلَیْهمْ  قَامُوْا^ وَلَوْشَآءَالله لَذَھَبَ بِسَمْعِهم وَ اَبْصَارِهمْ^ اِنَ اللہَ عَلٰی کُلِ شَئٍ قَدِیْرّ (20)
قریب ھےکہ بجلی انکی نگاھوں کوخیرہ کردے(1)جب وہ ان کے لیے اُجالا کرتی ھے تو وہ اس روشنی میں چلنے لگتے ھیں اور جب اُن پر اندھیرا ھو جاتا ھے تو وہ کھڑے ھو جاتےھیں.اور اگر خداچاھتاتوانکےسننےاوردیکہنے کی طاقتوں کو زائل ہی کردیتا بلا شبہ اللہ ھر چیز پر قادر ھے"
؛؛؛
منافقین کو نہ کوئی حق طلبی کا حذبہ ھے نہ وہ حق کو حق سمجھ کر اختیار کرنا چاھتے ھیں بلکہ اپنے دیرینہ کیش سے محبت کی وجہ سے اُنہیں دین حق کی کامیابیوں سے تکلیف ھوتی ھے مگر وہ اپنے دنیاوی مفادات کے تحفظ کے درپے ھیں اس لیے وہ اسلام کی روز افزوں ترقیوں اور کامیابیوں سے غیر متعلق نہیں رھنا چاھتے.انکی قلبی تکلیف کا نتیجہ یہ ھے کہ وہ ان فتوحات کو نظر بھر کر دیکھنے کی بھی تاب نہیں رکھتے اور قریب ھے کہ یہ چمک انکی نگاھوں کو خیرہ کردے.اور اس دنیوی مفاد کے تحفظ کی فکر باعث ھوتی ھے کہ جب یہ فتوحات حاصل ھوں تو وہ دو چار قدم بڑھ کر اپنے کو مسلمانوں سے قریب تر بنانے کی کوشش کریں لیکن جب اتفاق سے یہ فتح و ظفر کا سلسلہ رک جاتا ھے اور کہیں مسلمانوں کو وقتی شکست یا زحمت یا تکلیف پیش آجاتی ھے تو پھر فورًا یہ بڑھتے ھوئے قدم رُک جاتے ھیں.اس کا سبب یہ ھے کہ وہ دل سے حقانیتِ اسلام پر غور نہیں کرتے.اسی بنا پر قرآن نے جھنجھلائے ھوئے لفظوں میں آخر میں اس طرف اشارہ کیا ھے کہ یہ اللہ کا احسان ھے کہ اس نے انہیں آنکھوں اور کانوں کی نعمت سے کلیۃً محروم نہیں کردیا ھے.ورنہ جبکہ یہ ان آنکھوں اور کانوں سے کام نہیں لیتے، کانوں میں انگلیاں دے لیتے ھیں اور آنکھوں سے ان جلووں کے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتے تو یہ آنکھ اور کان اس قابل نہیں ھیں کہ ان کے پاس باقی رکھے جائیں.

---------------
(1) فان قیل کیف اشترواالضللة بالهدی وماکانوا علٰی هدی قلنا جعلوا لتمکنهم منه کانه فی ایدهم فاذا ترکوه ومالواالی الضللة فقد استبدلوهابه. (رازی)
ایمان کا قبول کرلینا ان منافقین کے بالکل اختیار کے اندر ھے لیکن اس کی بجئے انہوں نے روش کفر اختیار کی. (دریابادی)
(2) ولا جل ان ینوه الله بماللتوفیق والتسدیدمن الاثر الشریف فی تائیدالعقل علٰی مکافحتہ للوساس الشیطان ونزعات النفس الامارة واهوائهاعبر عن حالهم فی غیهم علٰی سبیل المجاز واستعارة بانهم حینئذ ذهب اللهبنورهم(بلاغی)
(3) وهذا هوالمروی عن ابن عباس وقتادة والضحاك والسدی. (مجمع البیان)
(4) لمالم تصل الیهم منفعة هذا الاعضاء فکانهم لیس لهم هذا الاعضاء. (مجمع)



**