تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 36 تا 40)


"فَاَزَلَهمَاالشَیْطٰنُ عَنْها فَاَخْرَجَهمَا مِمَاکَانَ فِیْه وَقُلْنَااهبِطُوا بَعْضُکُم لِبَعضٍ عَدُوّ ^ وَ لَکُمْ فِیْ الاَرْضِ مُسْتَقَرّ وَ مَتَاعّ اِلٰی حِیْنٍ (36).

اس کے بعد شیطان نے ان کا قدم پھسلاکروھاں سےھٹانےکاسامان کیا تو انہیں جس میں وہ تھے اس سے نکلوادیا اورھم نےکہا کہ اتر جاؤ تم میں ایک کاایک دشمن ھوگا اور تمہیں زمین پر ٹھہرنےاور ایک میعاد تک فائدہ اٹھانے کا موقع ھوگا"
؛؛؛
شیطان سے مراد وھی ابلیس ھے جسکا ذکر پہلے آچکا ھے.وہ اسکا نام تھا یہ اسکا وصف ھے جو اب اسکی شرارت کے ظہور کے بعد اس کے لیے ھمیشہ کے واسطے ثابت ھوگیا.(1)
"زل" کے معنی قدم کا پھسلنا اور "اَزَلَ" کے معنی "پھسلایا" اس کے مفہوم میں یہ مضمر ھے کہ اس عمل میں مخالفت الٰہی کا قصد و ارادہ نہ تھا.اب پھسلنے میں چونکہ ایک جگہ سے ھٹنے کا تصور شریک ھے اس لیے اس کے متعلق "عنھا" کے لفظ سے ذکر کیاگیا.یہ ضمیر جنت کی راجع ھے.(2)
اس سے بھی ظاھر ھے کہ شیطان کے کہنے سے جو کچھ ضرر مترتب ھوا وہ بس جنت سے ھٹنا تھا.یہ بھی اسکی دلیل ھے کہ وہ نہی جسکی مخالفت ھوئی "ارشادی" تھی "نہی مولوی" نہ تھی ورنہ اس کے نتیجہ میں سب سے بڑی چیز مالک کی ناراضی بیان ھوچاھیئے تھی اور اسی نقصان و مضرت کی پھر تشریح یہ کی گئی کہ اس عیش و آرام سے جس میں وہ تھے شیطان ان کے نکلنے کا باعث ھوگیا.یہی وہ مضرت تھی جس سے بچانے کےلیے وہ ممانعت ھوئی تھی اور اسکی تکمیل اس حکم الٰہی سے ھوگئی کہ اترو اب زمین پر تمہیں ایک مدت رھنا اور عمر گزارنا ھوگا.
اسکا ظاھری مفہوم اس امر کا پتہ دیتا ھے کہ وہ جنت زمین پر نہ تھی.
اس شیطان کی وسوسہ انگیزی کی پہلی ضمیریں تثنیہ کی تھیں "دونوں اس جگہ رھو" دونوں جس طرح چاھے کھاؤ پیو" دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا" نہیں تو تم دونوں ظالموں میں سے ھوگے" ان کے مخاطب آدم (ع) و حوا (ع) تھے.اب ابلیس کا ذکر آگیا تو تین ھوگئے اس لیے "اهبطوا" اترو اور "بعضکم لبعض عدو" تم میں ایک کا ایک دشمن ھوگا" جمع کی ضمیریں صرف ھوئی ھیں.اس سے ظاھر ھوتا ھے کہ سجدہ نہ کرنے کے بعد شیطان مجمع ملائکہ سے تو خارج کردیا گیا تھا مگر امکانی طور پر عالمِ اعلٰی سے نکالا نہیں گیا تھا اور اسی لیے اس جنت میں آدم و حوا (ع) تک پہنچ سکا.اب اس وسوسہ انگیزی کے بعد اس کا امکانی طور پر بھی وھاں سے نکالا گیا جو اُس کےلیے تو بطور سزا تھا کیونکہ وسوسہ انگیزی اسکا بطور شرارت ارادی فعل تھا اور آدم (ع) و حوا (ع) کےلیے یہ ان کے فعل کا لازمی نتیجہ تھا جسے مرتب ھونا اب ضروری تھا.اتنی وہ باتیں ھیں جو قرآن کریم سے ثابت ھوسکتی ھیں اس کے آگے جو تفاصیل روایات میں درج ھیں انکی حقیقت مولوی عبدالماجد دریابادی کے قلم سے سنیئے وہ لکھتے ھیں :
"بائبل میں ھے کہ یہ بہکانے والا سانپ کی صورت میں گیا، اس نے آکر پہلے حوا علیہاالسلام کو بہکایا اور پھر انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو بھی ترغیب کی.ھمارے مفسروں نے بھی ایک طویل قصہ نقل کیا ھے جس میں شیطان ، سانپ ، طاؤس سب کا ذکر آتا ھے.یہ قصہ بجائے خود کہاں تک صحیح ھے، اس سے یہاں بحث نہیں، کہنا صرف یہ ھے کہ یہ اسلامی عقائد میں بہرحال داخل نہیں اور اسکا مآخذ قرآن و سنت نہیں بلکہ اسرائیلی روایات ھیں. جو اھلِ تفسیر زیادی محتاط و محقق ھوئے ھیں وہ اس سے الگ ھی رھے ھیں بلکہ اس سے احتیاط ھی کی تنبیہ کی گئی ھے :
"اعلم ان هذاوامثاله ممایحب ان لا یلتفت الیه" (3)
"وقداکثرالمفسرون فی نقل قصص کثیرة فی قصه اٰدم و حواوالحیةوالله اعلم بذلك" (4)
"وقدذکرالمفسرون ههنااخبارا اسرائیلیة" (5)
علامہ بلاغی (رح) نے لکھا ھے :
"قد رویت فی کیفیة وصوله اليها و الوسوسة و المخاطبة بالاغوء روایات لم تصح"
شیطان آدم علیہ السلام اور حوا علیہاالسلام تک کیونکر پہنچا اور وسوسہ انگیزی کس طرح کی اورکہاں انہیں ورغلایا ! اس سب
کےبارے میں ایسی روایتیں آئی ھیں جو پایہ صحت تک پہنچی ھوئی نہیں ھیں" (آلاءالرحمٰن)

**

 

"فَتَلَقٰی اٰدَمُ مِنْ رَبِه کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ ^ اِنَهُ هوَالتَوَابّ الرَحِیْمُ  (37).

اس کےبعد آدم نے اپنےپروردگار سے کچھ کلمات سیکھ لیے تواس نے انکی توبہ قبول کرلی. وہ بڑا ھی توبہ قبول کرنے والا بہت
مہربان ھے"
؛؛؛
درخت کے قریب جانے سے ممانعت، جیسا کہ پہلے بیان ھوچکا اگرچہ مولوی نہ تھی ارشادی تھی مگر اس قسم کا بھی خالق کی ھدایت سے عملی انحراف ایک بلند تر درجہ اطاعت کے لحاظ سے پست ضرور تھا اور اس معنی سے اسے "ترکِ اولٰی" کہنا درست ھے اور اسی لیے وہ اگرچہ اصطلاحی گناہ نہیں جو منافی عصمت ھو مگر ایک نبی کو اس سے بلند تر درجہ سے اپنے پیچھے ثابت ھونے احساس اتنا ھی کرب اور بےچینی میں مبتلا کرتا ھے جتنا ایک واقعی گناھگار کو اسکا گناہ ____ بلکہ یہ گناھگار چونکہ اپنے ضمیر میں اتنی بیداری نہیں رکھتا اور اسکی نگاھ میں عظمتِ معبود کا اتنا احساس نہیں اسیے یہ اتنی تڑپ محسوس نہیں کرتا جتنا خالق کا ایک معصوم بندہ صرف کسی مستحب کے ترک ھونے بلکہ بسااوقات اپنے ذوق و حوصلہ اور ولولہ اطاعت کے درجہ تک عبادت سے قاصر رھنے کی وجہ سے تڑپ محسوس کرتا ھے.
اب اگر بندہ واقعی گناھگار ھوتا تو خالق کی ناراضگی نگاھِ مرحمت کو اس سے ھٹائے ھوئے ھوتی.اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ خود اسکی طرف متوجہ ھوکر اسے توبہ کا کوئی ذریعہ بتائے.
یوں عمومی طور پر عفوِگناھان کےلیے دعاؤں کا وارد ھوجانا اور چیز ھے اور کسی بندہ کی طرف خصوصیت کے ساتھ نگاھِ توجہِ الٰہی کا مبذول ھونا اور چیز ھے.یہ توجہ تو خود بتاتی ھے کہ بندہ حقیقی معنی میں گناھگار نہیں ھے صرف ذوقِ عبودیت کی بلندی سے بارگاہ الٰہی میں اپنے مجرم ھونے کا تصور قائم کرکے دل میں کڑھ رھا ھے، پریشان ھے اور ایک اضطراب محسوس کررھا ھے.اس لیے خداوندِ کریم کا لطفِ خصوصی اور تفضلِ امتیازی اس بندہ کی طرف متوجہ ھوکر اسکی تسلی کا سامان بہم پہنچاتا ھے، اس طرح کہ اسے خود کچھ اندازِ توبہ سکھاتا ھے کہ اچھا تم سے اگر کچھ کمی ھوئی ھے جس سے تم اپنے کو مجرم محسوس کرتے ھو تو یہ میرا بتایا ھوا انداز اختیار کرو پھر اس کے بعد جو کمی تم سے ھوئی تھی وہ کالعدم ھوجائیگی.اسی کو کہتے ھیں توبہ کا قبول ھوجانا.
اب اس توجہ باری کو دیکھ کر اور اس ھدایتِ ربانی پر عمل کرکے اس عبدِالٰہی کو گونہ سکون محسوس ھوتا ھے اور یہ خالق کی عنایت اس کے زخم پر پھاھا رکھ کر اب آئندہ زندگی میں ایک بلند تر معیارِ اطاعت و عبادت کی عملی پابندی کےلیے اسے ذوق و شوق اور نیا حوصلہ بخشنے میں مددگار ھوتی ھے.
اس سے ظاھر ھوا کہ یہاں نہ حقیقت میں گناھ تھا اور نہ گناھ سے توبہ اور اسکی قبولیت.بلکہ صرف وہ آدم علیہ السلام کی جلالت کے لحاظ سے ایک بلند تر مرتبہ سے پیچھے رھنا تھا اور اسی کے شدت احساس کے ساتھ آئندہ سے اس سے باز رھنے کا عزم توبہ تھا اور خالق کی برف سے ان کو اپنی پوری مہربانی و عنایت کے استحقاق کی اطمینان دھانی قبولِ توبہ ھے.
اس سے سیاقِ کلامِ ربانی میں ایک طرح کے اختلافِ اسلوب کا راز معلوم ھوگا وہ یہ کہ ممانعت جو درخت کے پاس جانے سے ھوئی تھی اس میں آدم (ع) اور حوا (ع) دونوں شریک تھے اور وھاں صیغے تثنیہ کے صرف ھوئے تھے مگر اس کے بعد توبہ کے لیے الفاظ سیکھنے سکھانے اور اس کے بعد توبہ کی قبولیت کے محل پر صرف آدم علیہ السلام کا نام لیا گیا اور مفرد ھی صیغے صرف ھوئے ، اسکا کیا سبب ھے؟ سبب یہی ھے کہ اگر وہ قانونی گناھ ھوتا تو قانون چونکہ عام ھوتا ھے اس لیے جرم مشترک ھوتا اور توبہ اور اسکی قبولیت دونوں کے لیے ضروری ھوتی مگر چونکہ وہ گناھ تھا ھی نہیں بلکہ ترکِ اولٰی تھا صرف آدم علیہ السلام کی جلالت قدر کے لحاظ سے اور قبولِ توبہ اسی احساس کے مقابلہ میں تسلی دھانی تھی ، اس لیے ان چیزوں کا تعلق صرف آدم علیہ السلام سے رھا.ترکِ اولٰی جناب آدم علیہ السلام کا تھا.اس پر اضطراب اور بےچینی اور جیسا کہ روایات میں ھے شدت گریہ ، یہ سب آدم علیہ السلام کےلیے ھوا اور اسی لیے الفاظِ توبہ سکھانے کی ضرورت آدم (ع) کو ھوئی اور قبول توبہ کی تصریح بھی انکی نسبت ھوئی.یہ اور بات ھے کہ جب آدم (ع) نے الفاظ سیکھ لیے تو حوا (ع) کو بھی سکھا دیئے ھوں اور دونوں نے زبان پر جاری کرلیے ھوں ، جیسا کہ دوسری جگہ ھے :
"قال ربنا ظلمناانفسناوان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین" (الاعراف#23)
یا ھم کہیں کہ حوا (ع) بھی طبقہ خواتین میں کسی خاص درجہ رھنمائی پر فائز تھیں.اس لیے وہ کسی حد تک ان کے لیے بھی ترکِ اولٰی تھا اور اس لیے انہیں اتنی بےچینی نہ سہی جو حضرت آدم علیہ السلام کو تھی پھر بھی انفعال ھوا اور انہوں نے الفاظ توبہ کے ادا کرنے میں آدم علیہ السلام کے ساتھ شرکت کی.
**

 

"قُلْنَا اهبِطُوْا مِنْها جَمِیْعًا ^ فَاِمَایَاتِیَنَکُمْ مِنِیْ هدًی فَمَنْ تَبِعَ هدَایَ فَلاَ خَوْفّ عَلَیْهمْ وَلاَهمْ یَحْزَنُوْنَ  (38).

ھم نےکہا تم سب اس سے اتر جاؤ.اس کےبعداگرمیری طرف سےتمہاری جانب کوئی ھدایت پہنچے تو جس نے میری پیروی
کی ان کے لیے نہ کوئی خوف ھوگا اورنہ انہیں رنج پہنچےگا"
؛؛؛
قبولِ توبہ کے بعد پھر بھی اُترنے کا حکم ھونا اسکی دلیل ِقوی ھے کہ زمین پر اتارا جانا آدم و حوا علیھماالسلام کےلیے بطور سزائے جرم نہ تھا ورنہ قبولِ توبہ کا اعلان ھوچکنے کے بعد پھر سزا کے برقرار رھنے کے کوئی معنی نہیں.
حقیقت امر یہ ھے کہ یہ سزا نہیں تھی بلکہ درخت کے قریب جانے کا لازمی اثر تھا جس کا مرتب ھونا بہرحال ضروری تھا اور واقعہ تو یہ ھے کہ آدم علیہ السلام اسی زمین کی خاطر ھی پیدا ھوئے تھے جیسا کہ خلقت سے پہلے ھی ملائکہ کو خبر یہی دی گئی تھی کہ
"انی جاعل فی الارض خلیفة"
میں زمین میں جانشین قرار دینے والا ھوں"
درخت سے تناول کرلینا زمین پر بھیجے جانے کا فوری سبب ھوگیا اور اگر یہ سبب وقوع میں نہ آتا تو کچھ مدت تک اور جنت میں رھنے دیئے جاتے مگر آخر میں پھر زمین پر بھیجے جاتے جس سے ان کے مقصدِ خلقت کی تکمیل بہرحال وابستہ تھی.
اب "قلنااهبطوا" کے بعد جو خطاب ھے وہ آدم و حوا علیھما السلام کو سامنے رکھ کر اس پوری نوع سے ھے جو انکی ذریت میں سے اس معمورہ ارض کو نسلاً بعد نسلٍ آباد کریگی اور اب اس حکم سے قوانینِ تکلیفیہ کا آغاز ھورھا ھے جس کے ساتھ جزاء و سزا کا وعدہ و وعید بھی موجود ھے یعنی نوعِ انسانی کے سامنے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی زبانی جو تعلیمات پہنچتی رھیں گی انکی جو اطاعت کریں گے انہیں نجات حاصل ھوگی.
نجات کے مفہوم کو ان الفاظ میں ادا کیاگیا ھے کہ انہیں خوف اور رنج درپیش نہ ھوگا.اس کا خوف و رنجِ دنیا سے کوئی تعلق نہیں ھے.اسکی دلیل یہ ھے کہ اس کے بالمقابل جو کفر اختیار کریں گے ان کے ذکر میں آئندہ آیت میں آگ میں ھمیشہ رھنے کا ذکر ھے.وہ یقینًا آخرت سے متعلق ھے.اسی سے سمجھ میں آجاتا ھے کہ یہ خوف اور رنج کی نفی جو اھلِ ایمان سے کی گئی ھے یہ بھی آخرت سے متعلق ھے ورنہ دنیا میں تو صاحبانِ ایمان اکثر وپیشتر خوف و رنج میں مبتلا رھتے ھیں.
**

 
"وَالَذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُوْلٰئِكَ اَصْحٰبُ النَارِ همْ فِیْها خَالِدُوْنَ(39).
اورجوکفراختیارکریں گےاور ھماری آیتوں کوجھٹلائیں گے یہ دوزخ والےھوں گےکہ وہ اس میں ھمیشہ ھمیشہ رہیں گے"
؛؛؛
"نار" کے معنی تو مطلق آگ کے ھیں مگر اس پر "ا ل" عہد خارجی کا ھے جس سے اشارہ اس خاص آگ کی طرف ھوتا ھے جو آخرت کے عذاب کے لیے الٰہی مخبروں نے بتائی ھے جسے اصطلاحًا "جہنم" کہا جاتا ھے اور اسکا ترجمہ "دوزخ" کیا جاتا ھے.
جیسا کہ مولوی عبدالماجد صاحب نے لکھا ھے کہ "اس آگ کا ذکر سابقہ کتب سماویہ میں بھی کہیں کہیں پایا جاتا ھے جیسے :
"فرشتے نکلیں گے اور شریروں کو راست بازوں سے جدا کردیں گے اور انہیں آگ کی بھٹی میں ڈال دیں گے وھاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ھوگا" (متی 49:13 و 50)
اے ملعونو!میرے سامنے سے اس ھمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ جو ابلیس اور اس کے تابعین کے لیے تیار کی گئی ھے اور یہ ھمیشہ کی سزا پائیں گے. (متی 41:25 و 46)
-جہنم میں ڈالا جائے جہاں اس کا کیڑا نہیں مارتا اور آگ نہیں بجھتی. (مرقس 48:9)"
یہی دونوں باتیں کہ اس آگ میں داخل ھونے والے کے لیے پھر موت نہیں جو اس عذاب کو ختم کردے اور نہ وہ آگ خود بجھنے والی ھے کہ اس سے کبھی نجات حاصل ھوسکے قرآن کریم میں "خالدون" کے لفظ سے ادا کی گئی ھیں"
یہ "خلود" جنت اور جہنم دونوں کا وصف ھے.وھاں کی نعمت ختم ھونیوالی نہیں اور یہاں کا عذاب.ھاں جہنم سے کچھ اشخاص کو جنکی معصیت حدِکفر تک نہیں پہنچتی ھے میعادی سزا بھی دی جائیگی اور بقدرِ گناہ اس سزا کے ختم ھونے کے بعد وہ بہشت میں جو انکی اصلی جگہ ھے ھمیشہ کےلیے داخل کردیئے جائیں گے یہ لوگ دراصل "اصحاب النار" کے لفظ کے مستحق ھیں ھی نہیں کیونکہ یہ عذاب ان کے لیے انکی دنیا کی بہت سی تکلیفوں کی طرح ایک عبوری دور کی حیثیت رکھتا ھے.انجامِ آخر کے اعتبار سے انہیں "اصحاب الجنة" ھی سمجھنا درست ھے اور اسی لیے کفر اور تکذیب کرنے والوں کے ذکر کے ساتھ "اولٰئك اصحاب النار" کا لفظ کہاگیاھے جس سے ظاھر ھوتا ھے کہ یوں وقتی طور پر عذابِ جہنم سے چاھے کچھ اور لوگوں کو بھی سزایاب بنادیا جائے مگر اصلی تعلق رکھنے والے دوزخ کے ساتھ یہی لوگ ھیں جنہوں نے جان بوجھ کر کفر اختیار اور آیاتِ الہیہ کی تکذیب کو شعار بنائے رکھا.
**

"یٰبَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهدِیْ اُوْفِ بِعَهدِکُمْ ^وَ اِیَایَ فَارْهبُوْنِ (40).
اےبنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازااورمجھ سےجومعاھدہ ھے اسے پورا کرو تو میں تم سے
معاھدہ پوراکروں اور اسکےبعد مجھ سے ڈرتے رھو'؛؛؛
حضرت ابراھیم علیہ السلام کے فرزند اسحٰق علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند یعقوب علیہ السلام ھوئے جو "اسرائیل" کہلائے.عبرانی میں ایل کی لفظ اللہ کےلیے آتا ھے اور اسی وجہ سے ملائکہ کے ناموں میں یہ لفظ آیا کرتا ھے جیسے جبرائیل(ع)، عزرائیل(ع) ، اسرافیل (ع) وغیرہ.اس سے اس طرح کی اضافت نکلتی ھے جیسے عبداللہ ، قدرةاللہ وغیرہ.اسراء کے معنی 'قوة' کے تھے اور اس طرح اسرائیل کے معنی ھوئے 'اللہ کی قوت'
اس لقب کے ساتھ انکا تعارف صرف بطور نسبت اظہارِ شرف کےلیے ھوسکتا ھے جیسے آدم علیہ السلام کےلیے 'صفی اللہ' ، شیث علیہ السلام کے لیے 'ھیبةاللہ' ، نوح علیہ السلام کے لیے 'نجی اللہ' وغیرہ کے القاب.لیکن اُس لقب کے ساتھ ملقب ھونے کی تقریب کے طور پر مروجہ توریت میں میں ایک خرافاتی حکایت درج کی گئی ھے جس میں یعقوب علیہ السلام کا خدا کے ساتھ کشتی لڑنا مذکور ھے.یہ حکایت بالکل بےبنیاد اور یہود کی اختراع کردہ ھے جو جلالِ الٰہی کے بالکل خلاف ھے.
بنی اسرائیل صدیوں تک دنیا میں بڑے عروج کی منزل پر رھے.انہیں اللہ نے اپنی جس نعمت سے نوازا اسکی ذرا تفصیل دوسری جگہ قرآن میں حضرت موسٰی علیہ السلام کی زبانی درج ھے :
"واذقال موسٰی لقومه یقوم اذکروا نعمةاللہ علیکم اذجعل فیکم انبیاء و جعلکم ملوکًا واتاکم مالم یؤت احدا من العالمین"
اور جب موسٰی نے اپنی قوم سے کہااےقوم والو! یادکرواللہ کی اُس
نعمت کوجو تم پرھے جبکہ اس نے تم میں پیغمبربنائے اورتمہیں بادشاہ بنایااورتم کووہ دیاجودنیا میں کسی کو نہیں دیا" (المائدہ#20)
ان پر خالق نے اور جو خصوصی فضل و احسان کے مظاھرے فرمائے ھیں اور ان کے ساتھ جو جو رعایتیں ھوئی ھیں انکا ذکر اسی سورہ بقرہ میں بہت دور تک جستہ جستہ آتا رھیگا مگر تمام نعمتوں ، ان تمام احسانوں اور رعایتوں کے باوجود اس قوم کی اکثریت برابر خالق کی نافرمانی کرتی رھی اور چند دفعہ ایسا ھوا کہ من حیث القوم سب کے سب مرتد ھوگئے.اسکا نتیجہ یہ تھا کہ باوجودیکہ صدھا برس تک انبیاء اس قوم میں ھوتے رھے آخر میں نبوت کی نعمت اس سے سلب ھوگئی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو مبعوث ھوئے وہ آلِ ابراھیم کی دوسری شاخ یعنی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں ھوئے.یہ چیز بنی اسرائیل کےلیے بڑی تکلیف دہ ثابت ھوئی.
زمانہ نزولِ قرآن میں یہ بنی اسرائیل دو مذھبوں میں تقسیم تھے.ایک یہود جو حضرت موسٰی علیہ السلام تک مانتے تھے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے قائل نہ تھے.دوسرے نصارٰی جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کو رسالت کی منزل سے گزار کر خدا یا خدا کے بیٹے کی حد تک مانتے تھے.اسلام سے ان دونوں قوموں کو علاوہ مذھبی اختلافات کے یہ جذباتی تعصب بھی تھا کہ یہ رسول ھماری قوم سے نہیں آیا ھے بلکہ بنی اسمٰعیل (ع) سے آیا ھے جو روایاتِ قدیمہ کے بالکل خلاف ھے.اس آیت میں قرآنِ مجید نے اسی کا جواب دیا ھے اور کہا ھے کہ ذرا میرے احسانات کو یاد کرو کہ تمہارے ساتھ میں نے کیاکیا حسنِ سلوک کیا.اس کے ساتھ تم نے ھمیشہ کفرانِ نعمت اختیار کیا.پھر اب اگر ایک دوسری قوم کی نوازش نعمت و فضلِ نبوت کے ساتھ ھوگئی تو اس پر چراغ پا کیوں ھوتے ھو؟
پھر یہ کہ خود تمہارے انبیاء نے جنہیں تم جانتے ھو پہلے ھی میری طرف سے تم کو یہ خبر پہنچادی تھی کہ آخر زمانہ میں میں اولادِاسمٰعیل (ع) سے ایک نبی پیدا کرونگا.اب وہ نبی آیا ھے تو مجھ سے اپنے اس عہد کو پورا کرو کہ اسکی اطاعت کروگے پھر مجھ سے اس کے بعد اپنے لیے بھی نوازش و کرام کے عہد کو پورا کرنے کے متوقع ھونا.اور جب ایسا نہیں ھے تم کفرانِ نعمت کرتے رھے اب عہد شکنی کر رھے ھو تو پھر مجھ سے تم کسی خوشگوار نتیجہ کا مطالبہ کیوں کرتے ھو.تمہیں تو اب مجھ سے ڈرتے ھی رھنا چاھیئے.
اس سے ایک عام اصول مستفاد ھوتا ھے کہ اگر انسان خدا کے ساتھ اپنے فریضہ کی تکمیل نہیں کرتا تو اسے حق بھی نہیں کہ وہ اللہ سے اُس کے کسی وعدے کی تکمیل کا مطالبہ کرے.اسی لیے امام جعفر الصادق علیہ السلام نے اس آیت کو پیش فرمایا اُس شخص کے جواب میں جس نے پوچھا تھا کہ خدا نے قبولیتِ دعا کا وعدہ کیا ھے پھر ھم دعائیں کرتے ھیں تو وہ قبول کیوں نہیں ھوتیں.آپ (ع) نے فرمایا :
"انکم لا تفون الله بعهده فانه تعالٰی بقول اوفوابعهدی اوف بعهدکم و اللہ لو وفیتم لله سبحانه لو فی لکم" (صافی)
(یعنی) تم اللہ سے وہ عہد جو اس نے تم سے لیا ھےپورانہیں کرتے. خود اس نے ارشاد کیا ہےکہ تم میرےعہدکوپوراکرو
میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اگر تم اللہ سے وعدہ وفائی کرتے تووہ بھی تم سے ایفائے عہد کرتا" (6)
**
----------------


(1). الشیطان فعال من شطن ای بعد سمی به لبعده عن الخیر عن الرحمة (بغوی)
(2). ازلهما عن الجنة بمعنی ___ ابعدهمامنها فان الازلال والازلاق یقتضی زوال الزال عن موضوع البتة (ابوالسعود)

(3). معلوم ہوناچاہیئے کہ یہ اور ایسی روایتیں وہ ہیں جنکی طرف توجہ نہ کرنا واجب ہے (کبیر)
(4). مفسرین نے بکثرت قصے آدم (ع) اور حوا (ع) اور سانپ کے بارے میں درج کیے ہیں اور حقیقت حال سے بس اللہ واقف ہے (بحر)
(5). مفسرین نے یہاں بہت سی اسرائیلی روایتیں درج کردی ہیں (ابن کثیر)
(6). ویوحذمن الایة قاعدة كلية وهی ان من لم یف بعهدالله فیما اخذه من الدین والشریعة فهو بنفسه قد عهدالله معه و خرح عن كونه اهلا لما وعدبه من اللطف والرحمة واستجابة الدعاء. (البلاغی)