تکامل انسان ہدف بعثت انبیاء

تکامل انسان  ہدف بعثت انبیاء

مقالہ از: ڈاکٹر عبداللہ نصری

ترجمہ: محمد عیسیٰ روح اللہ

تصحیح: حجۃ الاسلام غلام قاسم تسنیمی

پیشکش: امام حسین فاؤنڈیشن قم
 


بسم الله الرحمن الرحیم

دیباچہ
الحمدُ للّه ربّ العالمين، بارئ الخلائق أجمعين، و باعثِ الرسل بما فيه حياةُ أهل الأرضين، و نصلّي على خير خلقِهِ محمّد كما حَمَل وحيه، و بلّغ رسالاته، و أحلّ حلاله، و حرّم حرامه. و على الأوصياء من بعده، سيما ناموس الدهر و امام العصر صاحب زماننا و مالك رقابنا القائم المؤمل و العدل المنتظر الحجة بن الحسن العسكري عليه السلام اللهم عجل فرجه الشريف و سهل مخرجه المنيف، و اجعلنا من أعوانه و أنصاره.
اما بعد
مقالہ حاضر ایک فارسی مقالہ کا ترجمہ ہے جسے فاضل محترم ڈاکٹر عبداللہ نصری نے زیب قلم و قرطاس فرمایا تھا، جناب استاد محترم قبلہ حجۃ الاسلام شیخ غلام قاسم تسنیمی کے زیر نظر اردو میں ترجمہ کیا۔
 ترجمہ میں جہاں کہیں ضرورت کا احساس کیا وہاں (مترجم) کے عنوان اضافہ کیا۔ اس ترجمہ میں موجود تمام قرآنی آیتوں کاترجمہ مرحوم ذیشان جوادی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ سے لیا ہے۔
یہ ترجمہ حقیقت میں دومفکر جناب انجنئر  مہدی بازرگان اور ڈاکٹر سروش کے بعض نظریات کا تجزیہ اور تحلیل ہے جس میں جناب ڈاکٹر عبداللہ نصری نے اپنی علمی توان کے مطابق ان مفکروں کو منہ توڑ جوا ب دیا ہے۔
ڈاکٹر عبد اللہ نصری 1952  (1332ش) پیدا ہوئی ڈاکٹریت آپ نے امام صادق یونیورسٹی سے حاصل کیا۔ آپ کے اب تک دسیوں مقالات منظر عام پر آ چکے ہیں آپ کے مقالات زیادہ تر رسالت انبیاء اور اس سے متعلق شکوک کے جواب میں ہے اس وقت آپ علامہ طباطبائی رہ یونیورسٹی میں گروہ علمی کا رکن ہے۔


پیغمبروں کی رسالت کے بارے میں ایک اہم سوال
سوال انبیاء علیہم السلام کے اصلی ہدف کے بارے میں ہے۔ کہ کیا انبیاء علیہم السلام لوگوں کی دنیوی زندگی کو آباد کرنے کے لئے آئے ہیں یا ان کی اخروی خوشی اور  مسرت کی خاطر؟
اس گفتار میں ہم ان شکوک کی تحلیل اور تجزیہ کریں گے جن کو انجنئر  مہدی بازرگان( 1) اور ڈاکٹر سروش کی جانب سے تجویز ہوئی ہیں۔
انجنئر  بازرگان نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں یہ تھیوری پیش کیا تھا کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ہدف صرف اور صرف لوگوں کو خدا اور آخرت کی طرف دعوت کے علاوہ کچھ نہ تھا ، انبیاء آئے ہیں تاکہ لوگوں کو توحید اور آخرت کی زندگی سے واقف کریں۔
انبیاء علیہم السلام معاشرے کو چلانے کی سوچ   میں نہیں تھے۔ وہ بشر کی اصلاح کے لئے نہیں آئے ہیں ا ن کی باتوں سے اصلاح کی توقع نہیں رکھنی چاہیئے۔
انبیاء علیہم السلام آئے ہیں تاکہ ہمیں ہٹھ دھرمی سے نجات دلا کر زندگی جاوید  سے واقف کرائیں۔ انبیاء کا یہ دو فکری محور یعنی توحید اور حیات جاوید ایسی چیز نہیں کہ بشراپنی عقل سے انہیں حاصل کرلیں۔ لیکن وہ امور جو  بشر سے انجا پا سکتی ہیں جیسے معاشرے کی اصلاح، انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں سے نہیں ہیں۔
"خالق کائنات اور اس کے رسولوں کے لئے ضروری ہے کہ انہی مقیاس اور تعلیمات کے مطابق پیغام پہنچائیں کہ بشر اور اس کا علم ذاتا و فطرنا اس کو سمجھنے سے عاجز ہے اور دنیا اپنی تمام توانائیوں کے باوجودانسان کو یہ اجازت نہیں دے رہی ہے کہ اس میدان میں قدم رکھے ،و گرنہ جو چیزیں انسان خود درک کر سکتے ہوں ان کو بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔"( 2)
ڈاکٹر عبدالکریم سروش رقمطراز ہیں:
"خدا نے اصل میں دین کو اس دنیا کے کاموں کو سدھارنے اور  گری ہوئی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے نہیں بھیجا ۔ اصولا دینی تعلیمات آخرت کی زندگی  کو منظم کرنے کے لئے ہیں؛ یعنی زندگی جاودان میں سعادت کے اسباب مہیا کرنے کے لئے۔"(3 )
ان کی نظرمیں دین لوگوں کی زندگی کو منظم کرنے سے عاجز ہے۔ اگر دین سے یہ توقع رکھا جائے کہ یہ ہماری زندگی کی مدیریت کرے گا تو یہ دین نہیں رہے گا بلکہ دنیا ہو جائے گی۔
"حقیقت میں یہ ایک ایسا دین ہے جو دنیا کا خادم اور نوکر اور دنیا اس کا آقا ، باس اور مالک ہوگی"( 4)
ان نظریات کی تجزیہ اور تحلیل کے لئے دو موضوع کو مورد بحث قرار دینا چاہیئے:
کیا انبیاء علیہم السلام دنیا کے لئے آئے ہیں یا آخرت کے لئے؟
کیا دین میں معاشرہ چلانے کی طاقت ہے یا نہیں؟
اس گفتار میں ہم صرف موضوع اول کی تجزیہ اور تحلیل کریں گے اور دوسرے موضوع کو ایک الگ مقالہ میں موضوع گفتگو قراردیں گے۔
پس پہلے سوال کے جواب میں نظر کوصرف اور صرف دین کے داخلی مسائل پر مرکوز رکھ سکتی ہے۔نیز وہ نظر جس کی بنیادیں زیادہ تر دین کے خارجی مسائل سے مربوط ہیں یعنی آیات اور روایات کی طرف توجہ کرنا، ان کو صرف شاہد کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں دلیل کے طور پر نہیں۔
ابتدا میں بعثت انبیاء علیہم السلام کے ہدف کو اسی نگاہ سے مطالعہ کر نے بعد وحی اور دینی متون کی طرف مراجعہ کرتے ہوئے موضوع کی تجزیہ اور تحلیل کریں گے۔
مسئلہ کو دین کے خارجی مسائل کی نگاہ  سے واضح کرنے کے لئے کئی اصول کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے:


پہلی اصل:
دین کا مقصد اور ہدف کمال انسان ہے۔انبیاء علیہم السلام انسانوں کو ان کی فطری کمال تک پہنچانے کے لئے آئے ہیں۔ یہ  اصل ان مقدمات کی بنا پر ہے:
الف: کائنات کا کوئی ہدف ہے یہ  بے مقصد اور  بیہودہ خلق نہیں ہوئی ہے۔ تمام مخلوق ایک خاص ہدف کی طرف رواں دواں ہیں۔ ان کی خلقت تدبیر اور حکمت کی بنیاد پر ہے۔
﴿وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَ الْأَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا بَاطِلاً ﴾(5 )
اور ہم نے آسمان اور زمین اور اس کے درمیان کی مخلوقات کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے
﴿أَ فَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثاً وَ أَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ﴾( 6)
کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤ گے۔
ب: موجودات کی خلقت کا ہدف  شوق کمال ہے۔ ہر موجود اس لئے خلق ہوا کہ وہ اپنی وجود میں منزل کمال تک پہنچ جائے  اس کائنا ت کا ذرہ ذرہ ایک داخلی اقتدار اور طاقت کی وجہ سے کسی خاص ہدف کی جانب رواں  ہیں۔ بعبارت دیگر اگر کوئی رکاوٹ پیش نہ آئےتو تمام  موجودات اپنی اپنی قوتوں اور  صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں، مثال کے طورپر گندم کا ایک دانہ یا کسی پھل کا بیج جو زمین میں ڈالی گئی ہیں، کئی ایک مرحلوں کو طے کرنے کے بعد منزل کمال تک پہنچ جاتے ہیں کہ ایک دانوں بھرا خوشہ یا ایک پھل دار درخت بن کر  کامل ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح نطفہ کا قطرہ جو ماں کے پیٹ میں جاکر رحم میں مستقر ہوجاتا ہے اور اسی آغاز سے ہی اپنے ہدف ( جو  کہ جنین  کو وجود میں لانا )کی طرف مشغول سفر ہے۔ موجودات بھی اس فطری اور تکوینی ہدایت کی بدولت اپنے وجودی کمال کی طرف سفر میں ہیں۔خدا وند عالم جو کہ جہانوں کا پالنے والا ہے  ان تمام موجودات کو اپنی طور پر اس ہدف سے مناسب جسم او رجسامت عطا کرتا ہے اور انہیں آخری ہدف کی طرف دھکیل دیتا ہے۔
﴿قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْ‌ءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى﴾(7 )
موسٰی علیہ السلام نے کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے۔
ج: انسان ایسے موجود ہیں جو ارادہ اور  اختیار کے مالک ہیں، اسی ناطے کمال کے شاہراہ پر اپنی ارادہ اور اختیار سے سفر کریں ۔ اور مادی و معنوی دونوں ابعاد میں کمال تک پہنچ سکتے ہیں اور یہ کمال اس کی اختیار میں ہے۔
﴿وَ لَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا﴾( 8)
اور اگر ہم چاہتے تو (جبراً)  ہرنفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔
د: انسان چونکہ محدود  اور خطا کا پتلہ ہیں اس لئے اکیلا کمال کی منزل پر نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ اگر خداوند عالم ہدف خلقت سے واقفیت اور کمال تک پہنچنے کا علم انسان کو نہیں دیتا تو خلقت فضول اور لہو ہو جاتی۔ خدا نے پیغمبروں کو بھیجا تاکہ کمال تک جانے کا راستہ انسانوں کو دکھائیں ۔ اس بیان یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعثت انبیاء کا مقصد انسانوں کو کمال تک پہنچانا ہے۔
دوسری اصل
کمال ، انسان کی روح سے مربوط ہے۔ انسان کے لئے  باقی موجودات کے برخلاف  جسمانی کمال بھی ہے اور روحانی کمال بھی۔ہدایت تکوینی کا جسم کی کمال میں کلیدی کردار ہے اور انسان اپنی روحانی کمال میں انبیاء علیہم السلام کی طرف محتاج ہیں۔
تیسری اصل
انسان کی روح ایک متصل موجود ہے جو دو زندگیوں کو پا لیتی ہے ایک دنیوی زندگی اور دوسری اخروی زندگی۔ اخروی زندگی کے بھی دو مرحلے ہیں ایک عالم برزخ  اور دوسرا عالم قیامت۔دوسری عبارت میں انسان کی روح کو کبھی فنا نہیں دنیوی زندگی کے بعد سے قیامت تک مختلف مراحل طے کرتی ہے۔علامہ اقبال رہ فرماتے ہیں:
جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں
چوتھی اصل
روحانی کمال یعنی انسان کی اندرونی قوتون او رصلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے انسان کئی ایک قوتوں اور صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن یہ صلاحیتیں بالقوہ ہیں انہیں فعلیت دے کر کمال تک پہنچ سکتے ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
اگر مقصود کل میں ہوں تو مجھ سے ماوراء کیا ہے؟
مری ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی انتہاء کیا ہے؟
پانچویں اصل
انسان معاشرے میں رہ کر بھی کمال تک پہنچ سکتے ہیں۔ انسان کی بہت سے اوصاف سماج میں بیٹھ کر نمایاں ہو جاتے ہیں۔ انسان کمال صرف فردی نہیں ہے ۔ بلکہ ایک اجتماعی پہلو بھی ہے۔ بعض مکاتب فکر جیسے  بعض ہندو مذاہب اور تصوفی حلقوں  کا انسان کی انفرادی تکامل پر تاکید ہیں اور  سماجی مسائل سے غافل ہیں ان لوگوں کا خیال ہے کہ  بعض گنے چنے لوگ ہی کمال تک پہنچ سکتے ہیں  حالانکہ ایک صحت مند معاشرہ  بھی انسانوں کو کمال  کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ ایک  بیمار معاشرے میں صرف گنے چنے افراد ہی کمال تک پہنچ سکتے ہیں ۔ جبکہ ایک  صحت مند معاشرے میں کمال تک جانے کے راستے سب کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔
چھٹی اصل
صحت مند معاشرہ صرف وہ معاشرہ نہیں جس کے افراد صحت مند ہوں  بلکہ اس معاشرے  کی فطرت، فضا، آب و ہوا سے لے کر رسم و رواج تک صحت مند ہوں ۔ اگر کسی معاشرے کا ہدف خلقت کے فلسفے کو تحقق بخشنا نہیں ہو، اگر الہی اقدار اس معاشرے کے افراد، فضا،فطرت، آب و ہوا اور رسم و رواج پر حاکم نہ ہوں  تو وہ معاشرہ دینی معاشرہ نہیں ہے۔ اگر کسی معاشرے کے تمام قوانین دینی نہ ہوں؛ آپس کے تعلقات دین کی بنیاد پر استوار نہ ہوں، داخلی اور خارجی پالیسیاں دین کی بنیاد پر نہ اپنائے جائیں اور  معاشرے کی اصل، بنیاد اور ریشہ  پارٹی کی بنیاد پر ہو تو اس معاشرے کو دینی معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں سے ڈاکٹرسروش کے اس تھیوری کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے  جس میں معاشرے کو "دینداروں کا معاشرہ " کہا گیا ہے۔
ایک طاغوتی اور ظالم معاشرے میں بھی دیندار لوگ ہر میدان میں حاضر ہو سکتے ہیں لیکن وہ معاشرہ دینی نہیں ہوگا۔ یہ سارے اجتماعی اور سماجی اصول جو اسلام میں ہے اصل امر بہ معروف سے لے کر جہاد تک، حدود الہی کا نفاذ اور نیک صالح لوگوں کی حکمرانی تک  اس بات کی دلیل ہے دینی معاشرہ وہ ہے جس کے افراد اور  گروہوں سے لے کر ماحول اور  آب  و ہوا  تک سب دینی ہوں۔
ساتویں اصل
دنیا او راخرت کا رابطہ عمل اور عکس العمل کا رابطہ ہے دنیا عمل اور  آخرت عکس العمل۔دنیوی زندگی قیامت کی زندگی کو بنانے کے لئے ایک کھیت ہےانسان اس دنیا کی زندگی  میں اپنی آخرت کے لئے خود کو بناتا ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث"  >الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَةِ<( 9) دنیا آخرت کی کھیتی ہے "بھی  اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔دنیوی زندگی میں بلندی ملے بغیر اخرت کی زندگی کا  شان و شوکت والی زندگی ہونا ممکن نہیں ہے۔ آخرت کی زندگی کو آباد کرنے کے لئے دنیوی زندگی کا  آباد ہونا بھی ضروری ہےاگر دنیا کی زندگی کا آباد کرنا اہم نہیں ہوتا تو خدا نہیں فرماتا :
﴿ وَ لاَ تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا﴾(10 )
اور دنیا میں اپنا حصّہ بھول نہ جاؤ۔
یہاں اس نکتہ کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہےکہ خدا ایک طرف دین میں  خانقاہی سوچ کی ممانعت کی ہے او دوسری طرف الہی اقدار کو خواہشات کی نذر اور  بھول جانے  سے بھی ممانعت کی ہے یہ اس لئے ہے دونوں زندگیاں یعنی دنیوی اور اخروی زندگی پاک ہو ۔ آخرت کی زندگی اسی دنیوی زندگی کا نتیجہ ہے تو انسان اگر اسی دنیوی زندگی میں کمال کی منزل پر پہنچ جائیں تو نتیجہ آخرت کی زندگی میں ظاہر ہوگا۔ اس منظر اور نگاہ سے دیکھا جائے تو دنیوی زندگی کی اہمیت آخرت کی زندگی سے زیادہ ہے۔
آٹھویں اصل
قرآن کی نگاہ میں آخرت کی زندگی کو دنیا کی زندگی پر فوقیت اور برتری حاصل ہے۔حیات اخروی کےمقابلے میں دنیوی زندگی کی کوئی حیثیت اور قیمت نہیں ہے۔
﴿وَ مَا هٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ لَهْوٌ وَ لَعِبٌ وَ إِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾ ( 11)
اور یہ زندگانی دنیا ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے اور آخرت کا گھر ہمیشہ کی زندگی کا مرکز ہے اگر یہ لوگ کچھ جانتے اور سمجھتے ہوں۔
﴿ يَا قَوْمِ إِنَّمَا هٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَ إِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ ﴾ (12 )
قوم والو !یاد رکھو کہ یہ حیات دنیا صرف چند روزہ لذت ہے اور ہمیشہ رہنے کا گھر صرف آخرت کا گھر ہے۔
اس طرح کی آیتیں دنیوی زندگی اور اخروی زندگی کا موازنہ کرتی ہیں اور آخری کی زندگی کو دنیوی زندگی پر اولیت جانتی ہیں۔یہ آیتیں انسان کو  یاد دلا رہی ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اسی دنیوی زندگی کو اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھیں ۔ اس لئے کہ اگر دنیوی زندگی انسان کا سب کچھ ہو جائےکبھی بھی وہ خواہشات نفس کی دلدل سے نہیں نکل پائیں گے۔ لیکن اگر اس کی نگاہ آخرت کی زندگی پر ہو اور اسے اپنا آئیڈیا سمجھنے لگیں تو وہ خواہشات کے ہاتھوں اسیر نہیں ہوں گے۔
آخرت کی زندگی دنیوی زندگی کی باطن اور حقیقی زندگی ہے چونکہ حیات اخروی میں انسان کو حقیقت سے لینا  دینا ہے  نہ کہ اعتبار اور مجاز  سےوہ زندگی جاوید اور سدا بہار زندگی ہےاس میں شر اور فساد نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ہے۔ آخرت کی زندگی کو ان خصوصیتوں کی بنا پر فضیلت حاصل ہے۔لیکن ان برتریوں سے دنیوی زندگی کی نفی نہیں کی جا سکتی۔
نتیجہ
ان آٹھ اصول کو دیکھتے ہوئے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ :
اولاً: انبیاء علیہم السلام انسانوں کی روح کو تکامل تک پہنچانےے لئے آئے ہیں نہ کہ ان کی دنیوی او راخروی زندگی کو
ثانیاً: دنیا او رآخرت دونوں روح انسان کی تکامل اور ترقی کے ظروف ہیں۔ دنیا میں انسان یا تو مرحلہ کمال تک پہنچتے ہیں یا ناکامی کے کنویں میں گر جاتے ہیں اور آخرت میں اس کامیابی اور ناکامی کے نتائج سے آمنا سامنا ہو جاتے ہیں۔  پس دنیا کامیابی اور ناکامی کی جگہ اور آخرت ان کے نتائج حاصل کرنے کی۔
ثالثاً: آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی کا نتیجہ ہےاسی لئے انسانوں کی دنیوی زندگی بھی الہی اقدار کی بنیاد پر آباد کرنے کی ضرورت ہے۔
بعثت انبیاؑ کی قرآنی بحث
انبیاء علیہم السلام کی بعثت کےاہداف میں بحث کرنے اور یہ روشن کرنے لئے کہ ان کی بعثت  دنیوی زندگی کے لئے تھی یا اخروی، بعض آیات کو مورد بحث قرار دیتے ہیں جن میں انبیاء علیہم السلام کی رسالت سے متعلق گفتگو ہوئی ہے۔
1-    توحید کی طرف دعوت دینا۔
انبیاء علیہم السلام کا سب سے اہم ہدف توحید تھا سارے  انبیاء علیہم السلام لوگوں کو توحید کی طرف اور شرک سے بچنے کی طرف دعوت کرتے تھے۔
﴿ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ﴾( 13)
اوریقینا ہم نے ہر امّت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
توحید کی طرف دعوت انبیاء علیہم السلام کی عمومیت اس آیت میں بھی ہے جس میں خدا اپنے رسول ص سے مخاطب ہے۔ اس آیت کے مطابق  رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے پہلے بھی سارے انبیاء علیہم السلام لوگوں کو توحید  کی طرف اور شرک سے بچنے کی طرف دعوت دیتے تھے۔
﴿وَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ ( 14)
اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے لہذا سب لوگ میری ہی عبادت کرو.
سورہ نحل کی چھتیسویں آیت کو دیکھتے ہوئے جو اہم بات ہم پر واضح ہو جاتی ہے وہ یہ ہے توحید کا لازمہ ہی طاغوت سے اجتناب ہے۔ طاغوت کے ساتھ توحید نہیں رہ جاتی ہے ۔ وہ معاشرہ جو توحید ہونے کی طرف قدم اٹھانا چاہتے ہیں ضروری ہے کہ تمام باطل طاقتوں سے بیزار  ہو جائیں
2-    معاد کی طرف دعوت دینا
اخروی زندگی کی طرف دعوت دینا بھی ابنیاء علیہم السلام کے اہم اہداف میں سے ہے۔ پیغمبروں کا ہدف یہ تھا کہ لوگوں کو یقین ہوجائے کہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی ہے جس میں تمام اعمال اور رفتار و کردار کا حساب کتاب دینا ہے۔ سب کو اپنے اعمال کے بارے میں  چوکنا رہنے کی ضرورت  کہ کہیں اس زندگی میں عذاب اور مشکلات کا شکار نہ ہوجائیں۔
مندرجہ ذیل آیت میں خدا وند عالم حضرت نوح  علیہ السلام کے کلام کو نقل کر رہا ہے کہ ول کس طرح لوگوں کو توحید اور معاد کی طرف دعوت دیتے تھے:
﴿ لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحاً إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ﴾ ( 15)
یقینا ہم نے نوح علیہ السّلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم والو اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے علاوہ تمہارا کوئی خدا نہیں ہے. میں تمہارے بارے میں عذاب عظیم سے ڈرتا ہوں۔
موسی علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اخروی زندگی کی طرف دعوت دیا ۔ جیسا کہ نزول وحی کے آغاز میں ہی معاد کا مسئلہ حضرت موسی علیہ السلام کے لئے بیان ہوا۔
﴿ إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى ﴾ ( 16)
یقینا وہ قیامت آنے والی ہے اور میں اسے چھپائے رکھوں گا تاکہ ہر نفس کو اس کی کوشش کا بدلہ دیا جاسکے۔
اسی طرح آنے والی آیت میں بھی اخروی زندگی کے مسئلے کو تمام پیغمبروں کے مشترکہ اہداف میں سے شمار کیا ہے  جو کسی خاص نبی یا رسول کے ساتھ مخصوص نہیں ہے:
﴿يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ أَ لَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَ يُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هٰذَا قَالُوا شَهِدْنَا عَلَى أَنْفُسِنَا وَ غَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَ شَهِدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ﴾( 17)
اے گروہ جن و انس کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے جو ہماری آیتوں کو بیان کرتے اور تمہیں آج کے دن کی ملاقات سے ڈراتے -وہ کہیں گے کہ ہم خود اپنے خلاف گواہ ہیں اور ان کو زندگانی دنیا نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا انہوں نے خود اپنے خلاف گواہی دی کہ وہ کافر تھے۔
3-    کتاب کی تعلیم
بعثت انبیاء علیہم السلام کے اہداف میں سےایک لوگوں کی  کتاب کی تعلیم دینا ہے  پیغمبرآئیں ہیں تاکہ لوگوں انسان اور کائنات سے مربوط حقائق کی تعلیم دیں اور  نہیں جہالت سے نکال کر علم کی روشنی میں لے آئیں ۔
﴿رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾(18 )
پروردگار ان کے درمیان ایک رسول کو مبعوث فرما جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے. انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انکے نفوس کو پاکیزہ بنائے. بے شک تو صاحبِ عزّت اور صاحبِ حکمت ہے۔
(مترجم) اسی مضمون میں بہت سی آیتیں موجود ہیں مثلاً سورہ جمعہ کی یہ آیت:

﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلاَلٍ مُبِينٍ ﴾(19 )
اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو ان ہی میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ,ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگرچہ یہ لوگ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔
4-    حکمت کی تعلیم
اسی طرح بعثت انبیاء کے اہداف میں سے ایک حکمت کی تعلیم دینا بھی ہے۔
﴿ لقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلاَلٍ مُبِينٍ ﴾ (20 )
یقنیا خدا نے صاحبانِ ایمان پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو ان پر آیات الٰہیٰہ کی تلاوت کرتا ہے انہیں پاکیزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ پہلے سے بڑی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
حکمت کے بارے میں مفسروں نے بہت زیادہ اقوال نقل کئے ہیں کہ ہم (مولف محترم) نے کتاب "مبانی رسالت انبیاء در قرآن" نامی کتاب میں ان کی طرف اشارہ کیا۔ مختصر یہ ہے کہ حکمت ان معارف کے مجموعہ کانام ہے جو  بصیرت کا سبب بنتے ہیں۔ اگر علم میں بات "جاننے" سے ہے تو حکمت میں بات "پانے" سے ہے۔ حکمت کا سکھانا رشد اور کمال کا سبب بنتا ہے۔اور جو انسان حکمت کی نعمت سے بہرہ مند ہو وہ حق اور باطل کو ایک دوسرے سے الگ کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حکمت ایک ایسا نور ہے جو انسان کو اس کا ہدف دکھاتا ہے جبکہ علم کا کام صرف راستہ دکھانا ہے۔ممکن ہے کہ علم انسان کی کمال کا سبب نہ بنے لیکن حکمت یقینا انسان کی رفعت اور بلندی کا سبب بنتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے حکمت کو خیر کثیر (بہت زیادہ نیکیاں) کا سبب قرار دیا اور فرمایا:
﴿ يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً وَ مَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُولُوا الْأَلْبَابِ﴾( 21)
وہ جس کو بھی چاہتا ہے حکمت عطا کردیتا ہے اور جسے حکمت عطا کردی جائے اسے گویاخیرکثیر عطا کردیا گیا اور اس بات کوصاحبانِ عقل کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا ہے۔
لیکن ہر کسی کی بس کی بات نہیں کہ وہ حکمت کو حاصل کرلے۔ حکمت پانے کے لئے خواہشات کو چھوڑنا ہوگا جیسا کہ امیر المومنین کا فرمان ہے:
«حَرَامٌ‏ عَلَى‏ كُلِ‏ عَقْلٍ‏ مَغْلُولٍ بِالشَّهْوَةِ أَنْ يَنْتَفِعَ بِالْحِكْمَةِ»( 22)
حکمت سے بہرہ مند ہونا اس عقل پر حرام ہے جو خواہشات کا مغلوب ہو۔( 23)
5-    تقویٰ اور تزکیہ کی طرف  دعوت دینا
بعثت انبیاء علیہم السلام کے اہداف میں سے ایک تقویٰ اور تزکیہ بھی ہیں۔ انبیاء علیہم السلام لوگوں کو  ہر قسم کی برائیاں چھوڑنے کی طرف  دعوت دیتے تھے۔ اس لئے کہ جب تک انسان اندر سے ٹھیک نہ ہوں جب تک ان کے دل ہٹھ دھرمی اور خود پسندی جیسے زنجیروں سے آزاد نہ ہوں کمال تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔
 بہت سے آیتوں میں حضرت نوح، ہود، صالح، شعیب، الیاس اور عیسیٰ علیہم السلام جیسے پیغمبروں کی زبانی نقل ہوئی ہے کہ وہ لوگوں کو تزکیہ نفس اور تقویٰ  کی طرف دعوت دیتے تھے۔
﴿إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ أَ لاَ تَتَّقُونَ ﴾ (24 )
جب ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا کہ تم پرہیزگاری کیوں نہیں اختیار کرتے ہو۔
﴿إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَ لاَ تَتَّقُونَ﴾( 25)
جب ان کے بھائی ہود نے کہا کہ تم خورِ خدا کیوں نہیں پیدا کرتے ہو.
﴿إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَ لاَ تَتَّقُونَ﴾( 26)
جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم خدا سے کیوں نہیں ڈرتے ہو۔
6-    انسانوں کو ہر قسم کی غل و زنجیر سے آزاد کرنا
بعثت انبیاء علیہم السلام کے اہداف میں سے ایک یہ بھی ہے لوگوں کو غلامی، جہالت  اور بہت سے دوسرے طوق اور زنجیر سے آزاد کریں ۔ انبیاء نے ان تمام باطل اور جھوٹے اقدار  سے جو انسانی معاشرے میں حکمفرما تھے  جنگ کی۔ انبیاء آئے ہیں کہ تاکہ نامعقول اور  فضول  بوجھ سے آزاد کریں۔ ایسے بوجھ جو مختلف عنوان سے معاشرے کا دامن گیر ہوئے تھے ان سے  معاشرہ کو آزاد کریں۔
﴿وَ يَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَ الْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾ ( 27)
اور ان پر سے احکام کے سنگین بوجھ اور قیدوبند کو اٹھا دیتا ہے۔
انبیاء علیہم السلام  کادو قسم کے طوق اور زنجیروں سے مقابلہ تھا، ایک داخلی زنجیر اور دوسری خارجی زنجیر۔
داخلی زنجیر سے مراد ہوا و ہوس، شہوتوں او رخواہشات نفسانی کی زنجیریں ہیں، یہ زنجیریں سب سے بڑے موانع ہیں جنہوں کے ترقی  اور کمال کی نمزل تک پہنچنے کے راہوں کو مسدود کئے ہوئے ہیں۔
خارجی زنجیر سے مراد وہ نجیریں ہیں جو مختلف غیر الہی اقداراو رقوانین کی شکل میں  مختلف معاشروں پر حاکم ہیں جیسے  خرافات، غلط رسم و رواج، فضول اور بیہودہ قوانین  وغیرہ۔
اجتماعی عدالت کا برپا کرنا
بعثت انبیاء کے اہداف میں سے ایک عدل و انصاف کو گھر گھر تک  پھیلانا بھی ہے۔ انبیاء اس کا م پر مامور تھے کہ معاشرے سے برائیوں کا قلع قمع کر کے اس کی جگہ عدل و انصاف کو عام کریں۔
﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَ الْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ ( 28)
بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔
سماجی برائیوں سے مقابلہ اور معاشرہ کی اصلاح انبیاء کے اہداف میں سے تھا۔ انبیاء صرف اس لئے نہیں آئے ہیں کہ لوگوں کو توحید اور معاد کی طرف دعوت دیں ، کتاب و حکمت سے واقف کریں اور تزکیہ و تقویٰ کا درس دیں اس لئے کہ ایک فاسد معاشرے میں ان چیزوں کی طرف دعوت دینا زیادہ سود مند نہیں ہوں گے۔
جب تک معاشرہ کی اصلاح نہ ہو اور عدالت کی حکمرانی نہ ہو عام لوگ توحیدی نہیں ہوں گے۔ ذاتی اور سماجی برائیوں سے بھرے معاشرے کے لوگوں کی تزکیہ کیسے ممکن ہے؟! اسی لئے حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی بعثت کے ہدف کو معاشرے کی اصلاح بیان فرما رہے ہیں:
﴿إِنْ أُرِيدُ إِلاَّ الْإِصْلاَحَ مَا اسْتَطَعْتُ﴾ ( 29)
میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میرے امکان میں ہو ۔
موسی علیہ السلام بھی اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کے ساتھ اصلاح کی راہ میں قدم اٹھاتے تھے:
﴿ وَ قَالَ مُوسَى لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَ أَصْلِحْ وَ لاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ﴾(30 )
اور موسی علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون علیہ السّلام سے کہا کہ تم قوم میں میری نیابت کرو اور اصلاح کرتے رہو اور خبردار مفسدوں کے راستہ کا اتباع نہ کرنا۔
انبیاء میں سے ہر ایک اپنے معاشرے کے اہم  برائیوں سے مقابلہ کرنے لئے اٹھے ہیں۔ مثال کے طور پرحضرت صالح  علیہ السلام کے زمانے میں چونکہ فضول خرچی  عام تھا اس لئے آپ  ؑنے  اس برائی سے  مقابلہ کیا۔ آپ نہ فقط خود مقابلہ کرتے تھے بلکہ لوگوں کو بھی اس برائی سے مقابلہ کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔
﴿وَ لاَ تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ  الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَ لاَ يُصْلِحُونَ﴾ ( 31)
اور زیادتی کرنے والوں کی بات نہ مانو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے ہیں۔
حضرت لوط علیہ السلام کے زمانے میں جنسی تعلقات کا رواج تھا لواطہ عام تھامرد مرد کے ساتھ اور عورت عورت کے ساتھ جنسی کھیل کرتے تھے اسی لئے حضرت لوط علیہ السلام  نےاس گناہ سے مقابلہ کیا۔
﴿أَ تَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ و َتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ﴾( 32)
کیا تم لوگ ساری دنیا میں صرف مردوں ہی سے جنسی تعلقات پیدا کرتے ہو اور ان ازواج کو چھوڑ دیتے ہو جنہیں پروردگار نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے حقیقتا  تم بڑی زیادتی کرنے والے لوگ ہو۔
حضرت شعیب علیہ السلام بھی اپنے دور میں ان مفاسد سے مقابلہ کرنے کو اٹھے جو اس وقت کے معاشرے پر حاکم تھے۔ اس وقت لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے اور اسی سے ثروت بڑھانے کی سوچ   میں رہتے تھے۔
﴿أَوْفُوا الْكَيْلَ وَ لاَ تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ  وَ زِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ  وَ لاَ تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَ لاَ تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ﴾ ( 33)
اور دیکھو ناپ تول کو ٹھیک رکھو اور لوگوں کو خسارہ دینے والے نہ بنو اور وزن کرو تو صحیح اور سچیّ ترازو سے تولو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کیا کرو اور روئے زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔
مذکورہ بالا آیتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ انبیاء علیہم السلام  عدل و انصاف کو معاشرے میں پھیلانے، انحرافات خرافات اور مفاسد کو نابود کرنے  کے لئے قیام کرتے تھے۔ انؑ کی کوشش ہمیشہ یہی ہوتی تھی کہ معاشرے سے تمام اجتماعی برائیاں ختم ہوں۔ ایسا نہیں کہ کسی خاص مفسدہ یا برائی کی طرف متوجہ ہو۔ قرآن پیغمبروں کی اجتماعی زندگی کے بہت سے نمونے بیان کرتا ہے کہ واضح ہوجائے کہ انبیاء علیہم السلام تمام مفاسد سے مقابلہ کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔
انسانی تکامل انبیاء کا آخری ہدف
مندرجہ بالا آیتوں میں بعثت انبیاء کے سات اہداف ذکر ہوئے۔ جو چیز یہاں موضوع گفتگو ہے وہ یہ ہے کہ کیا انبیاء کے ایک ہی وقت میں کئی اہداف تھے یا ایک ہدف اصلی، کلیدی اور بنیادی اور باقی سارے اہداف ذیلی اہداف تھے؟
بعبارت دیگر کیا یہ اہداف ایک دوسرے سے الگ تھے اور چوڑائی میں تھے یا ایک دوسرے سے مربوط تھے اور لمبائی میں ایک کے بعد دوسرے تھے۔ یہاں کئی مفروضے تتصور کیا جائے۔
1-    انبیاء کے مختلف اہداف تھے۔ ہر ہدف کسی خاص  پہلو کے لئے ہے۔ بعض دنیوی سعادت اور بعض اخروی سعادت کے لئے ہے۔
2-    انبیاء علیہم السلام کا صرف ایک ہی ہدف تھا وہ اجتماعی عدالت کو قائم کرنا تھا۔ ابنیاء چاہتے تھے کہ ایک عادل معاشرہ وجود میں آئے، عدالت کا وجود بھی ضروری تھا تاکہ لوگ تقویٰ او رحکمت کے دروس میں حاصل کر سکیں۔ دوسری  عبارت میں  انبیاء صرف لوگوں کی دنیا آباد کرنے کے لئے آئے ہیں اور  اگر کہیں آخرت سے متعلق بات ہوتی بھی تو دنیوی زندگی کی خاطر تھی  کہ جب لوگ خدا اور قیامت پر ایمان رکھیں گے تو علم و حکمت سیکھیں گے اور  جب علم و حکمت سے آراستہ ہوگی تو دنیوی زندگی اچھی ہوگی۔
3-    حقیقی ہدف وہی توحید اور کمال انسانی ہے۔ خدا کی معرفت اور لوگوں کو خدا  سے قریب کرنا انبیاء علیہم السلام کا آخری ہدف تھا۔اس نظریہ کے تحت تمام اہداف اسی ایک ہدف کے لئے مقدمہ ہےانبیاء نے اجتماعی عدالت کا نعرہ اس لئے لگایا تاکہ اس کے سائے میں رشد اور کمال کا راستہ ہموار ہو سکے۔
ان تینوں نظریات میں سے آخری نظریہ صحیح ہے اس لئے کہ انسانوں کی خلقت کا مقصد بندگی ہے۔ انبیاء آئے ہیں تاکہ لوگوں کو ان کے مقصد خلقت تک پہنچائیں۔
﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُونِ﴾ ( 34)
اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔
انبیاء علیہم السلام اس لئے لوگوں کو عبودیت اور خدا سے قریب ہونے کی طرف بلاتے تھے تاکہ  مقصد خلقت تک پہنچ سکیں۔
انبیاء علیہم السلام آئے ہیں تاکہ انسانوں کو انکی  زندگی کی آخری ہدف سے واقف کرائیں۔اور اجتماعی فرصتیں –جو صرف  اجتماعی عدالت کے سایے میں امکان پذیر ہے- ایجاد کر کے، کتاب و حکمت کے مطابق ترقی کے پروگراموں کو ترتیب دے کرانسانوں کو آخری ہدف تک پہنچا سکیں۔ خلاصہ یہ ہے جب خلقت کا ہدف عبودیت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے بعثت انبیاء علیہم السلام کا ہدف بھی صرف یہی ہے۔
اگر انبیاء لوگوں کو صرف توحید کی طرف دعوت دیتے تو یہ لوگوں کو موحد بنانے میں کار ساز نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لئے کہ توحید کی سوچ   اس سرزمین میں پروان چڑتی ہے جس میں عدل و انصاف کی حکمرانی ہو کہ ظلم و جور کی۔
یہی علت تھی کہ جب حضرت شعیب علیہ السلام نے لوگوں کو توحید کی طرف بلاتےتھے تو ان مفاسد کا بھی تذکرہ فرماتے تھے جو اس معاشرے میں رائج تھے ، اور ان مفاسد کے ساتھ  مقابلہ کرتے تھے۔
﴿وَ إِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْباً قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلٰهٍ غَيْرُهُ وَ لاَ تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَ الْمِيزَانَ إِنِّي أَرَاكُمْ بِخَيْرٍ وَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُحِيطٍ﴾ ( 35)
اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم اللہ کی عبادت کر کہ اس کہ علاوہ تیرا کوئی خدا نہیں ہے اور خبردار ناپ تول میں کمی نہ کرنا کہ میں تمہیں بھلائی میں دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے بارے میں اس دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سب کو احاطہ کرلے گا۔
 انجنئر  بازرگان کے  تھیوری  پر نکتہ چینی
مرحوم مہدی بازرگان بعثت انبیاء علیہم السلام کے ہدف کو دو چیزوں میں خلاصہ کرتے ہیں:
    ہٹھ دھرمی اور خودغرضی کے خلاف انسانوں کی کائنات کے خالق کی طرف لانے کے لئے ایک عظیم اور عالم گیر انقلاب کا برپا کرنا۔
    کسی دوسری دنیا کا اعلان کرنا جو جاوید اور اس دنیا کی نسبت بہت ہی بڑی ہو ۔(36 )
ان دونوں اہداف میں سےبھی آخری ہدف وہی آخرت کی زندگی ہے ۔ یعنی انبیاء کا یہ عظیم انقلاب خود غرضی کو نابود کرنے لئے تھا اور نیز آخرت کی زندگی کے لئے ایک نمونہ بھی۔
انہوں نے اجتماعی عدالت اور سماجی مفاسد کی اصلاح جیسے اہم موضوعات سے چشم پوشی کی جن کی  قرآن نے حد سے زیادہ تاکید کی تھی اورمعاشرہ کی اصلاح کو خدا او ررسول کی وقار کے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
"پیغامات کا پہنچانا، اصلاحی کاموں کا انجام دینا اور لوگوں کی سطح پر دنیا کو بنانا خدا کی وقار  کے بر خلاف ہے۔ اور انبیاء کو اپنی مقام سے کھینچ کر مارکسوں، پاستوروں اور گاندھیوں یا جمشید، بزرگمہر اور  ہمورابی کے برابر لا کھڑا کرنے کے مترادف ہیں۔"( 37)
ہم ان کے جواب میں کہتے ہیں کہ  کیا یہ ضروری ہے  کہ کوئی بھی معاشرے کی اصلاح کے  اٹھے وہ مارکس، پاستور اور گاندھی بنیں؟!  بات ایسی نہیں ہے کہ ایسانہیں ہے سماجی  اصلاحات کی ضرورت ہے چاہے وہ انبیاء انجام دیں یا مارکس ، پاستور ار گاندھی!
اس کے علاوہ کس نے دعویٰ کیا کہ انبیاء کے اصلاحات عام متفکروں کی اصلاح کے برابر ہے تاکہ کوئی ان دونوں کو ایک دوسرے سے موازنہ کرئے اور  انبیاء کو بشری مصلحوں کے مقام  تک لے آئیں؟ انبیاء علیہم السلام کے معین اہداف تھے ان میں سے اہم ہدف انسانوں کے روح کی تکمیل تھا کہ عبودیت سے تعبیر کی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ باقی سارے اہداف اسی ایک ہدف کے لئے مقدمہ ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ ان کی آخری ہدف عبودیت اور بندگی ہے تو اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ اجتماعی اصلاحات اور قیام عدالت  شے چشم پوشی کی ہو اس لئے کہ جب تک معاشرے میں عدالت  قائم نہ ہو کمال کی راہیں ہموار نہیں ہوں گے۔
جناب انجنئر  بازرگانی نے  صرف ذاتی اصلاح کی طرف نگاہوں کو مرکوز رکھے ہیں ۔ یعنی لوگوں کو چاہیئے کہ خود اپنی اخلاق اور کردار کو ٹھیک کریں۔ اسی لئے سورہ مبارکہ حدید کی پچسویں آیت کی یوں تفسیر کرتے ہیں:
"اس آیت کا معنی جیسا کہ بعض لوگ تصور کرتے ہیں ایسا نہیں  ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو ظلم ، استبداد  اور مطلق الانانیت سے مقابلہ کرنے اور عدالت، ایمانداری اور صلح صفائی کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے اکھٹا کریں، بلکہ لوگ خود اپنی جگہ اپنے اخلاق اور  برتاؤ کو ٹھیک کریں اسی سے عدل و انصاف کی حکومت ہوگی۔"( 38)
انہوں نے تصور کیا ہے کہ معاشرہ  اور اس میں چھائے خلاء  آب و ہوا ،کی اصلاح  کے بغیر بھی عدالت کا قیام ممکن ہے۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ لوگوں کا اپنے اخلاق اور رفتار کی اصلاح کرنا اور اخروی زندگی کی طرف متوجہ ہونا غیر معمولی اہمیتوں کے حامل ہیں لیکن اجتماعی اصلاح کے بغیر صرف وعظ و نصیحتوں سے  لوگوں کی ذاتی زندگی کی اصلاح نہیں ہوتی۔ آیا وہ معاشرہ جس میں فقر، مظالم  طبقاتی فاصلے او ردسیوں  مفاسد پائے جاتے ہیں اس میں دیانت کو ان کے درمیان پھیلا سکتے ہیں؟! اگر جواب ہاں میں ہے تو  انبیاء کیوں سماجی سے مقابلہ کرتے تھے؟! اجتماعی اصلاح کےبغیر صرف ایک ایک فرد کی اصلاح کرکے اجتماعی عدالت  کو انسانی معاشروں میں قائم نہیں کی جا سکتی ہے۔
(مترجم) "یہاں سے علامہ اقبال جیسے مفکروں نے خانقاہی اور  شبیری سوچ   کو زیر بحث لایا۔ علامہ اقبال کو خانقاہی سوچ   سے شدید نفرت تھی آپ معاشرہ کی ترقی کے شبیری سوچ کو اپنانے کی تاکید فرماتے ہیں:
نکل کر خانقا ہوں سے اداکر رسم شبیری ؑ
 کہ رسم خانقاہی ہے فقد اندوہ ودل گیری"
جناب انجنئر  بازرگان کو دینی حکومت کے تشکیل پانے کا خوف تھا۔ ان کی نگاہ میں اقدار دینی کے سایے میں حکومت نہیں بننی چاہیئے۔ اسی لئے اصرار کرتے تھے کہ انبیاء علیہم السلام نے کبھی بھی حکومت تشکیل نہیں دئیے ، اگر کسی پیغمبر نے حکومت تشکیل دیا بھی ہے تو وہ استثناء تھا۔ وہ کہتے ہیں:
"ہم قرآن میں دیکھتے ہیں نظر آئے  گا کہ وہ  حکومت و سلطنت جو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور بنی اسرائیل کے بعض پیغمبروں کے لئے ثابت ہوئی    سب کے لئے نہیں تھی اور اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ زیادہ تر انبیاء حاکم نہیں تھے، حکومت ایک استثنائی امر تھی اور اصول بھی یہی  ہے کہ نبوت اور حکومت دو الگ الگ منصب ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی رابطہ نہیں ان دونوں کے بنیادیں الگ، راہیں الگ اور اصلا ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہونے کا  کوئی راستہ نہیں  اور نبوت میں لوگوں کی طرف رجوع، ان سے صلاح و مشورے کی سختی سے ممانعت ہے بلکہ اس کی لعن طعن بھی کی جاتی ہے"
ہم جناب بازرگان سے پوچھتے ہیں  کہ جن پیغمبروں نے حکومت تشکیل دئیے انہوں نے ایسا کیوں کیا؟!ان کو دیکھتے ہوئے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ حکومت دینی کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت تشکیل دینا غیر دینی کام ہے تو کیوں بعض  انبیاء نے لوگوں پر حکومت کی؟ کیا اسی محدود اور منفرد تعداد نے بیہودہ کام انجام دیا؟ یا مسئلہ کچھ اور ہے  کہ حکومت کرنے کی فرصت او رشرائط صرف بعض گنے چنے پیغمبروں کے لئے کو ملی اور باقی انبیاء کو اصلا فرصت ہی نہیں ملی ۔ اگرانہیں بھی فرصت ملتی تو وہ بھی حکومت تشکیل دیتے۔ ایسا نہیں  کہ بعض انبیاء حکومت تشکیل دینے کا  عقیدہ رکھتے تھے اور باقی انبیاءاسے فضول سمجھتے تھے!!
انہوں نے نبوت او رحکومت کو سو فیصد ایک دوسرے سے الگ تھلگ سمجھاہے۔ اس بات کا کسی نے انکار نہیں کیا، یعنی کسی یہ ادعا نہیں کیا کہ نبوت اور حکومت ایک ہی منصب ہے۔ لیکن جناب بازرگان نے نتیجہ لینے میں غلطی کی او ر تصور کیا کہ یہ دونوں جمع ہونے کی قابل نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے اس نتیجہ کے لئے کوئی دلیل پیش نہیں کئے شاید ان کی دلیل یہ ہوگی کہ نبوت لوگوں کے ووٹ اور الیکشن سے تشکیل نہیں پائے گی جبکہ حکومت کو لوگ بناتے ہیں حکومت بننے کے لئے ووٹ ، مشورہ اور الیکشن کی ضرورت ہے اسی لئے نبوت او رحکومت جمع ہونے کے قابل نہیں ہے۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیوں بعض انبیاء میں جمع ہوئے؟ کیا کسی ایک مورد کا ملنا امکان کی دلیل نہیں ہے؟!
اگر قرآن کریم نے بعض انبیاء میں نبوت اور حکومت کو جمع کیا ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کے مناصب میں سے ایک منصب حکومت ہے ایسا نہیں ہے  کہ حکومت خود نبوت ہو۔
انبیا ء کی حکومت قرآن کی نظر میں
قرآن مجید کی آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام نے حکومت تشکیل دیئے ہیں۔ بعض انبیاء کے لئے کے لئے حالات  ہم آہنگ نہیں رہی اسی لئے وہ حکومت نہ کر سکے ایسا نہیں کہ حکومت کرنے کا عقیدہ نہ رکھتے ہوں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام ان پیغمبروں میں سے ہے جنہوں نے حکومت تشکیل دئیے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا بلقیس سے مقابلہ کے نتیجہ میں بلقیس حکومت سے معزول ہوکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے تسلیم ہو جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل آیت کے مطابق جب حضرت سلیمان علیہ السلام   نے سبأ کی ملکہ کو دعوت دی تو اس کے انکار کیا اور حضرت سلیمان کے لئے ایک تحفہ بھیجا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کے قاصد اور نمائندہ سے کہا:
﴿أَ تُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِمَّا آتَاكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ  ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لاَ قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَ لَنُخْرِجَنَّهُمْ مِنْهَا أَذِلَّةً وَ هُمْ صَاغِرُونَ﴾ ( 39)

تم اپنے مال سے میری امداد کرنا چاہتے ہو جب کہ جو کچھ خدا نے مجھے دیا ہے وہ تمہارے مال سے کہیں زیادہ بہتر ہے جاؤ تم خود ہی اپنے ہدیہ سے خوش رہو، جاؤ تم واپس جاؤ اب میں ایک ایسا لشکر لے کر آؤں گا جس کا مقابلہ ممکن نہ ہوگا اور پھر سب کو ذلّت و رسوائی کے ساتھ ملک سے باہر نکالوں گا۔
حضرت یوسف علیہ السلام بھی ان پیغمبروں میں سے تھا جنہوں نے حکومتی مناصب حاصل کئے آپ ؑ اس وقت مصر میں وزیر اقتصاد بنا۔
﴿قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ﴾( 40)
یوسف نے کہا کہ مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو۔
حضرت داود علیہ السلام بھی ان پیغمبروں میں سے تھا جنہیں خدا نے عظیم سلطنت اور بادشاہت عطا کی۔
﴿وَ شَدَدْنَا مُلْكَهُ وَ آتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَ فَصْلَ الْخِطَابِ﴾( 41)
اور ہم نے ان کے ملک کو مضبوط بنادیا تھا اور انہیں حکمت اور صحیح فیصلہ کی قوت عطا کردی تھی۔
مندرجہ ذیل آیت میں بھی بعض پیغمبروں کی حکومت کی طرف اشارہ ہوا ہے:
﴿أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ آتَيْنَاهُمْ مُلْكاً عَظِيماً﴾(42 )
یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت کچھ عطا کیا ہے تو پھر ہم نے آلِ ابراہیم علیہ  السّلام کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم سب کچھ عطا کیا ہے۔
اس بارے میں کہ کتنے ابنیاء نے حکومت تشکیل دی، کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی ہے لیکن بعض آیات کو دیکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ تمام انبیاء حکومت تشکیل دینا چاہتے تھے، اگر چہ حالات ہم آہنگ نہ ہونے کی باعث حکومت تشکیل نہیں دے پائے۔
پہلا گروہ: جیسے سورہ حدید کی آیت نمبر 25 کہ بعثت کے ہدف کو اجتماعی عدالت جانتا ہے، یقینا ً حکومت کے بغیر عدالت اجتماعی کا قیام ممکن نہیں۔
دوسرا گروہ: جیسے سورہ نحل کی چھتیسویں آیت کہ ہدف بعثت کو توحید کی طرف دعوت اور طاغوت سے دوری جانتا ہے  اگر حکومت تشکیل پائی تو  یہ ہدف بھی حاصل ہوگا یعنی تمام طاغوتی قوتوں کو سر نگون  کی جا سکتی ہیں اور معاشرے میں ذاتی اور اجتماعی سطح پر توحید کی پرچار   کی جا سکتی ہے۔
تیسرا گروہ: ان آیتوں کا ہے جن میں پیغمبروں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ طاقت اور اقتدار کے ساتھ اپنے اہداف کی حصول کے لئے قدم بڑھائیں۔
﴿خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ﴾ (42 )
جو کچھ ہم نے تمہیں دیا (توریت ) ان کو مضبوطی سے پکڑلو۔
﴿يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ﴾( 43)
اے یحیی علیہ السّلام! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو ۔
چوتھا گروہ: تمام ادیان الہی میں سماجی احکام موجود تھے۔ جیسے امر بہ معروف و نہی از منکر، جہاد کا فیصلہ کرنا حدود کا، اور جرم و جرائم کے روک تھام کے لئے حدود کا جاری کرنا جیسے مسائل  حکومت کے بغیر جاری نہیں ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے ایک اجتماعی احکام کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء علیہم السلام حکومت تشکیل دینے  کے خواہاں تھے اگر چہ ان میں بعض کو حالات نے حکومت تشکیل دینے  نہیں دیا۔
اس گفتگو کے بعد اب انجنئر  بازرگان کی اس بات کو قبول نہیں کیا سکتا کہ:
"قرآن کریم کے کسی بھی سورہ یا پارہ یا کسی بھی مقام پر یہ نہیں لکھا ہے کہ خدا نے کہا ہو کہ ہم نے رسولوں کو بھیجے تاکہ تمہیں حکومت، معاش اور انتظام کا درس دیں یا زندگی کے کاموں کی اصلاح سے متعلق لیکچر دیں۔ لیکن کلی طور پر حکم دیا ہے کہ تم لوگ آپس کے تعلقات کو ٹھیک کریں ، عدل و انصاب، آپس میں اتفاق،ایک دوسرے کی خدمت اور ایک دوسرے کی اصلاح کے لئے کوشاں رہیں جب تک عمل صالح انجان نہ دیں خدا پر ایمان تمہیں بہشت تک نہیں پہنچا سکتا"
جناب بازرگان نے انبیاء کی رسالت کو وعظ اور نصیحت میں خلاصہ کئے۔آپ نے انبیاء کو سماجی صاحبان نظر تصور کیااور اس چیز کا معتقد ہوا کہ اگر لوگ عدالت، انفاق ، ایک دوسرے کی خدمت اور اصلاح کے اپنائیں تو بہشت میں جائیں گے۔ البتہ اکثر صاحبان نظر کا بھی یہ عقیدہ نہیں ہے کہ کوئی بھی معاشرہ کسی بھی طرز حکومت  سے انسانوں کو بہشت میں بھیج سکتے ہیں۔
جناب بازرگان کا نظریہ اعتقادی اور دین کے داخلی مسائل سے قطع نظر، اجتماعی علوم کی رو سے بھی باطل ہے۔ البتہ آپ کبھی اپنی ہی باتوں میں تناقض کے شکار ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور اپنے نظریات کے برخلاف "دینی معاشرہ" "دینی انسانوں" کو وجود میں لانے کے لئے ضروری ہے۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:
"ضرورت کی بنا پر یا کم سے اچھی تأثیر   اور توحیدی فضا کی نشو و نما  کی خاطر آزاد  خیال  اور نیک مومن معاشرے میں قابل قبول ہیں ۔ اسی طرح  دینی معاشرہ   بھی متدین انسانوں کو وجود میں لانے کے لئے ضروری ہے"
لیکن وہ امید رکھتےہیں کہ ایسا معاشرہ حکومت تشکیل دئے بغیر بھی وجود میں آسکتا ہے۔ اسی لئے اوپر والی عبارت کے فوراً بعد کہتے ہیں کہ:
"لیکن کیا ایسی فضا اور معاشرہ صرف اقتدار  اور قدرت ہی سے ممکن ہے کہ کسی بھی قیمت پر مومنوں کو حکومت تشکیل دینی چاہیئے ؟!"
اگر ہم مان بھی لیں کہ دینی معاشرہ اور  دینی حکومت  کی ضرورت ہے اور حکومت کا لازمہ اقتدار ہے (مشروع اور دینی اقتدار) تو کیو پریشانی ہے؟ کس نے کہا کہ  جس قیمت پر بھی ہو حکومت صرف مومنوں کو تشکیل دینی چاہیئے؟ کیا حکومت کرنے کے لئے حاکم میں عدالت شرط نہیں ہے؟  تو وہ لکھتے ہیں کہ:
"ہم دیکھ رہے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام با ایمان افراد کی تعلیم و تربیت پر ایمانی معاشرہ تشکیل دینے کو ترجیح دیتے تھے لیکن کبھی بھی اقتدار اور طاقت سے تمسک نہیں کیا"
ان کے جواب میں عرض کریں گے کہ  مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے  ہیں کہ ایک طرف سے قرآنی کی آیتیں  انبیاء کو اپنے اہداف کے حصول کی خاطر اقتدار اور حکومت حاصل کرنے کا حکم دے رہی ہیں دوسری طرف حضرت سلیمان  علیہ السلام جیسے انبیاء اقتدار اور طاقت کی باعث حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ جناب بازرگان تشکیل حکومت کی ضرورت کو قبول نہ کرنے کے لئے عجیب و غریب بہانے تراشتے ہیں ۔ ان بہانوں میں سے ایک یہ ہے کہ"کوئی اجتماعی احکام  جیسے جہاد وغیرہ کو حکومت بنانے کی جواز پر دلیل نہ بنائے" اسی لئے ایک جگہ وہ کہتے ہیں:
"لیکن ہم جانتے ہیں کہ جہاد اور قتال کی آیتیں صرف دفاع، امن او رآزادی کے لئے ہیں نہ کہ کسی پر کرنے اور اقتدار اور حکومت حاصل کرنے کے لئے"
لیکن ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا حکومت کے بغیر کسی معاشرے سے دفاع کرنا ممکن ہے؟ کیا حکومت کے بغیر کسی ملک میں امن برقرار ہو سکتاہے؟ کیا جہاد اور قتال ہمیشہ کسی دوسرے ملک پر چڑھائی کے لئے ہیں یا عموما دفاع کے لئے؟ کیا ہر قسم کی اقتدار او رحکومت  کا حصول نامشروع او رباطل ہیں؟ کیا انبیاء علیہم السلام خدا کی اذن سے نا مشروع حکومت والی ممالک پر چڑھائی نہیں کرتے تھے۔ ( یعنی کیا وہ  جہاد ابتدائی پر مامور نہیں تھے؟)
ان باتوں کا بغور جائزہ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جناب انجنئر  بازرگان تین مسائل کو ایک دوسرے سے مخلوط کر رہے ہیں:
تشکیل حکومت دینی کی ضرورت
کون حکومت کرے؟
کس طرح حکومت کرے؟
انہوں نے سب سے پہلے تشکیل حکومت دینی کی ضرورت پر سوال اٹھایا  اور آخر میں مان لیا کہ ایک دینی حکومت جو ہر لحاظ سے جامع اور کامل ہو، خدا کے مخلص بندوں کے ہاتھوں تشکیل پانے کی ضرورت ہےل۔
آپ اس مسئلے میں کہ "کون حکومت کرئے" دین کے علمبرداروں کی حکومت کی  نفی کر رہے ہیں اور مخلص مومنوں کی حکومت  کو قبول کر رہے ہیں۔ ان کی نظر میں گویا دین کے علمبرار خالص مومنوں میں سے نہیں ہو سکتے ہیں! اور  آخر میں ان کی مشکل طرز حکومت میں ہے کہ کس طرح او رکہاں کہاں حکومت کی جائے۔اور  حکومت کی ذمہ داری دشمنوں کی ہجوم  آوری یا لوگوں کی ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدال سے روکنا ہے۔اور انسان کا انسان کے ساتھ یا خدا کے ساتھ رابطے میں کسی کو دخالت کرنے کا حق نہیں ہے۔
ڈاکٹر سروش کے باتوں کی تجزیہ و تحلیل
جناب ڈاکٹر سروش بھی اس بات کے  قائل ہیں انبیاء علیہم السلام لوگوں کی دنیوی زندگی نہیں بلکہ آخرت کی زندگی کو سدھارنے کے لئے آئے ہیں ۔ان کا کہنا کہ اگر ہم یہ کہیں کہ انبیاء علیہم السلام لوگوں کی دنیا سدھارنے کے لئے آئے ہیں تو دین کو نظریاتی بنا دئے ہیں۔ دین کا نظریاتی ہونا یعنی "ہستی شناسی، اقدار  ، عملی اصول او رقواعد کے مجموعہ " کو  حاصل کریں۔
آپ ایک طرف سے نظریہ پردازی کو دنیوی لین دین سمجھ رہے ہیں کہ جس سےانسان اعتقادی اسلحوں سے لیس ہو سکتے ہیں اور  دنیا میں ہستی اور دیگر فکری مکاتب کی نسبت اس کی مقام و منزلت معین ہو جاتی ہے۔ اور دوسری طرف سے وہ اس چیز کا بھی معتقد ہیں کہ جب تک انسان نظریاتی نہ بنیں ا س کے لئے جینا دشوار ہے۔
ہم  میں سے ہر کوئی چاہے وہ کسی دین کا ماننے والا وہ یا بے دین ہو اور اصولاً کسی دین کا معتقدنہ ہو۔ سب کے سب  دنیا میں زندگی کرنے کے لئے ایک سلسلہ قواعد، آداب، اصول، افکار، اقدار اور نظریہ کی طرف محتاج ہے۔کوئی بھی قوم "کچھ بھی نہیں" کی بنیاد پر زندگی نہیں کرتی ہے انسان چاہے جنگلوں میں رہنے والے بدو ہوں یا کسی ماڈرن سٹی میں رہنے والے شہری ایک سلسلہ مشترک قوانین، افکار او راقدار کے ناطے ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوسکتے ہیں اور یہ زندگی کرنے کی شرط ہے۔( 45)
 اور "ضرورت حکومت " کی نفی میں لکھتے ہیں:
" لیکن ہم ان آیتوں میں سے کسی میں بھی کوئی اشارہ یا دستور نہیں دیکھ رہے ہیں کہ مثلا خدا نے موسی علیہ السلام سے کہا ہو:۔ مصر جاؤ فرعون کا مقابلہ کرنے، بنی اسرائیل اور  ان کے ہمفکروں کو لے کر ایک طاقتور حکومت تشکیل دو۔ یا یہ  حکم دیا ہو کہ :۔ جب فرعون کے سامنے پہنچ جاؤ تو عصا اور اژدھا کے سہارے اسےحکومت کی تخت سے گرادو اور اس کی جگہ بیٹھ  کر  اس کے دانت  توڑ دو تاکہ کوئی پھر  انا ربکم الاعلی کا دعویٰ نہ کر سکے"( 46)
ڈاکٹر سروش کا خیال ہے پیغمبروں کو اپنے معجزوں کے سہارے مقابلہ کرنا چاہیئے۔  حالانکہ ید بیضا او رعصا اژدھا میں تبدیل ہونا جیسے معجزات   سب لوگوں کے ایمان لانے کے لئے تھے  نہ کہ فرعون او راسکےپیروکاروں  کے لئے۔ کوئی بھی پیغمبر مبعوث ہوتے ہی ظالموں سے مقابلہ کے لئے قیام نہیں کرتے تھے۔ چونکہ آغاز رسالت میں نہ تو لوگوں پر حجت تمام ہوئی تھی نہ کوئی یاور او رمددگارکہ جو ان کا ساتھ دے سکیں۔
 کیا ڈاکڑت سروش بھول گئے کہ موسی علیہ السلام نے حجت تمام کرنے کے بعد بنی اسرائیل او رفرعونیوں کے درمیان جنگ ہوئی تھی! کیا انبیاء علیہم السلام صرف اخلاقی استاد کی حیثیت سے معاشرے میں رہتے تھے؟ یعنی صرف اخلاق کی درسیں دیا کرتے تھے  اور  ظالم و ستمگروں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، اسی لئے قسم قسم کے مصیبتوں میں مبتلا ہو گئے؟ یہاں تک بعض انبیاء علیہم السلام شہید بھی ہو گئے؟
﴿كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَهْوَى أَنْفُسُهُمْ فَرِيقاً كَذَّبُوا وَ فَرِيقاً يَقْتُلُونَ﴾( 47)
جب ان کے پاس کوئی رسول ان کی خواہش کے خلاف حکم لے آیا تو انہوں نے ایک جماعت کی تکذیب کی اور ایک گروہ کو قتل کردیتے ہیں۔
ان سب کو چھوڑ دیں اگر  "دینی معاشرہ" "دینی انسان" کو وجود میں لانے کے لئے ضروری ہے تو کیا فرعونیوں اور قیصریوں کے ہوتے ہوئے دینی معاشرہ دجود میں آ سکتا تھا؟  کیا ستمگروں، عشرت پسندوں، اسراف کرنے والوں اور فاسد عالموں سے مقابلہ–کہ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ انہی سے مقابلہ کرتے تھے- کے علاوہ کوئی راستہ ہے؟  آخر میں ڈاکٹر سروش  اپنی باتوں کو اس طرح سمیت لیتے ہیں:
"ہماری تمام باتیں یہ ہے کہ اگر بالفرض ایک دینی حکومت جو ہر لحاظ سے کامل اور بے عیب و نقص، خالص مومنوں کے ہاتھوں تشکیل پائی  تو جو چیز اس حکومت کو انجام نہیں دینی چاہیئے وہ لوگوں کا دین اور اخلاق ہے۔ حکومت یعنی طاقت اور پاور جو دشمنوں کے مقابلے میں استعمال کرنےکی ضرورت ہے لیکن لوگوں کی عبادت، عقیدہ اور ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ کے مقابلے میں فضول ہے یعنی عبادت، عقیدہ، سماجی روابط اور خدا سے رابطہ ایسی چیزیں ہیں جن تک حکومت کا پہنچ نہیں ہے"(48)
لیکن ڈاکٹر سروش جو بعثت انبیاء علیہم السلام کے ہدف کو صرف اور صرف سعادت اخروی میں منحصر کر رہے ہیں، دنیا او رآخرت کے رابطے کے بارے میں چار مفروضے پیش کرتے ہیں؛
پہلا فرض: ہم اس بات کا قائل ہو جائیں کہ دین میں نہ دنیوی مسائل کو نپٹنے کی صلاحت ہے نہ آخرت کے۔
دوسرا فرض:  ہم مان لیں کہ دین صرف دنیوی مسائل کی حل کے لئے ہے۔
تیسرا فرض: دین صرف اخروی مسائل کے حل کے لئے ہے۔ یعنی انبیاء علیہم السلام لوگوں کی آخرت کو سدھارنے کے لئے آئے ہیں۔
چوتھا فرض: دین کی ذمہ داری انسانوں کی دنیا اور آخرت دونوں کی سعادت ہے۔
ڈاکٹر سروش پہلے اور دوسرے فرض کو انکار کر رہے ہیں اور باقی مفروضوں میں سے تیسرے فرض کو قبول کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارا عقیدہ اور نظریہ آخری فرض ہے یعنی چوتھا فرض۔ پس اس کے مطابق  انبیاء علیہم السلام لوگوں کی دنیا او رآخرت کی سعادت کا ضامن ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب اس لئے تیسرے مفروضے کو مان رہے ہیں کہ اگر ہم  اس چیز کو قبول کریں کہ دین صرف آخرت کے لئے ہے تو اب یہ آئیڈیالوجی یا نظریاتی نہیں  رہے گا۔یعنی دین میں اب یہ صلاحیت نہیں ہے کہ سیاست، حکومت ، اقتدار، معیشت  اور  کلچرل جیسے مسائل میں نظر دے سکے۔
حقیقت میں ڈاکٹر سروش اس نظریہ کے بنیاد پر    اس قسم باتوں کو قبول فرما رہے    کہ" دین کو سیاست، حکومت، اقتدار، اور کلچرل" میں کوئی دخالت نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی پوری کوشش یہ ہے کہ دین کی سماجی او راجتماعی امور میں دخالت کو روکا جائے اور  معاشرہ چلانے کی ذمہ انسانوں کی عقل او رفکر کے سپرد کیاجائے۔
ڈاکٹر کی ان باتوں پر تنقید کرتے ہوئے نکات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے:
1-    اگر ہم مان لیں کہ انسان کو ایک،  جہان بینی،آئیڈیالوجی اور اقدار کی ضرور ت ہے اور  نظریاتی میدان میں کائنات، دوسرے معاشرے، مکاتب فکر و نظر  و غیرہ کے بار ے میں انسان کا نظریہ واضح ہو نا چاہے ، تو انبیاء علیہم السلام کو  چاہیئے  کہ ان امور کی طرف توجہ کریں چونکہ یہی وہ امور ہیں جو انسان کے لئے سعادت کے راہیں ہموار  کر سکتے ہیں یا سعادت کے راہ میں ان کی بھی ضرورت ہے۔
سابقہ ابحاث میں ہم نے کہا کہ بعثت کے اہداف میں سے ایک کتاب و حکمت کی تعلیم دینا ہے۔ انبیاء علیہم  السلام کتاب و حکمت کی تعلیم کے ذریعے دہستی شناسی اور اقدار  کے بارے  میں نظر دیتے تھے۔ انبیاء علیہم السلام مبدأ و معاد کے بارے میں باتیں کرنے کے علاوہ ان چار رابطوں کے بارے میں بھی بارے میں بھی باتیں کرتے تھے:
    انسانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ۔
    انسان اور کائنات کا رابطہ ۔
    انسان اور خدا کا رابطہ۔
    انسان اور دیگر موجودات کا رابطہ۔
تعجب کا مقام ہے کہ ڈاکٹرصاحب تو اس بات کو قبول کر رہے ہیں کہ انسان، کائنات اورہستی کے بارے میں نظریہ دینے  کی صلاحیت کو خود بخود  پا لیا ہے( 49) لیکن اس بات کا منکر ہے کہ انبیاء علیہم السلام اقدار اور  نظریات کے  اصول سے بشر کو آگاہ کرتے ہیں۔ ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ :
لیکن یہ مشترک اصول بتدریج تاریخ میں لوگوں کے درمیان وجود میں آتے ہیں؛  یعنی لوگ، نظریات اور اقدار کی کلاسوں سے ان  اصولوں کو نہیں سیکھتے ہیں بلکہ یہ امور خود بخود حاصل ہونے والی چیزیں ہیں۔البتہ ایسی چیزیں ہیں جو بہت زیادہ اہم او رغیر قابل اجتناب ہیں۔
2-    اگر انسان آئیڈیاز اور نظریات کی طرف محتاج ہیں اور دین میں یہ چیزیں مہیا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ؛ یعنی دین میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ ہستی اور مکاتب فکری کی  نسبت اپنا نظریہ او رآئیڈیا دیں، تو کون اس کو معین کرے گا؟ یا ڈاکٹر سروش کی طرح اس چیز پر یقین رکھنا ہوگاکہ یہ چیزیں خود بخود انجام پائے گی،یا اس چیز کا معتقد ہو جائیں کہ  ہر دور کے انسانوں نے خود اس کی بنیاد رکھی ہیں۔ دونوں صورتوں میں یہ سوال باقی رہے گاکہ حق اور حقانیت کا معیار کیا ہو سکتا ہے؟
3-    اگر کسی جگہ دینی منابع میں مطرح ہوا ہو تو ڈاکٹر صاحب کی تعریف کے مطابق ان کو نظریات کے اصول میں سے گنا جائیں، تواس وقت ہم کیا کریں؟کیا ان تمام اصول کو چھوڑ کر تاریخ پر اعتماد کیا جائے اور اس کی مطابق عمل کریں یا وحی کا سہارا لیں او روحی کے راستے سے انسانوں کی زندگی کا طریقہ سیکھیں؟
4-    صرف اس صورت میں دین  کا نظریاتی ہونا غلط ہے کہ ہم ایسے چیزوں کو جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں دین میں ٹھونس دیں جیسے کائنات سے انسان کا رابطہ انسانوں انسان کو دوسرے مخلوقات سے رابطہ وغیرہ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ایسی چیزوں کو دین میں داخل کریں تو گویا ہم نے دین کو تحریف کیا ہے نہ کہ آئیڈیا دیا ہے ۔
ان کے خیال میں اگر ہم اس بات کا معتقد ہوجائیں کہ دین دونوں جہانوں کی سعادت کے لئے آیا ہے تو اس سے یہ تصور کیا جائے گا کہ:
انسان آخرت میں اس لئے سعادت مند ہیں کہ اس نے دنیا میں توفیق حاصل کی۔ اس فرض کے مطابق دنیوی توفیق اخروی سعادت کی علامت ہےاگر میری دنیا آباد ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ خدا مجھے چاہتا ہے  تو میری دوسری دنیا بھی اسی لئے آباد ہوگی۔(50 )
دوسری عبارت میں:
آخرت کی سعادت اور بدبختی دنیا کی سعادت اور بد بختی میں پوشیدہ ہے۔ اس سے بڑھ کر"نیک عمل" کی تعریف "دنیوی کامیابی " ہوگی۔ یعنی وہ کام عمل صالح ہے جو ہماری دنیا کو آباد، رفاہ و آسائش  اور ہمیں عزت دے دیں۔
ڈاکٹر سروش کی باتوں کے رد میں یوں جواب دی جاتی ہے کہ " ایسی سعادت مند  آخرت بھی ملیں گے جو  دنیوی سعادت کا تابع نہ ہو" یعنی ہم آخرت کی سعادت  کا معیار دنیا کی سعادت کو نہ سمجھیں۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ دین دنیا اور آخرت دونوں کے لئے آیا ہے کبھی بھی آخرت کی کامیابی کا معیار دنیا کی کامیابی  کو قرار نہیں دیتے ہیں بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ دین دونوں دنیا کی  سعادت کو پورا کر کرسکتا ہے۔
اصولا اگر کوئی عمل خدا کی رضا کے لئے ہو تو  وہ اخروی عمل شمار ہوگا چاہے اس کے ساتھ دنیا کی سعادت ہو یا نہ ہو۔ان کو بھی چھوڑ دیں  کیا کوئی مشکل ہے کہ انسان دنیوی سعادت کے ساتھ ساتھ آخرت کی سعادت بھی حاصل کرلیں۔
ہم جانتے ہیں کہ اخلاقی کام دو اچھائیوں  کا حامل ہو ایک خود کام کی اچھائی جسے "حسن فعلی" سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور دوسری کام کرنے والی  کی اچھائی جسے " حسن فاعلی" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حسن فعلی سے مراد یہ ہے کہ خود کام اچھا ہو  اور حسن فاعلی سے مراد یہ ہے کہ کام کرنے والا اچھا  ہو اس کی نیت صاف صرف خدا کے لئے ہو، یعنی انسان اس کام کو خدا کی رضایت کے خاطر انجام دیں۔اس بیان سے واضح ہوا کہ نیک عمل کا معیار توفیق دنیوی نہیں ہے، بلکہ وہ عمل نیک او راچھا ہے جو خود بھی نیک ہو اور فاعل بھی نیک ہواگر کوئی عمل خود اچھا ہونے کے ساتھ حسن فاعل بھی ساتھ اور دنیا کی سعادت بھی اس کے ساتھ ہو تو یقینا آخرت میں  اس کی تاثیر ہے۔
 اگر کہا جائے کہ آخرت کی سعادت اور بد بختی دنیا کی سعادت اور  بدبختی میں چھپی ہے تو اس کامعنی یہ ہے اگر کسی نیک اور صالح انسان نے کوئی نیک کام کیا ہو تو وہ آخرت کی سعادت کا باعث بنتا ہے۔ لیکن اگر کسی برے انسان یا فاسد العقیدہ انسان کوئی کام کرے یا کوئی اچھا انسان برا کام کرئے یعنی کوئی عمل اگر قبح فعلی اور قبح فاعلی کے ساتھ انجام پائے تو آخرت کی بدبختی کا سبب بنتاہے۔
(مترجم) کبھی کبھار احباب سوال کرتے ہیں کہ انگریز لوگ آکر فلان جگہ ہسپتال، کالج، سکول، کلینک یا دوسرے رفاہی کام کرتے ہیں جن سے عوام کو بڑا فائدہ ہوتا تو کیا آخرت میں ان کو کوئی جزا، اجر اور ثواب ملے گا؟ اس کا جواب یہ ہے ان کے ان کاموں کے لئے کوئی اجر و ثواب نہیں ، عمل صالح صرف کام کے اچھا ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کام کے اچھا ہونے کے ساتھ ساتھ فاعل بھی صالح اور مومن ہو۔ اس کام میں اگر چہ حسن فعلی ہے لیکن حسن فاعلی نہیں ہے۔ انتہاء۔۔
انسان کے لئے یہ  ممکن ہے کہ دنیا  میں عمل صالح بھی انجام دیں؛ یعنی نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، حج پہ جائیں، فقیروں کی مدد کریں  اخلاق اچھا رکھیں اور ساتھ ہی ایک بہترین آرام دہ زندگی بھی میسر ہو   ان سب کے ساتھ آخر ت میں بھی آرام و سکون کی زندگی کریں۔( ہاں! کچھ خوش قسمت ہستیاں ایسے بھی ہیں) ۔  افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جناب ڈاکٹر صاحب نے خیال کیا ہے کہ یہ دونوں جمع کے قابل نہیں ہیں یعنی اس دنیا میں انسان نمازی بھی ہو، روزہ دار بھی ہو حاجی بھی بنے، فقیروں کی مدد بھی کریں اور ساتھ ہی ایک اچھی زندگی سے فائدہ  بھی اٹھاتا ہو یہ تو قابل جمع نہیں ہے۔
ان کی اس عبارت میں دقت فرمائیں:
"میں پھر بھی تاکید کرتا ہوں کہ آخرت دو لحاظ میں دنیا میں پوشید ہے ؛ ایک اس کا عام اور مشہور معنی ہے یعنی کسی نے اگر کسی نے اس دنیا میں نیک کام کیا ، حج کیا، نماز پڑھی، روزہ رکھا ، فقیروں کا خیال رکھااچھے اخلاق کو اپنایا اور ۔۔۔ تو  اس آخرت میں ثوا ب ملے گا اور بہشت میں جائے گا۔ اس معنی کے مطابق ہم اس دنیا میں عمل کر رہے ہیں اور دوسری دنیا میں اس کا ثواب اور اجر حاصل کریں گے"
ان کا دین اور عقل کی ذمہ داریوں سے واقفیت سے مراد یہ ہے دین صرف آخرت کے مسائل کا ضامن ہے دنیوی مسائل میں کوئی دخل نہیں ، اور  سیاست، حکومت،  قدرت، معیشت اور ثقافت جیسے مسائل عقل کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔انبیاءعلیہم السلام انسانوں کے اخروی مسائل پر مامور تھے، اور اجتماعی مسائل کا حل بشری عقل کے ذمہ چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر صاحب کی نظر میں وحی میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ لوگوں کی دنیا اور آخرت کی سعادت کے لئے  پروگرام پیش کر سکے۔
اسی طرح ڈاکٹر صاحب اس بات کو بھی قبول نہیں کر رہے ہیں کہ عقل بشری میں اتنی طاقت کہ دونوں دنیا کے لئے پروگرام طے کر سکے۔ وحی اور عقل میں سے ہر ایک اک خاص ذمہ داری کا مالک ہے؛ وحی لوگوں کی اخروی زندگی کے لئے ہے اس کو لوگوں کی دنیا سے کوئی سر و کار نہیں ہے۔ اور عقل دنیوی زندگی کے لئے ہے اخروی زندگی کا پروگرام بنانا اس کی بس میں نہیں ہے۔
اگر ہم مان بھی لیں کہ نہ صرف بعض ذاتی اور شخصی عوامل بلکہ ایک سلسلہ اجتماعی عوامل کو بھی روح انسان کی تکامل یا سقوط میں  دخل ہے۔ پس انبیاء علیہم السلام جو انسانوں کی تکامل کے لئے آئے ہیں اس امور سے پہلو تہی نہیں کر سکتے ہیں۔
اگر  اس چیز پر بناء رکھاجائے کہ عقل میں تمام دنیوی مسائل کو حل کرنے کی طاقت ہے تو کیوں آخرت کے مسائل کی حل سے وہ ناتوان ہے؟ اگر ہم ا س چیز پر عقیدہ رکھیں کہ بشر کے عقل حیات اخروی کے لئے پروگرام طے کرنے سے عاجز ہے تو یقینا دنیوی زندگی کے لئے بھی پروگرام طے کرنے سے عاجز ہے  کہ جن پراگراموں کے نتیجے میں آخرت کی زندگی بن جائے۔ عقل کس طرح درک کر سکتی ہے کہ کن کن اعمال کے کیا تأثیر ہیں  تاکہ انہیں انجام دیں یا چھوڑ دیں؟! ہم جانتے ہیں کہ قرآن کی نظر میں ہر کام ایک ظاہری اور سطحی پہلو ہے اور ایک باطنی اور ملکوتی پہلو ہے۔ آخرت کی زندگی بھی اسی باطنی اور ملکوتی پہلو سے مربوط ہے۔ مثال کے طور پر کسی عمل کا باطنی پہلو مثلا سونا اور چاندی کا کان آگ ہے (یا مثلا قرآن نے یتیموں کے مال کھانے کو آگ کھانے کے مترادف قرار دیا) تو کیا عقل بشری اتنی توانائی ہے کہ اس باطنی اور ملکوتی پہلو کو درک کر لے تاکہ اسی کے مناسب پروگرام طے کی جس سکے۔
ان سب سے قطع نظر اگر اس بات کو بھی مان لیں کہ انبیاء صرف اور صرف اخروی زندگی کے لئے آئے ہیں اور دنیوی زندگی کی سعادت میں ان کا کوئی کردار نہیں  تو  ان اجتماعی اور ذاتی  احکام اور  دستورات کی کس طرح تفسیر کی جا سکے جو انسانوں کی دنیوی زندگی سدھارنے کے لئے دئے گئے ہیں؟ البتہ ڈاکٹر  معتقد ہیں کہ دین نے انسانوں کی دنیوی زندگی  کو سعادت مند بنانے کے لئے پروگرام نہیں بنایا۔ اس کو ہم ایک اور مقالے میں "دین اور تدبیر دنیا" میں بحث کریں گے۔  جناب ڈاکٹر سروش اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ دین دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے ، کہتے ہیں کہ دین کے لئے ضروری ہے کہ دنیوی مزاحمتوں کو دور کریں یا اس سےحیات اخروی کی سعادت کے لئے فائدہ اٹھائیں۔
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے مزاحمتوں کی بات تو کی لیکن یہ ثابت نہیں کیا کہ کون کون سی چیزیں آخرت میں ہمارے لئے باعث زحمت بنیں گے  اور کون کون سی چیزیں اس دنیامیں حیات اخروی کے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں کہ دین ان کا ضامن  بنے۔
وہ امور جو اس دنیا میں انسانوں کے لئے مزاحمت کا سبب بنتے ہیں یا آخرت میں باعث زحمت بن سکتے ہیں کیاصرف ذاتی امور ہیں یا اجتماعی امور جیسے سیاست، حکومت، قدرت، معیشت اور  ثقافت  کو بھی شامل کرتے ہیں؟
کیا اجتماعی مشکلات جیسے فقر، فحاشیاں، طبقاتی اور معیشتی فاصلے، ظلم و ستم، فکری اورثقافتی کمزوریاں اخروی سعادت کے راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے؟
وہ معاشرہ جس کےافراد مختلف قسم کے بے عدالتی کا شکار ہوں، فقر و فاقی اور فحاشی کے دلدل میں غرق ہوں کیا ہمیشہ کی  رہنے والی اخروی سعادتوں سےمحروم نہیں ہوں گے؟ اگر مان بھی لیں کہ مذکورہ بالا امور نہ صرف دنیوی سعادت کے راستے میں حائل ہیں بلکہ اخروی سعادت کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں، پس کیسے ممکن ہے کہ انبیاء ان امور سے بچاؤ کا طریقہ ، کوئی "دنیوی پروگرام" انسانوں کو پیش نہ کریں۔ اور صرف آخرت کے لئے راستہ دکھاتے رہیں؟
ان سارے اشکالات کو - جو تیسرے فرض(51 ) پر وارد ہوتی ہیں-  مد نظر رکھتے ہوئے   ہم چوتھے فرض کو انتخاب کریں گے۔ یعنی ہمارا عقیدہ ہے کہ دین لوگوں کی دنیا اور  آخرت دونوں کی ضامن ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جناب ڈاکٹر سروش کیوں اس چوتھے فرض کا منکر ہیں۔
لیکن "آخرت ، دنیا کی تابع  ہے" کا دوسرا معنی یہ ہے دنیا میں آرام و راحت، قدرتمند اور عزت والی زندگی کرے۔ جب یہ توفیق ملے تو  آخرت کی سعادت خود بخود حاصل ہو جائے گی۔ اور وہ دین جو اپنے ماننے والوں کی آسائش، آرام، قدرت اور سربلندی فراہم نہ کر سکے تو وہ دین ہی نہیں،  دین کے آئیڈیالوجک یا نظریاتی ہونے کا معنی بھی یہی ہے۔
اگر ہم مذکورہ بالا عبارت کی تحلیل کریں تو ان نتائج سے آمنا سامنا ہوگا:
صرف وہ لوگ بہشت میں جا سکیں گے جو نماز پڑھتے ہوں، روزہ رکھتے ہوں، حج پہ جاتے ہوں اور ۔۔۔۔ اور اگر یہی لوگ عزت، اقتدار، سربلندی ، آسائش اور راحت سے زندگی کریں تو بہشت میں نہیں جا سکتے ہیں۔
آخرت پر اعتقاد رکھنے والوں کو چاہیئے کہ اقتدار ، عزت اور  آسائش کے پیچھے نہ جائیں بلکہ ذلیل و خوارفقیر  اور ۔۔۔۔ ہونی چاہیئے۔
نماز روزہ اور حج وغیرہ عزت و اقتدار اور سربلندی کے ساتھ قابل جمع نہیں ہے۔
آخرت کا دنیا کے تابع ہونا صرف ایک صور ت میں نہیں ہو سکتاہے کہ انسان عزت، قدرت اور رفاہ کو حاصل کر لے لیکن دینی اقداراور الہی سوچ   سے عاری ہو۔ حالانکہ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ دونوں قابل جمع ہیں۔ اور لازم نہیں ہے کہ ہم قضیہ مفصلہ کے قائل ہوجائیں اور کہیں کہ اوپر والے دونوں معنوں میں دنیا و آخرت کے رابطے کے بارے قابل جمع نہیں ہیں۔
(مترجم)
جناب فاضل محترم ڈاکٹر عبد اللہ نصری نے تو جناب ڈاکٹر سروش اور انجنئر  بازرگان کے نظریات کا منطقی اور  دندان شکن انداز مین جواب دیا۔ صرف ایک نکتہ رہ گیا جس کی طرف ڈاکٹر نصری صاحب نے اشارہ نہیں کیا وہ یہ ہے  کہ کیوں جناب انجنئر  بازرگان اور ڈاکٹر سروش نے اس طرح کے نظریات پیش کئے؟ جناب انجنئر  بازرگان تو ایک زمانے میں ایران کا وزیر اعظم رہا ہے اور اسی طرح کئی اک قومی منصبوں پر فائز رہے ہیں، اب سوال یہ ہے کیا یہ نظریات انہوں نے وزارت عظمی کے کرسی پر بیٹھ کر پیش کئے یا اس کے بعد؟ اس سوال کا ان کےنظریات کے ساتھ گہرا رابطہ ہے۔
اسی طرح جناب ڈاکٹر سروش توایک مغربی سوچ   کا انسان جانا جاتا ہے وہ ایک آزاد خیال انسان ضرور ہے لیکن اتنی آزادی حاصل کرلی ہےکہ سوچنے سے بھی آزاد ہوگئے، انہوں نےانبیاء علیہم السلام کو جو سب سے بڑے مصلح تھے ایک عام صاحب نظر کے سطح سے بھی نیچے لے آئے۔ہم ان سے پوچھتے کہ کیا قرآن اور اہل بیت علیہم  السلام کے فرمان کے مطابق  انبیاء اپنے دور میں سب سے زیادہ سیاسی بصیرت رکھنے والے نہیں تھے؟! انبیاء لوگوں کی نسبت ان سے زیادہ درد رکھنے والےاور ان کی جان و مال  پر ان سے زیادہ صاحب اختیار ہیں۔ اب حکومت تو ان کو کرنی چاہیئے۔ لوگوں کے جانوں کا مالک حقیقی یہ ہیں کیا جناب ڈاکٹر سروش نے غدیر کو اتنی جلدی فراموش کیا  ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہیں فرمایا کہ کیامیں تمہاری جانوں پر تماسےزیادہ صاب اختیار نہیں ہوں؟ تو سب نے ایک ساتھ ہو کر کہا کہ ہاں یا رسول اللہ ۔ اس وقت رسول نے ولایت کا اعلان کیا۔ یہی ولایت ہی حکومت تھی جو بعد میں علی علیہ السلام سے غصب کی گئی، اور پچس سال کے بعد دوبارہ علی علیہ السلام کوملی۔
میری تعجب ختم ہی نہیں ہوتی ہےکہ جتنی آیات،  احادیث اور علماء اسلام کے اراء اور نظریات، حکومت مہدوی کے بارے میں ہیں ان کو ڈاکٹر نے ایک لحظہ میں نظر انداز کیا مہدی علیہ السلام وہی  ہستی نہیں ہے جو جو انبیاء علیہم السلام کے آرزووں اور تمناؤں کو عملی جامہ پہنائیں گے؟!  انبیاء علیہم السلام کے آرزو کیا تھے ؟ کیا ایک عادل حکومت کی قیام کے علاوہ بھی ان کی کوئی تمنا تھی؟
میں آخر میں اس آیت کا تذکرہ کروں گا کہ جو لوگ تاریخی اور قرآنی حقائق کے منکر ہیں وہ نا واقف نہیں ہیں انہیں سب کچھ معلوم ہیں لیکن:
﴿وَ جَحَدُوا بِهَا وَ اسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْماً وَ عُلُوّاً﴾(52 )
ان لوگوں نے ظلم اور غرور کے جذبہ کی بناء پر انکار کردیا تھا ورنہ ان کے دل کو بالکل یقین تھا۔
--------------------
( 1) مجلہ کیان، ش 28 ص 42۔
( 2) ایضا
( 3) ایضا
(4 ) سورہ ص / آیہ 27۔
(5 ) سورہ مومنون / آیہ 115۔
( 6) سورہ طہ / آیہ 50۔
( 7) سورہ سجدہ / آیہ 13۔
(8 ) احسايى، ابن ابى جمهور، محمد بن على، عوالي اللئالي العزيزية، ج‌1، ص: 267
(9 ) سورہ قصص / آیہ ۷۷۔
 )10 )سورہ عنکبوت / آیہ 64۔
(11 ) سورہ غافر (مومن) / آیہ 39۔
( 12) سورہ نحل / آیہ 36۔
(13 ) سورہ انبیاءؑ / 25
( 14) سورہ اعراف / آیہ 59
(15 ) سورہ طہ / آیہ 15
(16 ) سورہ انعام / آیہ 130۔
(17 ) البتہ کتاب سے مراد آسمانی کتب ہیں۔
( 18) سورہ بقرہ / 129۔
(19 ) سورہ جمعہ / آیہ 2۔
 )20 )سورہ آل عمران / آیہ 164۔
(21 ) سورہ بقرہ / آیہ 269۔
(22 ) ليثى واسطى، على بن محمد، عيون الحكم و المواعظ؛ ص233، ح نمبر 4470۔
(23 ) یہاں حرام سے مراد محرومی ہے یعنی وہ عقل جو شہوت کا مغلوب ہو ہوا اور ہوس کا غلام ہو وہ حکمت سے محروم ہے۔
(24 ) سورہ شعراء / آیہ 106۔
( 25) سورہ شعراء / آیہ 124.
(26 ) سورہ شعراء / آیہ 161۔
( 27) سورہ اعراف / آیہ 157۔
( 28) سورہ حدید / آیہ 25
(29 ) سورہ ہود / آیہ 88۔
(30 ) سورہ اعراف / آیہ 142۔
( 31) سورہ شعراء / آیہ 151 و 152۔
(32 ) سورہ شعراء / آیہ 165 و 166
( 33) سورہ شعراء / آیہ 181 سے 183 تک۔
( 34) سورہ زاریات / آیہ 56۔
( 35) سورہ ہود / آیہ 84۔
(36 ) كيان شماره 28 ص 54۔
(37 ) همان، ص 9 - 48.
(38 ) كيان شماره 28 ص 48.
( 39) سورہ نمل / آیہ 36 و 37
( 40) سورہ یوسف / آیہ ۵۵۔
( 41) سورہ ص / آیہ 20۔
( 42) سورہ نساء / آیہ 54۔
( 43) سورہ بقرہ / آیہ 63 اور 93۔
(44 ) سورہ مریم / آیہ ۱۲۔
(45 ) کیان ش 31 ص 5
(46 ) ایضاً۔
(47 ) سورہ مائدہ / آیہ 70۔
( 48)  مجله كيان شماره 28 ص 57.
(49 ) اس کے بارے میں ہم کسی اور مقالہ میں گفتگو کریں گے۔
(50 )مجله كيان شماره 31 ص 8.
( 51) انبیاء علیہم السلام لوگوں کی آخرت کو سدھارنے کے لئے آئے ہیں اور ان کے دنیاسے کوئی سر و کار نہیں ہے۔
( 52) سورہ نمل / آیہ ۔