خوشحالی سب کے لیے

اسلام ہر ایک کو خوشحال اور متمول دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے جتنے بھی احکام ہیں، ان میں سے کہیں یہ نہیں آیا کہ زکواة کھایا کرو! صدقہ لیا کرو! خمس اٹھایا کرو! بلکہ ہر وقت زکواة دینے، صدقہ نکالنے، خمس ادا کرنے، حج بجا لانے، فقیروں اور مسکینوں کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی اسلام میں وہ تمام اسباب ذکر ہوئے ہیں، جن سے انسان تنگدستی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جیسے پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا: بیس چیزیں ایسی ہیں جو انسان کے لئے فقر و تنگدستی کا سبب بنتی ہیں: بستر سے ننگے ہوکر پیشاپ کے لئے نکلنا، جنابت کی حالت میں کھانا کھانا، کھانے سے پہلے ہاتھوں کا نہ دھونا، روٹی کے ٹکڑوں کو اہانت کے ساتھ پھینک دینا، پیاز اور لہسن کو جلانا، گھر کی دہلیز پر بیٹھے رہنا، رات کے وقت گھر کو جاڑو دینا، لیٹریں میں کپڑے اور منہ ہاتھ کا دھونا، منہ ہاتھ دھونے کے بعد تولیے سے خشک کرنا، رات کو کھانا کھانے کے بعد برتنوں کو دھوئے بغیر رکھنا، پانی والے برتن کو کھلا رکھنا، گھر میں مکڑی کے جالے کا باقی رکھنا، دنیا کی خاطر نماز کو کم اہمیت دینا، مسجد سے نکلنے میں جلدی کرنا، صبح سویرے بازار جانا، رات گئے تک دکان کو کھلے رکھنا، تنگدست لوگوں سے روٹی کا خریدنا، بچوں کو لعن طعن کرنا اور ان سے جھوٹ بولنا، لباس کو پہنے پہنے اس کی سلائی کرنا، چراغ کو پھونک مار کر خاموش کرنا۔ (ایک اور روایت کے مطابق) غسل خانے میں پیشاپ کرنا، سیری کی حالت میں کھانا کھانا، گز کی لکڑی سے خلال کرنا، مغرب و عشاء کے درمیان سونا، صبح کو سورج طلوع ہونے سے پہلے سونا، سائل کو رات کے وقت خالی ہاتھ واپس کرنا، زیادہ غنا کا سنا اور زیادہ گاتے رہنا، جھوٹ بولنے کا عادی ہونا، آمدن اور خرچ میں توازن کا برقرار نہ رکھنا، کھڑے ہوکر بالوں میں کنگی کرنا، جھوٹی قسم کھانا اور صلہ رحمی کا قطع کرنا۔
اسی طرح یہی اسلام مال میں اضافے کے اسباب کو بھی بیان کرتا ہے: دو نمازوں کو ملا کے پڑھنا، نماز صبح اور عصر کے بعد تعقیبات کا پڑھنا، صلہ رحمی کو برقرار رکھنا، استغفار کرتے رہنا، گھر کو صاف ستھرا رکھنا، اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرنا، صبح سویرے رزق کی تلاش میں نکلنا، امانت کی پاسداری کرنا، سچ بولنے کی عادت ڈالنا، مؤذن کے ساتھ اذان دہرانا، لیٹرین کے اندر باتیں کرنے سے گریز کرنا، لالچ سے پرہیز کرنا، منعم کا شکر بجا لانا، جھوٹی قسم کھانے سے اجتناب کرنا، کھانے سے پہلے ہاتھوں کا دھونا، دسترخوان سے روٹی کے ذرّات اور جوٹھے کا کھانا،  جو بھی ہر روز تیس۳۰ مرتبہ سبحان اللہ کہے، خداوند عالم ستر قسم کی بلاؤں کو اس سے دور کرتا ہے، جن میں سے سب سے چھوٹی بلا تنگدستی ہے، اسے بھی خدا اس سے  دور کر دیتا ہے۔﴿۱﴾
اسلام نے فقر و فاقہ اور تنگدستی کی سختی سے مذمت کی ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ؐ نے اسے کفر کے قریب قرار دیا ہے۔﴿۲﴾ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ ملعون ہے وہ شخص جو اپنے بوجھ کو کسی اور کے کندھے پر ڈال دے۔﴿۳﴾ یہاں چند سوالات جنم لیتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو عام طور پر لوگ فقر وتنگدستی سے نفرت کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ اس بیماری میں مبتلا کیوں ہیں؟ کیوں کروڑوں لوگ روزانہ بھوکے سوتے ہیں؟ مالدار دن بہ دن زیادہ مالدار اور غریب وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ  غربت کی دلدل میں بری طرح کیوں پھنستا چلا جا رہا ہے؟ بعض متمول افراد کتے اور بلی کی شادیوں پر لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہیں جبکہ بہت ساروں کے پاس ستر عورت کے لئے لباس کیوں میسر نہیں ہے۔؟
انسان اپنی فطرت سے دن بہ دن دور ہوتا جا رہا ہے۔ انسان خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، جب وہ کسی کی مشکل حل کرتا ہے تو اسے سکون و اطمینان محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے غیر مسلم بھی غریبوں کی دیکھ بھال اور نادار مریضوں کے علاج معالجے کے لئے بھرپور تعاون کرتے ہیں، درحالیکہ آخرت پر ان کا اعتقاد نہیں، جبکہ اسلام نے دنیوی اطمینان و سکون کے ساتھ ساتھ اخروی اجر و ثواب کے ذریعے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے حوالے سے کافی تاکید کی ہے۔ جیسے رسول اکرمؐ نے فرمایا: صدقے کا ثواب دس برابر ہے جبکہ قرض دینے کا ثواب اٹھارہ برابر ہے۔﴿۴﴾ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والا اور حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرنے والا احسان کرنے والا ہوگا۔﴿۵﴾ ساتھ ہی اسلام نے ایسے اصول و ضوابط کو بھی متعارف کرایا ہے، جو ان تمام مسائل کو کافی حد تک  حل کرسکتے ہیں۔
جیسے اسلام نے زکواة کی شکل میں، خمس کی صورت میں، صدقات کے روپ میں، تحفہ تحائف کے عنوان سے، قرض الحسنہ کے ذریعے لوگوں کی سطح زندگی اور معیار زندگی میں توازن برقرار رکھنے کا سامان فراہم کیا ہے۔ زکواة کے لئے اپنا ایک مخصوص نصاب معین کیا، خمس کی اپنی شرائط بیان کی گئیں۔ یوں اسلام نے ایک ایسا مالی سسٹم متعارف کرایا جو طبقاتی نظام کا خاتمہ اور معاشرے کے افراد کے درمیان توازن قائم رکھنے کا ضامن ہے۔ اگر تمام مسلمان اسلام کے ان اصولوں پر عمل پیرا ہوجائیں تو معاشرے میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوجائےگا۔ اس کے باوجود اگر معاشرے میں ایسا نہیں ہو رہا ہے تو اس میں اسلام کا قصور نہیں بلکہ ہم مسلمانوں کی غلطی ہے۔ ہم ان اصولوں کو معاشرے میں حاکم نہیں ہونے دیتے۔ جب مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی میں اسلامی اصولوں کو اپلائی نہیں کرتے تو مختلف مشکلات اسی سے ہی جنم لیتی ہیں۔
مال اور انسان کی نسبت کشتی اور سواری کی مانند ہے۔ جب تک انسان کشتی میں سوار ہے اور اس کی باگ ڈور اس کے پاس ہے، تب تک یہ مال اس کی نجات کا ایک بہترین وسیلہ ہے۔ اس کے برعکس اگر کشتی میں سوراخ ہوکر پانی اس کے اندر آجائے تو یہی کشتی اس انسان کو اپنے ساتھ لے ڈوبے گی۔ لہذا جب تک مال و دولت پر انسان حاکم رہے اور اسے اپنے مصارف میں خرچ کرتا رہے، یعنی صاحبان حق کو ان کا حق دیتار ہے۔ فقیروں، مسکینوں اور یتیموں تک ان کا حق پہنچاتا رہے۔ خمس و زکواة ادا کرتا رہے۔ بروقت حج کو انجام دے تو یہ مال انسان کی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے کا وسیلہ ہے۔ اس کے برعکس اگر اسی مال و دولت کو اپنا مقصد و ہدف قرار دے اور قارون کی پیروی میں مال جمع کرنے کو ہی اپنا مشغلہ بنا رکھے تو یہ انسان کو ہلاکت ابدی میں مبتلا کر دے گا۔
متمول افراد کے پاس یہ مال و دولت خدا کی ایک امانت ہے، اسی طرح ایوان اقتدار پر مسلط حکمرانوں کی یہ قدرت بھی ایک وقتی امتحان ہے۔ آج اگر ایک شخص بہت امیر ہے تو ممکن ہے کہ کل وہی شخص تنگدست ہوجائے۔ آج اگر کوئی اختیار و اقدار کے نشے میں مست ہے تو کل یہی حاکم زندانوں کی زینت بھی بن سکتا ہے۔ اسی طرح آج کے غریب کل کے مالدار اور آج کے محکوم کل کے حاکم بن سکتے ہیں۔ مال، دولت اور اقتدار میں اتار چڑاؤ  کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔   بنابرایں نہ ہم اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے آئے ہیں اور نہ ہی رہ پائیں گے۔ جب احمد مرسل نہ رہے کون رہے گا۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک بالخصوص صاحبان مال و دولت و اقتدار اپنی اس چند روزہ زندگی کو غنیمت جان، مالداری اور اختیار و قتدار کو خدا کی ایک امانت جان کر اسے اپنے معاشرے اور اپنے جیسے دوسرے افراد کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنے کی کوشش کرے۔
فرائض کو بطریق احسن نبھائے۔ جو بھی کام کرے، خدا کی خوشنودی، خلق خدا کی فلاح و بہبود اور معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے بجا لائے۔ اگر کوئی ایسا کرنے میں کامیاب ہوا تو اسے سمجھنا چاہیے کہ میں مرنے کے بعد بھی زندہ ہو، ورنہ زندہ رہنے کے باوجود بھی وہ شخص چلتا پھرتا مردہ شمار ہوگا۔ اسلام کے طبقاتی نظام کے خاتمے، معاشرے کے افراد کے مابین توازن قائم کرنے اور سب کو خوشحال دیکھنے کا خواب صرف اسی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوگا، جب ہم مال و دولت اور اختیار و اقتدار سے مربوط اسلامی اصولوں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اسلامی اصولوں پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔

1۔ كاشف الأستار۔ ترجمه جامع الأخبار؛  ص125(﴿اگرچہ مذکورہ روایت میں بعض چیزیں حرام ہیں اور بعض چیزیں مکروہ۔ البتہ یہاں اسباب فقر کے عنوان سے ذکر ہوئی ہیں)
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْراً. الكافي (ط - الإسلامية) / ج‏2/ص307
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ أَلْقَى كَلَّه‏ الكافي (ط - الإسلامية)؛ ج‏4؛ ص12
مكارم الأخلاق/ ترجمه ميرباقرى؛ ج‏1؛ ص256
5۔ ایضاً، ص55