شب قدر علامہ طباطبائی کی نگاہ میں


دیباچہ
ماہ مبارک رمضان کے اہم مناسبتوں میں سے ایک شب قدر ہے جو ہمیشہ سے مومنوں کرتو جہات کا مرکز بنا رہا ہے اور ورہے گا۔ یہ مختصر تحریر جو آپ کے پیش ہونے جا رہی ہے شب قدر کے بارے میں عظیم مفسر قرآن  مرحوم علامہ طباطبائی کےنظریات کو مورد بحث قرار دیا ہے جو انہوں نے اپنی گرانسنگ تفسیر" المیزان " میں قرآن کریم کے دوسورتوں "دخان" اور "قدر" میں کی تفسیر  میں مرقوم فرمائے ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ محقق اور مبلغ حضرات کے توجہات کو اپنی طرف مبذول کرنے میں کامیاب ہو جائےاور احیاء کی راتوں کو پہچنوانے میں موثر ثابت ہوجائے۔
شب قدر کیا ہے؟
قدر سے مراد تقدیر، اندازہ، خدا کا حکم ازلی۔۔ ۔ ہے او رشب قدر اس رات کو کہا جاتا ہے جس میں خدا آنے والے ایک سال کےتمام حوادث کو معین فرماتا ہے، زندگی، موت،رزق،  انسانوں کی سعادت اور شقاوت اور ان جیسے امور کو اسی رات مقدر فرماتا ہے۔ (1)
شب قدر کونسی رات ہے؟
قرآن  کریم میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے جو یہ واضح کرے کہ شب قدر کسی مخصوص رات کا نام ہے لیکن کئی ایک آیتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملانے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ رات ماہ مبارک رمضان کی راتوں میں سے کوئی ایک ہے قرآں ایک طرف اعلان کر رہا ہے کہ: ﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ﴾ (2)  (ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے ہم بیشک عذاب سے ڈرانے والے تھے)یہ آیہ کل قرآن کے کسی مبارک شب میں نازل ہونے کو بیان کر رہی ہے اور دوسری طرف   یہ بھی بیان کررہا ہے کہ ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾ (3) ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کل قرآن شب قدر میں نازل ہوا ہے۔ سورہ قدر میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ (4)  بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے۔ ان تینوں آیتوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم ماہ رمضان کے کسی مبارک رات جو کہ وہی شب قدر ہے میں نازل ہوا۔ پس شب قدرماہ رمضان میں ہے لیکن ماہ رمضان کی کونسی رات  شب قدر ہے یہ قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے  اور صرف احادیث کی رو سے اس کو پہچانا جا سکتاہے۔
ائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول بعض روایتوں کی مطابق شب قدر ماہ رمضان کے انیسویں، اکیسویں اور تئیسویں رات میں سے کوئی ایک ہے ۔بعض دوسری روایتوں میں اسے اکیسویں اور تئیسویں میں سے کسی ایک کے ہونے کی طرف اشارہ ہے، بعض اور روایات میں اسے تئیسویں میں متعین کی گئی ہے۔ (5)
ائمہ معصومین علیہم السلام کا کسی ایک رات کو مشخص نہ کرنے کی علت اس رات کی عظمت کی خاطر ہےتاکہ خدا کے بندے اپنے گناہوں کے سبب اس رات کی توہین نہ کرے۔
پس ائمہ معصومین علیہم السلام کی نگاہ میں شب قدر مذکورہ بالا تین راتوں میں سےایک ہے ۔
لیکن اہل سنت سے منقول روایتوں میں عجیب و غریب اختلافات پائی جاتی ہےجو کسی طرح بھی جمع کرنے کی قابل نہیں ہے۔ بہر حال اہل سنت کے ہاں معروف و مشہور شب قدر ماہ رمضان کی ستائیسویں کی رات ہے (6) اور ان کے بقول قرآن اس رات میں اترا ہے۔
شب قدر کی ہر سال میں تکرار
شب قدر اسی سال کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جس سال قرآن نازل ہوا بلکہ یہ رات ہر سال تکرار ہوتی ہے۔ یعنی ہر ماہ رمضان میں شب قدر ہے اور اس شب میں آنے والے ایک سال کے امور مقدر ہوجاتا ہے ، اس بات کی گواہ یہ ہے:
اولا : یہ ممکن ہے کہ قرآں گذشتہ چودہ صدیوں میں سے کسی ایک شب قدر میں بطور کامل نازل ہوا ہو لیکن تمام گذشتہ اور آنے والے امور کا بھی اسی یک رات میں مقدر ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ثانیا:  ﴿فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ﴾ (7) (اس رات میں تمام حکمت و مصلحت کے امور کا فیصلہ کیا جاتا ہے) میں لفظ ﴿يُفْرَقُ﴾ فعل مضارع ہے جو استمرار اور دوام پر دلالت کرتی ہے۔ اسی طرح ﴿تَنَزَّلُ الْمَلاَئِكَةُ وَ الرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ﴾ (اس میں ملائکہ اور روح القدس اسُن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں) میں لفظ ﴿تَنَزَّلُ﴾ بھی مضارع ہونے کی وجہ سے استمرار پر دلالت کرتی ہے۔
ثالثا :  ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾اس بات کی دلیل ہے جب تک ماہ رمضان ہے شب قدر بھی اس کے ساتھ ہےپس شب قدر ہر سال تکرار ہوتی ہے۔
تفسیر البرہان میں شیخ طوسی سے اور انہوں نے حضرت ابوذر سے روایت کی ہے، ابوذر کہتا ہے کہ:
>قلت يا رسول الله القدر شي‏ء يكون على عهد الأنبياء- ينزل عليهم فيها الأمر فإذا مضوا رفعت؟ قال: لا بل هي إلى يوم القيامة< (8)
میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا کہ : یا رسول اللہؐ! کیا شب قدر ایسی رات تھی جو گذشتہ انبیاء علیہم السلام کے عہد میں بھی موجود تھی اور امر ان پر نازل ہوتا تھا؟ اور جب وہ دنیا سے چلے جاتے تھے تو امر کا نازل ہونا رک جاتا تھا۔
شب قدر کی عظمت
سورہ قدر میں ہم پڑھتے ہیں
﴿ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ‌إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ مَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ﴾ (عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے اور آپ کیا جانیں یہ شب قدر کیا چیز ہے شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے)
خدا وند متعال نے اس رات کی عظمت کو بیان کرنے لئے لیلۃ القدر والی لفظ کو تکرار ذکر کیا حالانکہ و ہ ضمیر لاکر  اس طرح سے بھی کہہ سکتا تھا >وما ادراک ما هی هی خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ < ایسا نہیں کیا بلکہ خود اسم کو مکررا ذکر کیا تاکہ اس رات کی عظمت کو بیان کیا جائے۔ اس آیت﴿ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ﴾ سے اس طرح اس رات کی عظمت کو عیاں فرمایا کہ اسے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ایسی بافضیلت عبادتیں موجود ہیں۔قرآن کریم ہی تو اسی ہدف کی خاطر اترا کہ لوگ عبادت گذار بنیں شب زندہ داری کریں اسی وسیلے سے قرب خدا حاصل کریں۔ یا یہ بھی ممکن ہے اس رات میں انجان دی جانے والی عبادتیں ہزار مہینوں کی عبادتوں سے افضل ہو۔
امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ : کس طرح شب قدر ہزارمہینوں سے افضل ہے؟
تو آپ نے فرمایاکہ: شب قدر میں انجام دی جانے والی عبادت ان ہزار مہینوں کی عبادتوں سے افضل ہے جن میں شب قدر نہ ہو۔ (9)
شب قدر میں کیا ہوا
مرحوم علامہ یہاں ان چار اہم واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جو اس رات میں  واقع ہوئے ،
1-    نزول قرآن
 آیہ مبارکہ﴿‌إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾  کا ظاہر یہ ہے کہ کل قرآن شب قدر میں نازل ہوا ہے اور چونکہ "انزال " سے تعبیر کیا ہے تو یہ یک لخت اور سب ایک ساتھ نازل ہونے پر دلالت کرتی ہے نہ کہ بتدریج اور ایک کے بعد ایک کے نازل ہونے پر۔
قرآن دو طریقے سے نازل ہوا:
کسی ایک معین رات میں سب ایک ساتھ ۔
بتدریج اور ایکے بعد دیگری نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی تئیس   سالہ زندگی میں۔
بعض آیتیں جیسے﴿وَ قُرْآناً فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَ نَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلاً﴾ (10) (اور ہم نے قرآن کو متفرق بناکر نازل کیا ہے تاکہ تم تھوڑا تھوڑا لوگوں کے سامنے پڑھو اور ہم نے خود اسے تدریجا نازل کیا ہے) قرآن کی نزول تدریجی پر دلالت کرتی ہیں۔
پہلی صورت یعنی نزول دفعی   اور یکبارگی میں قرآن کریم سوروں اور آیتوں سمیت نازل نہیں ہوا بلکہ اجمالا  پوری قرآن نازل ہواچونکہ وہ آیات جو  کسی آدمی یا واقعہ یا حادثہ کی شان میں  نازل ہوئی وہ انہی لوگوں اور واقعات کے ساتھ مربوط ہیں اور واضح ہے کہ جب تک وہ واقعہ رونما نہ ہو یا وہ شخص موجود نہ ان آیتوں کا کوئی معنی اور مفہوم نہیں ملے گا اگر ان واقعات کو نظر انداز کریں اور کہا جائے کہ قرآن یکبارہ و دفعۃ نازل ہوا ہے تو وہ تمام آیتیں حذف ہو جائے گی پس قرآن جو اس وقت جس شکل میں ہے وہی دو مرتبہ نازل نہیں ہوا ہے بلکہ دونوں نزول میں فرق ہےاور وہ فرق اجمال و تفصیل میں ہے ۔ یہ وہی اجمال و تفصیل ہے کے بارے میں خدا فرماتا ہے:
﴿كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ﴾  (11) یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم بنائی گئی ہیں اور ایک صاحبِ علم و حکمت کی طرف سے تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔
شب قدر میں قرآن اجمالا اور یکبارہ  پیغمبر پر نازل ہو لیکن تئیس سال کے عرصے میں اس اجمال کی تفصیل بیان ہوئی اور بتدریج یکے بعد دیگری آیہ آیہ کر کے نازل ہوا۔
2- امور کا مقدر ہونا
خدا وند متعال آنے والے ایک سال کےحوادث اور واقعات جیسے موت، زندگی، رزق میں وسعت اور تنگی، سعادت اور شقاوت، برائی ار بھلائی اطاعت اور معصیت ۔۔۔۔ جیسے امور کو شب قدر میں معین اور مقر فرماتا ہے۔
آیہ مبارکۂ  ﴿‌إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾  میں "قدر" اٹل ، مقدر، معین کرنےپر دلالت کرتی ہےاور  آیہ مبارکۂ ﴿فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ﴾ (12) (جو کہ شب قدر کی فضیلت میں اتری ہے )بھی تقدیر پر دلالت کرتی ہے ۔  ایک طرف سے لفظ «فرق» جو الگ الگ کرنے  اور جدا کرنے  معنی میں ہے ، حکمت و مصلحت کے امور کا فیصلہ پانے کا مطلب اور کیا ہو سکتاہے کہ اس رونما ہونے والے واقعہ کا تخمینہ اور اندازہ لگا کر معین کیا جائے۔ یہ امور دو طرح کے ہوتے ہیں؛ ایک اجمال اور مبہم ، اور دوسرا تفصیل۔ اور شب قدر جیسا کہ آیۂ مبارکۂ ﴿فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ﴾ سے سمجھ میں آتی ہے ایک ایسی شب ہے جس میں امور مرحلہ ابہام سے تفصیل کی طرف نکل آتے ہیں۔
روح اور ملائکہ کے نزول
آیہ مبارکہ﴿تَنَزَّلُ الْمَلاَئِكَةُ وَ الرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ﴾ (13)کے مطابق اس میں ملائکہ اور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں۔ روح سے مراد وہی روح ہے جس کے بارے میں خدا فرماتا ہے کہ : ﴿وَ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَ مَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً﴾  (14) (اور پیغمبر ؐ!یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے ) ۔ اور امر سے مراد کیا ہے تفسیر مستطاب المیزان میں بہت لمبی گفتگو ہے  اختصار کی خاطر دو روایتوں پر اکتفاء کریں گے جن میں نزول ملائکہ اور روح سے متعلق  گفتگو ہوئی ہے۔
ا-  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
 جب شب قدر آجاتی ہے تو وہ فرشتے جو سدرۃ المنتہی پر  ساکن ہیں اور ان میں سے ایک جبرئیل بھی ہے زمین پر نازل ہوتے ہیں در حالیکہ جبرئیل اور دیگر فرشتوں کے ساتھ بہت ساتے علم ہوں گے۔
یہ فرشتے ایک علم میری قبر پر نصب کریں گے اسی طرح ایک علم بیت المقدس کے اوپر، ایک علم مسجد الحرام کے اوپر اور ایک علم سینا کی پہاڑی پر نصب کریں گے ، ان مقامات پر کوئی مومن اور مومنہ ایسے نہیں ہوں گے مگر جبرئیل ان پر سلام کرے گا۔  صرف شرابی ، سور کا گوشت کھانے والا   اور اپنے بدن پر زعفران کی مالش کرنے والا ہی اس سے محروم رہے گا۔ (15)
                    روح جبرئیل سے بڑا  ہے جبرئیل تو جنس فرشتہ میں سے ہے لیکن روح اس جنس سے نہیں ہے کیا تم نہیں دیکھ رہا ہے کہ خدا نے فرمایا ﴿تَنَزَّلُ الْمَلاَئِكَةُ وَ الرُّوحُ﴾ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روح ملائکہ کے علاوہ ہے۔
4-امن و سلامتی
قرآن کریم شب قدر کی اس خصلت کے بارے میں فرماتا ہے  ﴿سَلاَمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾  (16)  (یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے) سلام اور سلامتی کا معنی ظاہری اور باطنی آفات سے محفوظ رہنا ہے۔ اور جملۂ  ﴿سَلاَمٌ هِيَ﴾ اس مطلب کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کی عنایت شامل حال ہو گئی ہے، یعنی خدا کی رحمت کا سایہ اس رات اپنے ان تمام بندوں پر  برابر چھایا رہے گا جو اسی کی طرف رخ کر یں گے یعنی خدا کی رحمت کے امید رکھنے والوں پر ۔اس رات عقاب اور عذاب کا دروازہ بند رہے گا یعنی بندہ پر کوئی نیا عذاب نہیں آئے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شیطان کے مکر و حیلے بھی ناکارہ ہو جائے گا جیسا کہ بعض روایتوں میں ہے۔
البتہ بعض مفسرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ فرشتے اس رات ہر اس مومن پر سلام کریں گے جو عبادت میں مشغول ہوگا۔

-------------

(1 ) تفسیر المیزان، ج20، ص 561
(2 ) سورہ دخان / 2
(3 ) سورہ بقرہ  / 185
( 4) سورہ قدر / 1
(5 ) مجمع البيان، ج 10، ص 519 .
(6 ) تفسير الدر المنثور، ج 6 .

( 7) سورہ دخان / 4
(8 )  البرهان فی تفسیر القرآن، تفسیر سوره قدر۔
 (9 )فروع کافى، ج 4، ص 157، ح 4.
(10 ) سورہ اسراء / 106
(11 ) سورہ ہود / 1
(12 ) سورہ دخان / 4
(13 ) سورہ قدر / 4
(14 ) سورہ اسراء / 85
 (15) مجمع البيان، ج 10، ص 520 .
(16 ) سورہ قدر / 5