''پیغام کربلا''

 

''پیغام کربلا''
    واقعہ کربلا ایسے دورمیں پیش آیا جب اسلامی معاشرہ ایسے حالات سے دُچار تھا کہ جس میں بڑے بڑے مصلح کہلائے جانے والے بھی اس کی اصلاح کرنے میں اپنے کو ناکام دیکھ رہے تھے۔
    ایسے میں عاشورا نے ذلت کی زندگی بسر کرنے والوں کو ایک انقلابی و نورانی راہ کی ہدایت کی اور انہیں حیات ِ جاویدانی کا پیام دیتے ہوئے کہا کہ:
    ''ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے''
    o کربلا نے بشریت کی رگوں میںایسا خون بھردیا جس کی حرکت کبھی نہ رک سکے۔
    o  دلوں کو ایسا جوش و ولولہ عطا کیا کہ پھر کبھی سرد مہری کا شکار نہ ہوسکیں۔
    o  ذہنوں کو ایسا شعور دیا کہ ہمیشہ راہِ شہادت پیش نظر رہے۔
    لہٰذا ہمیں روز عاشورا کی خونی شہادتوں سے کبھی غافل نہ ہونا چاہیئے اور ان کے اسباب کو جاننا چاہیئے۔
    اگر ہم کربلا کو سمجھ لیں اور اپنی زندگی میں اسے بروئے کار لائیں تو لشکرِ امام حسین ـ میں داخل ہوسکتے ہیں اور ہر زمانے کے ظالم و ستمگر کے مدِّ مقابل آسکتے ہیں۔
٭دین سے مقابلے کے انداز:
    شروع میں دشمنانِ اسلام اپنی بھرپور قدرت و توانائی اور مکمل تیاری کے ساتھ اسلام و مسلمین کی سرکوبی کیلئے گھڑے ہوئے لیکن کسی طرح کامیاب نہ ہوسکے اور پروردگارِ عالم نے تمام جنگوں میں پیغمبرِ اسلام کو فتح و کامیابی عطا فرمائی۔
    جب دشمنانِ اسلام مصلحانہ جنگوں میں ناکام ہوگئے تو پھر انہوں نے سیاست کا رُخ کیا اور مسلمانوں کے افکار کو برباد کرنے کیلئے فریب کاری کا سہارا دیا۔
    o ظاہراً اسلام قبول کرلیا تاکہ مناسب موقع دیکھ کر داخلی حملہ کرسکیں۔
    o غیر فوجی کاروائیاں شروع کردیں۔
    o سیاست ''مذہب علیہ مذہب'' کا سہارا لیا۔
    o دین کی نابودی کیلئے طرفداریِ دین کا شعار اپنالیا۔
    o مسجد ِ نبوی کے مقابلے میں مسجد ِ ضرار بناڈالی۔
    o عترتِ اہل بیت ٪ کے مقابلے میں ''صرف کتاب کافی ہے'' کا نعرہ بلند کردیا۔
    o اصلاحِ دین کے بہانہ سے بہت سے حلال کو حرام اورحرام کو حلال کردیا۔
    o سینکڑوں خرافات کو اسلام کے نام سے رواج دیدیا۔
    o معاویہ و دیگر بنوامیہ احکام اسلام میںتبدیلیاں لائے۔
    مختصر یہ کہ دینِ اسلام بنو امیہ کی ہوا پرستیوں کا شدت سے شکار ہوچکا تھا جس طرح چاہتے (اس کی تبلیغ ِ سوء کرتے) دین لوگوں کے سامنے پیش کرتے۔
    ایک طرف تو یہ حالت تھی اور دوسرے طرف اسلام کے شیدائی، فقر وتنگدستی، تشدّد اور شہادتوں کا شکار تھے۔ ایسے پُر آشوب اور تشنّجی حالات میں کون تھا جو اسلام کی آواز بلند کرتا۔ یہ ہی وہ مقام ہے کہ جہاں ہم عاشورائے حسینی   ـ  کے نقشِ اساسی کو درک کرسکتے ہیں کہ عاشورا سے اسلام کو کس درجہ کمال اور دوام حاصل ہوا ہے، اور واقعہ عاشورا ہمیںکیا پیغام دے رہا ہے۔

"پیام عاشورا"
''١٤٢٤ھ کی مناسبت سے کربلا و روز عاشوراسے ٢٤ ماخوذ پیام''
(١ )عاشورا اورپاسداری دین:
    امام حسین  ـ ایسے حالات سے دُچار تھے کہ جس میں بنوامیہ کے سپوت حلال کو حرام اور حرام کو حلال کررہے تھے او دین کی اساس مکمل طور پر خطرہ میں تھی۔ ایسے میں اگردین کو تحفظ مل جائے تو لوگ بھی محفوظ ہوجائیں،اور اگر دین مٹ گیا تو یہ لوگ خود بخود مٹ جائیں گے اور دین کے مٹ جانے سے تمام انبیاء و مرسلین کی زحمتیں اورمحنتیں بے ثمر ہوکر رہ جائیں گی۔ اس لئے امام حسین ـ  فرماتے ہیں:''کہ صرف ایک راہ باقی ہے کہ اسلام پر فدا ہوجائیں''
    اس لیے کہ پھر دشمن کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ رنگِ خون سب رنگوں پر برتری رکھتا ہے، شہادت کا راستہ تمام راستوں سے زیادہ روشن ہے، شہید سب سے زیادہ جاذبِ نظر ہوتا ہے اور سب نے دیکھ لیا کہ قیام حسینی  ـ اور ان کے خون سے بنو امیہ رسوا پھر نابود ہوگئے، دین اسلام کو کمال و دوام حاصل ہوا، ساکت و پست حوصلہ افراد کو دین کی حفاظت اور شہادت کا حوصلہ ملا۔ پھر اس کے بعد کتنی ہی آذادی کی تحریکیں چلیں اورظلام حکومتوں کو نابود کرتی گئیں، پس دین کی پاسداری عاشورا کا ایک اہم پیام ہے۔

(۲ )احیاء سنت پیغمبرۖ
    بنو امیہ نے جس طرح چاہا سنت ِنبی ۖ  کو تبدیل کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ حلالِ محمدیۖ کو حرام اور حرام محمدیۖ کو حلال کرنے لگے۔
    لیکن امام حسین ـ نے روز عاشورا اپنی گفتگو اور تقاریر وغیرہ میں حتی الامکان کوشش کی کہ ''سنت پیغمبر'' کے بارے میں پیغام پہنچاتے رہیں۔ امام  ـ نے رسول خدا  ۖ کا عمامہ سر پر رکھا، دوش پر رسول اللہ کی عباء رکھی اور پیغمبر ۖ کے اندار میں کوفیوں سے خطاب کیا اور انہیں سرور کائنات کی باتیں یاد لانے کیلئے فرماتے رہے: ''سَمِعْتُم عن جَدِّی'' تم نے میرے نانا سے سنا،''سَمِعْتُ عَنْ جَدِّی'' میں نے اپنے نانا سے سُنا، وغیرہ۔
    جب حُرّ کے لشکر کے سامنے خطاب کیا تو فرمایا:آگاہ رہو کہ بنو امیہ کے حکمران اور ان کے چاہنے والے شیطان کی پیروی کررہے ہیں اور انہوں نے اطاعت ِ پروردگار ترک کردی ہے،حدود و احکام الٰہی کو ترک کردیا ہے، بیت المال کو غارت اور حلال الٰہی کو حرام اور حرام الٰہی کو حلال کردیا ہے۔
    امام  ـ اچھی طرح اس نکتہ سے باخبر تھے کہ اگر سنت نبی ۖ زندہ رہے گی تو لوگ ہدایت حاصل کرکے حقیقی اسلام کو پہچان سکیں گے اور بنو امیہ کی جاری کردہ بدعتوں کا مقابلہ کرسکیں گے۔
    اِسی لیئے امام  ـ نے ایک ہدف، احیائِ سنت ِ پیغمبر ۖ  بھی بیان کیا ہے ''وأَسِیر بِسِیرَة جَدِّی'' میں اپنے جد ، رسول خدا کی سیرت جاری رکھوں گا۔
(۳ )امر بہ معروف و نہی عن المنکر:
    امام حسین  ـ کے خطوط اور کربلا کی جانب سفر کے دوران تمام تقاریر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امامـ نے خود بیان کیا کہ: میں امر بہ معروف و نہی از منکر کی خاطر قیام کررہا ہوں۔ امام  ـ کے اس اقدام سے تمام عاشقان ِ حسین ـ  کو یہ پیغام ملتا ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کو کبھی فراموش نہ کیا جائے۔
(۴ )اسلامی معاشرے کی اصلاح:
    معاشرے کی اصلاح، عاشور کاایک خاص پیام ہے تاکہ پاکیزہ و اصلاح شدہ معاشرے میں انسان کی صلاحیتیں اجاگر ہوسکیں اور باطل کی جڑیں خشک ہوجائیں۔ معاشرے کی اصلاح کا مسئلہ اتنا اہم تھا کہ امام  ـ نے اپنے قیام کا ایک سبب معاشرے کی اصلاح بیان کیا ہے۔ اس اہم کام کیلئے امامـ نے اپنے اور اپنے ساتھیوں اور اولاد کے خون کا نذرانہ پیش کردیا۔
     تاکہ اسلامی معاشرہ برائیوں سے پاک رہے اور اخلاقی قدریں برقرار رہیں۔
(۵ )عاشورا اور حمایتِ قرآن:
    سقیفہ سے عاشورا تک قرآن کی نابودی کی ہر ممکن کوشش کی گئی، زمانہ جاہلیت کی رسومات کو زندہ کیا گیا۔ قرآن کے احکام پر عمل کو ترک کردیا گیا۔
    اور معاویہ کے بعد جب فاسق فاجر شراب خور یزید مسندِخلافت پر برانجمان ہوا تو امام حسین ـ نے فرمایا: ''وعلی الاسلام السلامُ'' یعنی اب اسلام پر سلام کہہ دیا جائے کہ اب اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہ سکتا۔
    جب امام حسین ـ نے یہ حالات دیکھے تو اسلام کی بقا وسلامتی کیلئے یزید کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ جب تک زندہ رہے کبھی خطوط ونصیحت اور کبھی تقاریر کے ذریعے اور بالآخر قرآن کی حمایت اوراس کی بقاء کیلئے تلوار لیکر میدانِ جہاد میں آگئے اور جب شہید ہوگئے تو سرِ امام حسین ـ کبھی نوکِ نیزہ پر بازارِ کوفہ میں اور کبھی یزید کی محفل میں قرآن کی تلاوت کرکے قرآن کی حمایت کرتا رہا اور اس کی بقاء و جاودانی کا اعلان کرتا رہا تاکہ دشمن دیکھ لیں کہ قرآن کبھی نہیں مٹ سکتا۔
    ان کے علاوہ عاشورا سے ہمیں اور بہت سے اہم پیام ملتے ہیں اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے فقط ان کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔
(۶ )وطن کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو اسلام پر وقت پڑجائے تو اِسے ترک کردینا چاہئیے۔
(۷ )مقصد کی راہ میں ہر طرح کی قربانی ضروری ہے۔
(۸ )حقیقی مساوات یہ ہے کہ غلام کا سر بھی اپنے زانو پر رکھا جائے۔
(۹ )شجاعت جذبات نفس پر قابو پانے اور جذبات کو پابند مشیت بنادینے کا نام ہے۔
(۱۰)تقاضائے زمانہ ہے کہ امان نامہ ملے مگر اسے ٹھکرا دیا جائے۔
(۱۱)قربانی کا مفہوم یہ ہے کہ جذبات کی قربانی دی جائے نہ جذباتی قربانی۔
( ۱۲)تبلیغ کا صحیح راستہ یہ ہے کہ راستہ روکنے والے کو بھی پانی پلادیا جائے۔
(۱۳ )اسلامی جہاد کا انداز یہ ہے کہ شدّت مظالم میں بھی جنگ کی ابتداء نہ کی جائے۔
(۱۴ )دشمن لاکھ سرکشی پر آمادہ ہو لیکن دعوت الٰی اللّٰہ دیتے رہو۔
( ۱۵)میدان جہاد میں قدم جمادو تو لاکھوں کے مقابلے میں بھی قدم پیچھے نہ ہٹیں۔
(۱۶ )بندگی کی شان یہ ہے کہ زیر خنجر بھی سجدہ معبود ادا کیا جائے۔
(۱۷ )کربلا دو  شہزادوں کی جنگ نہیں بلکہ حق و باطل کی جنگ ہے۔
(۱۸ )اسلام پر سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے مگر اسلام کو کسی چیز پر بھی قربان نہیں کیا جاسکتا۔
(۱۹ )قرآن و اہل بیت میں کبھی جدائی نہیں ہوسکتی۔
(۲۰ )پرچم حق ہمیشہ اونچا رہے گا۔
(۲۱ )راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کے لیے موت شہد سے زیادہ شیریں ہوتی ہے۔
(۲۲ )یہ دو خاندانوں کی جنگ نہیں۔
(۲۳ )حسین کو قتل کرنے والے جہنمی ہیں۔
(۲۴ )کربلا میں حسین، دین اسلام بچا کر کامیاب ہو اور یزید دین مٹانے میں ناکام۔