قر آن کی شناخت قرآن کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قر آن کی شناخت قرآن کی روشنی میں
فدا حسین حلیمی(بلتستانی)  

     پیشکش : امام حسین علیہ السلام  فاؤنڈیشن


 قرآن کریم کے متعلق سب سے پہلا سوال جو انسان کے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا قران کی شناخت اور پہچان ممکن ہے یا نہیں ؟
بے شک قرآن کریم کی آیوہن میں غور فکر  اس وقت کر سکتا ہے کہ جب  ہمیں اس مقد س کتاب کی معرفت اور شناخت حاصل ہو ؛چونکہ جب کسی چیز کے فائدے کے متعلق یقین حاصل نہ ہو اس وقت تک اسکے پیچھے نہیں جاتا  لہذا ہمیں جب تک قرآن کریم کي صحیح پہچان نہ ہو اسکے آیتوں میں غور فکر نہیں کرسکتا ؛ اب قرآن کی معرفت کے لیے سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ قرآن ہے کیا؟اب اس سوال ك جواب هم نكات مين يون بيان كر سكت.هين:
1. قرآن عربى لغت مين:
عربی لغت میں قرآن ؛ قرائت کے مترادف  اور ہم معنی  ہے لہذا  قرآن سے مراد پڑھنے کی کتاب ہے اور قرآن مجید  میں بھی  لفظ قرآن اسی معنی میں آیا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے  پس جب ہم اسے پڑھ چکیں تو پھر آپ (بھی) اسی طرح پڑھاکریں
 (فِاذا قرناه فاتبِع قرآنه )(1)۔
پس جب ہم اسے پڑھ چکیں تو پھر آپ (بھی) اسی طرح پڑھاکریں۔
لیکن شریعت کی نگاہ میں قرآن اللہ تعالی کا وہ معجزة ہے جسے جبرئیل کے واسطے پیغمبر اکرم پر اتارا ہے اور ہمین اسکو پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
چنانچہ اس بارے مین ارشاد باری تعالی ہوتاہے (فاقروا ما تیسر مِن القران)(2)
ترجمہ: تم جتنا آسانی سے قرآن پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو  (ـــ او زِد علیہِ و رتِلِ القران ترتِیلاـــ)(3)
یا اس پر کچھ  بڑھا دیجئے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر پڑھا کیجیے پس  ان قرآنی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پوردگار عالم نے ہمیں اس کتاب کو باربار پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔
٢۔ قرآن تمام لوگوں کو ہدایت کرتا ہے:
جس طرح اللہ تعالی نے اسلام کو تمام لوگوں کے لیے پسندیدہ دین قرار دیا  اور ہمارے نبی حضرت محمد ۖ کو  دونوں جہان کے لیے رحمة للعالمیں بنا کر بیجھا اسی طرح قرآن مجید کو تمام لوگوں کی ہدایت کے لیے بیجھا ہے  لہذا  قرآن مجید کی پاکیزہ تعلیمات کسی خاص گروہ  یا افراد کے ساتھ مختص نہیں کیا گیا ہے۔اور اس بات  پربہترین دلیل خود قرآنی آیت ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے ( و ما هو ا ِلا ذِکر لِلعالمِین) (4)
حالانکہ یہ قرآن عالمین کے لئے نصیحت ہے اور بس(قل ای شئی اکبر شهاد ة قلِ الله شهید بینیِ و بینکم و اوحِی ا ِلی هاذا القران لیِنذِرکم بِه و من بلغ) (5)
ترجمہ : آپ کہہ دیجئے کہ گواہی کے لئے سب سے بڑی چیز کیا ہے اور بتادیجئے کہ خدا ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ میں تمہیں اور جہاں تک یہ پیغام پہنچے سب کو ڈراں۔پس ان آیتوں سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن  ان تمام لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے جن جن تک قرآن کا پیغام پہونچ جائے۔
٣۔ قرآن میں ہر چیز کا علم پایا جاتا ہے ۔
البتہ اس بات کو سمجھنے اور اس پر یقین حاصل کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے قرآن مجید کے مختلف درجات اور مراتب کو سمجھنے کی ضرورت ہے لہذا ہمین اس بات پر غور کرنے سے پہلے قرآن کے مختلف مراتب اور درجات سے آشنا ہونے اور اسے پہچانے کی ضرورت ہے ؛ اور قرآن مجید کے مختلف درجات سے آشنائی حاصل کرنے کا بہتریں راہ خود قرآنی آیات میں غور فکر کرنا ہے اور قرآن کریم نے اپنے مختلف آیتوں میں قرآن کے مختلف درجات کی طرف واضح اشار ے دیا ہے ۔ لہذا ہم اس بات کو چند نکات کی ضمن میں يون بیاں کرتے ہیں.
پہلا نکتہ:  سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کریم کے متعدد آیات اور اسی طرح اہل بیت اطہار کے نورانی فرمایشاتمیں بھی اسی نکتے پر تاکید کی گئی ہے  وہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہر چیز کا علم پایا جاتا ہے چانچہ اس بارے میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے ( و نزلنا علیک الِکتاب تِبینا لکِلِ شی ۔۔۔۔)(6)
ترجمہ ۔اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے(  ا ِنا نحن نحیِ الموتا و نکتب ما قدموا و آثارهم و کل شی احصیناه فی ِامام مبین) (7)
ترجمہ ۔ ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے ہیں اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں سب کو ہم لکھتے ہیں اور ہر چیز کو ہم نے ایک امام مبین میں جمع کر دیا ہے۔
(اس آیت مبارکة میں امام مبین سے مراد تمام مفسریں  کے متفقہ  رائے کے مطابق قرآن کریم  مراد ہے )اسی طرح پیغمبر گرامی اسلا م کا ارشاد گرامی ہے : من اراد علم الولین والآخرین فلیقراء القرآن (8)
اگر کوئی شخص اولین وآخرین کے علم سے آشنا ہونا چاہتا ہے تو قرآن  پڑھو ۔
البتہ (اولین وآخریں سے مراد  پورے کائنات کا علم مراد ہے اور پورے کائنات کے علم سے اس وقت آشنائی حاصل کرسکتا ہے کہ جب قرآن میں پورے کائنات کے ہر چیز کے متعلق علم موجود ہو۔
پس ان نورانی آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن  مين ہر چیز یا ہر چیز کا علم پایا جاتا ہے
دوسرا نکتہ: لیکن اس بات کو سمجھنے اور اس پر ایمان لے آنے کے لیے ہمیں قرآن مجید کے متعدد ناموں میں سے دو ناموں (قرآن)( کتاب)کے درمیان فرق معلوم کرنے کی ضرورت ہے ۔چونکہ قرآن مجید کے بعض آیات مبارکة میں اپنے آپ کو قرآن کا نام سے پکارا ہے تو بعض دیگر نورانی آیات میں کتاب کہا ہے ۔
تیسرا نکتہ: لفظ قرآن سے مطلب۔
قرآن مجید میں جس آیت میں لفظ قرآن آیا ہے تو کلمہ قرآن مر سے قرآن مجید کے الفاظ ؛ حروف ؛ کلمات؛  جملات  اور عربی عبارات مراد  ہوتی ہے جسے ہر شخص جو عربی لغت سے آشنا ہوخواہ وہ مومنین ہویا کافر؛ بچہ ہو یا عمر رسیدہ شخص ہر ایک  اسے پڑھ سکتا ہے؛ لکھ سکتا ہے؛ سن سکتا ہے ؛ سمجھ سکتا ہے اور چھو بھی سکتاہے ۔جسے روایات میں ظاہر قرآن سے تعبیبر کیا جاتا ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم ۖسے روایت ہے آنحضرتۖ فرماتے ہیں : ماانزل الله عزّةجل آیة لاّ ولها ظهرُ وبطن ۔۔۔۔(9)
 ترجمہ: پروردگار عالم نے کوئی آیت نہیں اتاری سوائے اسکے کہ اسکے لیے کچھ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ۔۔۔۔۔۔  جبکہ باطن قرآن سے مراد قرآن کریم کا  وہ مرتبہ ہے وہ معارف قرآنی او حقائق  اورلطائف مراد ہے ؛ جسے سواے پاکیزہ لوگوںکے کوئی نہیں چھو سکتا( لا یمسه اِلا المطهرون) (10)
ترجمہ: جسے صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں. یعنی  ان حقائق کو سوائے انبیاء او ر اولیاء کے کوئی عام شخص نہیں سمجھ سکتا یا درک نہیں کرسکتا۔البتہ بہت ساری احادیث میں قرآن کریم کے مختلف درجات اور مراتب کی طرف اشارے پائے جاتے ہیں ؛جیسا کہ امام سجاد   فرماتے ہیں :( کتابُ الله ِعزّوجل علی اربعةِ اشیاء  علی العبارةِ والشارةِواللطائف والحقائق  فالعبارةُ للعوام ؛والشارة للخواص ؛واللطائف للاولیاء والحقائق للانبیاء) اللہ تعالی نے اپنی  لا ریب کتاب کو چار چیزوں پر مشتمل اتارا ہے ؛ظاہری عبارت ؛اشارے ؛لطائف؛ اور حقائق  ان میں سے( ظاہری عربی)عبارت عام لوگوں کے لیے  اور اشارے خواص یعنی چیدہ چیدہ بندوں کے لیے اور دقیق نکات اولیاء کے ساتھ مختص جبکہ حقائق تک رسائی صرف انبیاء کے لیے ممکن ہے ۔اورلطائف اور حقائق سے مراد باطن قرآن ہے ۔
نکتہ چہارم: لفظ کتاب سے مراد.
گذشتہ روایات اور بعض قرآنی آیات سے معلوم ہوا کہ کے ایک ہے لیکن اسکے چند متفاوت درجات اور مراتب ہیں ؛ہر شخص اپنی استعداد ؛قابلیت اور ظرفیت کے اعتبار سے قرآن کریم کو سمجھ سکتا ہے اور قرآنی معارف سے آشنا ہوسکتا ہے اور قرآن کا آخری مرتبہ وہ حقائق اور لطائف ہیں جسے صرف اللہ کے مقرب ترین بندے یعنی اولیاء اور انبیاء چھو سکتے ہیں :اور اس حقیقت کو قرآن مجیدسورة واقعة کی آیت نمبر ٧٧ ؛٧٨ اور ٧٩ میں اس طرح بیان کرتا ہے ۔( ِانه لقران کرِیم)ترجمہ: کہ یہ قرآن یقینا بڑی تکریم والا ہے۔یعنی  دنیا و آخرت دونوں کی سعادت دینے والی کتاب ہے ۔
(فِی کِتاب مکنون)ترجمہ: جو ایک محفوظ کتاب میں ہے۔یہ قرآن کی دوسری ہے یعنی یہ قرآن لوح محفوظ میں ہر قسم کی تبدیلی اور تغیر سے محفوظ ہے چنانچہ کسی دوسری آیت میں کتاب مکنون کو لوح محفوظ سے تعبیر کیا گیا ہے (بل هو قرآن مجِید فِی لوح محفوظ):(11)
 ترجمہ: یقینا یہ بزرگ و برتر قرآن ہے ؛  جسے لوح محفوظ میں محفوظ کیا گیا ہے۔
(لا یمسہ ا ِلا المطہرون)(12)
ترجمہ : جسے صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔یہ صفت ہے کتاب مکنون کی جسے مطہرون کے کوئی اور نہیں چھو سکتااور مطہرون سے مراد وہ لوگ ہیں جنکے نفسوں کو پروردگار عالم نے ہر قسم کے رجس اور برائیوں سے پاک رکھا ہے ؛ جیسے ملائکہ اور بشر میں وہ لوگ جن کی شن آیت تطہیر نازل ہوئی۔
نکتہ پنجم: کتاب کی خصوصیات
قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس کتاب کی مختلف خصوصیات کی طرف اشارة ہواہے۔
(1). ہر چیز کا علم اس میں موجود ہے .
قرآن کریم کے متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پاکیزہ کتاب میں اس کائنات میں موجود ہر شی خواہ وہ چھوتے سے چھوٹے ذرات کی شکل میں ہو یا بڑے سے بڑے کہکشانوںکی ؛وجود مادی یا مجرد ؛ انسان کے ساتھ اسکا ارتباط ہو یا دیگر کسی اور مخلوقات کے ساتھ اسکا تعلق ہو
عرض یہ جو کچھ اس کائنات میں آیا ہے اور  ابھی موجود ہے یا مستقبل میں وجود  میں آنے والا ہے ہر چیز اس کتاب میں پایا جاتا ہے :چنانچہ  اس بارے ارشاد ہوتا ہے ( و ما مِن دابة  فِی  الرضِ و لا طئیرِ یطِیر بجِناحیه اِلا امم ا مثالکم ما فرطنا فِی  الکِتابِ مِن شی ثم ِ الی ربهم یحشرون) ( 13)
 اور زمین میں کوئی بھی رینگنے والا یا دونوں پروں سے پرواز کرنے والا طائر ایسا نہیں ہے جو اپنی جگہ پر تمہاری طرح کی جماعت نہ رکھتا ہو -ہم نے کتاب میں کسی شے کے بیان میں کوئی کمی نہیں کی ہے اس کے بعد سب اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔
(لا یعزب عنه مِثقال ذرة فِی السماواتِ و لا فِی الارضِ و لاا صغر مِن ذالِک و لااکبر اِلا فِی کِتاب مبِین)(14)۔
ترجمہ : آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر بھی (کوئی چیز) اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ذرے سے چھوٹی چیز اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ سب کچھ کتاب مبین میں ثبت ہے
(2)۔اسکا مرتبة بہت بلند ہے
کتاب کی دوسری خصوصیت یہ ہے کا اسکا مرتبة انتہای بلند وبالا ہے :چنانچہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :  (و ِانه فی امِ الِکتابِ لدینا لعلِی حکیم  )اور بلاشبہ یہ مرکزی کتاب (لوح محفوظ)میں ہمارے پاس برتر، پرحکمت ہے۔اسی طرح کسی اور مقام پر قران کریم کے ان دونو ں مرتبے کو بیاں کیا ہے ۔(ِانا جعلناه قرآنا عربِیا لعلکم تعقِلون و ِانه فِی امِ الِکتابِ لدینا لعلِی حِکیم) (15)
ترجمہ : بیشک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو  اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں نہایت درجہ بلند اور اپراز حکمت کتاب ہے۔
پس ان تمام قرآنی آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو پہچانے کا لازمة یہ کہ ہم قرآن  کے مراتب اور درجات کو مان لیں اور اس پر ایمان لے آے اور یہ بھی جان لے کہ اللہ کے مقرب بندے انبیاء اور اولیاء جنہیں حقائق قرآن آشنائی ہے وہ حقائق عالم سے باخبر ہوتے ہیں چنانچہ صادق آل محمد  سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : اعلم ما کان وما هو کائن اای یوم القیامة کل ذلک من کتاب الله (16)
ترجمہ : میں جو کچھ اس کائنات میں واقع ہوا ہے اور آیندہ  قیامت تک جو کچھ واقع ہونے والا ہے سب کچھ اللہ کی کتاب سے جانتا ہوں چونکہ خود  قرآن کہا ہے :(و لو ان قرآنا سیرِت بِه الجِبال و قطِعت بِه الارض و کلِم بِہِ الموت بل لِله الامر جمِیعا )(۱۷)
 ترجمہ: اور اگر کوئی قرآن ایسا ہو جس سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے چلایا جاسکے یا زمین طے کی جاسکے یا مردوں سے کلام کیا جاسکے -تو وہ یہی قرآن ہے-اسی طرح قرآن کہتا ہے (و کل شی احصیناه فی ِامام مبین) (18)
ترجمہ ۔  اور ہر چیز کو ہم نے ایک امام مبین میں جمع کر دیا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ قرآن میں ہر چیز کا علم موجود ہے اور جسے کل قرآن (قرآن کے تمام مراتب ) کا علم حاصل ہو اسکا علم کا مقدار بھی اتنا ہی ہوگا ۔  
-----------
حوالہ جات؛
(1)۔قیامت/81
(2)۔ مزمل٢٠
(3)۔ مزمل ٤
(4)۔٥٢/قلم
(5)۔  انعام/ 19
(6)۔ نخل ٨٩
(7)۔ یسں/ ١٢
(8)۔ میزان الحکمة ج/٦ /٢٥٢
(9)۔ کنز العمال ج /١ص/٣٢٥/،میزان الحکمةج/١ص/١٣٥٢
(10)۔ واقعة/٩٧
(11) البروج: 22
(12)۔ الواقعة :79
(13)۔ انعام38
(14)۔ الزلزلة: 7، 8
(15)۔ الزخرف: 4
(16)۔ کافی ج/١ص/٥٩٥
(17)۔ رعد /٣١
(18)۔ یسں/ ١٢