عائلی نظام زندگی کے رہنما اصول سیرت سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کی روشنی میں"

عائلی نظام زندگی کے رہنما اصول سیرت سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کی روشنی میں"

"صابرحسین سراج"

مقدمہ: 

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان اپنی زندگی بسر کرنے کیلے سماجی تعلقات کے محتاج ہےانسان اپنے وجود، پرورش، تعلیم ، صحت غرضیکہ زندگی کے تمام معاملات میں  قدم بقدم دم مرگ تک جہاں اپنے خالق کائنات کی خاص عنایتوں  کے مرہون منت ہے وہاں ایکدوسرے کیساتھ سماجی تفاعل  کا احتیاج بھی رکھتا ہے، انسان بطور سماجی رکن اپنے وجود کے فورا بعد جس معاشرتی ادارے کا محتاج ہوتا ہے وہ  ادارہخاندانکہلاتا ہے ۔یہی وہ ادارہ ہوتا ہے جو انسان کی جسمانی، روحی، اخلاقی اور فکری پرورش کی بنیاد رکھتا ہے  اس ادارے میں رہن سہن کے طور طریقوں کو عائلی نظام زندگی  کہا جاتا ہے ۔ عائلی زندگی ہی انسانی شخصیت کی پہلی اینٹ رکھتی ہے  اور اسکی تعمیر سازی  کا آغاز کرتی ہے ۔عائلی زندگی کی بنیادی اکائی  کی حیثیت میاں بیوی  کو حاصل ہے،انہی کے ازدواجی تعلقات سے اس زندگی کی ابتداء ہوتی ہے لہذا جسطرح زندگی  کے دیگر معاملات میں انسان رہنمائی اور اسوہ کا محتاج ہوتا  ہے اسی طرح اس زندگی کے اہم اور بنیادی معاملے میں بھی آئیڈیل رہنما اوراس کی رہنمائی انسان کیلے ناگزیز ہے یہی وجہ ہے کہ دین مقدس اسلام نے عائلی زندگی کو اہمیت دینے کیساتھ ساتھ  اسکے طور طریقے اور اراکین کی ذمہ داریوں اور حقوق سے روشناس کیا ہے نہ صرف یہی بلکہ ایک جانب  کچھ گھرانوں(خاندان عصمت و طہارت) کو عملی اسوہ بنا کر بنی نوع انسان کی خدمت میں رکھ دیا ہے تو دوسری جانب اسی گھرانے نے بھی عائلی نظام زندگی کا وہ نمونہ پیش کیا جسکی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ جہاں ایک مرد کیلے  والد، شوہر ، بھائی اور بیٹا ہونے کے لحاظ سےذمہ داریوں اور حقوق کا عملی نمونہ اہلیبیت علیھم السلام کے گھرانے سے ملتا ہے وہیں پر ایک خاتون کیلے ماں، بیوی، بہن اور بیٹی ہونے کے ناطے عملی سیرت اس گھرانے نے پیش کیا ہے۔ خاندان عصمت وطہارت کا محور و مرکز سیدہ کونین حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا  ہیں جنکو حضور اکرم ﷺ نے عالمین کے خواتین کا سردار و سرتاج قرار دیا ہے اور جناب سیدہ کونین نے اپنی مختصر بابرکت زندگی میں بیٹی، زوجہ اور ماں ہونے کی حیثیت سے کائنات کی تمام خواتین کیلے  بہترین اور مناسب ترین  نمونہ عمل پیش کیاہے تو انکی دختر ارجمند جناب ثانی زہرا حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے بہن ہونے کے اعتبار سے سیرت عملی پیش کر کے کائنات کی خواتین  کی رہنمائی فرمائیں۔ مگر اس مختصر مقالے میں ہم جناب  سیدہ کونین سلام اللہ علیھا کی سیرت طیبہ میں سے صرف عائلی زندگی میں آپکی  سیرت طیبہ  کے کچھ گوشوں سے چند نمونے پیش کرنے کو کوشش کرینگے تاکہ آج کل کےپرآشوب معاشرے میں عائلی زندگی کے بڑھتے ہوئے مسائلکے حل اپکی سیرت طیبہ میں تلاش کرسکیں ،اس مقالہ  کے آغاز میں عائلی زندگی کا ایک مختصر تعارف کرنے کے بعد ہم سیرت طیبہ سیدہ کونین کی روشنی میں امور خانہ داری، شوہر داری اور تربیت اولاد کے موضوع پر کچھ نکات پیش کرنے  کی کوشش کرینگے۔ خد اوند متعال سے اس دعا کے ساتھ کہ ہم سب کو اپنی حیات میں خاندان عصمت وطہارت کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے -

مرحلہ اول

عائلی زندگی کا تعارف:  

ہم جانتے ہیں کہ عائلی زندگی علم عمرانیات کے موضوعات میں سے ایک موضوع ہے  لہذا پہلے علم عمرانیات کی روشنی میں خاندان کی تعریف، اسکی اقسام اور اسکی اہمیت ضبط قرطاس لائیں گے  اسکے بعد دین مقدس اسلام کی نظر میں عائلی نظام زندگی کی اہمیت کو بیان کرینگے۔

خاندان:  

علم عمرانیات میں خاندان کی تعریف یوں کرتے ہیں،

"خاندان ایک بنیادی اور اہم سماجی ادارہ ہے جو دو یا دو سے زیادہ افراد پر مشتمل ہوتا ہے جنکا بنیادی مقصد بچے پیدا کرنا اور انکی اس طرح پرورش کرنا ہے کہ معاشرے کا کار آمد رکن بن سکیں"(۱)

ایک اور مقام پر خاندان کی تعریف یوں کی ہے کہخاندان ایک اجتماعی گروہ کا نام ہے جسکا مقصد لوگوں کی روحی، جسمانی اور ذھنی سلامتی کو برقرار رکھنا ہے"

خاندان کی اقسام: 

علم عمرانیات میں کئی اعتبارات سے خاندان کی تقسیم بندی کی ہے تاہم ہم یہاں صرف دو اعتبار سے اقسام کو بیان کرینگے۔ ساخت کے اعتبار سے خاندان کی دو قسمیں ہیں؛ مشرکہ خاندان اور سادہ خاندان. )2(

۱۔ مشترکہ خاندان(Joint Family) :

مشترکہ خاندان سے مراد وہ عائلی نظام زندگی ہے جو شوہر، بیوی  ، والدین اور چند دوسرے رشتہ دار وں پر مشتمل ہوتا ہے ، بعض اوقات دو،دو اور تین تین نسلیں اکھٹی رہتی ہیں، اس خاندانی نظام میں خاندان کے افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور گھر کا سب سے بزرگ مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے، برصغیر پاک و ہند میں زیادہ تر یہی عائلی نظام رائج ہے.

۲۔ سادہ خاندان:(Nuclear Family):  

سادہ خاندان سے مراد  وہ عائلی نظام زندگی ہے جو صرف شوہر، بیوی اور انکے ایسے بچوں پر مشتمل ہوتا ہے  جو اپنی کفالت خود نہ کر سکیں، اس میں خاندان کے افراد کی تعداد کم  ہوتا ہے اور جدت پسندی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔مغربی ممالک سمیت ایران میں زیادہ تر یہی خاندانی نظام رائج ہے۔

اقتدار و اختیار  کے اعتبار سے خاندان کی اقسام؛ اس اعتبار سے خاندان کی تین اقسام ہیں:

پدرسری خاندان، مادر سری خاندان اور جمہوری خاندان

۱۔ پدر سری خاندان(Patriarchal Family) : 

خاندان کی وہ قسم  جس میں گھر کا سربراہ مرد ہوتا ہے  اگرچہ عورت کے حقوق بھی معین ہوتے ہیں مگر گھریلو فیصلے اور دیگر بڑے معاملات میں فیصلہ کا اختیار مرد کو ہوتا ہے۔

۲۔مادر سری خاندان(Matriarchal Family) :

خاندان کی وہ قسم جس میں گھر کا سربراہ عورت ہوتی ہے اور بڑے فیصلے خاتون ہی کرتی ہے، زرعی زندگی کے آغاز میں یہ نظام رائج تھا ، وقت گزرنے کیساتھ اب عملا اس کا نفاذ کم ہوگیا ہے۔

۳۔ جمہوری خاندان(Democratic Family ) :

خاندان کی وہ قسم جس میں شوہر اور بیوی متفقہ طور پر خاندانی امور طے کرتے ہیں، عورت ، مرد کا ہر معاملہ میں جسمانی، ذھنی، معاشی اور تعلیمی لحاظ سے ساتھ دیتی ہےآج کل معاشروں میں زیادہ تر یہی خاندانی  نظام  رائج ہے۔

عائلی نظام زندگی کی اہمیت  وضرورت

یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنی  ایک سماجی شناخت چاہتا ہے اور اس فطرت کو پروان چڑھانے کا ابتدائی کام عائلی نظام زندگی انجام دیتی ہے  یہی وجہ ہے کہ انسان سب سے زیادہ خاندانی زندگی میں اپنائیت محسوس کرتا ہے اپنائیت کا یہی احساس بعد میں اسکی شخصیت کے نکھارنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے انہی خصوصیات کی بنا پر خاندان کو بحیثیت ادارہ معاشرے کے دیگر تمام اداروں میں ایک اہم اور مرکزی مقام حاصل ہے۔یہاں سے ایک بات سمجھ آنی چاہیے کہ آج کل جن بچوں کو کم عمری میں ہاسٹلز میں بھیج دیتے ہیں  انکی شخصیت کی مناسب تعمیر سازی نہیں ہوتی ، بلا ان ہاسٹلوں میں ایک ماں کی محبت و شفقت کہاں مل سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ یہی بچے بعد میں جا کر معاشرے کی تعمیر و تنظیم میں رکاوٹ بن جاتے ہیں  اور سماج کے ارکان کیساتھ انکے رویے نا گفتہ بہ حال ہوتے ہیں حتی کہ بعض اوقات  اپنے والدین کو بھی آزارو اذیت پہنچانے سےدریغ نہیں کرتے۔لہذا سماج کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے  کہ بچوں کو کم عمری میں جس پیار و محبت اور شفقت و عطوفت کی  ضرورت ہوتی ہے وہ صرف اور صرف عائلی نظام زندگی ہی فراہم کر سکتی ہے۔بطور اختصار یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی فکری، جسمانی، اخلاقی، روحی اور نفسیاتی تعمیر سازی حقیقی معنوں میں صرف عائلی نظام زندگی سے ہی ممکن ہے۔

اسلام کی نگا ہ میں عائلی زندگی:

دین کامل اسلام نے جہاں زندگی کے دیگر امور کی طرف رہنمائی کی ہے وہاں عائلی نظام زندگی  کے بارے میں بھی ایک جامع نظام دیا ہے.اسلام نے عائلی زندگی میں ہر ارکان کے حقوق اور ذمہ داریاں اس طرح سے واضح کر کے بیان کیا ہے  کہ  اگر ان پر عمل کیا جائے تو ایک پرسکون اور خوشگوار خاندان تشکیل پا سکتا ہے اور ایسا نظام ہی معاشرے کو قیمتی گوہر دے سکتا ہےشادی سے پہلے اور بعد کے مراحل سے لیکر میاں بیوی کے حقوق، اولاد کے حقوق، والدین کے حقوق حتی کہ ہمسائے کے بھی حقوق اس طرح فرزند آدم کے سامنے پیش کیا ہے کہ ان پر عمل ایک پر امن و پر سکون معاشرے کی ضمانت دیتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ عائلی  نظام زندگی کے دو اہم پہیےمیاں اور بیوی ہیں اس نظام کو کامیاب بنانے میں یا بگاڑنے میں اصل کردار میاں بیوی کا ہی ہوتا ہے اسوجہ سے خداوند متعال نے فطرتا ہی مرد اور عورت کی تخلیق ہی کچھ اس طرح سے کی ہے جس طرح ایک خاندانی نظام زندگی کی ضرورت ہےعلامہ عبد الحمید المہاجر اپنی کتاب " اعلموا انی فاطمہمیں اسی فطرتی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ" ایک خاندانی نظام زندگی کی تعمیر و تنظیم کیلے جہاں محبت و شفقت اور عطوفت کی ضرورت ہے وہاں مضبوط ارادوں اور دقیق فیصلوں کی بھی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ خداوند متعال نے عورت کی فطرت میں حساسیت اور شفقت و عطوفت کا پہلو مرد کی بنسبت زیادہ رکھا ہے تو مرد میں سخت حالات میں بھی جذباتیت پر کنٹرول کر کے دقیق فیصلے کرنے کی طاقت  عورت کی بنسبت زیادہ رکھ دیا ہے"۔(3)

اس بات کی طرف قرآن مجید میں بھی اشارہ ملتا ہے، ارشاد پروردگار ہے؛

الرجال قوامون علی النساء بما فضل الله بعضهم علی بعض و بما انفقوا من اموالهم، فالصالحات قٰنتٰت حٰفظٰت للغیب بما حفظ الله..."(4)

ترجمہ: "مرد عورتوں پر نگہبان ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اسلئے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں اللہ نے جن چیزوں(مال و آبروکا تحفظ چاہا ہے،(خاوندکیغیر حاضری میں انکی محافظت کرتی ہیں۔۔"

اس آیت میں عائلی نظام زندگی  کے بنیاد ی اصول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چنانچہ شیخ محسن علی نجفی حفظہ اللہ  اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛  " مرد عورتوں کے محافظ اور نگہبان ہیں یعنی عائلی نظام میں مرد کو قیَم اور ستون کی حیثیت حاصل ہے چونکہ مردوں کو عقل وتدبر اور زندگی کی مشکلات کا تحمل اور مقابلہ کرنے میں عورتوں پر برتری حاصل ہے اور عورتوں کو جذباتیت اور مہر وشفقت میں مردوں پر برتری حاصل ہے یہاں سے ان دونوں کی ذمہ داریاں بھی منقسم ہو جاتی ہیں، اسلام کے عائلی نظام میں مرد کو برتری حاصل ہے اس سے عورت کا استقلال و اختیار سلب نہیں ہوتا اپنے اپنے مقام پر مرد وزن کی زمہ داریاں ہیںعورت کو انسانی زندگی سے مربوط داخلی امور کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اور مرد کو بیرونی امور کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں یہ بات مردو زن کی جسمانی ساخت و بافت اور نفسیاتی خصوصیات سے بھی عیاں ہے عورت ضعیف النفس،نازک مزاج، حساس ہوتی ہے اور اسکے ہر عمل پر جذبات غالب ہوتے ہیں جبکہ مرد طاقتور، جفاکش اور اسکے ہر عمل پر عقل و فکر حاکم ہوتی ہے."(5)

اس بات کو واضح کرنے کیلے ایک مثال یوں دی جاسکتی ہے ، اگر کبھی  کسی کا بچہ کہیں سے گر جائے اور اسکے کسی عضو سے خون نکلنا شروع ہو جائے تو اسکی ماں، شفقت مادری کی وجہ سے فورا رونا پیٹنا شروع کرے گی اور اسکی حالت بھی متغیر ہو جائے گی جبکہ اسکا باپ فورا بچہ کو اٹھا کر اسکو ابتدائی طبعی امداد دینے  کی کوشش کرے گا  یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ان فطری صفات کی بنیاد پر مرد اور عورت کی ذمہ داریاں بھی الگ الگ تقسیم کر کے بتا دیاہے۔

اسلام میں عائلی زندگی میں خاندان کے ارکان کی فکری و روحانی تربیت کی طرف قران  مجید کی ان دو آیات میں بھی  اشارہ ہوا ہے.

سورہ مبارکہ تحریم  اور سورہ مبارکہ---- میں بالترتیب  ارشاد پروردگار ہے؛

"وامر اهک بالصلٰوة و اصطبر علیها"( اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہیں(6)

"یا ایها الذین آمنوا قواانفسکم و اہلیکم نارااے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش سے بچا لو(7)

ان دونوں آیات میں عائلی زندگی میں انسانی شخصیت کی تعمیر سازی کی طرف رہنمائی کی گئی ہے کہ انسان کیلے ضروری ہے کہ اپنے آپ کوتربیت یافتہ بنانے کیساتھ ساتھ اپنے خاندان، بیوی اور بچوں کی بھی تربیت کرے تاکہ وہ معاشرے کیلے ایک مفید فرد بن سکیںیہی وجہ ہے کہ دین مقدس اسلام نے تربیت اولاد کو والدین کے ذمہ واجب قرار دیا ہے اور اولاد کی پیدائش کے قبل کے مراحل سے لیکر اسکے بالغ و راشد ہونے تک کےایک ایک مرحلہ کی نہ صرف نظریاتی بلکہ خاندان اہلیبیت کے ذریعے عملی رہنمائی کی ہےہم مرحلہ دوم میں خاندان عصمت و طہارت کے محور و مرکز سیدہ کونین سلام اللہ علیھا کی سیرت کی روشنی میں عائلی نظام زندگی کے کچھ اصولوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کرینگے۔

مرحلہ دوم:: عائلی زندگی سیرت سیدہ کونین کی روشنی میں

ہم جانتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا وہ مقدس ہستی ہیں جنکی عظمت و مرتبت کے سبھی مسلمان قائل ہیں  اور انکی عظمت کے قائل کیوں نہ ہوں جنکے بارے میں حضرت ختمی المرتبت یہ  فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں :

فاطمة بضعة منی،من سرها فقد سرنی و من ساءها فقدساءنی، فاطمة اعز الناس علی"(8)

فاطمہ سلام اللہ علیھا میرا ٹکڑا ہے جس نے انہیں خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے انہیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ، فاطمہ سلام اللہ علیھا میرے لئے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہیں، یا جن کے بارے کائنات کے افضل ترین مخلوق ، رہبر انسانیت حضور اکرم ﷺ فرمائے

" ان الله لیغضب لغضب فاطمة و یرضی لرضاها" (9)

"بے شک خداوند متعال فاطمہ سلام اللہ علیھا کے ناراض ہونے سے ناراض اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے"   ایسی ہستی کے مقام و رتبہ سے انکار کی گنجائش کسی کو حاصل نہیں۔

یہ مسلم بات ہے کہ انسان کو اپنے امور کو منظم انداز مِیں بجا لانے کیلے رہنما او ر رہنمائی کی ضرورت ہے.لہذا کیسےممکن ہے کہ ذات حکیم انسان کو زندگی جیسی بے بہا نعمت تو عطا کرے لیکن اس زندگی کو گزارنے وسنوارنے کے طور طریقوں کی طرف رہنمائی نہ کرےیہی وجہ ہے کہ ذات کردگار نے عالم انسانیت میں انبیاء و آئمہ کی صورت مِیں ایسے رہنما ء بھیجے جنہوں نے قول و عمل دونوں کے ذریعے سے بنی نوع ادم کی رہنمائی فرمائی  اور بہترین اور کامیاب زندگی گزارنے کے اصولوں کو بیان بھی فرمائے اور عملا انجام دے کر بھی دکھائےیہاں تک کہ آخری نبی کے بارے میں تو اعلان ہواوما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین ". ان تمام اہتمام کے باوجود ابھی ایک چیز کی کمی رہ گئی تھی،وہ یہ تھی کہ بے شک رحمۃ للعالمین تمام انسانوں کیلے نمونہ عمل ہیں لیکن عالم نسوانیت کے کچھ ایسے امور بھی تھے جہاں آپ کی ذات گرامی عملی طور پر نمونہ عمل نہیں بن سکتے تھے پس عالم نسوانیت سے مخصوص امور کی بنسبت بھی ایک نمونہ عمل اور ایک سیرت طیبہ کی ضرورت تھی ، اسی ضرورت کو پورا کرنے کیلے خداوند متعال نے نور فاطمہ کو خلق فرمایا  اور انہیں عالمین کے خواتین کی سیدہ و سردارقرار دیاچنانچہ روایت میں ہے کہ " وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحیکے مصداق ختم المرتبت نے فرمایا:

و اما بنتی فاطمة فانها سیدة نساء العالمین من الاولین و الاخرین وهی بضعة منی وهی نور عینی وهی ثمرة فوادی وهی روحی(10).

"میری دختر ارجمند فاطمہ سلام اللہ علیھا عالمین کی اول و آخر تمام خواتین کی سیدہ و سالار ہیں وہ میرے بدن کا حصہ ہیںمیری آنکھوں کا نور ، میرےدل کا میوہ اور میری روح ہیں"

اب ہم نظر دوڑاتے ہیں کہ ختمی المرتبت کے بعد  کائنات کی دو افضل ترین ہستیوں  کا جوڑا اپنی عائلی نظام زندگی کو کس طرح گزارتے ہیں اور کیسے اسلام کے اصولوں کو عملاعالم انسانیت کی خدمت میں رکھ دیتے ہیں . کتنا خوبصورت گھرانہ ہے کہ ایک طرف وہ ہستی ہیں جنکے بارے ارشاد پیغمبر ہوایا علی حبک ایمان و " اور دوسری طرف وہ ہستی ہیں جنکے بارے ارشاد ہواان اللہ لیغضب لغضب فاطمۃ و یرضی لرضاھا". ان فضیلتوں کے حامل ہستیاں اپنی زندگی کو اس طرح بسر کرتے ہیں کہ کائنات کے تمام افراد امیر و غریب سب کیلے اس سیرت پر عمل کرنا ممکن ہے۔

آج کل کے معاشرے میں عائلی نظام زندگی کے کئی مسائل  ایسے ہیں جن کے سبب اس نظام میں دراڑ یں پیدا ہو رہی ہیں کہیں میاں بیوی کا جھگڑا ہے تو کہیں  اولاد راہ راست پر نہیں،کہیں گھریلو امور منظم نہیں تو کہیں خاندان کے افراد کے تعلقات کا مسئلہ ہے لہذا اگر ہم اپنی عائلی نظام زندگی کو بہترین انداز میں بسر کرنا چاہتے ہیں اور خشگوار اور  آئڈیل زندگی گزرانا چاہتے ہیں، تو آئیے سیدہ نساء العالمین سلام اللہ علیھا کے گھرانے سے اس نظام کے اصولوں کو سیکھتے ہیں، اور پھر انکو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیںہم جانتے ہیں کہ عالم نسوانیت میں ماں، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانا بہت اہم کام ہے  لہذا خاتون جنت نے اپنی مختصر مگر بابرکت زندگی میں ان تینوں حیثیتوں کے مطابق آیئڈیل زندگی گزار کر کائنات کی خواتین کو عملی درس دیابیٹی ہونے کے اعتبار سے اس طرح  ذمہ داری بجا لائی کہ ام ابیھا کا لقب ملا، بیوی ہونے کے اعتبار سےاپنی ذمہ داریوں اور وظائف سے اس طرح عھدہ بر آ ہوئیں کہ  امیر المومنین  یہ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ "جب بھی میں فاطمہ سلام اللہ علیھا پر اپنی نگاہ ڈالتا تو میرے ہموم و احزان ختم ہوجاتے اور مجھے سکون مل جاتااور ماں ہونے کے اعتبار سے اس طرح اپنا کردار پیش کیا کہ بچوں کی اسقدر  پرورش کی کہ جوانان جنت کے سردار قرارپائے.

اب ہم عائلی زندگی سے متعلق چند اہم امور کو،سیرت زہراء کی روشنی میں بیان کرنے کو چلتے ہیں.

۱۔شوہر داری

  ہم جانتے ہیں کہ خاندانی نظام زندگی کی بنیادی اکائی میاں اور بیوی ہے ، یہی وجہ ہے کہ بہتر خاندانی نظام زندگی میاں بیوی کے آپس کے تعلقات پر منحصر ہے . اگر ان کے آپس کے تعلقات میں خلل آ جائے تو  گھریلو نظام سے لیکر اولاد تک اس سے متاثر ہوتے ہیں، لہذا جوں ہی ایک مرد و وعورت رشتہ ازدراج سے منسلک ہو جاتے ہیں تو انکی ایکدوسرے کی نسبت کچھ ذمہ داریاں بھی آ جاتی ہیںمرد کی ذمہ داریاں  ایک الگ موضوع ہے ، فی الحال ہم  ایک خاتون کی ذمہ داریوں پر بات کر رہے ہیںلہذا تزویج کے بعد اولین اور اہم ترین ذمہ داری جو ایک خاتون کے ذمہ آتی  ہے وہ ہے شوہر داری، یعنی اپنے شوہر کیساتھ بہتر تعلقات رکھنا ، اسکی فرمانبرداری کرنا، اسکے مال و آبرو کی حفاظت کرنا ، اسکے امور میں معاون بننا اور اسکو سکون و راحت فراہم کرناچناچہ ارشاد رسالتمآب ہےجهاد المراة حسن التبعل"،(11) " عورت کا جہاد شوہر کے  حقوق کو اچھی طرح ادا کرنا ہےاسی طرح امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیںجو عورت پانچ  وقت کی نماز پڑھے،روزہ رکھے ، حج کرے اور اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرے اور امام ؑ کا حق جانے وہ جنت کے جس  دروازے سے چاہے داخل ہو جائے".(12)  ایک عورت کیلے شوہر کسیاتھ بہتر تعلقات پر اس قدر تاکید کی ایک وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ عائلی نظام زندگی کی کامیابی اور سرفرازی میاں بیوی کے تعلقات پر موقوف ہےیہ حقیقت ہے کہ اگر خانوادگی زندگی میں افکار و عقیدہ اور ہدف میں ہم آہنگی ہو تو ایسی خا نوادگی  زندگی ہر زاویہ نظر سے مہر ومحبت ،عشق و علاقہ اور ہم سر کے حقوق کی پاسبانی و رعایت سے معمور ہوتی ہےیہ چیز ہمیں کائنات کے اس حسین جوڑے میں نظر آتے ہیں .لہذا اب دیکھتے ہیں کہ سیدہ کونین سلام اللہ علیھا نے اس ذمہ داریشوہر داری(کو کس طرح نبھائی .آپ کی شوہر داری کے متعلق جاننے کیلے امیر المومنین ؑ کا یہی ایک قول کافی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا؛

فو الله ما اغضبها و لا اکرهتها علی امر حتی قبضها الله  ولا اغضبتنی ولا عصت لی امر امرا،لقد کنت انظر الیها فتنکشف عنی الهموم و الاحزان(13)

ترجمہ: اللہ کی قسم میں نے انکی زندگی میں کبھی ان پر غصہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے کسی معاملے میں ان کو ناراض کیا یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رحلت کر کے بارگاہ الہی میں پہنچ گئیں، اور نہ ہی وہ کبھی مجھ پر ناراض ہوئیں اور نہ کبھی میری کسی بات  پر بر ہم ہوئیں اور نہ ہی انہوں نے میری نافرمانی کی، جب میں ان پر اپنی نگاہ ڈالتا تو میرے ہموم واحزان ختم ہو جاتے اور مجھے سکون مل جاتا"

سبحان اللہکیا خوبصورت زندگی تھی اور کس قدر بہترین تعلقات استوار کئے.اس فرمان پاک میں ایک میاں اور بیوی کیلے بہترین درس عمل موجود ہے ، خاص کر مولا کائنات کا یہ فرمانا کہ " جب میں ان پر نگا ہ ڈالتا تو میرے ہموم واحزان ختم ہو جاتے اور مجھے سکون مل جاتا" . محترم قارئیناب اندازہ لگا لیجیے اگر میاں بیوی کے تعلقات اس طرح سے ہوں کہ بیوی پر نظر کرنے سے سکون ملے اور غم دور ہو جائے تو اس سے بہتر خاندانی زندگی کیا ہو سکتی ہےآج کل کے بعض خواتین کا اپنے شوہروں کیساتھ رویہ نا گفتہ بہ حال ہے ، بات بات پر جھگڑےاور شکوہ شکایات  کرتی رہتی ہیں . کچھ مرد حضرات اپنی بیویوں کے غیر مناسب رویوں کی وجہ سے کام سے گھر جانے کو بھی بوجھل محسوس کرتے ہیں.ایسے خواتین کو چاہیے کہ وہ سیدہ کونین سلام اللہ علیھا کی سیرت سے اپنے لئے درس عمل لیں تاکہ عائلی نظام زندگی متاثر نہ ہوسکیںدوسری طرف مردوں کیلے بھی ضروری ہے کہ وہ اس گھرانے سے اپنے لئے نمونہ عمل لیں، مولا علی ؑ کا یہ فرمانا کہ " اللہ کی قسم میں نے انکی زندگی میں کبھی ان پر غصہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی معاملے میں انکو ناراض کیاکس قدر قابل توجہ جملہ ہے۔آج بعض مرد حضرات اپنی بیویوں کو مارنے پیٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے ،اور معمولی غلطیوں پر لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیںایسے مردوں کو چاہیے کہ وہ مولا علی ؑ کی زندگی سے  سبق سیکھیں .

روایات میں ملتا ہے کہ ایک دن جناب امیرؑ نے بی بی پاک سلام اللہ علیھا سے پوچھا : اے سیدہکیا گھر میں کوئی کھانے کی چیز ہے؟

آپ ؑ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کا حق عظیم بنایا ،تین دن سے ہمارے گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے.

آپ ؑ نے فرمایا: آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا ؟ سیدہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا: مجھے رسولخدا ﷺ نے منع فرمایا تھا کہ آپ سے کسی چیز کا سوال کروں .  امام علی ؑ نے فرمایا : اگر میں ضروریات زندگی گھر میں لے آوں تو پھر آپ ؑ کے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہےاگر گھر میں کسی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور کہہ دیا کریں ،تاکہ میں وہ ضرورت پوری کروں"(14)

یہ بات سیرت زہراء سلام اللہ علیھا میں ملتی ہے کہ آپ نے کبھی امیر کائنات سے ایسی چیز کا سوال نہیں کیا جو امیر کائنات کی وسعت اور دسترسی سے باہر ہو، جبکہ  آج کل  کے معاشروں میں کچھ خواتین کی خریداری کی فہرست ہی ختم نہیں ہوتییہ نہیں دیکھتی کہ یہ چیز میرے میاں کی وسعت میں ہے یا نہیں ،بس صرف ڈمانٹ کرتی جاتی ہیں تو بعض اوقات انکے شوہروں کو قرض لینا پڑتا ہے اور انکو پریشانی کا سامنا ہوتا ہے  جسکا عائلی نظام زندگی پر حتما برا اثر ہوگا .لہذا شوہر داری کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ کبھی بھی اپنے شوہر سے ایسی چیز کا تقاضہ نہ کرے جو اسکی وسعت سے باہر ہو اور جسکو وہ پورا نہ کر سکتا ہو۔

۲۔ گھریلو کام کاج ( امور خانہ داری

جب کسی خاندان کی بنیاد رکھی جاتی ہے  تو اس نظام میں ایک اہم پہلو گھریلو کام کاج ہے یعنی گھر کی صفائی کرنا، کھانا وغیرہ بنانا، برتنوں کو صاف کرنا اور منظم کرنا ، کپڑے دھونا اور بچوں کی دیکھ بال کرنا وغیرہآج کل مشاہدے کی بات ہے کہ بعض خواتین ان امور کو بجا لانے کیلے  نوکرانی رکھنے پر مجبور کرتی ہیں اور ان امور کو بجا لانے کو عار سمجھتی ہیں . بے شک بہت سارے امور شرعی لحاظ سے ان پر واجب نہیں ہیں لیکن ایک عائلی نظام زندگی کو بہتر انداز میں طے کرنے کیلے انکی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان امور کو بجا لائیںہم جانتے ہیں کہ عالم نسوانیت میں سیدہ کونین سلام اللہ علیھا سے بڑھ کر کسی خاتون کا مقام نہیں ہے لیکن اس عظیم مرتبہ پر فائز جناب زہراء سلام اللہ علیھا گھریلو امور کو خود بجا لاتی تھیں .گھر کی چکی خود چلاتی تھیں،گھر کی صفائی ستھرائی خود بجا لاتی تھیں اور اندرون خانہ جتنے امور تھے وہ سب خود بجا لاتی تھیں.  اس حوالے سے  کچھ روایات پیش خدمت ہیں.

"عن ابی عبد الله عن ابیه قال ;تقاضی علی و فاطمة الی رسول الله فی الخدمة فقضی علی فاطمة خدمة دون الباب وقضی علی علی بما خلفه، فقالت فاطمة؛فلا یعلم ما دخلنی من السرور الا بالله"(15)

امام جعفر صادق ؑ سے روایت ہے کہ  جب امیر کا ئناتؑ اور خاتون جنت س کی تزویج ہوئی اور انکو خانوادگی زندگی کا آغاز ہوا تو ایک دن دونوں ہستیاں حضور اکرمﷺ کی خدمت عالیہ میں تشریف لائیں  اور گھریلو امور کے حوالے سے ذمہ داریوں کی تقسیم بندی کے بارے فیصلہ کرنے کا تقاضا کیا تو رسالتمآب ﷺ نے فیصلہ کیا کہ گھر کے اندرونی کام فاطمہ سلام اللہ علیھا بجا لائے گی اور گھر سے باہر کے کام علیؑ بجا لائیں گےجناب زہراء سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں اس فیصلہ سے مجھے جو خوشی ہوئی اسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

در اصل یہ عالم انسانیت کو درس عمل دینے کیلے تھا تاکہ انکو عائلی نظام زندگی میں مرد ارو عورت کی ذمہ داریوں کے بارے رہنمائی کر سکیںجناب زہراء سلام اللہ علیھا کی خوشی بھی اسی وجہ سے تھی کہ انکو گھر سے باہر زیادہ نہیں نکلنا پڑے گی یوں وہ اپنی ذمہ داری بھی بخوبی بجا لا سکے گئیں اور نا محرموں کے نظروں سے بھی بچ کر رہیں گئیں.

اسی طرح جناب زہراء سلام اللہ علیھا کی گھریلو خدمات اور مشقت اٹھانے کے حوالے سے امیر المومنینؑ فرماتے ہیں:

"انها کانت عندی و کانت من احب  اهله الیه و انها استقت بالقربة حتی اثر فی صدرها و طحنت بالرحی حتی مجلت یداها  و کسحت البیت حتی اغبرت ثیابها  و اوقدت النار تحت القدر حتی دکنت ثیابها فاصابهامن ذالک ضرر شدید۔۔۔۔۔۔ الخ"(16)

وہ میرے پاس آ گئی  جبکہ وہ اپنے اہل وعیال میں سب سے محبوب ترین ذات تھی  انہوں نے  اس  قدر کنویں سے  مشک کے ذریعے پانی نکالا  کہ ان کا سینہ   اس کی وجہ سے متاثر ہوا اور اس حدتک   آٹا تیار کرنے کے لئے دستی چکی چلائیں  کہ ان کے ہاتھ زخمی ہوئے تھے  اور جاڑو دیکر کپڑے گرد آلود ہوتے تھے  اور چولہے  کو جلاتے جلاتے  ان کے کپڑے بھی جل  جاتے  تھے ۔۔۔۔۔۔

اس روایت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خاتون جنت عليها‌السلام جیسی ہستی گھریلو امور کو بجا لانے میں کس قدر مشقت اٹھاتی تھیں.یہاں تک اس دور میں آٹا پیسنے کیلے ہاتھ سے چکی چلائی جاتی تھی اور جناب زہراء  عليها‌السلام یہ کام خود انجام دیتی تھیں اس وجہ سے آپ ؑ کے مبارک ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے تھےاسی طرح کے دیگر گھر کے امور بھی خود بجا لاتی تھیں .حتی کہ بعد میں جب جناب فضہ آپ کی خدمت کرنے آئی تب بھی کمال انصاف دیکھیے کہ آپ نے گھریلو کاموں کو بجا لانے کیلے باری لگائیں اور ایک دن جناب زہراء  عليها‌السلام خود ان امور کو انجام دیتی تھیں اور ایک دن جناب فضہ  انجام دیا کرتی تھیں.

یہی وجہ ہے کہ روایات میں ملتا ہے کہ ایک دن جناب ام ایمن جب آپ سے ملنے آئی تو انہوں نے عجیب منظر دیکھا کہ چکی خود بخود چل رہی ہےامام حسین ؑ کا جھولا بھی کوئی جھلا رہا ہے اور تسبیح کی آواز بھی آرہی ہے حالنکہ  دیکھتی ہے کہ جناب سید عليها‌السلام ہ آرام فرما رہی ہیںام ایمن پریشان ہو کر فورا حضوراکرمﷺ کی خدمت میں آکر اس بارے آگاہ فرماتی ہیں تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا؛ تعجب کی بات نہیں در اصل  آج گرمی کی شدت ہے اورمیری لخت جگر آج روزہ سے تھیں اور اسکے باوجود ان امور کو بجا لانے میں مصروف تھیں کہ ان کو تھکاوٹ اور مشقت  کیوجہ سے نیند آگئیں تو خدا وند متعال نے چند ملا ئکہ کو بھیجا تاکہ وہ ان امور کو بجا لا سکیں  اور سیدہ کے یہ امور رکنے نہ پائے لہذا چکی چلانے والا حضرت جبرائیل ؑ ہیں اور حسینؑ کا جھولا حضرت میکائیل جھلا رہے ہیں جبکہ تسبیح حضرت اسرافیل ؑ پڑھ رہی ہیں.(17)

معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں اتنی مشقت کے باوجود سیدہ کونین  عليها‌السلام گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانے سے غافل نہیں تھیں اور انکو عائلی نظام زندگی کو انس و محبت سے قائم رکھنے کیلے خود بجا لاتی تھیں.

۳۔ امور خانہ داری میں معاونت

عائلی نظام زندگی کا ایک اور اصول جو  در زہراء  عليها‌السلام سے ہم سیکھ سکتے ہیں وہ گھریلو امور کی انجام دہی میں بیوی کی معاونت ہےبہت سارے مرد ایسے ہیں جو گھریلو امور میں معاونت کو عار سمجھتے ہیں اور گھر پہنچنے کے بعد ہاتھ بھی ہلانے کو تیار نہیں ہوتےبعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر گھر میں بھی ہم نے کام کرنا ہو تو پھر خواتین کا کیا کام رہے گااور خاتون کو جتنی بھی مشقت اٹھا نی پڑے وہ آرام سے بیٹھے رہتے ہیں اور گپ شپ وغیرہ میں مصروف رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گھر کے کام کرنا صرف خواتین کی چٹی ہےحالنکہ اگر ہمارے رہنماوں اور پیشواوں کی سیرت طیبہ میں دیکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے  کہ وہ ہستیاں امور خانہ داری میں گھر کی خاتون کی مدد کرتی تھیں۔ روایت میں ملتا ہے کہ  حضور اکرمﷺ نے اس حوالے سے ارشاد فرمایا کہ

" ما من رجل یعین امراتة فی بیتها الا کان له بکل شعر علی بدنه عبادة سنة.... یا علیساعة فی خدمة البیت خیر من عبادة الف سنة.."

"تم میں سے کوئی مرد گھر میں اپنی خاتون کی مدد کرے تو اسکو اسکے بدن پر موجود ہر بال کی نسبت ایک سال کی عبادت کا ثوا ب ملے گا .آگے فرمایا,  یا علیگھریلو خدمت کی ایک گھڑی ایک ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے۔۔۔"(18)

یہ ایک طولانی روایت ہے جو بحار الانوار میں موجود ہے .ہم نے اس میں سے صرف ایک اقتباس لیا ہے.

ظاہر ہے کہ اسلام رہبانیت کا قائل نہیں کہ اپنے امور کو ،بال بچوں کو چھوڑ کر عبادت میں مشغول رہے بلکہ اسلام چاہتا ہے کہ انسان ان امور کو بھی اہمیت دے کہ وہ اپنے بال بچوں کو بھی ٹائم نکالے وہ انسان سازی کیلے بھی کام کرےیہی وجہ ہے گھریلو امور میں معاونت کو سال کی عبادت سے بہتر قرار دیا تاکہ انسان ان امور کو بطور احسن بجا لاسکے جب ان امور کو اچھے انداز میں بجا لائیں گے تو میاں بیوی کے تعلقات بہتر رہی گی جب تعلقات بہتر ہوگی تو عائلی نظام زندگی خوشگوار و پر سکون ہوگی جب عائلی نظام زندگی بہتر ہوگی تو ایسا خاندان معاشرے کو تربیت یافتہ مفید فرد دینے میں کامیاب ہو جائے گا  یوں خاندانوں سے فرد سازی پھر ان سے معاشروں کی تعمیر و ترقی ہوگیاس بارے علامہ الحمید المہاجر اپنی کتاب " اعلموا انی فاطمۃ " میں اس حوالے سے فرماتے ہیں.

گھریلو معاملات میں خاتون کی مدد کرنے  کی طرف مرد کو ترغیب دلانے سے مقصود صرف یہ نہیں کہ وہ کام انجام پا سکیں بلکہ اصل مقصد اس طرح ایکدورسرے کی معاونت سے طرفین کے دلوں میں الفت و محبت پیدا ہونا ہے . کیونکہ واضح سی بات ہے کہ جب گھریلو امور کو اس طرح خشگوار طریقے سے باہمی تعاون سے بجا لائیں گے تو ایکدوسرے کی نسبت الفت ومحبت میں اضافہ ہوگا اور نہ صرف یہی بلکہ اس خوشگوار اور باہمی تعاون کا اثر اولاد پر بھی ہوگا اور یہ انکی عملی تربیت میں کار آمد ثابت ہوگا"

جہاں ظاہری امور میں میاں بیوی کیلے ایکدوسرے کی معاونت کرنا ضروری ہے وہاں معنوی اور تربیتی امور میں بھی لازمی ہے کہ ایکدوسرے کیلے معاون و مددگار بنیں بلکہ ظاہری امور کی بنسبت معنوی امور اہم ہیں اور ظاہری کاموں میں معاونت کی تاکید کی ایک وجہ بھی یہی ہے کہ اس سے معنوی امور میں معاونت کی طرف پیشرفت ہوتی ہےایک عالم دین فرما رہے تھے کہ بعض اوقات اگر مجھ سے کوئی اخلاق کے منافی کام انجام پائے تو میری زوجہ مجھے متوجہ کراتی ہے اور ایک جملہ کہتی ہے کہ ایک عالم دین کیلے اس طرح کا رویہ یا کام مناسب نہیں اور میں فورا اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اپنی غلطی کیطرف متوجہ ہوتا ہوںلہذا اگر میاں بیوی اخلاقی، معنوی اور روحانی امور میں بھی ایکدورسرے کے معاون ہو جائے تو یقین جانیے انکی عائلی نظام زندگی خوشحال و خوشگوار ہوگی . اس حوالے سے اگر ہم سیرت سیدہ کونین  عليها‌السلام کا مطالعہ کریں تو امیر کائنات کا وہ تاریخی جملہ دل و دماغ میں بے اختیار ایک سرور پیدا کرتا ہے  جو آپؑ نے تزویج کے بعد رسالتمآب ﷺ کے استفسار کرنے پر ارشاد فرما یا تھاروایات میں ملتا ہے کہ جب سیدہ کونین  عليها‌السلام کی رخصتی ہو گئی تو دوسرے دن نبی دو عالم  ﷺ  کائنات کے بہترین اور  خوبصورت ترین ،مقدس اور نورانی  جوڑے کی خبر لینے تشریف لائے اور پھر امیر کائنات سے مخاطب ہو کر فرمایا:

"یا علی علیه السلام ! کیف وجدک اهلک؟ فاجابه "نعم العون علی طاعة الله".(19)

اے علیآپ نے اپنی زوجہ محترمہ کو کیسے پائی؟ تو جواب میں فرمایا؛خداوند متعال کی عبادت میں بہترین معاون و مددگار"

اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ جناب سیدہ  عليها‌السلام کس مقام پر فائز تھیں کہ وہ ہستی جو  ہر دن ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور محراب عبادت میں تڑپتے تھے وہ فرما رہے ہیں کہ جناب فاطمہ عليها‌السلام  اطاعت الہی میں بہترین مدد گار ثابت ہوئیں.

۴۔  کفو ہونا

:   عائلی نظام زندگی کی  کامیابی کیلے ایک اہم اور لازمی امر میاں اور بیوی  کا ہم پلہ ہونا ہے .کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ میاں اور بیوی عائلی نظام زندگی کے دو پہیے ہیں لہذا دوپہیئے اگر موافقت نہ ہو تو درست سمت میں چلنا مشکل ہے اور بیلنس  برقراررکھنا سخت ہوگایہ حقیقت ہے کہ اگر خانوادگی زندگی میں افکار و عقیدہ اور ہدف میں ہم آہنگی ہو تو ایسی خا نوادگی  زندگی ہر زاویہ نظر سے مہر ومحبت ،عشق و علاقہ اور ہم سر کے حقوق کی پاسبانی و رعایت سے معمور ہوتی ہے اور اسکے بر عکس  اگر زوجین  فکری، عقیدتی اور مزاج کے اعتبار سے ہم پلہ نہ ہوں تو کئی مسائل جنم دیتے ہیں اور نوبت لڑائی جھگڑوں تک جا پہنچتی ہے جس سے خاندانی نظام زندگی تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی تزویج کیلے دونوں کی رضا مندی بھی ضروری ہے  اس میں جبر و اکراہ کا کسی کو اختیار نہیں . اسوقت بھی کچھ معاشروں میں  لڑکا اور لڑکی خاص کر لڑکی کی رضا مندی کے بغیر  تزویج کر لیتے ہیں نتیجتا اس  قسم کے رشتےخاندانی جھگڑے  اور طلاق کی نوبت تک آکر ختم ہو جاتے ہیںآئیں اس حوالے سے بھی  ہم خاندان عصمت و طہارت کی روش کو دیکھتے ہیں.

روایات کے مطابق جب  امیر المومنین ؑ نے ختم المرتبت سے جناب فاطمہ  زہراء کا ہاتھ مانگا تو آپ ﷺ نے فورا اپنی طرف سے فیصلہ نہیں فرمایا بلکہ پہلے اپنی بیٹی کی رضایت طلب کی  اور پھر رشتہ کو قبول فرمایا اور بیٹی کی رضا مندی پوچھ کر تمام انسانوں اور مسلمانوں کو یہ درس دیا کہ بیٹی کی زندگی کا فیصلہ اسکی رضامندی کے بغیر کرنا تعلیمات اسلامی کے خلاف ہے اسلام نے خواتین کو  خاص مقام و احترام دیا ہے.

دوسری بات زوجین کا ہم پلہ ہونے کے حوالے سے تھا یہ بات بھی روایات میں موجود ہے کہ امیر کائنات سے پہلے دیگر کچھ اصحاب نے بھی سیدہ کونین  عليها‌السلام کا رشتہ مانگا تھا مگر جواب نفی میں ملا اور جب  امیر کائنات نے رشتہ طلب کیا تو بیٹی کی رضایت کے بعد اسکو قبول کیا اور پھر فرمایا؛ 

لو لا علی لم یکن لفاطمة کفو، " اگر علیؑ نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی کفو نہ ہوتا"(20)

معلوم ہوا کہ کامیاب ازدواجی زندگی کیلے زوجین کا ہم فکر وہم پلہ ہونا اور افکار و عقیدے کے لحاظ سے موافق ہونا بھی ضروری ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ  کامیاب خاندانی زندگی کیلےمزاج میں بھی کچھ حد تک یکسانیت ضروری ہے .

۵تربیت اولاد:   

یہ  عائلی زندگی کا وہ اہم فریضہ ہے جو اہمیت و ضرورت کی بنسبت دیگر تمام فرائض    سے بڑھ کر ہے .اور جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا کہ عائلی نظام زندگی کا اصل مقصد ہی معاشرے کو تربیت یافتہ افراد فراہم کرنا ہے  دوسری طرف تناکحوا و تناسلو ا سے بھی واضح ہو رہا ہے کہ تزویج کا اصل مقصد بھی نسل انسانی کی بقاء ہے . ظاہر ہے  کہ نسل انسانی کی بقاء صرف جسمانی پرورش سے نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی پرورش بھی نا گزیر ہےیہی وجہ ہے کہ دین مقدس اسلام نے اولاد کی تربیت کو والدین کے اوپر واجب قرار دیا تاکہ وہ اس اہم فریضہ سے غافل نہ رہیں اور معاشرے لو مفید افراد فراہم کر سکیںدین مقدس نے  تربیت کو اسقدر اہمیت دی ہے کہ اس سے متعلق لحظہ بہ لحظہ کے اصول بیان کیا ہے . الجنۃ تحت اقدام الامہات ( ماں کے پاوں تلے جنت ہےکہہ کر جہان ماں کی عظمت و شان کو بیان کیا ہے وہاں ماں کی ذمہ داری کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ماں ہی وہ ہستی ہے جو اولاد کی صحیح معنوں میں تربیت کر کے  انکوجنت پہنچا سکتی ہے ماں ہی وہ ہستی ہے جسکی گود کو اولین درسگاہ قرار دیا گیا ہےیہ مسلم امر ہے کہ والدین کے کردار و رفتار کا اولاد پر لا محالہ اثر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا؛

"کل مولود يولد فهو على الفطرة، وإنما أبواه يهودانه أو ينصرانه." (21)

ہر بچہ جوپیدا ہوتا ہے وہ  فطرت ) دین الہیپر  قائم ہوتا  ہے یہ اسکے والدین ہیں جو اسکو  یہودی اور نصرانی بناتے ہیں"

معلوم ہوا کہ بچے کی شخصیت سازی میں والدین کا بنیادی اور نمایاں کردار ہوتا ہے  حتی کہ بعض اوقات زندگی کے پیشے بھی والدین کے اتباع میں اختیار کرتے ہیںلہذا عائلی نظام زندگی میں اولاد کی شخصیت سازی  کس طرح سے ہونی چاہیے اور کس طرح سے اولاد کی فکری، اخلاقی اور معنوی تربیت کرے اسکیلے بھی ہمارے لئے نمونہ خاتون جنت کا مقدس گھرانہ ہےاس گھرانے کا کیا کہنا جس نے دنیا کو  امام حسنؑ،امام حسینؑ اور جناب زینبؑ وام کلثوم جیسی ہستیاں عطا کی کہ جنہوں نے انسانیت کی تاریخ میں ظلم و بربریت، مکر وفریب اور عوامی استحصال  کے خلاف ایسی تحریک چلائی  کہ قیامت تک  آنے والےانسان اس تحریک  سے اپنے لئے نمونہ لیتے رہِیں گے اور اسکے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے رہیں گے . کسی شاعر نے کیا خوب کہا

تو دوسری طرف شاعر مشرق نے بھی عقیدت کا یوں اظہار کیا

مادر آن مرکز پرکار عشق                                       مادر آں قافلہ سالار عشق

عالم انسانیت کیلے آئیڈل اس گھرانے سے تربیت کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں.

۱۔ہم نے عرض کیا کہ زوجین کے تعلقات و روابط اور کردار و رفتار کا اولاد پر گہرا اثر ہوتا ہے . اس حوالے سے اس گھرانے کا کیا کہنا جس میں ایک طرف ایمان کل  ہو تو دوسری طرف عالمین کے خواتین کی رہنما و بضعۃ منی کا مصداق ہولہذا انکے سیرت و کردار کا گہرا اثر انکے اولاد پر ہوئے.یہی وجہ ہے بیٹے تو بیٹے ہیں انکی بیٹی نے بھی دربار زیاد و یزید کے ایوانوں کو ہلا دیا  اور اس طرح سے خطبے دئیے کہ لوگوں کو علی ؑ یاد آگئے.

۲.بچے کی ولادت کے بعد نام رکھنے کا مرحلہ آتا ہے.تو روایات میں ہے کہ جناب امیر کائنات ؑاور سیدہ کونین  عليها‌السلام نے اپنے کسی بچے کا نام   رسالتمآب   ﷺ  کی رائے کے بغیر نہیں رکھا اور رسالتمآبﷺ نے وحی الہی کے مطابق اولاد زہراِء کے نام تجویز کئےچونکہ نام کی بھی ایک تاثیر ہوتی ہے اس وجہ سے ہمیں بھی حکم یہی ہے کہ اپنے بچوں کے نام رکھنے میں  اسکے معانی کی طرف ضرور توجہ رکھے  اور انبیاِء و آئمہ اور خاندان عصمت و طہارت کے مقدس اور خوبصورت اسماء کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اور  دروازے پر جانے کی احتیاج نہیںیاد رہے فلمی ایکٹرز ، ڈرامہ نگار، اینکر پرسنز، کرکٹرز اور سیاستدانوں کے نام سے بچے کو موسوم کرنا کوئی فخر کی بات نہیں.

۳اس بات سے بھی انکار نہیں کہ ماں کی گود بچے کیلے اولین درسگاہ ہے . روایات کے مطابق جناب زہراء ہمہ وقت ، بچوں کی دیکھ بال کے دوران ہو یا گھریلو دیگر امور کی انجام دہی ہو ،تسبیح خدا میں بھی مصروف ہوتی تھیں.یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ماووں کو بھی حکم ہے کے بچے کی پرورش کے دوران عموما اور دودھ پلانے کے اوقات میں خصوصا تسبیح وتقدیس پڑھتی رہیں اسکا اولاد پر گہرا اثر ہوتا ہے حتی کہ ایام حمل میں بھی تلاوت قرآن اور دعا و مناجات  کی تلاوت کی زیادہ تاکید کی گئی ہے ان تمام امور کا بچے کی شخصیت سازی میں نمایاں اثر ہوتا ہے.

۴بچوں کی عملی تربیت:

یہ بنیادی اور اہم نکتہ ہے کہ  زبانی اور قولی  رہنمائی سے زیادہ عملی  تربیت موثر و مفید ہوتا ہے  اور گھر میں بچے خاندان والوں کے ،خاص کے والدین کے عملی کردار سے اور گھر کے ماحول سے زیادہ سیکھتے ہیں اور والدین کی روش اور چال چلن کو غیر محسوس طریقے سے بچہ جذب کرتا ہے ،اسی وجہ سے تو امیر کائنات ؑنے فرمایا کہ  بچوں کا ذھن خالی زمین کی طرح ہے جس میں جو کچھ بوئیے گا کل وہی چیز اگے گا اور اسی کے مطابق ثمرہ ملےگایہی وجہ سے آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب آپ خصوصا مائیں گھر میں نماز پڑھنے لگتی ہیں تو بچے بھی آ کر کبھی سجدہ گاہ کو ہاتھ میں اٹھاتے ہیں تو کبھی پیشانی کو زمین پر رکھتے ہیں اور کبھی جا نماز بچھا کر اس پر اپنے انداز میں قیام و قعود کرتے ہیںیاد رکھنا بچوں کو اس کام سے نہ روکنا بلکہ انکو ہمیشہ نماز پڑھتے ہوئے اپنے ساتھ رکھیے تاکہ اس کے ذھن میں نماز کی اہمیت راسخ ہو جائےاسکے بر عکس اگر نماز کے اوقات میں اور دیگرامور کے دوران بچوں کو صرف کاٹون دیکھنے اور ڈرامے وغیرہ دیکھنے میں مگن رکھیں  اور بچہ کبھی والدین کو نماز پڑھتے نہ دیکھے تو لا محالہ اس قسم کے بچوں میں ان عبادات کی طرف رغبت کم ہوگی  یاانکی توجہ عبادات کی طرف مبذول کرانے میں دقت پیش آئے گیا س بات کو واضح کرنے کیلے ایک مثال دیتے ہیں کہ ایران میں جب حسین طباطبائی نے چھے سال کی عمر میں مکمل قرآن حفظ کیا جس عمر میں اکثر بچے قاعدہ نہیں پڑھ سکتے اس عمر میں حفظ مکمل کرنے پر انکی ماں سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے کبھی بغیر وضو کے اسکو دودھ نہیں پلایا اور اسکے حمل کے دوران سے لیکر دودھ پینے کے ایام کی تکمیل تک فرصت کے اوقات میں ،میں ہمیشہ قرآن کی تلاوت کرتی رہتی تھی اور خاص کر دودھ پلاتے ہوئے قرآن کی تلاوت کرنا میر اشیوہ تھا ماں کی یہی عملی تربیت کا ثمرہ حافظ حسین طباطبائی کی شکل میں نمودار ہوا.جس نے کمسنی میں پوری دنیا کے خاص کر عالم اسلام کو حیرت میں ڈال دیا۔

اب ہم در بتول سے بچوں کی عملی تربیت کے کچھ  نمونے بیان کرنے چلتے ہیں .امام حسن ؑ سے ایک روایت منقول ہے جس میں آپ ؑ فرماتے ہیں،

"رایت امی فاطمة قامت فی محرابها لیلة جمعتها فلم تزل راکعة ساجدۃ حتی اتضح عمود الصبح  وسمعتها  تدعو للمومنین والمومنات و تسمیهم وتکثر الدعاء لهم ولا تدعولنفسها بشیء فقلت لھا یا اماهلم لا تدعین لنفسک ؟؟فقالت؛ یا بنیالجار ثم الدار"(22)

"میں نے جمعہ کی رات اپنی مادر گرامی فاطمہ زہراء  عليها‌السلام کو محراب عبادت میں دیکھا ،میری مادر گرامی صبح تک رکوع و سجود میں مشغول رہی اور میں نے سنا کہ مادر گرامی مومنین و مومنات کیلے دعا کرتی رہیں اور انکے نام لیتی رہیں اور انکیلئے بہت زیادہ دعائیں کیں مگر اپنی ذات کیلئے کوئی دعا نہیں مانگی اور کسی چیز کو طلب نہیں کیا تو میں نے مادر گرامی سے پوچھا ؛ آپ اپنے لئے کیوں دعا نہیں کرتی؟؟ تو جواب میں فرمائیبیٹا پہلے پڑوسی پھر گھر"

اس ایک عمل کے ذریعَے بی بی پاک عليها‌السلام  نے  کئی عملی تربیت کے  نمونے واضح فرمائیسب سے پہلے بچوں کے سامنے اس طرح رات بھر عبادت کر کے عبادت الہی کہ اہمیت اور معبود کی معرفت و پہچان  کے لازمی ہونے کو  آشکار فرمائی . اسکے بعد اپنی دعاوں میں دوسروں کو یاد رکھنے کا عملی نمونی پیش کیا  ، اور امام حسن ؑ کے سوال کرنے پر " الجار ثم الدارکہہ کر پڑوسیوں کے حقوق اور ایثار وقربانی کا درس دیا ساتھ ہی خود غرضی اور خود پسندی جیسی اخلاق رزیلہ سے بچنے کے عملی تصویر پیش کیں.

اسی طرح ایک اور روایت میں ملتا ہے  کہ حضرت فاطمہ   عليها‌السلام اپنے بیٹوں سے استفسار کیا کرتیں تھیں کہ آج نانا  کی مبارک زبان سے کونسی حدیث بیان ہوئی اور آج کونسی آیت نازل ہوئی ،آج مسجد میں کونسے  کارنامے بجا لائےیہی وجہ ہے کہ جب ابو الحسن امام علی ؑ تشریف لاتے تو خاتون جنت فرماتی یاعلیآج مسجد میں یہ آیت نازل ہوئی اور فلاں حدیث بیان ہوئی . امیر کائنات استفسار کرتے ؛ اے دختر رسولآپ کو کیسے معلوم ہو جاتی ہے؟؟؟ تو فرماتی ؛ آپ کے بڑے شہزادے حسن مجتبیٰ ؑ مجھے آگاہ کرتے ہیں.

اس سے ہمیں یہ نمونہ عمل ملتا ہے کہ اپنی اولاد کو محافل و مجالس سے واپس آنے کے بعد بجائے یہ پوچھنے کے کہ آج نیاز میں کیا تھا؟آپ کو کالے کپڑے اچھے لگے نا؟؟ یا اس طرح کے لا یعنی چیزوں کے بارے پرس وجو کرنے کے ان سے ان مجالس و محافل میں بیان ہونے والے واقعات کے بارے سوال کریں کہ آج کونسا واقعہ بیان ہوا یا آج کس امام کی شہادت تھی؟ امام ؑ نے اتنی بڑی قربانی کیوں دی تھی؟ آپ امام ؑ کیلے کیا کرنا چاہتے ہیں؟؟ اگر ہم اس طرح عملی تربیت کرینگے تو ہماری اولادیں ہیرے بن کر ابھرےگیں .

روایات میں منقول ہے کہ جناب زہراء  عليها‌السلام اپنے بچوں کو اقوال و افعال کے ذریعے سے اخلاص وایثار، سخا وت و شجاعت، عبادت و ریاضت ، آداب و اخلاق اور امانتداری و فروتنی کا درس دیا کرتی تھیں ایک نمونہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں.

آپ اپنے بیٹے امام حسن ؑ کو فرمایا کرتی تھیں.

اشبه اباک یا حسن،         وا خلع  عن الحق الرسن                 و اعبد له ذا المین                         ولا توال ذالاحن"

"اے حسن !اپنے والد کی طرح بنواور حق کی گردن سے رسی اتر کر پھینکواور نعمت  عطا کرنے والے خدا کی عبادت  کر اور کینہ پرستوں کو دوست مت رکھ " (23)

اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ خاتون جنت عليها‌السلام  کس طرح اپنے بچوں کی شخصیت سازی پر کس طرح توجہ دیتی تھیں اور کس قدر محبت وشفقت سے انکی پرورش کرتی تھیں یہی وجہ ہے کہ بوستان زہراء میں کھلنے والے پھولوں نے پورے عالم اسلام کو اپنی خوشبو سے معطر کیا اور اسلام و انسانیت کے محسن قرار پائے.

نتیجہ بحث

:  اس بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ  انسان فطرتا ایک معاشرتی مخلوق ہے اور سماج میں اپنی معمولات زندگی میں ایکدوسرے کے محتاج ہیں.لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان  کی شخصیت کی تربیت ہو تاکہ وہ سماج میں ایک مفید فرد بن کر ابھرے .دوسری طرف اس بنیادی اور اہم کام کی اولین ذمہ داری سماجی ادارہ خاندان کی ہے جس  میں رہن سہن اور کردار و رفتار کو عائلی نظام زندگی سے تعبیر کی جاتی ہےآج اگر سماج میں جرائم  نسبتا زیادہ ہیں اورجنسی بے راہ روی، قتل وغارت گری، چوری ، بے احترامی، حیوانیت اور سنگدلی میں معاشرہ جھگڑا ہو ا ہے اور گھریلو نا چاقیاں ، رشتہ داروں میں لڑائی جھگڑے، والدین سے بد سلوکی، خواتین سے ناروا سلوک اور طلاق  جیسے مسائل معاشروں میں رونما ہو رہے ہیں تو یہ سب عائلی نظام زندگی کے اصولوں سے عدم آگاہی یا ان اصو لوں سے چشم پوشی اختیار کرنے کی وجہ سے ہےلہذا ان مسائل کے حل کیلے ہمیں عائلی نظام زندگی کے اصولوں سے آگاہی کیساتھ ساتھ ایک آئیڈل بھی چاہیے تاکہ ہمیں عملی طور پر ان اصولوں کا اطلاق سمجھ میں آ جائےلہذا دیگر تمام امور کی طرح دین مقدس اسلام نے عائلی نظام زندگی  کیلے بھی نمونی عمل  خاندان عصمت و طہارت کے گھرانوں کو قرار دیااسی وجہ سے ہم نے اس مقالہ میں عالمین کے خواتین کیلے نمونہ عمل ہستی خاتون جنت  عليها‌السلام کی سیرت کی روشنی میں عائلی نظام زندگی کے کچھ منتخب اصولوں کو بیان کرنے کی ادنی سی کوشش کی،جسکے بعد ہم اس ببانگ دہل کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی اگر  ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عائلی نظام زندگی خوشگوار ومفید گزرے اور ہماری نسل نفع بخش ہو  تو ہمیں خاص کر خواتین کو سیرت سیدہ کونین  عليها‌السلام کو جاننے اور اسکو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہےاس تحریر کے بعد ہم نے جان لیا کہ سیدہ کونین  عليها‌السلام شوہر داری میں اس درجہ پر فائز تھیں کہ امیر کائنات ؑنے فرمایا کہ فاطمہ  عليها‌السلام کو دیکھ کر میرے غم واحزان ختم ہو جاتے تھے یا فرمایا فاطمہ عليها‌السلام  اطاعت الہی میں میرے لئے بہترین مددگار تھیں.اسی طرح گھریلو امور کو بجا لانے میں بھی سیدہ  عليها‌السلام پیش پیش تھیں یہاں تک کہ آپ کی مبارک ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے تھے لیکن ان امور کیساتھ ساتھ عبادت الہی کو بھی خاص اہمیت دیتی تھیںتربیت اولاد کے تناظرمیں دیکھیں تو آپ کے بوستان سے ایسے ایسے پھول و کلیاں کھلے جنکی خوشبو سے آج بھی کائنات معطر ہے آپ نے قول سے زیادہ عملی تربیت کا اقدام کیا  تو نایاب گوہر ابھر کر عالم انسانیت کے سامنے ضوفشاں ہوئےتو دوسری طرف امیر کائنات ؑبھی گھریلو امور میں بی بی  عليها‌السلام کی معاونت کرتے تھے اور آپ ایسا امر نہیں بجا لاتے تھے جس سے فاطمہ  عليها‌السلام کو دکھ پہنچتی ہو یا انکو ناگوار گزرتی ہو الہذا اگر ایک میاں بیوی کامیاب اور خوشگوار عائلی نظام زندگی استور کرنا چاہتے ہیں تو امیر کائنات اور سیدہ کونین کے گھرانے سے اپنے لئے نمونہ عمل لیں  کیونکہ علیؑ و فاطمہ عليها‌السلام  کا گھر  واقعا محبت وصمیمت کا باصفا محور تھا اور اور عائلی نظام زندگی کے اصولوں کی مجسم صورت تھی.

حوالہ جات

1. علم عمرانیات (نصابی کتاب، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، یونٹ ۔۱۴، ص ۵۴۷  

.2ایضا، ص ۵۵۰       

.3 المہاجر، عبد الحمید، اعلموا انی فاطمہ، ج ۶، ص، ۱۲۴، (کتاب ھذا سے مفہوم کو اخذ کیا ہے)

4.النساء ،آیت ۳۴

۵.نجفی،شیخ محسن علی، البلاغ القرآن، ص ۱۱۵

۶.  طہ ، آیت ۱۳۲

۷.التحریم، آیت  ،۶

۸.المجلسی،محمد باقر، بحار الانوار، ج -۴۳، ص ۳۹ ، بابمناقبھا و بعض احوالھا،  الطبعہ الثانیہ، ۱۹۸۳ء، موسسۃ الوفاء ،بیروت لبنان

9 .ایضا، ص ۱۹ ،صحیح بخاری، ج ،3، کتاب الفضائل باب مناقب فاطمہ، ص 1374

 10 .    ایضا، ص ۴۳

11.من لا یحضرہ الفقیہ، ج-۳، ص ۲۷۷

۱۲.ایضا، ص،۳۷۹

۱۳ .المجلسی،محمد باقر، بحار الانوار، ج -۴۳، ص ۱۴۳،  الطبعہ الثانیہ، ۱۹۸۳ء، موسسۃ الوفاء ،بیروت لبنان

۱۴.الانصاری الزنجانی،اسماعیل،  الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہرا   س، ج ۱۷،ص ۱۲۵،الطبعۃ الثانیہ ۱۴۲۹ھ، قم ایران،   بحار الانوار،ج۴۳، ص ۳۱۔

۱۵.ایضا، ص۱۲۹

۱۶.ایضا، ص۱۱۶، بحار الانوار، ج ۴۳، ص۸۲

۱۷المہاجر، عبد الحمید، اعلموا انی فاطمۃ،  ج ۔۳ ،ص ، ۴۵، الطبعہ الاولی، دار الکتاب، بیروت ۔لبنان

۱۸.بحار الانوار، ج ۱۰۱، ص ۱۳۲،

۱۹المہاجر، عبد الحمید، اعلموا انی فاطمۃ،  ج ۔۳ ،ص ، ۵۹۸،  الطبعہ الاولی، دار الکتاب، بیروت ۔لبنان

۲۰اصول کافی، ج۔۱ ص ۵۲۸۔باب، ۱۱4     مولد الزہراء س

۲۱.تصحيح اعتقادات الإمامية - الشيخ المفيد  ص 60، 62

۲۲.بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۸۲

 

۲۳.ایضا