انسان سے انسانیت تک کا سفر

تحریر: ایس ایم شاہ

انسان جہالت، نادانی، ظلم و بربریت، ناانصافی، کدورت و دشمنی، قوم پرستی، بت پرستی، بے عفتی اور شراب خوری جیسی دسیوں برائیوں کے تاریک بادلوں کی اوٹ میں زندگی گزار رہا تھا۔ خاندانی اور قومی دشمنی کا سلسلہ صدیوں پر حاوی رہتا تھا۔ فخر و مباہات ان کا شیوہ بن چکا تھا۔ قتل و غارت گری ان کا پیشہ بنا ہوا تھا، گوشت و پوست کے رنگ کو معیار قرار دے کر سیاہ پوستوں کو انسان کے دائرے سے باہر سمجھنا ایک عام سی بات تھی۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا غیرت کی علامت بن چکا تھا۔ کسی خاص قبیلے میں پیدا ہونا اس کی نیک بختی یا بدبختی کا پیمانہ قرار پاتا تھا۔ ذات پات کی لعنت میں سب ڈوبے ہوئے تھے۔ دوسروں کے حق پر ڈاکہ مارنا تو روز کا معمول تھا۔ بتوں کی پوجا کرنے کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔ اپنے ہاتھوں سے بت تراشتے, اسی کی عبادت کرتے اور بسا اوقات کھانے والی چیزوں کو بت قرار دیتے اس کی پرستش میں مگن رہتے اور  قحط سالی کے ایام میں تو اسے بھی کھا لیتے تھے۔ ہر قبیلے کا اپنا الگ بت ہوتا تھا۔ مختلف ناموں سے موسوم تھا۔ مایوسی اور ناامیدی سب کے دلوں پر سایہ فگن تھی۔ ہر ایک دوسرے کو سرکوب کرنے کے درپے رہتا تھا۔ محبت و الفت تو خواب بن کر رہ گئی تھی۔ اخوت و بھائی چارہ ڈھونڈے سے نہیں ملتا تھا۔ تعقّل  و تدبّر ﹸکا فقدان تھا۔ مادّہ پرستی اور شہوت پرستی ان کا پیشہ بن چکا تھا۔

اچانک گھٹاٹوپ بادل جو ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا چھٹ گیا۔ امید کی کرن نے بادلوں کے کنارے سے اپنا جلوہ دکھایا۔ آہستہ آہستہ ظلمت نورانیت میں بدلنے لگی۔ یہ حالت دیکھ کر سب پر سراسیمگی سی طاری ہونے لگی۔ مختلف قسم کے خیالات ان کے ذہنوں میں گردش کرنے لگے۔ حیرانی نے سب کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ دلوں میں روشنی سی محسوس ہونے لگی۔ کبر و نخوت کا جنازہ نکلتے دکھنے لگا۔ جیسے ایک عاشق اپنے معشوق کا انتظار کر رہا ہوتا ہے، ویسے ہی لوگ کسی منجی کے انتظار میں بے چین دکھائی دینے لگے۔ جہالت کی شب دیجور کی گھڑیوں نے علم و فضیلت کی روشنی میں اپنی تاریکی کو ماند پڑتے دیکھا۔ اتنے میں آسمان رسالت کے مشرق سے رسالت الٰہی کے آخری علمبردار، منجی عالم بشریت، خلق عظیم کے مالک، تواضع و انکساری کا مجموعہ تام، صادق و امین کا مصداق کامل، سرزمین سخاوت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، امید بشریت، اسوة تام، کفّار و مشرکین کے آنکھوں کا خار، امن و آشتی کا بانی اعظم، محبت و الفت کا عظیم پیکر، مالک کون و مکان کے سفیر خاتم، نور مجسّم، رحمة للعالمین و سید المرسلین، مینارة ہدایت، صاحب لولاک حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ظلمتوں کے بادلوں کو چیرتے ہوئے جناب عبداللہ کے دولت سرا میں جناب آمنہ کی گود میں رونق افروز ہوگئے۔

آپ نے اپنے کردار و گفتار کے ذریعے اعلان نبوت سے قبل ہی صادق و امین کا لقب پایا اور معاشرے کے تمام طبقات کے ہاں آپ معتمد قرار پائے۔ آپؐ نے مختصر وقت میں اسلام کی ایسی تبلیغ کی، جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپ نے دور جاہلیت کے تمام غلط معیاروں پر پانی پھیر کر الٰہی قانون کو معیار قرار دیا۔ ذات پات کے سارے بت زمین بوس ہوگئے۔ خواتین کو عزت ملنے لگی۔ عزت و بزرگی کا معیار تقویٰ قرار پایا۔ معاشرے میں عدل و انصاف کا سورج طلوع ہونے لگا۔ عرب و عجم کے اختلافات بھائی چارے میں بدل گئے۔ ایثار کا جذبہ ابھرنے لگا۔ اب ان انسانوں میں انسانیت کی بو آنے لگی۔ بے حس و بے جان بتوں کے پوجاری کو چھوڑ کر سب ایک خدا کے سامنے سر بہ سجود ہونے لگے۔ علامہ اقبالؒ کے بقول:

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

ایمان کی روشنی سے لوگوں کے دل منور ہونے لگے۔ کفر و نفاق سے زنگ آلود دلوں پر ایمان نے ضوفشانی کرکے ان میں پاکیزگی لائی۔ اللہ اکبر کی صدائیں کائنات کی فضاؤں میں گھونجنے لگیں۔ دیوان اقتدار پر قابض حکمرانوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور وہ افراد سہمے سہمے رہنے لگے۔ خدائی پیغام کے علمبردار نے کلمہ توحید کے اعلان کے ساتھ ہی قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا۔ کفار و مشرکین کی بولی بند ہوگئی۔ 23 سال کی مختصر مدت میں خدا کے اس جامع ترین دین کو دنیا کے کونے کونے تک پہنا دیا۔ لوگ گروہ در گروہ قلعہ اسلام میں پناہ لینے لگے۔

رحمت عالم کے دنیا سے سرڈھانپتے ہی آسمان ہدایت کی فضا میں ضلالت و گمراہیوں کے گھٹاٹوب بادل پھر سے منڈلانے لگے۔ امیر المؤمنینؑ نے شجاعت حیدری سے ان کا مقابلہ کیا اور سراج ہدایت پر آنچ آنے نہیں دی۔ آپ آسمان ہدایت کے شمع فروزاں بن کر رحمت عالم کی نمائندگی کو بطریق احسن نبھاتے رہے۔ لوگ باب علم کی علمی تجلیوں کی تاب لا نہ سکے۔ آخر کار رمضان المبارک کی انیسویں کو ابن ملجم کی ضربت سے باب علم میں شگاف پیدا ہوا اور آخرکار "فزت و رب الکعبہ" کا نعرہ بلند کرتے ہوئے دنیا کو خیرباد کہ گئے۔ منافقین اور دشمنان اسلام خوشیوں سے جھوم رہے تھے کہ اب ہم اپنے اسلاف کی بدعتوں کا پھر سے احیا کرسکیں گے۔ اتنے میں جنت کے جوانوں کے سردار، آسمان امامت کے دوسرے چاند نے سرزمین مدینہ میں طلوع فرما کر اپنی نورانیت سے دشمنوں کے دلوں کی ظلمتوں کو ماند کر دیا اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیئے۔ آپ نے مجبوری کی بنا پر معاویہ کے ساتھ صلح کے ذریعے بادشاہت کو اس کے ورثاء میں منتقل نہ کرنے کی قید و شرط لگا کر معاویہ کی چالوں پر پانی پھیر دیا۔ اس طرح آپ نے  دشمنوں کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا اور وہ اپنے ہی تئیں شکست پر کف افسوس ملتا رہ گیا، کیونکہ امام حسن مجتبٰیؑ کو معلوم تھا کہ اسلام کی بابرکت سرزمین یزید جیسے پست افراد جیسوں کے سیلابی ریلے کو متحمل نہیں کرسکتی۔

امام حسن مجتبٰی ؑ کی صلح کے بعد سے آپ کی شہادت تک اور آپ کی شہادت سے لے کر معاویہ کی ہلاکت تک جو دس سال کا فاصلہ ہے، اس میں امام حسینؑ نے اپنے  بھائی کے احترام اور ان کی پالیسی کی عظمت کے باعث سکوت اختیار کیا۔ اگرچہ بعض اہم موارد میں آپؑ معاویہ کو تنبیہ بھی  کرتے رہے۔ معاویہ نے اپنے آخری وقت میں یزید کی خلافت کا اعلان کیا۔ اس کی ہلاکت کے ساتھ ہی  جب یزید نے امام عالی مقام سے بیعت کا تقاضا کیا، تب آپ ؑنے محسوس کیا کہ اب تو یزید جیسا فاسق و فاجر اپنی بدکاریوں کے سیلاب میں اسلام کے اقدار کو بہا کر لے جائے گا۔ اب یہاں میرا خاموش رہنا کسی صورت اسلام کی مصلحت میں نہیں ہے۔ یزید جیسا بدکار، زنا کار، شراب خوار، نفس محترمہ کا قاتل، ہمیشہ لہو و لعب میں مشغول رہنے والا کیسے اسلام کی باگ ڈور سنبھال  سکتا ہے۔ اب تو اسلام کا خدا ہی حافظ ہے۔ ان حقائق کا بیان آپ ؑ نے اپنے ان گوہر بار کلمات میں کیا ہے: فَقَالَ الْحُسَيْنُ وَ عَلَى الْإِسْلَامِ السَّلَامُ إِذْ قَدْ بُلِيَتِ الْأُمَّةُ بِرَاعٍ‏ مِثْلِ‏ يَزِيدَ وَ لَقَدْ سَمِعْتُ جَدِّي يَقُولُ الْخِلَافَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلَى آلِ ابی سُفْيَانَ.1 امام حسینؑ نے فرمایا: جب اسلام کا سربراہ یزید جیسا شخص بن جائے تو اسلام کا خدا ہی حافظ ہے۔ بے شک میں نے اپنے جد امجدؐ کو فرماتے سنا ہے کہ خلافت ابوسفیان کی آل پر حرام ہے۔  «إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ‏ و على الاسلام السّلام اذ قد بليت الامّة براع‏ مثل‏ يزيد ....»2 جب اسلام کا سربراہ یزید جیسا شخص بن جائے تو اسلام کا ہی فاتحہ پڑھ لینا چاہیئے۔

پھر آپؑ نے کلمہ استرجاع جاری کیا۔ آپ نے یزید کی کمزوریوں کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:  و قد قام يزيد- شارب‏ الخمر و رأس الفجور- يدّعي الخلافة على المسلمين، و يتأمّر عليهم، مع قصر حلم، و قلّة علم، لا يعرف من الحقّ موطئ قدمه، فاقسم باللّه قسما مبرورا انّ الجهاد في الدين أفضل من جهاد المشركين. 1  اب تو یزید جو شرابی اور فسق و فجور کا محور ہے، وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا خلیفہ ہونے کا ادعا کرتا ہے اور ان پر حکم لگاتا ہے، درحالیکہ نہ اس میں حلم ہے نہ علم اور نہ ہی وہ ذرہ برابر دین کا علم رکھتا ہے۔ پس میں سچی قسم کھاتا ہوں، اس رب ذوالجلال کی کہ دین میں جہاد کرنا مشرکین سے جہاد کرنے سے افضل و بہتر ہے۔ جب آپؑ سے بیعت کا تقاضا کیا گیا، تب آپ نے فرمایا: «ايّها الامير انّا اهل بيت النّبوة و معدن الرّسالة و مختلف الملائكة ... و مثلى‏ لا يبايع‏ مثله ....» 4 اے امیر! بے شک نبوت کے گھرانے سے ہمارا تعلق ہے۔ رسالت کا معدن ہم ہیں۔ ہمارے ہاں ملائکہ کا آنا جانا رہتا ہے ۔۔۔۔﴿لہذا اتنی باعظمت ذات﴾ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔

ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے ہوئے آپؑ نے فرمایا: 10 الإمام الحسين «ع»- في تعيير الحياة تحت نير الظّلم و الاستسلام، و تشجيع النّفوس على بذل الدّم لخلاص الجماهير: ... ألا ترون‏ أنّ‏ الحقّ‏ لا يعمل به، و أنّ الباطل لا ينتهى عنه، ليرغب المؤمن في لقاء اللَّه محقّا، فإنّي لا أرى الموت إلّا سعادة، و لا الحياة مع الظّالمين إلّا برما ... 5 امام حسینؑ نے ظالم کی سرپرستی میں زندگی کرنے اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اور لوگوں کو ان کے شکنجے سے آزادی کی راہ میں  فداکاری اور جرات کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: کیا تم لوگ دیکھتے نہیں ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے روکا بھی نہیں جا رہا۔ مومن کو چاہیے کہ حق کی حمایت کرے اور خدا سے لو لگائے۔ بے شک میں موت کو سعادت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا اور ظالموں کے ساتھ زندگی کرنے کو ننگ و عار ہی سمجھتا ہوں۔

امام حسینؑ نے مذکورہ تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑنے، ظلم و بربریت، جبر و استحصال اور مستکبرین کی سرکوبی اور اقدار اسلامی کی پامالی کے خلاف اور مستضعفین جہان کی حمایت میں کربلا کی تپتی صحرا میں قربانیوں کی ایسی تاریخ رقم کر دی، جس کی مثال قیامت تک پیش نہیں کی جاسکتی۔ آپ نے حق و باطل کے درمیان ایسی مضبوط دیوار قائم کر دی، جس کے بعد کسی میں بھی ان دونوں کو آپس میں ملانے کی جرأت نہ ہوسکی۔ آج اگر دنیا  کے کونے کونے میں مینارہ اذان سے اذان ہو رہی ہے تو یہ ابا عبداللہ الحسینؑؐ کی قربانی کی مرہون منت ہے۔ آج اگر معاشرے میں اقدار اسلامی کا احترام ہے تو یہ امام عالی مقام کے قیام کا نتیجہ ہے۔ آج اگر کائنات کے گوشے گوشے میں ظالموں کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہو رہا ہے تو یہ بھی آپ ہی کی بلندئ فکر کا نتیجہ ہے۔ لہذا امام حسینؑ ایک خاص مذہب کے پیروکاروں تک محدود نہیں بلکہ آپ پوری انسانیت کی آواز ہیں۔ اسی لئے تو جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے:

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ

علما، دانشور اور دینی درد رکھنے والے افراد کیلئے کربلا کا پیغام:

1۔ امام حسینؑ کے قیام کو دیکھ کر ان سے نمونہ لیتے ہوئے اپنے وقت کے لوگوں کو ظالموں کے چنگل سے نکالنے کے لئے کوشش کریں اور انہیں عاشورا کی صحیح معرفت کی دعوت دے کر معاشرتی برائیوں کی اصلاح کریں۔

2۔ امر بہ معروف و نہی از منکر کے فریضے کو بخوبی انجام دیں۔

3۔ لوگوں کے لئے اتمام حجت کریں، تاکہ وہ اندھی تقلید کے نتیجے میں دشمن کے پنجے میں نہ پھنس جائیں۔

4۔ حق کی تقویت اور باطل کی سرکوبی کے لئے لوگوں سے مدد لیں۔

5۔ ظالموں اور ستمگروں کے مظالم پر جو پردہ پڑا ہوا ہے، اسے چاک کریں۔

6۔ اپنے پورے وجود کے ساتھ الٰہی نظام کی حفاظت کریں۔

7۔ اپنے اندر شجاعت و بہادری کا ملکہ پیدا کریں اور بزدلی اور ناتوانی سے دوری اختیار کریں۔

8۔ معاشرے کی اصلاح کے لئے اقدامات انجام دیں۔

9۔ اپنی آخری سانسوں تک راہ حق میں جام شہادت نوش کرنے کے جذبے کا مظاہرہ کریں۔

10۔ جب بھی حق کے لئے کوئی خطرہ لاحق ہو، تب ہمیں قیام کرنا چاہیئے، اگرچہ مددگاروں کی کمی ہی درپیش کیوں نہ ہو۔ 6

حوالہ جات:

1: مثير الأحزان / 25 / إعلان خطر محو الإسلام بخلافه يزيد ..... ص: 25

2: در سوگ امير آزادى (ترجمه مثير الأحزان) /26/ 2- نفى استبداد و زورمدارى ..... ص: 25

3: تسلية المجالس و زينة المجالس (مقتل الحسين عليه السلام) / ج‏2/ 174 / كتاب الحسين عليه السلام إلى أشراف البصرة ..... ص: 173

4: در سوگ امير آزادى (ترجمه مثير الأحزان) / 25 /2- نفى استبداد و زورمدارى ..... ص: 25

5: الحياة/ترجمه احمد آرام/ ج‏5 / 259 /حديث ..... ص: 254

6: علل و عوامل قیام امام حسینؑ، زہرا عبداللٰہی، ص۳