تعصب

بسم الله الرحمن الرحیم

تعصب

تحریر:مھدی مطهری

ترجمه:تصدق حسین هاشمی

تعصب اور عصبیت؛ماده عصب سے لیا گیا هےکه جو رگ اور ان جوڑوں کو کها جاتا هے جن کے‌ذریعه سے هڈیاں ایک دوسرے‌سے متصل هوتے‌هیں.پھر هر قسم کے‌رابطے اور وابستگی کو تعصب کها جانے‌لگا.لیکن عام طور پر یه لفظ حد سےگزرنے‌کے‌معنی میں استعمال هوتا هے جو ایک مذموم معنی هے.
تعصب اور تحجر کے معنی رکود یعنی تبدیلی کا قبول نه کرنااور جمود یعنی تهذیب و ثقافت سمیت اچھی اور اعلی اقدار کو مسترد کرنا هے‌.جس سے علوم و افکار کے‌مقابلے‌میں تحجر اور اعمال و کردار کے‌مقابله میں‌جمود کا مظاهره هوتا هے.نیز یه عقل و دل کے‌ساتھ‌معرفت و شناخت کے‌ذرائع کو بھی اپنی لپیٹ میں‌لے لیتا هے.عصبیت کے لغوی معنی بیان کرتے‌هوئے‌ابن منظور کهتے‌هیں:عصبه سے‌مراد ددھیال یعنی وه قرابت دار اور رشته دار جو باپ کی طرف سے‌هیں اور وه اپنے قوم و قبیلے کے‌دفاع اور جانبداری کے‌درپے‌هوتے‌هیں.

قرآن اور روایات کی روشنی میں‌تعصب:

قرآن کریم کی آیات کے مطالعه سے بعض عیسائيوں‌اور یهودیوں‌کے‌بے بنیاد دعوؤں‌کا علم هوتا هے جن کا نتیجه اجاره داری کی صورت میں‌سامنے‌آتا هے.یهودی کهتے‌هیں:خدا کے‌نزدیک مسیحیوں‌کی کوئی وقعت نهیں‌هے‌اور مسیحی کهتے‌هیں‌که یهودیوں‌کی کوئي وقعت نهیں هے اور وه باطل پر هیں.جمله لیست ......علی شی‌ءٍ اس بات کی طرف اشاره هے‌که ان لوگوں‌کا خدا کے‌هاں‌کوئي مقام نهیں‌هے.یا یه که ان کا دین اور آئين دیکھنے‌کے‌قابل هی نهیں‌هے.

قرآن مزید فرماتا هے:یه لوگ آسمانی کتاب پڑھنے کے‌باوجود ایسی باتیں‌کرتے‌هیں‌.یعنی یه کتاب جو ان کے‌هاتھوں میں هےجو ان مسائل کو حل کر سکتی هے اس کے‌باوجوداس قسم کی باتیں‌کرنا فقط تعصب و عناد اور هٹ دھرمی کے‌علاوه کچھ نهیں‌هے‌جو انتهائي تعجب آمیز هے.

یه آیت جهل و نادانی کو تعصب کا سرچشمه قرار دیتی هے.کیونکه نادان اور جاهل لوگ اپنی زندگی کے‌گرد محصور هوتے‌هیں اور اپنے علاوه کسی کونهیں مانتے جس آئين سے بچپن میں‌وه آشنا هوتے‌هیں اسی کو مضبوطی سے تھامے رکھتے هیں اگرچه وه آئين بے‌بنیاد اور خرافاتی هی کیوں نه هو اور اسی آئين کے‌علاوه کسی اور کو وه قبول هی نهیں‌کرتے.

البته لفظ جمود کی تحقیق میں ایک اور آیت سامنے آتی هے جو کهه رهی هے!اس کے‌بعد تم لوگوں کے‌دل پتھر کی مانند سخت هوگئے بلکه اس سے‌بھی زیاده سخت هوگئے کیونکه بعض اوقات پتھر سے‌دریا بهتے هیں اور جب پھر کو چرا جائے تو اس میں سے پانی نکلتا هے.

اس بات سے‌در حقیقت وه لوگ مراد هوتے‌هیں جن کا پورا وجود سخت اور سیاه هوچکا هوتا هے اور افکار ؛اشراق(مشاهده ذات؛روح کی تنویر)؛شناخت و معرفت اور کشف و شهود کا ان پر کوئی اثر نهیں هوتا.یه لوگ غور و فکر کرنے‌والوں‌اور صاحبان کشف و شهود اور ارباب ذوق کے‌دائره سے‌خارج هیں اور هرگز هدایت پانے‌والے نهیں هیں.

اسلامی روایات میں‌ بھی ایک برے خلق کے‌عنوان سے‌تعصب کی شدید مذمت کی گئی هے.یهاں‌تک که پیغمبر اکرم کی ایک حدیث هے :آپ هر روز چھ چیزوں‌سے‌خدا کی پناه لیتے‌تھے؛شک و شرک؛تعصب وغصه اور ظلم و حسد سے.

جب پیغمبر اکرم مشرکین کو یکتا پرستی کی دعوت دے رهے تھےتو وه لوگ اپنی ثقافتی محدودیت ؛تنگ نظری اور قومی تعصب کی بنا پر جواب دیتے تھےکه!همارے عقاید اور همارا رهن سهن وهی هوگا جو همارے باپ دادا کا هے اور اس میں کوئي تبدیلی نهیں آئے‌گی.اس بنا پر پیغمبر اکرم کی نصیحتیں اور مشورے فقط ایک فریاد اور پکار کی حد تک سنتے تھے.ادا کا هے اور اس میں کوئي تبدیلی نهیں آئے‌گی.اس بنا پر پیغمبر اکرم کی نبالکل اسی طرح که جب بھیڑ بکریوں‌کا گله گھاس چر رها هو اور ایسے‌میں چرواها ان کو آواز دے‌تو وه سنتے‌تو هیں لیکن توجه نهیں دیتے اور اپنے کام میں مگن رهتے هیں.اسی طرح روایات میں‌یه بھی ملتا هےکه سب سے پهلے ابلیس نے تعصب کو رائج کیا.حضرت امیر المؤمنین نے بھی تعصب کے‌حوالے سے خطبه قاصعه میں ایک رسا اور کاری بیان ارشاد فرمایا هے:ابلیس نے آدم سے‌اپنی خلقت کی بنیاد پر تعصب کیا اور آدم کو طعنه دیتے هوئے کها که میں‌ناری هوں اور تو خاکی.

پسندیده اور ناپسندیده تعصب:

قرآنی آیات و روایات میں‌تعصب کو حمیت یا حمیت جاهلیت سے‌تعبیر کیا گیا هے.حمیت ماده حمی سے‌هے جس کے‌معنی حرارت کے هیں.پھر یه غصه اور غرور و تکبر نیز غصے میں‌کئے جانے‌والے تعصب کے لئے استعمال هونے لگا.کبھی یه لفظ اسی مذموم معنی(تعصب جاهلی کی قید کیساتھ یا اس کے بغیر)میں استعمال هوتا هے اور کبھی پسندیده اور ممدوح معنی میں استعمال هوتا هے جو معقول غیرت اور مثبت و تعمیری امور میں‌کئے جانے‌والے تعصب کی طرف اشاره هے.امام علی فرماتے هیں که:اگر تمھیں تعصب هی کرنا هے تو اخلاق حسنه؛اچھے کردار اور اعمال کی بنا پر کرو.اس حدیث سے‌یه بات واضح هوجاتی هے‌که کسی پسندیده حقیقت کی حمایت میں ڈٹ جانا نه صرف یه که مذموم تعصب نهیں هے بلکه جاهلی تعلقات کی وجه سے‌انسان کی روح میں پیدا هونے والی خلا کو پر کیا جاسکتا هے.

امام محمد باقر کی ایک حدیث هے که جب آپ سے تعصب کے بارے میں پوچھا گیاتو آپ نے فرمایا که :اپنی قوم کے برے لوگوں کو دوسری اقوام کے اچھے‌اور نیک لوگوں سے بهتر سمجھنا ایک ایسا تعصب هے‌جو انسان کو گناه گار بنا دیتا هے.لیکن اگر کوئي اپنی قوم سے محبت کرے تو یه تعصب نهیں هے.تعصب یه هے که انسان ظلم و ستم میں اپنی قوم کی مدد کرے.

امیر المومنین علی اپنے‌بعض نافرمان اور سست اصحاب پر تنقید کرتے‌هوئے فرماتے‌هیں که:میں ایسےلوگوں میں گھر گیا هوں که جنھیں اگر حکم دوں تو اطاعت نهیں کرتے هیں اور دعوت دوں تو قبول نهیں کرتے .کیاتمهارا کوئی دین نهیں هے جو تمهیں متحد کردے تم میں‌کوئي غیرت نهیں هے جو تمهیں جوش میں لائے اور فرائض کی انجام دهی پر ابھارے؟؟

تعصب زیاده تر مذموم معنی میں استعمال هوا هے.جیسا که امیر المومنین علی نے خطبه قاصعه میں کئی بار یهی معنی مراد لیا هے.لوگوں کو زمانه جاهلیت کے‌تعصبات سے‌روکتے‌هوئے‌فرماتے‌هیں:تمهارے‌دلوں‌میں عصبیت اور جاهلیت کے‌کینوں‌کی بھڑکتی آگ کو بجھادو که یه (نخوت و تکبر اور ناروا تعصب)ایک مسلمان کے‌اندر شیطانی وسوسوں،نخوتوں‌اور فتنه انگیزیوں کا نتیجه هے.

غیرت ایک فطری مسئله:

چونکه اسلام دین فطرت هے‌اور غیرت کی جڑ انسانی فطرت میں هے لهذا دین مبین اسلام نے غیرت اور تعصب کو باطل قرار نهیں دیا بلکه اس کے اصل کی حفاظت کی هے. البته تعصب کی جزئیات میں اسلام نے‌مداخلت کرتے هوئے حکم دیا هے که غیرت اور تعصب میں سے صرف وهی مقدار صحیح هے جو فطرت کے مطابق هو .مثلا کوئی اپنی زندگی میں یه محسوس کرے که دوسرے لوگ اس پر زیادتی کر رهے هیں یا اس کے حریم کا تقدس پامال فطرت کے مطابق هو .لیکن کرنے کے درپے هیں یا اس کی آبرو ریزی کرنے پر تلے‌هوئے هیں یا اس کے‌خاندان کی هتک حرمت کرنے کے‌درپے هیں تو ایسے مواقع پر دین اس کو دفاع کرنے پر ابھارتا هے‍.لیکن مختلف اقوام نے ان کی جو شاخیں بنائی هیں وه باطل هیں.

دوسرے لفظوں میں اپنا اور اپنے متعلقات کا دفاع کرنا ایک ایسا واجب حکم هے که جو فطرت نے اس پر واجب کیا هے.لیکن فطرت کے‌اس حکم کی اطاعت اور اپنی طاقت کے استعمال کی دو حالتیں هیں:۱.مناسب اور شائسته انداز.یعنی اپنے حق کے دفاع کے لئے تعصب اور انسانی غیرت کا مظاهره کرنا.۲.یه که نامناسب اور مذموم انداز.یعنی وه عمل بذات خود باطل هو اور باطل کی حفاظت بھی کرنا چاهتا هو.اور یه بات سب پر عیان هے که دوسری حالت کو اپنانے کی صورت میں کس قدر فساد اور شقاوت کا سامنا کرنا پڑتا هے اور کس قدر نظام زندگی درھم برھم هوسکتا هے.

شدید نسلی اور قبائلی تعصب:

انسان جس علاقه،قبیله یا جس نسل سے تعلق رکھتا هے بلا شبه وه اسی سے محبت کرتا هے.انسان کی یه محبت نه صرف یه معیوب نهیں هے اجتماعی امور میں ایک تعمیری محرک بھی هے .لیکن اگر یه محبت حد سے زیاده هو توخرابیوں اور اندوه ناک سانحات کا باعث بنتی هے اور جسے افراط کها جاتا هےاور نسلی و قبائلی مذموم تعصب سے مراد بھی یهی هے.

تاریخ میں لڑی گئی بهت ساری جنگوں کی اصل وجه ذات یا قبیله اور وطن کا افراطی حد تک دفاع کرنا هے.اور یهی رویه دوسری اقوام میں خرافات اور برائیاں منتقل هونے کا اصل عامل بھی بنا هے.یه افراطی حد تک دفاع اور طرفداری انسان کو اس مقام پر لا کھڑا کرتا هے که اس کی نظر میں اپنے قبیله کے برے سے برے افراد اچھے اور دوسرے قبیلے کے بهترین افراد پر تر جیح دیتے‌هیں.اسی طرح آداب و رسوم بھی هیں(که اپنے رسوم کو اچھے اور دوسروں کے اچھے‌رسوم کو برے‌تصور کرتے هیں.)دوسرے لفظوں میں نسلی تعصب ایک ایسا پرده هے که جو خود پسندی اور جهالت کی وجه سے انسان کی عقل اور اس کے‌افکار پر پڑتا هے.اور درست فیصله کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا هے.تعصب کی یه حالت بعض قوموں‌میں حد سے‌زیاده پائی جاتی هیں.انهی میں سے اعراب کا ایک گروه هے که جو تعصب میں مشهور و معروف هیں.

خداوند عالم فرماتا هے:اگر قرآن کسی غیر عرب پر نازل هوتا تو یه(اعراب)هرگز ایمان نه لاتے.

تعصب کے‌عوامل:

۱.تکبر:تعصب کے وجوھات میں‌سے ایک وجه تکبر هے جس کا واضح نمونه شیطان کا آدم کو سجده نه کرنا هے.امام علی اسی بارے میں فرماتے هیں:ابلیس نے اپنی اصل کی بنیاد پر آدم سے تعصب کیا.

۲.مال و دولت:امام علی کے فرامین میں سے ایک فرمان هے که:......اسی طرح گزشته امتوں‌کے دولتمندوں نے اپنی نعمتوں کے آثار کی بنا پر تعصب کا مظاهره کیا.

۳.اندھی تقلید:تقلید کے مختلف اقسام هیں ان میں سے ایک مذموم هے اور وه جاهل کا جاهل کی تقلید کرنا هے.جس کا اصل عامل تعصب اور بے جا غیرت هے.اسی طرح طول تاریخ میں بهت ساری جنگوں‌کا سبب اپنی قوم و قبیله کے بزرگ شخصیتوں اور اپنے آباو اجداد کا افراطی حد تک دفاع اور جاهلانه پیروی بنے.

اور دوسرے اقوام کی طرف برائیوں اور خرافات منتقل کرنے کا اصل عامل بھی یهی هے.

تعصب کے آثار:

۱.بے ایمانی:امام جعفر صادق کی ایک حدیث هے که جس میں آپ فرماتے‌هیں که: اگر کوئی تعصب کرے یا اس کے‌لئے‌تعصب کیا جائے تو گویا اس نے‌اپنی گردن سے ایمان کی رسی اتار دی هے.

۲.حق سے منحرف هونا:ایک قوم سے دوسری قوم کی طرف غلط رسومات کے منتقل هونے‌کا اصل سبب یهی تعصب جاهلی هے.انبیاء و الهی رهبروں کے مقابله میں منحرف قوموں‌کے ڈٹ جانے کا سبب بھی یهی تعصب هے.حق قبول کرنے،کمال کی راهیں طے کرنے اور حقیقی سعادت کے حصول میں بھی یهی تحجر عقلی اور عملی موارد میں تحجر رکاوٹ بنتی هے.

۳.بد نظمی:تعصب،مثبت امور مثلاً دینی امور میں کار آمد غور فکر اور مثبت نظریات کو نافذکرنے میں بهت بڑی رکاوٹ هے.اس کے علاوه جو امور انجام ديے جائيں ان کو بھي حقیقت،معرفت اور حکمت جیسی صفات سے محروم کر دیتا هے اور حکومت میں انتظامی امور ،سیاست ،یهاں تک که اقتصادی امور میں‌بھی تعصب بهت بڑی رکاوٹ هے.

اسلام کے مقابله میں تعصب کرنے والوں کے پاس سوائے چند فرسوده اور رٹے‌هوئے علوم کے علاوه کچھ بھی نهیں هے جو زمان و مکان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے هیں نه هی موضوع و محمول کو تغیر کر سکتے هیں.ایسے‌افراد اپنے فکر و نظر اور اپنے افعال پر کسی قسم کی تنقید قبول نهیں کرتے اور اسلامی نقطه نظر کے مطابق اپنے افکار و افعال میں تجدید نظر کرنے کو بھي گوارا نهیں سمجھتے.

۴.پسماندگی اور جهالت:اس میں کوئي شک نهیں که اگر ایسی حالت کسی فرد یا کسی معاشره میں پائي جائے تو وه معاشره پسماندگی کا شکار هوجاتا هے.ایک بھاری پرده اس کے عقل اور فکر پر پڑتا هے جس کی وجه سے صحیح امور کے درک کرنے اور اچھائيوں کی تشخیص کی صلاحیت سے محروم رهتا هے اور کبھی اس کی ساری اچھائياں‌هوا میں‌اڑا دیا حاتا هے.جیسے ایک حدیث میں پیغمبر اکرم کا فرمان هے که:اگر کسی کے دل میں زره برابر بھی تعصب هو تو خداوند عالم اسے زمانه جاهلیت کے عرب بدؤوں کے امور کے درک کرنے اور اچھائيوں کی تشخیص کی صلاحیتساتھ محشور کرے گا.

۵.معاشره میں تفرقه ایجاد کرنے کا سبب بنتا هے:اگر کوئی معاشره ایسے افراد یا ایسے‌گروه پر مشتمل هو جو ایک دوسرے کو قبول نهیں کرتے اور متعصب هیں تو وه معاشره اتفاق و اتحاد کی نعمت سے‌محروم ره جاتا هے.یهی وجه هے که استعماریه کوشش کرتا هے که ملت اسلامی کے درمیان منفی تعصب کو عام کریں.یهاں تک که ملک کے اندر بھی مختلف گروهوں کے درمیان تعصب پیدا کرکے ملی وحدت کو ختم کرنے کی کوشش کرتا هے.

راه حل:

اس بری عادت سے مقابله اور اس مهلک مرض سے نجات حاصل کرنے کا بهترین طریقه یه هے که اقوام و معاشره کےایمانی افکار کو مضبوط اور ثقافتی سطح کو بلند کرنے کی کوشش کی جائے.قرآن مجید روحی تقوی اور قلبی سکون کو اس مرض کا علاج قرار دیتا هے.جهاں ایمان،تقوی اور قلبی سکون هو وهاں تعصب نهیں هوتااور جهاں تعصب هوگا وهاں ایمان و تقوی کا وجود نهیں هوگا.

روایت هےکه عرب عورت اور عجمی عورت کے درمیان جھگڑا هوا دونوں امام علی کے پاس آئيں .امام ان دونوں میں فرق کے قائل نه هوئے تو عرب عورت نے امام پر اعتراض کیا اس پر امام نے دونوں مٹھیاں بھر کر مٹی لی اور فرمایا که.امام ان دونوں میں فرق کے قائل نه هوئے تو عرب عورت ن میں ان دونوں مٹھیوں میں‌کوئي فرق نهیں پاتا.

البته اسلام اصل اور فطری تعصب و غیرت کی تائید کرتا هے که جهاں‌تعصب کرنے میں خدا کی خوشنودی هو وهاں تعصب کرنا چاهئيے.جیسے پیغمبر اکرم پر حالت سجده میں گوسفند کے غلاظت پھینکا گیا تو حضرت حمزه غضبناک هوئے اور کها که میں اسی گستاخی اور بے ادبی کی وجه سے مسلمان هوا هوں.

آخر میں امام خمینی کے اس فرمان کی طرف اشاره کیا جاتا هے که آپ نے فرمایا:همیں چاهئیے که هم جهالت اور خرافات کے حصار کو توڑ دیں تاکه اسلام ناب محمدی کے سايے میں زندگی بسر کر سکیں.