حضرت امام محمد تقی جواد الائمہ علیہ السلام

مامون نے ایک عظیم الشان جلسہ اس مناظرے کے لیے منعقد کیا اور عام اعلان کرادیا ۔

ہر شخص اس عجیب اور بظاہر غیر متوازی مقابلے کے دیکھنے کا مشتاق ہوگیا جس میں ایک طرف ایک آٹھ برس کابچہ تھا اور دوسری طرف ایک آزمود کار اور شہرئہ آفاق قاضی القضاة ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہر طرف سے خلائق کا ہجوم ہوگیا ۔مورخین کا بیان ہے کہ ارکان ِ دولت اور معززین کے علاوہ اس جلسے میں نوسوکرسیاں فقط علماء وفضلاء کے لیے مخصوص تھیں اور اس میں کوئی تعجب نہیں اس لیے کہ یہ زمانہ عباسی سلطنت کے شباب اوربالخصوص علمی ترقی کے اعتبار سے زریں دور تھا اور بغداد دارالسلطنت تھا جہاں تمام اطراف سے مختلف علوم وفنون کے ماہرین کھنچ کر جمع ہوگئے تھے ۔ اس اعتبار سے یہ تعداد کسی مبالغہ پر مبنی معلوم نہیں ہوتی-
مامون نے حضرت امام محمد تقی(ع) کے لئے اپنے پہلو میں مسند بچھوائی تھی اور حضرت(ع) کے سامنے یحییٰ ابن اکثم کے لیے بیٹھنے کی جگہ تھی- ہر طرف کامل سناٹا تھا- مجمع ہمہ تن چشم و گوش بنا ہوا گفتگو شروع ہونے کے وقت کا منتظر ہی تھا کہ اس خاموشی کو یحییٰ کے اس سوال نے توڑ دیا جو اس نے مامون کی طرف مخاطب ہو کر کہا تھا-” حضور کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ابو جعفر(ع) سے کوئی مسئلہ دریافت کروں؟
مامون نے کہا،” تم کو خود ان ہی سے اجازت طلب کرنا چاہئے-“
یحیٰی امام(ع) کی طرف متوجہ ہوا اور کہا-”کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ سے کچھ دریافت کروں؟“
فرمایا-” تم جو پوچھنا چاہو پوچھ سکتے ہو-“

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام

نام ونسب

محمد(ع) نام ، ابو جعفر کنیت اور تقی(ع) وجوّاد(ع) دونوں مشہور لقب تھے اسی لیے اسم و لقب کو شریک کرے آپ امام محمدتقی(ع) کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں ۔ چونکہ آپ کو پہلے امام محمد باقر (ع) کی کنیت ابو جعفر ہوچکی تھی اس لیے کتابوں میں آپ کو ابو جعفر ثانی اور دوسرے لقب کو سامنے رکھ کر حضرت جوّاد بھی کہا جاتا ہے ۔ والد بزرگوار آپ کے حضرت امام رض(ع) تھے اور والدہ معظمہ کانام جناب سبیکہ یاسکینہ(ع) تھا ۔

ولادت ۱۰رجب ۱۹۵ھء کو مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی ۔ اس وقت بغداد کے دارلسلطنت میں ہارون رشید کابیٹا امین تخت حکومت پر تھا ۔

نشونما اور تربیت

یہ ا یک حسرت ناک واقعہ ہے کہ امام محمدتقی (ع)کو نہایت کمسنی ہی کے زمانے میں مصائب اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاناپڑا ۔انھیں بہت کم ہی اطمینان اور سکون کے لمحات میں باپ کی محبت ، شفقت اور تربیت کے سائے میں زندگی گزارنے کاموقع مل سکا ۔آپ کو صرف پانچواں برس تھا ۔ جب حضرت امام رض(ع) مدینہ سے خراسان کی طرف سفر کرنے پر مجبور ہوئے تو پھر زندگی میں ملاقات کا موقع نہ ملا امام محمدتقی(ع) سے جدا ہونے کے تیسرے سال امام رض(ع) کی وفات ہوگئی ۔ دنیا سمجھتی ہوگی کہ امام محمدتقی(ع) کے لیے علمی وعملی بلندیوں تک پہنچنے کاکوئی ذریعہ نہیں رہا اس لیے اب امام جعفر صادق(ع) کی علمی مسند شاید خالی نظر آئے مگر خلق خدا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کمسن بچے کو تھوڑے دن بعد مامون کے پہلو میں بیٹھ کر بڑے بڑے علماء سے فقہ ‘ حدیث ‘ تفسیراور کلام پر مناظرے کرتے اور سب کو قائل ہوجاتے دیکھا ۔ اس کی حیرت اس وقت تک دور ہوناممکن نہ تھی ، جب تک وہ مادی اسباب کے آگے ایک مخصوص خداوندی مدرسہ تعلیم وتربیت کے قائل نہ ہوتے ، جس کے بغیر یہ معمہ نہ حل ہوا اور نہ کبھی حل ہوسکتا ہے ۔

عراق کا پہلا سفر

جب امام رضا(ع) کو مامون نے ولی عہد بنایا اور اس کی سیاست اس کی مقتضی ہوئی کہ بنی عباس کو چھوڑ کر بنی فاطمہ سے روابط قائم کئے جائیں اور اس طرح شیعیان اہل بیت(ع) کو اپنی جانب مائل کیا جائے تو اس نے ضرورت محسوس کی کہ خلوص واتحاد کے مظاہرے کے لیے علاوہ اس قدیم رشتے کے جو ہاشمی خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے ہے ، کچھ جدید رشتوں کی بنیاد بھی قائم کردی جائے چنانچہ اسی جلسہ میں جہاں ولی عہدی کی رسم ادا کی گئی ۔ اس نے اپنی بہن ام حبیبہ کاعقد امام رض(ع) کے ساتھ کیاا ور اپنی بیٹی ام الفضل کی نسبت کاامام محمد تقی(ع) کے ساتھ اعلان کیا ۔ غالباً اس کا خیال تھا کہ اس طرح امام رضا (ع) بالکل اپنے بنائے جا سکیں گے مگر جب اس نے محسوس کیا کہ یہ اپنے ان منصبی فرائض کو جو رسول کے ورثہ دار ہونے کی بنا پر ان کے ذمہ ہیں ۔ کسی قیمت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے اور اب عباسی سلطنت کارکن ہونے کے ساتھ ان اصول پر قائم رہنا ۔ مدینہ کے محلہ بنی ہاشم میں گوشہ نشینی کی زندگی بسرکرنے سے کہیں زیادہ خطر ناک ہے ۔ تو اسے اپنے مفاد سلطنت کی تحفظ خاطر اس کی ضرورت ہوئی کہ وہ زہر دے کر حضرت(ع) کی زندگی کاخاتمہ کردے مگر وہ مصلحت جوامام رض(ع) کوولی عہد بنانے کی تھی یعنی ایرانی قوم اور جماعت ِ شیعہ کو اپنے قبضے میں رکھنا وہ اب بھی باقی تھی اس لیے ایک طرف تو امام رض(ع) کے انتقال پر اس نے غیر معمولی رنج وغم کااظہار کیا تاکہ وہ اپنے دامن کو حضرت(ع) کے خون ناحق سے الگ ثابت کرسکے ۔ اور دوسری طرف اس نے اپنے اعلان کی تکمیل ضروری سمجھی کہ جو وہ امام محمدتقی(ع) کے ساتھ اپنی لڑکی سے منسوب کرنے کا کرچکا تھا ، اس نے اس مقصد سے امام محمدتقی (ع)کو مدینہ سے عراق کی طرف بلوایا ۔ اس لیے کہ امام رض(ع) کی وفات کے بعد وہ خراسان سے اب اپنے خاندان کے پرانے دارالسلطنت بغداد میں آچکا تھا اور ا س نے یہ تہیّہ کرلیا کہ وہ ام الفضل کاعقد اس صاحبزادے کے ساتھ بہت جلد کردے ۔

علما ء سے مناظرہ

بنی عباس کو مامون کی طرف سے امام رض(ع) کا ولی عہد بنایا جانا ہی ناقابل برداشت تھا امام رض(ع) کی وفات سے ایک حد تک انھیں اطمینان حاصل ہوا تھا اور انہوں نے مامون سے اپنے حسبِ دلخواہ اس کے بھائی موئمن کی ولی عہدی کااعلان بھی کرادیا جو بعد میں معتصم بالله کے نام سے خلیفہ تسلیم کیا گیا ۔ اس کے علاوہ امام رض(ع) کی ولی عہدی کے زمانہ میں عباسیوں کامخصوص شعار یعنی کالالباس تبدیل ہو کر سبز لباس کارواج ہورہا تھا اسے منسوخ کرکے پھر سیاہ لباس کی پابندی عائد کردی گئی ، تاکہ بنی عباس کے روایات ِ قدیمہ محفوظ رہیں ۔ یہ باتیں عباسیوں کو یقین دلا رہی تھیں کہ وہ مامون پر پورا قابو پاچکے ہیں مگر اب مامون یہ ارادہ کہ وہ امام محمد تقی(ع) کو اپنا داماد بنائے ان لوگوں کے لیے پھر تشویش کاباعث بنا ۔ اس حد تک کہ وہ اپنے دلی رجحان کو دل میں نہ رکھ سکے اورایک وفد کی شکل میں مامون کے پاس آکر اپنے جذبات کااظہار کر دیا ، انھوں نے صاف صاف کہا کہ امام رضا کے ساتھ جو اپ نے طریقہ کار استعمال کیا وہی ہم کو ناپسند تھا ۔ مگر خیر وہ کم از کم اپنی عمر اور اوصاف وکمالات کے لحاظ سے قابلِ عزت سمجھے بھی جاسکتے ہیں مگر ان کے بیٹے محمد (ع) تو ابھی بالکل کم سن ہیں ایک بچے کو بڑے بڑے علماء اور معززین پر ترجیح دینا اور اس قدر اس کی عزت کرنا ہر گز خلیفہ کے لیے زیبا نہیں ہے پھر ام حبیبہ کانکاح جو امام رض(ع) کے ساتھ کیا گیا تھا اس سے ہم کو کیا فائدہ پہنچا ۔ جو اب ام الفضل کانکاح محمد ابن علی(ع) کے ساتھ کیا جارہا ہے ۔
مامون نے اس تمام تقریر کا یہ جواب دیا کہ محمد(ع) کمسن ضرور ہیں مگر میں نے خوب اندازہ کرلیا ہے ۔ اوصاف وکمالات میں وہ اپنے باپ کے پورے جانشین ہیں اور عالم اسلام کے بڑے بڑے علماء جن کا تم حوالہ دے رہے ہو علم میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ اگر تم چاہو تو امتحان لے کر دیکھ لو ۔ پھر تمہیں بھی میرے فیصلے سے متفق ہونا پڑے گا ۔ یہ صرف منصافانہ جواب ہی نہیں بلکہ ایک طرح کا چیلنج تھا جس پر مجبوراً ان لوگوں کو مناظرے کی دعوت منظور کرنا پڑی حالانکہ خود مامون تمام سلاطین ِ بنی عباس میں یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ مورخین اس کے لیے یہ الفاظ لکھ دیتے ہیں ۔ کان بعد من کبار الفقہا ء یعنی اس کا شمار بڑے فقیہوں میں ہے ۔ اس لیے اس کا فیصلہ خود کچھ کم وقعت نہ رکھتا تھا مگر ان لوگوں نے اس پر اکتفا نہیں کی بلکہ بغداد کے سب سے بڑے عالم یحییٰ بن اکثیم کو امام محمدتقی(ع) سے بحث کے لیے منتخب کیا ۔
مامون نے ایک عظیم الشان جلسہ اس مناظرے کے لیے منعقد کیا اور عام اعلان کرادیا ۔ ہر شخص اس عجیب اور بظاہر غیر متوازی مقابلے کے دیکھنے کا مشتاق ہوگیا جس میں ایک طرف ایک آٹھ برس کابچہ تھا اور دوسری طرف ایک آزمود کار اور شہرئہ آفاق قاضی القضاة ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہر طرف سے خلائق کا ہجوم ہوگیا ۔مورخین کا بیان ہے کہ ارکان ِ دولت اور معززین کے علاوہ اس جلسے میں نوسوکرسیاں فقط علماء وفضلاء کے لیے مخصوص تھیں اور اس میں کوئی تعجب نہیں اس لیے کہ یہ زمانہ عباسی سلطنت کے شباب اوربالخصوص علمی ترقی کے اعتبار سے زریں دور تھا اور بغداد دارالسلطنت تھا جہاں تمام اطراف سے مختلف علوم وفنون کے ماہرین کھنچ کر جمع ہوگئے تھے ۔ اس اعتبار سے یہ تعداد کسی مبالغہ پر مبنی معلوم نہیں ہوتی-
مامون نے حضرت امام محمد تقی(ع) کے لئے اپنے پہلو میں مسند بچھوائی تھی اور حضرت(ع) کے سامنے یحییٰ ابن اکثم کے لیے بیٹھنے کی جگہ تھی- ہر طرف کامل سناٹا تھا- مجمع ہمہ تن چشم و گوش بنا ہوا گفتگو شروع ہونے کے وقت کا منتظر ہی تھا کہ اس خاموشی کو یحییٰ کے اس سوال نے توڑ دیا جو اس نے مامون کی طرف مخاطب ہو کر کہا تھا-” حضور کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ابو جعفر(ع) سے کوئی مسئلہ دریافت کروں؟
مامون نے کہا،” تم کو خود ان ہی سے اجازت طلب کرنا چاہئے-“
یحیٰی امام(ع) کی طرف متوجہ ہوا اور کہا-”کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ سے کچھ دریافت کروں؟“
فرمایا-” تم جو پوچھنا چاہو پوچھ سکتے ہو-“
یحیٰی نے پوچھا کہ ”حالت احرام میں اگر کوئی شخص شکار کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟“ اس سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یحیٰی حضرت امام محمد تقی کو علمی بلندی سے بالکل واقف نہ تھا- وہ اپنے غرور علم اور جہالت سے یہ سمجھتا تھا کہ یہ کمسن صاحبزادے تو ہیں ہی- روزمرہ کے روزے نماز کے مسائل سے واقف ہوں تو ہوں مگر حج وغیرہ کے احکام اور حالت احرام میں جن چیزوں کی ممانعت ہے ان کے کفاروں سے بھلا کہاں واقف ہوں گے-
امام(ع) نے اس کے جواب میں اس طرح سوال کے گوشوں کی الگ الگ تحلیل فرمائی، جس سے بغیر کوئی جواب اصل مسئلے کا دیئے ہوئے آپ کے علم کی گہرائیوں کا یحیٰی اور تمام اہل محفل کو اندازہ ہو گیا، یحیٰی خود بھی اپنے کو سبک پانے لگا اور تمام مجمع بھی اس کا سبک ہونا محسوس کرنے لگا- آپ نے جواب میں فرمایا کہ تمہارا سوال بالکل مبہم اور مجمل ہے- یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ شکار حل میں تھا یا حرم میں شکار کرنے والا مسئلے سے واقف تھا یا ناواقف- اس نے عمداً اس جانور کو مار ڈالا یا دھوکے سے قتل ہو گیا وہ شخص آزاد تھا یا غلام کمسن تھا یا بالغ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس کے پہلے بھی ایسا کر چکا تھا؟ شکار پرندکا تھا یا کوئی اور؟ چھوٹا یا بڑا ؟ وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ رات کو یا پوشیدہ طریقہ پر اس نے شکار کیا یا دن دہاڑے اورعلانیہ؟ احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس مسئلہ کا کوئی ایک معین حکم نہیں بتایا جا سکتا-
یحییٰ کتنا ہی ناقص کیوں نہ ہوتا بہرحال فقہی مسائل پر کچھ نہ کچھ اس کی نظر بھی تھی- وہ ان کثیر التعداد شقوں کے پیدا کرنے ہی سے خوب سمجھ گیا کہ ان کا مقابلہ میرے لئے آسان نہیں ہے- اس کے چہرے پر ایسی شکستگی کے آثار پیداہوئے جن کاتمام دیکھنے والوں نے اندازہ کر لیا- اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہ دیتا تھا- مامون نے اس کی کیفیت کا صحیح اندازہ کر کے اس سے کچھ کہنا بیکار سمجھا اور حضرت(ع) سے عرض کیا کہ پھر آپ ہی ان تمام شقوں کے احکام بیان فرما دیجئے ، تاکہ سب کو استفادہ کا موقع مل سکے- امام(ع) نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے یحیٰی ہکا بکا امام(ع) کا منہ دیکھ رہا تھا اور بالکل خاموش تھا- مامون کو بھی کد تھی کہ وہ اتمام حجت کو انتہائی درجے تک پہنچا دے اس لئے اس نے امام(ع) سے عرض کیا کہ اگر مناسب معلوم ہو تو آپ(ع) بھی یحییٰ سے کوئی سوال فرمائیں- حضرت(ع) نے اخلاقاً یحییٰ سے یہ دریافت کیا کہ ”کیا میں بھی تم سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟“یحییٰ اب اپنے متعلق کسی دھوکے میں مبتلا نہ تھا، اپنا اور امام(ع) کا درجہ اسے خوب معلوم ہو چکا تھا- اس لئے طرز گفتگو اس کا اب دوسراہی تھا- اس نے کہا کہ حضور(ع) دریافت فرمائیں اگر مجھے معلوم ہو گا تو عرض کر دوں گا ورنہ خود حضور ہی سے معلوم کر لوں گا، حضرت(ع) نے سوال کیا- جس کے جواب میں یحییٰ نے کھلے لفظوں میں اپنی عاجزی کا اقرار کیا اور پھر امام نے خود اس سوال کا حل فرما دیا- مامون کو اپنی بات کے بالا رہنے کی خوشی تھی- اس نے مجمع کی طرف مخاطب ہو کر کہا:
دیکھوں میں نہ کہتا تھا کہ یہ وہ گھرانا ہے جو قدرت کی طرف سے علم کا مالک قرار دیا گیا ہے- یہاں کے بچوں کا بھی کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا- مجمع میں جوش و خروش تھا- سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ بے شک جو آپ کی رائے ہے وہ بالک ٹھیک ہے اور یقیناً ابو جعفر(ع) محمد ابن علی کو کوئی مثل نہیں ہے- مامون نے اس کے بعد ذرا بھی تاخیر مناسب نہیں سمجھی اور اسی جلسے میں امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ ام الفضل کا عقد کر دیا- نکاح کے قبل جو خطبہ ہمارے یہاں عموماً پڑھا جاتا ہے وہی ہے جو کہ امام محمد تقی نے اس عقد کے موقع پر اپنی زبان مبارک پر جاری کیا تھا- یہی بطور یادگار نکاح کے موقع پر باقی رکھا گیا ہے مامون نے اس شادی کی خوشی میں بڑی فیاضی سے کام لیا- لاکھوں روپیہ خیر و خیرات میں تقسیم کیا گیا اور تمام رعایا کو انعامات و عطیات کے ساتھ مالا مال کیا گیا-

مدینہ کی طرف واپسی

شادی کے بعد تقریباً ایک سال تک بغداد میں مقیم رہے اس کے بعد مامون نے بہت اہتمام کے ساتھ ام الفضل کو حضرت(ع) کے ساتھ رخصت کر دیا اور امام(ع) مدینہ میں واپس تشریف لائے-

اخلاق و اوصاف امام محمد تقی(ع)

اخلاق واصاف میں انسانیت کی اس بلندی پر تھے جس کی تکمیل رسول اور آل رسول کا طرئہ امتیاز تھی کہ ہر ایک سے جھک کر ملنا ۔ ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا مساوات اور سادگی کو ہر حالت میں پیش نظر رکھنا۔ غربا کی پوشیدہ طور پر خبر لینا اور دوستوں کے علاوہ دشمنوں تک سے اچھا سلوک کرتے رہنا ۔ مہمانوں کی خاطر داری میں انہماک اور علمی اور مذہبی پیاسوں کے لیے فیصلہ کے چشموں کا جاری رکھنا آپ کی سیرت زندگی کا نمایاں پہلو تھا ۔ بالکل ویسا ہی جیسے اس سلسلہ عصمت کے دوسرے افراد کا تھا جس کے حالات اس سے پہلے لکھے جاچکے ہیں ۔
اہل دنیا کو جو آپ کے بلندی نفس کا پورا اندازہ نہ رکھتے تھے انھیں یہ تصور ضرور ہوتا تھا کہ ایک کمسن بچے کا عظیم الشان مسلمان سلطنت کے شہنشاہ کا داماد ہوجانا یقیناً اس کے چال ڈھال طور طریقے کو بدل دے گا اور اس کی زندگی دوسرے سانچے میں ڈھل جائے گی۔حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا مقصد ہوسکتا ہے جو مامون کی کوتاہ نگاہ کے سامنے بھی تھا ۔بنی امیہ یابنی عباس کے بادشاہوں کا آل ِ رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا ۔ جتنا ان کے صفات سے وہ ہمیشہ اس کے درپے رہتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ہے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلے میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ یہ کسی طرح ٹوٹ جائے ۔ اسی کے لیے گھبرا گھبرا کر وہ مختلف تدبیریں کرتے تھے۔ امام حسین(ع) سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اورپھر امام رض(ع) کو ولی عہد بنانا اسی کا دوسرا طریقہ ، فقط ظاہری شکل وصورت میں ایک کا اندازہ معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادات مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں صورتوں میں ایک تھی ۔ جس طرح امام حسین(ع) نے بیعت نہ کی تو وہ شہید کر ڈالے گئے ، اسی طرح امام رض(ع) ولی عہد ہونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ ساتھ نہ چل سکے تو آپ کو زہر کے ذریعے سے ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا ۔
اب مامون کے نقطہ نظر سے یہ موقع انتہائی قیمتی تھا کہ امام رض(ع) کا جانشین تقریباً آٹھ برس کابچہ ہے جو تین برس سے پہلے باپ سے چھڑا لیاجاچکا تھا ۔ حکومت وقت کی سیاسی سوجھ بوجھ کہہ رہی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقے پر لانا نہایت آسان ہے او را س کے بعد وہ مرکز جو حکومت ِ وقت کے خلاف ساکن اورخاموش مگر انتہائی خطرناک قائم ہے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا ۔
مامون امام رض(ع) کو ولی عہد ی کی مہم میں اپنی ناکامی کو مایوسی کاسبب نہیں تصور کرتا تھا ،ا س لیے کہ امام رض(ع) کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی ۔ا س میں تبدیلی اگر نہیں ہوتی تو یہ ضروری نہیں کہ امام محمد تقی(ع) جو آٹھ برس کے سن میں قصر حکومت میں نشو نما پا کر بڑھیں وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر بر قرا ر رہیں ۔
سوائے ان لوگوں کے جوان مخصوص افراد کے خداداد کمالات کو جانتے تھے ۔اس وقت کا ہر شخص یقیناً مامون ہی کا ہم خیال ہوگا ۔ مگر دنیا تو حیران ہوگئی جب یہ دیکھا کہ وہ آٹھ برس کا بچہ جسے شہنشاہ اسلام کا داماد بنایا گیا ہے اس عمر میں اپنے خاندانی رکھ رکھاؤ اور اصول کااتنا پابند ہے کہ وہ شادی کے بعد محل شاہی میں قیام سے انکار کردیتا ہے اور اس وقت بھی کہ جب بغداد میں قیام رہتا تو ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام فرماتے ہیں ۔ اس سے بھی امام (ع) کی مستحکم قوتِ ارادی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ عموماً مالی اعتبار سے لڑکی والے کچھ بھی بڑا درجہ رکھتے ہوتے ہیں تو وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ جہاں وہ رہیں وہیں داماد بھی رہے ۔ اس گھر میں نہ سہی تو کم از کم اسی شہر میں اس کا قیام رہے ۔ مگر امام محمد تقی(ع) نے شادی کے ایک سال بعد ہی مامون کو حجاز واپس جانے کی اجازت دینے پر مجبور کردیا ۔ یقیناً یہ امر ایک چاہنے والے باپ اور مامون ایسے بااقتدار کے لیے انتہائی ناگوار تھا مگر اسے لڑکی کی جدائی گوارا کرنا پڑی اور امام(ع) مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے ۔
مدینہ میں تشریف لانے کے بعد ڈیوڑھی کا وہی انداز رہا جو اس کے بعد پہلے تھا ۔ نہ پہریدار نہ کوئی خاص روک ٹوک ، نہ تزک واحتشام نہ اوقات ِ ملاقات نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤں میں کوئی تفریق ۔ زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رہتی تھی جہاں مسلمان حضرات ان کی وعظ ونصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔ راویان ِ حدیث دریافت کرتے تھے ۔ طالب علم مسائل پوچھتے تھے ۔ صاف ظاہر تھا کہ جعفرصادق(ع) ہی کا جانشین ہے جو اسی مسند علم پر بیٹھا ہوا ہدایت کاکام انجام دے رہا ہے ۔
امور خانہ داری اور ازواجی زندگی میں آپ کے بزرگوں نے ا پنی بیویوں کو جن حدود میں رکھا تھا ان ہی حدود میں آپ نے ام الفضل کو رکھا ۔ آپ نے اس کی مطلق پروا نہیں کی کہ آپ کی بیوی ایک شہنشاہ وقت کی بیٹی ہیں ۔ چنانچہ ام الفضل کے ہوتے آپ نے حضرت عمار یاسرؓ کی نسل سے ایک محترم خاتون کے ساتھ عقد بھی کیا اور قدرت کو نسلِ امامت اسی خاتون سے باقی رکھنا منظور تھا ۔ یہی امام علی نقی (ع) کی ماں ہوئیں ۔ ام الفضل نے اس کی شکایت اپنے باپ کے پاس لکھ کر بھیجی ۔ مامون کے د ل کے لیے بھی یہ کچھ کم تکلیف دہ امر نہ تھا ۔ مگر اسے اب اپنے کیے کو نباہنا تھا ۔ اس نے ام الفضل کو جواب لکھا کہ میں نے تمھارا عقد ابو جعفر(ع) کے ساتھ اس لیے نہیں کیا ہے کہ ان پر کسی حلالِ خدا کو حرام کردوں ۔ مجھ سے اب اس قسم کی شکایت نہ کرنا۔
جواب دے کر حقیقت میں اس نے اپنی خفت مٹائی ہے ۔ ہمارے سامنے اس کی نظیریں موجود ہیں کہ اگر مذہبی حیثیت سے کوئی بااحترام خاتون ہوئی ہے تو اس کی زندگی میں کسی دوسری بیوی سے نکاح نہیں کیا گیا جیسے پیغمبر کے لیے جناب خدیجة (ع) الکبریٰ اور حضرت علی المرتضیٰ(ع) کے لیے جناب فاطمہ زہر(ع) مگر شہنشاہ دنیا کی بیٹی کو یہ امتیاز دینا صرف اس لیے کہ وہ بادشاہ کی بیٹی ہے ۔ اسلام کی اس روح کے خلاف تھا جس کے آل محمد محافظ تھے اس لیے امام محمدتقی(ع) نے اس کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنا اپنا فریضہ سمجھا ۔
تبلیغ وہدایت آپ کی تقریر بہت دلکش اور پُر تاثیر ہوتی تھی ۔ ایک مرتبہ زمانہ حج میں مکہ معظمہ میں مسلمانوں کے مجمع میں کھڑے ہو کر آپ نے احکام شرع کی تبلیغ فرمائی تو بڑے بڑے علماء دم بخود رہ گئے اور انھیں اقرار کرنا پڑا کہ ہم نے ایسی جامع تقریر کبھی نہیں سنی ۔ امام رض(ع) کے زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہوگیا تھا جو امام(ع) موسیٰ کاظم(ع) پر توقف کرتا تھا ۔ یعنی آپ کے بعد
امام رض(ع) کی امامت کاقائل نہیں تھا اور اسی لیے واقفیہ کہلاتا تھا ۔ امام محمد تقی نے اپنے کردار میں اس گروہ میں ایسی کامیاب تبلیغ فرمائی کہ سب اپنے عقیدے سے تائب ہوگئے اور آپ کے زمانہ ہی میں کوئی ایک شخص ایسا باقی نہ رہ گیا جو اس مسلک کا حامی ہو
بہت سے بزرگ مرتبہ علماء نے آپ سے علوم اہل بیت(ع) کی تعلیم حاصل کی ۔ آپ کے ایسے مختصر حکیمانہ مقولوں کو بھی ایک ذخیرہ ہے جیسے آپ کے جدِ بزرگوار حضرت امیر المومنین علی(ع) بن ابی طالب(ع) کے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ جناب امیر(ع) کے بعد امام محمدتقی(ع) کے مقولوں کو ایک خاص درجہ حاصل ہے ۔ الٰہیات اور توحیدکے متعلق آپ کے بعض بلند پایہ خطبے بھی موجود ہیں۔

عراق کاآخری سفر

۲۱۸ھء میں مامون نے دنیا کو خیر باد کہا ۔اب مامون کا بھائی اور ام الفضل کاچچا موتمن جو امام رضا کے بعد ولی عہد بنایاجاچکا تھا تخت سلطنت پر بیٹھا اور معتصم بالله عباسی کے نام سے مشہور ہوا ۔ اس کے بیٹھتے ہی امام محمد تقی(ع) سے متعلق ام الفضل کے اس طرح کے شکایتی خطوط کی رفتار بڑھ گئی ۔ جس طرح کہ اس نے اپنے باپ مامون کو بھیجے تھے ۔ مامون نے چونکہ تمام بنی عباس کی مخالفتوں کے بعد بھی اپنی لڑکی کا نکاح امام محمد تقی(ع) کے ساتھ کردیا تھا اس لیے اپنی بات کی پچ اور کیے کی لاج رکھنے کی خاطر ا س نے ان شکایتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں کی بلکہ مایوس کردینے والے جواب سے بیٹی کی زبان بند کردی تھی مگر معتصم کو جو امام رض(ع) کی ولی عہدی کاداغ اپنے سینہ پراٹھائے ہوئے تھا اور امام محمدتقی(ع) کو داماد بنائے جانے سے تمام بنی عباس کے نمائندے کی حیثیت سے پہلے ہی اختلاف کرنے والوں میں پیش پیش رہ چکا تھا ۔ اب ام الفضل کے شکایتی خطوں کو اہمیت دے کر اپنے اس اختلاف کو جو اس نکاح سے تھا ۔ حق بجانب ثابت کرنا تھا ، پھر سب سے زیادہ امام محمدتقی(ع) کی علمی مرجعیت آپ کے اخلاقی اثر کاشہرہ جو حجاز سے بڑھ کر عراق تک پہنچا ہوا تھا وہ بنائے مخاصمت جو معتصم کے بزرگوں کو امام محمد تقی(ع) کے بزرگوں سے رہ چکی تھی او ر پھر اس سیاست کی ناکامی اور منصوبے کی شکست کا محسوس ہوجانا جو اس عقد کامحرک ہوا تھا جس کی تشریح پہلے ہوچکی ہے یہ تمام باتیں تھیں کہ معتصم مخالفت کے لیے آمادہ ہوگیا ۔ اپنی سلطنت کے دوسرے ہی سال امام محمدتقی(ع) کو مدینہ سے بغداد کی طرف بلو ابھیجا ۔ حاکم مدینہ عبدالمالک کو اس بارے میں تاکید ی خط لکھا ۔ مجبوراً امام محمد تقی(ع) اپنے فرزند امام علی نقی(ع) اور ان کی والدہ کو مدینہ میں چھوڑ کر بغداد کی طرف روانہ ہوئے ۔

وفات

بغداد میں تشریف لانے کے بعد تقریباً ایک سال تک معتصم نے بظاہر آپ کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی مگر آپ کا یہاں کا قیام خود ہی ایک جبری حیثیت رکھتا تھا جسے نظر بندی کے سا اور کیا کہا جاسکتا ہے اس کے بعد اسی خاموش حربے سے جو اکثر اس خاندان کے بزرگوں کے خلاف استعمال کیا جاچکا تھا ۔ آپ کی زندگی کاخاتمہ کردیا گیا اور ۲۹ذی القعدہ ۲۲۰ھء میں زہر سے آپ کی شہادت ہوئی اور اپنے جدِ بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم کے پاس دفن ہوئے ۔آپ ہی کی شرکت کالحاظ کرکے عربی کے قاعدے سے اس شہر کانام کاظمین (دوکاظم یعنی غصہ کوضبط کرنے والے) مشہور ہوا ہے ۔ اس میں حضرت موسیٰ کاظم(ع) کے لقب کوصراحةً سامنے رکھا گیا جبکہ موجودہ زمانے میں اسٹیشن کانام جوادّین (دوجواد المعنی فیاض) درج ہے جس میں صراحةً حضرت امام محمد تقی(ع) کے لقب کو ظاہرکیاجارہا ہے ۔ چونکہ آپ کالقب تقی بھی تھا اور جواد بھی ۔