کیا پانچ سال کا بچہ امام ہوسکتا ہے ؟


یہ بات واضح ہے کہ مہدی موعود(عج) ایک مخصوص ومعین فرد ہیں جو کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام میں سے گیارہویں امام ، حسن العسکری (ع) الخالص کے فرزند ارجمند بلافصل ہیں ، اور پندرہ (۱۵)شعبان ۲۵۵ھ یا ۲۵۶ھ کو سامراءمیں پیدا ہوئے اور ۲۶۰ھ تک اپنے والد بزرگوار حضرت امام حسن عسکری (ع) سے تربیت حاصل کرتے رہے ، ایک قول کے مطابق چار ۴ سال کی عمر میں امامت وخلافت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے کچھ لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ اگر حضرت امام مہدی(ع) اپنے والد کے وفات کے وقت طفل تھے جن کی عمر پانچ سال سے زیادہ نہ تھی ، اوروہ اس عمر میں اپنے والد سے فکری اور دینی تربیت حاصل نہین کرسکتے تھے تو اپنی دینی فکری اور علمی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے وہ کیسے تیار ہوئے ؟ دوسرے لفظوں مین ” کیا پانچ سال کا بچہ امام ہوسکتا ہے ؟


ہمارا جواب

جو لوگ سوچتے ہیں کہ ایک کمسن بچے کا امامت وخلافت کے مرتبہ پر فائز ہونا صحیح نہیں ہے ، یہ لوگ اس سلسلے میں غلط فہمی کا شکار ہیں وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ پیغمبر اولیاءالہیٰ اور ائمہ ہدیٰ عام لوگوں کی طرح ہیں یعنی انہیں بھی بالغ ہونا چاہئے تاکہ مقام نبوت وامامت کے لائق ہوسکیں یہ ان کی کم علمی ہے کیونکہ مقام نبوت وامامت کے لئے بلوغ شرط نہیں ہے ، مشاہدے کی بات ہے کہ ہزاروں لوگ اس دنیا میں بالغ ہوتے ہیں اورہوتے رہیں گے ، لیکن بالغ ہوکر بھی ایک بچے کی حدتک فہم وادراک نہیں رکھتے ادھر نہ جانے کتنے ایسے نابالغ بچے ہیں جو عقل وفراست میں کسی رشید سے کم نہیں ۔
مختصر یہ کہ بلوغ وبزرگی شرط امامت ونبوت نہیں ہے ۔ لہذا اس قسم کے استبعاد یاوہم وگمان کا راستہ باالکل مسدود ہے بلکہ قرآن مجید کی بھی مخالفت ہے ، کیونکہ قرآن مجید کی نظر میں یہ انتخاب کبھی بلوغ کے بعد یابزرگی کے زمانے میں ہوتا ہے، تو کبھی عہد طفولیت میں ، جیسا کہ حضرت عیسی(ع) نے گھوارہ میں لوگوں سے گفتگو کی اور کہا:” انّی عبداللّه آتانی الکتاب وجعلنی نبیّاً “ میں خدا کا بندہ ہوں مجھے اس نے کتاب اورنبوت عطا کی ہے میں جہاں بھی رہوں گا بابرکت ہوں اور تاقیامت مجھے نماز وزکوٰة کی وصیّت کی ہے !! اس آیہ مبارکہ سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ (ع)بچپنے ہی سے نبی اور صاحب کتاب تھے اسی بناپرکہ پانچ سال کے بچے کا عالم غیب سے ارتباط رکھنے اور تبلیغ احکام جیسی عظیم ذمہ داری کے لئے منصوب ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ وہ اس امامت کے عہدہ برآہونے اور اپنی پوری ذمہ داری کو ادا کرنے کی الہیٰ طاقت رکھتے ہیں ۔
اسی سورہ مبارکہ کی آیت ۲۱ میں ایک اور پیغمبرخدا کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :
یایحیٰ خذالکتاب بقوة وآتیناه الحکم صبیاً رحناناً من لدنا وزکوٰة وکان تقیّاً۔
اے یحیٰ کتاب ( تورات ) مضبوطی کے ساتھ لو اورہم نے انہیں بچپنے ہی میں اپنی بارگاہ سے نبوت اور رحمدلی اور پاکیزہ گی عطا فرمائی اور وہ خود بھی پرہیز گار تھے ۔
آپ ہی فیصلہ کیجئے آخر اس میں کیا فرق ہے کہ خداوند متعال اپنے ایک بندہ کو بچپنے میں نبوت عطا کرے ، اورایک کو امامت ، علماءاوراہل سنت کے بزرگ دانشمند بھی ہماری اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ(ع) اور حضرت یحیٰ(ع) کو بچپنے میں نبوت عطا ہوسکتی ہے تو حضرت امام مہدی(ع) یادوسرے ائمہ معصومین علیہم السلام کو منصب امامت کے عطا ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں اسی لئے امام مہدی(ع) کے بارے میں پانچ سالہ سن وسال میں درجہ امامت پر فائز ہونے کا صریحاً اقرار کیا ہے ۔ ذیل میں چند بزرگ اہل سنت جید علماءکے بیان ملاحظہ فرمائیں ۔


۱۔ابو العباس احمد بن یوسف دمشقی ، متوفی ۹۱۰۱ ھ” اخبار الدول والآثارالاول “ میں لکھتے ہیں :
الفصل الحادی عشر، فی ذکر خلف الصالح الامام ابی القاسم محمدبن حسن العسکری (ع) وکان عمره عند وفات ابیه خمس سنین آتاه اللّه فیها الحکمة کما اوتیها یحی¸ٰ علیه السلام۔
گیارہویں فصل ، خلف صالح امام ابوالقاسم محمد ابن حسن عسکری (ع) کے بارے میں ہے آپ کی عمر والد کی وفات کے وقت پانچ سال تھی، لیکن خدا وند متعال نے اس کم عمری میں آپ کو حکمت [امامت] عطا کی جس طرح حضرت یحیٰؑ کو [نبوت] عطا کی تھی۔(۔اخبار الدول والآثارالاول، فصل الحادی عشر، ص ۱۴۱۔)


۲۔ جناب عبداللہ بسمل ” ارحج المطالب “ میں حضرت امام مہدی(ع) کے بارے میں لکھتے ہیں :
الامام المهدی ، اسمه محمد، کنیته ابوالقاسم بقیة الله ، الحجة ، والمهدی ، والخلف الصالح وعمره عند وفات ابیه خمس سنین آتاه اللّه فیها الحکمة۔
امام مہدی(عج) کا نام محمد ، کنیت ابوالقاسم ، بقیة اللہ ، حجت خدا خلف صالح، قائم منتظر وصاحب الزمان یعنی زمانے کے امام ہیں اپنے والد کی وفات کے وقت آپ کی عمر پانچ ساتھی لیکن اس کم سنی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکمت عطا کی ۔
ان علماءنے صریحاً آپ کو فرزند بلا فصل امام حسن عسکری (ع) اور پانچ سال کی عمر میں آپ کے منصب امامت پر فائز ہونے کا اقرار کیا ہے ۔ورنہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ کہیں ” آتاه اللّه فیها الحکمة کما اوتیها یحیٰ علیه السلام۔“ کیا اس سے صریح اورواضح بیان ہوسکتا ہے ۔



نابغہ بچے

کبھی کبھی بچوں کے درمیان بھی نادر افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ استعداد کے اعتبار اپنے زمانے کے نابغہ ہوتے ہیں جن کا فہم وادراک پچاس ساٹھ سال کے بوڑھوں سے کہیں اچھا ہوتا ہے ان ہی میں سے ایک ” بو علی سینا“ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بارہ سال کی عمر میں امام ابو حنیفہ کی فقہ کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اورسولہ (۱۶) سال کی عمر میں طب کے موضوع پر ” القانون“ جیسی شہرہ آفاق کتاب کی تصنیف کی اور چوبیس (۲۴) سال کی عمر میں تمام علوم کے ماہر ہوگئے ۔
فاضل ہندی کے بارے میں بھی منقول ہے کہ تیرہ (۱۳) سال کی عمر سے پہلے انہوں نے تمام علوم منقول ومعقول کو مکمل کرلیا تھا اوربارہ سال کی عمر سے پہلے ہی کتاب کی تصنیف میں مشغول ہوگئے تھے ۔


” ٹوماس سنیگ“ برطانیہ کے عظیم دانشور بچپنے ہی سے ایک عجوبہ تھے دو سال کی عمر میں پڑھنا جانتے تھے آٹھ سال کی عمر میں خود ہی سے ریاضیات کا مطالعہ شروع کیا۔ چودہ ۱۴ سال کی عمر تک وہ فرانس ، اطالوی ، عربی اورفارسی زبان کو اچھی طرح سیکھ گئے بیس سال کی عمر میں نظریہ رویت پر ایک مقالہ لکھ کر دربار شاہی میں پیش کیا، دور کیوں جائے آپ ایران میں دیکھ لیں آپ کو درجنوں بچے ایسے ملیں گے جو پانچ سے چھے سال کی عمر میں قرآن مجید اورنہج البلاغہ کے نہ فقط حافظ کل ہیں بلکہ ترجمہ وتفسیر پر بھی عبور حاصل اورایران T.V ٹی وی ان کے درس تفسیر کو باقاعدہ نشر کرتی ہے جن میں محمد حسین طباطبائی کا نام سرفہرست ہے جو پانچ سال کی عمر میں تمام قرآن اور پورے نہج البلاغہ کے حافظ ہوگئے اوراسی کمسنی میں وہ سوال کا جواب قرآن مجید سے دیتے ہیں ایک بار نہیں دس بار اس حقیر نے بھی ان کے سوال وجواب کے جلسوں میں شرکت کی ہے وہ آیات قرآن صفحہ نمبر آیت نمبر اورترجمہ وتوضیح کے ساتھ سناتے ہیں اورجس موضوع کے بارے میں قرآن مجیدسے سوال کریں وہ بیان کرتے ہیں اب تک انہوں نے ۵ سال کے سن میں دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں سے جن میں امریکہ ، فرانس ، برطانیہ ، مصر وغیرہ شامل ہیں ( پی ایچ ڈی) کی متعدداعزازی ڈگریاں حاصل کرچکے ہیں ۔
مختصریہ کہ اگر آپ مشرق ومغرب کی تاریخ کا مطالعہ کریں ، یا مشرق ومغرب کی سیر کریں تو ایسے بہت سے نابغہ بچے ملیں گے : ۔ قارئین محترم نابغہ بچے ایسے دماغ کے حامل ہوتے ہیں کہ کم عمر میں ہزاروں قسم کی چیزیں یاد کرلیتے ہیں اور علوم کی مشکلوں کو حل کرتے ہیں اوران کی محیّر العقول صلاحیت لوگوں کو انگشت بہ دندان کردیتی ہے ۔ تو اگر خدا وند متعال حضرت حجت ، قائم آل محمد امام زمانہ حضرت مہدی(عج) جو ان انسانوں کی بقاءکے ضامن ہیں پانچ سال کی عمر میں منصب امامت وخلافت پر فائز کردے اور احکام الہیٰ کی حفاظت بقاءکی ذمہ داری انہیں سونپ دے تواس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ جب کہ پیغمبر اکرم وپیغمبران الہیٰ اور ائمہ اطہار (علیہم السلام) نے بھی آپ کی کمسنی کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے ۔
لہذا نوعمری میں امامت کوئی فرضی چیز نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے جس کی تائید خود قرآن کریم ، سنت رسول اور تاریخ وعقل نے کی ہے ۔ لہذا امام مہدی(ع) پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ آپ بچپنے میں اپنے والد کی جانشینی اور مسلمانوں کے امام وخلیفہ کیسے بن گئے ؟



ضیاء الرحمن فاروقی کااعتراض

اہل عقل جانتے ہیں کہ بچہ مکلف نہیں ہوتا ، شریعت نے اسے مرفوع القلم ٹھہرایا ہے اوردنیا کی کسی عدالت میں بچے کی شہادت معتبر نہیں ہے ، عقل کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر سلسلہ امامت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا تواللہ تعالیٰ اس بات کا بھی انتظام کرتا کہ جب تک مستقبل کا امام بالغ نہ ہوجائے تب تک امام حاضر کو دنیا سے نہ اٹھایا جائے تاکہ امام کا جانشین بالغ ہو، نابالغ بچہ نہ ہو، لیکن عقل وشرع کے خلاف حضرات امامیہ نابالغ بچوں کی امامت کے قائل ہیں اوراس کو خدای متعال سے منسوب کرتے ہیں نعوذ باللہ۔(۔حضرت امام مہدی، فاروقی ، ص ۱۶۔)



ہمارا جواب

آپ کی مشکل یہ ہے کہ الہیٰ نمائندوں کو بھی ایک عام آدمی کی طرح سمجھتے ہیں، رہا دنیوی عدالت کا مسئلہ تو اتنا عرض کروں گا، دنیا اورانسان کے بنائے ہوئے قوانین میں بچے کی شہادت معتبر نہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق بچہ اگر ولی خدا ہوتو اس کی گواہی معتبر ہے جس کی واضح مثال حضرت عیسیٰ بن مریم (ع) کی شہادت اور گواہی ہے، جوانہوں نے اپنی والدہ کی پاکیزگی پر دی تھی ۔
اور جہاں تک نابالغ کی امامت پر آپ کو اعتراض ہے تواس سلسلے میں ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ(ع) اور حضرت یحیٰ (ع)کے بارے میں کیا فرمائیں گے ؟ اورآپ کا یہ کہنا کہ عقل وشرع کے خلاف امامیہ نابالغ بچوں کی امامت کے قائل ہیں تو ہم آپ ہی سے سوال کرتے ہیں کہ وہ کونسی آیت اور روایت ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ امام معصوم اور جانشین رسول کے لئے بالغ ہونا شرط ہے ؟
احادیث نبوی [ شرع سے] تو یہ ثابت ہے کہ حضور نے ذوالعشیرہ میں علی بن ابی طالب کو نو (۹)سال کی عمر میں جو کہ دنیوی اوردینی اعتبار سے سن بلوغ نہیں ہے اپنا جانشین اور امیرالمومنین اور امام المسلمین قرار دیا اور فرمایا تھا ” هذا اخی وصیِ وخلیفتی من بعدی“

ثانیاً: شایدانسان کی عقل یہ تسلیم نہ کرے کہ نابالغ بچہ بھی امام ہوسکتا ہے لیکن کیا کیا جائے خالق عقل کہہ رہا ہے کہ میں چاہوں تو کسی کو بچپنے میں نبوت عطا کروںاور چاہوں تو کسی کو امامت وخلافت عطا کروں جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے ” یایحیٰ خذالکتاب بقوة وآتیناه الحکم صبیاً“ویا” انی عبدالله آتانی الکتاب وجعلنی نبیاً “
کیونکہ خالق بھی وہی ہے حاکم بھی وہی شارع بھی وہی اور قانون گذار بھی وہی ہے پس جب خالق عقل کہہ رہا ہے نابالغ بچہ نبی اور امام بن سکتا ہے تو اگر مخلوق کی عقل اسے بعید سمجھتی ہے تو سمجھتی رہے یہ خود اس کی عقل کی نارسائی ہے ،ہمارے دوستوں کی مشکل یہ کہ ہرچیز میں ” قیاس“ کرتے ہیں کہ جس کی کوئی دلیل قرآن وسنت سے نہیں ملتی یعنی ایک عام نابالغ بچہ چونکہ مکلف نہیں ہوتا اور اس میں رہبری کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لئے اولیاءخدا کو بھی اس منصب پر فائز ہونے کے لئے حتماً بالغ ہونا لازمی ہے جب کہ یہ فکر ہی غلط ہے اس لئے کہ عقل انسانی محدود ہے اس بناءپر اللہ تعالیٰ کے ہرفعل کی حکمت ومصلحت کو عقل انسانی کا درک کرنا اور تسلیم کرنا ضروری نہیں ہے ، اورنہ ہی انسان اس کو سمجھ سکتا ہے ، کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے تھوڑا ساعلم دیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے” وما اوتیتم من العلم الاّ قلیلاً“ لہذا کسی کے عقل کا قبول کرنا یا نہ کرنا معیار نہیں بن سکتا اس کے علاوہ قرآن کریم میں اس کی واضح مثال حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰ(ع) کی شکل میں موجود ہے وہی عیسیٰ (ع) جو حضرت مہدی(ع) کے ظہور کے بعد آپ کی اقتداءمیں نماز پڑھیں گے ، اور تمام امور میں آپ کے تابع فرمان ہوں گے پھر اگر ماموم کو پیدا ہوتے ہی نبوت عطا ہوسکتی ہے ، جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے ” بچہ [قدرت خداسے] بول اٹھا کہ میں بے شک خدا کا بندہ ہوں مجھ کو اس نے کتاب [انجیل] عطا فرمائی ہے اورمجھ کو ” نبی“ بنایا اور میں چاہے کہیں رہوں مجھ کو مبارک بنایا“۔( مریم ، ۰۳، ۱۳”قال انی عبدالله آتانی الکتاب وجعلنی نبیاً وجعلنی مبارکاً این ماکنتُ“)
تو پھر اگر پانچ سال کی عمر میں خود امام اور مقتدیٰ کو ( امامت کا عہدہ عطا ہوا اور ان کے کاندہوں پر پوری امت کی ہدایت وارشاد کی ذمہ داری ڈالدی جائے تو نہ کوئی بعید از عقل بات ہے نہ ہی تعصب کا مقام ، بلکہ اس کی بنیاد قرآن کریم اور ارشاد الہیٰ ہے ” اللّہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “(۔مائدہ ۸۴)
اس آیت میں علم کا حوالہ خود واضح کرتا ہے کہ خداوند کریم اپنے منصب کے قابل افراد کو خوب پہچانتا ہے جس میں انسانی عقل کا عمل دخل اتنا ہی ہے کہ وہ فرمان خدا کے مقابل تسلیم ہوجاتے اس لئے کہ مقصد نبوت وامامت لوگوں کی صحیح رہبری وہدایت ہے اور وہ ”علم ، عصمت ، عقل “کے ساتھ بحسن وخوبی پورا ہورہا ہے ، لہذا سن وسال بلوغ وعدم بلوغ کی قید عام انسانوں کے یہاں تو لازم ہوسکتی ہے مگر خدائی منصب اور عہدے اس سے بالاتر ہیں ، بلکہ ممکن ہے الہیٰ آزمایش کا ایک ذریعہ خود بچپنے میں عہدہ نبوت وامامت کا عطا ہونا ہو۔ جیسا کہ یہودی حضرت عیسیٰ(ع) کے ذریعے آزمائے گئے اورابولہب وابوجہل ہمارے نبی اکرم (ص) کے ذریعے ، جوان کفّار کے مدّ مقابل سن وسال کے اعتبار سے چھوٹے تھے ۔” فااعتبروا یااولی الابصار“(۔سورة حشر، ”فااعتبروا یااولی الابصار“۔)
آنکھیں رکھنے والوعبرت حاصل کرو، اس لئے آنکھیں آندھی نہیں ہوا کرتی بلکہ سینے میں جو دل ہے وہ اندھے ہوجاتے ہیں۔(۔سورہ حج، ۶۴” فانّها الاتعمی الابصار ولکن تعمی القلوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔)