زیارت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا روایات کی روشنی میں-1

اهل بیت(ع) کے بارے میں | الشیعہ اعتقادی، علمی اور ثقافتی سنٹر

زیارت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا روایات کی روشنی میں:

دعا اور زیارت گوشہ تنہائی سے پر کھول کر لقاء اللہ تک عروج کرنے کا نام ہے۔ خالص معنویت کے شفاف چشمے کے آب خوشگوار سے بھرا ہوا شفاف جام ہے، اور حضرت معصومہ کے حرم کی زیارت زمانے کی غبار آلود فضا میں امید کی کرن ہے، غفلت اور بے خبری کے بھنور میں غوطہ کھانے والی روح کی فریاد ہے اور بہشت کے بوستانوں سے اٹھی ہوئی فرح بخش نسیم ہے۔

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے مرقد منور کی زیارت انسان کو خود اعتمادی کا درس دیتی ہے، ناامیدی کی گرداب میں ڈوبنے سے بچا دیتی ہے اور اس کو مزید ہمت و محنت کی دعوت دیتی ہے۔ کریمہ اہل بیت سلام اللہ علیہا کے مزار کی زیارت موجب بنتی ہے کہ زائر خود کو خداوند صمد کے سامنے نیازمند اور محتاج پائے، خدا کے سامنے خضوع و خشوع اختیار کرے، غرور و تکبر کی سواری کہ جو تمام بدبختیوں اور شقاوتوں کا موجب ہے ۔ سے نیچے اتر آئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے۔ اسی وجہ سے آپ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے لئے عظیم انعامات کا وعدہ دیا گیا ہے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے سلسلے میں آئمہ معصومین سے متعدد احادیث و روایت نقل ہوئی ہیں۔

1- قم کے نامور محدث (سعد ابن سعد)۔ کہتے ہیں کہ: "میں امام رضا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو امام ہشتم علیہ السلام نے مجھ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "اے سعد! ہماری ایک قبر تمہارے ہاں ہے۔ میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر فدا ہو کیا آپ فاطمہ بنت موسی بن جعفر کے مزار کی بات کر رہے ہیں؟

فرمایا: من زارها فله الجنّة۔

جو شخص ان کی زیارت کرے، اس کے لیے بہشت ہے۔

ثواب الأعمال

عيون اخبار الرضا(ع)

عوالم العلوم، ج 21، ص 353 نقل از اسنى المطالب ص 49 تا ص 51

2- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

من زارها عارفاً بحقّها فله الجنة۔

جو کوئی ان کی زیارت کرے اور ان کے حق کی معرفت رکهتا ہو اس پر جنت واجب ہے"۔ اور ایک اور حدیث میں ہے کہ: ان کی زیارت بہشت کے ہم پلہ ہے۔

بحار ج 48 صفحه 308

3 ۔ نیز فرمایا: انّ زيارتها تعدل الجنّة۔

بتحقیق ان کی زیارت جنت کے برابر ہے۔

4 ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

من زار المعصومة عارفاً بحقّها فله الجنّة۔

جو شخص از روئے معرفت آپ کی زیارت کرے اس کا انعام جنت ہے۔

عیون اخبارالرضا (ع)

 5 ۔ نیز فرمایا:

من زار المعصومة بقم کمن زارنی۔

جو شخص قم میں حضرت معصومہ(س) کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی ہے۔

6- ابن الرضا امام محمد تقی الجواد (ع) نے فرمایا:

من زار قبر عمّتی بقم فله الجنة۔

جو شخص قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے بہشت اس پر واجب ہے۔

كامل الزيارة

 7۔ ایک مؤمن امام رضا (ع) کی زیارت کے لیے مشہد گیا اور وہاں سے کربلا روانہ ہؤا اور ہمدان کے راستے کربلا چلا گیا۔ سفر کے دوران اس نے خواب میں امام رضا علیہ السلام کی زیارت کی اور امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

کیا ہوتا اگر تم سفر کے دوران قم سے گذرتے اور میری ہمشیرہ کی زیارت کرتے؟

8۔ مولی حیدر خوانساری لکهتے ہیں: روایت ہے کہ امام رضا (ع) نے فرمایا:

جو شخص میری زیارت کے لئے نہ آ سکے رے میں میرے بهائی (حمزه) کی زیارت کرے یا قم میں میری ہمشیره معصومہ کی زیارت کرے اس کو میری زیارت کا ثواب ملے گا۔

زبدة التصانيف، ج6، ص 159، بحوالہ كريمہ اہل بيت، ص 3

احادیث کی مختصر شرح و تفصیل:

گو کہ یہ ساری احادیث حضرت معصومہ (س) کی عظمت کی دلیل ہیں مگر ان روایات میں بعض نکات قابل تشریح ہیں؛ جیسے:

جنت کا واجب ہونا، جنت کے برابر ہونا، بہشت کا مالک ہو جانا، اور ان کی زیارت کا حضرت رضا (ع) کی زیارت کے برابر ہونا اور حضرت رضا علیہ السلام کا اس شیعہ بهائی سے باز خواست کرنا، جس نے حضرت معصومہ (س) کی زیارت نہیں کی تهی۔

حضرت معصومہ (س) کی زیارت کی سفارش صرف ایک امام نے نہیں فرمائی ہے بلکہ تین اماموں (علیہم السلام) نے ان کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے: امام صادق، امام رضا و امام جواد علیہم السلام۔ اور دلچسپ امر یہ کہ امام صادق علیہ السلام نے حضرت معصومه کی ولادت با سعادت سے بہت پہلے بلکہ آپ (س) کے والد امام کاظم (ع) کی ولادت سے بهی پہلے ان کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے۔

دوسرا دلچسپ نکتہ پانچویں روایت میں ہے جس میں حضرت معصومہ کی زیارت امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔

زید شحّام نے امام صادق (ع) سے سوال کیا: "یا بن رسول الله جس شخص نے آپ میں سے کسی ایک کی زیارت کی اس کی جزا کیا ہے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:

جس نے ہم میں سے کسی ایک کی زیارت کی:

 کمن زار رسول الله (ص)

وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے رسول خدا صلی الله و علیہ و آلہ کی زیارت کی ہو۔

چنانچہ جس نے سیده معصومہ(س) کی زیارت کی در حقیقت اس نے رسول خدا (ص) کی زیارت کی ہے۔ اور پهر حضرت رضا علیہ السلام، جو سیدہ معصومہ کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:

الا فمن زارنی و هو علی غسل، خرج من ذنوبه کيوم ولدته امّه۔

آگاه رہو کہ جس نے غسل زیارت کر کے میری زیارت کی وه گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح کہ وه ماں سے متولد ہوتے وقت گناہوں سے پاک تها۔

ان احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیده معصومہ (س) کی زیارت گناہوں کا کفاره بهی ہے اور جنت کی ضمانت بهی ہے بشرطیکہ انسان زیارت کے بعد گناہوں سے پرہیز کرے۔

دو حدیثوں میں امام صادق اور امام رضا علیہما السلام نے زیارت کی قبولیت اور وجوب جنت کے لئے آپ (س) کے حق کی معرفت کو شرط قرار دیا ہے۔ اور ہم آپ (س) کی زیارت میں پڑهتے ہیں کہ:

 يا فاطِمَة اشْفَعی لی فِی الْجَنَّةِ، فَانَّ لَكَ عِنْدَ اللّْه ِشَأْناً مِنَ الشَّأْن۔

اے فاطمہ جنت میں میری شفاعت فرما کیونکہ آپ کے لئے خدا کے نزدیک ایک خاص شأن و منزلت ہے۔

امام صادق علیہ السلام کے ارشاد گرامی کے مطابق تمام شیعیان اہل بیت (ع) حضرت سیده معصومہ سلام الله علیہا کی شفاعت سے جنت میں داخل ہونگے اور زیارتنامے میں ہے کہ آپ ہماری شفاعت فرمائیں کیوں کہ آپ کے لئے بارگاہ خداوندی میں ایک خاص شأن و منزلت ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ یہ شأن، شأنِ ولایت ہے جو سیده(س) کو حاصل ہے اور اسی منزلت کی بنا پر وه مؤمنین کی شفاعت فرمائیں گی اور اگر کوئی اس شأن کی معرفت رکهتا ہو اور آپ کی زیارت کرے تو اس پر جنت واجب ہے۔

زیارت اور اس کا فلسفہ:

عقیدہ شیعہ میں ایک مقدس و معروف کلمہ،کلمہٴ زیارت ہے اسلام میں جن آداب کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے ان میں سے ایک اہل بیت علیہم السلام اور ان کی اولاد اطہار کی قبور مبارک کی زیارت کے لیے سفر کرنا ہے۔

احادیث میں رسول الله صلی الله علیہ و آلہ اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے اس امر کی بڑی تاکید ہے۔

رسول خدا (ص) نے فرمایا:

من زارنی او زار احدا من ذريتی زرته يوم القيامة فانقذته من اهوائها۔

جو میری یا میری اولاد میں سے کسی کی زیارت کرے گا مین قیامت کے دن اس کے دیدار کو پہنچوں گا اور اسے اس دن کے خوف سے نجات دلاؤں گا۔

کامل الزیارات ص11

امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

من اتی قبر الحسين عارفا بحقه کان کمن حج مأة حجة مع رسول الله۔

جو معرفت حقہ کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے گا تو گویا اس نے 100 حج رسول اللہ کے ساتھ انجام دیئے۔

بحار الانوار ج 101، ص 42

ایک دوسری روایت مین امام صادق (ع) نے فرمایا:

امام حسین (ع) کی زیارت ہزار حج و عمرہ کے برابر ہے۔

بحار الانوار ج 101، ص 43۔

امام رضا (ع) نے اپنی زیارت کے لئے فرمایا:

جو شخص معرفت کے ساتھ میری زیارت کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔

بحار الانوار ج 102، ص33

امام علی نقی (ع) نے فرمایا:

جس نے عبد العظیم(ع) کی قبر کی زیارت کی گویا اس نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہے۔

بحار الانوار ج 102، ص265

امام جواد (ع) نے بھی امام رضا علیہ السلام کے لیے فرمایا:

اس شخص پر جنت واجب ہے جو معرفت کے ساتھ (طوس میں) ہمارے بابا کی زیارت کرے۔

حضرت معصومہ (س) کی زیارت کے بارے میں وارد ہونے والی روایات بهی مندرجہ بالا سطور میں بیان ہوئیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ان فضائل و جزا کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا یہ تمام اجر و ثواب بغیر کسی ہدف کے فقط ایک بار ظاہری طور پر زیارت کرنے والے کو میسر ہو گا ؟

در حقیقت زیارت کا فلسفہ یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات سے آخرت کے لئے زاد راہ فراہم کریں اور خدا کی راہ میں اسی طرح قدم اٹھائیں جس طرح کہ ان بزرگوں نے اٹھائے۔ زیارت معصومین (ع) کے سلسلے میں وارد ہونے والی اکثر احادیث میں شرط یہ ہے کہ ان کے حق کی معرفت کے ساتھ ہو تو تب ہی اس کا اخروی ثمرہ ملنے کی توقع کی جا سکے گی۔

یہ بزرگ ہستیاں، عالم بشریت کے لئے نمونہ اور مثال ہیں، ہمیں ان کا حق پہچان کر ان کی زیارت کے لئے سفر کی سختیان برداشت کرنی ہیں اور ساتھ ہی خدا کی راہ میں ان کی قربانیوں اور قرآن و اسلام کی حفاظت کی غرض سے ان کی محنت و مشقت سے سبق حاصل کرنا ہے اور اپنی دینی اور دنیاوی حاجات کے لئے ان سے التجا کرنی ہے کہ ہماری شفاعت فرمائیں اور اس کے لئے ان کے حق کی معرفت کی ضرورت ہے۔

حضرت معصومہ (س) کا مأثور زیارتنامہ:

ہر بارگاہ میں زیارت کا ایک خاص دستور ہوتا ہے۔ حضرت معصومہ (س) کی بارگاہ میں بھی مشرف ہونے کے خاص آداب ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کی زیارت کے لئے معتبر روایتوں سے زیارت نامہ منقول ہے تا کہ مشتاقان زیارت ان نورانی جملوں کی تلاوت فرما کر رشد و کمال کی راہ میں حضرت سے الہام حاصل کر سکیں اور رحمت حق کی بھی ساحل سمندر سے اپنی توانائی اور اپنے ظرف کے مطابق کچھ قطرے ہی اٹها سکیں۔

حضرت معصومہ (س) کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے لیے آئمہ معصومین سے مأثور و منقول زیارت نامہ نقل و ذکر ہوا ہے۔ سیدة العالمین حضرت فاطمہ زہرا (س) کے بعد آپ (س) پہلی بی بی ہیں جن کے لیے آئمہ اطہار (ع) کی طرف سے زیارت نامہ وارد ہوا ہے۔

تاریخ اسلام میں رسول اللہ (ص) کی والدہ حضرت آمنہ بنت وہب، حضرت امیر المؤمنین (ع) کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت سیدہ (س) کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خویلد، حضرت ابو الفضل (ع) کی والدہ فاطمہ بنت ام البنین، شریکۃ الحسین ثانی زہرا حضرت زینب، حضرت امام علی النقی (ع) کی ہمشیرہ حضرت حکیمہ خاتون اور حضرت امام مہدی (عج) کی والدہ ماجدہ حضرت نرجس خاتون (سلام اللہ علیہن اجمعین) جیسی عظیم عالی مرتبت خواتین ہو گزری ہیں جن کے مقام و منزلت میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر ان کے بارے میں معصومین سے کوئی مستند زیارتنامہ وارد نہیں ہوا ہے جبکہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے لیے زیارتنامہ وارد ہوا ہے اور یہ حضرت معصومہ(س) کی عظمت کی نشانی ہے، تا کہ شیعیان و پیروان اہل بیت عصمت و طہارت بالخصوص خواتین اس عظمت کا پاس رکھیں اور روئے زمین پر عفت و حیاء اور تقوی و پارسائی کے عملی نمونے پیش کرتی رہیں، کہ صرف اسی صورت میں ہے آپ سلام اللہ علیہا کی روح مطہر ہم سے خوشنود ہوگی اور ہماری شفاعت فرمائیں گی۔

حضرت فاطمہ معصومہ (س) اور لقب (معصومہ و عالمہ غیر معلمہ):

مشہور لقب معصومہ کی عطا:

 کتاب ناسخ التواریخ کے مطابق لقب:‘‘ معصومہ ’’ حضرت امام رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا اور واضح ہے کہ کوئی بھی معصوم کسی غیر معصوم کو معصومہ خطاب نہیں فرماتےلہذا یہ عالمہ غیر معلمہ بی بی درجۂ عصمت پر فائز ہیں۔

 معصومہ کے علاوہ دوسرا مشہور لقب"عالمہ غیر معلمہ" ہے،

یہ لقب کس نے دیا تھا ؟

تین معصومین حضرت امام زین العابدین (ع)،حضرت امام موسی کاظم (ع) اور حضرت امام علی رضا (ع) نے یہ القاب بی بی کی ولادت با سعادت سے پہلے عطا فرمائے۔

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا جنتی خاتون، عبادت اور خدا کی ساتھ راز و نیاز میں ڈوبی ہوئی، بدیوں سے پاک اور عالم خلقت کا شبنم ہیں۔ شاید اس بی بی کو لقب (معصومہ)، اسی لیے ملا ہے کہ ماں زہرا (س) کی عصمت آپ (س) کے وجود میں جلوہ گر ہو گئی تھی۔ بعض روایات کے مطابق یہ لقب حضرت رضا (ع) نے اپنی ہمشیرہ مطہرہ کو عطا فرمایا تھا۔ جیسا کہ بلند اندیش شیعہ محدث علامہ محمد باقر مجلسی (رہ) روایت کرتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ زَارَ الْمَعصُومَةَ بِقُمْ كَمَنْ زَارَنى۔

جو شخص قم میں حضرت معصومہ (س) کی زیارت کرے، گویا کہ اس نے میری زیارت کی ہے۔

ناسخ التواريخ، ج 3، ص 68،

كريمہ اہل بيت"، ص 32۔

کریمہ اہل بیت علیہم السلام:

یہ لقب امام معصوم کی جانب سے سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو عطا ہوا ہے جو آپ (س) کی مرتبت کی بلندی پر دلالت کرتا ہے۔

انسان عبادت و بندگی خداوند عالم کے نتیجے میں مظہر ارادہ حق اور واسطہ فیض الٰہی قرار پا سکتا ہے، یہ ذات اقدس الہی کی عبودیت کا ثمرہ ہے چنانچہ خداوند عالم حدیث قدسی میں فرماتا ہے:

انا اقول للشيء کن فيکون اطعنی فيما امرتک اجعلک تقول للشيء کن فيکون۔

اے فرزند آدم میں کسی چیز کے لئے کہتا ہوں کہ ہوجا! پس وہ وجود میں آ جاتی ہے، تو بھی میرے بتائے ہوئے راستوں پر چل؛ میں تجھ کو ایسا بنادوں گا کہ کہے گا ہو جا ! وہ شیء موجود ہو جائے گی۔

مستدرک الوسائل ج 2، ص298

امام صادق (ع) نے بھی فرمایا:

العبودية جوھرية کنهها الريوبية۔

یعنی خدا کی بندگی ایک گوہر ہے جس کی نہایت اور اس کا باطن موجودات پر فرمانروائی ہے۔

مصباح الشریعة باب 100

اولیائے خدا جنہوں نے بندگی و اطاعت کی راہ میں دوسروں سے سبقت حاصل فرمائی اور اس راہ کو خلوص کے ساتھ طے کیا وہ اپنی اس با برکت عارضی زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی کرامات و عنایات کا منشأ ہیں۔ اور یہ سب ان کی پاکیزہ زندگی کا نتیجہ ہے۔

آستان قدس فاطمی قدیم الایام سے ہی ہزاروں کرامات و عنایات ربانی کا مرکز و معدن رہا ہے، کتنے نا امید قلوب خدا کے فضل و کرم سے پر امید ہوئے، کتنے تہی داماں، رحمت ربوبی سے اپنی جھولی بھر چکے،اور کتنے ٹهکرائے ہوئے اس در پر آ کر کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کے فیض و کرم سے فیضیاب ہوئے اور خوشحال و شادماں ہو کر لوٹے ہیں اور اولیائے حق کی ولایت کے سائے میں ایمان محکم کے ساتھ اپنی زندگی کی نئی بنیاد رکهی ہے۔ یہ تمام چیزیں اسی کنیز خدا کی روح کی عظمت اور خداوند متعال کے فیض و کرم کے منبع بے کراں کی نشاندہی کرتی ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ سیده معصومہ(س) کریمہ اہل بیت (ع) ہیں۔

اسی بنا پر شیعہ فقہاء، دانشور اور علماء کی زبان میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا (کریمہ اہل بیت)، کے لقب سے مشہور ہیں۔

شفاعت حضرت معصومہ (س):

بے شک شفاعت کا والا ترین اور بالا ترین مقام رسول اللہ (ص) کا مقام ہے اور آپ (ص) کا مقام قرآن مجید میں مقام محمود قرار دیا گیا:

و َمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا۔

 اور رات کے ایک حصے میں بیدار ہوں اور قرآن (اور نماز) پڑہیں۔ یہ آپ کے لیے ایک اضافی فریضہ ہے، امید رکهیں کہ خدا آپ کو مقام محمود (قابل ستائش و تعریف مقام) عطا فرما کر محشور و مبعوث کرے گا۔

سوره اسراء آیت 79

اسی طرح خاندان احمد مختار (ص) میں دو خواتین کے لئے وسیع شفاعت مقرر ہے، جو بہت ہی وسیع اور عالمگیر ہے اور پورے اہل محشر بھی ان دو عالی مرتبت خواتین کی شفاعت کے دائرے میں داخل ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ شفاعت کے لائق ہوں۔

یہ دو عالیقدر خواتین صدیقہ طاہرہ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور شفیعہ روز جزا، حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا ہیں۔ حضرت ام الحسنین (ع) کا مقام شفاعت جاننے کے لیے یہی جاننا کافی ہے کہ شفاعت آپ (س) کا حق مہر ہے اور جب بحکم الہی آپ (ع) کا نکاح قطب عالم امکان حضرت علی ابن ابیطالب (ع) سے ہو رہا تھا، قاصد وحی نے خدا کا بھیجا ہوا شادی کا پیغام رسول اللہ (ص) کے حوالے کیا۔ وہ تحفہ ایک ریشمی کپڑا تھا جس پر تحریر تھا:

امت محمد(ص) کے گنہگاروں کی شفاعت خداوند عالم نے فاطمہ زہراء (س) کا حق مہر قرار دیا ہے۔

یہ حدیث اہل سنت کے منابع میں بھی نقل ہوئی ہے۔

سیدہ زہراء (س) کے بعد کسی بھی خاتون کو شفیعہ روز محشر حضرت معصومہ (س) کا مقام شفاعت حاصل نہیں ہے۔ اسی لیے حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ:

جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں، میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون جن کا نام فاطمہ ہے ۔ قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں وارد ہوں گے۔

حضرت امام رضا(ع) سے حضرت معصومہ(س) کی محبت:

عرصہ 25 برس تک حضرت رضا علیہ السلام حضرت نجمہ خاتون سلام اللہ علیہا کے اکلوتے فرزند تھے۔ اور 25 سال بعد نجمہ خاتون (س) کے دامن مبارک سے ایک ستارہ طلوع ہوا جس کا نام فاطمہ رکھا گیا۔ امام علیہ السلام نے اپنے والا ترین احساساتِ نورانی اپنی کمسن ہمشیرہ کے دل کی اتہاہ میں ودیعت رکھ لیں۔ یہ دو بھائی بہن حیرت انگیز حد تک ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کا فراق ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ زبان ان دو کے درمیان محبت کی گہرائیاں بیان کرنے سے قاصر ہے۔ امام موسی کاظم (ع) کے ایک معجزے  کے دوران جس میں سیدہ معصومہ(س) کا بھی کردار ہے ۔ جب نصرانی اس کم سن امامزادی سے پوچھتا ہے:

آپ کون ہیں؟

تو آپ (س) جواب دیتی ہیں:

میں معصومہ ہوں امام رضا(ع) کی ہمشیرہ ہوں۔

سیدہ (س) کے اس بیان سے دو چیزوں کا اظہار ہوتا ہے: ایک یہ کہ آپ (س) اپنے بھائی سے حد درجہ محبت کرتی تھیں۔ دوسری بات یہ کہ آپ (س) امام رضا (ع) کو اپنی شناخت کی علامت سمجھتی تھیں اور امام (ع) کی بہن ہونے کو اپنے لئے اعزاز اور باعث فخر سمجھتی تھیں۔

خواتین کی سرور و سردار:

فاطمہ معصومہ (س) انفرادی اور ذاتی شخصیت و روحانی کمالات کے لحاظ سے امام موسی بن جعفر (ع) کی اولاد میں علی بن موسی الرضا (ع) کے بعد دوسرے درجے پر فائز تھیں۔ بالفاظ دیگر اپنے بھائی بہنوں میں آپ (س) کا درجہ امام رضا (ع) کے بعد دوسرا تھا۔

علم رجال کے منابع کے حوالے سے امام موسی بن جعفر (ع) کی 18 بیٹیاں تھیں اور حضرت معصومہ سب کی سرور تھیں یہی نہیں بلکہ بھائیوں میں بھی امام رضا کے بعد کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا۔

محدث بزرگوار شیخ عباس قمی (رہ) امام کاظم(ع) کی بیٹیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: جو روایات ہم تک پہنچی ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان سب سے افضل و برتر سیدہ جلیلہ حضرت فاطمہ بنت امام موسی بن جعفر(ع) ہیں جو معصومہ کے لقب سے مشہور ہوئی ہیں۔

بے مثال فضیلت:

شیخ محمد تقی تُستری، اپنی کتاب قاموس الرجال میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا ایک مثالی خاتون (اور خواتین کے لیے اسوہ کاملہ) کے عنوان سے تعارف کراتے ہیں جو امام رضا(ع) کے بعد اپنے بھائیوں اور بہنوں کے درمیان بے مثال تھیں۔ وہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ:

امام موسی ابن جعفر علیہ السلام کی اولاد کی کثرت کے باوجود امام رضا علیہ السلام کو چھوڑ کر کوئی بھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے ہم پلہ نہیں ہے۔

بے شک فاطمہ دختر موسی بن جعفر (ع) کے بارے میں اس طرح کے اظہارات ان روایات و احادیث پر استوار ہیں جو آئمہ معصومین علیہم السلام سے آپ (ع) کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ یہ روایات سیدہ معصومہ (س) کے لئے ایسے مراتب و مدارج بیان کرتی ہیں جو آپ (س) کے دیگر بھائیوں اور بہنوں کے لیے بیان نہیں ہوئے ہیں۔ اور اس طرح فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا نام دنیا کی برتر خواتین کے زمرے میں قرار پایا ہے۔

بوئے وصال:

بے شک اہل بیت رسول (ص) نے نہایت روشن چہرے عالم بشریت کے حوالے کیے ہیں جن کے نام درخشان ستاروں کی مانند فضیلتوں کے آسمان پر چمک رہے ہیں۔ ولایت کے ساتویں منظومے کی بزرگ خواتین کے درمیان فاطمہ بنت موسی بن جعفر(ع) درخشان ترین ستارہ ہیں۔ ایسی خاتون جن کی حرم مطہر و نورانی سے علم و معرفت کے پیاسے ایمان کا آب حیات نوش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ عرفا آپ کی زندگی کا تجزیہ کر کے، آپ کے ان لمحوں کا سراغ لگاتے ہیں جب آپ (س) آسمانی وجود میں تبدیل ہوئی تھیں اور اس طرح وہ اپنے لیے عروج عارفانہ کی راہیں ڈھونڈتے ہیں اور کائنات کی وسعتوں میں شمیم وصال پھیلا دیتے ہیں۔

پیغام کے دو نکتے:

1 ۔ اتنا بڑا مقام کیوں ؟

پوچھتے ہیں اتنا اونچا مقام کیوں؟ جبکہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی کئی بہنیں تھیں یہ سیدہ ان سے برتر و افضل کیوں تھیں؟

جواب: یہ سوال حضرت زہرا سلام علیہا کے بارے میں بھی پوچھا جاتا ہے اور جواب یہ ہے کہ: یہ دو خواتین ذاتی اور خاندانی شرافت کے ساتھ ساتھ، ایمان اور عمل کے میدان میں بھی ممتاز تھیں اور اس سلسلے میں انھوں نے اپنے انتخاب سے اعلی انسانی اقدار کے اعلی مدارج و مراتب طے کیے تھے اور اپنے عرفان و عمل کی بنا پر اس مقام و منزلت تک عروج کر چکی تھیں۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عمل، عرفان، ایمان، سیاست، اور مقام امامت کی حمایت کے سلسلے میں ممتاز تھیں اور آخر کار اسی راستے میں مرتبہ شہادت حاصل کر گئیں۔

سیدہ معصومہ نے قم میں اپنی سترہ دن عبادت اور خداوند قدوس کے ساتھ راز و نیاز میں گزار دیئے، یہاں تک کہ آپ کی قیامگاہ کو (بیت النور)۔ کا نام دیا گیا ہے اور یہ عبادتگاہ اس وقت قم کے میدان میر کے محلے اور مدرسہ ستّیہ میں واقع ہے اور آج بھی یہ مقام آپ (س) کی نورانیت اور اپنے خالق یکتا کے ساتھ آپ(س) کی قربت کے خلوص کی گواہی دے رہا ہے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی اٹھائیس سالہ پر برکت زندگی کی ثمر بخشی کے اثبات کے لیے یہی جاننا کافی ہے کہ قم میں آپ (س) کے سترہ روزہ قیام نے قم کے حوزہ علمیہ کو بقائے جاودانہ بخشی اور قم نے آپ ہی کی برکت سے دسیوں ہزار محقق، عالم، دانشور، مراجع اور مجتہدین عالم تشیع کے حوالے کر دیئے۔ اکابر علماء منجملہ امام رضا (ع) کے صحابی زکریّا بن آدم اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے وکیل حسن بن اسحاق، سے لے کر علمائے مفکر اور مراجع تقلید ۔ منجملہ میرزائے قمی، آیت اللہ شیخ ابو القاسم قمی، آیۃ اللہ حائری، آیۃ اللہ صدر، آیۃ اللہ سید محمد تقی خوانساری، آیۃ اللہ حجّت، آیۃ اللہ بروجردی، آیۃ اللہ سید احمد خوانساری، آیۃ اللہ گلپایگانی، آیۃ اللہ مرعشی نجفی، آیۃ اللہ اراکی، علامہ طباطبائی، استاد شہید مرتضی مطہری و حضرت امام خمینی (اعلی اللہ مقامہم الشّریف) تک، سب کے سب عالم عالمۂ آل عبا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے وجود کی برکت سے اس سر زمین پر نشو و نما پا چکے ہیں اور بی بی ہی کے وجود نے حوزہ علمیہ کو مرکزیت و محوریت عطا فرمائی ہے اور قم نے آپ ہی کی برکت سے مدینہ فاضلہ کی حیثیت اختیار کی ہوئی ہے۔ ۔ ۔ اس علم و معرفت کے چراغ کو بجھانے کی بہت کوششیں  گئیں، لیکن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا:

خداوند کا فرمان ہے کہ:

یُرِيدُونَ أَن يُطْفِؤُواْ نُورَ اللّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ۔

وہ اپنی منہ سی خدا کا نور بجھانا چاہتی ہین لیکن خداوند متعال اپنا نور مکمل کرنی کی سوا کچھ نہین چاہتا خواہ کفار اکمال و اتمام نور کی ناپسند ہی کیوں نہ کریں۔

سوره توبہ آیت 32

سورہ صف آیت 8

خداوند عالم، انبیاء عظام، ائمہ طاہرین، اولیائے الہی، حقیقی مجاہدین اور سُکّان ارض و سماء کا سلام و درود ہو اس سیدہ کریمہ اہل بیت(ع) پر اس بزرگ خاتون پر، جس کا چشمہ فیض دائما جاری ہے اور جس کا سر چشمہ نور ہر وقت دنیا کی تاریکیوں میں امید ہدایت کے روشن نقاط اجاگر کرتا ہے۔ درود و سلام ہو اس کوثرِ ولایت پر۔

مختصر یہ کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایمان اور عمل انسان کو مقامات عالیہ اور مراتب و مدارج رفیعہ کے معراج تک پہنچاتا ہے امام(ع) فرماتے ہیں:

فو الله ماشيعتنا الاّ من اتّقی الله و اطاعه۔

خدا کی قسم وہ شخص ہمارے شیعوں میں سے نہیں ہے جو متقی و پرہیزگار نہ ہو اور جو خدا کی اطاعت نہ کرتا ہو۔

نیز امام پنجم (ع) نے فرمایا:

لا تنال ولايتنا الا بالعمل و الورع۔

ہماری دوستی اور ولایت تک پہنچنا نیک عملی اور پرہیزگاری کے سوا ممکن نہیں ہے۔

حضرت معصومہ (ع) سے منقول روایات:

1ـ عَنْ فَاطِمَةُ بِنْتَ موسَى بْن جَعْفَر (ع) عن فاطمة بنت جعفر الصادق (ع) عن فاطمة بنت محمد الباقر (ع) عن فاطمة بنت علی زین العابدين (ع) عن فاطمة بنت الحسين (ع) عن زينب بنت اميرالمؤمنين (ع) عَنْ فَاطِمَةَ بِنْت ِرَسُول ِاللّهِ صَلَّى اللّه عليه ِوَ آله وِ سَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللّهِ عليه ِوَ آله ِوَ سَلَّمَ: ألا مَنْ ماتَ عَلى حُبِّ آل ِمُحَمَّد ماتَ شَهِيداً۔

حضرت فاطمہ معصومہ (ع) فاطمہ بنت امام جعفر صادق (ع) سے وہ فاطمہ بنت امام باقر (ع) سے وہ فاطمہ بنت امام سجاد (ع) سے وہ فاطمہ بنت امام حسین (ع) سے وہ زینب بنت امیر الموٴمنین (ع) وہ فاطمہ الزہراء (س) سے نقل فرماتی ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ (ع) نے فرمایا: آگاہ ہو جاوٴ کہ جو آل محمد کی محبت پر مرے وہ شہید کی موت مرا ہے۔

آثار الحجة محمد رازی ص  9 ، نقل از اللولؤ الثمینہ ص 217

2- حضرت علی (ع) اور ان کے شیعوں کی قدر و منزلت:

فاطمہ معصومہ (ع) (اسی مذکورہ سند سے ) فاطمہ زہرا (س) سے نقل فرماتی ہیں کہ پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا: جب شب معراج، میں بہشت میں داخل ہوا تو ایک قصر دیکھا جس کا ایک دروازہ یاقوت اور موتیوں سے آراستہ تھا اس کے دروازے پر ایک پردہ آویزاں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا:

لا اله الا الله محمد رسول الله علی ولی القوم۔

خدا کے علاوہ کوئی لائق پرستش نہیں محمد اللہ کے رسول اور علی لوگوں کے رہبر ہیں۔

اور اس کے پردے پر لکھا تھا:

 بخٍ بخٍ من مثل شيعة علی:

 خوشا بحال خوشا بحال، شیعیان علی علیہ السلام کی مانند کون ہے؟

 میں اس قصر میں داخل ہوا وہاں ایک عمارت دیکھی جو عقیق سرخ سے بنی ہوئی تھی اس کا دروازہ چاندی کا تھا جو زبرجد سے مرصع تھا اس در پر بھی ایک پردہ آویزاں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا:

محمد رسول الله علی وصی المصطفی۔

محمد خدا کے رسول اور علی مصطفی کے وصی ہیں۔

اس کے پردے پر مرقوم تھا:

بشِّر بشيعة علی بطيب المولد،

علی شیعوں کو حلال زادہ ہونے کی مبارک باد دیدو۔

میں داخل ہوا تو وہاں زبرجد سے بنا ہوا ایک محل دیکھا جس سے بہتر میں نے نہیں دیکھا تھا اس محل کا دروازہ سرخ یاقوت کا تھا جو موتیوں سے مزین تھا اس پر ایک پردہ لٹکا تھا میں نے سر اٹھایا تو پردے پر لکھا ہوا دیکھا کہ:

شيعة علی هم الفائزون۔

علی کے شیعہ ہی کامیاب ہیں۔

میں نے جبرئیل سے سوال کیا کہ یہ محل کس کا ہے جبرئیل نے کہا آپ کے چچا زاد بھائی، وصی و جانشین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کا ہے، قیامت کے دن سب بجز علی کے شیعوں کے ننگے پاوٴں وارد ہونگے۔

بحار ج 68 ، ص 76

3- حضرت معصومہ (س) روایت کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

من اصعد الی الله خالص عبادته اهبط الله عز و جل اليه افضل مصلحته۔

جو شخص اپنی خالص عبادت اللہ تعالی کی بارگاہ میں بھیجے گا خدا اپنی بہترین مصلحتیں اس کی جانب نازل کرے گا۔

بحار الانوار، ج 70، ص 249

 عدّة الدّاعی ص 218

 بحارالانوار ج 67 ، ص 249

 میزان الحکمة ج 2 ، ص 882

 تفسیر الامام العسکری ص 327

حدیث غدیر اور حدیث منزلت:

4ـ عن فاطمة بنت علی بن موسی الرضا حدثتنی فاطمة و زينب و ام کلثوم بنات موسی بن جعفر عليه السلام قلن حدثتنا فاطمة بنت جعفر بن محمد الصادق ، حدثتنی فاطمة بنت محمد بن علی ، حدثتنی فاطمة بنت علی بن الحسين ، حدثتنی فاطمة و سکينة ابنتا الحسين بن علی عن ام کلثوم بنت فاطمة بنت النبی صلی الله عليه و اله و سلم عن فاطمة بنت رسول الله صلی الله عليه و آله قالت: {انسيتم قول رسول الله صلی الله عليه و آله و سلم يوم غدير خم: من کنت مولاه فعلی مولاه و قوله صلی الله عليه و آله و سلم: انت منی بمنزلة ہارون من موسی۔

فاطمہ بنت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام،امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹیوں فاطمہ زینب اور ام کلثوم (سلام اللہ علیہن) سے نقل فرماتی ہیں کہ انھوں نے فاطمہ بنت جعفر صادق(ع) سے اور انھوں نے فاطمہ بنت محمد بن علی (ع) سے، انھوں نے فاطمہ بنت علی بن الحسین (ع)، فاطمہ بنت زین العابدین (ع) نے فاطمہ اور سکینہ بنت الحسین(ع) سے انھوں نے ام کلثوم دختر فاطمہ بنت رسول الله (ص) سے نقل فرمایا ہے کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں سے دریافت کیا: کیا تم غدیر خم کے دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کا ارشاد ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ (جس کا میں مولا ہوں پس اس کے علی مولا ہیں،) اور آپ (ص) کا قول انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی (اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسی سے تھی ) بهول گئے  ہو ؟

الغدیر ج  1 ، ص 196

آپ کی قبر منور شہر قم میں مشہور و معروف ہے ۔ اس میں بلند قبے، ضریح، متعدد صحن اور بہت سے خدام اور بہت سے اوقاف ہیں ۔ اہل علم کی آنکھوں کی روشنی اور عام انسانوں کے لیے پناہ گاہ ہے ۔ ہر سال بے شمار لوگ دور دور کے ملکوں اور شہروں سے سفر کرتے ہیں اور زحمت برداشت کر کے ان معظمہ کی زیارت سے فیض و برکت حاصل کرتے ہیں ۔ ان معظمہ کی فضیلت و جلالت بکثرت حدیثوں سے معلوم ہوتی ہے جیسا کہ شیخ صدوق (رہ) نے حسن سند کے ساتھ جو مثل صحیح کے ہے سعد بن سعد سے روایت کی ہے کہ امام رضا (ع) سے سوال کیا حضرت فاطمہ (ع) بنت موسی (ع) بنت جعفر (ع) کے بارے میں تو فرمایا جو ان کی زیارت کرے اس کے لیے بہشت ہے، اور معتبر سند کے ساتھ آپ کے فرزند امام محمد تقی (ع) سے منقول ہے کہ جو شخص میری پھوپھی کی زیارت قم میں کرے اس کے لیے بہشت ہے۔

قم میں حضرت معصومہ (ع) کا روضہ مشہد ميں حضرت امام رضا (ع) کے روضۂ اقدس کے بعد ایران کا دوسرا با رونق مزار ہے جہاں روزانہ ہزاروں زائرین آپ (ع) کی زیارت کرتے ہيں۔

تاریخِ قم میں کہا گیا ہے کہ قم کو محبّان اہل بیت (ع) کے ایک گروہ نے آباد کیا جو اموی دور میں حکام کے مظالم سے بچنے کے لیے فرار ہو کر آئے تھے، اس سے پہلے یہاں خانہ بدوش لوگ پانی اور چارے کے ذخائر کی وجہ سے یہاں آتے جاتے رہتے تھے، قم آنے والے افراد میں علماء محدثین بھی شامل تھے۔ عباسی دور میں سادات کی بڑي تعداد عرب ممالک سے ہجرت کر کے قم آئے ۔ ان میں حضرت امام تقی (ع) کے فرزندِ ارجمند حضرت موسی مبرقع (ع) قابل ذکر ہیں جن کا مزار بھی قم ميں ہے۔ قم کی دینی درسگاہ مختلف تاریخی ادوار ميں آباد رہی لیکن اس درسگاہ کو اُس وقت خاص اہمیت مل گئی جب 1340 ہجری میں آیت اللہ العظمی حائری یزدی (رح) اراک شہر سے ہجرت کر کے قم آئے، آپ کے ساتھ شاگرد ارجمند حضرت امام خمینی (رح) بھی قم آئے۔ آیت اللہ حائری یزدی (رح) کی وفات کے بعد آیت اللہ بروجردی (رح) نے اس درسگاہ کو فروغ دیا ۔  اُن کی رحلت کے بعد امام خمینی (رح) سمیت دیگر مراجع دین نے علم و دانش کے فروع ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1962ہج بارگاہ حضرت معصومہ(ع) سے ہی حضرت امام خمینی (رح) کی قیادت ميں ایران کے اسلامی انقلاب کا آغاز ہوا۔ اسی لیے قم کو شہرِ علم و قیام (انقلاب) اور شہر علم و شہادت بھی کہتے ہیں، اس شہر کے باشندوں نے اسلام کی سر بلندی کے لیے بیش بہا قربانیاں دیں اور یہ سب حضرت معصومہ(ع) کے وجود اقدس کے طفیل ہے۔