حضرت آدمؑ کی عصمت کے بارے میں اعتراض

حضرت آدمؑ کی عصمت کے بارے میں اعتراض

آجکل ہمارے ہاں حضرت آدمؑ کی بحث جاری ہے گرچہ یہ بحث زمانہ قدیم سے ہے اور ہمارے بزرگان نے اسکا کافی و شافی جواب دیا ہے۔لیکن بعض حضرات کی جانب سے اسی بات کو دوبارہ دہرایا گیا ہےلہذا اختصار کے ساتھ اسکا جواب پیش کیا جاتا ہے۔

اس اعتراض کے جواب سے پہلے “عصمت” کے بارے میں چند نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے۔

عصمت کا لغوی معنی:

                                                عصمت لغوی اعتبار سے “منع کرنے اور روکنے”کے معنی میں ہے۔لسان العرب اور مقاییس اللغۃ مادہ “عصم” کے ذیل میں۔

عصمت کا اصطلاحی معنی:

                        ان  العصمة عبارة عن لطف یفعله الله بالمکلف بحیث لا یکون له (مع ذالک)داعٍ الی ترک الطاعة ولا الی فعل المعصیة مع قدرته علی ذالک۔[1]

عصمت عبارت ہے اس لطف سے جو پروردگار عالم اپنے مکلف کے لیے انجام دیتا ہے (پھر)اس لطف الٰہی کے سایہ میں مکلف کیلئے اطاعت کو ترک کرنے یا معصیت کو انجام دینے کا کوئی انگیزہ ہی باقی نہیں رہتا البتہ ترک طاعت اور فعل معصیت پر قادر ہوتا ہے۔

مذکورہ عصمت کی تعریف مشہور متکلم فاضل مقداد سے نقل کی گئی ہے باقی دوسرے متکلمین نے بھی تقریبا یہی تعریف بیان کی ہے۔

عصمت کے بارے میں اہم نکات:

                        الف: عصمت ایک وہبی چیز ہے یعنی عصمت اس دنیا میں آکر نبی یا امام اکتساب نہیں کرتا بلکہ یہ ایک لطف وعنایت الٰہی ہے جو اول پیدائش سے ہی نبی اور امام کو حاصل ہوتی ہے۔

                                                ب: عصمت کی صورت میں نبی یا امام مجبور نہیں ہوتا بلکہ اختیار و قدرت کے باوجود معصیت الٰہی نہیں کرتا۔

                                                ج:عصمت کے دو اہم رکن ہیں:

معصوم ،خطا، نسیان اور سہو سے محفوظ ہوتا ہے یعنی معصوم سے اشتباہ یا بھول چوک کی وجہ سے بھی غلطی نہیں ہو

ہوتی۔

معصوم عمدا ًبھی معصیت خدا نہیں کرتا۔

د:عصمت کا سرچشمہ وہ لطف و عنایت الٰہی ہے جو علم کی صور ت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔

وضاحت: پروردگار عالم معصوم کو گناہ اور معصیت کی حقیقت کا علم عطا کرتاہے جس علم کی بدولت  گناہ کی زشتی اتنی واضح اور عیاں ہوجاتی ہے جیسے ہمارے لیے غلاظت کی زشتی واضح ہوتی ہے۔

سوال: کیا علم بھی عصمت کا باعث بنتا ہے؟

جواب:بالکل، کبھی کبھار علم اتنا قوی ہوتا ہے کہ انسان مخالفت کا سوچ بھی نہیں سکتا مثلا کبھی بھی کسی نے  غلاظت کھانے کا تصور بھی کیا ہے؟بالکل بھی نہیں، کیوں؟

اس لیے کہ اس عمل کی شناعت اور زشتی ہمارے لیے اتنی روشن اور عیاں ہے کہ اس عمل کا سوچ بھی نہیں سکتے اس اعتبار سے معصوم کیلئے معصیت اور گناہ کی شناعت اور زشتی واضح اور روشن ہوتی ہے کہ اس عمل کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

ذرا غور کیجئے!

مذکورہ صورت میں انسان مجبور نہیں ہوتا اپنے اختیار کے ساتھ ہی اس عمل کو انجام دیتا ہے۔

ھ: عصمت کیلئے اہم ترین دلیل یہ ہے:

                        “پروردگار عالم انبیاء اور اپنے نمائندے لوگوں کی سعادت دنیوی اور اخروی کی وجہ سے مبعوث کرتاہے تاکہ لوگوں کو اپنے ہدف اور سعادت تک رہنمائی کرسکے اور یہ کام اسی صورت میں ہوگا جب عام لوگوں کو الٰہی نمائندے پر اعتماد ہو ۔اب اگر یہی انبیاء خطا  اور گناہ و معصیت  کا ارتکاب کریں تو لوگ ان پر اعتبار نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں بعثت کا ہدف پورا نہیں ہوگا۔

اسی دلیل کو خواجہ نصیرالدین طوسیؒ نے تجرید الاعتقاد میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

یجب فی النبی العصمۃ لیحصل الوثوق فیحصل الفرض

عصمت حضرت آدمؑ کے بارے میں مندرجہ ذیل شبہات ہوسکتے ہیں:

حضرت آدمؑ معصوم تھے تو نہی الٰہی (لا تقربا ھذہ الشجرۃ)کی مخالفت کیوں کی؟

اس سوال کے جواب سے پہلے مقدمہ کے طور پر یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اوامر و نواہی کی دو قسمیں ہیں:

الف: امر و نہی مولوی

اس سے مراد یہ ہے کہ مولٰی اپنی مولویت اور مالکیت کے اعتبار سے اپنے بندے کو کوئی امر یا نہی کرے تو عقل کہتی ہے کہ بندے پر واجب ہے اپنے مولٰی کی اطاعت کرے اگر اطاعت نہیں کرے گا تو گناہ گار قرار پائےگا۔

ب:امر ونہی ارشادی

اس سے مراد یہ ہے کہ مولٰی اپنی مولویت اور مالکیت اور اقتدار  کو مدنظر رکھتے ہوئے حکم نہیں کرتا بلکہ ایک ناصح اور خیرخواہ کے روپ میں ایک چیز کے منافع و نقصانات کے بارے میں بتاتا ہے مثلا جس طرح مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو ڈاکٹر اسے کہتا ہے فلاں چیز نہ کھانا ورنہ فلاں نقصان ہوجائے گا۔جیساکہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں کہ ڈاکٹر ایک ناصح اور خیرخواہ کے روپ میں مریض کو نقصان سے آگاہ کررہا ہے۔

امرونہی مولوی اور ارشادی کی خصوصیات:

امر ونہی ارشادی میں مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ کو آگاہ کیا جائے فلاں چیز میں فلاں فائدہ یا فلاں نقصان ہے لہذا بذات خود امرونہی ارشادی کی کوئی حیثیت نہیںجبکہ امرونہی مولوی میں بذات خود اسکی اہمیت ہوتی ہے۔یا یوں کہیں کہ امرونہی ارشادی کی اپنے اعتبار سے اطاعت ونافرمانی نہیں ہوتی بلکہ مقصود فائدے یا نقصان کی جانب متوجہ کرنا ہوتا ہے۔جبکہ امرونہی مولوی میں اپنے اعتبار سے اطاعت ونافرمانی ہوتی ہے مثال جیسے قرآن میں آیا ہے”اطیعوااللہ” یہ امر ارشادی ہے یعنی وہ اوامر جو خدا کی جانب سے ہیں انکو انجام دو جیسے نماز روزہ حج وغیرہ۔

ذرا غور کیجئے!

یہاں “اطیعوااللہ”کی نسبت کوئی خاص امر نہیں ہے بلکہ “اطیعوااللہ”ارشاد اور رہنمائی ہے ان اوامر کی جانب جو خدا کی جانب سے ہیں پس اگر کوئی نماز نہیں پڑھتا تو اس نے دو مخالفتیں نہیں کیں۔ایک “اطیعوااللہ” کی اور دوسری “اقیمواالصلوۃ”کی ۔یہاں ایک ہی مخالفت ہے اور ایک ہی عقاب ہوگا۔

خلاصہ ٔ کلام:

                                                امرونہی ارشادی کی بذات خود اطاعت مقصود نہیں ہوتی ہے لہذا امرونہی ارشادی کی مخالفت معصیت اور گناہ نہیں ہے بخلاف امر ونہی مولوی  کے۔

امر و نہی ارشادی میں آمر کا لہجہ ناصحانہ اور خیر خواہانہ ہوتا ہے اور اگر کوئی امرونہی کی مخالفت کرے تو لامحالہ وہ نقصان ہوگا۔پھر اس جگہ وہ آمر یہ لب ولہجہ اختیار کرتا ہے: “میں نے نہیں کہا تھا یوں نہ کرنا ورنہ فلاں نقصان ہوجائے گا”برخلاف امرونہی مولوی کے۔

امرونہی ارشادی میں طبیعی اور خارجی اثرات ہوتے ہیں لہذا مخالفت کی صورت میں وہ برے اثرات تو بہرحال ظاہر ہوتے ہیں مثلاً ماں اپنے بیٹے کو کہتی ہے دیکھو بیٹا ! آگ کے قریب مت جانا ورنہ ہاتھ جل جائے گا ،اب اگر بیٹا مخالفت کرے گا تو یقینا اسکا ہاتھ جل جائے گا برخلاف امر ونہی مولوی کے۔

امر ونہی ارشادی جو طبیعی اور خارجی اثرات ہوتے ہیں وہ ختم نہیں ہوسکتے جیسے مذکورہ بالا مثال میں بچہ اگر آگ کی جانب اپنا ہاتھ بڑھائے گا تو یقینا جل کر رہے گا۔

گزشتہ سے پیوستہ:

                                                مذکورہ مطالب روشن ہوگئے تو اب حضرت آدم ؑ کے متعلقہ نہی کی طرف آتے ہیں   آیا وہ نہی ارشادی تھی (اگر ارشادی تھی تو اسکی مخالفت کبھی بھی مولٰی کی مخالفت نہیں کہلائے گی)یا نہی مولوی تھی؟

حضرت آدمؑ کے بارے میں جو آیات سورہ بقرہ ،اعراف اور طہ میں ذکر ہوئی ہیں۔اگر ان سب پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نہی ارشادی تھی۔

نہی ارشادی کے شواہد:

خدا حضرت آدمؑ سے فرماتا ہے دیکھو اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ مشقت میں پڑ جاؤ گے!

سورہ طہ میں فرمایا: فَقُلۡنَا یٰۤـاٰدَمُ اِنَّ ہٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَ لِزَوۡجِکَ فَلَا یُخۡرِجَنَّکُمَا مِنَ الۡجَنَّۃِ فَتَشۡقٰی،اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوۡعَ فِیۡہَا وَ لَا تَعۡرٰی،وَ اَنَّکَ لَا تَظۡمَؤُا فِیۡہَا وَ لَا تَضۡحٰی[2]

یہاں” فتشقیٰ” میں فاء نتیجہ والا ہے جو بیان کررہا ہے اگر مخالفت کرو گے تو مشقت میں پڑ جاؤ گے پھر بعد والی آیت میں خود ہی بیان کیا وہ مشقت کونسی ہے؟

اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوۡعَ فِیۡہَا وَ لَا تَعۡرٰی ،وَ اَنَّکَ لَا تَظۡمَؤُا فِیۡہَا وَ لَا تَضۡحٰی”جنت میں نہ بھوک ہے نہ پیاس  اورنہ عریانی ہے نہ گرمی وغیرہ۔اگر اس جنت سے نکل گئے تو بھوک پیاس ،عریانی اور گرمی وغیرہ کی مصیبتیں جھیلنا پڑیں گی۔

آپ نےغور فرمایا:یہاں آمر کا لب ولہجہ ناصحانہ اور خیرخواہانہ ہے اور نیز یہاں طبیعی و خارجی عواقب کی بات کی جارہی ہے جو کہ نہی ارشادی کی خاصیتیں ہیں۔

اس مقام پر خدا وند کریم اپنی مولویت اور مالکیت کااظہار نہیں فرما رہا بلکہ خیرخواہ اور نصیحت کرنے والے کی طرح فرما رہا ہے:

فَقُلۡنَا یٰۤـاٰدَمُ اِنَّ ہٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَ لِزَوۡجِکَ فَلَا یُخۡرِجَنَّکُمَا مِنَ الۡجَنَّۃِ فَتَشۡقٰی [3]

ترجمہ: پھر ہم نے کہا :اے آدم! یہ آپ اور آپ کی زوجہ کا دشمن ہے، کہیں یہ آپ دونوں کو جنت سے نکال نہ دے پھر آپ مشقت میں پڑ جائیں گے۔

جب آدم و حوا مخالفت کرچکے تو بلا فاصلہ جنتی لباس سے محروم ہوگئے پھر ندامت سے پتوں کے ذریعہ اپنی شرمگاہ چھپانے لگے۔

فَاَکَلَا مِنۡہَا فَبَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ۫ وَ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی۔[4]

تو ایسے عالم میں اچانک دونوں سنتے ہیں:

وَ نَادٰىہُمَا رَبُّہُمَاۤ اَلَمۡ اَنۡہَکُمَا عَنۡ تِلۡکُمَا الشَّجَرَۃِ وَ اَقُلۡ لَّکُمَاۤ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ۔[5]

ترجمہ: اور ان کے رب نے انہیں پکارا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور تمہیں بتایا نہ تھا کہ شیطان یقینا تمہارا کھلا دشمن ہے؟

اگر نهی مولوی کی مخالفت کی جائے تو توبہ کے ذریعے اسکے تبعات اور لوازم ختم ہوجاتے ہیں جبکہ یہاں دیکھتے ہیں آدم وحوا کی توبہ کے بعد بھی اس مخالفت کے تبعات اور آثار ختم نہیں ہوتے جیسےبہشت سے نکالا جانا۔یعنی جب آدم نے توبہ کرلی تو پھر انکو دوبارہ جنت میں واپس نہیں لایا گیا۔اگر یہ نہی مولوی کی مخالفت کی وجہ سے ہوتا تو توبہ کے بعد انکو دوبارہ جنت میں آنا چاہیئے تھا کیونکہ توبہ کے ذریعے مولوی مخالفت کے آثار تو ختم ہوجاتے ہیں۔

آدم کے عصیان کو “غوایت ” سے تعبیر کیا گیا ہے : وَ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی [6]

غوایت کا مطلب “راہ گم کرنا” جبکہ اگر نہی مولوی ہوتی تو یہاں غوایت کے بجائے غضب کو ذکر کیا جاتا یعنی ایسے ہوتا ” وَ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَضب علیہ” کیونکہ جو نافرمانی کرتا ہے اس پر غضب کیا جاتا ہے۔دوسرے الفاظ میں آیت کا لحن و اسلوب یہ ہوتا “آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس وہ مغضوب بنا”جبکہ یہاں اس طرح آیا ہے “آدم نے عصیان کیا پس وہ راہ گم کرچکا تھا”یہ اسلوب نہی ارشادی سے سازگار ہے گویا کہا جارہا ہے اسے خبردار کیا گیا تھا اسے بتایا گیا تھا اسے راہ دکھائی گئی تھی لیکن وہ راہ گم کر بیٹھا۔

یہاں سے پتہ چلا “فأزلّھما الشیطان” شیطان کے پھسلانے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ گناہگار ہوئے بلکہ خدا کی نصیحت کو چھوڑ دیا اور مشقت میں پڑ گئے چنانچہ آسانی کا راستہ چھوڑ کر مصیبت اور مشقت میں پڑنا بھی ایک طرح کا پھسلنا ہے۔

اور نیز یہ بھی آشکار ہوا “فغویٰ”غوایت سے مراد بھی گناہ نہیں ہے بلکہ سہولت اور آرام دہ راستے کا گم کرنا ہے۔

اور نیز “فتکونا من الظالمین”سے مراد بھی یہ نہیں ہے کہ گناہ کار اور ظالم بن گئے۔بلکہ مقصد یہ ہے کہ اپنے لیے مصیبت کا اضافہ کرلیا کیونکہ جنت میں تو ہر چیز بغیر مشقت کے دستیاب تھی لیکن اب سب خود کرنا پڑے گا لہذا ایک طرح سے خود پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔

اور نیز یہ بھی معلوم ہوگیا “فعصیٰ آدم ربّہ “میں عصیان سے مراد نافرمانی اور امر مولوی کی مخالفت نہیں ہے بلکہ ایک ناصح کی بات پر عمل پیرا   نہ ہونا مقصود ہے۔

________________________________________

[1] ۔ارشاد الطالبین الی نھج المسترشدین ص ۳۰۲

[2] سورہ طہ آیت ۱۱۷۔۱۱۹

[3] ایضا ۱۱۷

[4] ایضا ۱۲۱

[5] ۔سورہ اعراف ۲۲

[6] ۔سورہ طہ ۱۲۱