آیت بیعت رضوان اور عدالت صحابہ

آیت بیعت رضوان اور عدالت صحابہ

آیت بیعت رضوان و عدالت صحابہ – ثقلین فاؤنڈیشن
وسیم رضا سبحانی
بعض برادران اہل سنت  آیت بیعت رضوان سے تمام صحابہ کی عدالت کو ثابت کرتے ہیں، انکا ماننا ہے کہ اس آیہ کریمہ سے ثابت ہوتا ہے پروردگار عالم اصحاب سے راضی ہے لہذا ہمیں حق نہیں ہے کہ کسی بھی صحابی پر تنقید کریں۔
ملاحظہ فرمائیں:
 
لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا
 
ترجمہ: بتحقیق اللہ ان مومنین سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، پس جو ان کے دلوں میں تھا وہ اللہ کو معلوم ہو گیا، لہٰذا اللہ نے ان پر سکون نازل کیا اور انہیں قریبی فتح عنایت فرمائی۔

اس آیت کریمہ میں واضح طریقے سے بیان ہوا ہے کہ خداوند تعالٰی  صحابہ سے راضی ہوا کیونکہ صحابہ کرامؓ نے حساس موقعہ پر رسول اللہؐ  کے دست مبارک پر بیعت فرمائی۔

ابن حجر عسقلانی رقم طراز ہیں:

“الفصل الثالث فی بیان حال الصحابہ من العدالة :
اتفق اهل السنة علی ان الجمیع عدول ولم یخالف فی ذالک الا شذوذ من المبتدعة… وقوله : لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ ۔۔۔ “[i]

لیکن مذکورہ استدلال متعدد جہات سے مخدوش ہے:

اولاً:اس آیہ کریمہ سے تمام صحابہ کی عدالت کو ثابت کرنا درست نہیں ہے کیونکہ تمام صحابہ کی تعداد تقریبا (120000) تک پہنچتی ہے جبکہ بیعت رضوان میں فقط 1400 افراد موجود تھے،یہ بیعت صلح  حدیبیہ کے موقعہ پر لی گئی ہے اور مذکورہ آیت میں اس کی جانب اشارہ ہے۔

صحیح بخاری کتاب التفسیر  باب : اذ یبایعونک تحت الشجرۃ ح ۴۵۶۰  میں آیا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر 1400  افراد تھے یا کچھ زیادہ۔

آپ خود انصاف کریں:

اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ آیت عدالت صحابہ کو بیان کررہی ہے تو بھی 1400 افراد کی بات ہے آپ اس سے 120000 افراد کی عدالت کیسے ثابت کررہے ہیں؟!!

ثانیاً:آیت کریمہ کہتی ہے:” لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ”
اللہ فقط ان سے راضی ہوا جو مؤمن تھے یعنی جو لوگ واقعاً قلبی ایمان رکھتے تھے ،دقت فرمائیں : آیہ کریمہ میں “عن المؤمنین”بہت زیادہ اہم ہے۔

اتفاق سے اسی بیعت رضوان  میں رئیس المنافقین  عبداللہ بن اُبی  بھی موجود تھا یا حضرت عمار یاسرؓ  کا قاتل ابوالغادیہ بھی موجود تھا،جبکہ نص پیغمبر اکرمؐ  موجود ہے
“یا عمار تقتلک الفئۃ الباغیۃ من امتی”
اے  عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔حتی کہ عبدالرحمان بن عدیس جو حضرت عثمان کے قاتلین میں سے تھا وہ بھی  بیعت رضوان میں بیعت کرنے والوں میں سے تھا۔اس صورت میں کیا ایسے لوگ بھی “رضی اللہ عنھم”ہونگے؟!! پس یہاں  سےمعلوم ہوا کہ بیعت رضوان میں موجود تمام افراد سے خدا  راضی نہیں ہے بلکہ فقط مؤمن افراد سے راضی ہے جن لوگوں نے دل سے ایمان قبول کیا ہوا تھا۔

ثالثاً:ملاحظہ فرمائیے:

اس درخت کے نیچے جو بیعت لی گئی تھی اس کا مقصد کیا تھا؟یا دوسرے الفاط میں کہا جائے وہ کس بات پر بیعت لی گئی تھی؟ مسلم نیشاپوری اپنی صحیح مسلم میں بیان کرتے ہیں کہ وہ بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ “ہم جنگ سے فرار نہیں کریں گے””بایعناہ علی ان لا نفرّ”[ii]

بنابریں بیعت رضوان اس بات پر تھی کہ آئندہ پیغمبر اکرمؐ کو چھوڑ کر فرار نہیں کریں گے جبکہ تاریخ گواہ ہے جنگ خیبر میں انہی صحابہ میں سے کئی بھاگ  گئے تھے بلکہ تاریخ سے بالاتر قرآن مجید گواہ ہے جنگ حنین (جو اس بیعت کے بعد ہوئی)میں بھی فرار اختیار کیا۔

” وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ ضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ ﴿۲۵﴾”[iii]

ترجمہ: اور حنین کے دن بھی، جب تمہاری کثرت نے تمہیں غرور میں مبتلا کر دیا تھا مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

” یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡہُمُ الۡاَدۡبَارَ ﴿۱۵﴾ وَ مَنۡ یُّوَلِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ دُبُرَہٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿ ۱۶﴾”[iv]

ترجمہ: اے ایمان والو! جب میدان جنگ میں کافروں سے تمہارا سامنا ہو جائے تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔اور جس نے اس روز اپنی پیٹھ پھیری مگر یہ کہ جنگی چال کے طور پر ہو یا کسی فوجی دستے سے جا ملنے کے لیے تو (کوئی حرج نہیں ورنہ) وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے جو جنگ سے راہ فرار اختیا رکرے وہ مغضوب علیھم ہے ان سے خدا ناراض ہے۔

خلاصۂ کلام:

بیعت رضوان میں اللہ مؤمنین سے  اس شرط پرراضی ہوا   کہ اپنی بیعت کے پابند رہیں ،اگر بیعت کے پابند نہیں رہے تو رضایت بھی ختم ہوجائے گی۔یہ مسلّمہ اصول ہے “اذا فات الشرط فات المشروط”۔

خامساً:آیہ کریمہ پر اگر غور کریں تو اس میں ایک لفظ آیا ہے”اذ””اذ یبایعونک” علم نحو میں ثابت شدہ بات ہے کہ “اذ” ظرف زمان ماضی ہے ۔

(ملاحظہ فرمائیں: مغنی ابن ھشام ،الاتقان سیوطی،البصر المحیط ابوحیان اندلسی وغیرہ)

اس اعتبار سے آیہ کریمہ کا مطلب ہوگا:

“اللہ مؤمنین سے خوش ہوا جب(جس زمانے میں)درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے”

مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی “رضا”انکے اس عمل سے وابستہ ہے جو درخت کے نیچے انجام دیا  گیایعنی بیعت۔

ذرا تأمل فرمائیں:

اس آیت میں جو “رضا” بیان ہوئی ہے وہ فقط اس زمانے اور اس عمل کے ساتھ  مربوط ہے لیکن اس بات کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اگر انکے  اس عمل سے راضی ہوا تو بقایا اعمال سے بھی راضی ہوگیا؟!! ہرگز نہیں،اتفاق سے ابن تیمیہ  جیسا بندہ بھی اس نکتہ کو تسلیم کرتا ہے۔

“فان حرف “”اذ” ظرف لما مضی من الزمان فعُلم انه ذاک الوقت رضی عنہم بسبب ذالک العمل”[v]

سادساً:بذات خود صحابہ اعتراف کرتے ہیں کہ ا س بیعت رضوان کے بعد انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ۔اس بات کے ثبوت کیلئے فقط بخاری کی یہ روایت ملاحظہ فرمائیں:

“علاء بن مسیب اپنے والد سے نقل کرتے ہیں میری براء بن عازب سے ملاقات ہوئی اور میں نے کہا کہ آپ کتنے خوش نصیب ہیں کہ پیغمبر اکرم ؐ کا زمانہ درک کیا اور آپؐ کی بیعت اس درخت(بیعت رضوان) کے نیچے کی تھی۔براء بن عازب نے پلٹ کر کہا :یابن اخی انک لا تدری ما احدثنا بعدہ! اے میرے بھتیجے تمہیں نہیں معلوم آپؐ کے بعد ہم نے کیا کچھ نہیں کیا۔”[vi]

مخفی نہ رہے کہ براء بن عازب بزرگ صحابہ میں سے تھے اور اصحاب بیعت رضوان میں سے تھے۔

اور اسی طرح کا جملہ ابن حجر عسقلانی  ابو سعید خُدری سے بھی نقل کرتے ہیں۔[vii]

نتیجہ: مذکورہ باتوں سے ثابت ہوا اس آیہ کریمہ سے “عدالت صحابہ”ثابت کرنا مخدوش ہے۔
۔۔۔۔
[i] ۔الاصابہ،ج ۱ ص ۱۰

[ii] ۔ باب استحباب مبایعۃ الامام الجیش عند ارادۃ القتال و بیان بیعۃ الرضوان تحت الشجرۃ۔حدیث  1856

[iii] ۔سورہ توبہ آیت 25

[iv] ۔سورہ انفال آیت 15،16

[v] ۔ کتب و رسائل و فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ج 7 ص 444

[vi] ۔صحیح بخاری کتاب المغازی،باب غزوۃ الحدیبیۃ

[vii] ۔الاصابہ ج 3 ص 79